یہ سورت ۲ ھ میں جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی اور اس میں اسلام و کفر کی اس پہلی جنگ پر مفصل تبصرہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک سورت کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً یہ ایک ہی تقریر ہے جو بیک وقت نازل فرمائی گئی ہو گی مگر ممکن ہے کہ اس کی بعض آیات جنگ بدر ہی سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق بعد میں اتری ہوں اور پھر ان کو سلسلۂ تقریر میں مناسب مقامات پر درج کر کے ایک مسلسل تقریر بنا دیا گیا ہو۔ بہرحال کلام میں کہیں کوئی ایسا جوڑ نظر نہیں آتا جس سے یہ گمان کیا جا سکے کہ یہ الگ الگ دو تین خطبوں کا مجموعہ ہے۔
سورت پر تبصرے سے قبل جنگ بدر اور اس سے تعلق رکھنے والے حالات پر تاریخی نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت ابتدائی دس بارہ سال میں، جبکہ آپ مکہ معظمہ میں مقیم تھے، اس حیثیت سے اپنی پختگی اور استواری ثابت کر چکی تھی کہ ایک طرف اس کی پشت پر ایک بلند سیرت، عالی ظرف اور دانشمندانہ علمبردار موجود تھا جو اپنی شخصیت کا پورا سرمایہ اس کام میں لگا چکا تھا اور اس کے طرز عمل سے یہ حقیقت پوری طرح نمایاں ہو چکی تھی کہ وہ اس دعوت کو انتہائی کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لیے اٹل ارادہ رکھتا ہے اور اس مقصد کی راہ میں ہر خطرے کو انگیز کرنے اور ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ دوسری طرف اس دعوت میں خود ایسی کشش تھی کہ وہ دلوں اور دماغوں میں سرایت کرتی چلی جا رہی تھی اور جہالت و جاہلیت اور تعصبات کے حصار اس کی راہ روکنے میں ناکام ثابت ہو رہے تھے۔ اسی وجہ سے عرب کے پرانے نظام جاہلی کی حمایت کرنے والے عناصر، جو ابتداً اس کو استخفاف کی نظر سے دیکھتے تھے، مکی دور کے آخری زمانے میں اسے ایک سنجیدہ خطرہ سمجھنے لگے تھے اور اپنا پورا زور اسے کچل دینے میں صرف کر دینا چاہتے تھے۔ لیکن اُ وقت تک چند حیثیات سے اس دعوت میں بہت کچھ کسر باقی تھی:
اولاً، یہ بات ابھی پوری طرح ثابت نہیں ہوئی تھی کہ اس کو ایسے پیرووں کی ایک کافی تعداد بہم پہنچ گئی ہے جو صرف اس کے ماننے والے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس کے اصولوں کا سچا عشق بھی رکھتے ہیں، اس کو غالب و نافذ کرنے کی سعی میں اپنی ساری قوتیں اور اپنا تمام سرمایۂ زندگی کھپا دینے کے لیے تیار ہیں، اور اس کی خاطر اپنی ہر چیز قربان کر دینے کے لیے دنیا بھر سے لڑ جانے کے لیے حتیٰ کہ اپنے عزیز ترین رشتہ دار وں کو بھی کاٹ پھینکنے کے لیے آمادہ ہیں۔ اگرچہ مکہ میں پیروانِ اسلام نے قریش کو ظلم و ستم برداشت کر کے اپنی صداقتِ ایمانی اور اسلام کے ساتھ اپنے تعلق کی مضبوطی کا اچھا خاصا ثبوت دے دیا تھا، مگر ابھی یہ ثابت ہونے کے لیے بہت سی آزمائش باقی تھیں کہ دعوتِ اسلامی کو جانفروش پیرووں کا وہ گروہ میسر آ گیا ہے جو اپنے نصب العین کے مقابلے میں کسی چیز کو بھی عزیز تر نہیں رکھتا۔
ثانیاً اس دعوت کی آواز اگرچہ سارے ملک میں پھیل گئی تھی، لیکن اس کے اثرات منتشر تھے، اس کی فراہم کردہ قوت سارے ملک میں پراگندہ تھی، اس کو وہ اجتماعی طاقت بہم نہ پہنچی تھی جو پرانے جمے ہوئے نظام جاہلیت سے فیصلہ کن مقابلے کے لیے ضروری تھی۔
ثالثاً اس دعوت نے زمین میں کسی بھی جگہ جڑ نہیں پکڑی تھی بلکہ ابھی تک وہ صرف ہوا میں سرایت کر رہی تھی۔ ملک کا کوئی خطہ ایسا نہ تھا جہاں وہ قدم جما کر اپنے موقف کو مضبوط کرتی اور پھر آگے بڑھنے کی سعی کرتی۔ اُ وقت تک جو مسلمان جہاں بھی تھا اس کی حیثیت نظام کفر و شرک میں بالکل ایسی تھی جیسے خالی معدے میں کُنِین، کہ معدہ ہر وقت اسے اُگل دینے کے لیے زور لگا رہا ہو اور قرار پکڑنے کے لیے اس کو جگہ ہی نہ ملتی ہو۔
رابعاً اس وقت تک اس دعوت کو عملی زندگی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر چلانے موقع نہیں ملا تھا، نہ یہ اپنا تمدن قائم کر سکی تھی، نہ اس نے اپنا نظامِ معیشت و معاشرت اور نظام سیاست مرتب کیا تھا اور نہ دوسری طاقتوں سے اس کے معاملاتِ صلح و جنگ پیش آئے تھے۔ اس لیے نہ تو ان اخلاقی اصولوں کا مظاہرہ ہو سکا تھا جن پر یہ دعوت زندگی کے پورے نظام کو قائم کرنا اور چلانا چاہتی تھی، اور نہ یہی بات آزمائش کی کسوٹی پر اچھی طرح نمایاں ہوئی تھی کہ اس دعوت کا پیغمبر اور اس کے پیرووں کا گروہ جس چیز کی طرف دنیا کو دعوت دے رہا ہے اس پر عمل کرنے میں وہ خود کس حد تک راستباز ہے۔
بعد کے واقعات نے وہ مواقع پیدا کر دیے جن سے یہ چاروں یکساں پوری ہو گئیں۔
مکی دور کے آخری تین چار سالوں سے یثرب میں آفتابِ اسلام کی شعاعیں مسلسل پہنچ رہی تھیں اور وہاں کے لوگ متعدد وجوہ سے عرب کے دوسرے قبیلوں کی بہ نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ اس روشنی کو قبول کرتے جا رہے تھے۔ آخر کار نبوت کے بارہویں سال حج کے موقع پر ۷۵ نفوس کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رات کی تاریکی میں ملا اور اس نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول کیا بلکہ آپ کو اور آپ کے پیرووں کو اپنے شہر میں جگہ دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ یہ اسلام کی تاریخ میں ایک انقلابی موقع تھا جسے خدا نے اپنی عنایت سے فراہم کیا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا۔ اہلِ یثرب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو محض ایک پناہ گزیں کی حیثیت سے نہیں بلکہ خدا کے نائب اور اپنے امام و فرمانروا کی حیثیت سے بلا رہے تھے اور اسلام کے پیرووں کو ان کا بلاوا اس لیے نہ تھا کہ وہ اکی اجنبی سرزمین میں محض مہاجر ہونے کی حیثیت سے جگہ پالیں، بلکہ مقصد یہ تھا کہ عرب کے مختلف قبائل اور خطوں میں جو مسلمان منتشر ہیں وہ یثرب میں جمع ہو کر اور یثربی مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک منظم معاشرہ بنا لیں۔ اس طرح یثرب نے دراصل اپنے آپ کو "مدینۃ الاسلام" کی حیثیت سے پیش کیا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے قبول کر کے عرب میں پہلا دار الاسلام بنایا۔
اس پیشکش کے معنی جو کچھ تھے اس سے اہل مدینہ ناواقف نہ تھے۔ اس کے صاف معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹا سا قصبہ اپنے آپ کو پورے ملک کی تلواروں اور معاشی و تمدنی بائیکاٹ کے مقابلے میں پیش کر رہا تھا۔ چنانچہ بیعتِ عَقَبہ کے موقع پر رات کی اُس مجلس میں اسلام کے ان اولین مدد گاروں (انصار) نے اس نتیجے کو خوب اچھی طرح جان کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا۔ عین اس وقت جبکہ بیعت ہو رہی تھی۔ یثربی وفد کے ایک نوجوان رکن اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ جو پورے وفد میں سب سے کم سن تھے، اٹھ کر کہا:
"ٹھہرو اے اہل یثرب! ہم لوگ جو ان کے پاس آئے ہیں تو یہ سمجھتے ہوئے آئے ہیں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور آج انہیں یہاں سے نکال کر لے جانا تمام عرب سے دشمنی مول لینا ہے۔ اس کے نتیجے میں تمہارے نونہال قتل ہوں گے اور تلواریں تم پر برسیں گی۔ لہٰذا اگر تم اس کو برداشت کرنے کی طاقت اپنے اندر پاتے ہو تو ان کا ہاتھ پکڑوں اور اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور اگر تمہیں اپنی جانیں عزیز ہیں تو پھر چھوڑ دو اور صاف صاف عذر کر دو کیونکہ اسی وقت عذر کر دینا خدا کے نزدیک زیادہ قابل قبول ہو سکتا ہے "۔
اسی بات کو وفد کے ایک دوسرے شخص عباس بن عبادہ نے دہرایا:
"جانتے ہو اس شخص سے کس چیز کی بیعت کر رہے ہو؟ (آوازیں : ہاں ہم جانتے ہیں ) تم ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے دنیا بھر سے لڑائی مول لے رہے ہو۔ پس اگر تمہارا خیال یہ ہو کہ جب تمہارے مال تباہی کے اور تمہارے اشراف ہلاکت کے خطرے میں پڑ جائیں تو تم انہیں دشمنوں کے حوالے کر دوں تو بہتر ہے کہ آج ہی انہیں چھوڑ دو کیونکہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہے اور اگر تمہارا ارادہ یہ ہے کہ جو بلاوا تم اس شخص کو دے رہے ہو اس کو اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کی ہلاکت کے باوجود نباہو گے تو بے شک ان کا ہاتھ تھام لو کہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے "۔
اس پر تمام وفد نے بالاتفاق کہا کہ
"ہم انہیں لے کر اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کو ہلاکت کے خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہیں "
تب وہ مشہور بیعت واقع ہوئی جسے تاریخ میں "بیعت عقبہ ثانیہ" کہتے ہیں۔
دوسری طرف اہل مکہ کے لیے یہ معاملہ جو معنی رکھتا تھا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ دراصل اس طرح محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو، جن کی زبردست شخصیت اور غیر معمولی قابلیتوں سے قریش کے لوگ واقف ہو چکے تھے، ایک ٹھکانہ میسر آ رہا تھا اور ان کی قیادت و رہنمائی اور پیروانِ اسلام، جن کی عزیمت و استقامت اور فدائیت کو بھی قریش ایک حد تک آزما چکے تھے، ایک منظم جتھے کی صورت میں مجتمع ہوئے جاتے تھے۔ یہ پرانے نظام کے لیے موت کا پیغام تھا۔ نیز مدینہ جیسے مقام پر مسلمانوں کی اس طاقت کے مجتمع ہونے سے قریش کو مزید یہ خطرہ تھا کہ یمن سے شام کی طرف جو تجارتی شاہراہ ساحل بحیرہ احمر کے کنارے کنارے جاتی تھی، جس کے محفوظ رہنے پر قریش اور دوسرے بڑے بڑے مشرک قبائل کی معاشی زندگی کا انحصار تھا، وہ مسلمانوں کی زد میں آ جاتی تھی اور اس شہ رگ پر ہاتھ ڈال کر مسلمان نظامِ جاہلی کی زندگی دشوار کر سکتے تھے اور صرف اہل مکہ کی وہ تجارت جو اس شاہراہ کے بل پر چل رہی تھی ڈھائی لاکھ اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ طائف اور دوسرے مقامات کی تجارت اس کے ماسوا تھی۔
قریش ان نتائج کو خوب سمجھتے تھے، جس رات بیعت عقبہ واقع ہوئی اسی رات اس معاملے کی بھنک اہل مکہ کے کانوں میں پڑی اور پڑتے ہی کھلبلی مچ گئی۔ پہلے تو انہوں نے اہل مدینہ کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے توڑنے کی کوشش کی۔ پھر جب مسلمان ایک ایک دو دو کر کے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے اور قریش کو یقین ہو گیا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی وہاں منتقل ہو جائیں گے تو وہ اس خطرے کو روکنے کے لیے آخری چارۂ کار اختیار کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ ہجرت نبوی سے چند روز پہلے قریش کی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی جس میں بڑی رد و کد کے بعد آخر کار یہ طے پا گیا کہ بنی ہاشم کے سوا تمام خانوادہ ہائے قریش کا ایک ایک آدمی چھانٹا جائے اور یہ سب مل کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قتل کریں تاکہ بنی ہاشم کے لیے تمام خاندانوں سے تنہا لڑنا مشکل ہو جائے اور وہ انتقام کے بجائے خوں بہا قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں لیکن خدا کے فضل اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اعتماد علی اللہ اور حُسنِ تدبیر سے اُن کی یہ چال ناکام ہو گئی اور حضور بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔
اس طرح جب قریش کو ہجرت کے روکنے میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے مدینہ کے سردار عبداللہ بن اُبی کو (جسے ہجرت سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانے کی تیاری کر چکے تھے اور جس کی تمناؤں پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدینہ پہنچ جانے اور اوس و خزرج کی اکثریت کے مسلمان ہو جانے سے پانی پھر چکا تھا) خطا لکھا کہ"تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے، ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا تو تم خود اس سے لڑو یا اس سے نکال دو، ورنہ ہم سب تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں بنا لیں گے "۔ عبداللہ بن ابی اس پر کچھ آمادۂ شر ہوا،مگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بروقت اس کے شر کی روک تھام کر دی۔ پھر سعد بن معاذ رئیس مدینہ عمرے کے لیے گئے۔ وہاں عین حرم کے دروازے پر ابو جہل نے ان کو ٹوک کر کہا: "تم تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ان کی امداد و اعانت کا دم بھرو اور ہم تمہیں اطمینان سے مکے میں طواف کرنے دیں ؟ اگر تم امیہ بن خلف کے مہمان نہ ہوتے تو زندہ یہاں سے نہیں جا سکتے تھے۔ سعد نے جواب میں کہا: "بخدا اگر تم نے مجھے اس چیز سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لیے اس سے شدید تر ہے، یعنی مدینہ پر سے تمہاری رہ گزر"۔یہ گویا اہل مکہ کی طرف سے اس بات کا اعلان تھا کہ زیارت بیت اللہ کی راہ مسلمانوں پر بند ہے اور اس کا جواب اہل مدینہ کی طرف سے یہ تھا کہ شامی تجارت کا راستہ مخالفین کے لیے پر خطر ہے۔
