تفہیم القرآن

سورة بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء

نام

آیت ۴ کے فقرے "و قضینآ الی بنی اسرآئیل فی الکتٰب" سے ماخوذ ہے۔ مگر اس میں موضوع بحث بنی اسرائیل نہیں ہیں بلکہ یہ نام بھی اکثر قرآنی سورتوں کی طرح صرف علامت کے طور پر رکھا گیا ہے۔ دوسرا نام یعنی الاسراء پہلی آیت سے لیا گیا ہے۔ 

زمانۂ نزول

پہلی ہی آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ سورت معراج کے موقع پر نازل ہوئی ہے۔ معراج کا واقعہ حدیث اور سیرت کی اکثر روایات کے مطابق ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا اس لیے یہ سورت بھی انہی سورتوں میں سے ہے جو مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئیں۔

پس منظر

اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے ۱۲ سال گزر چکے تھے۔ آپ کے مخالفین آپ کا راستہ روکنے کے لیے سارے جتن کر چکے تھے۔ مگر ان کی تمام مزاحمتوں کے باوجود آپ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی۔ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا تھا جس میں دو چار آدمی آپ کی دعوت سے متاثر نہ ہو چکے ہوں۔ خود مکے میں ایسے مخلص لوگوں کا ایک مختصر جتھا بن چکا تھا جو ہر خطرے کو اس دعوت حق کی کامیابی کے لیے انگیز کرنے کو تیار تھے۔ مدینے میں اوس اور خزرج کے طاقتور قبائل کی بڑی تعداد آپ کی حامی بن چکی تھی۔ اب وہ وقت قریب آ لگا تھا جب آپ کو مکے سے مدینے کی طرف منتقل ہو جانے اور منتر مسلمانوں کو سمیٹ کر اسلام کے اصولوں پر ایک ریاست قائم کر دینے کا موقع ملا تھا۔

ان حالات میں واقعۂ معراج پیش آیا اور واپسی پر پیغام نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا کو سنایا۔

موضوع اور مضمون

اس سورت میں تنبیہ، تفہیم اور تعلیم، تینوں ایک متناسب انداز میں جمع کر دی گئی ہیں۔

تنبیہ کفار مکہ کو دی گئی ہے کہ بنی اسرائیل اور دوسری قوموں کے انجام سے سبق لو اور خدا کی دی ہوئی مہلت کے اندر، جس کے ختم ہونے کا زمانہ قریب آ لگا ہے، سنبھل جاؤ اور اس دعوت کو قبول کر لو جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور قرآن کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے، ورنہ مٹا دیے جاؤ گے اور تمہاری جگہ دوسرے لوگ زمین پر بسائے جائیں گے۔ نیز ضمناً بنی اسرائیل کو بھی، جو ہجرت کے بعد عنقریب زبانِ وحی کے مخاطب ہونے والے تھے، یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ پہلے جو سزائیں تمہیں مل چکی ہیں ان سے عبرت حاصل کرو اور اب جو موقع تمہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے مل رہا ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ یہ آخری موقع بھی اگر تم نے کھو دیا اور پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو دردناک انجام سے دوچار ہو گے۔

تفہیم کے پہلے میں بڑے دلنشیں طریقے سے سمجھایا گیا ہے کہ انسانی سعادت و شقاوت اور فلاح و خسران کا مدار دراصل کن چیزوں پر ہے۔ توحید، معاد، نبوت اور قرآن کے بر حق ہونے کی دلیلیں دی گئی ہیں۔ ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو ان بنیادی حقیقتوں کے بارے میں کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے اور استدلال کے ساتھ بیچ بیچ میں منکرین کی جہالتوں پر زجر و توبیخ بھی کی گئی ہے۔

تعلیم کے پہلو میں اخلاق اور تمدن کے وہ بڑے بڑے اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر زندگی کے نظام کو قائم کرنا دعوتِ محمدی کے پیش نظر تھا۔ یہ گویا اسلام کا منشور تھا جو اسلامی ریاست کے قیام سے ایک سال پہلے اہل عرب کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ اس میں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ یہ خاکہ ہے جس پر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے ملک کی اور پھر پوری انسانیت کی زندگی کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔

ان سب باتوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ مشکلات کے اس طوفان میں مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر جمے رہیں اور کفر کے ساتھ مصالحت کا خیال تک نہ کریں۔ نیز مسلمانوں کو، جو کبھی کبھی کفار کے ظلم و ستم اور ان کی کنج بحثیوں، اور ان کے طوفانِ کذب و افتراء پر بے ساختہ جھنجھلا اٹھتے تھے، تلقین کی گئی ہے کہ پورے صبر و سکون کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہیں اور تبلیغ و اصلاح کے کام میں اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ اس سلسلے میں اصلاح نفس اور تزکیۂ نفس کے لیے ان کو نماز کا نسخہ بتایا گیا ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو تم کو اُن صفاتِ عالیہ سے متصف کرے گی جن سے راہِ حق کے مجاہدوں کو آراستہ ہونا چاہیے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب پنج وقتہ نماز پابندیِ اوقات کے ساتھ مسلمانوں پر فرض کی گئی۔

ترجمہ و تفسیر

پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت ۱ میں وہی ہے سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا۔ ہم نے اِس سے پہلے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اُسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعۂ ہدایت بنایا تھا،۲ اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا۔۳تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نُوح ؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا،۴ اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا،پھر ہم نے اپنی کتاب ۵ میں بنی اسرائیل کو اِس بات پر بھی متنبہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے۔ ۶آخرِ کار جب اُن میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا، تو اے بنی اسرائیل، ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اُٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھُس کر ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسے پُورا ہو کر ہی رہنا تھا۔۷اِس کے بعد ہم نے تمہیں اُن پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔۸دیکھو! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی، اور بُرائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے بُرائی ثابت ہوئی۔ پھر جب دُوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دُوسرے دشمنوں کو تم پر مسلّط کیا تا کہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المَقدِس) میں اُسی طرح گھُس جائیں جس طرح پہلے دُشمن گھُسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اُسے تباہ کر کے رکھ دیں ۹۔۔۔۔ہو سکتا ہے کہ اب تمہارا ربّ تم پر رحم کرے، لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے، اور کافرِ نعمت لوگوں کے لیے ہم نے جہنّم کو قید خانہ بنا رکھا ہے۔ ۱۰حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے، اور جو لوگ آخرت کو نہ مانیں انہیں یہ خبر دیتا ہے کہ ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیّا کر رکھا ہے۔ ۱۱ ؏ ۱
 

۱- یہ وہی واقعہ ہے جو اصطلاحاً ’’معراج‘‘ اور ’’اسراء‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ ؓ سے مروی ہیں جن کی تعداد ۲۵ تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے مفصل ررین روایت حضرت انس بن مالک ؓ، حضرت مالک بن صَعصَعہ ؓ، حضرت ابو ذر غفاری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت عمر ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ، حضرت ابو سعید خدری ؓ، حضرت حذیفہ بن یمان ؓ، حضرت عائشہ ؓ اور متعدد دوسرے صحابہ ؓ نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں۔

قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام (یعنی بیت اللہ )سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتا ئی گئی ہے۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل علیہ السلام آپ کو اُٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک بُراق پر لے گئے۔ وہاں آپ نے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا کی طرف لے چلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ آخر کار آپ انتہائی بلندیو ں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔ اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہو گئے۔

حدیث کی یہ زائد تفصیلات قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے بیان پر اضافہ ہیں، اور ظاہر ہے کہ اضافے کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ تا ہم اگر کوئی شخص اُن تفصیلات کے کسی حصے کو نہ مانے جو حدیث میں آئی ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کی جا سکتی، البتہ جس واقعے کی تصریح قرآن کر رہا ہے اس کا انکار موجب کفر ہے۔

اس سفر کی کیفیت کیا تھی؟ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا یا بیداری میں؟ اور آیا حضور ؐ بذات خود تشریف لے گئے تھے یا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محض روحانی طور پر ہی آپ کو یہ مشاہدہ کرا دیا گیا؟ ان سوالات کا جواب قرآن مجید کے الفاظ خود دے رہے ہیں۔ سُبْحٰنَ الّذی اَسْریٰ سے بیان کی ابتدا کرنا خود بتا رہا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا خارقِ عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا۔ ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کا اس طرح کی چیزیں دیکھ لینا، یا کشف کے طور پر دیکھنا یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے بیان کرنے کے لیے اس تمہید کی ضرورت ہو کہ تمام کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو یہ خواب دکھایا یا کشف میں یہ کچھ دکھایا۔ پھر یہ الفاظ بھی کہ ’’ایک رات اپنے بندے کو لے گیا‘‘ جسمانی سفر مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محض ایک روحانی تجربہ نہ تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کرایا۔

اب اگر ایک رات میں ہوائی جہاز کے بغیر مکہ سے بیت المقدس جانا اور آنا اللہ کی قدرت سے ممکن تھا، تو آخر اُن دوسری تفصیلات ہی کو ناممکن کہہ کر کیوں رد کر دیا جائے جو حدیث میں بیان ہوئی ہیں؟ ممکن اور نا ممکن کی بحث تو صرف اُس صورت میں پیدا ہوتی ہے جبکہ کسی مخلوق کے باختیار خود کوئ کام کرنے کا معاملہ زیر بحث ہو۔ لیکن جب ذکر یہ ہو کہ خدا نے فلاں کام کیا، تو پھر امکان کا سوال وہی شخص اٹھا سکتا ہے جسے خدا کے قادر مطلق ہونے کا یقین نہ ہو۔ اس کے علاوہ جو دوسری تفصیلات حدیث میں آئی ہیں ان پر منکرین حدیث کی طرف سے متعدد اعتراضات کیے جاتے ہیں، مگر ان میں سے صرف دو ہی اعتراضات ایسے ہیں جو کچھ وزن رکھتے ہیں۔

ایک یہ کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا کسی خاص مقام پر مقیم ہونا لازم آتا ہے، ورنہ اس کے حضور بندے کی پیشی کے لیے کیا ضرورت تھی اسے سفر کرا کے ایک مقامِ خاص تک لے جایا جاتا؟

دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دوزخ اور جنت کا مشاہدہ اور بعض لوگوں کے مبتلائے عذاب ہونے کا معائنہ کیسے کرا دیا گیا جبکہ ابھی بندوں کے مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوا ہے ؟ یہ کیا کہ سزا و جزا کا فیصلہ تو ہونا ہے قیامت کے بعد، اور کچھ لوگوں کو سزا دے ڈالی گئی ابھی سے ؟

لیکن دراصل یہ دونوں اعتراض بھی قلت فکر کا نتیجہ ہیں۔ پہلا اعتراض اس لیے غلط ہے کہ خالق اپنی ذات میں تو بلا شبہ اطلاقی شان رکھتا ہے۔ مگر مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر نہیں بلکہ مخلوق کی کمزوریوں کی بنا پر محدود وسائل اختیار کرتا ہے۔ مثلاً جب وہ مخلوق سے کلام کرتا ہے تو کلام کا وہ محدود طریقہ استعمال کرتا ہے جسے ایک انسان سن اور سمجھ سکے، حالانکہ بجائے خود اس کا کلام ایک اطلاقی شان رکھتا ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنے بندے کو اپنی سلطنت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتا ہے تو اسے لے جاتا ہے اور جہاں جو چیز دکھانی ہوتی ہے اسی جگہ دکھاتا ہے، کیونکہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت اُس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح خدا دیکھتا ہے۔ خدا کو کسی چیز کے مشاہدے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر بندے کو ہوتی ہے۔ یہی معاملہ خالق کے حضور باریابی کا بھی ہے کہ خالق بذاتِ خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے، مگر بندہ اس کی ملاقات کے لیے ایک جگہ کا محتاج ہے جہاں اس کے لیے تجلیات کو مرکوز کیا جائے۔ ورنہ اُس کی شان اطلاق میں اس سے ملاقات بندہ محدود کے لیے ممکن نہیں ہے۔

رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے غلط ہے کہ معراج کے موقع پر بہت سے مشاہدات جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کرائے گئے تھے ان میں بعض حقیقتوں کو ممثل کر کے دکھایا گیا تھا۔ مثلاً ایک فتنہ انگیز بات کی یہ تمثیل کہ ایک ذرا سے شگاف میں سے ایک موٹا سا بیل نکلا اور پھر اس میں واپس نہ جا سکا۔ باز زنا کاروں کی یہ تمثیل کہ ان کے پاس تازہ نفیس گوشت موجود ہے مگر وہ اسے چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ اسی طرح بُرے اعمال کی جو سزائیں آپ کو دکھائیں گئیں وہ بھی تمثیلی رنگ میں عالم آخرت کی سزاؤں کا پیشگی مشاہدہ تھیں۔

اصل بات جو معراج کے سلسلے سے سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ انبیاء علیم السلام میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے اُن کے منصب کی مناسبت سے ملکوتِ سمٰوات و ارض کا مشاہدہ کرایا ہے اور مادی حجابات بیچ میں سے ہٹا کر آنکھوں سے وہ حقیقتیں دکھائی ہیں جن پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دینے پر وہ مامور کیے گئے تھے، تاکہ ان کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالکل ممیز ہو جائے۔ فلسفی جو کچھ بھی کہتا ہے قیاس اور گمان سے کہتا ہے، وہ خود اگر اپنی حیثیت سے واقف ہو تو کبھی اپنی کسی رائے کی صداقت پر شہادت نہ دے گا۔ مگر انبیاء جو کچھ کہتے ہیں وہ براہ راست علم اور مشاہدے کے بنا پر کہتے ہیں، اور وہ خلق کے سامنے یہ شہادت دے سکتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو جانتے ہیں اور یہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں۔

۲- معراج کا ذکر صرف ایک فقرے میں کر کے یکایک بنی اسرائیل کا یہ ذکر جو شروع کر دیا گیا ہے، سرسری نگاہ میں یہ آدمی کو کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے۔ مگر سورت کے مدعا کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس کی مناسبت صاف سمجھ میں آ جاتی ہے۔ سورت کا اصل مدعا کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے۔ آغاز میں معراج کا ذکر صرف اس غرض کے لیے کیا گیا ہے کہ مخاطبین کو آگاہ کر دیا جائے کہ یہ باتیں تم سے وہ شخص کر رہا ہے جو ابھی ابھی اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نشانیاں دیکھ کر آ رہا ہے۔ اس کے بعد اب بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب پانے والے جب اللہ کے مقابلے میں سر اٹھا تے ہیں تو دیکھو کہ پھر ان کو کیسی درد ناک سزا دی جاتی ہے۔

۳- وکیل، یعنی اعتماد اور بھروسے کا مدار، جس پر توکل کیا جائے، جس کے سپرد اپنے معاملات کر دیے جائیں، جس کی طرف ہدایت اور استمداد کے لیے رجوع کیا جائے۔

۴- یعنی نوح اور ان کے ساتھیوں کی اولاد ہونے کی حیثیت سے تمہارے شایانِ شان یہی ہے کہ تم صرف ایک اللہ ہی کو اپنا وکیل بناؤ، کیونکہ جن کی تم اولاد ہو وہ اللہ ہی کو وکیل بنانے کی بدولت طوفان کی تباہی سے بچے تھے۔

۵- کتاب سے مراد یہاں توراۃ نہیں ہے بلکہ صُحُفِ آسمانی کا مجموعہ ہے جس کے لیے قرآن میں اصطلاح کے طور پر لفظ ’’الکتاب‘‘ استعمال ہوا ہے۔

۶- بائیبل کے مجموعہ کتبِ مقدسہ میں یہ تنبیہات مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔ پہلے فساد اور اس کے بُرے نتائج پر بنی اسرائیل کو زبور، یسعیاہ، یرمیاہ اور حزقی ایل میں متنبہ کیا گیا ہے، اور دوسرے فساد اور اس کی سخت سزا کی پیش گوئی حضرت مسیح ؑ نے کی ہے جو متی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہے۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کی متعلقہ عبارتیں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے اس بیان کی پوری تصدیق ہو جائے۔

پہلے فساد پر اولین تنبیہ حضرت داؤد نے کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں:

 ’’انہوں نے اُن قوموں کو ہلاک نہ کیا جیسا خداوند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ اُن قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنے لگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے۔ بلکہ اُنہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا، یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا۔۔۔۔۔۔ اس لیے خداوند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہو گئی اور اس نے اُن کو قوموں کے قبضے میں کر دیا اور اُن سے عداوت رکھنے والے اُن پر حکمراں بن گئے ‘‘ (زبور، باب ١۰٦۔ آیات۳۴۔۴١)

اس عبارت میں اُن واقعات کو جو بعد میں ہونے والے تھے، بصیغہ ماضی بیان کیا گیا ہے، گویا کہ ہو ہو چکے۔ یہ کتبِ آسمانی کا خاص انداز بیان ہے۔

پھر جب یہ فساد عظیم رونما ہو گیا تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیاہ نبی اپنے صحیفے میں یوں دیتے ہیں:

 ’’آہ، خطا کار گروہ، بدکرداری سے لدی ہوئی قوم، بد کرداروں کی نسل، مکار اولاد، جنہوں نے خداوند کو ترک کیا، اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ و برگشتہ ہو گئے، تم کیوں زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے ؟‘‘ (باب ١۔آیت۴۔۵)

 ’’وفادار بستی کیسی بد کار ہو گئی! وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راستبازی اس میں بستی تھی، لیکن اب خونی رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تیرے سردار گردن کُش اور چوروں کے ساتھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام طلب ہے۔ وہ یتیموں کا انصاف نہیں کرتے اور بیواؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی۔ اس لیے خداوند ربُّ الافواج اسرائیل کا قادر یوں فرماتا ہے کہ آہ، میں ضرور اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا‘‘۔ (باب ١۔آیت۲١۔۲۴)

 ’’وہ اہل مشرق کی رسوم سے پُر ہیں اور فِلِستیوں کی مانند شگون لیتے اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ان کی سرزمین بتوں سے بھی پُر ہے۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت، یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاریگری کو سجدہ کرتے ہیں‘‘۔ (باب۲۔آیت ٦۔۷)

 ’’اور خداوند فرماتا ہے، چونکہ صہیون کی بیٹیاں (یعنی یروشلم کی رہنے والیاں) متکبر ہیں اور گردن کُشی اور شوخ چشمی سے خراماں ہوتی اور اپنے پاوؤں سے ناز رفتاری کرتی اور گھنگھرو بجاتی جاتی ہیں اس لیے خداوند صہیون کی بیٹیوں کے سر گنجے اور ان کے بدن بے پردہ کر دے گا۔۔۔۔۔۔تیرے بہادر تہ تیغ ہوں گے اور تیرے پہلوان جنگ میں قتل ہوں گے۔ اُس کے پھاٹک ماتم اور نوحہ کریں گے اور وہ اجاڑ ہو کر خاک پر بیٹھے گی ‘‘۔ (باب۳۔آیت١٦۔۲٦)

 ’’اب دیکھ، خداوند دریائے فرات کے سخت شدید سیلاب، یعنی شاہ اسور (اسیریا) اور اس کی ساری شوکت کو ان پر چڑھا لائے گا اور وہ اپنے سب نالوں پر اور اپنے سب کناروں پر بہہ نکلے گا‘‘۔ (باب ۸۔ آیت۷)

 ’’یہ باغی لوگ اور جھوٹے فرزند ہیں جو خدا کی شریعت کو سننے سے انکار کرتے ہیں، جو غیب بینوں سے کہتے ہیں کہ غیب بینی نہ کرو، اور نبیوں سے کہ ہم پر سچی نبوتیں ظاہر نہ کرو۔ ہم کو خوشگوار باتیں سناؤ اور ہم سے جھوٹی نبوت کرو۔۔۔۔۔۔ پس اسرائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم اس کلام کو حقیر جانتے ہو اور ظلم اور کجروی پر بھروسا کرتے ہو اور اسی پر قائم ہو اس لیے یہ بدکرداری تمہارے لیے ایسی ہو گی جیسے پھٹی ہوئی دیوار جو گرا چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اسے کہار کے بر تن کی طرح توڑ ڈالے گا، اسے بے دریغ چکنا چور کرے گا، اس کے ٹکڑوں میں ایک ٹھیکرا بھی ایسا نہ ملے گا جس میں چولھے پر سے آگ یا حوض سے پانی لیا جائے ‘‘۔ (باب ۳۰۔آیت۹۔١۴)

پھر جب سیلاب کے بند بالکل ٹوٹنے کو تھے تو یرمیاہ نبی کی آواز بلند ہوئی اور انہوں نے کہا:

 ’’خداوند یوں فرماتا ہے کہ تمہارے باپ دادا نے مجھ میں کونسی بے انصافی پائی جس کے سبب سے وہ مجھ سے دور ہو گئے اور بطلان کی پیروی کر کے باطل ہوئے ؟۔۔۔۔۔۔ میں تم کو باغوں والی زمین میں لایا کہ تم اس کے میوے اور اس کے اچھے پھل کھاؤ، مگر جب تم داخل ہوئے تو تم نے میری زمین کو ناپاک کر دیا، اور میری میراث کو مکروہ بنایا۔۔۔۔۔۔ مدت ہوئی کہ تو نے اپنے جوئے کو توڑ ڈالا اور اپنے بندھنوں کے ٹکڑے کر ڈالے اور کہا کہ میں تابع نہ رہوں گی۔ ہاں، ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ایک ہرے درخت کے نیچے تو بدکاری کے لیے لیٹ گئی (یعنی ہر طاقت کے آگے جھکی اور ہر بت کو سجدہ کیا)۔۔۔۔۔۔ جس طرح چور پکڑا جانے پر رسوا ہوتا ہے اسی طرح اسرائیل کا گھرانا رسوا ہوا، وہ اور اس کے بادشاہ اور امراء اور کاہن اور (جھوٹے ) نبی، جو لکڑی سے کہتے ہیں کہ تو میرا باپ ہے اور پھتر سے کہ تو نے مجھے جنم دیا، انہوں نے میری طرف منہ نہ کیا بلکہ پیٹھ کی، پر اپنی مصیبت کے وقت وہ کہیں گے کہ اُٹھ کر ہم کو بچا۔ لیکن تیرے وہ بُت کہاں ہیں جن کو تو نے اپنے لیے بنایا؟ اگر وہ تیری مصیبت کے وقت تجھ کو بچا سکتے ہیں تو اُٹھیں، کیونکہ اے یہوداہ! جتنے تیرے شہر میں اتنے ہی تیرے معبود ہیں‘‘۔ (باب۲۔ آیت۵۔۲۸)

 ’’خداوند نے مجھ سے فرمایا، کیا تو نے دیکھا کہ برگشتہ اسرائیل (یعنی سامریہ کی اسرائیلی ریاست) نے کیا کیا؟ وہ ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کی نیچے گئی اور وہاں بدکاری (یعنی بت پرستی) کی۔۔۔۔۔۔ اور اس کی بے وفا بہن یہودا۔(یعنی یروشلم کی یہودی ریاست) نے یہ حال دیکھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب برگشتہ اسرائیل کی زنا کاری (یعنی شرک ) کے سبب سے میں نے اس کو طلاق دے دی اور اسے طلاق نامہ لکھ دیا (یعنی اپنی رحمت سے محروم کر دیا) تو بھی اس کی بے وفا بہن یہوداہ نہ ڈری بلکہ اس نے بھی جا کر بد کاری کی اور اپنی بد کاری کی بُرائی سے زمین کو ناپاک کیا اور پتھر اور لکڑی کے ساتھ زنا کاری (یعنی بت پرستی) کی‘‘۔ (باب ۳۔ آیت٦۔۹)

 ’’یروشلم کے کوچوں میں گشت کرو اور دیکھو اور دریافت کرو اور اس کے چوکوں میں ڈھونڈو، اگر کوئی آدمی وہاں ملے جو انصاف کرنے والا اور سچائی کا طالب ہو تو میں اسے معاف کروں گا۔۔۔۔۔۔ میں تجھے کیسے معاف کروں، تیرے فرزندوں نے مجھ کو چھوڑا اور ان کی قسم کھائی جو خدا نہیں ہیں۔ جب میں نے ان کو سیر کیا تو انہوں نے بد کاری کی اور پرے باندھ کر قحبہ خانوں میں اکھٹے ہوئے۔ وہ پیٹ بھرے گھوڑوں کے مانند ہوئے، ہر ایک صبح کے وقت اپنے پڑوسی کی بیوی پر ہنہنانے لگا۔ خدا فرماتا ہے کیا میں ان باتوں کے لیے سزا نہ دوں گا اور کیا میری روح ایسی قوم سے انتقام نہ لے گی؟‘‘ (باب۵۔آیت ١۔۹)

