تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الانفِطار

نام

پہلی ہی آیت کے لفظ اِنْفَطَرَتْ سے ماخوذ ہے۔  اِنفِطار مصدر ہے جس کے معنی پھٹ جانے کے ہیں۔  اس نام کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں  آسمان پھٹ جانے کا ذکر آیا ہے۔

زمانۂ نزول

اس کا اور سورہ تکویر کا مضمون ایک دوسرے سے نہایت مشابہ ہے۔  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں  سورتیں  قریب قریب ایک ہی زمانے میں  نازل ہوئی ہیں۔ موضوع اور مضمون اس کا موضوع  آخرت ہے۔  مُسند احمد، ترمذی، ابن المُنذر، طَبرانی، حاکم اور ابن مردُویہ کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہؓ بن عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کا یہ ارشاد بیان کیا:

مَنْ سَرَّہٗ اَن ینظر الیٰ یوم القیمٰۃ کانہ رأی عین فلیقرأ اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ، وَاِذَ السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ، وَاِذَ السَّمَآءُ انْشَقَّتْ۔

"جو شخص چاہتا ہو کہ روز قیامت کو اِس طرح دیکھ لے جیسے آنکھوں  سے دیکھا جاتا ہے تو وہ سورہ تکویر اور سورہ اِنفِطار، اور سورہ انشقاق کو پڑھ لے "۔          اس میں  سب سے پہلے روزِ قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ پیش آ جائے گا تو ہر شخص کے سامنے اس کا کیا دھرا سب آ جائے گا۔ اس کے بعد انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ جس رب نے تجھ کو وجود بخشا اور جس کے فضل و کرم کی وجہ سے  آج تو سب مخلوقات سے بہتر جسم اور اعضاء لیے پھرتا ہے،  اس کے بارے میں  یہ دھوکا تجھے کہاں  سے لگ گیا کہ وہ صرف کرم ہی کرنے والا ہے،  انصاف کرنے والا نہیں  ہے ؟ اُس کے کرم کے معنی یہ تو نہیں  ہیں  کہ تو اس کے انصاف سے بے خوف ہو جائے۔  پھر انسان کو خبر دار کیا گیا ہے کہ تو کسی غلط فہمی میں  مبتلا نہ رہ، تیرا  پورا نامہ اعمال کیا جا رہا ہے۔  اور نہایت معتبر کاتب ہر وقت تیری تمام حرکات و سکنات کو نوٹ کر رہے ہیں۔  آخر میں  پورے زور کے ساتھ کہا گیا ہے کہ یقیناً روز جزا برپا ہونے والا ہے جس میں  نیک لوگوں  کو جنّت کا عیش اور بد لوگوں  کو جہنم کا عذاب نصیب ہو گا۔اس روز کوئی کسی کے کام نہ آ سکے گا،  فیصلے کے اختیارات بالکل اللہ کے ہاتھ میں  ہوں گے۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
 جب آسمان پھٹ جائے  گا، اور جب تارے بکھر جائیں  گے،  اور جب سمندر پھاڑ دیے جائیں  گے،  1 اور جب قبریں  کھول دی جائیں  گی، 2 اُس وقت ہر شخص کو اُس کا اگلا پچھلا سب کیا دھرا معلوم ہو جائے گا۔ 3
اے انسان، کس چیز نے تجھے اپنے اُس ربِّ کریم کی طرف سے دھوکے میں  ڈال دیا  جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا، تجھے متناسِب بنایا، اور جس صورت میں  چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا؟ 4 ہر گز نہیں،  5 بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ ) تم لوگ جزا و سزا کو جھُٹلاتے ہو، 6 حالانکہ تم پر نگراں  مقرر ہیں،  ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں۔  7
یقیناً نیک لوگ مزے میں  ہوں  گے اور بے شک بدکار لوگ جہنّم میں  جائیں  گے۔  جزا کے دن وہ اس میں  داخل ہوں  گے اور اُس سے ہر گز غائب نہ ہو سکیں  گے۔  اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ جزا کا دن کیا ہے ؟ ہاں،  تمہیں  کیا خبر کہ وہ جزا کا دن کیا ہے ؟ یہ وہ دن ہے جب کسی شخص کے لیے کچھ کرنا کسی کے بس میں  نہ ہو گا، 8 فیصلہ اُس دن بالکل اللہ کے اختیار میں  ہو گا۔  ؏۱

