۱ ۔۔۔ جنوں کے وجود اور حقیقت پر حضرت شاہ عبدالعزیز نے سورہ ہذا کی تفسیر میں نہایت مبسوط و مفصل بحث کی ہے۔ اور عربی میں "اکام المر جان فی آحکام الجان" اس موضوع پر نہایت جامع کتاب ہے جس کو شوق ہو مطالعہ کرے۔ یہاں گنجائش نہیں کہ اس قسم کے مباحث درج کیے جائیں ۔
۲ ۔۔۔ سورہ "احقاف" میں گزر چکا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم صبح کی نماز میں قرآن پڑھ رہے تھے کئی جن ادھر کو گزرے اور قرآن کی آواز پر فریفتہ ہو کر سچے دل سے ایمان لے آئے۔ پھر اپنی قوم سے جا کر سب ماجرا بیان کیا۔ کہ ہم نے ایک کلام سنا ہے جو (اپنی فصاحت و بلاغت، حسن اسلوب، قوتِ تاثیر، شیریں بیانی، طرز موعظت اور علوم و مضامین کے اعتبار سے) عجیب و غریب ہے معرفت ربانی اور رشد و فلاح کی طرف رہبری کرتا ہے۔ اور طالب خیر کا ہاتھ پکڑ کر نیکی اور تقویٰ کی منزل پر پہنچا دیتا ہے اس لیے ہم سنتے ہی بلا توقف اس پر یقین لائے اور ہم کو کچھ شک و شبہ نہیں رہا کہ ایسا کلام اللہ کے سوا کسی کا نہیں ہو سکتا۔ اب ہم اس کی تعلیم و ہدایت کے موافق عہد کرتے ہیں کہ آئندہ کسی چیز کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ ان کے اس تمام بیان کی آخر تک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر وحی فرمائی۔ اس کے بعد بہت مرتبہ جن حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے آ کر ملے۔ ایمان لائے اور قرآن سیکھا۔
۳ ۔۔۔ یعنی جورو بیٹا رکھنا اس کی عظمت شان کے منافی ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ جو گمراہیاں آدمیوں میں پھیلی ہوئی تھیں وہ جنوں میں بھی تھیں (عیسائیوں کی طرح) اللہ کے جورو بیٹا بتاتے تھے۔
۴ ۔۔۔ یعنی ہم جو بیوقوف ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نسبت ایسی لغو باتیں اپنی طرف سے بڑھا کر کہتے تھے اور ان میں سب سے بڑا بیوقوف ابلیس ہے شاید خاص وہی اس جگہ لفظ "سفیہ" سے مراد ہو۔
۵ ۔۔۔ یعنی ہم کو یہ خیال تھا کہ اس قدر کثیر التعداد جن اور آدمی مل کر جن میں بڑے بڑے عاقل اور دانا بھی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی نسبت جھوٹی بات کہنے کی جرأت نہ کریں گے۔ یہی خیال کر کے ہم بھی بہک گئے اب قرآن سن کر قلعی کھلی اور اپنے پیشروؤں کی اندھی تقلید سے نجات ملی۔
۶ ۔۔۔ عرب میں یہ جہالت بہت پھیلی ہوئی تھی۔ جنوں سے غیب کی خبریں پوچھتے، ان کے نام کی نذر و نیاز کرتے چڑھاوے چڑھاتے۔ اور جب کسی قافلہ کا گزر یا پڑاؤ کسی خوفناک وادی میں ہوتا تو کہتے کہ اس حلقہ کے جنوں کا جو سردار ہے ہم اس کی پناہ میں آتے ہیں تاکہ وہ اپنے ماتحت جنوں سے ہماری حفاظت کرے۔ ان باتوں سے جن اور زیادہ مغرور ہو گئے اور سر چڑھنے لگے۔ دوسری طرف اس طرح کی شرکیات سے آدمیوں کے عصیان و طغیان میں بھی اضافہ ہوا جب انہوں نے خود اپنے اوپر جنوں کو مسلط کر لیا تو وہ ان کے اغوا میں کیا کمی کرتے۔ آخر قرآن نے آ کر ان خرابیوں کی جڑ کاٹی۔
