پہلی ہی آیت کے الفاظ لِمَ تُحَرِّمُ سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی اس کے مضامین کا عنوان نہیں ہے، بلکہ اس نام سے مُراد یہ ہے کہ یہ وہ سورہ ہے جس میں تحریم کے واقعہ کا ذکر آیا ہے۔
اِس میں تحریم کے جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق احادیث کی روایات میں دو خواتین کا ذکر آیا ہے جو اُس وقت حضورؐ کے حرم میں تھیں ۔ ایک حضرت صفیہؓ۔ دوسری حضرت ماریہِ قِبْطِیّہؓ۔ ان میں سے ایک، یعنی حضرت صَفِیّہ فتح خیبر کے بعد حضورؐ کے نکاح میں آئیں، اور خیبر کی فتح بالاتفاق سن ۷ ہجری میں ہوئی ہے۔ دوسری خاتون ماریہ کو سن ۷ ہجری میں مصر کے فرمانروا مُقَوْقِس نے حضورؐ کی خدمت میں ارسال کیا تھا اور اُن کے بطن سے ذی الحجہ سن ۸ ہجری میں حضورؐ کے فرزند حضرت ابراہیمؓ پیدا ہوئے تھے۔ ان تاریخی واقعات سے یہ بات قریب قریب متعین ہو جاتی ہے کہ اس سُورہ کا نزول سن ۷ ہجری یا سن ۸ ہجری کے دوران میں کسی وقت ہوا ہے۔
یہ ایک بڑی اہم سُورۃ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواجِ مطہرات کے متعلق بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چند مہمّاتِ مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ایک یہ کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حدود مقرر کرنے کے اختیارات قطعی طور پر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، اور عام انسان تو درکنار، خود اللہ تعالیٰ کے نبیؐ کی طرف بھی اُن کا کوئی حصّہ منتقل نہیں کیا گیا ہے۔ نبی بحیثیتِ نبی اگر کسی چیز کو حرام یا حلا ل قرار دے سکتا ہے تو صرف اُس صورت میں جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اشارہ ہو، قطعِ نظر اس سے کہ وہ اشارہ قرآن مجید میں نازل ہو ا ہو، یا وحی خفی کے طور پر کیا گیا ہو۔ لیکن بطورِ خود اللہ تعالیٰ کی مباح کی ہوئی کسی چیز کو حرام کر لینے کا مجاز نبی بھی نہیں ہے کجا کہ کوئی اور شخص ہو سکے۔
دوسرے یہ کہ انسانی معاشرہ میں نبی کا مقام انتہائی نازک مقام ہے۔ ایک معمولی بات بھی، جو کسی دوسرے انسان کی زندگی میں پیش آئے تو چنداں اہمیت نہیں رکھتی، نبی کی زندگی میں اگر پیش آ جائے تو وہ قانون کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السّلام کی زندگی پر ایسی کڑی نگرانی رکھی گئی ہے کہ ان کا کوئی ادنیٰ اِقدام بھی منشاء الہیٰ سے ہٹا ہوا نہ ہو۔ ایسا کوئی فعل بھی اگر نبی سے صادر ہوا ہے تو اس کی فوراً اصلاح کر دی گئی ہے تا کہ اسلامی قانون اور اس کے اصول اپنی بالکل صحیح صورت میں نہ صرف خدا کی کتاب، بلکہ نبی کے اُسوۂ حسنہ کی صورت میں بھی خدا کے بندوں تک پہنچ جائیں اور ان میں ذرّہ برابر بھی کوئی چیز ایسی شامل نہ ہو نے پائے جو منشائے الہیٰ سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔
تیسری بات جو مذکورۂ بالا نکتہ سے خود بخود نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ذرا سی بات پر جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ٹوک دیا گیا اور نہ صرف اس کی اصلاح کی گئی بلکہ اسے ریکارڈ پر بھی لے آیا گیا، تو یہ چیز قطعی طور پر ہمارے دل میں یہ اطمینان پیدا کر دیتی ہے کہ حضورؐ کی حیاتِ طیّبہ میں جو اعمال و افعال اور جو احکام و ہدایات بھی ہمیں اب ملتے ہیں ، اور جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی گرفت یا اصلاح ریکارڈ پر موجود نہیں ہے، وہ سراسر حق ہیں، اللہ کی مرضی سے پُوری مطابقت رکھتے ہیں ، اور ہم پُورے اعتماد کے ساتھ ان سے ہدایت و رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔
چوتھی بات جو اِس کلام میں ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جس رسولِ مقدس کی عزت و حُرمت کو اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کے حق میں لازمۂ ایمان قرار دیتا ہے اُسی کے متعلق اِس سُورہ میں بیان کیا گیا ہے کہ اُس نے اپنی بیویوں کے خوش کرنے کے لیے ایک مرتبہ اللہ کی حلال کی ہوئی ایک چیز اپنے اوپر حرام کر لی۔ اور جن ازواج مطہرات کو اللہ تعالیٰ خود تمام اہلِ ایمان کی ماں قرار دیتا ہے اور جن کے احترام کا اس نے خود مسلمانوں کو حکم دیا ہے انہی کو اس نے بعض غلطیوں پر اِس سُورۃ میں شدّت سے تنبیہ فرمائی ہے۔ پھر نبی پر یہ گرفت اور ازواجِ مطہرات کو یہ تنبیہ بھی خفیہ طور پر نہیں کی گئی بلکہ اُس کتاب میں درج کر دی گئی جسے تمام اُمّت کو ہمیشہ ہمیشہ تلاوت کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ کتاب اللہ میں اِس ذکر کا منشا نہ یہ تھا، نہ یہ ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور امہات المومنین کو اہلِ ایمان کی نگاہوں سے گرا دینا چاہتا تھا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن پاک کی یہ سورۃ پڑھ کر کسی مسلمان کے دل سے ان کا احترام اُٹھ نہیں گیا ہے۔ اب قرآن میں یہ ذکر لانے کی مصلحت اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنے بزرگوں کے احترام کی صحیح حدوں سے آشنا کرنا چاہتا ہے۔ نبی، نبی ہے، خدا نہیں ہے کہ اس سے کوئی لغزش نہ ہو۔ نبی کا احترام اس بنا پر نہیں ہے کہ اس سے لغزش کا صدور نا ممکن ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ وہ مرضی الہیٰ کا مکمل نمائندہ ہے اور اس کی ادنیٰ سی لغزش کو بھی اللہ نے اصلاح کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے جس سے ہمیں یہ اطمینان نصیب ہو جاتا ہے کہ نبی کا چھوڑا ہوا اُسوۂ حسنہ اللہ کی مرضی کی پُوری نمائندگی کر رہا ہے۔ اسی طرح صحابۂ کرام ہوں یا ازواجِ مطہرات، یہ سب انسان تھے، فرشتے یا فوق البشر نہ تھے۔ اُن سے غلطیوں کا صدور ہو سکتا تھا۔ اُن کو جو مرتبہ بھی حاصل ہوا اِس وجہ سے ہوا کہ اللہ کی رہنما ئی اور اللہ کے رسول ؐ کی تربیت نے ان کو انسانیت کا بہترین نمونہ بنا دیا تھا۔ اُن کو جو کچھ بھی احترام ہے اسی بنا پر ہے، نہ کہ اِس مفروضے پر کہ وہ کچھ ایسی ہستیاں تھیں جو غلطیوں سے بالکل مبرّا تھیں۔ اِسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہدِ مبارک میں صحابہ یا ازواج مطہرات سے بشریت کی بنا پر جب بھی کسی غلطی کا صدور ہوا اُس پر ٹوکا گیا۔ اُن کی بعض غلطیوں کی اصلاح حضورؐ نے کی جس کا ذکر احادیث میں بکثرت مقامات پر آیا ہے۔ اور بعض غلطیوں کا ذکر قرآن مجید میں کر کے اللہ تعالیٰ نے خود ان کی اصلاح کی تاکہ مسلمان کبھی بزرگوں کے احترام کا کوئی ایسا مبالغہ آمیز تصوّر نہ قائم کر لیں جو انہیں انسانیت کے مقام سے اٹھا کر دیویوں اور دیوتاؤں کے مقام پر پہنچا دے۔ آپ قرآن پاک کا مطالعہ آنکھیں کھول کر کریں تو اِس کی پے در پے مثالیں آپ کے سامنے آئیں گی۔ سُورۂ آلِ عمران میں جنگِ اُحُد کا ذکر کرتے ہوئے صحابۂ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’ اللہ نے (تائید و نصرت) کا جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ تو اُس نے پُورا کر دیا جبکہ اُس کے اذن سے تم اُن کو قتل کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا اور جو نہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مالِ غنیمت) تم حکم کی نافرمانی کر بیٹھے، تم میں سے کوئی دنیا کا طالب تھا اور کوئی آخرت کا طلب گار، تب اللہ نے تمہیں اُن کے مقابلہ میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ اور حق یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں معاف کر دیا، اللہ مومنوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے ‘‘ (آیت ۱۵۲)۔
سُورۂ نُور میں حضرت عائشہ پر تُہمت کا ذکر کرتے ہوئے صحابہ ؓ سے فرمایا گیا:
’’ ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم لوگوں نے اِسے سُنا تھا اُسی وقت مومن مرد اور عورتیں ، سب اپنے آپ سے نیک گمان کرتے اور کہ ہ دیتے کہ یہ تو صریح بہتا ن ہے ؟۔ ۔۔۔ اگر تم لوگوں پر دُنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آلیتا۔ ذرا غور کرو، جب تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اِس قصّے کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اِسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔ کیوں نہ اِسے سنتے ہی تم نے کہ ہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتانِ عظیم ہے ؟ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو ‘‘ (آیات ۱۲تا ۱۷)۔
سُورۂ اَحزاب میں ازواجِ مطہرات کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا:
’’ اَے نبی اپنی بیویوں سے کہو، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کی طلبگار ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکو کار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے ‘‘ (آیات ۲۸ تا ۲۹)۔
سُورۂ جُمعہ میں صحابہ ؓ کے متعلق فرمایا:
’’ جب انہوں نے کاروبارِ تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو اس کی طرف دوڑ گئے اور (اے نبی) تم کو(خطبے میں ) کھڑا چھوڑ دیا۔ اِن سے کہو کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے ‘‘ (آیت۱۱)۔
