تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ المُرسَلات

نام

پہلی آیت کے لفظ والمُرسَلٰتِ کو اس  سورۃ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ زمانۂ نزول     اس سورۃ کا پُورا مضمون یہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ  مکہ معظمہ کے ابتدائی دَور میں  نازل ہوئی ہے۔  اس سے پہلے کی دو سُورتیں   سورۂ قیامہ، اور سورہ دہر، اور اس کے بعد کی دو سورتیں،  سورہ نبأ اور سورۂ نازِعات اگر ملا کر پڑھی جائیں  تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک ہی دور کی نازل شدہ سورتیں  ہیں  اور ایک ہی مضمون ہے جس کو اِن میں  مختلف پیرایوں  سے اہل مکہ ذہن نشین کرایا گیا ہے۔ موضوع اور مضمون      اس   کا موضوع قیامت اور آخرت کا اثبات،  اور اُن نتائج سے لوگوں  کو خبر دار کرنا ہے جو اِن حقائق کے انکار اور اقرار سے آخر کار بر آمد ہوں گے۔

پہلی سات آیتوں  میں  ہواؤں  کے انتظام کو اِس حقیقت پر گواہ قرار دیا گیا ہے کہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم جس قیامت کے آنے کی خبر دے رہے ہیں  وہ ضرور واقع ہو کر رہے گی۔ ان میں  استدلال یہ ہے کہ جس قادرِ  مطلق نے زمین پر یہ حیرت انگیز انتظام قائم کیا ہے اُس کی قدرت قیامت بر پا کرنے سے عاجز نہیں  ہو سکتی، اور جو صریح حکمت اِس انتظام میں  کار فرما نظر آ رہی ہے وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ آخرت ضرور ہونی چاہیے،  کیونکہ حکیم کا کوئی فعل عبث اور بے مقصد نہیں  ہو سکتا،  اور آخرت نہ ہو تو اِس کے معنی یہ ہیں  کہ یہ سارا کارخانہ ہستی سراسر فضول ہے۔

اہلِ مکہ بار بار کہتے تھے کہ جس قیامت سے تم ہم کو ڈرا رہے ہو اسے لا کر دکھاؤ تب ہم اسے مانیں  گے۔  آیت ۸ سے ۱۵ تک اُن کے اِس مطالبے کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے کہ وہ کوئی کھیل یا تماشا تو نہیں  ہے کہ جب کوئی مسخر ا اسے دکھانے کا مطالبہ کر ے اسی وقت وہ فوراً دکھا دیا جائے۔  وہ تو تمام نوعِ انسانی، اور س کے تمام افراد کے مقدمے کے فیصلے کا دن ہے۔  اُس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص وقت مقرر کر رکھا ہے۔  اُسی وقت پر وہ آئے گا۔ اور جب آئے گا تو ایسی ہولناک شکل میں  آئے گا کہ آج جو لوگ مذاق کے طور پر اس کا مطالبہ کر رہے ہیں  اس وقت اُن کے حواس باختہ ہو جائیں  گے۔  اُس وقت اُنہی رسولوں  کی شہادت پر ان کے مقدمے کا فیصلہ ہو گا جن کی دی ہوئی خبر کو یہ منکرین آج بڑی بے باکی کے ساتھ جھُٹلا رہے ہیں،  پھر انہیں  خود پتہ چل جائے گا کہ انہوں  نے کس طرح خود اپنے ہاتھوں  اپنی تباہی کا سامان کیا ہے۔