 ’’اے اسرائیل کے گھرانے ! دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑھا لاؤں گا۔ خداوند فرماتا ہے وہ زبردست قوم ہے۔ وہ قدیم قوم ہے۔ وہ ایسی قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا۔ ان کے ترکش کھلی قبریں ہیں۔ وہ سب بہادر مرد ہیں۔ وہ تیری فصل کا اناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں بیٹیوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے۔ تیرے گائے بیل اور تیری بکریوں کو چٹ کر جائیں گے۔ تیرے انگور اور انجیر نگل جائیں گے۔ تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسا ہے تلوار سے ویران کر دیں گے ‘‘۔ (باب۵۔آیت ١۵۔ا۷)

 ’’اس قوم کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوراک ہوں گی اور ان کو کوئی نہ ہنکائے گا۔ میں یہوداہ کے شہروں میں اور یرشلم کے بازاروں میں خوشی اور شادمانی کی آواز، دولہا اور دلہن کی آواز موقوف کروں گا کیونکہ یہ ملک ویران ہو جائے گا‘‘۔ (باب۷۔آیت۳۳۔۳۴)

 ’’ان کو میرے سامنے سے نکال دے کہ چلے جائیں۔ اور جب وہ پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں تو ان سے کہنا کہ خدا وند یوں فرماتا ہے کہ جو موت کے لیے ہیں وہ موت کی طرف، اور جو تلوار کے لیے ہیں وہ تلوار کی طرف، اور جو کال کے لیے ہیں وہ کال کو، اور جو اسیری کے لیے ہیں وہ اسیری میں‘‘۔ (باب ١۵۔آیت۲۔۳)

پھر عین وقت پر حزقی ایل نبی اُٹھے اور انہوں نے یروشلم کو خطاب کر کے کہا:

 ’’اے شہر، تو اپنے اندر خونریزی کرتا ہے تاکہ تیرا وقت آ جائے اور تو اپنے لیے بُت بناتا ہے تاکہ تجھے ناپاک کریں۔۔۔۔۔۔ دیکھ، اسرائیل کے امراء سب کے سب جو تجھ میں ہیں مقدور بھر خونریزی پر مستعد تھے۔ تیرے اندر انہوں نے ماں باپ کا حقیر جانا۔ تیرے اندر انہوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا۔ تیرے اندر انہوں نے یتیموں اور بیواؤں پر ستم کیا۔ تو نے میرے پاک چیزوں کو ناپاک جانا اور میرے سَبتوں کو ناپاک کیا۔ تیرے اندر وہ ہیں جو چغلخوری کر کے خون کرواتے ہیں۔ تیرے اندر وہ ہیں جو بُتوں کی قربانی سے کھاتے ہیں۔ تیرے اندر وہ ہیں جو فسق و فجور کرتے ہیں۔ تیرے اندر وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے باپ کی حرم شکنی کی۔ تجھ میں اُنہوں نے اُس عورت سے جو ناپاکی کی حالت میں تھی مباشرت کی۔ کسی نے دوسرے کی بیوی سے بدکاری کی، کسی نے اپنی بہو سے بد ذاتی کی، اور کسی نے اپنی بہن، اپنے باپ کی بیٹی کو تیرے اندر رسوا کیا۔ تیرے اندر انہوں نے خونریزی کے لیے رشوت خواری کی۔ تو نے بیاج اور سود کیا اور ظلم کر کے اپنے پڑوسی کو لوٹا اور مجھے فراموش کیا۔۔۔۔۔۔ کیا تیرے ہاتھوں میں زور ہو گا جب میں تیرا معاملہ فیصل کروں گا؟۔۔۔۔۔۔ ہاں تجھ کو قوموں میں تتر بتر کروں گا اور تیری گندگی تجھ میں سے نابود کر دوں گا اور قوموں کے سامنے اپنے آپ میں ناپاک ٹھیرے گا اور معلوم کرے گا کہ میں خداوند ہوں‘‘۔ (باب ۲۲۔آیت۳۔١٦)

یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کو پہلے فساد عظیم کے موقع پر کی گئیں۔ پھر دوسرے فساد عظیم اور اس کے ہولناک نتائج پر حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کو خبر دار کیا۔ متی باب ۲۳ میں آنجناب کا ایک مفصل خطبہ درج ہے جس میں وہ اپنی قوم کے شدید اخلاقی زوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

 ’’اے یرشلم! اے یرشلم!تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لوں، مگر تو نے نہ چاہا۔ دیکھو تمہارا گھر تمہارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے ‘‘۔ (آیت ۳۷۔۳۸)

 ’’میں تم کو سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے ‘‘۔ (باب۲۴۔آیت۲)

پھر جب رومی حکومت کے اہل کار حضرت مسیح کو صلیب دینے کے لیے لے جا رہے تھے اور لوگوں کی ایک بھیڑ جن میں عورتیں بھی تھیں، روتی پیٹتی ان کے پیچھے جا رہی تھیں، تو انہوں نے آخری خطاب کرتے ہوئے مجمع سے فرمایا:

 ’’اے یروشلم کی بیٹیو: میرے لیے نہ ڈرو بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لے ڈرو۔ کیونکہ دیکھو، وہ دن آتے ہیں جب کہیں گے کہ مبارک ہیں بانجھیں اور وہ پیٹ جو نہ جنے اور وہ چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا۔ اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپا لو‘‘ (لوقا۔باب ۲۳۔ آیت ۲۸۔۳۰)

۷- اس سے مراد وہ ہولناک تباہی ہے جو آشوریوں اور اہل بابل کے ہاتھوں بنی اسرائیل پر نازل ہوئی۔ اس کا تاریخی پس منظر سمجھنے کے لیے صرف وہ اقتباسات کافی نہیں ہیں جو اوپر ہم صُحف انبیاء سے نقل کر چکے ہیں، بلکہ ایک مختصر تاریخی بیان بھی ضروری ہے تا کہ ایک طالب علم کے سامنے وہ تمام اسباب آ جائیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک حامل کتاب قوم کو امامتِ  اقوام کے منصب سے گرا کر ایک شکست خوردہ، غلام اور سخت پسماندہ قوم بنا کر رکھ دیا۔

حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوئے تو یہاں مختلف قومیں آباد تھیں۔ حتی اَمَّوری کنعانی، فِرِزی، حَوی، یبوسی، فِلستی وغیرہ۔ ان قوموں میں بدترین قسم کا شرک پایا جاتا تھا۔ ان کے سب سے بڑے معبود کا نام ایل تھا جسے یہ دیوتاؤں کا باپ کہتے تھے اور اسے عموماً سانڈ سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ اس کی بیوی کا نام عشیرہ تھا اور اس سے خداؤں اور خدانیوں کی ایک پوری نسل چلی تھی جن کی تعداد ۷۰ تک پہنچتی تھی۔ اس کی اولاد میں سب سے زیادہ زبردست بعل تھا جس کو بارش اور روئیدگی کا خدا اور زمین و آسمان کا مالک سمجھا جاتا تھا۔شمالی علاقوں میں اس کی بیوی اُناث کہلاتی تھی اور فلسطین میں عِستارات۔ یہ دونوں خواتین عشق اور افزائشِ  نسل کی دیویاں تھیں۔ ان کے علاوہ کوئی دیوتا موت کا مالک تھا، کسی دیوی کے قبضے میں صحت تھی۔ کسی دیوتا کو وبا اور قحط لانے کے اختیارات تفویض کیے گئے تھے، اور یوں ساری خدائی بہت سے معبودوں میں بٹ گئی تھی۔ ان دیوتاؤں اور دیویوں کی طرف ایسے ایسے ذلیل اوصاف و اعمال منسوب تھے کہ اخلاقی حیثیت سے انتہائی بد کردار انسان بھی ان کے ساتھ مشتہر ہونا پسند نہ کریں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو لوگ ایسی کمینہ ہستیوں کو خدا بنائیں اور ان کی پرستش کریں وہ اخلاق کی ذلیل ترین پستیوں میں گرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جو حالات آثار قدیمہ کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں وہ شدید اخلاقی گراوٹ کی شہادت بہم پہنچاتے ہیں۔ ان کے ہاں بچوں کی قربانی کا عام رواج تھا۔ ان کے معابد زنا کاری کے اڈے بنے ہوئے تھے۔ عورتوں کو دیو داسیاں بنا کر عبادت گاہوں میں رکھنا اور ان سے بد کاریاں کرنا عبادت کے اجزاء میں داخل تھا۔ اور اسی طرح کی اور بہت سی بد اخلاقیاں ان میں پھیلی ہوئی تھیں۔

توراۃ میں حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان میں صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ تم ان قوموں کو ہلاک کر کے ان کے قبضے سے فلسطین کی سر زمین چھین لینا اور ان کے ساتھ رہنے بسنے اور ان کی اخلاقی و اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے پرہیز کرنا۔

لیکن بنی اسرائیل جب فلسطین میں داخل ہوئے تو وہ اس ہدایت کو بھول گئے۔ انہوں نے اپنی کوئی متحدہ سلطنت قائم نہ کی۔ وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا تھے۔ ان کے ہر قبیلے نے اس بات کو پسند کیا کہ مفتوح علاقے کا ایک حصہ لے کر الگ ہو جائے۔ اس تفرقے کی وجہ سے ان کا کوئی قبیلہ بھی اتنا طاقتور نہ ہو سکا کہ اپنے علاقے کو مشرکین سے پوری طرح پاک کر دیتا۔ آخر کار انہیں یہ گوارا کرنا پڑا کہ مشرکین ان کے ساتھ رہیں بسیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ ان کے مفتوح علاقوں میں جگہ جگہ ان مشرک قوموں کی چھوٹی چھوٹی شہری ریاستیں بھی موجود رہیں جن کو بنی اسرائیل مسخر نہ کر سکے۔ اسی بات کی شکایت زبور کی اُس عبارت میں کی گئی ہے جسے ہم نے حاشیہ نمبر ۶ کے آغاز میں نقل کیا ہے۔

اس کا پہلا خمیازہ تو بنی اسرائیل کو یہ بھگتنا پڑا کہ ان قوموں کے ذریعے سے ان کے اندر شرک گھس آیا اور اس کے ساتھ بتدریج دوسری اخلاقی گندگیاں بھی راہ پانے لگیں۔ چنانچہ اس کی شکایت بائیبل کی کتاب قُضاة میں یوں کی گئی ہے :

 ’’اور بنی اسرائیل نے خداوند کے آگے بدی کی اوربعلیم کی پرستش کرنے لگے۔ اور انہوں نے خداوند اپنے باپ دادا کے خدا کو جو انہیں ملک مصر سے نکال لایا تھا چھوڑ دیا او دوسرے معبودوں کی جو اُن کے گرداگرد کی قوموں کے دیوتاؤں میں سے تھے پیروی کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگے اور خداوند کو غصہ دلایا۔ وہ خداوند کو چھوڑ کر بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے اور خداوند کا قہر اسرائیل پر بھڑکا۔ (باب۲۔آیت ١١۔١۳)

اس کے بعد دوسرا خمیازہ انہیں یہ بھگتنا پڑا کہ جن قوموں کی شہری ریاستیں انہوں نے چھوڑ دی تھیں انہوں نے اور فلستیوں نے، جن کا پورا علاقہ غیر مغلوب رہ گیا تھا، بنی اسرائیل کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کیا اور پے در پے حملے کر کے فلِسِتین کے بڑے حصے سے ان کو بے دخل کر دیا، حتیٰ کہ ان سے خداوند کے عہد کا صندوق (تابوتِ سکینہ) تک چھین لیا۔ آخر کار بنی اسرائیل کو ایک فرمانروا کے تحت اپنی ایک متحدہ سلطنت قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، اور ان کی درخواست پر حضرت سموئیل نبی نے سن ۱۰۲۰ قبل مسیح میں طالوت کو ان کا بادشاہ بنایا۔ (اس کی تفصیل سورہ بقرہ رکوع ۳۲ میں گزر چکی ہے )۔

اس متحدہ سلطنت کے تین فرمانروا ہوئے۔ طالوت (سن ۱۰۲۰ تا ۱۰۰۴ ق م)، حضرت داؤد علیہ السلام (سن ۱۰۰۴ تا ۹۶۵ ق م) اور حضرت سلیمان علیہ السلام (سن ۹۶۵ تا ۹۲۶ ق م)۔ ان فرمانرواؤں نے اُس کام کو مکمل کیا جسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کے بعد نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ صرف شمالی ساحل پر فنیقیوں کی اور جنوبی ساحل پر فِلسِتیوں کی ریاستیں باقی رہ گئیں جنہیں مسخر نہ کیا جا سکا اور محض باج گزار بنانے پر اکتفا کیا گیا۔

حضرت سلیمان ؑ کے بعد بنی اسرائیل پر دنیا پرستی کا پھر شدید غلبہ ہوا اور انہوں نے آپس میں لڑ کر اپنی دو الگ سلطنتیں قائم کر لیں۔ شمالی فلسطین اور شرق اردن میں سلطنت اسرائیل، جس کا پایہ تخت آخر کار سا مِریہ قرار پایا۔ اور جنوبی فلسطین اور ادُوم کے علاقے میں سلطنت یہودیہ جس کا پایہ تخت یروشلم رہا۔ ان دونوں سلطنتوں میں سخت رقابت اور کشمکش اول روز سے شروع ہو گئی اور آخر تک رہی۔

ان میں اسرائیل ریاست کے فرمانروا اور باشندے ہمسایہ قوموں کے مشرکانہ عقائد اور اخلاقی فساد سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور یہ حالت اپنی انتہا کو پہنچ گئی جب اس ریاست کے فرمانروا اخی اب نے صَیدا کی مشرک شہزادی ایؔزِبل سے شادی کر لی۔ اس وقت حکومت کی طاقت اور ذرائع سے شرک اور بد اخلاقیاں سیلاب کی طرح اسرائیلیوں میں پھیلنی شروع ہوئیں۔ حضرت الیاس اور حضرت الیَسع علیہما السلام نے اس سیلاب کو روکنے کی انتہائی کوشش کی۔ مگر یہ قوم جس تنزل کی طرف جا رہی تھی اس سے باز نہ آئی۔ آخر کار اللہ کا غضب اشوریوں کی شکل میں دولت اسرائیل کی طرف متوجہ ہوا اور نویں صدی قبل مسیح سے فلسطین پر اشوری فاتحین کے مسلسل حملے شروع ہو گئے۔ اس دور میں عاموس نبی (سن ۷۸۷ تا ۷۴۷ قبل مسیح) اور پھر ہوسیع نبی (سن ۷۴۷ تا ۷۳۵ قبل مسیح) نے اٹھ کر اسرائیلیوں کو پے در پے تنبیہات کیں، مگر جس غفلت کے نشے میں وہ سرشار تھے وہ تنبیہ کی ترشی سے اور زیادہ تیز ہو گیا۔ یہاں تک کہ عاموس نبی کو شاہ اسرائیل نے ملک سے نکل جانے اور دولت سامریہ کے حدود میں اپنی نبوت بند کر دینے کا نوٹس دے دیا۔ اس کے بعد کچھ زیادہ مدّت نہ گذری تھی کہ خدا کا عذاب اسرائیل سلطنت اور اس کے باشندوں پر ٹوٹ پڑا۔ سن ۷۲۱ قبل مسیح میں اشور کے سخت گیر فرمانروا سارگون نے سامریہ کو فتح کر کے دولت اسرائیل کا خاتمہ کر دیا، ہزارہا اسرائیلی تہ تیغ کیے گئے، ۲۷ ہزار سے زیادہ با اثر اسرائیلیوں کو ملک سے نکال کر اشوری سلطنت کے مشرقی اضلاع میں تترّ بتّر کر دیا گیا، اور دوسرے علاقوں سے لا کر غیر قوموں کو اسرائیل کے علاقے میں بسایا گیا جن کے درمیان رہ بس کر بچا کھچا اسرائیلی عنصر بھی اپنی قومی تہذیب سے روز بروز زیادہ بیگانہ ہوتا چلا گیا۔

بنی اسرائیل کی دوسری ریاست جو یہودیہ کے نام سے جنوبی فلسطین میں قائم ہوئی، وہ بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بہت جلدی شرک اور بد اخلاقی میں مبتلا ہو گئی، مگر نسبتہً اس کا اعتقادی اور اخلاقی زوال دولتِ اسرائیل کی بہ نسبت سُست رفتار تھا، اس لیے اس کو مہلت بھی کچھ زیادہ دی گئی۔ اگرچہ دولتِ اسرائیل کی طرح اس پر بھی اشوریوں نے پے در پے حملے کیے، اس کے شہروں کو تباہ کیا، اس کے پایہ تخت کا محاصرہ کیا، لیکن یہ ریاست اشوریوں کے ہاتھوں ختم نہ ہو سکی بلکہ صرف باج گزار بن کر رہ گئی۔ پھر جب حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہودیہ کے لوگ بُت پرستی اور بد اخلاقیوں سے باز نہ آئے تو سن ۵۹۸ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم سمیت پوری دولت یہودیہ کو مسخر کر لیا اور یہودیہ کا بادشاہ اس کے پاس قیدی بن کر رہا۔ یہودیوں کی بد اعمالیوں کا سلسلہ اس پر بھی ختم نہ ہوا اور حضرت یرمیاہ کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے بابل کے خلاف بغاوت کر کے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر سن ۵۸۷ قبل مسیح میں بخت نصر نے ایک سخت حملہ کر کے یہودیہ کے تمام بڑے چھوٹے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح پیوند خاک کیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ کھڑی نہ رہی، یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو ان کے علاقے سے نکال کر ملک ملک میں تتر بتر کر دیا اور جو یہودی اپنے علاقے میں رہ گئے وہ بھی ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں بُری طرح ذلیل اور پامال ہو کر رہے۔

یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا، اور یہ تھی وہ پہلی سزا جو اس کی پاداش میں ان کی دی گئی۔

۸- یہ اشارہ ہے اُس مہلت کی طرف جو یہودیوں (یعنی اہل یہودیہ) کو بابل کی اسیری سے رہائی کے بعد عطا کی گئی۔ جہاں تک سامریہ اور اسرئیل کے لوگوں کا تعلق ہے، وہ تو اخلاقی و اعتقادی زوال کی پستیوں میں گرنے کے بعد پھر نہ اُٹھے، مگر یہودیہ کے باشندوں میں ایک بقیہ ایسا موجود تھا جو خیر پر قائم اور خیر کی دعوت دینے والاتھا۔ اُس نے اُن لوگوں میں بھی اصلاح کا کام جاری رکھا جو یہودیہ میں بچے کھچے رہ گئے تھے، اور ان لوگوں کو بھی توبہ و انابت کی ترغیب دی جو بابل اور دوسرے علاقوں میں جلا وطن کر دیے گئے تھے۔ آخر کار رحمتِ الٰہی ان کی مدد گار ہوئی۔ بابل کی سلطنت کو زوال ہوا۔سن ۵۳۹ قبل مسیح میں ایرانی فاتح سائرس (خورس یا خسرو) نے بابل کو فتح کیا اور اس کے دوسرے ہی سال اس نے فرمان جاری کر دیا کہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی عام اجازت ہے۔ چنانچہ اس کے بعد یہودیوں کے قافلے پر قافلے یہودیہ کی طرف جانے شروع ہو گئے جن کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔ سائرس نے یہودیوں کو ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کی اجازت بھی دی، مگر ایک عرصے تک ہمسایہ قومیں جو اس علاقے میں آباد ہو گئی تھیں، مزاحمت کرتی رہیں۔ آخر داریوس (دارا) اوّل نے سن ۵۲۲ قم یہودیہ کے آخری بادشاہ کے پوتے زرُو بابل کو یہودیہ کا گورنر مقرر کیا اور اس نے حَجیّ نبی، زکریاہ نبی اور سردار کاہن یشوع کی نگرانی میں ہیکلِ مقدس نئے سرے سے تعمیر کیا۔ پھر سن ۴۵۷ قم میں ایک جلاوطن گروہ کے ساتھ حضرت عُزیر (عزرا) یہودیہ پہنچے اور شاہِ ایران ارتخششتا(ارٹاکسرسز یا اردشیر) نے ایک فرمان کی رو سے ان کو مجاز کیا کہ:

 ’’تو اپنے خدا کی اُس دانش کے مطابق جو تجھ کو عنایت ہوئی، حاکموں اور قاضیوں کو مقرر کرا تا کہ دریا پار کے سب لوگوں کا جو تیرے خدا کی شریعت کو جانتے ہیں انصاف کریں، اور تم اُس کو جو نہ جانتا ہو سکھاؤ، اور جو کوئی تیرے خدا کی شریعت پر اور بادشاہ کے فرمان پر عمل نہ کرے اس کو بلا توقف قانونی سزا دی جائے، خواہ موت ہو، یا جلاوطنی، یا مال کی ضبطی، یا قید‘‘۔ (عزرا۔باب۸۔آیت۲۵۔۲٦)

اس فرمان سے فائدہ اٹھا کر حضرت عزیر نے دین موسوی کی تجدید کا بہت بڑا کام انجام دیا۔ انہوں نے یہودی قوم کے تمام اہل خیر و صلاح کو ہر طرف سے جمع کر کے ایک مضبوط نظام قائم کیا۔ با ئیبل کی کتب خمسہ کو، جن میں توراۃ تھی، مرتب کر کے شائع کیا، یہودیوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا، قوانین شریعت کو نافذ کر کے اُن اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا شروع کیا جو بنی اسرائیل کے اندر غیر قوموں کے اثر سے گھس آئی تھیں، اُن تمام مشرک عورتوں کو طلاق دلوائی جن سے یہودیوں نے بیاہ کر رکھے تھے، اور بنی اسرائیل سے از سرِ نو خدا کی بندگی اور اس کے آئین کی پیروی کا میثاق لیا۔

سن ۴۴۵ قم میں نحمیاہ کے زیر قیادت ایک اور جلا وطن گروہ یہودیہ واپس آیا اور شاہِ ایران نے نحمیاہ کو یروشلم کا حاکم مقرر کر کے اس امر کی اجازت دی کہ وہ اس کی شہر پناہ تعمیر کرے۔ اس طرح ڈیڑھ سو سال بعد بیتُ المقدس پھر سے آباد ہوا اور یہودی مذہب و تہذیب کا مرکز بن گیا۔ مگر شمالی فلسطین اور سامریہ کے اسرائیلیوں نے حضرت عزیر کی اصلاح و تجدید سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا، بلکہ بیت المقدس کے مقابلہ میں اپنا ایک مذہبی مرکز کوہِ جرزیم پر تعمیر کر کے اس کو قبلہ اہل کتاب بنانے کی کوشش کی۔ اس طرح یہودیوں اور سامریوں کے درمیان بُعد اور زیادہ بڑھ گیا۔

ایرانی سلطنت کے زوال اور سکندر اعظم کی فتوحات اور پھر یونانیوں کے عروج سے یہودیوں کو کچھ مدت کے لیے ایک سخت دھکا لگا۔ سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت جن تین سلطنتوں میں تقسیم ہوئی تھی، ان میں سے شام کا علاقہ اُس سلوقی سلطنت کے حصے میں آیا جس کا پایہ تخت انطاکیہ تھا اور اس کے فرمانروا انٹیوکس ثالث نے سن ۱۹۸ قم میں فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ یہ یونانی فاتح، جو مذہباً مشرک، اور اخلاقاً اباحیت پسند تھے، یہودی مذہب و تہذیب کو سخت ناگوار محسوس کرتے تھے۔ انہوں نے اس کے مقابلے میں سیاسی اور معاشی دباؤ سے یونانی تہذیب کو فروغ دینا شروع کیا اور خود یہودیوں میں سے ایک اچھا خاصا عنصر ان کا آلہ کار بن گیا۔ اس خارجی مداخلت نے یہودی قوم میں تفرقہ ڈال دیا۔ ایک گروہ نے یونانی لباس، یونانی زبان، یونانی طرزِ معاشرت اور یونانی کھیلوں کو اپنا لیا اور دوسرا گروہ اپنی تہذیب پر سختی کے ساتھ قائم رہا۔ سن ۱۵۷ قم میں انٹیوکس چہارم (جس کا لقب ایپی فانیس یعنی مظہر خدا) تھا، جب تخت نشین ہوا تو اس نے پوری جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب و تہذیب کی بیخ گنی کرنی چاہی۔ اس نے بیت المقدس کے ہیکل میں زبردستی بُت رکھوائے اور یہودیوں کو مجبور کیا کہ ان کو سجدہ کریں۔ اس نے قربان گاہ پر قربانی بند کرائی۔ اس نے یہودیوں کو مشرکانہ قربان گاہوں پر قربانیاں کرنے کا حکم دیا۔ اس نے ان سب لوگوں کے لیے سزائے موت تجویز کی جو اپنے گھروں میں توراۃ کا نسخہ رکھیں، یا سَبت کے احکام پر عمل کریں، یا اپنے بچوں کے ختنے کرائیں۔ لیکن یہودی اس جبر سے مغلوب نہ ہوئے اور ان کے اندر ایک زبردست تحریک اُٹھی جو تاریخ میں مُکّابی بغاوت کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ اس کشمکش میں یونانیت زدہ یہودیوں کی ساری ہمدردیاں یونانیوں کے ساتھ تھیں، اور انہوں نے عملاً مُکّا بی بغاوت کو کچلنے میں انطاکیہ کے ظالموں کا پورا ساتھ دیا، لیکن عام یہودیوں میں حضرت عزیر کی پھونکی ہوئی روحِ  دینداری کا اتنا زبردست اثر تھا کہ وہ سب مکابیوں کے ساتھ ہو گئے اور آخر کار انہوں نے یونانیوں کو نکال کر اپنی ایک آزاد دینی ریاست قائم کر لی جو سن ۶۷ قم تک قائم رہی۔ اس ریاست کے حدود پھیل کر رفتہ رفتہ اس پورے رقبے پر حاوی ہو گئے جو کبھی یہودیہ اور اسرائیل کی ریاستوں کے زیر نگین تھے، بلکہ فِلسِتیہ کا بھی ایک بڑا حصہ اس کے قبضے میں آگیا جو حضرت داؤد، سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں بھی مسخر نہ ہوا تھا۔ مُکّابی بغاوت انہی واقعات کی طرف قرآن مجید کی زیر تفسیر آیت اشارہ کرتی ہے۔

