یہ سورت یہود کے ایک قبیلے بنو نضیر کے بارے میں نازل ہوئی، اس لئے اسے سورۃ النضیر بھی کہتے ہیں۔ صحیح بخاری۔
٢۔ (۱) مدینے کے اطراف میں یہودیوں کے تین قبیلے آباد تھے، بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع، ہجرت مدینہ کے بعد نبی نے ان سے معاہدہ بھی کیا لیکن یہ لوگ درپردہ سازشیں کرتے رہے اور کفار مکہ سے بھی مسلمانوں کے خلاف رابطہ رکھا، حتیٰ کے ایک موقع پر جب کہ آپ ان کے پاس گئے ہوئے تھے، بنو نضیر نے رسول اللہ پر اوپر سے پتھر پھینک کر آپ کو مار ڈالنے کی سازش تیار کی، جس سے وحی کے ذریعے سے آپ بروقت اطلاع کر دی گئی، اور آپ وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔ ان کی اس عہد شکنی کی وجہ سے رسول اللہ ان پر لشکر کشی کی، یہ چند دن اپنے قعلوں میں محصور رہے، بالآخر انہوں نے جان بخشی کی صورت میں جلا وطنی پر آمادگی کا اظہار کیا جسے رسول اللہ نے قبول فرما لیا، یہاں سے یہ خیبر میں جا کر مقیم ہو گئے، وہاں سے حضرت عمر نے اپنے دور میں انہیں دوبارہ جلا وطن کیا اور شام کی طرف دھکیل دیا جہاں کہتے ہیں کہ تمام انسانوں کا آخری حشر ہو گا۔
٢۔ (۲) اس لئے انہوں نے نہایت مضبوط قلعے تعمیر کر رکھے تھے جس پر انہیں گھمنڈ تھا اور مسلمان بھی سمجھتے تھے کہ اتنی آسانی سے یہ قلعے فتح نہیں ہو سکیں گے۔
٢۔ (۳) اور وہ یہی تھا کہ رسول اللہ نے ان کا محاصرہ کر لیا تھا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
۲۔(۴) اس رعب کی وجہ سے ہی انہوں نے جلا وطنی پر آمادگی کا اظہار کیا ورنہ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین اور دیگرلوگوں نے انہیں پیغامات بھیجے تھے کہ تم مسلمانوں کے سامنے جھکنا نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خصوصی وصف عطا فرمایا تھا کہ دشمن ایک مہینے کی مسافت پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مرعوب ہو جاتا تھا اس لیے سخت دہشت اور گھبراہٹ ان پر طاری ہو گئی اور تمام تر اسباب ووسائل کے باوجود انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور صرف یہ شرط مسلمانوں سے منوائی کہ جتنا سامان وہ لاد کر لے جا سکتے ہیں انہیں لے جانے کی اجازت ہو، چنانچہ اس اجازت کی وجہ سے انہوں نے اپنے گھروں کے دروازے اور شہتیر تک اکھیڑ ڈالے تاکہ انہیں اپنے ساتھ لے جائیں
٢۔(۵) یعنی جب انہیں یقین ہو گیا کہ اب جلا وطنی ناگزیر ہے تو انہوں نے دوران محاصرہ اندر سے اپنے گھروں کو برباد کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ مسلمانوں کے بھی کام نہ رہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ سامان لے جانے کی اجازت سے پورا فائدہ اٹھانے کے لئے وہ اپنے اپنے اونٹوں پر جتنا سامان لاد کر لے جا سکتے تھے اپنے گھر ادھیڑ ادھیڑ کر وہ سامان انہوں نے اونٹوں پر رکھ لیا۔
۲۔ (٦) باہر سے مسلمان ان کے گھروں کو برباد کرتے رہے تاکہ ان پر گرفت آسان ہو جائے یا یہ مطلب ہے کہ ان کے ادھیڑے ہوئے گھروں سے بقیہ سامان نکالنے اور حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو مزید تخریب سے کام لینا پڑا۔
۲۔(۷) کہ کس طرح اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈالا در آں حالیکہ وہ ایک نہایت طاقتور اور باوسائل قبیلہ تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت عمل ختم ہو گئی اور اللہ نے اپنے مواخذے کے شکنجے میں کسنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر ان کی اپنی طاقت اور وسائل ان کے کام آئے نہ دیگر اعوان و انصار ان کی کچھ مدد کر سکے۔
