۱ ۔۔۔ یعنی زبان حال سے یا قال یا دونوں سے۔
۲ ۔۔۔ یعنی آسمان و زمین میں سب جگہ اسی کا حکم اور اختیار چلتا ہے ایجاد و اعدام کی باگ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی طاقت اس کے تصرفِ تکوینی کو روک نہیں سکتی۔
۳ ۔۔۔ ۱: جب کوئی نہ تھا، وہ موجود تھا، اور کوئی نہ رہے وہ موجود رہے گا،
۲: ہر چیز کا وجود ظہور اس کے وجود سے ہے۔ لہٰذا اس کا وجود اگر ظاہر و باہر نہ ہو تو اور کس کا ہو گا۔ عرش سے فرش تک اور ذرہ سے آفتاب تک ہر چیز کی ہستی اس کی ہستی کی روشن دلیل ہے لیکن اسی کے ساتھ اس کی کنہ ذات اور حقائق صفات تک عقل و ادراک کی رسائی نہیں ۔ کسی ایک صفت کا احاطہ بھی کوئی نہیں کر سکتا نہ اپنے قیاس و رائے سے اس کی کچھ کیفیت بیان کر سکتا ہے۔ بایں لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے زیادہ باطن اور پوشیدہ کوئی نہیں ۔ بہرحال وہ اندر بھی باہر بھی، ظاہر بھی باطن بھی، کھلے اور چھپے ہر قسم کے احوال کا جاننے والا ہے۔ ظاہر (بمعنی غالب) ایسا کہ اس سے اوپر کوئی قوت نہیں ۔ باطن ایسا کہ اس سے پرے کوئی موقع نہیں جہاں اس کی آنکھ سے اوجھل ہو کر پناہ مل سکے۔ فَفِی الْحَدِیْثُ وَاَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْتَکَ شَئْیٌ وَّاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیٌْ۔
۴ ۔۔۔ ۱: اس کا بیان سورہ اعراف میں آٹھویں پارے کے ختم سے کچھ پہلے گزر چکا ہے۔
۲: مثلاً بارش پانی اور بیج زمین کے اندر جاتا ہے۔ اور کھیتی درخت وغیرہ اس سے باہر نکلتے ہیں ۔ اس کا بیان سورہ "سبا" میں گزر چکا۔ آسمان کی طرف سے اترتے ہیں فرشتے، احکام، قضاء و قدر کے فیصلے، اور بارش وغیرہ اور چڑھتے ہیں بندوں کے اعمال اور ملائکۃ اﷲ۔
۳: یعنی کسی وقت تم سے غائب نہیں ۔ بلکہ جہاں کہیں تم ہو اور جس حال میں ہو وہ خوب جانتا ہے اور تمام کھلے چھپے اعمال کو دیکھتا ہے۔
۵ ۔۔۔ یعنی ا سکی قلمرو سے نکل کر کہیں نہیں جا سکتے۔ تمام آسمان و زمین میں اسی اکیلے کی حکومت ہے اور آخرکار سب کاموں کا فیصلہ وہیں سے ہو گا۔
۶ ۔۔۔ ۱: یعنی کبھی دن کو گھٹا کر رات بڑی کر دیتا ہے اور کبھی اس کے برعکس رات کو گھٹا کر دن بڑا کر دیتا ہے۔
۲: یعنی دلوں میں جو نیتیں اور ارادے پیدا ہوں یا خطرات و وساوس آئیں ، وہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں ۔
۷ ۔۔۔ یعنی جو مال تمہارے ہاتھ میں ہے اس کا مالک اللہ ہے تم صرف امین اور خزانچی ہو۔ لہٰذا جہاں وہ مالک بتلائے وہاں اس کے نائب کی حیثیت سے خرچ کرو۔ اور یہ بھی ملحوظ رکھو کہ پہلے یہ مال دوسروں کے ہاتھ میں تھا ان کے جانشین تم بنے۔ ظاہر ہے تمہارا جانشین کوئی نہ کوئی اور بنایا جائے گا۔ پھر جب معلوم ہے کہ یہ چیز نہ پہلوں کے پاس رہی نہ تمہارے پاس رہے گی، تو ایسی زائل و فانی چیز سے اتنا دل لگانا مناسب نہیں کہ ضروری اور مناسب مواقع میں بھی آدمی خرچ کرنے سے کترائے۔
