قرآن مجید کی اس سورت کے رکوع ۱۶ اور ۱۷ میں بعض اَنعام (مویشیوں ) کی حرمت اور بعض کی حلت کے متعلق اہل عرب کے توہمات کی تردید کی گئی ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام "الانعام" رکھا گیا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ یہ پوری سورت مکہ میں بیک وقت نازل ہوئی تھی۔ حضرت معاذ بن جبل کی چچا زاد بہن اسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ "جب یہ سورت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہو رہی تھی اس وقت آپ اونٹنی پر سوار تھے ، میں اس کی نکیل پکڑے ہوئے تھی اور بوجھ کے مارے اونٹنی کا یہ حال ہو رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا اس کی ہڈیاں اب ٹوٹ جائیں گی"۔ روایات میں اس کی بھی تصریح ہے کہ جس رات یہ نازل ہوئی اسی رات کو آپ نے اسے قلمبند کرا دیا۔
اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئی ہو گی۔ حضرت اسماء بنت یزید کی روایت بھی اسی کی تصدیق کرتی ہے کیونکہ موصوفہ انصار میں سے تھیں اور ہجرت کے بعد ایمان لائیں۔ اگر قبول اسلام سے پہلے محض بر بناء عقیدت وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں مکہ حاضر ہوئی ہوں گی تو یقیناً یہ حاضری آپ کی مکی زندگی کے آخری سال میں ہوئی ہو گی۔ اس سے پہلے اہل یثرب کے ساتھ آپ کے تعلقات اتنے بڑھے ہی نہ تھے کہ وہاں سے کسی عورت کا آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ممکن ہوتا۔
زمانۂ نزول متعین ہو جانے کے بعد ہم باآسانی اس پس منظر کو دیکھ سکتے ہیں جس میں یہ خطبہ ارشاد ہوا ہے۔ اس وقت اللہ کے رسول کو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے ۱۲ سال گزر چکے تھے۔ قریش کی مزاحمت اور ستم گری و جفا کاری انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اسلام قبول کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ظلم و ستم سے عاجز آ کر ملک چھوڑ چکی تھی اور حبش میں مقیم تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تائید و حمایت کے لیے نہ ابو طالب باقی رہے تھے اور نہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ، اس لیے ہر دنیوی سہارے سے محروم ہو کر آپ شدید مزاحمتوں کا مقابلے میں تبلیغ رسالت کا فرض انجام دے رہے تھے۔ آپ کی تبلیغ کے اثر سے مکہ میں اور گرد و نواح کے قبائل میں بھی صالح افراد پے در پے اسلام قبول کرتے جا رہے تھے ، لیکن قوم بحیثیتِ مجموعی رد و انکار پر تلی ہوئی تھی، جہاں کئی شخص اسلام کی طرف ادنیٰ میلان بھی ظاہر کرتا تھا اسے طعن و ملامت، جسمانی اذیت اور معاشی و معاشرتی مقاطعہ کا ہدف بننا پڑتا تھا۔ اس تاریک ماحول میں صرف ایک ہلکی سی شعاع یثرب کی طرف سے نمودار ہوئی تھی جہاں سے اوس اور خزرج کے با اثر لوگ آ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے اور جہاں کسی اندرونی مزاحمت کے بغیر اسلام پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔ مگر اس حقیر سی ابتداء میں مستقبل کے جو امکانات پوشیدہ تھے انہیں کوئی ظاہر بیں آنکھ نہ دیکھ سکتی تھی۔ بظاہر دیکھنے والوں کو جو کچھ نظر آتا تھا وہ بس یہ تھا کہ اسلام ایک کمزور سی تحریک ہے جس کی پشت پر کوئی مادی طاقت نہیں ، جس کا داعی اپنے خاندان کی ضعیف سی حمایت کے سوا کوئی زور نہیں رکھتا اور جسے قبول کرنے والے چند مٹھی بھر بے بس اور منتشر افراد اپنی قوم کے عقیدہ و مسلک سے منحرف ہو کر اس طرح سوسائٹی سے نکال پھینکے گئے ہیں جیسے پتے اپنے درخت سے جھڑ کر زمین پر پھیل جائیں۔
ان حالات میں یہ خطبہ ارشاد ہوا ہے اور اس کے مضامین کو سات بڑے بڑے عنوانات پر تقسیم کیا جا سکتا ہے :
۱. شرک کا ابطال اور عقیدہ توحید کی طرف دعوت
۲. عقیدۂ آخرت کی تبلیغ اور اس غلط خیال کی تردید کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے
۳. جاہلیت کے ان توہمات کی تردید جن میں لوگ مبتلا تھے
۴. ان بڑے بڑے اصولِ خلاق کی تلقین جن پر اسلام معاشرے کی تعمیر چاہتا تھا
۵. نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی دعوت کے خلاف لوگوں کے اعتراضات کا جواب
۶. طویل جدوجہد کے باوجود دعوت کے نتیجہ خیز نہ ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور عام مسلمانوں کے اندر اضطراب اور دل شکستگی کی جو کیفیت پیدا ہو رہی تھی اس پر تسلی
۷. منکرین و مخالفین کو ان کی غفلت و سرشاری اور نا دانستہ خود کشی پر نصیحت، تنبیہ اور تہدید۔
لیکن خطبہ کا انداز یہ نہیں ہے کہ ایک ایک عنوان پر الگ الگ یکجا گفتگو کی گئی ہو۔ بلکہ خطبہ ایک دریا کی سی روانی کے ساتھ چلتا جاتا ہے اور اس کے دوران یہ عنوانات مختلف طریقوں سے بار بار چھڑتے ہیں اور ہر بار ایک نئے انداز سے ان پر گفتگو کی جاتی ہے۔
یہاں چونکہ پہلی مرتبہ ناظرین کے سامنے ایک مفصل مکی سورت آ رہی ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر مکی سورتوں کے تاریخی پس منظر کی ایک جامع تشریح کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ تمام مکی سورتوں میں اشاعت کو سمجھنا آسان ہو جائے۔
جہاں تک مدنی سورتوں کا تعلق ہے ، ان میں سے تو قریب قریب ہر ایک کا زمانۂ نزول معلوم ہے یا تھوڑی سی کاوش سے متعین کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کی تو بکثرت آیتوں کی انفرادی شان نزول تک معتبر روایات میں مل جاتی ہیں لیکن مکی سورتوں کے متعلق ہمارے پاس اتنے مفصل ذرائع معلومات موجود نہیں ہیں۔ بہت کم سورتیں یا آیتیں ایسی ہیں جن کے زمانۂ نزول اور موقعِ کے بارے میں کوئی صحیح و معتبر روایت ملتی ہو کیونکہ اس زمانے کی تاریخ اس قدر جزئی تفصیلات کے ساتھ مرتب نہیں ہوئی ہے جیسی کہ مدنی دور کی تاریخ ہے۔ اس وجہ سے مکی سورتوں کے معاملے میں ہمیں تاریخی شہادتوں کے بجائے زیادہ تر ان اندرونی شہادتوں پر اعتماد کرنا پڑتا ہے جو مختلف سورتوں کے موضوع، مضمون اور اندازِ بیاں میں ، اور اپنے پس منظر کی طرف ان کے جلی یا خفی اشارات میں پائی جاتی ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کی شہادتوں کی مدد سے لے کر ایک ایک سورت اور ایک ایک آیت کے متعلق یہ تعین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ فلاں تاریخ یا فلاں سن میں فلاں موقع پر نازل ہوئی ہے۔ زیادہ صحت کے ساتھ جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک طرف ہم مکی سورتوں کی اندرونی شہادتوں کو اور دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مکی زندگی کی تاریخ کو آمنے سامنے رکھیں اور پھر دونوں کا تقابل کرتے ہوئے یہ رائے قائم کریں کہ کون سی سورت کس دور سے تعلق رکھتی ہے۔
اس طرز تحقیق کو ذہن میں رکھ کر جب ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مکی زندگی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہ دعوت اسلامی کے نقطۂ نظر سے ہمیں چار بڑے بڑے نمایاں ادوار پر منقسم نظر آتی ہے :
پہلا دور، آغازِ بعثت سے لے کر اعلان نبوت تک، تقریباً تین سال، جس میں دعوت خفیہ طریقے سے خاص خاص آدمیوں کو دی جا رہی تھی اور عام اہلِ مکہ کو اس کا علم نہ تھا
دوسرا دور، اعلان نبوت سے لے کر ظلم و ستم کے آغاز تک، تقریباً ۲ سال، جس میں پہلے مخالفت شروع ہوئی، پھر اس نے مزاحمت کی شکل اختیار کی، پھر تضحیک، استہزاء، الزامات، سب و شتم، جھوٹے پروپیگنڈے اور مخالفانہ جتھہ بندی تک نوبت پہنچی اور بالآخر ان مسلمانوں پر زیادتیاں شروع ہو گئی جو نسبتاً زیادہ غریب، کمزور اور بے یار و مددگار تھے۔
تیسرا دور، آغاز ظلم و ستم سے لے کر ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک، تقریباً پانچ چھ سال۔ اس میں مخالفت انتہائی شدت اختیار کرتی چلی گئی، بہت سے مسلمان کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر حبش کی طرف ہجرت کر گئے ، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے خاندان اور باقی ماندہ مسلمانوں کا معاشی و معاشرتی مقاطعہ کیا گیا اور آپ اپنے حامیوں اور ساتھیوں سمیت شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے۔
چوتھا دور ہجرت سے قبل کے تین سال، یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کے لیے انتہائی سختی و مصیبت کا زمانہ تھا۔ مکہ میں آپ کے لیے زندگی دو بھر کر دی گئی تھی، طائف گئے تو وہاں بھی پناہ نہ ملی، حج کے موقع پر عرب کے ایک ایک قبیلے سے آپ اپیل کرتے رہے کہ وہ آپ کی دعوت قبول کرے اور آپ کا ساتھ دے مگر ہر طرف سے کورا جواب ہی ملتا رہا۔ اور ادھر اہل مکہ بار بار یہ مشورے کرتے رہے کہ آپ کو قتل کر دیں یا قید کر دیں یا اپنی بستی سے نکال دیں۔ آخر کار اللہ کے فضل سے انصار کے دل اسلام کے لیے کھل گئے اور ان کی دعوت پر آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
ان میں سے ہر دور میں قرآن مجید کی جو سورتیں نازل ہوئی ہیں وہ اپنے مضامین اور انداز بیاں میں دوسرے دور کی سورتوں سے مختلف ہیں۔ ان میں بکثرت مقامات پر ایسے اشارات بھی پائے جاتے ہیں جن سے پس منظر کے حالات اور واقعات پر صاف روشنی پڑتی ہے۔ ہر دور کی خصوصیات کا اثر اس دور کے نازل شدہ کلام میں بہت بڑی حد تک نمایاں نظر آتا ہے۔ انہی علامات پر اعتماد کر کے ہم آئندہ ہر مکی سورت کے آغاز میں بتائیں کہ وہ مکہ کے کس دور میں نازل ہوئی۔
۱-یاد رہے کہ مخاطب وہ مشرکین عرب ہیں جو اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے ، وہی دن نکالتا اور رات لاتا ہے اور اسی نے آفتاب و ماہتاب کو وجود بخشا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا کہ یہ کام لات یا ہُبل یا عُزّیٰ یا کسی اَور دیوی یا دیوتا کے ہیں۔ اس لیے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ نادانو! جب تم خود یہ مانتے ہو کہ زمین و آسمان کا خالق اور گردش لیل و نہار کا فاعل اللہ ہے تو یہ دُوسرے کون ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے سجدے کرتے ہو، نذریں اور نیازیں چڑھاتے ہو، دُعائیں مانگتے ہو اور اپنی حاجتیں پیش کرتے ہو۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ فاتحہ حاشیہ نمبر ۲ – سُورۂ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۶۳)
روشنی کے مقابلہ میں تاریکیوں کو بصیغۂ جمع بیان کیا گیا ، کیونکہ تاریکی نام ہے عدمِ نور کا اور عدم نور کے بیشمار مدارج ہیں۔ اس لیے نور واحد ہے اور تاریکیاں بہت ہیں۔
۲-انسانی جسم کے تمام اجزاء زمین سے حاصل ہوتے ہیں، کوئی ایک ذرہ بھی اس میں غیر ارضی نہیں ہے ، اس لیے فرمایا کہ تم کو مِٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔
۳-یعنی قیامت کی گھڑی جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان از سرِ نو زندہ کیے جائیں گے اور حساب دینے کے لیے اپنے ربّ کے سامنے حاضر ہوں گے۔
۴-اشارہ ہے ہجرت اور اُن کامیابیوں کی طرف جو ہجرت کے بعد اسلام کو پے درپے حاصل ہونے والی تھیں۔ جس وقت یہ اشارہ فرمایا گیا تھا اس وقت نہ کفار یہ گمان کر سکتے تھے کہ کس قسم کی خبریں انھیں پہنچنے والی ہیں اور نہ مسلمانوں ہی کے ذہن میں اس کا کوئی تصوّر تھا۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی آئندہ کے امکانات سے بے خبر تھے۔
۵-یعنی جب یہ شخص خدا کی طرف سے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے تو آسمان سے ایک فرشتہ اُترنا چاہیے تھا جو لوگوں سے کہتا کہ یہ خدا کا پیغمبر ہے ، اس کی بات مانو ورنہ تمہیں سزا دی جائے گی۔ جاہل معترضین کو اس بات پر تعجب تھا کہ خالقِ ارض و سماء کسی کو پیغمبر مقرر کرے اور پھر اِس طرح اُسے بے یار و مددگار ، پتھر کھانے اور گالیاں سُننے کے لیے چھوڑ دے۔ اتنے بڑے بادشاہ کا سفیر اگر کسی بڑے اسٹاف کے ساتھ نہ آیا تھا تو کم از کم ایک فرشتہ تو اس کی اردلی میں رہنا چاہیے تھا تا کہ وہ اس کی حفاظت کرتا، اس کا رُعب بٹھاتا، اس کی ماموریّت کا یقین دلاتا اور فوق الفطری طریقے سے اس کے کام انجام دیتا۔
۶-یہ ان کے اعتراض کا پہلا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لینے کے لیے جو مُہلت تمہیں ملی ہوئی ہے یہ اُسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پردۂ غیب میں پوشیدہ ہے۔ ورنہ جہاں غیب کا پردہ چاک ہوا، پھر مُہلت کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا۔ اُس کے بعد تو صرف حساب ہی لینا باقی رہ جائے گا۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی تمہارے لیے ایک امتحان کا زمانہ ہے ، اور امتحان اس امر کا ہے کہ تم حقیقت کو دیکھے بغیر عقل و فکر کے صحیح استعمال سے اس کا ادراک کرتے ہو یا نہیں، اور ادراک کرنے کے بعد اپنے نفس اور اس کی خواہشات کو قابو میں لا کر اپنے عمل کو حقیقت کے مطابق درست رکھتے ہو یا نہیں۔ اس امتحان کے لیے غیب کا غیب رہنا شرط لازم ہے ، اور تمہاری دُنیوی زندگی ، جو دراصل مہلتِ امتحان ہے ، اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک غیب، غیب ہے۔ جہاں غیب شہادت میں تبدیل ہوا، مہلت لازماً ختم ہو جائے گی اور امتحان کے بجائے نتیجہ ٔ امتحان نکلنے کا وقت آ پہنچے گا۔ لہٰذا تمہارے مطالبہ کے جواب میں یہ ممکن نہیں ہے کہ تمہارے سامنے فرشتے کو اس کی اصلی صُورت میں نمایاں کر دیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ابھی تمہارے امتحان کی مدّت ختم نہیں کر نا چاہتا۔(ملاحظہ ہو سُورہ ٔ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۲۸)
۷-یہ ان کے اعتراض کا دُوسرا جواب ہے۔ فرشتے کے آنے کی پہلی صُورت یہ ہو سکتی تھی کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنی اصلی غیبی صُورت میں ظاہر ہوتا۔ لیکن اُوپر بتا دیا گیا کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ اب دُوسری صُورت یہ باقی رہ گئی کہ وہ انسانی صُورت میں آئے۔ اس کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ اگر وہ انسانی صُورت میں آئے تو اس کے مامور مِن اللہ ہونے میں بھی تم کو وہی اشتباہ پیش آئے گا جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مامور مِن اللہ ہونے میں پیش آ رہا ہے۔
۸-یعنی گزری ہوئی قوموں کے آثار قدیمہ اور ان کے تاریخی افسانے شہادت دیں گے کہ صداقت و حقیقت سے مُنہ موڑنے اور باطل پرستی پر اصرار کرنے کی بدولت کس طرح یہ قومیں عبرتناک انجام سے دوچار ہوئیں۔
۹-یہ ایک لطیف اندازِ بیان ہے۔ پہلے حکم ہوا کہ ان سے پوچھو، زمین و آسمان کی موجودات کس کی ہیں۔ سائل نے سوال کیا اور جواب کے انتظار میں ٹھیر گیا۔ مخاطب اگرچہ خود قائل ہیں کہ سب کچھ اللہ کا ہے ، لیکن نہ تو وہ غلط جواب دینے کی جرأت رکھتے ہیں ، اور نہ صحیح جواب دینا چاہتے ہیں، کیونکہ اگر صحیح جواب دیتے ہیں تو انھیں خوف ہے کہ مخالف اس سے ان کے مشرکانہ عقیدہ کے خلاف استدلال کرے گا۔ اس لیے وہ کچھ جواب نہیں دیتے۔ تب حکم ہوتا ہے کہ تم خود ہی کہو کہ سب کچھ اللہ کا ہے۔
۱۰-اس میں ایک لطیف تعریض ہے۔ مشرکوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا خدا بنا رکھا ہے وہ سب اپنے ان بندوں کو رزق دینے کے بجائے اُلٹا ان سے رزق پانے کے محتاج ہیں۔ کوئی فرعون خدائی کے ٹھاٹھ نہیں جما سکتا جب تک اس کے بندے اسے ٹیکس اور نذرانے نہ دیں۔ کسی صاحبِ قبر کی شانِ معبُودیّت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اس کے پرستار اس کا شاندار مقبرہ تعمیر نہ کریں۔ کسی دیوتا کا دربارِ خداوندی سج نہیں سکتا جب تک اس کے پُجاری اس کا مجسّمہ بنا کر کسی عالی شان مندر میں نہ رکھیں اور اس کو تزئین و آرائش کے سامانوں سے آراستہ نہ کریں۔ سارے بناؤٹی خدا بیچا رے خود اپنے بندوں کے محتاج ہیں۔ صرف ایک خداوندِ عالم ہی وہ حقیقی خدا ہے جس کی خدائی آپ اپنے بل بوتے پر قائم ہے اور جو کسی کی مدد کا محتاج نہیں بلکہ سب اسی کے محتاج ہیں۔
۱۱-یعنی اس بات پر گواہ ہے کہ میں اس کی طرف سے مامور ہوں اور جو کچھ کہہ رہا ہوں اسی کے حکم سے کہہ رہا ہوں۔
۱۲-کسی چیز کی شہادت دینے کے لیے محض قیاس و گمان کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے علم ہونا ضروری ہے جس کی بنا پر آدمی یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ ایسا ہے۔ پس سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا واقعی تمہیں یہ علم ہے کہ اس جہانِ ہست و بُود میں خدا کے سوا اَور بھی کوئی کار فرما حاکمِ ذی اختیار ہے جو بندگی و پرستش کا مستحق ہو؟
۱۳-یعنی اگر تم علم کے بغیر محض جھُوٹی شہادت دینا چاہتے ہو تو دو، میں تو ایسی شہادت نہیں دے سکتا۔
۱۴-یعنی کتبِ آسمانی کا علم رکھنے والے اس حقیقت کو غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں کہ خدا ایک ہی ہے اور خدائی میں کسی کا کچھ حصّہ نہیں ہے۔ جس طرح کسی کا بچّہ بہت سے بچّوں میں مِلا جُلا کھڑا ہو تو وہ الگ پہچان لے گا کہ اس کا بچہ کونسا ہے ، اسی طرح جو شخص کتابِ الٰہی کا علم رکھتا ہو وہ اُلُوہیّت کے متعلق لوگوں کے بے شمار مختلف عقیدوں اور نظریوں کے درمیان بلا کسی شک و اشتباہ کے یہ پہچان لیتا ہے کہ ان میں سے امرِ حق کونسا ہے۔
۱۵-یعنی یہ دعویٰ کرے کہ خد اکے ساتھ دُوسری بہت سی ہستیاں بھی خدائی میں شریک ہیں، خدائی صفات سے متصف ہیں، خداوندانہ اختیارات رکھتی ہیں، اور اس کی مستحق ہیں کہ انسان ان کے آگے عبدیّت کا رویّہ اختیار کرے۔ نیز یہ بھی اللہ پر بہتان ہے کہ کوئی یہ کہے کہ خدا نے فلاں فلاں ہستیوں کو اپنا مقَرَّبِ خاص قرار دیا ہے اور اُسی نے یہ حکم دیا ہے ، یا کم از کم یہ کہ وہ اِس پر راضی ہے کہ ان کی طرف خدائی صفات منسُوب کی جائیں اور ان سے وہ معاملہ کیا جائے جو بندے کو اپنے خدا کے ساتھ کرنا چاہیے۔
۱۶-اللہ کی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں بھی ہیں جو انسان کے اپنے نفس اور ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، اور وہ بھی جو پیغمبروں کی سیرت اور ان کے کارناموں میں ظاہر ہوئیں ، اور وہ بھی جو کتبِ آسمانی میں پیش کی گئیں۔ یہ ساری نشانیاں ایک ہی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں، یعنی یہ کہ موجوداتِ عالم میں خدا صرف ایک ہے باقی سب بندے ہیں۔ اب جو شخص ان تمام نشانیوں کے مقابلہ میں کسی حقیقی شہادت کے بغیر، کسی علم، کسی مشاہدے اور کسی تجربے کے بغیر، مجرّد قیاس و گمان یا تقلیدِ آبائی کی بنا پر ، دُوسروں کو اُلُوہیّت کی صفات سے متصف اور خداوندی حقوق کا مستحق ٹھیراتا ہے ، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ حقیقت و صداقت پر ظلم کر رہا ہے ، اپنے نفس پر ظلم کر رہا ہے اور کائنات کی ہر اس چیز پر ظلم کر رہا ہے جس کے ساتھ وہ اس غلط نظریہ کی بنا پر کوئی معاملہ کرتا ہے۔
