تفسیر عثمانی

سورة بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء

۱۔۔۔  ۱: یعنی اس کی ذات نقص و قصور اور ہر قسم کے ضعف و عجز سے پاک ہے جو بات ہمارے خیال میں بے انتہا عجیب معلوم ہو اور ہماری ناقص عقلیں اسے بیحد مستبعد سمجھیں، خدا کی قدرت و مشیت کے سامنے وہ کچھ بھی مشکل نہیں۔

۲:  یعنی صرف ایک رات کے محدود حصہ میں اپنے مخصوص ترین اور مقرب ترین بندہ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) کو حرم مکہ سے بیت المقدس تک لے گیا۔ اس سفر کی غرض کیا تھی؟ آگے لِنُرِیَہ مِنْ ایٰتِنَا میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ خود اس سفر میں یا "بیت المقدس" سے آگے کہیں اور لے جا کر اپنی قدرت کے عظیم الشان نشان اور حکیمانہ انتظامات کے عجیب و غریب نمونے دکھلانے منظور تھے۔ سورہ نجم میں ان آیات کا کچھ ذکر کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ "سدرۃ المنتہیٰ" تک تشریف لے گئے اور نہایت عظیم الشان آیات کا مشاہدہ فرمایا۔ "وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْریٰ عِنْدَسِدْرَۃِ الْمُنْتَہیٰ عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْویٰ اِذْیَغْشَی السِّدْرَۃَ مَایَغْشیٰ مَازَاغَ الْبَصَرُو مَاطَغیٰ لَقَدْرَایٰ مِنْ ایٰٰتِ رَبِّہِ الْکُبْریٰ" (النجم، رکوع۱، آیت:۱۳تا۱۸) علماء کی اصطلاح میں مکہ سے بیت المقدس تک کے سفر کو "اسراء" اور وہاں سے اوپر ' سدرۃ المنتہیٰ" تک کی سیاحت کو "معراج" کہتے ہیں۔ اور بسا اوقات دونوں سفروں کے مجموعہ کو ایک ہی لفظ "اسراء" یا "معراج" سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔ معراج کی احادیث تیس صحابہ سے منقول ہیں جن میں معراج و اسراء کے واقعات بسط و تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ جمہور سلف و خلف کا عقیدہ یہ ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ و سلم کو حالت بیداری میں بجسدہ الشریف معراج ہوئی۔ صرف دو تین صحابہ و تابعین سے منقول ہے کہ واقعہ اسراء و معراج کو منام (نیند) کی حالت میں بطور ایک عجیب و غریب خواب کے مانتے تھے۔ چنانچہ اسی سورہ میں آگے چل کر جو لفظ "وَمَا جَعَلْنَا الرُّوْیَا الَّتِیْ اَرَیْنٰکَ" الخ آتا ہے اس سے یہ حضرات استدلال کرتے ہیں۔ سلف میں سے یہ کسی کا قول نہیں کہ معراج حالت بیداری میں محض روحانی طور پر ہوئی ہو۔ جیسا کہ بعض حکماء و صوفیہ کے مذاق پر تجویز کیا جا سکتا ہے۔ روح المعانی میں ہے "وَلَیْسَ مَعْنَی الْاَسْرَاء بِالرُّوْحِ الذَّہَابُ یَقْظَۃ ً کَالْاِ نْسِلَاخِ الَّذِیْ ذَہَبَ اِلَیْہَ الصُّوْفِیَۃُ وَالْحُکَمَاءُ فَاِنَّہٗ وَاِنْ کَانَ خَارِقَا لِّلْعَادَۃِ وَمَحَلاًّ للْتَعْجب اَیْضًا اِلَّا اَنَّہ اَمْرً لَا تَعْرِفُہُ الْعَرَبُ وَلَمْ یَذْہَبْ اِلَیْہِ اَحَدٌ مِّنَ السَّلَفِ" بیشک ابن قیم نے زادالمعاد میں عائشہ صدیقہ، معاویہ اور حسن بصری رضی اللہ عنہم کے مسلک کی اس طرح توجیہ کی ہے۔ لیکن اس پر کوئی نقل پیش نہیں کی۔ محض ظن و تخمین سے کام لیا ہے۔ ابن اسحاق وغیرہ نے جو الفاظ ان بزرگوں کے نقل کیے ہیں ان میں کہیں حالت بیداری کی تصریح نہیں۔ بہرحال قرآن کریم نے جس قدر اہتمام اور ممتاز درخشاں عنوان سے واقعہ "اسراء" کو ذکر فرمایا اور جس قدر جدّ و مستعدی سے مخالفین اس کے انکار و تکذیب پر تیار ہو کر میدان میں نکلے، حتیٰ کہ بعض موافقین کے قدم بھی لغزش کھانے لگے یہ اس کی دلیل ہے کہ واقعہ کی نوعیت محض ایک عجیب و غریب خواب یا سیر روحانی کی نہ تھی۔ روحانی سیر و انکشاف کے رنگ میں آپ کے جو دعاوی ابتدائے بعثت سے رہے ہیں، دعوائے اسراء کفار کے لیے کچھ ان سے بڑھ کر تعجب خیز و حیرت انگیز نہ تھا جو خصوصی طور پر اس کو تکذیب و تردید اور استہزاء و تمسخر کا نشانہ بناتے اور لوگوں کو دعوت دیتے کہ آؤ، آج مدعی نوبت کی ایک بالکل انوکھی بات سنو، نہ آپ کو خاص اس واقعہ کے اظہار پر اس قدر متفکر و مشوش ہونے کی ضرورت تھی جو بعض روایات صحیحہ میں مذکور ہے۔ بعض احادیث میں صاف لفظ ہیں "ثُمَّ اَصْبَحْتُ بِمَکَّۃَ یَاثُمَّ اَتَیْتُ مَکَّۃَ" (پھر صبح کے وقت میں مکہ پہنچ گیا) اگر معراج محض کوئی روحانی کیفیت تھی تو آپ مکہ سے غائب ہی کہاں ہوئے۔ اور شداد بن اوس وغیرہ کی روایت کے موافق بعض صحابہ کا یہ دریافت کرنا کیا معنی رکھتا ہے کہ "رات میں قیام گاہ پر تلاش کیا، حضور کہاں تشریف لے گئے تھے"؟ ہمارے نزدیک "اسری بعبدہ" کے یہ معنی لینا کہ "خدا اپنے بندہ کو خواب میں یا محض روحانی طور پر مکہ سے بیت المقدس لے گیا۔" اس کے مشابہ ہے کہ کوئی شخص "فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ" کے یہ معنی لینے لگے کہ "اے موسیٰ میرے بندوں (بنی اسرائیل) کو خواب میں یا محض روحانی طور پر لے کر مصر سے نکل جاؤ۔ یا سورہ "کہف" میں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کے لیے جانا اور ان کے ہمراہ سفر کرنا جس کے لیے کئی جگہ "فَانْطَلَقَا" کا لفظ آیا ہے، اس کا مطلب یہ لے لیا جائے کہ یہ سب کچھ محض خواب میں یا بطور روحانی سیر کے واقع ہوا تھا۔ باقی لفظ "رؤیا" جو قرآن میں آیا، اس کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ فرما چکے ہیں۔ "رُوْیَا عَیْنٍ اُرِیَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم " مفسرین نے کلام عرب سے اس کے شواہد پیش کیے ہیں کہ "رؤیا" کا لفظ گاہ بگاہ مطلق رویت (دیکھنے) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر اس سے مراد یہ ہی اسراء کا واقعہ ہے تو مطلق نظارہ کے معنی لیے جائیں جو ظاہری آنکھوں سے ہوا تاکہ ظاہر نصوص اور جمہور امت کے عقیدہ کی مخالفت نہ ہو۔ ہاں شریک کی روایت میں بعض الفاظ ضرور ایسے آئے ہیں جن سے "اسراء" کا بحالت نوم واقع ہونا معلوم ہوتا ہے مگر محدثین کا اتفاق ہے کہ شریک کا حافظہ خراب تھا، اس لیے بڑے بڑے حفاظِ حدیث کے مقابلہ میں ان کی روایت قابل استناد نہیں ہو سکتی۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری کے اواخر میں حدیث شریک کے اغلاط شمار کرائے ہیں اور یہ بھی بتلایا ہے کہ ان کی روایت کا مطلب ایسا لیا جا سکتا ہے جو عام احادیث کے مخالف نہ ہو۔ اس قسم کی تفاصیل ہم یہاں درج نہیں کر سکتے۔ شرح صحیح مسلم میں یہ مباحث پوری شرح و بسط سے درج کیے ہیں۔ یہاں صرف یہ بتلانا ہے کہ مذہب راجح یہی ہے کہ معراج و اسراء کا واقعہ حالت بیداری میں بجسدہ الشریف واقع ہوا۔ ہاں اگر اس سے پہلے یا بعد خواب میں بھی اس طرح کے واقعات دکھلائے گئے ہوں تو انکار کرنے کی ضرورت نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک شب میں اتنی لمبی مسافت زمین و آسمان کی کیسے طے کی ہو گی یا کرہ نار و زمہریر میں سے کیسے گزرے ہوں گے۔ یا اہل یورپ کے خیال کے موافق جب آسمانوں کا وجود ہی نہیں تو ایک آسمان سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے پر اس شان سے تشریف لے جانا جو روایات میں مذکور ہے کیسے قابل تسلیم ہو گا۔ لیکن آج تک کوئی دلیل اس کی پیش نہیں کی گئی کہ آسمان واقع میں کوئی شے موجود نہیں۔ اگر ان لوگوں کا یہ دعویٰ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ یہ نیلگونی چیز جو ہم کو نظر آتی ہے فی الحقیقت آسمان نہیں ہے۔ تب بھی اس کا کیا ثبوت ہے کہ اس نیلگونی رنگ کے اوپر آسمانوں کا وجود نہیں ہو سکتا۔ رہا ایک رات میں اتنا طویل سفر طے کرنا تو تمام حکماء تسلیم کرتے ہیں کہ سرعت حرکت کے لیے کوئی حد نہیں ہے۔ اب سے سو برس پیشتر تو کسی کو یہ بھی یقین نہیں آ سکتا تھا کہ تین سو میل فی گھنٹہ چلنے والی موٹر تیار ہو جائے گی۔ یا دس ہزار فٹ کی بلندی تک ہم ہوائی جہاز کے ذریعہ پرواز کر سکیں گے۔ "اسٹیم" اور "قوت کہربائیہ" کے یہ کرشمے کس نے دیکھے تھے۔ کرہ نار تو آجکل ایک لفظ بے معنی ہے۔ ہاں اوپر جا کر ہوا کی سخت برودت وغیرہ کا مقابلہ کرنے والے آلات طیاروں میں لگا دیئے گئے ہیں جو اڑنے والوں کی زمہریر سے حفاظت کرتے ہیں۔ یہ تو مخلوق کی بنائی ہوئی مشینوں کا حال تھا۔ خالق کی بلاواسطہ پیدا کی ہوئی مشینوں کو دیکھتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ زمین یا سورج چوبیس گھنٹہ میں کتنی مسافت طے کرتے ہیں۔ روشنی کی شعاع ایک منٹ میں کہاں سے کہاں پہنچتی ہے۔ بادل کی بجلی مشرق میں چمکتی اور مغرب میں گرتی ہے۔ اور اس سرعت سیر و سفر میں پہاڑ بھی سامنے آ جائے تو پر کاہ کے برابر حقیقت نہیں سمجھتی۔ جس خدا نے یہ چیزیں پیدا کیں کیا وہ قادرِ مطلق اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کے براق میں ایسی برق رفتاری کی کلیں اور حفاظت و آسائش کے سامان نہ رکھ سکتا تھا جن سے حضور بڑی راحت و تکریم کے ساتھ چشم زدن میں ایک مقام سے دوسرے مقام کو منتقل ہو سکیں۔ شاید اسی لیے واقعہ "اسراء" کا بیان لفظ "سبحان الذی" سے شروع فرمایا، تاکہ جو لوگ کوتاہ نظری اور تنگ خیالی سے حق تعالیٰ کی لامحدود قوت کو اپنے وہم و تخمین کی چہار دیواری میں محصور کرنا چاہتے ہیں، کچھ اپنی گستاخیوں اور عقلی ترک تازیوں پر شرمائیں۔

نہ ہر جائے مرکب تواں تاختن

کہ جاہا سپر باید انداختن

۳:  یعنی جس ملک میں مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) واقع ہے وہاں حق تعالیٰ نے بہت سی ظاہری و باطنی برکات رکھی ہیں۔ مادی حیثیت سے چشمے، نہریں، غلے، پھل اور میووں کی افراط، اور روحانی اعتبار سے دیکھا جائے تو کتنے انبیاء و رسل کا مسکن و مدفن اور ان کے فیوض و انوار کا سرچشمہ رہا ہے۔ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو وہاں لے جانے میں یہ بھی اشارہ ہو گا کہ جو کمالات انبیاء بنی اسرائیل وغیرہ پر تقسیم ہوئے تھے آپ کی ذات مقدس میں وہ سب جمع کر دیے گئے، جو نعمتیں بنی اسرائیل پر مبذول ہوئی تھیں، ان پر اب بنی اسمٰعیل کو قبضہ دلایا جانے والا ہے۔ "کعبہ" اور "بیت المقدس" دونوں کے انوار و برکات کی حامل ایک ہی امت ہونے والی ہے۔

۴:  احادیث معراج میں تصریح ہے کہ بیت المقدس میں تمام انبیاء علیہم السلام نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو جو سیادت و امامت انبیاء کا منصب دیا گیا تھا اس کا حسی نمونہ آپ کو اور مقربین بارگاہ کو دکھلایا گیا۔

               ۵:  یعنی اصل سننے والا اور دیکھنے والا خدا ہے۔ وہ جسے اپنی قدرت کے نشان دکھلانا چاہے دکھلا دیتا ہے۔ اس نے اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی مناجات کو سنا اور احوال رفیعہ کو دیکھا۔ آخر معراج شریف میں "بِیْ یُبْصِرُ"والی آنکھ سے وہ آیاتِ عظام دکھلائیں، جو آپ کی استعدادِ کامل اور شان رفیع کے مناسب تھیں۔

۲۔۔۔ ۱:  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فضل و شرف بیان فرما کر سلسلہ کلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر کی طرف منتقل کر دیا گیا۔ چونکہ "اسراء" کے ذیل میں 'مسجد اقصیٰ" (بیت المقدس) تک جانا مذکور ہوا تھا، آگے "مسجد اقصیٰ" اور اس کے قدیم متولیوں (بنی اسرائیل) پر جو مختلف دور گزرے، مسلمانوں کی عبرت اور خود بنی اسرائیل کی نصیحت کے لیے ان کا بیان کیا جاتا ہے، یہ آیت اسی کی تمہید ہے۔ واقعہ "اسراء" میں اشارہ تھا کہ حجازی پیغمبر کی امت ہی آئندہ اس امانت الٰہی کی مالک بننے والی ہے جو شام کی مبارک سرزمین میں ودیعت کی گئی تھی۔ ان آیات میں بنی اسرائیل کو متنبہ کرنا ہے کہ اگر خیریت چاہتے ہیں تو اب پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرو، حق تعالیٰ ان کے حال پر مہربانی فرمائے گا۔ ورنہ پہلے کی طرح پھر شرارتوں پر سزا ملے گی اور مسجد اقصیٰ کی تولیت سے محروم کر دیئے جائیں گے۔

۲:   یعنی تورات میں یہ ہدایت کی گئی تھی کہ خالص توحید پر قائم رہیں اور خدا کے سوا کسی کو کارساز نہ سمجھیں ہمیشہ اسی پر بھروسہ اور توکل کریں۔

۳۔۔۔  یعنی تم ان کی اولاد ہو جو نوح کے ساتھ کشتی پر سوار ہو کر عذابِ الٰہی سے بچے تھے۔ جو احسان تمہارے بڑوں پر کیا گیا اسے فراموش مت کرو۔ دیکھو نوح علیہ السلام جن کی اولاد میں تم ہو کیسے احسان شناس اور شکر گذار بندے تھے۔ تم کو بھی ان ہی کی راہ پر چلنا چاہیے۔

۴۔۔۔ تورات میں یا کسی دوسری آسمانی کتاب میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ یہ قوم (بنی اسرائیل) دو مرتبہ ملک میں سخت خرابی پھیلائے گی اور ظلم و تکبر کا شیوہ اختیار کر کے سخت تمرد و سرکشی کا مظاہرہ کرے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہر مرتبہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دردناک سزا کا مزہ چکھنا پڑا۔ جس کا ذکر آگے آتا ہے۔

 ۵۔۔۔  ۱: یعنی جن کو ہم نے سزا دینے کے لیے تم پر مسلط کیا تھا۔

۲:  یعنی بستی میں مکانوں کے اندر گھس کر خوب کشت و خون اور لوٹ کھسوٹ کی۔ اس طرح خدا نے سزا دہی کا جو وعدہ کیا تھا پورا ہو کر رہا۔

۶۔۔۔  یعنی جب تم ہماری طرف رجوع ہوئے اور توبہ و انابت کا طریقہ اختیار کیا ہم نے پھر ایک مرتبہ تم کو دشمنوں پر غالب کیا۔

۷۔۔۔  ۱: یعنی بھلائی برائی کا جو کچھ نفع نقصان پہنچنا تھا تم ہی کو پہنچتا تھا، سو پہنچا۔

۲:  یعنی مار مار کر تمہارے منہ بگاڑ دیئے۔ اور "مسجد اقصیٰ" (بیت المقدس) میں گھس کر پہلے کی طرح اودھم مچائی ہیکل وغیرہ کو تباہ کر دیا۔ اس طرح "بنی اسرائیل" کی قوت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔

۸۔۔۔  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں 'تورات میں کہہ دیا تھا کہ بنی اسرائیل دوبار شرارت کریں گے، اس کی جزا میں دشمن ان کے ملک پر غالب ہوں گے۔ اسی طرح ہوا ہے۔ ایک بار جالوت غالب ہوا، پھر حق تعالیٰ نے اس کو حضرت داؤد کے ہاتھ سے ہلاک کیا۔ پیچھے بنی اسرائیل کو اور قوت زیادہ دی حضرت سلیمان کی سلطنت میں۔ دوسری بار فارسی لوگوں میں بخت نصر غالب ہوا۔ تب سے ان کی سلطنت نے قوت نہ پکڑی۔ اب فرمایا کہ اللہ مہربانی پر آیا ہے اگر اس نبی کے تابع ہو تو وہی سلطنت اور غلبہ پھر کر دے اور اگر پھر وہی شرارت کرو گے تو ہم وہی کریں گے۔ یعنی مسلمانوں کو ان پر غالب کیا اور آخرت میں دوزخ تیار ہے۔" بعض علماء نے پہلے وعدہ سے بخت نصر کا حملہ جو ولادت مسیح سے ۵۸۷ سال پہلے اور دوسرے وعدے سے "طیطوس رومی" کا حملہ جو رفع مسیح سے ستر سال بعد ہوا مراد لیا ہے۔ کیونکہ ان دونوں حملوں میں یہود پر پوری تباہی آئی اور "مقدس ہیکل" کو برباد کیا گیا۔ واللہ اعلم۔