۸ ۔۔۔ یعنی اللہ پر ایمان لانے یا یقین و معرفت کے راستوں پر چلنے والے سے کیا چیز مانع ہو سکتی ہے۔ اور اس معاملہ میں سستی یا تقاعد کیوں ہو جبکہ خدا کا رسول تم کو کسی اجنبی اور غیر معقول چیز کی طرف نہیں بلکہ تمہارے حقیقی پرورش کرنے والے کی طرف دعوت دے رہا ہے جس کا اعتقاد تمہاری اصل فطرت میں ودیعت کر دیا گیا اور جس کی ربوبیت کا اقرار تم دنیا میں آنے سے پہلے کر چکے ہو۔ چنانچہ آج تک اس اقرار کا کچھ نہ کچھ اثر بھی قلوب بنی آدم میں پایا جاتا ہے۔ پھر دلائل و براہین اور ارسالِ رسل کے ذریعہ سے اس ازلی عہد و پیمان کی یاد دہانی اور تجدید بھی کی گئی۔ اور انبیائے سابقین نے اپنی امتوں سے یہ عہد بھی لیا کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کا اتباع کریں گے۔ اور تم میں بہت سے وہ بھی ہیں جو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک پر سمع و اطاعت اور انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ امور ایمانیہ پر کاربند رہنے کا پکا عہد کر چکے ہیں ۔ پس ان مبادی کے بعد کہاں گنجائش ہے کہ جو ماننے کا ارادہ رکھتا ہو وہ نہ مانے اور جو مان چکا ہو وہ اس سے انحراف کرنے لگے۔
۹ ۔۔۔ یعنی قرآن اتارا اور صداقت کے نشان دیے تاکہ ان کے ذریعہ سے تم کو کفر و جہل کے اندھیروں سے نکال کر ایمان و علم کے اجالے میں لے آئے۔ یہ اللہ کی بہت ہی بڑی شفقت اور مہربانی ہے، اگر سختی کرتا تو ان ہی اندھیروں میں پڑا چھوڑ کر تم کو ہلاک کر دیتا۔ یا ایمان لانے کے بعد بھی پچھلی خطاؤں کو معاف نہ کرنا۔
۱۰ ۔۔۔ ۱: یعنی مالک فنا ہو جاتا ہے اور مِلک اللہ کا بچ رہتا ہے اور ویسے تو ہمیشہ اسی کا مال تھا۔ پھر اس کے مال میں سے اس کے حکم کے موافق خرچ کرنا بھاری کیوں معلوم ہو، خوشی اور اختیار سے نہ دو گے تو بے اختیار اسی کے پاس پہنچے گا۔ بندگی کا اقتضاء یہ ہے کہ خوش دلی سے پیش کرے اور اس کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے فقر افلاس سے نہ ڈرے، کیونکہ زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک اللہ ہے۔ کیا اس کے راستہ میں خوشدلی سے خرچ کرنے والا بھوکا رہے گا؟ "وَلاَ تَخْشَ مِنْ ذِی الْعَرْشِ اِقْلاَلَاً"
۲: اور بعض نے فتح سے مراد صلح حدیبیہ لی ہے۔ اور بعض روایات سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔
