دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ السَّجدَة

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

 آیت ۱۵ میں اہل ایمان کا یہ وصف بیان ہوا ہے جب انہیں اللہ کی آیتوں کے ذریعے تذکیر کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں اگر پڑتے ہیں۔ سی مناسبت سے اس سورہ کا نام السجدہ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

توحید اور آخرت کا مضمون ایسے اسلوب میں بیان ہوا ہے جو شبہات کو دور کر کے دل میں یقین پیدا کرتا ہے۔ سورہ لقمان میں عقل و دانش سے اپیل تھی تو اس سورہ میں وجدان و قلب سے اپیل ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۳ تمہیدی آیات ہیں جن میں واضح کیا گیا ہے کہ کتاب اس لیے رسول پر نازل کی گئی ہے تاکہ وہ لوگوں کو متنبہ کرے۔

 

آیت ۴ تا ۹ میں توحید کو بیان کرتے ہوۓ انسان کی تخلیق کا ذکر ہوا ہے۔

 

آیت ۱۰ تا ۱۴ میں آخرت کا مضمون ہے۔

 

آیت ۱۵ تا ۱۹ میں اہل ایمان کی بعض اہم خصوصیات کا ذکر کرتے ہوۓ ان کے بہترین انجام کو بیان کیا گیا ہے۔

 

آیت ۲۰ تا ۲۲ میں نا فرمانوں اور جھٹلانے والوں کے انجام بد کو پیش کیا گیا ہے۔

 

آیت ۲۳ تا ۲۵ میں واضح کیا گیا ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے کتاب الہٰی کا نزول کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے موسیٰ پر کتاب الہٰی کا نزول ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ بن اسرائیل میں سے ایسے پیشوا اٹھاتا رہا جو اس کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے رہے۔

 

آیت ۲۸ تا ۳۰ سورہ کے خاتمہ کے آیات ہیں جن میں منکرین کے اعتراض کا جواب دیتے ہوۓ انہیں متنبہ کیا گیا ہے۔

 

حدیث میں آتا ہے کہ

 

کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یَقْرَأ فِی لْفَجْرِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ آلم تنزیْل وھل اتی علی الانسان۔ (بخاری۔ کتاب الجمعۃ) نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الٓم تنزیل(سورہ سجدہ) اور ھل اَتٰی علی الانسان (سورہ دھر) پڑھا کرتے تھے "۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔ الف۔ لام۔ میم ۱ *۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔ یہ کتاب اس میں شک نہیں کہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوئی ہے ۲ *۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ کہتے ہیں کہ اسے اس شخص ۳ * نے خود گھڑ لیا ہے۔ نہیں بلکہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے تاکہ تم خبر دار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے پاس تم سے پہلے کوئی خبر دار کرنے والا نہیں آیا ۴ * تا کہ وہ ہدایت پائیں۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان  کے درمیان کی چیزیں کو چھ دونوں میں پیدا کیا ۵ * پھر وہ عرش پر بلند ہوا ۶ *۔ اس کے سوا نہ تمہارا کوئی کا ر ساز ہے اور نہ (اس کے حضور) کوئی سفارشی۔ پھر کیا تم لوگ سمجھتے نہیں ۷ *۔ !

 

۵۔۔۔۔۔۔۔ وہ آسمان سے زمین تک تدبیر امر کر تا ہے پھر یہ امر چڑھتا (لوٹتا) ہے اس کے حضور ایک ایسے دن میں جس کی تعداد تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے۔ ۸ *

 

۶۔۔۔۔۔۔۔ وہ غیب اور حاضر کا جاننے والا  اور غالب و رحیم ہے ۹ *۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔ اس نے جو چیز بھی بنائی ۱۰ * خوب بنائی اور انسان کی تخلیق کا آغاز مٹی سے کیا ۱۱ *۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کی نسل حقیر پانی کے ست سے چلائی۔ ۱۲ *

 