۹۔۔۔  یعنی یوں تو "تورات" بھی بنی اسرائیل کو راہ بتانے والی تھی جیسا کہ پہلے فرمایا "ہُدًی لِّبَنِی اِسْرَائِیْلَ" لیکن یہ قرآن ساری دنیا کو سب سے زیادہ اچھی، سیدھی اور مضبوط راہ بتاتا ہے۔ تمام "قویم راہیں" اس "اقوم" کے تحت میں مندرج ہو گئی ہیں۔ لہٰذا اگر کامیابی اور نجات چاہتے ہو تو خاتم الانبیاء کی پیروی میں اسی سیدھی سڑک پر چلو۔ جو لوگ قلب و جوارح یعنی ایمان و عمل صالح سے اس صاف و کشادہ راہ پر چلیں گے قرآن ان کو دنیا میں حیاتِ طیبہ کی اور آخرت میں جنت کی عظیم الشان بشارت سناتا ہے۔ باقی جنہیں انجام کا کچھ خیال نہیں۔ اندھا دھند دنیا کی لذات و شہوات میں غرق ہیں۔ آخرت کی اصلاً فکر نہیں رکھتے، ان کا انجام اگلے جملہ میں بیان کیا گیا ہے۔

۱۱۔۔۔  یعنی قرآن تو لوگوں کو سب سے بڑی بھلائی کی طرف بلاتا، اجر کبیر کی بشارتیں سناتا اور بدی کے مہلک نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔ لیکن حضرت انسان کا حال یہ ہے کہ وہ سب کچھ سننے کے بعد بھی اپنے لیے برائی کو اسی اشتیاق و الحاح سے طلب کرتا ہے جس طرح کوئی بھلائی مانگتا ہو، یا جیسے بھلائی طلب کرنا چاہیے۔ وہ انجام کی طرف سے آنکھیں بند کر کے بڑی تیزی کے ساتھ گناہوں اور برائیوں کی طرف لپکتا ہے بلکہ بعض بدبخت تو صاف لفظوں میں زبان سے کہہ اٹھتے ہیں۔ "اَللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِئْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ" (خداوندا! اگر پیغمبر اپنے دعوے میں سچے ہیں تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دیجئے یا اور کوئی سخت عذاب نازل کیجئے) بعض بیوقوف غصہ سے جھنجھلا کر اپنے حق میں یا اپنی اولاد وغیرہ کے حق میں بے سوچے سمجھے بددعا کر بیٹھتے ہیں۔ بعض دنیا کے نفع عاجل کو معبود بنا کر ہر ایک حلال و حرام طریقہ سے اس کی طرف دوڑتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس لہلہاتے پودے کے نیچے سانپ بچھو بھی چھپے ہوئے ہیں۔ جو انجام کار ہلاکت کے گڑھے میں پہنچا کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنی جلد بازی سے کسی چیز کی ظاہری ٹیپ ٹاپ کو دیکھ لیتا ہے، بدی کے دور رس نتائج پر غور نہیں کرتا۔ بس جو بات کسی وقت سانح ہوئی فوراً کہہ ڈالی یا ایک دم کر گزرا۔ جدھر قدم اٹھ گیا بے سوچے سمجھے ادھر ہی بڑھتا چلا گیا۔ اگر جلد بازی چھوڑ کر متانت، تدبر اور انجام بینی سے کام لے تو کبھی ایسی غلطیاں نہ کرے۔

۱۲۔۔۔   ۱: رات کا اندھیرا، دن کا اجالا، دونوں میں سے کبھی اس کا کبھی اس کا چھوٹا بڑا ہونا، پھر رات میں چاند کی آہستہ آہستہ گھٹنے بڑھنے والی ٹھنڈی اور دھیمی چاندنی، دن میں آفتاب عالمتاب کی تیز اور گرم روشنی، یہ سب خداوند قدوس کی قدرت کاملہ کے نمونے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک کا مستقل نظام علیٰحدہ ہے جس کے ساتھ سینکڑوں فوائد اور مصالح وابستہ ہیں۔ اور سب کا مجموعی نظام الگ ہے جو شروع سے اب تک نہایت مضبوط و محکم قوانین کے ماتحت چل رہا ہے۔

۲:  رات کا نمونہ تاریک اور مٹا ہوا ہے، چاند کی روشنی سورج کے اعتبار سے دھیمی اور دھندلی ہوتی ہے بلکہ خود جرم قمر بھی دیکھنے والے کو داغ دار نظر آتا ہے۔

 ۳:  یعنی دن کے وقت سورج کی روشنی میں  ہر چیز صاف دکھائی دیتی ہے لوگ تازہ دم ہو کر روزی کی تلاش میں نکلتے اور مختلف قسم کے کاروبار میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ الغرض شب میں جن چیزوں پر تاریکی کی چادر پڑی ہوئی تھی۔ سورج کی شعاعیں سب کو بے حجاب کر دیتی ہیں۔ اور جو لوگ خواب گراں سے مدہوش تھے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر گشت لگانے لگتے ہیں۔

۴:  یعنی لیل و نہار کی آمد و شد اور شمس و قمر کے طلوع و غروب سے مہینوں اور سالوں کی گنتی اور بہت طرح کے چھوٹے بڑے حساب متعلق ہیں۔

۵:  تم سمجھ لو کہ گھبرانے اور جلدی مچانے سے کچھ فائدہ نہیں۔ خدا کے یہاں  ہر چیز کا خیر ہو یا شر ایک وقت اور انداز مقرر ہے۔ جیسے رات اور دن۔ کسی کی جلد بازی اور شتاب کاری سے رات کم نہیں ہو جاتی یا دن بڑھ نہیں جاتا۔ اپنے وقت پر صبح و شام ہوتی ہے شر کے بعد خیر اور خیر کے بعد شر کا آنا بھی ایسا ہی سمجھو جیسے رات کے پیچھے دن اور دن کے پیچھے رات برابر لگی چلی آتی ہے۔ دنیا کے تمام خیرو شر کا سلسلہ ایک معین ضابطہ اور نظام کے ماتحت ہے جس کا توڑ ڈالنا کسی کے امکان میں نہیں۔ اس دنیا کی مکدر و منغض زندگی کو شب تاریک کے مشابہ سمجھو جس کے اندھیرے میں آدمی کو خیر و شر کے نتائج بالکل صاف دکھائی نہیں دیتے۔ بیشک حق تعالیٰ نے انبیاء و مرسلین کو بھیجا کہ رات کی اندھیری میں مخلوق کو صحیح راستہ بتلائیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے اپنے درجے کے موافق اجالا کریں جس سے لوگوں کو خیر و شر کی حقیقت اور اس کے نتائج کا انکشاف ہو جائے۔ لیکن ایسا صریح اور بدیہی انکشاف جس میں کسی فرد بشر کو انکار یا شبہ کی مجال ہی باقی نہ رہے، اس وقت ہو گا جب ہماری دنیاوی زندگی کی رات ختم ہو کر فردائے محشر کا دن نکل آئے گا۔ انسان کے وہی اعمال جو دنیا کی دھندلی زندگی میں ہر وقت اس کے گلے کا ہار بنے ہوئے تھے، پر غفلت و جہالت وغیرہ کی تاریکی میں صاف نظر نہ آتے تھے قیامت کی صبح ہوتے ہی ایک کھلی کتاب کی شکل میں سامنے آ جائیں گے جسے روز روشن کے اجالے میں ہر شخص بے تکلف پڑھ سکے گا۔ "فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَاءَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ" (ق، رکوع۲، آیت:۲۲) اس وقت اپنے تمام چھوٹے بڑے اعمال کو اصلی رنگ میں دیکھ کر بول اٹھے گا۔ "ما لِہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّااحْصَاہَا" (کہف، رکوع۶، آیت:۴۹)

۱۳۔۔۔  یعنی شومئی قسمت اور زشتیِ اعمال اس کے گلے کا ہار ہے۔ بری قسمت کے ساتھ برے عمل ہیں کہ چھوٹ نہیں سکتے۔ وہ ہی نظر آئیں قیامت میں۔

۱۴۔۔۔  یعنی نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا کہ خود پڑھ کر فیصلہ کر لے، جو کام عمر بھر میں کیے تھے کوئی رہا تو نہیں یا زیادہ تو نہیں لکھا گیا۔ ہر آدمی اس وقت یقین کرے گا کہ ذرہ ذرہ عمل بلا کم و کاست اس میں موجود ہے۔ دنیا میں جو کتاب بھیجی (قرآن کریم) اور چاند سورج وغیرہ سے جو حساب و کتاب کا ذکر فرمایا جو اسی پہلے حساب و کتاب پر بطور نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔

۱ ۵۔۔۔  ۱: یعنی سیدھی راہ خدا نے سب کو بتلا دی اب جو کوئی اس پر چلے یا نہ چلے، اپنا بھلا برا خود سوچ لے۔ کیونکہ اپنے طریق عمل کا نفع یا نقصان اسی کو پہنچے گا۔ ایک کے گناہوں کی گٹھڑی دوسرے کے سر پر نہیں رکھی جائے گی۔

۲:  یعنی بلاشبہ برے عمل آفت لاتے ہیں، پر حق تعالیٰ بغیر سمجھائے نہیں پکڑتا اسی واسطے رسول بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بے خبر اور غافل نہ رہنے دیں۔ نیک و بد سے پوری طرح آگاہ کر دیں۔ جن باتوں کو آدمی محض عقل و فطرت کی راہنمائی سے سمجھ سکتا ہے (مثلاً وجود باری یا توحید) ان کی مزید تشریح و توثیق پیغمبروں کی زبانی کر دی جائے اور جن چیزوں کے ادراک میں محض عقل کافی نہ ہو انہیں وحی و الہام کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ اسی لیے ابتدائے آفرینش سے حق تعالیٰ نے وحی و رسالت کا سلسلہ جاری رکھا تاآنکہ انبیاء علیہم السلام کے انوار و فیوض نے دنیا میں ایسی فضا پیدا کر دی کہ کوئی معذب قوم دنیا یا آخرت میں جہل و بے خبری کا عذر پیش کر کے عذابِ الٰہی سے رستگاری حاصل نہیں کر سکتی۔ (تنبیہ) مفسرین نے یہاں "اصحاب فترت" اور اطفال صغار کی تعذیب پر بحث شروع کر دی ہے۔ ہم تطویل کے خوف سے درج نہیں کر سکتے۔

۱۶۔۔۔   یعنی جب بد اعمالیوں کی بدولت کسی بستی کو تباہ کرنا ہوتا ہے تو یوں ہی دفعۃً پکڑ کر ہلاک نہیں کر دیتے، بلکہ اتمام حجت کے بعد سزا دی جاتی ہے۔ اول پیغمبر یا اس کے نائبین کی زبانی خدائی احکام ان کو پہنچائے جاتے ہیں۔ خصوصاً وہاں کے امراء اور با رسوخ لوگوں کو جن کے ماننے نہ ماننے کا اثر جمہور پر پڑتا ہے، آگاہ کیا جاتا ہے۔ جب یہ بڑی ناک والے سمجھ بوجھ کر خدائی پیغام کو رد کر دیتے اور کھلے بندوں نافرمانیاں کر کے تمام بستی کی فضا کو مسموم و مکدر بنا دیتے ہیں، اس وقت وہ بستی اپنے کو اعلانیہ مجرم ثابت کر کے عذاب الٰہی کی مستحق ہو جاتی ہے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا

(تنبیہ) وَقَالَ بَعْضُ السَّلَفِ اَنَّ الْاَمْرَ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالیٰ "اَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا" اَمْرٌ تَکْوِیْنِیٌّ قَدْرِیٌّ بِالْفِسْقِ وَقَوْلُہٗ تَعَالیٰ "اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ" مَعْنَاہُ نَفْیُ الْاَمْرِ التَّشْرِیْعِیِّ فَلَاَ مُنَافَاۃَ۔فَافْہَمْ۔

۱۷۔۔۔  ۱: آدم و نوح کے درمیانی زمانہ میں سب آدمی اسلام پر رہے۔ پھر شرک و بت پرستی شروع ہوئی۔ نوح علیہ السلام ان کی اصلاح کے لیے بھیجے گئے، سینکڑوں برس سمجھایا، نہ مانے، آخر سب ہلاک کئے گئے۔ اس کے بعد بہت سی قومیں (عاد و ثمود وغیرہ) تباہ ہوئیں۔ حاصل یہ کہ قوموں کے ہلاک کیے جانے کا سلسلہ بعثت نوح کے بعد سے شروع ہوا۔

۲:  یعنی کسی کو بے قصور نہیں پکڑتا نہ غیر مناسب سزا دیتا ہے۔ بلکہ ہر ایک کے گناہوں کو دیکھ کر اور اس کے اوضاع و اطوار کو پوری طرح جان کر موزوں و مناسب برتاؤ کرتا ہے۔

۱۸۔۔۔  یعنی ضروری نہیں کہ ہر عاشقِ دنیا کو فوراً ہلاک کر دیا جائے، نہیں۔ ہم ان لوگوں میں سے جو صرف متاعِ دنیا کے لیے سرگرداں ہیں جس کو چاہیں اور جس قدر چاہیں اپنی حکمت و مصلحت کے موافق دنیا کا سامان دے دیتے ہیں تاکہ ان کی جدوجہد اور فانی نیکیوں کا فانی پھل مل جائے اور اگر آخری سعادت مقدر نہیں تو شقاوت کا پیمانہ پوری طرح لبریز ہو کر نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ دوزخ کے ابدی جیل خانہ میں دھکیل دیے جائیں۔

۱۹۔۔۔  یعنی جس کے دل میں ایمان و یقین موجود ہو اور نیک نیتی سے خدا کی خوشنودی اور ثواب اخروی کی خاطر پیغمبر کے بتلائے ہوئے راستہ پر عملی دوڑ دھوپ کرے۔ اس کی کوشش ہرگز ضائع ہونے والی نہیں۔یقیناً بارگاہِ احدیت میں حسن قبول سے سرفراز ہو کر رہے گی۔

۲۰۔۔۔  یعنی حق تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے موافق بعض طالبین دنیا کو دنیا اور تمام طالبین آخرت کو آخرت عطا فرماتا ہے۔ اس کی عطا میں کوئی مانع و مزاحم نہیں ہو سکتا۔ یا یہ مطلب ہے کہ طالب دنیا ہو یا طالب آخرت دنیاوی امداد سے دونوں کو حسبِ مصلحت حصہ پہنچتا ہے۔ محض کفر و عصیان کی وجہ سے دنیاوی بخشش کے دروازے بند نہیں کر دیے جاتے۔

۲۱۔۔۔  یعنی دنیاوی زندگی میں مال، دولت، عزت، حکومت، اولاد وغیرہ کے اعتبار سے ایک کو دوسرے پر کسی قدر فضیلت ہے۔ اسی پر قیاس کر لو کہ آخرت میں تفاوتِ اعمال و احوال کے لحاظ سے کس قدر فرقِ مراتب ہو گا۔ چنانچہ نصوص سے ثابت ہے کہ درجاتِ جنت اور درجاتِ جہنم بیحد متفاوت ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ جنت کے درجوں کے درمیان زمین و آسمان کا تفاوت ہو گا، نیچے والے اوپر والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے ہم زمین پر کھڑے ہو کر افق میں کوئی ستارہ دیکھتے ہیں۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ جنت کے یہ درجات انہی کو مل سکتے ہیں جو آخرت کے لیے اس کے لائق دوڑ دھوپ کریں۔

۲۲۔۔۔  یعنی شرک ایسی ظاہر البطلان چیز ہے جس کے اختیار کرنے پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے، بلکہ دنیا کے ہر عقلمند کے نزدیک تم مذموم و ملزم ٹھہرو گے۔ چنانچہ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جن مذاہب میں شرک صریح کی تعلیم تھی وہ بھی دانش مندوں کی سوسائٹی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے اپنی ترمیم و اصلاح کر کے آہستہ آہستہ توحید کی طرف قدم اٹھا رہے ہیں۔ ہر ایک عاقل یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ اشرف المخلوقات انسان کے لیے یہ چیز سخت ذلت و رسوائی کی موجب ہے کہ اپنے سے کمتر یا کسی عاجز مخلوق کے سامنے  سر بسجود ہو جائے۔ خصوصاً ان چیزوں کے سامنے دست سوال دراز کرے جو خود اسی کی تراشی ہوئی ہیں۔ جو آدمی خدا کو چھوڑ کر غیر اللہ کے سامنے جھکتا ہے، خدائے بے نیاز حقیقی نصرت و برکت کا دروازہ اس پر بند کر کے کمزوری اور بے کسی کی حالت میں چھوڑ دیتا ہے چنانچہ سخت کٹھن وقت میں جب کہ اسے اعانت و امداد کی بڑی ضرورت ہو گی، کوئی یار و مددگار نہ ملے گا "ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ

۲۳۔۔۔  ۱: خدا تو حقیقۃً بچہ کو وجود عطا فرماتا ہے، والدین اس کی ایجاد کا ظاہری ذریعہ ہیں۔ اس لیے کئی آیتوں میں خدا تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ والدین کے حقوق ذکر کیے گئے۔ حدیث میں آیا ہے کہ وہ شخص خاک میں مل گیا جس نے اپنے والدین کو پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی۔" ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنا یہ ہے کہ زندگی میں ان کی جان و مال سے خدمت اور دل سے تعظیم و محبت کرے۔ مرنے کے بعد ان کا جنازہ پڑھے، ان کے لیے دعاء و استغفار کرے۔ ان کے عہد تا مقدور پورے کرے، ان کے دوستوں کے ساتھ تعظیم و حسن سلوک سے اور ان کے اقارب کے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آئے وغیرہ ذالک۔

۲:   بڑھاپے میں خدمت کی احتیاج زیادہ ہوتی ہے جس سے بعض اوقات اہل و عیال بھی اکتانے لگتے ہیں زیادہ پیرانہ سالی میں ہوش و حواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے۔ بڑی سعادت مند اولاد کا کام ہے کہ اس وقت بوڑھے والدین کی خدمت گزاری و فرمانبرداری سے جی نہ ہارے۔ قرآن نے تنبیہ کی کہ جھڑکنا اور ڈانٹنا تو کجا ان کے مقابلہ میں زبان سے "ہوں" بھی مت کر۔ بلکہ بات کرتے وقت پورے ادب و تعظیم کو ملحوظ رکھو۔ ابن مسیب نے فرمایا ایسی طرح بات کرو جیسے ایک خطاوار اور غلام سخت مزاج آقا سے کرتا ہے۔

