خزائن العرفان

سورة بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء

اللہ کے  نام سے  شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ بنی اسرائیل اس کا نام سورۂ اسراء اور سورۂ سبحان بھی ہے یہ سورت مکّیہ ہے مگر آٹھ آیتیں وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ سے نَصِیْراً تک۔ یہ قول قتادہ کا ہے۔ بیضاوی نے جزم کیا ہے کہ یہ سورت تمام کی تمام مکیہ ہے، اس سورت میں بارہ ۱۲ رکوع اور ایک سو دس آیتیں بصری ہیں اور کوفی ایک سو گیارہ ۱۱۱ اور پانچ سو تینتیس ۵۳۳ کلمے اور تین ہزار چار سو ساٹھ ۳۴۶۰ حرف ہیں۔

(۱) پاکی ہے  اسے  (ف ۲) جو اپنے  بندے  (ف ۳) کو،  راتوں رات لے  گیا (ف ۴) مسجد حرام سے  مسجد اقصیٰ تک (ف ۵) جس کے  گرداگرد ہم نے  برکت رکھی (ف ۶) کہ ہم اسے  اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔

۲                 منزّہ ہے اس کی ذات ہر عیب و نقص سے۔

۳                 محبوب محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

۴                 شبِ معراج۔

۵                 جس کا فاصلہ چالیس منزل یعنی سوا مہینہ سے زیادہ کی راہ ہے۔ شانِ نُزول : جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم شبِ معراج درجاتِ عالیہ و مراتبِ رفیعہ پر فائز ہوئے تو رب عزّوجلَّ نے خِطاب فرمایا اے محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) یہ فضیلت و شرف میں نے تمہیں کیوں عطا فرمایا ؟ حضور نے عرض کیا اس لئے کہ تو نے مجھے عبدیّت کے ساتھ اپنی طرف منسوب فرمایا۔ اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازِل ہوئی۔ (خازن)۔

۶                 دینی بھی دنیوی بھی کہ وہ سرزمینِ پاک وحی کی جائے نزول اور انبیاء کی عبادت گاہ اور ان کا جائے قیام و قبلۂ عبادت ہے اور کثرتِ انہار و اشجار سے وہ زمین سرسبز و شاداب اور میووں اور پھلوں کی کثرت سے بہترین عیش و راحت کا مقام ہے۔ معراج شریف نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ایک جلیل معجِزہ اور اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور اس سے حضور کا وہ کمال قرب ظاہر ہوتا ہے جو مخلوقِ الٰہی میں آپ کے سوا کسی کو میسّر نہیں۔ نبوّت کے بارہویں سال سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم معراج سے نوازے گئے مہینہ میں اختلاف ہے مگر اشہر یہ ہے کہ ستائیسویں رجب کو معراج ہوئی مکّہ مکرّمہ سے حضور پُر نور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا بیت المقدس تک شب کے چھوٹے حصّہ میں تشریف لے جانا نصِّ قرآنی سے ثابت ہے اس کا منکِر کافر ہے اور آسمانوں کی سیر اور منازلِ قرب میں پہنچنا احادیثِ صحیحہ معتمدہ مشہورہ سے ثابت ہے جو حدِّ تواتر کے قریب پہنچ گئی ہیں اس کا منکِر گمراہ ہے، معراج شریف بحالتِ بیداری جسم و روح دونوں کے ساتھ واقع ہوئی یہی جمہور اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے اور اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی کثیر جماعتیں اور حضور کے اجلّہ اصحاب اسی کے معتقد ہیں۔ نصوصِ آیات و احادیث سے بھی یہی مستفاد ہوتا ہے، تِیرہ دماغان فلسفہ کے اوہامِ فاسدہ مَحض باطل ہیں قدرتِ الٰہی کے معتقد کے سامنے وہ تمام شبہات مَحض بے حقیقت ہیں۔ حضرت جبریل کا براق لے کر حاضر ہونا، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو غایت اکرام و احترام کے ساتھ سوار کر کے لے جانا، بیت المقدس میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا انبیاء کی امامت فرمانا پھر وہاں سے سیرِ سمٰوٰت کی طرف متوجہ ہونا، جبریلِ امین کا ہر ہر آسمان کے دروازہ کو کھلوانا، ہر ہر آسمان پر وہاں کے صاحبِ مقام انبیاء علیہم السّلام کا شرفِ زیارت سے مشرف ہونا اور حضور کی تکریم کرنا، احترام بجا لانا، تشریف آوری کی مبارک بادیں دینا، حضور کا ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف سیر فرمانا، وہاں کے عجائب دیکھنا اور تمام مقرّبین کی نہایتِ منازل سِدرۃ المنتہیٰ کو پہنچنا، جہاں سے آگے بڑھنے کی کسی مَلَکِ مقرّب کو بھی مجال نہیں ہے، جبریلِ امین کا وہاں معذرت کر کے رہ جانا، پھر مقامِ قربِ خاص میں حضور کا ترقیاں فرمانا اور اس قربِ اعلیٰ میں پہنچنا کہ جس کے تصوّر تک خَلق کے اوہام و افکار بھی پرواز سے عاجز ہیں، وہاں موردِ رحمت و کرم ہونا اور انعاماتِ الٰہیہ اور خصائصِ نِعَم سے سرفراز فرمایا جانا اور ملکوتِ سمٰوٰت و ارض اور ان سے افضل و برتر علوم پانا اور امّت کے لئے نمازیں فرض ہونا، حضور کا شفاعت فرمانا، جنّت و دوزخ کی سیریں اور پھر اپنی جگہ واپس تشریف لانا اور اس واقعہ کی خبریں دینا، کُفّار کا اس پر شورشیں مچانا اور بیت المقدس کی عمارت کا حال اور مُلکِ شام جانے والے قافلوں کی کیفیّتیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دریافت کرنا، حضور کا سب کچھ بتانا، اور قافلوں کے جو احوال حضور نے بتائے قافلوں کے آنے پر ان کی تصدیق ہونا، یہ تمام صحاح کی معتبر احادیث سے ثابت ہے اور بکثرت احادیث ان تمام امور کے بیان اور ان کی تفاصیل سے مملو ہیں۔

(۲ )  اور ہم نے  موسیٰ کو کتاب (ف ۷) عطا فرمائی اور اسے  بنی اسرائیل کے  لیے  ہدایت کیا کہ میرے   سوا کسی کو کارساز نہ ٹھہراؤ۔

۷                 یعنی توریت۔

(۳ ) اے  ان کی اولاد! جن کو ہم نے  نوح کے  ساتھ (ف ۸) سوار کیا بیشک وہ بڑا شکرا گزار بندہ تھا (ف ۹)

۸                 کشتی میں۔

۹                 یعنی حضرت نوح علیہ السلام کثیر الشکر تھے جب کچھ کھاتے، پیتے، پہنتے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے اور اس کا شکر بجا لاتے اور ان کی ذُرِّیَّت پر لازم ہے کہ وہ اپنے جدِّ محترم کے طریقہ پر قائم رہے۔

(۴ ) اور ہم نے  بنی اسرائیل کو کتاب (ف ۱۰) میں وحی بھیجی کہ ضرور تم زمین میں دوبارہ فساد مچاؤ گے  (ف ۱۱) اور ضرور بڑا غرور کرو گے  (ف ۱۲)

۱۰               توریت۔

۱۱               اس سے زمینِ شام و بیت المقدس مراد ہے اور دو مرتبہ کے فساد کا بیان اگلی آیت میں آتا ہے۔

۱۲               اور ظلم و بغاوت میں مبتلا ہو گے۔

(۵ )  پھر جب ان میں پہلی بار (ف ۱۳) کا وعدہ آیا (ف ۱۴) ہم نے   تم پر اپنے  بندے  بھیجے  سخت لڑائی والے  (ف ۱۵) تو وہ شہروں کے  اندر تمہاری تلاش کو گھسے  (ف ۱۶) اور یہ ایک وعدہ تھا (ف ۱۷) جسے  پورا ہونا تھا۔

۱۳               کے فساد کے عذاب۔

۱۴               اور انہوں نے احکامِ توریت کی مخالفت کی اور محارم و مَعاصی کا ارتکاب کیا اور حضرت شعیا پیغمبر علیہ السلام (و بقولے) حضرت ارمیا کو قتل کیا۔ ( بیضاوی وغیرہ)۔

۱۵               بہت زور و قوّت والے ان کو تم پر مسلّط کیا اور وہ سنجاریب اور اس کے افواج ہیں یا بُخْتِ نَصَر یا جالوت جنہوں نے بنی اسرائیل کے عُلَماء کو قتل کیا، توریت کو جَلایا، مسجد کو خراب کیا اور ستّر ہزار کو ان میں سے گرفتار کیا۔

۱۶               کہ تمہیں لوٹیں اور قتل و قید کریں۔

۱۷               عذاب کا کہ لازم تھا۔

(۶ )  پھر ہم نے  ان پر اُلٹ کر تمہارا حملہ کر دیا (ف ۱۸) اور تم کو مالوں اور بیٹوں سے  مدد دی اور تمہارا جتھا بڑھا دیا۔

۱۸               جب تم نے توبہ کی اور تکبُّر و فساد سے باز آئے تو ہم نے تم کو دولت دی اور ان پر غلبہ عنایت فرمایا جو تم پر مسلّط ہو چکے تھے۔

(۷ )  اگر تم بھلائی کرو گے  اپنا بھلا کرو گے   (ف ۱۹) اور اگر بُرا کرو گے  تو اپنا، پھر جب دوسری بار کا وعدہ آیا (ف ۲۰) کہ دشمن تمہارا منہ بگاڑ دیں (ف ۲۱) اور مسجد میں داخل ہوں (ف ۲۲) جیسے  پہلی بار داخل ہوئے  تھے  (ف ۲۳) اور جس چیز پر قابو پائیں (ف ۲۴) تباہ کر کے  برباد کر دیں۔

۱۹               تمہیں اس بھلائی کی جزا ملے گی۔

۲۰               اور تم نے پھر فساد برپا کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے درپے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں بچایا اور اپنی طرف اٹھا لیا اور تم نے حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہم السلام کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے تم پر اہلِ فارَس اور روم کو مسلّط کیا کہ تمہارے وہ دشمن تمہیں قتل کریں، قید کریں اور تمہیں اتنا پریشان کریں۔

۲۱               کہ رنج و پریشانی کے آثار تمہارے چہروں سے ظاہر ہوں۔

۲۲               یعنی بیت المقدس میں اور اس کو ویران کریں۔

۲۳               اور اس کو ویران کیا تھا تمہارے پہلے فساد کے وقت۔

۲۴               بلادِ بنی اسرائیل سے اس کو۔

(۸ )  قریب ہے  کہ تمہارا رب تم پر رحم  کرے  (ف ۲۵) اور اگر تم پھر شرارت کرو (ف ۲۶) تو ہم پھر عذاب کریں گے  (ف ۲۷) اور ہم نے  جہنم کو کافروں کا قید خانہ بنایا ہے۔

۲۵               دوسری مرتبہ کے بعد بھی اگر تم دوبارہ توبہ کرو اور مَعاصی سے باز آؤ۔

۲۶               تیسری مرتبہ۔

۲۷               چنانچہ ایسا ہوا اور انہوں نے پھر اپنی شرارت کی طرف عود کیا اور زمانۂ پاکِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم میں حضورِ اقدس علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کی تکذیب کی تو قیامت تک کے لئے ان پر ذلّت لازم کر دی گئی اور مسلمان ان پر مسلّط فرما دیئے گئے جیسا کہ قرآنِ کریم میں یہود کی نسبت وارد ہوا  ضُرِبَتْ عَلِیْھِمُ الذِّلَّۃُ  الآیۃ۔

(۹ )  بیشک یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے  جو  سب سے  سیدھی ہے  (ف ۲۸) اور خوشی سناتا ہے  ایمان والوں کو جو اچھے  کام کریں کہ ان کے  لیے  بڑا ثواب ہے

۲۸               وہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا ہے۔

(۱۰ )  اور یہ کہ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے  ہم نے  ان کے  لیے  دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

(۱۱ )  اور آدمی برائی کی دعا کرتا ہے  (ف ۲۹) جیسے  بھلائی مانگتا ہے  (ف ۳۰) اور آدمی بڑا جلد باز ہے  (ف ۳۱)

۲۹               اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے اور اپنے مال کے لئے اور اپنی اولاد کے لئے اور غصّہ میں آ کر ان سب کو کوستا رہے اور ان کے لئے بد دعائیں کرتا ہے۔

۳۰               اگر اللہ تعالیٰ اس کی یہ بددعا قبول کر لے تو وہ شخص یا اس کے اہل و مال ہلاک ہو جائیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول نہیں فرماتا۔

۳۱               بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ اس آیت میں انسان سے کافِر مراد ہے اور برائی کی دعا سے اس کا عذاب کی جلدی کرنا اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نضر بن حارث کافِر نے کہا یاربّ اگر یہ دینِ اسلام تیرے نزدیک حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتّھر برسا یا درد ناک عذاب بھیج، اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ دعا قبول کر لی اور اس کی گردن ماری گئی۔

