۱ سورۃ الطارق مکّیہ ہے۔ اس میں ایک۱ رکوع، سترہ ۱۷ آیتیں، اکسٹھ ۶۱کلمے، دو سو انتالیس۲۴۹ حرف ہیں
۲ یعنی ستارے کی جو رات کو چمکتا ہے۔ شانِ نزول : ایک شب سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں ابو طالب کچھ ہدیہ لائے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اس کو تناول فرما رہے تھے، اس درمیان میں ایک تارا ٹوٹا اور تمام فضا آ گ سے بھر گئی ابو طالب گھبرا کر کہنے لگے یہ کیا ہے، سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا یہ ستارہ ہے، جس سے شیاطین مارے جاتے ہیں اور یہ قدرتِ الٰہی کی نشانیوں میں سے ہے، ابو طالب کو اس سے تعجّب ہوا اور یہ سورت نازل ہوئی۔
۳ اس کے رب کی طرف سے جو اس کے اعمال کی نگہبانی کرے اور اس کی نیکی بدی سب لکھ لے، حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ مراد اس سے فرشتے ہیں۔
۴ تاکہ وہ جانے کہ اس کا پیدا کرنے والا اس کو بعدِ موت جزا کے لئے زندہ کرنے پر قادر ہے۔ پس اس کو روزِ جزا کے لئے عمل کرنا چاہئے۔
۵ یعنی مرد و عورت کے نطفوں سے، جو رحم میں مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔
۶ یعنی مرد کی پشت سے اور عورت کے سینہ کے مقام سے۔ حضرت ابنِ عباس نے فرمایا سینہ کے اس مقام سے جہاں ہار پہنا جاتا ہے اور انہیں سے منقول ہے کہ عورت کی دونوں چھاتیوں کے درمیان سے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ منی انسان کے تمام اعضاء سے برآمد ہوتی ہے اور اس کا زیادہ حصّہ دماغ سے مرد کی پشت میں آتا ہے اور عورت کے بدن کے اگلے حصّہ کی بہت سی رگوں میں جو سینہ کے مقام پر ہیں نازل ہوتا ہے، اسی لئے ان دونوں مقاموں کا ذکر خصوصیّت سے فرمایا گیا۔
۷ یعنی موت کے بعد زندگی کی طرف لوٹا دینے پر۔
۸ چھُپی باتوں سے مراد عقائد اور نیّتیں اور وہ اعمال ہیں جن کو آدمی چھُپاتا ہے، روزِ قیامت اللہ تعالیٰ ان سب کو ظاہر کر دے گا۔
۹ یعنی جو آدمی منکِرِ بعث ہے، نہ اس کو ایسی قوّت ہو گی جس سے عذاب کو روک سکے، نہ اس کا کوئی ایسا مددگار ہو گا جو اسے بچا سکے۔
۱۰ جو ارضی پیداوار نبات و اشجار کے لئے، مثل باپ کے ہے۔
۱۱ اور نباتات کے لئے، مثل ماں کے ہے اور یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی عجیب نعمتیں ہیں اور ان میں قدرتِ الٰہی کے بے شمار آثار نمودار ہیں جن میں غور کرنے سے آدمی کو بعث بعد الموت کے بہت سے دلائل ملتے ہیں۔
۱۲ کہ حق و باطل میں فرق و امتیاز کر دیتا ہے۔
۱۴ اور دِینِ الٰہی کے مٹانے اور نورِ حق کو بجھانے اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ایذا پہنچانے کے لئے طرح طرح کے داؤں کرتے ہیں۔
۱۶ اے سیّدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۱۷ چند روز کہ وہ عنقریب ہلاک کئے جائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور بدر میں انہیں عذابِ الٰہی نے پکڑا۔ ( وَنُسِخَ الْاِمْہَالُ بِآیَۃِ السَّیْفِ)