۳۔ یعنی اللہ کی تقدیر میں پہلے سے ہی اس طرح ان کی جلاوطنی لکھی ہوئی نہ ہوتی تو ان کو دنیا میں ہی سخت عذاب سے دوچار کر دیا جاتا جیسا کہ بعد میں ان کے بھائی یہود کے ایک دوسرے قبیلے بنو قریظہ کو ایسے ہی عذاب میں مبتلا کیا گیا کہ ان کے جوان مردوں کو قتل کر دیا گیا دوسروں کو قیدی بنا لیا گیا اور ان کا مال مسلمانوں کے لیے غنیمت بنا دیا گیا۔
٥۔ لینۃ۔ کھجور کی ایک قسم ہے جیسے عجوہ برنی وغیرہ کھجوروں کی قسمیں ہیں یا عام کھجور کا درخت مراد ہے۔ دوران محاصرہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے مسلمانوں نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درختوں کو آگ لگا دی، کچھ کاٹ ڈالے اور کچھ چھوڑ دیئے۔ جس سے مقصود دشمن کی آڑ کو ختم کرنا۔ اور یہ واضح کرنا تھا کہ اب مسلمان تم پر غالب ہیں، وہ تمہارے اموال و جائیداد میں جس طرح چاہے، تصرف کرنے پر قادر ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی مسلمانوں کی اس حکمت عملی کی تصویب فرمائی اور اسے یہود کی رسوائی کا ذریعہ قرار دیا۔
٦۔ بنو نضیر کا یہ علاقہ، جو مسلمانوں کے قبضے میں آیا، مدینے سے تین چار میل کے فاصلے پر تھا، یعنی مسلمانوں کو اس کے لئے لمبا سفر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یعنی اس میں مسلمانوں کو اونٹ اور گھوڑے دوڑانے نہیں پڑے۔ اسطرح لڑنے کی بھی نوبت نہیں آئی اور صلح کے ذریعے سے یہ علاقہ فتح ہو گیا، یعنی اللہ نے اپنے رسول کو بغیر لڑے ان پر غالب فرما دیا۔ اس لئے یہاں سے حاصل ہونے والے مال کو فَیْء قرار دیا گیا، جس کا حکم غنیمت سے مختلف ہے یعنی جو مال بغیر لڑے دشمن چھوڑ کر بھاگ جائے یا صلح کے ذریعے سے حاصل ہو، اور جو مال باقاعدہ لڑائی اور غلبہ حاصل کرنے کے بعد ملے، وہ غنیمت ہے۔
٨۔ اس میں مال فیء کا ایک صحیح ترین مصرف بیان کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی مہاجرین کی فضیلت، ان کے اخلاص اور ان کی راست بازی کی وضاحت ہے، جس کے بعد ان کے ایمان میں شک کرنا، گویا قرآن کا انکار ہے۔
۹۔ (۱) ان سے انصار مدینہ مراد ہیں جو مہاجرین کے مدینہ آنے سے قبل مدینے میں آباد تھے اور مہاجرین کے ہجرت کر کے آنے سے قبل امین بھی ان کے دلوں میں قرار پکڑ چکا تھا یہ مطلب نہیں ہے کہ مہاجرین کے ایمان لانے سے پہلے یہ انصار ایمان لا چکے تھے کیونکہ ان کی اکثریت مہاجرین کے ایمان لانے کے بعد ایمان لائی ہے یعنی من قبلھم کا مطلب من قبل ھجرتھم ہے اور دار سے دار الھجرۃ یعنی مدینہ مراد ہے۔
٩۔ (۲) یعنی مہاجرین کو اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم جو کچھ دے، اس پر حسد محسوس نہیں کرتے، جیسے فیء کا اولین مستحق بھی ان کو قرار دیا گیا۔ لیکن انصار نے برا نہیں منایا۔
۹۔ (۳) یعنی اپنے مقابلے میں مہاجرین کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں خود بھوکا رہتے ہیں لیکن مہاجرین کو کھلاتے ہیں جیسے حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک مہمان آیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر میں کچھ نہ تھا چنانچہ ایک انصاری اسے اپنے گھر لے گیا گھر جا کر بیوی کو بتلایا تو بیوی نے کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کی خوراک ہے انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بچوں کو تو آج بھوکا سلا دیں اور ہم خود بھی ایسے ہی کچھ کھائے بغیر سو جائیں گے البتہ مہمان کو کھلاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ اسے ہماری بابت علم نہ ہو کہ ہم اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہے ہیں صبح جب وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم دونوں میاں بیوی کی شان میں یہ آیات نازل فرمائی ہے۔ ویوثرون علی انفسھم۔ الایۃ صحیح بخاری۔ ان کے ایثار کی یہ بھی ایک نہایت عجیب مثال ہے کہ ایک انصاری کے پاس دو بیویاں تھیں تو اس نے ایک بیوی کو اس لیے طلاق دینے کی پیشکش کی کہ عدت گزرنے کے بعد اس سے اس کا دوسرا مہاجر بھائی نکاح کر لے۔صحیح بخاری۔ کتاب النکاح۔
٩۔(۴) حدیث میں ہے ' شح سے بچو، اس حرص نفس نے ہی پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اسی نے خون ریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے محارم کو حلال کر لیا ' (صحیح مسلم)
۱۰۔ یہ مال فئی کے مستحقین کی تیسری قسم ہے یعنی صحابہ رضی اللہ عنھم کے بعد آنے والے اور صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے اس میں تابعین اور تبع تابعین اور قیامت تک ہونے والے اہل ایمان و تقویٰ آ گئے لیکن شرط یہی ہے کہ وہ انصار و مہاجرین کو مومن ماننے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے والے ہوں نہ کہ ان کے ایمان میں شک کرنے اور ان پر سب و شتم کرنے اور ان کے خلاف اپنے دلوں میں بغض و عناد رکھنے والے امام مالک رحمۃ اللہ نے اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے یہی بات ارشاد فرمائی ہے ان الرافضی الذی یسب الصحابۃ لیس لہ فی مال الفی نصیب لعدم اتصافہ بما مدح اللہ بہ ھولا ء فی قولھم رافضی کو جو صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین پر سب و شتم کرتے ہیں مال فیء سے حصہ نہیں ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح کی ہے اور رافضی ان کی مذمت کرتے ہیں (ابن کثیر)۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں۔ امرتم بالاستغفار لاصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم فسببتموھم سمعت نبیکم یقول :لا تذھب ھذہ الامۃ حتی یلعن آخرھا اولھا۔ رواہ البغوی۔ تم لوگوں اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا مگر تم نے ان پر لعن طعن کی میں نے تمہارے نبی کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ امت اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک کہ اس کے آخرین اولین پر لعنت نہ کریں۔ حوالہ مذکور۔
١١۔ (۱) جیسے پہلے گزر چکا ہے کہ منافقین نے بنو نضیر کو یہ پیغام بھیجا تھا۔
١١۔ (۲) چنانچہ ان کا جھوٹ واضح ہو کر سامنے آگیا کہ بنو نضیر جلا وطن کر دیئے گئے، لیکن یہ ان کی مدد کو پہنچے نہ ان کی حمایت میں مدینہ چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔
١٢۔ (۱) یہ منافقین کے گذشتہ جھوٹے وعدوں ہی کی مزید تفصیل ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، بنو قضیر، جلا وطن اور بنو قریظہ قتل اور اسیر کئے گئے، لیکن منافقین کسی کی مدد کو نہ پہنچے۔
١٢۔ (۲) یہ بطور فرض، بات کی جا رہی ہے، ورنہ جس چیز کی نفی اللہ فرما دے، اس کا وجود کیوں کر ممکن ہے، مطلب ہے کہ اگر یہود کی مدد کرنے کا ارادہ کریں۔
١٣۔ (۱) یہود کے یا منافقین کے یا سب کے ہی دلوں میں۔