۳: یعنی یوں تو اللہ کے راستہ میں کسی وقت بھی خرچ کیا جائے اور جہاد کیا جائے وہ اچھا ہے خدا اس کا بہترین بدلہ دنیا یا آخرت میں دے گا، لیکن جن مقدر والوں نے "فتح مکہ" یا "حدیبیہ" سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا، وہ بڑے درجے لے اڑے، بعد والے مسلمان ان کو نہیں پہنچ سکتے کیونکہ وہ وقت تھا کہ حق کے ماننے والے اور اس پر لڑنے والے اقل قلیل تھے۔ اور دنیا کافروں اور باطل پرستوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس وقت اسلام کو جانی اور مالی قربانیوں کی ضرورت زیادہ تھی اور مجاہدین کو بظاہر اسباب اموال و غنائم وغیرہ کی توقعات بہت کم۔ ایسے حالات میں ایمان لانا اور خدا کے راستہ میں جان و مال لٹا دینا بڑے اولوالعزم اور پہاڑ سے زیادہ ثابت قدم انسانوں کا کام ہے۔ رضی اللہ عنہم ورضواعنہ ورزقنا اللہ اتباعہم وجہم۔ آمین۔
۴: یعنی اللہ کو سب خبر ہے کہ کس کا عمل کس درجہ کا ہے اور اس میں اخلاص کا وزن کتنا ہے۔ اپنے اسی علم کے موافق ہر ایک سے معاملہ کرے گا۔
۱۱ ۔۔۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "قرض کے معنی یہ کہ اس وقت جہاد میں خرچ کرو۔ پھر تم ہی دولتیں برتو گے (اور آخرت میں بڑے مرتبے پاؤ گے) یہ ہی معنی ہیں دونے کے۔ ورنہ مالک میں اور غلام میں سود بیاج نہیں ۔ جو دیا سو اس کا جو نہ دیا سو اس کا۔"
۱۲ ۔۔۔ ۱: میدانِ حشر میں جس وقت پل صراط پر جائیں گے سخت اندھیرا ہو گا تب اپنے ایمان اور عمل صالح کی روشنی ساتھ ہو گی۔ شاید ایمان کی روشنی میں جس کا محل قلب ہے آگے ہو اور عمل صالح کی داہنے کیونکہ نیک عمل داہنی طرف جمع ہوتے ہیں ۔ جس درجہ کا کسی کا ایمان و عمل ہو گا اسی درجہ کی روشنی ملے گی۔ اور غالباً اس امت کی روشنی اپنے نبی کے طفیل دوسری امتوں کی روشنی سے زیادہ صاف اور تیز ہو گی۔ بعض روایات سے بائیں جانب بھی روشنی کا ہونا معلوم ہوا ہے۔ اس کا مطلب شاید یہ ہو گا کہ روشنی کا اثر ہر طرف پہنچے گا۔ واللہ اعلم۔
۲: کیونکہ جنت اللہ کی خوشنودی کا مقام ہے۔ جو وہاں پہنچ گیا سب مرادیں مل گئیں۔
۱۳ ۔۔۔ یعنی مومنین اور منافقین کے بیچ میں دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں دروازہ ہو گا۔ اس دروازے سے مومن جنت کی طرف جا کر منافقوں کی نظر سے اوجھل ہو جائیں گے۔ دروازہ کے اندر پہنچ کر جنت کا سماں ہو گا اور ادھر دروازہ سے باہر عذاب الٰہی کا منظر دکھائی دے گا
۱ ۴ ۔۔۔ ۱: قصہ یہ ہے کہ کھلے ہوئے کافر پل صراط پر نہیں چلیں گے پہلے ہی دوزخ میں اس کے دروازوں سے دھکیل دیے جائیں گے ہاں جو کسی نبی کی امت میں ہیں سچے یا کچے انہیں پل صراط سے گزرنے کا حکم ہو گا۔ اس پر چڑھنے سے پہلے ایک سخت اندھیری لوگوں کو گھیر لے گی۔ اس وقت ایمان والوں کے ساتھ روشنی ہو گی۔ منافق بھی ان کی روشنی میں پیچھے پیچھے چلنا چاہیں گے لیکن مومن جلد آگے بڑھ جائیں گے اس لیے ان کی روشنی منافقین سے دور ہوتی جائے گی تب وہ پکاریں گے کہ میاں ذرا ٹھہرو، ہم کو اندھیرے میں پیچھے چھوڑ کر مت جاؤ۔ تھوڑا انتظار کرو کہ ہم بھی تم سے مل جائیں اور تمہاری روشنی سے استفادہ کریں ۔ آخر ہم دنیا میں تمہارے ساتھ ہی رہتے تھے اور ہمارا شمار بھی بظاہر مسلمانوں میں ہوتا تھا اب اس مصیبت کے وقت ہم کو اندھیرے میں پڑا چھوڑ کر کہاں جاتے ہو کیا رفاقت کا حق یہ ہی ہے۔ جواب ملے گا کہ پیچھے لوٹ کر روشنی تلاش کرو اگر مل سکے تو وہاں سے لے آؤ۔ یہ سن کر پیچھے ہٹیں گے اتنے میں دیوار دونوں فریق کے درمیان حائل ہو جائے گی۔ یعنی روشنی دنیا میں کمائی جاتی ہے وہ جگہ پیچھے چھوڑ آئے، یا پیچھے سے وہ جگہ مراد ہو جہاں پل صراط پر چڑھنے سے پہلے نور تقسیم کیا گیا تھا۔
۲: یعنی بیشک دنیا میں بظاہر تم ہمارے ساتھ تھے اور زبان سے دعویٰ اسلام کا کرتے تھے۔ لیکن اندرونی حال یہ تھا کہ لذات و شہوات میں پڑ کر تم نے نفاق کا راستہ اختیار کیا اور اپنے نفس کو دھوکا دے کر ہلاکت میں ڈالا۔ پھر توبہ نہ کی بلکہ راہ دیکھتے رہے کہ کب اسلام اور مسلمانوں پر کوئی افتاد پڑتی ہے اور دین کے متعلق شکوک و شبہات کی دلدل میں پھنسے رہے۔ یہ ہی دھوکا رہا کہ آگے ان منافقانہ چالوں کا کچھ خمیازہ بھگتنا نہیں ۔ بلکہ یہ خیالات اور امیدیں پکا لیں کہ چند روز میں اسلام اور مسلمانوں کا یہ سب قصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ آخر ہم ہی غالب ہوں گے۔ رہا آخرت کا قصہ سو وہاں بھی کسی نہ کسی طرح چھوٹ ہی جائیں گے۔ ان ہی خیالات میں مست تھے کہ اللہ کا حکم آ پہنچا اور موت نے آ دبایا اور اس بڑے دغا باز (شیطان) نے تم کو بہکا کر ایسا کھو دیا کہ اب سبیل رستگاری کی نہیں رہی۔
۱۵ ۔۔۔ یعنی بالفرض اگر آج تم (منافق) اور جو کھلے بندوں کافر تھے کچھ معاوضہ وغیرہ دے کر سزا سے بچنا چاہو تو اس کے منظور کیے جانے کی کوئی صورت نہیں ۔ بس تم سب کو اب اسی گھر میں رہنا ہے۔ یہ ہی دوزخ کی آگ تمہارا ٹھکانا ہے اور یہ ہی رفیق ہے۔ کسی دوسرے سے رفاقت کی توقع مت رکھو۔
۱۶ ۔۔۔ ۱: یعنی وقت آگیا ہے کہ مومنین کے دل قرآن اور اللہ کی یاد اور اس کے سچے دین کے سامنے جھک جائیں ۔ اور نرم ہو کر گڑگڑانے لگیں ۔
۲: یعنی ایمان وہ ہی ہے کہ دل نرم ہو۔ نصیحت اور خدا کی یاد کا اثر جلد قبول کرے۔ شروع میں اہل کتاب یہ باتیں پیغمبروں کی صحبت میں پاتے تھے۔ مدت کے بعد غفلت چھاتی گئی۔ دل سخت ہو گئے وہ بات نہ رہی، اکثروں نے سخت سرکشی اور نافرمانیاں شروع کر دیں ۔ اب مسلمانوں کی باری آئی ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کی صحبت میں رہ کر نرم دلی، انقیاد کامل اور خشوع لذکر اللہ کی صفات سے متصف ہوں اور اس مقام بلند پر پہنچیں جہاں کوئی امت نہ پہنچی تھی۔
