یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے اور اس کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اُس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت تو شروع ہو چکی تھی، مگر اس نے ابھی زیادہ شدت نہ اختیار کی تھی۔ مسند احمد میں حضرت عمر ؓ کی روایت ہے کہ اسلام سے پہلے ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ستانے کے لیے گھر سے نکلا مگر آپ مجھ سے پہلے مسجد حرام میں داخل ہو چکے تھے۔ میں پہنچا تو آپ نماز میں سورہ الحاقہ پڑھ رہے تھے۔ میں آپؐ کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور سننے لگا۔ قرآن کی شانِ کلام پر میں حیران ہو رہا تھا کہ میرے دل میں یکایک خیال آیا کہ یہ شخص ضرور شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں۔ فوراً ہی حضورؐ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے ’’یہ ایک رسولِ کریمؐ کا قول ہے کسی شاعر کا قول نہیں ہے ‘‘۔ میں نے اپنے دل میں کہا شاعر نہیں تو پھر کاہن ہے۔ اُسی وقت زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری ہوئے ’’اور نہ کسی کاہن کا قول ہے۔ تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو۔ یہ تو رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے ‘‘۔ یہ سن کر اسلام میرے دل میں گہرا اُتر گیا۔ حضرت عمرؓ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورة اُن کے قبولِ اسلام سے بہت پہلے نازل ہو چکی تھی، کیونکہ اس واقعہ کے بعد بھی ایک مدت تک وہ ایمان نہیں لائے تھے اور وقتاً فوقتاً متعدد واقعات اُن کو اسلام سے متاثر کرتے رہے تھے، یہاں تک کہ اپنی بہن کے گھر میں اُن کے دل پر وہ آخری ضرب لگی جس نے ان کو ایمان کی منزل پر پہنچا دیا (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، دیباچہ سورہ مریم۔ جلدپنجم، دیباچہ سورہ واقعہ)۔
اس کا پہلا رکوع آخرت کے بیان میں ہے، اور دوسرا رکوع قرآن کے مُنزَّل من اللہ اور محمد صلی للہ علیہ و سلم کے رسولِ برحق ہونے کے بارے میں۔
پہلے رکوع کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ قیامت کا آنا اور آخرت کا بر پا ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو ضرور پیش آ کر رہنی ہے۔ پھر آیت۴ سے ۱۲ تک یہ بتایا گیا ہے کہ پہلے جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کیا ہے وہ آخر کار خدا کے عذاب کی مستحق ہو کر رہی ہیں۔ اس کے بعد آیت ۱۷ تک قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ وہ کس طرح بر پا ہو گی۔ پھر آیت۱۸ سے ۳۷ تک وہ اصل مقصد بیان کیا گیا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی موجودہ زندگی کے بعد نوعِ انسانی کے لیے ایک دوسری زندگی مقدر فرمائی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اُس روز تمام انسان اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوں گے جہاں اُن کا کوئی راز چھپا نہ رہ جائے گا۔ ہر ایک کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔ جن لوگوں نے دنیامیں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی تھی کہ ایک دن اُنہیں اپنے رب کو اپنا حساب دینا ہے، اور جنہوں نے دنیا کی زندگی میں نیک عمل کر کے اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے پیشگی سامان کر لیا تھا، وہ اپنا حساب پاک دیکھ کر خوش ہو جائیں گے اور انہیں جنت کا ابدی عیش نصیب ہو گا۔ اس کے بر عکس جن لوگوں نے خدا کا حق مانا نہ بندوں کا حق ادا کیا، انہیں خدا کی پکڑ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا اور وہ جہنم کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔
دوسرے رکوع میں کفارِ مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم اس قرآن کو ایک شاعر اور کاہن کا کلام کہتے ہو، حالانکہ یہ اللہ کا نازل کردہ کلام ہے جو ایک رسولِ کریم کی زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ رسول اس کلام میں اپنی طرف سے ایک لفظ گھٹانے یا بڑھا نے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اگر وہ اس میں اپنی من گھڑت کوئی چیز شامل کر دے تو ہم اُس کی رگِ گردن(یا رگِ دل)کاٹ دیں۔ یہ ایک یقینی برحق کلام ہے اور جو لوگ اسے جھٹلائیں گے انہیں آخر کار پچھتانا پڑے گا۔
1: اصل میں لفظ الحاقہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں وہ واقعہ جو کو لازماً پیش آ کر رہنا ہے جس کا آنا برحق ہے، جس کے آنے میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ قیامت کے لیے یہ لفظ استعمال کر نا اور پھر کلام کا آغاز ہی اس سے کرنا خود بخود یہ ظاہر کرتا ہے کہ مُخاطب وہ لوگ ہیں جو اُس کے آنے کو جھٹلا رہے تھے۔ اُن کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ جس چیز کی تم تکذیب کر رہے ہو وہ ہونی شُدنی ہے، تمہارے انکار سے اُس کا آنا رُک نہیں جائے گا۔
2: یکے بعد دیگرے یہ دوسوالات سامعین کو چونکانے کے لیے کیے گئے ہیں تا کہ وہ بات کی اہمیت کو سمجھیں اور پوری توجہ کے ساتھ آگے کی بات سُنیں۔
3: کفارِ مکہ چونکہ قیامت کو جھٹلا رہے تھے اور اُس کے آنے کی خبر کو مزاق سمجھتے تھے اس لیے پہلے اُن کو خبردار کیا گیا کہ وہ تو ہونی شُدنی ہے، تم چاہے مانو یا نہ مانو، وہ بہر حال آ کر رہے گی۔ اس کے بعد اب اُن کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ صرف اتنا سادہ سا معاملہ نہیں ہے کہ کوئی شخص ایک پیش آنے والے واقعہ کی خبر کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں، بلکہ اس کا نہایت گہرا تعلق قوموں کے اخلاق اور پھر اُن کے مستقبل سے ہے۔ تم سے پہلے گزری ہوئی قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم نے بھی آخرت کا انکار کر کے اسی دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھا اور اس بات کو جھٹلا دیا کہ انسان کو آخر کار خدا کی عدالت میں اپنا حساب دینا ہو گا، وہ سخت اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہوئی، یہاں تک کہ خدا کے عذاب نے آ کر دنیا کو اس کے وجود سے پاک کر دیا۔
4: اصل لفظ القارعہ ہے۔ قرع عربی زبا ن میں ٹھوکنے، کوٹنے، کھڑ کھڑا دینے، اور ایک چیز کو دوسری چیز پر مار دینے کے لیے بولا جاتا ہے۔ قیامت کے لیے یہ دوسرا لفظ اُس کی ہولناکی کا تصور دلانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
5: سورہ اعراف، آیت ۷۸ میں اس کو الرّجْفہ (زبردست زلزلہ)کہا گیا ہے۔ سورہ ہود، آیت ٦۷ میں اس کے لیے الصَّیْحَہ (زور کے دھماکے )کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ سورہ حٰم السجدہ، آیت ١۷ میں فرمایا گیا ہے کہ ان کو صَاعِقَةُ الْعَذَاب (عذاب کے کڑکے ) نے آلیا۔ اور یہاں اُسی عذاب کو الطَّاغیہ (حد سے زیادہ سخت حادثہ)سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ یہ ایک ہی واقعہ کی مختلف کیفیات کا بیا ن ہے۔
