دعوۃ القرآن

سورة بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

ابتدائی آیتوں میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے ایک اہم باب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے سورہ کا نام بنی اسرائیل قرار پایا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

 مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہجرت مدینہ سے تقریباً ایک سال پہلے یعنی ۱۲ نبوی میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل (مشرکین عرب) دونوں کو متنبہ کرنا ہے کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ دونوں کو اس نبی کے حوالہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگر تم اپنی سرکشی سے باز نہیں آئے اور ہمارے رسول سے ٹکر لی تو یاد رکھو اللہ کا تازیانہ تم پر برس کر رہے گا۔ اگر سنبھلنا چاہتے ہو تو نبی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے بجائے ان تعلیمات کو قبول کر لو جو اس پر نازل کی گئی ہیں۔

 

نظم کلام

 

آغاز معراج کے واقعہ سے ہوا ہے جس میں یہ اشارہ مضمر ہے کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ دونوں پر نبی اور اس کے پیروؤں کا غلبہ ہونے والا ہے۔

 

آیت ۲ تا ۸ میں مسجد اقصیٰ کے تعلق سے بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے عبرت آموز واقعات سنا کر متنبہ کر دیا گیا ہے۔ آیت ۹ تا ۲۲ میں قرآن کی دعوت کو پیش کیا گیا ہے۔ آیت ۲۳ تا ۳۹ میں ربانی تعلیمات بیان ہوئی ہیں جو انسان کے کردار کو سنوارتی ہیں اور اس کے رب سے اس کا تعلق استوار کرتی ہیں۔ آیت ۴۰ تا ۶۰ میں منکرین کے شبہات و اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ آیت ۶۱ تا ۶۰ میں ابلیس کے اس واقعہ کو پیش کیا گیا ہے کہ اس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر کے بنی نوع انسان کے ساتھ دشمنی کر لی ہے اور اسے گمراہ کرنے ٹھان لی ہے اور وہی آج لو گوں کو قرآن سے متنفر کر رہا ہے۔ ضروری ہے کہ لو گ اپنے دشمن سے چوکنا رہیں۔ آیت ۶۶ تا ۷۲ میں توحید اور آخرت کا یقین پیدا کرنے والی باتیں پیش کی گئی ہیں۔ آیت ۷۳ تا ۷۷ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تاکید کہ آپ مخالفتوں کے طوفان سے گزرتے ہوئے راہِ حق پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں۔ آیت ۷۸ تا ۸۲ میں نماز کی تاکید، ہجرت کی طرف اشارہ کہ عنقریب یہ واقعہ پیش آنے والا ہے، غلبۂ حق کی بشارت اور ظالموں کو تنبیہ۔ آیت۸۳ تا ۱۰۰ میں انسان کے غلط طرز عمل پر گرفت اور منکرین کے اعتراضات کے جوابات۔ آیت ۱۰۱ تا ۱۰۴ میں موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا ذکر اور یہ وضاحت کہ معجزات کو دیکھ لینے کے باوجود فرعون ایمان نہیں لایا اور بالآخر اس پر عذاب ٹوٹ پڑا۔ آیت ۱۰۵ تا ۱۱۱ خاتمۂ کلام ہے جس میں خدا کو پکارنے کے آداب کو ملحوظ رکھنے اور اس کی عظمت و کبریائی بیان کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

سورہ کا آغاز اس بات سے ہوا تھا کہ اللہ کیلئے پاکی ہے اور اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ وہ نہایت با عظمت ہستی ہے لہٰذا اس کی کبریائی بیان کرو۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے گرد و پیش ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلا شبہ وہی ہے سب کچھ سننے والا دیکھنے والا۔ ۱*

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی ۲* اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنایا تھا کہ میرے سوا کسی کو اپنا معتمد نہ بناؤ۔ ۳*

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ تم ان لو گوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوحؑ کے ساتھ (کشتی میں) سوار کرایا تھا۔ ۴* وہ واقعی ایک شکر گزار بندہ تھا۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل کو اپنے اس فیصلہ سے آگاہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے۔ ۵*

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب پہلے وعدہ کا وقت آگیا تو ہم نے تم پر ایسے بندے مسلط کر دئے جو بڑے زور آور تھے وہ تمہارے گھروں میں گھس پڑے اور وعدہ پورا ہو کر رہا۔ ۶*

 

۶) پھر ہم نے ان کے مقابلہ میں تمہیں غلبہ دیا اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہاری تعداد بڑھا دی۔ ۷*

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم نے بھلائی کی تو اپنے ہی لیے کی اور اگر برائی کی تو وہ بھی اپنے ہی لیے کی۔ ۸* پھر جب دوسرے وعدہ کا وقت آیا تو ہم نے پھر زور آور بندے تمہارے خلاف اٹھائے تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور اسی طرح مسجد میں گھس پڑیں جس طرح پہلی مرتبہ گھس پڑے تھے اور جس چیز پر ان کا بس چلے تباہ کر کے رکھ دیں۔ ۹*

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ عجب نہیں کہ تمہارا رب تم پر رحم فرمائے لیکن اگر تم نے پھر وہی روش اختیار کی تو ہم پھر اسی طرح سزا دیں گے۔ ۱۰* اور ہم نے کافروں کے لیے جہنم کو قید خانہ بنا رکھا ہے۔ ۱۱*

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً یہ قرآن اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے ۱۲* اور ایمان والوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لو گ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ اور انسان شر کے لیے اس طرح دعا کرنے لگتا ہے جس طرح اسے خیر کے لیے دعا کرنا چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔ ۱۳*

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا۔ رات کی نشانی ہم نے دھیمی کر دی اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور سالوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو۔ ۱۴* اور ہم نے ہر چیز کھول کھول کر بیان کر دی ہے۔ ۱۵*

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں چپکا دیا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔ ۱۶*

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ پڑھ اپنا نامۂ اعمال! آج تو خود اپنا حساب لینے کے لیے کافی ہے۔ ۱۷*

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ جو ہدایت کی راہ اختیار کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو اس کا وبال بھی اسی پر ہے۔ کوئی بو جھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ۱۸* اور ہم (کسی قوم کو) عذاب نہیں دیتے جب تک کہ اس میں ایک رسول نہ بھیج دیں۔ ۱۹*

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے خوشحال لو گوں کو حکم دیتے ہیں مگر وہ اس میں نا فرمانی کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح عذاب کی بات اس پر لاگو ہو جاتی ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ۲۰*

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ اور نوح کے بعد ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں اور تمہارا رب اس بات کے لیے کافی ہے کہ اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر ہو اور ان کو دیکھے۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ جو (دنیائے) عاجلہ کا خواہشمند ہوتا ہے ہم اسے یہیں دے دیتے ہیں جس قدر دینا چاہیں اور جس کو دینا چاہیں پھر اس کے لیے ہم نے جہنم مہیا کر دی ہے جس میں وہ داخل ہو گا اس حال میں کہ ملامت زدہ ہو گا ٹھکرایا ہوا!۲۱*

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ اور جو آخرت کا خواہشمند ہو گا اور اس کے لیے کوشش کرے گا جیسی کوشش کرنا چاہیے اور ہو وہ مومن تو ایسے ہی لو گوں کی کوشش مقبول ہو گی۔ ۲۲*

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ہم ان کو بھی اور ان کو بھی ہر ایک کو (سامانِ زندگی) دئے جا رہے ہیں جو تمہارے رب کی بخشش ہے اور تمہارے رب کی بخشش کسی پر بند نہیں ہے۔ ۲۳*

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو ہم نے کس طرح ایک (گروہ) کو دوسرے (گروہ) پر فضیلت عطا کی ہے ۲۴* اور آخرت تو درجات کے اعتبار سے بھی بڑھ کر ہے اور فضیلت کے اعتبار سے بھی۔ ۲۵*

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے ساتھ دوسرا خدا نہ بناؤ ورنہ بیٹھ رہو گے ملامت زدہ اور بے یارو مددگار ہو کر۔ ۲۶*

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۲۷* اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔ ۲۸*

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے لیے رحمت کے ساتھ خاکساری کے بازو جھکائے رکھو ۲۹* اور دعا کرو کہ پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔ ۳۰*

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے۔ ۳۱* اگر تم نیک بن جاؤ تو وہ رجوع کرنے والوں کے لیے بڑا بخشنے والا ہے۔ ۳۲*

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ اور رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق ۳۳* اور فضول خرچی نہ کرو۔ ۳۴*

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ ۳۵*

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تمہیں اپنے رب کی مہربانی کی تلاش میں جس کے تم امیدوار ہو ان سے پہلو تہی کرنا پڑے تو ان سے نرمی کی بات کہو۔ ۳۶*

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ اور نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز ہو کر بیٹھ رہو۔ ۳۷*

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ ۳۸* وہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا اور ان کو دیکھنے والا ہے۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔ ۳۹* بلاشبہ ان کا قتل بہت بڑے گناہ کی بات ہے۔ ۴۰*

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ یہ کھلی بے حیائی ہے اور بہت بری راہ۔ ۴۱*

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ اور کسی نفس کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے قتل نہ کرو مگر حق کی بنا پر۔ ۴۲* اور جو کوئی مظلومی کی حالت میں مارا جائے تو اس کے ولی کو ہم نے اختیار دے دیا ہے لہٰذا وہ قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے۔ ۴۳* اس کی مدد کی گئی ہے۔ ۴۴*

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر اس طریقہ سے جو بہتر ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔ ۴۵* اور عہد کو پورا کرو۔ یقیناً عہد کے بارے میں باز پرس ہو گی۔

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ناپو تو پیمانہ بھر کر دو اور سیدھی ترازو سے تولو۔ ۴۶* یہ طریقہ اچھا ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر۔ ۴۷*

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ اور جس بات کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو۔ ۴۸*کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ ۴۹*

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ ۵۰*

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ان تمام چیزوں کی برائی تمہارے رب کے نزدیک سخت نا پسندیدہ ہے۔ ۵۱*

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ یہ حکمت کی ان باتوں میں سے ہیں جو تمہارے رب نے تم پر وحی کی ہیں۔ ۵۲* اور اللہ کے ساتھ دوسرا معبود نہ ٹھہراؤ ۵۳* کہ جہنم میں ڈال دئے جاؤ ملامت زدہ، ٹھکرائے ہوئے۔

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ کیا تمہارے رب نے تمہارے لیے تو بیٹے خاص کر دئے اور اپنے لیے فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا؟۵۴* بڑی سخت بات ہے جو تم کہتے ہو۔

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بات واضح کر دی تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں ۵۵* مگراس سے ان کی دوری بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ۵۶*

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ کہو اگر اس کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے جیسا کہ یہ لو گ کہتے ہیں تو وہ صاحبِ عرش کی طرف (چڑھائی کرنے کے لیے) راہ ضرور نکال لیتے۔ ۵۷*

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ پاک ہے وہ اور بہت بلند ہے ان باتوں سے جو یہ کہتے ہیں۔

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی اُن میں ہے سب اس کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ ۵۸* بلا شبہ وہ بڑا بردبار اور بڑا بخشنے والا ہے۔ ۵۹*

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور ان لو گوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک پوشیدہ پردہ حائل کر دیتی ہیں۔ ۶۰*

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے دلوں پر غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ کچھ نہ سمجھیں اور ان کے کانو ں میں گرانی پیدا کر دیتے ہیں۔ ۶۱* اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ ۶۲*

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ہم جانتے ہیں جب یہ تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو کیا سنتے ہیں نیز جب یہ سرگوشیاں کرتے ہیں۔ جب یہ ظالم کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے آدمی کے پیچھے چل رہے ہو جو سحر زدہ ہے۔ ۶۳*

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو، یہ کیسی باتیں ہیں جو تمہاری نسبت کہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بھٹک گئے۔ اب راہ نہیں پا سکتے۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہتے ہیں جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہمیں از سر نو پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ کہو تم پتھر ہو جاؤ یا لوہا۔

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ یا کوئی اور چیز جو تمہارے نزدیک اس سے بھی زیادہ سخت ہو۔ ۶۴* وہ کہیں گے کون ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا؟ کہو وہی جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا۔ پھر وہ سر ہلا کر پوچھیں گے کہ یہ کب ہو گا؟ کہو عجب نہیں کہ اس کا وقت قریب آ لگا ہو۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کا جواب دو گے اور یہ خیال کرو گے کہ بس تھوڑی ہی دیر (ٹھہرے) رہے۔ ۶۵*

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ اور میرے بندوں سے کہ دو کہ وہ ایسی بات کہیں جو بہتر ہو۔ شیطان لو گوں کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔ ۶۶* یقیناً شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا رب تم کو خوب جانتا ہے۔ وہ چاہے تو تم پر رحم فرمائے اور چاہے تو تمہیں عذاب دے۔ ۶۷* اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم کو ان پر ان کے عمل کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے۔ ۶۸*

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے ان کو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت بخشی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔ ۶۹*

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ کہو پکار دیکھو ان کو جن کو تم نے اس کے سوا خدا سمجھ رکھا ہے۔ وہ نہ تمہاری کوئی تکلیف دور کر سکتے ہیں اور نہ تمہاری حالت بدل سکتے ہیں۔ ۷۰*

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ جن کو یہ لو گ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب کا قرب تلاش کرتے ہیں کہ کون سب سے زیادہ مقرب بنتا ہے۔ وہ اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ ۷۱* بے شک تمہارے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ اور کوئی آبادی ایسی نہیں جس کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کر دیں یا سخت عذاب نہ دیں۔ یہ بات کتاب میں لکھی جاچکی ہے۔ ۷۲*

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ اور ہمارے لیے نشانیاں بھیجنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوئی مگر یہ بات کہ اگلے لو گوں نے ان کو جھٹلایا تھا۔ ۷۳* ثمود کو ہم نے اونٹنی دی کہ ایک کھلی نشانی تھی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا۔ ۷۴* اور نشانیاں تو ہم اسی لیے بھیجتے ہیں کہ (لو گوں کو ان کے ذریعہ) ڈرائیں۔ ۷۵*

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم نے تم سے کہا تھا کہ تمہارے رب نے لو گوں کو گھر رکھا ہے۔ ۷۶* اور اس مشاہدہ (رؤیا) کو جو ہم نے تمہیں کرایا لو گوں کے لیے آزمائش بنا دیا ہے۔ ۷۷* نیز اس درخت کو بھی جس کو قرآن میں ملعون قرار دیا گیا ہے۔ ۷۸* ہم انہیں ڈراتے ہیں لیکن اس سے ان کی سرکشی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا ۷۹* مگر ابلیس نے نہیں کیا۔ ۸۰* اس نے کہا کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ ۸۱*

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ (نیز) اس نے کہا کیا تیرا یہی فیصلہ ہوا کہ تو نے اس کو مجھ پر فضیلت بخشی۔ ۸۲* اگر تو نے مجھے قیامت کے دن مہلت دی تو میں اس کی پوری نسل کو بیخ و بن سے اکھاڑ ڈالوں گا۔ صرف تھوڑے لو گ اس سے بچ سکیں گے۔ ۸۳*

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا جا۔ ان میں سے جو بھی تیرے پیچھے چلیں گے تو جہنم ہی تم سب کے لیے پوری پوری سزا ہے۔ ۸۴*

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ تو ان میں سے جس جس کو اپنی آواز سے بہکا سکتا ہے بہکا لے ۸۵* پھر اپنے سواروں اور پیادوں سے حملہ کر ۸۶*، مال اور اولاد میں ان کا شریک بن جا، ۸۷* ان سے وعدہ کر اور شیطان جو وعدہ بھی کرتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ سرتا سر دھوکا۔ ۸۸*

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا۔ ۸۹* اور تیرا رب کارسازی کے لیے کافی ہے۔ ۹۰*

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا رب تو وہ ہے جو تمہارے لیے سمندر میں کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل ۹۱ * تلاش کرو۔ یقیناً وہ تم پر بہت مہربان ہے۔

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ جب سمندر میں تمہیں مصیبت آ لیتی ہے تو اس ایک کے سوا جن جن کو تم پکارتے ہو سب غائب ہو جاتے ہیں۔ ۹۲* پھر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑتے ہو۔ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ وہ خشکی کے کسی حصہ میں تم کو دھنسا دے یا تم پر سنگ باری کرنے والی آندھی بھیج دے۔ پھر تم اپنے لیے کوئی کارساز نہ پاؤ۔ ۹۳*

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ یا اس بات سے تم بے خوف ہو گئے ہو کہ وہ تمہیں دوبارہ اس میں (سمندر میں) لے جائے اور تم پر ہوا کا سخت طوفان بھیج دے اور تمہاری ناشکری کی وجہ سے تم کو غرق کر دے۔ پھر تم کسی کو نہ پاؤ جو ہم سے پوچھ کچھ کر سکے۔ ۹۴*

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ۹۵* اور اس کو خشکی اور تری میں سواری عطا کی ۹۶* اور پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا ۹۷* اور اپنی بہت سی مخلوقات پر اس کو فضیلت دی۔ پوری پوری فضیلت۔ ۹۸*

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ جس دن ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔ ۹۹* تو جن کو ان کا نامۂ عمل داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا ۱۰۰* وہ اپنا نامۂ عمل پڑھیں گے ۱۰۱* اور ان کے ساتھ ذرا بھی نا انصافی نہیں ہو گی۔