 

1: سورہ تکویر میں  فرمایا گیا ہے کہ سمندروں  میں  آگ بھڑکا دی جائے گی، اور یہاں  فرمایا گیا ہے کہ سمندروں  کو پھاڑ دیا جائے گا۔ دونوں  آیتوں  کو ملا کر دیکھا جائے اور یہ بات بھی نگاہ میں  رکھی جائے کہ قرآن کی رو سے  قیامت کے روز ایک ایسا زبردست زلزلہ آئے گا  جو کسی علاقے تک محدود نہ ہو گا بالکل پوری زمین بیک وقت ہلا ماری جائے گی، تو سمندروں  کے پھٹنے اور ان میں  آگ بھڑک اٹھنے کی کیفیت ہماری سمجھ میں  یہ آتی ہے کہ پہلے اُس عظیم زلزلے کی وجہ سے  سمندروں  کی تہہ پھٹ جائے گی اور ان کا پانی زمین کے اس اندرونی حصے میں  اُترنے لگے گا جہاں  ہر وقت ایک بے انتہا گرم لاوا کھولتا رہتا ہے۔  پھر اس لاوے تک پہنچ کر  پانی اپنے ان دو ابتدائی اجزا کی شکل میں  تحلیل ہو جائے گا جن میں  سے ایک،  یعنی آکسیجن جلانے والی، اور دوسری،  یعنی ہائیڈروجن بھڑک اٹھنے والی ہے،  اور یوں  تحلیل اور آتش افروزی کا  ایک ایسا مسلسل رد عمل (Chain Reaction ) شروع ہو جائے گا جس سے دنیا کے تمام سمندروں  میں  آگ لگ جائے گی۔ یہ ہمارا قیاس ہے،  باقی سہی علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں  ہے۔

2: پہلی تین آیتوں  میں  قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر ہے اور اس آیت میں  دوسرا مرحلہ بیان کیا گیا ہے۔  قبروں  کو کھولے جانے سے مراد لوگوں  کا ازسر نو زندہ کر کے اٹھایا  جانا ہے۔

3: اصل الفاظ ہیں  مَا قَدَّ مَتْ وَ اَخَّرَتْ۔ان الفاظ کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں   اور وہ سب کی یہاں  مراد ہیں (۱)جو اچھا یا برا عمل آدمی نے  کر کے آگے بھیج دیا وہ مَا قَدَّمَتْ ہے اور جس کے کرنے سے  وہ باز رہا وہ مَا اَخَّرَتْ۔ اس لحاظ سے یہ الفاظ تقریباً انگریزی زبان کے الفاظCommission اورOmission کے ہم معنی ہیں۔  (۲) جو کچھ پہلے کیا وہ مَاقَدَّمَتْ ہے اور جو کچھ بعد میں  کیا وہ  مَا اَخَّرَتْ، یعنی آدمی کا پورا نامہ اعمال ترتیب وار اور تاریخ دار اس کے سامنے آ جائے گا۔           (۳) جو اچھے اور برے اعمال آدمی نے اپنی زندگی میں  کیے وہ مَا قَدَّمَتْ ہیں  اور ان  اعمال کے  جو آثار و نتائج وہ انسانی معاشرے میں  اپنے پیچھے چھوڑ گیا وہ مَا اَخَّرَتْ۔

4: یعنی اول تو اُس موسم پر پروردگار کے  احسان و کرم کا  تقاضہ یہ تھا کہ  تو شکر گزار اور احسان مند ہو کر اس کا فرمانبردار بنتا اور اس کی نا فرمانی کرتے ہوئے تجھے شرم آتی، مگر تو اس دھوکے میں  پڑ گیا کہ تو جو کچھ بھی بنا ہے خود ہی بن گیا ہے اور یہ خیال تجھے کبھی نہ آیا کہ اس وجود کے بخشنے والے کا احسان مانے۔  دوسرے،  تیرے رب کا یہ کرم ہے کہ دنیا میں  جو کچھ تو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور ایسا نہیں  ہوتا کہ یونہی تجھ سے کوئی خطا سرزد ہو وہ تجھ پر فالج گرا نہ لے،  یا تیری آنکھیں  اندھی کر دے،  یا تجھ پر بجلی گرا دے۔  لیکن تو نے اس کریمی کو کمزوری سمجھ لیا اور اس دھوکے میں  پڑ گیا کہ تیرے خدا کی خدائی میں  انصاف نام کی کوئی چیز نہیں  ہے۔