۱۷ ۔۔۔ یعنی عرب لوگ جاہل اور گمراہ تھے جیسے مردہ زمین۔ اب اللہ نے ان کو ایمان اور علم کی روح سے زندہ کیا۔ اور ان میں سب کمال پیدا کر دیے۔ غرض کسی مردہ سے مردہ انسان کو مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ۔ سچی توبہ کر لے تو اللہ پھر اس کے قالب میں روح حیات پھونک دے گا۔
۱۸ ۔۔۔ یعنی جو اللہ کے راستہ میں خالص نیت سے اس کی خوشنودی کی خاطر خرچ کریں اور غیر اللہ سے کسی بدلہ یا شکریہ کے طلبگار نہ ہوں گویا وہ اللہ کو قرض دیتے ہیں ۔ سو اطمینان رکھیں کہ ان کا دیا ہوا ضائع نہ ہو گا۔ بلکہ کئی گناہ کر کے لوٹایا جائے گا۔
۱۹ ۔۔۔ ۱: مترجم محقق رحمۃ اللہ نے بظاہر "اَلشُّہَدَاء" کا عطف "اَلصِّدِیْقُونَ" پر مانا ہے یعنی جو لوگ اللہ پر اور اس کے سب رسولوں پر پوری طرح یقین لائے (اور اس یقین کا اثر ان کے اعمال و احوال میں ظاہر ہونا چاہیے) تو سچے اور پکے ایماندار یہ ہی ہیں ۔ اور اللہ کے ہاں یہ ہی حضرات بطور گواہ کے دوسرے لوگوں کا حال بتلائیں گے۔ کما قال "وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُونُوا شُہَدَآءُ عَلَی الن آسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا۔" (بقرۃ، رکوع۱۷'آیت ۱۴۳) آخرت میں ان سچے ایمان داروں کو اپنے اپنے عمل اور درجہ ایمان کے موافق ثواب اور روشنی عطا ہو گی (آیت کی تفسیر اور بھی کئی طرح کی گئی ہے مگر رعایت اختصار ان کے نقل کی اجازت نہیں دیتی۔)
۲: یعنی دوزخ اصل میں ان ہی کے لیے بنی ہے۔
۲۰ ۔۔۔ آدمی کو اول عمر میں کھیل چاہیے، پھر تماشا، پھر بناؤ سنگار (اور فیشن) پھر ساکھ بڑھانا، اور نام و نمود حاصل کرنا، پھر موت کے دن قریب آئیں تو مال و اولاد کی فکر کہ پیچھے میرا گھر بار بنا رہے اور اولاد آسودگی سے بسر کرے۔ مگر یہ سب ٹھاٹھ سامان فانی اور زاور زائل ہیں ۔ جیسے کھیتی کی رونق و بہار چند روزہ ہوتی ہے اور پھر زرد پڑ جاتی ہے اور آدمی اور جانور اس کو روند کر چورا کر دیتے ہیں ۔ اس شادابی اور خوبصورتی کا نام و نشان نہیں رہتا۔ یہ ہی حال دنیا کی زندگانی اور اس کے سازو سامان کا سمجھو کہ وہ فی الحقیقت ایک دغا کی پونجی اور دھوکے کی ٹٹی ہے۔ آدمی اس کی عارضی بہار سے فریب کھا کر اپنا انجام تباہ کر لیتا ہے۔ حالانکہ موت کے بعد یہ چیزیں کام آنے والی نہیں ۔ وہاں کچھ اور ہی کام آئے گا۔ یعنی ایمان اور عمل صالح۔ جو شخص دنیا سے یہ چیز کما لے گا۔ سمجھو بیڑا پار ہے۔ آخرت میں اس کے لیے مالک کی خوشنودی و رضامندی اور جو دولت ایمان سے تہی دست رہا اور کفر و عصیان کا بوجھ لے کر پہنچا اس کے لیے سخت عذاب اور جس نے ایمان کے باوجود اعمال میں کوتاہی کی اس کے لیے جلد یا بدیر دھکے مکے کھا کر معافی ہے۔ دنیا کا خلاصہ وہ تھا، آخرت کا یہ ہوا۔