۹۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کو درست کیا ۱۳ *اور اس میں اپنی روح پھونک دی ۱۴ *اور تمہارے لیۓ کان، آنکھیں اور دل بناۓ ۱۵ *۔ تم لوگ شکر کرتے ہو ۱۶ *۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ کہتے ہیں جب ہم زمین میں رل مل چکے ہوں گے تو کیا ہم پھر نئے سے  پیدا کیے جائیں گے ؟ در حقیقت لوگ اپنے رب کی ملاقات ہی کے منکر ہیں ۱۷ *۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔ کہو تم کو وفات دیتا ہے موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مامور ہے پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹا ۓ جاؤ گے۔ ۱۸ *

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر تم ان (کی اس وقت کی حالت)کو دیکھ لیتے جب یہ مجرم اپنے رب کے حضور سر جھکاۓ ہوں  گے۔ اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا۔ ہمیں واپس بھیج دے ہم نیک عمل کریں گے۔ ہم یقین رکھنے والے ہیں ۱۹ *۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے  ۲۰ * لیکن میری وہ بات پوری ہو گئی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔ ۲۱*

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔ تو اب چھکو مزا اس بات کا کہ تم نے اس دن کی پیشی کو بھلا دیا تھا۔ ہم نے بھی تمھیں بھلا دیا ہے ۲۲ *۔ اب تم اپنے کر تو توں  کے بدلہ ہمیشگی کے عذاب کا مزا چکھو۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔ ہماری آیتوں پر تو وہی لوگ ایمان  لاتے ہیں جنہیں ان کے ذریعہ جب یاد دہانی کی جاتی ہے تو وہ  سجدے میں گر پڑے ہیں اور اپنے رب کی حمد کی ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تکبیر نہیں کرتے ۲۳ *۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔ ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکار تے ہیں اور جو کچھ ہم نے اپنے کو خوف اور امید کے ساتھ پکار تے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۲۴ *۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کی جزا میں ان کے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا سامان ان سے پوشیدہ رکھا گیا ۲۵ *ہے۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیا وہ شخص جو مومن سے اس شخص کی طرح ہو جاۓ گا جو فاسق ہے ۲۶ *۔ دونوں ہر گز برابر نہیں ہو سکتے ۲۷ *۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ ایمان لاۓ اور جنہوں نے نیک عمل کئے عمل کیے ان کے لیۓ رہائشی باغ ہیں ۲۸ *۔ ضیافت کے طور ۲۹ * پر ان کے اعمال کے صلہ میں۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔ اور جنہوں نے نافرمانی کی ۳۰ *ان کا ٹھکانہ آتش (جہنم) ہے جب کبھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اس میں دھکیل دے جائیں گے اور ان سے کہا جاۓ گا چکھو اب اس آگ کے عذاب کا مزا جس کو تم جھٹلاتے رہے ہو۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم انہیں اس بڑے عذاب سے پہلے دنیوی عذاب کا مزا چکھائیں گے تاکہ یہ رجوع کریں ۳۱ *۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔ اور اس بڑا ظالم کون ہو گا جس  کو اس کے رب کی آیتوں کے ذریعہ یاد دہانی کی جاۓ اور وہ اس سے منہ پھیر ے ایسے مجرموں کو ہم ضرور سزا دیں گے۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی لہذا تم اس کے ملنے کے بارے میں شک میں نہ پڑو ۳۲ *اور ہم نے اس کو بنی اسرائیل کے لیۓ ہدایت بنا یا تھا۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ان میں پیشوا پیدا کیۓ جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے جب کہ انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔ ۳۳ *

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً تمہارا رب ہی قیامت کے دن ان باتوں کا فیصلہ  کرے گا جن میں یہ اختلاف کرتے رہے ہیں ۳۴ *۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔ کیا ان کے لیۓ یہ چیز باعث ہدایت نہ ہوئی کہ ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جن کی بستیوں میں یہ چلتے پھرتے ہیں ۳۵ *۔ یقیناً اس میں بڑی نشانیاں ہیں۔ پھر کیا یہ لوگ سنتے نہیں ۳۶ *؟

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہم پانی کو چٹیل زمین کی طرف لے جاتے ہیں پھر اس سے کھیتی اگا تے ہیں زمین جن سے ان کے مویشی بھی غذا کھاتے ہیں اور وہ خود بھی ۳۷ *۔ پھر کیا ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں ۳۸ *؟

