اس کا مضمون سورۂ شمس سے اِس قدر مشابہ ہے کہ یہ دونوں سورتیں ایک دوسرے کی تفسیر محسوس ہوتی ہیں ۔ ایک ہی بات ہے جسے سورۂ شمس میں ایک طریقہ سے سمجھایا گیا ہے اور اِس سورہ میں دوسرے طریقے سے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں قریب قریب ایک ہی زمانے میں نازل ہو ئی ہیں۔ موضوع اور مضمون اِس کا موضوع زندگی کے دو مختلف راستوں کا فرق اور ان کے انجام اور نتائج کا اختلاف بیان کرنا ہے۔ مضمون کے لحاظ سے یہ سورۃ دو حصّوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصّہ آغاز سے آیت ۱۱ تک ہے، اور دوسرا حصّہ آیت ۱۲ سے آخر تک۔
پہلے حصّہ میں سب سے پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ نوع انسانی کے افراد، اقوام اور گروہ دنیا میں جو سعی و عمل بھی کر رہے ہیں ، وہ لازماً اپنی اخلاقی نوعیت کے لحاظ سے اُسی طرح مختلف ہیں جس طرح دن رات سے اور نر مادہ سے مختلف ہے۔ اِس کے بعد قرآن کی مختصر سورتوں کے عام انداز بیان کے مطابق تین اخلاقی خصوصیات ایک نوعیت کی، اور تین اخلاقی خصوصیات دوسری نوعیت کی سعی و عمل کے ایک وسیع مجموعے میں سے لے کر بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں جنہیں سن کر ہر شخص بڑی آسانی کے ساتھ یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ایک قسم کی خصوصیات کس طرزِ زندگی کی نمائندگی کرتی ہیں اور دوسری قسم کی خصوصیات اُس کے بر عکس کس دوسرے طرزِ زندگی کی علامات ہیں۔ یہ دونوں نمونے ایسے چھوٹے چھوٹے خوبصورت جچے تُلے فقروں میں بیان کیے گئے ہیں کہ سنتے ہی آدمی کے دل میں اتر جائیں اور زبان پر چڑھ جائیں۔ پہلی قسم کی خصوصیات یہ ہیں کہ آدمی مال دے، خدا ترسی و پرہیز گاری اختیار کرے اور بھلائی کو بھلائی مانے۔ دوسری قسم کی خصوصیات یہ ہیں کہ وہ بخل کرے، خدا کی رضا اور ناراضی کی فکر سے بے پروا ہو جائے اور بھلی بات کو جھُٹلا دے۔ پھر بتایا گیا کہ یہ دو طرزِ عمل جو صریحاً ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اپنے نتائج کے اعتبار سے ہر گز یکساں نہیں ہیں، بلکہ جس قدر یہ اپنی نوعیت میں متضاد ہیں اسی قدر اِن کے نتائج بھی متضاد ہیں۔ پہلے طرزِ عمل کو جو شخص یا گروہ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے زندگی کے صاف اور سیدھے راستے کو سہل کر دے گا یہاں تک کہ اس کے لیے نیکی کرنا آسان اور بدی کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اور دوسرے طرزِ عمل کو جو بھی اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے زندگی کے بِکَٹ اور سخت راستے کو سہل کر دے گا یہاں تک کہ اس کے لیے بد آسان اور نیکی مشکل ہو جائے گی۔ اِس بیان کو ایک نہایت مؤثر اور تیر کی طرح دل میں پیوست ہو جانے والے جملے پر ختم کیا گیا ہے کہ دنیا کا یہ مال جس کے پیچھے آدمی جان دیے دیتا ہے، آخر قبر میں تو اُس کے ساتھ جانے والا نہیں ہے، مرنے کے بعد یہ اُس کے کس کام آئے گا؟