اور فی الواقع اس وقت مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی تدبیر بھی نہ تھی کہ اس تجارتی شاہراہ پر اپنی گرفت مضبوط کریں تاکہ قریش اور وہ دوسرے قبائل جن کا مفاد اس راستے سے وابستہ تھا، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اپنی معاندانہ و مزاحمانہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور ہو جائیں۔ چنانچہ مدینہ پہنچتے ہی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نوخیز اسلامی سوسائٹی کے ابتدائی نظم و نسق اور اطراف مدینہ کی یہودی آبادیوں کے ساتھ معاملہ طے کرنے کے بعد سب سے پہلے جس چیز پر توجہ منعطف فرمائی وہ اسی شاہراہ کا مسئلہ تھا۔ اس مسئلے پر حضور نے دو اہم تدبیریں اختیار کیں۔
ایک یہ کہ مدینہ اور ساحل بحیرہ احمر کے درمیان اس شاہراہ سے متصل جو قبائل آباد تھے ان کے ساتھ گفت و شنید شروع کی تاکہ وہ حلیفانہ اتحاد یا کم از کم نا طرفداری کے معاہدے کر لیں۔ چنانچہ اس میں آپ کو پوری کامیابی ہوئی۔ سب سے پہلے جُہَینَنہ سے، جو ساحل کے قریب پہاڑی علاقے میں ایک اہم قبیلہ تھا، معاہدۂ ناطرفداری طے ہوا۔ پھر ۱ھ کے آخر میں بنی ضَمرَہ سے، جن کا علاقہ یَنبُع اور ذوالعُشَیرہ سے متصل تھا، دفاعی معاونت (Defensive alliance) کی قرارداد ہوئی۔ پھر ۲ھ کے وسط میں بنی مُدلِج بھی اس قرارداد میں شریک ہو گئے کیونکہ وہ بنی ضمرہ کے ہمسائے اور حلیف تھے۔ مزید برآں تبلیغ اسلام نے ان قبائل میں اسلام کے حامیوں اور پیرووں کا بھی ایک اچھا خاصا عنصر پیدا کر دیا۔
دوسری تدبیر آپ نے یہ اختیار کی کہ قریش کے قافلوں کو دھمکی دینے کے لیے اس شاہراہ پر پیہم چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کیے اور بعض دستوں کے ساتھ آپ خود بھی تشریف لے گئے۔ پہلے سال اس طرح کے چار دستے گئے جو مغازی کی کتابوں میں سریہ حمزہ، سریہ عبیدہ بن حارث، سریہ سعد بن ابی وقاص اور غزوۃ البواء کے نام سے موسوم ہیں۔
اور دوسرے سال کے ابتدائی مہینوں میں دو مزید تاختیں اسی جانب کی گئیں جن کو اہل مغازی غزوۂ بواط اور غزوۂ ذوالعُشَیرہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان تمام مہمات کی دو خصوصیتیں قابل لحاظ ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں سے کسی میں نہ تو کشت و خون ہوا اور نہ کوئی قافلہ لوٹا گیا جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان تاختوں کا اصل مقصود قریش کو ہوا کا رخ بتانا تھا۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے کسی تاخت میں بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہل مدینہ کا کوئی آدمی نہیں لیا بلکہ تمام دستے خالص مکی مہاجرین سے ہی مرتب فرماتے رہے تاکہ حتی الامکان یہ کشمکش قریش کے اپنے ہی گھر والوں تک محدود رہے اور دوسرے قبائل کے اس میں الجھنے سے آگ پھیل نہ جائے۔ ادھر سے اہل مکہ بھی مدینہ کی طرف غارت گر دستے بھیجتے رہے، چنانچہ انہی میں سے ایک دستے نے کُرز بن جابر الفہری کی قیادت میں عین مدینہ کے قریب ڈاکہ مارا اور اہل مدینہ کے مویشی لوٹ لیے۔ قریش کی کوشش اس سلسلے میں یہ رہی کہ دوسرے قبائل کو بھی اس کشمکش میں الجھا دیں، نیز یہ کہ انہوں نے بات کو محض دھمکی تک محدود نہ رکھا بلکہ لوٹ مار تک نوبت پہنچا دی۔
حالات یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ شعبان ۲ھ (فروری یا مارچ ۶۲۳ء) میں قریش کا ایک بہت بڑا قافلہ، جس کے ساتھ تقریباً ۵۰ ہزار اشرفی کا مال تھا اور تیس چالیس سے زیادہ محافظ نہ تھے، شام سے مکہ کی طرف پلٹتے ہوئے اس علاقے میں پہنچا جو مدینہ کی زد میں تھا۔ چونکہ مال زیادہ تھا، محافظ کم تھے اور سابق حالات کی بنا پر قوی خطرہ تھا کہ کہیں مسلمانوں کا کوئی طاقتور دستہ اس پر چھاپہ نہ مار دے، اس لیے سردارِ قافلہ ابو سفیان نے اس پر خطر علاقے میں پہنچتے ہی ایک آدمی کو مکہ کی طرف دوڑا دیا تاکہ وہاں سے مدد لے آئے۔ اس شخص نے مکہ پہنچتے ہی عرب کے قدیم قاعدے کے تحت اپنے اونٹ کے کان کاٹے۔ اس کی ناک چیر دی، کجاوے کو الٹ کر رکھ دیا اور اپنا قمیص آگے پیچھے سے پھاڑ کر شور مچانا شروع کر دیا کہ:
قریش والو! اپنے قافلۂ تجارت کی خبر لو، تمہارے مال جو ابو سفیان کے ساتھ ہیں، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے آدمی لے کر ان کے درپے ہو گیا ہے، مجھے امید نہیں کہ تم انہیں پا سکو گے، دوڑو دوڑو مدد کے لیے۔
اس پر سارے مکہ میں ہیجان برپا ہو گیا۔ قریش کے تمام بڑے بڑے سردار جنگ کے لیے تیار ہو گئے۔ تقریباً ایک ہزار مردان جنگی جن میں سے ۶۰۰ زرہ پوش تھے اور ۱۰۰ سواروں کا رسالہ بھی شامل تھا، پوری شان و شوکت کے ساتھ لڑنے کے لیے چلے۔
ان کے پیش نظر صرف یہی کام نہ تھا کہ اپنے قافلے کو بچا لائیں بلکہ وہ اس ارادے سے نکلے تھے کہ اس آئے دن کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں اور مدینہ میں یہ مخالف طاقت جو ابھی نئی نئی مجتمع ہوئی ہے اسے کچل ڈالیں اور اس کے نواح کے قبائل کو اس حد تک مرعوب کر دیں کہ آیندہ کے لیے یہ تجارتی راستہ بالکل محفوظ ہو جائے۔
اب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے، جو حالات سے ہمیشہ با خبر رہتے تھے، محسوس فرمایا کہ فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے اور یہ ٹھیک وہ وقت ہے جبکہ ایک جسورانہ اقدام اگر نہ کر ڈالا گیا تو تحریک اسلامی ہمیشہ کے لیے بے جان ہو جائے گی، بلکہ بعید نہیں کہ اس تحریک کے لیے سر اٹھانے کا پھر کوئی موقع ہی باقی نہ رہے۔ نئے دار الہجرت میں آئے ابھی پورے دو سال بھی نہیں ہوئے ہیں۔ مہاجرین بے سر و سامان، انصار ابھی نا آزمودہ، یہودی قبائل برسر مخالفت، خود مدینہ میں منافقین و مشرکین کا ایک اچھا خاصا طاقتور عنصر موجود اور گرد و پیش کے تمام قبائل قریش سے مرعوب بھی اور مذہباً ان کے ہمدرد بھی۔ ایسے حالات میں اگر قریش مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں تو ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کا خاتمہ ہو جائے لیکن اگر وہ حملہ نہ کریں اور صرف اپنے زور سے قافلے کو بچا کر ہی نکال لے جائیں اور مسلمان دبکے بیٹھے رہیں تب بھی یک لخت مسلمانوں کی ایسی ہوا اکھڑے گی کہ عرب کا بچہ بچہ ان پر دلیر ہو جائے گا اور ان کے لیے ملک بھر میں پھر کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے گی۔ آس پاس کے سارے قبائل قریش کے اشاروں پر کام کرنا شروع کر دیں گے۔ مدینہ کے یہودی اور منافقین و مشرکین علی الاعلان سر اٹھائیں گے اور دار الہجرت میں جینا مشکل کر دیں گے۔ مسلمانوں کا کوئی رعب و اثر نہ ہو گا کہ اس کی وجہ سے کسی کو ان کی جان و مال اور آبرو پر ہاتھ ڈالنے میں تامل ہو۔ اس بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عزم فرما لیا کہ جو طاقت بھی اس وقت میسر ہے اسے لے کر نکلیں اور میدان میں فیصلہ کریں کہ جینے کا بل بوتا کس میں ہے اور کس میں نہیں۔
اس فیصلہ کن اقدام کا ارادہ کر کے آپ نے انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان کے سامنے ساری پوزیشن صاف صاف رکھ دی کہ ایک طرف شمال میں تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف جنوب سے قریش کا لشکر چلا آ رہا ہے، اللہ کا وعدہ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک تمہیں مل جائے گا، بتاؤ تم کس کے مقابلے پر چلنا چاہتے ہو؟ جواب میں ایک بڑے گروہ کی طرف سے اس خواہش کا اظہار ہوا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیش نظر کچھ اور تھا اس لیے آپ نے اپنا سوار دہرایا۔ اس پر مہاجرین میں سے مقداد بن عمرو نے اٹھ کر کہا:
یا رسول اللہ! جدھر آپ کا رب آپ کو حکم دے رہا ہے اس طرف چلیے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں جس طرف بھی آپ جائیں۔ ہم بنی اسرائیل کی طرف یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ جاؤ تم اور تمہارا خدا دونوں لڑیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں، نہیں ہم کہتے ہیں کہ چلیے آپ اور آپ کا خدا، دونوں لڑیں اور ہم آپ کے ساتھ جانیں لڑائیں گے جب تک ہم میں سے ایک آنکھ بھی گردش کر رہی ہے
مگر لڑائی کا فیصلہ انصار کی رائے معلوم کیے بغیر نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ ابھی تک فوجی اقدامات میں ان سے کوئی مدد نہیں لی گئی تھی اور ان کے لیے آزمائش کا پہلا موقع تھا کہ اسلام کی حمایت کا جو عہد انہوں نے اول روز کیا ا تھا اسے وہ کہاں تک نباہنے کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے براہ راست ان کو مخاطب کیے بغیر پھر اپنا سوال دہرایا۔ اس پر سعد بن معاذ اٹھے اور انہوں نے عرض کیا شاید حضور کا روئے سخن ہماری طرف ہے ؟ فرمایا ہاں۔ انہوں نے کہا
ہم آپ پر ایمان لائے ہیں، آپ کی تصدیق کر چکے ہیں کہ آپ جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اور آپ سے سمع و طاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں۔ پس اے اللہ کے رسول! جو کچھ آپ نے ارادہ فرما لیا ہے اسے کر گزریئے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اگر آپ ہمیں لے کر سامنے سمندر پر جا پہنچیں اور اس میں اتر جائیں تو ہم آپ کے ساتھ کودیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہم کو یہ ہرگز ناگوار نہیں ہے کہ آپ کل ہمیں لے کر دشمن سے جا بھڑیں، ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے، مقابلے میں سچی جاں نثاری دکھائیں گے اور بعید نہیں کہ اللہ آپ کو ہم سے وہ کچھ دکھوا دے جسے دیکھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں، پس اللہ کی برکت کے بھروسے پر آپ ہمیں لے چلیں۔
ان تقریروں کے بعد فیصلہ ہو گیا کہ قافلے کے بجائے لشکر قریش ہی کے مقابلے پر چلنا چاہیے لیکن یہ فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا، جو لوگ اس تنگ وقت میں لڑائی کے لیے اٹھے تھے ان کی تعداد ۳۰۰ سے کچھ زائد تھی (۸۶ مہاجر، ۶۱ قبیلۂ اوس کے اور ۱۷۰ قبیلۂ خزرج کے ) جن میں سے صرف دو تین کے پاس گھوڑے تھے اور باقی آدمیوں کے لیے ۱۷۰ سے زیادہ اونٹ نہ تھے جن پر تین تین چار چار اشخاص باری باری سوار ہوتے تھے۔ سامان جنگ بھی بالکل ناکافی تھا، صرف ۶۰ آدمیوں کے پاس زرہیں تھیں۔ اسی لیے چند سرفروش فدائیوں کے سوا اکثر آدمی جو اس خطرناک مہم میں شریک تھے دلوں میں سہم رہے تھے اور انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ مصلحت پرست لوگ، جو اگرچہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکے تھے مگر ایسے ایمان کے قائل نہ تھے جس میں جان و مال کا زیاں ہو، اس مہم کو دیوانگی سے تعبیر کر رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ دینی جذبے نے ان لوگوں کو پاگل بنا دیا ہے۔ مگر نبی اور مومنین صادقین یہ سمجھ چکے تھے کہ یہ وقت جان کی بازی لگانے کا ہی ہے اس لیے اللہ کے بھروسے پر وہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے سیدھی جنوب مغرب کی راہ لی جدھر سے قریش کا لشکر آ رہا تھا۔ حالانکہ اگر ابتدا میں قافلے کو لوٹنا مقصود ہوتا تو شمال مغرب کی رہ لی جاتی۔
۱۷ رمضان المبارک کو بدر کے مقام پر فریقین کا مقابلہ ہوا۔ جس وقت دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابلے ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا کہ تین کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان ہے اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہیں ہے تو خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے اور انتہائی خضوع و تضرع کے ساتھ عرض کرنا شروع کیا