6: ہیں قومِ لوط کی بستیاں جن کے متعلق سورہ ہود ؑ (آیت ۸۲) اور سورہ حجز(آیت ۷۴) میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ان کو تلپٹ کر کے رکھ دیا۔
7: اشارہ ہے طوفانِ نوح کی طرف جس میں ایک پوری قوم اسی خطائے عظیم کی بنا پر غرق کر دکی گئی اور صرف وہ لوگ بچا لیے گئے جنہوں نے اللہ کے رسول کی بات مان لی تھی۔
8: اگرچہ کشتی میں سوار وہ لوگ کیے گئے تھے جو ہزاروں برس پہلے گزر چکے تھے، لیکن چونکہ بعد کی پوری انسانی نسل اُنہی لوگوں کی اولا دہے جو اُس وقت طوفان سے بچائے گئے تھے، اس لیے فرمایا کہ ہم نے تم کو کشتی میں سوار کر ادیا۔ مطلب یہ ہے کہ تم آج دنیا میں اسی لیے موجود ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اُس طوفان میں صرف مُنکر ین کو غرق کیا تھا اور ایمان لانے والوں کو بچا لیا تھا۔
9: یعنی وہ کان نہیں جو سُنی اَن سنی کر دیں اور جن کے پر دے پر سے آواز اُچٹ کر گزر جائے، بلکہ وہ کان جو سُنیں اور بات کو دل تک اُتاردیں۔ یہاں بظاہر کان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، مگر مراد ہیں سننے والے لوگ جو اس واقعہ کو سن کر اُسے یاد رکھیں ، اُس سے عبرت حاصل کریں اور اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ آخرت کے انکا راور خدا کے رسول کی تکذیب کا انجام کیسا ہولناک ہوتا ہے۔
10: آگے آنے والی آیات کو پڑھتے ہوئے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید کہیں تو قیامت کے تین مراحل الگ الگ بیان کیے گئے ہیں جو یکے بعد دیگرے مختلف اوقات میں پیش آئیں گے، اور کہیں گے سب کو سمیٹ کر پہلے مرحلے سے آخری مرحلے تک کے واقعات کو یکجا بیان کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ نمل آیت ۸۷ میں پہلے نفخ سور کا ذکر کیا گیا ہے جب تمام دنیا کے انسان یک لخت ایک ہولناک آواز سے گھبرا اٹھیں گے۔ اُس وقت نظامِ عالم کے درہم برہم ہونے کی وہ کیفیات اُن کی آنکھوں کے سامنے پیش آئیں گی جو سورہ حج آیات١۔۲، سور ہ یٰس آیات ۴۹۔۵۰، اور سورہ تکویر آیات ١۔٦ میں بیان ہوئی ہیں۔ سورہ زُمر آیات ٦۷ تا ۷۰ میں دوسرے اور تیسرے نفخ صور کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ایک نفخ پر سب لوگ مر کر گر جائیں گے اور اس کے بعد جب پھر صور پھونکا جائے گا تو سب جی اٹھیں گے اور خدا کی عدالت میں پیش ہو جائیں گے۔ سورہ طٰہٰ آیات ۲۔١ تا ١١۲، سورہ انبیاء آیات ١۰١ تا ١۰۳، سورہ یٰس آیات۵١تا۵۳، اور سورہ ق آیات ۲۰ تا ۲۲ میں صرف تیسرے نفخ صور کا ذکر ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، طٰہٰ حاشیہ ۷۸۔ الحج، حاشہت١۔ جلد چہارم، یٰس، حواشی ۴٦۔۴۷)۔ لیکن یہاں اور بہت سے دوسرے مقامات پر قرآن میں پہلے نفخ صور سے لے کر جنت اور جہنم میں لوکوں کے داخل ہونے تک قیامت کے تمام واقعات کو ایک ہی سلسلے میں بیان کر دیا گیا ہے۔ 11: یہ آیت متشابہات میں سے ہے جس کے معنی متعین کر نا مشکل ہے۔ ہم نہ یہ جان سکتے ہیں کہ عرش کیا چیز ہے اور نہ یہی سمجھ سکتے ہیں کہ قیامت کے روز آٹھ فرشتوں کے اس کو اٹھانے کی کیفیت کیا ہو گی۔ مگر یہ بات بہر حال قابل تصور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہو گا اور آٹھ فرشتے اس کو عرش سمیت اٹھا ئے ہوئے ہوں گے۔ آیات میں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا ہو گا، اور ذات باری کا جو تصور ہم کو قرآن مجید میں دیا گیا ہے وہ بھی یہ خیال کرنے میں مانع ہے کہ وہ جسم اور جہت اور مقام سے منزہ ہستی کسی جگہ متمکن ہو اور کوئی مخلوق اُسے اٹھا ئے۔ اس لیے کھوج کر ید کر کے اس کے معنی متعین کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو گمراہی کے خطرے میں مبتلا کر نا ہے۔ البتہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی حکومت و فرمانروائی اور اس کے معاملات کا تصور دلانے کے لیے لوگوں کے سامنے وہی نقشہ پیش کیا گیا ہے جو دنیا میں بادشاہی کا نقشہ ہوتا ہے، اور اس کے لیے وہی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جو انسانی زبانوں میں سلطنت اور اس کے مظاہر دلوازم کے لیے مستعمل ہیں، کیونکہ انسانی ذہن اسی نقشے اور انہی اصطلاحات کی مدد سے کسی حد تک کائنات کی سلطانی کے معاملات کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ اصل حقیقت کو انسانی فہم سے قریب تر کرنے کے لیے ہے۔ اس کو بالکل لفظی معنوں میں لے لینا دُرست نہیں ہے۔
12: سیدھے ہاتھ میں نامہ اعمال کا دیا جانا ہی ظاہر کر دے گا کہ اُس کا حساب بے باق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مجرم کی حیثیت سے نہیں بلکہ صالح انسان کی حیثیت سے پیش ہو رہا ہے۔ اغلب یہ ہے کہ اعمال ناموں کی تقسیم کے وقت صالح انسان خود سیدھا ہاتھ بڑھا کر اپنا نامہ اعمال لے گا، کیونکہ موت کے وقت سے میدانِ حشر میں حاضری تک اُس کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہو گا اس کی وجہ سے اس کو پہلے ہی یہ اطمینان حاصل ہو چکا ہو گا کہ میں یہاں انعام پانے کے لیے پیش ہو رہا ہوں نہ کہ سزا پانے کے لیے۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بڑی صراحت کے ساتھ بتائی گئی ہے کہ موت کے وقت ہی سے یہ بات انسان پر واضح ہو جاتی ہے کہ وہ نیک بخت آدمی کی حیثیت سے دوسرے عالم میں جا رہا ہے یا بدبخت آدمی کی حیثیت سے۔ پھر موت سے قیامت تک نیک انسان کے ساتھ مہمان کا سا معاملہ ہوتا ہے اور بد انسان کے ساتھ حوالاتی مجرم کا سا۔ اس کے بعد جب قیامت کے روز دوسری زندگی کا آغاز ہوتا ہے اسی وقت سے صالحین کی حالت و کیفیت کچھ اور ہوتی ہے اور کفار و منافقین اور مجرمین کی حالت و کیفیت کچھ اور (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الانفال، آیت۵۰۔النحل، آیات۲۸، ۳۲، مع حاشیہ ۲۶۔بنی اسرائیل، آیت۹۷۔ جلد سوم، طٰہٰ، آیات۱۰۲، ۱۰۳، ۱۲۴تا۱۲۶، مع حواشی ۸۰، ۷۹، ۱۰۷ لانبیاء، آیت ۱۰۳، مع حاشیہ ۹۸۔الفرقان، آیت۲۴، مع حاشیہ۳۸۔ النمل، آیت۸۹، مع حاشیہ۱۰۹م جلد چہارم، سبا، آیت ۵۱، مع حاشیہ۷۲۔ یٰس، آیات ۲۶، ۲۷، مع حواشی ۲۲۔۲۳۔المومن، آیات۴۵، ۴۶، مع حاشیہ ۶۳۔جلد پنجم، محمد ؐ، آیت۲۷ مع حاشیہ ۳۷۔ق، آیات۱۹تا۲۳۔مع حواشی ۲۵، ۲۳، ۲۲)۔
13: یعنی نامہ اعمال ملتے ہی وہ خوش ہو جائے گا اور اپنے ساتھیوں کا دکھائے گا۔ سورہ الشقاق، آیت ۹ میں بیان ہوا ہے کہ ’’وہ خوش خوش اپنے لوگوں کی طرف پلٹے گا۔
14: یعنی وہ اپنی خوش قسمتی کی وجہ یہ بتائے گا کہ وہ دنیا میں آخرت سے غافل نہ تھا بلکہ یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتا رہا کہ ایک روزاُسے خدا کے حضور حاضر ہونا ور اپنا حساب دینا ہے۔
15: سورہ انشقاق میں فرمایا گیا ہے ’’اور جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا‘‘۔غالباً اس کی صورت یہ ہو گی کہ مجرم کو چونکہ پہلے ہی سے اپنے مجرم ہونے کا علم ہو گا اور وہ جانتا ہو گا کہ اس نامہ اعمال میں اس کا کیا کچھا چٹھا در ج ہے، اس لیے وہ نہایت بددلی کے ساتھ اپنا بایاں ہاتھ بڑھا کر اُسے لے گا اور فوراً پیٹھ کے پیچھے چھپا لے گا تا کہ کوئی دیکھنے نہ پائے۔