(۱۲ ) اور ہم نے  رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا (ف ۳۲) تو رات کی نشانی مٹی ہوئی رکھی (ف ۳۳) اور دن کی نشانیاں دکھانے  وا لی (ف ۳۴) کہ اپنے  کا فضل تلاش کرو (ف ۳۵) اور (ف ۳۶) برسوں کی گنتی اور حساب جانو (ف ۳۷) اور ہم نے  ہر چیز خوب جدا جدا ظاہر فرما دی (ف ۳۸)

۳۲               اپنی وحدانیّت و قدرت پر دلالت کرنے والی۔

۳۳               یعنی شب کو تاریک کیا تاکہ اس میں آرام کیا جائے۔

۳۴               روشن کہ اس میں سب چیزیں نظر آئیں۔

۳۵               اور کسب و معاش کے کام بآسانی انجام دے سکو۔

۳۶               رات دن کے دورے سے۔

۳۷               دینی و دنیوی کاموں کے اوقات کا۔

۳۸               خواہ اس کی حاجت دین میں ہو یا دنیا میں۔ مدعا یہ ہے کہ ہر ایک چیز کی تفصیل فرما دی جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا مَا فَرَّ طْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْءٍ ہم نے کتاب میں کچھ چھوڑ نہ دیا اور ایک اور آیت میں ارشاد کیا وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْءٍ غرض ان آیات سے ثابت ہے کہ قرآنِ کریم میں جمیع اشیاء کا بیان ہے۔ سبحان اللہ کیا کتاب ہے کیسی اس کی جامعیّت۔ (جمل، خازن، مدارک وغیرہ)۔

(۱۳ ) اور ہر انسان کی قسمت ہم نے  اس کے  گلے  سے  لگا دی (ف ۳۹) اور اس کے  لیے  قیامت کے  دن ایک نوشتہ نکا لیں گے  جسے  کھلا ہوا پائے  گا (ف ۴۰)

۳۹               یعنی جو کچھ اس کے لئے مقدر کیا گیا ہے خیر یا شر، سعادت یا شقاوت وہ اس کو اس طرح لازم ہے جیسے گلے کا ہار جہاں جائے ساتھ رہے کبھی جدا نہ ہو۔ مجاہد نے کہا کہ ہر انسان کے گلے میں اس کی سعادت یا شقاوت کا نوِشتہ ڈال دیا جاتا ہے۔

۴۰               وہ اس کا اعمال نامہ ہو گا۔

(۱۴ )  فرمایا جائے  گا کہ اپنا نامہ (نامہٴ اعمال) پڑھ آج تو خود ہی اپنا حساب  کرنے  کو بہت ہے۔

(۱۵ )  جو راہ پر آیا وہ اپنے  ہی بھلے  کو راہ پر آیا (ف ۴۱) اور جو  بہکا تو اپنے  ہی برے  کو بہکا (ف ۴۲) اور کوئی بوجھ اٹھانے  وا لی جان دوسرے  کا بوجھ نہ اٹھائے  گی (ف ۴۳) اور ہم عذاب کرنے  والے  نہیں جب تک رسول نہ بھیج لیں (ف ۴۴)

۴۱               اس کا ثواب وہی پائے گا۔

۴۲               اس کے بہکنے کا گناہ اور وبال اس پر۔

۴۳               ہر ایک کے گناہوں کا بار اسی پر ہو گا۔

۴۴               جو اُمّت کو اس کے فرائض سے آگا ہ فرمائے اور راہِ حق ان پر واضح کرے اور حُجّت قائم فرمائے۔

(۱۶ )  اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے  ہیں اس کے  خوشحالوں (ف ۴۵) پر احکام بھیجتے  ہیں پھر وہ اس میں بے  حکمی کرتے  ہیں تو اس پر بات پوری ہو جاتی ہے  تو ہم اسے  تباہ کر کے  برباد کر دیتے  ہیں۔

۴۵               اور سرداروں۔

(۱۷ )  اور ہم نے  کتنی ہی سنگتیں (قومیں ) (ف ۴۶) نوح کے  بعد ہلاک کر دیں (ف ۴۷) اور تمہارا رب کافی ہے  اپنے  بندوں کے  گناہوں سے  خبردار دیکھنے  والا (ف ۴۸)

۴۶               یعنی تکذیب کرنے والی اُمّتیں۔

۴۷               مثل عاد و ثمود وغیرہ کے۔

۴۸               ظاہر و باطن کا عالَم اس سے کچھ چھُپایا نہیں جا سکتا۔

(۱۸ )  جو یہ جلدی وا لی چاہے  (ف ۴۹) ہم اسے  اس میں جلد دے  دیں جو چاہیں جسے  چاہیں (ف ۵۰) پھر اس کے  لیے  جہنم کر دیں کہ اس میں جائے  مذمت کیا ہوا دھکے  کھاتا۔

۴۹               یعنی دنیا کا طلب گار ہو۔

۵۰               یہ ضروری نہیں کہ طالبِ دنیا کی ہر خواہش پوری کی جائے اور اسے دیا ہی جائے ا ور جو وہ مانگے وہی دیا جائے ایسا نہیں ہے بلکہ ان میں سے جسے چاہتے ہیں دیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں دیتے ہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ محروم کر دیتے ہیں، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ بہت چاہتا ہے اور تھوڑا دیتے ہیں، کبھی ایسا کہ عیش چاہتا ہے تکلیف دیتے ہیں، ان حالتوں میں کافِر دنیا و آخرت دونوں کے ٹوٹے میں رہا اور اگر دنیا میں اس کو اس کی پوری مراد دے دی گئی تو آخرت کی بدنصیبی و شقاوت جب بھی ہے بخلاف مومن کے جو آخرت کا طلب گار ہے اگر وہ دنیا میں فقر سے بھی بسر کر گیا تو آخرت کی دائمی نعمت اس کے لئے ہے اور اگر دنیا میں بھی فضلِ الٰہی سے اس کو عیش ملا تو دونوں جہان میں کامیاب، غرض مومن ہر حال میں کامیاب ہے اور کافِر اگر دنیا میں آرام پا بھی لے تو بھی کیا ؟کیونکہ۔

(۱۹ ) اور جو آخرت چاہے  اور اس کی سی کوشش کرے  (ف ۵۱) اور ہو ایمان والا تو انہیں کی کوشش ٹھکانے  لگی، (ف ۵۲)

۵۱               اور عملِ صالح بجا لائے۔

۵۲               اس آیت سے معلوم ہوا کہ عمل کی مقبولیّت کے لئے تین چیزیں درکار ہیں ایک تو طالبِ آخرت ہونا یعنی نیّت نیک، دوسرے سعی یعنی عمل کو باہتمام اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنا، تیسری ایمان جو سب سے زیادہ ضروری ہے۔

(۲۰ )  ہم سب کو مدد دیتے  ہیں اُن کو بھی (ف ۵۳) اور  اُن کو بھی، تمہارے  رب کی عطا سے  (ف ۵۵) اور تمہارے  رب  کی عطا پر روک نہیں، (ف ۵۶)

۵۳               جو دنیا چاہتے ہیں۔

۵۴               جو طالبِ آخرت ہیں۔

۵۵               دنیا میں سب کو روزی دیتے ہیں اور انجام ہر ایک کا اس کے حسبِ حال۔

۵۶               دنیا میں سب اس سے فیض اٹھاتے ہیں نیک ہوں یا بد۔

(۲۱ ) دیکھو ہم نے  ان میں ایک کو ایک پر کیسی بڑائی دی (ف ۵۷) اور بیشک آخرت درجوں میں سب سے  بڑی اور فضل میں سب سے  اعلیٰ ہے۔

۵۷               مال و کمال و جاہ و ثروت میں۔

(۲۲ )  اے  سننے  والے  اللہ کے   ساتھ دوسرا  خدا  نہ ٹھہرا کہ تُو بیٹھ رہے  گا مذمت کیا جاتا بیکس (ف ۵۸)

۵۸               بے یار و مددگار۔

(۲۳ )  اور تمہارے  رب نے  حکم فرمایا کہ اس کے  سوا کسی کو نہ پُوجو اور ماں باپ کے  ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر تیرے  سامنے  ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے  کو پہنچ جائیں (ف ۵۹) تو ان سے  ’ہُوں‘ نہ کہنا (ف ۶۰) اور انہیں نہ جھڑکنا  اور ان سے  تعظیم کی بات کہنا (ف ۶۱)

۵۹               ضعف کا غلبہ ہو، اعضا میں قوّت نہ رہے اور جیسا تو بچپن میں ان کے پاس بے طاقت تھا ایسے ہی وہ آخرِ عمر میں تیرے پاس ناتواں رہ جائیں۔

۶۰               یعنی ایسا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالنا جس سے یہ سمجھا جائے کہ ان کی طرف سے طبیعت پر کچھ گرانی ہے۔

۶۱               اور حسنِ ادب کے ساتھ ان سے خِطاب کرنا۔ مسئلہ : ماں باپ کو ان کا نام لے کر نہ پکارے یہ خلافِ ادب ہے اور اس میں ان کی دل آزاری ہے لیکن وہ سامنے نہ ہوں تو ان کا ذکر نام لے کر کرنا جائز ہے۔

مسئلہ : ماں باپ سے اس طرح کلام کرے جیسے غلام و خادم آقا سے کرتا ہے۔

(۲۴ )  اور ان کے  لیے  عاجزی کا بازو بچھا (ف ۶۲) نرم دلی سے  اور عرض کر کہ اے  میرے  رب تو ان دونوں پر رحم کر، جیسا کہ ان دنوں نے  مجھے  چھٹپن (بچپن) میں پالا (ف ۶۳)

۶۲               یعنی بہ نرمی و تواضع پیش آ اور ان کے ساتھ تھکے وقت میں شفقت و مَحبت کا برتاؤ کر کہ انہوں نے تیری مجبوری کے وقت تجھے مَحبت سے پرورش کیا تھا اور جو چیز انہیں درکار ہو وہ ان پر خرچ کرنے میں دریغ نہ کر۔

۶۳               مدعا یہ ہے کہ دنیا میں بہتر سلوک اور خدمت میں کتنا بھی مبالغہ کیا جائے لیکن والدین کے احسان کا حق ادا نہیں ہوتا، اس لئے بندے کو چاہئے کہ بارگاہِ الٰہی میں ان پر فضل و رحمت فرمانے کی دعا کرے اور عرض کرے کہ یاربّ میری خدمتیں ان کے احسان کی جزا نہیں ہو سکتیں تو ان پر کرم کر کہ ان کے احسان کا بدلہ ہو۔

مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا جائز اور اسے فائدہ پہنچانے والی ہے، مُردوں کے ایصالِ ثواب میں بھی ان کے لئے دعائے رحمت ہوتی ہے لہٰذا اس کے لئے یہ آیت اصل ہے۔

مسئلہ : والدین کافِر ہوں تو ان کے لئے ہدایت و ایمان کی دعا کرے کہ یہی ان کے حق میں رحمت ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ والدین کی رضا میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور ان کی ناراضی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے، دوسری حدیث میں ہے والدین کا فرمانبردار جہنّمی نہ ہو گا اور ان کا نافرمان کچھ بھی عمل کرے گرفتارِ عذاب ہو گا، ایک اور حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا والدین کی نافرمانی سے بچو اس لئے کہ جنّت کی خوشبو ہزار برس کی راہ تک آتی ہے اور نافرمان وہ خوشبو نہ پائے گا، نہ قاطعِ رحم، نہ بوڑھا زنا کار، نہ تکبُّر سے اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا۔

(۲۵ )  تمہارا  رب خوب جانتا ہے  جو تمہارے  دلوں میں ہے  (ف ۶۴) اگر تم لائق ہوئے  (ف ۶۵) تو بیشک وہ توبہ کرنے  والوں کو بخشنے  والا ہے۔

۶۴               والدین کی اطاعت کا ارادہ اور ان کی خدمت کا ذوق۔

۶۵               اور تم سے والدین کی خدمت میں تقصیر واقع ہوئی تو تم نے توبہ کی۔

(۲۶ )  اور رشتہ داروں کو ان کا حق دے  (ف ۶۶) اور مسکین اور مسافر کو (ف ۶۷) اور فضول نہ اڑا (ف ۶۸)

۶۶               ان کے ساتھ صلہ رحمی کر اور محبت اور میل جول اور خبر گیری اور موقع پر مدد اور حسنِ معاشرت۔

مسئلہ : اور اگر وہ محارم میں سے ہوں اور محتاج ہو جائیں تو ان کا خرچ اٹھانا یہ بھی ان کا حق ہے اور صاحبِ استطاعت رشتہ دار پر لازم ہے۔ بعض مفسِّرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا ہے کہ رشتہ داروں سے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ قرابت رکھنے والے مراد ہیں اور ان کا حق خُمس دینا اور ان کی تعظیم و توقیر بجا لانا ہے۔

۶۷               ان کا حق دو یعنی زکوٰۃ۔

۶۸               یعنی ناجائز کام میں خرچ نہ کر۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تبذیر مال کا ناحق میں خرچ کرنا ہے۔