۹- اس دوسرے فساد اور اس کی سزا کا تاریخی پس منظر یہ ہے :

مکابیوں کی تحریک جس اخلاقی و دینی روح کے ساتھ اُٹھی تھی وہ بتدریج فنا ہوتی چلی گئی اور اس کی جگہ خالص دنیا پرستی اور بے روح ظاہرداری نے لے لی۔ آخر کار ان کے درمیان پھوٹ پڑ گئی اور انہوں نے خود رومی فاتح پومپی کو فلسطین آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ پومپی سن ۶۳ قم میں اس ملک کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے یہودیوں کی آزادی کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن رومی فاتحین کی یہ مستقل پالیسی تھی کہ وہ مفتوح علاقوں پر براہ راست اپنا نظم و نسق قائم کرنے کی بہ نسبت مقامی حکمرانوں کے ذریعے سے بالواسطہ اپنا کام نکلوانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے فلسطین میں اپنے زیر سایہ ایک دیسی ریاست قائم کر دی جو بالآخر سن ۴۰ قم میں ایک ہوشیار یہودی ہیرود نامی کے قبضے میں آئی۔ یہ ہیرود اعظم کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی فرمانروائی پورے فلسطین اور شرق اردن پر سن ۴۰ سے ۴ قبل مسیح تک رہی۔ اس نے ایک طرف مذہبی پیشواؤں کی سرپرستی کر کے یہودیوں کو خوش رکھا، اور دوسری طرف رومی تہذیب کو فروغ دے کر اور رومی سلطنت کی وفاداری کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کر کے قیصر کی بھی خوشنودی حاصل کی۔ اس زمانے میں یہودیوں کی دینی و اخلاقی حالت گرتے گرتے زوال کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی۔

ہیرود کے بعد اس کی ریاست تین حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

اس کا ایک بیٹا ارخلاؤس سامریہ یہودیہ اور شمالی اُدومیہ کا فرمانروا ہوا، مگر سن ۶ عیسوی میں قیصر آگسٹس نے اس کو معزول کر کے اس کی پوری ریاست اپنے گورنر کے ماتحت کر دی اور ۴۱ عیسوی تک یہی انتظام قائم رہا۔ یہی زمانہ تھا جب حضرت مسیح علیہ السلام بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے اُٹھے اور یہودیوں کے تمام مذہبی پیشواؤں نے مل کر ان کی مخالفت کی اور رومی گورنر پونتس پیلاطس سے ان کو سزائے موت دلوانے کی کوشش کی۔

ہیرود کا دوسرا بیٹا ہیرود اینٹی پاس شمالی فلسطین کے علاقہ گلیل اور شرق اُردن کا مالک ہوا اور یہ وہ شخص ہے جس نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کر کے اس کی نذر کیا۔

اس کا تیسرا بیٹا فلپ، کوہ حرمون سے دریائے یر موک تک کے علاقے کا مالک ہوا اور یہ اپنے باپ اور بھائیوں سے بھی بڑھ کر رومی و یونانی تہذیب میں غرق تھا۔ اس کے علاقے میں کسی کلمہ خیر کے پننپے کی اتنی گنجائش بھی نہ تھی جتنی فلسطین کے دوسرے علاقوں میں تھی۔

سن ۴۱ ء میں ہیرود اعظم کے پوتے ہیرود  اَگرِپا کو رومیوں نے ان تمام علاقوں کا فرمانروا بنا دیا جن پر ہیرود اعظم اپنے زمانے میں حکمران تھا۔ اس شخص نے بر سر اقتدار آنے کے بعد مسیح علیہ السلام کے پیرووں پر مظالم کی انتہا کر دی اور اپنا پورا زور خدا ترسی و اصلاح اخلاق کی اس تحریک کو کچلنے میں صرف کر ڈالا جو حواریوں کی رہنمائی میں چل رہی تھی۔

اس دور میں عام یہودیوں اور ان کے مذہبی پیشواؤں کی جو حالت تھی اس کا صحیح اندازہ کر نے کے لیے اُن تنقیدوں کا مطالعہ کر نا چاہیے جو مسیح علیہ السلام نے اپنے خطبوں میں ان پر کی ہیں۔ یہ سب خطبے انا جیل اربعہ میں موجود ہیں۔ پھر اس کا اندازہ کر نے کے لیے یہ امر کافی ہے کہ اس قوم کی آنکھوں کے سامنے یحییٰ علیہ السلام جیسے پاکیزہ انسان کا سر قلم کیا گیا مگر ایک آواز بھی اس ظلم عظیم کے خلاف نہ اُٹھی۔ اور پوری قوم کے مذہبی پیشواؤں نے مسیح علیہ السلام کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا مگر تھوڑے سے راستباز انسانوں کے سوا کوئی نہ تھا جو اس بد بختی پر ماتم کرتا۔ حد یہ ہے کہ جب پونتس پیلاطس نے ان شامت زدہ لوگوں سے پوچھا کہ آج تمہاری عید کا دن ہے اور قاعدے کے مطابق میں سزائے موت کے مستحق مجرموں میں سے ایک کو چھوڑ دینے کا مجاز ہوں، بتاؤ یسوع کو چھوڑوں یا برابّا ڈاکو کو؟ تو ان کے پورے مجمع نے بیک آواز ہو کر کہا کہ برابّا کو چھوڑ دے۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری حجت تھی جو اس قوم پر قائم کی گئی۔

اس پر تھوڑا زمانہ ہی گزرا تھا کہ یہودیوں اور رومیوں کے درمیان سخت کشمکش شروع ہو گئی اور ۶۴ ء اور ۶۶ ء کے درمیان یہودیوں نے کھلی بغاوت کر دی۔ ہیرود اگرِپا ثانی اور رومی پروکیوریٹر فلورس، دونوں اس بغاوت کو فرد کرنے میں ناکام ہوئے۔ آخر کار رومی سلطنت نے ایک سخت فوجی کاروائی سے اس بغاوت کو کچل ڈالا اور ۷۰ ء میں ٹیٹئس نے بزور شمشیر یروشلم کو فتح کر لیا۔ اس موقع پر قتلِ عام میں ایک لاکھ ۳۳ ہزار آدمی مارے گئے، ۶۷ ہزار آدمی گرفتار کر کے غلام بنائے گئے ہزار ہا آدمی پکڑ پکڑ کر مصری کانوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیے گئے، ہزاروں آدمیوں کو پکڑ کر مختلف شہروں میں بھیجا گیا تا کہ ایمفی تھیڑوں اور کلوسمیوں میں ان کو جنگلی جانوروں سے پھڑوانے یا شمشیر زنوں کے کھیل کا تختہ مشق بننے کے لیے استعمال کیا جائے۔ تمام دراز قامت اور حسین لڑکیاں فاتحین کے لیے چن لی گئیں، اور یروشلم کے شہر اور ہیکل کو مسمار کر کے پیوندِ  خاک کر دیا گیا۔ اس کے بعد فلسطین سے یہودی اثر و اقتدار ایسا مٹا کہ دو ہزار برس تک اس کو پھر سر اٹھانے کا موقع نہ ملا، اور یروشلم کا ہیکل مقدس پھر کبھی تعمیر نہ ہو سکا۔ بعد میں قیصر ہیڈ ریان نے اس شہر کر دوبارہ آباد کیا، مگر اب اس کا نام ایلیا تھا اور اس میں مدتہائے دراز تک یہودیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔

یہ تھی وہ سزا جو بنی اسرائیل کو دوسرے فسادِ عظیم کی پاداش میں ملی۔

۱۰- اس سے یہ شبہہ نہ ہونا چاہیے کہ اس پوری تقریر کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں۔ مخاطب تو کفار مکہ ہی ہیں، مگر چونکہ اُن کو متنبہ کرنے کے لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند عبرتناک شواہد پیش کیے گئے تھے، اس لیے بطور ایک جملہ معترضہ کے یہ فقرے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرما دیا گیا تا کہ اُن اصلاحی تقریروں کے لیے تمہید کا کام دے جن کی نوبت ایک ہی سال بعد مدینے میں آنے والی تھی۔

۱۱- مدعا یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ یا قوم اس قرآن کی تنبیہ و فہمائش سے راہ راست پر نہ آئے، اسے پھر اُس سزا کے لیے تیار رہنا چاہیے جو بنی اسرائیل نے بھگتی ہے۔

 

انسان شر اُس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔ ۱۲ دیکھو، ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو ہم نے بے نُور بنایا، اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے ربّ کا فضل تلاش کر سکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کر سکو۔ اِسی طرح ہم نے ہر چیز کو الگ الگ ممیَّز کر کے رکھا ہے۔ ۱۳ہر انسان کا شگون ہم نے اُس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے، ۱۴ اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اُس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھُلی کتاب کی طرح پائے گا۔۔۔۔پڑھ اپنا نامۂ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تُو خود ہی کافی ہے۔ جو کوئی راہِ راست اختیار کرے اس کی راست روی اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گُمراہ ہو اُس کی گمراہی کا وبال اُسی پر ہے۔ ۱۵ کوئی بوجھ اُٹھانے والا دُوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا۔۱۶ اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے ) ایک پیغام بر نہ بھیج دیں۔۱۷جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔۱۸دیکھ لو، کتنی ہی نسلیں ہیں جو نُوحؑ کے بعد ہمارے حکم سے ہلاک ہوئیں۔ تیرا ربّ اپنے بندوں کے گناہوں سے پُوری طرح باخبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ جو کوئی عاجلہ ۱۹ کا خواہشمند ہو، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں، پھر اس کے مقسُوم میں جہنّم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا ملامت زدہ اور رحمت سے محرُوم ہو کر۔۲۰اور جو آخرت کا خواہشمند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہو گی۔۲۱اِن کو بھی اور اُن کو بھی، دونوں فریقوں کو ہم (دُنیا میں) سامانِ زیست دیے جا رہے ہیں، یہ تیرے ربّ کا عطیہ ہے، اور تیرے ربّ کی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ۲۲مگر دیکھ لو، دُنیا ہی میں ہم نے ایک گروہ کو دُوسرے پر کیسی فضیلت دے رکھی ہے، اور آخرت میں اُس کے درجے اور بھی زیادہ ہوں گے، اور اس کی فضیلت اور بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہو گی۔۲۳تُو اللہ کے ساتھ کوئی دُوسرا معبود نہ بنا ۲۴ ورنہ ملامت زدہ اور بے یار و مددگار بیٹھا رہ جائے گا۔ ؏ ۲
 

۱۲- یہ جواب ہے کفار مکہ کی اُن احمقانہ باتوں کا جو وہ بار بار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ بس لے آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈرایا کرتے ہو۔ اوپر کے بیان کے بعد معاً یہ فقرہ ارشاد فرمانے کی غرض اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ بیوقوفو! خیر مانگنے کے بجائے عذاب مانگتے ہو؟ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے خدا کا عذاب جب کسی قوم پر آتا ہے تو اس کی کیا گت بنتی ہے ؟

اس کے ساتھ اس فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مسلمانوں کے لیے بھی تھی جو کفار کے ظلم و ستم اور ان کی ہٹ دھرمیوں سے تنگ آ کر کبھی کبھی ان کے حق میں نزول عذاب کی دعا کرنے لگتے تھے، حالانکہ ابھی انہی کفار میں بہت سے وہ لوگ موجود تھے جو آگے چل کر ایمان لانے والے اور دنیا بھر میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے والے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان بڑا بے صبر واقع ہوا ہے۔، ہر وہ چیز مانگ بیٹھتا ہے جس کی بر وقت ضرورت محسوس ہوتی ہے، حالانکہ بعد میں اسے خود تجربہ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر اُس وقت اُس کی دعا قبول کر لی جاتی تو وہ اس کے حق میں خیر نہ ہوتی۔

۱۳- مطلب یہ ہے کہ اختلافات سے گھبرا کر یکسانی و یک رنگی کے لیے بے چین نہ ہو۔ اس دنیا کا تو سارا کار خانہ ہی اختلاف اور امتیاز اور تنوع کی بدولت چل رہا ہے۔ مثال کے طور پر تمہارے سامنے نمایاں ترین نشانیاں یہ رات اور دن ہیں جو روز تم پر طاری ہوتے رہتے ہیں۔ دیکھوں کہ ان کے اختلافات میں کتنی عظیم الشان مصلحتیں موجود ہیں۔ اگر تم پر دائماً ایک ہی حالت طاری رہتی تو کیا یہ ہنگامہ وجود چل سکتا تھا؟ پس جس طرح تم دیکھ رہے ہو کہ عالم طبیعیات میں فرق و اختلاف اور امتیاز کے ساتھ بے شمار مصلحتیں وابستہ ہیں، اسی طرح انسانی مزاجوں اور خیالات اور رجحانات میں بھی جو فرق و امتیاز پایا جاتا ہے وہ بڑی مصلحتوں کا حامل ہے۔ خیر اس میں نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سے اس کو مٹا کر سب انسانوں کو جبراً نیک اور مومن بنا دے، یا کافروں اور فاسقوں کو ہلاک کر کے دنیا میں صرف اہل ایما ن و طاعت ہی کو باقی رکھا کرے۔ اس کی خواہش کر نا تو اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ خواہش کرنا کہ صرف دن ہی دن رہا کرے، رات کی تاریکی سرے سے کبھی طاری ہی نہ ہو۔ البتہ خیر جس چیز میں ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہدایت کی روشنی جن لوگوں کے پاس ہے وہ اسے لے کر ضلالت کی تاریکی دور کرنے کے لیے مسلسل سعی کرتے رہیں، اور جب رات کی طرح کوئی تاریکی کا دور آئے تو وہ سورج کی طرح اُس کا پیچھا کریں، یہاں تک کہ روزِ روشن نمودار ہو جائے۔

۱۴- یعنی ہر انسان کی نیک بختی و بد بختی، اور اس کے انجام کی بھلائی اور برائی کے اسباب و وجوہ خود اس کی اپنی ذات ہی میں موجود ہیں۔ اپنے اوصاف، اپنی سیرت و کردار، اور اپنی قوتِ تمیز اور قوت فیصلہ و انتخاب کے استعمال سے وہ خود ہی اپنے آپ کو سعادت کا مستحق بھی بناتا ہے اور شقاوت کا مستحق بھی۔ نادان لوگ اپنی قسمت کے شگون باہر لیتے پھرتے ہیں اور ہمیشہ خارجی اسباب ہی کو اپنی بدبختی کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا پروانہ خیر و شر اُن کے اپنے گلے کا ہار ہے۔ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈالیں تو دیکھ لیں کہ جس چیز نے ان کو بگاڑ اور تباہی کے راستے پر ڈالا اور آخر کار خائب و خاسر بنا کر چھوڑا وہ ان کے اپنے ہی برے اوصاف اور برے فیصلے تھے، نہ یہ کہ باہر سے آ کر کوئی چیز زبردستی ان پر مسلط ہو گئی تھی۔

۱۵- یعنی راہ راست اختیار کر کے کوئی شخص خدا پر، یا رسول پر، یا اصلاح کی کوشش کرنے والوں پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ خود اپنے ہی حق میں بھلا کرتا ہے۔ اور اسی طرح گمراہی اختیار کر کے یا اس پر اصرار کر کے وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا، اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ خدا اور رسول اور داعیانِ حق انسان کو غلط راستوں سے بچانے اور صحیح راہ دکھانے کی جو کوشش کرتے ہیں وہ اپنی کسی غرض کے لیے نہیں بلکہ انسان کی خیر خواہی کے لیے کرتے ہیں۔ ایک عقلمند آدمی کا کام یہ ہے کہ جب دلیل سے اس کے سامنے حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کر دیا جائے تو وہ تعصبات اور مفاد پرستیوں کو چھوڑ کر سیدھی طرح باطل سے باز آ جائے اور حق اختیار کر لے۔ تعصب یا مفاد پرستی سے کام لے گا تو وہ اپنا آپ ہی بدخواہ ہو گا۔

۱۶- یہ ایک نہایت اہم اصولی حقیقت ہے جسے قرآن مجید میں جگہ جگہ ذہن نشین کرنے کے کوشش کی گئی ہے، کیونکہ اسے سمجھے بغیر انسان کا طرز عمل کبھی درست نہیں ہو سکتا۔ اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ایک مستقل اخلاقی ذمہ داری رکھتا ہے اور اپنی شخصی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ دنیا میں خواہ کتنے ہی آدمی، کتنی ہی قومیں اور کتنی ہی نسلیں اور پشتیں ایک کام یا ایک طریق عمل میں شریک ہوں، بہر حال خدا کی آخری عدالت میں اُس مشرک عمل کا تجزیہ کر کے ایک ایک انسان کی ذاتی ذمہ داری الگ مشخص کر لی جائے گی اور اس کو جو کچھ بھی جزا یا سزا ملے گی، اس عمل کی ملے گی جس کا وہ خود اپنی انفرادی حیثیت میں ذمہ دار ثابت ہو گا۔اس انصاف کی میزان میں نہ یہ ممکن ہو گا کہ دوسروں کے کیے کا وبال اس پر ڈال دیا جائے، اور نہ یہی ممکن ہو گا کہ اس کے کرتوتوں کا بارِ گناہ کسی اور پر پڑ جائے۔ اس لیے ایک دانش مند آدمی کو یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں، بلکہ اسے ہر وقت اس بات پر نگاہ رکھنی چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے۔ اگر اسے اپنی ذاتی ذمہ داری کا صحیح احساس ہو تو دوسرے خواہ کچھ کر رہے ہوں، وہ بہر حال اُسی طرزِ عمل پر ثابت قدم رہے گا جس کی جواب دہی خدا کے حضور وہ کامیابی کے ساتھ کر سکتا ہو۔

۱۷- یہ ایک اور اصولی حقیقت ہے جسے قرآن بار بار مختلف طریقوں سے انسان کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نظامِ عدالت میں پیغمبر ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ پیغمبر اور اس کا لایا ہوا پیغام ہی بندوں پر خدا کی حجت ہے۔ یہ حجت قائم نہ ہوں تو بندوں کو عذاب دینا خلافِ انصاف ہو گا، کیونکہ اس صورت میں وہ یہ عذر پیش کر سکیں گے کہ ہمیں آگاہ کیا ہی نہ گیا تھا پھر اب ہم پر یہ گرفت کیسی۔ مگر جب یہ حجت قائم ہو جائے تو اس کے بعد انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اُن لوگوں کو سزا دی جائے جنہوں نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغام سے منہ موڑا ہو، یا اسے پا کر پھر اس سے انحراف کیا ہو۔ بے وقوف لوگ اس طرح کی آیات پڑھ کر اس سوال پر غور کرنے لگتے ہیں کہ جن لوگوں کے پاس کسی نبی کا پیغام نہیں پہنچا ان کی پوزیشن کیا ہو گی۔ حالانکہ ایک عقلمند آدمی کو غور اس بات پر کرنا چاہیے کہ تیرے پاس تو پیغام پہنچ چکا ہے۔ اب تیری اپنی پوزیشن کیا ہے۔ رہے دوسرے لوگ، تو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے پاس، کب، کس طرح اور کس حد تک اس کا پیغام پہنچا اور اس نے اس کے معاملے میں کیا رویہ اختیار کیا اور کیوں کیا۔ عالم الغیب کے سوا کوئی بھی یہ نہیں جان سکتا کہ کس پر اللہ کی حجت پوری ہوئی ہے اور کس پر نہیں ہوئی۔

۱۸- اس آیت میں حکم سے مراد حکم طبعی اور قانون فطری ہے۔ یعنی قدرتی طور پر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے معترفین فاسق ہو جاتے ہیں۔ ہلاک کرنے کے ارادے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یونہی بے قصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کا ظہور اس طریقے سے ہوتا ہے۔

دراصل جس حقیقت پر اس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخر کار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے کھاتے پیتے، خوشحال لوگوں اور اونچے طبقوں کا بگاڑ ہے۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحبِ اقتدار لوگ فسق و فجور پر اُتر آتے ہیں، ظلم و ستم اور بد کاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں، اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔ لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو اسے فکر رکھنی چاہیے کہ اس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بد اخلاقی لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے پائیں۔

۱۹- عاجلہ کے لغوی معنی ہیں جلدی ملنے والی چیز۔ اور اصطلاحاً قرآن مجید اس لفظ کو دنیا کے لیے استعمال کرتا ہے جس کے فائدے اور نتائج اسی زندگی میں حاصل ہو جا تے ہیں۔ اس کے مقابلے کی اصطلاح ’’آخرت‘‘ ہے جس کے فوائد اور نتائج کو موت کے بعد دوسری زندگی تک موخر کر دیا گیا ہے۔

۲۰- مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو نہیں مانتا، یا آخرت تک صبر کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اپنی کوششوں کا مقصود صرف دنیا اور اس کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو بناتا ہے، اسے جو کچھ بھی ملے گا بس دنیا میں مل جائے گا۔ آخرت میں وہ کچھ نہیں پا سکتا۔ اور بات صرف یہیں تک نہ رہے گی کہ اسے کوئی خوشحالی آخرت میں نصیب نہ ہو گی، بلکہ مزید برآں دنیا پرستی، اور آخرت کی جوابدہی و ذمہ داری سے بے پرواہی اس کے طرز عمل کو بنیادی طور پر ایسا غلط کر کے رکھ دے گی کہ آخرت میں وہ اُلٹا جہنم کا مستحق ہو گا۔

۲۱- یعنی اس کے کام کی قدر کی جائے گی اور جتنی اور جیسی کوشش بھی اس نے آخرت کی کامیابی کے لیے کی ہو گی اس کا پھل وہ ضرور پائے گا۔

۲۲- یعنی دنیا میں رزق اور سامان زندگی دنیا پرستوں کو بھی مل رہا ہے اور آخرت کے طلب گاروں کو بھی عطیہ اللہ ہی کا ہے، کسی اور کا نہیں ہے۔ نہ دنیا پرستوں میں یہ طاقت ہے کہ آخرت کے طلب گاروں کو رزق سے محروم کر دیں، اور نہ آخرت کے طلب گار ہی یہ قدرت رکھتے ہیں کہ دنیا پرستوں تک اللہ کی نعمت نہ پہنچنے دیں۔