١٣۔ (۲) یعنی تمہارا یہ خوف ان کے دلوں میں ان کی ناسمجھی کی وجہ سے ہے، ورنہ اگر سمجھدار ہوتے تو سمجھ جاتے کہ مسلمانوں کا غلبہ و تسلط، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس لئے ڈرنا اللہ تعالیٰ سے چاہیے نہ کہ مسلمانوں سے۔
۱٤۔ (۱) یعنی یہ منافقین اور یہودی مل کر بھی کھلے میدان میں تم سے لڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتے البتہ قلعوں میں محصور ہو کر یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر تم پر وار کر سکتے ہیں جس سے یہ واضح ہے کہ یہ نہایت بزدل ہیں اور تمہاری ہیبت سے لرزاں و ترساں ہیں۔
١٤۔ (۲) یعنی آپس میں یہ ایک دوسرے کے سخت خلاف ہیں۔ اس لئے ان میں باہم تو تکار اور تھکا فضیحتی عام ہے۔
۱٤۔ (۳) یہ منافقین کا آپس میں دلوں کا حال ہے یا یہود اور منافقین کا یا مشرکین اور اہل کتاب کا مطلب یہ ہے کہ حق کے مقابلے میں یہ ایک نظر آتے ہیں لیکن ان کے دل ایک نہیں ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف بغض و عناد سے بھرے ہوئے
١٤۔(۴) یعنی یہ اختلاف ان کی بے عقلی کی وجہ سے ہے، اگر ان کے پاس سمجھنے والی عقل ہوتی تو یہ حق کو پہچان لیتے اور اسے اپنا لیتے۔
۱۵۔ (۱) اس سے بعض نے مشرکین مکہ مراد لیے ہیں جنہیں غزوہ بنی نصیر سے کچھ عرصہ قبل جنگ بدر میں عبرت ناک شکست ہوئی تھی یعنی یہ بھی مغلوبیت اور ذلت میں مشرکین ہی کی طرح ہیں جن کا زمانہ قریب ہی ہے بعض نے یہود کے دوسرے قبیلے بنو قینقاع کو مراد لیا ہے جنہیں بنو نضیر سے قبل جلا وطن کیا جا چکا تھا جو زمان ومکان دونوں لحاظ سے ان کے قریب تھے۔ ابن کثیر۔
١٥۔ (۲) یعنی یہ وبال جو انہوں نے چکھا، یہ تو دنیا کی سزا ہے، آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے جو نہایت دردناک ہو گی۔
۱۶۔ یہ یہود اور منافقین کی ایک اور مثال بیان فرمائی کہ منافقین نے یہودیوں کو اسی طرح بے یار ومددگا چھوڑ دیا جس طرح شیطان انسان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے پہلے وہ انسان کو گمراہ کرتا ہے اور جب انسان شیطان کے پیچھے لگ کر کفر کا ارتکاب کر لیتا ہے تو شیطان اس سے براءت کا اظہار کر دیتا ہے۔١٦۔ (۲) شیطان اپنے اس قول میں سچا نہیں ہے، مقصد صرف اس کفر سے علیحدگی اور چھٹکارا حاصل کرتا ہے جو انسان شیطان کے گمراہ کرنے سے کرتا ہے۔
۱۸۔(۱) اہل ایمان کو خطاب کر کے انہیں وعظ کیا جا رہا ہے اللہ سے ڈرنے کا مطلب ہے اس نے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے انہیں بجا لاؤ جن سے روکا ہے ان سے رک جاؤ آیت میں یہ بطور تاکید دو مرتبہ فرمایا کیونکہ یہ تقویٰ اللہ کا خوف ہی انسان کو نیکی کرنے پر اور برائی سے اجتناب پر آمادہ کرتا ہے۔
١٨۔ (۲) اسے کل سے تعبیر کر کے اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ اس کا وقوع زیادہ دور نہیں، قریب ہے۔
١٨۔ (۳) چنانچہ وہ ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا دے گا، نیک کو نیکی کی جزا اور بد کو بدی کی جزا۔
١٩۔ یعنی اللہ نے بطور جزا انہیں ایسا کر دیا کہ وہ ایسے عملوں سے غافل ہو گئے جن میں ان کا فائدہ تھا اور جن کے ذریعے سے وہ اپنے نفسوں کو عذاب الٰہی سے بچا سکتے تھے یوں انسان خدا فراموشی سے خود فراموشی تک پہنچ جاتا ہے۔
