تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ السَّجدَة

سورہ سجدہ مکہ میں نازل ہوئی اس کی تیس آیتیں ہیں اور تین رکوع

۲ ۔۔۔  بلاشبہ یہ کتاب مقدس رب العالمین نے اتاری ہے نہ اس میں کچھ دھوکا ہے نہ شک و شبہ کی گنجائش۔

۳ ۔۔۔  یعنی جس کی کتاب کا معجزہ اور من اللہ ہونا اس قدر واضح ہے کہ شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہیں، کیا اس کی نسبت کفار کہتے ہیں کہ اپنی طرف سے گھڑ لایا ہے۔ اور معاذ اللہ جھوٹ طوفان خدا کی طرف نسبت کرتا ہے؟ حد ہو گئی جب ایسی روشن چیز میں بھی شبہات پیدا کیے جانے لگے، ذرا غور و انصاف کرتے تو معلوم ہو جاتا کہ یہ کتاب ٹھیک پروردگار عالم کی طرف سے آئی ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے آپ اس قوم کو بیدار کرنے اور راہ راست پر لانے کی کوشش کریں جن کے پاس قرنوں سے کوئی بیدار کرنے والا پیغمبر نہیں آیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ آدمی اپنی طرف سے وہ ہی چیز بنا کر لاتا ہے یا بنا سکتا ہے جس کی کوئی نظیر یا زبردست خواہش اس کے ماحول میں پائی جاتی ہو۔ کسی ملک میں ایسی بات دفعۃً منہ سے نکال دینا جو ان کی سینکڑوں برس کی مسخ شدہ ذہنیت اور مذاق کے یکسر مخالف ہو اور جس کے قبول کی ادنیٰ ترین استعداد بھی بظاہر نہ پائی جائے، کسی عاقل کا کام نہیں ہو سکتا۔ ہاں اللہ کی قدرت قاہرہ کسی کو مامور کرے وہ الگ بات ہے پس نبی امی صلی اللہ علیہ و سلم جن کا اعقل الناس ہونا ان کو بھی تسلیم کرنا پڑا ہے جو آپ کو (معاذاللہ) مفتری کہتے ہیں، اگر کوئی بات بنا کر لاتے تو یقیناً ایسی لاتے جو عرب کی اس فضا کے مناسب اور عام جذبات کے موافق ہوتی اور جس کا کوئی نمونہ ان کے گردو پیش پایا جاتا۔ یہ ہی بات ایک انصاف پسند کو یقین دلا سکتی ہے کہ وہ خود اپنی ذاتی خواہش سے کھڑے نہیں ہوئے اور نہ جو پیغام لائے وہ ان کا تصنیف کیا ہوا تھا۔

۴ ۔۔۔  ۱: اس کا بیان سورۃ اعراف میں آٹھویں پارہ کے اختتام کے قریب گزر چکا۔ ملاحظہ کر لیا جائے۔

۲:  یعنی دھیان نہیں کرتے کہ اس کے پیغام اور پیغامبر کو جھٹلا کر کہاں جاؤ گے۔ تمام زمین و آسمان میں عرش سے فرش تک اللہ کی حکومت ہے۔ اگر پکڑے گئے تو اس کی اجازت و رضاء کے بدون کوئی حمایت اور سفارش کرنے والا بھی نہ ملے گا۔