دوسرے حصّے میں بھی اِسی اختصار کے ساتھ تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ نے دنیا کی اِس امتحان گاہ میں انسان کو بے خبر نہیں چھوڑا ہے بلکہ اُس نے یہ بتا دینا اپنے ذمّہ لیا ہے کہ زندگی کے مختلف راستوں میں سے سیدھا راستہ کون سا ہے۔ اس کے ساتھ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ اپنا رسول اور اپنی کتاب بھیج کر اُس نے اپنی یہ ذمہ داری ادا کر دی ہے، کیونکہ رسول ؐ اور قرآن، دونوں ہدایت دینے کے لیے سب کے سامنے موجود تھے۔ دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کا مالک اللہ ہی ہے۔ دنیا مانگو گے تو بھی اسی سے ملے گی اور آخرت مانگو گے تو اس کا دینے والا بھی وہی ہے۔ یہ فیصلہ کرنا تمہارا اپنا کام ہے کہ تم اُس سے کیا مانگتے ہو۔ تیسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ جو بدبخت اُس بھلائی کو جھُٹلائے گا جسے رسول اور کتاب کے ذریعہ سے پیش کیا جا رہا ہے، اور اُس سے منہ پھیرے گا اُس کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار ہے۔ اور جو خدا ترس آدمی پوری بے غرضی کے ساتھ محض اپنے ربّ کی رضا جوئی کی خاطر اپنا مال راہِ خیر میں صرف کرے گا اُس کا ربّ اُس سے راضی ہو گا اور اسے اتنا کچھ دے گا کہ وہ خوش ہو جائے گا۔
1: یہ وہ بات جس پر رات اور دن اور نر و مادہ کی پیدائش کی قسم کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح رات اور دن اور نر اور مادہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اور ان میں سے ہر دو کے آثار و نتائج باہم متضاد ہیں، اسی طرح تم لوگ جن راہوں اور مقاصد میں اپنی کوششیں صرف کر رہے ہو وہ بھی اپنی نوعیت کے لحاظ سے مختلف اور اپنے نتائج کے اعتبار سے متضاد ہیں۔ اس کے بعد کی آیات میں بتایا گیا کہ یہ تمام مختلف کوششیں دو بڑی اقسام میں تقسیم ہوتی ہیں۔
2: یہ انسانی مساعی کی ایک قسم ہے جس میں تین چیزیں شمار کی گئی ہیں اور غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام خوبیوں کی جامع ہیں۔ ایک یہ کہ انسان زر پرستی میں مبتلا نہ ہو بلکہ کھلے دل سے اپنا مال، جتنا کچھ بھی اللہ نے اُسے دیا ہے، اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے میں ، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ، اور خلق خدا کی مدد کرنے میں صرف کرے۔ دوسرے یہ کہ اس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور وہ اخلاق، اعمال، معاشرت، معیشت، غرض اپنی زندگی کے ہر شعبے میں اُن کاموں سے پرہیز کرے جو خدا کی ناراضی کے موجب ہوں۔ تیسرے یہ کہ وہ بھلائی کی تصدیق کرے۔ بھلائی ایک وسیع المعنیٰ لفظ ہے جس میں عقیدے، اخلاق، اعمال، تینوں کی بھلائی شامل ہے۔ عقیدے میں بھلائی کی تصدیق یہ ہے کہ آدمی شرک اور دہریت اور کفر کو چھوڑ کر توحید، آخرت اور رسالت کو برحق مانے۔ اور اخلاق و اعمال میں بھلائی کی تصدیق یہ ہے کہ آدمی سے بھلائیوں کا صدور محض بے شعوری کے ساتھ کسی متعیّن نظام کے بغیر نہ ہو رہا ہو، بلکہ وہ خیر و صلاح کے اُس نظام کو صحیح تسلیم کرے جو خدا کی طرف سے دیا گیا ہے، جو بھلائیوں کو اُن کی تمام اشکال اور صورتوں کے ساتھ ایک نظم میں منسلک کرتا ہے، جس کا جامع نام شریعتِ الہٰیہ ہے۔