(۲۷ ) بیشک اڑانے  والے  شیطانوں کے  بھائی ہیں (ف ۶۹) اور شیطان اپنے  رب کا بڑا ناشکرا ہے  (ف ۷۰)

۶۹               کہ ان کی راہ چلتے ہیں۔

۷۰               تو اس کی راہ اختیار کرنا نہ چاہئے۔

(۲۸ )  اور اگر تو ان سے  (ف ۷۱) منہ پھیرے  اپنے  رب کی رحمت کے  انتظار میں جس کی تجھے  امید ہے  تو ان سے  آسان بات کہہ (ف ۷۲)

۷۱               یعنی رشتہ داروں اور مسکینوں اور مسافروں سے۔ شانِ نُزول : یہ آیت مہجع و بلال و صہیب و سالم و خبّاب اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شان میں نازِل ہوئی جو وقتاً فوقتاً سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے اپنے حوائج و ضروریات کے لئے سوال کرتے رہتے تھے، اگر کسی وقت حضور کے پاس کچھ نہ ہوتا تو آپ حیاءً ان سے اعراض کرتے اور خاموش ہو جاتے بایں انتظار کہ اللہ تعالیٰ کچھ بھیجے تو انہیں عطا فرمائیں۔

۷۲               یعنی ان کی خوش دلی کے لئے ان سے وعدہ کیجئے یا ان کے حق میں دعا فرمائیے۔

(۲۹ )  اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے  بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے  کہ تو بیٹھ رہے  ملامت کیا ہوا تھکا ہوا (ف ۷۳)

۷۳               یہ تمثیل ہے جس سے انفاق یعنی خرچ کرنے میں اعتدال ملحوظ رکھنے کی ہدایت منظور ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ نہ تو اس طرح ہاتھ روکو کہ بالکل خرچ ہی نہ کرو اور یہ معلوم ہو گویا کہ ہاتھ گلے سے باندھ دیا گیا ہے، دینے کے لئے ہل ہی نہیں سکتا ایسا کرنا تو سببِ ملامت ہوتا ہے کہ بخیل کنجوس کو سب بُرا کہتے ہیں اور نہ ایسا ہاتھ کھولو کہ اپنی ضروریات کے لئے بھی کچھ باقی نہ رہے۔

شانِ نُزول : ایک مسلمان بی بی کے سامنے ایک یہود یہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سخاوت کا بیان کیا اور اس میں اس حد تک مبالغہ کیا کہ حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ترجیح دے دی اور کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کی سخاوت اس انتہا پر پہنچی ہوئی تھی کہ اپنے ضروریات کے علاوہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتا سائل کو دے دینے سے دریغ نہ فرماتے، یہ بات مسلمان بی بی کو ناگوار گزری اور انہوں نے کہا کہ انبیاء علیہم السلام سب صاحبِ فضل و کمال ہیں، حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کے جود و نوال میں کچھ شبہہ نہیں لیکن سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا مرتبہ سب سے اعلیٰ ہے اور یہ کہہ کر انہوں نے چاہا کہ یہودیہ کو حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے جود و کرم کی آزمائش کرا دی جائے چنانچہ انہوں نے اپنی چھوٹی بچّی کو حضور علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کی خدمت میں بھیجا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے قمیص مانگ لائے، اس وقت حضور کے پاس ایک ہی قمیص تھی جو زیبِ تن تھی وہی اتار کر عطا فرما دی اور اپنے آپ دولت سرائے اقدس میں تشریف رکھی شرم سے باہر تشریف نہ لائے یہاں تک کہ اذان کا وقت آیا، اذان ہوئی، صحابہ نے انتظار کیا، حضور تشریف نہ لائے تو سب کو فکر ہوئی، حال معلوم کرنے کے لئے دولت سرائے اقدس میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ جسمِ مبارک پر قمیص نہیں ہے۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی۔

(۳۰ )  بیشک تمہارا رب جسے  چاہے  رزق کشادہ دیتا اور (ف ۷۴) کستا ہے  (تنگی دیتا ہے ) بیشک وہ اپنے  بندوں کو خوب جانتا (ف ۷۵) دیکھتا ہے۔

۷۴               جسے چاہے اس کے لئے تنگی کرتا اور اس کو۔

۷۵               اور ان کے احوال و مصالح کو۔

(۳۱ )  اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے  ڈر سے  (ف ۷۶) ہم انہیں بھی رزق دیں گے  اور تمہیں بھی، بیشک ان کا قتل بڑی خطا ہے۔

۷۶               زمانۂ جاہلیّت میں لوگ اپنی لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیا کرتے تھے اور اس کے کئی سبب تھے، ناداری و مفلسی کا خوف، لوٹ کا خوف، اللہ تعالیٰ نے اس کی ممانعت فرمائی۔

(۳۲ ) اور بدکاری کے  پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے  حیائی ہے، اور بہت ہی بری راہ۔

(۳۳ )  اور کوئی جان جس کی حرمت اللہ نے  رکھی ہے  ناحق نہ مارو، اور جو ناحق نہ مارا جائے  تو بیشک ہم نے  اس کے  وارث کو قابو دیا (ف ۷۷) تو وہ قتل میں حد سے  نہ بڑھے  (ف ۷۸) ضرور اس کی مدد ہونی ہے  (ف ۷۹)

۷۷               قصاص لینے کا۔

مسئلہ : آیت سے ثابت ہوا کہ قصاص لینے کا حق ولی کو ہے اور وہ بہ ترتیبِ عصبات ہیں۔

 مسئلہ : اور جس کا ولی نہ ہو اس کا ولی سلطان ہے۔

۷۸               اور زمانۂ جاہلیّت کی طرح ایک مقتول کے عوض میں کئی کئی کو یا بجائے قاتل کے اس کی قوم و جماعت کے اور کسی شخص کو قتل نہ کرے۔

۷۹               یعنی ولی کی یا مقتول مظلوم کی یا اس شخص کی جس کو ولی ناحق قتل کرے۔

(۳۴ )  اور یتیم کے  مال کے  پاس تو جاؤ مگر اس راہ سے  جو سب سے  بھلی ہے  (ف ۸۰) یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچے  (ف ۸۱) اور عہد پورا کرو (ف ۸۲) بیشک عہد سے  سوال ہونا ہے، اور ماپو  تو پورا ماپو اور برابر ترازو سے  تولو، یہ بہتر ہے  اور اس کا انجام اچھا۔

۸۰               وہ یہ ہے کہ اس کی حفاظت کرو اور اس کو بڑھاؤ۔

۸۱               اور وہ اٹھارہ (۱) سال کی عمر ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک یہی مختار ہے اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علامات ظاہر نہ ہونے کی حالت میں انتہائے مدّتِ بلوغ اسی سے تمسُّک کر کے اٹھارہ سال قرار دی۔ (احمدی) (۱) لیکن فتوی اس پر ہے کہ انتہائے مدّتِ بلوغ لڑکا لڑکی دونوں کے لئے پندرہ سال ہے جبکہ علامتِ بلوغ نہ ظاہر ہوں اور اقلِّ مدّت لڑکی کے لئے نو سال، لڑکے کے لئے بارہ سال ہے۔۱۲ نعمانی۔

۸۲               اللہ کا بھی بندوں کا بھی۔

 (۳۶ )  اور اس بات کے  پیچھے  نہ پڑ جس کا تجھے  علم نہیں (ف ۸۳) بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے  سوال ہونا ہے  (ف ۸۴)

۸۳               یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اسے یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا، جس کو سنا نہ ہو اس کی نسبت نہ کہو کہ میں نے سنا۔ ابنِ حنیفہ سے منقول ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ ا بنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کسی پرو ہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔

۸۴               کہ تم نے ان سے کیا کام لیا۔

(۳۷ )  اور زمین میں اتراتا نہ چل (ف ۸۵) بیشک ہر گز زمین نہ چیر ڈالے  گا، اور ہرگز بلندی میں پہاڑوں کو نہ پہنچے  گا (ف ۸۶)

۸۵               تکبُّر و خود نمائی سے۔

۸۶               معنیٰ یہ ہیں کہ تکبُّر و خود نمائی سے کچھ فائدہ نہیں۔

(۳۸ ) یہ جو کچھ گزرا ان میں کی بُری بات تیرے  رب کو ناپسند ہے۔

(۳۹ )  یہ ان  وحیوں میں سے  ہے  جو تمہارے  رب نے  تمہاری طرف بھیجی حکمت کی باتیں (ف ۸۷) اور اے  سننے  والے  اللہ ساتھ دوسرا خدا نہ ٹھہرا کہ تو جہنم میں پھینکا جائے  گا طعنہ پاتا دھکے  کھاتا۔

۸۷               جن کی صحت پر عقل گواہی دے اور ان سے نفس کی اصلاح ہو ان کی رعایت لازم ہے۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ ان آیات کا حاصلِ توحید اور نیکیوں اور طاعتوں کا حکم دینا اور دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف رغبت دلانا ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا یہ اٹھارہ آیتیں لَاتَجْعَلْ مَعَ اللہِ اِلٰھاً اٰخَرَ سے مَدْحُوْراً تک حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے الواح میں تھیں، ان کی ابتداء توحید کے حکم سے ہوئی اور انتہا شرک کی ممانعت پر۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر حکمت کی اصل توحید و ایمان ہے اور کوئی قول و عمل بغیر اس کے قابلِ پذیرائی نہیں۔

(۴۰ )  کیا تمہارے  رب نے  تم کو بیٹے  چن دیے  اور اپنے  لیے  فرشتوں سے  بیٹیاں بنائیں (ف ۸۸) بیشک تم بڑا بول بولتے  ہو (ف ۸۹)

۸۸               یہ خلافِ حکمت بات کس طرح کہتے ہو۔

۸۹               کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہو جو خواصِ اجسام سے ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک پھر اس میں بھی اپنی بڑائی رکھتے ہو کہ اپنے لئے تو بیٹے پسند کرتے ہو اور اس کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہو،کتنی بے ادبی اور گستاخی ہے۔

(۴۱ )  اور بیشک ہم نے  اس قرآن میں طرح طرح سے  بیان فرمایا (ف ۹۰) کہ وہ سمجھیں (ف ۹۱) اور اس سے  انھیں نہیں بڑھتی مگر نفرت (ف ۹۲)

۹۰               دلیلوں سے بھی، مثالوں سے بھی، حکمتوں سے بھی، عبرتوں سے بھی اور جا بجا اس مضمون کو قِسم قِسم کے پیرایوں میں بیان فرمایا۔

۹۱               اور پند پذیر ہوں۔

۹۲               اور حق سے دوری۔

(۴۲ )  تم فرماؤ اگر اس کے  ساتھ اور خدا ہوتے  جیسا یہ بکتے  ہیں جب تو وہ عرش کے  مالک کی طرف کوئی راہ ڈھونڈ نکالتے  (ف ۹۳)

۹۳               اور ا س سے برسرِ مقابلہ ہوتے جیسا بادشاہوں کا طریقہ ہے۔

(۴۳ )  اسے  پاکی اور برتری ان کی باتوں سے  بڑی برتری۔

(۴۴ )  اس کی پاکی بولتے  ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہیں (ف ۹۴) اور کوئی چیز نہیں (ف ۹۵) جو اسے  سراہتی ہوتی اس کی پاکی نہ بولے  (ف ۹۶) ہاں تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے  (ف ۹۷) بیشک وہ حلم والا بخشنے  والا ہے  (ف ۹۸)

۹۴               زبانِ حال سے اس طرح کہ ان کے وجود صانع کے قدرت و حکمت پر دلالت کرتے ہیں یا زبانِ قال سے اور یہی صحیح ہے، احادیثِ کثیرہ اس پر دلالت کرتی ہیں اور سلف سے یہی منقول ہے۔

۹۵               جماد و نبات و حیوان سے زندہ۔

۹۶               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا ہر زندہ چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے اور ہر چیز کی زندگی اس کے حسبِ حیثیت ہے۔ مفسِّرین نے کہا کہ دروازہ کھولنے کی آواز اور چھت کا چٹخنا یہ بھی تسبیح کرنا ہے اور ان سب کی تسبیح سبحان اللہ و بحمدہ ہے۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی انگُشتِ مبارک سے پانی کے چشمے جاری ہوتے ہم نے دیکھے اور یہ بھی ہم نے دیکھا کہ کھاتے وقت میں کھانا تسبیح کرتا تھا۔ (بخاری شریف) حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ میں اس پتّھر کو پہچانتا ہوں جو میری بعثت کے زمانہ میں مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ (مسلم شریف) ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم لکڑی کے ایک ستون سے تکیہ فرما کر خطبہ فرمایا کرتے تھے جب منبر بنایا گیا اور حضور منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ ستون رویا حضور علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات نے اس پر دستِ کرم پھیرا اور شفقت فرمائی اور تسکین دی۔ (بخاری شریف) ان تمام احادیث سے جماد کا کلام اور تسبیح کرنا ثابت ہوا۔