۲۴۔۔۔  یعنی جب میں بالکل کمزور و ناتواں تھا انہوں نے میری تربیت میں خون پسینہ ایک کر دیا۔ اپنے خیال کے موافق میرے لیے ہر ایک راحت و خوبی کی فکر کی۔ ہزارہا آفات و حوادث سے بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ بارہا میری خاطر اپنی جان جوکھوں میں ڈالی، آج ان کی ضعیفی کا وقت آیا ہے، جو کچھ میری قدرت میں ہے ان کی خدمت و تعظیم کرتا ہوں۔ لیکن پورا حق ادا نہیں کر سکتا۔ اس لیے تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بڑھاپے میں اور موت کے بعد ان پر نظر رحمت فرما۔

۲ ۵۔۔۔  یعنی والدین کی تعظیم اور ان کے سامنے تواضع و فروتنی صمیم قلب سے ہونی چاہیے۔ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ کون کیسے دل سے ماں باپ کی خدمت کرتا ہے۔ اگر فی الواقع تم دل سے نیک اور سعادت مند ہو گے اور خدا کی طرف رجوع ہو کر اخلاص و حق شناسی کے ساتھ ان کی خدمت کرو گے تو وہ تمہاری کوتاہیوں اور خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ فرض کرو اگر کسی وقت باوجود نیک نیتی کے تنگ دلی یا تنگ مزاجی سے کوئی فروگزاشت ہو گئی، پھر توجہ و رجوع کیا تو اللہ بخشنے والا ہے۔

(تنبیہ) والدین کی فرمانبرداری کن چیزوں میں ہے اور کن میں نہیں؟ اس کی تفصیل کتب فقہ وغیرہ میں دیکھنا چاہیے۔ روح المعانی میں بھی اس پر مفید و مبسوط کلام کیا ہے۔ فلیراجع۔

۲۶۔۔۔  یعنی قرابت والوں کے مالی و اخلاقی ہر قسم کے حقوق ادا کرو۔ محتاج و مسافر کی خبر گیری رکھو اور خدا کا دیا ہوا مال فضول بے موقع مت اڑاؤ۔ فضول خرچی یہ ہے کہ معاصی اور لغویات میں خرچ کیا جائے یا مباحات میں بے سوچے سمجھے اتنا خرچ کر دے جو آگے چل کر تفویت حقوق اور ارتکاب حرام کا سبب بنے۔

۲۷۔۔۔  یعنی مال خدا کی بڑی نعمت ہے جس سے عبادت میں دلجمعی ہو، بہت سی اسلامی خدمات اور نیکیاں کمانے کا موقع ملے۔ اس کو بے جا اُڑانا ناشکری ہے جو شیطان کی تحریک و اغواء سے وقوع میں آتی ہے اور آدمی ناشکری کر کے شیطان کے مشابہ ہو جاتا ہے۔ جس طرح شیطان نے خدا کی بخشی ہوئی قوتوں کو عصیان و اضلال میں خرچ کیا۔ اس نے بھی حق تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو نافرمانی میں اڑایا۔

۲۸۔۔۔  یعنی جو کوئی ہمیشہ سخاوت کرتا ہے اور ایک وقت اس کے پاس نہیں ہے تو اللہ کے ہاں امید والے کا محروم جانا خوش نہیں آتا۔ اس محتاج کی قسمت سے اللہ سخیوں کو بھیج دیتا ہے۔ سو اس واسطے اگر ایک وقت تو نہ دے سکے تو نرم اور میٹھے طریقہ سے معذرت کر دے۔ مثلاً یہ کہہ دیا جائے کہ جب خدا ہم کو دے گا انشاء اللہ ہم تمہاری خدمت کریں گے۔ سختی اور بد اخلاقی سے جواب دینے میں اندیشہ ہے کہ کہیں اگلی خیراتیں بھی برباد نہ ہو جائیں۔

۲۹۔۔۔  سب الزام دیں کہ کنجوس مکھی چوس ہے یا یہ کہ اتنا کیوں دیا کہ آپ محتاج رہ گیا۔ غرض ہر معاملہ میں توسط و اعتدال مرعی رکھنا چاہیے۔ نہ ہاتھ اس قدر کھینچے کہ گردن سے لگ جائے اور نہ طاقت سے بڑھ کر خرچ کرنے میں ایسی کشادہ دستی دکھلائے کہ پھر بھیک مانگنی پڑے اور ہاتھ کھلے کا کھلا رہ جائے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں "فَتُعْطِیْ فَوْقَ طَاقَتِکَ وَتُخْرِجَ اَکْثَرُ مِنْ دَخَلِکَ" یعنی طاقت سے بڑھ کر یا آمدنی سے زائد خرچ کرنا بھی "ولاتبسطہا کل البسط" کے تحت میں داخل ہے۔ حدیث میں ہے "مَاعَالَ مَنِ اقْتَصَدَ" (جس نے میانہ روی اختیار کی محتاج نہیں ہوا)

۳۰۔۔۔  ۱: یعنی تمہارے ہاتھ روکنے سے تم غنی اور دوسرا فقیر نہیں ہو جاتا۔ نہ تمہاری سخاوت سے وہ غنی اور تم فقیر بن سکتے ہو۔ فقیر و غنی بنانا اور روزی کا کم و بیش کرنا محض خدا کے قبضہ میں ہے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ افسوس آج ہمارے پاس نہیں ہے، یہ فقیر جو امید لے کر آیا تھا کیا کہے گا۔ فقر و غنی کے مختلف احوال بھیجنا اسی مالک علی الاطلاق کے قبضہ میں ہے۔ تمہارا کام میانہ روی سے امتثالِ حکم کرنا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی محتاج کو دیکھ کر بالکل بیتاب نہ ہو جا۔ اس کی حاجت روائی تیرے ذمہ نہیں۔ اللہ کے ذمہ پر ہے۔ لیکن یہ باتیں پیغمبر علیہ السلام کو فرمائی ہیں جو بیحد سخی واقع ہوئے تھے۔ باقی جس کے جی سے مال نہ نکل سکے اس کو پابند کیا ہے دینے کا۔ حکیم بھی گرمی والے کو سرد دوا دیتا ہے اور سردی والے کو گرم۔"

۲:  یعنی ہر ایک بندے کے ظاہری و باطنی احوال و مصالح سے خبردار ہے۔ اسی کے موافق معاملہ کرتا ہے۔ حدیث قدسی میں فرمایا کہ میرے بعض بندے وہ ہیں جن کی درستی حال فقیر رہنے میں ہے۔ اگر میں اس کو غنی کر دیتا تو اس کا دین تباہ ہو جاتا۔ اس کے برعکس بعض بندے ہیں جن کو غنی بنایا، اگر فقیر بنا دیا جاتا تو دین پر قائم نہ رہ سکتے۔ اس کے علاوہ بعض اشقیاء کے حق میں غنائے ظاہری محض امہال و استدراج کے طور پر یا فقر و تنگدستی عقوبت اور سزا کے طریقہ سے ہے۔ (عیاذا باللہ من ہذا وہذا) ہم پہلے کئی جگہ اس کی تقریر کر چکے ہیں۔

۳۱۔۔۔   ۱: بعض کافر اولاد کو مار ڈالتے تھے کہ ان کا خرچ کہاں سے لائیں گے۔ "سورہ انعام" میں اسی مضمون کی آیت گزر چکی تفصیل وہاں ملاحظہ کر لی جائے۔

۲:  کیونکہ یہ بے رحمی کی حرکت نسل انسانی کے قطع کرنے کا موجب ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا کرنے والے کو حق تعالیٰ کی رزاقی پر اعتماد نہیں۔

۳۲۔۔۔  ۱: یعنی زنا کرنا تو بڑی چیز ہے۔ اس کے پاس بھی مت جاؤ۔ گویا لاتقربوا میں مبادی زنا سے بچنے کی ہدایت کر دی گئی۔ مثلاً اجنبی عورت کی طرف بدون عذر شرعی نظر کرنا یا بوس و کنار وغیرہ۔

۲:  کیونکہ زنا سے انساب میں گڑ بڑ ہوتی ہے اور بہت طرح کی لڑائیاں اور جھگڑے کھڑے ہوتے ہیں اور سب کے لیے بری راہ نکلتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی اگر یہ راہ نکلی تو ایک شخص دوسرے کی عورت پر نظر کرے، کوئی دوسرا اس کی عورت پر کرے گا۔" مسند امام احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ مجھے زنا کی اجازت دے دیجئے۔ حاضرین نے اسے ڈانٹ بتلائی کہ (پیغمبر خدا کے سامنے ایسی گستاخی؟) خبردار چپ رہو۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو فرمایا کہ میرے قریب آؤ۔ وہ قریب آ کر بیٹھا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تو یہ حرکت اپنی ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ میں سے کسی کی نسبت پسند کرتا ہے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! خدا مجھ کو آپ پر قربان کرے ہرگز نہیں۔ فرمایا دوسرے لوگ بھی اپنی ماؤں، بیٹیوں، بہنوں، پھوپھیوں اور خالاؤں کے لیے یہ فعل گوارا نہیں کرتے۔ پھر آپ نے دعا فرمائی کہ الٰہی اس کے گناہ کو معاف فرما اور اس کے دل کو پاک اور شرمگاہ کو محفوظ کر دے۔ "ابو اُمامہ فرماتے ہیں کہ اس دعا کے بعد اس شخص کی یہ حالت ہو گئی کہ کسی عورت وغیرہ کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھتا تھا۔ "اللہم صل علی سیدنا محمدٍ و بارک و سلم

۳۳۔۔۔  ۱: صحیحین میں ہے کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں مگر تین صورتوں میں، جان کے بدلے جان، یا زانی محصن یا جو شخص دین کو چھوڑ کر جماعت سے علیحدہ ہو جائے۔

۲:  یعنی اولیائے مقتول کو اختیار ہے کہ حکومت سے کہہ کر خون کا بدلہ لیں، لیکن بدلہ لیتے وقت حد سے نہ گزریں۔ مثلاً قاتل کی جگہ غیر قاتل کو سزا دلوانے لگیں یا قاتل کے ساتھ دوسرے بے گناہوں کو بھی شامل کر لیں۔ یا قاتل کے ناک، کان وغیرہ کو کاٹنے اور مثلہ کرنے لگیں۔

۳:  یعنی خدا نے اس کی مدد کی کہ بدلہ لینے کا حق دیا اور حکام کو امر فرمایا کہ حق دلوانے میں کمی نہ کریں۔ بلکہ ہر کسی کو لازم ہے کہ خون کا بدلہ دلانے میں مدد کرے۔ نہ یہ کہ الٹا قاتل کی حمایت کرنے لگے۔ اور وارث کو بھی چاہیے کہ ایک کے بدلے دو نہ مارے یا قاتل ہاتھ نہ لگا تو اس کے بیٹے بھائی کو نہ مار ڈالے جیسے جاہلیت میں رواج تھا۔

۳۴۔۔۔  ۱: یعنی یتیم کے مال کو ہاتھ نہ لگاؤ۔ ہاں اگر اس کی حفاظت و نگہداشت اور خیر خواہی مقصود ہو تو مضائقہ نہیں۔ جس وقت جوان ہو جائے اور اپنے نفع نقصان کو سمجھنے لگے، مال اس کے حوالہ کر دو۔

۲:  اس میں سب عہد داخل ہیں خواہ اللہ سے کیے جائیں یا بندوں سے بشرطیکہ غیر مشروع نہ ہوں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ کسی کو قول و قرار صلح کا دے کر بدعہدی کرنا، اس کا وبال ضرور پڑتا ہے۔

۳ ۵۔۔۔  ۱: یعنی جھونک نہ مارو۔ ناپ تول میں کمی کرنے سے معاملات کا نظام مختل ہو جاتا ہے۔ قوم شعیب کی ہلاکت کا قصہ پہلے کئی جگہ آ چکا ہے ان کا بڑا عملی گناہ یہ ہی بیان کیا گیا ہے۔ روایات میں ہے کہ جو شخص کسی حرام پر قدرت پا کر محض خدا کے خوف سے رک جائے تو خدا تعالیٰ اسی دنیا میں آخرت سے پہلے اس کو نعم البدل عطا فرمائے گا۔

۲:  یعنی دغا بازی اول چلتی ہے پھر لوگ خبردار ہو کر اس سے معاملہ نہیں کرتے۔ اور پورا حق دینے والا سب کو بھلا لگتا ہے۔ اللہ اس کی تجارت خوب چلاتا ہے۔

۳۶۔۔۔  ۱: یعنی بے تحقیق بات زبان سے مت نکال، نہ اس کی اندھا دھند پیروی کر۔ آدمی کو چاہیے کہ کان، آنکھ اور دل و دماغ سے کام لے کر اور بقدر کفایت تحقیق کر کے کوئی بات منہ سے نکالے یا عمل میں لائے۔ سنی سنائی باتوں پر بے سوچے سمجھے یوں ہی اٹکل پچو سے کوئی قطعی حکم نہ لگائے یا عمل درآمد شروع نہ کرے۔ اس میں جھوٹی شہادت دینا، غلط تہمتیں لگانا، بے تحقیق چیزیں سن کر کسی کے درپے آزار ہونا یا بغض و عداوت قائم کر لینا، باپ دادا کی تقلید یا رسم و رواج کی پابندی میں خلاف شرع اور ناحق باتوں کی حمایت کرنا، ان دیکھی یا ان سنی چیزوں کو دیکھی یا سنی ہوئی بتلانا۔ غیر معلوم اشیاء کی نسبت دعویٰ کرنا کہ میں جانتا ہوں یہ سب صورتیں اس آیت کے تحت میں داخل ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن تمام قویٰ کی نسبت سوال ہو گا کہ ان کو کہاں کہاں استعمال کیا تھا، بے موقع تو خرچ نہیں کیا؟

۲:   یعنی متکبروں کی چال چلنا انسان کو زیبا نہیں نہ تو زور سے پاؤں مار کر وہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے نہ گردن ابھارنے اور سینہ تاننے سے اونچا ہو کر پہاڑوں کے برابر ہو سکتا ہے۔ پھر ایسے ضعف و عجز اور اس بساط پر اپنے کو اس قدر لمبا کھینچنے سے کیا فائدہ؟

۳۸۔۔۔  یعنی جن باتوں کو اوپر منع کیا ان کے کرنے میں رب کی بیزاری ہے اور جن کا حکم کیا ان کے نہ کرنے میں بیزاری ہے۔

۳۹۔۔۔   ۱: یعنی اوپر جو پر مغز اور بیش بہا نصیحتیں کی گئیں، یہ وہ علم و حکمت اور تہذیب اخلاق کی باتیں ہیں جنہیں عقل سلیم قبول کرتی ہے۔ اور جو وحی کے ضمن میں نبی امی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف بلاواسطہ اور امت امیہ کی طرف بواسطہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بھیجی گئیں۔

۲:  مذکورہ بالا نصائح کا بیان توحید سے شروع کیا گیا تھا، "لَاتَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَفَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا" خاتمہ پر بھی توحید یاد دلا دی گئی تاکہ قاری سمجھ سکے کہ تمام حسنات کا آغاز و انجام خالص توحید کو ہونا چاہیے۔

۴۰۔۔۔  یعنی ایک تو خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا اور اولاد بھی بیٹیاں جنہیں تم نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ بڑی بھاری گستاخی ہے۔

۴۱۔۔۔  یعنی قرآنِ کریم مختلف عنوانوں اور رنگ برنگ کے دلائل و شواہد سے ان مشرکین کو فہمائش کرتا ہے۔ لیکن بجائے نصیحت حاصل کرنے کے یہ بدبخت اور زیادہ بدکتے اور وحشت کھا کر بھاگتے ہیں۔

۴۲۔۔۔  ۱: یعنی اصنام وغیرہ جنہیں خدائی کا شریک اور الوہیت کا حصہ دار بتلایا جاتا ہے۔

۲:  یعنی پرایا محکوم رہنا کیوں پسند کرتے، سب مل کر خدا تعالیٰ کے تخت سلطنت کو الٹ ڈالتے۔ اگر کہا جائے کہ صاحب عرش کے مقابلہ میں ان کی کچھ چلتی نہیں تو ایک عاجز مخلوق کی عبادت کرنا پرلے درجہ کی حماقت ہے یا اگر وہ معبود خود رب العرش کو خوش رکھنا اور اس کا قرب حاصل کرنا اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں تو ان کے پوجنے والوں کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہوا کہ خدائے اکبر کو خوش رکھنے کی فکر کریں۔ لیکن خدائے بزرگ تمام انبیاء کی زبانی اور فطرتِ انسانی کی معرفت شرک سے اپنی کامل بیزاری کا اظہار فرما چکا۔ پھر تعجب ہے کہ یہ احمق کس راستہ پر اندھا دھند چلے جا رہے ہیں۔

۴۴۔۔۔  ۱: یعنی ہر ایک مخلوق زبان سے یا حال سے اس کی پاکی اور خوبیاں بیان کرتی ہے لیکن تم اسے سمجھتے نہیں۔ خواہ فکر و تامل نہ کرنے کی وجہ سے یا اس قوت کے فقدان کی وجہ سے جس کے ذریعہ بعض مخلوقات کی تسبیح قالی سنی اور سمجھی جا سکتی ہے۔ اور اگر کوئی شخص باوجود سمجھنے کے قبول نہ کرے یا اس کے مقتضیٰ پر عمل نہ کرے۔ تو یہ سمجھنا نہ سمجھنے ہی کے حکم میں ہے۔

۲:  یعنی تمام مخلوقات جس کی پاکی بیان کریں تم اس کے لیے شرکاء، اولاد اور بیٹیاں تجویز کرو۔ یہ ایسی گستاخی تھی کہ تم کو فوراً ہلاک کر دیا جاتا لیکن وہ اپنے حلم سے شتاب نہیں پکڑتا اور توبہ کر لو تو بخش دیتا ہے۔

۴ ۵۔۔۔  جو شخص آخرت کو نہ مانے اور اپنے بھلے برے انجام کی کچھ فکر نہ رکھے وہ نصیحت کی طرف کیوں دھیان کرنے لگا۔ جب اسے نجات ہی کی فکر نہیں تو نجات دلانے والے پیغمبر کے احوال و اقوال میں غور کرنے اور بارگاہِ رسالت تک پہنچنے کی کیا ضرورت ہو گی۔ بس یہ ہی عدم ایمانِ بالآخرت اور انجام کی طرف سے بے فکری وہ معنوی پردہ ہے جو اس شخص کے اور نبی (من حیث ہو نبی) کے درمیان لٹکا دیا جاتا ہے۔

۴۶۔۔۔  ۱: پہلے پیغمبر کی صداقت تک نہ پہنچ سکنے کا ذکر کیا تھا۔ یہاں فہم قرآن تک رسائی حاصل نہ کر سکنے کا بیان ہے یعنی اس قرآن میں ایسی قوی تاثیر ہے، اور کافروں پر اثر نہیں ہوتا، یہ سبب ہے کہ اوٹ میں ہیں۔ آفتاب سے سارا جہان روشن ہے لیکن اگر کوئی شخص تہ خانہ میں تمام دروازے اور تابدان بند کر کے بیٹھ جائے بلکہ آنکھیں بھی بند کر لے تو اس کے اعتبار سے آفتاب کی روشنی کہیں بھی نہیں۔