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا ۱۰۲* اور راہ سے بالکل بھٹکا ہوا۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ یہ لو گ اس بات کے درپے تھے کہ تمہیں فتنہ میں ڈال کر اس (کلام) سے پھیر دیں جو ہم نے تم پر وحی کیا ہے تاکہ تم کوئی اور بات ہمارے نام سے گھڑ کر پیش کرو۔ اور اس صورت میں وہ تمہیں اپنا دوست بنا لیتے۔ ۱۰۳*

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر ہم نے تمہارے قدم جمانے دئے ہوتے تو بعید نہ تھا کہ تم ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھک پڑتے۔ ۱۰۴*

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ اس صورت میں ہم تمہیں زندگی کا بھی دوہرا عذاب چکھاتے اور موت کا بھی دوہرا عذاب۔ پھر تم ہمارے مقابلہ میں کوئی مددگار نہ پاتے۔ ۱۰۵*

 

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ اس بات کے درپے ہیں کہ تمہارے قدم اس سرزمین سے اکھاڑ دیں تاکہ پھر تمہیں یہاں سے نکال دیں۔ لیکن اگر وہ ایسا کر بیٹھے تو تمہارے بعد بہت کم ٹھہر سکیں گے۔

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے ان کے معاملہ میں ہمارا یہی قاعدہ رہا ہے اور ہمارے قاعدے میں تم کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ ۱۰۷*

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ نماز قائم کرو سورج کے ڈھلنے سے لیکر رات کے اندھیرے تک اور فجر کی قرأت قرآن کا اہتمام کرو کہ فجر کی قرأتِ قرآن میں بڑی حضوری ہوتی ہے۔ ۱۰۸*

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ اور رات میں تہجد پڑھو۔ یہ تمہارے لیے مزید ہے۔ ۱۰۹* عجب نہیں کہ تمہارا رب تمہیں ایسے مقام پر اٹھائے جو نہایت محمود ہے۔ ۱۱۰*

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ اور دعا کرو کہ اے میرے رب! مجھے (جہاں کہیں) داخل کر تو سچائی کے ساتھ داخل کر اور مجھے نکال تو سچائی کے ساتھ نکال۔ ۱۱۱* اور اپنی طرف سے ایسا غلبہ عطا فرما جو میرا مددگار ہو۔ ۱۱۲*

 

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ اور اعلان کر دو حق آگیا اور باطل نابود ہوا اور باطل ہے ہی نابود ہونے والا۔ ۱۱۳*

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم قرآن کی شکل میں وہ چیز نازل کر رہے ہیں جو ایمان لانے والوں کے لیے شفا ۱۱۴* بھی ہے اور رحمت بھی ۱۱۵ مگر ظالموں کے خسارہ میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ۱۱۶*

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ اور انسان کو جب ہم نعمت عطا کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا اور پہلو بچا کر چلتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے۔ ۱۱۷*

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ کہو ہر شخص اپنے طریقہ پر کام کرتا ہے اور تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون بالکل صحیح راہ پر ہے۔ ۱۱۸*

 

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ یہ لو گ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہو روح میرے رب کا فرمان ہے اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بہت تھوڑا ہے۔ ۱۱۹*

 

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر ہم چاہیں تو جو وحی ہم نے تم پر کی ہے اس کو چھین لیں پھر تم ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی نہ پاؤ۔ ۱۲۰*

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ مگر یہ تمہارے رب کی رحمت ہے (جو تمہیں عطا ہوئی ہے) ۔ یقیناً اس کا فضل تم پر بہت بڑا ہے۔

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ کہو اگر تمام انس و جن مل کر اس قرآن جیسی چیز لانا چاہیں تو اس جیسی چیز نہیں لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں۔ ۱۲۱*

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس قرآن میں لو گوں (کو سمجھانے) کے لیے بیان کے مختلف طریقے اختیار کئے مگر اکثر لو گوں نے اس کا کوئی اثر قبول نہیں کیا اگر کیا تو کفر۔ ۱۲۲*

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہتے ہیں ہم تمہاری بات ماننے والے نہیں جب تک کہ تم زمین سے ہمارے لیے چشمہ جاری نہ کر دو۔

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ یا تمہارے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو اور اس میں نہریں جاری کر دو۔

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ یا آسمان کو ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرا دو جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے یا اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آؤ۔

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ یا تمہارے لیے سونے کا ایک گھر ہو یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ۔ اور ہم تمہارے چڑھنے کا بھی یقین کرنے والے نہیں جب تک کہ تم ہم پر ایک (لکھی ہوئی) کتاب نہ اتار لاؤ جسے ہم پڑھ سکیں۔ کہو پاک ہے میرا رب!میں اس کے سوا کیا ہوں کہ ایک رسول (پیغام پہنچانے والا) بشر۔ ۱۲۳*

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ اور لو گوں کو ایمان لانے سے جبکہ ہدایت ان کے پاس آ گئی اسی چیز نے روکا کہ کہنے لگے کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟۱۲۴*

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان کے پاس کسی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے۔ ۱۲۵*

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ کہو اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے کافی ہے۔ وہ اپنے بندوں سے با خبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ جسکو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جس کو وہ گمراہ کر دے تو ایسے لو گوں کے لیے تم اس کے سوا کوئی مددگار نہ پاؤ گے۔ اور ہم قیامت کے دن ان کو ان کے منہ کے بل اٹھائیں گے اندھے، گونگے اور بہرے۔ ۱۲۶* ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا۔ جب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے کو ہو گی ہم اس کو اور بھڑکا دیں گے۔ ۱۲۷*

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ یہ بدلہ ہو گا اس بات کا کہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہا کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو کر رہ جائیں گے تو ہم کو نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟۱۲۸*

 

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے یہ نہ سوچا کہ اللہ جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے ان جیسوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر ضرور قادر ہے۔ ۱۲۹* اس نے ان کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس میں کوئی شک نہیں مگر ظالموں کے لیے سوائے انکار کے کوئی بات بھی قابل قبول نہیں۔ ۱۳۰*

 

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ کہو اگر میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضہ میں ہوتے تو تم ضرور خرچ ہو جانے کے اندیشے سے انہیں روک رکھتے۔ انسان بڑا ہی تنگ دل واقع ہوا ہے۔ ۱۳۱*

 

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دی تھیں۔ ۱۳۲* تم بنی اسرائیل سے پوچھ لو جب وہ ان کے پاس آئے تو فرعون نے کہا اے موسیٰ میں سمجھتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے۔ ۱۳۳*

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے (موسیٰ نے) جواب دیا تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ بصیرت کی نشانیاں اسی نے اتاری ہیں جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ۱۳۴* اور میں سمجھتا ہوں کہ اے فرعون! تم نے اپنے کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔ ۱۵۰*

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس نے چاہا کہ ان کے قدم زمین سے اکھاڑ دے تو ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو ایک ساتھ غرق کر دیا۔ ۱۳۵*

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ تم زمین میں بسو۔ ۱۳۶* پھر جب آخرت کا وعدہ (وقوع میں) آئے گا تو ہم تم سب کو جمع کر کے لا حاضر کریں گے۔ ۱۳۷*

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور یہ حق ہی کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ ۱۳۹* اور ہم نے تم کو اسی لیے بھیجا ہے کہ خوش خبری سناؤ اور خبردار کرو۔

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے قرآن کو الگ الگ حصوں کی شکل میں نازل کیا ہے تاکہ لو گوں کو تم ٹھہر ٹھہر کر سناؤ اور ہم نے اس کو بتدریج اتارا ہے۔ ۱۴۰*

 

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ کہو تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن لو گوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ۱۴۱* انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر جاتے ہیں۔ ۱۴۲*

 

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ اور پکار اٹھتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا رب ہمارے رب کا وعدہ تو اسی لیے تھا کہ پورا ہو کر رہے۔ ۱۴۳*

 

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر جاتے ہیں اور اس سے ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔ ۱۴۴*

 

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ کہو تم اللہ کہ کر پکارو یا رحمن کہ کر۔ ۱۴۵* جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں۔ ۱۴۶* اور تم اپنی نماز کو نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بالکل ہی پست آواز سے بلکہ ان کے درمیان کی صورت اختیار کرو۔ ۱۴۷*

 

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ اور کہو ساری ستائش اللہ ہی کے لیے ہے ۱۴۸* جس نے اپنے لیے نہ کوئی اولاد بنائی اور نہ بادشاہی میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا مددگار ہو۔ ۱۴۹* اور اس کی بڑائی بیان کرو جیسی بڑائی بیان کرنا چاہیے۔

تفسیر

۱۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ اسراء اور معراج کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں مکہ سے بیت المقدس تک کا سفر ایک رات میں کر دینے کی صراحت کی گئی ہے جو معراج کا پہلا مرحلہ تھا۔ رہا دوسرا مرحلہ جس میں آپ ؐ کو ساتویں آسمان تک واقع سدرۃ المنتہیٰ تک کا مشاہدہ کرایا گیا تو اس کا ذکر سورۂ نجم میں ہوا ہے اس لیے ہم یہاں ان ہی باتوں کی تشریح پر اکتفاء کرتے ہیں جو پہلے مرحلہ یعنی اسراء (بیت المقدس تک کے سفر) سے تعلق رکھتی ہیں۔

 

آیت میں عبد (بندہ) سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور اللہ کا یہ ارشاد کہ وہ اپنے بندہ کو لے گیا اس کی عنایت خاص کا مظہر ہے جو اس بندہ پر ہوئی۔

 

مسجد حرام سے مراد مکہ کی وہ حرمت والی مسجد ہے جس کی درمیان خانۂ کعبہ واقع ہے اور جس کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے (تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح) دور کی مسجد سے مراد مسجد اقصیٰ ہے جو بیت المقدس میں واقع ہے۔ اقصیٰ کے معنیٰ دور والی کے ہیں۔ اس سے قرآن کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ بیت المقدس کی مسجد مکہ کی مسجد حرام سے کافی دوری پر ہے لیکن یہ طویل فاصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کے لیے ایک رات کے کچھ حصہ میں طے کر وایا۔ قرآن کے ان الفاظ کی مناسبت سے بیت المقدس کی اس تاریخی مسجد کا نام مسجد اقصیٰ مشہور ہوا ورنہ نزول قرآن کے وقت اس کا یہ اصطلاحی نام نہ تھا۔ بیت المقدس کی یہ مسجد سلیمان علیہ السلام نے تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح میں (غالباً ۹۵۹ قبل مسیح میں) تعمیر کی تھی جو بنی اسرائیل کے لیے دعوت اسلامی اور دینی سرگرمیوں کا مرکز ہونے کے علاوہ قبلہ قرار پائی تھی۔

 

اس کے گردو پیش برکتیں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ پورا علاقہ دینی اور دنیوی برکتوں سے مالا مال ہے۔ جہاں تک دینی برکتوں کا تعلق ہے یہ سرزمین حضرت ابراہیم کی ہجرت گاہ اور حضرت اسحاق کا مسکن قرار پائی نیز بنی اسرائیل کے متعدد انبیاء علیہم السلام کا ظہور یہاں ہوا اور انہوں نے اس سرزمین پر وہ نقوش چھوڑے جو دنیا والوں کی دین حق کی طرف رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ یہاں حضرت سلیمان کو ایک بے مثال سلطنت عطا ہوئی اور نبی اسرائیل کو وہ کچھ بخشا گیا جو دنیا کی کسی قوم کو نہیں بخشا گیا تھا۔ گویا اس زمین کا چپہ چپہ انبیاء علیہم السلام کی یادگار ہونے کی وجہ سے دینی دولت کے خزانے اگلتے رہا ہے۔ رہا دنیوی برکتوں سے اس کا مالا مال ہونا تو یہ علاقہ بڑا زر خیز اور سر سبز و شاداب ہے اور بائبل میں تو اس کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے کہ یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔

 

مکہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً ایک ہزار میل ہے۔ اس زمانہ میں یہ سفر چالیس دن میں طے ہوتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے یہ سفر معجزانہ طور پر ایک رات کے اندر ہی طے کرا دیا حدیث میں آتا ہے کہ آپ براق پر سوار ہو کر گئے تھے اور حضرت جبرائیل آپ کے ساتھ تھے یعنی یہ سفر ایک برق رفتار سواری پر ہوا تھا۔ یہ بات اس زمانہ میں تو بہت عجیب معلوم ہوتی تھی لیکن اس زمانہ میں جب کہ انسان تیز رفتار ہوائی جہاز اور راکٹ ایجاد کر چکا ہے عجیب نہیں رہی کیونکہ جب انسان مہینوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے کر سکتا تھا تو کائنات کا رب کیا اس بات پر قادر نہیں کہ مکہ سے بیت المقدس کا سفر منٹوں میں طے کرا دے ؟

 

اسی لیے اس سورہ کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ اللہ کی ذات پاک اور منزہ ہے۔ یعنی یہ معجزاتی سفر طے کرانا اللہ کی قدرت سے ہرگز بعید نہیں۔ جو لو گ اس کو نا ممکن خیال کرتے ہیں وہ اللہ کی قدرت کا بالکل غلط اندازہ لگاتے ہیں۔

 

یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ سفر جسمانی تھا اور بیداری کی حالت میں تھا۔ اگر محض روحانی سفر ہوتا یا خواب کی حالت میں ہوتا تو نہ اس کو اس طرح تعبیر کیا جاتا کہ ہم اپنے بندے کو ایک رات لے گئے اور نہ ہی لو گوں کے لیے یہ بات وجہ آزمائش بن جاتی۔

 

جو شخص بھی صاف ذہن سے آیت کا مطالعہ کرے گا وہ یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہے گا کہ اس کے ذریعے ایک غیر معمولی واقعہ کی خبر دی جا رہی ہے اور بخاری کی اس حدیث سے مزید اس کی تائید ہوتی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ " جب قریش نے مجھے جھٹلایا تو میں حجر (خانہ کعبہ کے خارجی حصہ) میں کھڑا ہو گیا۔ اس وقت اللہ نے مجھ پر بیت المقدس کو آشکارا کر دیا۔ میں اس کو دیکھ کر اس کی علامتیں ان کو بتاتا جاتا تھا۔ " (بخاری حدیث الاسراء) ۔

 

اس پر بھی اگر لو گ بحث میں الجھتے ہیں تو انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ ان کی سب باتیں سن رہا ہے اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اسے دیکھ رہا ہے۔

 

رہا اس سفر کا مقصد تو آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو مسجد اقصیٰ میں پائی جاتی ہیں اور جو توحید، خدائے واحد کی عبادت، انبیاء علیہم السلام کی متفقہ دعوت اور دین حق کے لیے ان کی جد و جہد، بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی تاریخ اور اللہ کے قانون جزا و سزا پر دلالت کرتی ہیں۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نبی القبلتین بنایا جا رہا تھا اس لیے مسجد اقصیٰ کا یہ مشاہدہ کافی اہمیت رکھتا تھا۔ ان نشانیو کے علاوہ عجائبات قدرت کی نشانیاں بھی دکھانا مقصود تھا۔

 

واضح رہے کہ یہ واقعہ کس مہینہ میں اور کس تاریخ کو پیش آیا اس کی صراحت نہ قرآن نے کی ہے اور نہ حدیث نبوی نے۔ رہ گئیں روایات تو وہ اس بارے میں مختلف ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس رات کو سال بہ سال منانا مقصود نہ تھا ورنہ اس کی صراحت قرآن یا حدیث میں کی جاتی۔ رہا مسلمانوں کا ستائیسویں رجب کو شب معراج منانا تو یہ مسلمانوں کی اپنی ایجاد ہے۔ دین میں اس کی کوئی اصل نہیں۔ نہ اس رات کو عبادت کے لیے خاص کیا گیا ہے اور نہ معراج کا جشن منانے کا حکم دیا گیا ہے۔

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تورات۔

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ تورات میں آج بھی توحید کا سبق مو جود ہے۔ مثال کے طور پر " خروج" میں ہے :

 

" خداوند تیرا خدا جو تجھے ملک مصر سے اور غلامی کے گھر سے نکال لایا میں ہوں۔ میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔ " (خروج ۲۰:۲۔ ۳)

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اے انسانوں بنی اسرائیل سمیت تم سب ان لو گوں کی نسل سے ہو جن کو نوح کی کشتی میں سوار کرا کے طوفان سے بچا لیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان پوری انسانیت پر ہے اس لیے ہر شخص کو اس کا شکر گزار بننا چاہیے اور شکر گزار اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ وہ اللہ کو اپنا محسنِ حقیقی مان لے۔

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ کتاب سے مراد جیسا کہ اوپر گزرا موسیٰ کی کتا ب یعنی تورات ہے۔ قرآن کے بیان کے مطابق تورات میں یہ پیشگی خبر دی گئی تھی کہ بنی اسرائیل ملک میں دو مرتبہ فساد عظیم برپا کریں گے اور زبردست سرکشی کریں گے جس کے نتیجہ میں ان کو دونوں ہی مرتبہ تباہی سے دو چار ہونا ہو گا۔ یہ مضمون موجودہ تورات میں ان الفاظ میں تو باقی نہیں رہ سکا ہے البتہ اس خبر کی طرف اشارات پائے جاتے ہیں۔

 

احبار میں ہے :

 