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ کہتے ہیں یہ فیصلہ کب ہو گا اگر تم سچے ہو؟

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔ کہو فیصلہ کے دن ایمان لانا ان لوگوں کے لیۓ کچھ بھی مفید نہ ہو گا جنہوں نے کفر کیا ہے۔ اور نہ ان کو مہلت دی جاۓ گی ۳۹ *۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔ تو ان سے اعراض کرو اور  انتظار کرو۔ یہ بھی  انتظار کر رہے ہیں ۴۰ *۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔ حروف مقطعات کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۱ اور سورہ یونس نوٹ ۱ یہ حقیقت ہے کہ قرآن صوتی لحاظ سے بھی معجزہ ہے اس لیے یہ حروف جب الگ الگ ادا کیے جاتے ہیں تو وہ صوتی ارتعاش پیدا کر کے سننے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اس سورہ میں "ا" کا اشارہ آیات کی طرف ہے جن کا ذکر آیت ۱۵، ۲۲، ۲۴، اور ۲۶ میں ہوا ہے۔  "ل" کا اشارہ لِقاءِ رَبِّھِمْ (اپنے رب سے ملاقات آیت ۱۰) لِقاءَ یَوْ مِکُمْ ھٰذاً (اس دن کی پیشی آیت ۱۴) اور لِقائہٖ (اس کا ملنا آیت ۲۳ ) کی طرف ہے۔ اور "م" کا اشارہ مُنْتِقُمون(ہم سزا دینے والے ہیں۔ آیت ۲۲) کی طرف ہے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کتاب کا اللہ رب العالمین کی طرف سے نزول کے دلائل بہ کثرت مقامات پر بیان ہوۓ ہیں لیکن متعدد مقامات پر اس دعوے کو پورے وثوق کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کیونکہ آفتاب کی آمد اس کے آفتاب ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ قرآن کی ایک ایک آیت اس کے کلام الہٰی ہونے کی دلیل ہے اور جو شخص بھی نیک نیتی کے ساتھ اس کا مطالعہ کرے گا اس کو اس کی شناخت میں کوئی دشواری پیش نہیں آۓ گی۔ سورہ بقرہ کے آغاز میں بھی یہ مضمون گزر چکا کہ اس کے کتاب الہٰی ہونے میں شک نہیں ہے، دیکھیے سورہ بقرہ نوٹ  ۲

 