سُورۂ مُمتَحِنہ میں ایک بدری صحابی حضرت حاطِب ؓ بن ابی بَلْتَعَہ کے اِس فعل پر سخت گرفت کی گئی کہ انہوں نے فتح مکہ سے پہلے حضورؐ کے حملے کی خُفیہ اطلاع کفّارِ قریش کو بھیج دی تھی۔
یہ ساری مثالیں خود قرآن میں موجود ہیں، اُسی قرآن میں جس میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ اور ازواج مطہرات کے فضل و شرف کو خود بیان فرمایا ہے اور اُنہیں رضی اللہ عنہم و رَضُوا عَنہ کا پروانۂ خوشنودی عطافر مایا ہے۔ بزرگوں کے احترام کی یہی مبنی بر اعتدال تعلیم تھی جس نے مسلمانوں کو انسان پرستی کے اُس ھاوِیہ میں گرنے سے بچایا جس میں یہود و نصاریٰ گر گئے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ حدیث، تفسیر اور تاریخ کے موضوعات پر جن اکابرِ اہلِ سنّت نے کتابیں مرتّب کی ہیں ان میں جہاں صحابۂ کرام اور ازواجِ مطہرات اور دوسرے بزرگوں کے فضائل و کمالات بیان کیے گئے ہیں، ان کی کمزوریوں اور لغزشوں اور غلطیوں کے واقعات بیان کرنے میں بھی تامّل نہیں کیا گیا ہے، حالانکہ آج کے مدعیانِ احترام کی بہ نسبت وہ اِن بزرگوں کے زیادہ قدر شناس تھے اور اِن سے زیادہ حدودِ احترام کو جانتے تھے۔
پانچویں بات جو اس سُورہ میں کھول کر بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا دین بالکل بے لاگ ہے۔ اس میں ہر شخص کے لیے صرف وہی کچھ ہے جس کا وہ اپنے ایمان اور اعمال کے لحاظ سے مستحق ہو۔ کسی بڑی سے بڑی ہستی کے ساتھ نسبت بھی اس کے لیے قطعًا نافع نہیں ہے اور کسی بُری سے بُری ہستی کے ساتھ نسبت بھی اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس معاملہ میں خاص طور پر ازواجِ مطہرات کے سامنے تین قسم کی عورتوں کو بطورِ مثال پیش کیا گیا ہے۔ ایک مثال حضرت نوح ؑ ارو حضرت لُوط ؑ کی بیویوں کی ہے، جو اگر ایمان لاتیں اور اپنے جلیل القدر شوہروں کا ساتھ دیتیں تو ان کا مقام امّتِ مُسلِمہ میں وہی ہوتا جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواجِ مطہرات کا ہے۔ لیکن چونکہ انہوں نے اِس کے برعکس رویّہ اختیار کیا، اس لیے انبیاء کی بیویاں ہونا ان کے کچھ کام نہ آیا اور وہ جہنّم کی مستحق ہوئیں۔ دوسری مثال فرعون کی بیوی کی ہے۔ جو اگرچہ ایک بدترین دشمنِ خدا کی بیوی تھیں ، لیکن چونکہ وہ ایمان لے آئیں اور انہوں نے قومِ فرعون کے عمل سے اپنے عمل کا راستہ الگ کر لیا، اس لیے فرعون جیسے اکفر الکا فرین کی بیوی ہونا بھی اُن کے لیے کسی نقصان کا موجب نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت کا مستحق بنا دیا۔ تیسری مثال حضرت مریم علیہا السّلام کی ہے جنہیں یہ مرتبۂ عظیم اس لیے ملا کہ اللہ نے جس شدید آزمائش میں انہیں ڈالنے کا فیصلہ فرمایا تھا اس کے لیے انہوں نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ حضرت مریم ؑ کے سوا دنیا میں کسی شریف اور نیک لڑکی کو کبھی ایسی سخت آزمائش میں نہیں ڈالا گیا کہ کنوار پنے کی حالت میں اللہ کے حکم سے اس کو معجزے کے طور پر حاملہ کر دیا گیا ہو اور اُسے بتا دیا گیا ہو کہ اُس کا رب اُس سے کیا خدمت لینا چاہتا ہے۔ جب حضرت مریم ؑ نے اِس پر کوئی واویلا نہ کیا بلکہ ایک سچّی مومنہ کی حیثیت سے وہ سب کچھ برداشت کرنا قبول کر لیا جو اللہ کی مرضی پُوری کرنے کے لیے برداشت کرنا ناگزیر تھا، تب اللہ نے ان کو سیّدۃ النسَآ ء فی الجنۃ (مُسند احمد) کے مرتبہ ء عالی پر سرفراز فرمایا۔
اِن اُمور کے علاوہ ایک اور اہم حقیقت جو اِس سُورۃ سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس صرف وہی علم نہیں آتا تھا جو قرآن میں درج ہوا ہے، بلکہ آپؐ کو وحی کے ذریعہ سے دوسری باتوں کا علم بھی دیا جاتا تھا جو قرآن میں درج نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی صریح دلیل اِس سُورۃ کی آیت ۳ ہے۔ اُس میں بتایا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ازواجِ مطہرات میں سے ایک بیوی سے راز میں ایک بات کہی اور اُنہوں نے وہ کسی اور کو بتا دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مطلع کر دیا۔ پھر جب حضورؐ نے اِس غلطی پر اپنی اُن بیوی کو تنبیہ فرمائی، اور انہوں نے پوچھا کہ آپؐ کو میری یہ غلطی کس نے بتائی تو حضورؐ نے جواب دیا کہ مجھے علیم و خبیر ہستی نے اس کی خبر دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پُورے قرآن میں کہاں وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہو کہ’’ اَے نبی، تم نے اپنے بیوی سے راز میں جو بات کہی تھی وہ اُس نے کسی اور پر، یا فلاں شخص پر ظاہر کر دی ہے ‘‘ ؟ اگر ایسی کوئی آیت قرآن میں نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ نہیں ہے، تو یہ اِس بات کا صریح ثبوت ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔ اس سے منکرینِ حدیث کا یہ دعویٰ بالکل باطل ہو جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قرآن کے سوا اور کوئی وحی نہیں آتی تھی۔
1:یہ دراصل استفہام نہیں ہے بلکہ ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ یعنی مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ دریافت کرنا نہیں ہے کہ آپ ؐ نے یہ کام کیوں کیا ہے، بلکہ آپ ؐ کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے کا جو فعل آپ ؐ سے صادر ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے۔ اِس سے خودبخود یہ مضمون مترشح ہوتا ہے کہ اللہ نے جس چیز کو حلال کیا ہے اسے حرام کرنے کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہے، حتیٰ کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی یہ اختیار نہیں رکھتے۔ اگرچہ حضور ؐ نے اُس چیز کو نہ عقیدہ ٔ حرام سمجھا تھا اور نہ اُسے شرعًا حرام قرار دیا تھا، بلکہ صرف اپنی ذات پر اُس کے استعمال کو حرام کر لیا تھا، لیکن چونکہ آپ ؐ کی حیثیت ایک عام آدمی کی نہیں بلکہ اللہ کے رسُول کی تھی، اور آپ ؐ کے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے سے یہ خطرہ پیدا ہو سکتا تھا کہ امّت بھی اُس شے کو حرام یا کم از کم مکروہ سمجھنے لگے، یا امّت کے افراد یہ خیال کرنے لگیں کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کے اِس فعل پر گرفت فرمائی اور آپ ؐ کو اس تحریم سے باز رہنے کا حکم دیا۔
2:اس سے معلوم ہوا کہ حضور ؐ نے تحریم کا یہ فعل خود اپنی کسی خواہش کی بنا پر نہیں کیا تھا بلکہ آپ ؐ کی بیویوں نے یہ چاہا تھا کہ آپ ؐ ایسا کریں اور آپ ؐ نے محض اُن کو خوش کرنے کے لیے ایک حلال چیز اپنے لیے حرام کر لی تھی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تحریم کے اِسفعل پر ٹوکنے کے ساتھ اُس کی اِس وجہ کا ذکر خاص طور پر کیوں فرمایا؟ ظاہر ہے کہ اگر مقصودِ کلام صرف تحریمِ حلال سے آپ کو باز رکھنا ہوتا تو یہ مقصد پہلے فقرے سے پورا ہو جاتا تھا اور اس کی ضرورت نہ تھی کہ جس وجہ سے آپ نے یہ کام کیا تھا اُس کی بھی تصریح کی جاتی۔ اُس کو بطورِ خاص بیان کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقصد صرف حضور ؐ ہی کو تحریم حلال پر ٹوکنا نہیں تھا بلکہ ساتھ ساتھ ازواجِ مطہرات کو بھی اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ اُنہوں نے ازواجِ نبی ہونے کی حیثیت سے اپنی نازک ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا اور حضور ؐ سے ایک ایسا کام کرا دیا جس سے ایک حلال چیز کے حرام ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا۔اگرچہ قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ چیز کیا تھی جسے حضور ؐ نے اپنے اوپر حرام کیا تھا، لیکن محدثین و مفسرین نے اس سلسلے میں دو مختلف واقعات کا ذکر کیا ہے جو اِس آیت کے نزُول کاسبب بنے۔ ایک واقعہ حضرت ماریۂ قِبطیَہ ؓ کا ہے اور دوسرا واقعہ یہ کہ آپ نے شہدا ستعمال نہ کرنے کا عہد کر لیا تھا۔حضرت ماریہ ؓ کا قصہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے فارغ ہو نے کے بعد رسول اللہ علیہ و سلم نے جو خطوط اطراف و نواح کے بادشاہوں کو بھیجے تھے اُن میں سے ایک اسکندریہ کے رومی بطریق (Patriarch )کے نام بھی تھا جسے عرب مُقَو قِس کہتے تھے۔ حضرت حاطِب بن ابی بَلنَغہ نہ نامۂ گرامی لے کر جب اس کے پاس پہنچے تو اُس نے اسلام تو قبول نہ کیا، مگر اُن کے ساتھ اچھی طرح پیش آیا اور جواب میں لکھا کہ’’ مجھے یہ معلوم ہے کہ ایک نبی آنا ابھی باقی ہے، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ وہ شام میں نکلے گا۔ تاہم میں آپ کے ایلچی کے ساتھ احترام سے پیش آیا ہوں اور آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں بھیج رہا ہوں جو قبطیوں میں بڑا مرتبہ رکھتی ہیں ‘‘ (ابنِ سعد)۔ اُن لڑکیوں میں ایک سِیرِین تھیں اور دوسری ماریہ (عیسائی حضرت مریم کو ماریہ Mary کہتے ہیں )۔ مصر سے واپسیپر راستہ میں حضرت حاطب نے دونوں کے سامنے اسلام پیش کیا اور وہ ایمان لے آئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے سیرین کو حضرت حسان ؓ بن ثابت کی مِلک یمین میں دے دیا اور حضرت ماریہ کو اپنے حرم میں داخل فرمایا۔ ذی الحجہ سن ۸ ہجری میں انہی کے بطن سے حضور ؐ کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے (اَلاِ ستِیعاب۔ الاِ صابہ)۔ یہ خاتون نہایت خوبصورت تھیں۔ حافظ ابن حَجَر نے الاِصابہ میں ان کے متعلق حضرت عائشہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’ مجھے کسی عورت کا آنا اس قدر ناگوار نہ ہوا جتنا ماریہ کا آنا ہوا تھا، کیونکہ وہ حسین و جمیل تھیں اور حضور ؐ کو بہت پسند آئی تھیں۔ ‘‘ اِن کے بارے میں متعدد طریقوں سے جو قصّہ احادیث میں نقل ہوا ہے کہ وہ مختصراً یہ ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت حَفصہ کے مکان میں تشریف لے گئے اور وہ گھر پر موجود نہ تھیں۔ اُس وقت حضرت ماریہ آپ کے پاس وہاں آ گئیں اور تخلیہ میں آپ کے ساتھ رہیں۔ حضرت حفصہ کو یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے حضور ؐ سے اس کی سخت شکایت کی۔ اس پر آپ نے اُن کو راضی کر نے کے لیے اُن سے یہ عہد کر لیا کہ آئندہ ماریہ سے کوئی ازدواجی تعلق نہیں رکھیں گے۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ آپ نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا، اور بعض میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اِس پر قسم بھی کھائی تھی۔ یہ روایات زیادہ تر تابعین سے مُرسَلاً نقل ہوئی ہیں ، لیکن ان میں سے بعض حضرت عمر ؓ، حضرت عبداللہ ؓ بن عباس اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی مروی ہیں۔ ان کی کثرتِ طُرق کو دیکھتے ہوئے حافظ ابن حَجَر نے فتح الباری میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اِس قصّے کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔ مگر صحاح ستّہ میں سے کسیمیں بھی یہ قصّہ نقل نہیں کیا گیا ہے۔ نَسائی میں حضرت اَنَس سے صرف اتنی بات منقول ہوئی ہے کہ’’ حضور ؐ کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ تمتع فرماتے تھے۔ پھر حضرت حفصہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ آپؐ کے پیچھے پڑ گئیں یہاں تک کہ آپ ؐ نے اُسے اپنے اوپر حرام کر لیا۔ اِس پر یہ آیت نازل ہوئیکہ اَے نبی تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جسے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے ؟‘‘ دوسرا واقعہ بخاری، مسلم، ابو داؤد، نَسائی اور دوسری متعدد کتبِ حدیث میں خود حضرت عائشہ ؓ سے جس طرح نقل ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بالعموم ہر روز عصر کے بعد تمام ازواجِ مطہرات کے ہاں چکر لگاتے تھے۔ ایک موقع پر ایسا ہو ا کہ آپ حضرت زینب ؓبنتِ جَحش کے ہاں جا کر زیادہ دیر تک بیٹھنے لگے، کیونکہ ان کے ہاں کہیں سے شہد آیا ہوا تھا، اور حضور ؐ کو شیرینی بہت پسند تھی، اس لیے آپ ؐ ان کے ہاں شہد کا شربت نوش فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ مجھ کو اس پر رشک لاحق ہوا اور میں نے حضرت حَفصَہ ؓ، حضرت سَودہ ؓ اور حضرت صَفِیّہ ؓ سے مل کر یہ طے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی آپ آئیں وہ آپ سے کہے کہ آپ کے منہ سے مَغافِیر کی بُو آتی ہے۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہوتا ہے جس میں کچھ بِساند ہوتی ہے اور اگر شہد کی مکھی اس سے شہد حاصل کرے تو اس کے اندر بھی اس بساند کا اثر آ جاتا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ حضور ؐ نہایت نفاست پسند ہیں اور آپ ؐ کو اِس سے سخت نفرت ہے کہ آپ ؐ کے اندر کسی قسم کو بدبُو پائی جائے۔ اس لیے آپ کو حضرت زینب ؓ کے ہاں ٹھیرنے سے روکنے کی خاطر یہ تدبیر کی گئی اور یہ کار گر ہوئی۔ جب متعدد بیویوں نے آپ ؐ سے کہا کہ مُنہ سے مَغافیر کی بُو آتی ہے تو آپ ؐ نے عہد کر لیا کہ اب یہ شہد استعمال نہیں فرمائیں گے۔ ایک روایت میں آپ ؐ کے الفاظ یہ ہیں کہ فَلَنْ اَعُوْدَ لَہٗ وَقَدْ حَلَفْتُ ’’اب میں ہر گز اسے نہ پیوں گا، میں نے قسم کھا لی ہے۔ ‘‘ دوسری روایت میں صرف فلن اعود لہ کے الفاظ ہیں، و قد حلفت کا ذکر نہیں ہے۔ اور ابن عباس ؓ سے جو روایت ابن المُنذِر، ابن ابی حاتم، طَبَرانی اور ابن مَرْدُوْیَہ نے نقل کی ہے ا س میں یہ الفاظ ہیں کہ وَاللہِ لَا اشربُہ، ’’ خدا کی قسم میں اسے نہ پیوں گا۔‘‘ اکابر اہلِ علم نے اِن دونوں قصّوں میں سے اِسی دوسرے قصّے کو صحیح قرار دیا ہے اور پہلے قصّے کو ناقابلِ اعتبار ٹھیرایا ہے۔ امام نَسائی کہتے ہیں کہ ’’ شہد کے معاملہ میں حضرت عائشہ ؓ کی حدیث نہایت صحیح ہے، اور حضرت ماریہ ؓ کو حرام کر لینے کا قصّہ کسی عمدہ طریقہ سے نقل نہیں ہوا ہے۔ ‘‘ قاضی عِیاض کہتے ہیں ’’ صحیح یہ ہے کہ یہ آیت ماریہ ؓ کے معاملہ میں نہیں ہے بلکہ شہد کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے۔ ‘‘ قاضی ابوبکر ابن العربی بھی شہد ہی کے قصّے کو صحیح قرار دیتے ہیں، اور یہی رائے امام نَوَوِی اور حافظ بدر الدین عَینی کی ہے۔ ابن ہُمام فتح القدیر میں کہتے ہیں کہ ’’ شہد کی تحریم کا قصّہ صحیحین میں خود حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا تھا، اس لیے یہی زیادہ قابل اعتبار ہے۔ ‘‘ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں ’’ صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت شہد کو اپنے اوپر حرام کر لینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ‘‘
3:یعنی بیویوں کی خوشی کی خاطر ایک حلال چیز کو حرام کر لینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا ہے یہ اگرچہ آپ کے اہم ترین ذمّہ دارانہ منصب کے لحاظ سے مناسب نہ تھا، لیکن یہ کوئی گناہ بھی نہ تھا کہ اس پر مواخذہ کیا جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے صرف ٹوک کر اس کی اصلاح کر دینے پر اکتفا فرمایا اور آپ ؐ کی اِس لغزش کو معاف کر دیا۔
4:مطلب یہ ہے کہ کفارہ دے کر قَسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ مائدہ، آیت ۸۹ میں مقرر کر دیا ہے اس کے مطابق عمل کر کے آپ اُس عہد کو توڑ دیں جو آپ ؐ نے ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لیے کیا ہے۔ یہاں ایک اہم فقہی سوال پیدا ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ آیا یہ حکم اُس صورت کے لیے ہے کہ جبکہ آدمی نے قسم کھا کر حلال کر حرام کر لیا ہو، یا بجائے خود تحریم ہی قسم کی ہم معنی ہے خواہ قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہوں یا نہ کیے گئے ہوں ؟ اس سلسلے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ محض تحریم قسم نہیں ہے۔ اگر آدمی نے کسی چیز کو، خواہ وہ بیوی ہو یا کوئی دوسری حلال چیز، قسم کھائے بغیر اپنے اوپر حرام کر لیا ہو تو یہ ایک لغو بات ہے جس سے کوئی کفارہ لازم نہیں آتا، بلکہ آدمی کفارے کے بغیر ہی وہ چیز استعمال کر سکتا ہے جسے اُس نے حرام کیا ہے۔ یہ رائے مسْرُوق، شَعْبی، رَبِیعَہ اور ابو سَلَمَہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر اور تمام ظاہریّوں نے اختیار کیا ہے۔ ان کے نزدیک تحریم صرف اُس صورت میں قَسم ہے جب کہ کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرتے ہوئے قسم کے الفاظ استعمال کیے جائیں ۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ علیہ و سلم نے چونکہ حلال چیز کو اپنے لیے حرام کر نے کے ساتھ قسم بھی کھائی تھی، جیسا کہ متعدد روایات میں بیا ن ہوا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضور ؐ سے فرمایا کہ ہم نے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ مقرر کر دیا ہے اس پر عمل کریں ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ قسم کے الفاظ استعمال کیے بغیر کسی چیز کو حرام کر لینا بجائے خود قسمتو نہیں ہے، مگر بیوی کا معاملہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ دوسری اشیاء، مثلاً کسی کپڑے یا کھانے کو آدمی نے اپنے اوپر حرام کر لیا ہو تو یہ لغو ہے، کوئی کفّارہ دیے بغیر آدمی اس کو استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن اگر بیوی یا لونڈی کے لیے اس نے کہا ہو کہ اُس سے مباشرت میرے اوپر حرام ہے تو وہ حرام تو نہ ہو گی، مگر اس کے پاس جانے سے پہلے کفّارۂ یَمین لازم آئے گا۔ یہ رائے شافعیہ کی ہے (مُغْنِی المحتاج)۔ اور اسی سے ملتی جلتی رائے مالکیہ کی بھی ہے (احکام القرآن لابن العربی)۔تیسرا گروہ کہتا ہے کہ تحریم بجائے خود قسم ہے خواہ قَسم کے الفاظ استعمال نہ کیے گئے ہوں ۔ یہ رائے حضرت ابوبکر صدیق ؓ، حضرت عائشہ ؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی ہے۔ اگرچہ ابن عباس سے ایک دوسری رائے بخاری میں نقل ہوئی ہے کہ اذا حرّم امر ا ٔ تَہ فلیس بشی ءٍ (اگر آدمی نے اپنی بیوی کو حرام کیا ہو تو یہ کچھ نہیں ہے )، مگر اس کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ اُن کے نزدیک یہ طلاق نہیں بلکہ قسم ہے اور اس پر کفارہ ہے، کیونکہ بخاری، مسلم، اور ابن ماجہ میں ابن عباس کا یہ قول نقل ہو ا ہے کہ حرام قرار دینے کی صورت میں کفّارہ ہے، اور نَسائی میں روایت ہے کہ ابن عباس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ’’ وہ تیرے اوپر حرام تو نہیں ہے مگر تجھ پر کفّارہ لازم ہے ‘‘، اور ابن جَرِیر کی روایت میں ابن عباس کے الفاظ یہ ہیں : ’’ اگر لوگوں نے اپنے اوپر کسی چیز کو حرام کیا ہو جسے اللہ نے حلال کیا ہے تو ان پر لازم ہے کہ اپنے قَسَموں کا کفارہ ادا کریں ۔ ‘‘ یہی رائے حسن بصری، عطاء، طاؤس، سلیمان بن یَسار، ابن جُبَیر اور قَتَادہ کی ہے، اور اسی رائے کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے۔ امام ابوبکر جَصّاص کہتے ہیں کہ’’ آیت لِمَتُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللہ لَکَ کے ظاہر الفاظ اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ رسول اللہ علیہو سلم نے تحریم کے ساتھ قَسم بھی کھائی تھی، اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ تحریم ہی قسم ہے، کیونکہاس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اِسی تحریم کے معاملہ میں قسم کا کفارہ واجب فرمایا۔‘‘ آگے چل کر پھر کہتے ہیں ’’ ہمارے اصحاب (یعنی حنفیہ) نے تحریم کو اُس صورت میں قسم قرار دیا ہے کہ جبکہ اس کے ساتھ طلاق کی نیت نہ ہو۔ اگر کسی شخص نے بیوی کر حرام کہا تو گویا اس نے یہ کہا کہ خدا کی قسممیں تیرے قریب نہیں آؤں گا، اس لیے وہ اِیلاء کا مرتکب ہوا۔ اور اگر اس نے کسی کھانے پینے کی چیز وغیرہ کو اپنے لیے حرام قرار دیا تو گویا اس نے یہ کہا کہ خدا کی قسم میں وہ چیزاستعمال نہ کروں گا۔ ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ فرمایا کہ’’ آپ اُس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے ‘‘ ، اور پھر فرمایا کہ’’ اللہ نے تم لوگوں کے لیے قَسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے ‘‘۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ نے تحریم کو قسم قرار دیا اور تحریم کا لفظ اپنے مفہوم اور حکمِ شرعی میں قَسم کا ہم معنی ہو گیا۔اِس مقام پر فائدۂ عام کے لیے یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہو تا ہے کہ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے، اور بیوی کے سوا دوسری چیزوں کو حرام کر لینے کے معاملہ میں فقہا کے نزدیک شرعی حکم کیا ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر طلاق کی نیّت کے بغیر کسی شخص نے بیوی کو اپنے لیے حرام کیا ہو، یاقسم کھائی ہو کہ اس سے مُقاربت نہ کرے گا، تو یہ ایلاء ہے اور اس صورت میں مقاربت سے پہلے اسے قسم کا کفارہ دینا ہو گا۔ لیکن اگر اس نے طلاق کی نیت سے یہ کہا ہو کہ تو میرے اوپر حرام ہے تو معلوم کیا جائے گا کہ اس کی نیت کیا تھی۔ اگر تین طلاق کی نیت تھی تو تین واقع ہوں گی اور اگراس سے کم کی نیت تھی، خواہ ایک کی نیت ہو یا دو کی، تو دونوں صورتوں میں ایک ہی طلاق وارد ہو گی۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ جو کچھ میرے لیے حلال تھا وہ حرام ہو گیا، تو اس کا اِطلاق بیوی پر اُس وقت تک نہ ہو گا جب تک اُس نے بیوی کو حرام کرنے کی نیت سے یہ الفاظ نہ کہے ہوں ۔ بیوی کے سوا دوسری کسی چیز کو حرام کرنے کی صورت میں آدمی اُس وقت تک وہ چیز استعمال نہیں کر سکتاجب تک قَسَم کا کفّارہ ادا نہ کر دے (بدائع الصَّنائِع، ہدایہ، فتح القدیر، احکام القرآن للجصّاص)۔شافعیہ کہتے ہیں کہ بیوی کو اگر طلاق یا ظِہار کی نیت سے حرام کیا جائے تو جس چیز کی نیت ہو گی وہ واقع ہو جائے گی۔ رجعی طلاق کی نیت ہو تو رجعی، بائن کی نیت ہو تو بائن، اور ظہار کی نیت ہو تو ظہار۔ اور اگر کسی نے طلاق و ظہار دونوں کی نیت سے تحریم کے الفاظ استعال کیے ہوں تو اُس سے کہا جائے گا کہ دونوں میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کر لے۔ کیونکہ طلاق و ظہار، دونوں بیک وقت ثابت نہیں ہو سکتے۔ طلاق سے نکاح زائل ہوتا ہے، اور ظہار کی صورت میں وہ باقی رہتا ہے۔ اور اگر کسی نیت کے بغیر مطلقًا بیوی کو حرام قرار دیا گیا ہو تو وہ حرام نہ ہو گی مگر قَسم کا کفّارہ لازم آئے گا۔ اور اگر بیوی کے سوا کسی اور چیز کو حرام قرار دیا ہو تو یہ لغو ہے، اسپر کوئی کفّارہ نہیں ہے (مُغْنِی المحتاج)۔مالکیہ کہتے ہیں کہ بیوی کے سوا دوسری کسی چیز کو آدمی اپنے اوپر حرام کرے تو نہ وہ حرام ہوتی ہے اور نہ اسے استعمال کرنے سے پہلے کوئی کفارہ لازم آتا ہے۔ لیکن اگر بیوی کو کہہ دے کہ تو حرام ہے، یا میرے لیے حرام ہے، یا میں تیرے لیے حرام ہوں ، تو خواہ مدخولہ سے یہ بات کہے یا غیر مدخولہ سے، ہر صورت میں یہ تین طلاق ہیں ، الّا یہ ہے کہ اس نے تین سے کم کی نیت کی ہو۔اَصْبَغ کا قول ہے کہ اگر کوئی یوں کہے کہ جو کچھ مجھ پر حلال تھا وہ حرام ہے تو جب تک وہ بیوی کو مستثنیٰ نہ کرے، اس سے بیوی کو تحریم بھی لازم آ جائے گی۔ المُدوَّ نہ میں مدخولہ اور غیر مدخولہ کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ مدخولہ کو حرام کہہ دینے سے تین ہی طلاقیں پڑیں گی، خواہ نیت کچھ بھی ہو، لیکن غیر مدخولہ کے معاملہ میں اگر نیت کم کی ہو تو جتنی طلاقوں کی نیت کی گئی ہے اُتنی ہی پڑیں گی، اور کسی خاص تعداد کی نیت نہ ہو تو پھر یہ تین طلاقیں ہوں گی( حاشیۃ الدُّسُوقی)۔ قاضی ابن العربی نے احکام القرآن میں اس مسئلے کے متعلق امام مالک ؒ کے تین قول نقل کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم ایک طلاقِ بائن ہے ۔ دوسرا یہ کہ یہ تین طلاق ہیں ۔ تیسرا یہ کہ مدخولہ کے معاملہ میں تو یہ بہر حال تین طلاقیں ہیں البتہ غیر مدخولہ کے معاملہ میں ایک کی نیت ہو تو ایک ہی طلاق پڑے گی۔ پھر کہتے ہیں کہ’’ صحیح یہ ہے کہ بیوی کی تحریم ایک ہی طلاق ہے کیونکہ اگر آدمی حرام کہنے کے بجائے طلاق کا لفظ استعمال کرے اور کسی تعداد کا تعیّن نہ کرے تو ایک ہی طلاق واقع ہو گی۔‘‘ امام احمد بن حنبل ؒ سے اس مسئلے میں تین مختلف اقوال منقول ہوئے ہیں ۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم، یا حلال کو مطلقًا اپنے لیے حرام قرار دینا ظہار ہے خواہ ظِہار کی نیت ہو یا نہ ہو۔دوسرا یہ کہ یہ طلاق کا صریح کنایہ ہے اور اس سے تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں خواہ نیت ایک ہی کی ہو۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ یہ قَسَم ہے، الّا یہ کہ آدمی نے طلاق یا ظہار میں سے کسی کی نیت کی ہو، اور اِس صورت میں جو نیت بھی کی گئی ہو وہی واقع ہو گی۔ ان میں سے پہلا قول ہی مذہبِ حنبلی میں مشہور ترین ہے (الانصاف)۔
5:یعنی اللہ تمہارا آقا اور تمہارے معاملات کا متولّی ہے۔ وہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ تمہاری بھلائی کس چیز میں ہے اور جو احکام بھی اُس نے دیے ہیں سراسر حکمت کی بنا پر دیے ہیں ۔ پہلی بات ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ تم خود مختار نہیں ہو بلکہ اللہ کے بندے ہو اور وہ تمہارا آقا ہے، اس لیے اس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں میں ردّ و بدل کرنے کا اختیار تم میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ تمہارے لیے حق یہی ہے کہ اپنے معاملات اس کے حوالے کر کے بس اُ س کی اطاعت کرتے رہو۔ دوسری بات ارشاد فرمانے سے یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ نے جو طریقے اور قوانین مقرر کیے ہیں وہ سب علم و حکمت پر مبنی ہیں ۔ جس چیز کو حلال کیا ہے علم و حکمت کی بنا پر حلال کیا ہے اور جسے حرام قرار دیا ہے اسے بھی علم و حکمت کی بنا پر حرام قرار دیا ہے۔ یہ کوئی اَلل ٹپ کام نہیں ہے کہ جسے چاہا حلال کر دیا اور جسے چاہا حرام ٹھیرا دیا۔ لہٰذا جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ علیم و حکیم ہم نہیں ہیں بلکہ اللہ ہے اور ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم اس کے دیے ہوئے احکام کی پیروی کریں ۔
