اس سورہ کی آیت نمبر ۱۰ میں حکم دیا گیا ہے کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آئیں اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کریں ان کا امتحان لیا جائے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام الممتحنہ رکھا گیا ہے۔ اس کا تلفظ ممتحنہ بھی کیا جاتا ہے اور ممتحنہ بھی۔ پہلے تلفظ کے لحاظ سے معنی ہیں ’’ وہ عورت جس کا امتحان لیا جائے‘‘۔ اور دوسرے تلفظ کے لحاظ سے معنی ہیں ’’ امتحان لینے والی سورۃ‘‘۔
اس میں دو ایسے معاملات پر کلام فرمایا گیا ہے جن کا زمانہ تاریخی طور پر معلوم ہے۔ پہلا معاملہ حضرت حاطب بن ابی بلْتَعَہ کا ہے جنہوں نے فتح مکہ سے کچھ مدت پہلے ایک خفیہ خط کے ذریعہ سے قریش کے سرداروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارادے کی اطلاع بھیجی تھی کہ آپ ان پر حملہ کرنے والے ہیں۔ اور دوسرا معاملہ ان مسلمان عورتوں کا ہے جو صلح حدیبیہ کے بعد مکہ سے ہجرت کے کر کے مدینہ آنے لگی تھیں اور ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ شرائط صلح کی رو سے مسلمان مردوں کی طرح کیا ان عورتوں کو بھی کفار کے حوالہ کر دیا جائے؟ ان دو معاملات کے ذکر سے یہ بات قطعی طور پر متعین ہو جاتی ہے کہ یہ سورہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ہے ان کے علاوہ ایک تیسرا معاملہ بھی ہے جس کا ذکر سورۃ کے آخر میں آیا ہے، اور وہ یہ کہ جب عورتیں ایمان لا کر بیعت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوں تو آپ ان سے کن باتوں کا عہد لیں۔ اس حصے کے متعلق بھی قیاس یہی ہے کہ یہ بھی فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوا ہے کیونکہ فتح مکہ کے بعد قریش کے مردوں کی طرح ان کی عورتیں بھی بہت بڑی تعداد میں بیک وقت داخل اسلام ہونے والی تھیں اور اسی موقع پر یہ ضرورت پیش آئی تھی کہ اجتماعی طور پر ان سے عہد لیا جائے۔
پہلا حصہ آغاز سورہ سے آیت ۹ تک چلتا ہے اور سورۃ کے خاتمہ پر آیت ۱۳ بھی اسی سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے اس فعل پر سخت گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے محض اپنے اہل و عیال کو بچانے کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک نہایت اہم جنگی راز سے دشمنوں کو خبر دار کرنے کی کوشش کی تھی جسے اگر بر وقت ناکام نہ کر دیا گیا ہوتا تو فتح مکہ کے موقع پر بڑا کشت و خون ہوتا، مسلمانوں کی بھی بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوتیں، قریش کے بھی بہت سے وہ لوگ مارے جاتے جو بعد میں اسلام کی عظیم خدمات انجام دینے والے تھے، وہ تمام فوائد بھی ضائع ہو جاتے جو مکہ کو پُر امن طریقہ سے فتح کرنے کی صورت میں حاصل ہو سکتے تھے، اور اتنے عظیم نقصانات صرف اس وجہ سے ہوتے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص اپنے بال بچوں کو جنگ کے خطرات سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔ اس شدید غلطی پر تنبیہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے تمام اہل ایمان کو یہ تعلیم دی ہے کہ کسی مومن کو کسی حال میں اور کسی غرض کے لیے بھی اسلام کے دشمن کافروں کے ساتھ محبت اور دوسری کا تعلق نہ رکھنا چاہیے اور کوئی ایسا کام نہ کرنا چاہیے جو کفر و اسلام کی کشمکش میں کفار کے لیے مفید ہو۔ البتہ جو کافر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عملاً دشمنی اور ایذا رسانی کا برتاؤ نہ کر رہے ہوں ان کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
دوسرا حصہ آیات ۱۰۔۱۱ پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک اہم معاشرتی مسئلے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس وقت بری پیچیدگی پیدا کر رہا تھا۔ مکہ میں بہت سی مسلمان عورتیں ایسی تھیں جن کے شوہر کافر تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح ہجرت کر کے مدینہ پہنچ جاتی تھیں۔ اسی طرح مدینہ میں بہت سے مسلمان مر د ایسے تھے جن بیویاں کفر تھیں اور وہ مکہ ہی میں رہ گئی تھیں۔ ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج باقی ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ فیصلہ فرما دیا کہ مسلمان عورت کے لیے کافر شوہر حلال نہیں ہے، اور مسلمان مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ مشرک بیوی کو اپنے نکاح میں رکھے۔ یہ فیصلہ بڑے اہم قانونی نتائج رکھتا ہے جن کی تفصیل ہم آگے اپنے حواشی میں بیان کریں گے۔
تیسرا حصہ آیت ۱۲ پر مشتمل ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جو عورتیں اسلام قبول کریں ان سے آپ ان بڑی بڑی برائیوں سے بچنے کا عہد لیں جو جاہلیت عرب کے معاشرے میں عورتوں کے اندر پھیلی ہوئی تھیں اور اس بات کا اقرار کرائیں کہ آئندہ وہ بھلائی کے ان تمام طریقوں کی پیروی کریں گی جن کا حکم اللہ کے رسول کی طرف سے ان کو دیا جائے۔
۱۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آغاز ہی میں اس واقعہ کی تفصیلات بیان کر دی جائیں جس کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں تاکہ آگے کا مضمون سمجھنے میں آسانی ہو۔ مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے اور ابن عباس، مجاہد، قتادہ، غزوہ بن زبیر وغیرہ حضرات کی متفقہ روایت بھی یہی ہے کہ ان آیات کا نزول اس وقت ہوا تھا جب مشرکین مکہ کے نام حضرت حاطب ابی بُلْتَعہ کا خط پکڑا گیا تھا۔
قصہ یہ ہے کہ جب قریش کے لوگوں نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ معظمہ پر چڑھائی کی تیاریاں شروع کر دیں، مگر چند مخصوص صحابہ کے سوا کسی کو یہ نہ بتایا کہ آپ کس مہم پر جانا چاہتے ہیں۔ اتفاق سے اسی زمانے میں مکہ معظمہ سے ایک عورت آئی جو پہلے بنی عبدالمطلب کی لونڈی تھی اور پھر آزاد ہو کر گانے بجانے کا کام کرتی تھی۔ اس ے آ کر حضور سے اپنی تنگ دستی کی شکایت کی اور کچھ مال مدد مانگی۔ آپ نے بنی عبدالمطلب اور بنی المطلب سے اپیل کر کے اس کی حاجت پوری کر دی۔ جب وہ مکہ جانے لگی تو حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعہ اس سے ملے اور اس کو چپکے سے ایک خط بعض سرداران مکہ کے نام دیا اور اس دینار روپے تاکہ وہ راز فاش نہ کرے اور چھپا کر یہ خط ان لوگوں تک پہنچا دے۔ ابھی وہ مدینہ سے روانہ ہی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس پر مطلع فرما دیا۔ آپ نے فوراً حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت مقداد بن اسود کو اس کے پیچھے بھیجا اور حکم دیا کہ تیزی سے جاؤ، روضہ خاخ کے مقام پر (مدینہ سے ۱۲ میل بجانب مکہ) تم کو ایک عورت ملے گی جس کے پاس مشرکین کے نام حاطب کا ایک خط ہے۔ جس طرح بھی ہو اس سے وہ خط حاصل کرو۔ اگر وہ دے دے تو اسے چھوڑ دینا۔نہ دے تو اس کو قتل کر دینا۔ یہ حضرات جب اس مقام پر پہنچے تو عورت وہاں موجود تھی۔ انہوں نے اس سے خط مانگا۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ انہوں نے تلاشی لی۔ مگر کوئی خط نہ ملا۔ آخر کو انہوں نے کہا خط ہمارے حوالے کر ورنہ ہم برہنہ کر کے تیری تلاشی لیں گے۔ جب اس نے دیکھا کہ بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو اپنی چوٹی میں سے وہ خط نکال کر انہیں دے دیا اور یہ اسے حضورؐ کی خدمت میں لے آئے۔ کھول کر پڑھا گیا تو اس میں قریش کے لوگوں کو یہ اطلاع دی گئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تم پر چڑھائی کی تیاری کر رہے ہیں۔ (مختلف روایات میں خط کے الفاظ مختلف نقل ہوئے ہیں۔ مگر مدعا سب کا یہی ہے )۔ حضورؐ نے حضرت حاطب سے پوچھا، یہ کیا حرکت ہے؟ انہوں نے عرض کیا آپ میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں۔ میں نے جو کچھ کیا ہے اس بنا پر نہیں کیا ہے کہ میں کافر و مرتد ہو گیا ہوں اور اسلام کے بعد اب کفر کو پسند کرنے لگا ہوں۔اصل بات یہ ہے کہ میرے اقرباء مکہ میں مقیم ہیں۔ میں قریش کے قبیلہ کا آدمی نہیں ہوں، بلکہ بعض قریشیوں کی سرپرستی میں وہاں آباد ہوا ہوں مہاجرین میں سے دوسرے جن لوگوں کے اہل و عیال مکہ میں ہیں ان کو تو ان کا قبیلہ بچا لے گا۔ مگر میرا کوئی قبیلہ وہاں نہیں ہے جسے کوئی بچانے والا ہو۔ اس لیے میں نے یہ خط اس خیال سے بھیجا تھا کہ قریش والوں پر میرا ایک احسان رہے جس کا لحاظ کر کے وہ میرے بال بچوں کو نہ چھیڑین۔ (حضرت حاطب کے بیٹے عبدالرحمٰن کی روایت یہ ہے کہ اس وقت حضرت حاطب کے بچے اور بھائی مکہ میں تھے، اور خود حضرت حاطب کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ماں بھی وہیں تھیں )۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حاطب کی یہ بات سن کر حاضرین سے فرمایا : قَدْ صدقکم،’’ حاطب نے تم سے سچی بات ہی ہے ‘‘، یعنی ان کے اس فعل کا اصل محرک یہی تھا، اسلام سے انحراف اور کفر کی حمایت کا جذبہ اس کا محرک نہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن ماردوں،اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، اس شخص نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے۔ تمہیں کیا خبر، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر کہہ دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو، میں نے تم کو معاف کیا۔‘‘ (اس آخری فقرے کے الفاظ مختلف روایات میں مختلف ہیں۔ کسی میں ہے قد غفر ت لکم، میں نے تمہاری مغفرت کر دی۔ کسی میں ہے انی غافر لکم، میں تمہیں بخش دینے والا ہوں۔ اور کسی میں ہے ساغفرلکم۔ میں تمہیں بخش دوں گا)۔ یہ بات سن کر حضرت عمرؓ رو دیے اور انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ ان کثیر التعداد روایات کا خلاصہ ہے جو متعدد معتبر سندوں سے بخاری، مسلم، احمد، ابوداؤد، ترمذی،نسائی، ابن جریر طبری، ابن ہشام، ابن حبان اور ابن ابی حاتم نے نقل کی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مستند روایت وہ ہے جو خود حضرت علیؓ کی زبان دے ان کے کاتب (سکرٹری ) عبید اللہ بن ابی رافع نے سنی اور ان سے حضرت علی کے پوتے حسن بن محمد بن حنفیہ نے سن کر بعد مے راویوں تک پہنچائی۔ ان میں سے کسی روایت میں بھی یہ تصریح نہیں ہے کہ حضرت حاطب کا یہ عذر قبول کر کے انہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔
۲۔ یہاں تک جو ارشاد ہوا ہے، اور آگے اسی سلسلے میں جو کچھ آ رہا ہے، اگر چہ اس کے نزول کا موقع حضرت حاطب ہی کا واقعہ تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے تنہا انہی کے مقدمہ پر کلام فرمانے کے بجائے تمام اہل ایمان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ درس دیا ہے کہ کفر و اسلام کا جہاں مقابلہ ہو، اور جہاں کچھ لوگ اہل ایمان سے ان کے مسلمان ہونے کی بنا پر دشمنی کر رہے ہوں، وہاں کسی شخص کا کسی غرض اور کسی مصلحت سے بھی کوئی ایسا کام کرنا جس سے اسلام کے مفاد کو نقصان پہنچتا ہو اور کفر و کفار کے مفاد کی خدمت ہوتی ہو، ایمان کے منافی حرکت ہے۔ کوئی شخص اگر اسلام کی بد خواہی کے جذبہ سے بالکل خالی ہو اور بد نیتی سے نہیں بلکہ محض اپنی کسی شدید ترین ذاتی مصلحت کی خاطر ہی یہ کام کرے، پھر بھی یہ فعل کسی مومن کے کرنے کا نہیں ہے، اور جس نے بھی یہ کام کیا وہ راہ راست سے بھٹکا گیا۔