۳۔۔۔۔۔۔۔ مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ قصص نوٹ ۹۱۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ اعراف نوٹ ۸۲ میں گزر چکی۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ اعراف نوٹ ۸۳ میں گزر چکی۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا اتنی واضح بات بھی تمہارے سمجھ میں نہیں آتی کہ جس ہستی نے اس کائنات کو نہایت منصوبہ بند طریقہ پر پیدا کیا ہے اس کے بعد اس پر فرمانروائی کر رہا ہے اس کو چھوڑ کر دوسرا کون ہے جو تمہارا کار ساز ہو سکتا ہے اور وہ کون ہے جو اس کے سامنے تمہارے لیے سفارتی بن کر کھڑا ہو اور تمہیں نجات کا پروانہ دلوا کر رہے ؟ ایسی کسی ہستی کا اس کائنات میں وجود ہی نہیں ہے جو اللہ کے بالمقابل یہ زور اور یہ بل بوتا رکھتی ہو۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کائنات کا منصوبہ بند طریقہ پر انتظام فرما رہا ہے۔ زمین کے لیے اس کا ایک ایک منصوبہ اور ایک ایک ا سکیم ارضی یوم کے حساب سے ہزار سالہ ہوتی ہے جب کہ اس کے نزدیک یہ مدت صرف ایک دن کی ہے جس میں یہ منصوبہ نافذ ہو کر تکمیل کو پہنچ جاتا ہے اور پھر یہ معاملہ اسی کی طرف لوٹتا ہے یعنی بالآخر ہر چیز اسی کی طرف پلٹتی ہے اور اسی کے حضور پیش ہوتی ہے یہ آیت متشابہات میں سے ہے اس لیے کسی بحث میں پڑے بغیر ہمیں اس اجمالی علم پر اکتفا کرنا چاہیے اور جہاں تک ہزار سالہ یوم کا تعلق ہے یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو عقل سے بعید ہو۔ منطقی طور پر تو انسان سمجھ سکتا ہے کہ جس کو ہم چوبیس گھنٹے کا دن شمار کرتے ہیں وہ ایک شب و روز پر مشتمل ہوتا ہے اور آفتاب کی سطح پر جہاں رات کا وجود ہی نہیں ہے یوم (دن) کو شمار کرنے کے لیے یہ پیمانہ بیکار ثابت ہو گا اور جہاں تک موجودہ سائنس کا تعلق ہے علم الافلاک نے وقت کے تعلق سے ہماری معلومات میں زبردست اضافہ کیا ہے مثلاً یہ کہ اگر زمین پر شمسی سال ۳۶۵ دن کا ہوتا ہے تو مریخ (Mars) پر اس حساب سے ۶۸۷ دن کا، مشتری(Jupiter) پر تقریباً ۱۲ سال کیا، زحل پر ۲۹ سال کا اور پلیٹو پر ۲۴۸ سال کا کیونکہ یہ سیارے اس طویل عرصہ میں سورج کے گرد اپنا چکر مکمل کر لیتے ہیں۔ یوم اور سال کا یہ تفاوت قرآن کے اس بیان کی تائید کرتا ہے کہ اللہ کے نزدیک دن کا پیمانہ اور ہے اور اس کے مطابق اس کا دن ہمارے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ حج نوٹ ۸۴۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ وہ اپنے پورے علم، کمال قدرت اور اپنی وسیع رحمت کے ساتھ اس کائنات کا انتظام فرما رہا ہے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس سے جو کام لینا تھا اس کے مناسب حال اس کو وجود بخشا۔ اس کی پیدا کردہ ہر چیز میں توازن بھی ہے اور سلیقہ بھی اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا صاحب کمال بھی ہے صاحب جمال بھی۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسانی نسل کا سلسلہ نطفہ جیسے حقیر پانی کے سب (خلاصہ) سے چلایا۔ یہ ست موجودہ علم ابخین کی روشنی میں جرثومہ حیات (Spermetozoan) ہے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنین (Embryo).  کو پیدا کرنے کے بعد اس کے اعضاء درست کیے اور اس کو ٹھیک ٹھیک انسان کی شکل دی۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس میں روح ڈال کر زندہ انسان بنا دیا۔

 

