۱ سورۂ منافقون مدنیّہ ہے، اس میں دو۲ رکوع،گیارہ ۱۱ آیتیں، ایک سو اسّی۱۸۰ کلمے اور نو سو چھہتّر ۹۷۶ حرف ہیں۔
۳ ان کا باطن ظاہر کے موافق نہیں، جو کہتے ہیں اس کے خلاف اعتقاد رکھتے ہیں۔
۴ کہ ان کے ذریعہ سے قتل و قید سے محفوظ رہیں۔
۵ لوگوں کو، یعنی جہاد سے یا سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان لانے سے طرح طرح کے وسوسے اور شبہے ڈال کر۔
۶ کہ بمقابلہ ایمان کے کفر اختیار کرتے ہیں۔
۷ یعنی منافقین کو مثل عبداللہ بن اُبی ابنِ سلول وغیرہ کے۔
۸ ابنِ اُبَی جسیم، صبیح، خوبرو، و خوش بیان آدمی تھا اور اس کے ساتھ والے منافقین قریب قریب ویسے ہی تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی مجلس شریف میں جب یہ لوگ حاضر ہوتے تو خوب باتیں بناتے جو سننے والے کو اچھی معلوم ہوتیں۔
۹ جن میں بے جان تصویر کی طرح نہ ایمان کی روح، نہ انجام سوچنے والی عقل۔
۱۰ کوئی کسی کو پکارتا ہو، یا اپنی گُمی چیز ڈھونڈھتا ہو، یا لشکر میں کسی مقصد کے لئے کوئی بات بلند آواز سے کہیں تو یہ اپنے خبثِ نفس اور سوئے ظن سے یہی سمجھتے ہیں کہ انہیں کچھ کہا گیا اور انہیں یہ اندیشہ رہتا ہے کہ ان کے حق میں کوئی ایسا مضمون نازل ہوا جس سے ان کے راز فاش ہو جائیں۔
۱۱ دل میں شدید عداوت رکھتے ہیں اور کفّار کے پاس یہاں کی خبریں پہنچاتے ہیں، ان کے جاسوس ہیں۔
۱۲ اور ان کے ظاہِر حال سے دھوکا نہ کھاؤ۔
۱۳ اور روشن برہانیں قائم ہونے کے باوجود حق سے منحرف ہوتے ہیں۔
۱۵ شانِ نزول : غزوۂ مریسیع سے فارغ ہو کر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے سرِ چاہ نزول فرمایا تو وہاں یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اجیر جہجاہ غِفَاری اور ابنِ اُبی کے حلیف سنان بن دبرجُہَنِی کے درمیان جنگ ہو گئی، جہجاہ نے مہاجرین کو اور سنان نے انصار کو پکار ا، اس وقت ابنِ اُبَی منافق نے حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شان میں بہت گستاخانہ اور بے ہودہ باتیں بکیں اور یہ کہا کہ مدینہ طیّبہ پہنچ کر ہم میں سے عزّت والے ذلیلوں کو نکال دیں گے اور اپنی قوم سے کہنے لگا کہ اگر تم انہیں اپنا جھوٹا کھانا نہ دو تو یہ تمہاری گردنوں پر سوار نہ ہوں، اب ان پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ یہ مدینہ سے بھاگ جائیں، اس کی یہ ناشائستہ گفتگو سن کر زید بن ارقم کو تاب نہ رہی انہوں نے اس سے فرمایا کہ خدا کی قَسم تو ہی ذلیل ہے اپنی قوم میں بغض ڈالنے والا اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے سرِ مبارک پر معراج کا تاج ہے، حضرت رحمٰن نے انہیں عزّت و قوّت دی ہے، ابنِ اُبَی کہنے لگا چپ میں تو ہنسی سے کہہ رہا تھا، زید بن ارقم نے یہ خبر حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں پہنچائی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابنِ اُبَی کے قتل کی اجازت چاہی، سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے منع فرمایا اور ارشاد کیا کہ لوگ کہیں گے کہ محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) اپنے اصحاب کو قتل کرتے ہیں، حضور ِ انور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ابنِ اُبَی سے دریافت فرمایا کہ تو نے یہ باتیں کہیں تھیں؟ وہ مُکَر گیا اور قَسم کھا گیا کہ میں نے کچھ بھی نہیں کہا، اس کے ساتھی جو مجلس شریف میں حاضر تھے، وہ عرض کرنے لگے کہ ابنِ اُبَی بوڑھا بڑا شخص ہے، یہ جو کہتا ہے ٹھیک ہی کہتا ہے، زید بن ارقم کو شاید دھوکا ہوا اور بات یاد نہ رہی ہو، پھر جب اوپر کی آیتیں نازل ہوئیں اور ابنِ اُبَی کا جھوٹ ظاہر ہو گیا توا س سے کہا گیا کہ جا سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے درخواست کر، حضور تیرے لئے اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں، تو گردن پھیری اور کہنے لگا کہ تم نے کہا، ایمان لا تو میں ایمان لے آیا، تم نے کہا، زکوٰۃ دے تو میں نے زکوٰۃ دی، اب یہی باقی رہ گیا ہے کہ محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو سجدہ کروں، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۱۶ اس لئے کہ وہ نفاق میں راسخ اور پختہ ہو چکے ہیں۔
۱۹ منافقین نے اپنے کو عزّت والا کہا اور مومنین کو ذلّت والا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۲۰ اس آیت کے نازل ہونے کے چند ہی روز بعد ابنِ اُبَی منافق اپنے نفاق کی حالت پر مر گیا۔
۲۱ پنجگانہ نمازوں سے یا قرآن شریف سے۔
۲۲ کہ دنیا میں مشغول ہو کر دِین کو فراموش کر دے اور مال کی محبّت میں اپنے حال کی پروا نہ کرے اور اولاد کی خوشی کے لئے راحتِ آخرت سے غافل رہے۔
۲۳ کہ انہوں نے دنیائے فانی کے پیچھے دارِ آخرت کی باقی رہنے والی نعمتوں کی پرواہ نہ کی۔
۲۴ یعنی جو صدقات واجب ہیں وہ ادا کرو۔