۵ ۔۔۔    بڑے کام اور اہم انتظامات کے متعلق عرش عظیم سے مقرر ہو کر نیچے حکم اترتا ہے۔ سب اسباب حسی و معنوی، ظاہری و باطنی، آسمان و زمین سے جمع ہو کر اس کے انصرام میں لگ جاتے ہیں۔ آخر وہ کام اور انتظام اللہ کی مشیت و حکمت سے مدتوں جاری رہتا ہے، پھر زمانہ دراز کے بعد اٹھ جاتا ہے۔ اس وقت اللہ کی طرف سے دوسرا رنگ اترتا ہے۔ جیسے بڑے بڑے پیغمبر جن کا اثر قرنوں رہا، یا کسی بڑی قوم میں سرداری جو نسلوں تک چلی۔ وہ ہزار برس اللہ کے ہاں ایک دن ہے (موضح بتغیریسیر) مجاہد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہزار سال کے انتظامات و تدابیر فرشتوں کو القاء کرتا ہے۔ اور یہ اس کے ہاں ایک دن ہے۔ پھر فرشتے جب (انہیں انجام دے کر) فارغ ہو جاتے ہیں، آئندہ ہزار سال کے انتظامات القاء فرما دیتا ہے۔ یہ ہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ بعض مفسرین آیت کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اللہ کا حکم آسمانوں کے اوپر سے زمین تک آتا ہے، پھر جو کاروائیاں اس کے متعلق یہاں ہوتی ہیں وہ دفتر اعمال میں درج ہونے کے لئے اوپر چڑھتی ہیں جو سمائے دنیا کے محدب پر واقع ہے۔ اور زمین سے وہاں تک کا فاصلہ آدمی کی متوسط رفتار سے ایک ہزار سال کا ہے جو خدا کے ہاں ایک دن قرار دیا گیا۔ مسافت تو اتنی ہے یہ جداگانہ بات ہے کہ فرشتہ ایک گھنٹہ یا اس سے بھی کم میں قطع کر لے۔ بعض مفسرین یوں معنی کرتے ہیں کہ ایک کام اللہ تعالیٰ کو کرنا ہے تو اس کے مبادی واسباب کا سلسلہ ہزار سال پہلے سے شروع کر دیتے ہیں۔ پھر وہ حکمت بالغہ کے مطابق مختلف ادوار میں گزرتا اور مختلف صورتیں اختیار کرتا ہوا بتدریج اپنے منتہائے کمال کو پہنچتا ہے۔ اس وقت جو نتائج و آثار اس کے ظہور پذیر ہوتے ہیں بارگاہ ربوبیت میں پیش ہونے کے لئے چڑھتے ہیں۔ بعض کے نزدیک "یوم" سے یوم قیامت مراد ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین تک تمام دنیا کا بندوبست کرتا ہے۔ پھر ایک وقت آئے گا جب یہ سارا قصہ ختم ہو کر اللہ کی طرف لوٹ جائے گا اور آخری فیصلہ کے لئے پیش ہو گا۔ اس کو قیامت کہتے ہیں۔ قیامت کا دن ہزار سال کے برابر ہے۔ بہرحال "فی یوم" کو بعض نے یعرج کے متعلق کیا ہے اور بعض نے تنازع فعلین مانا ہے۔ واللہ اعلم۔

۶ ۔۔۔  یعنی ایسے اعلیٰ اور عظیم الشان انتظام و تدبیر کا قائم کرنا اسی پاک ہستی کا کام ہے جو ہر ایک ظاہرہ و پوشیدہ کی خبر رکھے، زبردست اور مہربان ہو۔

۸ ۔۔۔  یعنی نطفہ جو بہت سی غذاؤں کا نچوڑ ہے۔

۹ ۔۔۔  ۱: یعنی شکل و صورت، اعضاء موزوں و متناسب رکھے۔

۲: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں جو مخلوق ہے اسی کا مال ہے مگر جس کی عزت بڑھائی اس کو اپنا کہا جیسے فرمایا "ان عبادی لیس لک علیھم سلطان۔" حالانکہ سب خدا کے بندے ہیں کما قال "ان کل من فی السموات والارض الا اتی الرحمن عبداً۔" سو انسان کی جان عالم غیب سے آئی ہے مٹی پانی سے نہیں بنی اس کو اپنا کہا۔ ورنہ اللہ کی جان کا اگر وہ مطلب لیا جائے جو مثلاً آدمی کی جان کا لیتے ہیں تو چاہے جان کسی بدن میں ہو، بدن ہوا تو ترکیب آئی، ترکیب آئی تو حدوث آیا، ذات پاک کہاں رہی (موضح بتغییر)