روح کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ حجر نوٹ ۲۷  مادہ پرستوں کے نزدیک روح کی کوئی حقیقت نہیں ہے گویا انسان محض جسمانی وجود رکھتا ہے اور زندگی حرکت کا نام ہے۔ اس حرکت کے بند ہو جانے ہی کا نام موت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر روح کا کوئی وجود نہیں ہے تو وہ کیا چیز ہے جس کے غائب ہو جانے سے حرکت قلب بند ہو جاتی ہے اور انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے ؟ ماننا پڑے گا کہ وہ ایک لطیف اور غیر مرئی چیز ہے جس کے نکل جانے سے انسان کا جسم ایک مردہ لاش بن کر رہ جاتا ہے اور اسی چیز کا نام روح ہے جو در حقیقت اندر کا انسان ہے اگر ذرہ کے اندر ایٹمی قوت پوشیدہ ہوتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ انسان کے اندر "روحانی قوت" کے وجود سے انکار کیا جاۓ۔ پھر جسم میں تو ہر آن تغیرات ہوتے رہتے ہیں نۓ خلیے (Cells) پرانے خلیوں کی جگہ لے لیتے ہیں یہاں تک کہ چند سال میں ایک نیا جسم پانے جسم کی جگہ ہے لیتا ہے مگر اندر کا انسان جوں کا توں باقی رہتا ہے جسے نجس(Self) یا "انا" (میں ) سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہی "خودی" اس میں تشخص پیدا کرتی ہے اور اس کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس لیے روح کا ناکار حقیقت واقعہ کا انکار ہے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی بہترین صلاحیتیں عطا فرمائیں۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم کو جو بہترین وجود بخشا گیا ہے اس کا احساس بہت کم تم میں پایا جاتا ہے اس لیے کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ تم اس پر اپنے خالق کا شکر ادا کرو۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اصلاً ان کو اللہ کے حضور پیشی ہی سے انکار ہے وہ نہیں چاہتے کہ جوابدہی کے تصور کو قبول کر کے اپنے کو اللہ کے احکام کا پابند بنائیں اس لیے وہ پیشی کا انکار اعتراض کے اس پر دہ میں کرتے ہیں کہ انسان کا جسم تو مرنے کے بعد زمین میں مل کر ختم ہو جاتا ہے پھر وہ قیامت کے دن اٹھ کھڑا کس طرح ہو گا۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مرنے پر انسان کا وجود ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ا سکا صرف جسم ختم ہو جاتا ہے موت در حقیقت روح کی جو اندر کا انسان ہے جسم سے جدائی ہے اور یہ عمل بڑی باقاعدگی کے ساتھ انجام پاتا ہے۔ اللہ نے ہر شخص کی روح قبض کرنے کے لیے موت کا فرشتہ مقرر کر رکھا ہے۔ وہ وقت مقرر پر جان کو تن سے جدا کر کے پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے پھر اللہ کو جو حکم ہوتا ہے اس کے مطابق وہ اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن اس روح (نفس) کے لیے اس کا جسم دوبارہ پیدا کر دیا جاۓ گا اور وہ جسم سمیت اپنے رب کے حضور جوابدہی کے لیے کھڑا ہو گا۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن جن حقیقتوں کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے اس سے آج تو یہ لوگ انکار کر رہے ہیں لیکن قیامت کے دن جب وہ ان کا مشاہدہ کر لیں گے تو اپنی پچھلی روش پر بڑے نادم ہوں گے اور اپنے رب سے درخواست کریں گے کہ دنیا میں واپس بھیج دیا جاۓ تاکہ وہ نیک بن جائیں۔ آج وہ جس چیز کا انکار کر رہے ہیں کل وہ اس پر یقین کا اظہار کریں گے۔ قیامت کے دن مجرموں کا جو حال ہو گا اس کی یہ ایک جھلک ہے جو اس آیت میں پیش کی گئی ہے تاکہ لوگ سنبھل کر چلیں اور آخرت کا انکار کر کے اپنے کو مجرموں میں شامل نہ کر لیں۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی حقیقت کا مشاہدہ کر لینے کے بعد امتحان کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا اس لیے اب دنیا میں تم کو واپس بھیجنے سے کیا فائدہ؟ اگر ایمان اس طور سے مطلوب ہوتا جس میں تمہاری عقل کا کوئی امتحان نہ ہوتا تو اللہ ہر شخص کو اس طرح ہدایت دیتا کہ پھر اس سے انحراف کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہوتا۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔ مراد شیطان کے پیچھے چلنے والے انسان اور جن ہیں چنانچہ سورہ ص میں یہ بات صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے :

 

لَاَمْلئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ و مِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھَمْ اَجْمَعِیْنَ (ص:۸۵)" میں تجھ سے اور جو ان میں سے تیری  پیروی کریں گے ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا "

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی طرف سے بھلا دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر نظر عنایت نہیں فرماۓ گا اور ان کو اس بری حالت ہی میں چھوڑ دے گا۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔ منکرین کے مقابلہ میں یہ ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو خدا کے معاملہ میں تکبر اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہیں اور نہ انہوں نے اپنے بندہ ہونے کی فطری احساس کو مٹا دیا ہے ایسے لوگوں کو جب اللہ کی آیتیں سنا کر یا د دہانی کی جاتی ہے تو ان کی اثر پذیری کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ الہ کے حضور سجدے میں گر جاتے ہیں اور ان کی زبان پر حمد و ثنا کے کلمات جاری ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ آگے بڑھ کر پیغمبر کی دعوت کو قبول کر لیتے ہیں اور اللہ کی آیات پر ایمان لاتے ہیں۔

 