۹۷               اختلافِ لغات کے باعث یا دشواریِ ادراک کے سبب۔

۹۸               کہ بندوں کی غفلت پر عذاب میں جلدی نہیں فرماتا۔

(۴۵ )  اور اے  محبوب! تم نے  قرآن پڑھا ہم نے  تم پر اور ان میں کہ آخرت پر ایمان ہیں لاتے  ایک چھپا ہوا پردہ کر دیا (ف ۹۹)

۹۹               کہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکیں۔ شانِ نُزول : جب آیت تَبَّتْ یَدَا نازِل ہوئی تو ابولہب کی عورت پتھر لے کر آئی، حضور مع حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تشریف رکھتے تھے، اس نے حضور کو نہ دیکھا اور حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگی، تمہارے آقا کہاں ہیں مجھے معلوم ہوا ہے انہوں نے میری ہجو کی ہے ؟ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا وہ شعر گوئی نہیں کرتے ہیں تو وہ یہ کہتی ہوئی واپس ہوئی کہ میں ان کا سر کچلنے کے لئے یہ پتّھر لائی تھی، حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے عرض کیا کہ اس نے حضور کو دیکھا نہیں ؟ فرمایا میرے اور اس کے درمیان ایک فرشتہ حائل رہا۔ اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازِل ہوئی۔

(۴۶ )  اور ہم نے  ان کے  دلوں پر غلاف ڈال دیے  ہیں کہ اسے  نہ سمجھیں اور ان کے  کانوں میں ٹینٹ (روئی) (ف ۱۰۰) اور جب تم قرآن میں اپنے  اکیلے  رب کی یاد کرتے  ہو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے  ہیں نفرت کرتے۔

۱۰۰             گرانی جس کے باعث وہ قرآن شریف نہیں سنتے۔

(۴۷ )  ہم خوب جانتے  ہیں جس لیے  وہ سنتے  ہیں (ف ۱۰۱) جب تمہاری طرف کان لگاتے  ہیں اور جب آپس میں مشورہ کرتے  ہیں جبکہ ظالم کہتے  ہیں  تم پیچھے  نہیں چلے  مگر ایک ایسے  مرد کے  جس پر جادو ہوا  (ف ۱۰۲)

۱۰۱             یعنی سنتے بھی ہیں تو تمسخُر اور تکذیب کے لئے۔

۱۰۲             تو بعض ان میں سے آپ کو مجنوں کہتے ہیں، بعض ساحر، بعض کاہن، بعض شاعر۔

(۴۸ )  دیکھو انہوں نے  تمہیں کیسی تشبیہیں دیں تو گمراہ ہوئے  کہ راہ نہیں پا سکتے۔

(۴۹ )  اور بولے  کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے  کیا سچ مچ نئے  بن کر اٹھیں گے  (ف ۱۰۳)

۱۰۳             یہ بات انہوں نے بہت تعجب سے کہی اور مرنے اور خاک میں مل جانے کے بعد زندہ کئے جانے کو انہوں نے بہت بعید سمجھا، اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کیا اور اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ارشاد فرمایا۔

 (۵۰ )  تم فرماؤ کہ پتھر یا لوہا ہو جاؤ۔

(۵۱ )  یا اور کوئی مخلوق جو تمہارے  خیال میں بڑی ہو (۱۰۴) تو اب کہیں گے  ہمیں کون پھر پیدا کرتے  گا، تم فرماؤ وہی جس نے  تمہیں پہلی بار پیدا کیا، تو اب تمہاری طرف مسخرگی سے  سر ہِلا کر کہیں گے  یہ کب ہے  (ف ۱۰۵) تم فرماؤ شاید نزدیک ہی ہو۔

۱۰۴             اور حیات سے دور ہو، جان اس سے کبھی متعلق نہ ہوئی ہو تو بھی اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں زندہ کرے گا اور پہلی حالت کی طرف واپس فرمائے گا چہ جائیکہ ہڈیاں اور اس جسم کے ذرّے انہیں زندہ کرنا اس کی قدرت سے کیا بعید ہے، ان سے تو جان پہلے متعلق رہ چکی ہے۔

۱۰۵             یعنی قیامت کب قائم ہو گی اور مردے کب اٹھائے جائیں گے۔

(۵۱ )  یا اور کوئی مخلوق جو تمہارے  خیال میں بڑی ہو (۱۰۴) تو اب کہیں گے  ہمیں کون پھر پیدا کرتے  گا، تم فرماؤ وہی جس نے  تمہیں پہلی بار پیدا کیا، تو اب تمہاری طرف مسخرگی سے  سر ہِلا کر کہیں گے  یہ کب ہے  (ف ۱۰۵) تم فرماؤ شاید نزدیک ہی ہو۔

(۵۲ ) جس دن وہ تمہیں بُلائے  گا (ف ۱۰۶) تو تم اس کی حمد کرتے  چلے  آؤ گے  اور (ف ۱۰۷) سمجھو گے  کہ نہ رہے  (۱۰۸) تھے  مگر تھوڑا۔

۱۰۶             قبروں سے موقفِ قیامت کی طرف۔

۱۰۷             اپنے سروں سے خاک جھاڑتے اور سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ کہتے اور یہ اقرار کرتے کہ اللہ ہی پیدا کرنے والا اور مرنے کے بعد اٹھانے والا ہے۔

۱۰۸             دنیا میں یا قبروں میں۔

(۵۳ )  اور میرے  (ف ۱۰۹) بندوں سے  فرماؤ (ف ۱۱۰) وہ بات کہیں جو سب سے  اچھی ہو (ف ۱۱۱) بیشک شیطان ان کے  آپس میں فساد ڈالتا ہے، بیشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔

۱۰۹             ایماندار۔

۱۱۰             کہ وہ کافِروں سے۔

۱۱۱             نرم ہو یا پاکیزہ ہو، ادب اور تہذیب کی ہو، ارشاد و ہدایت کی ہو کُفّار اگر بے ہودگی کریں تو ان کا جواب انہیں کے انداز میں نہ دیا جائے۔ شانِ نُزول : مشرکین مسلمانوں کے ساتھ بد کلامیاں کرتے اور انہیں ایذائیں دیتے تھے انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے اس کی شکایت کی۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور مسلمانوں کو بتایا گیا کہ وہ کُفّار کی جاہلانہ باتوں کا ویسا ہی جواب نہ دیں، صبر کریں اور یَہْدِیْکُمْ اَللہُ کہہ دیں۔ یہ حکم قتال و جہاد کے حکم سے پہلے تھا بعد کو منسوخ ہو گیا اور ارشاد فرمایا گیا : یٰۤاَ یّھُا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازِل ہوئی ایک کافِر نے ان کی شان میں بیہودہ کلمہ زبان سے نکالا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں صبر کرنے اور معاف فرمانے کا حکم دیا۔

 (۵۴ )  تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے، وہ چاہے  تو تم پر رحم کرے  (ف ۱۱۲) چاہے  تو تمہیں عذاب کرے، اور ہم نے  تم کو ان پر کڑوڑا  (حاکمِ اعلیٰ) بنا کر نہ بھیجا (ف ۱۱۳)

۱۱۲             اور تمہیں توبہ اور ایمان کی توفیق عطا فرمائے۔

۱۱۳             کہ تم ان کے اعمال کے ذمّہ دار ہوتے۔

(۵۵ ) اور تمہارا  رب خوب  جانتا ہے  جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں (ف ۱۱۴) اور بیشک ہم نے  نبیوں میں ایک کو ایک پر بڑائی دی (ف ۱۱۵) اور داؤد کو زبور عطا فرمائی (ف ۱۱۶)

۱۱۴             سب کے احوال کو اور اس کو کہ کون کس لائق ہے۔

۱۱۵             مخصوص فضائل کے ساتھ جیسے کہ حضرت ابراہیم کو خلیل کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو حبیب۔

۱۱۶             زبور کتابِ الٰہی ہے جو حضرت داؤد علیہ الصلوٰۃ و السلام پر نازِل ہوئی، اس میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں سب میں دعا اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اور اسکی تحمید و تمجید ہے، نہ اس میں حلال و حرام کا بیان، نہ فرائض، نہ حدود و احکام، اس آیت میں خصوصیّت کے ساتھ حضرت داؤد علیہ والسلام کا نام لے کر ذکر فرمایا گیا۔ مفسِّرین نے اس کے چند وجوہ بیان کئے ہیں ایک یہ کہ اس آیت میں بیان فرمایا گیا کہ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی پھر ارشاد کیا کہ حضرت داؤد کو زبور عطا کی باوجود یکہ حضرت داؤد علیہ السلام کو نبوّت کے ساتھ مُلک بھی عطا کیا تھا لیکن اس کا ذکر نہ فرمایا اس میں تنبیہ ہے کہ آیت میں جس فضیلت کا ذکر ہے وہ فضیلتِ علم ہے نہ کہ فضیلتِ ملک و مال۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زبور میں فرمایا ہے کہ محمّد خاتَمُ الانبیاء ہیں اور ان کی اُمّت خیرُ الاُمَم اسی سبب سے آیت میں حضرت داؤد اور زبور کا ذکر خصوصیّت سے فرمایا گیا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہود کا گمان تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں اور توریت کے بعد کوئی کتاب نہیں اس آیت میں حضرت داؤد علیہ السلام کو زبور عطا فرمانے کا ذکر کر کے یہود کی تکذیب کر دی گئی اور ان کے دعوے کا بطلان ظاہر فرما دیا گیا غرض کہ یہ آیت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی فضیلتِ کبریٰ پر دلالت کرتی ہے۔ قطعہ ای و صفِ تو در کتابِ موسیٰ وے نعت تو در زبور داؤد مقصود توئی ز آفرینش باقی بہ طفیلِ تست موجود۔

(۵۶ ) تم فرماؤ پکارو انہیں جن کو اللہ کے  سوا گمان کرتے  ہو تو وہ اختیار نہیں رکھتے  تم سے  تکلیف دو کرنے  اور نہ پھیر دینے  کا (ف ۱۱۷)

۱۱۷             شانِ نُزول : کُفّار جب قحطِ شدید میں مبتلا ہوئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کتّے اور مردار کھا گئے اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے حضور میں فریاد لائے اور آپ سے دعا کی التجا کی، اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جب بتوں کو خدا مانتے ہو تو اس وقت انہیں پکارو اور وہ تمہاری مدد کریں اور جب تم جانتے ہو کہ وہ تمہاری مدد نہیں کر سکتے تو کیوں انہیں معبود بناتے ہو۔

(۵۷ )  وہ مقبول بندے  جنہیں یہ کافر پوجتے  ہیں (ف ۱۱۸) وہ آپ ہی اپنے  رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے  ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے   (ف ۱۱۹) اس کی رحمت کی امید رکھتے  اور اس کے  عذاب سے  ڈرتے  ہیں (ف ۱۲۰) بیشک تمہارے  رب کا عذاب ڈر کی چیز ہے۔

۱۱۸             جیسے کہ حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر اور ملائکہ۔ شانِ نُزول : ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ آیت ایک جماعتِ عرب کے حق میں نازِل ہوئی جو جنّات کے ایک گروہ کو پوجتے تھے، وہ جنات اسلام لے آئے اور ان کے پوجنے والوں کو خبر نہ ہوئی، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازِل فرمائی اور انہیں عار دلائی۔

۱۱۹             تاکہ جو سب سے زیادہ مقرّب ہو اس کو وسیلہ بنائیں۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ مقرّب بندوں کو بارگاہِ الٰہی میں وسیلہ بنانا جائز اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔

۱۲۰             کافِر انہیں کس طرح معبود سمجھتے ہیں۔

(۵۸ ) اور کوئی بستی نہیں مگر یہ کہ ہم اسے  روزِ قیامت سے  پہلے  نیست کر دیں گے  یا اسے  سخت عذاب دیں گے  (ف ۱۲۱) یہ کتاب میں (ف ۱۲۲) لکھا  ہوا ہے۔

۱۲۱             قتل وغیرہ کے ساتھ جب وہ کُفر کریں اور مَعاصی میں مبتلا ہوں۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب کسی بستی میں زنا اور سود کی کثرت ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہلاک کا حکم دیتا ہے۔

۱۲۲             لوحِ محفوظ میں۔

(۵۹ )  اور ہم  ایسی نشانیاں بھیجنے  سے  یوں ہی باز رہے  کہ انہیں اگلوں نے  جھٹلایا (ف ۱۲۳) اور ہم نے  ثمود کو (ف ۱۲۴) ناقہ دیا  آنکھیں کھولنے  کو (ف ۱۲۵) تو انہوں نے  اس پر ظلم کیا (ف ۱۲۶) اور ہم ایسی نشانیاں نہیں بھیجتے  مگر ڈرانے  کو (ف ۱۲۷)