۲:   یعنی جب بہ نیت انتفاع و استفادہ سننا نہیں چاہتے تو گویا سنتے ہی نہیں (تنبیہ) خدا تعالیٰ نے جو حجاب اور پردے وغیرہ ڈالے یہ وہ ہی ہیں جن کا وجود انہوں نے خود اپنے لیے بڑی خوشی اور فخر سے ثابت کیا تھا۔ "وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْ اَکِنَّۃٍ مِّمَّاتَدْعُوْنَا اِلَیْہِ وَفِیْ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْ بَیْنِنَا وَبَیْنَکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عَامِلُوْنَ" (حم السجدہ، رکوع۱، آیت:۵) آخرت پر ایمان نہ رکھنا اور انجام سے بے فکر رہنا، خدائے واحد کے ذکر سے چڑنا، پیغمبروں کے ساتھ تمسخر کرنا، وہ چیزیں ہیں جو حجاب، کنان اور وقر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ اور چونکہ خالق  ہر چیز کا خدا تعالیٰ ہے اس لیے ان کے خلق کی نسبت بھی اس کی طرف کی جاتی ہے۔

۳:  یعنی خدائے واحد کے ذکر سے چڑتے، بدکتے اور پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہیں، ہاں ان کے معبودوں کا تذکرہ آئے تو بہت خوش ہوتے ہیں۔ "وَاِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُوْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ وَاِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِذَاہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ" (زمر، رکوع۵، آیت:۴۵)

۴۷۔۔۔  ۱: یعنی سننے سے استفادہ مقصود نہیں ہوتا محض استخفاف و استہزاء مقصود ہوتا ہے جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔

۲:  یعنی قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی باتیں سن کر گئے۔ پھر آپس میں مشورہ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت کیا کہنا چاہیے۔ آخر کہنے لگے کہ یہ شخص جادو کا مارا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ یعنی جادو کے اثر سے مجنون ہو گیا، دماغ ٹھکانے نہیں رہا (العیاذ باللہ العظیم) بعض نے "مسحور" کو یہاں "ساحر" کے معنی میں لیا ہے گویا اس کی باتوں میں جادو کا اثر ہے۔ (تنبیہ) لفظ "مسحور" سے جو مطلب وہ لیتے تھے اس کی نفی سے یہ لازم نہیں آتا کہ نبی پر کسی قسم کے سحر کا کسی درجہ میں عارضی طور پر بھی اثر نہ ہو سکے یہ آیت مکی ہے۔ مدینہ میں آپ پر یہود کے جادو کرانے کا واقعہ صحاح میں مذکور ہے۔ جس کا اثر چند روز تک صرف اتنا رہا کہ بعض دنیاوی کاموں میں کبھی کبھی ذہول ہو جاتا تھا۔

۴۸۔۔۔  یعنی کبھی شاعر کہتے، کبھی جادو گر، کبھی کاہن، کبھی مسحور یا مجنون، غرض بہکی بہکی باتیں کرتے رہتے ہیں کسی ایک بات پر جماؤ نہیں جس وقت جو منہ میں آیا بک دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ باوجود جدوجہد کے طعن و تشنیع کا کوئی ایسا راستہ انہیں نہیں مل سکتا جس پر چل کر وہ اپنے مقصد اغواء و اضلال میں کامیاب ہو سکیں۔

۴۹۔۔۔  یعنی آپ پر مسحور و مجنون یا شاعر و کاہن وغیرہ کی مثالیں چسپاں کرنا تو تعجب انگیز تھا ہی، اس سے زیادہ قابل تعجب وہ دلیل ہے جو (معاذ اللہ) مسحور و مجنون ثابت کرنے کے لیے پیش کرتے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ موت کے بعد ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ آدمی کا بدن گل سڑ کر سفید ہڈیاں رہ جاتی ہیں تھوڑے دنوں بعد وہ بھی ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل جاتی ہیں۔ کیا کوئی ذی ہوش یہ تجویز کر سکتا ہے کہ یہ ہڈیوں کا چورہ اور خاک کے ریزے دوبارہ جی اٹھیں گے؟ اور انسانی حیات ان منتشر ذرات میں عود کر آئے گی؟ اگر پیغمبر ایسی ناممکن بات کی خبر دیتے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ (العیاذ باللہ) ان کی دماغی صحت بحال نہیں ہے۔

 ۵۱۔۔۔  ۱: یعنی یہ ریزے اور چورا تو بہرحال انسانی لاش کا ہے جس میں پیشتر زندگی رہ چکی ہے۔ اور خود مٹی کے ذرات میں بھی آثارِ حیات کا پیدا ہو جانا چنداں مستبعد نہیں۔ میں اس سے بڑھ کر تم کو اجازت دیتا ہوں کہ ہڈیوں کا چورا نہیں، اگر ممکن ہو تو پتھر یا لوہا بن جاؤ۔ جو آثارِ حیات کے قبول کرنے سے بالکل محروم نظر آتے ہیں، بلکہ کوئی ایسی سخت چیز بن کر تجربہ کر لو جس کا زندہ ہونا لوہے اور پتھر سے بھی زیادہ مشکل معلوم ہو حتیٰ کہ مجسم موت بن کر دیکھ لو کہ پھر بھی اس قادر مطلق کو تمہارا زندہ کر دینا کس قدر آسان ہے۔

۲:  جس نے پہلی بار تم کو مٹی یا نطفہ سے پیدا کیا اور جمادِ لایعقل پر روحِ انسانی فائض کر دی۔ کیا اب اس میں قدرت نہیں رہی کہ خاک کے ذرات اور مردہ لاش کے اجزاء کو جمع کر کے دوبارہ زندگی عنایت کر دے۔

۳:  یعنی استہزاء و تمسخر سے سر ہلا کر کہتے ہیں کہ ہاں صاحب! بوسیدہ ہڈیوں کے ریزوں میں کب جان پڑے گی۔ اور کب مردے قبروں سے حساب کے لیے اٹھائے جائیں گے۔

 ۵۲۔۔۔  ۱: یعنی قیامت کا ٹھیک وقت حق تعالیٰ نے کسی کو نہیں بتلایا ہاں اس کے مستقبل قریب میں آنے کی تم امید ظاہر کر سکتے ہو۔ گویا دنیا کی بقیہ عمر اس سے کم ہے جتنی گزر چکی ہے۔

۲:  یعنی جس وقت خدا کی طرف سے آواز دی جائے گی ایک ڈانٹ میں سب مردے زمین سے نکل کر میدانِ حشر میں جمع ہو جائیں گے کسی کو سرتابی کی مجال نہ ہو گی۔ ہر ایک انسان اس وقت مطیع و منقاد ہو کر خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوا حاضر ہو گا۔ گو کافر کو اس وقت کی اضطراری حمدو ثنا سے کچھ فائدہ نہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ مومنین کی زبان پر یہ الفاظ ہوں گے۔ "الحمد للہ الذی اذہب عنا الحزن

 ۵۳۔۔۔  یعنی اب شتابی کرتے ہو، اس وقت اندازہ کرو گے کہ دنیا میں کچھ زیادہ دیر نہیں رہے تھے۔ پچاس سو برس ان ہزاروں برسوں کے سامنے کیا معلوم ہوں (موضح القرآن) بعض نے کہا کہ شدتِ ہول و خوف سے دنیا کی زندگی تھوڑی معلوم ہو گی۔ یا نفخہ اول اور نفخہ ثانی کے درمیان چونکہ عذاب نہ رہے گا، اس درمیانی مدت کو قلیل خیال کر کے کہیں گے۔ "مَنْ بَعْثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا"(یس، رکوع۴، آیت:۵۲)

 ۵۴۔۔۔  ۱: مشرکین کی جہالت اور طعن و تمسخر کو سن کر ممکن تھا کوئی مسلمان نصیحت و فہمائش کرتے وقت تنگ دلی برتنے لگے اور سختی پر اتر آئے اس لیے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ مذاکرہ میں کوئی سخت دل آزار اور اشتعال انگیز پہلو اختیار نہ کریں۔ کیونکہ اس سے بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے۔ شیطان دوسرے کو ابھار کر لڑائی کرا دیتا ہے۔ پھر مخاطب کے دل میں ایسی ضد و عداوت قائم ہو جاتی ہے کہ سمجھتا ہو تب بھی نہ سمجھے۔

۲:  یعنی رحم کرے ایمان کی توفیق دے کر، یا عذاب دے حالت کفر پر مار کر۔

 ۵ ۵۔۔۔  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "مذاکرہ میں حق والا جھنجھلانے لگتا ہے کہ دوسرا صریح حق کو نہیں مانتا، سو فرما دیا کہ تم ان کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے جس کو چاہے راہ سجھائے۔

 ۵۶۔۔۔   یعنی ہم اپنے علم محیط کے موافق ہر ایک کے ساتھ معاملہ کر تے ہیں۔ جس کو مناسب جانا آدمیوں میں سے پیغمبر بنایا۔ پھر جس پیغمبر کو چاہا دوسرے پیغمبروں پر کلی یا جزئی فضیلت عنایت کی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی بعضے نبی تھے کہ (امت کی حد سے زیادہ شرارتوں پر آخرکار) جھنجھلا گئے۔ آپ کا حوصلہ ان سے زیادہ رکھا ہے۔ (اور سب پر فضیلت دی ہے، لہٰذا آپ کی خوش اخلاقی اپنے مرتبہ عالی کے موافق ہونی چاہیے) اور خصوصیت سے داؤد کا ذکر کیا۔ کیونکہ دونوں چیزیں رکھتے تھے، جہاد بھی اور زبور بھی، سمجھانے کو (وفی الحدیث کَانَ لَا یَفِرَّ اِذَا لَاقیٰ) وہ دونوں باتیں یہاں بھی ہیں" قرآن اور جہاد۔ بعض نے کہا کہ یہاں "زبور" کا ذکر کر کے حضور کی فضیلت کلیہ اور امت محمدیہ کے فضل و شرف کی طرف اشارہ فرما دیا، کیونکہ حضور کے خاتم الانبیاء اور اس امت کے اشرف الامم ہونے پر زبور شریف کے مضامین مشتمل تھے۔ "وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ م بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ" (انبیائ، رکوع۸، آیت:۱۰۵) یعنی محمدًا وامۃ المرحومہ۔

 ۵۷۔۔۔  ۱: یعنی خدا تو وہ ہے کہ جس کو چاہے عذاب دے جس پر چاہے مہربانی فرمائے، جس کو جس قدر چاہے دوسروں پر فضیلت عطا کرے، اس کی قدرت کاملہ اور علم محیط ہے۔ اب ذرا مشرکین ان ہستیوں کو پکاریں جن کو انہوں نے خدا سمجھ رکھا یا بنا رکھا ہے۔ کیا ان میں ایک بھی ایسا مستقل اختیار رکھتا ہے کہ ذرا سی تکلیف کو تم سے دور کر سکے یا ہلکی کر دے یا تم سے اٹھا کر کسی دوسرے پر ڈال دے۔ پھر ایسی ضعیف و عاجز مخلوق کو معبود ٹھہرا لینا کیسے روا ہو گا۔

۲:  بخاری میں روایت ہے کہ کچھ لوگ جاہلیت میں جنات کی عبادت کرتے تھے۔ وہ جن مسلمان ہو گئے اور یہ پوجنے والے اپنی جماعت پر قائم رہے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض کہتے ہیں کہ جن، ملائکہ، مسیح و عزیر وغیرہ کے پوجنے والے سب اس میں شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جن ہستیوں کو تم معبود و مستعان سمجھ کر پکارتے ہو، وہ خود اپنے رب کا بیش از بیش قرب تلاش کرتے ہیں۔ ان کی دوا دوش صرف اس لیے ہے کہ خدا کی نزدیکی حاصل کرنے میں کون آگے نکلتا ہے، ان میں جو زیادہ مقرب ہیں وہ ہی زیادہ قرب الٰہی کے طالب رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کسی سب سے زیادہ مقرب بندہ کی دعاء وغیرہ کو حصول قرب کا وسیلہ بنائیں۔ پس جب تمہارے تجویز کیے ہوئے معبودوں کا خدا کے سامنے یہ حال ہے تو اپنے تئیں خود فیصلہ کر لو کہ خدا تعالیٰ کو خوش رکھنا کہاں تک ضروری ہے۔ غیر اللہ کی پرستش سے نہ خدا خوش ہوتا ہے نہ وہ جنہیں تم خوش رکھنا چاہتے ہو

(تنبیہ) "توسل" اور "تعبد" میں فرق ظاہر ہے۔ پھر توسل بھی اسی حد تک مشروع ہے جہاں تک شریعت نے اجازت دی۔

 ۵۸۔۔۔  ۱: یعنی باوجود غایت قرب کے ان کی امیدیں محض حق تعالیٰ کی مہربانی سے وابستہ ہیں اور اسی کے عذاب سے ہمیشہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہر قسم کا نفع پہنچانا، یا ضرر کو روکنا ایک خدا کے قبضہ میں ہے۔

۲:  اس آیت کا مطلب کئی طرح لیا جا سکتا ہے (الف) دنیا کی ہر ایک بستی کو عظیم الشان گناہوں کی پاداش میں قیامت سے پہلے پہلے عذاب مستاصل بھیج کر بالکلیہ تباہ و خراب کر دیا جائے گا، یا اگر گناہ انتہائی درجہ کے نہ ہوں گے تو درجہ دوئم کے جرائم کی سزا میں عام ہلاکت سے کم کوئی سخت آفت اس بستی پر نازل کی جائے گی۔ باقی ایسی بستی کہاں ہے جو ازل سے ابد تک نہ گناہ کرے نہ کسی آفت میں پھنسے (ب) قیامت سے پیشتر ضروری ہے کہ ہر ایک بستی طبعی موت پر جو تعذیب کے رنگ سے خالی ہو، لفظ "ہلاک" کا اطلاق قرآن و حدیث سے ثابت ہے "حَتّیٰ اِذَا ہَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ مِنْ بَعْدِہٖ رَسُوْلًا" (المؤمن، رکوع۴، آیت:۳۴) وفی الحدیث کُلَّمَاھَلَکَ نَبِیٌّ جَآ ءَ نَبِیٌّ اٰخَرُ(ج) کفار کی ہر ایک بستی یا قیامت سے پہلے اپنے سنگین جرائم کی پاداش میں نابود و تباہ کر دی جائے گی یا کسی نہ کسی وقت (یعنی قیامت سے پہلے یا بعد) سخت عذاب کا مزہ چکھے گی۔ بہرحال کوئی معنی لیے جائیں، مقصود اس آیت سے تحذیر ہے۔ گویا پہلے جو فرمایا تھا "اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا" یہاں اس کے وقوع کی خبر دی گئی۔

۳:   یعنی یہ فیصلہ بالکل حتمی اور اٹل ہے جو علم الٰہی میں طے ہو چکا اور لوح محفوظ میں لکھا گیا۔ کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "ہر شہر کے لوگ ایک بزرگ کو پوجتے ہیں کہ ہم اس کی رعیت ہیں اور اس کی پناہ میں ہیں، سو وقت آنے پر کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔"، "لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِلَّامَن رَّحِمَ

 ۵۹۔۔۔  ۱: حدیث میں ہے کہ اہل مکہ نے حضور سے چند نشانیاں طلب کیں مثلاً یہ کہ "کوہ صفا کو سونا بنا دیجئے یا پہاڑوں کو ہمارے گردو پیش سے ہٹا کر زراعت کے قابل زمین ہموار کر دیجئے۔ و غیر ذالک۔ ایسا کرو تو ہم آپ کو مان لیں گے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی ایسے فرمائشی نشان دکھلانا خدا تعالیٰ کو کچھ دشوار نہ تھا۔ لیکن پہلے لوگوں کو ان کی فرمائش کے مطابق نشان دکھلائے گئے تب بھی نہ مانے۔ بلکہ سرکشی میں اور ترقی کر گئے۔ آخر سنت اللہ کے موافق اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالکل نیست و نابود کر دیئے گئے۔ اب اگر تمہاری سب فرمائشیں پوری کر دی جائیں۔ اور خدا کے علم میں ہے بلکہ تمہارے احوال سے بھی ظاہر ہے کہ تم پھر بھی ماننے والے نہیں، تو سنت اللہ کے موافق اس کا نتیجہ وہ ہی استیصال و ہلاکِ کلی ہونا چاہیے جو اس امت کے حق میں خلاف مصلحت و رحمت ہے۔ خدا تعالیٰ کا ارادہ اس آخری امت کی نسبت یہ نہیں کہ گذشتہ اقوام و امم کی طرح عذاب مستاصل بھیج کر بالکلیہ تباہ کی جائے۔ پہلی امتوں کو فرمائشی نشان دکھلانا اس بناء پر جائز رکھا گیا کہ ان کی بالکلیہ تباہی خدا کے نزدیک اس قدر لائق التفات نہ تھی اور آخر میں آنے والی امت کو کچھ نمونے دکھلانے تھے کہ فرمائشی نشان مانگنے والوں کا حشر ایسا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں ان ہی تاریخی نظائر کی طرف اجمالی اشارہ فرما دیا کہ اگر فرمائشی نشان دیکھنے کے بعد تکذیب کی (اور یقیناً کرو گے) تو جو حشر پہلوں کا ہوا وہ ہی تمہارا ہو گا لیکن حکمت الٰہیہ مقتضی نہیں کہ تم کو اس طرح تباہ کیا جائے۔ لہٰذا فرمائشی نشانات کا بھیجنا موقوف کیا گیا۔

۲:  قوم "ثمود" نے حضرت صالح سے درخواست کی تھی کہ پہاڑ کی فلاں چٹان میں سے اونٹنی نکال دیجئے۔ خدا نے نکال دی۔ مگر بجائے اس کے کہ ایسا فرمائشی معجزہ دیکھ کر آنکھیں کھلتیں اور قلبی بصیرت حاصل ہوتی الٹے ظلم و عداوت پر کمر بستہ ہو گئے۔ چنانچہ اونٹنی کو مار ڈالا اور حضرت صالح کے قتل کے منصوبے باندھنے لگے۔ آخر جو انجام ہوا وہ سب کو معلوم ہے کہنے کی ضرورت نہیں۔ یہ "اَنْ کَذَّبَ بِہَا الْاوَّلُوْنَ" کا ایک نمونہ پیش کر دیا۔

۳: یعنی ہدایت نشانیاں دیکھنے پر موقوف نہیں۔ غیر معمولی نشانات بھیجنے سے تو مقصود یہ ہے کہ قدرت قاہرہ کو دیکھ کر لوگ خدا سے ڈریں اور ڈر کر اس کی طرف جھکیں۔ اگر یہ مقصود حاصل نہ ہو اور فی الحال اس قوم کو تباہ کرنا بھی مصلحت نہیں تو محض فرمائشیں پورا کرنے سے کیا حاصل ہے۔ باقی عام تخویف و انذار کے لیے جن آیات و نشانات کا بھیجنا مصلحت ہے وہ برابر بھیجے جاتے ہیں۔