۲۳- یعنی دنیا ہی میں یہ فرق نمایاں ہو جاتا ہے کہ آخرت کے طلبگار دنیا پرست لوگوں پر فضیلت رکھتے ہیں۔ یہ فضیلت اس اعتبار سے نہیں ہے کہ ان کے کھانے اور لباس اور مکان اور سواریاں اور تمدن و تہذیب کے ٹھاٹھ اُن سے کچھ بڑھ کر ہیں۔ بلکہ اس اعتبار سے ہے کہ یہ جو کچھ بھی پاتے ہیں صداقت، دیانت اور امانت کے ساتھ پاتے ہیں، اور وہ جو کچھ پا رہے ہیں ظلم سے، بے ایمانیوں سے، اور طرح طرح کی حرام خوریوں سے پا رہے ہیں۔ پھر ان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اعتدال کے ساتھ خرچ ہوتا ہے، اس میں سے حق داروں کے حقوق ادا ہوتے ہیں، اس میں سائل اور محروم کا حصہ بھی نکلتا ہے، اور اس میں سے خدا کی خوشنودی کے لیے دوسرے نیک کاموں پر بھی مال صرف کیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس دنیا پرستوں کو جو کچھ ملتا ہے وہ بیش تر عیاشیوں اور حرام کاریوں اور طرح طرح کے فساد انگیز اور فتنہ خیز کاموں میں پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ اسی طرح تمام حیثیتوں سے آخرت کے طلب گار کی زندگی خدا ترسی اور پاکیزگی اخلاق کا ایسا نمونہ ہوتی ہے جو پیوند لگے ہوئے کپڑوں اور خس کی جھونپڑیوں میں بھی اس قدر درخشاں نظر آتا ہے کہ دنیا پرست کی زندگی اس کے مقابلے میں ہر چشم بینا کو تاریک نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے جبار بادشاہوں اور دولت مند امیروں کے لیے بھی ان کے ہم جنس انسانوں کے دلوں میں کوئی سچی عزت اور محبت اور عقیدت کبھی پیدا نہ ہوئی اور اس کے بر عکس فاقہ کش اور بوریا نشین اتقیا کی فضیلت کو خود دنیا پرست لوگ بھی ماننے پر مجبور ہو گئے۔ یہ کھلی کھلی علامتیں اس حقیقت کی طرف صاف اشارہ کر رہی ہیں کہ آخرت کی پائدار مستقل کامیابیاں ان دونوں گروہوں میں سے کس کے حصے میں آنے والی ہیں۔

۲۴- دوسرا ترجمہ اس فقرے کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور خدا نہ گھڑ لے، یا کسی اور کو خدا نہ قرار دے لے۔

 

تیرے ربّ نے فیصلہ کر دیا ہے ۲۵ کہ:
(۱) تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُس کی۔۲۶
(۲) والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں بُوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھِڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو، اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھُک کر رہو، اور دُعا کیا کرو کہ ’’پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح اِنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘ تمہارا ربّ خُوب جانتا ہے کہ تمہارے دِلوں میں کیا ہے۔ اگر تم صالح بن کر رہو تو وہ ایسے سب لوگوں کے لیے درگزر کرنے والا ہے جو اپنے قصُور پر متنبِہّ ہو کر بندگی کے رویّے کی طرف پلٹ آئیں۔۲۷
 (۳) رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔
(۴) فضُول خرچی نہ کرو۔
فضُول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے ربّ کا ناشکرا ہے۔
 (۵) اگر اُن سے (یعنی حاجت مند رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں سے ) تمہیں کترانا ہو، اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اُس رحمت کو جس کے تم اُمیدوار ہو تلاش کر رہے ہو، تو انہیں نرم جواب دے دو۔ ۲۸
 (۶) نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھُلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ۔۲۹
تیرا ربّ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔ ۳۰ ؏ ۳

 

۲۵- یہاں وہ بڑے بڑے بنیادی اصول پیش کیے جا رہے ہیں جن پر اسلام پوری انسانی زندگی کے نظام کی عمارت قائم کانا چاہتا ہے۔ یہ گویا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا منشور ہے جسے مکی دور کے خاتمے اور آنے والے مدنی دور کے نقطہ آغاز پر پیش کیا گیا، تاکہ دنیا بھر کو معلوم ہو جائے کہ اس نئے اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد کن فکری، اخلاقی، تمدنی، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اس موقع پر سورہ انعام کے رکوع ۱۹ اور اس کے حواشی پر بھی ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہو گا۔

۲۶- اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش اور پوجا نہ کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ بندگی اور غلامی اور بے چون و چرا اطاعت بھی صرف اسی کی کرو، اسی کے حکم کو حکم اور اسی کے قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدار اعلیٰ تسلیم نہ کرو۔ یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ، اور صرف انفرادی طرز عمل کے لیے ایک ہدایت ہی نہیں ہے بلکہ اُس پورے نظام اخلاق و تمدن و سیاست کا سنگِ بنیاد بھی ہے جو مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عملاً قائم کیا۔ اس کی عمارت اسی نظریے پر اٹھائی گئی تھی کہ اللہ جل شانہ ہی ملک کا مالک اور بادشاہ ہے، اور اسی کی شریعت ملک کا قانون ہے۔

۲۷- اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے بعد انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ اولاد کو والدین کا مطیع، خدمت گزار اور ادب شناس ہونا چاہیے۔ معاشرے کا اجتماعی اخلاق ایسا ہونا چاہیے جو اولاد کو والدین سے بے نیاز بنانے والا نہ ہو بلکہ ان کا احسان مند اور ان کے احترام کا پابند بنائے، اور بڑھاپے میں اُسی طرح ان کی خدمت کرنا سکھائے جس طرح بچپن میں وہ اس کی پرورش اور ناز برداری کر چکے ہیں۔ یہ آیت بھی صرف ایک اخلاقی سفارش نہیں ہے بلکہ اسی کی بنیاد پر بعد میں والدین کے وہ شرعی حقوق و اختیارات مقرر کیے گئے جن کی تفصیلات ہم کو حدیث اور فقہ میں ملتی ہیں۔ نیز اسلامی معاشرے کی ذہنی و اخلاقی تربیت میں اور مسلمانوں کے آدابِ تہذیب میں والدین کے ادب اور اطاعت اور ان کے حقوق کی نگہداشت کو ایک اہم عنصر کی حیثیت سے شامل کی گیا۔ ان چیزوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے کر دیا کہ اسلامی ریاست اپنے قوانین اور انتظامی احکام اور تعلیمی پالیسی کے ذریعہ سے خاندان کے ادارے کو مضبوط اور محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی نہ کہ اسے کمزور بنانے کی۔

۲۸- ان تین دفعات کا منشا یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی اور دولت کو صرف اپنے لیے ہی مخصوص نہ رکھے، بلکہ اپنی ضروریات اعتدال کے ساتھ پوری کرنے کے بعد اپنے رشتہ داروں، اپنے ہمسایوں اور دوسرے حاجتمند لوگوں کے حقوق بھی ادا کرے۔ اجتماعی زندگی میں تعاون، ہمدردی اور حق شناسی و حق رسانی کی روح جاری و ساری ہو۔ ہر رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کا معاون، اور ہر مستظیع انسان اپنے پاس کے محتاج انسان کا مددگار ہو۔ ایک مسافر جس بستی میں بھی جائے، اپنے آپ کو مہمان نواز لوگوں کے درمیان پائے۔ معاشرہ میں حق کا تصور اتنا وسیع ہو کہ ہر شخص اُن سب انسانوں کے حقوق اپنی ذات پر اور اپنے مال پر محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہو۔ ان کی خدمت کرے تو یہ سمجھتے ہوئے کرے کہ ان کا حق ادا کر رہا ہے، نہ یہ کہ احسان کا بوجھ ان پر لاد رہا ہے۔ اگر کسی کی خدمت سے معذور ہو تو اس سے معافی مانگے اور خدا سے فضل طلب کرے تا کہ وہ بندگانِ  خدا کی خدمت کرنے کے قابل ہو۔

منشورِ اسلامی کی یہ دفعات بھی صرف انفرادی اخلاق کی تعلیم ہی نہ تھیں، بلکہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کے معاشرے اور ریاست میں انہی کی بنیاد پر صدقاتِ واجبہ اور صدقات نافلہ کے احکام دیے گئے، وصیت اور وراثت اور وقف کے طریقے مقرر کیے گئے، یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کیا گیا، ہر بستی پر مسافر کا یہ حق قائم کیا گیا کہ کم از کم تین دن تک اس کی ضیافت کی جائے، اور پھر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کا اخلاقی نظام عملاً ایسا بنایا گیا کہ پورے اجتماعی ماحول میں فیاضی، ہمدردی اور تعاون کی روح جاری و ساری ہو گئی، حتیٰ کہ لوگ آپ ہی آپ قانونی حقوق کے ما سوا اُن اخلاقی حقوق کو بھی سمجھنے اور ادا کرنے لگے جنہیں نہ قانون کے زور سے مانگا جا سکتا ہے نہ دلوایا جا سکتا ہے۔

۲۹- ہاتھ باندھنا استعارہ ہے بخل کے لیے، اور اسے کھلا چھوڑ دینے سے مراد ہے فضول خرچی۔ دفعہ ۴ کے ساتھ دفعہ ۶ کے اس فقرے کو ملا کر پڑھنے سے منشاء صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں اتنا اعتدال ہونا چاہیے کہ وہ نہ بخیل بن کر دولت کی گردش کو روکیں اور نہ فضول خرچ بنکر اپنی معاشی طاقت کو ضائع کریں۔ اس کے بر عکس ان کے اندر توازن کی ایسی صحیح حس موجود ہونی چاہیے کہ وہ بجا خرچ سے باز بھی نہ رہیں اور بیجا خرچ کی خرابیوں میں مبتلا بھی نہ ہو۔ فخر اور ریا اور نمائش کے خرچ، عیاشی اور فسق و فجور کے خرچ، اور تمام ایسے خرچ جو انسان کی حقیقی ضروریات اور مفید کاموں میں صرف ہونے کے بجائے دولت کو غلط راستوں میں بہا دیں، دراصل خدا کی نعمت کا کفران ہیں۔ جو لوگ اس طرح اپنی دولت کو خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔

یہ دفعات بھی محض اخلاقی تعلیم اور انفرادی ہدایات تک محدود نہیں ہیں بلکہ صاف اشارہ اس بات کی طرف کر رہی ہیں۔ کہ ایک صالح معاشرے کو اخلاقی تربیت، اجتماعی دباؤ اور قانونی پابندیوں کے ذریعہ سے بے جا صرفِ  مال کی روک تھام کرنی چاہیے۔ چنانچہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کی ریاست میں ان دونوں دفعات کے منشا کی صحیح ترجمانی مختلف عملی طریقوں سے کی گئی۔ ایک طرف فضول خرچی اور عیاشی کی بہت سی صورتوں کو ازروئے قانون حرام کیا گیا۔ دوسری طرف بالواسطہ قانونی تدابیر سے بے جا سرف مال کی روک تھام کی گئی۔ تیسری طرف معاشرتی اصلاح کے ذریعہ سے اُن بہت سی رسموں کا خاتمہ کیا گیا جن میں فضول خرچیاں کی جاتی تھیں۔ پھر حکومت کو یہ اختیارات دیے گئے کہ اسراف کی نمایا ں صورتوں کو اپنے انتظامی احکام کے ذریعہ سے روک دے۔ اسی طرح زکوٰۃ و صدقات کے احکام سے بخل کا زور بھی توڑا گیا اور اس امر کے امکانات باقی نہ رہنے دیے گئے کہ لوگ زر اندوزی کر کے دولت کی گردش کو روک دیں۔ ان تدابیر کے علاوہ معاشرے میں ایک ایسی رائے عام نے بخیلوں کو ذلیل کیا۔ اعتدال پسندوں کو معزز بنایا۔ فضول خر چوں کو ملامت کی اور فیاض لوگوں کو پوری سوسائٹی کا گِل سرِ سَبَد قرار دیا۔ اس وقت کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا یہ اثر آج تک مسلم معاشرے میں موجود ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہیں کنجوسوں اور زر اندوزوں کو بُری نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور سخی انسان آج بھی ان کی نگاہ میں معزز و محترم ہے۔

۳۰- یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان رزق کی بخشش میں کم و بیش کا جو فرق رکھا ہے انسان اس کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتا، لہٰذا تقسیم رزق کے فطری نظام میں انسان کو اپنی مصنوعی تدبیروں سے دخل انداز نہ ہونا چاہیے۔ فطری نا مساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا، یا اس نا مساوات کو فطرت کی حدود سے بڑھا کر بے انصافی کی حد تک پہنچا دینا، دونوں ہی یکساں غلط ہیں۔ ایک صحیح معاشی نظام وہی ہے جو خدا کے مقرر کیے ہوئے طریقِ  تقسیم رزق سے قریب تر ہو۔

اس فقرے میں قانون فطرت کے جس قاعدے کی طرف رہنمائی کی گئی تھی اس کی وجہ سے مدینے کے اصلاحی پروگرام میں یہ تخیل سرے سے کوئی راہ نہ پا سکا کہ رزق اور وسائلِ  رزق میں تفاوت اور تفاضُل بجائے خود کوئی برائی ہے جسے مٹانا اور ایک بے طبقات سوسائٹی پیدا کرنا کسی درجے میں بھی مطلوب ہو۔ اس کے بر عکس مدینہ طیبہ میں انسانی تمدن کو صالح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جو راہ عمل اختیار کی گئی وہ یہ تھی کہ فطرت اللہ نے انسانوں کے درمیان جو فرق رکھے ہیں ان کو اصل فطری حالت پر بر قرار رکھا جائے اور اوپر کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق سوسائٹی کے اخلاق و اطوار اور قوانین عمل کی اس طرح اصلاح کر دی جائے کہ معاش کا فرق و تفاوت کسی ظلم و بے انصافی کا موجب بننے کے بجائے ا اُن بے شمار اخلاقی، روحانی اور تمدنی فوائد و برکات کا ذریعہ بن جائے جن کی خاطر ہی دراصل خالقِ کائنات نے اپنے بندوں کے درمیان یہ فرق و تفاوت رکھا ہے۔

 

 (۷) اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔ ۳۱(۸) زنا کے قریب نہ پھٹکو، وہ بہت بُرا فعل اور بڑا ہی بُرا راستہ ہے۔ ۳۲
 (۹) قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے ۳۳ مگر حق کے ساتھ۔۳۴ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، ۳۵ پس چاہیے کے وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، ۳۶ اُس کی مدد کی جائے گی ۳۷۔
 (۱۰) مالِ یتیم کے پاس نہ پھٹکو مگر احسن طریقے سے، یہاں تک کہ وہ اپنے شباب کو پہنچ جائے۔ ۳۸
(۱۱) عہد کی پابندی کرو، بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہو گی۔۳۹
 (۱۲) پیمانے سے دو تو پُورا بھر کر دو، اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔۴۰ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظِ انجام بھی یہی بہتر ہے۔ ۴۱
 (۱۳) کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے ۴۲۔
 (۱۴) زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔۴۳
یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں جو تیرے ربّ نے تجھ پر وحی کی ہیں۔
اور دیکھ! اللہ کے ساتھ کو ئی دوسرا معبود نہ بنا بیٹھ ورنہ تُو جہنّم میں ڈال دیا جائے گا ملامت زدہ اور ہر بھلائی سے محروم ہو کر ۴۵۔۔۔۔کیسی عجیب بات ہے کہ تمہارے ربّ نے تمہیں تو بیٹوں سے نوازا اور خود اپنے لیے ملائکہ کو بیٹیاں بنا لیا؟۴۶ بڑی جھوٹی بات ہے جو تم لوگ زبانوں سے نکالتے ہو۔ ؏ ۴

 

۳۱- یہ آیت اُن معاشی بنیادوں کو قطعی منہدم کر دیتی ہے جن پر قدیم زمانے سے آج تک مختلف ادوار میں ضبطِ ولادت کی تحریک اُٹھتی رہی ہے۔ افلاس کا خوف قدیم زمانے میں قتلِ اطفال اور اسقاطِ حمل کا محرک ہوا کرتا تھا، اور آج وہ ایک تیسری تدبیر، یعنی منع حمل کی طرف دنیا کو دھکیل رہا ہے۔ لیکن منشور اسلامی کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ کھانے والوں کو گھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر اُن تعمیری مساعی میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کرے جن سے اللہ کے بنائے ہوئے قانونِ فطرت کے مطابق رزق میں افزائش ہوا کرتی ہے۔ اس دفعہ کی رو سے یہ بات انسان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ وہ بار بار معاشی ذرائع کی تنگی کے اندیشے سے افزائشِ  نسل کا سلسلہ روک دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ یہ انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رزق رسانی کا انتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے۔ جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دیتا رہا ہے، بعد کے آنے والوں کو بھی دے گا۔ تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی ہے، اُتنے ہی، بلکہ بار ہا اس سے بہت زیادہ معاشی ذرائع وسیع ہوتے چلے گئے ہیں۔ لہٰذا خدا کے تخلیقی انتظامات میں انسان کی بے جا دخل اندازیاں حماقت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

یہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ نزول قرآن کے دور سے لے کر آج تک کسی دور میں بھی مسلمانوں کے اندر نسل کشی کا کوئی عام میلان پیدا نہیں ہونے پایا۔

۳۲- ’’زنا کے قریب نہ پھٹکو‘‘، اس کے حکم کے مخاطب افراد بھی ہیں، اور معاشرہ بحیثیت مجموعی بھی۔ افراد کے لیے اس حکم کے معنی یہ ہیں کہ وہ محض فعل زنا ہی سے بچنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ زنا کے مقدمات اور اس کے اُن ابتدائی محرکات سے بھی دور رہیں جو اس راستے کی طرف لے جاتے ہیں۔ رہا معاشرہ، تو اس حکم کی رو سے اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں زنا، اور محرکاتِ زنا، اور اسبابِ زنا کا سدِ باب کرے، اور اس غرض کے لیے قانون سے، تعلیم و تربیت سے، اجتماعی ماحول کی اصلاح سے، معاشرتی زندگی کی مناسب تشکیل سے، اور دوسری تمام موثر تدابیر سے کام لے۔

یہ دفعہ آخر کار اسلامی نظامِ  زندگی کے ایک وسیع باب کی بنیاد بنی۔ اس کے منشا کے مطابق زنا اور تہمتِ زنا کو فوجداری جرم قرار دیا گیا، پردے کے احکام جاری کیے گئے، فواحش کی اشاعت کو سختی کے ساتھ روک دیا گیا، شراب اور موسیقی اور رقص اور تصاویر پر (جو زنا کے قریب ترین رشتہ دار ہیں) بندشیں لگائی گئیں، اور ایک ایسا ازدواجی قانون بنایا گیا جس سے نکاح آسان ہو گیا اور زنا کے معاشرتی اسباب کی جڑ کٹ گئی۔

۳۳- قتلِ نفس سے مراد صرف دوسرے انسان کا قتل ہی نہیں ہے، بلکہ خود اپنے آپ کو قتل کرنا بھی ہے۔ اس لیے کہ نفس،جس کو اللہ نے ذی حرمت ٹھیرایا ہے، اس کی تعریف میں دوسرے نفوس کی طرح انسان کا اپنا نفس بھی داخل ہے۔ لہٰذا جتنا بڑا جرم اور گناہ قتلِ انسان ہے، اتنا ہی بڑا جرم اور گناہ خود کشی بھی ہے۔ آدمی کی بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی جان کا مالک، اور اپنی اس ملکیت کو با ختیارِ خود تلف کر دینے کا مجاز سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ جان اللہ کی ملکیت ہے، اور ہم اس کے اتلاف تو درکنار، اس کے کسی بے جا استعمال کے بھی مجاز نہیں ہیں۔ دنیا کی اس امتحان گاہ میں اللہ تعالیٰ جس طرح بھی ہمارا امتحان لے، اسی طرح ہمیں آخر وقت تک امتحان دیتے رہنا چاہیے، خواہ حالاتِ امتحان اچھے ہوں یا بُرے۔ اللہ کے دیے ہوئے وقت کو قصداً ختم کر کے امتحان گاہ سے بھاگ نکلنے کی کوشش بجائے خود غلط ہے، کجا کہ یہ فرار بھی ایک ایسے جرمِ عظیم کے ذریعہ سے کیا جائے جسے اللہ نے صریح الفاظ میں حرام قرار دیا ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آدمی دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور ذلتوں اور رسوائیوں سے بچ کر عظیم تر اور ابدی تکلیف و رسوائی کی طرف بھاگتا ہے۔

۳۴- بعد میں اسلامی قانون نے قتل با لحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کر دیا: ایک قتلِ عمد کے مجرم سے قصاص دوسرے دینِ حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ۔ تیسرے اسلامی نظامِ حکومت کو اُلٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزا۔ چوتھے شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکاب زنا کی سزا۔ پانچویں ارتداد کی سزا۔ صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہو جاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے۔

۳۵- اصل الفاظ ہیں ’’اس کے ولی کو ہم نے سلطان عطا کیا ہے ‘‘۔ سلطان سے مراد یہاں ’’حجت ‘‘ ہے جس کی بنا پر وہ قصاص کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس سے اسلامی قانون کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں بلکہ اولیائے مقتول ہیں، اور وہ قاتل کو معاف کرنے اور قصاص کے بجائے خوں بہا لینے پر راضی ہو سکتے ہیں۔

۳۶- قتل میں حد سے گزر نے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں اور وہ سب ممنوع ہیں۔ مثلاً جوش انتقام میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو قتل کرنا، یا مجرم کو عذاب دے دے کر مارنا، یا مار دینے کے بعد اس کی نعش پر غصہ نکالنا، یا خون بہا لینے کے بعد پھر اسے قتل کرنا وغیرہ۔

۳۷- چونکہ اس وقت تک اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی اس لیے اس بات کو نہیں کھولا گیا کہ اس کی مدد کو ن کرے گا۔ بعد میں جب اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو یہ طے کر دیا گیا کہ اس کی مدد کرنا اس کے قبیلے یا اس کے حلیفوں کا کام نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اس کے نظامِ  عدالت کا کام ہے۔ کوئی شخص یا گروہ بطورِ خود قتل کا انتقام لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ یہ منصب اسلامی حکومت کا ہے کہ حصولِ انصاف کے لیے اس سے مدد مانگی جائے۔

۳۸- یہ بھی محض ایک اخلاقی ہدایت نہ تھی بلکہ آگے چل کر جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو یتامیٰ کے حقو ق کی حفاظت کے لیے انتظامی اور قانونی، دونوں کی طرح کی تدابیر اختیار کی گئیں جن کی تفصیل ہم کو حدیث اور فقہ کی کتابوں میں ملتی ہے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ اسلامی ریاست اپنے اُن تمام شہریوں کے مفاد کی محافظ ہے جو اپنے مفاد کی خود حفاظت کرنے کے قابل نہ ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اشاد اَنَاوَ لی مَنْ لَّا وَلی لَہُ ( میں ہر اس شخص کا سرپرست ہوں جس کا کوئی سرپرست نہ ہو) اسی طرف اشارہ کرتا ہے، اور یہ اسلامی قانون کے ایک وسیع باب کی بنیاد ہے۔

۳۹- یہ بھی صرف انفرادی اخلاقیات ہی کی ایک دفعہ نہ تھی بلکہ جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اسی کو پوری قوم کی داخلی اور خارجی سیاست کا سنگِ بنیاد ٹھیرا یا گیا۔

۴۰- یہ ہدایت بھی صرف افراد کے باہمی معاملات تک محدود نہ رہی، بلکہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد یہ حکومت کے فرائض میں داخل کی گئی کہ وہ منڈیوں اور بازاروں میں اوزان اور پیمانوں کی نگرانی کرے اور تطفیف کو بزور بند کر دے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ تجارت اور معاشی لین دین میں ہر قسم کی بے ایمانیوں اور حق تلفیوں کا سد باب کرنا حکومت کے فرائض میں سے ہے۔

۴۱- یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں اس کا انجام اس لیے بہتر ہے کہ اس سے باہمی اعتماد قائم ہوتا ہے، بائع اور خریداری دونوں ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں، اور یہ چیز انجام کار تجارت کے فروغ اور عام خوشحالی کی موجب ثابت ہوتی ہے۔ رہی آخرت، تو وہاں انجام کی بھلائی کا سارا دارومدار ہی ایمان اور خدا ترسی پر ہے۔

۴۲- اس دفعہ کا منشا یہ ہے کہ لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں وہم و گمان کے بجائے ’’علم‘‘ کی پیروی کریں۔ اسلامی معاشرے میں اس منشا کی ترجمانی وسیع پیمانے پر اخلاق میں، قانون میں، سیاست اور انتظامِ  ملکی میں، علوم و فنون اور نظامِ تعلیم میں، غرض ہر شعبہ حیات میں کی گئی اور اُن بے شمار خرابیوں سے فکر و عمل کو محفوظ کر دیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنے سے انسانی زندگی میں رونما ہوتی ہیں۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بد گمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگاؤ۔ قانون میں مستقل اصول طے کر دیا گیا کہ محض شبہے پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے تفتیش جرائم میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ گمان پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی نا جائز ہے۔ غیر قوموں کے ساتھ برتاؤ میں یہ پالیسی متعین کر دی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ مجرد شبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں۔ نظام تعلیم میں بھی اُن نام نہاد علوم کو نا پسند کیا گیا جو محض ظنو تخمین اور لاطائل قیاست پر مبنی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عقائد میں اوہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور ایمان لانے والوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف اُس چیز کو مانیں جو خدا اور رسول کے دیے ہوئے علم کی رو سے ثابت ہو۔