۳۔ یہ اشارہ ہے حضرت حاطب کی طرف انہوں نے اپنی ماں، اپنے بھائی، اور اپنی اولاد کو جنگ کے موقع پر دشمنوں کی ایذا سے بچانے کے لیے یہ کام کیا تھا۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے جن کی خاطر اتنے بڑے قصور کا ارتکاب کر ڈالا وہ قیامت کے روز تمہیں بچانے کے لیے نہیں آئیں گے۔ کسی کی یہ ہمت نہیں ہو گی کہ خدا کی عدالت میں آگے بڑھ کر یہ کہے کہ ہمارے باپ یا ہمارے بیٹے یا ہمارے بھائی نے ہماری خاطر یہ گناہ کیا تھا اس لیے اس کے بدلے کی سزا ہمیں دے دی جائے۔ اس وقت ہر ایک کو اپنی ہی پڑی ہو گی، اپنے اعمال ہی کے خمیازے سے بچنے کا سوال ہر شخص کے لیے بلائے جان بن رہا ہو گا، کجا کہ کوئی کسی دوسرے کے حصے کا خمیازہ بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار ہو۔ یہی بات ہے جو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر زیادہ صریح الفاظ میں فرمائی گئی ہے۔ ایک جگہ فرمایا ’’ اس روز مجرم یہ چاہے گا کہ اپنے اولاد، اپنے بیوی، اپنے بھائی، اپنی حمایت کرنے والے خاندان اور دنیا بھر کے لوگوں کو بھی اگر فدیے میں دے کر عذاب سے چھوٹ سکتا ہو تو انہیں بھینٹ چڑھا دے اور خود چھوٹ جائے‘‘ (المعارج، آیات ۱۱۔۱۴)۔ دوسری جگہ فرمایا ’’ اس روز آدمی پا نے بھائی، اپنی ماں، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ہر ایک اپنے ہی حال میں ایسا گرفتار ہو گا جس میں اسے کسی کا ہوش نہ ہو گا‘‘(عبس، ۳۴۔۳۷)۔
۴۔ یعنی دنیا کے تمام رشتے، تعلقات، اور رابطے وہاں توڑ دیئے جائیں گے۔ جتھوں اور پارٹیوں اور خاندانوں کی شکل میں لوگوں کا محاسبہ نہ ہو گا، بلکہ ایک ایک فرد اپنی ذاتی حیثیت میں پیش ہو گا،اور ہر ایک کو اپنا ہی حساب دینا پڑے گا۔ اس لیے دنیا میں کسی شخص کو بھی کسی قرابت یا دوستی یا جتھہ بندی کی خاطر کوئی ناجائز کام نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اپنے کیے کی سزا اس کو خود ہی بھگتنی ہو گی، اس کی ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو گا۔
۵۔ حضرت حاطب کے اس مقدمہ سے جس کی تفصیل اوپر ہم نے نقل کی ہے، اور ان آیات سے جو اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، حسب ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں :
(۱) قطع نظر اس سے کہ کرنے والے نے کس بیت سے کیا، بجائے خود یہ فعل صریحاً ایک جاسوسی کا فعل تھا، اور جاسوسی بھی بڑے نازک موقع پر سخت خطرناک نوعیت کی تھی کہ حملے سے پہلے بے خبر دشمن کو خبر دار کیا گیا تھا۔ پھر معاملہ شبہ کا بھی نہ تھا بلکہ ملزم کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط پکڑ لیا گیا تھا جس کے بعد کسی ثبوت کی حاجت نہ تھی۔ حالات بھی زمانہ امن کے نہیں، زمانہ جنگ کے تھے۔ مگر اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حاطب کو صفائی کا موقع دیے بغیر نظر بند نہیں کر دیا۔ اور صفائی کا موقع بھی ان کا بند کمرے میں نہیں بلکہ کھلی عدالت میں بر سر عام دیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ایسے قوانین و قواعد و ضوابط کی کوئی گنجائش نہیں ہے جن کی رو سے کسی حالت میں حکام کو یہ حق پہنچتا ہو کہ کسی شخص کو محض اپنے علم یا شبہ کی بنا پر قید کر دیں۔ اور بند کمرے میں خفیہ طریقے پر مقدمہ چلانے کا طریقہ بھی اسلام میں نہیں ہے۔
(۲) حضرت حاطب نہ صرف مہاجرین میں سے تھے بلکہ اہل بدر میں شامل تھے جنہیں صحابہ کے اندر بھی ایک امتیازی مقام حاصل تھا۔ مگر اس کے باوجود ان سے اتنا بڑا جرم سرزد ہو گیا، اور اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس شدت کے ساتھ گرفت فرمائی جسے اوپر کی آیات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ احادیث میں بھی ان کا قصہ پوری تفصیل کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور مفسرین میں سے بھی شاید ہی کوئی ہو جس نے اس کا ذکر نہ کیا ہو۔ یہ من جملہ ان بہت سے شواہد کے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ بے خطا نہیں تھے، ان سے بھی بشری کمزوریوں کی بنا پر خطائیں سرزد ہو سکتی تھیں اور عملاً ہوئیں، اور ان کے احترام کی جو تعلیم اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے کم از کم اس کا تقاضا ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان میں سے اگر کوئی غلط کام سرزد ہوا تو اس کا ذکر نہ کیا جائے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر اس کا تقاضا یہ ہوتا تو نہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ان کا ذکر کرتا اور نہ صحابہ کرام اور تابعین اور محدثین و مفسرین اپنی روایات میں ان کی تفصیلات بیان کرتے۔
(۳) حضرت حاطب کے مقدمہ میں حضرت عمرؓ نے جس رائے کا اظہار کیا وہ ان کے فعل کی ظاہر ی صورت کے لحاظ سے تھا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ فعل ایسا ہے جو صریحاً اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نوعیت رکھتا ہے، اس لیے حاطب منافق اور واجب القتل ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اس نقطہ نظر کو رد فرما دیا اور اسلامی شریعت کا اصل نقطہ نظر یہ بتایا کہ محض فعل کی ظاہری شکل پر ہی فیصلہ نہیں کر دینا چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس شخص سے سہ صادر ہوا ہے اس کی پچھلی زندگی اور مجموعی سیرت کیا شہادت دیتی ہے اور قراین کس بات پر دلالت کرتے ہیں۔ فعل کی شکل بلاشبہ جاسوسی کی ہے۔ مگر کیا اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ فاعل کا آج تک کا رویہ یہی بتا رہا ہے کہ یہ شخص یہ کام اللہ اور رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نیت سے کر سکتا تھا؟ وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے ایمان کی خاطر ہجرت کی۔ کیا خلوص کے بغیر وہ اتنی بڑی قربانی کر سکتا تھا؟ یا اس کے بارے میں یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ اس کے دل میں کفار قریش کی طرف کوئی ادنیٰ سا میلان بھی موجود ہے؟ وہ اپنے فعل کی صاف صاف وجہ یہ بتا رہا ہے کہ مکہ میں اس کے بال بچوں کو خاندان اور قبیلے کا وہ تحفظ حاصل نہیں ہے جو دوسرے مہاجرین کو حاصل ہے، اس لیے اس نے ان کو جنگ کے موقع پر کفار کی ایذا رسانی سے بچانے کی خاطر یہ کام کیا ہے۔ حقائق اس کی تائید کرتے ہیں کہ فی الواقع مکہ میں اس کا کوئی قبیلہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ واقعی اس کے بال بچے وہاں موجود ہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کے اس بیان کو جھوٹا سمجھا جائے اور یہ رائے قائم کی جائے کہ اس کے اس فعل کا اصل محرک یہ نہ تھا بلکہ خیانت ہی کا ارادہ اس کے اندر پایا جاتا تھا۔ بلاشبہ ایک مخلص مسلمان کے لیے نیک نیتی سے بھی یہ حرکت جائز نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دشمنوں کو مسلمانوں کے جنگی منصوبوں کی خبر بہم پہنچائے، لیکن مخلص کی غلطی اور منافق کی غداری میں بڑا فرق ہے۔ محض نوعیت فعل کی بنا پر دونوں کی ایک ہی سزا نہیں ہو سکتی۔ یہ تھا اس مقدمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیصلہ، اور اللہ تعالیٰ نے سورہ ممتحنہ کی ان آیات میں اس کی تائید فرمائی۔ اوپر کی تینوں آیات کو غور سے پڑھیے تو صاف محسوس ہو گا کہ ان میں حضرت حاطب پر عتاب تو ضرور فرمایا گیا ہے، مگر یہ عتاب اس طرز کا ہے جو ایک مومن کے لیے ہوتا ہے نہ کہ وہ جو ایک منافق کے لیے ہوا کرتا ہے۔ مزید برآں ان کے لیے کوئی مالی یا جسمانی سزا تجویز نہیں کی گئی ہے بلکہ علانیہ سخت زجر و توبیخ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلم معاشرے میں ایک خطا کار مومن کی عزت کو بٹّہ لگ جانا اور اس کے اعتماد پر حرف آ جانا بھی اس کے لیے ایک بڑی سزا ہے۔
(۴)۔ بدری صحابہ کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ ’’ تمہیں کیا خبر، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر کہہ دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو، میں نے تم کو معاف کر دیا‘‘۔ اس کے معنی یہ نہ تھے کہ بدری صحابیوں کو سات خون معاف ہیں، اور انہیں کھلی چھٹی ہے کہ دنیا میں جو گناہ اور جو جرم بھی کرنا چاہیں کرتے رہیں، مغفرت کی انکو پیشگی ضمانت حاصل ہے۔ یہ مطلب نہ حضورؐ کا تھا، نہ صحابہ نے کبھی اس ارشاد کا یہ مطلب لیا، نہ کسی بدری صحابی نے یہ بشارت سن کر اپنے آپ کو ہر گناہ کرنے کے لیے آزاد سمجھا، اور نہ اسلامی شریعت میں اس کی بنا پر ایسا کوئی قاعدہ بنایا گیا کہ بدری صحابی سے اگر کوئی جرم سرزد ہو تو اسے کوئی سزا نہ دی جائے۔ در اصل جس موقع و محل میں یہ بات فرمائی گئی تھی اس پر، اور خود ان الفاظ پر جو آپ نے استعمال فرمائے ہیں، اگر غور کیا جائے تو اس ارشاد کا صاف مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اہل بدر نے اللہ اور اس کے دین کے لیے اخلاص اور سرفروشی و جانبازی کا اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیے ہوں تو یہ بھی اس خدمت اور اللہ کے کرم کو دیکھتے ہوئے کچھ بعید از امکان نہیں ہے، لہٰذا ایم بدری پر خیانت اور منافقت کا شبہ نہ کرو، اور اپنے جرم کا جو سبب وہ خود بیان کر رہا ہے اسے قبول کر لو ۔
(۵) قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کسی مسلمان کا کفار کے لیے جاسوسی کر بیٹھا بجائے خود اس بات کا فیصلہ کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ مرتد ہو گیا ہے، یا ایمان سے خارج ہے، یا منافق ہے۔ ایسا فیصلہ کرنے کے لیے اگر کچھ دوسرے قرائن و شواہد موجود ہوں تو بات الگ ہے، ورنہ اپنی جگہ یہ فعل صرف ایک جرم ہے، کفر نہیں ہے۔
(۶)۔ قرآن مجید کی ان آیات سے یہ بات بھی واضح ہے کہ مسلمان کے لیے کفار کی جاسوسی کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے، خواہ اس کی یا اس کے قریب ترین عزیزوں کی جان و مال کو کیسا ہی خطرہ لاحق ہو۔