آیت ۱۶ سے ۲۸ تک مسلسل قیامت اور آخرت کے وقوع اور وجوب کے دلائل دیے گئے ہیں۔  ان میں  بتایا گیا ہے کہ انسان کی اپنی تاریخ، اس کی اپنی پیدائش،  اور جس زمین پر  وہ زندگی بسر کر رہا ہے اس کی اپنی ساخت اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ قیامت کا آنا اور عالمِ آخرت کا بر پا ہو نا  ممکن بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا بھی۔  انسانی تاریخ بتا رہی ہے کہ جن قوموں  نے بھی آخرت کا انکار کیا وہ آخر کار بگڑیں  اور تباہی سے دو چار ہوئیں۔  اس کے معنی یہ ہیں  کہ آخرت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی قوم کا رویہ اگر متصادم ہو تو اُس کا انجام وہی ہوتا ہے جو اُس اندھے کا انجام ہوتا ہے جو سامنے آتی ہوئی گاڑی کے مقابلے میں  بگ ٹُٹ چلا رہا ہو۔ اور اس کے معنی یہ بھی ہیں  کہ کائنات کی سلطنت میں  صرف قوانین طبیعی (Physical Law) ہی کار فرما نہیں  ہیں  بلکہ ایک قانونِ اخلاقی (Moral Law) بھی کام کر رہا ہے جس کے تحت خود اس دنیا میں   بھی مُکافاتِ  عمل کا سلسلہ جاری ہے۔  لیکن دنیا کی موجودہ زندگی میں  یہ مُکافات  چونکہ اپنی کامل و مکمل صورت میں  واقع نہیں  ہو رہی ہے اس لیے کائنات کا اخلاقی قانون لازماً یہ تقاضا کرتا ہے کہ کوئی وقت ایسا آئے جب یہ بھر پُور طریقے سے واقع ہو اور اُن تمام بھلائیوں  اور بُرائیوں  کی پُوری جزا وسزا دی جائے جو یہاں  جزا سے محروم رہ گئی ہیں  یا سزا سے بچ نکلی ہیں ۔  اس کے لیے  نا گزیر ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی ہو، اور انسان  کی پیدائش دنیا میں   جس طرح ہوتی ہے اس پر اگر انسان غور کرے تو اس کی عقل۔۔۔۔بشرطیکہ وہ سلیم ہو۔۔۔۔ اس بات کو ماننے سے انکار نہیں  کر سکتی کہ جس خدا نے یک حقیر نطفہ سے ابتداء کر کے اُسے پُورا آدمی بنایا ہے اُس کے لیے اُسی آدمی کو پھر پید کر دینا یقیناً ممکن ہے۔  زندگی بھر انسان جس زمین پر رہتا ہے،  مرنے کے بعد اس کے اجزائے جسم کہیں  غائب نہیں  ہو جاتے،  اسی زمین پر اُن کا ایک ایک ذرہ موجود رہتا ہے۔  اسی زمین کے خزانوں  سے وہ بنتا اور پھلتا اور پھولتا اور پر ورش پاتا ہے،  اور پھر اسی زمین کے خزانوں  میں  واپس جمع ہو جا تا ہے۔  جس خدا نے اُسے پہلے زمین کے ان خزانوں  سے نکالا  تھا وہی اُن میں  جمع ہو جانے کے بعد اُسے پھر اُن سے نکال لا سکتا ہے۔  اُس کی قدرت پر غور کرو تو تم اِس سے انکار نہیں  کر سکتے کہ وہ ایسا کر سکتا ہے۔  اور اس کی حکمت پر غور کرو تو تم اس سے بھی انکار نہیں  کر سکتے کہ زمین پر جو اختیارات اُس نے تمہیں  دیے ہیں  اُن کے صحیح اور غلط استعمال کا حساب لینا یقیناً اُس کی حکمت کا تقاضا ہے اور بلا حساب چھوڑ دینا سراسر حکمت کے خلاف ہے۔

اس کے بعد آیات۲۸تا۴۰ تک آخرت کے منکرین کا، اور ۴۱ سے ۴۵ تک اُن لوگوں  کا انجام بیان کیا گیا ہے جنہوں  نے اُس پر ایمان لا کر دنیا میں  اپنی عاقبت سنوارنے کی کوشش کی ہے،  اور عقائد و افکار، اخلاق و اعمال، اور سیرت و کردار کی اُن بُرائیوں  سے اجتناب کیا ہے  جو چاہے  آدمی کی دنیا بناتی ہوں  مگر اس کی عاقبت خراب کر دینے والی ہوں۔

          آخر میں  منکرینِ  آخرت اور خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والوں  کو متنبہ کیا گیا ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں  جو کچھ مزے اڑانے  ہیں  اڑا لو، آخر کار تمہارا انجام سخت تباہ کن ہو گا۔ اور بات اس پر ختم کی گئی ہے کہ اس قرآن سے بھی جو شخص ہدایت نہ پائے اسے پھر دنیا میں  کوئی چیز ہدایت نہیں  دے سکتی۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
 قسم ہے اُن (ہواؤں ) کی جو پے درپے بھیجی جاتی ہیں،  پھر طوفانی رفتار سے چلتی ہیں  اور (بادلوں  کو )اُٹھا کر پھیلاتی ہیں،  پھر ( اُن کو)پھاڑ کر جُدا کرتی ہیں،  پھر (دلوں  میں  خدا کی)یاد ڈالتی ہیں،  عُذر کے طور پر یا ڈراوے کے طور پر، 1 جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے 2 وہ ضرور واقع ہونے والی ہے۔  3
پھر جب ستارے ماند پڑ جائیں  گے،  4 اور آسمان پھاڑ دیا جائے گا، 5 اور پہاڑ دھُنَک ڈالے جائیں  گے،  اور رسُولوں  کی حاضری کا وقت آ پہنچے گا 6 (اس روز وہ چیز واقع ہو جائے گی)۔ کِس روز کے لیے کام اُٹھا رکھا گیا ہے ؟ فیصلے کے روز کے لیے۔  اور تمہیں  کیا خبر کہ وہ فیصلے کا دن کیا ہے ؟ تباہی ہے اُس دن جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  7
کیا ہم نے اگلوں  کو ہلاک نہیں  کیا؟ 8 پھر اُنہی کے پیچھے ہم بعد والوں  کو چلتا کریں  گے۔  10 مجرموں  کے ساتھ ہم یہی کچھ کیا کرتے ہیں۔  تباہی ہے اُس دن جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  11
کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں  پیدا نہیں  کیا اور ایک مقرر مدت تک12 اُسے ایک محفوظ جگہ ٹھہرائے رکھا؟ تو دیکھو، ہم اِس پر قادر تھے،  پس ہم بہت اچھی قدرت رکھنے والے ہیں ۔  13 تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  14
کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں  بنایا، زندوں  کے لیے بھی اور مُردوں  کے لیے بھی، اور اس میں  بلند و بالا پہاڑ جمائے،  اور تمہیں  میٹھا پانی پلایا؟ 15 تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  16
17 چلو اب اُسی چیز کی طرف جسے تم جھُٹلایا کرتے تھے۔  چلو اُس سائے کی طرف جو تین شاخوں  والا ہے،  18 نہ ٹھنڈک پہنچانے والا اور نہ آگ کی لَپَٹ سے بچانے والا۔ وہ آگ محل جیسی بڑی بڑی چِنگاریاں  پھینکے گی(جو اُچھلتی ہوئی یُوں  محسُوس ہوں  گی) گویا کہ وہ زرد اُونٹ ہں۔ ۔ 19 تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں  کے لیے۔
یہ وہ دن ہے جس میں  وہ نہ کچھ بولیں  گے اور نہ اُنہیں  موقع دیا جائے گا کہ کوئی عُذر پیش کریں۔  20 تباہی ہے اُس دن جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  یہ فیصلے کا دن ہے۔  ہم نے تمہیں  اور تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں  کو جمع کر دیا ہے۔  اب اگر کوئی چال تم چل سکتے ہو تو میرے مقابلہ میں  چل دیکھو۔ 21 تباہی ہے اُس دن جھُٹلانے والوں  کے لیے۔   ؏۱