۱۷-یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ قانونِ فطرت کے تحت جو کچھ دنیا میں واقع ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسُوب فرماتا ہے ، کیونکہ دراصل اس قانون کا بنانے والا اللہ ہی ہے اور جو نتائج اس قانون کے تحت رونما ہوتے ہیں وہ سب حقیقت میں اللہ کے اذن و ارادہ کے تحت ہی رونما ہوا کرتے ہیں۔ ہٹ دھرم منکرینِ حق کا سب کچھ سُننے پر بھی کچھ نہ سُننا اور داعی حق کی کسی بات کا اُن کے دل میں نہ اترنا اُن کی ہٹ دھرمی اور تعصب اور جمود کا فطری نتیجہ ہے۔ قانونِ فطرت یہی ہے کہ جو شخص ضد پر اُتر آتا ہے اور بے تعصّبی کے ساتھ صداقت پسند انسان کا سا رویہ اختیار کرنے پر تیّار نہیں ہوتا، اس کے دل کے دروازے ہر اس صداقت کے لیے بند ہو جاتے ہیں جو اس کی خواہشات کے خلاف ہو۔ اس بات کو جب ہم بیان کریں گے تو یوں کہیں گے کہ فلاں شخص کے دل کے دروازے بند ہیں۔ اور اسی بات کو جب اللہ بیان فرمائے گا تو یوں فرمائے گا کہ اس کے دل کے دروازے ہم نے بند کر دیے ہیں۔ کیونکہ ہم صرف واقعہ بیان کرتے ہیں اور اللہ حقیقتِ واقعہ کا اظہار فرماتا ہے۔
۱۸-نادان لوگوں کا عموماً یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص انہیں حق کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ تم نے نئی بات کیا کہی، یہ تو سب وہی پرانی باتیں ہیں جو ہم پہلے سے سُنتے چلے آرہے ہیں۔ گویا ان احمقوں کا نظریہ یہ ہے کہ کسی بات کے حق ہونے کے لیے اس کا نیا ہونا بھی ضروری ہے اور جو بات پرانی ہے وہ حق نہیں ہے۔ حالانکہ حق ہر زمانے میں ایک ہی رہا ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔ خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر جو لوگ انسانوں کی رہنمائی کے لیے آگے بڑھے ہیں وہ سب قدیم ترین زمانہ سے ایک ہی امرِ حق پیش کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی جو اس منبعِ علم سے فائدہ اُٹھا کر کچھ پیش کرے گا وہ اسی پرانی بات کو دُہرائے گا۔ البتہ نئی بات صرف وہی لوگ نکال سکتے ہیں جو خدا کی روشنی سے محروم ہو کر ازلی و ابدی حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے اور اپنے ذہن کی اُپج سے کچھ نظریات گھڑ کر انہیں حق کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ بلاشبہ ایسے نادرہ کار ہو سکتے ہیں کہ وہ بات کہیں جو ان سے پہلے کبھی دنیا میں کسی نے نہ کہی ہو۔
۱۹-یعنی ان کا یہ قول درحقیقت عقل و فکر کے کسی صحیح فیصلے اور کسی حقیقی تبدیلی رائے کا نتیجہ نہ ہو گا بلکہ محض مشاہدۂ حق کا نتیجہ ہو گا جس کے بعد ظاہر ہے کہ کوئی کٹّے سے کٹّا کافر بھی انکار کی جرأت نہیں کر سکتا۔
۲۰-اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی زندگی میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے اور یہ محض کھیل اور تماشے کے طور پر بنائی گئی ہے۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی حقیقی اور پائیدار زندگی کے مقابلہ میں یہ زندگی ایسی ہے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کھیل اور تفریح میں دل بہلائے اور پھر اصل سنجیدہ کاروبار کی طرف واپس ہو جائے۔ نیز اسے کھیل اور تماشے سے تشبیہ اس لیے بھی دی گئی ہے کہ یہاں حقیقت کے مخفی ہونے کی وجہ سے بے بصیرت اور ظاہر پرست انسانوں کے لیے غلط فہمیوں میں مبتلا ہونے کے بہت سے اسباب موجود ہیں اور ان غلط فہمیوں میں پھنس کر لوگ حقیقت نفس الامری کے خلاف ایسے ایسے عجیب طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں جن کی بدولت ان کی زندگی محض ایک کھیل اور تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔ مثلاً جو شخص یہاں بادشاہ بن کر بیٹھتا ہے اس کی حیثیت حقیقت میں تھیئٹر کے اس مصنوعی بادشاہ سے مختلف نہیں ہوتی جو تاج پہن کر جلوہ افروز ہوتا ہے اور اس طرح حکم چلاتا ہے گویا کہ وہ واقعی بادشاہ ہے۔ حالانکہ حقیقی بادشاہی کی اس کو ہوا تک نہیں لگی ہوتی۔ ڈائرکٹر کے ایک اشارے پر وہ معزول ہو جاتا ہے ، قید کیا جاتا ہے اور اس کے قتل تک کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی تماشے اس دُنیا میں ہر طرف ہو رہے ہیں۔ کہیں کسی ولی یا دیوی کے دربار سے حاجت روائیاں ہو رہی ہیں، حالاں کہ وہاں حاجت روائی کی طاقت کا نام و نشان تک موجود نہیں۔ کہیں کوئی غیب دانی کے کمالات کا مظاہرہ کر رہا ہے ، حالاں کہ غیب کے عِلم کا وہاں شائبہ تک نہیں۔ کہیں کوئی لوگوں کا رزاق بنا ہوا ہے ، حالاں کہ بیچارہ خود اپنے رزق کے لیے کسی اَور کا محتاج ہے۔ کہیں کوئی اپنے آپ کو عزّت اور ذلّت دینے والا ، نفع اور نقصان پہنچانے والا سمجھے بیٹھا ہے اور یوں اپنی کبریائی کے ڈنکے بجا رہا ہے گویا کہ وہی گردو پیش کی ساری مخلوق کا خدا ہے ، حالاں کہ بندگی کی ذلت کا داغ اس کی پیشانی پر لگا ہوا ہے اور قسمت کا ایک ذرا سا جھٹکا اسے کبریائی کے مقام سے گر ا کر انہی لوگوں کے قدموں میں پامال کرا سکتا ہے جن پر وہ کل تک خدائی کر رہا تھا۔ یہ سب کھیل جو دنیا کی چند روزہ زندگی میں کھیلے جا رہے ہیں ، موت کی ساعت آتے ہی یکلخت ختم ہو جائیں گے اور اس سرحد سے پار ہوتے ہی انسان اُس عالَم میں پہنچ جائے گا جہاں سب کچھ عین مطابقِ حقیقت ہو گا اور جہاں دُنیوی زندگی کی ساری غلط فہمیوں کے چھلکے اتار کر ہر انسان کو دکھا دیا جائے گا کہ وہ صداقت کا کتنا جوہر اپنے ساتھ لایا ہے جو میزانِ حق میں کسی وزن اور کسی قدر و قیمت کا حامل ہو سکتا ہو۔
۲۱-واقعہ یہ ہے کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کی آیات سنانی شروع نہ کی تھیں، آپ کی قوم کے سب لوگ آپ کو امین اور صادق سمجھتے تھے اور آپ کی راستبازی پر کام اعتماد رکھتے تھے۔ انہوں نے آپ کو جھٹلایا اُس وقت جبکہ آپ نے اللہ کی طرف سے پیغام پہنچانا شروع کیا۔ اور اس دُوسرے دَور میں بھی ان کے اندر کوئی شخص ایسا نہ تھا کہ جو شخصی حیثیت سے آپ کو جھوٹا قرار دینے کی جرأت کر سکتا ہو۔ آپ کے کسی سخت سے سخت مخالف نے بھی کبھی آپ پر یہ الزام نہیں لگایا کہ آپ دنیا کے کسی معاملہ میں کبھی جھُوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے جتنی آپ کی تکذیب کی وہ محض نبی ہونے کی حیثیت سے کی۔ آپ کا سب سے بڑا دشمن ابو جہل تھا اور حضرت علی ؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ اس نے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا انا لا نکذبک ولکن نکذبُ ما جئت بہٖ ’’ ہم آپ کو تو جھوٹا نہیں کہتے ، مگر جو کچھ آپ پیش کر رہے ہیں اُسے جھوٹ قرار دیتے ہیں‘‘۔ جنگِ بدر کے موقع پر اَخْنَس بن شَرِیق نے تخلیہ میں ابُو جہل سے پُوچھا کہ یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی تیسرا موجود نہیں ہے ، سچ بتاؤ کہ محمد ؐ کو تم سچا سمجھتے ہو یا جھُوٹا؟ اس نے جواب دیا کہ ’’خدا کی قسم محمدؐ ایک سچا آدمی ہے ، عمر بھر کبھی جھُوٹ نہیں بولا، مگر جب لِواء اور سقایت اور حجابت اور نبوّت سب کچھ بنی قُصَیّ ہی کے حصّہ میں آ جائے تو بتاؤ باقی سارے قریش کے پاس کیا رہ گیا؟‘‘ اسی بنا پر یہاں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو تسلّی دے رہا ہے کہ تکذیب دراصل تمہاری نہیں بلکہ ہماری کی جا رہی ہے ، اور جب ہم تحمل و بُردباری کے ساتھ اسے برداشت کیے جا رہے ہیں اور ڈھیل پر ڈھیل دیے جاتے ہیں تو تم کیوں مضطرب ہوتے ہو۔
۲۲-یعنی اللہ نے حق اور باطل کی کش مکش کے لیے جو قانون بنا دیا ہے اسے تبدیل کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ حق پرستوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ایک طویل مدّت تک آزمائشوں کی بھٹی میں تپائے جائیں۔ اپنے صبر کا، اپنی راستبازی کا ، اپنے ایثار اور اپنی فدا کاری کا ، اپنے ایمان کی پختگی اور اپنے توکّل علی اللہ کا امتحان دیں۔ مصائب اور مشکلات کے دَور سے گزر کر اپنے اندر وہ صفات پرورش کریں جو صرف اِسی دشوار گزار گھاٹی میں پرورش پا سکتی ہیں۔ اور ابتداءً خالص اخلاقِ فاضلہ و سیرتِ صالحہ کے ہتھیاروں سے جاہلیّت پر فتح حاصل کر کے دکھائیں۔ اس طرح جب وہ اپنا اصلح ہونا ثابت کر دیں گے تب اللہ کی نُصرت ٹھیک اپنے وقت پر ان کی دستگیری کے لیے آ پہنچے گی۔ وقت سے پہلے وہ کسی کے لائے نہیں آ سکتی۔
۲۳-نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب دیکھتے تھے کہ اس قوم کو سمجھاتے سمجھاتے مدّتیں گزر گئی ہیں اور کسی طرح یہ راستی پر نہیں آتی تو بسا اوقات آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ کاش کوئی نشانی خدا کی طرف سے ایسی ظاہر ہو جس سے اِن لوگوں کا کفر ٹُوٹے اور یہ میری صداقت تسلیم کر لیں۔ آپ کی اِسی خواہش کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بے صبری سے کام نہ لو۔ جس ڈھنگ اور جس ترتیب و تدریج سے ہم اس کام کو چلوا رہے ہیں اسی پر صبر کے ساتھ چلے جاؤ۔ معجزوں سے کام لینا ہوتا تو کیا ہم خود نہ لے سکتے تھے ؟ مگر ہم جانتے ہیں کہ جس فکری و اخلاقی انقلاب اور جس مدنیّتِ صالحہ کی تعمیر کے کام پر تم مامور کیے گئے ہو اسے کامیابی کی منزل تک پہنچانے کا صحیح راستہ یہ نہیں ہے۔ تاہم اگر لوگوں کے موجودہ جمُود اور ان کے انکار کی سختی پر تم سے صبر نہیں ہوتا ، اور تمہیں گمان ہے کہ اس جمُود کو توڑنے کے لیے کسی محسُوس نشانی کا مشاہدہ کرانا ہی ضروری ہے ، تو خود زور لگاؤ اور تمہارا کچھ بس چلتا ہو تو زمین میں گھُس کر یا آسمان پر چڑھ کر کوئی ایسا معجزہ لانے کی کوشش کرو جسے تم سمجھو کہ یہ بے یقینی کو یقین میں تبدیل کر دینے کے لیے کافی ہو گا۔ مگر ہم سے اُمید نہ رکھو کہ ہم تمہاری یہ خواہش پوری کریں گے کیونکہ ہماری اسکیم میں اس تدبیر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
۲۴-یعنی اگر صرف یہی بات مطلوب ہوتی کہ تمام انسان کسی نہ کسی طور پر راست رَو بن جائیں تو نبی بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے اور مومنوں سے کفار کے مقابلہ میں جدوجہد کرانے اور دعوتِ حق کو تدریجی تحریک کی منزلوں سے گزروانے کی حاجت ہی کیا تھی۔ یہ کام تو اللہ کے ایک ہی تخلیقی اشارہ سے انجام پا سکتا تھا۔ لیکن اللہ اس کام کو اس طریقہ پر کرنا نہیں چاہتا۔ اس کا منشاء تو یہ ہے کہ حق کو دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ پھر ان میں سے جو لوگ فکرِ صحیح سے کام لے کر حق کو پہچان لیں وہ اپنے آزادانہ اختیار سے اُس پر ایمان لائیں۔ اپنی سیرتوں کو اس کے سانچے میں ڈھال کر باطل پرستوں کے مقابلہ میں اپنا اخلاقی تفوّق ثابت کریں۔ انسانوں کے مجمُوعہ میں سے صالح عناصر کو اپنے طاقتور استدلال ، اپنے بلند نصب العین، اپنے بہتر اُصُولِ زندگی اور اپنی پاکیزہ سیرت کی کشش سے اپنی طرف کھینچتے چلے جائیں۔ اور باطل کے خلاف پیہم جدوجہد کر کے فطری ارتقاء کی راہ سے اقامتِ دینِ حق کی منزل تک پہنچیں۔ اللہ اس کام میں ان کی رہنمائی کرے گا اور جس مرحلہ پر جیسی مدد اللہ سے پانے کا وہ اپنے آپ کو مستحق بنائیں گے وہ مدد بھی انہیں دیتا چلا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی یہ چاہے کہ اس فطری راستے کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ محض اپنی قدرتِ قاہرہ کے زور سے افکارِ فاسدہ کو مٹا کر لوگوں میں فکرِ صالح پھیلا دے اور تمدّنِ فاسد کو نیست و نابود کر کے مدنیّتِ صالحہ تعمیر کر دے ، تو ایسا ہرگز نہ ہو گا کیونکہ یہ اللہ کی اُس حکمت کے خلا ف ہے جس کے تحت اس نے انسان کو دنیا میں ایک ذمّہ دار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے ، اسے تصرّف کے اختیارات دیے ہیں، طاعت و عصیان کی آزادی بخشی ہے ، امتحان کی مُہلت عطا کی ہے ، اور اس کی سعی کے مطابق جزا اور سزا دینے کے لیے فیصلہ کا ایک وقت مقرر کر دیا ہے۔
۲۵-سُننے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر زندہ ہیں ، جنہوں نے اپنی عقل و فکر کو معطّل نہیں کر دیا ہے ، اور جنھوں نے اپنے دل کے دروازوں پر تعصّب اور جمُود کے قفل نہیں چڑھا دیے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں مُردہ وہ لوگ ہیں جو لکیر کے فقیر بنے اندھوں کی طرح چلے جا رہے ہیں اور اس لکیر سے ہٹ کر کوئی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، خواہ وہ صریح حق ہی کیوں نہ ہو۔
۲۶-نشانی سے مراد محسوس معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ معجزہ نہ دکھائے جانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اس کو دکھانے سے عاجز ہیں بلکہ اس کی وجہ کچھ اَور ہے جسے یہ لوگ محض اپنی نادانی سے نہیں سمجھتے۔
۲۷-مطلب یہ ہے کہ اگر تمہیں محض تماش بینی کا شوق نہیں ہے بلکہ فی الواقع یہ معلوم کرنے کے لیے نشانی دیکھنا چاہتے ہو کہ یہ نبی جس چیز کی طرف بُلا رہا ہے وہ امرِ حق ہے یا نہیں ، تو آنکھیں کھول کر دیکھو ، تمہارے گردو پیش ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ زمین کے جانوروں اور ہوا کے پرندوں کی کسی ایک نوع کو لے کر اس کی زندگی پر غور کرو۔ کس طرح اس کی ساخت ٹھیک ٹھیک اس کے مناسبِ حال بنائی گئی ہے۔ کس طرح اس کی جبلّت میں اس کی فطری ضرورتوں کے عین مطابق قوتیں ودیعت کی گئی ہیں۔ کس طرح اس کی رزق رسانی کا انتظام ہو رہا ہے۔ کس طرح اس کی ایک تقدیر مقرر ہے جس کے حُدُود وہ نہ آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ کس طرح ان میں سے ایک ایک جانور اور ایک ایک چھوٹے سے چھوٹے کیڑے کی اُسی مقام پر جہاں وہ ہے ، خبر گیری ، نگرانی، حفاظت اور رہنمائی کی جا رہی ہے۔ کس طرح اس سے ایک مقرر اسکیم کے مطابق کام لیا جا رہا ہے۔ کس طرح اسے ایک ضابطہ کا پابند بنا کر رکھا گیا ہے اور کس طرح اس کی پیدائش ، تناسُل ، اور موت کا سلسلہ پُوری باقاعدگی کے ساتھ چل رہا ہے۔ اگر خدا کی بے شمار نشانیوں میں سے صرف اِسی ایک نشانی پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہو جائے کہ خدا کی توحید اور اس کی صفات کا جو تصوّر یہ پیغمبر تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے اور اس تصوّر کے مطابق دُنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جس رویّہ کی طرف تمہیں دعوت دے رہا ہے وہ عین حق ہے۔ لیکن تم لوگ نہ خود اپنی آنکھیں کھول کر دیکھتے ہو نہ کسی سمجھانے والے کی بات سُنتے ہو۔ جہالت کی تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہو اور چاہتے ہو کہ عجائبِ قدرت کے کرشمے دکھا کر تمہارا دل بہلایا جائے۔
۲۸-خدا کا بھٹکانا یہ ہے کہ ایک جہالت پسند انسان کو آیاتِ الٰہی کے مطالعہ کی توفیق نہ بخشی جائے ، اور ایک متعصّب غیر حقیقت پسند طالب علم اگر آیاتِ الٰہی کا مشاہدہ کرے بھی تو حقیقت رسی کے نشانات اس کی آنکھ سے اوجھل رہیں اور غلط فہمیوں میں اُلجھانے والی چیزیں اسے حق سے دُور اور دُور تر کھینچتی چلی جائیں۔ بخلاف اس کے اللہ کی ہدایت یہ ہے کہ ایک طالبِ حق کو علم کے ذرائع سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق بخشی جائے اور اللہ کی آیات میں اسے حقیقت تک پہنچنے کے نشانات ملتے چلے جائیں۔ ان تینوں کیفیات کی بکثرت مثالیں آئے دن ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ بکثرت انسان ایسے ہیں جن کے سامنے آفاق اور اَنفُس میں اللہ کی بے شمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں مگر وہ جانوروں کی طرح انہیں دیکھتے ہیں اور کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔ اور بہت سے انسان ہیں جو حیوانیات(Zoology)، نباتیات(Botany)، حیَاتیات(Biology)، ارضیات(Geology)، فلکیات(Astronomy)، عضویات (Physiology)، علم التشریح(Anatomy) اور سائنس کی دُوسری شاخوں کا مطالعہ کرتے ہیں ، تاریخ ، آثارِ قدیمہ اور عُلُومِ اجتماع (Social Science) کی تحقیق کرتے ہیں اور ایسی ایسی نشانیاں ان کے مشاہدے میں آتی ہیں جو قلب کو ایمان سے لبریز کر دیں۔ مگر چونکہ وہ مطالعہ کا آغاز ہی تعصّب کے ساتھ کرتے ہیں اور ان کے پیشِ نظر دنیا اور اس کے فوائد و منافع کے سوا کچھ نہیں ہوتا اس لیے اس مشاہدے کے دَوران میں ان کو صداقت تک پہنچانے والی کوئی نشانی نہیں ملتی، بلکہ جو نشانی بھی سامنے آتی ہے وہ انھیں اُلٹی دہریّت ، الحاد، مادّہ پرستی اور نیچریّت ہی کی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔ ان کے مقابلہ میں ایسے لوگ بھی ناپید نہیں ہیں جو آنکھیں کھول کر اس کارگاہِ عالم کو دیکھتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ :
برگِ درختانِ سبز در نَظَرِ ہوشیار
۲۹-گزشتہ آیت میں ارشاد ہوا تھا کہ تم ایک نشانی کا مطالبہ کرتے ہو اور حال یہ ہے کہ تمہارے گرد و پیش ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس سلسلہ میں پہلے مثال کے طور پر حیوانات کی زندگی کے مشاہدہ کی طرف توجّہ دلائی گئی۔ اس کے بعد اب ایک دُوسری نشانی کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے جو خود منکرینِ حق کے اپنے نفس میں موجود ہے۔ جب انسان پر کوئی آفت آ جاتی ہے ، یا موت اپنی بھیانک صُورت کے ساتھ سامنے آ کھڑی ہوتی ہے ، اُس وقت ایک خدا کے دامن کے سوا کوئی دُوسری پناہ گاہ اُسے نظر نہیں آتی۔ بڑے بڑے مشرک ایسے موقع پر اپنے معبُودوں کو بھُول کر خدائے واحد کو پکارنے لگتے ہیں۔ کٹّے سے کٹّا دہریہ تک خدا کے آگے دُعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔ اسی نشانی کو یہاں حق نمائی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے ، کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا پرستی اور توحید کی شہادت ہر انسان کے نفس میں موجود ہے جس پر غفلت و جہالت کے خواہ کتنے ہی پردے ڈال دیے گئے ہوں ، مگر پھر بھی کبھی نہ کبھی وہ اُبھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ ابُو جہل کے بیٹے عِکْرِمہ کو اسی نشانی کے مشاہدے سے ایمان کی توفیق نصیب ہوئی۔ جب مکۂ معظمہ نبی صلی علیہ و سلم کے ہاتھ پر فتح ہو گیا تو عِکْرِمہ جدّہ کی طرف بھاگے اور ایک کشتی پر سوار ہو کر حبش کی راہ لی۔ راستہ میں سخت طوفان آیا اور کشتی خطرہ میں پڑ گئی۔ اوّل اوّل تو دیویوں اور دیوتاؤں کو پکارا جاتا رہا۔ مگر جب طُوفان کی شدّت بڑھی اور مسافروں کو یقین ہو گیا کہ اب کشتی ڈوب جائے گی تو سب کہنے لگے کہ یہ وقت اللہ کے سوا کسی کو پکارنے کا نہیں ہے ، وہی چاہے تو ہم بچ سکتے ہیں۔ اُس وقت عِکْرِمہ کی آنکھیں کھُلیں اور ان کے دل نے آواز دی کہ اگر یہاں اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں تو کہیں اور کیوں ہو۔ یہی تو وہ بات ہے جو اللہ کا وہ نیک بندہ ہمیں بیس برس سے سمجھا رہا ہے اور ہم خواہ مخواہ اس سے لڑ رہے ہیں۔ یہ عِکْرِمہ کی زندگی میں فیصلہ کُن لمحہ تھا۔ انہوں نے اسی وقت خدا سے عہد کیا کہ اگر میں اس طوفان سے بچ گیا تو سیدھا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جاؤں گا اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اس عہد کو پُورا کیا اور بعد میں آ کر نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ اپنی بقیہ عمر اسلام کے لیے جہاد کرتے گزار دی۔
۳۰-یہاں دلوں پر مُہر کرنے سے مراد سوچنے اور سمجھنے کی قوتیں سلب کر لینا چاہیے۔