۱۲۳             ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اہلِ مکّہ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہا تھا کہ صفا پہاڑ کو سونا کر دیں ا ور پہاڑوں کو سر زمینِ مکّہ سے ہٹا دیں اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو وحی فرمائی کہ آپ فرمائیں تو آپ کی اُمّت کو مہلت دی جائے اور اگر آپ فرمائیں تو جو انہوں نے طلب کیا ہے وہ پورا کیا جائے لیکن اگر پھر بھی وہ ایمان نہ لائے تو ان کو ہلاک کر کے نیست و نابود کر دیا جائے گا اس لئے کہ ہماری سنّت یہی ہے کہ جب کوئی قوم نشانی طلب کر کے ایمان نہیں لاتی تو ہم اسے ہلاک کر دیتے ہیں اور مہلت نہیں دیتے، ایسا ہی ہم نے پہلوں کے ساتھ کیا ہے۔ اسی بیان میں یہ آیت نازِل ہوئی۔

۱۲۴             ان کے حسبِ طلب۔

۱۲۵             یعنی حجّتِ واضحہ۔

۱۲۶             اور کُفر کیا کہ اس کے مِنَ اللہ ہونے سے منکِر ہو گئے۔

۱۲۷             جلد آنے والے عذاب سے۔

(۶۰ ) اور جب ہم  نے  تم سے  فرمایا کہ سب لوگ تمہارے  رب کے  قابو میں ہیں (ف ۱۲۸) اور ہم نے  نہ کیا وہ دکھاوا  (ف ۱۲۹) جو تمہیں دکھایا تھا (ف ۱۳۰) مگر لوگوں کی  آزمائش کو (ف ۱۳۱) اور وہ پیڑ جس پر قرآن میں لعنت ہے  (ف ۱۳۲) اور ہم انہیں ڈراتے  ہیں (ف ۱۳۳) تو انھیں نہیں بڑھتی مگر بڑی سرکشی۔

۱۲۸             اس کے قبضۂ قدرت میں۔ تو آپ تبلیغ فرمائیے اور کسی کا خوف نہ کیجئے اللہ آپ کا نگہبان ہے۔

۱۲۹             یعنی معائنہ عجائبِ آیاتِ الٰہیہ کا۔

۱۳۰             شبِ معراج بحالتِ بیداری۔

۱۳۱             یعنی اہلِ مکّہ کی چنانچہ جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے انہیں واقعۂ معراج کی خبر دی تو انہوں نے اس کی تکذیب کی اور بعض مرتد ہو گئے اور تمسخُر سے عِمارتِ بیت المقدس کا نقشہ دریافت کرنے لگے حضور نے سارا نقشہ بتا دیا تو اس پر کُفّار آپ کو ساحر کہنے لگے۔

۱۳۲             یعنی درختِ زقوم جو جہنم میں پیدا ہوتا ہے اس کو سببِ آزمائش بنا دیا یہاں تک کہ ابو جہل نے کہا کہ محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم تم کو جہنّم کی آگ سے ڈراتے ہیں کہ وہ پتّھروں کو جلا دے گی، پھر یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس میں درخت اگیں گے، آگ میں درخت کہاں رہ سکتا ہے یہ اعتراض انہوں نے کیا اور قدرتِ الٰہی سے غافل رہے نہ سمجھے کہ اس قادرِ مختار کی قدرت سے آگ میں درخت پیدا کرنا کچھ بعید نہیں، سمندل ایک کیڑا ہوتا ہے جو آگ میں پیدا ہوتا ہے آگ ہی میں رہتا ہے، بلادِ ترک میں اس کے اون کی تولیاں بنائی جاتی تھیں جو میلی ہو جانے پر آگ میں ڈال کر صاف کر لی جاتیں اور جلتی نہ تھیں، شتر مرغ انگارے کھا جاتا ہے، اللہ کی قدرت سے آگ میں درخت پیدا کرنا کیا بعید ہے۔

۱۳۳             دینی اور دنیوی خوفناک امور سے۔

(۶۱ )  اور یاد کرو جب ہم نے  فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ  کرو  (ف ۱۳۴) تو ان سب نے  سجدہ کیا سوا ابلیس کے، بولا کیا میں اسے  سجدہ کروں جسے  تو  نے  مٹی سے  بنایا

۱۳۴             تحیّت کا۔

(۶۲ ) بولا (ف ۱۳۵)

۱۳۵             شیطان۔

(۶۲ )  دیکھ تو جو یہ تو نے  مجھ سے  معزز رکھا (ف ۱۳۶) اگر تو  نے  مجھے  قیامت تک مہلت دی تو ضرور میں اس کی اولاد کو پیس ڈالوں گا (ف ۱۳۷) مگر تھوڑا  (ف ۱۳۸)

۱۳۶             اور اس کو مجھ پر فضیلت دی اور اس کو سجدہ کرایا تو میں قَسم کھاتا ہوں کہ۔

۱۳۷             گمراہ کر کے۔

۱۳۸             جنہیں اللہ بچائے اور محفوظ رکھے وہ اس کے مخلص بندے ہیں، شیطان کے اس کلام پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سے۔

 (۶۳ )  فرمایا، دور ہو (ف ۱۳۹) تو ان میں جو تیری پیروی کرے  گا تو بیشک سب کا بدلہ جہنم ہے  بھرپور سزا۔

۱۳۹             تجھے نفخۂ اولیٰ تک مہلت دی گئی۔

(۶۴ )  اور ڈگا دے  (بہکا دے ) ان میں سے  جس پر قدرت پائے  اپنی آواز سے  (ف ۱۴۰) اور ان پر لام باندھ (فوج چڑھا) لا اپنے  سواروں اور اپنے  پیادوں کا (ف ۱۴۱) اور ان کا ساجھی ہو مالوں اور بچو ں میں (ف ۱۴۲) اور انہیں وعدہ دے  (ف ۱۴۳) اور شیطان انہیں وعدہ نہیں دیتا مگر فریب سے۔

۱۴۰                وسوسے ڈال کر اور معصیت کی طرف بلا کر۔ بعض عُلَماء نے فرمایا کہ مراد اس سے گانے باجے لہو و لعب کی آوازیں ہیں۔ ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے کہ جو آواز اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف منہ سے نکلے وہ شیطانی آواز ہے۔

۱۴۱             یعنی اپنے سب مَکر تمام کر لے اور اپنے تمام لشکروں سے مدد لے۔

۱۴۲             زُجاج نے کہا کہ جو گناہ مال میں ہو یا اولاد میں ہو ابلیس اس میں شریک ہے جیسے کہ سود اور مال حاصل کرنے کے دوسرے حرام طریقے اور فسق و ممنوعات میں خرچ کرنا اور زکوٰۃ نہ دینا یہ مالی امور ہیں جن میں شیطان کی شرکت ہے اور زنا و ناجائز طریقے سے اولاد حاصل کرنا یہ اولاد میں شیطان کی شرکت ہے۔

۱۴۳             اپنی طاعت پر۔

(۶۵ )  بیشک جو میرے  بندے  ہیں (ف ۱۴۴) ان پر تیرا کچھ قابو نہیں، اور تیرا  رب  کافی ہے  کام بنانے  کو (ف ۱۴۵)

۱۴۴             نیک مخلص انبیاء اور اصحابِ فضل و صلاح۔

۱۴۵             انہیں تجھ سے محفوظ رکھے گا اور شیطانی مکائد اور وساوس کو دفع فرمائے گا۔

(۶۶ )  تمہارا  رب وہ ہے  کہ تمہارے  لیے  دریا میں کشتی رواں کرتا ہے   کہ (ف ۱۴۶) تم اس کا فضل تلاش کرو، بیشک وہ تم پر مہربان ہے۔

۱۴۶             ان میں تجارتوں کے لئے سفر کر کے۔

(۶۷ ) اور جب تمہیں دریا میں مصیبت پہنچتی ہے  (ف ۱۴۷) تو اس کے  سوا جنہیں پوجتے  ہیں سب گم ہو جاتے  ہیں (ف ۱۴۸)  پھر جب تمہیں خشکی کی طرف نجات دیتا ہے  تو منہ پھیر لیتے  ہیں (ف ۱۴۹) اور انسان  بڑا ناشکرا ہے۔

۱۴۷             اور ڈوبنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

۱۴۸             اور ان جھوٹے معبودوں میں سے کسی کا نام زبان پر نہیں آتا، اس وقت اللہ تعالیٰ سے حاجت روائی چاہتے ہیں۔

۱۴۹             اس کی توحید سے اور پھر انہیں ناکارہ بُتوں کی پرستِش شروع کر دیتے ہو۔

(۶۸ ) کیا تم (ف ۱۵۰) اس سے  نڈر ہوئے  کہ وہ خشکی ہی کا کوئی کنارہ تمہارے  ساتھ دھنسا دے  (ف ۱۵۱) یا تم پر پتھراؤ بھیجے   (ف ۱۵۲) پھر اپنا کوئی حمایتی نہ پاؤ (ف ۱۵۳)

۱۵۰             دریا سے نَجات پا کر۔

۱۵۱             جیسا کہ قارون کو دھنسا دیا تھا۔ مقصد یہ ہے کہ خشکی و تری سب اس کے تحتِ قدرت ہیں جیسا وہ سمندر میں غرق کرنے اور بچانے دونوں پر قادر ہے ایسا ہی خشکی میں بھی زمین کے اندر دھنسا دینے اور محفوظ رکھنے دونوں پر قادر ہے، خشکی ہو یا تری ہر کہیں بندہ اس کی رحمت کا محتاج ہے وہ زمین دھنسانے پر بھی قادر ہے اور یہ بھی قدرت رکھتا ہے کہ۔

۱۵۲             جیسا قومِ لوط پر بھیجا تھا۔

(۶۹ )  یا اس سے  نڈر ہوئے  کہ تمہیں دوبارہ دریا میں لے  جائے  پھر تم پر جہاز توڑنے  وا لی آندھی بھیجے  تو تم کو تمہارے  کفر کے  سبب ڈبو دے  پھر اپنے  لیے  کوئی ایسا نہ پاؤ کہ  اس پر ہمارا پیچھا کرے  (ف ۱۵۴)

۱۵۳             جو تمہیں بچا سکے۔

۱۵۴             اور ہم سے دریافت کر سکے کہ ہم نے ایسا کیوں کیا کیونکہ ہم قادرِ مختار ہیں جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ہمارے کام میں کوئی دخل دینے والا اور دم مارنے والا نہیں۔

(۷۰ )  اور بیشک ہم نے  اولادِ آدم کو عزت دی (ف ۱۵۵) اور ان کی خشکی اور تری میں (ف ۱۵۶) سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں (ف ۱۵۷) اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے  افضل کیا (ف ۱۵۸)

۱۵۵             عقل و علم و گویائی، پاکیزہ صورت، معتدل قامت اور معاش و معاد کی تدابیر اور تمام چیزوں پر استیلا و تسخیر عطا فرما کر اور اس کے علاوہ اور بہت سی فضیلتیں دے کر۔

۱۵۶             جانوروں اور دوسری سواریوں اور کشتیوں اور جہازوں وغیرہ میں۔

۱۵۷             لطیف خوش ذائقہ حیوانی اور نباتی ہر طرح کی غذائیں خوب اچھی طرح پکی ہوئی کیونکہ انسان کے سوا حیوانات میں پکی ہوئی غذا اور کسی کی خوراک نہیں۔

۱۵۸             حسن کا قول ہے کہ اکثر سے کل مراد ہے اور اکثر کا لفظ کل کے معنیٰ میں بولا جاتا ہے قرآنِ کریم میں بھی ارشاد ہوا وَاَکْثَرھُمْ کٰذِبُوْنَ اور مَایَتَّبِعُ اَکْثَرھُمْ اِلَّا ظَنًّا میں اکثر بہ معنیٰ کل ہے لہذا ملائکہ بھی اس میں داخل ہیں اور خواص بشر یعنی انبیاء علیہم السلام خواص ملائکہ سے افضل ہیں اور صلحائے بشر عوام ملائکہ سے۔ حدیث شریف میں ہے کہ مومن اللہ کے نزدیک ملائکہ سے زیادہ کرامت رکھتا ہے وجہ یہ ہے کہ فرشتے طاعت پر مجبول ہیں یہی ان کی سرشت ہے، ان میں عقل ہے شہوت نہیں اور بہائم میں شہوت ہے عقل نہیں اور آدمی شہوت و عقل دونوں کا جامع ہے تو جس نے عقل کو شہوت پر غالب کیا وہ ملائکہ سے افضل ہے اور جس نے شہوت کو عقل پر غالب کیا وہ بہائم سے بدتر ہے۔

 (۷۱ )  جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے  امام کے  ساتھ بلائیں گے  (ف ۱۵۹)  تو جو اپنا نامہ داہنے  ہاتھ میں دیا  گیا یہ لوگ اپنا  نامہ پڑھیں گے  (ف ۱۶۰) اور تاگے  بھر ان کا حق نہ دبایا جائے  گا (ف ۱۶۱)

۱۵۹             جس کا وہ دنیا میں اِتّباع کرتا تھا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا اس سے وہ امامِ زماں مراد ہے جس کی دعوت پر دنیا میں لوگ چلے خواہ اس نے حق کی دعوت کی ہو یا باطل کی۔ حاصل یہ ہے کہ ہر قوم اپنے سردار کے پاس جمع ہو گی جس کے حکم پر دنیا میں چلتی رہی اور انہیں اسی کے نام سے پکارا جائے گا کہ اے فلاں کے متبعین۔