 

1: یعنی کبھی تو ان کی آمد کے رُکنے اور قحط کا خطرہ پیدا ہونے ے دل گداز ہوتے ہیں  اور لوگ اللہ سے تو بہ و استغفار کرنے لگتے ہیں۔  کبھی اُن کے باران رحمت لانے پر لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔  اور کبھی ان کی طوفانی سختی دلوں  میں  خوف پیدا کرتی ہے اور تباہی کے ڈر سے لوگ خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ (نیز  ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر ۳۔صفحہ ۵۷۹)۔

2: دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا  ہے کہ ’’جس چیز کا تمہیں  خوف دلایا جا رہا ہے ‘‘۔ مراد ہے قیامت اور آخرت۔

3: یہاں  قیامت کے ضرور واقع ہونے پر پانچ چیزوں  کی قسم کھائی  گئی ہے۔  ایک  اَلْمُرْ سَلٰتِ عُرْفًا ’’پے در پے،  یا بھلائی کے طور پر بھیجی جانے والیاں ‘‘۔ دوسرے۔  العَاصِفَاتِ عَصْفًا۔’’بہت تیزی اور شدّت کے ساتھ چلنے والیاں ‘‘۔ تیسرے،  اَلنَّا شِرَاتِ نَشْرًا۔’’ خوب پھیلانے والیاں ‘‘۔ چوتھے،  اَلفَارِ تَاتِ فَرْقًا۔’’الگ الگ کرنے والیاں ‘‘۔ پانچویں، اَلْمُلْقِیَاتِ ذِکْرًا۔’’ یاد کا اِتقا کرنے والیاں ‘‘۔ چونکہ اِن الفاظ میں  صرف  صفات بیان کی گئی ہیں،  اور یہ صراحت نہیں  کی گئی ہے کہ یہ کس چیز یا کن چیزوں  کی صفات ہیں،  اس لیے  مفسرین کے درمیان اس امر میں  اختلاف ہوا ہے کہ آیا یہ پانچوں  صفات ایک  ہی چیز کی ہیں،  یا الگ الگ چیزوں  کی، اور وہ چیز یا چیزیں  کیا ہیں۔   ایک وہ گروہ  کہتا ہے کہ پانچوں  سے مراد ہوائیں  ہیں۔  دوسرا کہتا ہے پانچوں  سے مراد فرشتے ہیں۔  تیسرا کہتا ہے پہلے تین سے مراد ہوائیں  ہیں  اور باقی دوسے مراد فرشتے۔  چوتھا کہتا ہے کہ پہلے دو سے مراد ہوائیں  اور باقی تین سے مراد فرشتے ہیں۔  اور ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ پہلے سے مراد ملائکہ رحمت، دورے سے مراد ملائکہ عذاب اور باقی تین سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں۔  ہمارے نزدیک پہلی بات تو قابلِ غور ہے جب ایک ہی سلسلہ کلام میں  پانچ صفات کا مسلسل ذکر کیا گیا ہے اور کوئی علامت بیچ میں  ایسی نہیں  پائی جاتی جس سے یہ سمجھا جا سکے کہ کہاں  تک ایک چیز کی صفات کا ذکر ہے اور کہاں  سے دوسری چیز کی صفات کا ذکر شروع ہوا ہے،  تو یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ محض کسی بے بنیا د قیاس کی بنا پر ہم یہ سمجھ لیں  کہ یہاں  دو یا تین مختلف چیزوں  کی قسمیں  کھائی گئی ہیں،  بلکہ اس صور ت میں  نظمِ کلام خود اس بات کا  تقاضا کرتا ہے کہ پوری عبارت کو کسی ایک ہی چیز کی صفات سے متعلق مانا جائے۔  دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں  جہاں  بھی شک یا انکار کرنے والوں  کو کسی حقیقتِ غیب محسوس کا یقین دلانے کے لیے کسی چیز،  یا بعض چیزوں  کی قسم کھائی گئی ہے وہاں  قسم د اصل استدلال کی ہم معنی ہوتی ہے،  یعنی اس سے مقصود یہ  بتانا ہوتا ہے کہ یہ چیز یا چیزیں   اس حقیقت کے صحیح و بر حق ہونے پر دلالت کر رہی ہے۔  