" لیکن اگر تم میری نہ سنو اور ان سب حکموں پر عمل نہ کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ میرے عہد کو توڑو تو میں بھی تمہارے ساتھ اسی طرح پیش آؤں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم اپنے دشمنوں کے آگے شکست کھاؤ گے اور جن کو تم سے عداوت ہے وہی تم پر حکمرانی کریں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم ان سب باتوں پر بھی میری نہ سنو اور میرے خلاف ہی چلتے رہو تو میں اپنے غضب میں تمہارے بر خلاف چلوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں تمہاری پرستش کے بلند مقاموں کو ڈھا دونگا۔ ۔ ۔ ۔ اور میں تمہارے شہروں کو ویران کر ڈالوں گا اور تمہارے مقدسوں کو اجاڑ بنا دوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں تم کو غیر قوموں میں پراگندہ کر دونگا اور تمہارے پیچھے تلوار کھینچے رہوں گا اور تمہارے ملک سونا ہو جائے گا اور تمہارے شہر ویران بن جائیں گے۔ " (احبار ۲۶:۱۴:تا ۳۳)

 

اور استثنا باب ۲۸ میں ہے :

 

" اگر تو اس شریعت کی ان سب باتوں پر جو اس کتاب میں لکھی ہیں احتیاط رکھ کر اس طرح عمل نہ کرے کہ تجھ کو خداوند اپنے خدا کے جلالی اور مہیب نام کا خوف ہو تو خداوند تجھ پر عجیب آفتیں نازل کرے گا۔ ۔ ۔ اور تم اس ملک سے اکھاڑ دئے جاؤ گے جہاں تو اس پر قبضہ کرنے کو جا رہا ہے۔ اور خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں پر پراگندہ کرے گا۔ " (استثناء ۲۸:۵۸ تا ۶۴)

 

پھر جب بنی اسرائیل میں برے پیمانہ پر اخلاقی و عملی بگاڑ پیدا ہوا اور عام طور سے لو گ سرکشی میں مبتلا ہو گئے تو یرمیاہ نبی نے انہیں بر وقت متنبہ کیا اور شاہ بابل کے ہاتھوں ان کے تباہ کئے جانے کے خبر دی: " اس لیے ربّ الافواج یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم نے میری بات نہ سنی۔ دیکھو میں تمام شمالی قبائل کو اور اپنے خدمت گزار شاہ بابل نبو کدنضر کو بلا بھیجو گا۔ خداوند فرماتا ہے اور میں ان کو اس ملک اور اس کے باشندوں پر اور ان سب قوموں پر جو آس پاس ہیں چڑھا لاؤں گا اور ان کو بالکل نیست و نابود کر دوں گا۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ قومیں ستر برس تک شاہ بابل کی غلامی کریں گی۔ " (یرمیا ۲۵:۸ تا ۱۱)

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے شاہ بابل بخت نصر (نبوکدنضر) (Nebuchadnezzar) کے حملہ کی طرف جو اس نے ۵۸۸۔ ۵۸۶ء قبل مسیح میں سلطنت یہود پر کیا تھا۔ اس نے یہود کے مرکز یروشلم کو پوری طرح تباہ کر دیا۔ یہاں تک کہ مقدس مسجد کو بھی ڈھا دیا۔ ہزاروں یہودیوں کو قتل کیا اور بے شمار لو گوں کو لونڈی غلام بنا کر بابل لے گیا۔ بائبل کا شارح لکھتا ہے :

 

" آخر کار جب بابل کے لو گ شہر میں گھس پڑے تو انہوں نے دیواریں اور محل منہدم کر دئے اور معبد کو زمین کے برابر کر دیا۔ زیڈیکیا کے لڑکے کو اس کے سامنے قتل کر دیا گیا اور اس کو اندھا بنا کر اور زنجیر میں جکڑ کر بابل لے جایا گیا۔ یروشلم کی آبادی کے برے حصے کو جلا وطن کر کے وہ اپنے ساتھ لے گئے۔ اس طرح سلطنتِ داؤد کا الم ناک طریقے پر خاتمہ ہو گیا۔ "

 

)The Interpreter's commentary On the Bible P.1025(

 

یہ تھی وہ زبردست سزا جو بنی اسرائیل کو اس کے پہلے اجتماعی بگاڑ کے موقع پر دی گئی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کسی قوم میں بگاڑ عام ہوتا جاتا ہے اور وہ سرکش بن جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی سرکوبی کے لیے اس کے دشمنوں اور ظالم حکمرانوں کو اس پر مسلط کر دیتا ہے۔ عذاب الٰہی کی یہ بڑی دردناک شکل ہوتی ہے۔

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل کی بابل میں اسیری کے دوران اصلاح کی دعوتیں اٹھیں اور رفتہ رفتہ وہ خدا کی طرف رجوع ہونے لگے۔ آخر رحمت الٰہی ان پر لوٹ آئی اور ان کو بابل کی اسیری سے نجات مل گئی اس کی صورت یہ ہوئی کہ فارس کے بادشاہ سائرس نے ۵۳۹ء قبل مسیح میں بابل کو فتح کیا اور اس کے بعد یہود کو یروشلم جانے اور وہاں خدا کا گھر تعمیر کرنے کی اجازت دیدی۔ اس طرح یہود کو پھر اپنے مرکز لوٹ آنے اور بیت المقدس کو تعمیر کرنے کا موقع ملا۔ پھر عزیز علیہ السلام نے ان کے سامنے تورات کی اس طرح تشریح و توضیح کی کہ ان میں ایک حیاتِ تازہ پیدا ہو گئی اور خلاف شرع باتوں کو چھوڑ کر شریعت خداوندی کی پیروی کے لیے وہ آمادہ ہو گئے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۂ توبہ نوٹ ۵۸) یہ بنی اسرائیل کی نشاۃ ثانیہ تھی اور جب اللہ تعالیٰ کی رحمت ان پر لوٹ آئی تو ان کے لیے ہر طرح حالات سازگار ہوتے چلے گئے۔ مال کی فراوانی بھی ہوئی اور نسل کی افزائش کا سامان بھی ہوا۔

 

ضمناً اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ افزائش نسل اللہ کی نعمت اور اس کا فضل ہے اس لیے اہل ایمان اس کے قدر داں ہوتے ہیں۔ رہے تحدید نسل کے فارمولے تو وہ ان ہی لو گوں کو زیب دیتے ہیں جو خدا اور اس کی نعمتوں کے نا قدر شناس ہوتے ہیں۔

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ یہ دراصل اس سنتِ الٰہی کا اعلان ہے کہ جو قوم بھی کتاب الٰہی کی حامل ہو اس کا اجتماعی کردار اگر اچھا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے فضل سے نوازتا ہے اور دنیا میں اس کو عزت و سرفرازی حاصل ہوتی ہے لیکن اگر اس کا اجتماعی کردار بگڑ جاتا ہے تو اللہ اس کے دشمنوں کو اس پر مسلط کر دیتا ہے اور اسے ذلت کا مزہ چکھاتا ہے۔

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ یہ بنی اسرائیل کے دوسرے بڑے بگاڑ اور اس کے نتیجہ میں رونما ہونے والی دوسری بڑی تباہی کی طرف اشارہ ہے۔ یہ بگاڑ پہلے سے بھی زیادہ شدید تھا اور دین محض ظاہر داری کا نام رہ گیا تھا۔ ان کو اصلاح کی جانب مائل کرنے اور ان میں دین کی اصل روح پھونکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا مگر اس وقت کے یہودی حکمراں نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر حضرت یحیٰ کا سر قلم کر کے اس کی نذر کیا (انجیل متی باب ۱۴) اور عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت میں یہود نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی یہاں تک کہ ان کے قتل کے درپے ہو گئے۔ یہ یہود کا دوسرا فساد عظیم تھا جس کے نتائج بد سے عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں اس طرح آگاہ کیا:

 

" میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے گا۔ " (متی ۲۴:۲)

 

" اے یروشلم کی بیٹیو! میرے لیے نہ رو بلکہ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے رو۔ کیونکہ دیکھو وہ دن آتے ہیں جن میں کہیں گے مبارک ہیں بانجھیں اور وہ رحم جو بارور نہ ہوئے اور وہ چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا۔ اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپا لو۔ " (لوقا ۲۳:۲۸۔ ۳۰)

 

اور اس دوسرے فساد عظیم کی سزا یہود کو اس طرح ملی کہ ۷۰ء میں ٹیٹس رومی (Titus) نے بیت المقدس پر زبردست حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مسجد (ہیکل سلیمانی) کو تباہ کر دیا اور بے شمار لو گوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس حادثہ نے ان کے شیرازہ کو اس طرح بکھیر دیا کہ وہ مختلف ملکوں میں منتشر ہو کر رہ گئے۔

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے یہ عبرت آموز واقعات سنانے کے بعد ان سے کہا جا رہا ہے کہ اس نبی کی بعثت نے تمہارے لیے رحمتِ الٰہی کا مستحق بننے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا ہے اگر اب بھی سنبھل جاؤ اور اس ہدایت کی پیروی کرو جو اس نبی پر نازل کی گئی ہے تو خدا کی رحمت کے دروازے تم پر کھل سکتے ہیں لیکن اگر تم نے اس نبی کی مخالف کی اور سرکشی کا رویہ اختیار کئے رہے تو یاد رکھو اللہ اپنے عذاب کا کورا پھر تم پر برسائے گا۔

 

قرآن کی اس تنبیہ کے باوجود جب مدینہ کے اطراف کے یہودی قبائل نے اپنی سرکشی کا تازہ ثبوت یہ فراہم کر دیا کہ وہ قرآن کے مخالف اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمن بن کر کھڑے ہو گئے اور آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگے تو اللہ کے عذاب کا کوڑا ان پر پھر برسا چنانچہ پیغمبر اسلام کی موجودگی ہی میں اہل ایمان کے ہاتھوں ان کو سزا بھگتنا پڑی۔

 

بنی قینقاع اور بنی نضیر جلا وطن کر دئے گئے اور بنی قریظہ کا خاتمہ تلوار کے ذریعہ ہوا۔ رہے خیبر کے یہود تو انہیں مغلوب ہو کر رہنا پڑا اور حضرت عمر کی خلافت کے زمانہ میں وہ بھی جلاوطن کر دئے گئے۔

 

طویل مدت تک منتشر رہنے کے بعد یہود اب پھر فلسطین میں مجتمع ہو رہے ہیں اور ان کے اس اجتماع نے دنیا کو امن کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ پھر انہیں کڑی سزا دینا چاہتا ہے۔ عجب نہیں کہ اس کی برق ان کے آشیانہ پر گرے اور اسے خاکستر کر کے رکھ دے۔ آثار ایسے ہی ہیں اور غیب کا علم اللہ ہی کو ہے۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لو گ بھی حقیقت کے اعتبار سے کافر ہوں گے خواہ وہ بظاہر کتاب الٰہی کے ماننے والے ہی کیوں نہ ہوں آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم کا قید خانہ ہو گا۔

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ یہ اقوام عالم کو دعوت ہے کہ اس راہ کو اختیار کرو جس کی طرف قرآن بلاتا ہے اور اس لیے اختیار کرو کہ یہی راہ بالکل سیدھی ہے اور منزل مقصود___آخرت کی کامیابی___تک پہنچا دینے والی ہے۔

 

قرآن جس راہ پر چلنے کی دعوت دیتا ہے وہ ہر لحاظ سے بالکل سیدھی راہ ہے۔ عقل کو یہ اپیل کرتی ہے، فطرت اس کی صحت کی گواہی دیتی ہے، وجدان کی پکار یہ ہے کہ وہ حق ہے، یہی راہ تمام انبیاء علیہم السلام کی راہ رہی ہے۔ وہ عدل جس پر آسمان و زمین قائم ہیں اسی راہ میں پایا جاتا ہے، یہ رب العالمین تک سیدھی پہنچتی اور پہنچاتی ہے۔ اس راہ کا اصطلاحی نام دین اسلام ہے۔ رہ گئیں دوسری راہیں خواہ وہ مذہبی راہیں ہوں یا مذہب سے آزاد کسی لحاظ سے بھی سیدھی نہیں ہیں اور نہ خدا تک پہنچنے والی ہیں۔

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان کا حال عجیب ہے۔ اسے خیر کے لیے اپنے رب سے دعا کرتے رہنا چاہیے لیکن نا موافق حالات میں وہ جلد بازی سے کام لیکر اپنے حق میں بد دعا بھی کرنے لگتا ہے یہ انسان کی عام کمزوری ہے جس میں مرد عورتیں سب شامل ہیں۔ آیت کے اس عام مفہوم کے علاوہ اس کا اشارہ خاص طور سے کفار مکہ کی طرف ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بات کا مطالبہ کر رہے تھے کہ جس عذاب کی دھمکی آپ ہمیں دے رہے ہیں وہ آ کیوں نہیں جاتا۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ قرآن کی شکل میں تمہارے رب کی طرف سے خیر نازل ہوا ہے اس لیے ہونا یہ چاہیے تھا کہ تم اپنے رب سے دعا کرتے کہ یہ خیر تمہارے حصہ میں آئے لیکن تم اس سعادت کی طرف لپکنے کے بجائے عذاب کا مطالبہ کرتے ہو جو اگر آگیا تو ظاہر ہے تمہارے حق میں شر ہی ہو گا۔

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ رات اور دن کی نشانیاں جن کا تم رات دن مشاہدہ کرتے ہو اگر غور کرو تو تمہارے زاویۂ نگاہ کو بدلنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر رات کو تاریک نہ بنایا جاتا تو اللہ کے فضل کو تلاش کرنے یعنی معاشی دوڑ دھوپ کا کام نہیں ہو سکتا تھا لیکن شب و روز کی آمد و شد نے یہ دونو ں فائدے تمہیں پہنچائے اور اس کا مزید فائدہ یہ کہ دنوں کی گنتی سے انسان سالوں کا شمار اور دوسرا حساب معلوم کر لیتا ہے مثلاً ماضی کے واقعات کے وہ کب وقوع میں آئے تھے یا یہ کہ دن کے کتنے گھنٹے گزر چکے ہیں اور رات کے کتنے۔ اس طرح انسان کے لیے نظام الاوقات مقرر کرنا آسان ہو گیا۔

 

اللہ کی ربوبیت کی یہ واضح نشانیاں انسان کو اس بات کی دعوت دیتی ہیں کہ وہ اپنے کو اپنے رب کی راہ پر ڈال دے۔ اور قرآن اسی کی دعوت دے رہا ہے۔

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان کی ہدایت کے لیے جو باتیں ضروری تھیں وہ سب قرآن میں کھول کھول کر بیان کر دی گئی ہیں۔ اب انسان کے لیے یہ کہنے کا موقع نہیں کہ راہ حق کی نشانیاں مجھ پر واضح نہیں ہوئی تھیں۔

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان کی بدبختی یا نیک بختی اس کے اپنے عمل میں پوشیدہ ہے اور ہر شخص کے عمل کا ریکارڈ اس کے گلے کا ہار بنا ہوا ہے۔ قیامت کے دن یہ ریکارڈ ایک کھلی کتاب یا کھلے رجسٹر کی شکل میں اس کے سامنے آن والا ہے اس لیے انجام کی برائی باہر کے کسی شگون سے وابستہ نہیں بلکہ اس کے اپنے عمل سے ہی وابستہ ہے۔

 

انسان جو عمل کرتا ہے اس کا اچھا یا برا اثر وہ اپنے قلب میں محسوس کرتا ہے اور اس کی یاد اس کے شعور یا تحت الشعور میں مو جود رہتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کا کوئی عمل بے اثر اور بے نتیجہ نہیں ہے اور اس کا ریکارڈ محفوظ ہو رہا ہے۔

 

رہا یہ سوال کہ جب ہمارا نامۂ عمل ہماری گردنوں میں لٹک رہا ہے تو ہمیں دکھائی کیوں نہیں دیتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمیں ظاہری آنکھوں سے یہ دکھائی دیتا تو پھر آزمائش کہاں باقی رہتی جبکہ اللہ نے یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی ہے اور ہمارا امتحان اس میں ہے کہ ہم وحی الٰہی کی روشنی میں عقل و فہم سے کام لیکر ان غیبی حقیقتوں کو تسلیم کرتے اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل متعین کرتے ہیں یا نہیں۔

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن ہر شخص بہ آسانی اپنا اعمال نامہ پڑھ لے گا خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو اور خواہ وہ کوئی زبان جانتا ہو۔ اس وقت وہ یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہے گا کہ اس میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ اس کے اعمال کا بالکل صحیح حساب ہے۔

 

اس حقیقت کے پیش نظر ایک عقلمند آدمی اپنا احتساب دنیا ہی میں کرتا ہے تاکہ قیامت کے دن اسے پچھتانا پڑے۔ ۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خوب سمجھ لو کہ قیامت کے دن ہر شخص اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے گا کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ اٹھانے والا نہیں۔ اس روز تم یہ کہہ کر اپنے بار گناہ کو ہلکا نہیں کر سکتے کہ ہم کو فلاں پیشوا یا فلاں سردار یا فلاں لیڈر یا فلاں قائد نے گمراہ کیا تھا یا ہماری گمراہی کا اصل ذمہ دار تو شیطان ہے لہٰذا یہ گمراہ کرنے والے ان گناہوں کے بو جھ اٹھائیں۔ نہیں بلکہ وہ اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور تمہیں اپنا بوجھ اٹھانا ہو گا۔

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ عذاب ہے جو قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے اور جو حق و باطل کے لیے فرمان (کسوٹی) ہوتا ہے۔ پچھلی قوموں عاد، ثمود، قوم لوط، قوم فرعون وغیرہ پر جو عذاب آئے وہ اللہ کے رسولوں کے ذریعہ ان پر اللہ کی حجت قائم ہو جانے کے بعد ہی آئے۔ اسی سنت الٰہی کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔

 

اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ جن لو گوں تک رسول کا پیغام نہیں پنچا وہ اپنے برے عمل کے لیے نہ خدا کے حضور جوابدہ ہیں اور نہ انہیں اس کی سزا بھگتنا ہو گی نہ صرف قرآن و سنت کی تصریحات کے خلاف ہے بلکہ ایک نا معقول بات بھی۔ قرآن کہتا ہے کتنی ہی برائیاں ہیں جن کی برائی کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت ہوا ہے۔ اگر وہ اس کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ گنہگار ہے اور خدا کے حضور جوابدہ ہے۔ احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے جن لو گوں نے بت پرستی یا بے حیائی وغیرہ پھیلائی تھی وہ جہنم کے مستحق ٹھہرے مثلاً عمر و بن لحی، امراؤ القیس وغیرہ۔

 

اور جہاں تک عقل کا تعلق ہے وہ کھلی برائی کے کسی مرتکب کو مثلاً ظلم کرنے والے یا نا حق کسی کو قتل کرنے والے کو گنہگار اور مجرم ہی گردانتی ہے خواہ اس تک رسول کا پیغام پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو۔ البتہ یہ بات کہ رسول کا پیغام نہ پہنچنے کی صورت میں ان کی ذمہ داریوں کا دائرہ کیا تھا اور وہ کس حد تک درگزر کے مستحق ہیں اس کا علم اللہ ہی کو ہے اور ان باتوں کے فیصلہ کے لیے قیامت کا دن مقرر ہے لہٰذا ہمارے لیے اصولی بات سمجھ لینا کافی ہے اور مزید بحث میں پڑے بغیر اس بات کی فکر کرنا چاہیے کہ جب اللہ کا پیغام اس کے رسول کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے تو ہم اپنی نجات کا کیا سامان کر رہے ہیں اور اس پیغام کو دوسرے بندگانِ خدا تک پہنچانے کے لیے کیا کر رہے ہیں ؟

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیت میں قوموں کے عذاب کے سلسلہ میں سنت الٰہی واضح کی گئی تھی اس آیت میں اس کا یہ پہلو واضح کیا جا رہا ہے کہ کسی بستی یا آبادی کی تباہی اسی وقت عمل میں آتی ہے جبکہ اس میں فسق عام ہو جاتا ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آبادی کے خوشحال طبقہ کو جس میں حکمراں، سردار اور دولت مند لو گ شامل ہیں اللہ اپنی اطاعت کا حکم دے دیتا ہے چنانچہ اللہ کے رسول خاص طور سے اسی طبقہ کو خطاب کرتے ہیں تاکہ ان لو گوں پر اللہ کی حجت قائم ہو اور ان کے واسطہ سے عوام پر لیکن یہ لو گ دنیا پرستی میں ایسے غرق اور عیش کوشی میں ایسے مست ہوتے ہیں کہ اللہ کے احکام کی پروا نہیں کرتے۔ وہ خود بھی فسق (نا فرمانی اور گناہ کے کام) کرتے ہیں اور فلسفیانہ طریقے رائج کر کے پوری بستی کو بھی فسق و فجور سے بھر دیتے ہیں۔ اس طرح پوری آبادی عذاب کی مستحق بن جاتی ہے اور اللہ کوئی نہ کوئی آفت نازل کر کے اس آبادی کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ بعد کی آیت میں ان قوموں کی طرف اشارہ بھی کر دیا ہے جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا۔

 

بعض مفسرین نے اَمرْنَا (ہم انہیں حکم دیتے ہیں) کے معنی میں بڑا تکلف کیا ہے۔ کسی نے حکم تکوینی مراد لیا ہے یعنی ہم تکوینی طور پر فسق کا حکم دے دیتے ہیں۔ اور کسی نے کچھ اور مگر لغوی طور پر بھی اور سیاق و سباق کے لحاظ سے بھی اس کا وہی مفہوم متعین ہوتا ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔ عربی میں جب مطلقاً اَمَرْنَا کہیں گے تو اس کے معنی امرِ اطاعت ہی کے ہوں گے۔ چنانچہ ابن جریر طبری نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے اور علامہ شوکانی لکھتے ہیں :

 

" جو شخص بھی عربی زبان سے واقف ہو گا وہ اس کا یہی مطلب سمجھے گا کہ جس چیز کا حکم دیا گیا تھا وہ معصیت سے مختلف چیز تھی کیوں کہ معصیت امر کے منافی اور اس کے متناقض ہے۔ لہٰذا اَمَرْتُہُ فَفَسَقَ (میں نے اسے حکم دیا تو اس نے فسق کیا) کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اسے جس چیز کا حکم دیا گیا تھا وہ فسق سے مختلف چیز تھی کیونکہ فسق کا مطلب تو ایسی چیز کا ارتکاب ہے جو دئے گئے حکم کی بالکل ضد ہو۔ " (فتح القدیر ج ۳ ص ۲۱۴)

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ عاجلہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں " جلدی کرنے والی" مراد دنیا ہے جو اپنے فائدے جلد پہنچاتی ہے۔ اور اس کے طالب ہونے کا مطلب دنیا کے عارضی اور جلد ملنے والے فائدوں کا مطلب ہونا ہے۔ جو شخص بھی آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو مقصود بناتا ہے ضروری نہیں کہ وہ دنیا کے بہت سے فائدے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے بلکہ یہ اللہ ہی کی مشیت پر موقوف ہے کہ کس کو کتنا دے۔ یہ تو ہوا دنیا کے حصول کا معاملہ اس کے بعد ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں بلکہ اسے بہت بری حالت میں اور اللہ کی رحمت سے محروم ہو کر جہنم میں داخل ہونا ہو گا۔ یہ کڑی سزا اسے اس لیے دی جائے گی کہ اسے دنیا میں بھیجا ہی اس لیے گیا تھا کہ وہ آخرت کو سامنے رکھ کر دنیا میں وہ کام کرے جس کے نتائج آخرت میں مفید نکلنے والے ہوں لیکن اس نے آخرت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دنیا کے فوائد بٹورنے میں اپنی زندگی لگا دی۔ اس طرح وہ اپنے رب کا سرکش بنا رہا اور اس کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ گئی۔

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ انسان کو در حقیقت اس کے رب نے دنیا کے لیے نہیں بلکہ آخرت کے لیے پیدا کیا ہے۔ دنیا تو زندگی کا ایک امتحانی مرحلہ ہے جس سے گزرنے کے بعد جہاں اسے ہمیشہ کے لیے رہنا ہے وہ آخرت ہی ہے اس لیے آخرت کو اپنا مقصد حیات سمجھنا اور اپنی تمام کوششوں کے لیے اس کو مرکز و محور بنانا ٹھیک اس حقیقت کے مطابق ہے جو انسان کی نیز پوری کائنات کی پیدائش کار فرمایا ہے۔

 

یہ آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ اللہ کے نزدیک ان ہی لو گوں کی کوشش قدر کی مستحق اور مقبول ہوں گی جنہوں نے آخرت کو مقصود یعنی کامیابی کے لیے نصب العین قرار دے کر اس طرح کوشش کی گئی جس طرح کہ کوشش کی جانی چاہیے یعنی ویسی کوشش جو آخرت پر یقین رکھنے والا شخص اس کے حصول کے لیے کر سکتا ہے اور جس کا طریقہ قرآن نے بتلا دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ شرط بھی ہے کہ وہ مومن ہو یعنی ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہو جس پر ایمان لانا قرآن نے ضروری قرا دیا ہے۔

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا کے طلب گار ہوں یا آخرت کے، کافر ہوں یا مومن سب کو اس دنیا میں تمہارا رب سامان زندگی دے رہا ہے اور اس کی بخشش کسی پر بھی بند نہیں ہے۔ یہ بخشش عام ٹھیک اس حکمت کے مطابق ہے جو دنیا میں انسان کے ظہور کا باعث ہوئی ہے۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن لو گوں نے آخرت کو اپنا مقصود بنایا ہے ان کو دنیا پرستوں پر جو برتری حاصل ہے اس کا مشاہدہ اس دنیا ہی میں کیا جا سکتا ہے۔ ان کا اپنے رب سے لگاؤ اور خوف، بندوں کے حقوق کی ادائیگی، احساس ذمہ داری، امانت و دیانت، جائز کمائی، حرام چیزوں سے اجتناب خیر کی راہ میں خرچ، حق کے لیے ایثار، صبر و تحمل انصاف پسندی اور دوسری اخلاقی و عملی خوبیاں واضح طور سے ان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں خواہ وہ مال و دولت کے لحاظ سے صفر ہی کیوں نہ ہوں۔

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت میں تو اہل ایمان کو کافروں پر نمایاں برتری حاصل ہو گی چنانچہ کافر جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے جبکہ اہل ایمان بلند و بالا جنت میں۔ پھر اہل ایمان اپنے ایمان اور عمل کے درجہ کے لحاظ سے جنت میں مرتبہ بھی پائیں گے اور اسی مناسبت سے ان کو فضیلت بھی حاصل ہو گی۔

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کے قائل ہوئے تو تمہارا حال یہ ہو جائے گا کہ ہر طرف سے تم پر لعنت ملامت ہو گی اور تم بالکل بے یار و مددگار رہ جاؤ گے۔

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کا یہ حتمی فیصلہ اور قطعی حکم ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو۔ کسی اور کی نہیں۔ اوپر کی آیت میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو خدا بنا لینے کی ممانعت کی گئی تھی اور اس آیت میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ غیر اللہ کی عبادت اس کو خدا بنا لینے کے ہم معنی ہے خواہ وہ زبان سے اسے خدا کہتا ہو یا نہ کہتا ہو مثال کے طور پر اگر کوئی شخص زمین (بھومی) کی پو جا کرتا ہے تو یہ کھلا شرک ہے اور زمین کو خدا اور معبود ٹھہرانا ہے۔

 

واضح رہے کہ عبادت سے مراد پرستش ہے جس کو اللہ کے لیے خاص کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ رہی اطاعت تو وہ اس کا لازمی تقاضا ہے اسی لیے اس کے بعد اطاعت کے احکام الگ سے بیان ہوئے ہیں۔ عبادت اور اطاعت کے اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ورنہ عبادت کی وہ اہمیت باقی نہیں رہتی جو دین میں اس کو دی گئی ہے (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۵) ۔

 

اس موقع پر ہم یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیات میں جو احکام دئے گئے ہیں ان کے بارے میں بعض حضرات کا یہ خیال کہ ان کی حیثیت مدینہ کی اسلامی ریاست کے منشور کی تھی صحیح نہیں۔ منشور ایک سیاسی اصطلاح ہے اور یہاں نہ سیاست زیر بحث ہے اور نہ ریاست بلکہ وہ اوصاف حمیدہ بیان کئے گئے ہیں جو انسان کو شرف انسانیت بخشنے والے اور اس کو آخرت کی کامیابی سے ہمکنار کرنے والے ہیں اور جب ان اوصاف حمیدہ سے متصّف کوئی گروہ ظہور میں آ جاتا ہے تو اس کی سیاست بھی اسی رنگ میں رنگ جاتی ہے اور ریاست کا نظام بھی اسی کے مطابق تشکیل پانے لگتا ہے۔ اس لیے ان احکام کو سیاسی رنگ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ اس کا نقصان یہ ہو گا کہ ایک قاری کا ذہن بجائے اس کے کہ وہ اپنے کو مخاطب سمجھے اسلامی ریاست کو اس کا مخاطب سمجھے گا اور ان احکام کی روح بھی مجروح ہو گی۔ اس طرح کے تکلفات سے صحیح دینی ذہن نہیں بنتا۔

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ بندگان خدا میں سب سے بڑا حق ماں باپ کا ہے جو ایک فطری حق ہے اور اس بنا پر ہے کہ انہوں نے پرورش کی۔ ان کا حق یہ ہے کہ اولاد ان کے ساتھ عمر بھر نیک سلوک کرے یعنی ان سے اچھے اخلاق سے پیش آئے، ان کی خدمت کرے، ان پر خرچ کرنے کی ضرورت ہو تو خرچ بھی کرے، نا فرمان اور ان کو دکھ دینے والی نہ بنے۔

 

بڑھاپے میں والدین خدمت کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں اور اس عمر میں مزاج بھی چڑ چڑا بن جاتا ہے اس لیے خاص طور سے تاکید فرمائی کہ کوئی ایسی بات نہ کہو جو ان کے لیے اذیت دہ ہو اور نہ کبھی جھڑکنے کی کوئی بات کرو بلکہ ان سے ادب و احترام کے ساتھ بات کرو۔

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کے ساتھ مہر و محبت سے پیش آؤ اور نرمی اور تواضع کا طریقہ اختیار کو۔

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ تمہارے ماں باپ نے تمہاری پرورش کی زحمت اٹھائی تھی۔ ان کے اس احسان کو یاد کر کے تم ان کے حق میں رحم کی دعا کرو۔

 

رحم کی یہ دعا ان کی ظاہری حالت اور ان کے بڑھاپے کی تکلیف کے پیش نظر ہے اس لیے اگر وہ مسلمان نہ ہوں تب بھی یہ دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ رہی دعائے مغفرت تو وہ مشرک والدین کے لیے نہیں کر سکتے جیسا کہ سورۂ توبہ آیت ۱۱۳ میں گزر چکا۔ (ملاحظہ ہو سورۂ توبہ نوٹ ۲۹۹)

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری نیتوں، تمہارے جذبات اور تمہارے دلوں کی کیفیتوں کو وہ اچھی طرح جانتا ہے۔

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ یعنی والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے میں اگر تم سے قصور سر زد ہوئے ہوں تو اللہ کے حضور توبہ کرو اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کر لو کہ اللہ نیک بن جانے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور ان کے قصوروں کو معاف کر دیتا ہے۔

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ حق سے مراد مالی حق ہے جو ان کی ضرورتوں اور آدمی کے اپنے حالات کے لحاظ سے متعین ہوتا ہے نیز یہ حق زکوٰۃ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی ہو سکتا ہے۔

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ تبذیر (فضول خرچی) کا مطلب مال کا بے جا استعمال ہے اور مال کا بے جا استعمال آدمی کو حقوق کی ادائیگی کی طرف سے بے پرواہ کر دیتا ہے۔

 

جن لو گوں کو ماں ل فراوانی کے ساتھ ملتا ہے وہ اس کو اپنی ملک سمجھنے لگتے ہیں اور پھر ناجائز کاموں میں، یا اپنا شوق پورا کرنے میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں حالانکہ مال اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہے جس کو جائز راہوں میں خرچ کرنے کا وہ ذمہ دار ہے نیز اس میں دوسروں کے حقوق بھی ہیں جن کو ادا کرنے کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔

 

مال و دولت کے بارے میں صحیح اسلامی تصور نہ ہونے اور اس سلسلہ میں ذمہ داری کے احساس کے فقدان کی وجہ سے آدمی مال کو اللّے تلے خرچ کرنے لگتا ہے۔

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ مال اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور فضول خرچی اس نعمت کی سب سے بڑی نا قدری، اس لیے جو شخص فضول خرچی کرتا ہے وہ شیطان سے اپنا رشتہ جوڑتا ہے جو اللہ کا سب سے بڑا ناشکرا ہے۔

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر تمہاری مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ ان کی مدد کر سکو تو نرم انداز میں کوئی ایسی بات کہو جس سے ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار ہوتا ہو۔

 

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حقوق کی ادائیگی کے لیے اللہ کے فضل کا امیدوار ہونا اور اس کے لیے مزید جدو جہد کرنا ایک پسندیدہ بات ہے۔

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ گردن سے باندھنا بخل کے لیے کنایہ ہے اور بالکل کھلا چھوڑ دینا اسراف کے لیے۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے اوپر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے میں بخل سے کام لے اور نہ اسراف کرے بلکہ اعتدال پر قائم رہے۔ جو لو گ خرچ کرنے میں افراط و تفریط سے کام لیتی ہیں ان کے حصہ میں بد نامی بھی آتی ہے اور بے بسی بھی۔ بخلاف اس کے خرچ کرنے میں اعتدال آدمی کو پُر وقار بنا دیتا ہے اور اس کے لیے باعث خیر و برکت بھی ہوتا ہے۔

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ رعد نوٹ ۵۸ میں گزر چکی۔

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ انعام نوٹ ۲۷۶ میں گزر چکی۔

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اپنی اولاد کو مار ڈالنا کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ بہت بڑے گناہ کی بات ہے۔

 

عرب جاہلیت میں چونکہ بچوں کو مفلسی کے ڈر سے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا یا دوسرے طریقوں سے مار ڈالا جاتا تھا اس لیے اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ ہوا ور نہ ان کو قتل کرنے کا محرک جو بھی ہو یہ سنگدلانہ کام زبردست گناہ کا کام ہے۔

 

مو جوہ تہذیب نے زنا کو اس قدر عام کر دیا ہے کہ ناجائز اولاد بہ کثرت پیدا ہونے لگی ہے اور لو گ اس پر پردہ ڈالنے کے لیے بچوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالنے جیسے اقدامات کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اس طرح وہ اپنے سر ایک تو حرام کاری کا گناہ لیتے ہیں اور دوسرا قتل ناحق کا۔

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ اسلام میں زنا ہر حال میں حرام اور مستو جب سزا ہے خواہ مرد اور عورت باہمی رضا مندی ہی سے اس کا ارتکاب کریں اور خواہ اس کا مرتکب شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔

 

زنا کا کھلی بے حیائی ہونا عقل و فطرت کے نزدیک بالکل مسلم ہے۔ رہا اس کا بری راہ ہونا تو اس کوچہ میں قدم رکھنے کے بعد آدمی اپنا اخلاقی جوہر کھو دیتا ہے اور برائی کی راہ پر چل پڑتا ہے۔

 

آیت میں زنا سے بچنے کی تاکید اس شدت سے کی گئی ہے کہ آدمی اس کے پاس بھی نہ پھٹکے یعنی جو چیزیں زنا کی طرف لے جانے والی ہیں ان سے بالکل اجتناب کرے (ملاحظہ ہو سورۂ انعام نوٹ ۲۷۷) ۔

 

حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مقدماتِ زنا کو (وہ باتیں جن سے زنا کا آغاز ہوتا ہے) اس طرح بیان فرمایا ہے :

 

کُتبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ نصیبُہٗ مِنَ الزَّنٰی، مدرکٌ ذٰلِکَ لا محالۃ فالعینان زناہما النَّظرٌ وَالاُذُنانِ زنا ہما الاستماعٰ وَاللِّسانُ زناہ الکلامُ و الیدُزنا ہا البطشُ، و الرجلُ زناہالخُطَا، و القلبُ یہویٰ و یتمنّٰی، و یصَدِّق ذلک الفرج و او یکَذِّبُہٗ۔ (مسلم کتاب القدر) " آدمی کا زنا میں جو حصہ ہوتا ہی وہ لکھ دیا جاتا ہے جسے (یعنی اس کی گناہ کو) وہ لازماً پائے گا چنانچہ آنکھوں کا زنا (شہوت کی) نظر ہے، کانوں کا زنا (شہوت انگیز باتیں) سننا ہے، زبان کا زنا (عشقیہ) باتیں کرنا ہے، ہاتھ کا زنا (شہوت سے) پکڑنا ہے اور پاؤں کا زنا (وہ) قدم ہیں (جو اس غلط راہ میں اٹھیں) دل خواہش اور تمنا کرتا ہے اور شرم گاہ اس کو سچ یا جھوٹ کر دکھاتی ہے۔ "

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام نوٹ ۲۷۸۔

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ولی سے مراد وارث ہے جو ایک یا کئی ہو سکتے ہیں۔ وارث کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ قاتل سے یا تو دیت (خون بہا) قبول کر لے یا پھر قصاص میں اس کو قتل کر دے۔ اس میں حد سے تجاوز نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل نہ کیا جائے۔ جاہلیت میں ایک خون کی جگہ کئی خون بہائے جاتے تھے یا پھر قاتل کو چھوڑ کر قبیلہ کے با اثر آدمی کو قتل کیا جاتا تھا۔ یہ صورتیں عدل و انصاف کے خلاف ہیں اس لیے ان کی ممانعت کر دی گئی۔

 

یہ تو تھی عربوں کی جاہلیت لیکن موجودہ زمانہ کی جاہلیت اس سے کچھ کم نہیں ہے جس کا مظاہرہ ہمارے اس ملک میں ہوتا رہتا ہے۔ جب فرقہ وارانہ حالات کشیدہ ہو جاتے ہیں اور اگر ایک فرقہ کا کوئی آدمی مارا جاتا ہے تو اس فرقہ کے لو گ دوسرے فرقہ کے کسی بھی آدمی کو خواہ وہ راستہ چلنے والا ہی کیوں نہ ہو پکڑ کر قتل کر دیتے ہیں اور اس کو ظلم نہیں سمجھتے حالانکہ قاتل کے علاوہ کسی کو قتل کرنا صریح ظلم ہے۔

 

یہ سورہ مکی ہے جس میں مظلوم مقتول کے وارث کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ قاتل کو قتل کرے جبکہ اسلامی ریاست و جود میں نہیں آئی تھی۔ اس سے واضح ہوا کہ قاتل کو قتل کرنے کا اختیار شرعی طور پر ایک غیر اسلامی ریاست میں بھی مسلمانوں کو حاصل ہے البتہ اگر غیر اسلامی ریاست کے قوانین اس میں حائل ہو رہے ہوں تو بات دوسری ہے۔

 

یہ بھی واضح رہے کہ اس آیت میں قاتل کو قتل کرنے کا اختیار مقتول کے وارث کو دیا گیا ہے لیکن بعد میں جب مدینہ میں اسلامی ریاست و جود میں آئی تو وہ اس اختیار کو نافذ کرنے کی ذمہ دار قرار پائی۔ گویا اس قانون کی ارتقائی شکل یہ ہوئی کہ اس کا نفاذ اسلامی عدالت کے ذریعہ عمل میں آئے گا۔ چنانچہ اسلام کے مشہور داعی اور قانون داں عبدالقادر عودہ شہید اس قانونِ جنائی کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

" اصولی بات یہ ہے کہ قصاص کے جرائم کی سزاؤں کا نفاذ دوسری سزاؤں کی طرح اصحاب امر پر چھوڑ دیا گیا ہے لیکن استثنائی طور پر اس کی اجازت دیدی گئی ہے کہ مقتول کے ولی کی معرفت قصاص کی تکمیل ہو اور اس کی بنیاد یہ آیت ہیں وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیّہ سُلْطَاناً فَلاَیَسْرِفْ فِی القَتْلِ۔ اور یہ بات متفق علیہ ہے کہ مقتول کے ولی کو قتل کا قصاص لینے کا حق ہے بشرطیکہ یہ کارروائی حکومت کی نگرانی میں انجام پائے کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے اور اس معاملہ میں کسی قسم کی زیادتی کرنا حرام ہے۔ " (التشریع الجنائی الاسلامی ج ۱ ص ۷۵۷) ۔

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شریعت اور اسلامی معاشرہ کی پشت پناہی اس کو (یعنی مقتول کے وارث کو) حاصل ہے لہٰذا وہ حدود کا پابند رہے۔

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ نساء نوٹ ۱۷ میں گزر چکی۔

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ناپ تول کے پیمانے بھی درست ہونے چاہئیں اور ان کا استعمال بھی دیانت داری کے ساتھ ہونا چاہیے۔ چور ناپ اور ڈنڈی مارنے کا طریقہ وہ لو گ اختیار کرتے ہیں جن کو آخرت کی باز پرس کا خیال نہیں ہوتا۔

 

یہ بات اس اصولی بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ آدمی تمام کاروباری معاملات میں دیانت داری کا رویہ اختیار کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ تطفیف نوٹ ۱۔)

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ یہ طریقہ اچھا ہے یعنی اس سے اعتماد بھی قائم ہوتا ہے، اخلاقی اثر بھی اچھا پڑتا ہے اور کاروباری میں بھی خیر و برکت ہوتی ہے۔

 

رہا انجام کے اعتبار سے بہتر ہونا تو اس سے مراد اخروی انجام کی بہتری ہے۔ یہ ان ہی لو گوں کے لیے ہے جو معاملات میں اپنا دیانتدار ہونا ثابت کر دکھائیں ان لو گوں کے لیے نہیں جو ہر قسم کی بد دیانتی کو محض اپنا بزنس چمکانے کے لیے روا رکھے ہوئے ہے۔

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک جامع ہدایت ہے جس میں خدا کی طرف بلا دلیل باتیں منسوب کرنا، تو ہم پرستی، بے سر و پا روایتوں کو اہمیت دینا، دینی مسائل میں اٹکل بچو باتیں کرنا، غیبی حقیقتوں کے بارے میں فلسفے تراشنا اور کلامی بحثیں چھیڑنا، جنوں کے بارے میں سنی سنائی باتوں پر یقین کر لینا، کسی قرینہ کے بغیر بدگمانی کرنا، بلا تحقیق الزام لگانا جیسے امور شامل ہیں۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سماعت، بصارت اور سوجھ بوجھ کی قوتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں جو صحیح استعمال کے لیے دی گئی ہیں، قیامت کے دن ہر شخص کو اس بات کی جوابدہی کرنا ہو گی کہ اس نے ان قوتوں کا صحیح استعمال کیا تھا یا غلط۔

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی گھمنڈی بن کر تکبر کی چال نہ چلو۔ تم اتنا بل بوتا بھی نہیں رکھتے کہ زمین پر پاؤں پٹخ کر اس کو پھاڑ سکو اور نہ اپنی گردن اونچی کر کے پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ پھر تکبر کی یہ چال کس بل پر ہے ؟ آدمی کو چاہیے کہ وہ اللہ کی قدرت اور اس کی عظمت کو دیکھتے ہوئے اور اپنی بے بسی کو محسوس کرتے ہوئے تواضع اور فروتنی کے ساتھ چلے۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اوپر جن ممنوع باتوں کا ذکر ہوا ان میں سے ر چیز بری ہونے کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ ہے۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں۔ اگر تم غور کرو تو تمہاری عقل اور فطرت گواہی دے گی کہ یہ سب دانشمندی کی باتیں ہیں اور انسان کو خیر و فلاح کی راہ پر ڈال دینے والی ہیں۔

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ احکام کا آغاز توحید سے ہوا تھا اور خاتمہ بھی توحید ہی پر ہو رہا ہے۔ گویا توحید ہی شریعت کا منبع ہے اور یہ احکام اس کے عملی تقاضے ہیں۔ توحید کے ساتھ عبادت اور اطاعت دونوں ضروری ہیں۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ نحل نوٹ ۷۹ میں گزر چکی۔

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ انعام نوٹ ۱۰۹ میں گزر چکی۔

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے لو گوں کو سمجھانے کے لیے قرآن میں مختلف اسلوب اور طریقے اختیار کئے ہیں دلائل بھی پیش کئے ہیں اور سبق آموز تاریخی واقعات بھی، نصیحتیں بھی اور تنبیہات بھی، حقیقتیں بھی اور مثالیں بھی مگر جو لو گ ہٹ دھرمی میں مبتلا ہوتے ہیں ان پر کوئی نصیحت کارگر نہیں ہوتی وہ قرآن کی باتوں کو غلط معنیٰ پہنانے لگتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ حق سے ان کی دوری میں اضافہ ہی ہو جاتا ہے۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مشرکین کا یہ دعویٰ کہ اس کائنات میں بہت سے خدا ہیں اگر بالفرض صحیح ہوتا تو تمام چھوٹے چھوٹے خدا اس بڑے خدا کو مغلوب کرنے کے لیے آگے بڑھتے جو عرش کا مالک ہے اور جس کے ہاتھ پوری کائنات کا اقتدار ہے۔ اور جب خداؤں کے درمیان اقتدار کے لیے رسہ کشی ہوتی تو کائنات کا یہ نظام حسن و خوبی کے ساتھ کس طرح چلتا۔ ایسی صورت میں یہ کائنات لازماً درہم برہم ہو کر رہ جاتی۔ مگر تم دیکھتے ہو کہ واقعہ یہ نہیں ہے۔ کائنات کے اس نظام میں کہیں کوئی خلل اور خرابی نظر نہیں آتی جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پوری کائنات پر ایک خدا کی حکومت ہے۔ نہ دسرا کوئی خدا ہے اور نہ خدائے واحد کی حکومت میں کسی کا کوئی حصہ ہے۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک غیبی حقیقت ہے جس پر سے قرآن نے پردہ اٹھایا ہے۔ وہ صراحت کرتا ہے کہ کائنات کی کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی پاکی اور اس کی حمد نہ بیان کرتی ہو۔

 

اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہر چیز زبانِ حال سے حمد و تسبیح کر رہی ہے یعنی توحید پر دلالت کرتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ زبان قال سے بھی حمد و تسبیح کر رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی حمد و تسبیح ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔

 

آج سائنس نے انسان کی معلومات میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ ذرہ (Atom) کے بارے میں جدید نظریہ یہ ہے کہ اس کے مرکزہ (Nucleus) کے گرد الکٹرون (Electron) گردش کرتا ہے۔ گویا ذرہ ذرہ حرکت میں ہے لیکن ہمیں یہ حرکت اور یہ گردش دکھائی نہیں دیتی اور دکھائی نہ دینے کی بنا پر سائنس کی اس تحقیق کا کوئی انکار نہیں کرتا۔ پھر اگر ہمیں جو وحی الٰہی جو علم کا یقینی ذریعہ ہے اس بات کی خبر دیتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح میں سرگرم اور اس کی حمد و ثنا میں زمزمہ سنج ہے تو اس پر یقین کیوں نہ کریں ؟ کیا محض اس بنا پر اس کا انکار کرنا صحیح ہو گا کہ اس خفیہ آواز کو ہمارے کان سن نہیں پاتے ؟ قرآن نے در حقیقت کائنات کے اسرار پر سے پردہ اٹھا کر انسان کے علم میں زبردست اضافہ کیا ہے تاکہ وہ اس سے روشنی حاصل کرے۔ لہٰذا اس سے انکار انسان کے لیے محرومی ہی کا باعث ہو گا۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ مخلوق کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کے گن گائے۔ اب اگر انسانو ں میں ایسے لو گ مو جود ہیں جو اپنے خالق کی طرف عیب اور نقص کی باتیں منسوب کرتے ہیں اور اس کے شریک ٹھہراتے ہیں تو ان کی یہ حرکتیں ایسی ہیں کہ ان پر قہر الٰہی فوراً ٹوٹ پڑے مگر اللہ بردبار ہے اس لیے ان کی ان حرکتوں کو برداشت کرتا ہے اور وہ بڑا بخشنے والا ہے اس لیے مہلت دیتا ہے تاکہ لو گ توبہ کر کے اس کی بخشش کے مستحق بن جائیں۔

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ جن لو گوں پر دنیا ایسی سوار ہوتی ہے کہ آخرت کا تصور ان کے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہوتا، ایسے لو گ قرآن سن لیں یا خود پڑھ لیں تو اس کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوتا اور اس کی وجہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ جو قبول حق کے لیے آمادہ نہیں وہ اس کی توفیق سے محروم رہے گا۔ یہ قانون اپنا عمل کرتا ہے مگر اس طرح کہ ظاہری آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا اسی لیے اسے " حجاب مستور" غیر مری پردہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ انعام نوٹ ۴۴ میں گزر چکی۔

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ یہ دیکھ کر کہ جو قرآن تم پیش کرتے ہو اس میں ایک ہی رب کا ذکر ہے اور ان کے ٹھہرائے ہوئے معبودوں کا کوئی ذکر ہی نہیں کہ ربوبیت کے معاملہ میں ان کا کوئی دخل ہے وہ اس قرآن کو سننا بھی پسند نہیں کرتے بلکہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتی ہیں۔

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے کفار مکہ کے سرداروں کی طرف جو کبھی قرآن سننے کی کوشش کرتے تو مخالفت کی غرض سے چنانچہ وہ آپس میں اس کے خلاف سرگوشیاں کرتے اور جب دیکھتے کہ ان کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت سے متاثر ہو رہا ہے تو کہتے کہ تم یک ایسے شخص کے پیچھے چل رہے ہو جس پر کسی نے جادو کر دیا ہے اور اس کے اثر سے وہ دیوانگی کی باتیں کر رہا ہے۔

 

یہ آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر سحر زدہ ہونے کا الزام کافروں نے لگایا تھا جو سراسر غلط تھا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ آپ پر جادو کا اثر نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ یہ منصب نبوت کو متاثر کرنے والی چیز ہے اس لیے جن روایتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہود نے جادو کر دیا تھا اور آپ پر اس کا کچھ اثر ہوا تھا وہ قرآن سے متصادم ہونے کی بنا پر قابل رد ہیں (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ فلق نوٹ ۶) ۔

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مرنے کے بعد آدمی کا جسم تحلیل ہو کر مٹی بن جائے، لو ہا بن جائے یا اس سے زیادہ کوئی سخت دھات۔

 

اللہ کے لیے اس کو دوبارہ اس کے جسم کے ساتھ اٹھانا کچھ بھی مشکل نہیں جس ہستی نے انسان کو پہلی مرتبہ زندگی عطا کی اس کے لیے اس کا اعادہ آخر کیوں مشکل ہو گا؟

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن اللہ انسانوں کو پکارے گا کہ اٹھو اور میرے حضور حاضر ہو جاؤ تو تمام انسان دوبارہ زندہ ہو کر اس کی پکار پر لبیک کہیں گے۔ اس وقت ان کی زبان پر حمد کے کلمات جاری ہوں گے۔ یہ فطرت کی آواز ہو گی جو اپنے رب کے لیے حمد ہی سے آشنا ہے۔

 

خدا کے حضور ہونے والی اس حاضری کو حج کے مناسک میں تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے چنانچہ بیت اللہ کی زیارت کے لیے بندہ لبیک یعنی میں تیرے حضور حاضر ہوں کہتا ہوا جاتا ہے اور اس کی زبان پر حمد کے کلمات ہوتے ہیں اِنّ الحَمْدَ والنِّعْمَۃَ لَکَ (حمد و نعت تیرے ہی لیے ہے) ۔

 

لو گ قیامت کو دور خیال کرتے ہیں لیکن جب وہ جی اٹھیں گے تو ایسا محسوس کریں گے کہ جو وقت دنیا اور قیامت کے درمیان گزرا وہ بہت ہی تھوڑا تھا۔ عالم برزخ میں وہ کچھ دیر ہی رہے تھے کہ قیامت کھڑی ہو گئی۔