۶۰۔۔۔  ۱: شاید آپ کو خیال ہوا ہو گا کہ فرمائشی نشان نہ دکھلانے پر کفار کو ہنسنے اور طعن کرنے کا موقع ملے گا کہ اگر سچے پیغمبر ہوتے تو ہماری طلب کے موافق نشان دکھلاتے۔ اس لیے آپ کو مطمئن کیا کہ سب لوگوں کو تیرے رب کے علم و قدرت نے گھیر رکھا ہے نہ کوئی اس کے علم سے باہر ہے نہ قدرت کے نیچے سے نکل کر جا سکتا ہے سب اس کے قبضہ میں ہیں آپ ان کے طعن و تشنیع کی طرف قطعاً التفات نہ کریں۔ وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اپنا کام کیے جائیے اور ان کے فیصلوں کو بالکلیہ ہم پر چھوڑ دیجئے۔ ہم جانتے ہیں کہ فرمائشی نشان دیکھ کر بھی یہ لوگ آپ کی بات ماننے والے نہیں تھے اور اس کے بعد ہماری سزا سے چھوٹ کر نکل بھاگنا بھی ممکن نہ تھا اور یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ لوگوں میں سے کون فی الحال تباہ کر ڈالنے کے لائق ہیں اور کن لوگوں کا باقی رکھنا مصلحت ہے۔ لہٰذا آپ اس جھنجھٹ میں نہ پڑیں، یہ سب ہمارے محاصرہ میں ہیں آخر مسلمان ہو کر رہیں گے۔

۲:  "دکھاوے" سے مراد شب معراج کا نظارہ ہے جس کے بیان سے لوگ جانچے گئے۔ سچوں نے سن کر مانا اور کچوں نے جھوٹ جانا۔

۳:  یعنی "زقوم"کا درخت جسے قرآن میں فرمایا کہ دوزخ والے کھائیں گے۔ ایمان والے یقین لائے اور منکروں نے کہا کہ دوزخ کی آگ میں سبز درخت کیونکر ہو گا؟ یہ بھی جانچنا تھا۔ ان دو مثالوں سے اندازہ کر لو کہ تصدیق خوارق کے باب میں ان کی طبائع کا کیا حال ہے۔

۴:  یعنی جن کے دل خدا کے خوف سے خالی ہوں، ڈرانے سے ڈریں نہیں، بلکہ اور زیادہ شرارت میں ترقی کریں ان سے فرمائشی نشان دیکھنے پر قبول حق کی امید رکھنا بے موقع ہے۔

۶۱۔۔۔  یہ قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے۔ یہاں اس پر متنبہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا بے چون و چرا ماننا فرشتوں کا اور اس میں شبہات نکالنا شیطان کا کام ہے۔ یہ کافر بھی اس کی چال چل رہے ہیں۔ جو بات بات میں کج بحثیاں کرتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ ان کا انجام بھی وہی ہونے والا ہے جو ان کے امام ابلیس لعین کا ہو گا۔

۶۲۔۔۔  یعنی تھوڑے سے چھوڑ کر باقی سب کو اپنا مسخر کر لوں جیسے گھوڑے کو لگام دے کر قابو کر لیا جاتا ہے، پھر جو میرے سامنے اتنا کمزور ہے اسے مجھ پر فضیلت دینا کس طرح جائز ہو گا؟

۶۳۔۔۔  یعنی جا! جتنا زور لگا سکتا ہے لگا لے، یہاں بھی تیرے اور تیرے ساتھیوں کے واسطے جیل خانہ تیار ہے۔

۶۴۔۔۔  ۱: یعنی وہ آواز جو خدا کے عصیان کی طرف بلاتی ہو، مراد اس سے وسوسہ ڈالنا ہے اور مزامیر (باجا گاجا) تھی اس میں داخل ہو سکتا ہے۔

۲:  یعنی ساری طاقت صرف کر ڈال! اور پوری قوت سے لشکر کشی کر! خدا کی معصیت میں لڑنے والے سب شیطان کے سوار اور پیا دے ہیں۔ جن ہوں یا انس۔

۳:   یعنی دل میں ارمان نہ رکھ، ان کو ہر طرح ابھار، کہ مال و اولاد میں تیرا حصہ لگائیں، یعنی یہ چیزیں ناجائز طریقہ سے حاصل کریں اور ناجائز کاموں میں صرف کریں۔

۴: یعنی شیطان جو سبز باغ دکھاتا ہے اس سے فریب کھانا احمق کا کام ہے اس کے سب وعدے دغا بازی اور فریب سے ہیں، چنانچہ وہ خود اقرار کرے گا۔ "وَوَعَدتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ" (ابراہیم، رکوع۴، آیت:۲۲)

۵:  یعنی جو خدا پر اعتماد و توکل کریں وہ ان کا کام بناتا ہے اور شیطان کے جال سے نکالتا ہے۔

۶۶۔۔۔  ۱: یہ خدا کی کارسازی کا ایک نمونہ پیش کیا ہے، جس میں ایک مشرک کو بھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس کے سوا کوئی کار ساز نہیں۔

ع کہ ہیں عارضی زور کمزور سارے

۲:  یعنی روزی۔ روزی کو اکثر قرآن میں "فضل" فرمایا ہے۔ "فضل" کے معنی زیادہ کے ہیں۔ سو مسلمان کی بندگی ہے آخرت کے واسطے اور دنیا لبھاؤ میں ملتی ہے۔

۶۷۔۔۔  یعنی مصیبت سے نکلتے ہی محسن حقیقی کو بھول جاتا ہے چند منٹ پہلے دریا کی موجوں میں خدا یاد آ رہا تھا کنارہ پر قدم رکھا اور بے فکر ہو کر سب فراموش کر بیٹھا۔ اس سے بڑھ کر ناشکر گذاری کیا ہو گی۔

۶۸۔۔۔  یعنی سمندر کے کنارے خشکی پر دھنسا دے۔ مثلاً زلزلہ آ جائے اور زمین شق ہو کر قارون کی طرح اس میں دھنس جاؤ۔ خلاصہ یہ کہ ہلاک کرنا کچھ دریا کی موجوں پر موقوف نہیں۔

۶۹۔۔۔    ۱: یعنی کوئی ضرورت کھڑی کر دے جس کے لیے ناچار دریائی سفر کرنا پڑے۔

۲:   خدا سے کون باز پرس کر سکتا ہے یا کسی کی مجال ہے کہ پیچھا کر کے اس سے مجرمین کا خون بہا وصول کرے؟

۷۰۔۔۔  یعنی آدمی کو حسنِ صورت، نطق، تدبیر اور عقل و حواس عنایت فرمائے جن سے دنیاوی و اخروی مضار و منافع کو سمجھتا اور اچھے برے میں تفریق کرتا ہے۔ ہر طرف ترقی کی راہیں اس کے لیے کھلی ہیں دوسری مخلوقات کو قابو میں لا کر اپنے کام میں لگاتا ہے۔ خشکی میں جانوروں کی پیٹھ پر یا دوسری طرح طرح کی گاڑیوں میں سفر کرتا اور سمندروں کو کشتیوں اور جہازوں کے ذریعہ بے تکلف طے کرتا چلا جاتا ہے۔ قسم قسم کے عمدہ کھانے، کپڑے، مکانات اور دنیاوی آسائش و رہائش کے سامانوں سے منتفع ہوتا ہے۔ ان ہی آدمیوں کے سب سے پہلے باپ آدم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے مسجودِ ملائکہ اور ان کے آخری پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کل مخلوقات کا سردار بنایا۔ غرض نوع انسانی کو حق تعالیٰ نے کئی حیثیت سے عزت اور بڑائی دے کر اپنی بہت بڑی مخلوق پر فضیلت دی۔ اوپر کے رکوع میں آدم کی نسبت شیطان کا ہٰذَا الَّذِی کَرَّمْتَ عَلَیَّ کہنا اور ملائکہ کا آدم کو سجدہ کرنا، پھر بنی آدم کو کشتی کے ذریعہ دریائی سفر طے کرانا مذکور تھا۔ اس آیت کا مضمون مضامین مذکورہ بالا سے صاف طور پر مربوط ہے (تنبیہ) مفسرین نے اس آیت کے تحت میں یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ ملائکہ اور بشر میں کون افضل ہے کون مفضول۔ لیکن انصاف یہ ہے کہ آیت سے اس مسئلہ کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ حنفیہ کی رائے یہ نقل کی ہے کہ "رسل بشر"، "رسل ملائکہ" سے افضل ہیں اور رسل ملائکہ (باستثنائے رسل بشر کے) باقی تمام فرشتوں اور آدمیوں سے افضل ہیں۔ اور عام فرشتوں کو عام آدمیوں پر فضیلت حاصل ہے واللہ اعلم۔

۷۱۔۔۔  ۱: یہاں یہ بتلانا ہے کہ دنیا میں فطری حیثیت سے انسان کو جو عزت و فضیلت بخشی تھی اس نے کہاں تک قائم رکھی اور کتنے ہیں جنہوں نے انسانی عز و شرف کو خاک میں ملا دیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر فرقہ اس چیز کی معیت میں حاضر ہو گا جس کی پیروی اور اتباع کرتا تھا۔ مثلاً مومنین کے نبی، کتاب، دینی پیشوا، یا کفار کے مذہبی سردار، بڑے شیطان اور جھوٹے معبود، جنہیں فرمایا ہے "وَجَعَلْنَاہُمْ اَئِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ (القصص رکوع۴، آیت:۴۱) اور حدیث میں ہے "لتتبع کل امۃٍ ماکانت تعبد" اس وقت تمام آدمیوں کے اعمال نامے ان کے پاس پہنچا دیے جائیں گے۔ کسی کا اعمال نامہ سامنے سے داہنے ہاتھ میں اور کسی کا پیچھے سے بائیں ہاتھ میں پہنچ جائے گا۔ گویا یہ ایک حسی علامت ان کے مقبول یا مردود ہونے کی سمجھی جائے گی۔ "اصحابِ یمین" (داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ پکڑنے والے) وہ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں حق کو قبول کر کے اپنی فطری شرافت اور انسانی کرامت کو باقی رکھا۔ جس طرح دنیا میں انہوں نے دیکھ بھال کر اور سوچ سمجھ کر کام کیے، آخرت میں ان کی وہ احتیاط کام آئی۔ اس دن وہ خوشی سے پھولے نہ سمائیں گے، بڑے سرور و انبساط سے اپنا اعمال نامہ پڑھیں گے اور دوسروں کو کہیں گے "ہَاؤُمُ اقْرَءُوْا کِتَابِیَہْ" (الحاقہ، رکوع۱، آیت:۱۹) کہ آؤ میری کتاب پڑھ لو۔ باقی دوسرے لوگ یعنی "اصحابِ شمال" ان کا کچھ حال اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے (بعض نے لفظ "امام" سے خود اعمالنامہ مراد لیا ہے کیونکہ وہاں لوگ اس کے پیچھے چلیں گے)

۲:  یعنی کھجور کی گٹھلی کے درمیان جو ایک باریک دھاگا سا ہوتا ہے، اتنا ظلم بھی وہاں نہ ہو گا۔ ہر ایک کی محنت کا پورا بلکہ پورے سے زیادہ پھل ملے گا۔

۷۲۔۔۔  یعنی یہاں ہدایت کی راہ سے اندھا رہا، ویسا ہی آخرت میں بہشت کی راہ سے اندھا ہے اور بہت دور پڑا ہے۔ (موضح القرآن) یہ "اصحاب یمین" کے بالمقابل "اصحابِ شمال" کا ذکر ہوا۔ بعض نے "وَاَضَلُّ سَبِیْلًا" کا مطلب یہ لیا ہے کہ دنیا میں تو تلافیِ مافات کا امکان تھا، آخرت میں اس سے بھی دور جا پڑا۔ کیونکہ اب تدارک و تلافی کا امکان ہی نہیں رہا۔

۷۳۔۔۔  یعنی بعض اندھے ایسے شریر ہیں کہ خود تو راہ پر کیا آتے بڑے بڑے سوانکھوں کو بچلانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ کفار مکہ کی اس بے حیائی اور جسارت کو دیکھئے کہ آپ پر ڈورے ڈالتے ہیں کہ خدا نے جو احکام دیے اور وحی بھیجی اس کا ایک حصہ ان کی خاطر سے آپ (معاذ اللہ) چھوڑ دیں یا بدل ڈالیں۔ کبھی حکومت، دولت اور حسین عورتوں کا لالچ دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہم آپ کے تابع ہو جائیں گے، قرآن میں سے صرف وہ حصہ نکال دیجئے جو شرک و بت پرستی کے رد میں ہے۔ اگر آپ (العیاذ باللہ) بفرض محال ایسا کر گزرتے تو بیشک وہ آپ کو گاڑھا دوست بنا لیتے۔ لیکن آپ کا جواب یہ تھا کہ خدا کی قسم اگر تم چاند اتار کر میری ایک مٹھی میں اور سورج اتار کر دوسری مٹھی میں رکھ تو تب بھی محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اس چیز کو چھوڑنے والا نہیں جس کے لیے خدا نے اسے کھڑا کیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنا کام پورا کرے یا اس راستہ سے گزر جائے

دست از طلب ندارم تاکامِ من برآید

پا تن رسد بجاناں یا جاں زتن برآید

۷۴۔۔۔  "تَرْکَنُ" رکون سے ہے جو ادنیٰ جھکاؤ، اور خفیف میلانِ قلب کو کہتے ہیں اس کے ساتھ "شَیْئًا قَلِیْلًا" بڑھایا گیا تو ادنیٰ سے ادنیٰ ترین مراد ہو گا۔ پھر "لَقَدْ کِدتَّ" فرما کر اس کے وقوع کو اور بھی گھٹا دیا۔ یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی کہ آپ معصوم پیغمبر ہیں جن کی عصمت کی سنبھال حق تعالیٰ اپنے فضل خصوصی سے کرتا ہے تو ان چالاک شریروں کی فریب بازیوں سے بہت ہی تھوڑا سا ادھر جھکنے کے قریب ہو جاتے مگر انبیاء کی عصمت کا تکفل ان کا پروردگار کر چکا ہے۔ اس لیے اتنا خفیف جھکاؤ بھی نہ پایا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم میں تقویٰ کی فطری قوت کس قدر مضبوط اور ناقابل تزلزل تھی۔

۷ ۵۔۔۔  اس سے بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے فضل و شرف کا نہایت لطیف پیرایہ میں اظہار مقصود ہے۔ مقربین کے لیے جیسے انعامات بہت بڑے ہیں "نزدیکاں را بیش بود حیرانی" کے قاعدہ سے ان کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی یا کوتاہی پر عتاب بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے جیسے ازواجِ مطہرات کو فرمایا "یَا نِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضَاعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ" (الاحزاب، رکوع۴، آیت:۳۰) تو بتلا دیا کہ آپ کا مرتبہ معمولی نہیں۔ اگر بفرض محال ادنیٰ سے ادنیٰ غلطی ہو تو دنیا میں اور برزخ و آخرت میں دوگنا مزہ چکھنا پڑے۔ مومن کو چاہیے کہ ان آیات کو تلاوت کرتے وقت دو زانو بیٹھ کر انتہائی خوف و خشیت کے ساتھ حق تعالیٰ کی شانِ جلال و جبروت میں غور کرے اور وہ ہی کہے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "اَللّٰہُمَّ لَا تَکِلْنِیْ اِلیٰ نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ" خداوندا! چشم زدن کے لیے بھی مجھ کو میرے نفس کے حوالہ نہ کیجئے یعنی ہمیشہ اپنی حفاظت و کفالت میں رکھیے۔

۷۶۔۔۔  یعنی چاہتے ہیں کہ تجھے تنگ کر کے اور گھبرا کر مکہ سے نکال دیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ ایسا کیا تو وہ خود زیادہ دنوں تک یہاں نہ رہ سکیں گے چنانچہ اسی طرح واقع ہوا۔ ان کے ظلم و ستم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت کا سبب بنے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مکہ سے تشریف لے جانا تھا کہ تقریباً ڈیڑھ سال بعد مکہ کے بڑے بڑے نامور سردار گھروں سے نکل کر میدان "بدر" میں نہایت ذلت کے ساتھ ہلاک ہوئے۔ اور اس کے پانچ چھ سال بعد مکہ پر اسلام کا قبضہ ہو گیا۔ کفار کی حکومت و شوکت تباہ ہو گئی اور بالآخر بہت قلیل مدت گزرنے پر مکہ بلکہ پورے جزیرۃ العرب میں پیغمبر علیہ السلام کا ایک مخالف بھی باقی نہ رہا۔

۷۷۔۔۔  یعنی ہمارا یہ ہی دستور رہا ہے کہ جب کسی بستی میں پیغمبر خدا کو نہ رہنے دیا تو بستی والے خود نہ رہے۔

۷۸۔۔۔  ۱:  یعنی ان کی منصوبہ بازیوں کی کچھ فکر نہ کیجئے۔ تعلق مع اللہ وہ چیز ہے جو انسان کو تمام مشکلات و نوائب پر غالب کر دیتی ہے۔ "وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ"

۲:  اس میں چار نمازیں آ گئیں ظہر، عصر، مغرب، عشاء جمع بین الصلوٰتین کے مسئلہ سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔ اور اگر جمع کا اشارہ نکالا جائے تو دو نہیں چار نمازوں کے جمع کرنے کی مشروعیت اس سے نکلے گی۔ ہاں بشرط ذوق صحیح یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ ظہر میں تعجیل اور عشاء میں تاخیر مستحب ہونی چاہیے الاّ لعارض۔

۳:  یعنی نماز فجر میں شاید "قرآن الفجر" سے تعبیر کرنے میں یہ اشارہ ہو کہ تطویل قرأت فجر میں مطلوب ہے۔

۴:  حدیث میں ہے کہ فجر و عصر کے وقت دن اور رات کے فرشتوں کی بدلی ہوتی ہے۔ لہٰذا ان دو وقتوں میں لیل و نہار کے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے تو ہماری قرأت اور نماز ان کے روبرو ہوئی جو مزید برکت و سکینہ کا موجب ہے، اور اس وقت اوپر جانے والے فرشتے خدا کے ہاں شہادت دیں گے کہ جب گئے تب بھی ہم نے تیرے بندوں کو نماز پڑھتے دیکھا اور جب آئے تب بھی۔ اس کے علاوہ صبح کے وقت یوں بھی آدمی کا دل حاضر اور مجتمع ہوتا ہے۔

۷۹۔۔۔  ۱: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی" نیند سے جاگ کر (تہجد میں) قرآن پڑھا کر۔ یہ حکم سب سے زیادہ تجھ پر کیا ہے کہ تجھ کو مرتبہ (سب سے) بڑا دینا ہے۔

۲:  "مقام محمود" شفاعت عظمیٰ کا مقام ہے۔ جب کوئی پیغمبر نہ بول سکے گا تب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ سے عرض کر کے خلقت کو تکلیف سے چھڑائیں گے۔ اس وقت ہر شخص کی زبان پر آپ کی حمد (تعریف) ہو گی اور حق تعالیٰ بھی آپ کی تعریف کرے گا۔ گویا شانِ محمدیت کا پورا پورا ظہور اس وقت ہو گا۔