اس غرض کے لیے ظاہر ہے کہ ایک غیر مخصوص شے کے حق میں  کسی دوسری  غیر محسوس شے کو بطورِ استدلال پیش کرنا درست نہیں  ہو سکتا، بلکہ غیر محسوس پر محسوس سے دلیل لانا ہی موزوں  اور منا سب ہو سکتا ہے۔  اس لیے ہماری رائے میں  صحیح تفسیر یہی ہے کہ اس سے مراد ہوائیں  ہیں،  اور ان لوگوں  کی تفسیر قابلِ قبول نہیں  ہیں  جنہوں  نے ان پانچوں  چیزوں  سے مراد فرشتے لیے ہیں،  کیونکہ وہ بھی اسی طرح غیر محسوس ہیں  جس طرح قیامت کا وقوع غیر محسوس ہے۔             اب غور کیجیے کہ قیامت کے وقوع  پر ہواؤں  کی یہ کیفیات کس طرح دلالت کرتی ہیں۔  زمین پر جن اسباب سے حیوانی اور نباتی زندگی ممکن ہوئی ہے ان میں  سے ایک نہایت اہم سبب ہوا ہے۔  ہر نوع کی زندگی سے  اس کی صفات کا جو تعلق ہے وہ بجائے خود اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی قادرِ مطلق اور صانِع حکیم ہے جس نے اس کُرہ خاکی پر زندگی کو وجود میں  لانے کا ارادہ کیا اور اس غرض کے لیے یہاں  ایک ایسی چیز پیدا کی جس کی صفات زندہ  مخلوقات کے وجود کی ضروریات کے ساتھ ٹھیک ٹھیک مطابقت رکھتی ہیں۔  پھر اس نے صرف اتنا ہی نہیں  کیا ہے کہ زمین کو ہوا کا ایک لبادہ اوڑھا کر  چھوڑ دیا ہو، بلکہ اپنی قدرت اور حکمت سے اس ہوا میں  اس نے بے شمار مختلف کیفیات پیدا کی ہیں  جن کا انتظام لاکھوں  کروڑوں  برس سے اس طرح ہو رہا ہے کہ  انہی کی بدولت موسم پیدا ہوتے ہیں،  کبھی حبس ہوتا ہے اور کبھی بادِ نسیم چلتی ہے،  کبھی گرمی آتی ہے اور کبھی سردی،  کبھی بادل آتے ہیں  اور کبھی آتے ہوئے اڑ جاتے ہیں،  کبھی نہایت خوشگوار جھونکے چلتے ہیں  اور کبھی انتہائی تباہ کن طوفان آ جاتے ہیں،  کبھی نہایت نفع بخش  بارش ہوتی ہے اور کبھی کال  پڑ جاتا ہے۔  غرض ایک ہوا نہیں  بلکہ طرح طرح کی ہوائیں  ہیں  جو اپنے اپنے وقت پر چلتی  ہیں  اور ہر ہوا کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرتی ہیں۔  یہ انتظام ایک غالب قدرت کا ثبوت ہے جس کے لیے نہ زندگی کو وجود میں  خارج از امکان ہو سکتا ہے،  نہ اسے مٹا دینا،  اور نہ مٹا کر دوبارہ وجود میں  لے آنا۔ اسی طرح یہ انتظام کمال درجہ حکمت و دانائی کا ثبوت بھی ہے،  جس سے صرف ایک نادان آدمی ہی یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ یہ سارا کاروبار محض کھیل کے طور پر کیا جا رہا ہو اور اس کا کوئی عظیم تر مقصد نہ ہو۔ اس حیرت انگیز انتظام کے مقابلے میں   انسان اتنا بے بس ہے کہ کبھی  وہ نہ  اپنے لیے مفید طالب ہوا چلا سکتا ہے نہ اپنے اوپر ہلاکت خیز ہوا کا طوفان آنے کو روک سکتا ہے۔  وہ خواہ کتنی ہی ڈھٹائی اور بے شعوری اور ضد اور ہٹ دھرمی کلام لے،  کبھی نہ کبھی  یہی ہوا اس کو یاد دلا دیتی ہے کہ اوپر کوئی زبر دست اقتدار کار فرما ہے جو زندگی کے اس سب سے بڑے ذریعہ کو جب چاہے اس کے لیے رحمت اور جب چاہے ہلاکت کا سبب بنا سکتا ہے،  اور انسان اس کے کسی فیصلے کو بھی روک دینے کی طاقت نہیں  رکھتا۔  )مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، الجا ثیہ، حاشیہ، ۷۔حواشی ۱ تا۴)۔