۲۱ ۔۔۔ یعنی موت سے پہلے وہ سامان کر لو جس سے کوتاہیاں معاف ہوں اور بہشت ملے۔ اس کام میں سستی اور دیر کرنا مناسب نہیں ۔
۲: یعنی آسمان اور زمین دونوں کو اگر ملا کر رکھا جائے تو اس کے برابر جنت کا عرض ہو گا۔ طول کتنا ہو گا؟ یہ اللہ ہی جانے۔
۳: یعنی ایمان و عمل بیشک حصول جنت کے اسباب ہیں ۔ لیکن حقیقت میں ملتی ہے اللہ کے فضل سے۔ اس کا فضل نہ ہو تو سزا سے چھوٹنا ہی مشکل ہے۔ جنت ملنے کا تو ذکر کیا۔
۲۲ ۔۔۔ ۱: ملک میں جو عام آفت آئے مثلاً قحط، زلزلہ وغیرہ اور خود تم کو جو مصیبت لاحق ہو مثلاً مرض وغیرہ وہ سب اللہ کے علم میں قدیم سے طے شدہ ہے اور لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔ اسی کے موافق دنیا میں ظہور ہو کر رہے گا۔ ایک ذرہ بھر کم و بیش یا پس و پیش نہیں ہو سکتا۔
۲: یعنی اللہ کو ہر چیز کا علم ذاتی ہے کچھ محنت سے حاصل کرنا نہیں پڑا پھر اپنے علم محیط کے موافق تمام واقعات و حوادث کو قبل از وقوع کتاب (لوح محفوظ) میں درج کر دینا اس کے لیے کیا مشکل ہے۔
۲۳ ۔۔۔ یعنی اس حقیقت پر اس لیے مطلع کر دیا کہ تم خوب سمجھ لو کہ جو بھلائی تمہارے لیے مقدر ہے ضرور پہنچ کر رہے گی اور جو مقدر نہیں وہ کبھی ہاتھ نہیں آ سکتی۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے علم قدیم میں ٹھہر چکا ہے، ویسا ہی ہو کر رہے گا۔ لہٰذا جو فائدہ کی چیز ہاتھ نہ لگے اس پر غمگین و مضطرب ہو کر پریشان نہ ہو اور جو قسمت سے ہاتھ لگ جائے اس پر اکڑو اور اتراؤ نہیں بلکہ مصیبت و ناکامی کے وقت صبر و تسلیم اور راحت و کامیابی کے وقت شکرو تحمید سے کام لو۔ (تنبیہ) پہلے "اِعْلَمُوآ اِنَّمَا الْحَیَوۃَ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ" الخ میں بتلایا تھا کہ دنیا کے سامان عیش و طرب میں پڑ کر آدمی کو آخرت سے غافل نہ ہونا چاہیے۔ آیت ہذا میں متنبہ فرما دیا کہ یہاں کی تکالیف و مصائب میں گھر کر چاہیے کہ حد اعتدال سے تجاوز نہ کرے۔
۲ ۴ ۔۔۔ ۱: اکثر متکبر مالداروں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ بڑائی اور شیخی تو بہت ماریں گے مگر خرچ کرنے کے نام پیسہ جیب سے نہ نکلے گا۔ کسی اچھے کام میں خود دینے کی توفیق نہ ہو گی اور اپنے قول و فعل سے دوسروں کو بھی یہ ہی سبق پڑھائیں گے۔ موقع پر بڑھ کر خرچ کرنا متوکلوں اور ہمت والوں کا کام ہے جو پیسہ سے محبت نہیں کرتے اور جانتے ہیں کہ سختی اور نرمی سب اسی مالک علی الاطلاق کی طرف سے ہے۔
۲: یعنی تمہارے خرچ کرنے یا نہ کرنے سے اس کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچتا۔ وہ تو بے نیاز اور بے پروا ذات ہے۔ تمام خوبیاں علیٰ وجہ الکمال اس کی ذات میں جمع ہیں ۔ تمہارے کسی فعل سے اس کی کسی خوبی میں اضافہ نہیں ہوتا۔ جو کچھ نفع نقصان ہے تمہارا ہے۔ خرچ کرو گے خود فائدہ اٹھاؤ گے، نہ کرو گے گھاٹے میں رہو گے۔