۴۳- مطلب یہ ہے کہ جباروں اور متکبروں کی روش سے بچو۔ یہ ہدایت بھی انفرادی طرز عمل اور قومی رویے دونوں پر یکساں حاوی ہے۔ اور یہ اسی ہدایت کا فیض تھا کہ مدینہ طیبہ میں جو حکومت اس منشور پر قائم ہوئی ا اس کے فرماں رواؤں، گورنروں اور سپہ سالاروں کی زندگی میں جباری اور کبریائی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ حتیٰ کہ عین حالتِ جنگ میں بھی کبھی ان کی زبان سے فخر و غرور کی کوئی بات نہ نکلی۔ ان کی نشست و برخاست، چال ڈھال، لباس، مکان، سواری اور عام برتاؤ میں انکسار و تواضع، بلکہ فقیری و درویشی کی شان پائی جاتی تھی، اور جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی شہر میں داخل ہوتے تھے اس وقت بھی اکڑ اور تبَحر سے کبھی اپنا رعب بٹھانے کی کوشش نہ کرتے تھے۔

اِن امور میں سے ہر ایک کا بُرا پہلو تیرے ربّ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ ۴۴

۴۴- یعنی ان میں سے جو چیز بھی ممنوع ہے اس کا ارتکاب اللہ کو نا پسند ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں، جس حکم کی بھی نافرمانی کی جائے وہ ناپسندیدہ ہے۔

۴۵- بظاہر تو خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، مگر ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو خطاب کر کے جو بات فرمایا کرتا ہے اس کا اصل مخاطب ہر انسان ہوا کرتا ہے۔

۴۶- تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نحل آیات ۵۷ تا ۵۹ مع حواشی۔

 

ہم نے اِس قرآن میں طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا کہ ہوش میں آئیں، مگر وہ حق سے اور زیادہ دُور بھاگے جا رہے ہیں اے محمد ؐ، ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، تو وہ مالکِ عرش کے مقام پر پہنچنے کی ضرور کوشش کرتے۔ ۴۷ پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں۔اُس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں۔۴۸ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو ۴۹، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بُرد بار اور درگزر کرنے والا ہے۔ ۵۰جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں،اور ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے، اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دیتے ہیں۔۵۱ اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی ربّ کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔۵۲ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگا کر تمہاری بات سُنتے ہیں تو دراصل کیا سُنتے ہیں، اور جب بیٹھ کر باہم سرگوشیاں کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں۔ یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک سحر زدہ آدمی ہے جس کے پیچھے تم لوگ جا رہے ہو ۵۳دیکھو، کیسی باتیں ہیں جو یہ لوگ تم پر چھانٹتے ہیں۔ یہ بھٹک گئے ہیں۔ اِنہیں راستہ نہیں ملتا۔۵۴وہ کہتے ہیں ’’ جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اُٹھائے جائیں گے ؟‘‘۔۔۔۔اِن سے کہو ’’تم پتھر یا لوہا بھی ہو جاؤ، یا اس سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز جو تمہارے ذہن میں قبولِ حیات سے بعید تر ہو‘‘ (پھر بھی تم اُٹھ کر رہو گے )۔ وہ ضرور پوچھیں گے ’’ کون ہے وہ جو ہمیں پھر زندگی کی طرف پلٹا کر لائے گا؟ ‘‘ جواب میں کہو ’’وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا۔‘‘ وہ سر ہِلا ہِلا کر پوچھیں ۵۵ گے ’’اچھا، تو یہ ہو گا کب؟‘‘ تم کہو ’’ کیا عجب، وہ وقت قریب ہی آ لگا ہو۔جس روز وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کے جواب میں نکل آؤ گے اور تمہارا گمان اُس وقت یہ ہو گا کہ ہم بس تھوڑی دیر ہی اِس حالت میں پڑے رہے ہیں۔۵۶‘‘ ؏ ۵

 

۴۷- یعنی وہ خود مالک عرش بننے کی کوشش کرتے۔ اس لیے کہ چند ہستیوں کا خدائی میں شریک ہونا دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا تو وہ سب اپنی اپنی جگہ مستقل خدا ہوں۔ یا ان میں سے ایک اصل خدا ہو، اور باقی اس کے بندے ہوں جنہیں اس نے کچھ خدا ئی اختیارات دے رکھے ہوں۔ پہلی صورت میں یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ یہ سب آزاد خود مختار خدا ہمیشہ، ہر معاملے میں،ایک دوسرے کے ارادے سے موافقت کر کے اس اتھاہ کائنات کے نظم کو اتنی مکمل ہم آہنگی، یکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے۔ نا گزیر تھا کہ اُن کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ہوتا اور ہر ایک اپنی خدائی دوسرے خداؤں کی موافقت کے بغیر چلتی نہ دیکھ کر یہ کوشش کرتا کہ وہ تنہا ساری کائنات کا مالک بن جائے۔ رہی دوسری صورت، تو بندے کا ظرف خدائی اختیارات تو درکنار خدائی کے ذرا سے وہم اور شائبے تک کا تحمل نہیں کر سکتا۔ اگر کہیں کسی مخلوق کی طرف ذرا سی خدائی بھی منتقل کر دی جاتی تو وہ پھٹ پڑتا، چند لمحوں کے لیے بھی بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوتا، اور فوراً ہی خداوند عالم بن جانے کی فکر شروع کر دیتا۔

جس کائنات میں گیہوں کا ایک دانہ اور گھاس کا ایک تنکا بھی اُس وقت تک پید ا نہ ہوتا ہو جب تک کہ زمین و آسمان ساری قوتیں مل کر اُس کے لیے کام نہ کریں، اُس کے متعلق صرف ایک انتہا درجے کا جاہل اور کند ذہن آدمی ہی یہ قصور کر سکتا ہے کہ اُس کی فرمانروائی ایک سے زیادہ خود مختار یا نیم مختار خدا کر رہے ہوں گے۔ ورنہ جس نے کچھ بھی اس نظام کے مزاج اور طبیعت کو سمجھنے کی کوشش کی ہو وہ تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہاں خدائی بالکل ایک ہی کی ہے اور اس کے ساتھ کسی درجے میں بھی کسی اور کے شریک ہونے کا قطعی امکان نہیں ہے۔

۴۸- یعنی ساری کائنات اور اس کی ہر شے اپنے پورے وجود سے اس حقیقت پر گواہی دے رہی ہے کہ جس نے اس کو پیدا کیا ہے اور جو اس کی پروردگاری و نگہبانی کر رہا ہے اس کی ذات ہر عیب اور نقص اور کمزوری سے منزہ ہے، اور وہ اس سے بالکل پاک ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک و سہیم ہو۔

۴۹- حمد کے ساتھ تسبیح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شے نہ صرف یہ کہ اپنے خالق اور رب کا عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہونا ظاہر کر رہی ہے، بلکہ اس کے ساتھ وہ اُس کا تمام کمالات سے متصف اور تمام تعریفوں کا مستحق ہونا بھی بیان کرتی ہے۔ ایک ایک چیز اپنے پورے وجود سے یہ بتا رہی ہے کہ اس کا صانع اور منتظم وہ ہے جس پر سارے کمالات ختم ہو گئے ہیں اور حمد اگر ہے تو بس اسی کے لیے ہے۔

۵۰- یعنی اس کا حلم اور اس کی شان غفاری ہے کہ تم اس کی جناب میں گستاخیوں پر گستاخیاں کیے جاتے ہو، اور اُس پر طرح طرح کے بہتان تراشتے ہو اور پھر بھی وہ درگزر کیے چلا جاتا ہے۔ نہ رزق بند کرتا ہے، نہ اپنی نعمتوں سے محروم کرتا ہے، اور نہ ہر گستاخ پر فوراً بجلی گرا دیتا ہے۔ پھر یہ بھی اس کی بردباری اور اس کے درگزر ہی کا ایک کرشمہ ہے کہ وہ افراد کو بھی اور قوموں کو بھی سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے، انبیاء اور مصلحین اور مبلغین کو اُن کی فہمائش اور رہنمائی کے لیے بار بار اٹھا تا رہتا ہے، اور جو بھی اپنی غلطی کو محسوس کر کے سیدھا راستہ اختیار کر لے اس کی پچھلی غلطیوں کو معاف کر دیتا ہے۔

۵۱- یعنی آخرت پر ایمان نہ لانے کا یہ قدرتی نتیجہ ہے کہ آدمی کے دل پر قفل چڑھ جائیں اور اس کے کان اُس دعوت کے لیے بند ہو جائیں جو قرآن پیش کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی تو دعوت ہی اس بنیاد پر ہے کہ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ یہاں اگر کوئی حساب لینے والا جواب طلب کرنے والا نظر نہیں آتا تو یہ نہ سمجھو کہ تم کسی کے سامنے ذمہ دار و جواب دہ ہو ہی نہیں۔ یہاں اگر شرک، دہریت، کفر، توحید، سب ہی نظریے آزادی سے اختیار کیے جا سکتے ہیں، اور دنیوی لحاظ سے کوئی خاص فرق پڑتا نظر نہیں آتا، تو یہ نہ سمجھو کہ ان کے کوئی الگ الگ مستقل نتائج ہیں ہی نہیں۔ یہاں اگر فسق و فجور اور اطاعت و تقویٰ، ہر قسم کے رویے اختیار کیے جا سکتے ہیں اور عملاً ان میں سے کسی رویے کا کوئی ایک لازمی نتیجہ رونما نہیں ہوتا تو یہ نہ سمجھو کہ کوئی اٹل اخلاقی قانون سرے سے ہے ہی نہیں۔ دراصل حساب طلبی و جواب دہی سب کچھ ہے، مگر وہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ہو گی۔ توحید کا نظریہ برحق اور باقی سب نظریات باطل ہیں، مگر ان کے اصلی اور قطعی نتائج حیات بعد الموت میں ظاہر ہوں گے اور وہیں وہ حقیقت بے نقاب ہو گی جو اس پردہ ظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ ایک اٹل اخلاقی قانون ضرور ہے جس کے لحاظ سے فسق نقصان رساں اور طاعت فائدہ بخش ہے، مگر اس قانون کے مطابق آخری اور قطعی فیصلے بھی بعد کی زندگی ہی میں ہوں گے۔ لہٰذا تم دنیا کی اس عارضی زندگی پر فریفتہ نہ ہو اور اس کے مشکوک نتائج پر اعتماد نہ کرو، بلکہ اُس جواب دہی پر نگاہ رکھو جو تمہیں آخر کار اپنے خدا کے سامنے کرنی ہو گی، اور وہ صحیح اعتقادی اور اخلاقی رویہ اختیار کرو جو تمہیں آخرت کے امتحان میں کامیاب کرے۔۔۔۔۔۔ یہ ہے قرآن کی دعوت۔ اب یہ بالکل ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جو شخص سرے سے آخرت ہی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور جس کا سارا اعتماد اسی دنیا کے مظاہر اور محسوسات و تجربات پر ہے، وہ کبھی قرآن کی اس دعوت کو قابلِ  التفات نہیں سمجھ سکتا۔ اُس کے پردہ گوش سے تو یہ آواز ٹکرا ٹکرا کر ہمیشہ اچٹتی ہی رہے گی، کبھی دل تک پہنچنے کی راہ نہ پائے گی۔ اسی نفسیاتی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ جو آخرت کو نہیں مانتا، ہم اس کے دل اور اس کے کان قرآن کی دعوت کے لیے بند کر دیتے ہیں۔ یعنی یہ ہمارا قانونِ فطرت ہے جو اُس پر یوں نافذ ہوتا ہے۔

یہ بھی خیال رہے کہ کفار مکہ کا اپنا قول تھا جسے اللہ تعالیٰ نے ان پر اُلٹ دیا ہے۔ سورہ حٰم سجدہ میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وَقَالُوْ ا قُلُوْبُنَا فی اَکِنَّةٍ مِّمَّا تَدْ عُوْنَا اِلَیْہِ وَفی ْاٰذَانِنَا وَقْرٌوَّ مِنْۢ بَینِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ (آیت ۵) یعنی وہ کہتے ہیں کہ ’’اے محمد، تو جس چیز کی طرف ہمیں دعوت دیتا ہے اس کے لیے ہمارے دل بند ہیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان حجاب حائل ہو گیا ہے۔ پس تو اپنا کام کر، ہم اپنا کام کیے جا رہے ہیں‘‘۔ یہاں ان کے اس قول کو دہرا کر اللہ تعالیٰ یہ بتا رہا ہے کہ یہ کیفیت جسے تم اپنی خوبی سمجھ کر بیان کر رہے ہو، وہ تو دراصل ایک پھٹکار ہے جو تمہارے انکار آخرت کی بدولت ٹھیک قانونِ فطرت کے مطابق تم پر پڑی ہے۔

۵۲- یعنی انہیں یہ بات سخت نا گوار ہوتی ہے کہ تم بس اللہ ہی کو رب قرار دیتے ہو، ان کے بنائے ہوئے دوسرے ارباب کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ اُن کو یہ وہابّیت ایک آن پسند نہیں آتی کہ آدمی بس اللہ ہی اللہ کی رٹ لگائے چلا جائے۔ نہ بزرگوں کے تصرفات کا کوئی ذکر۔ نہ آستانوں کی فیض رسانی کا کوئی اعتراف۔ نہ اُن شخصیتوں کی خدمت میں کوئی اخراج تحسین جن پر، ان کے خیال میں، اللہ نے اپنی خدائی کے اختیارات بانٹ رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عجیب شخص ہے جس کے نزدیک علم غیب ہے تو اللہ کو، قدرت ہے تو اللہ کی، تصرفات و اختیارات ہیں تو بس ایک اللہ ہی کے۔ آخر یہ ہمارے آستانوں والے بھی کوئی چیز ہیں یا نہیں جن کے ہاں سے ہمیں اولاد ملتی ہے، بیماریوں کو شفا نصیب ہوتی ہے، کاروبار چمکتے ہیں، اور منہ مانگی مرادیں بر آتی ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الزمر، آیت ۴۵، حاشیہ ۴۶)

۵۳- یہ اشارہ ہے اُن باتوں کی طرف جو کفارِ  مکہ کے سردار آپس میں کیا کرتے تھے۔ اُن کا حال یہ تھا کہ چھُپ چھپ کر قرآن سنتے اور پھر آپس میں مشورے کرتے تھے کہ اس کا توڑ کیا ہونا چاہییے۔ بسا اوقات انہیں اپنے ہی آدمیوں میں سے کسی پر یہ شبہہ بھی ہو جاتا تھا کہ شاید یہ شخص قرآن سن کر کچھ متاثر ہو گیا ہے۔ اس لیے وہ سب مل کر اس کو سمجھاتے تھے کہ اجی، یہ کس کے پھیر میں آرہے ہو، یہ شخص تو سحر زدہ ہے، یعنی کسی دشمن نے اس پر جادو کر دیا ہے اس لیے بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔

۵۴- یعنی یہ تمہارے متعلق کوئی ایک رائے ظاہر نہیں کرتے بلکہ مختلف اوقات میں بالکل مختلف اور متضاد باتیں کہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں تم خود جادو گر ہو۔ کبھی کہتے ہیں تم پر کسی اور نے جادو کر دیا ہے۔ کبھی کہتے ہیں تم شاعر ہو۔ کبھی کہتے ہیں تم مجنون ہو۔ ان کی یہ متضاد باتیں خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ حقیقت ان کو معلوم نہیں ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ آئے دن ایک نئی بات چھانٹنے کے بجائے کوئی ایک ہی قطعی رائے ظاہر کرتے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے کسی قول پر بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ایک الزام رکھتے ہیں۔ پھر آپ ہی محسوس کرتے ہیں کہ یہ چسپاں نہیں ہوتا۔ اس کے بعد دوسرا الزام لگاتے ہیں۔ اور اسے بھی لگتا ہوا نہ پا کر ایک تیسرا الزام تصنیف کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کا ہر نیا الزام ان کے پہلے الزام کی تردید کر دیتا ہے، اور اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ صداقت سے ان کو کوئی واسطہ نہیں ہے، محض عداوت کی بنا پر ایک سے ایک بڑھ کر جھوٹ گھڑ ے جا رہے ہیں۔

۵۵- انغاض کے معنی ہیں سر کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف ہلانا، جس طرح اظہار تعجب کے لیے، یا مذاق اڑانے کے لیے آدمی کرتا ہے۔

۵۶- یعنی دنیا میں مرنے کے وقت سے لے کر قیامت میں اُٹھنے کے وقت تک کی مدت تم کو چند گھنٹوں سے زیادہ محسوس نہ ہو گی۔ تم اس وقت یہ سمجھو گے کہ ہم ذرا دیر سوئے پڑے تھے کہ یکایک اس شور محشر نے ہمیں جگا اُٹھایا۔

اور یہ جو فرمایا کہ تم اللہ کی حمد کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہو گے، تو یہ ایک بڑی حقیقت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن اور کافر، ہر ایک کی زبان پر اس وقت اللہ کی حمد ہو گی۔ مومن کی زبان پر اس لیے کہ پہلی زندگی میں اس کا اعتقاد یقین اور اس کا وظیفہ یہی تھا۔ اور کافر کی زبان پر اس لیے کہ اس کی فطرت میں یہی چیز ودیعت تھی، مگر اپنی حماقت سے وہ اس پر پردہ ڈالے ہوئے تھا۔ اب نئے سرے سے زندگی پاتے وقت سارے مصنوعی حجابات ہٹ جائیں گے اور اصل فطرت کی شہادت بلا ارادہ اس کی زبان پر جاری ہو جائے گی۔

 

اور اے محمد ؐ، میرے بندوں ۵۷ سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو۔۵۸ دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھُلا دشمن ہے۔ ۵۹ تمہارا ربّ تمہارے حال سے زیادہ واقف ہے، وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور چاہے تو تمہیں عذاب دے دے۔ ۶۰ اور اے نبی ؐ، ہم نے تم کو لوگوں پر حوالہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے۔ ۶۱تیرا ربّ زمین اور آسمانوں کی مخلوقات کو زیادہ جانتا ہے۔ ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض سے بڑھ کر مرتبے دیے ۶۲، اور ہم نے ہی داؤد ؑ کو زَبور دی تھی۔۶۳اِن سے کہو، پکار دیکھو اُن معبودوں کو جن کو تم خدا کے سوا (اپنا کارساز) سمجھتے ہو، وہ کسی تکلیف کو تم سے نہ ہٹا سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں۔۶۴جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے ربّ کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ کون اُس سے قریب تر ہو جائے اور وہ اُس کی رحمت کے اُمیدوار اور اُس کے عذاب سے خائف ہیں۔۶۵ حقیقت یہ ہے کہ تیرے ربّ کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق۔اور کوئی بستی ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں یا سخت عذاب نہ دیں۔۶۶ یہ نوشتۂ الٰہی میں لکھا ہوا ہے۔ اور ہم کو نشانیاں ۶۷ بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ اِن سے پہلے کے لوگ اُن کو جھُٹلا چکے ہیں۔ (چنانچہ دیکھ لو) ثمود کو ہم نے علانیہ اُونٹنی لا کر دی اور اُنہوں نے اُس پر ظلم کیا۔۶۸ ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں۔۶۹یاد کرو اے محمد ؐ، ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے ربّ نے اِن لوگوں کو گھیر رکھا ہے۔ ۷۰ اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے ۷۱، اِس کو اور اُس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے ۷۲، ہم نے اِن لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا۔۷۳ ہم اِنہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں، مگر ہر تنبیہ اِن کی سرکشی ہی میں اضافہ کیے جاتی ہے۔ ؏ ۶

 

۵۷- یعنی اہل ایمان سے۔

۵۸- یعنی کفار و مشرکین سے اور اپنے دین کے مخالفین سے گفتگو اور مباحثے میں تیز کلامی اور مبالغے اور غلو سے کام نہ لیں۔ مخالفین خواہ کیسی ہی ناگوار باتیں کریں مسلمانوں کو بہر حال نہ تو کوئی بات خلافِ  حق زبان سے نکالنی چاہیے، اور نہ غصے میں آپے سے باہر ہو کر بیہودگی کا جواب بیہودگی سے دینا چاہیے۔ انہیں ٹھنڈے دل سے وہی بات کہنی چاہیے جو جچی تلی ہو، برحق ہو، اور ان کی دعوت کے وقار کے مطابق ہو۔

۵۹- یعنی جب کبھی تمہیں مخالفین کی بات کا جواب دیتے وقت غصے کی آگ اپنے اندر بھڑکتی محسوس ہو، اور طبیعت بے اختیار جوش میں آتی نظر آئے، تو فوراً سمجھ لو کہ یہ شیطان ہے جو تمہیں اکسا رہا ہے تا کہ دعوت دین کا کام خراب ہو۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ تم بھی اپنے مخالفین کی طرح اصلاح کا کام چھوڑ کر اسی جھگڑے اور فساد میں لگ جاؤ جس میں وہ نوع انسانی کی مشغول رکھنا چاہتا ہے۔

۶۰- یعنی اہل ایمان کی زبان پر کبھی ایسے دعوے نہ آنے چاہییں کہ ہم جنتی اور فلاں شخص یا گروہ دوزخی ہے۔ اس چیز کا فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہی سب انسانوں کے ظاہر و باطن اور ان کے حال و مستقبل سے واقف ہے۔ اسی کو یہ فیصلہ کر نا ہے کہ کس پر رحمت فرمائے اور کسے عذاب دے۔ انسان اصولی حیثیت سے تو یہ کہنے کا ضرور مجاز ہے کہ کتاب اللہ کی رو سے کس قسم کے انسان رحمت کے مستحق ہیں اور کس قسم کے انسان عذاب کے مستحق۔ مگر کسی انسان کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ فلاں شخص کو عذاب دیا جائے گا اور فلاں شخص بخشا جائے گا۔

غالباً یہ نصیحت اس بنا پر فرمائی گئی ہے کہ کبھی کبھی کفار کی زیادتیوں سے تنگ آ کر مسلمان کی زبان سے ایسے فقرے نکل جاتے ہوں گے کہ تم لوگ دوزخ میں جاؤ گے، یا تم کو خدا عذاب دے گا۔

۶۱- یعنی نبی کا کام دعوت دینا ہے۔ لوگوں کی قسمتیں اس کے ہاتھ میں نہیں دے دی گئی ہیں کہ وہ کسی کے حق میں رحمت کا اور کسی کے حق میں عذاب کا فیصلہ کرتا پھرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس قسم کی کوئی غلطی سر زد ہوئی تھی جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ تنبیہ فرمائی۔ بلکہ دراصل اس سے مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے۔ ان کو بتا یا جا رہا ہے کہ جب نبی تک کا یہ منصب نہیں ہے تو تم جنت اور دوزخ کے ٹھیکیدار کہاں بنے جا رہے ہو۔

۶۲- اس فقرے کہ اصل مخاطب کفار مکہ ہیں، اگر چہ بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔ جیسا کہ معاصرین کا بالعموم قاعدہ ہوتا ہے، آنحضرت ؐ کے ہم عصر اور ہم قوم لوگوں کو آپ کے اندر کوئی فضل و شرف نظر نہ آتا تھا۔ وہ آپ کو اپنی بستی کا ایک معمولی انسان سمجھتے تھے، اور جن مشہور شخصیتوں کو گزرے ہوئے چند صدیاں گزر چکی تھیں، ان کے متعلق یہ گمان کرتے تھے کہ عظمت تو بس اُن پر ختم ہو گئی ہے۔ اس لیے آپ کی زبان سے نبوت کا دعویٰ سُن کر وہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ شخص دوں کی لیتا ہے، اپنے آپ کو نہ معلوم کیا سمجھ بیٹھا ہے، بھلا کہاں یہ اور کہاں اگلے وقتوں کے وہ بڑے بڑے پیغمبر جن کی بزرگی کا سکہ ایک دنیا مان رہی ہے۔ اس کا مختصر جواب اللہ تعالی ٰ نے یہ دیا ہے کہ زمین اور آسمان کی ساری مخلوق ہماری نگاہ میں ہے۔ تم نہیں جانتے کہ کون کیا ہے اور کس کا کیا مرتبہ ہے۔ اپنے فضل کے ہم خود مالک ہیں اور پہلے بھی ایک سے ایک بڑھ کر عالی مرتبہ نبی پیدا کر چکے ہیں۔