4: یعنی  بے نور ہو جائیں  گے اور ان کی روشنی ختم ہو جائے گی۔

5: ُحکَم پکّی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں۔  ’’آیاتِ محکمات‘‘ سے مراد وہ آیات  ہیں،  جن کی زبان بالکل صاف ہے،  جن کا مفہوم متعین کرنے میں  کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں  ہے،  جن کے الفاظ معنی و مدّعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں،  جنہیں  تاویلات کا تختۂ    مشق بنانے کا موقع مشکل ہی سے کسی کو مِل سکتا ہے۔  یہ آیات ’’کتاب کی اصل بنیاد ہیں ‘‘، یعنی قرآن جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے،  اُس غرض کو یہی آیتیں  پُورا کرتی ہیں۔  اُنہی میں  اسلام کی طرف دُنیا کی دعوت دی گئی ہے،  اُنہی میں  عبرت اور نصیحت کی باتیں  فرمائی گئی ہیں،  اُنہی میں  گمراہیوں  کی تردید اور راہِ راست کی توضیح کی گئی ہے۔  اُنہی میں  دین کے بُنیادی اُصُول بیان کیے گئے ہیں۔  اُنہی میں  عقائد،  عبادات، اخلاق،  فرائض اور امر و نہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں۔  پس جو شخص طالبِ حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کی طرف رُجوع کرنا چاہتا ہو کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ پر نہ چلے،  اس کی پیاس بُجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں  اور فطرةً اُنہی پر اس کی توجہ مرکوز ہو گی اور وہ زیادہ تر اُنہی سے فائدہ اُٹھانے میں  مشغول رہے گا۔

6: قرآن کریم میں  متعدد مقامات پر یہ بات بیان کی گئ ہے کہ میدانِ حشر میں  جب نوعِ انسانی کا مقدمہ پیش ہو گا تو ہر قوم کے رسول کو شہادت کے لیے پیش کیا جائے گا تا کہ وہ اِس امر کی گواہی دے کہ اُ س نے اللہ کا پیغام اُن لوگوں  تک پہنچا دیا تھا۔ یہ گمراہوں  اور مجرموں  کے خلاف اللہ کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی حجّت ہو گی جس سے یہ ثابت کیا جائے گا کہ وہ اپنی غلط روش کے خود ذمہ دار ہیں  ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو خبردار کرنے میں  کوئی کسر اٹھا نہیں  رکھی گئی تھی۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں  : تفہیم القرآن،  جلد دو۔، الاعراف، آیات ۱۷۲، ۱۷۳۔ حواشی ۱۳۵، ۱۳۴۔جلد چہارم، الزُمر، آیت۶۹، حاشیہ ۸۰۔ جلد ششم، الملک، آیت۸، حاشیہ۱۴۔

7: یعنی کبھی تو ان کی آمد کے رُکنے اور قحط کا خطرہ پیدا ہونے ے دل گداز ہوتے ہیں  اور لوگ اللہ سے تو بہ و استغفار کرنے لگتے ہیں۔  کبھی اُن کے باران رحمت لانے پر لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔  اور کبھی ان کی طوفانی سختی دلوں  میں  خوف پیدا کرتی ہے اور تباہی کے ڈر سے لوگ خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ (نیز ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر ۳۔صفحہ ۵۷۹)۔

8: یہ آخرت کے حق میں  تاریخی استدلال ہے۔  مطلب یہ ہے کہ خود اِسی دنیا میں  اپنی تاریخ کو دیکھ لو۔ جن قوموں  نے بھی آخرت کا انکار کر کے اِسی دنیا کو اصل زندگی سمجھا اور اسی دنیا میں  ظاہر ہونے والے نتائج کو خیر و شر کا معیار سمجھ کر اپنا اخلاقی رویّہ متعیّن کیا، بلا استثناء وہ سب آخر کار تباہ ہو کر رہیں۔  یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آخرت فی الواقع ایک حقیقت ہے جسے نظر انداز کر کے کام کرنے والا اُسی طرح نقصان اٹھاتا ہے جس طرح ہر اُس شخص کو نقصان اٹھا نا پڑتا ہے جو حقائق سے آنکھیں  بند کر کے چلے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، یونس، حاشیہ۱۲۔جدل سوم، النمل، حاشیہ ۸۶۔ الرّوم، حاشیہ۸۔جلد چہارم، سبا، حاشیہ۲۵)۔