۷ ۔۔۔ مسلمان جن یہ سب گفتگو اپنی قوم سے کر رہے ہیں ۔ یعنی جیسا تمہارا خیال ہے، بہت آدمیوں کا بھی یہی خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو ہرگز قبروں سے نہ اٹھائے گا۔ یا آئندہ کوئی پیغمبر مبعوث نہ کرے گا۔ جو رسول پہلے ہو چکے سو ہو چکے۔ اب قرآن سے معلوم ہوا کہ اس نے ایک عظیم الشان رسول بھیجا ہے جو لوگوں کو بتلاتا ہے کہ تم سب موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جاؤ گے اور رتی رتی کا حساب دینا ہو گا۔
۹ ۔۔۔ یعنی ہم اڑ کر آسمان کے قریب تک پہنچے تو دیکھا کہ آجکل بہت سخت جنگی پہرے لگے ہوئے ہیں جو کسی شیطان کو غیب کی خبر سُننے نہیں دیتے اور جو شیطان ایسا ارادہ کرتا ہے اس پر انگارے برستے ہیں اس سے پیشتر اتنی سختی اور روک ٹوک نہ تھی جن اور شیاطین آسمان کے قریب گھات میں بیٹھ کر ادھر کی کچھ خبر سن کر آیا کرتے تھے۔ مگر اب اس قدر سخت ناکہ بندی اور انتظام ہے کہ جو سننے کا ارادہ کرے فوراً شہاب ثاقب کے آتشیں گولے سے اس کا تعاقب کیا جاتا ہے۔ اس کی بحث پہلے سورہ "حجر" وغیرہ میں گزر چکی وہاں دیکھ لیا جائے۔
۱۰ ۔۔۔ یعنی یہ جدید انتظامات اور سخت ناکہ بندی خدا جانے کس غرض سے عمل میں آئی ہیں ۔ یہ تو ہم سمجھ چکے کہ قرآن کریم کا نزول اور پیغمبر عربی کی بعثت اس کا سبب ہوا لیکن نتیجہ کیا ہونے والا ہے؟ آیا زمین والے قرآن کو مان کر راہ پر آئیں گے اور اللہ ان پر الطاف خصوصی مبذول فرمائے گا؟ یا یہی ارادہ ٹھر چکا ہے کہ لوگ قرآنی ہدایات سے اعراض کرنے کی پاداش میں تباہ و برباد کیے جائیں ؟ اس کا علم اسی علام الغیوب کو ہے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔
۱۱ ۔۔۔ یعنی نزولِ قرآن سے پہلے بھی سب جن ایک راہ پر نہ تھے، کچھ نیک اور شائستہ تھے، اور بہت سے بدکار و ناہنجار، ان میں بھی فرقے اور جماعتیں ہوں گی۔ کوئی مشرک، کوئی عیسائی، کوئی یہودی وغیر ذلک۔ اور عملی طور پر ہر ایک کی راہِ عمل جدا ہو گی۔ اب قرآن آیا جو اختلافات اور تفرقوں کو مٹانا چاہتا ہے لیکن لوگ ایسے کہاں ہیں کہ سب کے سب حق کو قبول کر کے ایک راستہ پر چلنے لگیں ۔ لامحالہ اب بھی اختلاف رہے گا۔
۱۲ ۔۔۔ یعنی اگر ہم نے قرآن کو نہ مانا تو اللہ کی سزا سے بچ نہیں سکتے نہ زمین میں کسی جگہ چھپ کر، نہ ادھر اُدھر بھاگ کر، یا ہوا میں اڑ کر۔
۱۳ ۔۔۔ ۱: یعنی ہمارے لیے فخر کا موقع ہے کہ جنوں میں سب سے پہلے ہم نے قرآن سن کر بلا توقف قبول کیا اور ایمان لانے میں ایک منٹ کی دیر نہیں کی۔
۲: یعنی سچے ایماندار کو اللہ کے ہاں کوئی کھٹکا نہیں ۔ نہ نقصان کا کہ اس کی کوئی نیکی اور محنت یونہی رائیگاں چلی جائے۔ نہ زیادتی کا کہ زبردستی کسی دوسرے کے جرم اس کے سر تھوپ دیے جائیں ، غرض وہ نقصان، تکلیف اور ذلت و رسوائی سب سے مامون و محفوظ ہے۔
۱۵ ۔۔۔ یعنی نزولِ قرآن کے بعد ہم میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جنہوں نے اللہ کا پیغام سن کر قبول کیا اور اس کے احکام کے سامنے گردن جھکا دی۔ یہی ہیں جو تلاشِ حق میں کامیاب ہوئے۔ اور اپنی تحقیق و تفحص سے نیکی کے راستہ پر پہنچ گئے۔ دوسرا گروہ بے انصافوں کا ہے جو کجروی و بے انصافی کی راہ سے اپنے پروردگار کے احکام کو جھٹلاتا اور اس کی فرمانبرداری سے انحراف کرتا ہے۔ یہ وہ ہیں جن کو جہنم کا کندا اور دوزخ کا ایندھن کہنا چاہیے۔ (تنبیہ) یہاں تک مسلمان جنوں کا کلام نقل فرمایا جو انہوں نے اپنی قوم سے کیا۔ آگے حق تعالیٰ اپنی طرف سے چند نصیحت کی باتیں ارشاد فرماتے ہیں گویا "وَاَنْ لَّوِاسْتَقَامُوْا" الخ کا عطف "اَنَّہٗ اسَّتَمَعَ نَفَرٌمِّنَ الْجِنِّ" پر ہوا۔ مترجم محقق نے ترجمہ میں اور یہ "حکم آیا" کے الفاظ بڑھا کر بتلا دیا کہ یہاں سے اخیر تک "قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ" کے تحت میں داخل ہے۔
۱۷ ۔۔۔ ۱: یعنی اگر جن و انس حق کی سیدھی راہ پر چلتے تو ہم ان کو ایمان و طاعت کی بدولت ظاہری و باطنی برکات سے سیراب کر دیتے اور اس میں بھی ان کی آزمائش ہوتی کہ نعمتوں سے بہرہ ور ہو کر شکر بجا لاتے اور طاعت میں مزید ترقی کرتے ہیں یا کفرانِ نعمت کر کے اصل سرمایہ بھی کھو بیٹھتے ہیں ۔ بعض روایات میں ہے کہ اس وقت مکہ والوں کے ظلم و شرارت کی سزا میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دعاء سے کئی سال کا قحط پڑا تھا۔ لوگ خشک سالی سے پریشان ہو رہے تھے۔ اس لیے متنبہ فرما دیا کہ اگر سب لوگ ظلم و شرارت سے باز آ کر اللہ کے راستہ پر چلیں جیسے مسلمان جنوں نے طریقہ اختیار کیا ہے تو قحط دور ہو اور بارانِ رحمت سے ملک سرسبز و شاداب کر دیا جائے۔
۲: یعنی اللہ کی یاد سے منہ موڑ کر آدمی کو چین نصیب نہیں ہو سکتا۔ وہ تو ایسے راستہ پر چل رہا ہے جہاں پریشانی اور عذاب ہی چڑھتا چلا آتا ہے۔
۱۸ ۔۔۔ یوں تو خدا کی ساری زمین اس امت کے لیے مسجد بنا دی گئی ہے۔ لیکن خصوصیت سے وہ مکانات جو مسجدوں کے نام سے خاص عبادتِ الٰہی کے لیے بنائے جاتے ہیں ۔ ان کو اور زیادہ امتیاز حاصل ہے۔ وہاں جا کر اللہ کے سوا کسی ہستی کو پکارنا ظلم عظیم اور شرک کی بدترین صورت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خالص خدائے واحد کی طرف آؤ اور اس کا شریک کر کے کسی کو کہیں بھی مت پکارو خصوصاً مساجد میں جو اللہ کے نام پر تنہا اسی کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہیں ۔ بعض مفسرین نے "مساجد" سے مراد وہ اعضا لیے ہیں جو سجدہ کے وقت زمین پر رکھے جاتے ہیں ۔ اس وقت مطلب یہ ہو گا کہ یہ خدا کے دیے ہوئے اور اس کے بنائے ہوئے اعضاء ہیں ۔ جائز نہیں کہ ان کو اس مالک و خالق کے سوا کسی دوسرے کے سامنے جھکاؤ۔
۱۹ ۔۔۔ ۱: یعنی بندہ کامل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم۔
۲: یعنی آپ جب کھڑے ہو کر قرآن پڑھتے ہیں تو لوگ ٹھٹھ کے ٹھٹھ آپ پر ٹوٹے پڑتے ہیں ۔ مومنین تو شوق و رغبت سے قرآن سننے کی خاطر اور کفار عداوت و عناد سے آپ پر ہجوم کرنے کے لیے۔
۲۰ ۔۔۔ یعنی کفار سے کہہ دیجیے کہ تم مخالفت کی راہ سے بھیڑ کیوں کرتے ہو، کون سی بات ایسی ہے جس پر تمہاری خفگی ہے۔ میں کوئی بری اور نامعقول بات تو نہیں کہتا۔ صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کا شریک کسی کو نہیں سمجھتا۔ تو اس میں لڑنے جھگڑنے کی کون سی بات ہے اور اگر تم سب مل کر مجھ پر ہجوم کرنا چاہتے ہو تو یاد رکھو میرا بھروسہ اکیلے اسی خدا پر ہے جو ہر قسم کی شرکت سے پاک اور بے نیاز ہے۔