 (تنبیہ) "مقامِ محمود" کی یہ تفسیر صحیح حدیثوں میں آئی ہے اور بخاری و مسلم اور دیگر کتب حدیث میں شفاعت کبریٰ کا نہایت مفصل بیان موجود ہے۔ شارحین نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے دس قسم کی شفاعتیں ثابت کی ہیں۔ فتح الباری میں ملاحظہ کر لیا جائے۔

۸۰۔۔۔  ۱: یعنی جہاں مجھے پہنچانا ہے (مثلاً مدینہ میں) نہایت آبرو اور خوبی و خوش اسلوبی سے پہنچا کہ حق کا بول بالا رہے۔ اور جہاں سے نکالنا یعنی علیحدہ کرنا ہو (مثلاً مکہ سے) تو وہ بھی آبرو اور خوبی و خوش اسلوبی سے ہو کہ دشمن ذلیل و خوار اور دوست شاداں و فرحاں ہوں اور بہرصورت سچائی کی فتح اور جھوٹ کا سر نیچا ہو۔

۲:  یعنی غلبہ اور تسلط عنایت فرما جس کے ساتھ تیری مدد و نصرت ہو۔ تاکہ حق کا بول بالا رہے اور معاندین ذلیل و پست ہوں۔ دنیا میں کوئی قانون ہو سماوی یا ارضی اس کے نفاذ کے لیے ایک درجہ میں ضروری ہے کہ حکومت کی مدد ہو۔ جو لوگ دلائل و براہین سننے اور آفتاب کی طرح حق واضح ہو چکنے کے بعد بھی ضد و عناد پر قائم رہیں ان کے ضرر و فساد کو حکومت کی مدد ہی روک سکتی ہے۔ اسی لیے سورہ حدید میں فرمایا "لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمْ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقَوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ" الیٰ آخرہا (حدید، رکوع۳)

۸۱۔۔۔  یہ عظیم الشان پیشگوئی مکہ میں کی گئی جہاں بظاہر کوئی سامان غلبہ حق کا نہ تھا۔ یعنی کہہ دو قرآن کریم مومنین کو بشارتیں سناتا ہوا اور باطل کو کچلتا ہوا آپہنچا۔ بس سمجھ لو کہ اب دین حق غالب ہوا اور کفر بھاگا۔ نہ صرف مکہ سے بلکہ سارے عرب سے۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اس وقت کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ آپ ایک چھڑی سے سب پر ضرب لگاتے اور فرماتے تھے۔ "جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلُ کَانَ زَہُوْقًا۔ جَاءَ الْحَقُّ وَمَایُبْدِیئُ الْبَاطِلٌ وَمَایُعِیْدُ" ہر ایک اوندھے منہ گر جاتا تھا۔ اس طرح قرآن کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی اور دوسری کا اعلان کیا گیا کہ جو کفر کعبہ سے نکل بھاگا ہے آئندہ کبھی واپس نہ آئے گا۔ والحمد للہ علیٰ ذلک۔

۸۲۔۔۔  یعنی جس طرح حق کے آنے سے باطل بھاگ جاتا ہے، قرآن کی آیات سے جو بتدریج اترتی رہتی ہیں روحانی بیماریاں دور ہوتی ہیں، دلوں سے عقائد باطلہ، اخلاقِ ذمیمہ اور شکوک و شبہات کے روگ مٹ کر صحت باطنی حاصل ہوتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات اس کی مبارک تاثیر سے بدنی صحت بھی حاصل کی جاتی ہے جیسا کہ "روح المعانی" اور "زادالمعاد" وغیرہ میں اس کا فلسفہ اور تجربہ بیان کیا گیا ہے۔ بہرحال جو لوگ ایمان لائیں یعنی اس نسخہ شفا کو استعمال کریں گے، تمام قلبی و روحانی امراض سے نجات پا کر خدا تعالیٰ کی رحمت خصوصی اور ظاہری و باطنی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے۔ ہاں جو مریض اپنی جان کا دشمن طبیب اور علاج سے دشمنی ہی کی ٹھان لے تو ظاہر ہے کہ جس قدر علاج و دوا سے نفرت کر کے دور بھاگے گا اسی قدر نقصان اٹھائے گا۔ کیونکہ مرض امتدادِ زمانہ سے مہلک ہوتا جائے گا جو آخر جان لے کر چھوڑے گا۔ تو یہ آفت قرآن کی طرف سے نہیں، خود مریض ظالم کی طرف سے آئی کما قال تعالیٰ۔ "وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا اِلیٰ رِجْسِہِمْ وَمَاتُوْا وَہُمْ کَافِرُوْنَ" (توبہ، رکوع۱۶، آیت:۱۲۵)

۸۳۔۔۔  یعنی انسان کا عجیب حال ہے خدا تعالیٰ اپنے فضل سے نعمتیں دیتا ہے تو احسان نہیں مانتا۔ جتنا عیش و آرام ملے اسی قدر منعم حقیقی کی طرف سے اس کی غفلت و اعراض بڑھتا ہے اور فرائض بندگی سے پہلو بچا کر کھسکنا چاہتا ہے۔ پھر جب سخت اور برا وقت آیا تو ایک دم آس توڑ کر اور نا امید ہو کر بیٹھ رہتا ہے۔ گویا دونوں حالتوں میں خدا سے بے تعلق رہا۔ کبھی غفلت کی بناء پر، کبھی مایوسی کی (نعوذ باللہ من کلا الحالین)۔ یہ مضمون غالباً اس لیے بیان فرمایا کہ قرآن جو سب سے بڑی نعمت الٰہی ہے، بہت لوگ اس کی قدر نہیں پہچانتے بلکہ اس کے ماننے سے اعراض و پہلو تہی کرتے ہیں۔ پھر جب اس کفرانِ نعمت اور اِعراض و انکار کا برا نتیجہ سامنے آئے گا اس وقت قطعاً مایوسی ہو گی کسی طرف امید کی جھلک نظر نہ پڑے گی۔

۸۴۔۔۔  یعنی ہر ایک کافر و مومن اور معرض و مقبل اپنے اپنے طریقے، نیت، طبیعت اور مذہب پر چلتا اور اسی میں مگن رہتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ خدا کے علم محیط سے کسی شخص کا کوئی عمل باہر نہیں ہو سکتا وہ ہر ایک کے طریق عمل اور حرکات و سکنات کو برابر دیکھ رہا ہے اور بخوبی جانتا ہے کہ کون کتنا سیدھا چلتا ہے اور کس میں کس قدر کجروی اور کجراہی ہے ہر ایک کے ساتھ اسی کے موافق برتاؤ کرے گا۔

۸ ۵۔۔۔  ۱: یعنی روحِ انسانی کیا چیز ہے؟ اس کی ماہیت و حقیقت کیا ہے؟ یہ سوال صحیحین کی روایت کے موافق یہودِ مدینہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے آزمانے کو کیا تھا۔ اور سیر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں قریش نے یہود کے مشورہ سے یہ سوال کیا۔ اسی لیے آیت کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے، ممکن ہے نزول مکرر ہوا ہو واللہ اعلم۔ یہاں اس سوال کے درج کرنے سے غالباً یہ مقصود ہو گا کہ جن چیزوں کے سمجھنے کی ان لوگوں کو ضرورت ہے ادھر سے تو اعراض کرتے ہیں اور غیر ضروری مسائل میں از راہِ تعنت و عناد جھگڑتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس کی تھی کہ وحی قرآنی کی روح سے باطنی زندگی حاصل کرتے اور اس نسخہ شفا سے فائدہ اٹھاتے "وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًامِّنْ اَمْرِنَا" (شوریٰ، رکوع۵، آیت:۵۲) "یُنَزِّلُ الْمَلَائِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ" (نحل، رکوع۱، آیت:۲) مگر انہیں دور از کار اور معاندانہ بحثوں سے فرصت کہاں۔ "روح" کیا ہے؟جوہر ہے یا عرض؟ مادی ہے یا مجرد؟ بسیط ہے یا مرکب؟ اس قسم کے غامض اور بے ضرورت مسائل کے سمجھنے پر نہ نجات موقوف ہے نہ یہ بحثیں انبیاء کے فرائض تبلیغ سے تعلق رکھتی ہیں۔ بڑے بڑے حکماء اور فلاسفہ آج تک خود "مادہ" کی حقیقت پر مطلع نہ ہو سکے "روح" جو بہرحال "مادہ" سے کہیں زیادہ لطیف و خفی ہے اس کی اصل ماہیت و کنہ تک پہنچے کی پھر کیا امید کی جا سکتی ہے۔ مشرکین مکہ کی جہالات اور یہودِ مدینہ کی اسرائیلیات کا مطالعہ کرنے والوں کو معلوم ہے کہ جو قوم موٹی موٹی باتوں اور نہایت واضح حقائق کو نہیں سمجھ سکتی، وہ روح کی حقائق پر دسترس پانے کی کیا خاک استعداد و اہلیت رکھتی ہو گی؟

توکار زمین را نکو ساختی کہ باآسماں نیز پرداختی

 موضح القرآن میں ہے کہ "حضرت کے آزمانے کو یہود نے پوچھا، سو اللہ نے (کھول کر) نہ بتایا کیونکہ ان کو سمجھنے کا حوصلہ نہ تھا۔ آگے پیغمبروں نے بھی مخلوق سے ایسی باتیں نہیں کیں۔ اتنا جاننا کافی ہے کہ اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آپڑی، وہ جی اٹھا، جب نکل گئی مر گیا"

(تنبیہ) حق تعالیٰ کا کلام اپنے اندر عجیب و غریب اعجاز رکھتا ہے۔ روح کے متعلق یہاں پر جو کچھ فرمایا اس کا سطحی مضمون عوام اور قاصر الفہم یا کجرو معاندین کے لیے کافی ہے۔ لیکن اسی سطح کے نیچے، ان ہی مختصر الفاظ کی تہ میں روح کے متعلق وہ بصیرت افروز حقائق مستور ہیں جو بڑے سے بڑے عالی دماغ نکتہ بیں فلسفی اور ایک عارف کامل کی راہ طلب و تحقیق میں چراغ ہدایت کا کام دیتے ہیں روح کے متعلق عہد قدیم سے جو سلسلہ تحقیقات کا جاری ہے وہ آج تک ختم نہیں ہوا، اور نہ شاید ہو سکے۔ روح کی اصلی کنہ و حقیقت تک پہنچنے کا دعویٰ تو بہت ہی مشکل ہے۔ کیونکہ ابھی تک کتنی ہی محسوسات ہیں جن کی کنہ و حقیقت معلوم کرنے سے ہم عاجز رہے ہیں تاہم میرے نزدیک آیتِ قرآنیہ سے روح کے متعلق ان چند نظریات پر صاف روشنی پڑتی ہے۔ (۱) انسان میں اس مادی جسم کے علاوہ کوئی اور چیز موجود ہے جسے "روح" کہتے ہیں، وہ "عالم امر" کی چیز ہے اور خدا کے حکم و ارادہ سے فائض ہوتی ہے۔ "قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ۔" خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ" (آلِ عمران، رکوع۶، آیت:۵۹) "ثُمَّ اَنْشَاْنَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ" (المومنون، رکوع۱، آیت:۱۴) "اِنَّمَاقَوْلُنَالِشَیْءٍ اِذَآ اَرَدْنَاہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ" (نحل، رکوع۵، آیت:۴۰) روح کی صفاتِ علم و شعور وغیرہ بتدریج کمال کو پہنچتی ہیں اور ارواح میں حصول کمال کے اعتبار سے بیحد تفاوت و فرق مراتب ہے۔ حتی کہ خدا تعالیٰ کی تربیت سے ایک روح ایسے بلند اور اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں دوسری ارواح کی قطعا رسائی نہ ہو سکے، جیسے روحِ محمدی پہنچی۔ یشِیر الیہ اضافۃ الامر الی الرب والرب الی یاء المتکلم المراد بہ ہہنا محمد وقولہٗ تعالیٰ فیما بعد "قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْآٰنِ لَایَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ۔" (۳) مگر اس کے یہ کمالات ذاتی نہیں۔ وہابِ حقیقی کے عطا کیے ہوئے ہیں اور محدود ہیں۔ یدل علیہ قولہ' تعالیٰ "وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّاقَلِیْلًا" فان العلم قداتاہ من مفیض آخر و ہو قلیل فی جنب علم اللہ تعالیٰ کما قال تعالیٰ "قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّیْ" (کہف، رکوع۱۲، آیت:۱۰۹) "وَلَوْ اَنَّ مَافِیْ الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّانَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللّٰہِ" (لقمان، رکوع۳، آیت:۲۷) ویدل علیٰ تحدید القدرۃ قولہ' تعالیٰ فیما بعد ردا لقولہم "لَنْ نُّوْمِنَ لَکَ حَتّیٰ تَفْجُرَلَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعًا الخ" قُلْ سُبْحَانَ رَبِّی ہَلْ کُنْتُ اِلَّابَشَرًا رَّسُوْلًا" روحِ انسانی خواہ علم و قدرت وغیرہ صفات میں کتنی ہی ترقی کر جائے حتی کہ اپنے تمام ہم جنسوں سے سبقت لے جائے، پھر بھی اس کی صفات محدود رہتی ہیں، صفات باری کی طرح لامحدود نہیں ہو جاتیں اور یہ ہی بڑی دلیل اس کی ہے کہ آریوں کے عقیدہ کے موافق روح خدا سے علیحدہ کوئی قدیم و غیر مخلوق ہستی نہیں ہو سکتی ورنہ تحدید کہاں سے آئی۔ (۴) کتنی ہی بڑی کامل روح ہو، حق تعالیٰ کو یہ قدرت حاصل ہے کہ جس وقت چاہے اس سے کمالات سلب کر لے۔ گو اس کے فضل و رحمت سے کبھی ایسا کرنے کی نوبت نہ آئے۔ یدل علیہ قولہ تعالیٰ "وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ ثُمَّ لَا تَجِدُلَکَ بِہٖ عَلَیْنَا وَکِیْلاً اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیْرًا" یہ چند اصول جو ہم نے بیان کیے اہل فہم کو نسق آیات میں ادنیٰ تأمل کرنے سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ صرف ایک "عالم امر" کا لفظ ہے جس کی مناسب تشریح ضروری ہے اور جس کے سمجھنے سے امید ہے روح کی معرفت حاصل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ لفظ "امر" قرآن کریم میں بیسیوں جگہ آیا اور اس کے معنی کی تعیین میں علماء نے کافی کلام کیا ہے لیکن میری غرض اس وقت سورہ "اعراف" کی آیت " اَلَالَہُ الْخَلْقُ وَاْلاَمْرُ" کی طرف توجہ دلانا ہے جہاں "امر" کو "خلق" کے مقابل رکھا ہے جس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خدا کے یہاں دونوں بالکل علیحدہ علیحدہ ہیں ایک "خلق" دوسرا "امر" دونوں میں کیا فرق ہے؟ اس کو ہم سیاقِ آیات سے بسہولت سمجھ سکتے ہیں۔ پہلے فرمایا۔ "اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْض فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ" (اعراف، رکوع۷، آیت:۵۴) یہ تو "خلق" ہوا۔ درمیان میں "استواء علی العرش" کا ذکر کر کے جو شانِ حکمرانی کو ظاہر کرتا ہے فرمایا۔ "یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمْرِہٖ" (اعراف، رکوع۷، آیت:۵۴) یعنی ان مخلوقات کو ایک معین و محکم نظام پر چلاتے رہنا جسے تدبیر و تصریف کہہ سکتے ہیں۔ یہ "امر" ہوا۔ "اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَہُنَّ" (طلاق، رکوع۲، آیت:۱۲) گویا دنیا کی مثال ایک بڑے کارخانہ کی سمجھو جس میں مختلف قسم کی مشینیں لگی ہوں۔ کوئی کپڑا بن رہی ہے کوئی آٹا پیس رہی ہے کوئی کتاب چھاپتی ہے کوئی شہر میں روشنی پہنچا رہی ہے۔ کسی سے پنکھے چل رہے ہیں وغیر ذالک۔ ہر ایک مشین میں بہت سے کل پرزے ہیں جو مشین کی غرض و غایت کا لحاظ کر کے ایک معین اندازے سے ڈھالے جاتے اور لگائے جاتے ہیں۔ پھر سب پرزے جوڑ کر مشین کو فٹ کیا جاتا ہے۔ جب تمام مشینیں فٹ ہو کر کھڑی ہو جاتی ہیں، تب الیکٹرک (بجلی) کے خزانہ سے ہر مشین کی طرف جدا جدا راستہ سے کرنٹ چھوڑ دیا جاتا ہے۔آنِ واحد میں ساکن و خاموش مشینیں اپنی اپنی ساخت کے موافق گھومنے اور کام کرنے لگ جاتی ہیں۔ بجلی ہر مشین اور ہر پرزہ کو اس کی مخصوص ساخت اور غرض کے مطابق گھماتی ہے۔ حتی کہ جو قلیل و کثیر کہربائیہ روشنی کے لیمپوں اور قمقموں میں پہنچتی ہے، وہاں پہنچ کر ان ہی قمقموں کی ہیئت اور رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ اس مثال میں یہ بات واضح ہو گئی کہ مشین کا ڈھانچہ تیار کرنا، اس کے کل پرزوں کا ٹھیک اندازہ پر رکھنا، پھر فٹ کرنا، ایک سلسلہ کے کام ہیں۔ جس کی تکمیل کے بعد مشین کو چالو کرنے کے لیے ایک دوسری چیز (بجلی یا اسٹیم) اس کے خزانے سے لانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سمجھ لو حق تعالیٰ نے اول آسمان و زمین کی تمام مشینیں بنائیں جس کو "خلق" کہتے ہیں، ہر چھوٹا بڑا پرزہ ٹھیک اندازہ کے موافق تیار کیا جسے "تقدیر"کہا گیا۔ "قدرہ تقدیرًا" سب کل پرزوں کو جوڑ کر مشین کو فٹ کیا جسے"تصویر" کہتے ہیں۔ "خلقناکم ثم صورنا کم" (اعراف، رکوع۲) یہ سب افعال خلق کی مد میں تھے۔ اب ضرورت تھی کہ جس مشین کو جس کام میں لگانا ہے لگا دیا جائے۔ آخر مشین کو چالو کرنے کے لیے "امر الٰہی" کی بجلی چھوڑ دی گئی۔ شاید اس کا تعلق اسم "باری" سے ہے۔ "اَلْخَالِقُ الْبَارِیئُ الْمُصَوِّرُ" (الحشر، رکوع۳، آیت:۲۴) وفی الحدیث "فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَاَ النَّسَمَۃً وفی سورۃ الحدید "مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاہَا" ای النفوس کماہو مروی عن ابن عباس و قتادۃ والحسن۔ غرض ادھر سے حکم ہوا "چل" فوراً چلنے لگی۔ اسی "امر الٰہی" کو فرمایا "اِنَّمَا اَمْرُہٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ" (یس، رکوع۵، آیت:۸۲) دوسری جگہ نہایت وضاحت کے ساتھ امر "کن" کو خلق جسد پر مرتب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ "خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ" (آل عمران، رکوع۶، آیت:۵۹) بلکہ تتبع سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں "کُنْ فَیَکُوْنُ" کا مضمون جتنے مواضع میں آیا عموماً خلق و ابداع کے ذکر کے بعد آیا ہے۔ جس سے خیال گزرتا ہے کہ کلمہ "کُن " کا خطاب "خلق" کے بعد تدبیر و تصریف وغیرہ کے لیے ہوتا ہو گا۔ واللہ اعلم۔ بہرحال میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں "امر" کے معنی "حکم" کے ہیں اور وہ حکم یہ ہی ہے جسے لفظ "کن" سے تعبیر کیا گیا۔ اور "کن" جنسِ کلام سے ہے جو حق تعالیٰ کی صفت قدیمہ ہے۔ جس طرح ہم اس کی تمامی صفات (مثلاً حیات، سمع، بصر وغیرہ) کو بلا کیف تسلیم کرتے ہیں، کلام اللہ و کلمۃ اللہ کے متعلق بھی یہ ہی مسلک رکھنا چاہیے۔ خلاصہ مطلب یہ ہوا کہ "روح" کے ساتھ اکثر جگہ قرآن میں امر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً "قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّی۔ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا۔ یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ۔ یُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ۔" اور پہلے گزر چکا کہ "امر" عبارت ہے کلمہ "کن" سے یعنی وہ کلام انشائی جس سے مخلوقات کی تدبیر و تصریف اس طریقہ پر کی جائے جس پر غرض ایجاد و تکوین مرتب ہو۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ "روح" کا مبدأ حق تعالیٰ کی صفت کلام ہے جو صفت علم کے ماتحت ہے۔ شاید اسی لیے "نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ" میں اسے اپنی طرف منسوب کیا "کلام" اور "امر" کی نسبت متکلم اور آمر سے "صادر"و "مصدور" کی ہوتی ہے۔ "مخلوق" و "خالق" کی نہیں ہوتی۔ اسی لیے "اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ" میں "امر" کو "خلق" کے مقابل رکھا۔ہاں یہ امر "کن" باری تعالیٰ شانہ سے صادر ہو کر ممکن ہے جو ہر مجرد کے لباس میں یا ایک "ملک اکبر" اور "روح اعظم" کی صورت میں ظہور پکڑے۔ جس کا ذکر بعض آثار میں ہوا ہے اور جسے ہم "کہربائیہ روحیہ" کا خزانہ کہہ سکتے ہیں۔ گویا یہیں سے روح حیات کی لہریں دنیا کی ذوی الارواح پر تقسیم کی جاتی ہیں اور اَلْاَرْوَاحُ جُنُودٌ مُّجَنَّدَۃٌ الخ کے بے شمار تاروں کا یہیں کنکشن ہوتا ہے۔ اب جو کرنٹ چھوٹی بڑی بے شمار مشینوں کی طرف چھوڑا جاتا ہے وہ مشین سے اس کی بناوٹ اور استعداد کے موافق کام لیتا اور اس کی ساخت کے مناسب حرکت دیتا ہے بلکہ جن لیمپوں اور قمقموں میں یہ بجلی پہنچتی ہے ان ہی کے مناسب رنگ و ہیئت اختیار کر لیتی ہے۔ رہی یہ بات کہ "کن" کا حکم جو قسم کلام سے ہے، جو ہر مجرد یا جسم نورانی لطیف کی شکل کیونکر اختیار کر سکتا ہے۔ اسے یوں سمجھ لو کہ تمام عقلاء اس پر متفق ہیں کہ ہم خواب میں جو اشکال و صور دیکھتے ہیں، بعض اوقات وہ محض ہمارے خیالات ہوتے ہیں جو دریا، پہاڑ، شیر، بھیڑیے وغیرہ کی شکلوں میں نظر آتے ہیں۔ اب غور کرنے کا مقام ہے کہ خیالات جو اعراض ہیں اور دماغ کے ساتھ قائم ہیں وہ جواہر و اجسام کیونکر بن گئے اور کس طرح ان میں اجسام کے لوازم و خواص پیدا ہو گئے۔ یہاں تک کہ بعض دفعہ خواب دیکھنے والے سے بیدار ہونے کے بعد بھی ان کے آثار جدا نہیں ہوتے۔ فی الحقیقت خدا تعالیٰ نے ہر انسان کو خواب کے ذریعہ سے بڑی بھاری ہدایت کی ہے کہ جب ایک آدمی کی قوت مصورہ میں اس نے اس قدر طاقت رکھی ہے کہ وہ اپنی بساط کے موافق غیر مجسم خیالات کو جسمی سانچہ میں ڈھال لے اور ان میں وہ ہی خواص و آثار باذن اللہ پیدا کرے جو عالم بیداری میں اجسام سے وابستہ تھے۔ پھر تماشہ یہ ہے کہ وہ خیالات خواب دیکھنے والے کے دماغ سے ایک منٹ کو علیحدہ بھی نہیں ہوئے۔ ان کا ذہنی وجود بدستور قائم ہے تو کیا اس حقیر سے نمونہ کو دیکھ کر ہم اتنا نہیں سمجھ سکتے کہ ممکن ہے قادر مطلق اور مصور برحق جل و علا کا امر بے کیف (کن) باوجود صفت قائمہ بذاتہ تعالیٰ ہونے کے کسی ایک یا متعدد صورتوں میں جلوہ گر ہو جائے۔ ان صورتوں کو ہم ارواح یا فرشتے یا کسی اور نام سے پکاریں۔ وہ ارواح و ملائکہ وغیرہ سب حادث ہوں اور "امر الٰہی"بحالہ قدیم رہے۔ امکان و حدوث کے آثار و احکام ارواح وغیرہ تک محدود رہیں اور"امرِ الٰہی "ان سے پاک و برتر ہو۔ جیسے جو صورت خیالیہ بحالت خواب آگ کی صورت میں نظر آتی ہے اس صورت ناریہ میں احراق، سوزش، گرمی وغیرہ سب آثار ہم محسوس کرتے ہیں حالانکہ اسی آگ کا تصور سالہا سال بھی دماغوں میں رہے تو ہمیں ایک سیکنڈ کے لیے یہ آثار محسوس نہیں ہوتے۔ پس کوئی شبہ نہیں کہ روح انسانی (خواہ جوہر مجرد ہو یا جسم لطیف نورانی) "امرربی" کا مظہر ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مظہر کے سب احکام و آثار ظاہر پر جاری ہوں کما ہوالظاہر۔ واضح رہے کہ جو کچھ ہم نے لکھا اور جو کچھ مثالیں پیش کیں ان سے مقصود محض تسہیل و تقریب الی الفہم ہے۔ ورنہ ایسی کوئی مثال دستیاب نہیں ہو سکتی جو ان حقائق غیبیہ پر پوری طرح منطبق ہو۔

