۱ سورۂ مزّمّل مکّیہ ہے، اس میں دو ۲رکوع، بیس ۲۰آیتیں، دو سو پچاسی۲۸۵ کلمے، آٹھ سو اڑتیس ۸۳۸حرف ہیں۔
۲ یعنی اپنے کپڑوں سے لپٹنے والے۔ اس کے شانِ نزول میں کئی قول ہیں بعض مفسّرین نے کہا کہ ابتدائے زمانۂ وحی میں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم خوف سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے، ایسی حالت میں آپ کو حضرت جبریل نے یٰۤاَ یّھَُاالْمُزَّمِّلُ کہہ کر ندا کی۔ ایک قول یہ ہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم چادر شریف میں لپٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اس حالت میں آپ کو ندا کی گئی یٰۤاَ یّھَُاالْمُزَّمِّلُ بہرحال یہ ندا بتاتی ہے کہ محبوب کی ہر ادا پیاری ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ردائے نبوّت و چادرِ رسالت کے حامل و لائق۔
۴ یعنی تھوڑا حِصّہ آرام کے لئے ہو، باقی شب عبادت میں گزاریئے۔ اب وہ باقی کتنی ہو اس کی تفصیل آگے ارشاد فرمائی جاتی ہے۔
۵ مراد یہ ہے کہ آپ کو اختیار دیا گیا ہے کہ خواہ قیام نصف شب سے کم ہو یا نصف شب یا اس سے زیادہ ہو (بیضاوی) مراد اس قیام سے تہجّد ہے جو ابتدائے اسلام میں واجب و بقولے فرض تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور آپ کے اصحاب شب کو قیام فرماتے اور لوگ نہ جانتے کہ تہائی رات یا آدھی رات یا دو تہائی رات کب ہوئی تو وہ تمام شب قیام میں رہتے اور صبح تک نمازیں پڑھتے، اس اندیشہ سے کہ قیام قدرِ واجب سے کم نہ ہو جائے یہاں تک کہ ان حضرات کے پاؤں سوج جاتے تھے، پھر یہ حکم ایک سال کے بعد منسوخ ہو گیا اور اس کا ناسخ بھی اسی سورت میں ہے فَاقْرَءُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ۔
۶ رعایتِ وقوف اور ادائے مخارج کے ساتھ اور حروف کو مخارج کے ساتھ تا بہ امکانِ صحیح ادا کرنا نماز میں فرض ہے۔
۷ یعنی نہایت جلیل و با عظمت۔ مراد اس سے قرآنِ مجید ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ معنیٰ یہ ہیں کہ ہم آپ پر قرآن نازل فرمائیں گے جس میں اوامر، نواہی اور تکالیفِ شاقّہ ہیں جو مکلّفین پر بھاری ہوں گے۔
۱۰ کیونکہ وہ وقت سکون و اطمینان کا ہے، شور و شغب سے امن ہوتی ہے، اخلاص تام و کامل ہوتا ہے، ریاء و نمائش کا موقع نہیں ہوتا۔
۱۱ شب کا وقت عبادت کے لئے خوب فراغت کا ہے۔
۱۲ رات و دن کے جملہ اوقات میں تسبیح، تہلیل، نماز، تلاوتِ قرآن شریف، درسِ علم وغیرہ کے ساتھ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اپنی قرأت کی ابتداء میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھو۔
۱۳ یعنی عبادت میں انقطاع کی صفت ہو کہ دل اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی طرف مشغول نہ ہو، سب علاقہ قطع ہو جائیں، اسی کی طرف توجہ رہے۔
۱۴ اور اپنے کام اسی کی طرف تفویض کرو۔
۱۵ وھٰذَامَنْسُوْخ بِآ یَۃِ الْقِتَالِ۔
۱۸ ان کے لئے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تکذیب کی۔
۲۰ سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۲۱ مومن کے ایمان اور کافر کے کفر کو جانتے ہیں۔
۲۵ یعنی قیامت کے دن جو نہایت ہولناک ہو گا۔
۲۸ تمہارے اصحاب کی، وہ بھی قیامِ لیل میں آپ کا اتباع کرتے ہیں۔
۲۹ اور ضبطِ اوقات نہ کر سکو گے۔
۳۰ یعنی شب کا قیام معاف فرمایا۔ مسئلہ : اس آیت سے نماز میں مطلق قراء ت کی فرضیّت ثابت ہوئی۔
مسئلہ : اقل درجۂ قراء ت مفروض ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں ہیں۔
۳۱ یعنی تجارت یا طلبِ علم کے لئے۔
۳۲ ان سب پر رات کا قیام دشوار ہو گا۔
۳۳ اس سے پہلا حکم منسوخ کیا گیا اور یہ بھی پنج گانہ نمازوں سے منسوخ ہو گیا۔
۳۴ یہاں نماز سے فرض نمازیں مراد ہیں۔
۳۵ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اس قرض سے مراد زکوٰۃ کے سوا راہِ خدا میں خرچ کرنا ہے، صلہ رحمی میں اور مہمان داری میں اور یہ بھی کہا گیا کہ اس سے تمام صدقات مراد ہیں جنہیں اچھی طرح مالِ حلال سے خوش دِلی کے ساتھ راہِ خد امیں خرچ کیا جائے۔