یہ آیت سجدہ ہے لہٰذا اس کی تلاوت پر سجدہ کرنا چاہیے۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایمان لانے والوں کے ان اوصاف کا ذکر ہے جو ایمان کی بدولت ان میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ نہ ان کی راتیں اللہ کی یاد سے خالی ہوتی ہیں اور نہ دن۔ یہاں تک کہ وہ رات کو اپنے بستر چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاتے ہیں اور اس سے دعائیں مانگنے لگتے ہیں۔ ان کی یہ دعائیں بیم و  رجا کے ساتھ ہوتی ہیں یعنی وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور اس کی رحمت کے امیدوار ہوتے ہیں اسی طرح ان کا دن محض کسب معاش کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ وہ فلاح آخرت کے حصول کا بھی سامان کرتے رہتے ہیں چنانچہ وہ اللہ کے بخشے ہوۓ مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں مذکورہ اوصاف کے حاملین کو جو خوشخبری سنائی گئی ہے۔ اس کا تصور  ہی دل کے سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہے۔ قرآن میں جنت کا جو تعارف پیش کیا گیا ہے وہ گویا ایک جھلک ہے جو الفاظ کے پیرایہ  میں دکھائی گئ ہے ورنہ جنت کی نعمتوں کا اس دنیا میں کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس آیت کی بہترین تشریح وہ ہے جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔

 

قالَ اللہُ تبارکَ و تعالیٰ: اَعْدَدْتُ لِعِبادِیَ الصالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأتْوَلَا اُذُنٌ سَمَعَتْ وَلَا خَطَرَعَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ (بخاری کتاب التفسیر) " اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا"۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔ فاسق کے معنی ہیں خارج از اطاعت یعنی نا فرمان۔ یہ لفظ یہاں مؤمن کے مقابلہ میں آیا ہے اس لیے اس سے مراد کافر ہے جو سر تا پا اللہ کا نافرمان ہوتا ہے۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب دونوں کا عمل یکساں نہیں ہے تو دونوں کا انجام یکساں کیسے ہو سکتا ہے ؟

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسے باغ جہاں وہ قیام پذیر ہوں گے۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ باغ ان کو ایسے اعزاز و اکرام کے ساتھ عطا کیے جائیں گے کہ گویا یہ اللہ کے مہمانوں کے لیے سامان ضیافت ہے۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔ مراد کافر ہیں جو اللہ کے نافرمان بنے رہے۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔  مراد دنیوی آفات ہیں جن میں کافروں کو اس لیے مبتلا کیا جات ہے تاکہ ان کے کرتوتوں کی سزا کی ایک قسط ان کو دنیا ہی مل جاۓ اور تاکہ وہ چونک جائیں اور اللہ کی طرف رجوع ہوں۔

 

موجودہ زمانہ میں آفتیں بھی نۓ انداز سے نازل ہو رہی ہیں۔ ریل، بس اور ہوائی جہاز کے حادثات بڑے ہی المناک ہوتے ہیں پھر بموں کے حادثات اور آتش زنی کی واردات کی کثرت ہے اور انسان کو انسان ہی کے ہاتھوں اپنے کرتوتوں کا مزا چکھنا پڑ رہا ہے۔ مگر لوگوں کی سنگ دلی کا حال یہ ہے کہ یہ ایسے عبرتناک مناظر دیکھتے رہتے ہیں مگر اللہ کی طرف رجوع نہیں ہوتے۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔ خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے تمام مخاطبین سے ہے اور واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ تاریخ میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ تم کا اللہ کی طرف سے کتاب ملی بلکہ اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ پیغمبروں پر کتابیں نازل کرتا رہا ہے اور کون نہیں جانتا کہ اس سے پہلے موسیٰ کو کتاب عطا ہوئی تھی پھر کوئی وجہ نہیں کہ قرآن کے عطا کیے جانے پر لوگ شک میں پڑیں۔

 