3: یہ ہے مساعی کی اِس قسم کی نتیجہ۔ آسان راستہ سے مراد وہ راستہ ہے جو انسان کی فرت کے مطابق ہے، جو اُس خالق کی مرضی کے مطابق ہے جس نے انسان کو اور ساری کائنات کو بنایا ہے، جس میں انسان کو اپنے ضمیر سے لڑ کر نہیں چلنا پڑتا، جس میں انسان اپنے جسم و جان اور عقل و ذہن کی قوتوں پر زبر دستی کر کے اُن سے وہ کام نہیں لیتا جس کے لیے یہ طاقتیں اُس کو نہیں بخشی گئی ہیں بلکہ وہ کام لیتا ہے جس کے لیے درحقیقت یہ اُس کو بخشی گئی ہیں، جس میں انسان کو ہر طرف اُس جنگ، مزاحمت اور کشمکش سے سابقہ پیش آتا ہے جو گناہوں سے بھری ہوئی زندگی میں پیش آتا ہے، بلکہ انسانی معاشرے میں ہر قدم پر اس کو صلح و آتشی اور قدر و منزلت میسّر آتی چلی جاتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جو آدمی اپنا مال خلق خدا کی بھلائی کے لیے استعمال کر رہے ہو، جو ہر ایک سے نیک سلوک کر رہا ہو، جس کی زندگی جرائم، فسق و فجور اور بد کرداری سے پاک ہو، جو اپنے معاملات میں کھرا اور راستباز ہو، جو کسی کے ساتھ بے ایمانی، بد عہدی اور بے وفائی نہ کرے، جس سے کسی کو خیانت، ظلم اور زیادتی کا اندیشہ نہ ہو، جو ہر شخص کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے اور کسی کو اس کی سیرت و کردار پر انگلی رکھنے کا موقع نہ ملے، وہ خواہ کیسے ہی بگڑے ہوئے معاشرے میں رہتا ہو، بہر حال اس کی قدر ہو کر رہتی ہے، اُس کی طرف دل کھنچتے ہیں، نگاہوں میں اس کی عزت قائم ہو جاتی ہے، اُس کا اپنا قلب و ضمیر بھی مطمئن ہوتا ہے اور معاشرے میں بھی اُس کو وہ وقار حاصل ہوتا ہے جو کبھی کسی بد کردار آدمی کو حاصل نہیں ہوتا۔ یہی بات ہے جو سورۂ نحل میں فرمائی گئی ہے کہ مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَکَرٍا اَوْ اُنْثیٰ وَھُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰو ۃً طَیِّبَۃً۔ جو شخص نیک عمل کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن، اسے ہم اچھی زندگی بسر کرائیں گے ‘‘(آیت ۹۷)۔ اور اسی بات کو سورۂ مریم میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُو ا ا لصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّ حْمٰنُ وُدّاً۔ ’’ یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے رحمان اُن کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا‘‘(آیت ۹۶)۔ پھر یہی وہ راستہ ہے جس میں دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کے لیے سُرور ہی سُرور اور راحت ہی راحت ہے۔ اِس کے نتائج عارضی اور وقتی نہیں بلکہ ابدی اور لازوال ہیں۔ اِس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم اُسے اِس راستے پر چلنے کے لیے سہولت دیں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ بھلائی کی تصدیق کر کے یہ فیصلہ کر لے گا کہ یہی راستہ میرے لائق ہے اور برائی کا راستہ میرے لائق نہیں ہے، اور جب وہ عملاً مالی ایثار اور تقویٰ کی زندگی اختیار کر کے یہ ثابت کر دے گا کہ اُس کی یہ تصدیق سچی ہے، تو اللہ تعالیٰ اِس راستے پر چلنا اُس کے لیے اُس کے لیے سہل کر دے گا۔ اُس کے لیے پھر گناہ کر نا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جائے گا۔ مالِ حرام اُس کے سامنے آئے گا تو وہ یہ نہیں سمجھے گا کہ یہ نفع کا سودا ہے بلکہ اسے یوں محسوس ہو گا کہ یہ آگ کا انگارہ ہے جسے وہ ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ بدکاری کے مواقع اس کے سامنے آئیں گے تو وہ اُنہیں لطف اور لذّت حاصل کرنے کے مواقع سمجھ کر ان کی طرف نہیں لپکے گا بلکہ جہنّم کے دروازے سمجھ کر اُن سے دُور بھاگے گا۔ نماز اُس پر گراں نہ ہوں گی بلکہ اُسے چین نہیں پڑے گا جب تک وقت آنے پر وہ اس کو ادا نہ کر لے۔ زکوٰۃ دیتے ہوئے اس کا دل نہیں دُکھّے گا بلکہ اپنا مال اسے ناپاک محسوس ہو گا جب تک وہ اس میں سے زکوٰۃ نکال نہ دے۔ غرض ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کو اِس راستے پر چلنے کو توفیق و تائید ملے گی، حالات کو اُس کے لیے سازگار بنا یا جائے گا، اور اُس کی مدد کی جائے گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِس سے پہلے سورۂ بلد میں اِسی راستے کو دشوار گزار گھاٹی کہا گیا ہے اور یہاں اس کو آسان راستہ قرار دیا گیا ہے۔ اِن دونوں باتوں میں تطبیق کیسے ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اِس راہ کو اختیار کر نے سے پہلے یہ آدمی کو دشوار گزار گھاٹی ہی محسوس ہوتی ہے جس پر چڑھنے کے لیے اُسے اپنے نفس کی خواہشوں سے، اپنے دنیا پرست اہل و عیال سے، اپنے رشتہ داروں سے، اپنے دوستوں اور معاملہ داروں سے، اور سب سے بڑھ کر شیطان سے لڑنا پڑتا ہے، کیونکہ ہر ایک اِس میں رکاوٹیں ڈالتا ہے اور اس کو خوفناک بنا کر دکھاتا ہے۔ لیکن جب انسان بھلائی کی تصدیق کر کے اُس پر چلنے کا عزم کر لیتا ہے اور اپنا مال راہِ خدا میں دے کر اور تقویٰ کا طریقہ اختیار کر کے عملاً اِس عزم کو پختہ کر لیتا ہے تو اِس گھاٹی پر چڑھنا اس کے لیے آسان اور اخلاقی پستیوں کے کھڈ میں لُڑھکنا اُس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
4: یہ انسانی مساعی کی دوسری قسم ہے جو اپنے ہر جُز میں پہلی قسم کے ہر جُز سے مختلف ہے۔ بُخل سے مُراد محض وہ بخل نہیں ہے جس کے لحاظ سے عام طور پر لوگ اُس آدمی کو بخیل کہتے ہیں جو روپیہ جوڑ جوڑ کر رکھتا ہے اور اسے نہ اپنے اوپر خرچ کرتا ہے نہ اپنے بال بچوں پر، بلکہ اِس جگہ بخل سے مراد راہِ خدا میں اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مال صرف نہ کرنا ہے اور اس لحاظ سے وہ شخص بھی بخیل ہے جو اپنی ذات پر، اپنے عیش و آرام پر، اپنی دلچسپیوں اور تفریحوں پر تو خوب دل کھول کر مال لٹاتا ہے، مگر کسی نیک کام کے لیے اس کی جیب سے کچھ نہیں نکلتا، یا اگر نکلتا بھی ہے تو یہ دیکھ کر نکلتا ہے کہ اس کے بدلے میں اس کو شہرت، نام و نمود، حُکّام رسی، یا کسی اور قسم کی منفعت حاصل ہو گی۔ بے نیازی برتنے سے مراد یہ ہے کہ آدمی دنیا کے مادّی فائدوں ہی کو اپنی ساری تگ و دو اور محنت و کوشش کا مقصود بنا لے اور خدا سے بالکل مستغنی ہو کر اس بات کی کچھ پروا نہ کرے کہ کس کام سے وہ خوش اور کس کام سے وہ ناراض ہوتا ہے۔ رہا بھلائی کر جھُٹلانا، تو وہ اپنی تمام تفصیلات میں بھلائی کو سچ ماننے کی ضد ہے، اس لیے اس کی تشریح کی حاجت نہیں ہے، کیونکہ بھلائی کی تصدیق کا مطلب ہم واضح کر چکے ہیں۔