(۷)۔ حضرت عمرؓ نے جب حضرت حاطب کو جاسوسی کے جرم میں قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو حضور نے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ جرم مستوجب قتل نہیں ہے، بلکہ اجازت دینے سے انکار اس بنا پر کیا کہ حاطب کا بدری ہونا ان کے مخلص ہونے کا صریح ثبوت ہے اور اسن کا یہ بیان صحیح ہے کہ انہوں نے دشمنوں کی خیر خواہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے بال بچوں کو ہلاکت کے خطرے سے بچانے کے لیے یہ کام کیا تھا۔ اس سے فقہاء کے ایک گروہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ مسلمان جاسوس کے لیے عام قانون یہی ہے کہ اسے قتل کیا جائے الّا یہ کہ بہت وزنی وجوہ اسے کم تر سزا دینے یا محض ملامت کر کے چھوڑ دینے کے لیے موجود ہوں۔ مگر فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ امام شافعیہؒ اور بعض دوسرے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان جاسوس کو تعزیر دی جائے گی مگر اس کا قتل جائز نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام اوزاعیؒ کہتے ہیں کہ اسے جسمانی عقوبت اور طویل قید کی سزا دی جائے گی۔ امام مالک کہتے ہیں کہ اسے قتل کیا جائے گا۔ لیکن مالکی فقہاء کے اقوال اس مسئلے میں مختلف ہیں۔ اَشہَب کہتے ہیں کہ امام کو اس معاملہ میں وسیع اختیارات حاصل ہیں، جرم اور مجرم کے حالات کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے اجتہاد سے کوئی سزا دے سکتا ہے۔ ایک قول امام مالک اور ابن القاسم کا بھی یہی ہے۔ ابن الماجشون اور عبدالملک بن حبیب کہتے ہیں کہ اگر مجرم نے جاسوسی کی عادت ہی بنا لی ہو تو اسے قتل کیا جائے۔ ابن وہب کہتے ہیں کہ جاسوس کی سزا تو قتل ہی ہے مگر وہ اس فعل سے تائب ہو جائے تو اسے معاف کیا جا سکتا ہے۔ سَحنُو ن کہتے ہیں کہ اس کی توبہ صحیح ہے یا محض فریب، اس کا علم آخر کیسے ہو سکتا ہے؟ اس لیے اسے قتل ہی کیا جانا چاہیے۔ ابن القاسم کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے۔ اور اصبغ کہتے ہیں کہ حربی جاسوس کی سزا قتل ہے، مگر مسلم اور ذمیؔ جاسوس کو قتل کے بجائے عقوبت دی جائے گی، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں دشمنوں کی کھلی کھلی مدد کر رہا ہو۔ (احکام القرآن، ابن العربی۔ عمدۃ القاری،فتح الباری )۔
(۸) حدیث مذکور سے اس امر کا جواز بھی نکلتا ہے کہ تفتیش جرم کے لیے اگر ضرورت پڑے تو ملزم مرد ہی نہیں، عورت کے کپڑے بھی اتارے جاسکتے ہیں۔ حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ نے اگر چہ اس عورت کو برہنہ نہیں کیا تھا، لیکن انہوں نے اسے دھمکی دی تھی کہ وہ خط حوالے نہ کرے گی تو وہ اسے برہنہ کر کے اس کی تلاشی لیں گے۔ ظاہر ہے اگر یہ فعل جائز نہ ہوتا تو یہ تین جلیل القدر صحابی اس کی دھمکی نہیں دے سکتے تھے۔ اور قیاس یہ کہتا ہے کہ انہوں نے ضرور واپس جا کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی مہم کی روداد سنائی ہو گی۔ حضورؐ نے اگر اس پر ناپسندیدگی اس پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہوتا تو وہ ضرور منقول ہوتا۔ اسی لیے فقہاء نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے (عمدۃ القاری)۔
۶۔ یعنی ہم تمہارے کافر ہیں، نہ تمہیں حق پر مانتے ہیں نہ تمہارے دین کو۔ اللہ پر ایمان کا لازمی تقاضا طاغوت سے کفر ہے۔ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِا لطَّاغُوْتِ وَیُوْتِوَیؤْمِنْ؍ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِلْعُرْ وَۃِ الوُثْقیٰ لَا انْفِصَامَلَھَا۔ ’’پس جو شخص طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے اس نے در حقیقت مضبوط سہارا تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں ہے ‘‘۔ (البقرہ،۲۵۶)
۷۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے حضرت ابراہیم کی یہ بات تو قابل تقلید ہے کہ انہوں نے اپنی کافر و مشرک قوم سے صاف صاف بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کر دیا، مگر ان کی یہ بات تقلید کے قابل بہیں ہے کہ انہوں نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا وعدہ کیا اور عملاً اس کے حق میں دعا کی۔ اس لیے کہ کافروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا اتنا تعلق بھی اہل ایمان کو نہ رکھنا چاہیے۔ سورہ توبہ (آیت ۱۱۳) میں اللہ تعالیٰ کا صاف صاف ارشاد ہے : مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوآ اَنْ یَّسْتَغْفِرُ وْ ا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْا اُولِیْ قُرْبیٰ۔ ’’ نبی کا یہ کام نہیں ہے اور نہ ان لوگوں کو یہ زیبا ہے جو ایمان لائے ہیں کہ مُشرکوں کے لیے دعائے مغفرت کریں، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ‘‘۔ پس کوئی مسلمان اس دلیل سے اپنے کافر عزیزوں کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کا مجاز نہیں ہے کہ یہ کام حضرت ابراہیمؑ نے کیا تھا۔ رہا سوال کہ خود حضرت ابراہیمؑ نے یہ کام کیسے کیا؟ اور کیا وہ اس پر قائم بھی رہے؟ اس کا جواب قرآن مجید میں ہم کو پوری تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔ ان کے باپ نے جب ان کو گھر سے نکال دیا تو چلتے وقت انہوں نے کہا تھا سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ، ’’ آپ کو سلام ہے، میں اپنے رب سے آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا‘‘ (مریم، ۱۴۷۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے دو مرتبہ اس کے حق میں دعا کی۔ ایک دعا کا ذکر سورہ ابراہیم(آیت ۴۱) میں ہے : رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَلِدَیَّ وَ لِلْمُؤْ مِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الحِسَابْ۔ ’’اے ہمارے پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب مومنوں کو اس روز معاف کر دیجیو جب حساب لیا جانا ہے ‘‘۔ اور دوسری دعا سورہ شعَراء (آیت ۸۶) میں ہے : وَاغْفِرْلِاَبِیْ اِنَّہٗ کَانَمَنَالضَّآ لِّیْنَ وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ۔ ’’ میرے باپ کو معاف فرما دے کہ وہ گمراہوں میں سے تھا اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جب سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ‘‘۔ لیکن بعد میں جب ان کو یہ احساس ہو گیا کہ اپنے جس باپ کی مغفرت کے لیے وہ دعا کر رہے ہیں وہ تو اللہ کا دشمن تھا، تو انہوں نے اس سے تبرّی کی اور اس کے ساتھ ہمدردی و محبت کا یہ تعلق بھی توڑ لیا:
وَمَا کَانَ اسْتِغْفَا رُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْ عِدَۃٍ وَّ عَدَھَا اِیَّاہُ، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّ أ مِنْہُ، اِنَّ اَبْرَھِیْمَلَاَوَّ اہٌ حَلِیْمٌ o (التوبہ ۱۱۴)
اور ابراہیمؑ کا اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنا اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھا کہ ایک وعدہ تھا جو اس نے اپنے باپ سے کر لیا تھا۔ پھر جب اس پر یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ اللہ کا دشمن تھا تو اس نے اس سے بیزاری کا اظہار کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم ایک رقیق القلب اور نرم خو آدمی تھا۔
ان آیات پر غور کرنے سے یہ اصولی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انبیاء کا صرف وہی عمل قابل تقلید ہے جس پر وہ آخر وقت تک قائم رہے ہوں۔ رہے ان کے وہ اعمال جن کو انہوں نے بعد میں خود چھوڑ دیا ہو، یا جن پر اللہ تعالیٰ نے انہیں قائم نہ رہنے دیا ہو، یا جن کی ممانعت اللہ کی شریعت میں وارد ہو چکی ہو، وہ قابل تقلید نہیں ہیں اور کوئی شخص اس حجت سے ان کے ایسے اعمال کی پیروی نہیں کر سکتا کہ یہ فلاں نبی کا عمل ہے۔
یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے جو آدمی ذہن میں کھٹک پیدا کر سکتا ہے۔ آیت زیر بحث میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے جس قول کو قابل تقلید نمونہ ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا ’’ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا‘‘۔ اور دوسرا حصہ یہ کہ ’’ میرے بس میں کچھ نہیں ہے کہ اللہ سے آپ کو معافی دلوا دوں ‘‘۔ ان میں سے پہلی بات کا قابل تقلید نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر دوسری بات میں کیا خرابی ہے کہ اسے بھی نمونہ قابل تقلید ہونے سے مستثنیٰ کر دیا گیا؟ حالانکہ وہ بجائے خود حق بات ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا یہ قول استثناء میں اس وجہ سے داخل ہوا ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے ایک کام کا وعدہ کرنے کے بعد یہ کہتا ہے کہ اس سے زیادہ تیرے لیے کچھ کرنا میرے بس میں نہیں ہے تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ اگر اس سے زیادہ کچھ کرنا اس کے بس میں ہوتا تو وہ شخص اس کی خاطر وہ بھی کرتا۔ یہ بات اس آدمی کے ساتھ اس شخص کے ہمدردانہ تعلق کو اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر کرتی ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیمؑ کا یہ دوسرا قول بھی استثناء میں شامل کیے جانے کا مستحق تھا، اگرچہ اس کا یہ مضمون بجائے خود برحق تھا کہ اللہ سے کسی کی مغفرت کروا دینا ایک نبی تم کے اختیار سے باہر ہے۔ علامہ آلوسی نے بھی روح المعانی میں اس سوال کا یہی جواب دیا ہے۔
۸۔ کافروں کے لیے اہل ایمان کے فتنہ بننے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں جن سے ہر مومن کو خدا کی پناہ مانگنی چاہیے۔ مثال کے طور پر اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کافر ان پر غالب آ جائیں اور اپنے غلبہ کو اس بات کی دلیل قرار دیں کہ ہم حق پر ہیں اور اہل ایمان برسر باطل، ورنہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ان لوگوں کو خدا کی رضا حاصل ہوتی اور پھر بھی ہمیں ان پر غلبہ حاصل ہوتا۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اہل ایمان پر کافروں کا ظلم و ستم ان کی حد برداشت سے بڑھ جائے اور آخر کار وہ ان سے دب کر اپنے دین و اخلاق کا سودا کرنے پر اتر آئیں۔ یہ چیز دنیا بھر میں مومنوں کی جگ ہنسائی کی موجب ہو گی اور کافروں کو اس سے دین اور اہل دین کی تذلیل کا موقع ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دین حق کی نمائندگی کے مقام بلند پر فائز ہونے کے باوجود اہل ایمان اس اخلاقی فضیلت سے محروم رہیں جو اس مقام کے شایان شان ہے، اور دنیا کو ان کی سیرت و کردار میں بھی وہی عیوب نظر آئیں جو جاہلیت کے معاشرے میں عام طور پر پھیلے ہوئے ہوں۔ اس سے کافروں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ اس دین میں آخر وہ کیا خوبی ہے جو اسے ہمارے کفر پر شرف عطا کرتی ہو؟ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، یونس، حاشیہ ۸۳ )۔
۹۔ یعنی جو اس بات کی توقع رکھتا ہو کہ ایک روز اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے، اور اس چیز کا امیدوار ہو کہ اللہ اسے اپنے فضل سے نوازے اور روز آخر میں اسے سرکروی نصیب ہو۔
۱۰۔ یعنی اللہ کو ایسے ایمان لانے والوں کی کوئی حاجت نہیں ہے جو اس کے دین کو ماننے کا دعویٰ بھی کریں اور پھر اس کے دشمنوں سے دوسری بھی رکھیں۔ وہ بے نیاز ہے۔ اس کی خدائی اس کی محتاج نہیں ہے کہ یہ لوگ اسے خدا مانیں۔ اور وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے، اس کا محمود ہونا اس بات پر موقوف نہیں ہے کہ یہ اس کی حمد کریں۔ یہ اگر ایمان لاتے ہیں تو اللہ کے کسی فائدے کے لیے نہیں، اپنے فائدے کے لیے لاتے ہیں۔ اور انہیں ایمان کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک یہ حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کی طرح اللہ کے دشمنوں سے محبت اور دوستی کے رشتے توڑ نہ لیں۔
