۱ سورۂ مرسلات مکّیہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، پچاس۵۰ آیتیں، ایک سو اسّی۱۸۰ کلمے، آٹھ سو سولہ۸۱۶ حرف ہیں۔ شانِ نزول : حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ والمرسلات شبِ جنّ میں نازل ہوئی، ہم سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی رکابِ سعادت میں تھے، جب مِنیٰ کے غار میں پہنچے والمرسلات نازل ہوئی، ہم حضور سے اس کو پڑھتے تھے اور حضور اس کی تلاوت فرماتے تھے، اچانک ایک سانپ نے جست کی، ہم اس کو مارنے کے لئے لپکے، وہ بھاگ گیا، حضور نے فرمایا تم اس کی برائی سے بچائے گئے، وہ تمہاری برائی سے، یہ غار مِنیٰ میں غارِ والمرسلات کے نام سے مشہور ہے۔
۲ ان آیتوں میں جو قَسمیں مذکور ہیں وہ پانچ صفات ہیں جن کے موصوفات ظاہر میں مذکور نہیں اسی لئے مفسّرین نے ان کی تفسیر میں بہت وجوہ ذکر کئے ہیں بعض نے یہ پانچوں صفتیں ہواؤں کی قرار دی ہیں، بعض نے ملائکہ کی، بعض نے آیاتِ قرآن کی، بعض نے نفوسِ کاملہ کی جو استکمال کے لئے ابدان کی طرف بھیجے جاتے ہیں، پھر وہ ریاضتوں کے جھونکوں سے ماسوائے حق کو اڑا دیتے ہیں، پھر تمام اعضا ء میں اس اثر کو پھیلاتے ہیں، پھر حق بالذات اور باطل فی نفسہٖ میں فرق کرتے ہیں اور ذاتِ الٰہی کے سوا ہر شے کو ہالک دیکھتے ہیں، پھر ذکر کا القاء کرتے ہیں اس طرح کہ دلوں میں اور زبانوں پر اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی ہوتا ہے اور ایک وجہ یہ ذکر کی ہے کہ پہلی تین صفتوں سے ہوائیں مراد ہیں اور باقی دو سے فرشتے۔ اس تقدیر پر معنیٰ یہ ہیں کہ قَسم ان ہواؤں کی جو لگاتار بھیجی جاتی ہیں پھر زور سے جھونکے دیتی ہیں ان سے مراد عذاب کی ہوائیں ہیں۔ (خازن و جمل وغیرہ)
۳ یعنی وہ رحمت کی ہوائیں جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں۔ اس کے بعد جو صفتیں مذکور ہیں وہ قولِ اخیر پر جماعاتِ ملائکہ کی ہیں۔ ابنِ کثیر نے کہا کہ فارقات و ملقیات سے جماعاتِ ملائکہ مراد ہونے پر اجماع ہے۔
۴ انبیاء و مرسلین کے پاس وحی لا کر۔
۵ یعنی بعث و عذاب اور قیامت کے آنے کا۔
۶ کہ اس کے ہونے میں کچھ بھی شک نہیں۔
۷ کہ وہ امّتوں پر گواہی دینے کے لئے جمع کئے جائیں۔
۸ اور اس کے ہول و شدّت کا کیا عالَم ہے۔
۹ جو دنیا میں توحید و نبوّت اور روزِ آخرت اور بعث و حساب کے منکِر تھے۔
۱۰ دنیا میں عذاب نازل کر کے جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔
۱۱ یعنی جو پہلی امّتوں کے مکذِّبین کی راہ اختیار کر کے سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تکذیب کرتے ہیں انہیں بھی پہلوں کی طرح ہلاک فرمائیں گے۔
۱۴ وقتِ ولادت تک جس کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
۱۶ کہ زندے اس کی پشت پر جمع رہتے ہیں اور مردے اس کے بطن میں۔
۱۸ زمین میں چشمے اور منبع پیدا کر کے یہ تمام باتیں مُردوں کو زندہ کرنے سے زیادہ عجیب ہیں۔
۱۹ اور روزِ قیامت کافروں سے کہا جائے گا کہ جس آگ کا تم انکار کرتے تھے اس کی طرف جاؤ۔
۲۱ اس سے جہنّم کا دھواں مراد ہے جو اونچا ہو کر تین شاخیں ہو جائے گا ایک کُفّار کے سروں پر ایک ان کے دائیں اور ایک ان کے بائیں اور حساب سے فارغ ہونے تک انہیں اسی دھوئیں میں رہنے کا حکم ہو گا جب کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے اس کے عرش کے سایہ میں ہوں گے۔ اس کے بعد جہنّم کے دھوئیں کی شان بیان فرمائی جاتی ہے کہ وہ ایسا ہے کہ۔
۲۲ جس سے اس دن کی گرمی سے کچھ امن پا سکیں۔
۲۵ نہ کوئی ایسی حجّت پیش کر سکیں گے جو انہیں کام دے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ روزِ قیامت بہت سے موقع ہوں گے بعض میں کلام کریں گے بعض میں کچھ بول نہ سکیں گے۔
۲۶ اور درحقیقت ان کے پاس کوئی عذر ہی نہ ہو گا کیونکہ دنیا میں حجّتیں تمام کر دی گئیں اور آخرت کے لئے کوئی جائے عذر باقی نہیں رکھی گئی، البتہ انہیں یہ خیالِ فاسد آئے گا کہ کچھ حیلے بہانے بنائیں، یہ حیلے پیش کرنے کی اجازت نہ ہو گی۔ جنید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس کو عذر ہی کیا ہے جس نے نعمت دینے والے سے رو گردانی کی اس کی نعمتوں کو جھٹلایا اس کے احسانوں کی نا سپاسی کی۔
۲۷ اے سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تکذیب کرنے والو۔
۲۸ جو تم سے پہلے انبیاء کی تکذیب کرتے تھے تمہارا، ان کا، سب کا حساب کیا جائے گا اور تمہیں، انہیں، سب کو عذاب کیا جائے گا۔
۲۹ اور کسی طرح اپنے آپ کو عذاب سے بچا سکو تو بچا لو، یہ انتہا درجہ کی توبیخ ہے کیونکہ یہ تو وہ یقینی جانتے ہوں گے کہ نہ آج کوئی مَکَر چل سکتا ہے نہ کوئی حیلہ کام دے سکتا ہے۔
۳۰ جو عذابِ الٰہی کا خوف رکھتے تھے جنّتی درختوں کے۔
۳۱ اس سے لذّت اٹھاتے ہیں۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اہلِ جنّت کو ان کے حسبِ مرضی نعمتیں ملیں گی بخلاف دنیا کے کہ یہاں آدمی کو جو میسّر آتا ہے اسی پر راضی ہونا پڑتا ہے اور اہلِ جنّت سے کہا جائے گا۔
۳۲ لذیذ خالص جس میں ذرا بھی تنغُّص کا شائبہ نہیں۔
۳۳ ان طاعات کا جو تم دنیا میں بجا لائے تھے۔
۳۴ اس کے بعد تہدید کے طور پر کفّار کو خطاب کیا جاتا ہے کہ اے دنیا میں تکذیب کرنے والو تم دنیا میں۔
۳۶ کافر ہو دائمی عذاب کے مستحق ہو۔
۳۸ یعنی قرآن شریف کُتُبِ الٰہیہ میں سب سے آخر کتاب ہے اور بہت ظاہر معجزہ ہے اس پر ایمان نہ لائے تو پھر ایمان لانے کی کوئی صورت نہیں۔