۳۱-نادان لوگوں کے ذہن میں ہمیشہ سے یہ احمقانہ تصوّر رہا ہے کہ جو شخص خدا رسیدہ ہو اسے انسانیت سے ماوراء ہونا چاہیے ، اُس سے عجائب و غرائب صادر ہونے چاہییں، وہ ایک اشارہ کرے اور پہاڑ سونے کا بن جائے ، وہ حکم دے اور زمین سے خزانے اُبلنے لگیں، اس پر لوگوں کے اگلے پچھلے سب حالات روشن ہوں، وہ بتا دے کہ گم شدہ چیز کہاں رکھی ہے ، مریض بچ جائے گا، حاملہ کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ۔ پھر اس کو انسانی کمزوریوں اور محدودیتوں سے بھی بالاتر ہونا چاہیے۔ بھلا وہ بھی کوئی خدا رسیدہ ہوا جسے بھُوک اور پیاس لگے ، جس کو نیند آئے ، جو بیوی بچّے رکھتا ہو، جو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خرید و فروخت کرتا پھرے۔ جسے کبھی قرض لینے کی ضرورت پیش آئے اور کبھی وہ مفلسی و تنگ دستی میں مبتلا ہو کر پریشان حال رہے۔ اسی قسم کے تصوّرات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے معاصرین کی ذہنیّت پر مسلّط تھے۔ وہ جب آپ ؐ سے پیغمبری کا دعویٰ سُنتے تھے تو آپ ؐ کی صداقت جانچنے کے لیے آپ ؐ سے غیب کی خبریں پوچھتے تھے ، خوارق عادت کا مطالبہ کرتے تھے ، اور آپ کو بالکل عام انسانوں جیسا ایک انسان دیکھ کر اعتراض کرتے تھے کہ یہ اچھا پیغمبر ہے جو کھاتا پیتا ہے ، بیوی بچّے رکھتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ انہی باتوں کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔
۳۲-مطلب یہ ہے کہ میں جن حقیقتوں کو تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں ان کا میں نے مشاہدہ کیا ہے ، وہ براہِ راست میرے تجربہ میں آئی ہیں، مجھے وحی کے ذریعہ سے ان کا ٹھیک ٹھیک علم دیا گیا ہے ، ان کے بارے میں میری شہادت آنکھوں دیکھی شہادت ہے۔ بخلاف اس کے تم ان حقیقتوں کی طرف سے اندھے ہو، تم ان کے بارے میں جو خیالات رکھتے ہو وہ یا تو قیاس و گمان پر مبنی ہیں یا محض اندھی تقلید پر۔ لہٰذا میرے اور تمہارے درمیان بینا اور نابینا کا سا فرق ہے اور اسی اعتبار سے مجھے تم پر فوقیت حاصل ہے ، نہ اس اعتبار سے کہ میرے پاس کوئی خدائی کے خزانے ہیں، یا میں عالمُ الغیب ہوں، یا انسانی کمزوریوں سے مبرّا ہوں۔
۳۳-مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں ایسے مدہوش ہیں کہ انھیں نہ موت کی فکر ہے نہ یہ خیال ہے کہ کبھی ہمیں اپنے خدا کو بھی منہ دکھانا ہے ، ان پر تو یہ نصیحت ہر گز کار گر نہ ہو گی۔ اور اسی طرح ان لوگوں پر بھی اس کا کچھ اثر نہ ہو گا جو اس بے بُنیاد بھروسے پر جی رہے ہیں کہ دُنیا میں ہم جو چاہیں کر گزریں، آخرت میں ہمارا بال تک بیکا نہ ہو گا، کیونکہ ہم فلاں کے دامن گرفتہ ہیں، یا فلاں ہماری سفارش کر دے گا، یا فلاں ہمارے لیے کَفّارہ بن چکا ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو چھوڑ کر تم اپنا رُوئے سخن ان لوگوں کی طرف رکھو جو خدا کے سامنے حاضری کا بھی اندیشہ رکھتے ہوں اور اس کے ساتھ جھوٹے بھروسوں پر پھُولے ہوئے بھی نہ ہوں۔ اس نصیحت کا اثر صرف ایسے ہی لوگوں پر ہو سکتا ہے اور انہی کے درست ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
۳۴-قریش کے بڑے بڑے سرداروں اور کھاتے پیتے لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر منجملہ اور اعتراضات کے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آپ ؐ کے گرد و پیش ہماری قوم کے غلام، موالی اور ادنیٰ طبقہ کے لوگ جمع ہو گئے ہیں۔ وہ طعنہ دیا کرتے تھے کہ اس شخص کو سا تھی بھی کیسے کیسے معزّز لوگ ملے ہیں، بلال، عمّار، صُہَیْب اور خَبّاب۔ بس یہی لوگ اللہ کو ہمارے درمیان ایسے ملے جن کو برگزیدہ کیا جا سکتا تھا! پھر وہ ان ایمان لانے والوں کی خستہ حالی کا مذاق اُڑانے پر ہی اکتفا نہ کرتے تھے ، بلکہ ان سے جس جس سے کبھی پہلے کوئی اخلاقی کمزوری ظاہر ہوئی تھی اس پر بھی حرف گیریاں کرتے تھے ، اور کہتے تھے کہ فلاں جو کل تک یہ تھا اور فلاں جس نے یہ کیا تھا آج وہ بھی اس ’’ برگزیدہ گروہ‘‘ میں شامل ہے۔ انہی باتوں کا جواب یہاں دیا جا رہا ہے۔
۳۵-یعنی ہر شخص اپنے عیب و صواب کا ذمّہ دار آپ ہی ہے۔ ان مسلمان ہونے والوں میں سے کسی شخص کی جواب دہی کے لیے تم کھڑے نہ ہو گے اور نہ تمہاری جواب دہی کے لیے ان میں سے کوئی کھڑا ہو گا۔ تمہارے حصّہ کی کوئی نیکی یہ تم سے چھین نہیں سکتے اور اپنے حصّہ کی کوئی بدی تم پر ڈال نہیں سکتے۔ پھر جب یہ محض طالبِ حق بن کر تمہارے پاس آتے ہیں تو آخر تم کیوں انہیں اپنے سے دُور پھینکو۔
۳۶-یعنی غریبوں اور مفلسوں اور ایسے لوگوں کو جو سوسائیٹی میں ادنیٰ حیثیت رکھتے ہیں، سب سے پہلے ایمان کی توفیق دے کر ہم نے دولت اور عزّت کا گھمنڈ رکھنے والے لوگوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔
۳۷-جو لوگ اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے تھے ان میں بکثرت لوگ ایسے بھی تھے جن سے زمانۂ جاہلیّت میں بڑے بڑے گناہ ہو چکے تھے۔ اب اسلام قبول کرنے کے بعد اگرچہ ان کی زندگیاں بالکل بدل گئی تھیں ، لیکن مخالفینِ اسلام اُن کو سابق زندگی کے عُیُوب اور افعال کے طعنے دیتے تھے۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اہلِ ایمان کو تسلّی دو۔ انہیں بتا ؤ کہ جو شخص توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے اس کے پچھلے قُصُوروں پر گرفت کرنے کا طریقہ اللہ کے ہاں نہیں ہے۔
۳۸-’’اس طرح‘‘ کا اشارہ اُس پُورے سلسلہ ٔ تقریر کی طرف ہے جو چوتھے رکوع کی اِس آیت سے شروع ہوا تھا ، ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی کیوں نہیں اُتری‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی صاف اور صریح دلیلوں اور نشانیوں کے بعد بھی جو لوگ اپنے کفر و انکار پر اصرار ہی کیے چلے جائیں ان کا مجرم ہونا بالکل غیر مشتبہ طور پر ثابت ہوا جاتا ہے اور حقیقت بالکل آئینہ کی طرح نمایاں ہوئی جاتی ہے کہ دراصل یہ لوگ ضلالت پسندی کی بنا پر یہ راہ چل رہے ہیں نہ اس بنا پر کہ راہِ حق کے دلائل واضح نہیں ہیں یا یہ کہ کچھ دلیلیں ان کی اس گمراہی کے حق میں بھی موجود ہیں۔
۳۹-اشارہ ہے عذابِ الٰہی کی طرف۔ مخالفین کہتے تھے کہ اگر تم خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی ہو اور ہم کھُلم کھُلا تمہیں جھُٹلا رہے ہیں تو کیوں نہیں خدا کا عذاب ہم پر ٹُوٹ پڑتا؟ تمہارے مامور من اللہ ہونے کا تقاضا تو یہ تھا کہ اِدھر کوئی تمہاری تکذیب یا توہین کرتا اور اُدھر فوراً زمین دھنستی اور وہ اس میں سما جاتا ، یا بجلی گرتی اور وہ بھسم ہو جاتا۔ یہ کیا ہے کہ خدا کا فرستادہ اور اس پر ایمان لانے والے تو مصیبتوں پر مصیبتیں اور ذلّتوں پر ذلّتیں سہ رہے ہیں اور ان کو گالیاں دینے اور پتھر مارنے والے چین کیے جاتے ہیں؟
۴۰-یعنی ایسے فرشتے جو تمہاری ایک ایک جنبش اور ایک ایک بات پر نگاہ رکھتے ہیں اور تمہاری ہر ہر حرکت کا ریکارڈ محفوظ کرتے رہتے ہیں۔
۴۱-یعنی یہ حقیقت کہ تنہا اللہ ہی قادرِ مطلق ہے ، اور وہی تمام اختیارات کا مالک اور تمہاری بھَلائی اور بُرائی کا مختارِ کُل ہے ، اور اسی کے ہاتھ میں تمہاری قسمتوں کی باگ دوڑ ہے ، اِس کی شہادت تو تمہارے اپنے نفس میں موجود ہے۔ جب کوئی سخت وقت آتا ہے اور اسباب کے شرارے رشتے ٹوٹتے نظر آتے ہیں تو اس وقت تم بے اختیار اُسی کی طرف رجوع کرتے ہو۔ لیکن اس کھُلی علامت کے ہوتے ہوئے بھی تم نے خدائی میں بلا دلیل و حجّت اور بلا ثبُوت دُوسروں کو اس کا شریک بنا رکھا ہے۔ پلتے ہو اس کے رزق پر اور اَن داتا بناتے ہو دُوسروں کو۔ مدد پاتے ہو اس کے فضل و کرم سے اور حامی و ناصر ٹھیراتے ہو دُوسروں کو۔ غلام ہو اس کے اور بندگی بجا لاتے ہو دُوسروں کی۔ مشکل کشائی کرتا ہے وہ ، بُرے وقت پر گِڑگِڑ اتے ہو اس کے سامنے ، اور جب وہ وقت گزر جاتا ہے تو تمہارے مشکل کشا بن جاتے ہیں دُوسرے اور نذریں اور نیازیں چڑھنے لگتی ہیں دُوسروں کے نام کی۔
۴۲-جو لوگ عذابِ الٰہی کو اپنے سے دُور پا کر حق دشمنی میں جرأت پر جرأت دکھا رہے تھے انہیں متنبّہ کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے عذاب کو آتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ ہوا کا ایک طوفان تمہیں اچانک برباد کر سکتا ہے۔ زلزلے کا ایک جھٹکا تمہاری بستیوں کو پیوندِ خاک کر دینے کے لیے کافی ہے۔ قبیلوں اور قوموں اور ملکوں کی عداوتوں کے میگزین میں ایک چنگاری وہ تباہی پھیلا سکتی ہے کہ سالہا سال تک خونریزی و بدامنی سے نجات نہ ملے۔ پس اگر عذاب نہیں آ رہا ہے تو یہ تمہارے لیے غفلت و مدہوشی کی پِینَک نہ بن جائے کہ مطمئن ہو کر صحیح و غلط کا امتیاز کیے بغیر اندھوں کی طرح زندگی کے راستے پر چلتے رہو۔ غنیمت سمجھو کہ اللہ تمہیں مُہلت دے رہا ہے اور وہ نشانیاں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے جن سے تم حق کو پہچان کر صحیح راستہ اختیار کر سکو۔
۴۳-یعنی میرا یہ کام نہیں ہے کہ جو کچھ تم نہیں دیکھ رہے ہو وہ زبردستی تمہیں دکھاؤں اور جو کچھ تم نہیں سمجھ رہے ہو وہ بزور تمہاری سمجھ میں اتار دوں۔ اور میرا یہ کام بھی نہیں ہے کہ اگر تم نہ دیکھو اور نہ سمجھو تو تم پر عذاب نازل کر دوں۔ میرا کام صرف حق اور باطل کو ممیز کر کے تمہارے سامنے پیش کر دینا ہے۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو جس بُرے انجام سے میں تمہیں ڈراتا ہوں وہ اپنے وقت پر خود تمہارے سامنے آ جائے گا۔
۴۴-یعنی اگر کسی وقت ہماری یہ ہدایت تمہیں یاد نہ رہے اور تم بھُولے سے ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھے رہ جاؤ۔
۴۵-مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا کی نافرمانی سے خود بچ کر کام کرتے ہیں ان پر نافرمانوں کے کسی عمل کی ذمہ داری نہیں ہے ، پھر وہ کیوں خواہ مخواہ اس بات کو اپنے اوپر فرض کر لیں کہ ان نافرمانوں سے بحث و مناظرہ کر کے ضرور انہیں قائل کر کے ہی چھوڑیں گے ، اور ان کے ہر لغو و مہمل اعتراض کا جواب ضرور ہی دیں گے ، اور اگر وہ نہ مانتے ہوں تو کسی نہ کسی طرح منوا کر ہی رہیں گے۔ ان کا فرض بس اتنا ہے کہ جنہیں گمراہی میں بھٹکتے دیکھ رہے ہوں انہیں نصیحت کریں اور حق بات ان کے سامنے پیش کر دیں۔ پھر اگر وہ نہ مانیں اور جھگڑے اور بحث اور حجت بازیوں پر اُتر آئیں تو اہلِ حق کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کے ساتھ دماغی کُشتیاں لڑنے میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کرتے پھریں۔ ضلالت پسند لوگوں کے بجائے انہیں اپنے وقت اور اپنی قوتوں کو اُن لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و تلقین پر صرف کرنی چاہیے جو خود طالبِ حق ہوں۔
۴۶-قرآن میں یہ بات جگہ جگہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے یا حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یہ ارشاد بہت وسیع معانی پر مشتمل ہے۔
اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تخلیق محض کھیل کے طور پر نہیں ہوئی ہے۔ یہ ایشور جی کی لِیلا نہیں ہے۔ یہ کسی بچے کا کھلونا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے وہ اس سے کھیلتا رہے اور پھر یونہی اُسے توڑ پھوڑ کر پھینک دے۔ دراصل یہ ایک نہایت سنجیدہ کام ہے جو حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے ، ایک مقصدِ عظیم اس کے اندر کارفرما ہے ، اور اس کا ایک دَور گزر جانے کے بعد ناگزیر ہے کہ خالق اُس پُورے کام کا حساب لے جو اُس دَور میں انجام پایا ہو اور اسی دَور کے نتائج پر دُوسرے دَور کی بُنیاد رکھے۔ یہی بات ہے جو دُوسرے مقامات پر یوں بیان کی گئی ہے : رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَا طِلاً۔’’اے ہمارے ربّ، تُو نے یہ سب کچھ فضول پیدا نہیں کیا ہے ‘‘۔ اور وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآ ءَ وَالْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ۔’’ ہم نے آسمان و زمین اور ان چیزوں کو جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں کھیل کے طور پیدا نہیں کیا ہے ‘‘۔ اور اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُر ْجَعُوْنَ۔’’ تو کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمھیں یونہی فضول پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف واپس نہ لائے جاؤ گے ‘‘ ؟
دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے یہ سارا نظامِ کائنات حق کی ٹھوس بُنیادوں پر قائم کیا ہے۔ عدل اور حکمت اور راستی کے قوانین پر اس کی ہر چیز مبنی ہے۔ باطل کے لیے فی الحقیقت اس نظام میں جڑ پکڑنے اور بار آور ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہ اَور بات ہے کہ اللہ باطل پرستوں کو موقع دے دے کہ وہ اگر اپنے جھُوٹ اور ظلم اور نا راستی کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اپنی کوشش کر دیکھیں۔ لیکن آخر کار زمین باطل کے ہر بیج کو اُگل کر پھینک دے گی اور آخری فرد حساب میں ہر باطل پرست دیکھ لے گا کہ جو کوششیں اس نے اس شجرِ خبیث کی کاشت اور آبیاری میں صرف کیں وہ سب ضائع ہو گئیں۔
تیسرا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اس ساری کائنات کو بربنائے حق پیدا کیا ہے اور اپنے ذاتی حق کی بنا پر ہی وہ اس پر فرماں روائی کر رہا ہے۔ اس کا حکم یہاں اس لیے چلتا ہے کہ وہی اپنی پیدا کی ہوئی کائنات میں حکمرانی کا حق رکھتا ہے۔ دُوسروں کا حکم اگر بظاہر چلتا نظر بھی آتا ہے تو اس سے دھوکا نہ کھاؤ، فی الحقیقت نہ ان کا حکم چلتا ہے ، نہ چل سکتا ہے ، کیونکہ کائنات کی کسی چیز پر بھی ان کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اس پر اپنا حکم چلائیں۔
۴۷-صُور پھونکنے کی صحیح کیفیت کیا ہو گی، اس کی تفصیل ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ قرآن سے جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ قیامت کے روز اللہ کے حکم سے ایک مرتبہ صُور پھُونکا جائے گا اور سب ہلاک ہو جائیں گے۔ پھر نا معلوم کتنی مدّت بعد، جسے اللہ ہی جانتا ہے ، دُوسرا صُور پھُونکا جائے گا اور تمام اوّلین و آخرین از سرِ نو زندہ ہو کر اپنے آپ کو میدانِ حشر میں پائیں گے۔ پہلے صُور پر سارا نظامِ کائنات درہم برہم ہو گا اور دُوسرے صُور پر ایک دُوسرا نظام نئی صُورت اور نئے قوانین کے ساتھ قائم ہو جائے گا۔
۴۸-یہ مطلب نہیں ہے کہ آج پادشاہی اس کی نہیں ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُس روز جب پردہ اُٹھایا جائے گا اور حقیقت بالکل سامنے آ جائے گی تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ سب جو با اختیار نظر آتے تھے ، یا سمجھے جاتے تھے ، بالکل بے اختیار ہیں اور پادشاہی کے سارے اختیارات اسی ایک خدا کے لیے ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے۔
۴۹-غیب = وہ سب کچھ جو مخلوقات سے پوشیدہ ہے۔
شہادت = وہ سب کچھ جو مخلوقات کے لیے ظاہر و معلوم ہے۔
۵۰-یہاں حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ کا ذکر اس امر کی تائید اور شہادت میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جس طرح اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اور آپ ؐ کے ساتھیوں نے شرک کا انکار کیا ہے اور سب مصنوعی خداؤں سے منہ موڑ کر صرف ایک مالکِ کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کر دیا ہے اسی طرح کل یہی کچھ ابراہیمؑ بھی کر چکے ہیں۔ اور جس طرح آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان پر ایمان لانے والوں سے ان کی جاہل قوم جھگڑ رہی ہے اسی طرح کل حضرت ابراہیمؑ سے بھی ان کی قوم یہی جھگڑا کر چکی ہے۔ اور کل جو جواب حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم کو دیا تھا آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے پیرووں کی طرف سے ان کی قوم کو بھی وہی جواب ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس راستہ پر ہیں جو نوحؑ اور ابراہیمؑ اور نسلِ ابراہیمی کے تمام انبیاء کا راستہ رہا ہے۔ اب جو لوگ ان کی پیروی سے انکار کر رہے ہیں انھیں معلوم ہو جانا چاہیے کہ وہ انبیاء کے طریقہ سے ہٹ کر ضلالت کی راہ پر جا رہے ہیں۔
یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ عرب کے لوگ بالعموم حضرت ابراہیمؑ کو اپنا پیشوا اور مقتدا مانتے تھے۔ خصُوصاً قریش کے تو فخر و ناز کی ساری بُنیاد ہی یہ تھی کہ وہ ابراہیم علیہ السّلام کی اولاد اور ان کے تعمیر کردہ خانۂ خدا کے خادم ہیں۔ اس لیے ان کے سامنے حضرت ابراہیمؑ کے عقیدۂ توحید کا اور شرک سے اُن کا انکار اور مشرک قوم سے اُن کی نزاع کا ذکر کرنے کے معنی یہ تھے کہ قریش کا سارا سرمایۂ فخر و ناز اور کفارِ عرب کا اپنے مشرکانہ دین پر سارا اطمینان ان سے چھین لیا جائے اور اُن پر ثابت کر دیا جائے کہ آج مسلمان اُس مقام پر ہیں جس پر حضرت ابراہیمؑ تھے اور تمہاری حیثیت وہ ہے جو حضرت ابراہیمؑ سے لڑنے والی جاہل قوم کی تھی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے معتقدوں اور قادری النسب پیر زادوں کے سامنے حضرت شیخ کی اصل تعلیمات اور ان کی زندگی کے واقعات پیش کر کے یہ ثابت کر دے کہ جن بزرگ کے تم نام لیوا ہو، تمہارا اپنا طریقہ ان کے بالکل خلاف ہے اور تم نے آج انہی گمراہ لوگوں کی حیثیت اختیار کر لی ہے جن کے خلاف تمہارے مقتدا تمام عمر جہاد کرتے رہے۔
۵۱-یعنی جس طرح تم لوگوں کے سامنے آثارِ کائنات نمایاں ہیں اور اللہ کی نشانیاں تمھیں دکھائی جا رہی ہیں، اُسی طرح ابراہیمؑ کے سامنے بھی یہی آثار تھے اور یہی نشانیاں تھیں۔ مگر تم لوگ انھیں دیکھنے پر بھی اندھوں کی طرح کچھ نہیں دیکھتے اور ابراہیمؑ نے انھیں آنکھیں کھول کر دیکھا۔ یہی سُورج اور چاند اور تارے جو تمہارے سامنے طلوع و غروب ہوتے ہیں اور روزانہ تم کو جیسا گمراہ طلوع ہوتے وقت پاتے ہیں ویسا ہی غروب ہوتے وقت چھوڑ جاتے ہیں، انہی کو اُس آنکھوں والے انسان نے بھی دیکھا تھا اور انہی نشانات سے وہ حقیقت تک پہنچ گیا۔
۵۲-اس مقام کو اور قرآن کے اُن دُوسرے مقامات کو جہاں حضرت ابراہیمؑ سے اُن کی قوم کی نزاع کا ذکر آیا ہے ، اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی قوم کے مذہبی و تمدّنی حالات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ جدید اثری تحقیقات کے سلسلہ میں نہ صرف وہ شہر دریافت ہو گیا ہے جہاں حضرت ابراہیمؑ پیدا ہوئے تھے ، بلکہ دَورِ ابراہیمی میں اُس علاقے کے لوگوں کی جو حالت تھی اس پر بھی بہت کچھ روشنی پڑی ہے۔ سر لیو نارڈو وُلی (Sir Leonard Woolley)نے اپنی کتاب ( ,Abraham’’ London, ۱۹۳۵‘‘) میں اس تحقیقات کے جو نتائج شائع کیے ہیں ان کا خلاصہ ہم یہاں درج کرتے ہیں۔