۳:  ان نعمتوں کا شکریہ تھا کہ آنکھوں سے اس کی آیات تکوینیہ کو بنظر امعان دیکھتے۔ کانوں سے آیات تنزیلیہ کو توجہ و شوق کے ساتھ سنتے۔ دل سے دونوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی کوشش کرتے، پھر سمجھ کر اس پر عامل ہوتے۔ مگر تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔

۱۰ ۔۔۔    یعنی اس پر غور نہ کیا کہ اللہ نے ان کو اول مٹی سے پیدا کیا ہے۔ الٹے شبہات نکالنے لگے کہ مٹی میں مل جانے کے بعد ہم دوبارہ کس طرح بنائے جائیں گے۔ اور شبہ یا استبعاد ہی نہیں بلکہ صاف طور پر یہ لوگ بعث بعد الموت سے منکر ہو گئے۔

۱۱ ۔۔۔  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں یعنی " تم آپ کو محض بدن اور دھڑ سمجھتے ہو کہ خاک میں رل مل کر برابر ہو گئے۔ ایسا نہیں تم حقیقت میں جان ہو جسے فرشتہ لے جاتا ہے بالکل فنا نہیں ہو جاتے۔" (موضح)

۱۲ ۔۔۔   ۱: یعنی ذلت و ندامت سے محشر میں۔

۲: یعنی ہمارے کان اور آنکھیں کھل گئیں۔ پیغمبر جو باتیں فرمایا کرتے تھے ان کا یقین آگیا۔ بلکہ آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا کہ ایمان اور عمل صالح ہی خدا کے ہاں کام دیتا ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر دنیا میں بھیج دیجئے دیکھئیے کیسے کام کرتے ہیں۔

۱۳ ۔۔۔   دوسری جگہ فرمایا۔ "ولو ردوا لعادو لما نھوا عنہ " (انعام ۔ رکوع۳) یعنی جھوٹے ہیں اگر دنیا کی طرف لوٹائے جائیں پھر وہ ہی شرارتیں کریں۔ ان کی طبیعت کی افتاد ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ شیطان کے اغواء کو قبول کر لیں اور اللہ کی رحمت سے دور بھاگیں۔ بیشک ہم کو قدرت تھی چاہتے تو ایک طرف سے تمام آدمیوں کو زبردست اسی راہ ہدایت پر قائم رکھتے جس کی طرف انسان کا دل فطرۃً راہنمائی کرتا ہے۔ لیکن اس طرح سب کو ایک ہی طورو طریق اختیار کرنے کے لئے مضطر کر دینا حکمت کے خلاف تھا جس کا بیان کئی جگہ پہلے ہو چکا ہے۔ لہٰذا وہ بات پوری ہوئی تھی جو ابلیس کے دعوے "لاغوینھم اجمعین الا عبادک منھم المخلصین۔" (ص ۔ رکوع۵) کے جواب میں فرمائی تھی۔"فالحق والحق اقول لاملان جھنم منک و ممن تبعک منھم اجمعین۔ " (ص ۔ رکوع۵) معلوم ہوا کہ یہاں جن وانس سے مراد وہ ہی شیاطین اور ان کے اتباع ہیں۔

۱۴ ۔۔۔   ہم نے بھی تم کو بھلا دیا۔ یعنی کبھی رحمت سے یاد نہیں کئے جاؤ گے۔ آگے مجرمین کے مقابلہ میں مومنین کا حال و مآل بیان فرماتے ہیں۔

۱۵ ۔۔۔  یعنی خوف و خشیت اور خشوع و خضوع سے سجدہ میں گر پڑتے ہیں، زبان سے اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں، دل میں کبرو غرور اور بڑائی کی بات نہیں رکھتے جو آیات اللہ کے سامنے جھکنے سے مانع ہو۔