6:مختلف روایات میں مختلف باتوں کے متعلق یہ بیان کیا گیا ہے کہ فلاں بات تھی جو حضور ؐ نے اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی اور اُن کی بیوی نے ایک دوسری بیویسے اس کا ذکر کر دیا۔ لیکن ہمارے نزدیک اوّل تو اُس کا کھوج لگانا صحیح نہیں ہے، کیونکہ راز کے افشا کرنے پر ہی تو اللہ تعالیٰ یہاں ایک بیوی کو ٹوک رہا ہے، پھر ہمارے لیے کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ ہم اُس کی ٹٹول کریں اور اسے کھولنے کی فکر میں لگ جائیں ۔ دوسرے، جس مقصد کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے اس کے لحاظ سے یہ سوال سرے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ راز کی بات تھی کیا۔ مقصودِ کلام سے اِس کا کوئی تعلق ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے خود بیان فرما دیتا۔ اصل غرض جس کے لیے اِس معاملے کو قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے، ازواجِ مطہرات میں سے ایک کو اس غلطی پر ٹوکنا ہے کہ اُن کے عظیم المرتبہ شوہر نے جو بات راز میں اُن سے فرمائی تھی اُسے انہوں نے راز نہ رکھا اور اس کا اِفشا کر دیا۔ یہ محض ایک نجی معاملہ ہوتا، جیسادنیا کے عام میاں اور بیوی کے درمیان ہوا کرتا ہے، تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست وحی کے ذریعہ سے حضور ؐ کو اس کی خبر دیتا اور پھر محض خبر دینے ہی پر اکتفا نہ کرتا بلکہ اسے اپنی اُس کتاب میں بھی درج کر دیتا جسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ساری دنیا کو پڑھنا ہے۔ لیکن اسے یہ اہمیت جس وجہ سے دی گئی وہ یہ تھی کہ وہ بیوی کسی معمولی شوہر کی نہ تھیں بلکہ اُس عظیم ہستی کی بیوی تھیں جسے اللہ تعالیٰ نے انتہائی اہم ذمہ داری کے منصب پر مامور فرمایا تھا، جسے ہر وقت کفار و مشرکین اور منافقین کے ساتھ ایک مسلسل جہاد سے سابقہ درپیش تھا، جس کی قیادت میں کفر کی جگہ اسلام کا نظام برپا کرنے کے لیے ایک زبردست جدوجہد ہو رہی تھی۔ایسی ہستی کے گھر میں بے شمار ایسی باتیں ہو سکتی تھیں جو اگر راز نہ رہتیں اور قبل از وقت ظاہر ہو جاتیں تو اُس کارِ عظیم کو نقصان پہنچ سکتا تھا جو وہ ہستیانجام دے رہی تھی۔ اس لیے جب اُس گھر کی ایک خاتون سے پہلی مرتبہ یہ کمزوری صادر ہوئی کہ اُس نے ایک ایسی بات کو جو راز میں اُس سے کہی گئی تھی کسی اور پر ظاہر کر دیا(اگرچہ وہ کوئی غیر نہ تھا بلکہ اپنے ہی گھر کا ایک فرد تھا) تو اس پر فوراً ٹوک دیا گیا، اور درپردہ نہیں بلکہ قرآن مجید میں برملا ٹوکا گیا تاکہ نہ صرف ازواجِ مطہرات کو بلکہ مسلم معاشرے کے تمام ذمہ دار لوگوں کی بیویوں کو رازوں کی حفاظت کی تربیت دے جائے۔ آیت میں اس سوال کو قطعی نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ جِس راز کی بات کو اِفشا کیا گیا تھا وہ کوئی خاص اہمیت رکھتی تھی یا نہیں ، او راِس کے اِفشا سے کسی نقصان کا خطرہ تھا یا نہیں ۔ گرفت بجائے خود اس امر پر کی گئی ہے کہ راز کی بات کو دوسرے سے بیان کر دیا گیا۔ اس لیے کہ کسی ذمہ دار ہستی کے گھر والوں میں اگر یہ کمزوری موجود ہو کہ وہ رازوں کی حفاظت میں تساہل برتیں تو آج ایک غیر اہم راز افشا ہوا ہے، کل کوئی اہم راز افشا ہو سکتا ہے۔ جس شخص کا منصب معاشرے میں جتنا زیادہ ذمہ دارانہ ہو گا اُتنے ہی زیادہ اہم اور نازک معاملات اس کے گھر والوں کے علم میں آئیں گے، اُن کے ذریعہ سے راز کی باتیں دوسروں تک پہنچ جائیں تو کسی وقت بھی یہ کمزوری کسی بڑے خطرے کی موجب بن سکتی ہے۔
7:اصل میں الفاظ ہیں فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا۔ صَغْو عربی زبان میں مُڑ جانے اور ٹیڑھا ہو جانے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اِس فقرے کا ترجمہ کیا ہے : ’’ ہر آئینہ کج شدہ است دِل شما۔‘‘ اور شاہ رفیع الدین صاحب کا ترجمہ ہے ’’ کج ہو گئے ہیں دل تمہارے۔ ‘‘ حضرات عبد اللہ ؓ بن مسعود ؓ، عبداللہ ؓ بن عباس ؓ، سُفیان ثوری ؒ اور ضحاک ؒ نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے زَاغَتْ قُلُوْ بُکُمَا، یعنی’’ تمہارے دل راہِ راست سے ہٹ گئے ہیں ۔ ‘‘ امام رازی ؒ اس کی تشریح میں کہتے ہیں ’’ عدلت و مالت عن الحق وھو حق الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، ’’ حق سے ہٹ گئے ہیں ، اور حق سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حق ہے۔ ‘‘ اور علامۂ آلوسی ؒ کی تشریح یہ ہے : مالت عن الواجب من موافقتہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بِحُبِّ ما یحبہ وکراھۃ ما یَلر ھہ الیٰ مخالفتہٖ یعنی’’ تم پر واجب تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو کچھ پسند کریں اسے پسند کرنے میں اور جو کچھ آپ ؐ ناپسند کریں اسے ناپسند کرنے میں آپ ؐ کی موافقت کرو۔ مگر تمہارے دل اِس معاملہ میں آپ کی موافقتسے ہٹ کر آپ کی مخالفت کی طرف مڑ گئے ہیں ۔ ‘‘
8:اصل الفاظ ہیں وَاِنْ تَظَاھَرَ ا عَلَیْہِ تَظَا ھُر کے معنی ہیں کسی کے مقابلہ میں باہم تعاون کرنا یا کسی کے خلاف ایکا کرنا۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس فقرے کا ترجمہ کیا ہے : ’’ اگر باہم متفقشوید بر رنجا نیدنِ پیغمبر۔‘‘ شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ ہے : ’’ اگر تم دونوں چڑھائی کرو گے اُس پر۔‘‘ مولانا اشرف علی صاحب کا ترجمہ ہے :’’ اور اگر اسی طرح پیغمبر کے مقابلے میں تم دونوں کاروائیاں کرتی رہیں ۔ ‘‘ اور مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے اِس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ اگر تم دونوں اِسی طرح کی کارروائیاں اور مظاہرے کرتی رہیں ۔ ‘‘ آیت کا خطاب صاف طور پر دو خواتین کی طرف ہے، اور سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواتین رسول اللہ علیہ و سلم کی ازواجِ مطہرات میں سے ہیں ، کیونکہ اِس سورے کی پہلی آیت سے پانچویں آیت تک مسلسل حضور ؐ کی ازواج کے معاملات ہی زیر بحث آئے ہیں ۔ اس حد تک تو بات خود قرآن مجید کے اندازِ بیان سے ظاہر ہو رہی ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ دونوں بیویاں کون تھیں ، اور وہ معاملہ کیا تھا جس پر یہ عتاب ہوا ہے، اِس کی تفصیل ہمیں حدیث میں ملتی ہے۔ مُسند احمد، بخاری، مُسلم، تِرمِذی اور نَسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس کی ایک مفصّل روایت نقل ہوئی ہے جس میں کچھ لفظی اختلافات کے ساتھ یہ قصّہ بیان کیا گیا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ میں ایک مدت سے اِس فکر میں تھا کہ حضرت عمر ؓ سے پوچھوں کہ رسول اللہ علیہ و سلم کی بیویوں میں سے وہ کون سی دو بیویاں تھیں جنہوں نے حضور ؐ کے مقابلہ میں جتھہ بندی کر لی تھی اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ارشاد فرمائی ہے کہ اِنْ تَتُوْبَا اِلَی اللہ فَقَدْ صَغَتْقُلُوْبُکُمَا۔ لیکن اُن کی ہیبت کی وجہ سے میری ہمت نہ پڑتی تھی۔ آخر ایک مرتبہ وہ حج کے لیے تشریف لے گئے اور میں اُن کے ساتھ گیا۔ واپسی پر راستہ میں ایک جگہ اُن کو وضو کراتے ہوئے مجھے موقع مل گیا اور میں نے یہ سوال پوچھ لیا۔ انہوں نے جواب دیا وہ عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ تھیں ۔ پھر انہوں نے بیان کرنا شروع کیا کہ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں کو دبا کر رکھنے کے عادی تھے۔ جب ہم مدینہ آئے تو ہمیں یہاں ایسے لوگ ملے جن پر اُن کی بیویاں حاوی تھیں ، اور یہی سبق ہماری عورتیں بھی اُن سے سیکھنے لگیں ۔ ایک روز میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے رہی ہے ( اصل الفاظ ہیں فَاِذَا ھِیَ تُرَاجِعُنِیْ)۔ مجھے یہ بہت ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے۔ اس نے کہا آپ اس بات پر کیوں بگڑتے ہیں کہ میں آپ کو پلٹ کر جواب دوں ؟ خدا کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیویاں حضور ؐ کو دُوبدو جواب دیتی ہیں (اصل لفظ ہے لِیُرا جِعْنَہٗ) اور ان میں سے کوئی حضور ؐ سے دن دن بھر روٹھی رہتی ہے (بخاری کی روایت میں ہے کہ حضور ؐ اس سے دن بھر ناراض رہتے ہیں )۔ یہ سُن کر میں گھر سے نکلا اور حَفصہؓ کے ہاں گیا ( جو حضرت عمر ؓ کی بیٹی اور حضور ؐ کی بیوی تھیں )۔ میں نے اُس سے پوچھا کیا تُورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دو بدو جواب دیتی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ۔ میں نے پوچھا اور کیا تم میں سے کوئی دن دن بھر حضور ؐ سے روٹھی رہتی ہے ؟ (بخاری کی روایت میں ہے کہ حضور ؐ دن بھر اس سے ناراض رہتے ہیں )۔ اس نے کہا ہاں ۔ میں نے کہا نا مراد ہو گئی اور گھاٹے میں پڑ گئی وہ عورت جوتم میں سے ایسا کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات سے بے خوف ہو گئی ہے کہ اپنے رسول ؐ کے غضب کی وجہ سے اللہ اس پر غضبناک ہو جائے اور وہ ہلاکت میں پڑ جائے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کبھی زبان درازی نہ کر( یہاں بھی وہی الفاظ ہیں لَا تُراجِعِیْ) اور نہ اُن سے کسی چیز کا مطالبہ کر، میرے مال سے تیرا جو جی چاہے مانگ لیا کر۔ تُو اس بات سے کسی دھوکے میں نہ پڑ کہ تیری پڑوسن (مراد ہیں حضرت عائشہ ؓ ) تجھ سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو زیادہ محبوب ہے۔ اِ س کے بعد میں وہاں سے نکل اُمِّ سَلَمہ ؓ کے پاس پہنچا جو میری رشتہ دار تھیں ، اور مَیں نے اِس معاملہ میں ان سے بات کی۔ انہوں نے کہا، ابن خطاب تم بھی عجیب آدمی ہو۔ ہر معاملہ میں تم نے دخل دیا یہاں تک کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کی بیویوں کے معاملے میں بھی دخل دینے چلے ہو۔ اُن کی اس بات نے میری ہمت توڑ دی۔ پھر ایسا ہوا کہ میرا ایک انصاری پڑوسی رات کے قریب میرے گھر آیا اور اس نے مجھے پکارا۔ ہم دونوں باری باری رسولاللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے اور جو بات کسی کی باری کے دن ہوتی تھی وہ دوسرے کو بتا دیا کر تا تھا۔ زمانہ وہ تھا جب ہمیں غَسّان کے حملے کا خطرہ لگا ہوا تھا۔ اُس کے پکارنے پر جب میں نکلا تو اُس نے کہا ایک بڑا حادثہ پیش آ گیا ہے۔ میں نے کہا کیا غَسّانی چڑھ آئے ہیں ؟ اس نے کہا نہیں ، اس سے بھی زیادہ بڑا معاملہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے کہا کہ برباد ہوئی اور نا مراد ہو گئی حفصہ، (بخاری کے الفاظ ہیں رَغِمَ اَنْفُ حَفصَۃ و عَا ئِشَۃ) مجھے پہلے ہی اندیشہ تھا کہ یہ ہونے والی بات ہے۔ ‘‘ اس کے آگے کا قصہ ہم نے چھوڑ دیا ہے جس میں حضرت عمر ؓ نے بتایا ہے کہ دوسرے روز صبح حضور ؐ کی خدمت میں جا کر انہوں نے کس طرح حضور ؐ کا غصّہ ٹھنڈا کر نے کی کوشش کی۔ اس قصّے کو ہم نے مسنداحمد اور بخاری کی روایات جمع کر کے مُرتب کیا ہے۔ اس میں حضرت عمر ؓ نے مُراجَعَت کا لفظ استعمال کیا ہے اُسے لُغوی معنی میں نہیں لیا جا سکتا بلکہ سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ یہ لفظ دُوبدُو جواب دینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور حضرت عمر ؓ کا اپنی بیٹی سے یہ کہنا کہ لا تراجعنی رسُول اللہ صاف طور پر اس معنی میں ہے کہ حضور ؐ سے زبان درازی نہ کیا کر۔ اس ترجمے کو بعض لوگ غلط کہتے ہیں اور ان کا اعتراض یہ ہے کہ مراجعت کا ترجمہ پلٹ کر جواب دینا، یا دوبدو جواب دینا تو صحیح ہے، مگر اس کا ترجمہ’’ زبان درازی‘‘ صحیح نہیں ہے۔ لیکن یہ معترض حضرات اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اگر کم مرتبے کا آدمی اپنے سے بڑے مرتبے کے آدمی کو پلٹ کر جواب دے، یا دو بدو جواب دے تو اسی کا نام زبان درازی ہے۔ مثلاً باپ اگر بیٹے کو کسی بات پر ڈانٹے یا اس کے کسی فعل پر ناراضی کا اظہار کرے اور بیٹا اس پر ادب سے خاموش رہنے یا معذرت کرنے کے بجائے پلٹ کر جواب دینے پر اتر آئے تو اس کو زبان درازی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پھر جب یہ معاملہ باپ اور بیٹے کے درمیان نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور امت کے کسی فرد کے درمیان ہو تو صرف ایک غبی آدمی ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا نام زبان درازی نہیں ہے۔ بعض دوسرے لوگ ہمارے اس ترجمے کو سُوء ادب قرار دیتے ہیں ، حالانکہ یہ سُوءِ ادب اگر ہو سکتا تھا تو اُس صورت میں جبکہ ہم اپنی طرف سے اِس طرح کے الفاظ حضرت حفصہ ؓ کے متعلق استعمال کرنے کی جسارت کرتے۔ ہم نے تو حضرت عمر ؓ کے الفاظ کا صحیح مفہوم ادا کیا ہے، اور یہ الفاظ انہوں نے اپنی بیٹی کو اُس کے قصور پر سرزنش کرتے ہوئے استعمال کیے ہیں ۔ اِسے سُوءِ ادب کہنے کے معنی یہ ہیں کہ یا تو باپ اپنی بیٹی کو ڈانٹتے ہوئے بھی ادب سے بات کرے، یا پھر اس ڈانٹ کا ترجمہ کرنے والا اپنی طرف سے اس کو با ادب کلام بنا دے۔ اس مقام پر سوچنے کے قابل بات دراصل یہ ہے کہ اگر معاملہ صرف ایسا ہی ہلکا اور معمولی سا تھا کہ حضور ؐ کبھی اپنی بیویوں کو کچھ کہتے تھے اور وہ پلٹ کر جواب دیا کرتی تھیں ، تو آخر اس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے براہِ راست خود اِن ازواجِ مطہرات کو شدّت کے ساتھ تنبیہ فرمائی؟ اور حضرت عمر ؓ نے اس معاملہ کو کیوں اتنا سخت سمجھا کہ پہلے بیٹی کو ڈانٹا اور پھر ازواجِ مطہرات میں سے ایک ایک کے گھر جا کر ان کو اللہ کے غضب سے ڈرایا؟ اورسب سے زیادہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا آپ کے خیال میں ایسے ہی زور رنج تھے کہ ذرا ذرا سی باتوں پر بیویوں سے ناراض ہو جاتے تھے اور کیا معاذ اللہ آپ کے نزدیک حضور ؐ کی تنک مزاجی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ ایسی ہی باتوں پر ناراض ہو کر آپ ؐ ایک دفعہ سب بیویوں سے مقاطعہ کر کے اپنے حجرے میں عزلت گزیں ہو گئے تھے ؟ ان سوالات پر اگر کوئی شخص غور کرے تو اسے لامحالہ ان آیات کی تفسیر میں دو ہی راستوں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑے گا۔ یا تو اسے ازواج مطہرات کے احترام کی اتنی فکر لاحق ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ؐ پر حرف آ جانے کی پروا نہ کرے۔ یا پھر سیدھی طرح یہ مان لے کہ اُس زمانہ میں اِن ازواجِ مطہرات کا رویّہ فی الواقع ایساہی قابل اعتراض ہو گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر ناراض ہو جانے میں حق بجانب تھے اور حضور سے بڑھ کر خود اللہ تعالیٰ اس بات میں حق بجانب تھا کہ اِن ازواج کو اس رویّہ پر شدّت سے تنبیہ فرمائے۔
9:مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مقابلہ میں جتھہ بندی کر کے تم اپنا ہی نقصان کرو گی، کیونکہ جس کا مولیٰ اللہ ہے اور جبریل اور ملائکہ اور تمام صالح اہلِ ایمان جس کے ساتھ ہیں اُس کے مقابلہ میں جتّھہ بندی کر کے کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
10:اس سے معلوم ہوا کہ قصُور صرف حضرت عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ ہی کا نہ تھا، بلکہ دوسری ازواجِ مطہرات بھی کچھ نہ کچھ قصور وار تھیں ، اسی لیے اُن دونوں کے بعد اِس آیت میں باقی سب ازواج کو بھی تنبیہ فرمائی گئی۔ قرآن مجید میں اس قصور کی نوعیت پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی ہے، البتہ احادیث میں اس کے متعلق کچھ تفصیلات آئی ہیں ۔ اُن کو ہم یہاں نقل کیے دیتے ہیں ۔ بخاری میں حضرت اَنس ؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا’’ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیویوں نے آپس کے رشک و رقابت میں مِل جُل کر حضور ؐ کو تنگ کر دیا تھا (اصل الفاظ میں اجتمعنساء النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فی الغیرۃ علیہ)۔ اس پر میں نے اُن سے کہا کہ ’’ بعید نہیں اگر حضور تم کو طلاق دے دیں تو اللہ تم سے بہتر بیویاں آپ ؐ کو عطا فرما دے۔ ‘‘ ابن ابی حاتم نے حضرت اَنس ؓ کے حوالہ سے حضرت عمر ؓ کا بیان ان الفاظ میں نقل کیا ہے : ’’ مجھے خبر پہنچی کہ امہات المومنین اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان کچھ ناچاقی ہو گئی ہے۔ اس پر میں ان میں سے ایک ایک کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ علیہ و سلم کو تنگ کرنے سے باز آ جاؤ ورنہ اللہ تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں حضور ؐ کو عطا فرما دے گا۔ یہاں تک کہ جب میں امہات المومنین میں سے آخری کے پاس گیا (اور بخاری کی ایک روایت کے بموجب حضرت اُمِّ سَلَمہ ؓ تھیں )تو انہوں نے مجھے جو اب دیا اَے عمر، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عورتوں کی نصیحت کے لیے کافی نہیں ہیں کہ تم انہیں نصیحت کرنے چلے ہو؟ اس پر میں خاموش ہو گیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔مسلم میں حضرت عبداللہ ؓ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ان سے بیان کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیویوں سے علیٰحدگی اختیار فرما لی تو میں مسجد نبوی میں پہنچا۔دیکھا کہ لوگ متفکر بیٹھے ہوئے کنکریاں اٹھا اٹھا کر گرا رہے ہیں اور آپس میں کہہ رہے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے حضرت عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ کے ہاں اپنے جانے اور ان کو نصیحت کرنے کا ذکر کیا، پھر فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا ’’ بیویوں کے معاملہ میں آپ ؐ کیوں پریشان ہوتے ہیں ؟ اگر آپ ان کو طلاق دے دیں تو اللہ آپ ؐ کے ساتھ ہے، سارے ملائکہ اور جبریل و میکائیل آپ ؐ کے ساتھ ہیں اور مَیں اور ابوبکر اور سب اہلِ ایمان آپ ؐ کے ساتھہیں ۔ ‘‘ میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ کم ہی ایسا ہوا ہے کہ مَیں نے کوئی بات کہی ہو اور اللہ سے یہ امید نہ رکھی ہو کہ وہ میرے قول کی تصدیق فر مادے گا، چنانچہ اس کے بعد سورۂ تحریم کی یہ آیات نازل ہو گئیں ۔ پھر میں نے حضور ؐ سے پوچھا کہ آپ ؐ نے بیویوں کو طلا ق دے دی ہے ؟حضور ؐ نے فرمایا نہیں ۔ اس پر میں نے مسجد نبوی کے دروازے پر کھڑے ہو کر بآوازِ بلند اعلان کیا کہ حضور ؐ نے اپنی بیویوں کو طلا ق نہیں دی ہے۔ بخاری میں حضرت انس ؓ اور مُسند احمد میں حضرت عبداللہ ؓ بن عباس، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ روایات منقول ہوئی ہیں کہ حضور ؐ نے ایک مہینہ تک کے لیے اپنی بیویوں سے علاحدہ رہنے کا عہد فرما لیا تھا اور اپنے بالاخانے میں بیٹھ گئے تھے۔ ۲۹ دن گزر جانے پر جبریل علیہ السّلام نے آ کر کہا آپ کی قسم پُوری ہو گئی ہے، مہینہ مکمل ہو گیا۔حافظ بدر الدین عینی نے عُمدۃ القاری میں حضرت عائشہ ؓ کے حوالہ سے یہ بات نقل کی ہے کہ ازواجِ مطہرات کی دو پارٹیاں بن گئی تھیں ۔ ایک میں خود حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ، حضرت سودہ ؓ اور حضرت صفیہ ؓ تھیں ، اور دوسری میں حضرت زینب ؓ، حضرت اُم سَلَمہ ؓ اور باقی ازواج شامل تھیں ۔ ان تمام روایات سے کچھ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خانگی زندگی میں کیا حالات پیدا ہو گئے تھے جن کی بنا پر یہ ضروری ہوا کہ اللہ تعالیٰ مداخلت کر کے ازواجِ مطہرات کے طرزِ عمل کی اصلاح فرمائے۔ یہ ازواج اگر چہ معاشرے کی بہترین خواتین تھیں ، مگر بہرحال تھیں انسان ہی، اور بشریت کے تقاضوں سے مبرّا نہ تھیں ۔ کبھی ان کے لیے مسلسل عُسرت کی زندگی بسر کرنا دشوار ہو جاتا تھا اور وہ بے صبر ہو کر حضور ؐ سے نفقہ کا مطالبہ کرنے لگتیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب کی آیات ۲۹-۲۸ نازل فرما کر ان کو تلقین کی کہ اگر تمہیں دنیا کی خوشحالی مطلوب ہے تو ہمارا رسول تم کو بخیر و خوبی رخصت کر دے گا، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول ؐ اور دارِ آخرت کو چاہتی ہو تو پھر صبر و شکر کے ساتھ ان تکلیفوں کو برداشت کرو جو رسول کی رفاقت میں پیش آئیں ( تفصیل کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ ۴۱، اور دیباچۂ سورۂ احزاب، صفحہ ۸۴)۔ پھر کبھی نسائی فطرت کی بنا پر اُن سے ایسیباتوں کا ظہور ہو جاتا تھا جو عام انسانی زندگی میں معمول کے خلاف نہ تھیں ، مگر جس گھر میں ہونے کا شرف اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا تھا، اس کی شان اور اس کی عظیم ذمّہ داریوں سے وہ مطابقت نہ رکھتی تھیں ۔ اِن باتوں سے جب یہ اندیشہ پیدا ہو ا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خانگی زندگی کہیں تلخ نہ ہو جائے اور اُس کا اثر اُس کارِ عظیم پر مترتب نہ ہو جو اللہ تعالیٰ حضور ؐ سے لے رہا تھا، تو قرآن مجید میں یہ آیت نازل کر کے ان کی اصلاح فرمائی گئی تاکہ ازواجِ مطہرات کے اندر اپنے اُس مقام اور مرتبے کی ذمّہ داریوں کا احساس پیدا ہو جو اللہ کے آخری رسول ؐ کی رفیقِ زندگی ہونے کی حیثیت سے ان کو نصیب ہو ا تھا، اور وہ اپنے آپ کو عام عورتوں کی طرح اور اپنے گھر کو عام گھروں کی طرح نہ سمجھ بیٹھیں ۔ اس آیت کا پہلا ہی فقرہ ایساتھا کہ اس کو سُن کر ازواجِ مطہرات کے دل لرز اٹھے ہوں گے۔ اِس ارشاد سے بڑھ کر ان کے لیے تنبیہ اور کیا ہو سکتی تھی کہ’’ اگر نبی تم کو طلاق دے دے تو بعید نہیں کہ اللہ اُس کو تمہاری جگہ تم سے بہتر بیویاں عطا کر دے۔ ‘‘ اوّل تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے طلاق مل جانے کا تصوّر ہی ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا، اس پر یہ بات مزید کہ تم سے امہات المومنین ہونے کا شرف چھِن جائے گا اور دوسری عورتیں جو اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجیت میں لائے گا وہ تم سے بہتر ہوں گی۔ اس کے بعد تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ ازواجِ مطہرات سے پھر کبھی کسی ایسی بات کا صدور ہوتا جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت کی نوبت آتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بسدو ہی مقامات ہم کو ایسے ملتے ہیں جہاں اِن برگزیدہ خواتین کو تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ ایک سُورۂ احزاب اور دوسرے یہ سورۂ تحریم۔
11:مسلم اور مومن کے الفاظ جب ایک ساتھ لائے جاتے ہیں تو مسلم کے معنی عملاً احکامِ الہیٰ پر عمل کرنے والے کے ہوتے ہیں اور مومن سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو صدقِ دل سے ایمان لائے۔ پس بہترین مسلمان بیویوں کی اوّلین خصوصیت یہ ہے کہ وہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول ؐ اور اس کے دین پر ایمان رکھتی ہوں اور عملاً اپنے اخلاق، عادات، خصائل اور برتا ؤ میں اللہ کے دین کی پیروی کر نے والی ہوں ۔
12:اِس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں ۔ ایک، اللہ اور اس کے رسول کی تابع فرمان۔ دوسرے، اپنے شوہر کی اطاعت کرنے والی۔
13:تائب کا لفظ جب آدمی کی صفت کے طور پر آئے تو اس کے معنی بس ایک ہی دفعہ توبہ کر لینے والے کے نہیں ہوتے بلکہ ایسے شخص کے ہوتے ہیں جو ہمیشہ اللہ سے اپنے قصوروں کی معافی مانگتا رہے، جس کا ضمیر زندہ اور بیدار ہو، جسے ہر وقت اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کا احساس ہوتا رہے اور وہ اُن پر نادم و شرمسار ہو۔ ایسے شخص میں کبھی غرُور و تکبُّر اور نخوت و خود پسندی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ طبعاً نرم مزاج اور حلیم ہوتا ہے۔
14:عبادت گزار آدمی بہر حال کبھی اُس شخص کی طرح خدا سے غافل نہیں ہو سکتا جس طرح عبادت نہ کرنے والا انسان ہوتا ہے۔ ایک عورت کو بہترین بیوی بنانے میں اِس چیز کا بھی بڑا دخل ہے۔ عبادت گزار ہونے کی وجہ سے وہ حدود اللہ کی پابندی کرتی ہے، حق والوں کے حق پہچانتی اور ادا کرتی ہے، اس کا ایمان ہر وقت تازہ اور زندہ رہتا ہے، اُس سے اِس امر کی زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ احکامِ الہیٰ کی پیروی سے منہ نہیں موڑے گا۔
15:اصل میں لفظ سائحات استعمال ہوا ہے۔ متعدد صحابہ اور بکثرت تابعین نے اس کے معنی صائمات بیان کیے ہیں ۔ روزے کے لیے سیاحت کا لفظ جس مناسبت سے استعمال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں سیاحت زیادہ تر راہب اور درویش لوگ کرتے تھے، اور ان کے ساتھ کوئی زادِ راہ نہیں ہوتا تھا۔ اکثر ان کو اُس وقت تک بھوکا رہنا پڑتا تھا جب تک کہیں سے کچھ کھانے کو نہ مل جائے۔ اِس بنا پر روزہ بھی ایک طرح کی درویشی ہی ہے کہ جب تک افطار کا وقت نہ آئے روزہ دار بھی بھوکا رہتا ہے۔ ابن جریر نے سُورۂ توبہ، آیت ۱۲ کی تفسیر میں حضرت عائشہ ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ سیاحۃ ھذہ الامۃ الصیّام، ’’ اس امت کی سیاحت (یعنی درویشی)روزہ ہے۔ ‘‘ اِس مقام پر نیک بیویوں کی تعریف میں اُن کی روزہ داری کا ذکر اس معنی میں نہیں کیا گیا ہے کہ وہ محض رمضان کے فرض روزے رکھتی ہیں ، بلکہ اس معنی میں ہے کہ وہ فرض کے علاوہ نفل روزے بھی رکھا کرتی ہیں ۔ ازواجِ مطہرات کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم تم کو طلاق دے دیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے بدلے میں اُن کو ایسی بیویاں عطا فرمائے گا جنمیں یہ اور یہ صفات ہوں گی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ازواجِ مطہرات یہ صفات نہیں رکھتی تھیں ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری جس غلط روش کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اذیّت ہو رہی ہے اُس کو چھوڑ دو اور اُس کے بجائے اپنی ساری توجّہات اِس کوشش میں صرف کر دو کہ تمہارے اندر یہ پاکیزہ صفات بدرجۂ اَتَم پیدا ہوں ۔
16:یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظامِ فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اُس پر ڈالا ہے اس کو بھی وہ اپنی حدِ استطاعت تک ایسی تعلیم و تربیت دے جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بنیں ، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جا رہے ہوں تو جہاں تک بھی اس کے بس میں ہو ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اُس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوشحال ہوں بلکہ اِس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں ۔ بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ’’ تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیّت کے معاملہ میں جواب دہ ہے۔ حکمراں راعی ہے اور وہ اپنی رعیّت کے معاملہ میں جوابدہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے۔ ‘‘ جہنم کا ایندھن پتھر ہوں گے، اس سے مراد غالباً پتھر کا کوئلہ ہے۔ ابن مسعود ؓ، ابن عباسؓ، مجاہد ؒ، امام محمد الباقر ؒ، اور سُدِّی ؒ کہتے ہیں کہ یہ گندھک کے پتھر ہوں گے۔
17:یعنی اُن کو جو سزا بھی کسی مجرم پر نافذ کرنے کا حکم دیا جائے گا اُسے جُوں کاتُوں نافذ کریں گے اور ذرا رحم نہ کھائیں گے۔
18:اِن دونوں آیتوں کا اندازِ بیان اپنے اندر مسلمانوں کے لیے سخت تنبیہ لیے ہوئے ہے۔ پہلی آیت میں مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا گیا کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اِس خوفناک عذاب سے بچا و ٔ۔ اور دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ جہنّم میں عذاب دیتے وقت کافروں سے یہ کہا جائے گا۔ اِس سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو دنیا میں وہ طرزِ عمل اختیار کرنے سے بچنا چاہیے جس کی بدولت آخرت میں ان کا انجام کافروں کے ساتھ ہو۔