10: یہاں  فقرہ اس معنی میں  ارشاد ہوا ہے کہ دنیا میں  اُن کا جو انجام ہوا ہے یا آئندہ ہو گا وہ  اُن کی اصل سزا نہیں  ہے،  بلکہ اصلی تباہی تو اُن پر فیصلے کے دن نازل ہو گی۔ یہاں  کی پکڑ تو صرف یہ حیثیت رکھتی ہے کہ جب کوئی شخص مسلسل جرائم کرتا چلا جائے اور کسی طرح اپنی بگڑی ہوئی روش سے باز نہ آئے تو آخر کار اسے گرفتار کر لیا جائے۔  عدالت، جہاں  اس کے مقدمے کا فیصلہ ہونا ہے اور اسے اس کے تمام کرتوتوں  کی سز ا دی جانی ہے،  اس دنیا میں  قائم نہیں  ہو گی بلکہ آخرت میں  ہو گی، اور وہی اُس کی تباہی کا اصل دن ہو گا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، حواشی۵۔۶۔ ہود،  حاشیہ۱، ۵)۔11:  اصل الفاظ ہیں  قَدَرٍمَّعْلُوْمٍ۔ اس کا صرف یہی مطلب نہیں  ہے کہ وہ مدّت مُقَرّر ہے،  بلکہ اس میں  یہ مفہوم بھی شال ے کہ اس کی مُدّت اللہ ہی کو معلوم ہے۔  کسی بچے کے متعلق کسی ذریعہ سے بھی انسان کو یہ معلوم نہیں  ہو سکتا کہ وہ کتنے مہینے،  کتنے دن، کتنے گھنٹے  اور کتنے منٹ اور سکنڈ ماں  کے پیٹ میں  رہے گا، اور اس کا ٹھیک وقت ولادت کیا ہو گا۔ اللہ ہی نے ہر بچے کے لیے ایک خاص مدّت مقرر کی ہے اور وہی اس کو جانتا ہے۔

12: یعنی رحمِ مادر، جس میں  استقرارِ حمل ہوتے ہی بچے کو اتنی مضبوطی کے ساتھ جما دیا جاتا ہے اور اتنے انتظامات اس کی حفاظت اور پرورش کے کیے جاتے ہیں  کہ کسی شدید حادثے کے بغیر اس کا اسقاط نہیں  ہو سکتا، اور مصنوعی اسقاط کے لیے بھی غیر معمولی تدابیر اختیار کرنی پڑتی ہیں  جو فنِّ طب کی جدید ترقیات کے باوجود خطرے اور نقصان سے خالی نہیں  ہیں۔

13: یہ حیات بعدِ موت کے امکان کی صریح دلیل ہے۔  اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم ایک حقیر نطفے سے تمہاری ابتدا کر کے تمہیں  پُورا انسان بنانے پر قادر تھے،  تو آخر دوبارہ تمہیں  کسی اور طرح پیدا کر دینے پر کیوں  قادر نہ ہوں  گے ؟ ہماری یہ تخلیق، جس کے نتیجے میں  تم آج زندہ موجود ہو، خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بہت اچھی قدرت رکھنے والے ہیں،  ایسے عاجز نہیں  ہیں  کہ ایک دفعہ پیدا کر کے پھر تمہیں  پیدا نہ کر سکیں۔

14: یہاں  فقرہ اس معنی میں  ارشاد ہوا ہے کہ حیات بعدِ موت کے امکان کی یہ صریح دلیل سامنے موجود ہوتے ہوئے بھی جو لوگ اُس کو جھٹلا رہے ہیں،  وہ آج اُس کا جتنا چاہیں  مذاق اڑا لیں،  اور جس قدر چاہیں  اس کے ماننے والوں  کو دقیا نوسی، تاریک خیال اور اوہام پرست قرار د یتے رہیں،  مگر جب وہ دن آ جائے گا جسے یہ جھٹلا رہے ہیں  تو انہیں  خود معلوم ہو جائے گا کہ یہ ان کے لیے تباہی کا دن ہے۔

15: یہ آخرت کے ممکن اور معقول ہونے پر ایک اور دلیل ہے۔  یہی ایک کُرہ زمین ہے جو کروڑوں  اور اربوں  سال سے  بت حد و حساب مخلوقات کو اپنی گود میں  لیے ہوئے ہے،  ہر قسم کی نبا تات، ہر قسم کے حیوانات اور انسان اس پر جی رہے ہیں،  اور سب کی ضروریات پُوری کرنے کے لیے اِس کے پیٹ میں  سے طرح طرح کے اَتھاہ خزانے نکلتے چلے آرہے ہیں۔  پھر یہی زمین ہے جس پر اِن تمام اقسام کی مخلوقات کے بے شمار افراد روز مرتے ہیں،  مگر ایسا بے نظیر انتظام کر دیا گیا ہے کہ سب کے لاشے اِسی زمین میں  ٹھکانے لگ جاتے ہیں  اور یہ پھر ہر مخلوق کے نئے افراد کے جینے اور بسنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔  اِس زمین کو سپاٹ گیند کی طرح بھی بنا کر نہیں  رکھ دیا گیا ہے بلکہ اس میں  یہ جگہ جگہ پہاڑی سلسلے اور فلک بوس پہاڑ قائم کیے گئے ہیں  جن کا موسموں  کے تغیرات میں،  بارشوں  کے برسنے میں،  دریاؤں  کی پیدائش میں ،  زرخیز وادیوں  کے وجود میں ،  بڑے بڑے شہتیر فراہم کر نے والے درختوں  کے اُگنے میں ،  قسم قسم کے معدنیات اور طرح طرح کے پھتروں  کی فراہمی میں   بہت بڑا دخل ہے۔  پھر اس زمین کے پیٹ میں   میٹھا پانی پیدا کیا گیا  ہے،  اِس کی پیٹھ پر بھی میٹھے پانی کی نہریں  بہا دی گئی ہیں،  اور سمندر کے کھارے پانی سے صاف ستھرے بخارات اٹھا کر بھی نتھرا ہوا پانی آسمان سے بر سانے کا انتظام کیا گیا ہے۔  کیا یہ سب اِس بات کی دلیل نہیں  ہے کہ ایک قادرِ مطلق نے یہ سب کچھ بنا یا ہے،  اور وہ محض قادر ہی نہیں  ہے بلکہ علیم و حکیم بھی ہے ؟ اب اگر اس کی قدرت اور حکمت ہی سے یہ زمین اِس سروسامان کے ساتھ اور اِن حکمتوں  کے ساتھ بنی ہے تو ایک صاحبِ عقل آدمی کو یہ سمجھنے میں  کیوں  مشکل پیش آتی ہے کہ اُسی قدرت اِس دنیا کی بساط لپیٹ کر پھر ایک دوسری دنیا نئے طرز پر بنا سکتی ہے،  اور اُس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اِس کے بعد ایک دوسری دنیا بنائے تا کہ انسان سے اُن اعمال کا حساب لے جو اُس نے اِس دنیا میں   کیے ہیں ؟