اندازہ کیا گیا ہے کہ سن ۲۱۰۰ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں ، جسے اب عام طور پر محققین حضرت ابراہیمؑ کے ظہُور کا زمانہ تسلیم کرتے ہیں ، شہر اُر کی آبادی ڈھائی لاکھ کے قریب تھی اور بعید نہیں کہ پانچ لاکھ ہو۔ بڑا صنعتی و تجارتی مرکز تھا۔ ایک طرف پامیر اور نیلگری تک سے وہاں مال آتا تھا اور دُوسری طرف اناطولیہ تک سے اس کے تجارتی تعلقات تھے۔ جِس ریاست کا یہ صدر مقام تھا اس کے حدود موجودہ حکومتِ عراق سے شمال میں کچھ کم اور مغرب میں کچھ زیادہ تھے۔ ملک کی آبادی بیشتر صنعت و تجارت پیشہ تھی۔ اس عہد کی جو تحریرات آثارِ قدیمہ کے کھنڈروں میں دستیاب ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں ان لوگوں کا نقطۂ نظر خالص مادّہ پرستانہ تھا۔ دولت کمانا اور زیادہ سے زیادہ آسائش فراہم کرنا ان کا سب سے بڑا مقصدِ حیات تھا۔ سُود خواری کثرت سے پھیلی ہوئی تھی۔ سخت کاروباری قسم کے لوگ تھے۔ ہر ایک دُوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور آپس میں بہت مقدمہ بازیاں ہوتی تھیں۔ ا پنے خداؤں سے ان کی دُعائیں زیادہ تر درازیِ عمر ، خوش حالی اور کاروبار کی ترقی سے متعلق ہوا کرتی تھیں۔ آبادی تین طبقوں پر مشتمل تھی:
(۱) عَمیلو - یہ اُونچے طبقے کے لوگ تھے جن میں پُجاری ، حکومت کے عہدہ دار اور فوجی افسر وغیرہ شامل تھے۔
(۲) مِشکینو - یہ تجار، اہلِ صنعت اور زراعت پیشہ لوگ تھے۔
ان میں سے پہلے طبقہ ، یعنی عَمیلو کو خاص امتیازات حاصل تھے۔ ان کے فوجداری اور دیوانی حقوق دُوسروں سے مختلف تھے ، اور ان کی جان و مال کی قیمت دُوسروں سے بڑھ کرتھی۔
یہ شہر اور یہ معاشرہ تھا جس میں حضرت ابراہیمؑ نے آنکھیں کھولیں۔ ان کا اور ان کے خاندان کا جو حال ہمیں تَلمود میں ملتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عَمیلو طبقہ کے ایک فرد تھے اور ان کا باپ ریاست کا سب سے بڑا عہدہ دار تھا۔(دیکھو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۹۰)۔
اُر کے کتبات میں تقریباً ۵ ہزار خداؤں کے نام ملتے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں کے الگ الگ خدا تھے۔ ہر شہر کا ایک خاص محافظ خدا ہوتا تھا جو ربُّ البلد، مہادیو، یا رئیس الآلہہ سمجھا جاتا تھا اور اس کا احترام دُوسرے معبُودوں سے زیادہ ہوتا تھا۔ اُرکا ربّ البلد’’نَنّار‘‘(چاند دیوتا) تھا اور اسی مناسبت سے بعد کے لوگوں نے اس شہر کا نام’’قمرینہ‘‘ بھی لکھا ہے۔ دُوسرا بڑا شہر لَرسہ تھا جو بعد میں اُر کے بجائے مرکزِ سلطنت ہوا۔ اُس کا ربّ البلد ’’شماش‘‘ (سُورج دیوتا) تھا۔ ان بڑے خداؤں کے ماتحت بہت سے چھوٹے خدا بھی تھے جو زیادہ تر آسمانی تاروں اور سیاروں میں سے اور کم تر زمین سے منتخب کیے گئے تھے اور لوگ اپنی مختلف فروعی ضروریات ان سے متعلق سمجھتے تھے۔ ان آسمانی اور زمینی دیوتاؤں اور دیویوں کی شبیہیں بُتوں کی شکل میں بنالی گئی تھیں اور تمام مراسمِ عبادت انہی کے آگے بجا لائے جاتے تھے۔
’’ننار‘‘ کا بُت اُر میں سب سے اُونچی پہاڑی پر ایک عالی شان عمارت میں نصب تھا۔ اسی کے قریب ’’ننار‘‘ کی بیوی ’’نن گل‘‘ کا مَعبد تھا۔ ننار کے مَعبد کی شان ایک شاہی محل سرا کی سی تھی۔ اس کی خواب گاہ میں روزانہ رات کو ایک پوجا رن جا کر اس کی دُلہن بنتی تھی۔ مندر میں بکثرت عورتیں دیوتا کے نام پر وقف تھیں اور ان کی حیثیت دیو داسیوں(Religious Prostitutes) کی سی تھی۔ وہ عورت بڑی معزّز خیال کی جاتی تھی جو ’’خدا ‘‘ کے نام پر اپنی بکارت قربان کر دے۔ کم از کم ایک مرتبہ اپنے آپ کو ’’راہِ خدا‘‘ میں کسی اجنبی کے حوالہ کرنا عورت کے لیے ذریعہ ٔ نجات خیال کیا جاتا تھا۔ اب یہ بیان کرنا کچھ ضروری نہیں کہ اس مذہبی قحبہ گری سے مستفید ہونے والے زیادہ تر پجاری حضرات ہی ہوتے تھے۔
ننار محض دیوتا ہی نہ تھا بلکہ ملک کا سب سے بڑا زمیندار ، سب سے بڑا تاجر، سب سے بڑا کارخانہ دار اور ملک کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا حاکم بھی تھا۔ بکثرت باغ، مکانات اور زمینیں اس مندر کے لیے وقف تھیں۔ اس جائیداد کی آمدنی کے علاوہ وہ کسان، زمیندار ، تجّار سب ہر قسم کے غلّے ، دُودھ ، سونا ، کپڑا اور دُوسری چیزیں لا کر مندر میں نذر بھی کرتے تھے جنہیں وصُول کرنے کے لیے مندر میں ایک بہت بڑا اسٹاف موجود تھا۔ بہت سے کارخانے مندر کے ماتحت قائم تھے۔ تجارتی کاروبار بھی بہت بڑے پیمانے پر مندر کی طرف سے ہوتا تھا۔ یہ سب کام دیوتا کی نیابت میں پجاری ہی انجام دیتے تھے۔ پھر ملک کی سب سے بڑی عدالت مندر ہی تھی۔ پجاری اس کے جج تھے اور ان کے فیصلے ’’خدا‘‘ کے فیصلے سمجھے جاتے تھے۔ خود شاہی خاندان کی حاکمیت بھی ننار ہی سے ماخوذ تھی۔ اصل بادشاہ ننار تھا اور فرماں روائے ملک اس کی طرف سے حکومت کرتا تھا۔ اس تعلق سے بادشاہ خود بھی معبُودوں میں شامل ہو جاتا تھا اور خداؤں کے مانند اس کی پرستش کی جاتی تھی۔
اُر کا شاہی خاندان جو حضرت ابراہیمؑ کے زمانہ میں حکمران تھا، اس کے بانیٔ اوّل کا نام اُرنَمُوّ تھا جس نے ۲۳۰۰ برس قبل مسیح میں ایک وسیع سلطنت قائم کی تھی۔ اس کے حُدُودِ مملکت مشرق میں سوسہ سے لے کر مغرب میں لُبنان تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُسی سے اس خاندان کو ’’نَمُوّ‘‘ کا نام ملا جو عربی میں جا کر نمرود ہو گیا۔ حضرت ابراہیمؑ کی ہجرت کے بعد اس خاندان اور اس قوم پر مسلسل تباہی نازل ہونی شروع ہوئی۔ پہلے عیلامیوں نے اُر کو تباہ کیا اور نمرُود کے ننار کے بُت سمیت پکڑ لے گئے۔ پھر لرسہ میں ایک عیلامی حکومت قائم ہوئی جس کے ماتحت اُر کا علاقہ غلام کی حیثیت سے رہا۔ آخر کار ایک عربی النسل خاندان کے ماتحت بابِل نے زور پکڑا اور لرسہ اور اُر دونوں اس کے زیرِ حکم ہو گئے۔ ان تباہیوں نے ننار کے ساتھ اُر کے لوگوں کا عقیدہ متزلزل کر دیا کیونکہ وہ ان کی حفاظت نہ کر سکا۔
تعیّن کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ بعد کے ادوار میں حضرت ابراہیمؑ کی تعلیمات کا اثر اس ملک کے لوگوں نے کہا ں تک قبول کیا۔ لیکن سن ۱۹۱۰ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ حمورائی (بائیبل کے اَمُرافیل) نے جو قوانین مرتب کیے تھے وہ شہادت دیتے ہیں کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کی تدوین میں مشکوٰۃِ نبوّت سے حاصل کی ہوئی روشنی کسی حد تک ضرور کار فرما تھی۔ ان قوانین کا مفصل کتبہ سن ۱۹۰۲ بعد مسیح میں ایک فرانسیسی مفتش آثارِ قدیمہ کو ملا اور اس کا انگریزی ترجمہ C.H.W. John نے سن ۱۹۰۳ بعد مسیح میں( The Oldest Code of Law ) کے نام سے شائع کیا۔ اس ضابطۂ قوانین کے بہت سے اُصُول اور فروع موسوی شریعت سے مشابہت رکھتے ہیں۔
یہ اب تک کی اثری تحقیقات کے نتائج اگر صحیح ہیں تو ان سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی قوم میں شرک محض ایک مذہبی عقیدہ اور بُت پرستانہ عبادات کا مجمُوعہ ہی نہ تھا بلکہ درحقیقت اس قوم کی پُوری معاشی ، تمدّنی ، سیاسی اور معاشرتی زندگی کا نظام اسی عقیدے پر مبنی تھا۔ اس کے مقابلہ میں حضرت ابراہیمؑ توحید کی جو دعوت لے کر اُٹھے تھے اس کا اثر صِرف بُتوں کی پرستش ہی پر نہ پڑتا تھا بلکہ شاہی خاندان کی معبُودیت اور حاکمیت، پجاریوں اور اُونچے طبقوں کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی حیثیت ، اور پورے ملک کی اجتماعی زندگی اس کی زد میں آئی جاتی تھی۔ اُن کی دعوت کی قبول کرنے کے معنی یہ تھے کہ نیچے سے اُوپر تک ساری سوسائیٹی کی عمارت ادھیڑ ڈالی جائے اور اسے از سرِ نو توحیدِ الٰہ کی بُنیاد پر تعمیر کیا جائے۔ اِسی لیے ابراہیم علیہ السّلام کی آواز بلند ہوتے ہی عوام اور خواص، پجاری اور نمرود سب کے سب بیک وقت اس کو دبانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔
۵۳-’’یہاں حضرت ابراہیمؑ کے اُس ابتدائی تفکّر کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو منصبِ نبوّت پر سرفراز ہونے سے پہلے اُن کے لیے حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ بنا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک صحیح الدّماغ اور سلیم النظر انسان، جس نے سراسر شرک کے ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں ، اور جسے توحید کی تعلیم کہیں سے حاصل نہ ہو سکی تھی ، کس طرح آثارِ کائنات کا مشاہدہ کر کے اور ان پر غور و فکر اور ان سے صحیح استدلال کر کے امرِ حق معلوم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اوپر قومِ ابراہیمؑ کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے جب ہوش سنبھالا تھا تو ان کے گرد و پیش ہر طرف چاند ، سُورج اور تاروں کی خدائی کے ڈنکے بج رہے تھے۔ اس لیے قدرتی طور پر حضرت ابراہیمؑ کی جستجوئے حقیقت کا آغاز اسی سوال سے ہونا چاہیے تھا کہ کیا فی الواقع ان میں سے کوئی ربّ ہو سکتا ہے ؟ اسی مرکزی سوال پر انھوں نے غور و فکر کیا اور آخر کار اپنی قوم کے سارے خداؤں کو ایک اٹل قانون کے تحت غلاموں کی طرح گردش کرتے دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ جن جن کے رب ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ان میں سے کسی کے اندر بھی ربُوبیّت کا شائبہ تک نہیں ہے ، ربّ صرف وہی ایک ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور بندگی پر مجبُور کیا ہے۔
اس قصّہ کے الفاظ سے عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ جو ارشاد ہوا ہے کہ جب رات طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا ، اور جب وہ ڈوب گیا تو یہ کہا، پھر چاند دیکھا اور جب وہ ڈوب گیا تو یہ کہا، پھر سُورج دیکھا اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو یہ کہا، اس پر ایک عام ناظر کے ذہن میں فوراً یہ سوال کھٹکتا ہے کہ کیا بچپن سے آنکھ کھولتے ہی روزانہ حضرت ابراہیمؑ پر رات طاری نہ ہوتی رہی تھی اور کیا وہ ہر روز چاند ، تاروں اور سُورج کو طلوع و غروب ہوتے نہ دیکھتے تھے ؟ ظاہر ہے کہ یہ غور و فکر تو انہوں نے سنِ رُشد کو پہنچنے کے بعد ہی کیا ہو گا۔ پھر یہ قصّہ اس طرح کیوں بیان کیا گیا ہے کہ جب رات ہوئی تو یہ دیکھا اور دن نکلا تو یہ دیکھا؟ گویا اس خاص واقعہ سے پہلے انھیں یہ چیزیں دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا، حالانکہ ایسا ہونا صریحاً مستبعد ہے۔ یہ شبہ بعض لوگوں کے لیے اس قدر ناقابلِ حل بن گیا کہ اسے دفع کرنے کی کوئی صُورت انھیں اس کے سوا نظر نہ آئی کہ حضرت ابراہیمؑ کی پیدائش اور پرورش کے متعلق ایک غیر معمُولی قصّہ تصنیف کریں۔ چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی پیدائش اور پرورش ایک غار میں ہوئی تھی جہاں سنِ رشد کو پہنچنے تک وہ چاند، تاروں اور سُورج کے مشاہدے سے محروم رکھے گئے تھے۔ حالانکہ بات بالکل صاف ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے اس نوعیت کی کسی داستان کی ضرورت نہیں ہے۔ نیوٹن کے متعلق مشہُور ہے کہ اس نے باغ میں ایک سیب کو درخت سے گرتے دیکھا اور اس سے اس کا ذہن اچانک اس سوال کی طرف متوجّہ ہو گیا کہ اشیاء آخر زمین پر ہی کیوں گِرا کرتی ہیں ، یہاں تک غور کرتے کرتے وہ قانونِ جذب و کشش کے استنباط تک پہنچ گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس واقعہ سے پہلے نیوٹن نے کبھی کوئی چیز زمین پر گرتے نہیں دیکھی تھی؟ ظاہر ہے کہ ضرور دیکھی ہو گی اور بارہا دیکھی ہو گی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اُسی خاص تاریخ کو سیب گِرنے کے مشاہدے سے نیوٹن کے ذہن میں وہ حرکت پیدا ہوئی جو اس سے پہلے روزمرّہ کے ایسے سینکڑوں مشاہدات سے نہ ہوئی تھی؟ اس کا جواب اگر کچھ ہو سکتا ہے تو یہی کہ غور و فکر کرنے والا ذہن ہمیشہ ایک طرح کے مشاہدات سے ایک ہی طرح متأثر نہیں ہوا کرتا۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک چیز کو ہمیشہ دیکھتا رہتا ہے اور اس کے ذہن میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی، مگر ایک وقت اُسی چیز کو دیکھ کر یکایک ذہن میں ایک کھٹک پیدا ہو جاتی ہے جس سے فکر کی قوتیں ایک خاص مضمون کی طرف کام کرنے لگتی ہیں۔ یا پہلے سے کسی سوال کی تحقیق میں ذہن اُلجھ رہا ہوتا ہے اور یکایک روزمرّہ ہی کی مشاہدات میں سے کسی ایک چیز پر نظر پڑتے ہی گتھی کا و ہ سرا ہاتھ لگ جاتا ہے جس سے ساری اُلجھنیں سلجھتی چلی جاتی ہیں۔ ایسا ہی معاملہ حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ بھی پیش آیا۔ راتیں روز آتی تھیں اور گزر جاتی تھیں۔ سُورج اور چاند اور تارے سب ہی آنکھوں کے سامنے ڈوبتے اور اُبھرتے رہتے تھے۔ لیکن وہ ایک خاص دن تھا جب ایک تارے کے مشاہدے نے ان کے ذہن کو اُس راہ پر ڈال دیا جس سے بالآخر وہ توحیدِ الٰہ کی مرکزی حقیقت تک پہنچ کر رہے۔ ممکن ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا ذہن پہلے سے اس سوال پر غور کر رہا ہو کہ جن عقائد پر ساری قوم کا نظامِ زندگی چل رہا ہے ان میں کس حد تک صداقت ہے ، اور پھر ایک تارا یکایک سامنے آ کر کشودِ کار کے لیے کلید بن گیا ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تارے کے مشاہدے ہی سے ذہنی حرکت کی ابتدا ہوئی ہو۔
اس سلسلہ میں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے تارے کو دیکھ کر کہا یہ میرا ربّ ہے ، اور جب چاند اور سُورج کو دیکھ کر انھیں اپنا رب کہا ، تو کیا اُس وقت عارضی طور پر ہی سہی، وہ شرک میں مبتلا نہ ہو گئے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک طالبِ حق اپنی جستجو کی راہ میں سفر کرتے ہوئے بیچ کی جن منزلوں پر غور و فکر کے لیے ٹھیرتا ہے ، اصل اعتبار اُن منزلوں کا نہیں ہوتا بلکہ اصل اعتبار اُس سمت کا ہوتا ہے جس پر وہ پیش قدمی کر رہا ہے اور اُس آخری مقام کا ہوتا ہے جہاں پہنچ کر وہ قیام کرتا ہے۔ بیچ کی منزلیں ہر جویائے حق کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان پر ٹھیرنا بسلسلۂ طلب و جستجو ہوتا ہے نہ کہ بصورتِ فیصلہ۔ اصلاً ٹھیراؤ سوالی و استفہامی ہوا کرتا ہے نہ کہ حُکمی۔ طالب جب اِن میں سے کسی منزل پر رُک کر کہتا ہے کہ ’’ ایسا ہے ‘‘ تو دراصل یہ اس کی آخری رائے نہیں ہوتی بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ’’ایسا ہے ‘‘؟ اور تحقیق سے اس کا جواب نفی میں پا کر وہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ اثنائے راہ میں جہاں جہاں وہ ٹھیرتا رہا وہاں وہ عارضی طور پر کفر یا شرک میں مبتلا رہا۔
۵۴-اصل میں لفظ تَذَکُّر استعمال ہوا ہے جس کا صحیح مفہُوم یہ ہے کہ ایک شخص جو غفلت اور بھلا وے میں پڑا ہوا ہو وہ چونک کر اُس چیز کو یاد کر لے جس سے وہ غافل تھا۔ اسی لیے ہم نے اَفَلَا تَتَذَکَّرُوْنَ کا یہ ترجمہ کیا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو، تمہارا اصلی و حقیقی ربّ اس سے بے خبر نہیں ہے ، اس کا علم ساری چیزوں پر وسیع ہے ، پھر کیا اس حقیقت سے واقف ہو کر بھی تمھیں ہوش نہ آئے گا؟
۵۵-یہ پُوری تقریر اس بات پر شاہد ہے کہ وہ قوم اللہ فاطر السّمٰوات و الارض کی ہستی کی منکر نہ تھی بلکہ اس کا اصلی جُرم اللہ کے ساتھ دُوسروں کو خدائی صفات اور خداوندانہ حقوق میں شریک قرار دینا تھا۔ اوّل تو حضرت ابراہیمؑ خود ہی فرما رہے ہیں کہ تم اللہ کے ساتھ دُوسری چیزوں کو شریک کرتے ہو۔ دوسرے جس طرح آپ ان لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ کا ذکر فرماتے ہیں، یہ اندازِ بیان صرف اُنہی لوگوں کے مقابلہ میں اختیار کیا جا سکتا ہے جو اللہ کے نفسِ وجود سے منکر نہ ہوں۔ لہٰذا اُن مفسّرین کی رائے درست نہیں ہے جنھوں نے اس مقام پر اور حضرت ابراہیمؑ کے سلسلہ میں دُوسرے مقامات پر قرآن کے بیانات کی تفسیر اس مفروضہ پر کی ہے کہ قومِ ابراہیمؑ اللہ کی منکر یا اس سے ناواقف تھی اور صرف اپنے معبُودوں ہی کو خدائی کا بالکلّیہ مالک سمجھتی تھی۔
آخری آیت میں یہ جو فقرہ ہے کہ ’’جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا‘‘، اس میں لفظ ظلم سے بعض صحابہ کو غلط فہمی ہوئی تھی کہ شاید اس سے مراد معصیت ہے۔لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود تصریح فرما دی کہ دراصل یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ اللہ کو مانیں اور اپنے اس ماننے کو کسی مشرکانہ عقیدہ و عمل سے آلودہ نہ کریں، امن صرف اُنہی کے لیے ہے اور وہی راہِ راست پر ہیں۔
اس موقع پر یہ جان لینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ یہ واقعہ جو حضرت ابراہیمؑ کی عظیم الشان پیغمبرانہ زندگی کا نقطۂ آغاز ہے ، بائیبل میں کوئی جگہ نہیں پا سکا ہے۔ البتہ تَلمُود میں اس کا ذکر موجود ہے۔ لیکن اس میں دو باتیں قرآن سے مختلف ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کی جستجوئے حقیقت کو سُورج سے شروع کر کے تاروں تک اور پھر خدا تک لے جاتی ہے۔ دُوسرے اس کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے جب سُورج کو ھٰذَا رَبِّیْ کہا تو ساتھ ہی اس کی پرستش بھی کر ڈالی اور اسی طرح چاند کو بھی انہوں نے ھٰذَا رَبِّیْ کہہ کر اس کی پرستش کی۔
۵۶-یعنی جس شرک میں تم لوگ مبتلا ہو اگر کہیں وہ بھی اسی میں مُبتلا ہوئے ہوتے تو یہ مرتبے ہر گز نہ پا سکتے تھے۔ ممکن تھا کہ کوئی شخص کامیاب ڈاکہ زنی کر کے فاتح کی حیثیت سے دنیا میں شہرت پا لیتا، یا زر پرستی میں کمال پیدا کر کے قارُون کا سا نام پیدا کر لیتا ، یا کسی اَور صُورت سے دُنیا کے بدکاروں میں نامور بدکار بن جاتا۔ لیکن یہ امامِ ہدایت اور امام المتّقین ہونے کا شرف اور یہ دُنیا بھر کے لیے خیر و صلاح کا سرچشمہ ہونے کا مقام تو کوئی بھی نہ پا سکتا اگر شرک سے مجتنب اور خالص خدا پرستی کی راہ پر ثابت قدم نہ ہوتا۔
۵۷-یہاں انبیاء علیہم السّلام کو تین چیزیں عطا کیے جانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک کتاب یعنی اللہ کا ہدایت نامہ دوسرے حُکم یعنی اس ہدایت نامہ کا صحیح فہم ، اور اس کے اُصُولوں کو معاملاتِ زندگی پر منطبق کرنے کی صلاحیت اور مسائلِ حیات میں فیصلہ کُن رائے قائم کرنے کی خداداد قابلیت۔ تیسرے نبوّت ، یعنی یہ منصب کہ وہ اس ہدایت نامہ کے مطابق خلق اللہ کی رہنمائی کریں۔
۵۸-مطلب یہ ہے کہ اگر یہ کافر و مشرک لوگ اللہ کی اس ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں تو کر دیں، ہم نے اہلِ ایمان کا ایک ایسا گروہ پیدا کر دیا ہے جو اس نعمت کی قدر کرنے والا ہے۔
۵۹-پچھلے سلسلہ ٔ بیان اور بعد کی جوابی تقریر سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ قول یہودیوں کا تھا۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا دعویٰ یہ تھا کہ میں نبی ہوں اور مجھ پر کتاب نازل ہوئی ہے ، اس لیے قدرتی طور پر کفار قریش اور دُوسرے مشرکینِ عرب اس دعوے کی تحقیق کے لیے یہُود و نصاریٰ کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان سے پُوچھتے تھے کہ تم بھی اہلِ کتاب ہو، پیغمبروں کو مانتے ہو، بتاؤ کیا واقعی اس شخص پر اللہ کا کلام نازل ہوا ہے ؟ پھر جو کچھ جواب وہ دیتے اسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سرگرم مخالفین جگہ جگہ بیان کر کے لوگوں کو برگشتہ کرتے پھرتے تھے۔ اسی لیے یہاں یہودیوں کے اس قول کو، جسے مخالفینِ اسلام نے حجّت بنا رکھا تھا ، نقل کر کے اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔
شُبہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک یہودی جو خود توراۃ کو خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب مانتا ہے ، یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا۔ لیکن یہ شُبہ صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر بسا اوقات آدمی کسی دُوسرے کی سچّی باتوں کو رد کرنے کے لیے ایسی باتیں بھی کہہ جاتا ہے جن سے خود اس کی اپنی مسلَّمہ صداقتوں پر بھی زد پڑ جاتی ہے۔ یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوّت کو رد کرنے پر تُلے ہوئے تھے اور اپنی مخالفت کے جوش میں اس قدر اندھے ہو جاتے تھے کہ حضور ؐ کی رسالت کی تر دید کرتے کرتے خود رسالت ہی کی تردید کر گزرتے تھے۔
اور یہ جو فرمایا کہ لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب یہ کہا ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کی حکمت اور اس کی قدرت کا اندازہ کرنے میں غلطی کی ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر علم حق اور ہدایت نامۂ زندگی نازل نہیں کیا ہے وہ یا تو بشر پر نزُولِ وحی کو ناممکن سمجھتا ہے اور یہ خدا کی قدرت کا غلط اندازہ ہے ، یا پھر وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا نے انسان کو ذہانت کے ہتھیار اور تصرّف کے اختیارات تو دے دیے مگر اس کی صحیح رہنمائی کا کوئی انتظام نہ کیا، بلکہ اسے دُنیا میں اندھا دھُند کام کرنے کے لیے یُونہی چھوڑ دیا ، اور یہ خدا کی حکمت کا غلط اندازہ ہے۔
۶۰-یہ جواب چونکہ یہودیوں کو دیا جا رہا ہے اس لیے موسیٰ علیہ السّلام پر توراۃ کے نزول کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، کیوں کہ وہ خود اس کے قائل تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ تسلیم کرنا کہ حضرت موسیٰؑ پر توراۃ نازل ہوئی تھی، ان کے اس قول کی آپ سے آپ تردید کر دیتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا۔ نیز اس سے کم از کم اتنی بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ بشر پر خدا کا کلام نازل ہو سکتا ہے اور ہو چکا ہے۔
۶۱-پہلی دلیل اس بات کے ثبوت میں تھی کہ بشر پر خدا کا کلام نازل ہو سکتا ہے اور عملاً ہوا بھی ہے۔ اب یہ دُوسری دلیل اس بات کے ثبوت میں ہے کہ یہ کلام محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوا ہے یہ خدا ہی کا کلام ہے۔ اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے چار باتیں شہادت کے طور پیش کی گئی ہیں:
ایک یہ کہ یہ کتاب بڑی خیر و برکت والی ہے ، یعنی اس میں انسان کی فلاح و بہبود کے لیے بہترین اُصُول پیش کیے گئے ہیں۔ عقائدِ صحیحہ کی تعلیم ہے ، بھلائیوں کی ترغیب ہے ، اخلاقِ فاضلہ کی تلقین ہے ، پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی ہدایت ہے ، اور پھر یہ جہالت، خود غرضی، تنگ نظری، ظلم، فحش اور دُوسری اُن بُرائیوں سے ، جن کا انبار تم لوگوں نے کتبِ مقدسہ کے مجمُوعہ میں بھر رکھا ہے ، بالکل پاک ہے۔
دوسرے یہ کہ اس سے پہلے خدا کی طرف سے ہدایت نامے آئے تھے یہ کتاب اُن سے الگ ہٹ کر کوئی مختلف ہدایت پیش نہیں کرتی بلکہ اُسی چیز کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو اُن میں پیش کی گئی تھی۔
تیسرے یہ کہ یہ کتاب اُسی مقصد کے لیے نازل ہوئی ہے جو ہر زمانہ میں اللہ کی طرف سے کتابوں کے نُزول کا مقصد رہا ہے ، یعنی غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکانا اور کج روی کے انجامِ بد سے خبر دار کرنا۔
چوتھے یہ کہ کتاب کی دعوت نے انسانوں کے گروہ میں سے ان لوگوں کو نہیں سمیٹا جو دُنیا پرست اور خواہشِ نفس کے بندے ہیں، بلکہ ایسے لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا ہے جن کی نظر حیاتِ دنیا کی تنگ سرحدوں سے آگے تک جاتی ہے ، اور پھر اس کتاب سے متاثر ہو کر جو انقلاب ان کی زندگی میں رُو نما ہوا ہے اس کی سب سے زیادہ نمایاں علامت یہ ہے کہ وہ انسانوں کے درمیان اپنی خد ا پرستی کی اعتبار سے مُمتاز ہیں۔ کیا یہ خُصوصیات اور یہ نتائج کسی ایسی کتاب کے ہو سکتے ہیں جسے کسی جھُوٹے انسان نے گھڑ لیا ہو جو اپنی تصنیف کو خد ا کی طرف منسُوب کر دینے کی انتہائی مجرمانہ جسارت تک کر گزرے ؟
۶۲-یعنی زمین کی تہوں میں بیج کو پھاڑ کر اس سے درخت کی کونپل نکالنے والا۔
۶۳-زندہ کو مُردہ سے نکالنے کا مطلب بے جان مادّہ سے زندہ مخلوقات کو پیدا کرنا ہے ، اور مُردہ کو زندہ سے خارج کرنے کا مطلب جاندار اجسام میں سے بے جان مادّوں کو خارج کرنا۔
۶۴-یعنی اِس حقیقت کی نشانیاں کہ خدا صرف ایک ہے ، کوئی دُوسرا نہ خدائی کی صفات رکھتا ہے ، نہ خدائی کے اختیارات میں حصّہ دار ہے ، اور نہ خدائی کے حقوق میں سے کسی حق کا مستحق ہے۔ مگر ان نشانیوں اور علامتوں سے حقیقت تک پہنچنا جاہلوں کے بس کی بات نہیں، اس دولت سے بہرہ ور صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو علمی طریق پر آثارِ کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
۶۵-یعنی نسلِ انسانی کی ابتداء ایک متنفس سے کی
۶۶-یعنی نوع انسانی کی تخلیق اور اس کے اندر مردو زن کی تفریق اور تناسل کے ذریعہ سے اس کی افزائش، اور رحم مادر میں انسانی بچہ کا نطفہ قرار پا جانے کے بعد سے زمین میں اس کے سونپے جانے تک اس کی زندگی کے مختلف اطوار پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس میں بے شمار کھُلی کھُلی نشانیاں آدمی کے سامنے آئیں گی جن سے وہ اُس حقیقت کو پہچان سکتا ہے جو اُوپر بیان ہوئی ہے۔ مگر ان نشانیوں سے یہ معرفت حاصل کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو سمجھ بُوجھ سے کام لیں۔ جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے ، جو صرف اپنی خواہشات سے اور انھیں پورا کرنے کی تدبیروں ہی سے غرض رکھتے ہیں، اِن نشانیوں میں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے۔
۶۷-یعنی اپنے وہم و گمان سے یہ ٹھیرا لیا کہ کائنات کے انتظام میں اور انسان کی قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میں اللہ کے ساتھ دُوسری پوشیدہ ہستیاں بھی شریک ہیں، کوئی بارش کا دیوتا ہے تو کوئی روئیدگی کا، کوئی دولت کی دیوی ہے تو کوئی بیماری کی، وغیرہ ذالکَ مِن الخرافات۔ اس قسم کے لغو اعتقادات دُنیا کی تمام مشرک قوموں میں ارواح اور شیاطین اور راکشسوں اور دیوتاؤں اور دیویوں کے متعلق پائے جاتے رہے ہیں۔
۶۸-جُہلائے عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اِسی طرح دُنیا کی دُوسری مشرک قوموں نے بھی خدا سے سلسلہ ٔ نسب چلایا ہے اور پھر دیوتاؤں اور دیویوں کی ایک پُوری نسل اپنے وہم سے پیدا کر دی ہے۔
۶۹-یہ فقرہ اگرچہ اللہ ہی کا کلام ہے مگر نبی ؐ کی طرف سے ادا ہو رہا ہے۔ قرآن مجید میں جس طرح مخاطب بار بار بدلتے ہیں کہ کبھی نبی ؐ سے خطاب ہوتا ہے ، کبھی اہلِ ایمان سے ، کبھی اہلِ کتاب سے ، کبھی کفّار و مشرکین سے ، کبھی قریش کے لوگوں سے ، کبھی اہلِ عرب سے اور کبھی عام انسانوں سے ، حالانکہ اصل غرض پوری نوعِ انسانی کی ہدایت ہے ، اسی طرح متکلّم بھی بار بار بدلتے ہیں کہ کہیں متکلّم خدا ہوتا ہے ، کہیں وحی لانے والا فرشتہ، کہیں فرشتوں کا گروہ، کہیں نبی ؐ، اور کہیں اہلِ ایمان، حالانکہ ان سب صُورتوں میں کلام وہی ایک خدا کا کلام ہوتا ہے۔
’’میں تم پر پاسبان نہیں ہوں‘‘ یعنی میرا کام بس اتنا ہی ہے کہ اس روشنی کو تمہارے سامنے پیش کر دوں۔ اس کے بعد آنکھیں کھول کر دیکھنا یا نہ دیکھنا تمہارا اپنا کام ہے۔ میرے سپرد یہ خدمت نہیں کی گئی ہے کہ جنھوں نے خود آنکھیں بند کر رکھی ہیں ان کی آنکھیں زبردستی کھولوں اور جو کچھ وہ نہیں دیکھتے وہ انھیں دکھا کر ہی چھوڑوں۔
۷۰-یہ وہی بات ہے جو سُورۂ بقرہ رکوع ۳ میں فرما دی گئی ہے کہ مچھّر اور مکڑی وغیرہ چیزوں کی تمثیلیں سن کر حق کے طالب تو اس صداقت کو پا لیتے ہیں جو ان تمثیلوں کے پیرایہ میں بیان ہوئی ہے ، مگر جن پر انکار کا تعصّب مسلّط ہے وہ طنز سے کہتے ہیں کہ بھلا اللہ کے کلام میں ان حقیر چیزوں کے ذکر کا کیا کام ہو سکتا ہے۔ اُسی مضمون کا یہاں ایک دُوسرے پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے۔ کہنے کا مدّعا یہ ہے کہ یہ کلام لوگوں کے لیے آزمائش بن گیا ہے جس سے کھوٹے اور کھرے انسان ممیّز ہو جاتے ہیں۔ ایک طرح کے انسان وہ ہیں جو اس کلام کو سُن کر یا پڑھ کر اس کے مقصد و مدّعا پر غور کرتے ہیں اور جو حکمت و نصیحت کی باتیں اس میں فرمائی گئی ہیں ان سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ بخلاف اس کے دُوسری طرح کے انسانوں کا حال یہ ہے کہ اسے سُننے اور پڑھنے کے بعد ان کا ذہن مغزِ کلام کی طرف متوجّہ ہونے کے بجائے اس ٹٹول میں لگ جاتا ہے کہ آخر یہ اُمّی انسان یہ مضامین لایا کہاں سے ہے ، اور چونکہ مخالفانہ تعصّب پہلے سے ان کے دل پر قبضہ کیے ہوئے ہوتا ہے اس لیے ایک خدا کی طرف سے نازل شدہ ہونے کے امکان کو چھوڑ کر باقی تمام ممکن التّصور صُورتیں وہ اپنے ذہن سے تجویز کر تے ہیں اور انھیں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ گویا انھوں نے اس کتاب کے ماخذ کی تحقیق کر لی ہے۔
۷۱-مطلب یہ ہے کہ تمھیں داعی اور مبلّغ بنایا گیا ہے ، کوتوال نہیں بنایا گیا۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اِس روشنی کو پیش کر دو اور اظہارِ حق کا حق ادا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر اُٹھا نہ رکھو۔ اب اگر کوئی اس حق کو قبول نہیں کرتا تو نہ کرے۔ تم کو نہ اس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ لوگوں کو حق پرست بنا کر ہی رہو، اور نہ تمہاری ذمّہ داری و جواب دہی میں یہ بات شامل ہے کہ تمہارے حلقۂ نبوّت میں کوئی شخص باطل پر ست نہ رہ جائے۔ لہٰذا اس فکر میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو پریشان نہ کرو کہ اندھوں کو کس طرح بینا بنایا جائے اور جو آنکھیں کھول کر نہیں دیکھنا چاہتے انہیں کیسے دکھایا جائے۔ اگر فی الواقع حکمتِ الٰہی کا تقاضا یہی ہوتا کہ دنیا میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہنے دیا جائے تو اللہ کو یہ کام تم سے لینے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اس کا ایک ہی تکوینی اشارہ تمام انسانوں کو حق پرست نہ بنا سکتا تھا؟ مگر وہاں تو مقصُود سرے سے یہ ہے ہی نہیں۔ مقصُود تو یہ ہے کہ انسان کے لیے حق اور باطل کے انتخاب کی آزادی باقی رہے اور پھر حق کی روشنی اس کے سامنے پیش کر کے اُس کی آزمائش کی جائے کہ وہ دونوں چیزوں میں سے کس کو انتخاب کرتا ہے۔ پس تمہارے لیے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ جو روشنی تمھیں دکھا دی گئی ہے اُس کے اُجالے میں سیدھی راہ پر خود چلتے رہو اور دُوسروں کو اُس کی دعوت دیتے رہو۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کر لیں انھیں سینے سے لگاؤ اور ان کا ساتھ نہ چھوڑو خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں کیسے ہی حقیر ہوں۔ اور جو اسے قبول نہ کریں ان کے پیچھے نہ پڑو۔ جس انجامِ بد کی طرف وہ خود جانا چاہتے ہیں اور جانے پر مُصِر ہیں اس کی طرف جانے کے لیے انھیں چھوڑ دو۔
۷۲-یہ نصیحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پیرووں کو کی گئی ہے کہ اپنی تبلیغ کے جوش میں وہ بھی اتنے بے قابو نہ ہو جائیں کہ مناظرے سے اور بحث و تکرار سے معاملہ بڑھتے بڑھتے غیر مسلموں کے عقائد پر سخت حملے کرنے اور ان کے پیشواؤں اور معبُودوں کو گالیاں دینے تک نوبت پہنچ جائے ، کیونکہ یہ چیز ان کو حق سے قریب لانے کے بجائے اور زیادہ دُور پھینک دے گی۔
۷۳-یہاں پھر اُس حقیقت کے ملحوظ رکھنا چاہیے جس کی طرف اس سے پہلے بھی ہم اپنے حواشی میں اشارہ کر چکے ہیں کہ جو اُمُور قوانینِ فطرت کے تحت رُو نما ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں اپنا فعل قرار دیتا ہے ، کیونکہ وہی ان قوانین کا مقرر کرنے والا ہے اور جو کچھ ان قوانین کے تحت رُو نما ہوتا ہے وہ اسی کے امر سے رُو نما ہوتا ہے۔ جس بات کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے کہ ہم نے ایسا کیا ہے اسی کو اگر ہم انسان بیان کریں تو اس طرح کہیں گے کہ فطرۃً ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
۷۴-نشانی سے مراد کوئی ایسا صریح محسُوس معجزہ ہے جسے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت اور آپ ؐ کے مامور مِنَ اللہ ہونے کو مان لینے کو سوا کوئی چارہ نہ رہے۔
۷۵-یعنی نشانیوں کے پیش کرنے اور بنا لانے کی قدرت مجھے حاصل نہیں ہے ، ان کا اختیار تو اللہ کو ہے ، چاہے دکھائے اور نہ چاہے نہ دکھائے۔
۷۶-یہ خطاب مسلمانوں سے ہے جو بے تاب ہو ہو کر تمنّا کرتے تھے اور کبھی کبھی زبان سے بھی اس خواہش کا اظہار کر دیتے تھے کی کوئی ایسی نشانی ظاہر ہو جائے جس سے اُن کے گمراہ بھائی راہِ راست پر آ جائیں۔ ان کی اسی تمنا اور خواہش کے جواب میں ارشاد ہو رہا ہے کہ آخر تمھیں کس طرح سمجھایا جائے کہ ان لوگوں کا ایمان لانا کسی نشانی کے ظہور پر موقوف نہیں ہے۔
۷۷-یعنی ان کے اندر وہی ذہنیت کام کیے جا رہی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے پہلی مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت سُن کر اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے نقطۂ نظر میں ابھی تک کوئی تغیر واقع نہیں ہوا ہے ، وہی عقل کا پھیر اور نظر کا بھینگا پن جو انھیں اُس وقت صحیح سمجھنے اور صحیح دیکھنے سے روک رہا تھا آج بھی ان پر اسی طرح مُسلّط ہے۔
۷۸-یعنی یہ لوگ اپنے اختیار و انتخاب سے تو حق کو باطل کے مقابلہ میں ترجیح دے کر قبول کرنے والے ہیں نہیں۔ اب اِن کے حق پرست بننے کی صرف ایک ہی صورت باقی ہے اور وہ یہ کہ عملِ تخلیق و تکوین سے جس طرح تمام بے اختیار مخلوقات کو حق پرست پیدا کیا گیا ہے اسی طرح انھیں بھی بے اختیار کر کے جِبلّی و پیدائشی حق پرست بنا ڈالا جائے۔ مگر یہ اُس حکمت کے خلاف ہے جس کے تحت اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ لہٰذا تمہارا یہ توقع کرنا فضول ہے کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست اپنی تکوینی مداخلت سے ان کو مومن بنائے گا۔
۷۹-یعنی آج اگر شیاطینِ جِن و انس متفق ہو کر تمہارے مقابلہ میں ایڑی چوڑی کا زور لگا رہے ہیں تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو تمہارے ہی ساتھ پیش آ رہی ہو۔ ہر زمانہ میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی پیغمبر دُنیا کو راہِ راست دکھانے کے لیے اُٹھا تو تمام شیطانی قوتیں اس کے مِشن کو ناکام کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئیں۔
’’خوش آیند باتوں‘‘ سے مراد وہ تمام چالیں اور تدبیریں اور شکوک و شبہات و اعتراضات ہیں جن سے یہ لوگ عوام کو داعیِ حق اور اس کی دعوت کے خلاف بھڑکانے اور اکسانے کا کام لیتے ہیں۔ پھر ان سب کو بحیثیت مجموعی دھوکے اور فریب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ حق سے لڑنے کے لیے جو ہتھیار بھی مخالفین حق استعمال کرتے ہیں وہ نہ صرف دُوسروں کے لیے بلکہ خود ان کے لیے بھی حقیقت کے اعتبار سے محض ایک دھوکا ہوتے ہیں اگرچہ بظاہر وہ ان کو نہایت مفید اور کامیاب ہتھیار نظر آتے ہیں۔
۸۰-یہاں ہماری سابق تشریحات کے علاوہ یہ حقیقت بھی اچھی طرح ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی مشِیَّت اور اس کی رضا میں بہت بڑا فرق ہے جس کو نظر انداز کر دینے سے بالعمُوم شدید غلط فہمیاں واقع ہوتی ہیں۔ کسی چیز کا اللہ کی مشیّت اور اس کے اذن کے تحت رُونما ہونا لازمی طور پر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ اس سے راضی بھی ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہے۔ دُنیا میں کوئی واقعہ کبھی صُدُور میں نہیں آتا جب تک اللہ اس کے صُدُور کا اذن نہ دے اور اپنی عظیم الشان اسکیم میں اس کے صُدُور کی گنجائش نہ نکالے اور اسباب کو اس حد تک مساعد نہ کر دے کہ وہ واقعہ صادر ہو سکے۔ کسی چور کی چوری، کسی قاتل کا قتل، کسی ظالم و مفسد کا ظلم و فساد اور کسی کافر و مشرک کا کفر و شرک اللہ کی مشیّت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور اسی طرح کسی مومن اور کسی متقی انسان کا ایمان و تقویٰ بھی مشیّتِ الٰہی کے بغیر محال ہے۔ دونوں قسم کے واقعات یکساں طور پر مشِیَّت کے تحت رُو نما ہوتے ہیں۔ مگر پہلی قسم کے واقعات سے اللہ راضی نہیں ہے اور اس کے برعکس دُوسری قسم کے واقعات کو اُس کی رضا اور اس کی پسندیدگی و محبُوبیّت کی سند حاصل ہے۔ اگر چہ آخر کار کسی خیرِ عظیم ہی لیے فرمانروائے کائنات کی مشیّت کام کر رہی ہے ، لیکن اُس خیرِ عظیم کے ظہُور کا راستہ نور و ظلمت ، خیر و شر اور صلاح و فساد کی مختلف قوتوں کے ایک دُوسرے کے مقابلہ میں نبرد آزما ہونے ہی سے صاف ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی بزرگ تر مصلحتوں کی بنا پر وہ طاعت اور معصیت ، ابراہیمیت اور نمرود یّت، موسویّت اور فرعونیّت ، آدمیّت اور شیطنت ، دونوں کو اپنا اپنا کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس نے اپنی ذی اختیار مخلوق(جِن و انسان) کو خیر اور شر میں سے کسی ایک کے انتخاب کر لینے کی آزادی عطا کر دی ہے۔ جو چاہے اس کار گاہِ عالم میں اپنے لیے خیر کا کام پسند کر لے اور جو چاہے شر کا کام۔ دونوں قسم کے کارکنوں کو، جس حد تک خدائی مصلحتیں اجازت دیتی ہیں، اسباب کی تائید نصیب ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کی رضا اور اس کی پسندیدگی صرف خیر ہی کے لیے کام کرنے والوں کو حاصل ہے اور اللہ کو محبُوب یہی بات ہے کہ اس کے بندے اپنی آزادی انتخاب سے فائدہ اُٹھا کر خیر کو اختیار کریں نہ کہ شر کو۔