خدایا، یہ ہیں قریش، اپنے سامان غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں، خداوند! بس اب آ جائے تیری وہ مدد جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا، اے خدا اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہو گی۔
اس معرکۂ کارزار میں سب سے زیادہ سخت امتحان مہاجرین مکہ تھا کہ جن کے اپنے بھائی بند سامنے صف آرا تھے۔ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا ماموں، کسی کا بھائی اس کی اپنی تلوار کی زد میں آ رہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمائش سے صرف وہی لوگ گزر سکتے تھے جنہوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا ہو اور جو باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تل گئے ہوں اور انصار کا امتحان بھی کچھ کم سخت نہ تھا۔ اب تک تو انہوں نے عرب کے طاقتور ترین قبیلے قریش اور اس کے حلیف قبائل کی دشمنی صرف اسی حد تک مول لی تھی کہ ان کے علی الرغم مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ لیکن اب تو وہ اسلام کی حمایت میں ان کے خلاف لڑنے بھی جا رہے تھے جس کے معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹی سی بستی جس کی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہے، سارے ملک عرب سے لڑائی مول لے رہی ہے۔ یہ جسارت صرف وہی لوگ کر سکتے تھے جو کسی صداقت پر ایسا ایمان لے آئے ہوں کہ اس کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کی انہیں ذرہ برابر پروا نہ رہی ہو۔ آخر کار ان لوگوں کی صداقتِ ایمانی خدا کی طرف سے نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اور قریش اپنے سارے غرور و طاقت کے باوجود ان بے سر و سامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ ان کے ۷۰ آدمی مارے گئے، ۷۰ قید ہوئے اور ان کا سر و سامان غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار جو ان کے گلہائے سر سبد اور اسلام کی مخالف تحریک کے روح رواں تھے اس معرکے میں ختم ہو گئے اور اس فیصلہ کن فتح نے عرب میں اسلام کو ایک قابل لحاظ طاقت بنا دیا۔ جیسا کہ ایک مغربی محقق نے لکھا ہے کہ
بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا مگر بدر کے بعد وہ مذہبِ ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا۔
یہ ہے وہ عظیم الشان معرکہ جس پر قرآن کی اس سورت میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ مگر اس تبصرے کا انداز تمام اُن تبصروں سے مختلف ہے جو دنیوی بادشاہ اپنی فوج کی فتح یابی کے بعد کیا کرتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلے ان خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اخلاقی حیثیت سے ابھی مسلمانوں میں باقی تھیں تاکہ آئندہ اپنی مزید تکمیل کے لیے سعی کریں۔ پھر ان کو بتایا گیا کہ اس فتح میں تائید الٰہی کا کتنا بڑا حصہ تھا تاکہ وہ اپنی جرات و شہامت پر نہ پھولیں بلکہ خدا پر توکل اور خدا و رسول کی اطاعت کا سبق لیں۔ پھر اس اخلاقی مقصد کو واضح کیا گیا ہے جس کے لیے مسلمانوں کو یہ معرکۂ حق و باطل برپا کرنا ہے اور ان اخلاقی صفات کی توضیح کی گئی ہے جن سے اس معرکے میں انہیں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ پھر مشرکین اور منافقین اور یہود اور ان لوگوں کو جو جنگ میں قید ہو کر آئے تھے، نہایت سبق آموز انداز میں خطاب کیا گیا ہے۔ پھر ان اموال کے متعلق، جو جنگ میں ہاتھ آئے تھے، مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ انہیں اپنا مال نہ سمجھیں بلکہ خدا کا مال سمجھیں، جو کچھ اللہ اس میں سے ان کا حصہ مقرر کرے اسے شکریہ کے ساتھ قبول کر لیں اور جو حصہ اللہ اپنے کام اور اپنے غریب بندوں کی امداد کے لیے مقرر کرے اس کو برضا و رغبت گوارا کر لیں۔ پھر قانون جنگ و صلح کے متعلق وہ اخلاقی ہدایات دی گئی ہیں جن کی توضیح اس مرحلے میں دعوت اسلامی کے داخل ہو جانے کے بعد ضروری تھی تاکہ مسلمان اپنی صلح و جنگ میں جاہلیت کے طریقوں سے بچیں اور دنیا پر ان کی اخلاقی برتری قائم ہو اور دنیا کو معلوم ہو جائے کہ اسلام اول روز سے اخلاق پر عملی زندگی کی بنیاد رکھنے کی جو دعوت دے رہا ہے اس کی تعبیر واقعی عملی زندگی میں کیا ہے۔ پھر اسلامی ریاست کے دستوری قانون کی بعض دفعات بیان کی گئی ہیں جن سے دار الاسلام کے مسلمان باشندوں کی آئینی حیثیت ان مسلمانوں سے الگ کر دی گئی ہے جو دار الاسلام کے حدود سے باہر رہتے ہوں۔
۱-یہ اس تبصرہ جنگ کی عجیب تمہید ہے۔ بدر میں جو مال غنیمت لشکر قریش سے لوٹا گیا تھا اس کی تقسیم پر مسلمانوں کے درمیان نزاع برپا ہو گئی۔ چونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان لوگوں کی پہلی مرتبہ پرچم اسلام کے نیچے لڑنے کا اتفاق ہوا تھا اس لیے ان کو معلوم نہ تھا کہ اس مسلک میں جنگ اور اس سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق کیا ضابطہ ہے۔ کچھ ابتدائی ہدایات سورہ بقرہ اور سورہ محمد میں دی جا چکی تھیں۔ لیکن ’’تہذیب جنگ‘‘ کی بنیاد ابھی رکھنی باقی تھی۔ بہت سے تمدنی معاملات کی طرح مسلمان ابھی تک جنگ کے معاملہ میں بھی اکثر پرانی جاہلیت ہی کے تصورات لیے ہوئے تھے۔ اس وجہ سے بدر کی لڑائی میں کفار کی شکست کے بعد جن لوگوں نے جو جو کچھ مال غنیمت لوٹا تھا وہ عرب کے پرانے طریقہ کے مطابق اپنے آپ کو اس کا مالک سمجھ بیٹھے تھے۔ لیکن ایک دوسرا فریق جس نے غنیمت کی طرف رُخ کرنے کے بجائے کفار کا تعاقب کیا تھا، اس بات کا مدعی ہوا کہ اس مال میں ہمارا برابر کا حصہ ہے کیونکہ اگر ہم دشمن کا پیچھا کر کے اسے دور تک بھگا نہ دیتے اور تمہاری طرح غنیمت پر ٹوٹ پڑتے تو ممکن تھا کہ دشمن پھر پلٹ کر حملہ کر دیتا اور فتح شکست سے بدل جاتی۔ ایک تیسرے فریق نے بھی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کر رہا تھا، اپنے دعاوی پیش کیے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ سب سے بڑھ کر قیمتی خدمت تو اس جنگ میں ہم نے انجام دی ہے۔ اگر ہم رسول اللہ کے گرد اپنی جانوں کا حصار بنائے ہوئے نہ رہتے اور آپ کو کوئی گزند پہنچ جاتا تو فتح ہی کب نصیب ہو سکتی تھی کہ کوئی مال غنیمت ہاتھ آتا اور اس کی تقسیم کا سوال اٹھتا۔ مگر مال عملاً جس فریق کے قبضہ میں تھا اس کی ملکیت گویا کسی ثبوت کی محتاج نہ تھی اور وہ دلیل کا یہ حق ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ ایک امرِ واقعی کے اس زور سے بدل جائے۔ آخر کار اس نزاع نے تلخی کی صورت اختیار کرنی شروع کر دی اور زبانوں سے دلوں تک بد مزگی پھیلنے لگی۔
یہ تھا وہ نفسیاتی موقع جسے اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال نازل کرنے کے لیے منتخب فرمایا اور جنگ پر اپنے تبصرے کی ابتدا اسی مسئلے سے کی۔ پھر پہلا ہی فقرہ جو ارشاد ہوا اُسی میں سوال کا جواب موجود تھا فرمایا ’’تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں‘‘ ؟ یہ ان اموال کو ’’غنائم‘‘ کے بجائے ’’ انفال ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرنا بجائے خود مسئلے کا فیصلہ اپنے اندر رکھتا تھا۔ انفال جمع ہے نفل کی۔ عربی زبام میں نفل اس چیز کو کہتے ہیں جو واجب سے یا حق سے زائد ہو۔ جب یہ تابع کی طرف سے ہو تو اس سے مراد و ہ رضا کارانہ خدمت ہوتی ہے جو ایک بندہ اپنے آقا کے لیے فرض سے بڑھ کر تَطُوَّعًا بجا لاتا ہے۔ اور جب یہ متبوع کی طرف سے ہو تو اس سے مراد وہ عطیہ و انعام ہوتا ہے جو آقا اپنے بندے کو اس کے حق سے زائد دیتا ہے۔ پس ارشاد کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ساری ردّ و کد، یہ نزاع، یہ پوچھ گچھ کیا خدا کے بخشے ہوئے، انعامات کے بارے میں ہو رہی ہے ؟ اگر یہ بات ہے تو تم لوگ ان کے مالک و مختار کہاں بنے جا رہے ہو کہ خود ان کی تقسیم کا فیصلہ کرو۔ مال جس کا بخشا ہوا ہے۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ کیسے دیا جائے اور کسے نہیں، اور جس کو بھی دیا جائے اسے کتنا دیا جائے۔
یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی اخلاقی اصلاح تھی۔ مسلمان کی جنگ دنیا کے مادی فائدے بٹورنے کیلے نہیں ہے بلکہ دنیا کے اخلاقی و تمدنی بگاڑ کو اس اصول حق کے مطابق درست کرنے کے لیے ہے، جسے مجبوراً اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے جبکہ مزاحم قوتیں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے اصلاح کو ناممکن بنا دیں۔ پس مصلحین کی نظر اپنے مقصد پر ہونی چاہیے نہ کہ اُن فوائد پر جو مقصد کے لیے سعی کرتے ہوئے بطور انعام خدا کی عنایت سے حاصل ہوں۔ ان فوائد سے اگر ابتدا ہی میں ان کی نظر نہ ہٹا دی جائے تو بہت جلدی، اخلاقی انحطاط رونما ہو کر یہی فوائد مقصود قرار پا جائیں۔
پھر یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی انتظامی اصلاح بھی تھی۔ قدیم زمانہ میں طریقہ یہ تھا کہ جو مال جس کے ہاتھ لگتا وہی اس کا مالک قرار پاتا۔ یا پھر بادشاہ یا سپہ سالار تمام غنائم پر قابض ہو جاتا۔ پہلی صورت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ فتح یاب فوجوں کے درمیان اموال غنیمت پر سخت تنافُس برپا ہو جاتا اور بسا اوقات ان کی خانہ جنگی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتی۔ دوسری صورت میں سپاہیوں کو چوری کا عارضہ لگ جاتا تھا اور وہ غنائم کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن مجید نے انفال کو اللہ اور رسول کا مال قرار دے کر پہلے تو یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ تمام مال غنیمت لا کر بے کم و کاست امام کے سامنے رکھ دیا جائے اور ایک سوئی تک چھپا کر نہ رکھی جائے۔ پھر آگے چل کر اس مال کی تقسیم کا قانون بنا دیا کہ پانچواں حصہ خدا کے کام اور اس کے غریب بندوں کی مدد کے لیے بیت المال میں رکھ لیا جائے اور باقی چار حصے اُس پوری فوج میں تقسیم کر دیے جائیں جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو۔ اس طرح وہ دونوں خرابیاں دور ہو گئیں جو جاہلیت کے طریقہ میں تھیں۔
اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ذہن میں رہنا چاہیے، یہاں انفال کے قصے کو صرف اتنی بات کہہ کر ختم کر دیا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ہیں۔ تقسیم کے مسئلے کو یہاں نہیں چھیڑا گیا تا کہ پہلے تسلیم و اطاعت مکمل ہو جائے۔ پھر چند رکوع کے بعد بتایا گیا کہ ان اموال کو تقسیم کس طرح کیا جائے۔ اسی لیے یہاں انہیں ’’انفال‘‘ کہا گیا ہے اور رکوع ۵ میں جب تقسیم کا حکم بیان کرنے کی نوبت آئی تو انہی اموال کو ’’غنائم‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا۔
۲-یعنی ہر ایسے موقع پر جب کہ کوئی حکمِ الٰہی آدمی کے سامنے آئے اور وہ اس کی تصدیق کر کے سر اطاعت جھکا دے، آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر اس موقع پر جب کہ کوئی چیز آدمی کی مرضی کے خلاف، اس کی محبتوں اور دوستیوں کے خلاف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی ہدایت میں ملے اور آدمی اس کو مان کر فرمانِ خدا و رسول کو بدلنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل ڈالے اور اس کی قبولیت میں تکلیف انگیز کر ے تو اس سے آدمی کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس اگر ایسا کرنے میں آدمی دریغ کرے تو اس کے ایمان کی جان نکلنی شروع ہو جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان کوئی ساکن و جامد چیز نہیں ہے، اور تصدیق و عدم تصدیق کا بس ایک ہی ایک مرتبہ نہیں ہے کہ اگر آدمی نے نہ مانا تو وہ بس ایک ہی نہ ماننا رہا، اور اگر اس نے مان لیا تو وہ بھی بس ایک ہی مان لینا ہوا۔نہیں بلکہ تصدیق اور انکار دونوں میں انحطاط اور نشو نما کی صلاحیت ہے۔ ہر انکار کی کیفیت گھٹ بھی سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے۔ اور اس طرح ہر اقرار و تصدیق میں ارتقاء بھی ہو سکتا ہے ار تنزل بھی۔ البتہ فقہی احکام کے اعتبار سے نظام تمدن میں حقوق اور حیثیات کا تعین جب کیا جائے گا تو تصدیق اور عدم تصدیق دونوں کے بس ایک ہی مرتبے کا اعتبار کیا جائے گا۔ اسلامی سوسائٹی میں تمام ماننے والوں کے آئینی حقوق و واجبات یکساں ہوں گے خواہ ان کے درمیان ماننے کے مراتب میں کتنا ہی تفاوت ہو۔ اور سب نہ ماننے والے ایک ہی مرتبے میں ذمی یا حربی یا معاہد و مسالم قرار دیے جائیں گے خواہ ان میں کفر کے اعتبار سے مراتب کا کتنا ہی فرق ہو۔