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اہل ایمان سے کہ دو کہ وہ منکرین سے الجھیں نہیں اور کوئی بات ایسی نہ کہیں جو اشتعال پیدا کرنے والی ہو بلکہ فہمائش کا طریقہ اختیار کریں اور دعوت خوبی کے ساتھ پیش کریں۔ یاد رکھو شیطان اشتعال اور عصبیت پیدا کر کے انسانی تعلقات کو خراب کرنا چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ لو گ حق کو قبول کریں۔

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ یہ عام انسانوں سے خطاب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دلوں کا حال خوب جانتا ہے اور رحمت و عذاب اس کی مشیت ہی پر موقوف ہے مگر اس کی مشیت کے فیصلے لو گوں کے باطنی حالات کو سامنے رکھ کر ہوتے ہیں جو شخص قبول حق کے لیے دل سے آمادہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرماتا ہے اور وہ حق کو پا کر اس کی رحمتوں کا مستحق بن جاتا ہے بخلاف اس کے جو قبول حق کے لیے دل سے آمادہ نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے محروم رکھتا ہے اور وہ کفر کی بنا پر عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پیغمبر کا کام اللہ کے پیغام کو پہنچا دینا ہے۔ وہ کسی کے عمل کا ذمہ دار نہیں ہے۔

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ مقصود اس بحث سے روکنا ہے جس میں لو گ انبیاء علیہم السلام کی فضیلت کے تعلق سے الجھتے ہیں۔ یہود موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کے قائل تھے تو نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کو سب سے افضل قرار دے رہے تھے۔ اور مشرکین مکہ تو محض بحث کی خاطر ان سے سن کر بہت سی باتیں چھیڑ دیا کرتے تھے اس پس منظر میں یہاں یہ بات ارشاد ہوئی ہے کہ نبی ہو یا فرشتہ کسی کے مرتبہ کا تعین کرنا تمہارا کام نہیں بلکہ اللہ کا کام ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین کی ساری مخلوق کو بخوبی جانتا ہے اور جہاں تک نبیوں کا تعلق ہے اس نے اگر ایک نبی کو ایک اعتبار سے فضیلت بخشی ہے تو دوسرے کو دوسرے اعتبار سے مثال کے طور پر داؤد کو یہ فضیلت بخشی کہ انہیں زبور جیسی کتاب عطا کی جو اپنی حلاوت اور تاثیر میں قرآن سے مماثلت رکھتی تھی۔ لہٰذا جس نبی کو جو فضیلت اللہ تعالیٰ نے بخشی تھی اس کا اعتراف کرو اور نہ تو کسی کی فضیلت میں غلو کرو اور نہ کسی کے درجہ کو گھٹاؤ۔

 

اسی قسم کی ایک غیر ضروری بحث وہ ہے جو خلفائے راشدین کے تعلق سے مسلمانوں میں چل پڑی کہ اس امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر ہیں یا حضرت علی۔ پھر بحث کے ہر فریق نے اس کو اپنے اپنے عقیدہ کا مسئلہ بنا لیا حالانکہ ان کے مرتبہ کا تعین کرنے کی ذمہ داری ہم پر نہیں ڈالی گئی ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون کس درجہ کا مستحق ہے اور اس کے نزدیک کس کا کیا مرتبہ ہو گا۔ پھر ہم ایسی باتوں کو موضوع بحث کیوں بنا لیں ؟

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم اس خیال خام میں مبتلا ہو کہ اللہ کے علاوہ اور بھی حاجت روا ہیں۔ اگر تم عقل و ہوش سے کام لینا نہیں چاہتے اور خام خیالی ہی میں مبتلا رہنا چاہتے ہو تو ان کو پکارنے کا شوق بھی پورا کر لو مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ وہ تمہاری کسی تکلیف کو دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ تمہاری بری حالت کو اچھی حالت سے تبدیل کرنے کا۔

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ مراد فرشتے ہیں نہ کہ بت کیونکہ اللہ کا قرب تلاش کرنا، اس کی رحمت کا امیدوار ہونا اور اس کے عذاب سے ڈرنا بتوں کی نہیں بلکہ فرشتوں ہی کی صفات ہو سکتی ہیں۔ اوپر آیت ۴۰ میں بھی یہ مضمون گزر چکا کہ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے ہیں۔ فرشتوں سے متعلق ان کے ان غلط عقائد ہی کی تردید کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ تم فرشتوں کو خدائی کے کاموں میں دخل سمجھ کر حاجت روائی ار مشکل کشائی کے لیے پکارتے ہو لیکن ان کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ خود اپنے رب کا قرب تلاش کرتے ہیں کہ کون سب سے زیادہ مقرب بنتا ہے۔ وہ جہاں اس کی رحمت کے امیدوار ہیں وہاں اس کے عذاب سے ترساں بھی رہتے ہیں پھر خدا کی جگہ ان کو پکارنے کا کیا مطلب؟

 

یہ تو تھا مشرکین کا فرشتوں کے ساتھ معاملہ لیکن شرک ان ہی تک محدود نہیں موجودہ دور کے مسلمانوں کا بھی ایک بڑا گروہ اپنے انبیاء " اولیا" اور " پیروں " کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جو خدا ہی کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے واسطوں اور وسیلوں کا ایک فلسفہ ایجاد کر لیا ہے اور اس کی بنا پر مدد کے لیے کبھی رسول کو پکارتے ہیں تو کبھی اپنے من گھڑت " غوث" کو۔ کبھی اپنے خود ساختہ " مشکل کشا" کی دہائی دیتے ہیں تو کبھی اپنے ہی دئیے ہوئے لقب سے ملقب " غریب نواز" سے مرادیں مانگنے لگتے ہیں۔ ان کے " علماء" اس آیت کی اور اس جیسی دوسری آیتوں کی اس طرح تاویل کرتے ہیں کہ ان سب مشرکانہ طور طریقوں کے باوجود ان کے عقیدۂ توحید پر کوئی حرف نہیں آتا۔ وہ اگر کھلے ذہن سے قرآن پڑھیں تو انہیں ہدایت نصیب ہو۔

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ مراد مشرکوں، کافروں اور سرکش لو گوں کی آبادیاں ہیں چنانچہ اوپر آیت ۱۶  میں بھی اس سے ملتی جلتی بات بیان ہوئی ہے۔ یہاں اس سنتِ الٰہی کو بیان فرمایا ہے کہ ایسی ہر آبادی کے لیے جو عقیدہ و عمل کے اس فساد میں مبتلا ہو اور اس سے باز آنے کے لیے تیار نہ ہو فیصلۂ الٰہی یہ ہے کہ اسے دنیا میں یا تو مکمل تباہی سے دو چار ہونا ہے کہ وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دی جائے یا پھر کسی نہ کسی شکل میں سخت عذاب کا مزا چکھنا ہے۔ مہلت کتنی ہی دراز کیوں نہ ہو بہر حال قیامت سے پہلے دو میں سے ایک بات لازماً پیش آئے گی۔

 

تاریخ اس کی تصدیق کرتی ہے اور موجودہ دور میں تو ایسے واقعات بہ کثرت ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر زلزلوں سے بڑی بڑی آبادیاں تباہ ہو رہی ہیں اور خدا کا عذاب انسان کی بمباری کی شکل میں بڑے برے شہروں پر نازل ہو کر انہیں اپنے کرتوتوں کا مزا چکھا تا ہے۔

 

واضح رہے کہ آبادیوں پر اللہ کا یہ عذاب اس کے فساد عام کی بنا پر نازل ہوتا ہے ایسے موقع پر جو اچھے لو گ اس بستی میں رہتے ہوں اگر عذاب کی زد میں آتے ہوں تو در حقیقت یہ عذاب ان کے حق میں عذاب نہیں ہوتا اور قیامت کے دن ان کے عمل کو دیکھ کر ان کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا۔

 

یہ بھی واضح رہے کہ یہ عذاب اس عذاب سے کسی قدر مختلف ہوتے ہیں جو کسی رسول کے جھٹلانے پر اس کی قو م پر رسول کی صداقت کی دلیل بن کر نازل ہوتا ہے۔ اس میں کفر و ایمان کا دو ٹوک فیصلہ ہوتا ہے اس لیے رسول اور اہل ایمان کو اس بستی سے جس پر عذاب نازل ہوتا ہے پہلے ہی نکال لیا جاتا ہے۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ یہاں نشانیوں سے مراد حسی معجزے ہیں۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ اعراف نوٹ ۱۱۹ میں گزر چکی۔

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ یعنی معجزے کے طور پر جو چیزیں بھیجی جاتی ہیں وہ محض عجائبات دکھانے کے لیے نہیں بھیجی جاتیں بلکہ ان کے بھیجنے سے مقصود عذاب الہی سے ڈرانا ہوتا ہے کہ اس صریح نشانی کو دیکھ کر بھی اگر تم ایمان نہیں لائے تو سمجھو کہ اللہ کا عذاب تمہارے سر پر منڈلا ہی رہا ہے۔

 

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے سورۂ برو ج کی اس آیت کی طرف :۔ بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوافِیْ تَکْذِیْبٍ واللّٰہُ مِنْ وَّرَآئہمْ مَّحِیْطٌ " لیکن یہ کافر جھٹلانے ہی میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ ان کو آگے پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے۔ "

 

مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ بات پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ لو گ پیغمبر اور قرآن کو جھٹلانے کے لیے ایک نہ ایک اعتراض کرتے رہیں گے لیکن اللہ تعالیٰ پوری طرح ان کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے اس لیے وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو نہیں سکیں گے اور قرآن اور پیغمبر کے تعلق سے اس کا جو منصوبہ ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ " الرؤیا استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی نیند کی حالت میں دیکھنے کے بھی ہیں اور بیداری کی حالت میں آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بھی (ملاحظہ ہو لسان العرب ج۱۴ ص ۲۹۷) ۔

اور بخاری میں حضرت ابن عباسۚ سے اس کی یہ تفسیر منقول ہے کہ : ہی رُؤیاعین اُرِیَھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم لیلۃَ اُسرِیَ بہٖ (بخاری کتاب التفسیر) " یہ چشم سرکا مشاہدہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اسراء کی شب کرایا گیا۔ "

 

اس لیے اس سے مراد وہ عینی مشاہدہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اسراء (مسجد اقصیٰ کے سفر) کے موقع پر کرایا گیا اور اسے رؤیا سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ بیت المقدس کا یہ سفر نہایت سرعت اور غیر معمولی کیفیت کے ساتھ ہوا تھا جس کا تصور اگر آدمی کر سکتا ہے تو خواب ہی کی صورت میں کر سکتا ہے لیکن یہ خواب ہرگز نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو نہ اس اہتمام کے ساتھ اس کے ذکر کی ضرورت ہوتی اور نہ قریش آپ کو جھٹلاتے اور نہ ہی یہ لو گوں کے لیے وجہ آزمائش (فتنہ) بنتا آزمائش تو لو گوں کی اسی صورت میں ہو سکتی ہے جبکہ اس سفر کو جسمانی سفر اور اس مشاہدہ کو بیداری کی حالت کا مشاہدہ قرار دیا جائے جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے۔

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ مراد زقوم کا درخت ہے جس کا ذکر قرآن میں سورۂ صافات (آیت ۶۲ تا ۶۶) میں ہوا ہے۔ یہ خبیث درخت جہنم میں ہو گا اور جہنمی اسی سے پیٹ بھریں گے گویا یہ درخت لعنت کا نشان ہو گا اس لیے اسے ملعون کہا گیا ہے۔ قرآن کی اس خبر کو منکرین نے مذاق بنا لیا اور کہنے لگے کہ آگ میں بھی درخت اگیں گے ! حالانکہ یہ عالم آخرت کی بات بیان ہوئی ہے جس کے زمان و مکان دنیا کے زمان و مکان سے بالکل مختلف ہوں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے زقوم کے درخت کو فائر پروف (Fire Proof) بنایا ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۴۷ میں گزر چکی۔

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۴۸ میں گزر چکی۔

 

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف نوٹ ۱۶۔

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ابلیس کا یہ اعتراض اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ پر تھا جس کے مطابق آدم کو زمین کا خلیفہ بنایا گیا اور اسے یہ اعزاز بخشا گیا کہ اس کے آگے فرشتے اور ابلیس سجدہ کریں۔ اس اعتراض کا ابلیس کو نہ حق تھا اور نہ یہ صحیح ہو سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے وہ اپنی جس مخلوق کو جو درجہ چاہے عطا فرمائے اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ پھر اللہ جو علیم و خبیر ہے اس لیے اس کے فیصلے علم و حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔ اب اگر ابلیس پر یہ حکمت واضح نہیں ہوئی تھی یا اس کی سمجھ میں اس کی مصلحت نہیں آ سکتی تھی تو یہ بات کسی طرح صحیح ہو سکتی تھی کہ اللہ کے فیصلہ ہی کو غلط قرار دیا جائے ؟

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ابلیس کو اندازہ ہوا کہ جذبات اور خواہشات رکھنے والے انسان کو جب فائدوں اور لذتوں والی دنیا کے پر کشش ماحول میں امتحان کے لیے کھڑا کر دیا جائے گا تو اسے بہ آسانی بہکایا جا سکے گا اس لیے اس نے دعویٰ کے ساتھ کہا کہ اگر مجھے قیامت تک کے لیے مہلت دی گئی تو میں آدم کی پوری نسل کواس کے اصل مقصد حیات سے غافل کر کے غلط راہ پر ڈال دوں گا۔ بس تھوڑے ہی لو گ ہوں گے جو میرے فریب میں نہیں آئیں گے۔

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۲۲۔

 

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ابلیس کی آواز اس کی پکار اور دعوت ہے گمراہی اور معصیت کی طرف جس کے لیے وہ وسوسہ اندازی کرتا ہے۔ موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی ترقی نے شیطان کو یہ سہولت بہم پہنچائی ہے کہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذرائع اس کی آواز دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچ رہی ہے اور روز بروز اس کا شور و غوغا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

 

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ مراد ابلیس کی اولاد اور اس کے چیلے ہیں۔ وہ انسان کو بہکانے کے لیے اس طرح حملہ آور ہوتے ہیں جیسے لشکر۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۲۱۔)

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ مال میں شیطان کی شرکت کا مطلب یہ ہے کہ حرام طریقہ سے مال کمائے اور حرام طریقہ سے خرچ کرے۔ غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز، باطل مقاصد کے لیے مال لٹانا، برائیوں کو فروغ دینے کے لیے مالی وسائل لگانا شیطانی اغراض کو پورا کرنے اور اس کو مال میں شریک کرنے کی مثالیں ہیں۔

 

اولاد میں شیطان کی شرکت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی شیطان کے اشارہ پر کسی دیوی دیوتا یا کسی بزرگ یا ولی کی بخشش قرار دے یا اس کو مشرک اور کافر بنائے یا اس کی غلط تربیت کر کے اس کو فسق کی راہ پر ڈال دے۔

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ ابراہیم نوٹ ۲۹ میں گزر چکی۔

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ حجر نوٹ ۳۹ میں گزر چکی۔

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ اللہ پر بھروسہ کریں گے اور اللہ ان کی کارسازی کے لیے کافی ہو گا۔

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ مراد رزق حلال ہے۔

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کی فطرت ایک خدا ہی سے آشنا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ طوفان کے زبردست خطرہ میں گھر جانے پر ایک خدا ہی یاد آنے لگتا ہے۔

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سمندری طوفان کے خطرہ سے نکلنے کے بعد جب تم صحیح سلامت خشکی پر پہنچتے ہو تو پھر اپنی مشرکانہ روش پر لوٹ آتے ہو اور خشکی پر کوئی اندیشہ محسوس نہیں کرتے حالانکہ خطرہ وہاں بھی مو جود ہوتا ہے۔ کسی وقت زلزلہ آ سکتا ہے اور زمین کے دھنس جانے سے تم اس کے اندر دفن ہو سکتے ہو یا سنگ باری کرنے والی آندھی چل سکتی ہے اور تم اس کی زد میں آ سکتے ہو۔ اس قسم کی کوئی آفت بھی اللہ تعالیٰ بھیج دے تو کون ہے جو تمہیں اس سے بچائے گا؟

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ ایسے اسباب کر دے کہ تم پھر سمندری سفر کے لیے مجبور ہو جاؤ اور وہاں وہ پھر باد تند چلا کر تم کو غرق کر دے اور تمہیں اپنی ناشکری کا مزا چکھائے۔ ایسی صورت میں کون ہے جو خدا کے مقابلہ میں تمہارا حمایتی بن کر کھڑا ہو اور اس سے پوچھ گچھ کر سکے کہ اس نے تم کو کیوں غرق کیا؟

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان کو اللہ نے عزت و شرف بخشا ہے۔ وہ پیدائشی گنہگار یا کوئی ذلیل مخلوق نہیں ہے اور نہ اسے حیوان کی سطح پر رکھنا صحیح ہے اور نہ ہی اس کی کوئی صنف یا کوئی نسل یا کوئی طبقہ اپنی اصل کے اعتبار سے پست درجہ کا ہے بلکہ ہر شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور کسی رنگ و نسل یا طبقہ سے تعلق رکھتا ہو نوع انسانی کا فرد ہونے کی حیثیت سے معزز اور محترم ہے۔

 

ذات پات، چھوت چھات، رنگ و نسل کے امتیازات اور عورتوں کے ذلیل ہونے کا تصور سب ایسی چیزیں ہیں جو انسان کے پیدائشی مرتبہ کے خلاف ہیں اور اسلام ان کو مٹا دینا چاہتا ہے۔