19:اصل میں توبۃً نَّصُوحًا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ نُصح کے معنی عربی زبان میں خلوص اور خیر خواہی کے ہیں ۔ خالص شہد کو عَسلِ ناصح کہتے ہیں جس کو موم اور دوسری آلائشوں سے پاک کر دیا گیا ہو۔ پھٹے ہوئے کپڑے کو سی دینے اور اُدھڑے ہوئے کپڑے کو مرمت کر دینے کے لیے نَصَاحۃ الثَّوب کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ پس توبہ کو نَصوح کہنے کا مطلب لغت کے اعتبارسے یا تو یہ ہو گا کہ آدمی ایسی خالص توبہ کرے جس میں ریاء اور نفاق کا شائبہ تک نہ ہو۔ یا یہ کہ آدمی خود اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہی کرے اور گناہ سے توبہ کر کے اپنے آپ کو بد انجامی سے بچا لے۔ یا یہ کہ گناہ سے اس کے دین میں جو شگاف پڑ گیا ہے، تو بہ کے ذریعہ سے اس کی اصلاح کر دے۔ یا یہ کہ توبہ کر کے وہ اپنی زندگی کو اتنا سنوار لے کہ دوسروں کے لیے وہ نصیحت کا موجب ہو اور اس کی مثال کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اُسی کی طرح اپنی اصلاح کر لیں ۔ یہ تو ہیں توبۂ نصوح کے وہ مفہومات جو اس کے لغوی معنوں سے مترشح ہوتے ہیں ۔ رہا اس کا شرعی مفہوم تو اس کی تشریح ہمیں اُس حدیث میں ملتی ہے جو ابن ابی حاتم نے زِرّین حُبَیش کے واسطے سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اُبَیّ بن کعب ؓ سے توبۂ نصوح کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہی سوال کیا تھا۔ آپ ؐ نے فرمایا ’’اِس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہو جائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو، پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو۔‘‘ یہی مطلب حضرت عمر ؓ، حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود اور حضرت عبداللہ ؓ بن عباس سے بھی منقول ہے، اور ایک روایت میں حضرت عمر ؓ نے توبۂ نصوح کی تعریف یہ بیان کی ہے کہ توبہ کے بعد آدمی گناہ کا اعادہ تو درکنار، اُس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے (ابن جریر)۔ حضرت علی ؓ نے ایک مرتبہ ایک بدُّو کو جلدی جلدی توبہ و استغفار کے الفاظ زبان سے ادا کرتے سنا تو فرمایا یہ تَوبۃُ الکذّابین ہے۔ اس نے پوچھا پھر صحیح توبہ کیا ہے ؟ فرمایا، اُس کے ساتھ چھ چیزیں ہونی چاہییں (۱) جو کچھ ہو چکا ہے اس پر نادم ہو۔(۲) اپنے جن فرائض سے غفلت برتی ہو اُن کو ادا کر۔(۳) جس کا حق مارا ہو اُس کو واپس کر۔(۴)جس کو تکلیف پہنچائی ہو اُس سے معافی مانگ۔(۵) آئندہ کے لیے عزم کر لے کہ اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا۔ اور(۶) اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں گھُلا دے جس طرح تُو نے اب تک اسے معصیت کا خوگر بنائے رکھا ہے اور اُس کو طاعت کی تلخی کا مزا چکھا جس طرح اب تک تُو اُسے معصیتوں کی حلاوت کا مزا چکھاتا رہا ہے۔ (کشّاف)توبہ کے سلسلہ میں چند امور اور بھی ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اوّل یہ کہ توبہ در حقیقت کسی معصیت پر اس لیے نادم ہونا ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی ہے۔ ورنہ کسی گناہ سے اسلیے پرہیز کا عہد کر لینا کہ وہ مثلاً صحت کے لیے نقصان دہ ہے، یا کسی بدنامی کا ، یا مالی نقصان کا موجب ہے، توبہ کی تعریف میں نہیں آتا۔ دوسرے یہ کہ جس وقت آدمی کو احساس ہو جائے کہ اس سے اللہ کی نافرمانی ہوئی ہے، اسی وقت اسے توبہ کرنی چاہیے اور جس شکل میں بھی ممکن ہو بلا تاخیر اس کی تلافی کر دینی چاہیے، اُسے ٹالنا مناسب نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ توبہ کر کے بار بار اسے توڑتے چلے جانا اور توبہ کو کھیل بنا لینا اور اُسی گناہ کا بار بار اعادہ کرنا جس سے توبہ کی گئی ہو، توبہ کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ توبہ کی اصل روح گناہ پر شرمساری ہے، اور بار بار کی توبہ شکنی اس بات کی علامت ہے کہ اُس کے پیچھے کوئی شرمساری موجود نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ جو شخص سچے دل سے توبہ کر کے یہ عزم کر چکا ہو کہ پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا، اس سے اگر بشری کمزوری کی بنا پر اُسی گناہ کا اعادہ ہو جائے تو پچھلا گناہ تازہ نہ ہو گا، البتہ اسے بعد والے گناہ پر پھر توبہ کرنی چاہیے اور زیادہ سختی کے ساتھ عزم کرنا چاہیے کہ آئندہ وہ توبہ شکنی کا مرتکب نہ ہو۔ پانچویں یہ کہ ہر مرتبہ جب معصیت یا د آئے، توبہ کی تجدید کرنا لازم نہیں ہے، لیکن اگر اُس کا نفس اپنی سابق گناہگارانہ زندگی کی یاد سے لطف لے رہا ہو تو بار بار توبہ کرنی چاہیے یہاں تک کہ گناہوں کی یاداُس کے لیے لذّت کے بجائے شرمساری کی موجب بن جائے۔ اس لیے کہ جس شخص نے فی الواقع خدا کے خوف کی بنا پر معصیت سے توبہ کی ہو وہ اِس خیال سے لذت نہیں لے سکتا کہ وہ خدا کی نافرمانی کرتا رہا ہے۔ اُس سے لذّت لینا اس بات کی علامت ہے کہ خدا کے خوف نے اس کے دل میں جڑ نہیں پکڑی ہے۔
20:آیت کے الفاظ قابلِ غور ہیں ۔ یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ توبہ کر لو تو تمہیں ضرور معاف کر دیا جائے گا اور لازماً تم جنت میں داخل کر دیے جاؤ گے، بلکہ یہ امید دلائی گئی ہے کہ اگر تم سچے دل سے توبہ کرو گے تو بعید نہیں کہ اللہ تمہارے ساتھ یہ معاملہ کرے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ گناہ گار کی توبہ قبول کر لینا اور اسے سزا دینے کے بجائے جنت عطا فرما دینا اللہ پر واجب نہیں ہے، بلکہ یہ سراسر اُس کی عنایت و مہربانی ہو گی کہ وہ معاف بھی کرے اور انعام بھی دے۔ بندے کو اس سے معافی کی امید تو ضرور رکھنی چاہیے مگر اس بھروسے پر گناہ نہیں کرنا چاہیے کہ توبہ سے معافی مل جائے گی۔
21:یعنی اُن کے اعمالِ حسنہ کا اجر ضائع نہ کرے گا۔ کفار و منافقین کو یہ کہنے کا موقع ہر گز نہ دے گا کہ اِن لوگوں نے خداپرستی بھی کی تو اس کا کیا صلہ پایا۔رسوائی باغیوں اور نافرمانوں کے حصّے میں آئے گی نہ کہ وفاداروں اور فرماں برداروں کے حصّے میں ۔
22:اِس آیت کو سُورۂ حدید کی آیات ۱۳-۱۲ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہلِ ایمان کے آگے آگے نُور کے دوڑنے کی یہ کیفیت اُس وقت پیش آئے گی جب وہ میدانِ حشر سے جنت کی طرف جا رہے ہوں گے۔ وہاں ہر طرف گھُپ اندھیرا ہو گا جس میں وہ سب لوگ ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے جن کے حق میں دوزخ کا فیصلہ ہو گا، اور روشنی صرف اہلِ ایمان کے ساتھ ہو گی جس کے سہارے وہ اپنا راستہ طے کر رہے ہوں گے۔ اس نازک موقع پر تاریکیوں میں بھٹکنے والے لوگوں کی آہ و فغاں سُن سُن کر اہلِ ایمان پر خَشِیّت کی کیفیت طاری ہو رہی ہو گی، اپنے قصوروں اور اپنی کوتاہیوں کا احساس کر کے انہیں اندیشہ لاحق ہو گا کہ کہیں ہمارا نُور بھی نہ چھِن جائے اور ہم اِن بد بختوں کی طرح ٹھوکریں کھاتے نہ رہ جائیں ، اس لیے وہ دعا کریں گے کہ اَے ہمارے رب ہمارے قصور معاف فرما دے اور ہمارے نُور کو جنت میں پہنچنے تک ہمارے لیے باقی رکھ۔ ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا کے معنی یہ ہیں کہ ’’ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ ان کا نُور اُس وقت تک باقی رکھا جائے اور اُسے بجھنے نہ دیا جائے جب تک وہ پُل صراط سے بخیریت نہ گزر جائیں ۔ ‘‘ حضرت حسن بصری اور مجاہد اور ضحّاک کی تفسیر بھی قریب قریب یہی ہے۔ ابن کثیر نے انکا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’ اہلِ ایمان جب یہ دیکھیں گے کہ منافقین نُور سے محروم رہ گئے ہیں تو وہ اپنے حق میں اللہ سے تکمیلِ نُور کی دعا کریں گے۔ ‘‘ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، الحدید، حاشیہ ۱۷)۔
23:تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ ۸۲۔
24:یہ خیانت اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ بدکاری کی مرتکب ہوئی تھیں ، بلکہ اس معنی میں ہے کہ انہوں نے ایمان کی راہ میں حضرت نوح ؑ اور حضرت لوط ؑ کا ساتھ نہ دیا بلکہ ان کے مقابلہ میں دشمنانِ دین کا ساتھ دیتی رہیں ۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ’’ کسی نبی کی بیوی کبھی بدکار نہیں رہی ہے۔ ان دونوں عورتوں کی خیانت دراصل دین کے معاملہ میں تھی۔ انہوں نے حضرت نوح ؑ اور حضرت لوط ؑ کا دین قبول نہیں کیا۔حضرت نوح ؑ کی بیوی اپنی قوم کے جبّاروں کو ایمان لانے والوں کی خبریں پہنچایا کرتی تھی۔ اور حضرت لوط ؑ کی بیوی اپنے شوہر کے ہاں آنے والوں لوگوں کی اطلاع اپنی قوم کے بد اعمال لوگوں کو دے دیا کرتی تھی۔‘‘ (ابن جریر)۔
25:یعنی فرعون جو بُرے اعمال کر رہا ہے ان کے انجامِ بد میں مجھے شریک نہ کر۔
26:ہو سکتا ہے کہ حضرت مریم ؑ کے والد ہی کا نام عمران ہو، یا ان کو عمران کی بیٹی اس لیے کہا گیا ہو کہ وہ آلِ عمران سے تھیں ۔
27:یہ یہودیوں کے اِس الزام کی تردید ہے کہ ان کے بطن سے حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کی پیدائش معاذ اللہ کسی گناہ کا نتیجہ تھی۔ سورۂ نساء، آیت ۱۵۶ میں اِن ظالموں کے اِسی الزام کو بہتانِ عظیم قرار دیا گیا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، سورۃ النساء، حاشیہ ۱۹۰)۔
28:یعنی بغیر اس کے کہ ان کا کسی مرد سے تعلق ہوتا، اُن کے رحم میں اپنی طرف سے ایک جان ڈال دی۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، النساء، حواشی ۲۱۳-۲۱۲۔ جلد سوم، الانبیاء، حاشیہ ۸۹)۔
29:جس مقصد کے لیے اِن تین قسم کی عورتوں کو مثال میں پیش کیا گیا ہے اس کی تشریح ہم اِس سُورہ کے دیباچے میں کر چکے ہیں ، اس لیے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