اس کے ساتھ یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ دُشمنانِ حق کی مخالفانہ کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی مشیّت کا بار بار حوالہ دیتا ہے اِس سے مقصُود دراصل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو، اور آپ کے ذریعہ سے اہلِ ایمان کو یہ سمجھانا ہے کہ تمہارے کام کی نوعیّت فرشتوں کے کام کی سی نہیں ہے جو کسی مزاحمت کے بغیر احکامِ الٰہی کی تعمیل کر رہے ہیں۔ بلکہ تمہارا اصل کام شریروں اور باغیوں کے مقابلہ میں اللہ کے پسند کر دہ طریقہ کو غالب کرنے کے لیے جدّوجہد کرنا ہے۔ اللہ اپنی مشیّت کے تحت اُن لوگوں کو بھی کام کرنے کا موقع دے رہا ہے جنہوں نے اپنی سعی و جہد کے لیے خود اللہ سے بغاوت کے راستے کو اختیار کیا ہے ، اور اسی طرح وہ تم کو بھی ، جنھوں نے طاعت و بندگی کے راستے کو اختیار کیا ہے ، کام کرنے کا پورا موقع دیتا ہے۔ اگرچہ اس کی رضا اور ہدایت و رہنمائی اور تائید و نصرت تمہارے ہی ساتھ ہے ، کیونکہ تم اُس پہلو میں کام کر رہے ہو جسے وہ پسند کرتا ہے ، لیکن تمھیں یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سے اُن لوگوں کو ایمان لانے پر مجبُور کر دے گا جو ایمان نہیں لانا چاہتے ، یا اُن شیاطین جِن و انس کو زبر دستی تمہارے راستہ سے ہٹا دے گا جنھوں نے اپنے دل و دماغ کو اور دست و پا کی قوتوں کو اور اپنے وسائل و ذرائع کو حق کی راہ روکنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نہیں، اگر تم نے واقعی حق اور نیکی اور صداقت کے لیے کام کرنے کا عزم کیا ہے تو تمھیں باطل پرستوں کے مقابلہ میں سخت کشمکش اور جدوجہد کر کے اپنی حق پرستی کا ثبوت دینا ہو گا۔ ورنہ معجزوں کے زور سے بساط کو مٹانا اور حق کو غالب کرنا ہوتا تو تمہاری ضرورت ہی کیا تھی، اللہ خود ایسا انتظام کر سکتا تھا کہ دنیا میں کوئی شیطان نہ ہوتا اور کسی شرک و کفر کے ظہُور کا امکان نہ ہوتا۔
۸۱-اس فقرہ میں متکلم نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور خطاب مسلمانوں سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ نے اپنی کتاب میں صاف صاف یہ تمام حقیقتیں بیان کر دی ہیں اور یہ بھی فیصلہ کر دیا ہے کہ فوق الفطری مداخلت کے بغیر حق پرستوں کو فطری طریقوں ہی سے غلبہ ٔ حق کی جدّوجہد کرنی ہو گی، تو کیا اب میں اللہ کے سوا کوئی اَور ایسا صاحبِ امر تلاش کروں جو اللہ کے اس فیصلہ پر نظر ثانی کرے اور ایسا کوئی معجزہ بھیجے جس سے یہ لوگ ایمان لانے پر مجبوُر ہو جائیں؟
۸۲-یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو واقعات کی توجیہ میں آج گھڑی گئی ہو۔ تمام وہ لوگ جو کتبِ آسمانی کا علم رکھتے ہیں اور جنھیں انبیاء علیہم السلام کے مشن سے واقفیت حاصل ہے ، اس بات کی شہادت دیں گے کہ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے ٹھیک ٹھیک حق ہے اور وہ ازلی و ابدی حقیقت ہے جس میں کبھی فرق نہیں آیا ہے۔
۸۳-یعنی بیشتر لوگ جو دنیا میں بستے ہیں علم کے بجائے قیاس و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور ان کے عقائد، تخیلات ، فلسفے ، اُصُولِ زندگی اور قوانینِ عمل سب کے سب قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ بخلاف اس کے اللہ کے راستہ ، یعنی دنیا میں زندگی بسر کرنے کا وہ طریقہ جو اللہ کی رضا کے مطابق ہے ، لازماً صرف وہی ایک ہے جس کا علم اللہ نے خود دیا ہے نہ کہ وہ جس کو لوگوں نے بطورِ خود اپنے قیاسات سے تجویز کر لیا ہے۔ لہٰذا کسی طالبِ حق کو یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دُنیا کے بیشتر انسان کِس راستہ پر جا رہے ہیں بلکہ اسے پُوری ثابت قدمی کے ساتھ اُس راہ پر چلنا چاہیے جو اللہ نے بتائی ہے ، چاہے اس راستہ پر چلنے کے لیے وہ دُنیا میں اکیلا ہی رہ جائے۔
۸۴-مِن جملہ ان غلط طریقوں کے جو اکثر اہلِ زمین نے بطورِ خود قیاس و گمان سے تجویز کر لیے اور جنھیں مذہبی حُدُود و قیُود کی حیثیت حاصل ہو گئی ، ایک وہ پابندیاں بھی ہیں جو کھانے پینے کی چیزوں میں مختلف قوموں کے درمیان پائی جاتی ہیں۔ بعض چیزوں کو لوگوں نے آپ ہی آپ حلال قرار دے لیا ہے حالانکہ اللہ کی نظر میں وہ حرام ہیں۔ اور بعض چیزوں کو انھوں نے خود حرام ٹھیرا لیا ہے حالانکہ اللہ نے انھیں حلال کیا ہے۔ خصُوصیّت کے ساتھ سب سے زیادہ جاہلانہ بات جس پر پہلے بھی بعض گروہ مُصِر تھے اور آج بھی دُنیا کے بعض گروہ مُصِر ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر جو جانور ذبح کیا جائے وہ تو ان کے نزدیک ناجائز ہے اور اللہ کے نام کے بغیر جسے ذبح کیا جائے وہ بالکل جائز ہے۔ اسی کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ یہاں مسلمانوں سے فرما رہا ہے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس کے احکام کو مانتے ہو تو اُن تمام اوہام اور تعصّبات کو چھوڑ دو جو کفار و مشرکین میں پائے جاتے ہیں، اُن سب پابندیوں کو توڑ دو جو خدا کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر لوگوں نے خود عائد کر رکھی ہیں، حرام صرف اسی چیز کو سمجھو جسے خدا نے حرام کیا ہے اور حلال اسی کو ٹھیراؤ جس کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے۔
۸۵-ملاحظہ ہو سُورۂ نحل آیت ۱۱۵ – اس اشارے سے ضمناً یہ بھی متحقق ہوا کہ سُورۂ نحل اس سُورہ سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔
۸۶-حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ عُلمائے یہُود جُہلائے عرب کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اعتراض کرنے کے جو سوالات سکھایا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ’’آخر کیا معاملہ ہے کہ جسے خدا مارے وہ تو حرام ہو اور جسے ہم ماریں وہ حلال ہو جائے ‘‘۔ یہ ایک ادنیٰ سا نمونہ ہے اس ٹیڑھی ذہنیّت کا جو ان نام نہاد اہلِ کتاب میں پائی جاتی تھی۔ وہ اس قسم کے سوالات گھڑ گھڑ کر پیش کرتے تھے تاکہ عوام کے دلوں میں شُبہات ڈالیں اور انھیں حق سے لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کر کے دیں۔
۸۷-یعنی ایک طرف اللہ کی خداوندی کا اقرار کرنا اور دُوسری طرف اللہ سے پھرے ہوئے لوگوں کے احکام پر چلنا اور ان کے مقرر کیے ہوئے طریقوں کی پابندی کرنا ، شرک ہے۔ توحید یہ ہے کہ زندگی سراسر اللہ کی اطاعت میں بسر ہو۔ اللہ کے ساتھ اگر دُوسروں کو اعتقادًا مستقل بالذّات مطاع مان لیا جائے تو یہ اعتقادی شرک ہے ، اور اگر عملاً ایسے لوگوں کی اطاعت کی جائے جو اللہ کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر خود امر ونہی کے مختار بن گئے ہوں تو یہ عملی شرک ہے۔
۸۸-یہاں موت سے مُراد جہالت و بے شعوری کی حالت ہے ، اور زندگی سے مراد علم و ادراک اور حقیقت شناسی کی حالت۔ جس شخص کو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں اور جسے معلوم نہیں کہ راہِ راست کیا ہے وہ طبیعیات کے نقطۂ نظر سے چاہے ذی حیات ہو مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کو انسانیت کی زندگی میسّر نہیں ہے۔ وہ زندہ حیوان تو ضرور ہے مگر زندہ انسان نہیں۔ زندہ انسان درحقیقت صرف وہ شخص ہے جسے حق اور باطل، نیکی اور بدی ، راستی اور نا راستی کا شعور حاصل ہے۔
۸۹-یعنی تم کس طرح یہ توقع کر سکتے ہو کہ جس انسان کو انسانیت کا شعور نصیب ہو چکا ہے اور جو علم کی روشنی میں ٹیڑھے راستوں کے درمیان حق کی سیدھی راہ کو صاف دیکھ رہا ہے وہ اُن بے شعور لوگوں کی طرح دنیا میں زندگی بسر کرے گا جو نادانی و جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔
۹۰-یعنی جن لوگوں کے سامنے روشنی پیش کی جائے اور وہ اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیں، جنھیں راہِ راست کی طرف دعوت دی جائے اور وہ اپنے ٹیڑھے راستوں ہی پر چلتے رہنے کو ترجیح دیں، ان کے لیے اللہ کا قانون یہی ہے کہ پھر انھیں تاریکی ہی اچھی معلوم ہونے لگتی ہے۔ وہ اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر چلنا اور ٹھوکریں کھا کھا کر گِرنا ہی پسند کرتے ہیں۔ ان کو جھاڑیاں ہی باغ اور کانٹے ہی پھُول نظر آتے ہیں۔ انھیں ہر بدکاری میں مزا آتا ہے ، ہر حماقت کو وہ تحقیق سمجھتے ہیں، اور ہر فساد انگیز تجربہ کے بعد اُس سے بڑھ کر دُوسرے فساد انگیز تجربے کے لیے وہ اِس اُمّید پر تیار ہو جاتے ہیں کہ پہلے اتفاق سے دَہکتے ہوئے انگارے پر ہاتھ پڑ گیا تھا تو اب کے لعل بدخشاں ہاتھ آ جائے گا۔
۹۱-یعنی ہم رسُولوں کے اِس بیان پر ایمان نہیں لائیں گے کہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور خدا کا پیغام لایا، بلکہ ہم صرف اسی وقت ایمان لا سکتے ہیں جب کہ فرشتہ خود ہمارے پاس آئے اور براہِ راست ہم سے کہے کہ یہ اللہ کا پیغام ہے۔
۹۲-سینہ کھول دینے سے مراد اسلام کی صداقت پر پُوری طرح مطمئن کر دینا اور شکوک و شبہات اور تذَبذب و تردّد کو دُور کر دینا ہے۔
۹۳-’’سلامی کا گھر‘‘ یعنی جنّت جہاں انسان ہر آفت سے محفوظ اور ہر خرابی سے مامون ہو گا۔
۹۴-یہاں جِنوں سے مراد شیاطین جِن ہیں۔
۹۵-یعنی ہم میں سے ہر ایک نے دُوسرے سے ناجائز فائدے اُٹھائے ہیں، ہر ایک دُوسرے کو فریب میں مبتلا کر کے اپنی خواہشات پوری کرتا رہا ہے۔
۹۶-یعنی اگرچہ اللہ کو اختیار ہے کہ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے ، مگر یہ سزا اور معافی بلا وجہِ معقول ، مجرّد خواہش کی بنا پر نہیں ہو گی، بلکہ علم اور حکمت پر مبنی ہو گی۔ خدا معاف اسی مجرم کو کرے گا جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ خود اپنے جُرم کا ذمّہ دار نہیں ہے اور جس کے متعلق اس کی حکمت یہ فیصلہ کر ے گی کہ اسے سزا نہ دی جانی چاہیے۔
۹۷-یعنی جس طرح وہ دنیا میں گناہ سمیٹنے اور بُرائیوں کا اکتساب کرنے میں ایک دُوسرے کے شریک تھے اسی طرح آخرت کی سزا پانے میں بھی وہ ایک دُوسرے کے شریک حال ہوں گے۔
۹۸-یعنی ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ کی طرف سے رسُول پر رسُول آتے اور ہمیں حقیقت سے خبردار کرتے رہے ، مگر یہ ہمارا اپنا قصُور تھا کہ ہم نے ان کی بات نہ مانی۔
۹۹-یعنی بے خبر اور ناواقف نہ تھے بلکہ کافر تھے۔ وہ خود تسلیم کریں گے کہ حق ہم تک پہنچا تھا مگر ہم نے خود اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
۱۰۰-یعنی اللہ اپنے بندوں کو یہ موقع نہیں دینا چاہتا کہ وہ اس کے مقابلے میں یہ احتجاج کر سکیں کہ آپ نے ہمیں حقیقت سے تو آگاہ کیا نہیں، اور نہ ہم کو صحیح راستہ بتانے کا کوئی انتظام فرمایا، مگر جب ناواقفیت کی بنا پر ہم غلط راہ پر چل پڑے تو اب آپ ہمیں پکڑتے ہیں۔ اِس حجّت کو قطع کر دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے اور کتابیں نازل کیں تاکہ جِن و انس کو صاف صاف خبر دار کر دیا جائے۔ اب اگر لوگ غلط راستوں پر چلتے ہیں اور اللہ ان کو سزا دیتا ہے تو اس کا الزام خود ان پر ہے نہ کہ اللہ پر۔
۱۰۱-’’تمہارا رب بے نیاز ہے ‘‘ یعنی اس کی کوئی غرض تم سے اٹکی ہوئی نہیں ہے ، اس کا کوئی مفاد تم سے وابستہ نہیں ہے کہ تمہاری نافرمانی سے اس کا کچھ بگڑ جاتا ہو، یا تمہاری فرماں برداری سے اس کو کوئی فائدہ پہنچ جاتا ہو۔ تم سب مل کر سخت نافرمان بن جاؤ تو اس کی بادشاہی میں ذرہ برابر کمی نہیں کر سکتے ، اور سب کے سب مل کر اس کے مطیعِ فرمان اور عبادت گزار بن جاؤ تو اس کے ملک میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے۔ وہ نہ تمہاری سلامیوں کا محتاج ہے اور نہ تمہاری نذر و نیاز کا۔ اپنے بے شمار خزانے تم پر لٹا رہا ہے بغیر ا س کے کہ ان کے بدلہ میں اپنے لیے تم سے کچھ چاہے۔
’’مہربانی اس کا شیوہ ہے ‘‘۔ یہاں موقع و محل کے لحاظ سے اس فقرے کے دو مفہُوم ہیں۔ ایک یہ کہ تمہارا رب تم کو راہِ راست پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور حقیقت نفس الامری کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنے سے جو منع کرتا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری راست روی سے اس کا کوئی فائدہ اور غلط روی سے اس کا کوئی نقصان ہوتا ہے ، بلکہ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ راست روی میں تمہارا اپنا فائدہ اور غلط روی میں تمہارا اپنا نقصان ہے۔ لہٰذا یہ سراسر اس کی مہربانی ہے کہ وہ تمھیں اُس صحیح طرزِ عمل کی تعلیم دیتا ہے جس سے تم بلند مدارج تک ترقی کرنے کے قابل بن سکتے ہو اور اس غلط طرزِ عمل سے روکتا ہے جس کی بدولت تم پست مراتب کی طرف تنزّل کرتے ہو۔ دوسرے یہ کہ تمہارا ربّ سخت گیر نہیں ہے ، تم کو سزا دینے میں اُسے کوئی لُطف نہیں آتا ہے ، وہ تمھیں پکڑنے اور مارنے پر تُلا ہوا نہیں ہے کہ ذرا تم سے قصُور سرزد ہو اور وہ تمہاری خبر لے ڈالے۔ درحقیقت وہ اپنی تمام تمام مخلوقات پر نہایت مہربان ہے ، غایت درجہ کے رحم و کرم کے ساتھ خدائی کر رہا ہے ، اور یہی اس کا معاملہ انسانوں کے ساتھ بھی ہے۔ اسی لیے وہ تمہارے قصُور پر قصُور معاف کرتا چلا جاتا ہے۔ تم نافرمانیاں کرتے ہو، گناہ کرتے ہو، جرائم کا ارتکاب کرتے ہو، اس کے رزق سے پَل کر بھی اس کے احکام سے منہ موڑتے ہو، مگر وہ حلم اور عفو ہی سے کام لیے جاتا ہے اور تمھیں سنبھلنے اور سمجھنے اور اپنی اصلاح کر لینے کے لیے مُہلت پر مُہلت دیے جاتا ہے۔ ورنہ اگر وہ سخت گیر ہوتا تو اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ تمھیں دنیا سے رخصت کر دیتا اور تمہاری جگہ کسی دُوسری قوم کو اُٹھا کھڑا کرتا، یا سارے انسانوں کو ختم کر کے کوئی اور مخلوق پیدا کر دیتا۔
۱۰۲-یعنی قیامت، جس کے بعد تمام اگلے پچھلے انسان از سرِ نو زندہ کیے جائیں گے اور اپنے ربّ کے سامنے آخری فیصلے کے لیے پیش ہوں گے۔
۱۰۳-یعنی اگر میرے سمجھانے سے تم نہیں سمجھے اور اپنی غلط روی سے باز نہیں آتے تو جس راہ پر تم چل رہے ہو چلے جاؤ، اور مجھے اپنی راہ چلنے کے لیے چھوڑ دو، انجام کار جو کچھ ہو گا وہ تمہارے سامنے بھی آ جائے گا اور میرے سامنے بھی۔
۱۰۴-اُوپر کا سلسلہ ٔ تقریر اس بات پر تمام ہوا تھا کہ اگر یہ لوگ نصیحت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اپنی جاہلیّت پر اصرار کیے جاتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ اچھا ، تم اپنے طریقہ پر عمل کرتے رہو اور میں اپنے طریقہ پر عمل کروں گا، قیامت ایک دن ضرور آنی ہے ، اس وقت تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ اس روش کا کیا انجام ہوتا ہے ، بہر حال یہ خوب سمجھ لو کہ وہاں ظالموں کو فلاح نصیب نہ ہو گی۔ اس کے بعد اب اُس جاہلیّت کی کچھ تشریح کی جاتی ہے جس پر وہ لوگ اصرار کر رہے تھے اور جسے چھوڑنے پر کسی طرح آمادہ نہ ہوتے تھے۔ انھیں بتا یا جا رہا ہے کہ تمہارا وہ ’’ظلم ‘‘ کیا ہے جس پر قائم رہتے ہوئے تم کسی فلاح کی اُمید نہیں کر سکتے۔
۱۰۵-اِس بات کے وہ خود قائل تھے کہ زمین اللہ کی ہے اور کھیتیاں وہی اُگاتا ہے۔ نیز اُن جانوروں کا خالق بھی اللہ ہی ہے جن سے وہ اپنی زندگی میں خدمت لیتے ہیں۔ لیکن ان کا تصوّر یہ تھا کہ ان پر اللہ کا یہ فضل اُن دیویوں اور دیوتاؤں اور فرشتوں اور جِنّات ، اور آسمانی ستاروں اور بزرگانِ سلف کی ارواح کے طفیل و برکت سے ہے جو ان پر نظرِ کرم رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے کھیتوں کی پیداوار اور اپنے جانوروں میں سے دو حصّے نکالتے تھے۔ ایک حِصّہ اللہ کے نام کا، اس شکریہ میں کہ اس نے یہ کھیت اور یہ جانور انھیں بخشے۔ اور دُوسرا حصّہ اپنے قبیلہ اور خاندان کے سرپرست معبُودوں کی نذر و نیاز کا تاکہ اُن کی مہربانیاں ان کے شامِل حال رہیں۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ان کے اسی ظلم پر گرفت فرماتا ہے کہ یہ سب مویشی ہمارے پیدا کیے ہوئے اور ہمارے عطا کردہ ہیں، ان میں یہ دُوسروں کی نذر و نیاز کیسی؟ یہ نمک حرامی نہیں تو کیا ہے کہ تم اپنے محسن کے احسان کو، جو اس نے سراسر خود اپنے فضل و کرم سے تم پر کیا ہے ، دُوسروں کی مداخلت اور ان کے توسّط کا نتیجہ قرار دیتے ہو اور شکریہ کے استحقاق میں انھیں اُس کے ساتھ شریک کرتے ہو۔ پھر اشارۃً دُوسری گرفت اس بات پر بھی فرمائی ہے کہ یہ اللہ کا حصّہ جو انھوں نے مقرر کیا ہے یہ بھی بزعمِ خود کر لیا ہے ، اپنے شارع خود بن بیٹھے ہیں ، آپ ہی جو حصّہ چاہتے ہیں اللہ کے لیے مقر کر لیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں دُوسروں کے لیے طے کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اپنی بخشش کا اصل مالک و مختار خود اللہ ہے اور یہ بات اسی کی شریعت کے مطابق طے ہونی چاہیے کہ اس بخشش میں سے کتنا حصّہ اس کے شکریہ کے لیے نکالا جائے اور باقی میں کون کون حق دار ہیں۔ پس درحقیقت اس خود مختارانہ طریقہ سے جو حصّہ یہ لوگ اپنے زعمِ باطل میں خدا کے لیے نکالتے ہیں اور فقراء و مساکین وغیرہ پر خیرات کرتے ہیں وہ بھی کوئی نیکی نہیں ہے۔ خدا کے ہاں اس کے مقبول ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں۔
۱۰۶-یہ لطیف طنز ہے اُن کی اس حرکت پر کہ وہ خدا کے نام سے جو حصّہ نکالتے تھے اس میں بھی طرح طرح کی چالبازیاں کر کے کمی کرتے رہتے تھے اور ہر صُورت سے اپنے خود ساختہ شریکوں کا حصّہ بڑھانے کی کوشش کرتے تھے ، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ جو دلچسپی انھیں اپنے ان شریکوں سے ہے وہ خدا سے نہیں ہے۔ مثلاً جو غلّے یا پھل وغیرہ خدا کے نام پر نکالے جاتے ان میں سے اگر کچھ گِر جاتا تو وہ شریکوں کے حصّہ میں شامل کر دیا جاتا تھا ، اور اگر شریکوں کے حصّہ میں سے گرتا، یا خدا کے حصّے میں مِل جاتا تو اُسے انہی کے حصّہ میں واپس کیا جاتا۔ کھیت کا جو حصّہ شریکوں کی نذر کے لیے مخصُوص کیا جاتا تھا اگر اس میں سے پانی اُس حصّہ کی طرف پھُوٹ بہتا جو خدا کی نذر کے لیے مختص ہوتا تھا تو اس کی ساری پیداوار شریکوں کے حصّہ میں داخل کر دی جاتی تھی ، لیکن اگر اس کے برعکس صُورت پیش آتی تو خدا کے حصّہ میں کوئی اضافہ نہ کیا جاتا۔ اگر کبھی خشک سالی کی وجہ سے نذر و نیاز کا غلّہ خود استعمال کرنے کی ضرورت پیش آ جاتی تو خدا کا حصّہ کھا لیتے تھے مگر شریکوں کے حصّہ کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی بلا نازل نہ ہو جائے۔ اگر کسی وجہ سے شریکوں کے حصّہ میں کچھ کمی آ جاتی تو وہ خدا کے حصّہ سے پُوری کی جاتی تھی لیکن خدا کے حصّہ میں کمی ہوتی تو شریکوں کے حصّہ میں سے ایک حبّہ بھی اس میں نہ ڈالا جاتا۔ اس طرزِ عمل پر کوئی نکتہ چینی کرتا تو جواب میں طرح طرح کی دل فریب توجیہیں کی جاتی تھیں۔ مثلاً کہتے تھے کہ خدا تو غنی ہے ، اس کے حصّہ میں سے کچھ کمی بھی ہو جائے تو اُسے کیا پروا ہو سکتی ہے۔ رہے یہ شریک ، تو یہ بندے ہیں ، خدا کی طرح غنی نہیں ہیں، اس لیے ذرا سی کمی بیشی پر بھی ان کے ہاں گرفت ہو جاتی ہے۔
اِن توہّمات کی اصل جڑ کیا تھی، اس کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ جُہلائے عرب اپنے مال میں سے جو حصّہ خدا کے لیے نکالتے تھے ، وہ فقیروں ، مسکینوں ، مسافروں اور یتیموں وغیرہ کی مدد میں صَرف کیا جاتا تھا، اور جو حصّہ شریکوں کی نذر و نیاز کے لیے نکالتے تھے وہ یا تو براہِ راست مذہبی طبقوں کے پیٹ میں جاتا تھا یا آستانوں پر چڑھاوے کی صُورت میں پیش کیا جاتا اور اس طرح بالواسطہ مجاوروں اور پجاریوں تک پہنچ جاتا تھا۔ اسی لیے ان خود غرض مذہبی پیشواؤں نے صدیوں کی مسلسل تلقین سے ان جاہلوں کے دل میں یہ بات بٹھائی تھی کہ خدا کے حصّہ میں کمی ہو جائے تو کچھ مضائقہ نہیں ، مگر ’’خدا کے پیاروں‘‘ کے حصّہ میں کمی نہ ہونی چاہیے بلکہ حتی الامکان کچھ بیشی ہی ہوتی رہے تو بہتر ہے۔
