۲ ۔۔۔ مکہ میں ہر شخص کو لڑائی کی ممانعت ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے صرف فتح مکہ کے دن یہ ممانعت نہیں رہی تھی جو کوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے لڑا اس کو مارا۔ اور بعض سنگین مجرموں کو خاص کعبہ کی دیوار کے پاس قتل کیا گیا۔ پھر اس دن کے بعد سے وہی ممانعت قیامت تک کے لئے قائم ہو گئی۔ چونکہ اس آیت میں مکہ کی قسم کھا کر ان شدائد اور سختیوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن میں سے انسان کو گزرنا پڑتا ہے اور اس وقت دنیا کا بزرگ ترین انسان اسی شہر مکہ میں دشمنوں کی طرف سے زہرہ گداز سختیاں جھیل رہا تھا۔ اس لئے درمیان میں بطور جملہ، معترضہ "وانت حل بھذا البلد " فرما کر تسلی کر دی کہ اگرچہ آج آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا احترام اس شہر کے جاہلوں میں نہیں ہے۔ لیکن ایک وقت آیا چاہتا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسی شہر میں فاتحانہ داخلہ ہو گا۔ اور اس مقدس مقام کی ابدی تطہیر و تقدیس کے لئے مجرموں کو سزا دینے کی بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اجازت ہو گی۔ یہ پیشین گوئی ۰۸ھ میں خدا کے فضل سے پوری ہوئی۔ (تنبیہ) بعض نے "وانت حل بھذا البلد " کے معنی "وانت نازل " کے لئے ہیں ۔ یعنی میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں بحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس شہر میں پیدا کئے گئے اور قیام پذیر ہوئے۔
۳ ۔۔۔ یعنی آدم اور بنی آدم و قیل غیر ذٰلک۔
۴ ۔۔۔ یعنی آدمی ابتداء سے انتہا تک مشقت اور رنج میں گرفتار ہے اور طرح طرح کی سختیاں جھیلتا رہتا ہے۔ کبھی مرض میں مبتلا ہے کبھی رنج میں ، کبھی فکر میں شاید عمر بھر میں کوئی لمحہ ایسا آتا ہو جب کوئی انسان تمام قسم کے خرخشوں اور محنت و تکلیف سے آزاد ہو کر بالکل بے فکری کی زندگی بسر کرے۔ حقیقت میں انسان کی پیدائشی ساخت ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ ان سختیوں اور بکھیڑوں سے نجات نہیں پا سکتا۔ آدم اور اولادِ آدم کے احوال کا مشاہدہ خود اس کی واضح دلیل ہے۔ اور مکہ جیسے سنگلاخ ملک کی زندگی خصوصاً اس وقت جبکہ وہاں افضل الخلائق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سخت ترین جورو جفا اور ظلم و ستم کے ہدف بنے ہوئے تھے۔ "لقد خلقنا الانسان فی کبد " کی نمایاں شہادت ہے۔
۵ ۔۔۔ یعنی انسان جن سختیوں اور محنت و مشقت کی راہوں سے گزرتا ہے اس کا مقتضاء تو یہ تھا کہ اس میں عجزو درماندگی پیدا ہوتی اور اپنے کو بستہ حکم و قضا سمجھ کر مطیع امرو تابع رضا ہوتا اور ہر وقت اپنی احتیاج و افتقار کو پیش نظر رکھتا۔ لیکن انسان کی حالت یہ ہے کہ بالکل بھول میں پڑا ہے۔ تو کیا وہ سمجھتا ہے کہ کوئی ہستی ایسی نہیں جو اس پر قابو پا سکے اور اس کی سرکشی کی سزا دے سکے۔