۱۱۔ اوپر کی آیات میں مسلمانوں کو اپنے کافر رشتہ داروں سے قطع تعلق کی جو تلقین کی گئی تھی اس پر سچے اہل ایمان اگر چہ بڑے صبر کے ساتھ عمل کر رہے تھے، مگر اللہ کو معلوم تھا کہ اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں اور قریب ترین عزیزوں سے تعلق توڑ لینا کیسا سخت کام ہے اور اس سے اہل ایمان کے دلوں پر کیا کچھ گزر رہی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب تمہارے یہی رشتہ دار مسلمان ہو جائیں گے اور آج کی دشمنی کل پھر محبت میں تبدیل ہو جائے گی۔ جب یہ بات فرمائی گئی تھی اس وقت کوئی شخص بھی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ نتیجہ کیسے رونما ہو گا۔ مگر ان آیات کے نزول پر چند ہی ہفتے گزرے تھے کہ مکہ فتح ہو گیا، قریش کے لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے اور مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ جس چیز کی انہیں امید دلائ گئی تھی وہ کیسے پوری ہوئی۔
۱۲۔ اس مقام پر ایک شخص کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ دشمنی نہ کرنے والے کافروں کے ساتھ نیک برتاؤ تو خیر ٹھیک ہے، مگر کیا انصاف بھی صرف انہی کے لیے مخصوص ہے؟ اور کیا دشمن کافروں کے ساتھ بے انصافی کرنی چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سیاق و سباق میں در اصل انصاف ایک خاص مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تمہارے ساتھ عداوت نہیں برتتا، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ عداوت نہ برتو۔ دشمن اور غیر دشمن کو ایک درجہ میں رکھنا اور دونوں سے ایک ہی سلوک کرنا انصاف نہیں ہے۔ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا حق ہے جنہوں نے ایمان لانے کی پاداش میں تم پر ظلم توڑے اور تم کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کیا، اور نکالنے کے بعد بھی تمہارا پیچھا نہ چھوڑا۔ مگر جن لوگوں نے اس ظلم میں کوئی حصہ نہیں لیا، انصاف یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور رشتے اور برادری کے لحاظ سے ان کے جو حقوق تم پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کرنے میں کمی نہ کرو۔
۱۳۔ سابقہ آیات میں کفار سے جس ترک تعلق کی ہدایت کی گئی تھی اس کے متعلق لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہو سکتی تھی کہ یہ ان کے کافر ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے ان آیات میں یہ سمجھا یا گیا ہے کہ اس کی اصل وجہ ان کا کفر نہیں بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی عداوت اور ان کی ظالمانہ روش ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو دشمن کافر اور غیر دشمن کافر میں فرق کرنا چاہیے، اور ان کافروں کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرنا چاہیے جنہوں نے کبھی ان کے ساتھ کوئی برائی نہ کی ہو۔ اس کی بہترین تشریح وہ واقعہ ہے جو حضرت اسماء بنت ابی بکر اور ان کی کافر ماں کے درمیان پیش آیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کی ایک بیوی قتیلہ بنت عبدلاعزّٰی کافرہ تھیں اور ہجرت کے بعد مکہ ہی میں رہ گئی تھیں۔ حضرت اسماء انہی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مدینہ اور مکا کے درمیان آمد و رفت کا راستہ کھل گیا تو وہ بیٹی سے ملنے کے لیے مدینہ آئی اور کچھ تحفہ تحائف بھی لائیں۔ حضرت اسماءؓ کی اپنی روایت یہ ہے کہ میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پوچھا، اپنی ماں سے مل لوں؟ اور کیا میں ان سے صلہ رحمی بھی کر سکتی ہوں؟ حضورؐ نے جواب دیا اس سے صلہ رحمی کرو (مسند احمد۔بخاری۔ مسلم)۔ حضرت اسماء کے صاحبزادے عبداللہ بن زبیر اس واقعہ کی مزید تفصیل یہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے حضرت اسماء نے ماں سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ بعد میں جب اللہ اور اس کے رسول کی اجازت مل گئی تب وہ ان سے ملیں (مسند احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم )۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اپنے کافر ماں باپ کی خدمت کرنا اور اپنے کافر بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کی مدد کرنا جائز ہے جبکہ وہ دشمن اسلام نہ ہوں۔ اور اسی طرح ذمی مساکین پر صدقات بھی صرف کیے جا سکتے ہیں (احکام القرآن للجصاص۔ روح المعانی)۔
۱۴۔ اس حکم کا پس منظر یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد اول اول تو مسلمان مرد مکہ سے بھاگ بھاگ کرمدینہ آتے رہے اور انہیں معاہدے کی شرائط کے مطابق واپس کیا جاتا رہا۔ پھر مسلمان عورتوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سب سے پہلے ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ہجرت کر کے مدینے پہنچیں۔ کفار نے معاہدے کا حوالہ دے کر ان کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا اور ام کلثوم کے دو بھائی ولید بن عقبہ اور عمارہ بن عقبہ انہیں واپس لے جانے کے لیے مدینے پہنچ گئے۔ اس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر وہ مسلمان ہوں اور یہ اطمینان کر لیا جائے کہ واقعی وہ ایمان ہی کی خاطر ہجرت کر کے آئی ہیں، کوئی اور چیز انہیں نہیں لائی ہے، تو انہیں واپس نہ کیا جائے۔
اس مقام پر احادیث کی روایت بالمعنیٰ سے ایک بڑی پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے جسے حل کرنا ضروری ہے۔ صلح حدیبیہ کی شرائط کے متعلق احادیث میں جو روایتیں ہمیں ملتی ہیں وہ اکثر و بیشتر بالمعنیٰ روایات ہیں۔ زیر بحث شرط کے متعلق ان میں سے کسی روایت کے الفاظ یہ ہیں : من جاءمنکم لم نردہ علیک مومن جاء کم مناردد تموہ علینا۔ ’’ تم میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا اسے ہم واپس نہ کریں گے اور ہم میں سے جو تمہارے پاس جائے گا اسے تم واپس کرو گے ‘‘۔ کسی میں یہ الفاظ ہیں، من اتٰی رسول اللہ من اصحابہ بغیر اذن ولیہ ردہ علیہ۔ ’’ رسول اللہ کے پاس ان کے اصحاب میں سے جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آئے گا اسے وہ واپس کر دیں گے ‘‘۔ اور کسی میں ہے من اتٰی محمداً من قریش بغیر اذن ولیہ ردہ علیہم۔ ’’قریش میں سے جو شخص محمدؐ کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جائے گا اسے وہ قریش کو واپس کر دیں گے ‘‘۔ ان روایات کا طرز بیان خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ان میں معاہدے کی اس شرط کو ان الفاظ میں نقل نہیں کیا گیا ہے جو اصل معاہدے میں لکھے گئے تھے، بلکہ راویوں نے ان کا مفہوم خود اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ لیکن چونکہ بکثرت روایات اسی نوعیت کی ہیں اس لیے عام طور پر مفسرین و محدثین نے اس سے یہی سمجھا کہ معاہدہ عام تھا جس میں عورت مرد سب داخل تھے اور عورتوں کو بھی اس کی رو سے واپس ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بعد جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم آیا کہ مومن عورتیں واپس نہ جائیں تو ان حضرات نے اس کی یہ تاویل کی کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومن عورتوں کی حد تم معاہدہ توڑ دینے کا فیصلہ فرما دیا۔ مگر یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے جس کو اس آسانی کے ساتھ قبول کر لیا جائے۔ اگر معاہدہ فی الواقع بلا تخصیص مرد و زن سب کے لیے عام تھا تو آخر یہ کیسے جائز ہو سکتا تھا کہ ایک فریق اس میں یک فریق اس میں یک طرفہ ترمیم کر دے یا اس کے کسی جز کو بطور خود بدل ڈالے؟ اور بالفرض ایسا کیا بھی گیا تھا تو یہ کیسی عجیب بات ہے کہ قریش کے لوگوں نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ قریش والے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کی ایک ایک بات پر گرفت کرنے کے لیے خار کھائے بیٹھے تھے۔ انہیں اگر یہ بات ہاتھ آ جاتی کہ آپ شرائط معاہدہ کی صریح خلاف ورزی کر گزرے ہیں تو وہ زمین و آسمان سر پر اٹھا لینے۔ لیکن ہمیں کسی روایت میں اس کا شائبہ تک نہیں ملتا کہ انہوں نے قرآن کے اس فیصلے پر ذرہ برابر بھی چون و چرا کی ہو۔ یہ ایسا سوال تھا جس پر گور کیا جاتا تو معاہدے کے اصل الفاظ کی جستجو کر کے اس پیچیدگی کا حل تلاش کیا جاتا، مگر بہت سے لوگوں نے تو اس کی طرف توجہ نہ کی، اور بعض حضرات (مثلاً واسی ابو بکر ابن عربی) نے توجہ کی بھی تو انہوں نے قریش کے اعتراض نہ کرنے کی یہ توجیہ تک کرنے میں تامل نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ اس معاملہ میں قریش کی زبان بند کر دی تھی۔ تعجب ہے کہ اس توجیہ پر ان حضرات کا ذہن کیسے مطمئن ہوا۔
اصل بات یہ ہے کہ معاہدہ صلح کی یہ شرط مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ کفار قریش کی طرف سے تھی، اور ان کی جانت سے ان کے نمائندے سہیل بن عمرو نے جو الفاظ معاہدے میں لکھوائے تھے وہ یہ تھے : علیٰ ان لا یا تیکا منا رجل و ان کان علی دین کالا رددتہ الینا۔ ’’ اور یہ کہ تمہارے پاس ہم میں سے کوئی مرد بھی آئے، اگر چہ وہ تمہارے دین ہی پر ہو، تم اسے ہماری طرف واپس کرو گے ’’۔ معاہدے کے یہ الفاظ بخاری، کتاب الشروط،باب الشروط فی الجہاد و المصالحہ میں قوی سند کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سہیل نے رجل کا لفظ شخص کے معنی میں استعمال کیا ہو، لیکن یہ اس کی ذہنی مراد ہو گی۔ معاہدے میں جو لفظ لکھا گیا تھا وہ رجل ہی تھا جو عربی زبان میں مرد کے لیے بولا جاتا ہے۔اسی بنا پر جب ام کلثوم بنت عقبہ کی واپسی کا مطالبہ لے کر ان کے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (امام زہری کی روایت کے مطابق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو واپس کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمایا کہ کان الشرط فی الرجال دون النساء۔ ’’ شرط مردوں کے بارے میں تھی نہ کہ عورتوں کے بارے میں ‘‘۔ (احکام القرآن، ابن عربی۔ تفسیر کبیر، امام رازی)۔ اس وقت تک خود قریش کے لوگ بھی اس غلط فہمی میں تھے کہ معاہدے کا اطلاق ہر طرح کے مہاجرین پر ہوتا ہے، خواہ وہ مرد ہوں یا عورت۔ مگر جب حضور نے ان کو معاہدے کے ان الفاظ کی طرف توجہ دلائی تو وہ دم بخود رہ گئے اور انہیں ناچار اس فیصلے کو ماننا پڑا۔
معاہدے کے ان شرط کے لحاظ سے مسلمانوں کو حق تھا کہ جو عورت بھی مکہ چھوڑ کر مدینے آتی، خواہ وہ کسی غرض سے آتی، اسے واپس دینے سے انکار کر دیتے۔ لیکن اسلام کی صرف مومن عورتوں کی حفاظت سے دلچسپی تھی، ہر طرح کی بھاگنے والی عورتوں کے لیے مدینہ طیبہ کو پناہ گاہ بنانا مقصود نہ تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو عورتوں ہجرت کر کے آئیں اور اپنے مومن ہونے کا اظہار کریں، ان سے پوچھ گچھ کر کے اطمینان کر لو کہ وہ واقعی ایمان لے کر آئی ہیں، اور جب اس کا اطمینان ہو جائے تو انکو واپس نہ کرو۔ چنانچہ اس ارشاد الٰہی پر عمل در آمد کرنے کے لیے جو قاعدہ بنایا گیا وہ یہ تھا کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آتی تھیں ان سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا وہ اللہ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان رکھتی ہیں اور صرف اللہ اور اس کے رسول کی خاطر نکل کر آئی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ شوہر سے بگڑ کر گھر سے نکل کھڑی ہوئی ہوں؟ یا ہمارے ہاں کے کسی مرد کی محبت ان کو ہے آئی ہو؟ یا کوئی اور دنیوی غرض ان کے اس فعل کی محرک ہوئی ہو؟ ان سوالات کا اطمینان بخش جواب جو عورتیں دے دیتی تھیں صرف ان کو روک لیا جاتا تھا، باقی سب کو واپس کر دیا جاتا تھا (ابن جریر بحوالہ ابن عباس، قتادہ، مجاہد، عکرمہ، ابن زید)۔