5: یعنی کوئی معقول وجہ اس دھوکے میں  پڑنے کی نہیں  ہے۔  تیرا وجود خود بتا رہا ہے کہ تو خود نہیں  بن گیا ہے،  تیرے ماں  باپ نے بھی تجھے نہیں  بتایا ہے،  عناصر کے آپ سے آپ جڑ جانے سے بھی اتفاقاً تو انسان بن کر پیدا نہیں  ہو گیا ہے،  بلکہ ایک  خدائے حکیم و توانا نے تجھے اس مکمل انسانی شکل میں  ترکیب دیا ہے۔  تیرے سامنے ہر قسم کے جانور موجود ہیں  جن کے مقابلے میں  تیری بہترین ساخت اور تیری افضل و اشرف قوتیں  صاف نمایاں  ہیں۔  عقل کا تقاضہ یہ تھا کہ اس کو دیکھ کر تیرا سر بارِ احسان سے جھک جاتا اور اُس رب کریم کے مقابلے میں  تو  کبھی نا فرمانی کی جرأت نہ کرتا۔  تو یہ بھی جانتا ہے کہ تیرا رب صرف رحیم و کریم ہی نہیں  ہے،  جبار و قہار بھی ہے۔  جب اس کی طرف سے کوئی زلزلہ یا طوفان یا سیلاب آ جاتا ہے تو تیری ساری تدبیریں  اس کے مقابلہ میں    نا کام ہو جاتی  ہیں ۔  تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تیرا رب جاہل و نادان نہیں  ہے  بلکہ حکیم و دانا ہے،  اور حکمت و دانائی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جسے عقل دی جائے اسے اس  کے اعمال کا ذمہ دار بھی ٹھیرا یا جائے جسے اختیارات دیے جائیں  اس سے حساب بھی لیا جائے کہ اس نے اپنے اختیارات کو کیسے استعمال کیا، اور جسے اپنی ذمہ داری پر نیکی اور بدی کرنے کی طاقت دی جائے اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا بھی دی جائے۔ یہ سب حقیقتیں   تیرے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں  ہیں،  اس لیے تو یہ نہیں  کہہ سکتا ہے کہ اپنے رب کریم کی طرف سے جس دھوکہ میں  تو پڑ گیا ہے اس کی کوئی معقول وجہ موجود ہے۔  تو خود جس کسی کا افسر ہوتا ہے تو اپنے اس ماتحت کو  کمینہ سمجھتا ہے جو تیری شرافت اور نرم دلی کو کمزوری سمجھ کر تیرے سر چڑھ جائے۔  اس لیے تیری اپنی یہ گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ مالک کا کرم ہر گز اس کا موجب نہ ہونا چاہیے کہ بندہ اس کے  مقابلے میں  جَری ہو جائے اور اس غلط فہمی میں  پڑ جائے کہ میں  جو کچھ چاہوں  کروں ،  میرا کوئی کچھ نہیں  بگاڑ سکتا۔

6: یعنی در اصل جس چیز میں  تم لوگوں  کو دھوکے میں  ڈالا ہے وہ کوئی معقول دلیل نہیں  ہے بلکہ محض تمہارا یہ احمقانہ خیال ہے کہ دنیا کے اس دارالعمل کے پیچھے کوئی دارالجزا نہیں  ہے۔  اسی غلط اور بے بنیاد گمان نے تمہیں  خدا سے غافل،  اس کے انصاف سے بے خوف،  اور اپنے اخلاقی رویّے میں  غیر ذمہ دار بنا دیا ہے۔