۶ ۔۔۔ یعنی رسول کی عداوت، اسلام کی مخالفت اور معصیت کے مواقع میں یونہی بے تکے پن سے مال خرچ کرنے کو ہنر سمجھتا ہے۔ پھر اسے بڑھا چڑھا کر فخر سے کہتا ہے کہ میں اتنا کثیر مال خرچ کر چکا ہوں ۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی میرے مقابلہ میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن آگے چل کر پتہ لگے گا کہ یہ سب خرچ کیا ہوا مال یونہی برباد گیا۔ بلکہ الٹا وبالِ جان ہوا۔
۷ ۔۔۔ یعنی اللہ سب دیکھ رہا ہے۔ جتنا مال جس جگہ جس نیت سے خرچ کیا ہے۔ جھوٹی شیخی بگھارنے سے کچھ فائدہ نہیں ۔
۸ ۔۔۔ یعنی جس نے دیکھنے کو آنکھیں دیں ، کیا وہ خود دیکھتا نہ ہو گا؟ یقیناً جو سب کو بینائی دے وہ سب سے بڑھ کر بینا ہونا چاہئے۔
۹ ۔۔۔ جن سے بات کرنے اور کھانے پینے میں مدد لیتا ہے۔
۱۰ ۔۔۔ یعنی خیر اور شر دونوں کی راہیں بتلا دیں ۔ تاکہ برے راستہ سے بچے اور اچھے راستہ پر چلے۔ اور یہ بتلانا اجمالی طور پر عقل و فطرت سے ہوا اور تفصیلی طور پر انبیاء و رسل کی زبان سے۔ (تنبیہ) بعض نے "نجدین" سے مراد عورت کی پستان لئے ہیں یعنی بچے کو دودھ پینے اور غذا حاصل کرنے کا راستہ بتلا دیا۔
۱۱ ۔۔۔ یعنی اس قدر انعامات کی بارش اور اسبابِ ہدایت کی موجودگی میں بھی اسے توفیق نہ ہوئی کہ دین کی گھاٹی پر آ دھمکتا۔ اور مکارمِ اخلاق کے راستوں کو طے کرتا ہوا فوز و فلاح کے بلند مقامات پر پہنچ جاتا۔ (تنبیہ) دین کے کاموں کو گھاٹی اس لئے کہا کہ مخالفت ہوا کی وجہ سے ان کا انجام دینا نفس پر شاق اور گراں ہوتا ہے۔
۱۳ ۔۔۔ یعنی غلام آزاد کرنا یا قرضدار کی گردن قرض سے چھڑوانا۔
۱ ۴ ۔۔۔ یعنی قحط کے دنوں میں بھوکوں کی خبر لینا۔
۱۵ ۔۔۔ یتیم کی خدمت کرنا ثواب اور قرابتداروں کے ساتھ سلوک کرنا بھی ثواب، جہاں دونوں جمع ہو جائیں تو دوہرا ثواب ہو گا۔
۱۶ ۔۔۔ یعنی فقر و فاقہ اور تنگدستی سے خاک میں مل رہا ہو، یہ مواقع ہیں مال خرچ کرنے کے نہ یہ کہ شادی غمی کی فضول رسموں اور خدا کی نافرمانیوں میں روپیہ برباد کر کے دنیا کی رسوائی اور آخرت کا وبال سر لیا جائے۔
۱۷ ۔۔۔ ۱: یعنی پھر ان سب اعمال کے مقبول ہونے کب سب سے بڑی شرط ایمان ہے۔ اگر یہ چیز نہیں تو سب کیا کرایا اکارت ہے۔
۲: یعنی ایک دوسرے کو تاکید کرتے رہتے ہیں کہ حقوق و فرائض کے ادا کرنے میں ہر قسم کی سختیوں کا تحمل کرو اور خدا کی مخلوق پر رحم کھاؤ تاکہ آسمان والاتم پر رحم کھائے۔
۱۸ ۔۔۔ یعنی یہ لوگ بڑے خوش نصیب اور میمون و مبارک ہیں جن کو عرش عظیم کے دائیں جانب جگہ ملے گی اور ان کا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔
۱۹ ۔۔۔ یعنی بد نصیب منحوس، شامت زدہ جن کا اعمالنامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور عرش کے بائیں طرف کھڑے کئے جائیں گے۔
۲۰ ۔۔۔ یعنی دوزخ میں ڈال کر سب دروازے نکلنے کے بند کر دیے جائیں گے۔ اعاذنا اللّٰہ منھا۔