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کا بخشا ہوا کیسا اعزاز ہے کہ اس کی خدمت کے لیے خشکی میں بھی سواری حاضر ہے اور سمندر میں بھی سواری مو جود اور اب ایک اور نعمت کا اضافہ ہو گیا ہے کہ ہوا میں اڑنے کے لیے بھی سواری مہیا۔ اگر اللہ انسان کو جانوروں پر سوار ہونے اور دوسری قسم کی سواریاں ایجاد کرنے کی صلاحیت نہ بخشتا تو کیا وہ یہ اونچا مقام حاصل کر سکتا تھا؟

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ حیوانات گھاس پھوس اور کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کا نہایت اعلیٰ ذوق بخشا اور اس ذوق کی تکمیل کے لیے زمین پر انواع و اقسام کی پاکیزہ چیزوں کا دستر خوان بچھا دیا۔

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ تفضیلاً (مفعول مطلق ہے جس) کا مطلب پوری پوری فضیلت ہے۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر پوری پوری فضیلت عطا کی ہے۔ جہاں تک زمین کی مخلوقات کا تعلق ہے یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ البتہ آسمان کی مخلوقات سے کوئی مخلوق ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بعض اعتبارات سے انسان پر فضیلت رکھتی ہو چنانچہ بعض اعتبار سے فرشتے انسان پر فوقیت رکھتے ہیں لیکن کچھ دوسرے پہلوؤں کے پیش نظر انسان کو یہ فضیلت دی گئی کہ وہ مسجود ملائکہ قرار پایا۔

 

گویا انسان اور فرشتوں کے درمیان فضیلت کا معاملہ کلی یعنی پوری پوری فضیلت کا نہیں بلکہ بعض پہلوؤں سے ہے۔ پھر یہ فضیلت تو انسان کی خلقت، اس کی قوتوں اور صلاحیتوں اور اس کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے لحاظ سے ہے اس کا حقیقی مقام و مرتبہ تو قیامت کے دن ہی ظاہر ہو گا جبکہ انسان کی سعی و عمل کے نتائج ظہور میں آئیں گے۔ لہٰذا اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ انسان افضل ہے یا فرشتے بلکہ فکر اس بات کی کرنی چاہیے کہ جو فضیلت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بخشی ہے اس کا اہل ہم اپنے کو کس طرح ثابت کر دکھائیں ورنہ نا اہلی اور نا شکری کے نتیجہ میں انسان اسفل السافلین" پرلے درجہ کی پستی" کو پہنچ سکتا ہے۔

 

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عقیدہ و عمل کے معاملہ میں جس شخص نے جس کو اپنا پیشوا، قائد یا لیڈر بنایا تھا اس کو اس کے ساتھ حاضر ہونا پڑے گا۔ مخلص مؤمن رسول کی قیادت میں جمع ہوں گے کہ انہوں نے رسول کو اپنا امام مان کر اس کی مخلصانہ پیروی کی تھی بخلاف اس کے مشرک اور کافر اپنے گمراہ لیڈروں کے ساتھ اور باطل مذاہب کے پیرو ان مذاہب کے گمراہ بانیوں کے ساتھ حاضر ہوں گے۔

 

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انشقاق نوٹ ۷۔

 

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ خوشی خوشی اپنا نامۂ عمل پڑھیں گے کیونکہ دائیں ہاتھ میں دیا جانا کامیابی کی علامت ہو گا۔

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ دنیا میں وہ اللہ کی نشانیاں دیکھتا رہا مگر دل کا اندھا بنا رہا اس لیے اس کا بدلہ یہ ہو گا کہ وہ آخرت میں اندھا ہی رہے گا۔ آگے آیت ۹۷ میں اس سزا کی مزید وضاحت ہوئی ہے۔

 

واضح رہے کہ قیامت کے دن مختلف مراحل سے گزرنا ہو گا۔ ایک مرحلہ وہ ہو گا جس میں کافروں کی نگاہیں خوب تیز ہوں گی جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے فَبَصَرُک الیوْمَ حَدِید (ق ۲۲) " تو آج تیری نگاہیں خوب تیز ہیں۔ " نگاہوں کی یہ تیزی عذاب کے مشاہدہ کے لیے ہو گی۔ دوسرا مرحلہ وہ ہو گا جس میں وہ اپنے جھوٹے معبودوں کو دیکھ کر بول اٹھیں گے کہ اے رب! یہ ہیں ہمارے ٹھہرائے ہوئے شریک۔ اور ایک مرحلہ وہ ہو گا جبکہ انہیں اندھا بہرا گونگا بنا کر الٹے منہ جہنم کی طرف ہنکایا جائے گا۔ (اللہ کی پناہ اس عذاب سے)

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشرکین نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن میں تبدیلی کے لیے کتنا دباؤ ڈال رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اگر آپ قرآن کو بالکلیہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تو کم از کم اس میں کچھ ایسی تبدیلیاں کر لیں کہ وہ بت پرستی کے بالکل خلاف نہ رہے اس شرط پر وہ اس کے ساتھ مصالحت اور دوستی کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے تھے۔

 

موجودہ دور کے مشرکوں اور کافروں میں اسی ذہنیت کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے وہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ آپ لو گ توحید کو اس طرح پیش کریں کہ شرک اور بت پرستی کی تردید ہو اور اسلام کو اس طرح پیش کریں کہ دوسرے مذاہب کی سچائی پر آنچ نہ آئے۔

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مشرکین کا دباؤ اتنا شدید تھا کہ ایک نبی کے لیے بھی اپنے موقف پر جمے رہنا آسان نہ تھا مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کی عصمت کے تحفظ کا جو سامان ہوتا ہے اور اس کی جو توفیق اس کے شامل حال ہوتی ہے اس کی بنا پر آپ اپنے موقف پر پوری طرح جمے رہے۔

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ یہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی تنبیہ ہے اور مشرکین پر یہ واضح کرنا ہے کہ تم ہمارے رسول سے یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہاری باتوں میں آ کر شرک کے معاملہ میں کچھ نرمی دکھائے گا۔ اگر بالفرض ایسا ہوا تو یہ منصبِ رسالت کے سراسر خلاف ہو گا اور اس کی بنا پر رسول دنیا و آخرت دونوں میں دوہری سزا کا مستحق قرار پائے گا۔ اس جواب سے یہ بات خود بخود واضح ہے کہ شرک کے معاملہ میں رسول سے کسی سمجھوتہ کی توقع رکھنا فضول ہے۔

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مشرکین مکہ نے ایسے حالات پیدا کر دئے ہیں کہ اے پیغمبر تم اس سر زمین میں رہ نہ سکو اور ہجرت کرنے کے لیے مجبور ہو جاؤ۔ اگر ایسا ہوا تو یہ لو گ یاد رکھیں کہ وہ پیغمبر کے ہجرت کر جانے کے بعد یہاں ٹک نہ سکیں گے۔ ان کا عذاب کی گرفت میں آ جانا بالکل یقینی ہے۔

 

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ ناقابل تغیر ہے کہ جب کوئی قوم اپنے رسول کو اپنی بستی سے نکال دیتی ہے تو رسول کے ہجرت کر جانے کے بعد اس کی مہلت عمل بہت جلد ختم ہو جاتی ہے اور وہ عذاب کی گرفت میں آ جاتی ہے۔

 

اس قاعدہ کا ظہور مشرکین مکہ کے بارے میں بھی ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مکہ سے ہجرت کر جانے کے بعد دوہی سال کے اندر بدر کا معرکہ پیش آیا جس میں مشرکین کے بڑے بڑے لیڈر مارے گئے اور اس کے بعد چند سال کے اندر اندر مکہ سے مشرکین کا مکمل صفایا ہو گیا۔ یہ تھی سزا جو اللہ کی سنت (قاعدہ) کے مطابق ان لو گوں کو مل کر رہی جنہوں نے رسول کو اس سرزمین سے نکالا اور اخیر وقت تک شرک اور کفر پر جمے رہے۔

 

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ سورج کے ڈھلنے کے تین اوقات ہیں۔ ایک وہ جبکہ سورج نصف آسمان سے ڈھلنے لگتا ہے جسے زوال آفتاب کہتے ہیں۔ زوال کے بعد ظہر کی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ دوسرا وقت سورج ڈھلنے کا وہ ہوتا ہے جبکہ کسی بھی چیز کا سایہ اس کے مثل یعنی اس کے برابر ہو جاتا ہے یہ عصر کی نماز کا وقت ہے اور تیسرا وقت سورج کے ڈھلنے کا اس کا غروب ہو جانا ہے۔ یہ مغرب کی نماز کا وقت ہے۔

 

رات کے اندھیرے سے مراد وہ وقت ہے جو شفق کے غروب ہوتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ یہ عشاء کی نماز کا وقت ہے۔ اور فجر سے مراد پو پھٹنے کا وقت ہے۔ اس وقت نماز فجر ادا کی جاتی ہے اس طرح دن اور رات میں پانچ نمازیں ہوئیں جو ہر مسلمان پر فرض کر دی گئی ہیں۔ ان اوقات کی تفصیلات حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔

 

فجر کی قرأت قرآن سے مراد فجر کی نماز ہے اور اسے قرأتِ قرآن سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ فجر کی نماز کی یہ شان واضح ہو جائے کہ وہ نسبتاً طویل قرأت والی نماز ہے۔ پھر فجر کی نماز کو مشہود اس بنا پر کہا گیا کہ وہ وقت دل کی حضوری کا بھی ہوتا ہے اور فرشتوں کی حاضری کا بھی چنانچہ حدیث میں آتا ہے : تَشْہَدُ مَلاَئِکۃُ اللیل و ملائکۃُ النہارِ (ترمذی ابواب التفسیر) " اس وقت رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ "

 

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ تہجد سے مراد رات کو سو کر اٹھنے کے بعد کی نماز ہے۔ اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے البتہ اخیر شب کی بڑی فضیلت آئی ہے۔

 

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت ہوئی کہ یہ نماز تمہارے حق میں زائد ہے یعنی ان فرائض کے علاوہ ہے جن کا ذکر اوپر ہوا۔

 

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ مقام محمود سے مراد مرتبہ کی وہ بلندی ہے جو زبانوں پر ستائش کے کلمات جاری کرے۔

 

جس وقت یہ سورہ نازل ہوئی ہے منکرین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درپے آزار تھے۔ انہوں نے اس بات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی کہ آپ کو لو گوں کی نظروں سے گرا دیا جائے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس وقت یہ مژدۂ جانفزا سنایا کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں حوصلہ افزا ہونے کے علاوہ ایسی تھی کہ اس کی صداقت دنیا پر ظاہر ہو کر رہی۔ آپ کی شخصیت ہر انصاف پسند آدمی کی نظر میں قابل تعریف ہی قرار پائی اور آپ کی امت کو جو عقیدت آپ سے ہے وہ کسی انسان سے نہیں ہر مسلمان اپنی نمازوں میں روزانہ درود و سلام کا تحفہ آپ کو بھیجتا ہے۔ پھر دنیا میں جو مقام آپ کو حاصل ہوا اس سے کہیں بڑھ کر مقام آپ کو آخرت میں حاصل ہو گا۔ قیامت کے دن آپ کی شان محمودیت پوری طرح نمایاں ہو گی۔ حوضِ کوثر پر بھی اور دیگر مواقع پر بھی۔

 

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ہجرت کا وقت قریب آ لگا ہے چنانچہ اس کے کچھ ہی دنوں بعد ہجرت مدینہ کا واقعہ پیش آیا۔

 

اس دعا میں ہجرت کی اصل روح جھلکتی ہے اور وہ یہ کہ نکلنا بھی سچائی اور عزت کے ساتھ ہو اور داخل ہونا بھی سچائی اور عزت کے ساتھ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت مکہ سے فرار نہیں تھا بلکہ اللہ کی راہ میں با عزت طریقہ پر ترک وطن تھا اور مدینہ میں آپ کا داخل ہونا ایک پنا ہ گزیں کی حیثیت سے نہیں تھا بلکہ ایک عظیم شخصیت کا ایک عظیم مقصد کے لیے داخل ہونا تھا اسی لیے آپ کے ساتھیوں نے آپ کا استقبال اس طرح کیا کہ اپنی آنکھیں اور اپنے دل بچھا دئے۔

 

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ غلبہ سے مراد قوت و اقتدار ہے اور مدد گار کی صفت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ایسا غلبہ مطلوب ہے جو دشمنانِ اسلام کو زیر کرنے میں معاون بنے اور حق کو غالب کر دے۔

 

یہ دعا مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے توسط سے اہل ایمان کو سکھائی گئی تھی جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دین حق کے لیے قوت، غلبہ اور اقتدار کی طلب ایک پسندیدہ اور مطلوب چیز ہے۔ موجودہ زمانہ میں جو مسلمان اس کی لب پر معترض ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلام کے ساتھ غلبہ و اقتدار کی بات سرے سے کی ہی نہ جائے وہ اپنا تصور دین قرآن سے اخذ کرنے کے بجائے کہیں اور سے اخذ کرتے ہیں۔

 

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ یہ قرآن کی پیش گوئی تھی کہ اگرچہ اس وقت مکہ میں حق مظلوم ہے لیکن بس سمجھو کہ حق غالب ہو ہی گیا اور باطل نابود ہوا۔ اس اعلان کو دس سال بھی گزرنے نہیں پائے تھے کہ ۰۸ھ میں اسلام مکہ میں فاتحانہ داخل ہوا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کو اپنے نیزے سے گراتے جاتے تھے اور یہ آیت تلاوت فرماتے تھے جَاءَ الَحقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُ اِنّ الّبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا (حق آگیا اور باطل نابود ہوا اور باطل نابود ہونے ہی کے لیے تھا) اس طرح حق کے غالب ہونے اور باطل کے نابود ہونے کا منظر لو گوں نے دیکھ لیا اور قرآن کے بیان کی سچائی ثابت ہو کر رہی۔

 

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ یونس نوٹ ۸۸ میں گزر چکی۔

 

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ یونس نوٹ ۹۰ میں گزر چکی۔

 

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ظالم سے مراد وہ لو گ ہیں جو حق و انصاف کی بات سننا نہیں چاہتے ایسے لو گ قرآن کی دعوت حق پر کیونکر کان دھرنے لگیں۔ ایسے لو گوں پر قرآن کی حجت قائم ہو جاتی ہے اور ان کی بڑھتی ہوئی مخالفت ان کی تباہی کو اور بڑھا دیتی ہے۔

 

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی کسی نعمت کو پا کر اپنے محسن کی طرف سے بے پروا ہو جاتا ہے اور کسی تکلیف کے پہنچنے پر مایوسی کی باتیں کرنے لگتا ہے یعنی نہ وہ شکر کا ثبوت دیتا ہے اور نہ صبر کا۔ قرآن جیسی نعمت کو پا کر بھی وہ اسی ذہنیت کا مظاہرہ کر رہا ہے حالانکہ اسے اس نعمت کے حاصل ہو جانے پر اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا۔

 

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا اور آخرت کے تعلق سے ہر شخص نے اپنے لیے ایک راہ عمل متعین کر لی ہے اور ہر ایک کا ایک مذہب ہے جس سے وہ وابستہ ہے اور جس کے صحیح اور حق ہونے کا وہ مدعی ہے لیکن قطعی علم تو اللہ ہی کو ہو سکتا ہے کہ کون بر سر حق ہے چنانچہ اس نے رسول کا برسر حق ہونا اور راہ ہدایت پر ہونا وحی کے ذریعہ تم پر ظاہر کر دیا ہے۔ اب اگر تم نہ مانو تو اپنے عمل کے تم ذمہ دار ہو۔

 

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ یہاں روح سے مراد " وحی" ہے اور قرآن میں یہ لفظ وحی کے لیے اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے (ملاحظہ ہو سورۂ نحل نوٹ ۳) اور یہاں سلسلۂ کلام دلیل ہے سوال قرآن کی وحی سے متعلق تھا یعنی سوال کرنے والے اس خفیہ پیغام رسانی کی حقیقت کو جاننا چاہتے تھے۔ انہیں جواب دیا گیا ہے کہ تمہارے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ یہ اللہ کا فرمان ہے۔ رہی اس کی حقیقت کہ یہ عمل کس طرح انجام پاتا ہے تو یہ غیب کے ان اسرار میں سے ہے جس کا انسان کو علم نہیں اور انسان کو اتنا ہی علم بخشا گیا ہے جتنا کہ اس امتحانی زندگی سے گزرنے کے لیے ضروری تھا۔ پس جب ایک عظیم مصلحت کے پیش نظر " وحی" کی کیفیت کے راز کو پوری طرح انسان پر نہیں کھولا گیا تو اس کی کیفیت کو تفصیلی طور پر سمجھنے کے لیے اصرار صحیح نہیں اور نہ اس بنا پر اس کا انکار کرنا صحیح ہے کہ یہ چیز ہمارے علم کی گرفت میں نہیں آ سکی ہے۔ اگر ریڈیائی لہروں سے انسان اس سے پہلے آشنا نہیں تھا تو کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کا کوئی و جود نہیں ہے۔ پھر اگر وحی کا تجربہ ہمیں نہیں ہوتا اور صرف انبیاء علیہم السلام کو ہوتا ہے جن کی صداقت شبہ سے بالاتر ہوتی ہے اور ان کا لایا ہوا پیغام خود اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ وحی الٰہی ہے تو پھر اس پر یقین کیوں نہ کر لیا جائے ؟ کیا اس سے انکار حقیقت کا انکار نہیں ہو گا؟ اور حقیقت کا انکار کر کے ہم اپنی زندگیوں کو غلط راہوں پر نہیں ڈالیں گے ؟