7: یعنی تم لوگ چاہے دارالجزا کا انکار کرو یا اس کو جھٹلاؤ یا اس کا مذاق اڑاؤ، اس سے حقیقت نہیں  بدلتی۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں  دنیا میں  شتر بے مہار بنا کر نہیں  چھوڑ دیا ہے بلکہ اس نے تم میں  سے ایک ایک آدمی پر نہایت راست باز نگران مقرر کر رکھے ہیں  جو بالکل بے لاگ طریقے سے تمہارے تمام اچھے اور بُرے اعمال کو  ریکارڈ کر رہے ہیں ،  اور ان سے  تمہارا کوئی کام چھپا ہوا نہیں  ہے،  خواہ تم اندھیرے میں ، خلوتوں  میں،  سنسان جنگلوں  میں ،  یا اور کسی ایسی حالت میں  اس کا ارتکاب کرو جہاں  تمہیں  اطمینان ہو کہ  جو کچھ تم نے کیا ہے وہ نگاہ خلق سے مخفی رہ گیا ہے۔  ان نگراں  فرشتوں  کے لیے اللہ تعالی ٰ کراماً کاتبین کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ،  یعنی ایسے کاتب جو کریم(نہایت بزرگ اور معزز) ہیں۔  کسی سے نہ ذاتی محبت رکھتے ہیں  نہ عداوت کے ایک کی بے جا رعایت اور دوسرے کی ناروا مخالفت کر کے خلاف واقعہ ریکارڈ تیار کریں ۔   خائب بھی نہیں  ہیں  کہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوئے بغیر بطور خود غلط سلط اندراجات کر لیں۔  رشوت خور بھی نہیں  ہیں  کہ کچھ لے دے کر کسی کے حق میں  یا کسی کے خلاف جھوٹی رپورٹیں  کر دیں  ان کا مقام ان ساری اخلاقی کمزوریوں  سے بلند ہے،  اس لیے نیک و بد دونوں  قسم کے انسانوں  کو مطمئن رکھنا چاہیے کہ ہر ایک کی نیکی بے کم وکاست ریکارڈ ہو گی، اور کسی کے ذمہ کوئی  ایسی بدی  نہ ڈال دی جائے گی جو اس نے نہ کی ہو۔ پھر ان فرشتوں  کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’جو کچھ تم کرتے ہو اسے وہ جانتے ہیں ‘‘ یعنی ان کا حال دنیا کی  سی آئی ڈی اور اطلاعات (Intelligence )کی ایجنسیوں   جیسا نہیں  ہے کہ ساری  تگ و دو کے با وجود بہت سی باتیں  ان سے چھپی رہ جاتی ہیں ۔  وہ ہر ایک کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہیں ،  ہر جگہ ہر حال میں  ہر شخص کے ساتھ اسطرح لگے ہوئے ہیں  کہ اسے یہ معلوم بھی نہیں  ہوتا کہ کوئی اس کی نگرانی کر رہا ہے،  اور انہیں  یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس شخص نے کس نیت سے کوئی کام کیا ہے۔ اس لیے ان کا مرتب کر دہ ریکارڈ ایک مکمل ریکارڈ ہے جس میں  درج ہونے سے کوئی بات رہ نہیں  گئی ہے۔  اسی کے متعلق سورہ کہف آیت نمبر ۴۹ میں   فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے روز مجرمین یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں  گے کہ ان کا جو نامہ اعمال پیش کیا جا رہا ہے اس میں  کوئی چھوٹی یا بڑی بات درج ہونے سے رہ گئی ہے،  جو کچھ انہوں  نے کیا تھا وہ سب جوں  کا توں  ان کے سامنے حاضر ہے۔

8: یعنی کسی کی وہاں  یہ طاقت نہ ہو گی کہ وہ کسی شخص کو  اس کے اعمال کے نتائج بھگتنے سے  بچا سکے۔  کوئی وہاں  ا یسا با اثر یا  زور آور یا اللہ کا چہیتا نہ ہو گا کہ عدالت خداوندی میں  اڑ کر بیٹھ جائے اور یہ کہہ سکے کہ فلاں  شخص میرا عزیز یامتوسِّل ہے،  اسے تو بخشنا ہی ہو گا خواہ یہ دنیا میں  کیسے ہی بُرے افعال کر کے آیا ہو۔