اے بروں ازوہم وقال وقیل من

خاک بر فرق من و تمثیل من

 رہا یہ مسئلہ کہ روح جوہر مجرد ہے جیسا کہ اکثر حکمائے قدیم اور صوفیہ کا مذہب ہے یا جسم نورانی لطیف جیسا کہ جمہور اہل حدیث وغیرہ کی رائے ہے۔ اس میں میرے نزدیک قول فیصل وہی ہے جو بقیۃ السلف بحرالعلوم علامہ سید انور شاہ صاحب اطال اللہ بقاء نے فرمایا کہ بالفاظ عارف جامی یہاں تین چیزیں ہیں (۱) وہ جواہر جن میں مادہ اور کمیت دونوں ہوں جیسے ہمارے ابدان مادیہ (۲) جواہر جن میں مادہ نہیں صرف کمیت ہے جنہیں صوفیہ اجسام مثالیہ کہتے ہیں (۳) وہ جواہر جو مادہ اور کمیت دونوں سے خالی ہوں جن کو صوفیہ "ارواح" یا حکماء جواہر مجردہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ جمہور اہل شرع جس کو "روح" کہتے ہیں وہ صوفیہ کے نزدیک "بدن مثالی" سے موسوم ہے جو بدن مادی میں حلول کرتا ہے۔ اور بدن مادی کی طرح آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پاؤں وغیرہ اعضاء رکھتا ہے۔ یہ روح بدن مادی سے کبھی جدا ہو جاتی ہے اور اس جدائی کی حالت میں بھی ایک طرح کا مجہول الکیفیت علاقہ بدن کے ساتھ قائم رکھ سکتی ہے جس سے بدن پر حالت موت طاری ہونے نہیں پاتی۔ گویا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول کے موافق جو بغوی نے "اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا" کی تفسیر میں نقل کیا، اس وقت روح خود علیحدہ رہتی ہے مگر اس کی شعاع جسد میں پہنچ کر بقائے حیات کا سبب بنتی ہے۔ جیسے آفتاب لاکھوں میل سے بذریعہ شعاعوں کے زمین کو گرم رکھتا ہے۔ یا جیسے آج ہی میں نے ایک اخبار میں ایک تار پڑھا کہ "حال ہی میں فرانس کے محکمہ پرواز نے ہوابازوں کے بغیر طیارے چلا کر خفیہ تجربے کیے ہیں اور تعجب انگیز نتائج رونما ہوئے ہیں۔ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ حال میں ایک خاص بم پھینکنے والا طیارہ بھیجا گیا تھا۔ جس میں کوئی شخص سوار نہ تھا۔ لیکن لاسلکی کے ذریعہ سے وہ منزل مقصود پر پہنچایا گیا۔ اس طیارہ میں بم بھر کر وہاں گرائے گئے اور پھر وہ مرکز میں واپس لایا گیا۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ لاسلکی کے ذریعہ سے ہوائی جہاز نے خود بخود جو کام کیا وہ ایسا مکمل ہے جیسا کسی ہوا باز کی مدد سے عمل میں آتا۔ " آج کل یورپ میں جو سوسائٹیاں روح کی تحقیقات کر رہی ہیں انہوں نے بعض ایسے مشاہدات بیان کیے ہیں کہ ایک روح جسم سے علیحدہ تھی، اور روح کی ٹانگ پر حملہ کرنے کا اثر جسم مادی کی ٹانگ پر ظاہر ہوا۔ بہرحال اہل شرع جو روح ثابت کرتے ہیں صوفیہ کو اس کا انکار نہیں بلکہ وہ اس کے اوپر ایک اور روح مجرد مانتے ہیں جس میں کوئی استحالہ نہیں بلکہ اگر اس روح مجرد کی بھی کوئی اور روح ہو اور آخر میں کثرت کا سارا سلسلہ سمٹ کر "امر ربی" کی وحدت پر منتہی ہو جائے تو انکار کی ضرورت نہیں۔ شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ نے "منطق الطیر" میں کیا خوب فرمایا

ہم زجملہ بیش وہم پیش ازہمہ

جملہ ازخود دیدہ و خویش ازہمہ

جاں نہاں در جسم و او در جاں نہاں

اے نہاں اندر نہاں اے جانِ جاں

 مذکورہ بالا تقریر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ  ہر چیز میں جو "کن" کی مخاطب ہوئی، روح حیات پائی جائے۔ بےشک میں یہ ہی سمجھتا ہوں کہ ہر مخلوق کی ہر ایک نوع کو اس کی استعداد کے موافق قوی یا ضعیف زندگی ملی ہے یعنی جس کام کے لیے وہ چیز پیدا کی گئی، ڈھانچہ تیار کر کے اس کو حکم دینا "کن" (اس کام میں لگ جا) بس یہ ہی اس کی روحِ حیات ہے جب تک اور جس حد تک یہ اپنی غرض ایجاد کو پورا کرے گی اسی حد تک زندہ سمجھی جائے گی۔ اور جس قدر اس سے بعید ہو کر معطل ہوتی جائے گی اسی قدر موت سے نزدیک یا مردہ کہلائے گی۔ ہذا ماعندی وعندالناس ماعند ہم واللّٰہ سجانہٗ وتعالیٰ ہو الملہم للصواب۔

۲:  یعنی قرآن کا جو علم تم کو دیا ہے خدا چاہے تو ذرا سی دیر میں چھین لے پھر کوئی واپس نہ لا سکے۔ لیکن اس کی مہربانی آپ پر بہت بڑی ہے اسی لیے یہ نعمت عظمیٰ عنایت فرمائی، اور چھیننے کی کوئی وجہ نہیں۔ صرف قدرت عظیمہ کا اظہار مقصود ہے اور یہ کہ کیسی ہی کامل روح ہو اس کے سبب کمالات موہوب و مستعار ہیں ذاتی نہیں۔

 ۳:   اعجازِ قرآن کے متعلق پہلے متعدد مواضع میں کلام کیا جا چکا ہے

۸۷۔۔۔  ۱: یعنی ان کی خیر خواہی کے لیے عجیب و غریب مضامین بار بار مختلف پیرایوں میں قسم قسم کے عنوانوں سے بیان کیے جاتے ہیں۔ لیکن اکثر احمقوں کو اس کی قدر نہیں بجائے احسان ماننے کے ناشکری پر تلے ہوئے ہیں۔

۲:  یعنی مکہ کی سرزمین سے۔ قرآن کے اعجاز سے عاجز ہو کر ایسی دور از کار فرمائشیں کرنے لگتے ہیں۔ غرض استفادہ و انتفاع مقصود نہ تھا محض تعنت و عناد سے کام تھا۔

۹۲۔۔۔  ۱: یہ اس کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ ارشاد ہوا۔ اِن نَّشَاْ نَخْسِفْ بِہِمُ الْاَرْضَ اَوْنُسْقِطْ عَلَیْہِمْ کِسَفًا مِّنَ السَّمَآء۔ (السبا، رکوع۱، آیت:۹)

۲:  یعنی معاذ اللہ خدا خود ہمارے سامنے آ کر کہہ دے اور فرشتے کھلم کھلا شہادت دیں کہ تم سچے ہو۔

۹۳۔۔۔  ۱: یعنی سونے کا نہ ہو تو کم از کم سونے کا ملمع ہو۔

۲:  یعنی جیسے آپ معراج کا ذکر کرتے ہیں ہمارے سامنے آسمان پر چڑھیے پھر وہاں سے ایک کتاب لکھی ہوئی لے کر آئیے جسے ہم خود پڑھ سکیں اور سمجھ سکیں۔

۳:  جیسے پہلے پیغمبر آئے اور وہ آدمی تھی۔ کسی پیغمبر کو خدائی کے اختیارات حاصل نہیں نہ اس کی یہ شان ہے کہ اپنے رب سے ایسی بے ضرورت فرمائشیں کرے۔ ان کا کام یہ ہے کہ جو ادھر سے ملے پہنچا دیں اور اپنے ہر ایک کام کو خدائے واحد کے سپرد کر دیں۔ سو میں اپنا فرض رسالت ادا کر رہا ہوں۔ فرمائشی نشان دکھلانے یا نہ دکھلانے اس کی حکمت بالغہ پر محمول ہیں اور پہلے اسی سورت میں فرمائشی نشانات دکھلانے کی بعض حکمتیں گزر چکی ہیں۔

۴:   یعنی نور ہدایت پہنچنے کے بعد آنکھیں نہ کھلیں یہ ہی کہتے رہے کہ آدمی ہو کر رسول کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر خدا کو پیغمبر بھیجنا تھا تو آسمان سے کوئی فرشتہ اتارتا۔

۹ ۵۔۔۔  یعنی اگر یہ زمین آدمیوں کے بجائے فرشتوں کی بستی ہوتی تو بیشک موزوں ہوتا کہ ہم فرشتہ کو پیغمبر بنا کر بھیجتے۔ آدمیوں کی طرف اگر فرشتہ اس کی اصلی صورت میں بھیجا جائے تو آنکھیں اور دل تحمل بھی نہ کر سکیں، فائدہ اٹھانا تو الگ رہا۔ اور آدمی کی صورت میں آئے تو اشتباہ میں پڑے رہیں اس کی تقریر سورہ انعام کے پہلے رکوع میں گزر چکی۔

۹۶۔۔۔  وہ جو کہتے تھے "اَوْتَاْتِیَ بِاللّٰہِ وَالْمَلٰئِکَۃِ قَبِیْلًا" یعنی خدا سامنے آ کر تصدیق کر دے تب مانیں۔ تو فرمایا کہ خدا اب بھی اپنے فعل سے میری تصدیق کر رہا ہے۔ آخر وہ مجھ کو دیکھتا ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کر رہا ہوں اور میرے ظاہری و باطنی احوال سے پورا خبردار ہے۔ اس پر بھی میرے ہاتھ اور زبان پر برابر وہ علمی و عملی نشانات ظاہر فرماتا رہتا ہے۔ جو خارق عادت اور اس کے عام قانون قدرت سے کہیں بلند و برتر ہیں۔ میرے مقاصد کو یوماً فیوماً کامیاب اور وسیع الاثر بناتا ہے اور تکذیب کرنے والوں کو قدم قدم پر متنبہ کرتا ہے کہ اس رفتار سے تم فلاح نہیں پا سکتے کیا یہ خدا کی طرف سے کھلی ہوئی فعلی شہادت نہیں کہ میں اپنے دعوے میں سچا ہوں؟ کیا ایک مفتری کے ساتھ ایسا معاملہ خدا کا ہو سکتا تھا؟

۹۷۔۔۔  ۱: یعنی خدا کی توفیق و دستگیری ہی سے آدمی راہ حق پر چل کر منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔ جس کی بدبختی اور تعنت کی وجہ سے خدا دستگیری نہ فرمائے اسے کون ہے جو ٹھیک راستہ پر لگا سکے۔

۲:  یہ قیامت کے بعض مواطن میں ہو گا کہ کافر منہ کے بل اندھے گونگے کر کے چلائے جائیں گے۔ حدیث میں ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! منہ کے بل کس طرح چلیں گے فرمایا جس نے آدمی کو پاؤں سے چلایا وہ قادر ہے کہ سر سے چلا دے۔ باقی فرشتوں کا جہنمیوں کو منہ کے بل گھسیٹنا، وہ دوزخ میں داخل ہونے کے بعد ہو گا۔ "یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِیْ النَّارِ عَلیٰ وُجُوھِہِمْ" (القمر، رکوع۳آیت:۴۸)

۳:  یعنی عذاب معین اندازہ سے کم نہیں ہونے دیں گے۔ اگر بدن جل کر تکلیف میں کمی ہونے لگے گی تو پھر نئے چمڑے چڑھا دئیے جائیں گے۔ "کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنَا ہُمْ جُلُوْدًا غَیْرَہَا۔" (نسائ، رکوع۸، آیت:۵۶)

۹۸۔۔۔  یعنی دنیا میں دلیل سے تو نہ مانا تھا، اب آنکھ سے بار بار دیکھ لو کہ کس طرح جل جل کر از سر نو تیار کیے جا رہے ہو۔