مزید وضاحت کے لیے دیکھیے سورہ یونس آیت ۹۴ نوٹ ۱۴۵ اور سورہ ہود آیت ۱۷۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی موسیٰ کو جو کتاب عطا ہوئی تھی وہ بنی اسرائیل کے لیے باعث ہدایت تھی اور اسی ہدایت کی بدولت ان میں ایسے قائدین اٹھے جو حکم الٰہی کی تعمیل میں لوگوں کی صحیح رہنمائی کرنے والے تھے۔ اللہ نے ان کو صالح قیادت کا مقام اس لیے عطا کیا تھا کہ وہ حق پر جمے رہے اور اللہ کی آیتوں پر ان کو پورا یقین تھا یعنی ان کا عقیدہ محض رسمی نہیں تھا بلکہ یقین و اذعان کے ساتھ تھا اور اس قیادت سے بنی اسرائیل کو نوازا گیا جب کہ انہوں نے صبر و استقامت اور ایمان و یقین کا ثبوت دیا۔ اس تاریخی حقیقت کو بیان کرنے سے مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اگر تم لوگ قرآن کے حامل بن کر اٹھے تگو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی سربلندی عطا کرے گا اور تمہارے اندر صالح قیادت کو ابھارے گا۔ آج مسلمان اس بات کی شکایت کرتے ہیں  کہ انہیں صالح قیادت میسر نہیں مگر معاشرہ کا حل یہ ہے کہ انہیں جذبات سے کھیلنے والے اور جوشیلی تقریریں کرنے والے لیڈر پسند ہیں وہ نہ قرآن کی رہنمائی میں چلنے کے لیے آمادہ ہیں اور نہ وہ صالحین کی باتوں پر کان دھرتے ہیں ایسی صورت میں صالح قیادت کس طرح ابھر سکتی ہے ؟

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔ اوپر کی آیت میں بنی اسرائیل کے عروج کا ذکر تھا اور اس آیت میں ان کے زوال کی حالت بیان ہوئی ہے۔ ان کے زوال کی اصل وجہ دین کی واضح اور بنیادی باتوں کے سلسلہ میں ان کا اختلاف میں پڑنا اور کن بحثوں میں مبتلا ہونا ہے۔ ان اختلافات کا آخری فیصلہ اللہ ہی کی عدالت میں ہو گا جس کے لیے قیامت کا دن مقرر ہے۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔ خطاب مشرکین عرب سے ہے جن کو گزر عاد، ثمود، قوم شعیب اور قوم لوط کی تباہ شدہ بستیوں کی طرف سے ہوتا تھا۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان واقعات میں عبرت کی جو باتیں ہیں ان کو قرآن کھول کھول  کر بیان کر رہا ہے مگر یہ لوگ کچھ سنتے سمجھتے نہیں ہیں۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا اس  میں اللہ کی ربوبیت اور اس کی قدرت کی نشانیاں انہیں دکھائی نہیں دیتیں اور کیا یہ مشاہدہ ان میں اس بات کا یقین پیدا نہیں کرتا کہ اللہ مردہ کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مؤمنوں اور کافروں کے درمیان جس فیصلہ کی تم خبر دے رہے ہو اور کہہ رہے ہو کہ اس فیصلہ میں مؤمن ہی کامیاب ہوں گے اور کافر جہنم میں جھونک دیے جائیں گے تو یہ بات کب وقوع میں آۓ گی ؟

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہیں اس بحث میں پڑنے کے بجاۓ کہ وہ فیصلہ کن گھڑی کب آۓ گی اس بات کی فکر کرنا چاہیے کہ اس روز تم اپنا بچاؤ کس طرح کر سکو گے کیونکہ وہ گھڑی تو لازماً آ کر رہے گی۔ اس وقت اگر تم ایمان لانا چاہو تو چونکہ امتحان کا وقت گزر چکا ہو گا  اس لیے اس وقت تمہارا ایمان لانا بالکل بے سود ہو گا۔ اس لیے اس وقت تمہارا ایمان لانا بالکل نے سود ہو گا۔ اور جو مہلت تمہیں آج مل رہی ہے وہ دوبارہ ملنے والی نہیں۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر یہ اس قوی حجت اور یقین پیدا کرنے والی ان آیتوں کے باوجود اگر ایمان لانے کے لیے آمادہ نہیں ہیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور اس گھڑی کا انتظار کرو جب اللہ تعالیٰ اپنے فیصلہ کو نافذ فرماۓ گا۔ ان لوگوں کو بھی تو اسی کا انتظار ہے۔

 

***