۱۶۰             نیک لوگ جو دنیا میں صاحبِ بصیرت تھے اور راہِ راست پر رہے ان کو ان کا نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اس میں نیکیاں اور طاعتیں دیکھیں گے تو اس کو ذوق و شوق سے پڑھیں گے اور جو بدبخت ہیں کُفّار ہیں ان کے نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے وہ انہیں دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور دہشت سے پوری طرح پڑھنے پر قادر نہ ہوں گے۔

۱۶۱             یعنی ثوابِ اعمال میں ان سے ادنیٰ بھی کمی نہ کی جائے گی۔

(۷۲ )  اور جو اس زندگی میں (ف ۱۶۲) اندھا ہو وہ آخرت میں اندھا ہے  (ف ۱۶۳) اور اور بھی زیادہ گمراہ۔

۱۶۲             دنیا کی حق کے دیکھنے سے۔

۱۶۳             نجات کی راہ سے۔ معنیٰ یہ ہیں کہ جو دنیا میں کافِر گمراہ ہے وہ آخر ت میں اندھا ہو گا کیونکہ دنیا میں توبہ مقبول ہے اور آخرت میں توبہ مقبول نہیں۔

(۷۳ )  اور وہ تو قریب تھا کہ تمہیں کچھ لغزش دیتے  ہماری وحی سے  جو ہم نے  تم کو بھیجی کہ تم ہماری طرف کچھ اور نسبت کر دو،  اور ایسا ہوتا تو وہ تم کو اپنا گہرا دو ست بنا لیتے  (ف ۱۶۴)

۱۶۴             شانِ نُزول : ثقیف کا ایک وفد سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے پاس آ کر کہنے لگا کہ اگر آپ تین باتیں منظور کر لیں تو ہم آپ کی بیعت کر لیں ایک تو یہ کہ نماز میں جھکیں گے نہیں یعنی رکوع سجدہ نہ کریں گے، دوسری یہ کہ ہم اپنے بت اپنے ہاتھوں سے نہ توڑیں گے، تیسرے یہ کہ لات کو پوجیں گے تو نہیں مگر ایک سال اس سے نفع اٹھا لیں کہ اس کے پوجنے والے جو نذریں چڑھاوے لائیں اس کو وصول کر لیں، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا اس دین میں کچھ بھلائی نہیں جس میں رکوع سجدہ نہ ہو اور بُتوں کو توڑنے کی بابت تمہاری مرضی اور لات و عزّیٰ سے فائدہ اٹھانے کی اجازت میں ہر گز نہ دوں گا، وہ کہنے لگے یا رسولَ اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) ہم چاہتے یہ ہیں کہ آپ کی طرف سے ہمیں ایسا اعزاز ملے جو دوسروں کو نہ ملا ہو تاکہ ہم فخر کر سکیں اس میں اگر آپ کو اندیشہ ہو کہ عرب شکایت کریں گے تو آپ ان سے کہہ دیجئے گا کہ اللہ کا حکم ہی ایسا تھا۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی۔

(۷۴ )  اور اگر ہم تمہیں (ف ۱۶۵) ثابت قدم نہ رکھتے  تو قریب تھا کہ تم ان کی طرف کچھ تھوڑا سا جھکتے

۱۶۵             معصوم کر کے۔

(۷۵ )  اور ایسا ہوتا تو ہم تم کو دُونی عمر اور دو چند موت (ف ۱۶۶) کا مزہ دیتے  پھر تم ہمارے  مقابل اپنا کوئی مددگار نہ پاتے۔

۱۶۶             کے عذاب۔

(۷۶ )  اور بیشک قریب تھا کہ وہ تمہیں اس زمین سے  (ف ۱۶۷)  ڈگا دیں (کھسکا دیں ) کہ تمہیں اس سے  باہر کر دیں اور ایسا ہوتا تو وہ تمہارے  پیچھے  نہ ٹھہرتے  مگر تھوڑا  (ف ۱۶۸)

۱۶۷             یعنی عرب سے۔ شانِ نُزول : مشرکین نے اتفاق کر کے چاہا کہ سب مل کر سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو سر زمینِ عرب سے باہر کر دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ ارادہ پورا نہ ہونے دیا اور ان کی یہ مراد بر نہ آئی، اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازِل ہوئی۔ (خازن)۔

۱۶۸             اور جلد ہلاک کر دیئے جاتے۔

(۷۷ ) دستور ان کا جو ہم نے  تم سے  پہلے  رسول بھیجے  (ف ۱۶۹) اور تم ہمارا قانون بدلتا  نہ پاؤ گے۔

۱۶۹             یعنی جس قوم نے اپنے درمیان سے اپنے رسول کو نکالا ان کے سنّتِ الٰہی یہی رہی کہ انہیں ہلاک کر دیا۔

(۷۸ )  نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے  سے  رات کی اندھیری تک (ف ۱۷۰) اور صبح کا قرآن (ف ۱۷۱) بیشک صبح کے  قرآن میں فرشتے  حاضر ہوتے  ہیں (ف ۱۷۲)

۱۷۰             اس میں ظہر سے عشا تک کی چار نمازیں آ گئیں۔

۱۷۱             اس سے نمازِ فجر مراد ہے اور اس کو قرآن اس لئے فرمایا گیا کہ قرأت ایک رُکن ہے اور جُز سے کل تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں نماز کو رکوع و سجود سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ قرأت نماز کا رُکن ہے۔

۱۷۲             یعنی نمازِ فجر میں رات کے فرشتے بھی موجود ہوتے ہیں اور دن کے فرشتے بھی آ جاتے ہیں۔

(۷۹ )  اور رات کے  کچھ حصہ میں تہجد کرو یہ خاص تمہارے  لیے  زیادہ ہے  (ف ۱۷۳) قریب ہے  کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے  جہاں سب تمہاری حمد کریں (ف ۱۷۴)

۱۷۳             تہجّد نماز کے لئے نیند کو چھوڑنے یا بعدِ عشا سونے کے بعد جو نماز پڑھی جائے اس کو کہتے ہیں، نمازِ تہجّد کی حدیث شریف میں بہت فضیلتیں آئی ہیں، نمازِ تہجّد سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر فرض تھی جمہور کا یہی قول ہے، حضور کی امّت کے لئے یہ نماز سنّت ہے۔

مسئلہ : تہجّد کی کم سے کم دو ۲ رکعتیں اور متوسط چار اور زیادہ آٹھ ہیں اور سنّت یہ ہے کہ دو دو رکعت کی نیّت سے پڑھی جائیں۔

مسئلہ : اگر آدمی شب کی ایک تہائی عبادت کرنا چاہے اور دو تہائی سونا تو شب کے تین حصّے کر لے درمیانی تہائی میں تہجّد پڑھنا افضل ہے اور اگر چاہے کہ آدھی رات سوئے آدھی رات عبادت کرے تو نصف اخیر افضل ہے۔

مسئلہ : جو شخص نمازِ تہجّد کا عادی ہو اس کے لئے تہجّد ترک کرنا مکروہ ہے جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث شریف میں ہے۔ (رد المحتار)۔

۱۷۴             اور مقامِ محمود مقامِ شفاعت ہے کہ اس میں اوّلین و آخرین حضور کی حمد کریں گے اسی پر جمہور ہیں۔

(۸۰ )  اور یوں عرض کرو کہ اے  میرے  رب مجھے  سچی طرح داخل کر اور سچی طرح باہر لے  جا (ف ۱۷۵) اور مجھے  اپنی طرف سے  مددگار غلبہ دے  (ف ۱۷۶)

۱۷۵             جہاں بھی میں داخل ہوں اور جہاں سے بھی میں باہر آؤں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا منصب ہو یا کام۔ بعض مفسِّرین نے کہا مراد یہ ہے کہ مجھے قبر میں اپنی رضا اور طہارت کے ساتھ داخل کر اور وقتِ بعثت عزّت و کرامت کے ساتھ باہر لا۔ بعض نے کہا معنیٰ یہ ہیں کہ مجھے اپنی طاعت میں صدق کے ساتھ داخل کر اور اپنے مناہی سے صدق کے ساتھ خارج فرما اور اس کے معنیٰ میں ایک قول یہ بھی ہے کہ منصبِ نبوّت میں مجھے صدق کے ساتھ داخل کر اور صدق کے ساتھ دنیا سے رخصت کے وقت نبوّت کے حقوقِ واجبہ سے عہدہ برآ فرما۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مجھے مدینہ طیّبہ میں پسندیدہ داخلہ عنایت کر اور مکّۂ مکرّمہ سے میرا خروج صدق کے ساتھ کر کہ اس سے میرا دل غمگین نہ ہو مگر یہ توجیہہ اس صورت میں صحیح ہو سکتی ہے جب کہ یہ آیت مدنی نہ ہو جیسا کہ علّامہ سیوطی نے قیل فرما کر اس آیت کے مدنی ہونے کا قول ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا۔

۱۷۶             وہ قوّت عطا فرما جس میں سے میں تیرے دشمنوں پر غالب ہوں اور وہ حجّت جس سے میں ہر مخالف پر فتح پاؤں اور وہ غلبۂ ظاہرہ جس سے میں تیرے دین کو تقویّت دوں یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب سے ان کے دین کو غالب کرنے اور انہیں دشمنوں سے محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا۔

(۸۱ )  اور فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا (ف ۱۷۷) بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا (ف ۱۷۸)

۱۷۷             یعنی اسلام آیا اور کُفر مٹ گیا یا قرآن آیا اور شیطان ہلاک ہوا۔

۱۷۸             کیونکہ اگرچہ باطل کو کسی وقت میں دولت و صولت حاصل ہو مگر اس کو پائیداری نہیں اس کا انجام بربادی و خواری ہے۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم روزِ فتح مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے تو کعبۂ مقدّسہ کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب کئے ہوئے تھے جن کو لوہے اور رانگ سے جوڑ کر مضبوط کیا گیا تھا، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے دستِ مبارک میں ایک لکڑی تھی حضور یہ آیت پڑھ کر اس لکڑی سے جس بُت کی طرف اشارہ فرماتے جاتے تھے وہ گرتا جاتا تھا۔

(۸۲ )  اور ہم  قرآن میں اتارتے  ہیں وہ چیز (۱۷۹) جو ایمان والوں کے  لیے  شفا اور رحمت ہے  (ف ۱۸۰) اور اس سے  ظالموں کو (ف ۱۸۱) نقصان ہی بڑھتا ہے۔

۱۷۹             صورتیں اور آیتیں۔

۱۸۰             کہ اس سے امراضِ ظاہرہ اور باطنہ ضلالت و جہالت وغیرہ دور ہوتے ہیں اور ظاہری و باطنی صحت حاصل ہوتی ہے، اعتقاداتِ باطلہ و اخلاقِ رذیلہ دفع ہوتے ہیں اور عقائدِ حقّہ و معارفِ الٰہیہ و صفاتِ حمیدہ و اخلاقِ فاضلہ حاصل ہوتے ہیں کیونکہ یہ کتابِ مجید ایسے علوم و دلائل پر مشتمل ہے جو وہمانی و شیطانی ظلمتوں کو اپنے انوار سے نیست و نابود کر دیتے ہیں اور اس کا ایک ایک حرف برکات کا گنجینہ ہے جس سے جسمانی امراض اور آسیب دور ہوتے ہیں۔

۱۸۱             یعنی کافِروں کو جو اس کی تکذیب کرتے ہیں۔

(۸۳ )  اور جب ہم آدمی پر احسان کرتے  ہیں (ف ۱۸۲) منہ پھیر لیتا ہے  اور اپنی طرف دور ہٹ جاتا ہے  (ف ۱۸۳) اور جب اسے  برائی پہنچے  (ف ۱۸۴) تو ناامید ہو جاتا ہے  (ف ۱۸۵)

۱۸۲             یعنی کافِر پر کہ اس کو صحت اور وسعت عطا فرماتے ہیں تو وہ ہمارے ذکر و دعا اور طاعت و ادائے شکر سے۔

۱۸۳             یعنی تکبُّر کرتا ہے۔

۱۸۴             کوئی شدّت و ضرر اور کوئی فقر و حادثہ تو تضرّع و زاری سے دعائیں کرتا ہے اور ان دعاؤں کے قبول کا اثر ظاہر نہیں ہوتا۔

۱۸۵             مومن کو ایسا نہ چاہئے اگر اجابتِ دعا میں تاخیر ہو تو وہ مایوس نہ ہو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہے۔

(۸۴ ) تم فرماؤ سب اپنے  کینڈے  (انداز) پر کام کرتے  ہیں (ف ۱۸۶) تو تمہارا  رب  خوب جانتا ہے  کون زیادہ راہ پر ہے۔

۱۸۶             ہم اپنے طریقہ پر تم اپنے طریقہ پر جس کا جوہرِ ذات شریف و طاہر ہے اس سے افعالِ جمیلہ و اخلاقِ پاکیزہ صادر ہوتے ہیں اور جس کا نفس خبیث ہے اس سے افعالِ خبیثہ ردیہ سرزد ہوتے ہیں۔