16: یعنی مجھے یہ نامہ اعمال دے کر میدانِ حشر میں علانیہ سب کے سامنے ذلیل و رسوا نہ کیا جاتا اور جو سزا بھی دینی تھی دے ڈالی جاتی۔
17: یعنی مجھے نہ بتایا جاتا کہ میں دنیا میں کیا کچھ کر کے آیاہوں۔ دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے کبھی یہ نہ جانا تھا کہ حساب کیا بلا ہوتی ہے، مجھے کبھی یہ خیال تک نہ آیا تھا کہ ایک دن مجھے اپنا حساب بھی دینا ہو گا اور میرا سب کیا کرایا میرے سامنے رکھ دیا جائے گا۔
18: یعنی دنیا میں مرنے کے بعد میں ہمیشہ کے لیے معدوم ہو گیا ہوتا اور کوئی دسری زندگی نہ ہوتی۔
19: اصل الفاظ ہیں ھَلَکَ عَنِّی ْسُلطٰنِیَہْ۔ سلطان کا لفظ دلیل وحجت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اقتدار کے لیے بھی۔ اگر اُسے دلیل وحُجت کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جو دلیل باز یاں میں کیا کرتا تھا وہ یہاں نہیں چل سکتیں ، میرے پاس اپنی صفائی میں پیش کرنے کے لیے اب کوئی حجت نہیں رہی۔ اور اقتدار کے معنی میں لیا جائے تو مراد یہ ہو گی کہ دنیا میں جس طاقت کے بل بوتے پر میں اکڑتا تھا وہ یہاں ختم ہو چکی ہے۔ اب یہاں کوئی میرا لشکر نہیں، کوئی میرا حکم ماننے والا نہیں، میں ایک بے بس اور لا چار بندے کی حیثیت سے کھڑا ہوں جو اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔
20: یعنی خود کسی غریب کو کھانا کھلانا تو درکنار، کسی سے یہ کہنا بھی پسند نہ کرتا تھا کہ خدا کے بھوکے بندوں کو روٹی دے دو۔
21: یعنی تم لوگوں نے جو کچھ سمجھ رکھا ہے بات وہ نہیں ہے۔
22: یہاں رسولِ کریم سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں اور سورہ تکویر(آیت ۱۹) میں اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہاں قرآن کو رسولِ کریم کا قول کہنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ کسی شاعر یا کاہن کا قول نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ کفارِ مکہ جبریل ؑ کو نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شاعر اور کاہن کہتے تھے۔ بخلاف اس کے سورہ تکویر میں قرآن کو رسولِ کریم کا قول کہنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ وہ رسول بڑی قوت والا ہے، صاحبِ عرش کے ہاں بلند مرتبہ رکھتا ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، وہ امانت در ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اُس کو روشن اُفق پر دیکھا ہے۔ قریب قریب یہی مضمون سورہ نجم آیات ۵ تا ۱۰ میں جبریل علیہ السلام کے متعلق بیان ہوا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور جبریل کا قول کس معنی میں کہا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ اس کوحضور ؐ کی زبان سے اور حضور ؐ اسے جبریل ؑ کی زبان سے سُن رہے تھے، اس لیے ایک لحاظ سے یہ حضور ؐ کا قول تھا اور وہ دوسرے لحاظ سے جبریل ؑ کا قول، لیکن آگے چل کر یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ فی الاصل یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے جبریل کی زبان سے، اور لوگوں کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا لفظ بھی اس حقیقت پر دلالت کر تا ہے کہ یہ ان دونوں کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ پیغام بر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اس کو پیغام بھیجنے والے کی طرف سے پیش کیا ہے۔