5: اس راستے کو سخت اس لیے کہا گیا ہے کہ اُس پر چلنے والا اگرچہ مادّی فائدوں اور دنیوی لذّتوں اور ظاہری کامیابیوں کے لالچ میں اِس کی طرف جاتا ہے، لیکن اِس میں ہر وقت اپنی فطرت سے، اپنے ضمیر سے، خالقِ کائنات کے بنائے ہوئے قانون سے، اور اپنے گرد و پیش کے معاشرے سے اُس کی جنگ برپا رہتی ہے۔ صداقت، دیانت، امانت، شرافت اور عفت و عصمت کی اخلاقی حدوں کو توڑ کر جب وہ ہر طریقے سے اپنی اغراض اور خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب اس کی ذات سے خلق خدا کو بھلائی کے بجائے برائی ہی پہنچتی ہے، اور جب وہ دوسروں کے حقوق اور ان کی عزتوں پر دست درازیاں کرتا ہے، تو اپنی نگاہ میں وہ خود ذلیل و خوار ہوتا ہے اور جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اُس سے بھی قدم قدم پر لڑ کر اُسے آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ اگر وہ کمزور ہو تو اِس روش کی بدولت اُسے طرح طرح کی سزائیں بھگتنی ہوتی ہیں، اور اگر وہ مال دار، طاقتور اور با اثر ہو، تو چاہے دنیا اُس کے زور کے آگے دب جائے لیکن کسی کے دل میں اس کے لیے خیر خواہی، عزّت اور محبت کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا، حتیٰ کہ اس کے شریک کار بھی اُس کو خبیث آدمی ہی سمجھتے ہیں۔ اور یہ معاملہ صرف افراد ہی تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتور قومیں بھی جب اخلاق کے حدود پھاند کر اپنی طاقت اور دولت کے زعم میں بدکرداری کا رویّہ اختیار کرتی ہیں، تو ایک طرف باہر کی دنیا اُن کی دشمن ہو جاتی ہے، اور دوسری طرف خود اُن کا اپنا معاشرہ جرائم، خودکشی، نشہ بازی، امراض خبیثہ، خاندانی زندگی کی تباہی، نوجوان نسلوں کی بد راہی، طبقاتی کشمکش، اور ظلم و جَور کی روز افزوں و با سے دوچار ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ بامِ عروج سے گرتی ہے تو دنیا کی تاریخ میں اپنے لیے لعنت اور پھِٹکار کے سوا کوئی مقام چھوڑ کر نہیں جاتی۔ اور یہ جو فرمایا گیا کہ ایسے شخص کو ہم سخت راستے پر چلنے کی سہولت دیں گے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس سے بھلائی کے راستے پر چلنے کی توفیق سلب کر لی جائے گی، برائی کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جائیں گے، اُسی کے اسباب اور وسائل اس کے لیے فراہم کر دیے جائیں گے، بدی کرنا اس کے لیے آسان ہو گا اور نیکی کرنے کے خیال سے اس کو یوں محسوس ہو گا کہ جیسے اس کی جان پر بن رہی ہے۔ یہی کیفیت ہے جسے دوسری جگہ قرآن میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ’’جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کر دیتا ہے اور ایسا بھینچتا ہے کہ (اسلام کا تصور کرتے ہی اسے یوں محسوس ہونے لگتا ہے ) جیسے اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے ‘‘(الانعام، آیت ۱۲۵)۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے ’’بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر فرماں بردار بندوں کے لیے نہیں ‘‘(البقرہ، آیت ۴۶)۔ اور منافقین کے متعلق فرمایا ’’وہ نماز کی طرف آتے بھی ہیں تو کَسْمَساتے ہوئے آتے ہیں اور راہِ خدا میں خرچ کرتے بھی ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں ‘‘(التوبہ، آیت۵۴)۔ اور یہ کہ ’’ان میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو راہِ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اُسے اپنے اوپر زبردستی کی چَٹّی سمجھتے ہیں ‘‘(التوبہ، آیت ۹۸)۔