(۸۵ )  اور تم سے  روح کو پوچھتے  ہیں ہیں، تم فرماؤ روح میرے  رب کے  حکم سے  ایک چیز ہے  اور تمہیں علم نہ ملا مگر تھوڑا (ف ۱۸۷)

۱۸۷             قریش مشورہ کے لئے جمع ہوئے اور ان میں باہم گفتگو یہ ہوئی کہ محمّدِ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہم میں رہے اور کبھی ہم نے ان کو صدق و امانت میں کمزور نہ پایا کبھی ان پر تہمت لگانے کا موقع ہاتھ نہ آیا، اب انہوں نے نبوّت کا دعویٰ کر دیا تو ان کی سیرت اور ان کے چال چلن پر کوئی عیب لگانا تو ممکن نہیں ہے، یہود سے پوچھنا چاہیئے کہ ایسی حالت میں کیا کیا جائے، اس مطلب کے لئے ایک جماعت یہود کے پاس بھیجی گئی، یہود نے کہا کہ ان سے تین سوال کرو اگر تینوں کے جواب نہ دیں تو وہ نبی نہیں اور اگر تینوں کا جواب دے دیں جب بھی نبی نہیں اور اگر دو کا جواب دے دیں ایک کا جواب نہ دیں تو وہ سچّے نبی ہیں، وہ تین سوال یہ ہیں اصحابِ کہف کا واقعہ، ذوالقرنین کا واقعہ اور روح کا حال چنانچہ قریش نے حضورسے یہ سوال کئے آپ نے اصحابِ کہف اور ذوالقرنین کے واقعات تو مفصّل بیان فرما دیئے اور روح کا معاملہ ابہام میں رکھا جیسا کہ توریت میں مبہم رکھا گیا تھا قریش یہ سوال کر کے نادم ہوئے۔ اس میں اختلاف ہے کہ سوال حقیقتِ روح سے تھا یا اس کی مخلوقیت سے، جواب دونوں کا ہو گیا اور آیت میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ مخلوق کا علم علمِ الٰہی کے سامنے قلیل ہے اگرچہ مَااُوْتِیْتُمْ کا خِطاب یہود کے ساتھ خاص ہو۔

(۸۶ )  اور اگر ہم چاہتے  تو یہ وحی جو ہم نے  تمہاری طرف کی اسے  لے  جاتے  (ف ۱۸۸) پھر تم کوئی نہ پاتے  کہ تمہارے  لیے  ہمارے  حضور اس پر وکالت کرتا۔

۱۸۸             یعنی قرآنِ کریم کو سینوں اور صحیفوں سے مَحو کر دیتے اور اس کا کوئی اثر باقی نہ چھوڑتے۔

(۸۷ )  مگر تمہارے  رب کی رحمت (ف ۱۸۹) بیشک تم پر اس کا بڑا فضل ہے  (ف ۱۹۰)

۱۸۹             کہ قیامت تک اس کو باقی رکھا اور ہر تغیّر و تبدّل سے محفوظ فرمایا۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ قرآنِ پاک خوب پڑھو اس سے پہلے کہ قرآنِ پاک اٹھا لیا جائے کیونکہ قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ قرآنِ پاک نہ اٹھایا جائے۔

۱۹۰             کہ اس نے آپ پر قرآنِ کریم نازِل فرمایا اور اس کو باقی و محفوظ رکھا اور آپ کو تمام بنی آدم کا سردار اور خاتَم النّبّیین کیا اور مقامِ محمود عطا فرمایا۔

(۸۸ )  تم فرماؤ اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ (ف ۱۹۱) اس قرآن کی مانند لے  آئیں تو اس کا مثل نہ لا سکیں گے  اگرچہ ان میں ایک دوسرے  کا  مددگار ہو (ف ۱۹۲)

۱۹۱             بلاغت اور حسنِ نظم و ترتیب اور علومِ غیبیہ و معارفِ الٰہیہ میں سے کسی کمال میں۔

۱۹۲             شانِ نُزول : مشرکین نے کہا تھا کہ ہم چاہیں تو اس قرآن کی مثل بنا لیں۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی تکذیب کی کہ خالِق کے کلام کے مثل مخلوق کا کلام ہو ہی نہیں سکتا اگر وہ سب باہم مل کر کوشش کریں جب بھی ممکن نہیں کہ اس کلام کے مثل لا سکیں چنانچہ ایسا ہی ہوا تمام کُفّار عاجز ہوئے اور انہیں رسوائی اٹھانا پڑی اور وہ ایک سطر بھی قرآنِ کریم کے مقابل بنا کر پیش نہ کر سکے۔

(۸۹ )  اور بیشک ہم نے  لوگوں کے  لیے  اس قرآن میں ہم قسم کی مثل  طرح طرح بیان فرمائی تو اکثر آدمیوں نے  نہ مانا مگر ناشکری کرنا (ف ۱۹۳)

۱۹۳             اور حق سے منکِر ہونا اختیار کیا۔

(۹۰ ) اور بولے  کہ ہم تم پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے   یہاں تک کہ تم ہمارے  لیے  زمین سے  کوئی چشمہ بہا دو (ف ۱۹۴)

۱۹۴             شانِ نُزول : جب قرآنِ کریم کا اعجاز خوب ظاہر ہو چکا اور معجزاتِ واضحات نے حجّت قائم کر دی اور کُفّار کے لئے کوئی جائے عذر باقی نہ رہی تو وہ لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنے کے لئے طرح طرح کی نشانیاں طلب کرنے لگے اور انہوں نے کہہ دیا کہ ہم ہر گز آپ پر ایمان نہ لائیں گے۔ مروی ہے کُفّارِ قریش کے سردار کعبۂ معظّمہ میں جمع ہوئے اور انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو بلوایا حضور تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ آج گفتگو کر کے آپ سے معاملہ طے کر لیں تاکہ ہم پھر آپ کے حق میں معذور سمجھے جائیں، عرب میں کوئی آدمی ایسا نہیں ہوا جس نے اپنی قوم پر وہ شدائد کئے ہوں جو آپ نے کئے ہیں، آپ نے ہمارے باپ دادا کو بُرا کہا، ہمارے دین کو عیب لگائے، ہمارے دانش مندوں کو کم عقل ٹھہرایا، معبودوں کی توہین کی، جماعت متفرق کر دی، کوئی برائی اٹھا نہ رکھی، اس سے تمہاری غرض کیا ہے ؟ اگر تم مال چاہتے ہو تو ہم تمہارے لئے اتنا مال جمع کر دیں کہ ہماری قوم میں تم سب سے زیادہ مالدار ہو جاؤ، اگر اعزاز چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنا لیں، اگر مُلک و سلطنت چاہتے ہو تو ہم تمہیں بادشاہ تسلیم کر لیں یہ سب باتیں کرنے کے لئے ہم تیار ہیں اور اگر تمہیں کوئی دماغی بیماری ہو گئی ہے یا کوئی خلش ہو گیا ہے تو ہم تمہارا علاج کریں اور اس میں جس قدر خرچ ہو اٹھائیں، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا ان میں سے کوئی بات نہیں اور میں مال و سلطنت و سرداری کسی چیز کا طلب گار نہیں، واقعہ صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازِل فرمائی اور حکم دیا کہ میں تمہیں اسکے ماننے پر اللہ کی رضا اور نعمتِ آخرت کی بشارت دوں اور انکار کرنے پر عذابِ الٰہی کا خوف دلاؤں، میں نے تمہیں اپنے ربّ کا پیام پہنچایا اگر تم اسے قبول کرو تو یہ تمہارے لئے دنیا و آخرت کی خوش نصیبی ہے اور نہ مانو تو میں صبر کروں گا اور اللہ کے فیصلہ کا انتظار کروں گا، اس پر ان لوگوں نے کہا اے محمّد ( صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) اگر آپ ہمارے معروضات کو قبول نہیں کرتے ہیں تو ان پہاڑوں کو ہٹا دیجئے اور میدان صاف نکال دیجئے اور نہریں جاری کر دیجئے اور ہمارے مرے ہوئے باپ دادا کو زندہ کر دیجئے ہم ان سے پوچھ دیکھیں کہ آپ جو فرماتے ہیں کیا یہ سچ ہے اگر وہ کہہ دیں گے تو ہم مان لیں گے، حضور نے فرمایا میں ان باتوں کے لئے نہیں بھیجا گیا جو پہنچانے کے لئے میں بھیجا گیا تھا وہ میں نے پہنچا دیا اگر تم مانو تمہارا نصیب نہ مانو تو میں خدائی فیصلہ کا انتظار کروں گا، کُفّار نے کہا پھر آپ اپنے ربّ سے عرض کر کے ایک فرشتہ بلوا لیجئے جو آپ کی تصدیق کرے اور اپنے لئے باغ اور محل اور سونے چاندی کے خزانے طلب کیجئے فرمایا کہ میں اس لئے نہیں بھیجا گیا، میں بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا ہوں، اس پر کہنے لگے تو ہم پر آسمان گروا دیجئے اور بعضے ان میں سے یہ بولے کہ ہم ہر گز ایمان نہ لائیں گے جب تک آپ اللہ کو اور فرشتوں کو ہمارے پاس نہ لائیے، اس پر سیدِ عالِم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اس مجلس سے اٹھ آئے اور عبد اللہ بن اُمیّہ آپ کے ساتھ اٹھا اور آپ سے کہنے لگا خدا کی قَسم میں کبھی آپ پر ایمان نہ لاؤں گا جب تک آپ سیڑھی لگا کر آسمان پر نہ چڑھو اور میری نظروں کے سامنے وہاں سے ایک کتاب اور فرشتوں کی ایک جماعت لے کر نہ آؤ اور خدا کی قَسم اگر یہ بھی کرو تو میں سمجھتا ہوں کہ میں پھر بھی نہ مانوں گا۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے جب دیکھا کہ یہ لوگ اس قدر ضد اور عنا د میں ہیں اور ان کی حق دشمنی حد سے گذر گئی ہے تو آپ کو ان کی حالت پر رنج ہوا۔ اس پر آیتِ کریمہ نازِل ہوئی۔

(۹۱ ) یا تمہارے  لیے  کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو پھر تم اس کے  لیے  اندر بہتی نہریں رواں کرو۔

(۹۲ ) یا  تم ہم پر آسمان گرا دو جیسا تم نے  کہا ہے  ٹکڑے  ٹکڑے  یا اللہ اور فرشتوں کو ضامن لے  آؤ (ف ۱۹۵)

۱۹۵             جو ہمارے سامنے تمہارے صدق کی گواہی دیں۔

(۹۳ )  یا تمہارے  لیے   طلائی گھر ہو یا تم  آسمان پر چڑھ جاؤ اور ہم  تمہارے  چڑھ جانے  پر بھی ہرگز ایمان نہ لائیں گے  جب تک ہم پر ایک کتاب نہ اتارو جو ہم پڑھیں، تم فرماؤ پاکی ہے  میرے  رب کو میں کون ہوں مگر آدمی اللہ کا بھیجا ہوا  (ف ۱۹۶)

۱۹۶             میرا کام اللہ کا پیام پہنچا دینا ہے وہ میں نے پہنچا دیا اب جس قدر معجزات و آیات یقین و اطمینان کے لئے درکار ہیں ان سے بہت زیادہ میرا پروردگار ظاہر فرما چکا، حجّت ختم ہو گئی اب یہ سمجھ لو کہ رسول کے انکار کرنے اور آیاتِ الٰہیہ سے مکرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔

(۹۴ )  اور کس بات نے  لوگوں کو ایمان لانے  سے  روکا جب ان کے  پاس ہدایت آئی مگر اسی نے  کہ بولے  کیا اللہ نے  آدمی  اللہ کا بھیجا ہوا  (ف ۱۹۶) اور کس بات نے  لوگوں کو ایمان لانے  سے  روکا جب ان کے  پاس ہدایت آئی مگر اسی نے   کہ بولے  کیا اللہ نے  آدمی کو رسول بنا کر بھیجا (ف ۱۹۷)

۱۹۷             رسولوں کو بشر ہی جانتے رہے اور ان کے منصبِ نبوّت اور اللہ تعالیٰ کے عطا فرمائے ہوئے کمالات کے مقر اور معترف نہ ہوئے، یہی ان کے کُفر کی اصل تھی اور اسی لئے وہ کہا کرتے تھے کہ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا، اس پر اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرماتا ہے کہ اے حبیب ان سے۔

(۹۵ ) تم فرماؤ اگر زمین میں فرشتے  ہوتے  (ف ۱۹۸) چین سے  چلتے  تو ان پر ہم رسول بھی فرشتہ اتارتے  (ف ۱۹۹)

۱۹۸             وہی اس میں بستے۔

۱۹۹             کیونکہ وہ ان کی جنس سے ہوتا لیکن جب زمین میں آدمی بستے ہیں تو ان کا ملائکہ میں سے رسول طلب کرنا نہایت ہی بے جا ہے۔

(۹۶ ) تم فرماؤ اللہ بس ہے  گواہ میرے  تمہارے  درمیان (۲۰۰) بیشک وہ اپنے  بندوں کو  جانتا دیکھتا ہے۔