۱۰۷-یہاں ’’شریکوں‘‘ کا لفظ ایک دُوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اُوپر کے معنی سے مختلف ہے۔ اوپر کی آیت میں جنھیں ’’شریک‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا وہ ان کے معبُود تھے جن کی برکت یا سفارش یا توسّط کو یہ لوگ نعمت کے حصُول میں مددگار سمجھتے تھے اور شکرِ نعمت کے استحقاق میں انھیں خدا کے ساتھ حصّہ دار بناتے تھے۔ بخلاف اس کے اس آیت میں ’’شریک‘‘ سے مراد وہ انسان اور شیطان ہیں جنھوں نے قتلِ اولاد کو ان لوگوں کی نگاہ میں ایک جائز اور پسندیدہ فعل بنا دیا تھا۔ انھیں شریک کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے جس طرح پرستش کا مستحق تنہا اللہ تعالیٰ ہے ، اسی طرح بندوں کے لیے قانون بنانے اور جائز و ناجائز کی حدیں مقرر کرنے کا حق دار بھی صرف اللہ ہے۔ لہٰذا جس طرح کسی دُوسرے کے آگے پرستش کے افعال میں سے کوئی فعل کرنا اسے خدا کا شریک بنانے کا ہم معنی ہے ، اسی طرح کسی کے خود ساختہ قانون کو برحق سمجھتے ہوئے اس کی پابندی کرنا اور اس کے مقرر کیے ہوئے حُدُود کو واجب الاطاعت ماننا بھی اسے خدائی میں اللہ کا شریک قرار دینے کا ہم معنی ہے۔ یہ دونوں افعال بہرحال شریک ہیں، خواہ اُن کا مرتکب ان ہستیوں کو زبان سے الٰہ اور ربّ کہے یا نہ کہے جن کے آگے وہ نذر و نیاز پیش کرتا ہے یا جن کے مقرر کیے ہوئے قانون کو واجب الاطاعت مانتا ہے۔
قتلِ اولاد کی تین صُورتیں اہلِ عرب میں رائج تھیں اور قرآن میں تینوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے :
(۱) لڑکیوں کا قتل، اس خیال سے کہ کوئی ان کا داماد نہ بنے ، یا قبائلی لڑائیوں میں وہ دُشمن کے ہاتھ نہ پڑیں ، یا کسی دُوسرے سبب سے وہ ان کے لیے سبب عار نہ بنیں۔
(۲) بچّوں کا قتل ، اس خیال سے کہ ان کی پرورش کا بار نہ اُٹھایا جا سکے گا اور ذرائع معاش کی کمی کے سبب سے وہ ناقابلِ برداشت بوجھ بن جائیں گے۔
(۳) بچّوں کو اپنے معبُودوں کی خوشنودی کے لیے بھینٹ چڑھانا۔
۱۰۸-یہ ہلاکت کا لفظ نہایت معنی خیز ہے۔ اِس سے مراد اخلاقی ہلاکت بھی ہے کہ جو انسان سنگ دلی اور شقاوت کی اس حد کو پہنچ جائے کہ اپنی اولاد کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے لگے اس میں جوہرِ انسانیت تو درکنار جوہرِ حیوانیت تک باقی نہیں رہتا۔ اور نوعی و قومی ہلاکت بھی کہ قتلِ اولاد کا لازمی نتیجہ نسلوں کا گھٹنا اور آبادی کا کم ہونا ہے ، جس سے نوعِ انسانی کو بھی نقصان پہنچتا ہے ، اور وہ قوم بھی تباہی کے گڑھے میں گرتی ہے جو اپنے حامیوں اور اپنے تمدّن کے کارکنوں اور اپنی میراث کے وارثوں کو پیدا نہیں ہونے دیتی، یا پیدا ہوتے ہی خود اپنے ہاتھوں اُنھیں ختم کر ڈالتی ہے۔ اور اس سے مراد انجامی ہلاکت بھی ہے کہ جو شخص معصُوم بچّوں پر یہ ظلم کرتا ہے ، اور جو اپنی انسانیت کو بلکہ اپنی حیوانی فطرت تک کو یوں اُلٹی چھُری سے ذبح کرتا ہے ، اور جو نوعِ انسانی کے ساتھ اور خود اپنی قوم کے ساتھ یہ دُشمنی کرتا ہے ، وہ اپنے آپ کو خدا کے شدید عذاب کا مستحق بناتا ہے۔
۱۰۹-زمانۂ جاہلیّت کے عرب اپنے آپ کو حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کا پیرو کہتے اور سمجھتے تھے اور اس بنا پر ان کا خیال یہ تھا کہ جس مذہب کا وہ اتباع کر رہے ہیں وہ خدا کا پسندیدہ مذہب ہی ہے۔ لیکن جو دین ان لوگوں نے حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ سے سیکھا تھا اس کے اندر بعد کی صدیوں میں مذہبی پیشوا ، قبائل کے سردار، خاندانوں کے بڑے بوڑھے اور مختلف لوگ طرح طرح کے عقائد اور اعمال اور رسوم کا اضافہ کرتے چلے گئے جِنھیں آنے والی نسلوں نے اصل مذہب کا جزء سمجھا اور عقیدت مندی کے ساتھ ان کی پیروی کی۔ چونکہ روایات میں ، یا تاریخ میں، یا کسی کتاب میں ایسا کوئی ریکارڈ محفوظ نہ تھا جس سے معلوم ہوتا کہ اصل مذہب کیا تھا اور بعد میں کیا چیزیں کس زمانہ میں کس نے کس طرح اضافہ کیں، اس وجہ سے اہلِ عرب کے لیے ان کا پورا دین مشتبہ ہو کر رہ گیا تھا۔ نہ کسی چیز کے متعلق یقین کے ساتھ یہی کہہ سکتے تھے کہ یہ اس اصل دین کا جزء ہے جو خدا کی طرف سے آیا تھا، اور نہ یہی جانتے تھے کہ یہ بدعات اور غلط رسُوم ہیں جو بعد میں لوگوں نے بڑھا دیں۔ اِسی صُورتِ حال کی ترجمانی اس فقرے میں کی گئی ہے۔
۱۱۰-یعنی اگر اللہ چاہتا کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کر سکتے تھے ، لیکن چونکہ اللہ کی مشیّت یہی تھی کہ جو شخص جس راہ پر جانا چاہتا ہے اسے جانے کا موقع دیا جائے ، اسی لیے یہ سب کچھ ہوا۔ پس اگر یہ لوگ تمہارے سمجھانے سے نہیں مانتے اور ان افترا پردازیوں ہی پر انھیں اصرار ہے تو جو کچھ یہ کرنا چاہتے ہیں کرنے دو، ان کے پیچھے پڑنے کی کچھ ضرورت نہیں۔
۱۱۱-اہلِ عرب کا قاعدہ تھا کہ بعض جانوروں کے متعلق یا بعض کھیتیوں کی پیداوار کے متعلق منت مان لیتے تھے کہ یہ فلاں آستانے یا فلاں حضرت کی نیاز کے لیے مخصُوص ہیں۔ اُس نیاز کو ہر ایک نہ کھا سکتا تھا بلکہ اس کے لیے ان کے ہاں ایک مفصّل ضابطہ تھا جس کی رُو سے مختلف نیازوں کو مختلف قسم کے مخصُوص لوگ ہی کھا سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس فعل کو نہ صرف مشرکانہ افعال میں شمار کرتا ہے ، بلکہ اس پہلو پر بھی تنبیہ فرماتا ہے کہ یہ ضابطہ ان کا خود ساختہ ہے۔ یعنی جس خدا کے رزق میں سے وہ یہ منتیں مانتے اور نیازیں کرتے ہیں اس نے نہ ان منتوں اور نیازوں کا حکم دیا ہے اور نہ ان کے کھانے کے متعلق یہ پابندیاں عائد کی ہیں۔ یہ سب کچھ ان خود سر اور باغی بندوں نے اپنے اختیار سے خود ہی تصنیف کر لیا ہے۔
۱۱۲-روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ عرب کے ہاں بعض مخصوص منتوں اور نذروں کے جانور ایسے ہوتے تھے جن پر خدا کا نام لینا جائز نہ سمجھا جاتا تھا۔ ان پر سوار ہو کر حج کرنا ممنوع تھا ، کیونکہ حج کے لیے لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہنا پڑتا تھا۔ اسی طرح ان کا دودھ دوہتے وقت، یا ان پر سوار ہونے کی حالت میں ، یا ان کو ذبح کرتے ہوئے ، یا ان کو کھانے کے وقت اہتمام کیا جاتا تھا کہ خدا کا نام زبان پر نہ آئے۔
۱۱۳-یعنی قاعدے خدا کے مقرر کیے ہوئے نہیں ہیں، مگر وہ ان کی پابندی یہی سمجھتے ہوئے کر رہے ہیں کہ انھیں خدا نے مقرر کیا ہے ، اور ایسا سمجھنے کے لیے ان کے پاس خدا کے کسی حکم کی سند نہیں ہے بلکہ صرف یہ سند ہے کہ باپ دادا سے یونہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔
۱۱۴-اہلِ عرب کے ہاں نذروں اور منتوں کے جانوروں کے متعلق جو خود ساختہ شریعت بنی ہوئی تھی اس کی ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ ان جانوروں کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہو اس کا گوشت صرف مر د کھا سکتے ہیں ، عورتوں کے لیے ان کا کھانا جائز نہیں۔ لیکن اگر وہ بچہ مُردہ ہو یا مر جائے تو اس کا گوشت کھانے میں مرد و عورت سب شریک ہو سکتے ہیں۔
۱۱۵-یعنی اگرچہ وہ لوگ جنھوں نے یہ رسم و رواج گھڑے تھے تمہارے باپ دادا تھے ، تمہارے مذہبی بزرگ تھے ، تمہارے پیشوا اور سردار تھے ، لیکن حقیقت بہرحال حقیقت ہے ، ان کے ایجاد کیے ہوئے غلط طریقے صرف اس لیے صحیح اور مقدس نہیں ہو سکتے کہ وہ تمہارے اسلاف اور بزرگ تھے۔ جن ظالموں نے قتلِ اولاد جیسے وحشیانہ فعل کو رسم بنایا ہو، جنہوں نے خدا کے دیے ہوئے رزق کو خواہ مخواہ خدا کے بندوں پر حرام کیا ہو ، جنھوں نے دین میں اپنی طرف سے نئی نئی باتیں شامل کر کے خدا کی طرف منسُوب کی ہوں، وہ آخر فلاح یاب اور راست رَو کیسے ہو سکتے ہیں۔ چاہے وہ تمہارے اسلاف اور بزرگ ہی کیوں نہ ہوں، بہر حال تھے وہ گمراہ اور اپنی اسی گمراہی کا بُرا انجام بھی وہ دیکھ کر رہیں گے۔
۱۱۶-اصل میں جَنّٰتٍ مَّعْرُوْ شٰتٍ وّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے مراد دو طرح کے باغ ہیں، ایک وہ جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں ، دُوسرے وہ جن کے درخت خود اپنے تنوں پر کھڑے رہتے ہیں۔ ہماری زبان میں باغ کا لفظ صرف دُوسری قسم کے باغوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے ہم نے جَنّٰتٍّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کا ترجمہ ’’باغ‘‘ کیا ہے اور جَنّٰتٍ مَّعْرُوْ شٰتٍ کے لیے ’’تاکستان‘‘(یعنی انگوری باغ) کا لفظ اختیار کیا ہے۔
۱۱۷-اصل میں لفظ فَرْش استعمال ہوا ہے۔ جانوروں کو فرش کہنا یا تو اس رعایت سے ہے کہ وہ چھوٹے قد کے ہیں اور زمین سے لگے ہوئے چلتے ہیں۔ یا اس رعایت سے کہ وہ ذبح کے لیے زمین پر لٹائے جاتے ہیں، یا اس رعایت سے کہ ان کی کھالوں اور ان کے بالوں سے فرش بنائے جاتے ہیں۔
۱۱۸-سلسلۂ کلام پر نظر کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ تین باتیں ذہن نشین کرانا چاہتا ہے۔ ایک یہ کہ یہ باغ اور کھیت اور یہ جانور جو تم کو حاصل ہیں ، یہ سب اللہ کے بخشے ہوئے ہیں، کسی دُوسرے کا اس بخشش میں کوئی حصّہ نہیں ہے ، اس لیے بخشش کے شکریہ میں بھی کسی کا کوئی حصّہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرے یہ کہ جب یہ چیزیں اللہ کی بخشش ہیں تو ان کے استعمال میں اللہ ہی کے قانون کی پیروی ہونی چاہیے۔ کسی دُوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ ان کے استعمال پر اپنی طرف سے حدود مقرر کر دے۔ اللہ کے سوا کسی اَ ور کی مقرر کردہ رسموں کی پابندی کرنا اور اللہ کے سوا کسی اَور کے آگے شُکرِ نعمت کی نذر پیش کرنا ہی حد سے گزرنا ہے اور یہی شیطان کی پیروی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ سب چیزیں اللہ نے انسان کے کھانے پینے اور استعمال کرنے ہی کے لیے پیدا کی ہیں، اس لیے پیدا نہیں کیں کہ انھیں خواہ مخواہ حرام کر لیا جائے۔ اپنے اوہام اور قیاسات کی بنا پر جو پابندیاں لوگوں نے خدا کے رزق اور اس کی بخشی ہوئی چیزوں کے استعمال پر عائد کر لی ہیں وہ سب منشاءِ الٰہی کے خلاف ہیں۔
۱۱۹-یعنی گمان و وہم یا آبائی روایات نہ پیش کرو بلکہ علم پیش کرو اگر وہ تمہارے پاس ہو۔
۱۲۰-یہ سوال اس تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ اُن پر خود اپنے ان توہّمات کی غیر معقولیّت واضح ہو جائے۔ یہ بات کہ ایک ہی جانور کا نر حلال ہو اور مادہ حرام، یا مادہ حلال ہو اور نر حرام، یا جانور خود حلال ہو مگر اس کا بچہ حرام، یہ صریحاً ایسی نامعقول بات ہے کہ عقلِ سلیم اِسے ماننے سے انکار کرتی ہے اور کوئی ذی عقل انسان یہ تصوّر نہیں کر سکتا کہ خدا نے ایسی لغویّات کا حکم دیا ہو گا۔ پھر جس طریقہ سے قرآن نے اہلِ عرب کو اُن کے اِن توہّمات کی غیر معقولیّت سمجھانے کی کوشش کی ہے بعینہٖ اسی طریقہ پر دُنیا کی اُن دُوسری قوموں کو بھی اُن کے توہّمات کی لغویّات پر متنبہ کیا جا سکتا ہے جن کے اندر کھانے پینے کی چیزوں میں حُرمت و حِلّت کی غیر معقول پابندیاں اور چھُوت چھات کی قیُود پائی جاتی ہیں۔
۱۲۱-یہ مضمون سُورہ بقرہ آیت ۷۳ اور سُورہ مائدہ آیت ۳ میں گزر چکا ہے ، اور آگے سُورہ نحل آیت ۱۱۵ میں آنے والا ہے۔
سُورہ بقرہ کی آیت اور اس آیت میں بظاہر اتنا اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہاں محض ’’خون‘‘ کہا گیا ہے اور یہاں خون کے ساتھ مَسْفُوْح کی قید لگائی گئی ہے ، یعنی ایسا خون جو کسی جانور کو زخمی کر کے یا ذبح کر کے نکالا گیا ہو۔ مگر دراصل یہ اختلاف نہیں بلکہ اُس حکم کی تشریح ہے۔ اِسی طرح سُورۂ مائدہ کی آیت میں ان چار چیزوں کے علاوہ چند اور چیزوں کی حُرمت کا بھی ذکر ملتا ہے ، یعنی وہ جانور جو گلا گھُونٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گِر کر یا ٹکر کھا کر مرا ہو یا جسے کسی درندے نے پھاڑ ا ہو۔ لیکن فی الحقیقت یہ بھی اختلاف نہیں ہے بلکہ ایک تشریح ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور اس طور پر ہلاک ہوئے ہوں وہ بھی مُردار کی تعریف میں آتے ہیں۔
فقہائے اسلام میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ حیوانی غذاؤں میں سے یہی چار چیزیں حرام ہیں اور ان کے سوا ہر چیز کا کھانا جائز ہے۔ یہی مسلک حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عائشہ کا تھا۔ لیکن متعدّد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بعض چیزوں کے کھانے سے یا تو منع فرمایا ہے یا ان پر کراہت کا اظہار فرمایا ہے۔ مثلاً پالتو گدھے ، کچلیوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے۔ اس وجہ سے اکثر فقہاء تحریم کو ان چار چیزوں تک محدُود نہیں مانتے بلکہ دُوسری چیزوں تک اسے وسیع قرار دیتے ہیں۔ مگر اس کے بعد پھر مختلف چیزوں کی حِلّت و حُرمت میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ مثلاً پالتو گدھے کو امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام شافعی حرام قرار دیتے ہیں۔ لیکن بعض دُوسرے فقہا کہتے ہیں کہ وہ حرام نہیں ہے بلکہ کسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک موقع پر اس کی ممانعت فرما دی تھی۔ درندہ جانوروں اور شکاری پرندوں اور مُردار خور حیوانات کو حنفیہ مطلقاً حرام قرار دیتے ہیں۔ مگر امام مالک اور اَوزاعی کے نزدیک شکاری پرندے حلال ہیں۔ لَیث کے نزدیک بِلّی حلال ہے۔ امام شافعی کے نزدیک صرف وہ درندے حرام ہیں جو انسان پر حملہ کرتے ہیں، جیسے شیر، بھیڑیا، چیتا وغیرہ۔ عِکْرِمہ کے نزدیک کوّا اور بجّو دونوں حلال ہیں۔ اسی طرح حنفیہ تمام حشرات الارض کو حرام قرار دیتے ہیں ، مگر ابن ابی لیلیٰ، امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک سانپ حلال ہے۔
ان تمام مختلف اقوال اور ان کے دلائل پر غور کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ دراصل شریعت الٰہی میں قطعی حُرمت اُن چار ہی چیزوں کی ہے جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے۔ ان کے سوا دُوسری حیوانی غذاؤں میں مختلف درجوں کی کراہت ہے۔ جن چیزوں کی کراہت صحیح روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے وہ حُرمت کے درجہ سے قریب تر ہیں اور جن چیزوں میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے ان کی کراہت مشکوک ہے۔ رہی طبعی کراہت جس کی بنا پر بعض اشخاص بعض چیزوں کو کھانا پسند نہیں کرتے ، یا طبقاتی کراہت جس کی بنا پر انسانوں کے بعض طبقے بعض چیزوں کو ناپسند کرتے ہیں، یا قومی کراہت جس کی بنا پر بعض قومیں بعض چیزوں سے نفرت کرتی ہیں ، تو شریعتِ الٰہی کسی کو مجبُور نہیں کرتی کہ وہ خواہ مخواہ ہر اس چیز کو ضرور ہی کھا جائے جو حرام نہیں کی گئی ہے۔ اور اسی طرح شریعت کسی کو یہ حق بھی نہیں دیتی کہ وہ اپنی کراہت کو قانون قرار دے اور ان لوگوں پر الزام عائد کر ے جو ایسی غذائیں استعمال کرتے ہیں جنھیں وہ نا پسند کرتا ہے۔
۱۲۲-یہ مضمون قرآن مجید میں تین مقامات پر بیان ہوا ہے۔ سُورۂ آلِ عمران میں فرمایا ’’کھانے کی یہ ساری چیزیں (جو شریعت محمدی میں حلال ہیں)بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں ، البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنھیں توراۃ کے نازل کیے جانے سے پہلے اسرائیل نے خود اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ ان سے کہو لاؤ توراۃ اور پیش کروا س کی کوئی عبارت اگر تم(اپنے اعتراض میں) سچے ہو‘‘۔(آیت ۹۳)۔ پھر سُورہ ٔ نساء میں فرمایا کہ بنی اسرائیل کے جرائم کی بنا پر ’’ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں‘‘۔(آیت ۱۶۱)۔ اور یہاں ارشاد ہوا ہے کہ ان کی سرکشیوں کی پاداش میں ہم نے ان پر تمام ناخن والے جانور حرام کیے اور بکری اور گائے کی چربی بھی ان کے لیے حرام ٹھیرا دی۔ اِن تینوں آیتوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی ؐ اور یہُودی فقہ کے درمیان حیوانی غذاؤں کی حِلّت و حُرمت کے معاملہ میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ دو وجوہ پر مَبنی ہے :
ایک یہ کہ نزولِ توراۃ سے صدیوں پہلے حضرت یعقوبؑ (اسرائیل) علیہ السّلام نے بعض چیزوں کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی ان چیزوں کی تارک رہی، حتیٰ کہ یہُودی فقہاء نے ان کو باقاعدہ حرام سمجھ لیا اور ان کی حُرمت توراۃ میں لکھ لی۔ اِن اشیاء میں اُونٹ اور خرگوش اور سافان شامل ہیں۔ آج بائیبل میں توراۃ کے جو اجزاء ہم کو ملتے ہیں اُن میں ان تینوں چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے (احبار ۴:۱۱ – ۶ – استثناء ۷:۱۴ )۔ لیکن قرآن مجید میں یہودیوں کو جو چیلنج دیا گیا تھا کہ لاؤ توراۃ اور دکھاؤ یہ چیزیں کہاں حرام لکھی ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ توراۃ میں ان احکام کا اضافہ اس کے بعد کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر اس وقت توراۃ میں یہ احکام موجود ہوتے تو بنی اسرائیل فوراً لا کر پیش کر دیتے۔
دُوسرا فرق اس وجہ پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت سے جب یہودیوں نے بغاوت کی اور آپ اپنے شارع بن بیٹھے تو انہوں نے بہت سے پاک چیزوں کو اپنی موشگافیوں سے خود حرام کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر انھیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہنے دیا۔ ان اشیاء میں ایک تو ناخن والے جانور شامل ہیں ، یعنی شتر مُرغ ، قاز، بط وغیرہ۔ دُوسرے گائے اور بکری کی چربی۔ بائیبل میں ان دونوں قسم کی حرمتوں کو احکامِ توراۃ میں داخل کر دیا گیا ہے۔ (احبار ۱۶:۱۱ – ۱۸ – استثناء ۱۴:۱۴ – ۱۵ – ۱۶ – احبار ۱۷:۳ و ۲۲:۷ - ۲۳)۔ لیکن سُورہ ٔ نساء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں توراۃ میں حرام نہ تھیں بلکہ حضرت عیسیٰؑ کے بعد حرام ہوئی ہیں ، اور تاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ موجودہ یہودی شریعت کی تدوین دُوسری صدی عیسوی کے آخر میں رَبّی یہوداہ کے ہاتھوں مکمل ہوئی ہے۔
رہا یہ سوال کہ پھر ان چیزوں کے متعلق یہاں اور سُورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ نے حَرَّمْنَا (ہم نے حرام کیا) کا لفظ کیوں استعمال کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائی تحریم کی صرف یہی ایک صُورت نہیں ہے کہ وہ کسی پیغمبر اور کتاب کے ذریعہ سے کسی چیز کو حرام کرے۔ بلکہ اس کی صورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے باغی بندوں پر بناوٹی شارعوں اور جعلی قانون سازوں کو مسلّط کر دے اور وہ ان پر طیّبات کو حرام کر دیں۔ پہلی قسم کی تحریم خدا کی طرف سے رحمت کے طور پر ہوتی ہے اور یہ دُوسری قسم کی تحریم اس کی پھِٹکار اور سزا کی حیثیت سے ہوا کرتی ہے۔
۱۲۳-یعنی اگر تم اب بھی اپنی نافرمانی کی روش سے باز آ جاؤ اور بندگی کے صحیح رویّہ کی طرف پلٹ آؤ تو اپنے ربّ کے دامنِ رحمت کو اپنے لیے کشادہ پا ؤ گے لیکن اگر اپنی اِسی مجرمانہ و باغیانہ روش پر اَڑے رہو گے تو خوب جان لو کہ اس کے غضب سے بھی پھر کوئی بچانے والا نہیں ہے۔