۲۰۔ (۱) جنہوں نے اللہ کو بھول کریہ بات بھی بھلائے رکھی کہ اس طرح وہ خود اپنے ہی نفسوں پر ظلم کر رہے ہیں اور ایک دن آئے گا کہ اس کے نتیجے میں ان کے یہ جسم جن کے لیے دنیا میں وہ بڑے بڑے پاپڑ بیلتے تھے جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے اور ان کے مقابلے میں دوسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ کو یاد رکھا اس کے احکام کے مطابق زندگی گزاری ایک وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے گا اور اپنی جنت میں انہیں داخل فرمائے گا جہاں ان کے آرام و راحت کے لیے ہر طرح کی نعمتیں اور سہولتیں ہوں گی یہ دونوں فریق یعنی جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہوں گے بھلا یہ برابر ہو بھی کس طرح سکتے ہیں ایک نے اپنے انجام کو یاد رکھا اور اس کے لیے تیاری کرتا رہا دوسرا اپنے انجام سے غافل رہا اس لیے اس کے لیے تیاری میں بھی مجرمانہ غفلت برتی۔
٢٠۔ (۲) جس طرح امتحان کی تیاری کرنے والا کامیاب اور دوسرا ناکام ہوتا ہے۔ اسی طرح اہل ایمان و تقویٰ جنت کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گے، کیونکہ اس کے لئے کہ وہ دنیا میں نیک عمل کر کے تیاری کرتے رہے گویا دنیا دار العمل اور دار الامتحان ہے۔ جس نے اس حقیقت کو سمجھ لیا اور اس نے انجام سے بے خبر ہو کر زندگی نہیں گزاری وہ کامیاب ہو گا اور جو دنیا کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر اور انجام سے غافل، فسق و فجور میں مبتلا رہا وہ خاسر و ناکام ہو گا۔
٢١۔ (۱) اور پہاڑ میں فہم و ادراک کی صلاحیت پیدا کر دیتے جو ہم نے انسان کے اندر رکھی ہے۔
٢١۔ (۲) یعنی قرآن کریم میں ہم نے بلاغت و فصاحت، قوت و استدلال اور وعظ تذکرہ کے ایسے پہلو بیان کئے ہیں کہ انہیں سن کر پہاڑ بھی باوجود اتنی سختی اور وسعت و بلندی کے خوف الٰہی سے ریزہ ریزۃ ہو جاتا۔ یہ انسان کو سمجھایا اور ڈرایا جا رہا ہے کہ تجھے عقل و فہم کی صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ لیکن قرآن سن کر تیرا دل کوئی اثر قبول نہیں کرتا تو تیرا انجام اچھا نہیں ہو گا۔
۲۱۔ (۳) تاکہ قرآن کے مواعظ سے وہ نصیحت حاصل کریں اور زواجر کو سن کر نافرمانیوں سے اجتناب کریں بعض کہتے ہیں کہ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب ہے کہ ہم نے آپ پر یہ قرآن مجید نازل کیا جو ایسی عظمت شان کا حامل ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا لیکن یہ آپ پر ہمارا احسان ہے کہ ہم نے آپ کو اتنا قوی اور مضبوط کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس چیز کو برداشت کر لیا جس کو برداشت کرنے کی طاقت پہاڑوں میں بھی نہیں ہے۔فتح القدیر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی صفات بیان فرما رہا ہے جس سے مقصود توحید کا اثبات اور شرک کی تردید ہے۔
۲۲۔ غیب مخلوقات کے اعتبار سے ہے ورنہ اللہ کے لیے تو کوئی چیز غیب نہیں مطلب یہ ہے کہ وہ کائنات کی ہر چیز کو جانتا ہے چاہے وہ ہمارے سامنے ہو یا ہم سے غائب ہو حتی کہ وہ تاریکیوں میں چلنے والی چیونٹی کو بھی جانتا ہے۔
٢٤۔ (۱) کہتے ہیں کہ خلق کا مطلب ہے اپنے ارادہ و مشیت کے مطابق اندازہ کرنا اور براَ کے معنی ہیں اسے پیدا کرنا، گھڑنا، وجود میں لانا۔
٢٤۔ (۲) اسمائے حسنیٰ کی بحث سورہ اعراف۔ ١٨٠ میں گزر چکی ہے۔
٢٤۔ (۳) زبان حال سے بھی اور زبان مقال سے بھی، جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔
٢٤۔(۴) جس چیز کا بھی فیصلہ کرتا ہے، وہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