۳-قصور بڑے سے بڑے اور بہتر سے بہتر اہل ایمان سے بھی سرزد ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں، اور جب تک انسان انسان ہے یہ محال ہے کہ اس کا نامہ اعمال سراسر معیاری کارناموں ہی پر مشتمل ہو اور لغزش، کوتاہی، خامی سے بالکل خالی رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے یہ بھی ایک بڑی رحمت ہے کہ جب انسان بندگی کی لازمی شرائط پوری کر دیتا ہے تو اللہ اس کی کوتاہیوں سے چشم پوشی فرماتا ہے اور اس کی خدمات جس صلے کی مستحق ہوتی ہیں اس سے کچھ زیادہ صلہ اپنے فضل سے عطا کرتا ہے۔ ورنہ اگر قاعدہ یہ مقرر کیا جاتا کہ ہر قصور کی سزا اور ہر خدمت کی جزا الگ الگ دی جائے تو کوئی بڑے سے بڑا صالح بھی سزا سے نہ بچ سکتا۔
۴-یعنی جس طرح اُس وقت یہ لوگ خطرے کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے تھے، حالانکہ حق کا مطالبہ اُس وقت یہی تھا کہ خطرے کے منہ میں چلے جائیں، اسی طرح آج انہیں مال غنیمت ہاتھ سے چھوڑنا ناگوار ہو رہا ہے، حالانکہ حق کا مطالبہ یہی ہے کہ وہ اسے چھوڑیں اور حکم کا انتظار کریں۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر اللہ کی اطاعت کرو گے اور اپنے نفس کی خواہش کے بجائے رسول کا کہا مانو گے تو ویسا ہی اچھا نتیجہ دیکھو گے جیسا ابھی جنگ بدر کے موقع پر دیکھ چکے ہو کہ تمہیں لشکر قریش کے مقابلہ پر جانا سخت ناگوار تھا اور اسے تم ہلاکت کا پیغام سمجھ رہے تھے لیکن جب تم نے حکم خدا و رسول کی تعمیل کی تو یہی خطرناک کام تمہارے لیے زندگی کا پیغام ثابت ہوا۔
قرآن کا یہ ارشاد ضمناً اُن روایات کی بھی تردید کر رہا ہے جو جنگ بدر کے سلسلے میں عموماً کتب سیرت و مغازی میں نقل کی جاتی ہیں، یعنی یہ کہ ابتداءً نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مومنین قافلے کو لوُٹنے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے تھے۔ پھر چند منزل آگے جا کر جب معلوم ہوا کہ قریش کا لشکر قافلہ کی حفاظت کے لیے آ رہا ہے تب یہ مشورہ کیا گیا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے یا لشکر کا مقابلہ؟ اس بیان کے برعکس قرآن یہ بتا رہا ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر سے نکلے تھے اسی وقت یہ امرِ حق آپ کے پیش نظر تھا کہ قریش کے لشکر سے فیصلہ کن مقابلہ کیا جائے۔ اور یہ مشاورت بھی اسی وقت ہوئی تھی کہ قافلے اور لشکر میں کس کو حملہ کے لیے منتخب کیا جائے۔ اور باوجود یکہ مومنین پر یہ حقیقت واضح ہو چکی تھی کہ لشکر ہی سے نمٹنا ضروری ہے، پھر بھی ان میں سے ایک گروہ اس سے بچنے کے لیے حجت کرتا رہا۔ اور بالآخر جب آخری رائے یہ قرار پا گئی کہ لشکر ہی کی طرف چلنا چاہیے تو یہ گروہ مدینہ سے یہ خیال کرتا ہوا چلا کہ ہم سیدھے موت کے منہ میں ہانکے جا رہے ہیں۔
۵-یعنی تجارتی قافلہ یا لشکر قریش۔
۶-یعنی قافلہ جس کے ساتھ صرف تیس چالیس محافظ تھے۔
۷-اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت فی الواقع صورت حال کیا رونما ہو گئی تھی۔ جیسا کہ ہم نے سورہ کے دیباچہ میں بیان کیا ہے، لشکر قریش کے نکل آنے سے دراصل سوال یہ پیدا ہو گیا تھا کہ دعوتِ اسلامی اور نظام جاہلیت دونوں میں سے کس کو عرب میں زندہ رہنا ہے۔ اگر مسلمان اس وقت مردانہ وار مقابلہ کے لیے نہ نکلتے تو اسلام کے لیے زندگی کا کوئی موقع باقی نہ رہتا۔ بخلاف اس کے مسلمانوں کے نکلنے اور پہلے ہی بھر پور وار میں قریش کی طاقت پر کاری چوٹ لگا دینے سے وہ حالات پیدا ہوئے جن کی بدولت اسلام کو قدم جمانے کا موقع مل گیا اور پھر اس کے مقابلہ میں نظام جاہلیت پیہم شکست کھاتا ہی چلا گیا
۸-یہی تجربہ مسلمانوں کو اُحد کی جنگ میں پیش آیا جیسا کہ سورہ آل عمران آیت ۱۵۴ میں گزر چکا ہے۔ اور دونوں مواقع پر وجہ وہی ایک تھی کہ جو موقع شدت خوف اور گھبراہٹ کا تھا اس وقت اللہ نے مسلمانوں کے دلوں کو ایسے اطمینان سے بھر دیا کہ ان پر غنودگی طاری ہونے لگی۔
۹-یہ اُس رات کا واقعہ ہے جس کی صبح کو بدر کی لڑائی پیش آئی۔ اس بارش کے تین فائدے ہوئے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کو پانی کی کافی مقدار مل گئی اور انہوں نے فوراً حوض بنا بنا کر بارش کا پانی روک لیا۔ دوسرے یہ کہ مسلمان چونکہ وادی کے بالائی حصے پر تھے اس لیے بارش کی وجہ سے ریت جم گئی اور زمین اتنی مضبوط ہو گئی کہ قدم اچھی طرح جم سکیں اور نقل و حرکت بآسانی ہو سکے۔ تیسرے یہ کہ لشکر کفار نشیب کی جانب تھا اس لیے وہاں اس بارش کی بدولت کیچڑ ہو گئی اور پاؤں دھنسنے لگے۔
شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست سے مراد وہ ہراس اور گھبراہٹ کی کیفیت تھی جس میں مسلمان ابتداءً مبتلا تھے۔
۱۰-جو اصولی باتیں ہم کو قرآن کے ذریعہ سے معلوم ہیں ان کی بنا پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فرشتوں سے قتال میں یہ کام نہیں لیا گیا ہو گا یہ وہ خود حرب و ضرب کا کام کریں، بلکہ شاید اس کی صورت یہ ہو گی کہ کفار پر جو ضرب مسلمان لگائیں وہ فرشتوں کی مدد سے ٹھیک بیٹھے اور کاری لگے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
۱۱-یہاں تک کہ جنگ بدر کے جن واقعات کو ایک ایک کر کے یاد دلایا گیا ہے اس سے مقصود دراصل لفظ ’’انفال‘‘ کی معنویت واضح کرنا ہے۔ ابتدا میں ارشاد ہوا تھا کہ اس مال غنیمت کو اپنی جانفشانی کا ثمرہ سمجھ کر اس کے مالک و مختار کہاں بنے جاتے ہو، یہ تو دراصل عطیہ الٰہی ہے اور معطی خود ہی اپنے مال کا مختار ہے۔ اب اس کے ثبوت میں یہ واقعات گنائے گئے ہیں کہ اس فتح میں خود ہی حساب لگا کر دیکھ لو کہ تمہاری اپنی جانفشانی اور جرأت و جسارت کا کتنا حصہ تھا اور اللہ کی عنایت کا کتنا حصہ۔
۱۲-خطاب کا رُخ یکایک کفار کی طرف پھر گیا ہے جن کے مستحق سزا ہونے کا ذکر اوپر کے فقرے میں ہوا تھا۔
۱۳-دشمن کے شدید دباؤ پر مرتب پسپائی (Orderly retreat) ناجائز نہیں ہے جبکہ اس کا مقصود اپنے عقبی مرکز کی طرف پلٹنا یا اپنی ہی فوج کے کسی دوسرے حصہ سے جا ملنا ہو۔ البتہ جو چیز حرام کی گئی ہے وہ بھگدڑ (Rout) ہے جو کسی جنگی مقصد کے لیے نہیں بلکہ محض بزدلی و شکست خوردگی کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس لیے ہوا کرتی ہے کہ بھگوڑے آدمی کو اپنے مقصد کی بہ نسبت جان زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اس فرار کو بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ تین گناہ ایسے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی نیکی فائدہ نہیں دیتی۔ ایک شرک، دوسرے والدین کی حق تلفی، تیسرے میدان قتال فی سبیل اللہ سے فرار۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ نے سات بڑے گناہوں کا ذکر کیا ہے جو انسان کے لیے تباہ کن اور اس کے انجام اُخروی کے لیے غارتگر ہیں۔ ان میں سے ایک یہ گناہ بھی ہے کہ آدمی کفر و اسلام کی جنگ میں کفار کے آگے پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ اس فعل کو اتنا بڑا گناہ قرار دینے کی وجہ سے صرف یہی نہیں ہے کہ یہ ایک بزدلانہ فعل ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص کا بھگوڑا پن بسا اوقات ایک پوری پلٹن کو، اور ایک پلٹن کا بھگوڑا پن ایک پوری فوج کو بدحواس کر کے بھگا دیتا ہے۔ اور پھر جب ایک دفعہ کسی فوج میں بھگدڑ پڑ جائے تو کہا نہیں جا سکتا کہ تباہی کس حد پر جا کر ٹھیرے گی۔ اس طرح کی بھگدڑ صرف فوج ہی کے لیے تباہ کن نہیں ہے بلکہ اُس ملک کے لیے بھی تباہ کن ہے جس کی فوج ایسی شکست کھائے۔
۱۴-معرکہ بدر میں جب مسلمانوں اور کفار کے لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے اور عام زد و خورد کا موقع آگیا تو حضور ؐ نے مٹھی بھر ریت ہاتھ میں لے کر شاھتِ الوُجُوہ کہتے ہوئے کفار کی طرف پھینکی اور اس کے ساتھ ہی آپ کے اشارے سے مسلمان یکبارگی کفار پر حملہ آور ہوئے۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
۱۵-مکہ سے روانہ ہوتے وقت مشرکین نے کعبہ کے پردے پکڑ کر دعا مانگی تھی کہ خدایا دونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے اس کو فتح عطا کر۔ اور ابوجہل نے خاص طور پر کہا تھا کہ خدایا ہم میں سے جو بر سر حق ہو اسے فتح دے اور جو برسرِ ظلم ہو اسے رسوا کر دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی منہ مانگی دعائیں حرف بحرف پوری کر دیں اور فیصلہ کر کے بتا دیا کہ دونوں میں سے کون اچھا اور بر سرِ حق ہے۔
۱۶-یہاں سننے سے مراد وہ سننا ہے جو ماننے اور قبول کرنے کے معنی میں ہوتا ہے۔ اشارہ اُن منافقین کی طرف ہے جو ایمان کا اقرار تو کرتے تھے مگر احکام کی اطاعت سے منہ موڑ جاتے تھے۔
۱۷-یعنی جو حق سنتے ہیں نہ حق بولتے ہیں۔ جن کے کان اور جن کے منہ حق کے لیے بہرے گونگے ہیں۔
۱۸-یعنی جب ان لوگوں کے اندر خود حق پرستی اور حق کے لیے کام کرنے کا جذبہ نہیں ہے تو انہیں اگر تعمیل حکم میں جنگ کے لیے نکل آنے کی توفیق دے بھی دی جاتی تو یہ خطرے کا موقع دیکھتے ہی بے تکلف بھاگ نکلتے اور ان کی معیت تمہارے لیے مفید ثابت ہونے کے بجائے الٹی مضر ثابت ہوتی۔
۱۹-نفاق کی روش سے انسان کو بچانے کے لیے اگر کوئی سب سے زیادہ موثر تدبیر ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ عقیدے انسان کی ذہن نشین ہو جائیں۔ ایک یہ کہ معاملہ اُس خدا کے ساتھ ہے جو دلوں کے حال تک جانتا ہے اور ایسا راز دان ہے کہ آدمی اپنے دل میں جو نیتیں، جو خواہشیں، جو اغراض و مقاصد اور جو خیالات چھپا کر رکھتا ہے وہ بھی اس پر عیاں ہیں۔ دوسرے یہ کہ جانا بہرحال خدا کے سامنے ہے۔ اس سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتے۔ یہ دہ عقیدے جتنے زیادہ پختہ ہوں گے اتنا ہی انسان نفاق سے دور رہے گا۔ اسی لیے منافقت کے خلاف وعظ و نصیحت کے سلسلہ میں قرآن اِن دو عقیدوں کا ذکر بار بار کرتا ہے۔
۲۰-اس سے مراد وہ اجتماعی فتنے ہیں جو وبائے عام کی طرح ایسی شامت لاتے ہیں جس میں صرف گناہ کرنے والے ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں جو گناہ گار سوسائٹی میں رہنا گوارا کرتے رہے ہوں۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ جب تک کسی شہر میں گندگیاں کہیں کہیں انفرادی طور پر چند مقامات پر رہتی ہیں۔ ان کا اثر محدود رہتا ہے اور ان سے وہ مخصوص افراد ہی متاثر ہوتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے جسم اور اپنے گھر کو گندگی سے آلودہ کر رکھا ہو۔ لیکن جب وہاں گندگی عام ہو جاتی ہے اور کوئی گروہ بھی سارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا جو اس خرابی کو روکنے اور صفائی کا انتظام کرنے کی سعی کرے تو پھر ہوا اور زمین اور پانی ہر چیز میں سمیت پھیل جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو وبا آتی ہے اس کی لپیٹ میں گندگی پھیلانے والے اور گندہ رہنے والے گندہ ماحول میں زندگی بسر کرنے والے سب ہی آ جاتے ہیں۔ اسی طرح اخلاقی نجاستوں کا حال بھی ہے کہ اگر وہ انفرادی طور پر بعض افراد میں موجود رہیں اور صالح سوسائٹی کے رعب سے دبی رہیں تو ان کے نقصانات محدود رہتے ہیں۔ لیکن جب سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر کمزور ہو جاتا ہے، جب اخلاقی برائیوں کو دبا کر رکھنے کی طاقت اُس میں نہیں رہتی، جب اس کے درمیان بُرے اور بے حیا اور بد اخلاق لوگ اپنے نفس کی گندگیوں کو اعلانیہ اچھالنے اور پھیلانے لگتے ہیں، اور جب اچھے لوگ بے عملی (Passive attitude) اختیار کر کے اپنی انفرادی اچھائی پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر ساکت و صامت ہو جاتے ہیں، تو مجموعی طور پر پوری سوسائٹی کی شامت آ جاتی ہے اور وہ فتنہ عام برپا ہوتا ہے جس میں چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔
پس اللہ تعالی ٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ رسول جس اصلاح و ہدایت کے کام کے لیے اٹھا ہے اور تمہیں جس خدمت میں ہاتھ بٹانے کے لیے بلا رہا ہے اسی میں درحقیقت شخصی و اجتماعی دونوں حیثیتوں سے تمہارے لیے زندگی ہے۔ اگر اس میں سچے دل سے مخلصانہ حصہ نہ لو گے اور ان برائیوں کو جو سوسائٹی میں پھیلی ہوئی ہیں برداشت کرتے رہو گے تو وہ فتنہ عام برپا ہو گا جس کی آفت سب کو لپیٹ میں لے لے گی خواہ بہت سے افراد تمہارے درمیان ایسے موجود ہوں جو عملاً برائی کرنے اور برائی پھیلانے کے ذمہ دار نہ ہوں، بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھلائی ہی لیے ہوئے ہوں۔ یہ وہی بات ہے جس کو سورہ اعراف آیات ۱۶۳-۱۶۶ میں اصحاب السّبت کی تاریخی مثال پیش کرتے ہوئے بیان کیا جاچکا ہے، اور یہی وہ نقطہ نظر ہے جسے اسلام کی اصلاحی جنگ کا بنیادی نظریہ کہا جا سکتا ہے۔
۲۱-یہاں شکر گزاری کا لفظ غور کے قابل ہے۔ اوپر کے سلسلہ تقریر کو نظر میں رکھا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس موقع پر شکر گزاری کا مفہوم صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ لوگ اللہ کے اس احسان کو مانیں کہ اس نے ا س کمزوری کی حالت سے انہیں نکا لا اور مکہ کی پر خطر زندگی سے بچا کر امن کی جگہ لے آیا جہاں طیبات رزق میسر ہو رہے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ یہ بات بھی اسی شکر گزاری کے مفہوم میں داخل ہے کہ مسلمان اُس خدا کی اور اُس کے رسول کی اطاعت کریں جس نے یہ احسانات ان پر کیے ہیں، اور رسول کے مشن میں اخلاص و جاں نثاری کے ساتھ کام کریں، اور اس کام میں جو خطرات و مہالک اور مصائب پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ اُسی خدا کے بھروسے پر کرتے چلے جائیں جس نے اس سے پہلے ان کو خطرات سے بعافیت نکالا ہے، اور یقین رکھیں کہ جب وہ خدا کا کام اخلاص کے ساتھ کریں گے تو خدا ضرور ان کا وکیل و کفیل ہو گا۔ پس شکر گزاری محض اعترافی نوعیت ہی کی مطلوب نہیں ہے بلکہ عملی نوعیت کی بھی مطلوب ہے۔ احسان کا اعتراف کرنے کے باوجود محسن کی رضا جوئی کے لیے سعی نہ کرنا اور اس کی خدمت میں مخلص نہ ہونا اور اس کے بارے میں یہ شک رکھنا کہ نہ معلوم آئندہ بھی وہ احسان کریگا یا نہیں، ہر گز شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اُلٹی نا شکری ہے۔
۲۲- ’’اپنی امانتوں‘‘ سے مراد وہ تمام ذمہ دار یاں ہیں جو کسی پر اعتبار (Trust) کر کے اس کے سپرد کی جائیں، خواہ وہ عہد وفا کی ذمہ دار یاں ہوں، یا اجتماعی معاہدات کی، یا جماعت کے رازوں کی، یا شخصی و جماعتی اموال کی، یا کسی ایسے عہدہ وہ منصب کی جو کسی شخص پر بھروسہ کرتے ہوئے جماعت اس کے حوالے کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء حاشیہ ۸۸)۔
۲۳-انسان کے اخلاص ایمانی میں جو چیز بالعموم خلل ڈالتی ہے اور جس کی وجہ سے انسان اکثر منافقت، غداری اور خیانت میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے مالی مفاد اور اپنی اولاد کے مفاد سے اس کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ مال اور اولاد، جن کی محبت میں گرفتار ہو کر تم عموماً راستی سے ہٹ جاتے ہو، دراصل یہ دنیا کی امتحان گاہ میں تمہارے لیے سامان آزمائش میں۔ جسے تم بیٹا یا بیٹی کہتے ہو حقیقت کی زبان میں وہ در اصل امتحان کا ایک پر چہ ہے۔ اور جسے تم جائداد یا کاروبار کہتے ہو وہ بھی درحقیقت ایک دوسرا پرچہ امتحان ہے۔ یہ چیزیں تمہارے حوالہ کی ہی اس لیے گئی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے تمہیں جانچ کر دیکھا جائے کہ تم کہاں تک حقوق ا ور حدود کا لحاظ کرتے ہو، کہاں تک اپنے نفس کو جو اِن دنیوی چیزوں کی محبت میں اسیر ہوتا ہے، اسی طرح قابو میں رکھتے ہو کہ پوری طرح بندہ حق بھی بنے رہو اور ان چیزوں کے حقوق اس حد تک ادا بھی کرتے رہو جس حد تک حضرتِ حق نے خود ان کا استحقاق مقرر کیا ہے۔
۲۴-کسوٹی اُس چیز کو کہتے ہیں جو کھرے اور کھوٹے کے امتیاز کو نمایاں کرتی ہے۔ یہی مفہوم ’’فرقان‘‘ کا بھی ہے اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ اس لفظ سے کیا ہے۔ ارشاد الٰہی کا منشا یہ ہے کہ اگر تم دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو تمہاری دلی خواہش یہ ہو کہ تم سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہونے پائے جو رضائے الٰہی کے خلاف ہو، تو اللہ تعالیٰ تمہارے اندر وہ قوتِ تمیز پیدا کردے گا جس سے قدم قدم پر تمہیں خود یہ معلوم ہوتا رہے گا کہ کونسا رویہ صحیح ہے اور کونسا غلط، کس رویہ میں خدا کی رضا ہے اور کس میں اس کی ناراضی۔ زندگی کے ہر موڑ، ہر دوراہے، ہر نشیب اور ہر فراز پر تمہاری اندرونی بصیرت تمہیں بتانے لگے گی کہ کدھر قدم اُٹھانا چاہے اور کدھر نہ اٹھانا چاہیے، کونسی راہ حق ہے اور خدا کی طرف جاتی ہے اور کونسی راہ باطل ہے اور شیطان سے ملاتی ہے۔
۲۵-یہ اس موقع کا ذکر ہے جبکہ قریش کا یہ اندیشہ یقین کی حد کو پہنچ چکا تھا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی مدینہ چلے جائیں گے۔ اس وقت وہ آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ شخص مکہ سے نکل گیا تو پھر خطرہ ہمارے قابو سے باہر ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے معاملہ میں ایک آخری فیصلہ کرنے کے لیے دار النَّدوَہ میں تمام رؤسائے قوم کا ایک اجتماع کیا اور اس امر پر باہم مشاورت کی کہ اس خطرے کا سدّ باب کس طرح کیا جائے۔ ایک فریق کی رائے یہ تھی کہ اس شخص کو بیڑیاں پہنا کر ایک جگہ قید کر دیا جائے اور جیتے جی رہا نہ کیا جائے۔ لیکن اس رائے کو قبول نہ کیا گیا کیونکہ کہنے والوں نے کہا کہ اگر ہم نے اسے قید کر دیا تو اس کے جو ساتھی قید خانے سے باہر ہوں گے وہ برابر اپنا کام کرتے رہیں گے اور جب ذرا بھی قوت پکڑ لیں گے تو اسے چھڑانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے میں بھی دریغ نہ کریں گے۔ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ اسے اپنے ہاں سے نکال دو۔ پھر جب یہ ہمارے درمیان نہ رہے تو ہمیں اس سے کچھ بحث نہیں کہ کہاں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے، بہر حال اس کے وجود سے ہمارے نظام زندگی میں خلل پڑنا تو بند ہو جائے گا۔ لیکن اسے بھی یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ شخص جادو بیان آدمی ہے، دلوں کو موہنے میں اسے بلا کا کمال حاصل ہے، اگر یہ یہاں سے نکل گیا تو نہ معلوم عرب کے کن کن قبیلوں کو اپنا پیرو بنا لے گا اور پھر کتنی قوت حاصل کر کے قلب عرب کو اپنے اقتدار میں لانے کے لیے تم پر حملہ آور ہو گا۔ آخر کار ابو جہل نے یہ رائے پیش کی کہ ہم اپنے تمام قبیلوں میں سے ایک ایک عالی نسبت تیز دست جوان منتخب کریں اور یہ سب مل کر یک بارگی محمد ؐ پر ٹوٹ پڑیں اور اسے قتل کر ڈالیں۔ اس طرح محمد ؐ کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف کے لیے ناممکن ہو جائے گا کہ سب سے لڑ سکیں اس لیے مجبوراً خوں بہا پر فیصلہ کرنے کے لیے راضی ہو جائیں گے۔ اس رائے کو سب نے پسند کیا، قتل کے لیے آدمی بھی نامزد ہو گئے اور قتل کا وقت بھی مقرر کر دیا گیا،حتیٰ کہ جو رات اس کام کے لیے تجویز کی گئی تھی اس میں ٹھیک وقت پر قاتلوں کا گروہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ بھی گیا، لیکن ان کا ہاتھ پڑنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کی آنکھوں میں خاک جھونک کر نکل گئے اور ان کی بنی بنائی تدبیر عین وقت پر ناکام ہو کر رہ گئی۔
۲۶-یہ بات وہ دعا کے طور پر نہیں کہتے تھے بلکہ چیلنج کے انداز میں کہتے تھے۔ یعنی ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر واقعی یہ حق ہوتا اور خدا کی طرف سے ہوتا تو اس کے جھٹلانے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم پر آسمان سے پتھر برستے اور عذابِ الیم ہمارے اوپر ٹوٹ پڑتا۔ مگر جب ایسا نہیں ہوتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ نہ حق ہے نہ مِن جانب اللہ ہے۔
۲۷-یہ ان کے اس سوال کا جواب ہے جو ان کی اوپر والی ظاہری دعا میں متضمن تھا۔ اس جواب میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکی دور میں کیوں عذاب نہیں بھیجا۔ اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ جب تک نبی کسی بستی میں موجود ہو اور حق کی طرف دعوت دے رہا ہو اس وقت تک بستی کے لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے اور عذاب بھیج کر قبل از وقت ان سے اصلاح پذیری کا موقع سلب نہیں کر لیا جاتا۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب تک بستی میں سے ایسے لوگ پے در پے نکلتے چلے آرہے ہوں جو اپنی سابقہ غفلت اور غلط روی پر متنبہ ہو کر اللہ سے معافی کی درخواست کرتے ہوں اور آئندہ کے لیے اپنے رویہ کی اصلاح کر لیتے ہوں، اس وقت تک کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ اس بستی کو تباہ کر کے رکھ دے۔ البتہ عذاب کا اصلی وقت وہ ہوتا ہے جب نبی اس بستی پر حجّت پوری کرنے کے بعد مایوس ہو کر وہاں سے نکل جائے یا نکال دیا جائے یا قتل کر ڈالا جائے، اور وہ بستی اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دے کہ وہ کسی صالح عنصر کو اپنے درمیان برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
۲۸-یہ اشارہ اس غلط فہمی کی تردید میں ہے جو لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی تھی اور جس سے عام طور پر اہلِ عرب دھوکا کھا رہے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قریش چونکہ بیت اللہ کے مجاور اور متولّی ہیں اور وہاں عبادت بجا لاتے ہیں اس لیے ان پر اللہ کا فضل ہے۔ اس کے رد میں فرمایا کہ محض میراث میں مجاورت اور تو لیت پا لینے سے کوئی شخص یا گروہ کسی عبادتگاہ کا جائز مجاور و متولی نہیں ہو سکتا۔ جائز مجاور و متولّی تو صرف خدا ترس اور پرہیز گار لوگ ہی ہو سکتے ہیں۔ اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ ایک جماعت کو، جو خالص خدا کی عبادت کر نے والی ہے، اُس عبادت گاہ میں آنے سے روکتے ہیں جو خالص خدا کی عبادت ہی کے لیے وقف کی گئی تھی۔ اس طرح یہ متولی اور خادم بن کر رہنے کے بجائے اس عبادت گاہ کے مالک بن بیٹھے ہیں اور اپنے آپ کو اس بات کا مختار سمجھنے لگے ہیں کہ جس سے یہ ناراض ہوں اسے عبادت گاہ میں نہ آنے دیں۔ یہ حرکت ان کے ناخدا ترس اور نا پرہیز گار ہونے کے صریح دلیل ہے۔ رہی ان کی عبادت جو وہ بیت اللہ میں کرتے ہیں تو اس کے اندر نہ خضوع و خشوع ہے، نہ توجہ الی اللہ ہے، نہ ذکر الٰہی ہے، بس ایک بے معنی شور و غل اور لہو و لعب ہے جس کا نام انہوں نے عبادت رکھ چھوڑا ہے۔ ایسی نام نہاد خدمت بیت اللہ اور ایسی جھوٹی عبادت پر آخر یہ فضلِ الٰہی کے مستحق کیسے ہو گئے اور یہ چیز انہیں عذاب الٰہی سے کیونکر محفوظ رکھ سکتی ہے ؟
۲۹-وہ سمجھتے تھے کہ عذابِ الٰہی صرف آسمان سے پھتروں کی شکل میں یا کسی اور طرح قوائے فطرت کے ہیجان ہی کی شکل میں آیا کرتا ہے۔ مگر یہاں انہیں بتایا گیا ہے کہ جنگ بدر میں اُن کی فیصلہ کن شکست، جس کی وجہ سے اسلام کے لیے زندگی کا اور قدیم نظام جاہلیت کے لیے موت کا فیصلہ ہوا ہے، دراصل ان کے حق میں اللہ کا عذاب ہی ہے۔
۳۰-اس سے بڑھ کر دیوالیہ پن اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسان جس راہ میں اپنا تمام وقت، تمام محنت، تمام قابلیت، اور پورا سرمایہ زندگی کھپا دے اُس کی انتہا پر پہنچ کر اسے معلوم ہو کہ وہ اسے سیدھی تباہی کی طرف لے آئی ہے اور اس راہ میں جو کچھ اس نے کھپا یا ہے اس پر کوئی سود یا منافع پانے کے بجائے اسے اُلٹا جرمانہ بھگتنا پڑے گا۔
۳۱-یہاں پھر مسلمانوں کی جنگ کے اُسی ایک مقصد کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے پہلے سورة بقر آیت ۱۹۳ میں بیان کیا گیا تھا۔ اس مقصد کا سلبی جزء یہ ہے کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور ایجابی جزء یہ کہ دین بالکل اللہ کے لیے ہو جائے بس یہی ایک اخلاقی مقصد ایسا ہے جس کے لیے لڑنا اہل ایمان کے لیے جائز بلکہ فرض ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے مقصد کی لڑائی جائز نہیں ہے اور نہ اہل ایمان کو زیبا ہے کہ اُس میں کسی طرح حصہ لیں۔ (تشریح کے یے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، حواشی ۲۰۴ و ۲۰۵)