۶۳- یہاں خاص طور پر داؤد علیہ السلام کی زبور دیے جانے کا ذکر غالباً اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ داؤد علیہ السلام بادشاہ تھے، اور بادشاہ بالعموم خدا سے زیادہ دور ہوا کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے معاصرین جس وجہ سے آپ کی پیغمبری وخدا رسیدگی ماننے سے انکار کرتے تھے وہ ان کے اپنے بیان کے مطابق یہ تھی کہ آپ عام انسانوں کی طرح بیوی بچے رکھتے تھے، کھاتے پیتے تھے، بازاروں میں چل پھر کر خرید و فروخت کرتے تھے، اور وہ سارے ہی کام کرتے تھے جو کوئی دنیا دار آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے کیا کرتے ہے۔ کفار مکہ کا کہنا یہ تھا کہ تم تو ایک دنیا دار آدمی ہو۔ تمہیں خدا رسیدگی سے کیا تعلق پہنچے ہوئے لوگ تو وہ ہوتے ہیں جنہیں اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں ہوتا، بس ایک گوشے میں بیٹھے اللہ کی یاد میں غرق رہتے ہیں۔ وہ کہاں اور گھر کے آٹے دال کی فکر کہاں! اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ ایک پوری بادشاہت کے انتظام سے بڑھ کر دنیا داری اور کیا ہو گی۔ مگر اس کے با وجود داؤد کو نبوت اور کتاب سے سرفراز کیا گیا۔

۶۴- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا ہی شرک نہیں ہے، بلکہ خدا کے سوا کسی دوسری ہستی سے دعا مانگنا، یا اس کو مدد کے لیے پکارنا بھی شرک ہے۔ دعا اور استمدادو استعانت، اپنی حقیقت کے اعتبار سے عبادت ہی ہیں اور غیر اللہ سے مناجات کرنے والا ویسا ہی مجرم ہے جیسا ایک بت پرست مجرم ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کچھ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔نہ کوئی دوسرا کسی مصیبت کو ٹال سکتا ہے نہ کسی بُری حالت کو اچھی حالت سے بدل سکتا ہے۔ اس طرح کا اعتقاد خدا کے سوا جس ہستی کے بارے میں بھی رکھا جائے، بہر حال ایک مشرکانہ اعتقاد ہے۔

۶۵- یہ الفاظ خود گواہی دے رہے ہیں کہ مشرکین کے جن معبودوں اور فریاد رسوں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ان سے مراد پتھر کے بت نہیں ہیں، بلکہ یا تو فرشتے ہیں یا گزرے ہوئے زمانے کے برگزیدہ انسان۔ مطلب صاف صاف یہ ہے کہ انبیاء ہوں یا اولیاء یا فرشتے، کسی کی بھی یہ طاقت نہیں ہے کہ تمہاری دعائیں سنے اور تمہاری مدد کو پہنچے۔ تم حاجت روائی کے لیے اُن کو وسیلہ بنا رہے ہو، اور اُن کا حال یہ ہے کہ وہ خود اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں، اور اس کا زیادہ سے زیادہ تقرب حاصل کرنے کے وسائل ڈھونڈ رہے ہیں۔

۶۶- یعنی بقائے دوام کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ ہر بستی کو یا تو طبعی موت مرنا ہے، یا خدا کے عذاب سے ہلاک ہونا ہے۔ تم کہاں اس غلط فہمی میں پڑ گئے کہ ہماری یہ بستیاں ہمیشہ کھڑی رہیں گی؟

۶۷- یعنی محسوس معجزات جو دلیل نبوت کی حیثیت سے پیش کیے جائیں، جن کا مطالبہ کفار قریش بار بار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا کرتے تھے۔

۶۸- مدعا یہ ہے کہ ایسا معجزہ دیکھ لینے کے بعد جب لوگ اُس کی تکذیب کرتے ہیں،تو پھر لا محالہ ان پر نزولِ  عذاب واجب ہو جا تا ہے، اور پھر ایسی قوم کو تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا۔ پچھلی تا ریخ اس بات کی شاہد ہے کہ متعدد قوموں نے صریح معجزے دیکھ لینے کے بعد بھی اُن کو جھٹلایا اور پھر تباہ کر دی گئیں۔ اب یہ سراسر اللہ کی رحمت ہے کہ وہ ایسا کوئی معجزہ نہیں بھیج رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمہیں سمجھنے اور سنبھلنے کے یے مہلت دے رہا ہے۔ مگر تم ایسے بیوقوف لوگ ہو کہ معجزے کا مطالبہ کر کر کے ثمود کے سے انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہو۔

۶۹- یعنی معجزے دکھانے سے مقصود تماشا دکھانا تو کبھی نہیں رہا ہے۔ اس سے مقصود تو ہمیشہ یہی رہا ہے کہ لوگ انہیں دیکھ کر خبر دار ہو جائیں، انہیں معلوم ہو جائے کہ نبی کی پشت پر قادرِ مطلق کی بے پناہ طاقت ہے، اور وہ جان لیں کہ اس کی نا فرمانی کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔

۷۰- یعنی تمہاری دعوت پیغمبرانہ کے ابتدائی دور میں ہی، جبکہ قریش کے ان کافروں نے تمہاری مخالفت و مزاحمت شروع کی تھی، ہم نے صاف صاف یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے، یہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیں، یہ کسی طرح تیری دعوت کا راستہ نہ روک سکیں گے، اور یہ کام جو تو نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے، ان کی ہر مزاحمت کے باوجود ہو کر رہے گا۔ اب اگر ان لوگوں کو معجزہ دیکھ کر ہی خبردار ہونا ہے، تو انہیں یہ معجزہ دکھایا جا چکا ہے کہ جو کچھ ابتدا میں کہہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہا، ان کی کوئی مخالفت بھی دعوتِ اسلامی کو پھیلنے سے نہ روک سکی، اور یہ تیرا بال تک بیکا نہ کر سکے۔ ان کے پاس آنکھیں ہوں تو یہ اس امر واقعہ کو دیکھ کر خود سمجھ سکتے ہیں کہ نبی کی اس دعوت کے پیچھے اللہ کا ہاتھ کام کر رہا ہے۔

یہ بات کہ اللہ نے مخالفین کو گھیرے میں لے رکھا ہے، اور نبی کی دعوت اللہ کی حفاظت میں ہے، مکے کے ابتدائی دور کی سورتوں میں متعدد جگہ ارشاد ہوئی ہے۔ مثلاً سورہ بروج میں فرمایا: بَلِ الَّذینَ کَفَرُوْ ا فی تَکْذیبٍ وَّاللہُ مِنْ وَّرَآ ءھِمْ مُّحیطٌ (مگر یہ کافر جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں، اور اللہ نے ان کو ہر طرف سے گھیرے میں لے رکھا ہے )۔

۷۱- اشارہ ہے معراج کی طرف۔ اس کے لیے یہاں لفظ ’’رؤیا‘‘ جو استعمال ہوا ہے یہ ’’خواب‘‘ کے معنی میں نہیں ہے بلکہ آنکھوں دیکھنے کے معنی میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ محض خواب ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے خواب ہی کی حیثیت سے کفار کے سامنے بیا ن کیا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ان کے لیے فتنہ بن جاتا۔ خواب ایک سے ایک عجیب دیکھا جاتا ہے، اور لوگوں سے بیان بھی کیا جاتا ہے، مگر وہ کسی کے لیے بھی ایسے اچنبھے کی چیز نہیں ہوتا کہ لوگ اس کی وجہ سے خواب دیکھنے والے کا مذاق اڑائیں اور اس پر جھوٹے دعوے یا جنون کا الزام لگانے لگیں۔

۷۲- یعنی زقوم، جس کے متعلق قرآن میں خبر دی گئی ہے کہ وہ دوزخ کی تہ میں پیدا ہو گا اور دوزخیوں کو اسے کھانا پڑے گا اس پر لعنت کرنے سے مراد اُس کا اللہ کی رحمت سے دور ہونا ہے۔ یعنی وہ اللہ کی رحمت کا نشان نہیں ہے کہ جسے اپنی مہربانی کی وجہ سے اللہ نے لوگوں کی غذا کے لیے پیدا فرمایا ہو، بلکہ وہ اللہ کی لعنت کا نشان ہے جسے ملعون لوگوں کے لیے اس نے پیدا کیا ہے تا کہ وہ بھوک سے تڑپ کر اس پر منہ ماریں اور مزید تکلیف اُٹھائیں۔ سورہ دُخان (آیات ۴۳۔ ۴۶) میں اس درخت کی جو تشریح کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ دوزخی جب اس کو کھائیں گے تو وہ ان کے پیٹ میں ایسی آگ لگائے گا جیسے ان کے پیٹ میں پانی کھول رہا ہو۔

۷۳- یعنی ہم نے ان کی بھلائی کے لیے تم کو معراج کے مشاہدات کرائے، تاکہ تم جیسے صادق و امین انسان کے ذریعہ سے ان لوگوں کو حقیقت نفس الامری کا علم حاصل ہو اور یہ متنبہ ہو کر راہ راست پر آ جائیں، مگر ان لوگوں نے اُلٹا اُس پر تمہارا مذاق اڑایا ہم نے تمہارے ذریعہ سے ان کو خبر دار کیا کہ یہاں کی حرام خوریاں آخر کار تمہیں زقوم کے نوالے کھلوا کر رہیں گی، مگر انہوں نے اُس پر ایک ٹھٹھا لگا یا اور کہنے لگے، ذرا ا س شخص کو دیکھو، ایک طرف کہتا ہے کہ دوزخ میں بلا کی آگ بھڑک رہی ہو گی، اور دوسری طرف خبر دیتا ہے کہ وہاں درخت اُگیں گے !

 

اور یاد کرو جبکہ ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا۔۷۴ اس نے کہا ’’ کیا میں اُس کو سجدہ کروں جسے تُو نے مٹی سے بنایا ہے ؟‘‘ پھر وہ بولا ’’دیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ تُو نے اِسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تُو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پُوری نسل کی بیخ کَنی کر ڈالوں ۷۵، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے۔ ‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ’’اچھا تو جا، ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں، تجھ سمیت اُن سب کے لیے جہنّم ہی بھرپور جزا ہے۔ تُو جس جس کو اپنی دعوت سے پھِسلا سکتا ہے پھِسلا لے ۷۶، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا،۷۷ مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا،۷۸ اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس ۷۹۔۔۔۔ اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔۔۔۔یقیناً میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہو گا،۸۰ اور توکّل کے لیے تیرا ربّ کافی ہے۔ ‘‘ ۸۱تمہارا (حقیقی) ربّ تو وہ ہے جو سمندر میں تمہاری کشتی چلاتا ہے ۸۲ تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔۸۳ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارے حال پر نہایت مہربان ہے۔ جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اُس ایک کے سوا دُوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گُم ہو جاتے ہیں ۸۴، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اُس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔ اچھا، تو کیا تم اِس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے، یا تم پر پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیج دے اور تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پاؤ؟ پھر وہ بولا ’’دیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ تُو نے اِسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تُو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پُوری نسل کی بیخ کَنی کر ڈالوں ۷۵، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے۔ ‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ’’اچھا تو جا، ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں، تجھ سمیت اُن سب کے لیے جہنّم ہی بھرپور جزا ہے۔ تُو جس جس کو اپنی دعوت سے پھِسلا سکتا ہے پھِسلا لے ۷۶، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا،۷۷ مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا،۷۸ اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس ۷۹۔۔۔۔ اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔۔۔۔یقیناً میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہو گا،۸۰ اور توکّل کے لیے تیرا ربّ کافی ہے۔ ‘‘ ۸۱تمہارا (حقیقی) ربّ تو وہ ہے جو سمندر میں تمہاری کشتی چلاتا ہے ۸۲ تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔۸۳ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارے حال پر نہایت مہربان ہے۔ جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اُس ایک کے سوا دُوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گُم ہو جاتے ہیں ۸۴، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اُس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔ اچھا، تو کیا تم اِس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے، یا تم پر پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیج دے اور تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پاؤ؟اور کیا تمہیں اِس کا کوئی اندیشہ نہیں کہ خدا پھر کسی وقت سمندر میں تم کو لے جائے اور تمہاری ناشکری کے بدلے تم پر سخت طوفانی ہوا بھیج کر تمہیں غرق کر دے اور تم کو ایسا کوئی نہ ملے جو اُس سے تمہارے اِس انجام کی پُوچھ گچھ کر سکے ؟۔۔۔۔
یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔۸۵ ؏ ۷
 

۷۴- تقابل کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ آیات ۳۰ تا ۳۹، النساء آیات ۱۱۷- ۱۲۱، الاعراف آیات ۱۱-۲۵، الحجر آیات ۲۶-۴۲، اور ابراہیم آیت ۲۲۔

اس سلسلہ کلام میں یہ قصہ دراصل یہ بات ذہن نشین کرنے کے لیے بیان کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے مقابلے میں ان کافروں کا یہ تمرُّد، اور تنبیہات سے ان کی یہ بے اعتنائی، اور کجروی پر ان کا یہ اصرار ٹھیک ٹھیک اُس شیطان کی پیروی ہے جو ازل سے انسان کا دشمن ہے، اور اس روش کو اختیار کر کے درحقیقت یہ لوگ اُس جال میں پھنس رہے ہیں جس میں اولادِ آدم کو پھانس کر تباہ کر دینے کے لیے شیطان نے آغازِ تاریخ انسانی میں چلینج کیا تھا۔

۷۵- ’’بیخ کنی کر ڈالوں‘‘، یعنی ان کے قدم سلامتی کی راہ سے اکھاڑ پھینکوں۔ ’’احتناک‘‘ کے اصل معنی کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے ہیں۔ چونکہ انسان کا اصل مقام خلافتِ الٰہی ہے جس کا تقاضا اطاعت میں ثابت قدم رہنا ہے، اس لیے اس مقام سے اُس کا ہٹ جانا بالکل ایسا ہے جیسے کسی درخت کا بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکا جانا۔

۷۶- اصل میں لفظ ’’ استفزاز‘‘ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی استخفاف کے ہیں۔ یعنی کسی کو ہلکا اور کمزور پا کر اسے بہا لے جانا، یا اس کے قدم پھسلا دینا۔

۷۷- اس فقرے میں شیطان کو اس ڈاکو سے تشبیہ دی گئی ہے جو کسی بستی پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لائے اور ان کو اشارہ کرتا جائے کہ ادھر لُوٹو، اُدھر چھاپہ مارو، اور وہاں غارتگری کرو۔ شیطان کے سواروں اور پیادوں سے مراد وہ سب جن اور انسان ہیں جو بے شمار مختلف شکلوں اور حیثیتوں میں ابلیس کے مشن کی خدمت کر رہے ہیں۔

۷۸- یہ ایک بڑا ہی معنی خیز فقرہ ہے جس میں شیطان اور اس کے پیرووں کے باہمی تعلق کی پوری تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ جو شخص مال کمانے اور اس کو خرچ کرنے میں شیطان کے اشاروں پر چلتا ہے، اس کے ساتھ گویا شیطان مفت کا شریک بنا ہوا ہے۔ محنت میں اس کا کوئی حصہ نہیں، جرم اور گناہ اور غلط کار ی کے بُرے نتائج میں وہ حصہ دار نہیں، مگر اس کے اشاروں پر یہ بیوقوف اس طرح چل رہا ہے جیسے اس کے کاروبار میں وہ برابر کا شریک، بلکہ شریک غالب ہے۔ اسی طرح اولاد تو آدمی کی اپنی ہوتی ہے، اور اُسے پالنے پوسنے میں سارے پاپڑ آدمی خود بیلتا ہے، مگر شیطان کے اشاروں پر وہ اس اولاد کو گمراہی اور بد اخلاقی کی تربیت اس طرح دیتا ہے، گویا اس اولاد کا تنہا وہی باپ نہیں ہے بلکہ شیطان بھی باپ ہونے میں اس کا شریک ہے۔

۷۹- یعنی ان کو غلط امیدیں دلا۔ ان کو جھوٹی توقعات کے چکر میں ڈال۔ اُن کو سبز باغ دکھا۔

۸۰- اس کے دو مطلب ہیں، اور دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ میرے بندوں، یعنی انسانوں پر تجھے یہ اقتدار حاصل نہ ہو گا کہ تو انہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے۔ تو فقط بہکانے اور پھُسلانے اور غلط مشورے دینے اور جھوٹے وعدے کرنے کا مجاز کیا جاتا ہے۔ مگر تیری بات کو قبول کرنا یا نہ کرنا ان بندوں کا اپنا کام ہو گا۔ تیرا ایسا تسلط اُن پر نہ ہو گا کہ وہ تیری راہ پر جانا چا ہیں یا نہ چاہیں، بہر حال تو ہاتھ پکڑ کر ان کو گھسیٹ لے جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ میرے خاص بندوں، یعنی صالحین پر تیرا بس نہ چلے گا۔ کمزور اور ضعیف الارادہ لوگ تو ضرور تیرے وعدوں سے دھوکا کھائیں گے، مگر جو لوگ میری بندگی پر ثابت قدم ہوں، وہ تیرے قابو میں نہ آ سکیں گے۔

۸۱- یعنی جو لوگ اللہ پر اعتماد کریں، اور جن کا بھروسہ اسی کی رہنمائی اور توفیق اور مدد پر ہو، اُن کا بھروسہ ہر گز غلط ثابت نہ ہو گا۔ انہیں کسی اور سہارے کی ضرورت نہ ہو گی۔ اللہ ان کی ہدایت کے لیے بھی کافی ہو گا اور ان کی دست گیری و اعانت کے لیے بھی۔ البتہ جن کا بھروسہ اپنی طاقت پر ہو، یا اللہ کے سوا کسی اور پر ہو، وہ اس آزمائش سے بخیریت نہ گزر سکیں گے۔

۸۲- اوپر کے سلسلہ بیان سے اس کا تعلق سمجھنے کے لیے اس رکوع کے ابتدائی مضمون پر پھر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ابلیس اولِ روزِ آفرینش سے اولاد آدم کے پیچھے پڑا ہوا ہے تا کہ اس کو آرزوؤں اور تمناؤں اور جھوٹے وعدوں کے دام میں پھانس کر راہ راست سے ہٹا لے جائے اور یہ ثابت کر دے کہ وہ اس بزرگی کا مستحق نہی ہے جو اسے خدا نے عطا کی ہے۔ اس خطرے سے ا گر کوئی چیز انسان کو بچا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی بندگی پر ثابت قدم رہے اور ہدایت و اعانت کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرے اور اسی کو اپنا وکیل (مدارِ توکل) بنائے۔ اس کے سوا دوسری جو راہ بھی انسان اختیار کرے گا، شیطان کے پھندوں سے نہ بچ سکے گا۔۔۔۔۔۔اس تقریر سے یہ بات خود بخود نکل آئی کہ جو لوگ توحید کی دعوت کو رد کر رہے ہیں اور شرک پر اصرار کیے جاتے ہیں وہ دراصل آپ ہی اپنی تباہی کے درپے ہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں توحید کا اثبات اور شرک کا ابطال کیا جا رہا ہے۔

۸۳- یعنی ان معاشی اور تمدنی اور علمی و ذہنی فوائد سے متمتع ہونے کی کوشش کرو جو بحری سفروں سے حاصل ہوتے ہیں۔

۸۴- یعنی اس بات کی دلیل ہے کہ تمہاری اصلی فطرت ایک خدا کے سوا کسی رب کو نہیں جانتی، اور تمہارے اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ شعور موجود ہے کہ نفع و نقصان کے حقیقی اختیارات کا مالک بس وہی ایک ہے۔ ورنہ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ جو اصل وقت دستگیری کا ہے اُس وقت تم کو ایک خدا کے سوا کوئی دوسرا دستگیر نہیں سوجھتا؟

۸۵- یعنی یہ ایک بالکل کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ نوع انسانی کو زمین اور اس کی اشیاء پر یہ اقتدار کسی جن یا فرشتے یا سیارے نے نہیں عطا کیا ہے، نہ کسی ولی یا نبی نے اپنی نوع کو یہ اقتدار دلوایا ہے۔ یقیناً یہ اللہ ہی کی بخشش اور اس کا کرم ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر حماقت اور جہالت کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اس مرتبے پر فائز ہو کر اللہ کے بجائے اس کی مخلوق کے آگے جھکے۔

 

پھر خیال کرو اس دن کا جب کہ ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔ اُس وقت جن لوگوں کو ان کا نامۂ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا گیا وہ اپنا کارنامہ پڑھیں گے ۸۶ اور ان پر ذرّہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ اور جو اِس دُنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے بھی زیادہ ناکام۔اے محمد ؐ، ان لوگوں نے اِس کوشش میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی کہ تمہیں فتنے میں ڈال کر اُس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑو۔۸۷ اگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمہیں اپنا دوست بنا لیتے۔ اور بعید نہ تھا کہ اگر ہم تمہیں مضبوط نہ رکھتے تو تم ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھُک جاتے، لیکن اگر تم ایسا کرتے تو ہم تمہیں دُنیا میں بھی دوہرے عذاب کا مزّہ چکھاتے اور آخرت میں بھی دوہرے عذاب کا، پھر ہمارے مقابلے میں تم کوئی مددگار نہ پاتے۔ ۸۸اور یہ لوگ اس بات پر بھی تُلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اِس سرزمین سے اُکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں۔ لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں گے۔ ۸۹یہ ہمارا مستقل طریقِ کار ہے جو اُن سب رسُولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جنہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا ۹۰ تھا،اور ہمارے طریقِ کار میں تم کوئی تغیّر نہ پاؤ گے۔ ؏ ۸

 

۸۶- یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ قیامت کے روز نیک لوگوں کو ان کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ خوشی خوشی اسے دیکھیں گے، بلکہ دوسروں کو بھی دکھائیں گے۔ رہے بد اعمال لوگ، تو ان کا نامہ سیاہ ان کو بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ اسے لیتے ہی پیٹھ پیچھے چھپانے کی کوشش کریں گے۔ ملاحظہ ہو سورہ الحاقہ آیت ۱۹-۲۸۔ اور سورہ انشقاق آیت ۷-۱۳

۸۷- یہ اُن حالات کی طر ف اشارہ ہے جو پچھلے دس بارہ سال سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مکے میں پیش آرہے تھے۔ کفارِ مکہ اس بات کے درپے تھے کہ جس طرح بھی ہو آپ کو توحید کی اس دعوت سے ہٹا دیں جسے آپ پیش کر رہے تھے اور کسی نہ کسی طرح آپ کو مجبور کر دیں کہ آپ ان کے شرک اور رسومِ جاہلیت سے کچھ نہ کچھ مصالحت کر لیں۔ اس غرض کے لیے انہوں نے آپ کو فتنے میں ڈالنے کی ہر کوشش کی۔ فریب بھی دیے، لالچ بھی دلائے، دھمکیاں بھی دیں، جھوٹے پرپگنڈے کا طوفان بھی اُٹھایا، ظلم و ستم بھی کیا، معاشی دباؤ بھی ڈالا، معاشرتی مقاطعہ بھی کیا، اور وہ سب کچھ کر ڈالا جو کسی انسان کے عزم کو شکست دینے کے لیے کیا جا سکتا تھا۔

۸۸- اللہ تعالیٰ اس ساری روداد پر تبصرہ کرتے ہوئے دو باتیں ارشاد فرماتا ہے۔ ایک یہ کہ اگر تم حق کو حق جان لینے کے بعد باطل سے کوئی سمجھوتہ کر لیتے تو یہ بگڑی ہوئی قوم تو ضرور تم سے خوش ہو جاتی، مگر خدا کا غضب تم پر بھڑک اٹھتا اور تمہیں دنیا و آخرت، دونوں میں دہری سزا دی جاتی۔ دوسرے یہ کہ انسان خواہ وہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، خود اپنے بل بوتے پر باطل کے ان طوفانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ کی مدد اور اس کی توفیق شاملِ حال نہ ہو۔ یہ سراسر اللہ کا بخشا ہوا صبر ثبات تھا جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ و سلم حق و صداقت کے موقف پر پہاڑ کی طرح جمے رہے اور کوئی سیلابِ بلا آپ کو بال برابر بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکا۔

۸۹- یہ صریح پیشن گوئی ہے جو اُس وقت تو صرف ایک دھمکی نظر آتی تھی، مگر دس گیارہ سال کے اندر ہی حرف بحرف سچی ثابت ہو گئی۔ اس سورة کے نزول پر ایک ہی سال گزرا تھا کہ کفار مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کر دیا اور اس پر ۸ سال سے زیادہ نہ گزرے تھے کہ آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔ اور پھر دو سال کے اندر اندر سر زمینِ عرب مشرکین کے وجود سے پاک کر دی گئی۔ پھر جو بھی اس ملک میں رہا مسلمان بن کر رہا، مشرک بن کر وہاں نہ ٹھیر سکا۔