16: یہاں  یہ فقرہ اس معنی میں  ارشاد ہوا ہے کہ جو لوگ خدا کی قدرت اور حکمت کے یہ کرشمے دیکھ کر بھی آخرت کے ممکن اور معقول ہونے کا انکار کر رہے ہیں  اور اس بات کو جھُٹلا رہے ہیں  کہ خدا اِس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا پیدا کرے گا اور اُس میں  انسان سے اُس کے اعمال کا حساب لے گا، وہ اپنی اِس خام خیالی میں  مگن رہنا چاہتا ہیں  تو رہیں۔  جس روز یہ سب کچھ اُن کی توقعات کے خلاف پیش آ جائے گا اس روز اُنہیں  پتہ چل جائے گا کہ انہوں  نے یہ حماقت کر کے خود اپنے لیے تباہی مول لی ہے۔

17: اب آخرت کے دلائل دینے کے بعد  یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب وہ واقع ہو جائے گی تو وہاں  اِن منکرین کا حشر کیا ہو گا۔

18: ساَئے سے مراد دھوئیں  کا سایہ ہے۔  اور تین شاخوں  کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی بہت بڑا دھواں  اٹھتا ہے تو اوپر جا کر وہ کئی شاخوں  میں  تقسیم ہو جاتا ہے۔

19: یعنی ہر چنگاری ایک قَصر جیسی بڑی ہو گی، اور جب یہ بڑی بڑی چنگاریاں  اٹھ کر پھٹیں  گی اور چاروں  طرف اُڑنے لگیں  گی تو یُوں  محسوس ہو گا جیسے زرد رنگ کے اونٹ اُچھل کود  کر رہے ہیں۔

20: یہ اُن کی آخری حالت ہو گی جو جہنم میں  داخلہ کے وقت اُ ن پر طاری ہو گی۔ اُس سے پہلے میدانِ حشر میں  تو یہ لوگ بہت کچھ کہیں  گے،  بہت سی معذرتیں  پیش کریں  گے،  ایک دوسرے پر اپنے قصوروں  کا الزام ڈال کر خود بے قُصور بننے کی کوشش کریں  گے،  اپنے گمراہ کرنے والے سرداروں  اور پیشواؤں  کو گالیاں  دیں  گے،  حتیٰ کہ  بعض لوگ پوری ڈھِٹائی کے ساتھ اپنے جرائم کا انکار تک کر گزریں  گے،  جیسا کہ قرآن مجید میں  متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔  مگر جب تمام شہادتوں  سے اُن کا مجرم ہونا پُوری طرح ثابت کر دیا جائے گا، اور جب ان کے اپنے ہاتھ پاؤں  اور اُن کے اعضاء تک اُن کے خلاف گواہی دے کر ثبوتِ جرم میں  کوئی کسر نہ چھوڑیں  گے،  اور جب بالکل بجا اور بر حق طریقے سے عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے انہیں  سزا سنادی جائے گی تو وہ دم بخود رہ جائیں  گے اور ان کے لیے اپنی معذرت میں  کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ عذر پیش کرنے کا موقع نہ دینے یا اس کی اجازت نہ دینے کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ صفائی کا موقع دیے بغیر ان کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جائے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا جرم اِس طرح قطعی ناقابلِ انکار حد تک ثابت کر دیا جائے گا کہ وہ اپنی معذرت میں  کچھ نہ کہہ سکیں  گے۔  یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں  کہ میں  نے اُس کو بولنے نہیں  دیا، میں  نے اس کی زبان بند کر دی، او راس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں  نے اس پر ایسی حجّت تمام کی  کہ اُس کے لیے زبان کھولنے یا کچھ بولنے کا کوئی موقع باقی نہ رہا۔

 

 