۳۲-یہاں اُس مال غنیمت کی تقسیم کا قانون بتایا ہے جس کے متعلق تقریر کی ابتدا میں کہا گیا تھا کہ یہ اللہ کا انعام ہے جس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسول ہی کو حاصل ہے۔ اب وہ فیصلہ بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ لڑائی کے بعد تمام سپاہی ہر طرح کا مال غنیمت لا کر امیر یا امام کے سامنے رکھ دیں اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھیں۔ پھر اس مال میں سے پانچواں حصہ اُن اغراض کے لیے نکال لیا جائے جو آیت میں بیان ہوئی ہیں، اور باقی چار حصے ان سب لوگوں میں تقسیم کر دیے جائیں جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا ہو۔ چنانچہ اس آیت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ لڑائی کے بعد اعلان فرمایا کرتے تھے کہ ان ھٰذہ غنائمکم و انہ لیس لے فیھا الا نصیبی معکم الخمس ولاخمس مردود علیکم جا دو ا الخیط المخیط و اکبر من ذٰلک و اصغر ولا تغلوا جان الغلول عار و نار۔ ’’یہ غنائم تمہارے ہی لیے ہیں، میری اپنی ذات کا ان میں کوئی حصہ نہیں ہے بجز خمس کے اور وہ خمس بھی تمہارے ہی اجتماعی مصالح پر صرف کر دیا جاتا ہے۔ ‘‘ لہٰذا ایک ایک سوئی اور ایک ایک تاگا تک لا کر رکھ دو، کوئی چھوٹی یا بڑی چیز چھپا کر نہ رکھو کہ ایسا کرنا شرمناک ہے اور اس کا نتیجہ دوزخ ہے۔
اس تقسیم میں اللہ اور رسول کا حصہ ایک ہی ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ خمس کا ایک جزء اعلاء کلمۃ اللہ اور اقامت دینِ حق کے کام میں صرف کیا جائے۔
رشتہ دار وں سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں تو حضور ہی کے رشتہ دار تھے کیونکہ جب آپ اپنا سارا وقت دین کے کام میں صرف فرماتے تھے اور اپنی معاش کے لیے کوئی کام کرنا آپ کے لیے ممکن نہ رہا تھا تو لامحالہ اس کا انتظام ہونا چاہیے تھا کہ آپ کی اور آپ کے اہل و عیال اور اُن دوسرے اقربا کی، جن کی کفالت آپ کے ذمہ تھی، ضروریات پوری ہوں اس لیے خمس میں آپ کے اقربا کا حصہ رکھا گیا۔ لیکن اس امر میں اختلاف ہے کہ حضور کی وفات کے بعد ذوی القربیٰ کا یہ حصہ کس کو پہنچتا ہے۔ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد یہ حصہ منسوخ ہو گیا۔ دوسرے گروہ کی رائے ہے کہ حضور کے بعد یہ حصہ اس شخص کے اقربا کو پہنچے گا جو حضور کی جگہ خلافت کی خدمت انجام دے۔ تیسرے گروہ کے نزدیک یہ حصہ خاندان نبوت کے فقراء میں تقسیم کیا جاتا رہے گا۔ جہاں تک میں تحقیق کر سکا ہوں خلفاء راشدین کے زمانہ میں اسی تیسری رائے پر عمل ہوتا تھا۔
۳۳-یعنی وہ تائید وہ نصرت جس کی بدولت تمہیں فتح حاصل ہوئی۔
۳۴-یعنی ثابت ہو جائے کہ جو زندہ رہا اسے زندہ ہی رہنا چاہیے تھا اور جو ہلاک ہوا اسے ہلاک ہی ہونا چاہیے تھا۔ یہاں زندہ رہنے والے اور ہلاک ہونے والے سے مراد افراد نہیں ہیں بلکہ اسلام اور جاہلیت ہیں۔
۳۵-یعنی خدا اندھا، بہرا، بے خبر خدا نہیں ہے بلکہ دانا و بینا ہے۔ اس کی خدا ئی میں اندھا دھُند کام نہیں ہو رہا ہے۔
۳۶-یہ اس وقت کی بات ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کو لے کر مدینہ سے نکل رہے تھے یا راستہ میں کسی منزل پر تھے اور یہ متحقق نہ ہوا تھا کہ کفار کا لشکر فی الواقع کتنا ہے۔ اس وقت حضور ؐ نے خواب میں اس لشکر کو دیکھا اور جو منظر آپ کے سامنے پیش کیا گیا اس سے آپ نے اندازہ لگایا کہ دشمنوں کی تعداد کچھ بہت زیادہ نہیں ہے۔ یہی خواب آپ نے مسلمانوں کو سنا دیا اور اس سے ہمت پا کر مسلمان آگے بڑھتے چلے گئے۔
۳۷-یعنی اپنے جذبات و خواہشات کو قابو میں رکھو۔ جلد بازی، گھبراہٹ، ہِراس،طمع اور نا مناسب جوش سے بچو۔ ٹھنڈے دلی اور جچی تلی قوتِ فیصلہ کے ساتھ کام کرو۔ خطرات اور مشکلات سامنے ہوں تو تمہارے قدموں میں لغزش نہ آئے۔ اشتعال انگیز مواقع پیش آئیں تو غیظ و غضب کا ہیجان تم سے کوئی بے محل حرکت سرزد نہ کرنے پائے۔ مصائب کا حملہ ہو اور حالات بگڑتے نظر آرہے ہوں تو اضطراب میں تمہارے حواس پراگندہ نہ ہو جائیں۔ حصول مقصد کے شوق سے بے قرار ہو کر یا کسی نیم پختہ تدبیر کو سرسری نظر میں کارگر دیکھ کر تمہارے ارادے شتاب کاری سے مغلوب نہ ہوں۔ اور اگر کبھی دنیوی فوائد و منافع اور لذاتِ نفس کی ترغیبات تمہیں اپنی طرف لبھا رہی ہوں تو ان کے مقابلہ میں بھی تمہاری نفس اس درجہ کمزور نہ ہو کہ بے اختیار ان کی طرف کھینچ جاؤ۔ یہ تمام مفہومات صرف ایک لفظ ’’صبر‘‘ میں پوشیدہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ان تمام حیثیات سے صابر ہوں، میری تائید انہی کو حاصل ہے۔
۳۸-اشارہ ہے کفار قریش کی طرف، جن کا لشکر مکہ سے ا س شان سے نکلا تھا کہ گانے بجانے والی لونڈیاں ساتھ تھیں، جگہ جگہ ٹھیر کر رقص و سرود اور شراب نوشی کی محفلیں برپا کرتے جا رہے تھے، جو جو قبیلے اور قریے راستہ میں ملتے تھے ان پر اپنی طاقت و شوکت اور اپنی کثرت تعداد اور اپنے سر و سامان کا رعب جماتے تھے اور ڈینگیں مارتے تھے کہ بھلا ہمارے مقابلہ میں کون سر اٹھا سکتا ہے۔ یہ تو تھی ان کی اخلاقی حالت، اور اس پر مزید لعنت یہ تھی کہ ان کے نکلنے کا مقصد ان کے اخلاق سے بھی زیادہ ناپاک تھا۔ وہ اس لیے جان و مال کی بازی لگانے نہیں نکلے تھے کہ حق اور راستی اور انصاف کا علم بلند ہو، بلکہ اس لیے نکلے تھے کہ ایسا نہ ہونے پائے، اور وہ اکیلا گروہ بھی جو دنیا میں اس مقصد حق کے لیے اٹھا ہے ختم کر دیا جائے تا کہ اس علم کو اٹھا نے والا دنیا بھر میں کوئی نہ رہے۔ اس پر مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم کہیں ایسے نہ بن جانا۔ تمہیں اللہ نے ایمان اور حق پرستی کی جو نعمت عطا کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمہارے اخلاق بھی پاکیزہ ہوں اور تمہارا مقصد جنگ بھی پاک ہو۔
یہ ہدایت اُسی زمانہ کے لیے نہ تھی، آج کے لیے بھی ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے۔ کفار کی فوجوں کا جو حال اُس وقت تھا وہی آج بھی ہے۔ قحبہ خانے اور فواحش کے اڈے اور شراب کے پیپے ان کے ساتھ جزو لا ینفک کی طرح لگے رہتے ہیں۔ خفیہ طور پر نہیں بلکہ علی الاعلان نہایت بے شرمی کے ساتھ وہ عورتوں اور شراب کا زیادہ سے زیادہ راشن مانگتے ہیں اور ان کے سپاہیوں کو خود اپنی قوم ہی سے یہ مطالبہ کرنے میں باک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بڑی سے بڑی تعداد میں ان کی شہوت کا کھلونا بننے کے لیے پیش کرے۔ پھر بھلا کوئی دوسری قوم ان سے کیا امید کر سکتی ہے کہ یہ اس کو اپنی اخلاقی گندگی کی سنڈاس بنانے میں کوئی کسر اٹھا رکھیں گے۔ رہا ان کا تکبر اور تفاخر تو ان کے ہر سپاہی اور ہر افسر کی چال ڈھال اور انداز گفتگو میں وہ نمایاں دیکھا جا سکتا ہے اور ان میں سے ہر قوم کے مدبرین کی تقریروں میں لا غالب لکم الیوم اور من اشد منا قوة کی ڈینگیں سُنی جا سکتی ہیں۔ان اخلاقی نجاستوں سے زیادہ نا پاک ان کے مقاصد جنگ ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نہایت مکاری کے ساتھ دنیا کو یقین دلاتا ہے کہ اس کے پیش نظر انسانیت کی فلاح کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مگر درحقیقت ان کے پیش نظر ایک فلاحِ انسانیت ہی نہیں ہے، باقی سب کچھ ہے۔ ان کی لڑائی کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدا نے اپنی زمین میں جو کچھ سارے انسانوں کے لیے پیدا کیا ہے اس پر تنہا ان کی قوم متصرف ہو اور دوسرے اس کے چاکر اور دست نگر بن کر رہیں۔ پس اہل ایمان کو قرآن کی یہ دائمی ہدایت ہے کہ ان فساق و فجار کے طور طریقوں سے بھی بچیں اور اُن ناپاک مقاصد میں بھی اپنی جان و مال کھپانے سے پرہیز کریں جن کے لیے یہ لوگ لڑتے ہیں۔
۳۹-یعنی مدینہ کے منافقین اور وہ سب لوگ جو دنیا پر ستی اور خدا سے غفلت کے مرض میں گرفتار تھے، یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر بے سر و سامان جماعت قریش جیسی زبردست طاقت سے ٹکرا نے کے لیے جا رہی ہے، آپس میں کہتے تھے کہ یہ لوگ اپنے دینی جوش میں دیوانے ہو گئے ہیں، اس معرکہ میں ان کی تباہی یقینی ہے، مگر اس نبی نے کچھ ایسا افسوں ان پر پھونک رکھا ہے کہ ان کی عقل خبط ہو گئی ہے اور آنکھوں دیکھے یہ موت کے منہ میں چلے جا رہے ہیں۔
۴۰-یعنی جب تک کوئی قوم اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کی نعمت کا غیر مستحق نہیں بنا دیتی اللہ اس سے اپنی نعمت سلب نہیں کیا کرتا۔
۴۱-یہاں خاص طور پر اشارہ ہے یہود کی طرف، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے انہی کے ساتھ حسن جوار اور باہمی تعاون و مددگاری کا معاہدہ کیا تھا اور اپنی حد تک پوری کوشش کی تھی کہ ان سے خوشگوار تعلقات قائم رہیں۔ نیز دینی حیثیت سے بھی آپ یہود کو مشرکین کی بہ نسبت اپنے قریب تر سمجھتے تھے اور ہر معاملہ میں مشرکین کے بالمقابل اہل کتاب ہی کے طریقہ کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن اُن کے علماء اور مشائخ کو توحیدِ خالص اور اخلاق صالحہ کہ وہ تبلیغ اور اعتقادی و عملی گمراہیوں پر وہ تنقید اور اقامت دین حق کی وہ سعی، جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کر رہے تھے، ایک آن نہ بھاتی تھی اور ان کی پیہم کوشش یہ تھی کہ یہ نئی تحریک کسی طرح کامیاب نہ ہونے پائے۔ اسی مقصد کے لیے وہ مدینہ کے منافق مسلمانوں سے ساز باز کرتے تھے۔ اسی کے لیے وہ اَوس اور خَزرَج کے لوگوں میں ان پرانی عداوتوں کو بھڑکاتے تھے جوا سلام سے پہلے ان کے درمیان کُشت و خون کی موجب ہوا کرتی تھیں۔ اسی کے لیے قریش اور دوسرے مخالفِ اسلام قبیلوں سے ان کی خفیہ سازشیں چل رہی تھیں اور یہ حرکات اُس معاہد ہ دوستی کے باوجود ہو رہی تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے درمیان لکھا جا چکا تھا۔ جب جنگ بدر واقع ہوئی تو ابتدا میں ان کو توقع تھی کہ قریش کی پہلی ہی چوٹ اس تحریک کا خاتمہ کر دے گی۔ لیکن جب نتیجہ ان کی توقعات کے خلاف نکلا تو اُن کے سینوں کی آتشِ حسد اور زیادہ بھڑک اُٹھی۔ انہوں نے اس اندیشہ سے کہ بدر کی فتح کہیں اسلام کی طاقت کو ایک مستقل ’’خطرہ‘‘ نہ بنا دے اپنی مخالفانہ کوششوں کو تیز تر کر دیا۔ حتیٰ کہ اُن کا ایک لیڈر کعب بن اشرف (جو قریش کی شکست سنتے ہی چیخ اُٹھا تھا کہ آج زمین کا پیٹ ہمارے لیے اُس کی پیٹھ سے بہتر ہے ) خود مکہ گیا اور وہاں سے اس نے ہیجان انگیز مرثیے کہہ کہہ کر قریش کو انتقام کا جوش دلا یا۔ اس پر بھی ان لوگوں نے بس نہ کی۔ یہودیوں کے قبیلہ بنی قَینْقاع نے معاہدہ حسنِ جوار کے خلاف ان مسلمان عورتوں کو چھیڑنا شروع کیا جو ان کی بستی میں کسی کام سے جاتی تھیں۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اس حرکت پر ملامت کی تو انہوں نے جواب میں دھمکی دی کہ ’’ یہ قریش نبا شد، ہم لڑنے مرنے والے لوگ ہیں اور لڑنا جانتے ہیں۔ ہمارے مقابلہ میں آؤ گے تب تمہیں پتہ چلے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔‘‘
۴۲-اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی قوم سے ہمارا معاہدہ ہو اور پھر وہ اپنی معاہدانہ ذمہ دار یوں کو پس پشت ڈال کر ہمارے خلاف کسی جنگ میں حصہ لے، تو ہم بھی معاہدے کی اخلاقی ذمہ دار یوں سے سُبک دوش ہو جائیں گے اور ہمیں حق ہو گا کہ اس سے جنگ کریں۔ نیز اگر کسی قوم سے ہماری لڑائی ہو رہی ہو اور ہم دیکھیں کہ دشمن کے ساتھ ایک ایسی قوم کے افراد بھی شریک جنگ ہیں جس سے ہمارا معاہدہ ہے، تو ہم ان کو قتل کرنے اور ان سے دشمن کا سا معاملہ کرنے میں ہر گز کوئی تامل نہ کریں گے، کیونکہ انہوں نے اپنی انفرادی حیثیت میں اپنی قوم کے معاہدے کی خلاف ورزی کر کے اپنے آپ کو اس کا مستحق نہیں رہنے دیا ہے کہ ان کی جان و مال کے معاملہ میں اس معاہدے کا احترام ملحوظ رکھا جائے جو ہمارے اور ان کی قوم کے درمیان ہے۔