۲۱ ۔۔۔ یعنی میرے اختیار میں نہیں کہ تم کو بھی راہ پر لے آؤں ۔ اور نہ آؤ تو کچھ نقصان پہنچا دوں سب بھلائی برائی اور سود و زیاں اسی خدائے واحد کے قبضہ میں ہے۔
۲۲ ۔۔۔ یعنی تم کو نفع نقصان پہنچانا تو کجا، اپنا نفع و ضرر میرے قبضہ میں نہیں ۔ اگر بالفرض میں اپنے فرائض میں تقصیر کروں تو کوئی شخص نہیں جو مجھ کو اللہ کے ہاتھ سے بچا لے اور کوئی جگہ نہیں جہاں بھاگ کر پناہ حاصل کر سکوں ۔
۲۳ ۔۔۔ ۱: یعنی اللہ کی طرف سے پیغام لانا اور اس کے بندوں کو پہنچا دینا، یہی چیز ہے جو اس نے میرے اختیار میں دی اور یہی فرض ہے جس کے ادا کرنے سے میں اس کی حمایت اور پناہ میں رہ سکتا ہوں ۔
۲: یعنی تمہارے نفع نقصان کا مالک میں نہیں ۔ لیکن اللہ کی اور میرے نافرمانی کرنے سے نقصان پہنچنا ضروری ہے۔
۲ ۴ ۔۔۔ یعنی تم جو جتھے باندھ کر ہم پر ہجوم کرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اور اس کے ساتھی تھوڑے سے آدمی ہیں وہ بھی کمزور تو جب وعدہ کا وقت آئے گا اس وقت پتہ لگے گا کہ کس کے ساتھی کمزور اور گنتی میں تھوڑے تھے۔
۲۵ ۔۔۔ یعنی اس کا علم مجھے نہیں دیا گیا کہ وعدہ جلد آنے والا ہے، یا ایک مدت کے بعد۔ کیونکہ قیامت کا وقت معین کر کے اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں بتلایا۔ یہ ان غیوب میں سے ہے جو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
۲۷ ۔۔۔ یعنی اپنے بھید کی پوری خبر کسی کو نہیں دیتا۔ ہاں رسولوں کو جس قدر ان کی شان و منصب کے لائق ہو بذریعہ وحی خبر دیتا ہے۔ اس وحی کے ساتھ فرشتوں کے پہرے اور چوکیاں رکھی جاتی ہیں کہ کسی طرف سے شیطان اس میں دخل کرنے نہ پائے۔ اور رسول کا اپنا نفس بھی غلط نہ سمجھے۔ یہی معنی ہیں اس بات کے کہ پیغمبروں کو (اپنے علوم و اخبار میں ) عصمت حاصل ہے، اوروں کو نہیں ۔ انبیاء کی معلومات میں شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہیں ہوتی۔ دوسروں کو معلومات میں کئی طرح کے احتمال ہیں ۔ اسی لیے محققین صوفیہ نے فرمایا ہے کہ ولی اپنے کشف کو قرآن و سنت پر عرض کر کے دیکھے اگر ان کے مخالف نہ ہو تو غنیمت سمجھے۔ ورنہ بے تکلف رد کر دے۔
(تنبیہ) اس آیت کی نظیر آلِ عمران میں ہے۔ "وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآئٌ" اور کئی سورتوں میں علم غیب کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے وہیں ہم فوائد میں اس پر مفصل کلام کر چکے ہیں ۔ فلیر اجع۔
۲۸ ۔۔۔ ۱: یعنی یہ زبردست انتظامات اس غرض سے کیے جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دیکھ لے کہ فرشتوں نے پیغمبروں کو یا پیغمبروں نے دوسرے بندوں کو اس کے پیغامات ٹھیک ٹھیک بلا کم و کاست پہنچا دیے ہیں ۔
۲: یعنی ہر چیز اس کی نگرانی اور قبضہ میں ہے۔ کسی کی طاقت نہیں کہ وحی الٰہی میں تغیر و تبدل یا قطع و برید کر سکے۔ اور یہ پہرے چوکیاں بھی شانِ حکومت کے اظہار اور سلسلہ، اسباب کی محافظت کے لیے بہت سی حکمتوں پر مبنی ہیں ۔ ورنہ جس کا علم اور قبضہ ہر چیز پر حاوی ہو اس کو ان چیزوں کی کوئی احتیاج نہیں ۔ تم سورۃ الجن وللہ الحمد والمنۃ۔