6: دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ ایک روز اُسے بہر حال مرنا ہے اور وہ سب کچھ دنیا ہی میں چھوڑ جانا ہے جسے اُس نے یہاں اپنے عیش کے لیے فراہم کیا تھا۔ اگر اپنی آخرت کے لیے کچھ کما کر وہ ساتھ نہ لے گیا تو یہ مال اس کے کس کام آئے گا؟ قبر میں تو وہ کوئی کوٹھی، کوئی موٹر، کوئی جائداد اور کوئی جمع پونجی لے کر نہیں جائے گا۔
7: یعنی انسان کا خالق ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی حکمت، اپنے عدل اور اپنی رحمت کی بنا پر اِس بات کا ذمّہ لیا ہے کہ اُس کو دنیا میں بے خبر نہ چھوڑے بلکہ اسے یہ بتا دے کہ راہِ راست کون سی ہے اور غلط راہیں کون سی، نیکی کیا ہے اور بدی کیا، حلال کیا ہے اور حرام کیا، کون سی روش اختیار کر کے وہ فرمانبردار بند ہ بنے گا اور کون سا رویّہ اختیار کر کے بندۂ نافرمان بن جائے گا۔ یہی بات ہے جسے سُورۂ نحل میں یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ وَعَلَی اللہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْھَا جَآ ئِرٌ (آیت ۹)۔ ’’اور اللہ ہی کے ذمّہ ہے سیدھا راستہ بتانا جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں ‘‘۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل، حاشیہ ۹)۔
8: اس ارشاد کے کئی مفہوم ہیں اور وہ سب صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا سے آخرت تک تم کہیں بھی ہماری گرفت سے باہر نہیں ہو، کیونکہ دونوں جہانوں کے ہم ہی مالک ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہماری مِلکیت دنیا اور آخرت دونوں پر بہر حال قائم ہے خواہ تم ہماری بتائی ہوئی راہ پر چلو یا نہ چلو۔ گمراہی اختیار کرو گے تو ہمارا کچھ نہ بگاڑ و گے، ، اپنا ہی نقصان کر لو گے، اور راہِ راست اختیار کرو گے تو ہمیں کوئی نفع نہ پہنچاؤ گے، خود ہی اس کا نفع اٹھاؤ گے۔ تمہاری نافرمانی سے ہماری مِلک میں کوئی کمی نہیں ہو سکتی اور تمہاری فرمانبرداری سے اُس میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا۔ تیسرے یہ کہ دونوں جہانوں کے مالک ہم ہی ہیں۔ دنیا چاہو گے تو وہ بھی ہم ہی سے تمہیں ملے گی اور آخرت کی بھلائی چاہو گے تو اُ س کا دینا بھی ہمارے ہی اختیار میں ہے۔ یہی بات ہے جو سورۂ آلِ عمران آیت ۱۴۵ میں فرمائی گئی ہے کہ وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْ تِہٖ مِنْھَا وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہ مِنْھَا۔ ’’ جو شخص ثوابِ دنیا کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دیں گے اور جو ثوابِ آخرت کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم آخرت میں سے دیں گے ‘‘۔ اور اسی کو سورۂ شوریٰ آیت۲۰ میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْلَہٗ فِیْ حَرثِہ o وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْ تِہ o مِنْھَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰ خِرَ ۃِ مِنْ نَّصِیْبٍ۔ ’’ جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کوئی حصّہ نہیں ہے ‘‘۔( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آلِ عمران، حاشیہ ۱۰۵۔ جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ ۳۷)۔