۲۰۰             میرے صدق و ادائے فرضِ رسالت اور تمہارے کذب و عداوت پر۔

(۹۷ )  اور جسے  اللہ راہ دے  وہی راہ پر ہے  اور جسے  گمراہ کرے  (ف ۲۰۱) تو ان کے  لیے  اس کے  سوا کوئی حمایت والے  نہ پاؤ گے  (ف ۲۰۲) اور ہم انہیں قیامت کے  دن ان کے  منہ کے  بل (ف ۲۰۳) اٹھائیں گے  اندھے  اور گونگے  اور بہرے  (ف ۲۰۴) ان کا ٹھکانا جہنم ہے  جب کبھی بجھنے  پر آئے  گی ہم اسے  اور بھڑکا دیں گے۔

۲۰۱             اور توفیق نہ دے۔

۲۰۲             جو انہیں ہدایت کریں۔

۲۰۳             گھسٹتا۔

۲۰۴             جیسے وہ دنیا میں حق کے دیکھنے، بولنے اور سننے سے اندھے، گونگے، بہرے بنے رہے ایسے ہی اٹھائے جائیں گے۔

(۹۸ )  یہ ان کی سزا ہے  اس پر کہ  انہوں نے  ہماری آیتوں سے  انکار کیا اور بولے  کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے  تو کیا سچ مچ ہم نئے  بن کر اٹھائے  جائیں گے۔

(۹۹ )  اور کیا وہ نہیں دیکھتے  کہ وہ اللہ  جس نے  آسمان اور زمین بنائے  (ف ۲۰۵) ان لوگوں کی مثل بنا سکتا ہے  (ف ۲۰۶) اور اس نے  ان کے  لیے  (ف ۲۰۷) ایک میعاد ٹھہرا رکھی ہے  جس میں کچھ شبہ نہیں تو ظالم نہیں مانتے  بے  ناشکری کیے  (ف ۲۰۸)

۲۰۵             ایسے عظیم و وسیع وہ۔

۲۰۶             یہ اس کی قدرت سے کچھ عجیب نہیں۔

۲۰۷             عذاب کی یا موت و بعث کی۔

۲۰۸             باوجود دلیلِ واضح اور حجّت قائم ہونے کے۔

(۱۰۰ )  تم فرماؤ اگر تم لوگ میرے  رب  کی رحمت کے  خزانوں کے  مالک ہوتے  (ف ۲۰۹) تو  انہیں بھی روک رکھتے  اس ڈر سے  کہ خرچ نہ ہو جائیں، اور آدمی بڑا کنجوس ہے۔

۲۰۹             جن کی کچھ انتہا نہیں۔

(۱۰۱ )  اور بیشک ہم نے  موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں (ف ۲۱۰) تو بنی اسرائیل سے  پوچھو جب وہ  (ف ۲۱۱) ان کے  پاس آیا تو اس سے  فرعون نے  کہا، اے  موسیٰ! میرے  خیال میں تو تم پر جادو ہوا  (ف ۲۱۲)

۲۱۰             حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا وہ نو ۹ نشانیاں یہ ہیں (۱) عصا (۲) یدِ بیضا (۳) وہ عُقدہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبانِ مبارک میں تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو حل فرمایا (۴) دریا کا پھٹنا اور اس میں رستے بننا (۵) طوفان (۶) ٹیڑی (۷)گھن (۸) مینڈک (۹) خون، ان میں سے چھ ۶ آخر کا مفصّل بیان نویں پارے کے چھٹے رکوع میں گذر چکا۔

۲۱۱             حضرت موسیٰ علیہ السلام۔

۲۱۲             یعنی معاذ اللہ جادو کے اثر سے تمہاری عقل بجا نہ رہی یا مسحور ساحر کے معنیٰ میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ عجائب جو آپ دکھلا تے ہیں یہ جادو کے کرشمہ ہیں اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے۔

(۱۰۲ )  کہا یقیناً تو خوب جانتا ہے  (ف ۲۱۳) کہ انہیں نہ اتارا مگر آسمانوں اور زمین کے  مالک نے  دل کی آنکھیں کھولنے  کے لئے (ف ۲۱۴) اور میرے  گمان میں تو  اے  فرعون! تو ضرور ہلاک ہونے  والا ہے  (ف ۲۱۵)

۲۱۳             اے فرعونِ معانِد۔

۲۱۴             کہ ان آیات سے میرا صدق اور میرا غیر مسحور ہونا اور ان آیات کا خدا کی طرف سے ہونا ظاہر ہے۔

۲۱۵             یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے فرعون کے اس قول کا جواب ہے کہ اس نے آپ کو مسحور کہا تھا مگر اس کا قول کذب و باطل تھا جسے وہ خود بھی جانتا تھا مگر اس کے عناد نے اس سے کہلایا اور آپ کا ارشاد حق و صحیح چنانچہ ویسا ہی واقع ہوا۔

(۱۰۳ )  تو اس نے  چاہا کہ ان کو (ف ۲۱۶) زمین سے  نکال دے  تو ہم نے  اسے  اور اس کے  ساتھیوں کو سب کو ڈبو دیا (ف ۲۱۷)

۲۱۶             یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور ان کی قوم کو مِصر کی۔

۲۱۷             اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور ان کی قوم کو ہم نے سلامتی عطا فرمائی۔

(۱۰۴ )  اور اس کے  بعد ہم نے  بنی اسرائیل سے  فرمایا اس زمین میں بسو (ف ۲۱۸) پھر جب آخرت کا وعدہ آئے  گا (ف ۲۱۹) ہم تم سب کو گھال میل (لپیٹ کر) لے  آئیں گے   (ف ۲۲۰)

۲۱۸             یعنی زمینِ مِصر و شام میں۔ ( خازن و قرطبی)۔

۲۱۹             یعنی قیامت۔

(۱۰۵ ) اور ہم نے  قرآن کو حق ہی کے  ساتھ اتارا  اور حق وہی کے  لیے  اترا  (ف ۲۲۱) اور ہم نے  تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا۔

۲۲۰             موقفِ قیامت میں پھر سُعداء اور اشقیاء کو ایک دوسرے سے ممتاز کر دیں گے۔

(۱۰۶ ) اور قرآن ہم نے  جدا جدا کر کے  (ف ۲۲۲) اتارا کہ تم اسے  لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو (ف ۲۲۳) اور ہم نے  اسے  بتدریج رہ رہ کر اتارا (ف ۲۲۴)

۲۲۱             شیاطین کے خلط سے محفوظ رہا اور کسی تغیُّر نے اس میں راہ نہ پائی۔ تبیان میں ہے کہ حق سے مراد سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ذاتِ مبارک ہے۔ فائدہ : آیتِ شریفہ کا یہ جملہ ہر ایک بیماری کے لئے عمل مجرب ہے، موضعِ مرض پر ہاتھ رکھ کر پڑھ کر دم کر دیا جائے تو باذنِ اللہ بیماری دور ہو جاتی ہے۔ محمد بن سماک بیمار ہوئے تو ان کے متوسّلِین قارورہ لے کر ایک نصرانی طبیب کے پاس بغرضِ علاج گئے، راہ میں ایک صاحب ملے نہایت خوش رو و خوش لباس ان کے جسمِ مبارک سے نہایت پاکیزہ خوشبو آ رہی تھی انہوں نے فرمایا کہاں جاتے ہو ؟ ان لوگوں نے کہا ابنِ سماک کا قارورہ دکھانے کے لئے فلاں طبیب کے پاس جاتے ہیں انہوں نے فرمایا سبحان اللہ اللہ کے ولی کے لئے خدا کے دشمن سے مدد چاہتے ہو قارورہ پھینکو واپس جاؤ اور ان سے کہو کہ مقامِ درد پر ہاتھ رکھ کر پڑھو بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ یہ فرما کر وہ بزرگ غائب ہو گئے ان صاحبوں نے واپس ہو کر ابنِ سماک سے واقعہ بیان کیا انہوں نے مقامِ درد پر ہاتھ رکھ کر یہ کلمے پڑھے فوراً آرام ہو گیا اور ابنِ سماک نے فرمایا کہ وہ حضرت خضر تھے علی نبینا و علیہ السلام۔

۲۲۲             تئیس سال کے عرصہ میں۔

۲۲۳             تاکہ اس کے مضامین بآسانی سننے والوں کے ذہن نشین ہوتے رہیں۔

۲۲۴             حسبِ اقتضائے مصالح و حوادث۔

(۱۰۷ )  تم فرماؤ کہ تم لوگ اس پر  ایمان لاؤ یا نہ لاؤ (ف ۲۲۵) بیشک وہ جنہیں اس کے  اترنے  سے  پہلے  علم ملا (ف ۲۲۶)  اب ان پر پڑھا جاتا ہے، ٹھوڑی کے  بل سجدہ میں گر پڑتے  ہیں۔

۲۲۵             اور اپنے لئے نعمتِ آخرت اختیار کرو یا عذابِ جہنّم۔

۲۲۶             یعنی مومنینِ اہلِ کتاب جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بعثت سے پہلے انتظار و جستجو میں تھے حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعثت کے بعد شرفِ اسلام سے مشرف ہوئے جیسے کہ زید بن عمرو بن نفیل اور سلمان فارسی اور ابو ذر  وغیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔

(۱۰۸ )  اور کہتے  ہیں پاکی ہے  ہمارے  رب کو بیشک ہمارے  اب کا وعدہ پورا ہوتا تھا  (ف ۲۲۷)

۲۲۷             جو اس نے اپنی پہلی کتابوں میں فرمایا تھا کہ نبیِ آخر الزماں محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو مبعو ث فرمائیں گے۔

(۱۰۹ ) اور تھوڑی کے  بل گرتے  ہیں (ف ۲۲۸)  روتے  ہوئے  اور یہ قرآن ان کے  دل کا جھکنا  بڑھاتا ہے، (ف ۲۲۹) (السجدۃ)  ۴

۲۲۸             اپنے ربّ کے حضور عجز و نیاز سے نرم دلی سے۔

۲۲۹             مسئلہ : قرآنِ کریم کی تلاوت کے وقت رونا مستحب ہے۔ ترمذی و نسائی کی حدیث میں ہے کہ وہ شخص جہنّم میں نہ جائے گا جو خوفِ الٰہی سے روئے۔

(۱۱۰ )  تم فرماؤ اللہ کہہ کر پکارو  رحمان کہہ کر، جو کہہ کر پکارو سب اسی کے  اچھے  نام ہیں (ف ۲۳۰) اور اپنی نماز نہ بہت آواز سے  پڑھو نہ بالکل آہستہ اور ان دنوں کے   بیچ میں راستہ چاہو (ف ۲۳۱)

۲۳۰             شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا ایک شب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے طویل سجدہ کیا اور اپنے سجدہ میں یا اللہ یا رحمٰن فرماتے رہے ابو جہل نے سنا تو کہنے لگا کہ (حضرت) محمّد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) ہمیں تو کئی معبودوں کے پوجنے سے منع کرتے ہیں اور اپنے آپ دو کو پکارتے ہیں اللہ کو اور رحمٰن کو (معاذ اللہ) اس کے جواب میں یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا اللہ اور رحمٰن دو نام ایک ہی معبودِ برحق کے ہیں خواہ کسی نام سے پکارو۔

۲۳۱             یعنی متوسط آواز سے پڑھو جس سے مقتدی بہ آسانی سن لیں۔ شانِ نُزول : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم مکّۂ مکرّمہ میں جب اپنے اصحاب کی امامت فرماتے تو قراء ت بلند آواز سے فرماتے، مشرکین سنتے تو قرآنِ پاک کو اور اس کے نازِل فرمانے والے کو اور جن پر نازِل ہو ان سب کو گالیاں دیتے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی۔

(۱۱۱ ) اور یوں کہو سب خوبیاں اللہ کو جس نے  اپنے  لیے  بچہ اختیار نہ فرمایا (ف ۲۳۲) اور بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں (ف ۲۳۳) اور کمزوری سے  کوئی اس کا حمایتی نہیں (ف ۲۳۴) اور اس کی بڑائی بولنے  کو تکبیر کہو (ف ۲۳۵)

۲۳۲             جیسا کہ یہود و نصاریٰ کا گمان ہے۔

۲۳۳             جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں۔

۲۳۴             یعنی وہ کمزور نہیں کہ اس کوکسی حمایتی اور مددگار کی حاجت ہو۔

۲۳۵             حدیث شریف میں ہے روزِ قیامت جنّت کی طرف سب سے پہلے وہی لوگ بلائے جائیں گے جو ہر حال میں اللہ کی حمد کرتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ بہترین دعا  اَلْحَمْدُ لِلہِ  ہے اور بہترین ذکر لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ۔ (ترمذی) مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک چار کلمے بہت پیارے ہیں۔ ' ' لَآاِلٰہَ اِلاَّاللہُ، اَللہُ اَکْبَرُ، سُبْحَانَ اللہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ۔

فائدہ : اس آیت کا نام آیت العز ہے، بنی عبدالمطلب کے بچّے جب بولنا شروع کرتے تھے تو ان کو سب سے پہلے یہی آیت قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ  سکھائی جاتی تھی۔