۲۵ ۔۔۔ ۱: کتاب اور ترازو۔ شاید اسی تولنے کی ترازو کو کہا کہ اس کے ذریعہ سے بھی حقوق ادا کرنے اور لین دین میں انصاف ہوتا ہے۔ یعنی کتاب اللہ اس لیے اتاری کہ لوگ عقائد اور اخلاق و اعمال میں سیدھے انصاف کی راہ چلیں ۔ افراط و تفریط کے راستہ پر قدم نہ ڈالیں اور ترازو اس لیے پیدا کی کہ بیع و شراء وغیرہ معاملات میں انصاف کا پلہ کسی طرف اٹھا، یا جھکا نہ رہے۔ اور ممکن ہے "ترازو" شریعت کو فرمایا ہو۔ جو تمام اعمالِ قلبیہ و قالبیہ کے حسن و قبح کو ٹھیک جانچ تول کر بتلاتی ہے۔ واللہ اعلم۔یعنی اپنی قدرت سے پیدا کیا اور زمین میں اس کی کانیں رکھ دیں ۔
۲: یعنی لوہے سے لڑائی کے سامان (اسلحہ وغیرہ) تیار ہوتے ہیں ۔ اور لوگوں کے بہت سے کام چلتے ہیں ۔
۳: یعنی جو آسمانی کتاب سے راہ راست پر نہ آئیں اور انصاف کی ترازو کو دنیا میں سیدھا نہ رکھیں ، ضرورت پڑے گی کہ ان کی گوشمالی کی جائے اور ظالم و کج رو معاندین پر اللہ و رسول کے احکام کا وقار و اقتدار قائم رکھا جائے۔ اس وقت شمشیر کے قبضہ پر ہاتھ ڈالنا اور ایک خالص دینی جہاد میں اسی لوہے سے کام لینا ہو گا۔ اس وقت کھل جائے گا کہ کون سے وفادار بندے ہیں جو بن دیکھے خدا کی محبت میں آخرت کے غائبانہ اجر و ثواب پر یقین کر کے اس کے دین اور اس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں ۔ یعنی جہاد کی تعلیم و ترغیب اس لیے نہیں دی گئی کہ اللہ کچھ تمہاری امداد و اعانت کا محتاج ہے۔ بھلا اس زور آور اور زبردست ہستی کو کمزور مخلوق کی کیا حاجت ہو سکتی تھی۔ ہاں تمہاری وفاداری کا امتحان مقصود ہے تاکہ جو بندے اس میں کامیاب ہوں ان کو اعلیٰ مقامات پر پہنچایا جائے۔
۲۶ ۔۔۔ ۱: یعنی پیغمبر اور کتاب کے لیے ان دونوں کی نسل کو چن لیا کہ ان کے بعد یہ دولت ان کی ذریت سے باہر نہ جائے گی۔
۲: جن لوگوں کی طرف وہ بھیجے گئے تھے یا یوں کہو کہ ان دونوں کی اولاد میں سے بعضے راہ پر رہے اور اکثر نافرمان ثابت ہوئے۔
۲۷ ۔۔۔ ۱: یعنی پچھلے رسول ان ہی پہلوں کے نقش قدم پر تھے اصولی حیثیت سے سب کی تعلیم ایک تھی۔
۲: یعنی آخر میں انبیائے بنی اسرائیل کے خاتم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل دے کر بھیجا۔
۳: یعنی حضرت مسیح کے ساتھ جو واقعی ان کے طریقہ پر چلنے والے تھے ان کے دلوں میں اللہ نے نرمی رکھی تھی۔ وہ خلق خدا کے ساتھ محبت و شفقت کا برتاؤ کرتے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے تھے۔