اس آیت میں قانون شہادت کا بھی ایک اصولی ضابطہ بیان کر دیا گیا ہے اور اس کی مزید توضیح اس طریق کار سے ہو گئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر عمل درآمد کے لیے مقرر فرمایا تھا۔ آیت میں تین باتیں فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ہجرت کرنے والی جو عورتیں اپنے آپ کو مومن ہونے کی حیثیت سے پیش کریں ان کے ایمان کی جانچ کرو۔ دوسرے یہ کہ ان کے ایمان کی حقیقت کو تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، تمہارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں ایمان لائی ہیں۔ تیسرے یہ کہ جانچ پڑتال سے جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں واپس نہ کرو۔ پھر اس حکم کے مطابق ان عورتوں کے ایمان کی جانچ کرنے کے لیے جو طریقہ حضور نے مقرر فرمایا وہ یہ تھا کہ ان عورتوں کے حلفیہ باین پر اعتماد کیا جائے اور ضروری جرح کر کے یہ اطمینان کر لیا جائے کہ ان کی ہجرت کا محرک ایمان کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ اس سے اول تو یہ قاعدہ معلوم ہوا کہ معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالت کو حقیقت کا علم حاصل ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف وہ علم کافی ہے جو شہادتوں سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ہم ایک شخص کے حلفیہ باین پر اعتماد کریں گے۔ تاوقتیکہ کوئی صریح قرینہ اس کے کاذب ہونے پر دلالت نہ کر رہا ہو۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آدمی اپنے عقیدے اور ایمان کے متعلق خو د جو خبر دے رہا ہو ہم اسے قبول کریں گے اور اس بات کی کھوج میں نہ پڑیں گے کہ فی الواقع اس کا وہی عقیدہ ہے جو وہ بیان کر رہا ہے، الا یہ کہ کوئی صریح علامت ہمارے سامنے ایسی ظاہر ہو جائے جو اس کی تردید کر رہی ہو۔ اور چوتھی بات یہ کہ ایک شخص کے جن ذاتی حالات کو دوسرا کوئی نہیں جان سکتا ان میں اسی کے بیان پر بھروسہ کیا جائے گا، مثلاً طلاق اور عدت کے معاملات میں عورت کے حیض اور طہر کے متعلق اس کا اپنا بیان ہی معتبر ہو گا، خواہ وہ جھوٹ بولے یا سچ۔ انہی قواعد کے مطابق علم حدیث میں بھی ان روایات کو قبول کیا جائے گا جن کے راویوں کا ظاہر حال ان کے راستباز ہونے کی شہادت دے رہا ہو، الا یہ کہ کچھ دوسرے قرائن ایسے موجود ہوں جو کسی روایت کے قبول میں مانع ہوں۔
۱۵۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے کافر شوہروں کو ان کے جو مہر واپس کیے جائیں گے وہی ان عورتوں کے مہر شمار نہ ہوں گے، بلکہ جو مسلمان بھی ان میں سے کسی عورت سے نکاح کرنا چاہے وہ اس کا مہر ادا کرے اور اس سے نکاح کر لے۔
۱۶۔ ان آیات میں چار بڑے اہم حکم بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق اسلام کے عائلی قانون سے بھی ہے اور بین الا قوامی قانون سے بھی :
اول یہ کہ جو عورت مسلمان ہو جائے وہ اپنے کافر شوہر کے لیے حلال نہیں رہتی اور نہ کافر شوہر اس کے لیے حلال رہتا ہے۔
دوسرے یہ کہ جو منکوحہ عورت مسلمان ہو کر دار الکفر سے دار الاسلام میں ہجرت کر آئے اس کا نکاح آپ سے آپ ٹوٹ جاتا ہے اور جو مسلمان بھی چاہے اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کر سکتا ہے۔
تیسرے یہ کہ جو مرد مسلمان ہو جائے اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس کی بیوی اگر کافر رہے تو وہ اسے اپنے نکاح میں روکے رکھے۔
چوتھے یہ کہ اگر دار الکفر اور دار الاسلام کے درمیان صلح کے تعلقات موجود ہوں تو اسلامی حکومت کو دار الکفر کی حکومت سے یہ معاملہ طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کفار کی جو منکوحہ عورتیں مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر آئی ہوں ان کے مہر مسلمانوں کی طرف سے واپس دے دیے جائیں، اور مسلمانوں کی منکوحہ کافر عورتیں جو دار الکفر میں رہ گئی ہوں ان کے مہر کفار کی طرف سے واپس مل جائیں۔
ان احکام کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ آغاز اسلام میں بکثرت مرد ایسے تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا مگر ان کی بیویاں مسلمان نہ ہوئیں۔اور بہت سی عورتیں ایسی تھیں جو مسلمان ہو گئیں مگر ان کے شوہروں نے اسلام قبول نہ کیا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک صاحبزادی حضرت زینبؓ کے شوہر ابو العاص غیر مسلم تھے اور کئی سال تک غیر مسلم رہے۔ ابتدائی دور میں ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ مسلمان عورت کے لیے اس کا کافر شوہر اور مسلمان مرد کے لیے اس کی مشرک بیوی حلال نہیں ہے۔ اس لیے ان کے درمیان ازدواجی رشتے برقرار رہے۔ ہجرت کے بعد بھی کئی سال تک یہ صورت حال رہی کہ بہت سی عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر آئیں اور ان کے کافر شوہر دار الکفر میں رہے۔ اور بہت سے مسلمان مرد ہجرت کر کے آ گئے اور ان کی کافر بیویاں دار الکفر میں رہ گئیں۔ مگر اس کے باوجود ان کے درمیان رشتہ ازدواج قائم رہا۔ اس سے خاص طور پر عورتوں کے لیے بڑی پیچیدگی پیدا ہو رہی تھی، کیونکہ مرد تو دوسرے نکاح بھی کر سکتے تھے، مگر عورتوں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ جب تک سابق شوہروں سے ان کا نکاح فسخ نہ ہو جائے وہ کسی اور شخص سے نکاح کر سکیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب یہ آیات نازل ہوئیں تو انہوں نے مسلمانوں اور کفار و مشرکین کے درمیان سابق کے ازدواجی رشتوں کو ختم کر دیا اور آئندہ کے لیے ان کے بارے میں ایک قطعی اور واضح قانون بنا دیا۔ فقہائے اسلام نے اس قانون کو چار بڑے بڑے عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے :
ایک، وہ حالت جس میں زوجین دار الاسلام میں ہوں اور ان میں سے ایک مسلمان ہو جائے اور دوسرا کافر رہے۔
دوسرے، وہ حالت جس میں زوجین دار الکفر میں ہوں اور ان میں سے ایک مسلمان ہو جائے اور دوسرا کافر رہے۔
تیسرے، وہ حالت جس میں زوجین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر کے آجائے اور دوسرا دار الکفر میں کافر رہے۔
چوتھے، وہ حالت جس میں مسلم زوجین میں سے کوئی ایک مرتد ہو جائے۔
ذیل میں ہم ان چاروں حالتوں کے متعلق فقہاء کے مسالک الگ الگ بیان کرتے ہیں :
پہلی صورت میں اگر اسلام شوہر نے قبول کیا ہو اور اس کی بیوی عیسائی یا یہودی ہو اور وہ اپنے دین پر قائم رہے تو دونوں کے درمیان نکاح باقی رہے گا، کیونکہ مسلمان مرد کے لیے اہل کتاب بیوی جائز ہے۔ یہ امر تمام فقہاء کے درمیان متفق علیہ ہے۔
اور اگر اسلام قبول کرنے والے مرد کی بیوی غیر اہل کتاب میں سے ہو اور وہ اپنے دین پر قائم رہے، تو حنفیہ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ عورت کے سامنے اسلام پید کیا جائے گا، قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا، نہ قبول کرے تو ان کے درمیان تفریق کر دی جائے گی۔ اس صورت میں اگر زوجین کے درمیان خلوت ہو دکی ہو تو عورت مہر کی مستحق ہو گی، اور خلوت نہ ہوئی ہو تو اس کو مہر پانے کا حق نہ ہو گا، کیونکہ فرقت اس کے انکار کی وجہ سے واقع ہوئی ہے (المبسوط، ہدایہ، فتح القدیر)۔ امام شافعی اور احمد کہتے ہیں کہ اگر زوجین کے درمیان خلوت نہ ہوئی ہو تو کرد کے اسلام قبول کرتے ہی عورت اس کے نکاح سے باہر ہو جائے گی، اور اگر خلوت ہو چکی ہو تو عورت تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اس کے نکاح میں رہے گی، اس دوران میں وہ خود اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا، ورنہ تیسری بار ایام سے فارغ ہوتے ہی آپ سے آپ فسخ ہو جائے گا۔ امام شافعیؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ذمیوں کو ان کے مذہب سے تعرض نہ کرنے کی جو ضمانت ہماری طرف سے دی گئی ہے اس کی بنا پر یہ درست نہیں ہے کہ عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائے۔ لیکن در حقیقت یہ ایک کمزور بات ہے، کیونکہ ایک ذمی عورت کے مذہب سے تعرض تو اس صورت میں ہو گا جبکہ اس کو اسلام قبول کرنے پر مجور کیا جائے۔ اس سے صرف یہ کہنا کوئی بے جا تعرض نہیں ہے کہ تو اسلام قبول کر لے تو اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکے گی ورنہ تجھے اس سے الگ کر دیا جائے گا۔ حضرت علیؓ کے زمانے میں اس کی نظیر پیش بھی آ چکی ہے۔ عراق کے ایک مجوسی زمیندار نے اسلام قبول کیا اور اس کی بیوی کافر رہی۔ حضرت علیؓ نے اس کے سامنے اسلام پیش فرمایا۔ اور جب اس نے انکار کیا تب آپ نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی (المبسوط)۔ امام مالکؒ کہتے ہیں کہ اگر خلوت نہ ہو چکی ہو تو مرد کے اسلام لاتے ہی اس کی کافر بیوی اس سے فوراً جدا ہو جائے گی اور اگر خلوت ہو چکی ہو تو عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا اور اس کے انکار کی صورت میں جدائی واقع ہو جائے گی (المغنی لابن قدامہ)۔
اور اگر اسلام عورت نے قبول کیا ہو اور مرد کافر رہے، خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب میں سے، تو حنفیہ کہتے ہیں کہ دونوں میں خلوت ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو، ہر صورت میں شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا، قبول کر لے تو عورت اس کے نکاح میں رہے گی، انکار کر دے تو قاضی دونوں میں تفریق کرا دے گا۔ اس دوران میں جن تک مرد اسلام سے انکار نہ کرے، عورت اس کی بیوی تو رہے گی مگر اس کو مقاربت کا حق نہ ہو گا۔ شوہر کے انکار کی صورت میں تفریق طلاق بائن کے حکم میں ہو گی۔ اگر اس سے پہلے خلوت نہ ہوئی ہو تو عورت نصف مہر پانے کی حق دار ہو گی، اور خلوت ہو چکی ہو تو عورت پورا مہر بھی پائے گی اور عدت کا نفقہ بھی (المبسوط۔ ہدایہ۔ فتح القدیر)۔ امام شافعیؒ کے نزدیک خلوت نہ ہونے کی صورت میں عورت کے اسلام قبول کرتے ہی نکاح فسخ ہو جائے گا، اور خلوت ہونے کی صورت میں عدت ختم ہونے تک عورت اس مرد کے نکاح میں رہے گی۔ اس مدت کے اندر وہ اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا ورنہ عدت گزرتے ہی جدائی واقع ہو جائے گی۔ لیکن مرد کے معاملہ میں بھی امام شافعیؒ نے وہی رائے ظاہر کی ہے جو عورت کے معاملہ میں اوپر منقول ہوئی کہ اس کے سامنے اسلام پیش کر نا جائز نہیں ہے، اور یہ مسلک بہت کمزور ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں متعدد واقعات ایسے پیش آئے ہیں کہ عورت نے اسلام قبول کر لیا اور مرد سے اسلام لانے کے لیے کہا گیا اور جب اس نے انکار کر دیا تو دونوں کے درمیان تفریق کرا دی گئی۔ مثلاً بنی تغلِب کے ایک عیسائی کی بیوی کا معاملہ ان کے سامنے پیش ہوا۔ انہوں نے مرد سے کہا یا تو تُو اسلام قبول کر لے ورنہ میں تم دونوں کے درمیان تفریق کر دوں گا۔ اس نے انکار کیا اور آپ نے تفریق ڈگر دے دی۔ بہزُ المَلِک کی ایک نو مسلم زمیندارنی کا مقدمہ ان کے پاس بھیجا گیا۔ اس کے معاملہ میں بھی انہوں نے حکم دیا کہ اس کے شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے، اگر وہ قبول کر لے تو بہتر، ورنہ دونوں میں تفریق کرا دی جائے۔ یہ واقعات صحابہ کرام کے سامنے پیش آئے تھے اور کسی کا اختلاف منقول نہیں ہے (احکام القرآن للجصاص۔المبسوط۔ فتح القدیر) امام مالکؒ کے رائے اس معاملے میں یہ ہے کہ اگر خلوت سے پہلے عورت مسلمان ہو جائے تو شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے، وہ قبول کر لے تو بہتر ورنہ فوراً تفریق کرا دی جائے۔ اور اگر خلوت ہو چکی ہو اور اس کے بعد عورت اسلام لائی ہو تو زمانہ عدت ختم ہونے تک انتظار کیا جائے، اس مدت میں شوہر اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا، ورنہ عدت گزرتے ہی فرقت واقع ہو جائے گی۔ امام احمدؒ کا ایک قول امام شافعیؒ کی تائید میں ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ زوجین کے درمیان اختلاف دین واقع ہو جانا بہر حال فوری تفریق کا موجب ہے خواہ خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو (المغنی)۔