۴۳-اس آیت کے رو سے ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اگر کسی شخص یا گروہ یا ملک سے ہمارا معاہدہ ہو اور ہمیں اس کے طرزِ عمل سے یہ شکایت لاحق ہو جائے کہ وہ عہد کی پابندی میں کوتا ہی برت رہا ہے، یا یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ وہ موقع پاتے ہی ہمارے ساتھ غداری کر بیٹھے گا، تو ہم اپنی جگہ خود فیصلہ کر لیں کہ ہمارے اور اس کے درمیان معاہدہ نہیں رہا اور یکایک اس کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا شروع کر دیں جو معاہدہ نہ ہونے کہ صورت ہی میں کیا جا سکتا ہو۔ اس کے برعکس ہمیں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو ہم کوئی مخالفانہ کاروائی کرنے سے پہلے فریق ثانی کو صاف صاف بتا دیں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب معاہدہ باقی نہیں رہا، تا کہ فسخ معاہدہ کا جیسا علم ہم کو حاصل ہے ویسا ہی اس کو بھی ہو جائے اور وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ معاہدہ اب بھی باقی ہے۔ اسی فرمان الٰہی کے مطابق بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلام کی بین الاقوامی پالیسی کا یہ مستقل اصول قرار دیا تھا کہ من کان بینہ وبین قوم عھد فلا یحلن عقدہ حتی ینقضی امدھا او ینبذ الیھم عل سواء۔ ’’جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو اسے چاہیے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے عہد کا بند نہ کھولے۔ یا نہیں تو ان کا عہد برابری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی طرف پھینک دے ‘‘۔ پھر اسی قاعدے کو آپ نے اور زیادہ پھیلا کر تمام معاملات میں عام اصول یہ قائم کیا تھا کہ لا تخن من خانک ’’جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر‘‘۔ اور یہ اصول صرف وعظوں میں بیان کرنے اور کتابوں کی زینت بننے کے لیے نہ تھا بلکہ عملی زندگی میں بھی اس کی پابندی کی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب امیر معاویہ نے اپنے عہد بادشاہی میں سرحد روم پر فوجوں کا اجتماع اس غرض سے کرنا شروع کیا کہ معاہدہ کی مدت ختم ہوتے ہی یکایک رومی علاقہ پر حملہ کر دیا جائے تو ان کی اس کاروائی پر عمرو بن عَنبَسَہ صحابی ؓ نے سخت احتجاج کیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہی حدیث سنا کر کہا کہ معاہدہ کی مدت کے اندر یہ معاندانہ طرز عمل اختیار کرنا غداری ہے۔ آخر کار امیر معاویہ کو اس اصول کے آگے سر جھکا دینا پڑا اور سرحد پر اجتماع فوج روک دیا گیا۔
یک طرفہ فسخِ معاہدہ اور اعلان جنگ کے بغیر حملہ کر دینے کا طریقہ قدیم جاہلیت میں بھی تھا اور زمانہ حال کی مہذب جاہلیت میں بھی اس کا رواج موجود ہے۔ چنانچہ اس کی تازہ ترین مثالیں جنگ عظیم نمبر ۲ میں روس پر جرمنی کے حملے اور ایران کے خلاف روس و برطانیہ کی فوجی کاروائی میں دیکھی گئی ہیں۔ عمو ماً اس کاروائی کے لیے یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ حملہ سے پہلے مطلع کر دینے سے دوسرا فریق ہوشیار ہو جاتا اور سخت مقابلہ کرتا، یا اگر ہم مداخلت نہ کرتے تو ہمارا دشمن فائدہ اٹھا لیتا لیکن اس قسم کے بہانے اگر اخلاقی ذمہ دار یوں کو ساقط کر دینے کے لیے کافی ہوں تو پھر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی بہانے نہ کیا جا سکتا ہو۔ ہر چور، ہر ڈاکو، ہر زانی، ہر قاتل، ہر جعلساز اپنے جرائم کے لیے ایسی ہی کوئی مصلحت بیان کر سکتا ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ یہ لوگ بین الاقوامی سوسائٹی میں قوموں کے لیے اُن بہت سے افعال کو جائز سمجھتے ہیں جو خود ان کی نگاہ میں حرام ہیں جب کہ ان کا ارتکاب قومی سوسائٹی میں افراد کی جانب سے ہو۔
اس موقع پر جان لینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی قانون صرف ایک صورت میں بلا اطلاع حملہ کرنے کو جائز رکھتا ہے، اور وہ صورت یہ ہے کہ فریق ثانی علی العلان معاہدہ کو توڑ چکا ہو اور اس نے صریح طور پر ہمارے خلاف معاندانہ کار ردائی کی ہو۔ ایسی صورت میں یہ ضروری نہیں رہتا کہ ہم اسے آیت مذکورہ بالا کے مطابق فسخ معاہدہ کا نوٹس دیں، بلکہ ہمیں اس کے خلاف بلا اطلاع جنگی کاروائی کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے یہ استثنائی حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فعل سے نکالا ہے کہ قریش نے جب بنی خُزاعہ کے معاملہ میں صلح حُدَیبیہ کو علانیہ توڑ دیا تو آپ نے پھر انہیں فسخ معاہدہ کا نوٹس دینے کی کوئی ضرورت نہ سمجھی، بلکہ بلا اطلاع مکہ پر چڑھائی کر دی۔ لیکن اگر کسی موقع پر ہم اس قاعدہ استثناء سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو لازم ہے کہ وہ تمام حالات ہمارے پیش نظر رہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کاروائی کی تھی، تا کہ پیروی ہو تو آپ کے پورے طرز عمل کہ ہو نہ کہ اس کے کسی ایک مفید مطلب جزء کی۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ:
اولاً، قریش کی خلاف ورزی عہد ایسی صریح تھی کہ اس کے نقض عہد ہونے میں کسی کلام کا موقع نہ تھا۔خود قریش کے لوگ بھی اس کے معترف تھے کہ واقعی معاہدہ ٹوٹ گیا ہے۔ انہوں نے خود ابو سفیان کو تجدید عہد کے لیے مدینہ بھیجا تھا جس کے صاف معنی یہی تھے کہ اُن کے نزدیک بھی عہد باقی نہیں رہا تھا۔ تا ہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ناقضِ عہد قوم کو خود بھی اپنے نقضِ عہد کا اعتراف ہو۔ البتہ یہ یقیناً ضروری ہے کہ نقضِ عہد بالکل صریح اور غیر مشتبہ ہو۔
ثانیاً، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی طرف سے عہد ٹوٹ جانے کے بعد پھر اپنی طرف سے صرا حتہ ً یا اشارةً و کنایتہً ایسی کوئی بات نہیں کی کہ جس سے یہ ایماء نکلتا ہو کہ اس بد عہدی کے باوجود آپ ابھی تک اُن کو ایک معاہد قوم سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ آپ کے معاہدانہ روابط اب بھی قائم ہیں۔ تمام روایات بالاتفاق یہ بتاتی ہیں کہ جب ابو سفیان نے مدینہ آ کر تجدید معاہدہ کی درخواست پیش کی تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا۔
ثالثاً، قریش کے خلاف جنگی کاروائی آپ نے خود کی اور کھلم کھلا کی۔ کسی ایسی فریب کاری کا شائبہ تک آپ کے طرز عمل سے نہیں پایا جاتا کہ آپ نے بظاہر صلح اور بباطن جنگ کا کوئی طریقہ استعمال فرمایا ہو۔
یہ اس معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ حسنہ ہے، لہٰذا آیت مذکورہ بالا کے حکم عام سے ہٹ کر اگر کوئی کاروائی کی جا سکتی ہے تو ایسے ہی مخصوص حالات میں کی جا سکتی ہے اور اسی سیدھے سیدھے شریفانہ طریقہ سے کی جا سکتی ہے جو حضور نے اختیار فرمایا تھا۔
مزید براں اگر کسی معاہد قوم سے کسی معاملہ میں ہماری نزاع ہو جائے اور ہم دیکھیں کہ گفت و شنید یا بین الاقوامی ثالثی کے ذریعہ سے وہ نزاع طے نہیں ہوتی، یا یہ کہ فریق ثانی اس کو بزور طے کرنے پر تُلا ہوا ہے، تو ہمارے لیے یہ بالکل جائز ہے کہ ہم اس کو طے کرنے میں طاقت استعمال کریں، لیکن آیتِ مذکورۂ بالا ہم پر یہ اخلاقی پابندی عائد کرتی ہے کہ ہمارا یہ استعمالِ طاقت صاف صاف اعلان کے بعد ہونا چاہیے اور کھلم کھلا ہونا چاہیے۔ چوری چھپے ایسی جنگی کاروائیاں کرنا جن کا علانیہ اقرار کرنے کے لیے ہم تیار نہ ہوں، ایک بد اخلاقی ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو نہیں دی ہے۔
۴۴-اس سے مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس سامانِ جنگ اور ایک مستقل فوج (Standing army) ہر وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کاروائی کر سکو۔ یہ نہ ہو کہ خطرہ سر پر آنے کے بعد گھبراہٹ میں جلدی جلدی رضا کار اور اسلحہ اور سامان رسد جمع کرنے کی کوشش کی جائے اور اس اثنا میں کہ یہ تیاری مکمل ہو، دشمن اپنا کام کر جائے۔
۴۵-یعنی بین الاقوامی معاملات میں تمہاری پا لیسی بزدلانہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ خدا کے بھروسہ پر بہادرانہ اور دلیرانہ ہونی چاہیے۔ دشمن جب گفتگوئے مصالحت کی خواہش ظاہر کرے، بے تکلف اس کے لیے تیار ہو جاؤ اور صلح کے لیے ہاتھ بڑھانے سے اس بنا پر انکار نہ کرو کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ صلح نہیں کرنا چاہتا بلکہ غداری کا ارادہ رکھتا ہے۔ کسی کی نیت بہر حال یقینی طور پر معلوم نہیں ہو سکتی۔ اگر وہ واقعی صلح ہی کی نیت رکھتا ہو تو تم خواہ مخواہ اس کی نیت پر شبہہ کر کے خونریزی کو طول کیوں دو۔ اور اگر وہ عذر کی نیت رکھتا ہو تو تمہیں خدا کے بھروسے پر بہادر ہونا چاہیے۔ صلح کے لیے بڑھنے والے ہاتھ کے جواب میں ہاتھ بڑھاؤ تا کہ تمہاری اخلاقی برتری ثابت ہو، اور لڑائی کے لیے اٹھنے والے ہاتھ کو اپنی قوت بازو سے توڑ کر پھینک دو تا کہ کبھی کوئی غدار قوم تمہیں نرم چارہ سمجھنے کی جرات نہ کرے۔
۴۶-اشارہ ہے اُس بھائی چارے اور الفت و محبت کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والے اہل عرب کے درمیان پیدا کر کے ان کو ایک مضبوط جتھا بنا دیا تھا، حالانکہ اس جتھے کے افراد اُن مختلف قبیلوں سے نکلے ہوئے تھے جن کے درمیان صدیوں سے دشمنیاں چلی آ رہی تھیں۔ خصوصیت کے ساتھ اللہ کا یہ فضل اوس و خَزرَج کے معاملہ میں تو سب سے زیادہ نمایاں تھا۔ یہی دونوں قبیلے دو ہی سال پہلے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور مشہور جنگ بُعاث کو کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے جس میں اوس نے خزرج کو اور خزرج نے اوس کو گویا صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا تہیہ کر لیا تھا۔ ایسی شدید عداوتوں کو دو تین سال کے اندر گہری دوستی و برادری میں تبدیل کر دینا اور ان متنافر اجزا کو جوڑ کر ایسی ایک بنیان مرصوص بنا دینا جیسی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں اسلامی جماعت تھی، یقیناً انسان کی طاقت سے بالا تر تھا اور دنیوی اسباب کی مدد سے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام نہیں پا سکتا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہماری تائید و نصرت نے یہ کچھ کر دکھایا ہے تو آئندہ بھی تمہاری نظر دنیوی اسباب پر نہیں بلکہ خدا کی تائید پر ہونی چاہیے کہ جو کچھ کام بنے گا اسی سے بنے گا۔
۴۷-آج کل کی اصطلاح میں چیز کو قوتِ معنوی یا قوتِ اخلاقی (Morale) کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اسی کو فقہ و فہم اور سمجھ بوجھ (Understanding) سے تعبیر کیا ہے، اور یہ لفظ اس مفہوم کے لیے جدید اصطلاح سے زیادہ سائنٹیفک ہے۔ جو شخص اپنے مقصد کا صحیح شعور رکھتا ہو اور ٹھنڈے دل سے خوب سوچ سمجھ کر اس لیے لڑ رہا ہو کہ جس چیز کے لیے وہ جان کی بازی لگانے آیا ہے وہ اس کی انفرادی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے اور اس کے ضائع ہو جانے کے بعد جینا بے قیمت ہے، وہ بے شعوری کے ساتھ لڑنے والے آدمی سے کئی گنی زیادہ طاقت رکھتا ہے اگرچہ جسمانی طاقت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو۔ پھر جس شخص کو حقیقت کا شعور حاصل ہو، جو اپنی ہستی اور خدا کی ہستی اور خدا کے ساتھ اپنے تعلق اور حیات دنیا کی حقیقت اور موت کی حقیقت اور حیات بعد موت کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہو اور جسے حق اور باطل کے فرق اور غلبہ باطل کے نتائج کا بھی صحیح ادراک ہو، اس کی طاقت کو تو وہ لوگ بھی نہیں پہنچ سکتے جو قومیت یا وطنیت یا طبقاتی نزاع کا شعور لیے ہوئے میدان میں آئیں اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ ایک سمجھ بوجھ رکھنے والے مومن اور ایک کافر کے درمیان حقیقت کے شعور اور عدم شعور کی وجہ سے فطرةً ایک اور دس کی نسبت ہے۔ لیکن یہ نسبت صرف سمجھ بوجھ سے قائم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ صبر کی صفت بھی ایک لازمی شرط ہے۔
۴۸-اس کا مطلب نہیں ہے کہ پہلے ایک اور دس کی نسبت تھی اور اب چونکہ تم میں کمزوری آ گئی ہے اس لیے ایک اور دو کی نسبت قائم کر دی گئی ہے۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اصولی اور معیاری حیثیت سے تو اہل ایمان اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت ہے، لیکن چونکہ ابھی تم لوگوں کی اخلاقی تربیت مکمل نہیں ہوئی ہے اور ابھی تک تمہارا شعور اور تمہاری سمجھ بوجھ کا پیمانہ بلوغ کی حد کو نہیں پہنچا ہے اس لیے سر دست برسبیلِ تنزل تم سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے سے دوگنی طاقت سے ٹکرانے میں تو تمہیں کوئی تامل نہ ہونا چاہیے۔ خیال رہے کہ یہ ارشاد سن ۲ ہجری کا ہے جب کہ مسلمانوں میں بہت سے لوگ ابھی تازہ تازہ ہی داخلِ اسلام ہوئے تھے اور ان کی تربیت ابتدائی حالت میں تھی۔ بعد میں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رہنمائی میں یہ لوگ پختگی کو پہنچ گئے تو فی الواقع ان کے اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت قائم ہو گئی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آخر عہد اور خلفائے راشدین کے زمانہ کی لڑائیوں میں بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے۔