۹۰- یعنی سارے انبیائے کے ساتھ اللہ کا یہ معاملہ رہا ہے کہ جس قوم نے ان کو قتل یا جلا وطن کیا، پھر وہ زیادہ دیر تک اپنی جگہ نہ ٹھیر سکی۔ پھر یا تو خدا کے عذاب نے اسے ہلاک کیا، یا کسی دشمن قوم کو اس پر مسلط کیا گیا، یا خود اسی نبی کے پیرووں سے اس کو مغلوب کرا دیا گیا۔

 

نماز قائم کرو ۹۱ زوالِ آفتاب ۹۲ سے لے کر رات کے اندھیرے ۹۳ تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو ۹۴ کیونکہ قرآنِ فجر مشہود ہوتا ہے۔ ۹۵’’پس اللہ کی تسبیح کرو جبکہ تم شام کرتے ہو(مغرب) اور صبح کرتے ہو (فجر)۔ اسی کے لیے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں۔ اور اس کی تسبیح کرو دن کے آخری حصے میں (عصر) اور جبکہ تم دوپہر کرتے ہو(ظہر) ‘‘رات کو تہجد پڑھو،۹۶ یہ تمہارے لیے نفل ہے ۹۷، بعید نہیں کہ تمہارا ربّ تمہیں مقامِ محمُود ۹۸ پر فائز کر دے۔ اور دُعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تُو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال،۹۹ اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔ ۱۰۰اور اعلان کر دو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔ ‘‘ ۱۰۱ہم اِس قرآن کے سلسلۂ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔ ۱۰۲انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اینٹھتا اور پیٹھ موڑ لیتا ہے، اور جب ذرا مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے۔ اے نبی ؐ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ ’’ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے، اب یہ تمہارا ربّ ہی بہتر جانتا ہے کہ سیدھی راہ پر کون ہے۔ ‘‘ ؏ ۹

 

۹۱- مشکلات و مصائب کے اس طوفان کا ذکر کرنے کے بعد فوراً ہی نماز قائم کرنے کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے یہ لطیف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ثابت قدمی جو ان حالات میں ایک مومن کو درکار ہے اقامتِ صلوٰة سے حاصل ہوتی ہے۔

۹۲- ’’زوال آفتاب‘‘ ہم نے دلوک الشمس کا ترجمہ کیا ہے۔ اگر چہ بعض صحابہ و تابعین نے دلوک سے مراد غروب بھی لیا ہے، لیکن اکثریت کی رائے یہی ہے کہ اس سے مراد آفتاب کا نصف النہار سے ڈھل جانا ہے۔ حضرت عمر، ابن عمر، اَنَس بن مالک، ابو بَرزة الاسلمی، حسن بصری۔ شعبی، عطاء۔ مجاہد، اور ایک روایت کی رو سے ابن عباس بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق سے بھی یہی قول مروی ہے۔ بلکہ بعض احادیث میں خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی دلوکِ شمس کی یہی تشریح منقول ہے، اگرچہ ان کی سند کچھ زیادہ قوی نہیں ہے۔

۹۳- غسق اللیل بعض کے نزدیک ’’رات کا پور ی طرح تاریک ہو جانا‘‘ ہے، اور بعض اس سے نصف شب مراد لیتے ہیں۔ اگر پہلا قول تسلیم کیا جائے تو اس سے عشاء کا اول وقت مراد ہو گا، اور اگر دوسرا قول صحیح مانا جائے تو پھر یہ اشارہ عشا کے آخر وقت کی طرف ہے۔

۹۴- فجر کے لغوی معنی ہیں ’’پو پھٹنا‘‘۔ یعنی وہ وقت جب اول اول سپیدہ صبح رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتا ہے۔

فجر کے قرآن سے مراد فجر کی نماز ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے لیے کہیں تو صلوٰة کا لفظ استعمال ہوا ہے اور کہیں اس کے مختلف اجزاء میں سے کسی جُز کا نام لے کر پوری نماز مراد لی گئی ہے، مثلاً تسبیح، حمد، ذکر، قیام، رکوع، سجود وغیرہ۔ اسی طرح یہاں فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا مطلب محض قرآن پڑھنا نہیں، بلکہ نماز میں قرآن پڑھنا ہے۔ اس طریقہ سے قرآن مجید نے ضمناً یہ اشارہ کر دیا ہے کہ نماز کن اجزاء سے مرکب ہونی چاہیے۔ اور انہی اشارات کی رہنمائی میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کی وہ ہئیت مقرر فرمائی جو مسلمانوں میں رائج ہے۔

۹۵- قرآن فجر کے مشہود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے فرشتے اس کے گواہ بنتے ہیں، جیسا کہ احادیث میں بتصریح بیان ہوا ہے۔ اگر چہ فرشتے ہر نماز اور ہر نیکی کے گواہ ہیں، لیکن جب خاص طور پر نمازِ فجر کی قرأت پر ان کی گواہی کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فجر کی نماز میں طویل قرأت کرنے کا طریقہ اختیار فرمایا اور اسی کی پیروی صحابہ کرام نے کی اور بعد کے ائمہ نے اسے مستحب قرار دیا۔

اس آیت میں مجملاً یہ بتا یا گیا ہے کہ پنج وقتہ نماز، جو معراج کے موقع پر فرض کی گئی تھی، اس کے اوقات کی تنظیم کس طرح کی جائے۔ حکم ہوا کہ ایک نماز تو طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لی جائے، اور باقی چار نمازیں زوال آفتاب کے بعد سے ظلمتِ شب تک پڑھی جائیں۔ پھر اس حکم کی تشریح کے لیے جبریل علیہ السلام بھیجے گئے جنہوں نے نماز کے ٹھیک ٹھیک اوقات کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دی۔ چنانچہ ابو داؤد اور ترمذی میں ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

 ’’جبریل نے دو مرتبہ مجھ کو بیت اللہ کے قریب نماز پڑھائی۔ پہلے دن ظہر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ سورج ابھی ڈھلا ہی تھا اور سایہ ایک جوتی کے تسمے سے زیادہ دراز نہ تھا، پھر عصر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے اپنے قد کے برابر تھا، پھر مغرب کی نماز ٹھیک اُس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے، پھر عشاء کی نماز شفق غائب ہوتے ہی پڑھا دی، اور فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے۔ دوسرے دن اُنہوں نے ظہر کی نماز مجھے اس وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اُس کے قد کے برابر تھا، اور عصر کی نماز اس وقت جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد سے دوگنا ہو گیا، اور مغرب کی نماز اس وقت جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے، اور عشاء کی نماز ایک تہائی گزر جانے پر، اور فجر کی نماز اچھی طرح روشنی پھیل جانے پر۔ پھر جبریل ؑ نے پلٹ کر مجھ سے کہا کہ اے محمد ؐ، یہی اوقات انبیاء کے نماز پڑھنے کے ہیں، اور نمازوں کے صحیح اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں‘‘۔ (یعنی پہلے دن ہر وقت کی ابتداء اور دوسرے دن ہر وقت کی انتہا بتا ئی گئی ہے۔ ہر وقت کی نماز ان دونوں کے درمیان ادا ہونی چاہیے )۔

قرآن مجید میں خود بھی نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف مختلف مواقع پر اشارے کیے گئے ہیں۔ چنانچہ سورہ ہود میں فرمایا:

’’نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں پر (یعنی فجر اور مغرب) اور کچھ رات گزرنے پر (یعنی عشاء) ‘‘

’’اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر طلوع آفتاب سے پہلے (فجر)اور غروب آفتاب سے پہلے (عصر) اور رات کے اوقات میں پھر تسبیح کر (عشاء) اور دن کے سروں پر (یعنی صبح، ظہر اور مغرب) ‘‘

پھر سورہ روم میں ارشاد ہوا:

نماز کے اوقات کا یہ نظام مقرر کرنے میں جو مصلحتیں ملحوظ رکھی گئی ہیں ان میں سے ایک اہم مصلحت یہ بھی ہے کہ آفتاب پرستوں کے اوقاتِ  عبادت سے اجتناب کیا جائے۔ آفتاب ہر زمانے میں مشرکین کا سب سے بڑا، یا بہت بڑا معبود رہا ہے، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات خاص طور پر اُن کے اوقاتِ عبادت رہے ہیں، اس لیے ان اوقات میں تو نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ آفتاب کی پرستش زیادہ تر اس کے عروج کے اوقات میں کی جاتی رہی ہے، لہٰذا اسلام میں حکم دیا گیا کہ تم دن کی نمازیں زوال آفتاب کے بعد پڑھنی شروع کرو اور صبح کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لیا کرو۔ اس مصلحت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت عمرو بن عَبَسہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نماز کے اوقات دریافت کیے تو آپ نے فرمایا:

صل صلوة الصبح ثم اقصر عن الصلوة حین تطلع الشمس حتیٰ ترتفع فانھا تطلع حین تطلع بین قرنی الشیطن و حینئِذ یسجد لہ الکفار۔

 ’’صبح کی نماز پڑھو اور جب سورج نکلنے لگے تو نماز سے رُک جاؤ، یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے۔ کیونکہ سورج جب نکلتا ہے تو شیطان کے سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں‘‘۔

پھر آپ نے عصر کی نماز کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

ثم اقصر عن الصلوة حتی تغرب الشمس فانھا تغرب بین قرنی الشیطن وحینئذ یسجد لھا الکفار

(رواہ مسلم)

 ’’پھر نماز سے رک جاؤ یہاں تک کے سورج غروب ہو جائے کیونکہ سورج شیطان کے سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں۔‘‘

اس حدیث میں سورج کا شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہونا ایک استعارہ ہے یہ تصور دلانے کے لیے کہ شیطان اس کے نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات کو لوگوں کے لیے ایک فتنہ عظیم بنا دیتا ہے۔ گویا جب لوگ اس کو نکلتے اور ڈوبتے دیکھ کر سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیطان اسے اپنے سر پر لیے ہوئے آیا ہے اور سر ہی پر لیے جا رہا ہے۔ اس استعارے کی گرہ حضور ؐ نے خود اپنے اس فقرے میں کھول دی ہے کہ ’’اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں‘‘۔

۹۶- تہجد کے معنی ہیں نیند توڑ کر اُٹھنے کے۔ پس رات کے وقت تہجد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رات کا ایک حصہ سونے کے بعد پھر اُٹھ کر نماز پڑھی جائے۔

۹۷- نفل کے معنی ہیں ’’فرض سے زائد‘‘۔ اس سے خود بخود یہ اشارہ نکل آیا کہ وہ پانچ نمازیں جن کے اوقات کا نظام پہلی آیت میں بیان کیا گیا تھا، فرض ہیں، اور یہ چھٹی نماز فرض سے زائد ہے۔

۹۸- یعنی دنیا اور آخرت میں تم کو ایسے مرتبے پر پہنچا دے جہاں تم محمود خلائق ہو کر رہو، ہر طرف سے تم پر مدح و ستائش کی بارش ہو، اور تمہاری ہستی ایک قابل تعریف ہستی بن کر رہے۔ آج تمہارے مخالفین تمہاری تواضع گالیوں اور علامتوں سے کر رہے ہیں اور ملک بھر میں تم کو بدنام کر نے کے لیے انہوں نے جھوٹے الزامات کا ایک طوفان برپا کر رکھا ہے، مگر وہ وقت دور نہیں ہے جبکہ دنیا تمہاری تعریفوں سے گونج اُٹھے گی اور آخرت میں بھی تم ساری خلق کے ممدوح ہو کر رہو گے۔ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مقام شفاعت پر کھڑا ہونا بھی اسی مرتبہ محمودیت کا ایک حصہ ہے۔

۹۹- اس دعا کی تلقین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کا وقت اب بالکل قریب آ لگا تھا۔ اس لیے فرمایا کہ تمہاری دعا یہ ہونی چاہیے کہ صداقت کا دامن کسی حال میں تم سے نہ چھوٹے، جہاں سے بھی نکلو صداقت کی خاطر نکلو اور جہاں بھی جاؤ صداقت کے ساتھ جاؤ۔

۱۰۰- یعنی یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر، یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے تا کہ اس کی طاقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کر سکوں، فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں، اور تیرے قانونِ عدل کو جاری کر سکوں۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصری اور قتادہ نے کی ہے، اور اسی کو ابن جریر اور ابن کثیر جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیار کیا ہے، اور اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث کرتی ہے کہ اِنَّ اللہ َ لَیَزَعُ بِالسُّلطَانِ مَا لَا یَزَعُ بِالقُرْاٰنِ، یعنی ’’اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے اُن چیزوں کا سد باب کر دیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے نہیں کرتا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے۔ پھر جبکہ یہ دعا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اقامتِ دین اور نفاذِ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اسے دنیا پرستی یا دنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں۔ دنیا پرستی اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص اپنے لیے حکومت کا طالب ہو۔ رہا خدا کے دین کے لیے حکومت کا طالب ہونا تو یہ دنیا پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہی کا عین تقاضا ہے۔ اگر جہاد کے لیے تلوار کا طالب ہونا گناہ نہیں ہے تو اجرائے احکام شریعت کے لیے سیاسی اقتدار کا طالب ہونا آخر کیسے گناہ ہو جائے گا؟

۱۰۱- یہ اعلان اس وقت کیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ چھوڑ کر حبش میں پناہ گزین تھی، اور باقی مسلمان سخت بے کسی و مظلومی کی حالت میں مکہ اور اطراف مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جان ہر وقت خطرے میں تھی۔ اس وقت بظاہر باطل ہی کا غلبہ تھا اور غلبہ حق کے آثار کہیں دور دور نظر نہ آتے تھے۔ مگر اسی حالت میں نبی ؐ کو حکم دے دیا گیا کہ تم صاف صاف ان باطل پرستوں کو سنا دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ ایسے وقت میں یہ عجیب اعلان لوگوں کو محض زبان کا پھاگ محسوس ہوا اور انہوں نے اسے ٹھٹھوں میں اُڑا دیا۔ مگر اس پر نو برس ہی گزرے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اسی شہر مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور آپ نے کعبے میں جا کر اس باطل کو مٹا دیا جو تین سو ساٹھ بتوں کی صورت میں وہاں سجا رکھا تھا۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیا ن ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور ؐ کعبے کے بتوں پر ضرب لگا رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ ’’ جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ جآء الحق وما یُبدئُ الباطل وما یُعید‘‘۔

۱۰۲- یعنی جو لوگ اس قرآن کو اپنا رہنما اور اپنے لیے کتاب آئین مان لیں ان کے لیے تو یہ خدا کی رحمت اور ان کے تمام ذہنی، نفسانی، اخلاقی اور تمدنی امراض کا علاج ہے۔ مگر جو ظالم اسے رد کر کے اور اس کی رہنمائی سے منہ موڑ کر اپنے اوپر آپ ظلم کریں ان کو یہ قرآن اُس حالت پر بھی نہیں رہنے دیتا جس پر وہ اس کے نزول سے، یا اس کے جاننے سے پہلے تھے، بلکہ یہ انہیں اُلٹا اس سے زیادہ خسارے میں ڈال دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک قرآن آیا نہ تھا، یا جب تک وہ اس سے واقف نہ ہوئے تھے، ان کا خسارہ محض جہالت کا خسارہ تھا۔ مگر جب قرآن ان کے سامنے آگیا اور اس نے حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا تو ان پر خدا کی حجت تمام ہو گئی۔ اب اگر وہ اسے رد کر کے گمراہی پر اصرار کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جاہل نہیں بلکہ ظالم اور باطل پرست اور حق سے نفور ہیں۔ اب ان کی حیثیت وہ ہے جو زہر اور تریاق، دونوں کو دیکھ کر زہر انتخاب کرنے والے کی ہوتی ہے۔ اب اپنی گمراہی کے وہ پورے ذمہ دار، اور ہر گناہ جو اس کے بعد وہ کریں اس کی پوری سزا کے مستحق ہیں۔ یہ خسارہ جہالت کا نہیں بلکہ شرارت کا خسارہ ہے جسے جہالت کے خسارے سے بڑھ کر ہی ہونا چاہیے۔ یہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک نہایت مختصر سے بلیغ جملے میں بیان فرمائی ہے کہ القراٰن حجة لک او علیک یعنی قرآن یا تو تیرے حق میں حجت ہے یا پھر تیرے خلاف حجت۔

 

یہ لوگ تم سے رُوح کے متعلق پُوچھتے ہیں۔ کہو ’’یہ رُوح میرے ربّ کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے۔ ‘‘ ۱۰۳ اور اے محمدؐ، ہم چاہیں تو وہ سب کچھ تم سے چھین لیں جو ہم نے وحی کے ذریعہ سے تم کو عطا کیا ہے، پھر تم ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہ پاؤ گے جو اسے واپس دلا سکے۔ یہ تو جو کچھ تمہیں ملا ہے تمہارے ربّ کی رحمت سے مِلا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کا فضل تم پر بہت بڑا ہے۔ ۱۰۴کہہ دو کہ اگر انسان اور جِن سب کے سب مل کر اِس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لا سکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔۱۰۵ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر لوگ انکار ہی پر جمے رہے۔ اور انہوں نے کہا ’’ ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تُو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے۔ یا تیرے لیے کھُجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تُو اس میں نہریں رواں کر دے۔ یا تُو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اُوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے۔ یا خدا اور فرشتوں کو رُو در رُو ہمارے سامنے لے آئے۔ یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے۔ یا تُو آسمان پر چڑھ جائے، اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تُو ہمارے اُوپر ایک ایسی تحریر نہ اُتار لائے جسے ہم پڑھیں‘‘۔۔۔۔اے محمدؐ، اِن سے کہو ’’پاک ہے میرا پروردگار! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں؟‘‘ ۱۰۶ ؏ ۱۰

 

۱۰۳- عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں روح سے مراد جان ہے، یعنی لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روحِ حیات کے متعلق پوچھا تھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے، اور اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ معنی تسلیم کرنے میں سخت تامل ہے، اس لیے کہ یہ معنی صرف اُس صورت میں لیے جا سکتے ہیں جبکہ سیاق و سباق کو نظر انداز کر دیا جائے اور سلسلہ کلام سے بالکل الگ کر کے اس آیت کو ایک منفر د جملے کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ ورنہ اگر سلسلہ کلام میں رکھ کر دیکھا جائے تو رُوح کو جان کے معنی میں لینے سے عبارت میں سخت بے ربطی محسوس ہوتی ہے اور اس امر کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جہاں پہلے تین آیتوں میں قرآن کے نسخہ شفا ہونے اور منکرینِ  قرآن کے ظالم اور کافرِ نعمت ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، اور جہاں بعد آیتوں میں پھر قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر استدلال کیا گیا ہے، وہاں آخر کس مناسبت سے یہ مضمون آگیا کہ جانداروں میں جان خدا کے حکم سے آتی ہے ؟

ربطِ عبارت کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں روح سے مراد ’’وحی‘‘ یا وحی لانے والا فرشتہ ہی ہو سکتا ہے۔ مشرکین کا سوال دراصل یہ تھا کہ قرآن تم کہاں سے لاتے ہو؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ؐ، تم سے یہ لوگ روح، یعنی ماخذِ قرآن، یا ذریعہ حصولِ قرآن کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ انہیں بتا دو کہ یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے اتنا کمزور بہرہ پایا ہے کہ تم انسانی ساخت کے کلام اور وحی ربانی کے ذریعہ سے نازل ہونے والے کلام کا فرق نہیں سمجھتے اور اس کلام پر یہ شبہ کرتے ہو کہ اسے کوئی انسان گھڑ رہا ہے۔

یہ تفسیر صرف اس لحاظ سے قابل ترجیح ہے کہ تقریر ما سبق اور تقریر مابعد کے ساتھ آیت کا ربط اسی تفسیر کا متقاضی ہے، بلکہ خود قرآن مجید میں بھی دوسرے مقامات پر یہ مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ مومن میں ارشاد ہوا ہے یُلْقی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ لینْذِ رَ یَوْمَ التَّلَاقِ (آیت ۱۵)۔ ’’وہ اپنے حکم سے اپنے جس بندے پر چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے تا کہ وہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کے دن سے آگاہ کرے ‘‘۔ اور سورہ شوریٰ میں فرمایا وَکَذٰلِکَ اَوْ حَینَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْری مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْایمَانُ ( آیت ۵۲)۔ ’’اور اسی طرح ہم نے تیری طرف ایک روح اپنے حکم سے بھیجی۔ تو نہ جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہے ‘‘۔

سلف میں سے ابن عباس، قتادہ اور حسن بصری رحمہم اللہ نے بھی یہی تفسیر اختیار کی ہے۔ ابن جریر نے اس قول کو قتادہ کے حوالہ سے ابن عباس ؓ کی طرف منسوب کیا ہے، مگر یہ عجیب بات لکھی ہے کہ ابن عباس اس خیال کو چھپا کر بیان کرتے تھے۔ اور صاحبِ روح المعانی حسن اور قتادہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’روح سے مراد جبرائیل ہیں اور سوال دراصل یہ تھا کہ وہ کیسے نازل ہوتے ہیں اور کس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب پر وحی کا القاء ہوتا ہے ‘‘۔

۱۰۴- خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، مگر مقصود دراصل کفار کو سنانا ہے جو قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا گھڑا ہوا یا کسی انسان کا درپردہ سکھایا ہوا کلام کہتے تھے۔ اُن سے کہا جا رہا ہے کہ یہ کلام پیغمبر نے نہیں گھڑا بلکہ ہم نے عطا کیا ہے اور اگر ہم اسے چھین لیں تو نہ پیغمبر کی یہ طاقت ہے کہ وہ ایسا کلام تصنیف کر کے لا سکے اور نہ کوئی دوسری طاقت ایسی ہے جو اس کو ایسی معجزانہ کتاب پیش کرنے کے قابل بنا سکے۔

۱۰۵- یہ چیلنج اس سے پہلے قرآن مجید میں تین مقامات پر گزر چکا ہے۔ سورہ بقرہ، آیات ۲۴، ۲۳۔ سورہ یونس، آیت ۳۸ اور سورہ ہود، آیت ۱۳۔ آگے سورہ طور، آیات ۳۳-۳۴ میں بھی یہی مضمون آ رہا ہے۔ ان سب مقامات پر یہ بات کفار کے اس الزام کے جواب میں ارشاد ہوئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے خود یہ قرآن تصنیف کر لیا ہے اور خواہ مخواہ وہ اسے خدا کا کلام بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ مزید بر آں سورہ یونس، آیت ۱۶ میں اسی الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیا کہ قُلْ لَّوْ شَآ ءَ اللہ ُ مَا تَلَوٰ تُہٗ عَلَیکُمْ وَلَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فیکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُونَ۔ یعنی ’’اے محمدؐ ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا کہ میں قرآن تمہیں سناؤں تو میں ہر گز نہ سنا سکتا تھا بلکہ اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے ‘‘ ؟

ان آیات میں قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر جو استدلال کیا گیا ہے وہ دراصل تین دلیلوں سے مرکّب ہے :

ایک یہ کہ یہ قرآن اپنی زبان، اسلوب بیان، طرزِ استدلال، مضامین، مباحث، تعلیمات اور اخبار غیب کے لحاظ سے ایک معجزہ ہے جس کی نظیر لانا انسانی قدرت سے باہر ہے۔ تم کہتے ہو کہ اسے ایک انسان نے تصنیف کیا ہے، مگر ہم کہتے ہیں کہ تمام دنیا کے انسان مل کر بھی اس شان کی کتاب تصنیف نہیں کر سکتے۔ بلکہ اگر وہ جن جنہیں مشرکین نے اپنا معبود بنا رکھا ہے، اور جن کی معبودیت پر یہ کتاب علانیہ ضرب لگا رہی ہے، منکرین قرآن کی مدد پر اکٹھے ہو جائیں تو وہ بھی ان کو اس قابل نہیں بنا سکتے کہ قرآن کے پائے کی کتاب تصنیف کر کے اس چلینج کو رد کر سکیں۔

دوسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کہیں باہر سے یکایک تمہارے درمیان نمودار نہیں ہو گئے ہیں اس قرآن کے نزول سے پہلے بھی ۴۰ سال تمہارے درمیان رہ چکے ہیں۔ کیا دعوائے نبوّت سے پہلے بھی کبھی تم نے ان کی زبان سے اِس طرز کا کلام، اور ان مسائل اور مضامین پر مشتمل کلام سنا تھا؟ اگر نہیں سنا تھا اور یقیناً ً نہیں سنا تھا تو کیا یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی شخص کی زبان، خیالات، معلومات اور طرزِ فکر و بیان میں یکایک ایسا تغیر واقع ہو سکتا ہے ؟

تیسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمہیں قرآں سنا کر کہیں غائب نہیں ہو جاتے بلکہ تمہارے درمیان ہی رہتے سہتے ہیں۔ تم ان کی زبان سے قرآن بھی سنتے ہو اور دوسری گفتگوئیں اور تقریریں بھی سنا کرتے ہو۔ قرآن کے کلام اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے کلام میں زبان اور اسلوب کا اتنا نمایاں فرق ہے کہ کسی ایک انسان کے دو اس قدر مختلف اسٹائل کبھی ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ فرق صرف اسی زمانہ میں واضح نہیں تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ملک کے لوگوں میں رہتے سہتے تھے۔ بلکہ آج بھی حدیث کی کتابوں میں آپ کے سینکڑوں اقوال اور خطبے موجود ہیں۔ ان کی زبان اور اسلوب قرآن کی زبان اور اسلوب سے اس قدر مختلف ہیں کہ زبان و ادب کا کوئی رمز آشنا نقاد یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ یہ دونوں ایک ہی شخص کے کلام ہو سکتے ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یونس حاشیہ ۲۱۔ الطور، حواشی ۲۲-۲۷)

۱۰۶- معجزات کے مطالبے کا ایک جواب اس سے پہلے آیت ۵۹ وَمَا مَنَعَنَآ ا اَن تُّرْسِلَ بِالاٰیٰتِ میں گزر چکا ہے۔ اب یہاں اسی مطالبے کا دوسرا جواب دیا گیا ہے۔ اس مختصر سے جواب کی بلاغت تعریف سے بالا تر ہے۔ مخالفین کا مطالبہ یہ تھا کہ اگر تم پیغمبر ہو تو ابھی زمین کی طرف ایک اشارہ کرو اور یکایک ایک چشمہ پھوٹ بہے، یا فوراً ایک لہلہاتا باغ پیدا ہو جائے اور اس میں نہریں جاری ہو جائیں۔ آسمان کی طرف اشارہ کرو اور تمہارے جھٹلانے والوں پر آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر جائے۔ ایک پھونک مارو اور چشم زدن میں سونے کا ایک محل بن کر تیار ہو جائے۔ ایک آواز دو اور ہمارے سامنے خدا اور اس کے فرشتے فوراً آ کھڑے ہوں اور وہ شہادت دیں کہ ہم ہی نے محمد ؐ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے آسمان پر چڑھ کر جاؤ اور اللہ میاں سے ایک خط ہمارے نام لکھوا لاؤ جسے ہم ہاتھ سے چھوئیں اور آنکھوں سے پڑھیں۔۔۔۔۔۔ ان لمبے چوڑے مطالبوں کا بس یہ جواب دے کر چھوڑ دیا گیا کہ ’’ان سے کہو، پاک ہے میرا پروردگار! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں‘‘ ؟ یعنی بیوقوفوں! کیا میں نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا کہ تم یہ مطالبے مجھ سے کرنے لگے ؟ میں نے تم سے کب کہا تھا کہ میں قادرِ مطلق ہوں؟ میں نے کب کہا تھا کہ زمین و آسمان پر میری حکومت چل رہی ہے ؟ میرا دعویٰ تو اوّل روز سے یہی تھا کہ میں خدا کی طرف سے پیغام لانے والا ایک انسان ہوں۔ تمہیں جانچنا ہے تو میرے پیغام کو جانچو۔ ایما ن لانا ہے تو اس پیغام کی صداقت و معقولیت دیکھ کر ایمان لاؤ۔ انکار کرنا ہے تو اس پیغام میں کوئی نقص نکال کر دکھاؤ۔ میری صداقت کا اطمینان کرنا ہے تو ایک انسان ہونے کی حیثیت سے میری زندگی کو، میرے اخلاق کو، میرے کام کو دیکھو۔ یہ سب کچھ چھوڑ کر تم مجھ سے یہ کیا مطالبہ کرنے لگے کہ زمین پھاڑ و اور آسمان گراؤ؟ آخر پیغمبری کا ان کاموں سے کیا تعلق ہے ؟

 

لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے اُن کو کسی چیز نے نہیں روکا مگر اُن کے اِسی قول نے کہ ’’کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا؟‘‘ ۱۰۷ اِن سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو اُن کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجتے۔ ۱۰۸اے محمد ؐ، ان سے کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان بس ایک اللہ کی گواہی کافی ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ ۱۰۹جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے، اور جسے وہ گمراہی میں ڈال دے تو اس کے بعد ایسے لوگوں کے لیے تُو کوئی حامی و ناصر نہیں پا سکتا۔۱۱۰ ان لوگوں کو ہم قیامت کے روز اوندھے منہ کھینچ لائیں گے، اندھے، گُونگے اور بہرے۔ ۱۱۱ اُن کا ٹھکانا جہنّم ہے۔ جب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔ یہ بدلہ ہے ان کی اس حرکت کا کہ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا ’’کیا جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو نئے سرے سے ہم کو پیدا کر کے اُٹھا کھڑا کیا جائے گا؟‘‘ کیا ان کو یہ نہ سُوجھا کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے، وہ اِن جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے ؟ اس نے اِن کے حشر کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کا آنا یقینی ہے، مگر ظالموں کو اصرار ہے کہ وہ اس کا انکار ہی کریں گے۔ اے محمد ؐ، اِن سے کہو، اگر کہیں میرے ربّ کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے۔ واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے۔ ۱۱۲ ؏ ۱۱
 

۱۰۷- یعنی ہر زمانے کے جاہل لوگ اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ بشر کبھی پیغمبر نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے جب کوئی رسول آیا تو انہوں نے یہ دیکھ کر کہ کھاتا ہے، پیتا ہے، بیوی بچے رکھتا ہے، گوشت پوست کا بنا ہوا ہے، فیصلہ کر دیا کہ پیغمبر نہیں ہے، کیونکہ بشر ہے۔ اور جب وہ گزر گیا تو ایک مدت کے بعد اس کے عقیدت مندوں میں ایسے لوگ پیدا ہونے شروع ہو گئے جو کہنے لگے کہ وہ بشر نہیں تھا، کیونکہ پیغمبر تھا۔ چنانچہ کسی نے اس کو خدا بنایا، کسی نے اسے خدا کا بیٹا کہا، اور کسی نے کہا کہ خدا اس میں حلول کر گیا تھا۔ غرض بشریت اور پیغمبری کا ایک ذات میں جمع ہونا جاہلوں کے لیے ہمیشہ ایک معما ہی بنا رہا۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یٰس، حاشیہ ۱۱)۔

۱۰۸- یعنی پیغمبر کا کام صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ آ کر پیغام سنا دیا کرے، بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ اس پیغام کے مطابق انسانی زندگی کی اصلاح کرے۔ اسے انسانی احوال پر اُس پیغام کے اصولوں کا انطباق کرنا ہوتا ہے۔ اسے خودا پنی زندگی میں ان اصولوں کا عملی مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ اسے اُن بے شمار مختلف انسانوں کے ذہن کی گتھیاں سلجھانی پڑتی ہیں جو اس کا پیغام سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے ماننے والوں کی تنظیم اور تربیت کرنی ہوتی ہے تا کہ اس پیغام کی تعلیمات کے مطابق ایک معاشرہ وجود میں آئے۔ اسے انکار اور مخالفت و مزاحمت کرنے والوں کے مقابلے میں جدوجہد کرنی ہوتی ہے تاکہ بگاڑ کی حمایت کرنے والی طاقتوں کو نیچا دکھایا جائے اور وہ اصلاح عمل میں آ سکے جس کے لیے خدا نے اپنا پیغمبر مبعوث فرمایا ہے۔ یہ سارے کام جبکہ انسانوں ہی میں کرنے کے ہیں تو ان کے لیے انسان نہیں تو اور کون بھیجا جاتا؟ فرشتہ تو زیادہ سے زیادہ بس یہی کرتا کہ آتا اور پیغام پہنچا کر چلا جاتا۔ انسانوں میں انسان کی طرح رہ کر انسان کے سے کام کرنا اور پھر انسانی زندگی میں منشائے الٰہی کے مطابق اصلاح کر کے دکھا دینا کسی فرشتے کے بس کا کام نہ تھا۔ اس کے لیے تو ایک انسان ہی موزوں ہو سکتا تھا۔

۱۰۹- یعنی جس طرح سے میں تمہیں سمجھا رہا ہوں اور تمہاری اصلاح حال کے لیے کوشش کر رہا ہوں اسے بھی اللہ جانتا ہے، اور جو جو کچھ تم میری مخالفت میں کر رہے ہو اس کو بھی اللہ دیکھ رہا ہے۔ فیصلہ آخر کار اسی کو کرنا ہے اس لیے بس اسی کا جاننا اور دیکھنا کافی ہے۔

۱۱۰- یعنی جس کی ضلالت پسندی اور ہٹ دھرمی کے سبب سے اللہ نے اس پر ہدایت کے دروازے بند کر دیے ہوں اور جسے اللہ ہی نے ان گمراہیوں کی طرف دھکیل دیا ہو جن کی طرف وہ جانا چاہتا تھا، تو اب اور کون ہے جو اس کو راہِ راست پر لا سکے ؟ جس شخص نے سچائی سے منہ موڑ کر جھوٹ پر مطمئن ہونا چاہا، اور جس کی اس خباثت کو دیکھ کر اللہ نے بھی اس کے لیے وہ اسباب فراہم کر دیے جن سے سچائی کے خلاف اُس کی نفرت میں اور جھوٹ پر اس کے اطمینان میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا جائے، اسے آخر دنیا کی کونسی طاقت جھوٹ سے منحرف اور سچائی پر مطمئن کر سکتی ہے ؟ اللہ کا یہ قاعدہ نہیں کہ جو خود بھٹکنا چاہے اسے زبر دستی ہدایت دے، اور کسی دوسری ہستی میں یہ طاقت نہیں کہ لوگوں کے دل بدل دے۔

۱۱۱- یعنی جیسے وہ دنیا میں بن کر رہے کہ نہ حق دیکھتے تھے، نہ حق سنتے تھے اور نہ حق بولتے تھے، ویسے ہی وہ قیامت میں اُٹھائے جائیں گے۔

۱۱۲- یہ اشارہ اسی مضمون کی طرف ہے جو اس سے پہلے آیت ۵۵ و َ رَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ میں گزر چکا ہے۔ مشرکین مکہ جن نفسیاتی وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا انکار کرتے تھے ان میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس طرح انہیں آپ کا فضل و شرف ماننا پڑتا تھا، اور اپنے کسی معاصر اور ہم چشم کا فضل ماننے کے لیے انسان مشکل ہی سے آمادہ ہوا کرتا ہے۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کی بخیلی کا حال یہ ہے کہ کسی کے واقعی مرتبے کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے بھی ان کا دل دکھتا ہے، انہیں اگر کہیں خدا نے اپنے خزانہائے رحمت کی کنجیاں حوالے کر دی ہوتیں تو وہ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیتے۔

 

ہم نے موسیٰؑ کو نو نشانیاں عطا کی تھیں جو صریح طور پر دکھائی دے رہی تھیں۔۱۱۳ اب یہ تم خود بنی اسرائیل سے پُوچھ لو کہ جب وہ سامنے آئیں تو فرعون نے یہی کہا تھا نہ کہ ’’ اے موسیٰ، میں سمجھتا ہوں کہ تُو ضرور ایک سحر زدہ آدمی ہے۔ ‘‘ ۱۱۴ موسیٰؑ نے اس کے جواب میں کہا ’’ تو خوب جانتا ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں ربّ السّماوات و الارض کے سوا کسی نے نازل نہیں کی ہیں ۱۱۵، اور میرا خیال یہ ہے کہ اے فرعون، تُو ضرور ایک شامت زدہ آدمی ہے۔ ۱۱۶‘‘آخرِ کار فرعون نے ارادہ کیا کہ موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کو زمین سے اُکھاڑ پھینکے، مگر ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو اکٹھا غرق کر دیا
اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ اب تم زمین میں بسو ۱۱۷، پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آن پُورا ہو گا تو ہم تم سب کو ایک ساتھ لا حاضر کریں گے۔ اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور حق ہی کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے، اور اے محمد ؐ، تمہیں ہم نے اِس کے سوا اور کسی کام کے لیے نہیں بھیجا کہ (جو مان لے اسے ) بشارت دے دو اور (جو نہ مانے اُسے ) متنبّہ کر دو۔۱۱۸
اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھہر ٹھہر کر اسے لوگوں کو سُناؤ، اور اسے ہم نے ( موقع موقع سے ) بتدریج اُتارا ہے۔ ۱۱۹
اے محمدؐ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے مانو یا نہ مانو، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ۱۲۰ انہیں جب یہ سُنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں
اور پکار اُٹھتے ہیں ’’پاک ہے ہمارا ربّ، اُس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا۔‘‘ ۱۲۱
اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گِر جاتے ہیں اور اسے سُن کو اُن کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔ ۱۲۲ السجدة ۴
 

۱۱۳- واضح رہے کہ یہاں پھر کفار مکہ کو معجزات کے مطالبے کے جواب دیا گیا ہے، اور یہ تیسرا جواب ہے۔ کفار کہتے تھے کہ ہم تم پر ایمان نہ لائیں گے جب تک تم یہ اور یہ کام کر کے نہ دکھاؤ۔ جواب میں ان سے کہا جا رہا ہے کہ تم سے پہلے فرعون کو ایسے ہی صریح معجزات، ایک دو نہیں، پے در پے ۹ دکھائے گئے تھے، پھر تمہیں معلوم ہے کہ جو نہ ماننا چاہتا تھا اس نے انہیں دیکھ کر کیا کہا؟ اور یہ بھی خبر ہے کہ جب اس نے معجزات دیکھ کر بھی نبی کو جھٹلایا تو اس کا انجام کیا ہوا؟

وہ نو نشانیاں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے، اس سے پہلے سورہ اعراف میں گزر چکی ہیں۔ یعنی عصاء، جو اژدہا بن جاتا تھا، یدِ بیضاء جو بغل سے نکالتے ہی سورج کی طرح چمکنے لگتا تے تھا، جادوگروں کے جادو کو برسرِ عام شکست دینا، ایک اعلان کے مطابق سارے ملک میں قحط برپا ہو جانا، اور پھر یکے بعد دیگرے طوفان، ٹڈی دل، سُرسریوں، مینڈکوں اور خون کی بلاؤں کا نازل ہونا۔

۱۱۴- یہ وہی خطاب ہے جو مشرکین مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا کرتے تھے۔ اسی سورت کی آیت ۴۷ میں ان کا یہ قول گزر چکا ہے کہ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسحُوراً۔ (تم تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے چلے جا رہے ہو)۔ اب ان کو بتا یا جا رہا ہے کہ ٹھیک اسی خطاب سے فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو نوازا تھا۔

اسی مقام پر ایک ضمنی مسئلہ اور بھی ہے جس کی طرف ہم اشارہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ زمانہ حال میں منکرینِ حدیث نے احادیث پر جو اعتراضات کیے ہیں ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ حدیث کی رو سے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جادہ اثر ہو گیا تھا، حالانکہ قرآن کی رو سے کفار کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحر زدہ آدمی ہیں۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ اس طرح راویانِ حدیث نے قرآن کی تکذیب اور کفار مکہ کی تصدیق کی ہے۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ بعینہٖ قرآن کی رُو سے حضرت موسیٰ پر بھی فرعون کا یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحر زدہ آدمی ہیں، اور پھر قرآن خود ہی سورہ طٰہٰ میں کہتا ہے کہ فَاِذَا حِبَا لھُمْ وَعِصیھُمْ یُخیَّل اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِ ھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰیہ فَاَوجَسَ فی نَفْسِہٖ خیفَةً مُّوْسٰی۔ یعنی ’’جب جادوگروں نے اپنے انچھر پھینکے تو یکایک ان کے جادو سے موسیٰ کو یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں دوڑ رہی ہیں، پس موسیٰ اپنے دل میں ڈر سا گیا‘‘۔ کیا یہ الفاظ صریح طور پر دلالت نہیں کر رہے ہیں کہ حضرت موسیٰ اس وقت جادو سے متاثر ہو گئے تھے ؟ اور کیا اس کے متعلق بھی منکرینِ  حدیث یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ یہاں قرآن نے خود اپنی تکذیب اور فرعون کے جھوٹے الزام کی تصدیق کی ہے ؟

دراصل اس طرح کے اعتراضات اُٹھانے والوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ کفار مکہ اور فرعون کس معنی میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت موسیٰ کو ’’مسحور‘‘ کہتے تھے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ کسی دشمن نے جادو کر کے ان کو دیوانہ بنا دیا ہے اور اسی دیوانگی کے زیر اثرات یہ نبوت کا دعویٰ کرتے اور ایک نرالا پیغام سناتے ہیں۔ قرآن ان کے اسی الزام کو جھوٹا قرار دیتا ہے۔ رہا وقتی طور پر کسی شخص کے جسم یا کسی حصۂ  جسم کا جادو سے متاثر ہو جانا تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کو پتھر مارنے سے چوٹ لگ جائے، اس چیز کا نہ کفار نے الزام لگا یا تھا، نہ قرآن نے اس کی تردید کی، اور نہ اس طرح کے کسی وقتی تاثر سے نبی کے منصب پر کوئی فرق آتا ہے۔ نبی پر اگر زہر کا اثر ہو سکتا تھا، نبی اگر زخمی ہو سکتا تھا، تو اس پر جادو کا اثر بھی ہو سکتا تھا۔ اس سے منصب نبوت پر حرف آنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ منصبِ نبوت میں اگر قادح ہو سکتی ہے تو یہ بات کہ نبی کے قوائے عقلی و ذہنی جادو سے مغلوب ہو جائیں، حتیٰ کہ اس کا کام اور کلام سب جادو ہی کے زیر اثر ہونے لگے۔ مخالفینِ حق حضرت موسیٰ اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہی الزام لگا تے تھے اور اسی کی تردید قرآن نے کی ہے۔

۱۱۵- یہ بات حضرت موسیٰ نے اس لیے فرمائی کہ کسی ملک پر قحط آ جانا، یا لاکھوں مربع میل زمین پر پھیلے ہوئے علاقے میں مینڈکوں کا ایک بلا کی طرح نکلنا، یا تمام ملک کے غلے کے گوداموں میں گھن لگ جانا، اور ایسے ہی دوسرے عام مصائب کسی جادو گر کے جادو، یا کسی انسانی طاقت کے کرتب سے رونما نہیں ہو سکتے۔ پھر جبکہ ہر بلا کے نزول سے پہلے حضرت موسیٰ فرعون کو نوٹس دے دیتے تھے کہ اگر تو اپنی ہٹ سے باز نہ آیا تو یہ بلا تیری سلطنت پر مسلط کی جائے گی، اور ٹھیک ان کے بیان کے مطابق وہی بلا پوری سلطنت پر نازل ہو جاتی تھی، تو اس صورت میں صرف ایک دیوانہ یا ایک سخت ہٹ دھرم آدمی ہی یہ کہہ سکتا تھا کہ ان بلاؤں کا نزول ربّ السٰموات والارض کے سوا کسی اور کی کارستانی کا نتیجہ ہے۔

۱۱۶- یعنی میں تو سحر زدہ نہیں ہوں مگر تو ضرور شامت زدہ ہے۔ تیرا ان خدائی نشانیوں کے پے درپے دیکھنے کے بعد بھی اپنی ہٹ پر قائم رہنا صاف بتا رہا ہے کہ تیری شامت آ گئی ہے۔

۱۱۷- یہ ہے اصل غرض اس قصے کو بیان کرنے کی۔ مشرکین مکہ اس فکر میں تھے کہ مسلمانوں کو اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سرزمین عرب سے نا پید کر دیں۔ اس پر انہیں یہ سنایا جا رہا ہے کہ یہی کچھ فرعون نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کے ساتھ کر نا چاہا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ فرعون اور اس کے ساتھی ناپید کر دیے گئے اور زمین پر موسیٰ اور پیروانِ موسیٰ ہی بسائے گئے۔ اب اگر اسی روش پر تم چلو گے تو تمہارا انجام اس سے کچھ بھی مختلف نہ ہو گا۔

۱۱۸- یعنی تمہارے ذمے یہ کام نہیں کیا گیا ہے کہ جو لوگ قرآن کی تعلیمات کو جانچ کر حق اور باطل کا فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اُن کو تم چشمے نکال کر اور باغ اُگا کر اور آسمان پھاڑ کر کسی نہ کسی طرح مومن بنانے کی کوشش کرو، بلکہ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے حق بات پیش کر دو اور پھر انہیں صاف صاف بتا دو کہ جو اسے مانے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو نہ مانے گا وہ بُرا انجام دیکھے گا۔

۱۱۹- یہ مخالفین کے اس شبہہ کا جواب ہے کہ اللہ میاں کو پیغام بھیجنا تھا تو پورا پیغام بیک وقت کیوں نہ بھیج دیا ؟ یہ آخر ٹھیر ٹھیر کر تھوڑا تھوڑا پیغام کیوں بھیجا جا رہا ہے ؟ کیا خدا کو بھی انسانوں کی طرح سوچ سوچ کر بات کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ؟ اس شبہہ کا مفصل جواب سورہ نحل آیات ۱۰۱-۱۰۲ میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں، اس لیے یہاں اس کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے۔

۱۲۰- یعنی وہ اہل کتاب جو آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہیں اور ان کے انداز کلام کو پہچانتے ہیں۔

۱۲۱- یعنی قرآن کو سن کر وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ جس نبی کے آنے کا وعدہ پچھلے انبیاء کے صحیفوں میں کیا گیا تھا وہ آگیا ہے۔

۱۲۲- صالحین اہل کتاب کے اس رویے کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً آل عمران آیات ۱۱۳ تا ۱۱۵، ۱۹۹۔ اور المائدہ آیات ۸۲-۸۵۔

 

اے نبیؐ، اِن سے کہو، اللہ کہہ کر پُکارو یا رحمان کہہ کر، جس نام سے بھی پُکارو اُس کے لیے سب اچھے نام ہیں۔۱۲۳ اور اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے، ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کرو۔۱۲۴ اور کہو ’’تعریف ہے اُس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ کوئی بادشاہی میں اُس کا شریک ہے، اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو۔‘‘ ۱۲۵ اور اُس کی بڑائی بیان کرو، کمال درجے کی بڑائی۔ ؏ ۱۲
 

۱۲۳- یہ جواب ہے مشرکین کے اس اعتراض کا کہ خالق کے لیے ’’اللہ‘‘ کا نام تو ہم نے سنا تھا، مگر یہ ’’رحمان‘‘ کا نام تم نے کہاں سے نکالا؟ ان کے ہاں چونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ نام رائج نہ تھا اس لیے وہ اس پر ناک بَھوں چڑھاتے تھے۔

۱۲۴- ابن عباس کا بیان ہے کہ مکے میں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم یا دوسرے صحابہ کرام ؓ نماز پڑھتے وقت بلند آواز سے قرآن پڑھتے تھے تو کفار شور مچانے لگتے اور بسا اوقات گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دیتے تھے۔ اس پر حکم ہوا کہ نہ تو اتنے زور سے پڑھو کہ کفار سن کر ہجوم کریں، اور نہ اس قدر آہستہ پڑھو کہ تمہارے اپنے ساتھی بھی نہ سن سکیں۔ یہ حکم صرف انہی حالات کے لیے تھا۔ مدینے میں جب حالات بدل گئے تو یہ حکم باقی نہ رہا۔ البتہ جب کبھی مسلمانوں کو مکے کے سے حالات سے دوچار ہونا پڑے، انہیں اسی ہدایت کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔

۱۲۵- اس فقرے میں ایک لطیف طنز ہے ان مشرکین کے عقائد پر جو مختلف دیوتاؤں اور بزرگ انسانوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ میاں نے اپنی خدائی کے مختلف شعبے یا اپنی سلطنت کے مختلف علاقے ان کے انتظام میں دے رکھے ہیں۔ اس بیہودہ عقیدے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنی خدائی کا بار سنبھالنے سے عاجز ہے اس لیے وہ اپنے پشتیبان تلاش کر رہا ہے۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ اللہ عاجز نہیں ہے کہ اسے کچھ ڈپٹیوں اور مددگاروں کی حاجت ہو۔