(۲) دار الکفر میں اگر عورت مسلمان ہو جائے اور مرد کافر رہے، یا مرد مسلمان ہو جائے اور اس کی بیوی (جو عیسائی یا یہودی نہ ہو بلکہ کسی غیر کتابی مذہب کی ہو) اپنے مذہب پر قائم رہے، تو حنفیہ کے نزدیک خواہ ان کے درمیان خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، تفریق واقع نہ ہو گی جب تک عورت کو تین مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں، یا اس کے غیر حائضہ ہونے کو صورت میں تین مہینے نہ گزر جائیں۔ اس دوران میں اگر دوسرا فریق بھی مسلمان ہو جائے تو نکاح باقی رہے گا، ورنہ یہ مدت گزرتے ہی فرقت واقع ہو جائے گی۔ امام شافعیؒ اس معاملہ میں بھی خلوت اور عدم خلوت کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ ان کی رائے یہ ہے کہ اگر خلوت نہ ہوئی ہو تو زوجین کے درمیان دین کا اختلاف واقع ہوتے ہی فرقت ہو جائے گی، اگر خلوت ہو جانے کے بعد دین کا اختلاف رونما ہوا ہو تو عدت کی مدت ختم ہونے تک ان کا نکاح باقی رہے گا۔ اس دوران میں اگر دوسرا فریق اسلام قبول نہ کرے تو عدت ختم ہونے کے ساتھ ہی نکاح بھی ختم ہو جائے گا (المبسوط، فتح القدیر،احکام القرآن للجصاص)۔
(۳)۔جس صورت میں زوجین کے درمیان اختلاف دین کے ساتھ اختلاف دار بھی واقع ہو جائے، یعنی ان میں سے کوئی ایک دار الکفر میں کافر رہے اور دوسرا دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جائے،اس کے متعلق حنفیہ کہتے ہیں کہ دونوں کے درمیان نکاح کا تعلق آپ سے آپ ختم ہو جائے گا۔ اگر ہجرت کرنے والی عورت ہو تو اسے فوراً دوسرا نکاح کر لینے کا حق حاصل ہے، اس پر کوئی عدت نہیں ہے، البتہ مقاربت کے لیے اس کے شوہر کو استبراء رحم کی خاطر ایک مرتبہ ایام ماہواری آ جانے تک انتظار کر نا ہو گا، اور اگر وہ حاملہ ہو تب بھی نکاح ہو سکتا ہے مگر مقاربت کے لیے وضع حمل تک انتظار کرنا ہو گا۔ امام ابو یوسف اور امام محمد نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہؒ سے صرف اتنا اختلاف کیا ہے کہ ان کے نزدیک عورت پر عدت لازم ہے، اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے اس کا نکاح نہیں ہو سکتا (المبسوط۔ہدایہ۔ احکام القرآن للجصاص)۔ امام شافعیؒ، امام احمدؒ اور امام مالکؒ کہتے ہیں کہ اختلاف دار کا اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ اصل چیز صرف اختلاف دین ہے۔ یہ اختلاف اگر زوجین میں واقع ہو جائے تو احکام وہی ہیں جو دار الاسلام میں زوجین کے درمیان یہ اختلاف واقع ہونے کے احکام ہیں (المغنی)۔ امام شافعیؒ اپنی مذکورہ بالا رائے کے ساتھ ساتھ ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورت کے معاملہ میں یہ رائے بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اگر وہ اپنے کافر شوہر سے لڑ کر اس کے حق زوجیت کو ساقط کرنے کے ارادے سے آئی ہو تو اختلاف دار کی بنا پر نہیں بلکہ اس کے اس قصد کی بنا پر فوراً فرقت واقع ہو جائے گی (المبسوط و ہدایہ)۔
لیکن قرآن مجید کی زیر بحث آیت پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں صحیح ترین رائے دہی ہے جو امام ابو حنیفہؒ نے ظاہر فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ہجرت کر کے آنے والی مومن عورتوں ہی کے بارے میں نازل فرمائی ہے، اور انہی کا حق میں یہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے ان کا فر شوہروں کے لیے حلال نہیں رہیں جنہیں وہ دار الکفر میں چھوڑ آئی ہیں، اور دار الاسلام کے مسلمانوں کی اجازت دی ہے کہ وہ ان کے مہر ادا کر کے ان سے نکاح کر لیں۔ دوسری طرف مہاجر مسلمانوں سے خطاب کر رکے یہ فرمایا ہے کہ اپنی ان کافر بیویوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رکھو جو دار الکفر میں رہ گئی ہیں اور کفار سے اپنے وہ مہر واپس مانگ لو جو تم نے ان عورتو کو دیے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف اختلاف دین ہی کے احکام نہیں ہیں بلکہ ان احکام کو جس چیز نے یہ خاص شک دے دی ہے وہ اختلاف دار ہے۔ اگر ہجرت کی بنا پر مسلمان عورتوں کے نکاح ان کے کافر شوہروں سے ٹوٹ نہ گئے ہوتے تو مسلمانوں کو ان سے نکاح کر لینے کی اجازت کیسے دی جا سکتی تھی، اور وہ بھی اس طرح کہ اس اجازت میں عدت کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔ اسی طرح اگر لَا تُمْسِکُوْ ا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ کا حکم آ جانے کے بعد بھی مسلمان مہاجرین کی کافر بیویاں ان کے نکاح میں باقی رہ گئی ہوتیں تو ساتھ ساتھ یہ حکم بھی دیا جاتا کہ نہیں طلاق دے دو۔ مگر یہاں اس کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں۔ بلاشبہ یہ صحیح ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت طلحہؓ اور بعض دوسرے مہاجرین نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تھی۔ مگر یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ان کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا، اور ان بیویوں کے ساتھ تعلق زوجیت کا انقطاع ان کے طلاق دینے پر موقوف تھا، اور اگر وہ طلاق نہ دیتے تو وہ بیویاں ان کے نکاح میں باقی رہ جاتیں۔
اس کے جواب میں عہد نبوی کے تین واقعات کی نظیریں پیش کی جاتی ہیں جن کو اس امر کا ثبوت قرار دیا جاتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اختلاف دار کے باوجود مومن اور کافر زوجین کے درمیان نکاح کا تعلق برقرار رکھا۔ پہلا واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ سے ذرا پہلے ابوسفیان مرالظَّہْران (موجودہ وادی فاطمہ ) کے مقام پر لشکر اسلام میں آئے اور یہاں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کی بیوی ہند مکہ میں کافر رہیں۔ پھر فتح مکہ کے بعد ہند نے اسلام قبول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تجدید نکاح کے بغیر ہی ان کو سابق نکاح پر بر قرار رکھا۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد عِکرِمہ بن ابی جہل اور حکیم بن حزَام مکہ سے فرار ہو گئے اور ان کے پیچھے دونوں کی بیویاں مسلمان ہو گئیں۔ پھر انہوں نے حضورؐ سے اپنے شوہروں کے لیے امان لے لی اور جا کر ان کو لے آئیں۔ دونوں اصحاب نے حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بھی سابق نکاحوں کو بر قرار رکھا۔ تیسرا واقعہ حضورؐ کی اپنی صاحبزادی حضرت زینبؓ کا ہے جو ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئیں تھیں اور ان کے شوہر ابو العاص بحالت کفر مکہ ہی میں مقیم رہ گئے تھے۔ ان کے متعلق مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ابن عباس کی روایت یہ ہے کہ وہ ۸ ھ میں مدینہ آ کر مسلمان ہوئے اور حضورؐ نے تجدید نکاح کے بغیر سابق نکاح ہی پر صاحبزادی کو ان کی زوجیت میں رہنے دیا۔ لیکن ان میں سے پہلے دو واقعے تو در حقیقت اختلاف دار کی تعریف ہی میں نہیں آتے، کیونکہ اختلاف دار اس چیز کا نام نہیں ہے ایک شخص عارضی طور پر ایک دار سے دوسرے دار کی طرف چلا گیا یا فرار ہو گیا، بلکہ یہ اختلاف صرف اس صورت میں واقع ہوتا ہے جب کوئی آدمی ایک دار سے منتقل ہو کر دوسرے دار میں آباد ہو جائے اور اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان موجودہ زمانے کی اصلاح کے مطابق ’’قومیت‘‘ (Nationality) کا فرق واقع ہو جائے۔ رہا سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا معاملہ تو اس کے بارے میں دو روایتیں ہیں۔ ایک روایت ابن عباس کی ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے، اور دوسری روایت حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص کی ہے جس کو امام احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے۔ اس دوسری روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صاحبزادی کو جدید نکاح اور جدید مہر کے ساتھ پھر ابو العاص ہی کی زوجیت میں دے دیا۔ اس اختلاف روایت کی صورت میں اول تو یہ نظیر ان حضرت کے لیے قطعی دلیل نہیں رہتی جو اختلاف دار کی قانونی تاثیر کا انکار کرتے ہیں۔ دوسرے، اگر وہ ابن عباس ہی کی روایت کے صحیح ہونے پر اصرار کریں تو یہ ان کے مسلک کے خلاف پڑتی ہے۔ کیونکہ ان کے مسلک کی رو سے تو جن میاں بیوی کے درمیان اختلاف دین واقع ہو وترفکتا (المنایمان رکلپھر بھی ہیگیا ہو اور وہ باہم خلوت کر چکے ہوں ان کا نکاح عورت کو صرف تین ایام ماہواری آنے تک باقی رہتا ہے، اس دوران میں دوسرا فریق اسلام قبول کر لے تو زوجیت قائم رہتی ہے، ورنہ تیسری بار ایام آتے ہی نکاح آپ سے آپ فسخ ہو جاتا ہے۔ لیکن حضرت زینب کے جس واقعہ سے وہ استدلال کرتے ہیں اس میں زوجین کے درمیان اختلاف دین واقع ہوئے کئی سال گزر چکے تھے، حضرت زینب کی ہجرت کے چھ سال بعد ابو العاص ایمان لائے تھے، اور ان کے ایمان لانے سے کم از کم دو سال پہلے قرآن میں وہ حکم نازل ہو چکا تھا جس کی رو سے مسلمان عورت مشرکین پر حرام کر دی گئی تھی۔
(۴)۔ چوتھا مسئلہ ارتداد کا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ زوجین ایک ساتھ مرتد ہو جائیں، اور دوسری صورت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک مرتد ہو اور دوسرا مسلمان رہے۔
اگر زوجین ایک ساتھ مرتد ہو جائیں تو شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ خلوت سے پہلے ایسا ہو تو فوراً، اور خلوت کے بعد ہوتو عدت کی مدت ختم ہوتے ہی دونوں کا وہ نکاح ختم ہو جائے گا جو حالت اسلام میں ہوا تھا۔ اس کے برعکس حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر چہ قیاس یہی کہتا ہے کہ ان کا نکاح فسخ ہو جائے، لیکن حضرت ابوبکر کے زمانہ میں جو فتنہ ارتداد برپا ہوا تھا اس میں ہزارہا آدمی مرتد ہوئے، پھر مسلمان ہو گئے، اور صحابہ کرام نے کسی کو بھی تجدید نکاح کا حکم نہیں دیا، اس لیے ہم صحابہ کے متفقہ فیصلے کو قبول کرتے ہوئے خلاف قیاس یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ زوجین کے ایک ساتھ مرتد ہونے کی صورت میں ان کے نکاح نہیں ٹوٹتے (المبسوط، ہدایہ، فتح القدیر، الفقہ علی المذاہب الاربعہ)۔