9: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نہایت شَقی کے سوا کوئی آگ میں نہ جائے گا اور نہایت متّقی کے سوا کوئی اس سے نہ بچے گا۔ بلکہ یہاں مقصود دو انتہائی متضاد کر داروں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں پیش کر کے اُن کا انتہائی متضاد انجام بیان کرنا ہے۔ ایک وہ شخص ہے جو اللہ اور اس کے رسول ؐ کی تعلیمات کو جھُٹلا دے اور اطاعت کی راہ سے منہ پھیر ے۔ دوسرا وہ شخص ہے جو نہ صرف ایمان لائے بلکہ انتہائی خلوص کے ساتھ کسی ریاکاری اور نام و نمود کی طلب کے بغیر صرف اس لیے اپنا مال راہِ خدا میں صرف کرے کہ وہ اللہ کے ہاں پاکیزہ انسان قرار پانے کا خواہاں ہے۔ یہ دونوں کردار اُس وقت مکّہ کے معاشرے میں سب کے سامنے موجود تھے۔ اس لیے کسی کا نام لیے بغیر لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ جہنم کی آگ میں دوسرے کردار والا نہیں بلکہ پہلے کردار والا ہی جھُلسے گا، اور اُس آگ سے پہلے کردار والا نہیں بلکہ دوسرے کردار والا ہی دُور رکھا جائے گا۔
10: یہ اُس پرہیز گار آدمی کے خلوص کی مزید توضیح ہے یہ وہ اپنا مال جن لوگوں پر صرف کرتا ہے اُن کا کوئی احسان پہلے سے اُس پر نہ تھا کہ وہ اُس کا بدلہ چُکانے کے لیے، یا آئندہ اُن سے مزید فائدہ اُٹھانے کے لیے اُن کو ہدیے اور تحفے دے رہا ہو اور اُن کی دعوتیں کر رہا ہو، بلکہ وہ اپنے ربِّ برتر کی رضا جوئی کے لیے ایسے لوگوں کی مدد کر رہا ہو جن کا نہ پہلے اُس پر کوئی احسان تھا، نہ آئندہ ان سے وہ کسی احسان کی توقع رکھتا ہے۔ اِس کی بہترین مثال حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل ہے کہ مکّۂ معظمہ میں جن بے کس غلاموں اور لونڈیوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اِس قصور میں جن کے مالک اُن پر بے تحاشا ظلم توڑ رہے تھے، اُن کو خرید خرید کر وہ آزاد کر دیتے تھے تا کہ وہ اُن کے ظلم سے بچ جائیں۔ ابن جَریر اور ابن عَسا کِر نے حضرت عامر بن عبد اللہ بن زُبَیر کی یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کواس طرح اِن غریب غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی پر روپیہ خرچ کرتے دیکھ کر اُن کے والد نے اُن سے کہا کہ بیٹا، میں دیکھ رہا ہوں کہ تم کمزور لوگوں کو آزاد کر رہے ہو۔ اگر مضبوط جوانوں کی آزادی پر تم یہی روپیہ خرچ کرتے تو وہ تمہارے لیے قوتِ بازو بنتے۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے اُن سے کہا ای ابہ انما ارید ما عند اللہ، ’’ابا جان، میں تو وہ اجر چاہتا ہوں جو اللہ کے ہاں ہے ‘‘۔
11: اس آیت کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ اور دونوں صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ ضرور اللہ اس سے راضی ہو جائے گا۔ دوسرے یہ کہ عنقریب اللہ اس شخص کو اِتنا کچھ دے گا کہ وہ خوش ہو جائے گا۔