۹۹۔۔۔  ۱: یعنی جس نے اتنے بڑے اجسام پیدا کیے، اسے تم جیسی چھوٹی سی چیز کا پیدا کر دینا کیا مشکل ہے۔ "لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ" (مومن، رکوع۶، آیت:۵۷) بیشک وہ تم کو اور تمہارے جیسے سب آدمیوں کو بے تکلف پیدا کر سکتا ہے۔

۲:  یعنی شاید یہ کہو کہ آخر اتنے آدمی مر چکے ہیں وہ اب تک کیوں نہیں اٹھائے گئے۔ تو فرما دیا کہ سب کے واسطے قبروں سے اٹھنے اور دوبارہ زندہ ہونے کا ایک وقت مقرر ہے وہ ضرور آ کر رہے گا۔ تاخیر دیکھ کر انکار کرنا حماقت ہے۔ "وَمَانُؤَخِّرُہٗ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ" (ہود، رکوع۹، آیت:۱۰۴)

۳:  یعنی ایسے واضح مضامین و دلائل سن کر بھی نا انصافوں کے کفر و ضلال اور ناشکری میں ترقی ہی ہوتی ہے، ذرا نہیں پسیجتے۔

۱۰۰۔۔۔  گذشتہ رکوع میں فرمایا تھا "اِلَّا رَحْمَۃً مِّن رَّبِّکَ اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیْرًا قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ اَن یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْآنِ۔ الخ" (خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے آپ پر بہت بڑا فضل کیا ہے کہ قرآن جیسی بے مثال دولت عطا فرمائی) درمیان میں مخالفین کے تعنت و عناد، دور از کار مطالبات، اعراض و تکذیب اور ان کے نتائج کا ذکر کر کے یہاں پھر اسی پہلے مضمون کی طرف عود کیا گیا ہے۔ یعنی ایک بندہ کو ایسی عظیم الشان رحمت اور عدیم النظیر دولت سے سرفراز فرمانا، اسی جوادِ حقیقی اور وہابِ مطلق کی شان ہو سکتی ہے جس کے پاس رحمت کے غیر متناہی خزانے ہوں۔ اور کسی مستحق کو زیادہ سے زیادہ دینے میں نہ اس کو اپنے تہی دست رہ جانے کا خوف ہو، نہ اس کا اندیشہ کہ دوسرا ہم سے لے کر کہیں مدمقابل نہ بن جائے یا آگے چل کر ہمیں دبا نہ لے۔ خداوند قدوس تُھڑدلے انسان کی طرح (العیاذ باللہ) تنگ دل واقع نہیں ہوا، جسے اگر فرض کرو خزائن رحمت کا مالک مختار بنا دیا جائے تب بھی اپنی طبیعت سے بخل و تنگ دلی نہ چھوڑے اور کسی مستحق کو دینے سے اس لیے گھبرائے کہ کہیں سارا خرچ نہ ہو جائے اور میں خالی ہاتھ نہ رہ جاؤں یا جس پر آج خرچ کرتا ہوں کل میری ہمسری نہ کرنے لگے۔ بہرحال اگر رحمت الٰہیہ کے خزانے تمہارے قبضہ میں ہوتے تو تم کسے دینے والے تھے اور کہاں گوارا کر سکتے تھے کہ مکہ و طائف کے بڑے متکبر دولت مندوں کو چھوڑ کر وحی و نبوت کی یہ بیش بہا دولت "بنی ہاشم" کے ایک در یتیم کو مل جائے۔ یہ حق تعالیٰ کا فیض ہے کہ جس میں جیسی استعداد و قابلیت دیکھی اس کے مناسب کمالات و انعامات کے خزانے انڈیل دیے۔ تمہارے تعنت و تعصب سے خدا کا فضل رکنے والا نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے طفیل میں جو خزائن آپ کے اتباع کو ملنے والے ہیں مل کر رہیں گے اور پیغمبر علیہ السلام اور ان کے پیرو دریا دلی سے اس دولت کو بنی نوع انسان پر خرچ کریں گے تمہاری طرح تنگ دلی نہیں دکھائیں گے۔

۱۰۱۔۔۔   ۱: یعنی جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو فضل و رحمت سے قرآن عظیم دیا اور بہت کچھ مہربانیاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر فرمائیں، ہم پہلے موسیٰ علیہ السلام کو صداقت کے نو کھلے ہوئے نشانات (معجزات) ان کے مناسب حال عنایت فرما چکے ہیں جب کہ وہ "بنی اسرائیل" کے پاس فرعون کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے تشریف لائے تھے۔ اگر چاہو تو "بنی اسرائیل" کے باخبر اور منصف مزاج علماء سے پوچھ دیکھو کہ یہ واقعہ کہاں تک صحیح ہے۔

(تنبیہ) وہ نو معجزات یہ ہیں ید بیضا، عصا، سنین، نقص ثمرات، طوفان، جراد، قمل، ضفادِع، دم۔ سورہ "اعراف" آیت "فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ ا لطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ" الخ کے فوائد میں ہم اس کی تفصیل کر چکے ہیں ملاحظہ کر لی جائے۔ مسند احمد اور ترمذی وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ یہود نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے "تسع آیات" کے متعلق سوال کیا آپ نے فرمایا وہ یہ احکام ہیں: شرک نہ کرو، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، ناحق خون مت کرو، جادو نہ کرو، سود مت کھاؤ، بے گناہ کو مت پکڑواؤ کہ حاکم اسے قتل کر دے، عفیف عورتوں پر تہمت نہ لگاؤ، جہاد میں سے مت بھاگو۔ نو حکم تو یہ ہوئے جن کے سب لوگ مخاطب ہو سکتے ہیں۔ دسواں حکم (اے یہود) تمہارے لیے مخصوص تھا کہ سبت (شنبہ) کے دن حد سے نہ گزرو۔ یہود نے سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کی۔ حافظ عماد الدین ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں نکارت ہے جو غالباً اس کے راوی عبد اللہ بن سلمہ کی طرف سے آئی ہے۔ قرآن کا نظم و سیاق ہرگز اس کو نہیں چاہتا کہ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسیٰ تِسْعَ ایٰاتٍ" الخ سے مراد یہ نو احکام لیے جائیں۔ آگے فرعون اور موسیٰ کا مکالمہ جو "فقال لہ" سے نقل فرمایا، مقتضی ہے کہ "آیات" سے وہ نشانات مراد ہوں جو بطور دلائل و حجج کے فرعونیوں کو دکھلائے گئے تھے، چنانچہ لفظ بصآئر بھی انہی پر زیادہ چسپاں ہوتا ہے اور پہلے سے اہل مکہ کے تعنت اور آیات طلب کرنے کا جو ذکر آ رہا ہے اس کے مناسب بھی یہ ہی ہے کہ یہاں فرعونیوں کا تعنت آیات کونیہ کے متعلق دکھلایا جائے۔ بہرحال ابن کثیر کا خیال یہ ہے کہ یہود نے سوال شاید "تسع آیات" کی نسبت نہیں بلکہ ان دس آیات کی نسبت کیا ہو گا جو تورات کے شروع میں بطور و صایا لکھے جاتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں دس ہی چیزیں مذکور ہیں۔ راوی حدیث کو التباس و اشتباہ ہو گیا، اس نے "کلمات عشر" کی جگہ "تسع آیات" کو ذکر کر دیا۔ اور ممکن ہے سوال "آیات تسعہ" سے کیا گیا ہو۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب علی اسلوب الحکیم دیا۔ گویا تنبیہ کر دی کہ نو معجزات کا معلوم کرنا تمہارے حق میں چنداں مفید اور اہم نہیں بلکہ ان دس احکام کا یاد رکھنا زیادہ اہم ہے۔ واللہ اعلم۔

۲:  یعنی کسی نے تجھ پر جادو کر دیا ہے جس سے معاذ اللہ عقل خراب ہو گئی۔ اسی لیے بہکی بہکی باتیں کرتا ہے دوسری جگہ ہے "اِنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذِیْ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ" (شعراء، رکوع۲، آیت:۲۷) گویا مسحور سے مراد مجنون ہے اور بعض نے مسحور کو بمعنی ساحر لیا ہے۔ واللہ اعلم۔

۱۰۲۔۔۔  یعنی گو زبان سے انکار کرتا ہے مگر تیرا دل خوب جانتا ہے کہ یہ عظیم الشان نشان تیری آنکھیں کھولنے کے لیے اسی خدائے قادر و توانا نے دکھلائے ہیں جو آسمان و زمین کا سچا مالک ہے۔ اب جو شخص جان بوجھ کر محض ظلم و تکبر کی راہ سے حق کا انکار کرے اس کی نسبت بجز اس کے کیا خیال کیا جا سکتا ہے کہ تباہی کی گھڑی اس کے سر پر آپہنچی۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ "ایمان" جاننے کا نام نہیں، ماننے کا نام ہے۔ "وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا" (النمل، رکوع۱، آیت۱۴)

۱۰۳۔۔۔  جب فرعون نے دیکھا کہ موسیٰ کا اثر بڑھتا جاتا ہے۔ سمجھا کہ بنی اسرائیل کہیں زور نہ پکڑ جائیں اس لیے ان کو اور زیادہ ستانا شروع کیا کہ یہ مصر میں امن چین سے رہنے نہ پائیں۔ آخر ہم نے اسی کو نہ رہنے دیا اور بحر قلزم میں سب ظالموں کا بیڑہ غرق کر دیا۔

۱۰۴۔۔۔  یعنی خدا نے ظالم کی جڑ کاٹ دی اور تم کو غلامی سے نجات دی۔ اب مصر و شام میں جہاں چاہو آزادی سے رہو۔ جب قیامت آئے گی پھر ایک مرتبہ تم سب کو اور تمہارے تباہ شدہ دشمنوں کو اکٹھا کر کے شقی و سعید اور ہالک و ناجی کا دائمی فیصلہ کر دیا جائے گا۔

۱۰ ۵۔۔۔  ۱: موسیٰ علیہ السلام کے معجزات وغیرہ کا ذکر فرما کر روئے سخن پھر قرآنِ کریم کی طرف پھیر دیا گیا۔ یعنی معجزاتِ موسوی بجائے خود تھے، لیکن محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جو معجزات باہرہ عطا ہوئے ان میں سب سے بڑا علمی معجزہ یہ قرآن کریم ہے جو ہم نے عین حکمت کے موافق، اپنے علم عظیم اور اعلیٰ درجہ کی سچائی پر مشتمل کر کے اتارا ہے اور ٹھیک اسی سچائی کے ساتھ وہ آپ تک پہنچ گیا، درمیان میں ادنیٰ ترین تغیر و تبدل بھی نہیں ہوا۔ "فَاعْلَمُوْآ اَنَّمَا اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰہِ وَاَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ" (ہود، رکوع۲، آیت:۱۴)

۲:  یعنی ماننے والوں کو خوشخبری اور نہ ماننے والوں کو عذاب الٰہی کی دھمکی سنا دیجئے۔

۱۰۶۔۔۔  انزالِ قرآن سے مقصود اصلی مطلب سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے جسے تدبر و تذکر کہتے ہیں۔ لیکن اس کے نفس الفاظ و حروف بھی نور و برکت سے خالی نہیں۔ "کِتَابٌ اَنْزَلْنَاہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا ایٰتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوْا الْاَلْبَابِ" (ص، رکوع۳، آیت:۲۹) اسی لیے سورتیں اور آیتیں جدا جدا رکھیں تاکہ وظیفہ کے طور پر تلاوت کرنا بھی سہل ہو اور سننے والوں کے لیے حفظ و فہم میں بھی آسانی رہے۔ اور آہستہ آہستہ اس لیے اتارا کہ جیسے حالات پیش آئیں ان کے مناسب ہدایات حاصل کرتے رہیں۔ تاکہ وہ جماعت جسے آگے چل کر تمام دنیا کا معلم بننا تھا ہر آیت و حکم کے موقع محل کو بخوبی ذہن نشین کر کے یاد رکھ سکے اور آنے والی نسلوں کے لیے کسی آیت کے بے موقع استعمال کرنے کی گنجائش نہ چھوڑے۔

۱۰۸۔۔۔  یعنی مانو یا نہ مانو، قرآن کی حقانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق وہ منصف مزاج اہل علم کر رہے ہیں جنہیں کتب سابقہ کی بشارات سے آگاہی ہے، وہ اس کلام کو سن کر ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں کہ سبحان اللہ کیا عجیب و غریب کلام ہے۔ بیشک خدا کا وعدہ پورا ہونا تھا جو موسیٰ علیہ السلام کی زبانی تورات کتاب استثناء میں کیا گیا تھا کہ "(اے بنی اسرائیل) میں تمہارے بھائیوں (بنی اسماعیل) میں سے ایک نبی اٹھاؤں گا جس کے منہ میں اپنا کلام ڈالوں گا، بلاشبہ وہ یہ ہی کلام ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں ڈالا گیا۔ جب اہل علم کو قرآن کی تصدیق سے چارہ نہیں رہا، تب انکار کرنا جاہل کا کام ہے۔

۱۰۹۔۔۔  یعنی قرآن کو سن کر رقت طاری ہو جاتی ہے سجدہ کرتے ہیں تو اور عاجزی بڑھتی ہے۔ اذقان (ٹھوڑیوں) کے لفظ میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ سجود میں بہت زیادہ مبالغہ کرتے ہیں گویا ٹھوڑیاں بھی زمین سے ملا دیتے ہیں، یا محض سجود علی الوجہ سے کنایہ ہو۔ واللہ اعلم۔

۱۱۰۔۔۔   ۱: سجود و خشوع وغیرہ کی مناسبت سے یہاں دعا، (خدا کو پکارنے) کا اور دعاء کی مناسبت سے اگلی آیت میں صلوٰۃ کا ذکر کیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے ناموں میں سے مشرکین عرب کے یہاں اسم "اَللّٰہ" کا استعمال زیادہ تھا۔ اسم "رحمن" سے چنداں مانوس نہ تھے۔ البتہ یہود کے یہاں اسم "رحمن" بکثرت مستعمل ہوتا تھا۔ عبرانی میں بھی یہ نام اسی طرح تھا جیسے عربی میں۔ دوسری طرف مسیلمہ کذاب نے اپنا لقب "رحمان الیمامہ" رکھ چھوڑا تھا۔ غرض مشرکین حق تعالیٰ پر اسم "رحمن" اطلاق کرنے سے بدکتے اور وحشت کھاتے تھے۔ چنانچہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے "رحمان" سنتے تو کہتے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہم کو تو دو خداؤں کا پکارنے سے منع کرتے ہیں اور خود اللہ کے سوا دوسرے خدا (رحمان) کو پکارتے ہیں۔ یہود کو یہ شکایت تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے یہاں "رحمان" کا ذکر ایسی کثرت سے کیوں نہیں ہوتا جس طرح ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ دونوں کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے کہ "اَللّٰہ" اور "رحمن" ایک ہی ذات منبع الکمالات کے دو نام ہیں۔ صفات و اسماء کے تعدد سے ذات کا تعدد لازم نہیں ہوتا۔ جو یہ چیز توحید کے منافی سمجھی جائے۔ رہی یہ بات کہ کسی ایک نام کا ذکر کثرت سے کیوں نہیں ہوتا تو سمجھ لو کہ اللہ کے جس قدر اسمائے حسنیٰ ہیں ان میں سے کوئی نام لے کر پکارو مقصود ایک ہی ہے۔ عنوانات و تعبیرات کے تنوع سے معنون نہیں بدلتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر سخن وقتے و ہر نکتہ مکانے وارد  عِبَارَا تُنَاشَتَّی وَحُسْنُکَ وَاحِدٌ وَکُلٌّ اِلیٰ ذَاکَ الْجَمَالِ یُشِیْرُ۔

۲:  یعنی جہری نماز میں (اور اسی طرح دعاء وغیرہ میں) بہت زیادہ چلاّنا بھی نہیں اور بالکل دبی آواز بھی نہیں بیچ کی چال پسند ہے (موضح القرآن) احادیث میں ہے کہ مکہ میں جب قرأت زور سے کی جاتی تو مشرکین سن کر قرآن اور اس کے بھیجنے والے اور لانے والے کی شان میں بدزبانی کرتے تھے۔ اس لیے آپ نے بہت آہستہ پڑھنا شروع کر دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی نہ اس قدر زور سے پڑھو کہ مشرکین اپنی مجالس میں سنیں (تبلیغ کا وقت مستثنیٰ ہے کیونکہ وہاں تو سنانا ہی مقصود ہے) اور نہ اتنا آہستہ کہ خود تمہارے ساتھی بھی سن کر مستفید نہ ہو سکیں۔ افراط و تفریط چھوڑ کر میانہ روی اختیار کرو۔ اس سے قلب متاثر ہوتا ہے اور تشویش نہیں ہوتی۔

۱۱۱۔۔۔  نماز کے بعد توحید خالص کا ذکر فرما کر سورت کو ختم کیا۔ یعنی ساری خوبیاں اور تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو اپنی ہر صفت و کمال میں یگانہ ہے اور ہر قسم کے عیب وقصور اور نقص و فتور سے بکلی منزہ ہے۔ یا مساوی سے جیسے ایک شریک کو دوسرے شریک سے مدد پہنچتی ہے۔ یا بڑے سے۔ جس طرح کمزور آدمی ذلت و مصیبت کے وقت بڑے آدمیوں سے مدد لیتے ہیں۔ اس آیت میں تینوں کی نفی کر دی۔ گویا "لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا" میں پہلے احتمال کی "لَمْ یَکُن لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ" میں دوسرے کی، اور "لَمْ یَکُن لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ" میں تیسرے کی نفی کرنے کے بعد "کَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا" میں اس کی عظمت و کبریائی کی طرف متوجہ فرما دیا۔ یعنی انسان کو چاہیے کہ حق تعالیٰ کی بڑائی کا زبان و دل سے اقرار کرے اور ہر طرح کی کمزوریوں سے رفیع و برتر سمجھے۔ اور لطیف یہ ہے کہ "لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا" میں نصاریٰ کا، "لَمْ یَکُن لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ" میں مشرکین کا اور "وَلَمْ یَکُن لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ"میں ان یہود کا رد ہو گیا جن کے یہاں خدا تعالیٰ کشتی میں یعقوب علیہ السلام کے مقابلہ کی تاب نہیں لا سکا (العیاذ باللہ) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "کوئی مددگار نہیں ذلت کے وقت۔ یعنی اس پر کبھی ذلت ہی نہیں کہ مددگار چاہے۔ بادشاہوں کے ہاں امیر زیر پڑ جاتے ہیں اس لیے کہ برے وقت ان کی رفاقت کیے ہوتے ہیں۔ وہاں یہ قصہ ہی نہیں۔ "تم سورۃ الاسراء بعون اللّٰہ وحسن توفیقہ فللّٰہ الحمد والمنۃ والصلوٰۃ والسلام علیٰ صاحب الاسراء وعلی آلہ وصحبہ۔