اگر شوہر مرتد ہو جائے اور عورت مسلمان رہے تو حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک فوراً نکاح ٹوٹ جائے گا، خواہ ان کے درمیان پہلے خلوت ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ لیکن شافعیہ اور حنابلہ اس میں خلوت سے پہلے اور خلوت کے بعد کی حالت کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ اگر خلوت سے پہلے ایسا ہوا ہو تو فوراً نکاح ہو جائے گا، اور خلوت کے بعد ہوا ہو تو زمانہ عدت تک باقی رہے گا، اس دوران میں وہ شخص مسلمان ہو جائے تو زوجیت بر قرار رہے گی، ورنہ عدت ختم ہوتے ہی اس کے ارتداد کے وقت سے نکاح فسخ شدہ شمار کیا جائے گا، یعنی عورت کو پھر کوئی نئی عدت گزارنی نہ ہو گی۔ چاروں فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ خلوت سے پہلے یہ معاملہ پیش آیا ہو تو عورت کو نصف مہر، اور خلوت کے بعد پیش آیا تو پورا مہر پانے کا حق ہو گا۔
اور اگر عورت مرتد ہو گئی ہو تو حنفیہ کا قدیم فتویٰ یہ تھا کہ اس صورت میں بھی نکاح فوراً فسخ ہو جائے گا، لیکن بعد کے دور میں علمائے بلخ و سمر قند نے یہ فتویٰ دیا کہ عورت کے مرتد ہونے سے فوراً فرقت واقع نہیں ہوتی، اور اس سے ان کا مقصد اس امر کی روک تھام کرنا تھا کہ شوہروں سے پیچھا چھڑانے کے لیے عورتیں کہیں ارتداد کا راستہ اختیار نہ کرنے لگیں۔ مالکیہ کا فتویٰ بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر قرائن یہ بتا رہے ہو کہ عورت نے محض شوہر سے علیحدگی حاصل کرنے کے لیے بطور حیلہ ارتداد اختیار کیا ہے تو فرقت واقع نہ ہو گی۔ شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ عورت کے ارتداد کی صورت میں بھی قانون وہی ہے جو مرد کے ارتداد کی صورت میں ہے، یعنی خلوت سے پہلے مرتد ہو تو فوراً نکاح فسخ ہو جائے گا، اور خلوت کے بعد ہو تو زمانہ عدت گزرنے تک نکاح باقی رہے گا، اس دوران میں وہ مسلمان ہو جائے تو زوجیت کا رشتہ برقرار رہے گا۔ ورنہ عدت گزرتے ہی نکاح وقت ارتداد سے فسخ شمار ہو گا۔ مہر کے بارے میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ خلوت سے پہلے اگر عورت مرتد ہوئی ہے تو اسے کوئی مہر نہ ملے گا، اور اگر خلوت کے بعد اس نے ارتداد اختیار کیا ہو تو وہ پورا مہر پائے گی (المبسوط۔ ہدایہ۔ فتح القدیر۔المغنی۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ)۔
۱۷۔ اس معاملہ کی دو صورتیں تھیں اور اس آیت کا انطباق دونوں سورتوں پر ہوتا ہے : ایک صورت یہ تھی کہ جن کفار سے مسلمانوں کے معاہدانہ تعلقات تھے ان سے مسلمانوں نے یہ معاملہ طے کرنا چاہا کہ جو عورتیں ہجرت کر کے ہماری طرف آ گئی ہیں ان کے مہر ہم واپس کر دیں گے، اور ہمارے آدمیوں کی جو کافر بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کے مہر تم واپس کر دو۔ لیکن انہوں نے اس بات کو قبول نہ کیا۔ چنانچہ امام زہری بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے مسلمان ان عورتوں کے مہر واپس دینے کے لی تیار ہو گئے جو مشرکین کے پاس مکہ میں رہ گئی تھیں، مگر مشرکوں نے ان عورتوں کے مہر واپس دینے سے انکار کر دیا جو مسلمانوں کے پاس ہجرت کر کے آ گئی تھیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ مہاجر عورتوں کے جو مہر تمہیں مشرکین کو واپس کرنے ہیں وہ ان کو بھیجنے کے بجائے مدینے ہی میں جمع کر لیے جائیں اور جن لوگوں کو مشرکین سے اپنے دیے ہوئے مہر واپس لینے ہیں ان میں سے ہر ایک کو اتنی رقم دے دی جائے جو اسے کفار سے وصول ہونی چاہیے تھی۔
دوسری صورت یہ تھی کہ جن کفار سے مسلمانوں کے معاہدانہ تعلقات نہ تھے ان کے علاقوں سے بھی متعدد آدمی اسلام قبول کر کے دار الاسلام میں آ گئے تھے اور ان کی کافر بیویاں وہاں رہ گئی تھیں۔ اسی طرح بعض عورتیں بھی مسلمان ہو کر ہجرت کر آئی تھیں اور ان کے کافر شوہر وہاں رہ گئے تھے۔ ان کے بارے میں یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ دار الاسلام ہی میں اَدلے کا بدلہ چکا دیا جائے۔ جب کفار سے کوئی مہر واپس نہیں ملنا ہے تو انہیں بھی کوئی مہر واپس نہ کیا جائے۔ اس کے بجائے جو عورت ادھر آ گئی ہے اس کے بدلے کا مہر اس شخص کو ادا کر دیا جائے جس کی بیوی ادھر رہ گئی ہے۔
لیکن اگر اس طرح حساب برابر نہ ہو سکے، اور جن مسلمانوں کی بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کے وصول طلب مہر ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورتوں کے مہروں سے زیادہ ہوں، تو حکم دیا گیا کہ اس مال غنیمت سے باقی رقمیں ادا کر دی جائیں جو کفار سے لڑائی میں مسلمانوں کے ہاتھ آ گئے ہوں ابن عباسؓ کی روایت ہے جس شخص کے حصے کا مہر وصول طلب رہ جاتا تھا، نبی صلی اللہ علیہ و سلم یہ حکم دیتے تھے کہ اس کے نقصان کی تلافی مال غنیمت سے کر دی جائے (ابن جریر)۔ اسی مسلک کو عطاء، مجاہد، زہری، مسروق، ابراہیم نخعی، قتادہ، مقاتِل اور ضحاک نے اختیار کیا ہے۔ یہ سب حضرات کہتے ہیں کہ جن لوگوں کے مہر کفار کی طرف رہ گئے ہوں ان کا بدلہ کفار سے ہاتھ آئے ہوئے مجموعی مال غنیمت میں سے ادا کیا جائے، یعنی تقسیم غنائم سے پہلے ان لوگوں کے فوت شدہ مہر ان کو دے دیے جائیں اور اس کے بعد تقسیم ہو جس میں وہ لوگ بھی دوسرے سب مجاہدین کے ساتھ برابر کا حصہ پائیں۔ بعض فقہاء یہ بھی کہتے ہیں کہ صرف اموال غنیمت ہی نہیں، اموال فَے میں سے بھی ایسے لوگوں کے نقصان کی تلافی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اہل علم کے ایک بڑے گروہ نے اس مسلک کو قبول نہیں کیا ہے۔
۱۸۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، یہ آیت فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد جب مکہ فتح ہوا تو قریش کے لوگ جوق در جوق حضورؐ سے بیعت کرنے کے لیے حاضر ہونے لگے۔ آپ نے مردوں سے کوہ صفا پر خود بیعت لی اور حضرت عمرؓ کو اپنی طرف سے مامور فرمایا کہ وہ عورتوں سے بیعت لیں اور ان باتوں کا اقرار کرائیں جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں (ابن جریر بروایت ابن عباس۔ ابن ابی حاتم بروایت قتادہ)۔ پھر مدینہ واپس تشریف لے جا کر آپ نے ایک مکان میں انصار کی خواتین کو جمع کرنے کا حکم دیا اور حضرت عمرؓ کو ان سے بیعت لینے کے لیے بھیجا (ابن جریر، ابن مردویہ، بزار، ابن حبان، بروایت ام عطیہ انصاریہ )۔ عید کے روز بھی مردوں کے درمیان خطبہ دینے کے بعد آپ عورتوں کے مجمع کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں اپنے خطبہ کے دوران میں آپ نے یہ آیت تلاوت کر کے ان باتوں کا عہد لیا جو اس آیت میں مذکور ہوئی ہیں (بخاری، بروایت ابن عباس)۔، ان مواقع کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں عورتیں فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرتی رہیں جن کا ذکر متعدد احادیث میں آیا ہے۔
۱۹۔ مکہ معظمہ میں جب عورتوں سے بیعت لی جا رہی تھی اس وقت حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبنہ نے اس حکم کی تشریح دریافت کرتے ہوئے حضورؐ سے عرض کیا، یا رسول اللہ، ابوسفیان ذرا بخیل آدمی ہیں کیا میرے اوپر اس میں کوئی گناہ ہے کہ میں اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات کے لیے ان سے پوچھے بغیر ان کے مال میں سے کچھ لے لیا کروں؟ آپ نے فرمایا نہیں، مگر بس معروف کی حد تک۔ یعنی جس اتنا مال لے لو جو فی الواقع جائز ضروریات کے لیے کافی ہو (احکام القرآن، ابن عربی)۔
۲۰۔ اس میں اسقاط حمل بھی شامل ہے، خواہ وہ جائز حمل کا اسقاط ہو یا ناجائز حمل کا۔
۲۱۔ اس سے دو قسم کے بہتان مراد ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی عورت دوسری عورتوں پر غیر مردوں سے آشنائی کی تہمتیں لگائے اور اس طرح کے قصے لوگوں میں پھیلائے، کیونکہ عورتوں میں خاص طور پر ان باتوں کے چرچے کرنے کی بیماری پائی جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک عورت بچہ تو کسی کا جنے اور شوہر کو یقین دلائے کہ تیرا ہی ہے۔ ابوداؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ انہوں نے حضور کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’ جو عورت کسی خاندان میں کوئی ایسا بچہ گھسا لائے جو اس خاندان کا نہیں ہے اس کا اللہ سے کوئی واسطہ نہیں، اور اللہ اسے کبھی جنت میں داخل نہ کرے گا‘‘۔
۲۲۔ اس مختصر سے فقرے میں دو بڑے اہم قانونی نکات بیان کیے گئے ہیں :
پہلا نکتہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت پر بھی اطاعت فی المعروف کی قید لگائی گئی ہے، حالانکہ حضورؐ کے بارے میں اس امر کے کسی ادنیٰ شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی کہ آپ کبھی منکر کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا میں کسی مخلوق کی اطاعت قانون خداوندی کے حدود سے باہر جا کر نہیں کی جا سکتی، کیونکہ جب خدا کے رسول تک کی اطاعت معروف کی شرط سے مشروط ہے تو پھر کسی دوسرے کا یہ مقام کہاں ہو سکتا ہے کہ اسے غیر مشروط اطاعت کا حق پہنچے اور اس کے کسی ایسے حکم یا قانون یا ضابطے اور رسم کی پیروی کی جائے جو قانون خداوندی کے خلاف ہو۔ اس قاعدے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : لاطاعۃ فی معصیۃ اللہ، انما الطاعۃ فی المعروف۔ ’’ اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے، اطاعت صرف معروف میں ہے ‘‘ (مسلم، ابوداؤد، نسائی)۔ یہی مضمون اکابر اہل علم نے اس آیت سے مستبط کیا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ تمہاری نافرمانی نہ کریں، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ وہ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی تک کی اطاعت کو اس شرط سے مشروط کیا ہے تو کسی اور شخص کے لیے یہ کیسے سزاوار ہو سکتا ہے کہ معروف کے سوا کسی معاملہ میں اس کی اطاعت کی جائے‘‘ (ابن جریر)۔
’’اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس کا نبی کبھی معروف کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا، پھر بھی اس نے اپنے نبی کی نافرمانی سے منع کرتے ہوئے معروف کی شرط لگا دی تاکہ کوئی شخص کبھی اس امر کی گنجائش نہ نکال سکے کہ ایسی حالت میں بھی سلاطین کی اطاعت کی جائے جب کہ ان کا حکم اللہ کی اطاعت میں نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ : من اطاع مخلوقاً فی معصیۃ الخالق سلَّط اللہ علیہ ذٰلک المخلوق، یعنی جو شخص خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت کرے، اللہ تعالیٰ اس پر اسی مخلوق کو مسلط کر دیتا ہے ‘‘ (احکام القرآن)
’’ یہ ارشاد ان جاہلوں کے خیال کی تردید کرتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ اولی الامر کی اطاعت مطلقاً لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو رسول کی اطاعت پر بھی معروف کی قید لگا دی ہے، حالانکہ رسول کبھی معروف کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا۔ اس سے مقصود لوگوں کو خیر دار کرنا ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے ‘‘ (روح المعانی)۔