21: یعنی دنیا میں  تو تم بہت مکّاریاں  اور چالبازیاں  کرتے رہے،  اب یہاں  کوئی چال چل کر میری پکڑ سے بچ سکتے ہو تو ذرا بچ دکھاؤ۔22 متقی لوگ آج سایوں  اور چشموں  میں  ہیں  اور جو پھل وہ چاہیں  ( اُن کے لیے حاضر ہیں )۔ کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے اُن اعمال کے صلے میں  جو تم کرتے رہے ہو۔ ہم نیک لوگوں  کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔  تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  23
24 کھالو اور مزے کر لو تھوڑے دن۔ 25 حقیقت میں  تم لوگ مجرم ہو۔ تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ (اللہ کے آگے ) جھُکو تو نہیں  جھُکتے۔  26 تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  اب اِس (قرآن)کے بعد اورکون سا کلام ایسا ہو سکتا ہے جس پر یہ ایمان لائیں ؟27 ؏۲

 

22: چونکہ یہ لفظ یہاں  مُکذِّ بین(جھٹلانے والوں ) کے مقابلہ میں  استعمال ہوا ہے اس لیے متقیوں  سے مراد اس جگہ وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے آخرت کو جھُٹلانے سے پرہیز کیا اور اُس کو مان کر دنیا میں  یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی کہ ہمیں  آخرت میں  اپنے اقوال و افعال اور اپنے اخلاق و کردار کی جواب دہی کرنی ہو گی۔

23: یہاں  یہ فقرہ اس معنی میں  ارشاد ہوا ہے کہ اُن کے لیے ایک مصیبت تو وہ ہو گی جو اوپر بیان ہو چکی ہے کہ میدانِ حشر میں  وہ مجرموں  کی حیثیت سے کھڑے ہوں  گے،  علی الاعلان ان کے جرائم اِس طرح ثابت کر دیے جائیں  گے کہ ان کے لے د زبان کھولنے تک کا یارانہ رہے گے،  اور آخر کار جہنم کا ایندھن بن کر رہیں  گے۔  دوسری مصیبت بالائے مصیبت یہ ہو گی کہ وہی ایمان لانے والے جن سے اُن کی عمر بھی لڑائی رہی، جنہیں  وہ بیوقوف اور تنگ خیال اور رجعت پسند کرتے رہے،  جن کا وہ مذاق اُڑاتے رہے  اور جنہیں  اپنے نزدیک حقیر و ذلیل سمجھتے رہے،  انہی کو وہ جنت میں  مزے اڑاتے دیکھیں  گے۔

24: اب کلام ختم  کرتے ہوئے نہ صرف کفّار مکّہ کو بلکہ دنیا کے تمام کفّار کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کلمات ارشاد فرمائے جا رہے ہیں۔

25: یعنی دنیا  کی اِس چند روزہ زندگی میں۔

26: اللہ کے آگے جھکنے سے مراد صرف اس کی عبادت کرنا ہی نہیں  ہے،  بلکہ  اس کے بھیجے ہوئے رسول اور اس کی نازل کر دہ کتاب  کو ماننا اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا بھی اس میں  شامل ہے۔

27: یہ اُن کی آخری حالت ہو گی جو جہنم میں  داخلہ کے وقت اُ ن پر طاری ہو گی۔ اُس سے پہلے میدانِ حشر میں  تو یہ لوگ بہت کچھ کہیں  گے،  بہت سی معذرتیں  پیش کریں  گے،  ایک دوسرے پر اپنے قصوروں  کا الزام ڈال کر خود بے قُصور بننے کی کوشش کریں  گے،  اپنے گمراہ کرنے والے سرداروں  اور پیشواؤں  کو گالیاں  دیں  گے،  حتیٰ کہ  بعض لوگ پوری ڈھِٹائی کے ساتھ اپنے جرائم کا انکار تک کر گزریں  گے،  جیسا کہ قرآن مجید میں  متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔  مگر جب تمام شہادتوں  سے اُن کا مجرم ہونا پُوری طرح ثابت کر دیا جائے گا، اور جب ان کے اپنے ہاتھ پاؤں  اور اُن کے اعضاء تک اُن کے خلاف گواہی دے کر ثبوتِ جرم میں  کوئی کسر نہ چھوڑیں  گے،  اور جب بالکل بجا اور بر حق طریقے سے عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے انہیں  سزا سنادی جائے گی تو وہ دم بخود رہ جائیں  گے اور ان کے لیے اپنی معذرت میں  کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ عذر پیش کرنے کا موقع نہ دینے یا اس کی اجازت نہ دینے کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ صفائی کا موقع دیے بغیر ان کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جائے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا جرم اِس طرح قطعی ناقابلِ انکار حد تک ثابت کر دیا جائے گا کہ وہ اپنی معذرت میں  کچھ نہ کہہ سکیں  گے۔  یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں  کہ میں  نے اُس کو بولنے نہیں  دیا، میں  نے اس کی زبان بند کر دی، او راس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں  نے اس پر ایسی حجّت تمام کی  کہ اُس کے لیے زبان کھولنے یا کچھ بولنے کا کوئی موقع باقی نہ رہا۔