۱۲۴-یعنی وہ اپنے جرم اور اپنی غلط کاری کے لیے وہی پُرانا عذر پیش کریں گے جو ہمیشہ سے مجرم اور غلط کار لوگ پیش کرتے رہے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے حق میں اللہ کی مشیّت یہی ہے کہ ہم شرک کریں اور جن چیزوں کو ہم نے حرام ٹھیرا رکھا ہے انھیں حرام ٹھیرائیں۔ ورنہ اگر خدا نہ چاہتا کہ ہم ایسا کریں تو کیوں کر ممکن تھا کہ یہ افعال ہم سے صادر ہوتے۔ پس چونکہ ہم اللہ کی مشیّت کے مطابق یہ سب کچھ کر رہے ہیں اس لیے درست کر رہے ہیں، اس کا الزام اگر ہے تو ہم پر نہیں ، اللہ پر ہے۔ اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں ایسا ہی کرنے پر مجبور ہیں کہ اس کے سوا کچھ اور کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے۔
۱۲۵-یہ ان کے عذر کا مکمل جواب ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے اس کا تجزیہ کر کے دیکھنا چاہیے :
پہلی بات یہ فرمائی کہ اپنی غلط کاری و گمراہی کے لیے مشیتِ الٰہی کو معذرت کے طور پر پیش کرنا اور اسے بہانہ بنا کر صحیح رہنمائی کو قبول کرنے سے انکار کرنا مجرموں کا قدیم شیوہ رہا ہے ، اور اس کا انجام یہ ہوا ہے کہ آخر کار وہ تباہ ہوئے اور حق کے خلاف چلنے کا بُرا نتیجہ انہوں نے دیکھ لیا۔
پھر فرمایا کہ یہ عذر جو تم پیش کر رہے ہو یہ دراصل علمِ حقیقت پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض گمان اور تخمینہ ہے۔ تم نے محض مشیّت کا لفظ کہیں سے سُن لیا اور اس پر قیاسات کی ایک عمارت کھڑی کر لی۔ تم نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ انسان کے حق میں فی الواقع اللہ کی مشیّت کیا ہے۔ تم مشیّت کے معنی یہ سمجھ رہے ہو کہ چور اگر مشیّتِ الٰہی کے تحت چوری کر رہا ہے تو وہ مجرم نہیں ہے ، کیونکہ اس نے یہ فعل خدا کی مشیّت کے تحت کیا ہے۔ حالانکہ دراصل انسان کے حق میں خدا کی مشیّت یہ ہے کہ وہ شکر اور کفر، ہدایت اور ضلالت ، طاعت اور معصیت میں سے جو راہ بھی اپنے لیے منتخب کرے گا، خدا وہی راہ اس کے لیے کھول دے گا، اور پھر غلط یا صحیح، جو کام بھی انسان کرنا چاہے گا ، خدا اپنی عالمگیر مصلحتوں کا لحاظ کرتے ہوئے جس حد تک مناسب سمجھے گا اُسے اس کام کا اذن اور اس کی توفیق بخش دے گا۔ لہٰذا اگر تم نے اور تمہارے باپ دادا نے مشیّتِ الٰہی کے تحت شرک اور تحریم طیّبات کی توفیق پائی تو اس کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ تم لوگ اپنے اِن اعمال کے ذمّہ دار اور جواب دہ نہیں ہو۔ اپنے غلط انتخابِ راہ اور اپنے غلط ارادے اور سعی کے ذمّہ دار تو تم خود ہی ہو۔
آخر میں ایک ہی فقرے کے اندر کانٹے کی بات بھی فرما دی کہ فِللّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ، فَلَوْ شَآ ءَ لَھَدٰ کُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ یعنی تم اپنی معذرت میں یہ حجّت پیش کرتے ہو کہ ’’اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے ‘‘، اس سے پوری بات ادا نہیں ہوتی۔ پوری بات کہنا چاہتے ہو تو یوں کہو کہ ’’ اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا‘‘۔ بالفاظ دیگر تم خود اپنے انتخاب سے راہِ راست اختیار کر نے پر تیار نہیں، بلکہ یہ چاہتے ہو کہ خدا نے جس طرح فرشتوں کو پیدائشی راست رَو بنایا ہے اس طرح تمھیں بھی بنا دے۔ تو بے شک اگر اللہ کی مشیّت انسان کے حق میں یہ ہوتی تو وہ ضرور ایسا کر سکتا تھا ، لیکن یہ اس کی مشیّت نہیں ہے ، لہٰذا جس گمراہی کو تم نے اپنے لیے خود پسند کیا ہے اللہ بھی تمھیں اسی میں پڑا رہنے دے گا۔
۱۲۶-یعنی اگر وہ شہادت کی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ شہادت اُسی بات کی دینی چاہیے جس کا آدمی کو علم ہو، تو وہ کبھی یہ شہادت دینے کی جرأت نہ کریں گے کہ کھانے پینے پر یہ قیُود، جو ان کے ہاں رسم کے طور پر رائج ہیں، اور یہ پابندیاں کہ فلاں چیز کو فلاں نہ کھائے اور فلاں چیز کو فلاں کا ہاتھ نہ لگے ، یہ سب خدا کی مقرر کر دہ ہیں۔ لیکن اگر یہ لوگ شہادت کی ذمہ داری کو محسُوس کیے بغیر اتنی ڈھٹائی پر اُتر آئیں کہ خدا کا نام لے کر جھُوٹی شہادت دینے میں بھی تامّل نہ کریں، تو ان کے اس جھُوٹ میں تم ان کے سا تھی نہ بنو۔ کیونکہ اُن سے یہ شہادت اس لیے طلب نہیں کی جا رہی ہے کہ اگر یہ شہادت دے دیں تو تم ان کی بات مان لو گے ، بلکہ اس کی غرض صرف یہ ہے کہ ان میں سے جن لوگوں کے اندر کچھ بھی راست بازی موجود ہے ان سے جب کہا جائے گا کہ کیا واقعی تم سچائی کے ساتھ اس بات کی شہادت دے سکتے ہو کہ یہ ضوابط خدا ہی کے مقرر کیے ہوئے ہیں تو وہ اپنی رسموں کی حقیقت پر غور کریں گے ، اور جب ان کے مِن جانب اللہ ہونے کا کوئی ثبوت نہ پائیں گے تو ان فضول رسموں کی پابندی سے باز آ جائیں گے۔
۱۲۷-یعنی تمہارے ربّ کے عائد کی ہوئی پابندیاں وہ نہیں ہیں جن میں تم گرفتار ہو، بلکہ اصل پابندیاں یہ ہیں جو اللہ نے انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے لیے عائد کی ہیں اور جو ہمیشہ سے شرائع الٰہیہ کی اصل الاُصُول رہی ہیں۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب خروج ، باب ۲۰)۔
۱۲۸-یعنی نہ خدا کی ذات میں کسی کو اس کا شریک ٹھیراؤ ، نہ اس کی صفات میں، نہ اس کے اختیارات میں، اور نہ اس کے حقوق میں۔
ذات میں شرک یہ ہے کہ جوہرِ اُلُوہیّت میں کسی کو حصّہ دار قرار دیا جائے۔ مثلاً نصاریٰ کا عقیدۂ تثلیث، مشرکین عرب کا فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا، اور دُوسرے مشرکین کا اپنے دیوتاؤں اور دیویوں کو اور اپنے شاہی خاندانوں کو جنسِ آلہہ کے افراد قرار دینا۔ یہ سب شرک فی الذّات ہیں۔
صفات میں شرک یہ ہے کہ خدائی صفات جیسی کہ وہ خدا کے لیے ہیں، ویسا ہی اُن کو یا اُن میں سے کسی صفت کو کسی دُوسرے کے لیے قرار دینا۔ مثلاً کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ اس پر غیب کی ساری حقیقتیں روشن ہیں، یا وہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے ، یا وہ تمام نقائص اور تمام کمزوریوں سے منزَّہ اور بالکل بے خطا ہے۔
اختیارات میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں اُن کو یا ان میں سے کسی کو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے تسلیم کیا جائے۔ مثلاً فوق الفطری طریقے سے نفع و ضرر پہنچانا ، حاجت روائی و دستگیری کرنا ، محافظت و نگہبانی کرنا، دُعائیں سُننا اور قسمتوں کو بنانا اور بگاڑنا۔ نیز حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی حُدُود مقرر کرنا اور انسانی زندگی کے لیے قانون و شرع تجویز کرنا۔ یہ سب خداوندی کے مخصُوص اختیارات ہیں جن میں سے کسی کو غیر اللہ کے لیے تسلیم کرنا شرک ہے۔
حقوق میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر خدا کے جو مخصوص حقوق ہیں وہ یا ان میں سے کوئی حق خدا کے سوا کسی اور کے لیے مانا جائے۔ مثلاً رکوع و سجود، دست بستہ قیام، سلامی و آستانہ بوسی، شکرِ نعمت یا اعترافِ برتری کے لیے نذر و نیاز اور قربانی ، قضائے حاجات اور رفع مشکلات کے لیے مَنّت، مصائب و مشکلات میں مدد کے لیے پکارا جانا، اور ایسی ہی پرستش و تعظیم و تمجید کی دُوسری تمام صُورتیں اللہ کے مخصُوص حقوق میں سے ہیں۔ اسی طرح ایسا محبُوب ہونا کہ اس کی محبت پر دُوسری سب محبتیں قربان کی جائیں ، اور ایسا مستحق تقویٰ و خشیت ہونا کہ غیب و شہادت میں اس کی ناراضی اور اس کے حکم کی خلاف ورزی سے ڈرا جائے ، یہ بھی صرف اللہ کا حق ہے۔ اور یہ بھی اللہ ہی کا حق ہے کہ اس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے ، اور اس کی ہدایت کو صحیح و غلط کا معیار مانا جائے ، اور کسی ایسی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن میں نہ ڈالا جائے جو اللہ کی اطاعت سے آزاد ایک مستقل اطاعت ہو اور جس کے حکم کے لیے اللہ کے حکم کی سند نہ ہو۔ ان حقوق میں سے جو حق بھی دُوسرے کو دیا جائے گا وہ اللہ کا شریک ٹھیرے گا خواہ اس کو خدائی ناموں سے کوئی نام دیا جائے یا نہ دیا جائے۔
۱۲۹-نیک سلوک میں ادب ، تعظیم، اطاعت، رضا جوئی، خدمت ، سب داخل ہیں۔ والدین کے اس حق کو قرآن میں ہر جگہ توحید کے حکم کے بعد بیان فرمایا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے بعد بندوں کے حقوق میں سب سے مقدم حق انسان پر اس کے والدین کا ہے۔
۱۳۰-اصل میں لفظ ’’فواحش‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق اُن تمام افعال پر ہوتا ہے جن کی بُرائی بالکل واضح ہے۔ قرآن میں زنا ، عملِ قومِ لوط ، برہنگی، جھُوٹی تُہمت، اور باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو فحش افعال میں شمار کیا گیا ہے۔ حدیث میں چوری اور شراب نوشی اور بھیک مانگنے کو مِن جملۂ فواحش کہا گیا ہے۔ اِسی طرح دُوسرے تمام شرمناک افعال بھی فواحش میں داخل ہیں اور ارشادِ الٰہی یہ ہے کہ اس قسم کے افعال نہ علانیہ کیے جائیں نہ چھُپ کر۔
۱۳۱-یعنی انسانی جان، جو فی الاصل خدا کی طرف سے حرام ٹھیرائی گئی ہے ، ہلاک نہ کی جائے گی مگر حق کے ساتھ۔ اب رہا یہ سوال کہ ’’حق کے ساتھ‘‘ کا کیا مفہُوم ہے ، تو اس کی تین صُورتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں، اور دو صُورتیں اس پر زائد، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمائی ہیں۔ قرآن کی بیان کردہ صُورتیں یہ ہیں:
(۱) انسان کسی دُوسرے انسان کے قتلِ عمد کا مجرم ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہو گیا ہو۔
(۲) دینِ حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ رہا ہو۔
(۳) دار الاسلام کے حُدُود میں بد امنی پھیلائے یا اسلامی نظامِ حکومت کو اُلٹنے کی سعی کرے۔
باقی دو صُورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں ، یہ ہیں:
(۴) شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے۔
(۵) ارتداد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو۔
اِن پانچ صُورتوں کے سوا کسی صُورت میں انسان کا قتل انسان کے لیے حلال نہیں ہے ، خواہ وہ مومن ہو یا ذمّی یا عام کافر۔
۱۳۲-یعنی ایسا طریقہ جو زیادہ سے زیادہ بے غرضی، نیک نیتی اور یتیم کی خیر خواہی پر مبنی ہو، اور جس پر خدا اور خلق کسی کی طرف سے بھی تم اعتراض کے مستحق نہ ہو۔
۱۳۳-یہ اگرچہ شریعتِ الٰہی کا ایک مستقل اُصُول ہے ، لیکن یہاں اس کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص اپنی حد تک تاپ تول اور لین دین کے معاملات میں راستی و انصاف سے کام لینے کی کوشش کرے وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گا۔ بھُول چوک یا نا دانستہ کمی وہ بیشی ہو جانے پر اس سے باز پُرس نہ ہو گی۔
۱۳۴-’’اللہ کے عہد‘‘ سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان اپنے خدا سے کرے ، اور وہ بھی جو خدا کا نام لے کر بندوں سے کرے ، اور وہ بھی جو انسان اور خدا، اور انسان اور انسان کے درمیان اُسی وقت آپ سے آپ بندھ جاتا ہے جس وقت ایک شخص خدا کی زمین میں ایک انسانی سوسائیٹی کے اندر پیدا ہوتا ہے۔
۱۳۵-اوپر جس فطری عہد کا ذکر ہوا ، یہ اس عہد کا لازمی اقتضا ہے کہ انسان اپنے رب کے بتائے ہوئے راستہ پر چلے ، کیونکہ اس کے امر کی پیروی سے منہ موڑنا اور خود سری و خود مختاری یا بندگیِ غیر کی جانب قدم بڑھانا انسان کی طرف سے اُس عہد کی اوّلین خلاف ورزی ہے جس کے بعد ہر قدم پر اس کی دفعات ٹوٹتی چلی جاتی ہیں۔ علاوہ بریں اس نہایت نازک، نہایت وسیع اور نہایت پیچیدہ عہد کی ذمہ داریوں سے انسان ہر گز عہدہ برآ نہیں ہو سکتا جب تک وہ خدا کی رہنمائی کو قبول کر کے اس کے بتائے ہوئے راستہ پر زندگی بسر نہ کرے۔ اس کو قبول نہ کرنے کے دو زبردست نقصان ہیں۔ ایک یہ کہ ہر دُوسرے راستہ کی پیروی لازماً انسان کو اس راہ سے ہٹا دیتی ہے جو خدا کے قرب اور اس کی رضا تک پہنچنے کی ایک ہی راہ ہے۔ دُوسرے یہ کہ اس راہ سے ہٹتے ہی بے شمار پگڈنڈیاں سامنے آ جاتی ہیں جن میں بھٹک کر پُوری نوعِ انسانی پراگندہ ہو جاتی ہے اور اس پراگندگی کے ساتھ ہی اس کے بلوغ و ارتقاء کا خواب بھی پریشان ہو کر رہ جاتا ہے۔ انہی دونوں نقصانات کو اس فقرے میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’دُوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کے راستہ سے ہٹا کر پراگندہ کر دیں گے ‘‘۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ مائدہ ، حاشیہ نمبر ۳۵)۔
۱۳۶-رب کی ملاقات پر ایمان لانے سے مراد اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھنا اور ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنا ہے۔ یہاں اس ارشاد کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ خود بنی اسرائیل میں اس کتاب کی حکیمانہ تعلیمات سے ذمّہ داری کا احساس بیدار ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ عام لوگ اس اعلیٰ درجہ کے نظامِ زندگی کا مطالعہ کر کے اور نیکو کار انسانوں میں اِس نعمتِ ہدایت اور اس رحمت کے اثرات دیکھ کر یہ محسُوس کر لیں کہ انکارِ آخرت کی غیر ذمّہ دارانہ زندگی کے مقابلہ میں وہ زندگی ہر اعتبار سے بہتر ہے جو اقرارِ آخرت کی بُنیاد پر ذم دارانہ طریقہ سے بسر کی جاتی ہے ، اور اس طرح یہ مشاہدہ و مُطالعہ انھیں انکار سے ایمان کی طرف کھینچ لائے۔
۱۳۸-اللہ کی آیات سے مراد اس کے وہ ارشادات بھی ہیں جو قرآن کی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کیے جا رہے تھے ، اور وہ نشانیاں بھی جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شخصیت اور آپ پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگی میں نمایاں نظر آ رہی تھیں، اور وہ آثارِ کائنات بھی جنھیں قرآن اپنی دعوت کی تائید میں شہادت کے طور پر پیش کر رہا تھا۔
۱۳۹-یعنی آثارِ قیامت ، یا عذاب، یا کوئی اور ایسی نشانی جو حقیقت کی بالکل پردہ کشائی کر دینے والی ہو اور جس کے ظاہر ہو جانے کے بعد امتحان و آزمائش کا کوئی سوال باقی نہ رہے۔
۱۴۰-یعنی ایسی نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد اگر کوئی کافر اپنے کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آئے تو اس کا ایمان لانا بے معنی ہے ، اور اگر کوئی نافرمان مومن اپنی نافرمانی کی روش چھوڑ کر اطاعت کیش بن جائے تو اس کی اطاعت بھی بے معنی، اس لیے کہ ایمان اور اطاعت کی قدر تو اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پر دے میں ہے ، مُہلت کی رسّی دراز نظر آ رہی ہے ، اور دنیا اپنی ساری متاعِ غرور کے ساتھ یہ دھوکا دینے کے لیے موجود ہے کہ کیسا خدا اور کہاں کی آخرت، بس کھاؤ پیو اور مزے کرو۔
۱۴۱-خطاب بنی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے ، اور آپ کے واسطہ سے دینِ حق کے تمام پیرو اس کے مخاطب ہیں۔ ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے یہی رہا ہے اور اب بھی یہی ہے کہ ایک خدا کو الٰہ اور ربّ مانا جائے۔ اللہ کی ذات، صفات ، اختیارات اور حقوق میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ اللہ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے آخرت پر ایمان لایا جائے ، اور اُن وسیع اُصُول و کُلّیات کے مطابق زندگی بسر کی جائے جن کی تعلیم اللہ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ سے دی ہے۔ یہی دین تمام انسانوں کو اوّل یومِ پیدائش سے دیا گیا تھا۔ بعد میں جتنے مختلف مذاہب بنے وہ سب کے سب اس طرح بنے کہ مختلف زمانوں کے لیے لوگوں نے اپنے ذہن کی غلط اُپَچ سے ، یا خواہشاتِ نفس کے غلبہ سے ، یا عقیدت کے غلو سے اس دین کو بدلا اور اس میں نئی نئی باتیں ملائیں۔ اس کے عقائد میں اپنے اوہام و قیاسات اور فلسفوں سے کمی و بیشی اور ترمیم و تحریف کی۔ اس کے احکام میں بدعات کے اضافے کیے۔ خود ساختہ قوانین بنائے۔ جُزئیات میں موشگافیاں کیں۔ فروعی اختلافات میں مبالغہ کیا۔ اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنایا۔ اس کے لانے والے انبیاء اور اس کے علمبردار بزرگوں میں سے کسی کی عقیدت میں غلو کیا اور کسی کو بغض و مخالفت کا نشانہ بنایا۔ اس طرح بے شمار مذاہب اور فرقے بنتے چلے گئے اور ہر مذہب و فرقہ کی پیدائش نوعِ انسانی کو متخاصم گروہوں میں تقسیم کرتی چلی گئی۔ اب جو شخص بھی اصل دینِ حق کا پیرو ہو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ان ساری گروہ بندیوں سے الگ ہو جائے اور ان سب سے اپنا راستہ جدا کر لے۔
۱۴۲-’’ابراہیمؑ کا طریقہ‘‘ یہ اس راستے کی نشان دہی کے لیے مزید ایک تعریف ہے۔ اگرچہ اس کو موسیٰؑ کا طریقہ یا عیسیٰؑ کا طریقہ بھی کہا جا سکتا تھا، مگر حضرت موسیٰؑ کی طرف دُنیا نے یہودیّت کو اور حضرت عیسیٰؑ کی طرف مسیحیت کو منسُوب کر رکھا ہے ، اس لیے ’’ابراہیمؑ کا طریقہ‘‘ فرمایا۔ حضرت ابراہیمؑ کو یہُودی اور عیسائی ، دونوں گروہ بر حق تسلیم کرتے ہیں، اور دونوں یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ یہودیّت اور عیسائیّت کی پیدائش سے بہت پہلے گزر چکے تھے۔ نیز مشرکینِ عرب بھی ان کو راست رَ و مانتے تھے اور اپنی جہالت کے باوجود کم از کم اتنی بات انھیں بھی تسلیم تھی کہ کعبہ کی بنا رکھنے والا پاکیزہ انسان خالص خدا پرست تھا نہ کہ بُت پرست۔
۱۴۳-اصل میں لفظ ’’نُسُک‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی قربانی کے بھی ہیں اور اس کا اطلاق عمومیّت کے ساتھ بندگی و پرستش کی دُوسری تمام صُورتوں پر بھی ہوتا ہے۔
۱۴۴-یعنی کائنات کی ساری چیزوں کا ربّ تو اللہ ہے ، میرا ربّ کوئی اور کیسے ہو سکتا ہے ؟ کس طرح یہ بات معقول ہو سکتی ہے کہ ساری کائنات تو اللہ کی اطاعت کے نظام پر چل رہی ہو ، اور کائنات کا ایک جزء ہونے کی حیثیت سے میرا اپنا وجود بھی اُسی نظام پر عامل ہو، مگر میں اپنی شعُوری و اختیاری زندگی کے لیے کوئی اور ربّ تلاش کروں؟ کیا پوری کائنات کے خلاف میں اکیلا ایک دُوسرے رُخ پر چل پڑوں؟
۱۴۵-یعنی ہر شخص خود ہی اپنے عمل کا ذمّہ دار ہے ، اور ایک عمل کی ذمہ داری دُوسرے پر نہیں ہے۔
۱۴۶-اس فقرہ میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں:
ایک یہ کہ تمام انسان زمین میں خدا کے خلیفہ ہیں ، اس معنی میں کہ خدا نے اپنی مملوکات میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور ان پر تصرّف کے اختیارات بخشے ہیں۔
دوسرے یہ کہ ان خلیفوں میں مراتب کا فرق بھی خدا ہی نے رکھا ہے ، کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدُود ، کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرّف کے اختیارات دیے ہیں اور کسی کو کم چیزوں پر ، کسی کو زیادہ قوّتِ کارکردگی دی ہے اور کسی کو کم ، اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں۔
تیسرے یہ کہ یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے ، پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے ، اور جس کو جو کچھ بھی خدا نے دیا ہے اسی میں اس کا امتحان ہے کہ اس نے کس طرح خدا کی امانت میں تصرّف کیا، کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا، اور کس حد تک اپنی قابلیّت یا ناقابلیّت کا ثبوت دیا۔ اسی امتحان کے نتیجہ پر زندگی کے دُوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے۔