پس در حقیقت یہ ارشاد اسلام میں قانون کی حکمرانی (Rule of Law) کا سنگ بنیاد ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ ہر کام جو اسلامی قانون کے خلاف ہو، جرم ہے اور کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ ایسے کسی کام کا کسی کو حکم دے۔ جو شخص بھی خلاف قانون حکم دیتا ہے وہ خود مجرم ہے اور جو شخص اس حکم کی تعمیل کرتا ہے وہ بھی مجرم ہے۔ کوئی ماتحت اس عذر کی بنا پر سزا سے نہیں بچ سکتا کہ اس کے افسر بالا نے اسے ایک ایسے فعل کا حکم دیا تھا جو قانون میں جرم ہے۔
دوسری بات جو آئنی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتی ہے یہ ہے ہ اس آیت میں پانچ منفی احکام دینے کے بعد مثبت حکم صرف ایک ہی دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ تمام بیک کاموں میں نبی صلی اللہ علیہ وسل کے احکام کی اطاعت کی جائے گی۔ جہاں تک برائیوں کا تعلق، وہ بڑی بڑی بُرائیاں گنا دی گئیں جن میں زمانہ جاہلیت کی عورتیں مبتلا تھیں اور ان سے باز رہنے کا عہد لے لیا گیا، مگر جہاں تک بھلائیوں کا تعلق ہے ان کی کوئی فہرست دے کر عہد نہیں لیا گیا کہ تم فلاں فلاں اعمال کر و گی بلکہ صرف وہی ہوں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا ہے تو عہد ان الفاظ میں لیا جانا چاہیے تھا کہ ’’ تم اللہ کی نافرمانی نہ کرو گی‘‘ یا یہ کہ ’’ تم قرآن کے احکام کی نافرمانی نہ کرو گی‘‘۔ لیکن جب عہد ان الفاظ میں لیا گیا کہ ’’ جس بیک کام کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دیں گے تم اس کی خلاف ورزی نہ کرو گی‘‘ تو اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے حضورؐ کو وسیع ترین اختیارات دیے گئے ہیں اور آپ کے تمام احکام واجب الاطاعت ہیں خواہ وہ قرآن میں موجود ہو یا نہ ہوں۔
اسی آئینی اختیار کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیعت لیتے ہوئے ان بہت سی برائیوں کے چھوڑنے کا عہد لیا جو اس وقت عرب معاشرے کی عورتوں میں پھیلی ہوئی تھیں اور متعدد ایسے احکام دیے جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ اس کے لیے حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں :
ابن عباسؓ، ام سلمہؓ اور ام عطیہؓ انصاریہ وغیرہ کی روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت یہ عہد لیا کہ وہ مرنے والوں پر نوحہ نہ کریں گی۔ یہ روایات بخاری، مسلم،نسائی اور ابن جریر نے نقل کی ہیں۔
ابن عباسؓ کی ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضورؐ نے حضرت عمرؓ کو عورتوں سے بیعت لینے کے لیے مامور کیا اور حکم دیا کہ ان کو نوحہ کرنے سے منع کریں، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوئے کپڑے پھاڑتی تھیں، منہ نوچتی تھیں، بال کاٹری تھیں اور سخت واویلا مچاتی تھیں (ابن جریر)۔
زید بن اسلم روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے بیعت لیتے وقت عورتوں کو اس سے منع کیا کہ ہو مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوئے اپنے منہ نوچیں اور گریبان پھاڑیں اور واویلا کریں اور شعر گا گا کر بین کریں (ابن جریر)۔ اسی کی ہم معنی ایک روایت ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے ایک ایسی خاتون سے نقل کی ہے جو بیعت کرنے والیوں میں شامل تھیں۔
قتادہ اور حسن بصری رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ جو عہد حضورؐ نے بیعت لیتے وقت عورتوں سے کیے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ غیر محرم مردوں سے بات نہ کریں گی۔ ابن عباس کی روایت میں اس کی یہ وضاحت ہے کہ غیر مردوں سے تخلیہ میں بات نہ کریں گی۔ قتادہ نے مزید وضاحت یہ کی ہے کہ حضورؐ کا یہ ارشاد سن کر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے عرض کیا یا رسول اللہ کبھی ایسا ہوتا ہے چہ ہم گھر پر نہیں ہوتے اور ہمارے ہاں کوئی صاحب ملنے آ جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میری مراد یہ نہیں ہے۔ یعنی عورت کا کسی آنے والے سے اتنی بات کہہ دینا ممنوع نہیں ہے کہ صاحب خانہ گھر میں موجود نہیں ہیں (یہ روایات ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے نقل کی ہیں )۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خالہ امیمہؓ بنت رقیقہ سے حضرت عبد اللہؓ بن عمرو بن العاص نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ نے ان سے یہ عہد لیا کہ نوحہ نہ کرنا اور جاہلیت کے اسے بناؤ سنگھار کر کے اپنی نمائش نہ کرنا مسند احمد، ابن جریر)۔
حضورؐ کی ایک خالہ سلمٰی بنت قیس کہتے ہیں کہ میں انصار کی چند عورتوں کے ساتھ بیعت کے لیے حاضر ہوئی تو آپ نے قرآن کی اس آیت کے مطابق ہم سے عہد لیا پھر فرما یا ولا تغششنازواجکن ’’ اپنے شوہروں سے دھوکے بازی نہ کرنا‘‘ جب ہم واپس ہونے لگیں تو ایک عورت نے مجھ سے کہا کہ جا کر حضورؐ سے پوچھو شوہروں سے دھوکے بازی کرنے کا کیا مطلب ہے؟ میں نے جاکر پوچھا تو آپؐ نے فرمایا تاخص مالہ فتحابی بہ غیرہ ’’یہ کہ تو اس کا مال لے اور دوسروں پر لٹائے‘‘ (مسند احمد)۔
ام عطیہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ نے بیعت لینے کے بعد ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدین کی جماعت میں حاضر ہوا کریں گی البتہ جمعہ ہم پر فرض نہیں ہے، اور جنازوں کے ساتھ جانے سے ہمیں منع فرما دیا(ابن جریر)۔
جو لوگ حضور کے اس آئینی اختیار کو آپ کی حیثیت رسالت کے بجائے حیثیت امارت سے متعلق قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ چونکہ اپنے وقت کے حکمراں بھی تھے اس لیے اپنی اس حیثیت میں آپ نے جو احکام دیئے وہ صرف آپ کے زمانے تک ہی واجب الاطاعت تھے، وہ بڑی جہالت کی بات کہتے ہیں۔ اوپر کی سطور میں ہم نے حضورؐ کے جو احکام نقل کیے ہیں ان پر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ ان میں عورتوں کی اصلاح کے لیے جو ہدایات آپ نے دی ہیں وہ اگر محض حاکم وقت ہونے کی حیثیت سے ہوتیں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پوری دنیا کے مسلم معاشرے کی عورتوں میں یہ اصلاحات کیسے رائج ہو سکتی تھیں؟ آخر دنیا کا وہ کونسا حاکم ہے جس کو یہ مرتبہ حاصل ہو کہ ایک مرتبہ اس کی زبان سے ایک حکم صادر ہو اور روئے زمین پر جہاں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں کے مسلم معاشرے میں ہمیشہ کے لیے وہ اصلاح رائج ہو جائے جس کا حکم اس نے دیا ہے؟( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ حشر، حاشیہ ۱۵)۔
۲۳۔ معتبر اور متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں عورتوں سے بیعت لینے کا طریقہ مردوں کی بیعت سے مختلف تھا۔ مردوں سے بیعت لینے کا طریقہ یہ تھا کہ بیعت کرنے والے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عہد کرتے تھے۔ لیکن عورتوں سے بیعت لینے ہوئے آپ نے کبھی کسی عورت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہیں لیا، بلکہ مختلف دوسرے طریقے اختیار فرمائے۔ اس کے بارے میں جو روایات منقول ہوئی ہیں وہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’ خدا کی قسم بیعت میں حضور کا ہاتھ کبھی کسی عورت کے ہاتھ سے چھوا تک نہیں ہے۔ آپ عورت سے بیعت لیتے ہوئے بس زبان مبارک سے یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تجھ سے بیعت لی‘‘ (بخاری۔ ابن جریر)۔
امیہ بنت رقیقہ کا بیان ہے کہ میں اور چند عورتیں حضور کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوئیں اور آپؐ نے قرآن کی اس آیت کے مطابق ہم سے عہد لیا۔ جب ہم نے کہا ’’ ہم معروف میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی‘‘ تو آپ نے فرمایا فیما استطعتنَّ، ‘‘ جہاں تک تمہارے بس میں ہو اور تمہارے لیے ممکن ہو‘‘ ہم نے عرض کیا‘‘ اللہ اور اس کا رسول ہمارے لیے خود ہم سے بڑھ کر رحیم ہیں ‘‘ پھر ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہاتھ بڑھائیے تاکہ ہم آپ سے بیعت کریں۔ آپ نے فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، بس میں تم سے عہد لوں گا۔ چنانچہ آپ نے عہد لے لیا۔ ایک اور روایت میں ان کا بیان ہے کہ آپؐ نے ہم میں سے کسی عورت سے بھی مصافحہ نہیں کیا (مسند احمد، ترمذی،نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم)۔
ابوداؤد نے مراسیل میں شعبی کی روایت نقل کی ہے کہ عورتوں سے بیعت لیتے وقت ایک چادر حضور کی طرف بڑھائی گئی آپ نے جس اسے ہاتھ میں لے لیا اور فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔ یہ مضمون ابن ابی حاتم نے شعبی سے، عبدالرزاق نے ابراہیم نخعی سے اور سعید بن منصور نے قیس بن ابی حازم سے نقل کیا ہے۔
ابن اسحاق نے مغازی میں ابان بن صالح سے روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ پانی کے ایک برتن میں ہاتھ ڈال دیتے تھے، اور پھر اسی برتن میں عورت بھی اپنا ہاتھ ڈال دیتی تھی۔
بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ عید کا خطبہ دینے کے بعد آپ مردوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اس مقام پر تشریف لے گئے جہاں عورت بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ نے وہاں اپنی تقریر میں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی، پھر عورتوں سے پوچھا تم اس کا عہد کرتی ہو؟ مجمع میں سے ایک عورت نے جواب دیا ہاں یا رسول اللہ۔
ایک روایت میں جسے ابن حبان، ابن جریر اور بزار وغیرہ نے نقل کیا ہے، ام عطیہ انصار یہ کاس یہ بیان ملتا ہے کہ ’’ حضورؐ نے گھر کے باہر سے ہاتھ بڑھایا اور ہم نے اندر سے ہاتھ بڑھائے‘‘، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا یہ عورتوں نے آپ سے مصافحہ بھی کیا ہو، کیونکہ حضرت ام عطیہ نے مصافحہ کی تصریح نہیں کی ہے۔ غالباً اس موقع پر صورت یہ رہی ہو گی کہ عہد لیتے وقت آپ نے باہ سے ہاتھ بڑھایا ہو گا اور اندر سے عورتوں نے اپنے اپنے ہاتھ آپ کے ہاتھ کی طرف بڑھا دیے ہوں گے بغیر اس کے کہ ان میں سے کسی کا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے مس ہو۔
۲۴۔ اصل الفاظ ہیں قَدْ یَئِسُوْ ا من الْاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحَابِ الْقُبُوْرِ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ آخرت کی بھلائی اور اس کے ثواب سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح زندگی بعد موت سے انکار کرنے والے اس بات سے مایوس ہیں کہ ان کے جو عزیز رشتہ دار قبروں میں جا چکے ہیں وہ کبھی پھر زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ یہ معنی حضرت عبداللہ بن عباسؓ، اور حضرات حس بصری، قتادہ اور ضحاک رحمہم اللہ نے بیان کیے ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ وہ آخرت کی رحمت و مغفرت سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر ہر خیر سے مایوس ہیں، کیونکہ انہیں اپنے مبتلائے عذاب ہونے کا یقین ہو چکا ہے۔ یہ معنی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، اورت حضرات مجاہد، عِکْرِمہ، ابن زید، کلبی، مقاتل اور منصور رحمہم اللہ سے منقول ہیں۔