۴۹-اس آیت کی تفسیر میں اہل تاویل نے جو روایات بیان کی ہیں وہ یہ ہیں کہ جنگ بدر میں لشکر قریش کے جو لوگ گرفتار ہوئے تھے ان کے متعلق بعد میں مشورہ ہوا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے رائے دی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، اور حضرت عمر ؓ نے کہا کہ قتل کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر ؓ کی رائے قبول کی اور فدیہ کا معاملہ طے کر لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات بطور عتاب نازل فرمائیں۔ مگر مفسرین آیت کے اس فقرے کی کوئی معقول تاویل نہیں کر سکے ہیں کہ ’’اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد تقدیر الٰہی ہے، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ ارادہ فرما چکا تھا کہ مسلمانوں کے لیے غنائم کو حلال کر دے گا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ جب تک وحی تشریعی کے ذریعہ سے کسی چیز کی اجازت نہ دی گئی ہو، اس کا لینا جائز نہیں ہو سکتا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم سمیت پوری اسلامی جماعت اس تاویل کی رو سے گناہ گار قرار پاتی ہے اور ایسی تاویل کو اخبار احاد کے اعتماد پر قبول کر لینا ایک بڑی ہی سخت بات ہے۔
میرے نزدیک اس مقام کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جنگ بدر سے پہلے سورہ محمد میں جنگ کے متعلق جو ابتدائی ہدایات دی گئی تھیں، ان میں یہ ارشاد ہوا تھا کہ فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ حَتّٰۤی اِذَ ۤا اَثۡخَنۡتُمُوۡ ھُمۡ فَشُدُّوا الوَثَاقَ فَاِمَّا مَنًّا بَعۡدُ وَاِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَھَا (آیت ۴) اس ارشاد میں جنگی قیدیوں سے فدیہ وصول کرنے کی اجازت تو دے دی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگائی گئی تھی کہ پہلے دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچل دیا جائے پھر قیدی پکڑنے کی فکر کی جائے۔ اس فرمان کی رو سے مسلمانوں نے بدر میں جو قیدی گرفتار کیے اور اس کے بعد ان سے جو فدیہ وصول کیا وہ تھا تو اجازت کے مطابق، مگر غلطی یہ ہوئی کہ ’’دشمن کی طاقت کو کچل دینے ‘‘ کی جو شرط مقدم رکھی گئی تھی اسے پورا کرنے میں کوتا ہی کی گئی۔ جنگ میں جب قریش کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کا یک بڑا گروہ غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگ گیا اور بہت کم آدمیوں نے دشمنوں کا کچھ دور تک تعاقب کیا۔ حالاں کہ اگر مسلمان پوری طاقت سے اُن کا تعاقب کرتے تو قریش کی طاقت کا اسی روز خاتمہ ہو گیا ہوتا۔ اسی پر اللہ تعالیٰ عتاب فرما رہا ہے اور یہ عتاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں پر ہے۔ فرمان مبارک کا منشا یہ ہے کہ ’’تم لوگ ابھی نبی کے مشن کو اچھی طرح نہیں سمجھے ہو۔ نبی کا اصل کام یہ نہیں ہے کہ فدیے اور غنائم وصول کر کے خزانے بھرے، بلکہ اس کے نصب العین سے جو چیز براہ راست تعلق رکھتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ کفر کی طاقت ٹوٹ جائے۔ مگر تم لوگوں پر بار بار دنیا کا لالچ غالب ہو جاتا ہے۔ پہلے دشمن کی اصل طاقت کے بجائے قافلے پر حملہ کرنا چاہا، پھر دشمن کا سر کچلنے کے بجائے غنیمت لوٹنے اور قیدی پکڑنے میں لگ گئے، پھر غنیمت پر جھگڑنے لگے۔ اگر ہم پہلے فدیہ وصول کرنے کی اجازت نہ دے چکے ہوتے تو اس پر تمہیں سخت سزا دیتے۔ خیر اب جو کچھ تم نے لیا ہے وہ کھا لو، مگر آئندہ ایسی روش سے بچتے رہو جو خدا کے نزدیک نا پسندیدہ ہے ‘‘۔ میں اس رائے پر پہنچ چکا تھا کہ امام جَصّاص کی کتاب احکام القرآن میں یہ دیکھ کر مجھے مزید اطمینان حاصل ہوا کہ امام موصوف بھی اس تاویل کو کم از کم قابل لحاظ ضرور قرار دیتے ہیں۔ پھر سیرت ابن ہشام میں یہ روایت نظر سے گزری کہ جس وقت مجاہدینِ اسلام مال غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ حضرت سعد بن معاذ کے چہرے پر کچھ کراہت کے آثار ہیں۔ حضور نے ان سے دریافت فرمایا کہ ’’اے سعد، معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی یہ کاروائی تمہیں پسند نہیں آ رہی ہے ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ’’جی ہاں یا رسول اللہ، یہ پہلا معرکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کو شکست دلوائی ہے، اس موقع پر انہیں قیدی بنا کر ان کی جانیں بچا لینے سے زیادہ بہتر یہ تھا کہ ان کو خوب کچل ڈالا جاتا (جلد ۲۔ صفحہ ۲۸۔۲۸١)
۵۰-یہ آیت اسلام کے دستوری قانون کی ایک اہم دفعہ ہے۔ اس میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ ’’ولایت‘‘ کا تعلق صرف اُن مسلمانوں کے درمیان ہو گا جو یا تو دار الاسلام کے باشندے ہوں، یا اگر باہر سے آئیں تو ہجرت کر کے آ جائیں۔ باقی رہے وہ مسلمان جو اسلامی ریاست کے حدودِ ارضی سے باہر ہوں، تو ان کے ساتھ مذہبی اخوت تو ضرور قائم رہے گی، لیکن ’’ولایت‘‘ کا تعلق نہ ہو گا، اور اسی طرح ان مسلمانوں سے بھی یہ تعلق ولایت نہ رہے گا جو ہجرت کر کے نہ آئیں بلکہ دار الکفر کی رعایا ہونے کی حیثیت سے دار الاسلام میں آئیں۔ ’’ ولایت‘‘ کا لفظ عربی زبان میں حمایت، نصرت، مددگاری، پشتیبانی، دوستی قرابت، سرپرستی اور اس سے ملتے جلتے مفہومات کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور اس آیت کے سیاق و سباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے، اور شہریوں کا اپنی ریاست سے، اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے۔ پس یہ آیت ’’دستوری و سیاسی ولایت‘‘ کو اسلامی ریاست کے ارضی حدود تک محدود کر دیتی ہے، اور ان حدود سے باہر کے مسلمانوں کو اس مخصوص رشتہ سے خارج قرار دیتی ہے۔ اس عدم ولایت کے قانونی نتائج بہت وسیع ہیں جن کی تفضیلات بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے۔ مثال کے طور پر صرف اتنا اشارہ کافی ہو گا کہ اسی عدم ولایت کی بنا پر دار الکفر اور دار الاسلام کے مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے، ایک دوسرے کے قانونی ولی (Guardian) نہیں بن سکتے، با ہم شادی بیاہ نہیں کر سکتے، اور اسلامی حکومت کسی ایسے مسلمان کو اپنے ہاں ذمہ دار ی کا منصب نہیں دے سکتی جس نے دار الکفر سے شہریت کا تعلق نہ توڑا ہو۔ علاوہ بریں یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ س کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ دار ی اُن مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ دار ی کا بار اس کے سر نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ انا بری من کل مسلم بین ظھرانی المشرکین۔ ’’میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو‘‘۔ اس طرح اسلامی قانون نے اُس جھگڑے کی جڑ کات دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔ کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑ جاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔
۵۱-اوپر کی آیت میں دار الاسلام سے باہر رہنے والے مسلمانوں کو ’’سیاسی ولایت‘‘ کے رشتہ سے خارج قرار دیا گیا تھا۔ اب یہ آیت اس امر کی توضیح کر تی ہے کہ اس رشتہ سے خارج ہونے کے باوجود وہ ’’دینی اخوت‘‘ کے رشتہ سے خارج نہیں ہیں۔ اگر کہیں ان پر ظلم ہو رہا ہو اور وہ اسلامی برادری کے تعلق کی بنا پر دار الاسلام کی حکومت اور اس کے باشندوں سے مدد مانگیں تو ان کا فرض ہے کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کی مدد کریں۔ لیکن اس کے بعد مزید توضیح کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دھُند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ دار یوں اور اخلاقی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دار الاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جا سکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ دار یوں کے خلاف پڑتی ہو۔ آیت میں معاہدہ کے لیے ’’میثاق‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کا مادہ ’’وثوق‘‘ ہے جو عربی زبان کی طرح اردو زبان میں بھی بھروسے اور اعتماد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ میثاق ہر اس چیز کو کہیں گے جس کی بنا پر کوئی قوم بطریق معروف یہ اعتماد کرنے میں حق بجانب ہو کہ ہمارے اور اس کے درمیان جنگ نہیں ہے، قطع نظر اس سے کہ ہمارا اُس کے ساتھ صریح طور پر عدم محاربہ کا عہد وپ یمان ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ پھر آیت میں بینکم و بینھم میثاق کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں، یعنی ’’تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو‘‘۔ اس سے یہ صاف مترشح ہوتا ہے کہ دار الاسلام کی حکومت نے جو معاہدانہ تعلقات کسی غیر مسلم حکومت سے قائم کیے ہوں وہ صرف دو حکومتوں کے تعلقات ہی نہیں ہیں بلکہ دو قوموں کے تعلقات بھی ہیں اور ان کی اخلاقی ذمہ دار یوں میں مسلمان حکومت کے ساتھ مسلمان قوم اور اس کے افراد بھی شریک ہیں۔ اسلامی شریعت اس بات کو قطعاً جائز نہیں رکھتی کہ مسلم حکومت جو معاملات کسی ملک یا قوم سے طے کرے ان کی اخلاقی ذمہ دار یوں سے مسلمان قوم یا اس کے افراد سبک دوش رہیں۔ البتہ حکومتِ دار الاسلام کے معاہدات کی پابندیاں صرف اُن مسلمانوں پر ہی عائد ہوں گی جو اس حکومت کے دائرہ عمل میں رہتے ہوں اس دائرے سے باہر دنیا کے باقی مسلمان کسی طرح بھی ان ذمہ دار یوں میں شریک نہ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیبیہ میں جو صلح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کفار مکہ سے کی تھی اس کی بنا پر کوئی پابندی حضرت ابو بصیر اور ابو جَندل اور اُن دوسرے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوئی جو دار الاسلام کی رعایا نہ تھے۔
۵۲-اس فقرے کا تعلق اگر قریب ترین فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جس طرح کفار ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اگر تم اہل ایمان اُسی طرح آپس میں ایک دوسرے کی حمایت نہ کرو تو زمین میں فتنہ اور فسادِ عظیم برپا ہو گا۔ اور اگر اس کا تعلق اُن تمام ہدایات سے مانا جائے جو آیت ۷۲ سے یہاں تک دی گئی ہیں تو اس ارشاد کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر دار الاسلام کے مسلمان ایک دوسرے کے ولی نہ بنیں، اور اگر ہجرت کر کے دار الاسلام میں نہ آنے والے اور دار الکفر میں مقیم رہنے والے مسلمانوں کو اہل دار الاسلام اپنی سیاسی ولایت سے خارج نہ سمجھیں، اور اگر باہر کے مظلوم مسلمانوں کے مدد مانگنے پر ان کی مدد نہ کی جائے، اور اگر اس کے ساتھ ساتھ اس قاعدے کی پابندی بھی نہ کی جائے کہ جس قوم سے مسلمانوں کا معاہدہ ہو اس کے خلاف مدد مانگنے والے مسلمانوں کی مدد نہ کی جائے گی، اور اگر مسلمان کافروں سے موالاة کا تعلق ختم نہ کریں، تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہو گا۔
۵۳-مراد یہ ہے کہ اسلامی بھائی چارے کی بنا پر میراث قائم نہ ہو گی اور نہ وہ حقوق جو نسب اور مصاہرت کے تعلق کی بنا پر عائد ہوتے ہیں، دینی بھائیوں کو ایک دوسرے کے معاملہ میں حاصل ہوں گے۔ ان امور میں اسلامی تعلق کے بجائے رشتہ دار ی کا تعلق ہی قانونی حقوق کی بنیاد رہے گا۔ یہ ارشاد اس بنا پر فرمایا گیا ہے کہ ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان جو مواخاة کرائی تھی اس کی وجہ سے بعض لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ دینی بھائی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