۱۶ ۔۔۔  ۱: یعنی میٹھی نیند اور نرم بستروں کو چھوڑ کر اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ مراد تہجد کی نماز ہوئی جیسا کہ حدیث صحیح میں مذکور ہے۔ اور بعض نے صبح کی یا عشاء کی نماز یا مغرب و عشاء کے درمیان کی نوافل مراد لیے ہیں۔ گو الفاظ میں اس کی گنجائش ہے لیکن راجح وہ ہی پہلی تفسیر ہے۔ واللہ اعلم۔

۲: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "اللہ سے لالچ اور ڈر برا نہیں، دنیا کا ہو یا آخرت کا۔ اور اس واسطے بندگی کرے تو قبول ہے۔ ہاں اگر کسی اور کے خوف و رجاء سے بندگی کرے تو ریاء ہے کچھ قبول نہیں۔

۱۷ ۔۔۔  جس طرح راتوں کی تاریکی میں لوگوں سے چھپ کر انہوں نے بے ریا عبادت کی۔ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں چھپا رکھی ہیں ان کی پوری کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔ جس وقت دیکھیں گے آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔ حدیث میں ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے جنت میں وہ چیز چھپا رکھی ہے جو نہ آنکھوں نے دیکھی نہ کانوں نے سنی نہ کسی بشر کے دل میں گزری۔

۱۸ ۔۔۔   اگر ایک ایماندار اور بے ایمان کا انجام برابر ہو جائے تو سمجھو خدا کے ہاں بالکل اندھیر ہے۔ (العیاذ باللہ)

۱۹ ۔۔۔    یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے عمل جنت کی مہمانی کا سبب بن جائیں گے۔

۲۰ ۔۔۔  کبھی کبھی آگ کے شعلے جہنمیوں کو دروازہ کی طرف پھینکیں گے۔ اس وقت شاید نکلنے کا خیال کریں۔ فرشتے پھر ادھر ہی دھکیل دیں گے کہ جاتے کہاں ہو۔ جس چیز کو جھٹلاتے تھے ذرا اس کا مزہ چکھو (اللھم اعذنی من النار واجرنی من غضبک)

۲۱ ۔۔۔   یعنی آخرت کے بڑے عذاب سے قبل دنیا میں ذرا کم درجہ کا عذاب بھیجیں گے تاکہ جسے رجوع کی توفیق ہو ڈر کر خدا کی طرف رجوع ہو جائے۔ کم درجہ کا عذاب یہی دنیا کے مصائب، بیماری، قحط، قتل، قید، مال اولاد وغیرہ کی تباہی وغیرہ۔

۲۲ ۔۔۔  ۱: یعنی سمجھنے کے بعد پھر گیا۔

۲:  جب تمام گنہگاروں اور ظالم مجرموں سے بدلہ لینا ہے تو یہ اظلم کیونکر بچ سکتے ہیں۔ آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے ظلم و اعراض سے دلگیر نہ ہوں۔ پہلے موسیٰ کو ہم نے کتاب دی تھی جس سے بنی اسرائیل کو ہدایت ہوئی۔ اور اس کی پیروی کرنے والوں میں بڑے بڑے دینی پیشوا اور امام ہو گزرے۔ آپ کو بھی بلاشبہ اللہ کی طرف سے عظیم الشان کتاب ملی ہے جس سے بڑی مخلوق ہدایت پائے گی۔ اور بنی اسرائیل سے بڑھ کر آپ کی امت میں امام اور سردار اٹھیں گے۔ رہے منکر، ان کا فیصلہ حق تعالیٰ خود کر دے گا۔

۲۳ ۔۔۔   یہ درمیان میں جملہ معترضہ ہے یعنی بیشک و شبہ موسیٰ کو کتاب دی گئی اور آپ کو بھی اسی طرح کی کتاب ملی اس میں کوئی دھوکا اور فریب نہیں۔ یا موسیٰ کے ذکر پر فرما دیا کہ تم جو موسیٰ سے شب معراج میں ملے تھے وہ سچی حقیقت ہے کوئی دھوکا یا نظر بندی نہیں۔