23: ’’کم ہی ایمان لاتے ہو‘‘کا ایک مطلب عربی محاورے کے مطابق یہ ہو سکتا ہے کہ تم ایمان نہیں لاتے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قرآن کو سُن کر کسی وقت تمہارا دل خود پکار اُٹھتا ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں ہو سکتا، مگر پھر تم اپنی ضدپر اڑ جاتے اور اس پر ایمان لانے سے انکار کر دیتے ہو۔
24: ’’حاصلِ کلام یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں نظر آتا ہے اور جو کچھ تم کو نظر نہیں آتا، اُس سب کی قسم میں اس بات پر کھاتا ہوں کہ یہ قرآن کسی شاعر یا کاہن کا کلام نہیں ہے بلکہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے جو ایک ایسے رسول کی زبان سے ادا ہو رہا ہے جو کریم (نہایت معزز اور شریف)ہے۔ اب دیکھیے کہ یہ قسم کس معنی میں کھائی گئی ہے۔ جو کچھ لوگوں کو نظر آ رہا تھا وہ یہ تھا کہ: (۱)اس کلام کو ایک ایسا شخص پیش کر رہا تھا جس کا شریف النفس ہونا مکہ کے معاشرے میں کسی سے چھپا ہوا نہ تھا۔ سب جانتے تھے کہ اخلاقی حیثیت سے یہ اُن کی قوم کا بہترین آدمی ہے۔ ایسے شخص سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ اتنا بڑا جھوٹ لے کر اٹھ کھڑا ہو گا کہ خدا پر بُہتان باندھے اور اپنے دل دے ایک بات گھڑ کر اُسے خدا وندِ عالم کی طرف منسوب کر دے۔ (۲)وہ یہ بھی علانیہ دیکھ رہے تھے کہ اس کلام کو پیش کرنے میں اپنا کوئی ذاتی مفاد اُس شخص کے پیشِ نظر نہیں ہے، بلکہ یہ کام کر کے تو اُس نے اپنے مفاد کو قربان کر دیا ہے۔ اپنی تجارت کو برباد کیا۔ اپنے عیش و آرام کو تَج دیا۔ جس معاشرے میں اسے سر آنکھوں پر بٹھا یا جاتا تھا، اُسی میں گالیاں کھانے لگا۔ اور نہ صرف خود بلکہ اپنے بال بچوں تک کو ہر قسم کے مصائب میں مبتلا کر لیا۔ ذاتی مفاد کا خواہشمند ان کانٹوں میں اپنے آپ کو کیوں گھسیٹتا؟ (۳)اُن کی آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی تھیں کہ اُنہی کے معاشرے میں سے جو لوگ اُس شخص پر ایمان لا رہے تھے ان کی زندگی میں یک لخت ایک انقلاب بر پا ہو جاتا تھا۔ کسی شاعر یا کاہن کے کلام میں یہ تاثیر آخر کب دیکھی گئی ہے کہ وہ لوگوں میں ایسی زبردست اخلاقی تبدیلی پیدا کر دے اور اس کے ماننے والے اُس کی خاطر ہر طرح کے مصائب و آلام برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں ؟ (۴)اُن سے یہ بات بھی چھپی ہوئی نہ تھی کہ شعر کی زبان کیا ہوتی ہے اور کاہنوں کا کلام کیسا ہوتا ہے۔ ایک ہٹ دھرم آدمی کے سوا کون یہ کہہ سکتا تھا کہ قرآن کی زبان شاعری یا کہانت کی زبان ہے (اس پر مفصل بحث ہم تفہیم القرآن، جلد سوم، الانبیاء، حاشیہ ۷۔ جلد چہارم، الشعراء، حواشی ۱۴۲ تا۱۴۵۔ اور جلد پنجم، الطور حاشیہ ۲۲ میں کر چکے ہیں۔ (۵)یہ بات بھی اُن کی نگاہوں کے سامنے تھی کہ پورے عرب میں کوئی شخص ایسا فصیح و بلیغ نہ تھا جس کا کلام قرآن کے مقابلے میں لایا جا سکتا ہو۔ اُس کے برابر تو درکنار، اس کے قریب تک کسی کی فصاحت و بلاغت نہیں پہنچتی تھی۔ (۶)ان سے یہ بات بھی پوشیدہ نہ تھی کہ خود محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان بھی اپنی ادبی شان کے لحاظ سے قرآن کی ادبی شان بہت مختلف تھی۔ کوئی اہل زبان حضور ؐ کی اپنی تقریر، اور قرآن کو سُن کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ دونوں ایک ہی شخص کے کلام ہیں۔ (۷)قرآن جن مضامنپ اور علوم پر مشتمل تھا، دعوائے نبوت سے ایک دن پہلے تک بھی مکہ کے لوگوں نے کبھی وہ باتیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے نہ سنی تھیں، او وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان معلومات کے حصول کا کوئی ذریعہ آپ کے پاس نہیں ہے۔ اسی وجہ سے آپ کے مخالفین اگر یہ الزامات لگاتے بھی تھے کہ آپ کہیں سے خفیہ طریقے پر یہ معلومات حاصل کرتے ہیں تو مکہ میں کوئی شخص اُن کو باور کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا(اس کی تشریح ہم تفہیم القرآن جلد دوم، النحل حاشیہ ۱۰۷، اور جلد سوم، الفرقان، حاشیہ۱۲ میں کر چکے ہیں )۔ (۸)زمین سے لے کر آسمان تک اس عظیم الشان کارخانہ ہستی کو بھی وہ اپنی آنکھوں سے چلتا ہوا دیکھ رہے تھے جس میں ایک زبردست حکیمانہ قانون اور ہمہ گیر نظم و ضبط کار فرما نظر آرہا تھا۔ اس کے اندر کہیں اُس شرک اور انکارِ آخرت کے لیے کوئی شہادت نہیں پائی جاتی تھی جس کے اہلِ عرب معتقد تھے، بلکہ ہر طرف توحید اور آخرت ہی کی صداقت کے شواہد ملتے تھے جسے قرآن پیش کر رہا تھا۔ یہ سب کچھ تو دیکھ رہے تھے۔ اور جو کچھ وہ نہیں دیکھ رہے تھے وہ یہ تھا کہ فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا خالق و مالک اور فرمانروا ہے، کائنات میں سب بندے ہی بندے ہیں، خدا اُس کے سوا کوئی نہیں ہے، قیامت ضرور برپا ہونے والی ہے، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو واقعی اللہ تعالیٰ ہی نے اپنا رسول مقرر کیا ہے، اور اُن پر اللہ ہی کی طرف سے یہ قرآن نازل ہو رہا ہے۔ ان دونوں قسم کے حقائق کی قسم کھا کر وہ بات کہی گئی ہے جو اوپر کی آیا ت میں ارشاد ہوئی ہے۔
25: اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ نبی کو اپنی طرف سے وحی میں کوئی کمی بیشی کر نے کا اختیار نہیں ہے، اور اگر وہ ایسا کرے تو ہم اس کو سخت سزا دیں۔ مگر اس بات کو ایسے انداز سے بیان کیا گیا ہے جس سے آنکھوں کے سامنے یہ تصویر کھینچ جاتی ہے کہ ایک بادشاہ کا مقرر کردہ افسر اُس کے نام سے کوئی جعلسازی کرے توبادشاہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اُس کا سر قلم کر دے۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ غلط استدلال کیا ہے کہ جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے، اُس کی رگِ دل یا رگِ گردن اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوراً نہ کاٹ ڈالی جائے تو یہ اُس کے نبی ہونے کا ثبوت ہے۔ حالانکہ اس آیت میں جو بات فرمائی گئی ہے وہ سچے نبی کے بارے میں ہے، نبوت کے جھوٹے مدعیوں کے بارے میں نہیں ہے۔ جھوٹے مدعی تو نبوت ہی نہیں خدائی تک کے دعوتے کرتے ہیں اور زمین پر مدتّوں دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ اُن کی صداقت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس مسئلے پر مفصل بحث ہم تفہیم القرآن، جلد دوم، تفسیر سورہ یونس حاشیہ ۲۳ میں کر چکے ہیں۔
26: یعنی قرآن اُن لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو غلط روی اور اُس کے بُرے نتائج سے بچنا چاہتے ہیں (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ۳)۔
27: یعنی آخر کار انہیں اس بات پر پچھتا نا پڑے گا کہ انہوں نے کیوں اس قرآن کی تکذیب کی۔