۴: یعنی آگے چل کر حضرت مسیح کے متبعین نے بے دین بادشاہوں سے تنگ ہو کر اور دنیا کے مخمصوں سے گھبرا کر ایک بدعت رہبانیت کی نکالی، جس کا حکم اللہ کی طرف سے نہیں دیا گیا تھا۔ مگر نیت ان کی یہ ہی تھی کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کریں ۔ پھر اس کو پوری طرح نباہ نہ سکے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔ "یہ فقیری اور تارک الدنیا بننا، نصاریٰ نے رسم نکالی، جنگل میں تکیہ بنا کر بیٹھے۔ نہ جورو رکھتے نہ بیٹا، نہ کماتے نہ جوڑتے، محض عبادت میں لگے رہتے، خلق سے نہ ملتے، اللہ نے بندوں کو یہ حکم نہیں دیا (کہ اس طرح دنیا چھوڑ کر بیٹھ رہیں ) مگر جب اپنے اوپر ترک دنیا کا نام رکھا، پھر اس پردے میں دنیا چاہنا بڑا وبال ہے۔" شریعت حقہ اسلامیہ نے اس اعتدال فطری سے متجاوز رہبانیت کی اجازت نہیں دی۔ ہاں بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ "اس امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔" کیونکہ مجاہد اپنے سب حظوظ و تعلقات سے واقعی الگ ہو کر اللہ کے راستہ میں نکلتا ہے۔
(تنبیہ) "بدعت" کہتے ہیں ایسا کام کرنا جس کی اصل کتاب و سنت اور قرون مشہودلہا بالخیر میں نہ ہو، اور اس کو دین اور ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے۔
۵: یعنی ان میں اکثر نافرمان ہیں اسی لیے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم پر باوجود دل میں یقین رکھنے کے ایمان نہیں لاتے۔
۲۸ ۔۔۔ یعنی اس رسول کے تابع رہو کہ یہ نعمتیں پاؤ۔ گذشتہ خطاؤں کی معافی اور ہر عمل کا دوگنا ثواب اور روشنی لیے پھرو۔ یعنی تمہارا وجود ایمان و تقویٰ سے نورانی ہو جائے۔ اور آخرت میں یہ ہی تمہارے آگے اور داہنی طرف چلے۔
(تنبیہ) (احقر کے خیال میں یہ خطاب ان اہل کتاب کو ہے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لا چکے تھے۔ اس تقدیر پر "وامنوا برسولہ" سے ایمان پر ثابت و مستقیم رہنا مراد ہو گا۔ باقی اہل کتاب کو دونا ثواب ملنے کا کچھ بیان سورہ "قصص" میں گزر چکا ہے وہاں دیکھ لیا جائے۔
۲۹ ۔۔۔ یعنی اہل کتاب پہلے پیغمبروں کے احوال سن کر پچھتاتے کہ افسوس ہم ان سے دور پڑ گئے۔ ہم کو وہ درجے ملنے محال ہیں جو نبیوں کی صحبت سے حاصل ہوتے ہیں ۔ سو یہ رسول، اللہ نے کھڑا کیا اس کی صحبت میں پہلے سے دونا کمال اور بزرگی مل سکتی ہے۔ اور اللہ کا فضل بند نہیں ہو گیا۔
(تنبیہ) حضرت شاہ صاحب نے آیت کی تفسیر اسی طرح کی ہے۔ لیکن اکثر سلف سے یہ منقول ہے کہ یہاں "لِئَلَّایَعْلَمَ" بمعنی "لِکَیْ یَعْلَمَ" کے ہے۔ یعنی تاکہ جان لیں اہل کتاب (جو ایمان نہیں لائے) کہ وہ دسترس نہیں رکھتے اللہ کے فضل پر۔ اور فضل صرف اللہ کے ہاتھ ہے جس پر چاہے کر دے۔ چنانچہ اہل کتاب میں سے جو خاتم الانبیاء پر ایمان لائے ان پر یہ فضل کر دیا کہ ان کو دوگنا اجر ملتا ہے اور گزشتہ خطاؤں کی معافی اور روشنی مرحمت ہوتی ہے۔ اور جو ایمان نہیں لائے وہ ان انعامات سے محروم ہیں ۔