 

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح اللہ نے اپنے رسول پر یہ وحی (قرآن) نازل کی ہے وہ چاہے تو اسے سلب بھی کر سکتا ہے یعنی وہ واپس بھی لے سکتا ہے۔ اور اگر وہ ایسا کرے تو کوئی طاقت ایسی نہیں جو اسے واپس دلا سکے۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ قرآن کا نزول اللہ کی طرف سے ہو رہا ہے اس میں پیغمبر کا اپنا کوئی دخل نہیں ہے اس لیے اس کو پیغمبر کی تصنیف سمجھنا خلاف واقعہ ہے۔

 

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ یہ چیلنج ہے قرآن کا کوئی ایک فرد ہی نہیں پوری انسانیت اور پوری انسانیت ہی نہیں اس کے ساتھ تمام جنات بھی مل کر اس جیسی کتاب تصنیف کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ اس چیلنج کو چودہ صدیاں گزر گئیں مگر کوئی اس کا جواب نہ دے سکا۔

 

حقیقت یہ ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا زندہ معجزہ ہے رہتی دنیا تک کے لیے۔ اس میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت واقعہ ہے۔ اس کے معجزانہ پہلوؤں کی وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۳۰۔

 

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہم نے قرآن میں دعوت کو مختلف پیرایوں میں پیش کیا اور تذکیر و تفہیم کے لیے مختلف اسلوب اختیار کئے تاکہ جو طبیعتیں جس طریقہ سے مانوس ہوں بات سمجھ لیں مگر اکثر لو گوں کا حال یہ ہے کہ وہ انکار پر جمے ہوئے ہیں اور کوئی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

 

موجودہ دور میں منکرین کا قرآن پر ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس میں ایک ہی بات کو بار بار دہرایا گیا ہے یعنی (Repetition) بہت ہے حالانکہ قرآن اس کو ہدایت و فہمائش کے سلسلہ کی ایک ضرورت قرار دیا ہے۔ اصل میں لو گ قرآن کو عام کتابوں پر قیاس کرتے ہیں جو کسی علمی مقصد یا معلومات میں اضافہ کے لیے لکھی جاتی ہیں جبکہ قرآن کا موضوع ہدایت الٰہی ہے اور اس کے نزول کا مقصد لو گوں کی زندگیوں کو بدلنا اور ان کی صحیح فکری و عملی تربیت کرنا ہے۔ رہنمائی و تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ہر موڑ پر نشانِ راہ واضح کیا جائے اور موقع کی مناسبت سے سبق کو دہرایا جائے تاکہ وہ ذہن میں پختہ ہو جائے نیز مدعا کو واضح کرنے کے لیے مختلف اسلوب اختیار کئے جائیں۔ گویا جو قرآن کی خوبی تھی وہ ان نا قدروں کی نگاہ میں عیب قرار پائی !

 

واضح رہے کہ دوسری آسمانی کتابوں کا بھی یہی اسلوب رہا ہے چنانچہ تورات اور زبور میں ایک بات کو کئی بار دہرایا گیا ہے۔ گویا آسمانی کتابوں کی یہ مشترکہ خصوصیت ہے۔

 

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان کے ان لمبے چوڑے مطالبات کا مختصر جواب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے خدائی کا دعویٰ کب کیا ہے جو تم مجھ سے یہ مطالبات کرتے ہو___اللہ ہر شرک سے پاک ہے۔ میں نے اپنے کو صرف رسو ل کی حیثیت سے پیش کیا ہے لہٰذا تم میرے پیغام کو جانچو اور پرکھو۔ معجزے اور چمتکار دکھانا رسول کے بس میں نہیں ہے بلکہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم نوٹ ۲۰)

 

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لو گوں کا اپنا تصور یہ ہے کہ زمین پر چلنے پھرنے والا انسان پیغمبر کیسے ہو سکتا ہے اگر واقعی اللہ کو اپنا پیغمبر بھیجنا ہوتا تو وہ فرشتہ کو پیغمبر بنا کر بھیجتا۔ اس غلط تصور کی وجہ سے وہ ایک انسان کے پیغمبر ہونے کا انکار کرتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ خدا کی ہدایت سے جو پیغمبر پر نازل ہوئی محروم رہتے ہیں۔

 

اگرچہ زمین پر فرشتوں کی آمد و رفت رہتی ہے لیکن زمین پر اطمینان سے چلنے پھرنے والی مخلوق جسے امتحان گاہ میں کھڑا کیا گیا ہے انسان ہی ہے اس لیے انسانوں کی طرف کسی بشر کو رسول بنا کر بھیجنا تقاضائے حکمت ہے کیونکہ رسول کی زندگی ایک نمونہ ہوتی ہے اور وہ لائق اتباع ہوتا ہے۔ اگر فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجا جائے تو اس کی زندگی کس طرح نمونہ ہو گی اور وہ کس طرح لائق اتباع ہو گا۔ ؟

 

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح نوٹ ۱۰۲ میں گزر چکی۔

 

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جہنم کی آگ کبھی بجھنے والی نہیں۔ ذرا دھیمی ہونے کو ہوئی تو اسے اور بھڑکا دیا گیا۔

 

سائنس داں کہتے ہیں کہ سورج میں ایٹمی دھماکے ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی حرارت برقرار رہتی ہے۔ یہ تو ہے اس مادی دنیا کا حال اور آخرت کو تو اس پر قیاس کر نہیں سکتے لہٰذا اگر جہنم کی آگ کے دائمی طور پر بھڑکتے رہنے کی خبر ہمیں قرآن دیتا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔

 

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ انسان اس بات کا ذمہ دار (مکلف) ہے کہ اللہ کی نشانیوں کو مانے اور آخرت پر ایمان لائے۔ اس سے انکار کے معنی اللہ سے کفر اور سرکشی کے ہیں اور جہنم کی یہ کڑی سزا اسی کفر و سرکشی کا ٹھیک ٹھیک بدلہ ہے۔

 

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اتنی موٹی بات ان منکرین کی سمجھ میں نہیں آتی کہ جو ہستی آسمانوں اور زمین کی خالق ہو اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔

 

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے وقوع شبہ سے بالاتر ہے اور نہایت مضبوط دلائل سے اسے واضح کیا جاچکا مگر جو لو گ غلط ہیں اور غلط کار ہیں وہ انکار پر اس طرح مصر ہیں کہ کوئی بات اور کوئی حجت بھی ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

 

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ آخرت تقاضائے رحمت ہے۔ اس کی رحمت بے کراں ہے اور خرچ کرنے سے اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے مخلص بندوں کو اپنی رحمت سے دائمی طور پر اس طرح نوازے کہ وہ نہال ہو جائیں۔ جنت اس نے فیضانِ رحمت ہی کے لیے بنائی ہے لہٰذا انسان کا آخرت سے انکار اور جنت کو نا ممکن خیال کرنا اللہ کی صفتِ رحمت کا سراسر غلط تصور ہے۔ دراصل انسان بڑا تنگ دل اور بخیل واقع ہوا ہے اس لیے اللہ کی رحمت کی یہ وسعت اس کے لیے ناقابل قبول بن جاتی ہے اور ان منکرین کا حال یہ ہے کہ اگر اللہ اپنی رحمت کے خزانوں کا انہیں مالک بنا دیتا یعنی مال و دولت کے خزانے ان کے حوالے کر دیتا تو یہ اس اندیشہ سے کہ کہیں یہ ختم نہ ہو جائے خرچ کرنے اور لو گوں کو اس سے فیض پہنچانے سے ہاتھ روک لیتے تو کیا یہ خدا کو بھی اپنے ہی اوپر قیاس کر رہے ہیں ؟ کیا اس کی رحمت کے خزانوں میں کوئی کمی ہو گی اگر وہ اپنے مخلص بندوں کے لیے آخرت میں اس کے دروازے کھول دیتا ہے ؟ اگر ایسا خیال کرنا صحیح نہیں ہے تو پھر سمجھ لو کہ جنت عین تقاضائے رحمت ہے اور اس کے لیے دوسری زندگی ضروری۔

 

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ جن نو معجزوں کا ظہور موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ہوا تھا ان کا بیان سورۂ اعراف میں گزر چکا یعنی (۱) عصا ا سانپ بن جانا (۲) ید بیضا (۳) قحط سالی (۴) پیداوار میں کمی (۵) طوفان (۶) ٹڈیاں (۷) جوئیں (۸) مینڈک (۹) خون۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۱۶۳، ۱۶۴، ۱۸۶، ۱۸۷، ۱۸۸، ۱۸۹، ۱۹۰، ۱۹۱۔

 

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بنی اسرائیل کو اچھی طرح معلوم ہے کہ موسیٰ کے نو نو معجزات کو دیکھ لینے کے بعد بھی فرعون ایمان نہیں لایا تھا بلکہ موسیٰ کو یہ کہ کر جھٹلایا تھا کہ ان پر کسی نے جادو کر دیا ہے اس لیے وہ نبوت کی باتیں کر رہے۔ فرعون کی اس ہٹ دھرمی کو مشرکین مکہ کے سامنے جو معجزات کا مطالبہ کر رہے تھے مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اس غیر ضروری مطالبہ سے باز آ جائیں۔

 

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ نشانیاں انسان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں اور اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ ربِ کائنات کی طرف سے ظہور میں آئی ہیں۔ بالفاظ دیگر ان کے معجزہ ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔

 

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل ملک چھوڑ کر جانا چاہتے تھے لیکن فرعون انہیں اس کی اجازت نہیں دے رہا تھا البتہ بعد میں یہ دیکھ کر کہ موسیٰ اور بنی اسرائیل کی وجہ سے ایک نہ ایک آفت سے اسے دو چار ہونا ہی پڑتا ہے ملک سے بے دخل کرنا چاہا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ فرعون کو خود ہی اپنے ملک سے ہمیشہ کے لیے بے دخل ہونا پڑا۔ وہ اور اس کے ساتھی سمندر میں غرق ہو کر رہ گئے۔

 

قریش بھی اس بات کے درپے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قدم مکہ سے اکھڑ جائیں اس لیے ان کو یہ واقعہ عبرت کے لیے سنایا گیا۔ مگر انہوں نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کے لیے مجبور کیا کہ آپ مکہ چھوڑ دیں نتیجہ یہ کہ ان کو خود ہی مکہ سے نکل جانا پڑا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے۔

 

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ مراد شام و فلسطین کی سر زمین ہے کیونکہ مصر چھوڑنے کے بعد بنی اسرائیل وادیِ تیہ ہو کر اپنے آبائی وطن پہنچ گئے تھے۔

 

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ دنیا میں انہیں ہمیشہ کے لیے رہنا ہے بلکہ یاد رکھو کہ اصل گھر آخرت کا ہے اور جب قیامت برپا ہو گی تو ہم تم سب کو اپنے حضور جمع کریں گے۔

 

مگر اس سبق کو بنی اسرائیل بھول گئے چنانچہ موجودہ تورات میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ انہوں نے یاد رکھا تو صرف اس بات کو کہ انہیں ایک ایسا ملک ملا ہے جس میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔

 

۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ سلسلۂ بیان قرآن سے متعلق تھا درمیان میں معجزہ کے تعلق سے موسیٰ اور فرعون کا قصہ آیا اب پھر بیان کا رخ قرآن کی طرف مڑ گیا ہے۔

 

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن سر تا سر حق ہے اور ہر طرح کی آمیزش سے پاک۔ اس میں نہ شیطان دخل اندازی کر سکا ہے اور نہ کسی اور کی طرف سے اس میں کمی بیشی ہو سکی ہے بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے نازل کرنا چاہا اسی طرح وہ پیغمبر پر نازل ہوا اور جس طرح پیغمبر پر نازل ہوا تھا اس نے تمہارے سامنے پوری امانتداری کے ساتھ پیش کر دیا۔

 

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس اعتراض کا جواب ہے کہ قرآن کو بیک وقت مکمل کتاب کی شکل میں کیوں نہیں اتارا گیا۔ فرمایا قرآن کو آیتوں اور سورتوں کی شکل میں بتدریج نازل کیا گیا تاکہ پیغمبر لو گوں کو ٹھہر ٹھہر کر سنائے۔

 

جو لو گ قرآن کے اولین مخاطب تھے ان کے لیے یہ رعایت ضروری تھی کہ پیغمبر کی دعوت کے نتیجہ میں جس طرح کے حالات پیدا ہوں ان کی مناسبت سے ہدایت کی راہ بھی روشن ہوتی چلی جائے۔ اس طرح لو گوں کے لیے دعوت کو سمجھنا بھی آسان ہو جائے اور راہ ہدایت پر چلنا بھی۔

 

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ اہل کتاب ہیں جو کتاب الٰہی کا علم بھی رکھتے تھے اور صالح بھی تھے۔ وہ قرآن کو سنتے ہی سمجھ گئے کہ یہ کلامِ الٰہی ہے اور پھر ان پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو آگے بیان ہوئی ہے۔

 

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ٹھوروں کا لفظ مونہہ کے لیے کنایۃً استعمال ہوا ہے مطلب یہ ہے کہ وہ مونہہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ تکبر کرنے والے تو اپنی ٹھوڑیاں اوپر اٹھاتے ہیں لیکن ان مؤمنین صالحین کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی ٹھوڑیاں اللہ کے حضور جھکاتے ہوئے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔

 

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تورات و انجیل میں جن صفات والے رسول کے بھیجنے کا وعدہ کیا گیا تھا وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے آنے سے پورا ہو گیا۔

 

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن سن کر ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں۔ اس طرح قرآن کی سماعت ان کے خشوع میں اضافہ کا سبب بن جاتی ہے۔

 

ان کا پہلا سجدہ جس کا ذکر اوپر آیت ۱۰۷ میں ہوا نزولِ قرآن کی خوشی میں تھا اور یہ دوسرا سجدہ اس رقت کے نتیجہ میں ہے جو قرآن سن کر دلوں میں پیدا ہو جاتی ہے۔

 

یہ آیت سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت پر سجدہ کر لینا چاہیے۔

 

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ لفظ رحمن کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ فاتحہ نوٹ ۵۔

 

قرآن میں رحمن کا لفظ اللہ کے لیے اسم صفت کے طور پر بھی استعمال ہوا ہے اور اسم علم کے طور پر بھی اس لیے یہ اللہ کے ساتھ خاص ہے کسی اور کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔

 

منکرین قرآن نے ایک بلا وجہ کا اعتراض یہ اٹھایا تھا کہ تم خدا کے لیے اللہ اور رحمن دو لفظ استعمال کرتے ہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دو خدا ہیں جب کہ ہم اللہ سے ہی آشنا ہیں رحمن سے نہیں۔ ان کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ خدا ایک ہی اسے اللہ کہ کر پکارو یا رحمن کہ کر۔ اس سے توحید میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مطلب یہ ہے کہ تم لفظی بحث میں الجھ رہے ہو جبکہ معنیٰ اور حقیقت ایک ہی ہے۔

 

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۲۷۸ اور ۲۷۹۔

 

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ چونکہ اللہ کو پکارنے کی بہترین شکل نماز ہے اس لیے یہاں ہدایت کی گئی کہ اس کو سنجیدگی کے ساتھ پر وقار انداز میں ادا کیا جائے۔ نہ تو نماز میں اتنی آواز بلند کی جائے کہ ادب کے منافی ہو اور نہ اتنی پست کی مقتدیوں کو جو قرأت سنانا ہو وہ سن نہ سکیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنی آواز کو اعتدال کے ساتھ استعمال کیا جائے۔

 

واضح رہے کہ یہاں سری اور جہری نماز کی بحث نہیں ہے بلکہ واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ جو نمازیں جہراً ادا کرنا ہیں ان میں دونوں ہی باتوں کا لحاظ کیا جائے۔ نہ تو آواز اتنی بلند کی جائے کہ نماز کا وقار مجروح ہو اور نہ اتنی پست کہ مقتدی سن نہ سکے۔ ان دونوں انتہاؤں سے بچتے ہوئے درمیانی اور معتدل لہجہ اختیار کیا جائے تاکہ نماز کا سکون بھی برقرار رہے اور پیچھے نماز پڑھنے والے بھی سن سکیں۔

 

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ یہ خاتمۂ کلام ہے۔ سورہ کا آغاز اللہ کے لیے پاکی (سبحان) سے ہوا تھا اور خاتمہ اس کی تعریف (حمد) پر ہو رہا ہے۔

 

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں شرک کی تینوں صورتوں کی تردید کی گئی ہے جس میں عام طور سے اہل مذاہب مبتلا ہیں۔ ایک اس کے بیٹا یا اولاد ہونے کا عقیدہ۔ دوسرے اس کی حکومت اور خدائی میں کسی کے شریک ہونے کا تصور اور تیسرے اس کے مدد گار ہونے کا خیال۔

 

مدد گار کی ضرورت اس کو ہوتی ہے جو عاجز ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عیب سے پاک ہے اور وہ زبردست قدرت و اقتدار والا ہے پھر اس کو مدد گاروں کی کیا ضرورت۔

 

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کی ایسی بڑائی بیان کرو کہ اس کی عظمت پوری طرح واضح ہو جائے اور مشرکین اس کی طرف جو عیوب اور کمزوریاں منسوب کرتے ہیں اس کے مقابلہ میں اس کی کبریائی کی شان کا اظہار ہو۔

 

اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) کا کلمہ جو اذان اور نماز میں دہرایا جاتا ہے، اللہ کی اسی عظمت اور شانِ کبریائی کا اعتراف و اظہار ہے۔

***