۲۴ ۔۔۔  ۱: دنیا کے شدائد اور منکرین کے جور و ستم پر۔

۲: یعنی مسلمان اللہ کے وعدوں پر یقین رکھیں اور سختیوں پر صبر کر کے اپنے کام پر جمے رہیں تو ان کے ساتھ بھی خدا کا یہ ہی معاملہ ہو گا۔ چنانچہ ہوا اور خوب ہوا۔

۲۵ ۔۔۔  یعنی اہل حق اور منکرین کے درمیان دو ٹوک اور عملی فیصلہ قیامت کے دن ہو گا۔ ہاں دنیا میں بھی کئی مثالیں ایسی دکھلائی جا چکی ہیں کہ آدمی انہیں دیکھ کر سمجھ اور عبرت حاصل کر سکتا ہے۔ کیا عاد و ثمود کی بستیوں کے تباہ شدہ کھنڈر اور نشان ان منکروں نے نہیں دیکھے؟ جن پر شام وغیرہ کے سفر میں ان کا گزر ہوتا رہتا ہے۔ اور کیا ان کی ہلاکت کی داستانیں نہیں سنیں۔ مقام تعجب ہے کہ وہ چیزیں دیکھنے اور سننے کے بعد بھی ان کو تنبہ نہ ہوا اور نجات و فلاح کا راستہ نظر نہ آیا۔

۲۷ ۔۔۔  ۱: یعنی نہروں اور دریاؤں کا پانی یا بارش کا۔

۲:  "ارض جرز" سے ہر ایک خشک زمین جو نباتات سے خالی ہو مراد ہے بعض نے خاص سرزمین مصر کو اس کا مصداق قرار دیا ہے اور "نسوق المآء" سے دریائے نیل کا پانی مراد لیا ہے۔ اس تخصیص کی کوئی ضرورت نہیں۔ کما نبہ علیہ ابن کثیر رحمۃ اللہ۔

۳:   یعنی ان نشانات کو دیکھ کر چاہیے تھا کہ حق تعالیٰ کی قدرت اور رحمت و حکمت کے قائل ہوتے اور سمجھتے کہ اسی طرح مردہ لاشوں میں دوبارہ جان ڈال دینا بھی اس کے لئے کچھ دشوار نہیں۔ نیز اللہ کی نعمتوں کے جان و دل سے شکر گزار بنتے۔

۲۸ ۔۔۔  پہلے فرمایا تھا کہ ان کا فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے گا۔ اس پر منکرین کہتے ہیں کہ قیامت قیامت کہے جاتے ہو، اگر سچے ہو تو بتاؤ وہ دن کب آ چکے گا۔ مطلب یہ ہے کہ خالی دھمکیاں ہیں قیامت وغیرہ کچھ بھی نہیں۔

۲۹ ۔۔۔   یعنی ابھی موقع ہے کہ اللہ و رسول کے کہنے پر یقین کرو اور اس دن سے بچنے کی تیاری کر لو ورنہ اس کے پہنچ جانے پر نہ ایمان لانا کام دے گا نہ سزا میں ڈھیل ہو گی اور نہ مہلت ملے گی کہ آئندہ چال چلن درست کر کے حاضر ہو جاؤ اس وقت کی مہلت کو غنیمت سمجھو۔ استہزاء و تکذیب میں رائیگاں مت کرو جو گھڑی آنے والی ہے یقیناً آ کر رہے گی، کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی۔ پھر یہ کہنا فضول ہے کہ کب آئے گی اور کب فیصلہ ہو گا۔

۳۰ ۔۔۔  یعنی جو ایسے بے فکرے اور بے حس ہیں کہ باوجود انتہائی مجرم اور مستوجب سزا ہونے کے فیصلہ اور سزا کے دن کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کے راہ راست پر آنے کی کیا توقع ہے۔ لہٰذا آپ فرض دعوت و تبلیغ ادا کرنے کے بعد ان کا خیال چھوڑیے اور ان کی تباہی کے منتظر رہیے جیسے وہ اپنے زعم میں معاذاللہ آپ کی تباہی کے منظر ہیں۔ تم سورۃ السجدہ وللہ الحمد والمنۃ۔