خزائن العرفان

سُوۡرَةُ السَّجدَة

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ سجدہ مکّیہ ہے سوا تین آیتوں کے جو اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِناً سے شروع ہوتی ہیں، اس سورت میں تیس آیتیں اور تین سو اسّی کلمے اور ایک ہزار پانچ سو اٹھارہ حرف ہیں۔

(۱)  الم

(۲)  کتاب کا اتارنا (ف ۲) بیشک پروردگار عالم کی طرف سے  ہے۔

۲                 یعنی قرآنِ کریم کا معجزہ کر کے اس طرح کہ اس کے مثل ایک سورت یا چھوٹی سی عبارت بنانے سے تمام فصحاء و بلغاء عاجز رہ گئے۔

(۳) کیا کہتے  ہیں (ف ۳) ان کی بنائی ہوئی  ہے  (ف ۴) بلکہ وہی حق ہے  تمہارے  رب کی طرف سے  کہ تم ڈراؤ ایسے  لوگوں کو جن کے  پاس تم سے  پہلے  کوئی ڈر سنانے  والا نہ آیا (ف ۵) اس امید پر کہ وہ راہ پائیں۔

۳                 مشرکین کہ یہ کتابِ مقدَّس۔

۴                 یعنی سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی۔

۵                 ایسے لوگوں سے مراد زمانۂ فطرت کے لوگ ہیں، وہ زمانہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سے سیدِ انبیاء محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بعثت تک تھا کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی رسول نہیں آیا۔

(۴) اللہ ہے  جس نے  آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے  بیچ میں ہے  چھ دن میں بنائے  پھر عرش پر استوا فرمایا (ف ۶) اس سے  چھوٹ کر (لا تعلق ہو کر) تمہارا کوئی حمایتی اور نہ سفارشی (ف ۷) تو کیا تم دھیان نہیں کرتے۔

۶                 جیسا استوا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔

۷                 یعنی اے گروہِ کُفّار جب تم اللہ تعالیٰ کی راہِ رضا اختیار نہ کرو اور ایمان نہ لاؤ تو نہ تمہیں کوئی مدد گار ملے گا جو تمہاری مدد کر سکے نہ کوئی شفیع جو تمہاری شفاعت کرے۔

(۵) کام کی تدبیر فرماتا ہے  آسمان سے  زمین تک (ف ۸) پھر اسی کی طرف رجوع کرے  گا (ف ۹) اس دن کہ جس کی مقدار ہزار برس ہے  تمہاری گنتی میں (ف ۱۰)

۸                 یعنی دنیا کہ قیامت تک ہونے والے کاموں کی اپنے حکم و امر اور اپنے قضا و قدر سے۔

۹                 امر و تدبیر فَنائے دنیا کے بعد۔

۱۰               یعنی ایامِ دنیا کے حساب سے اور وہ دن روزِ قیامت ہے، روزِ قیامت کی درازی بعض کافِروں کے لئے ہزار برس کے برابر ہو گی اور بعض کے لئے پچاس ہزار برس کے برابر جیسے کہ سورۂ معارج میں ہے تَعْرُجُ الْمَلٰۤئِکَۃُ وَ الرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْ مٍ کَانَ مِقْدَارُہ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ  اور مومن پر یہ دن ایک نمازِ فرض کے وقت سے بھی ہلکا ہو گا جو دنیا میں پڑھتا تھا جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا۔

(۶) یہ (ف ۱۱) ہے  ہر نہاں اور عیاں کا جاننے  والا عزت و  رحمت والا۔

۱۱               خالق، مدبِّر جلّ جلالہ۔

(۷) وہ جس نے  جو چیز بتائی خوب بنائی (ف ۲۱) اور پیدائش انسان کی ابتدا مٹی سے  فرمائی (ف ۱۳)

۱۲               حسبِ اقتضائے حکمت بنائی، ہر جاندار کو وہ صورت دی جو اس کے لئے بہتر ہے اور اس کو ایسے اعضاء عطا فرمائے جو اس کے معاش کے لئے مناسب ہیں۔

۱۳               حضرت آدم علیہ السلام کو اس سے بنا کر۔

(۸) پھر اس کی نسل رکھی ایک بے  قدر پانی کے  خلاصہ سے  (ف ۱۴)

۱۴               یعنی نطفہ سے۔

(۹) پھر  اسے  ٹھیک کیا اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکی (ف ۱۵) اور تمہیں کان اور آنکھیں اور دل عطا فرمائے  (ف ۱۶) کیا ہی تھوڑا حق مانتے  ہو۔

۱۵               اور اس کو بے حس بے جان ہونے کے بعد حساس اور جاندار کیا۔

۱۶               تاکہ تم سنو اور دیکھو اور سمجھو۔

(۱۰) اور بولے  (ف ۱۷) کیا جب ہم مٹی میں مل جائیں گے  (ف ۱۸) کیا پھر نئے  بنیں گے، بلکہ وہ اپنے  رب کے  حضور حاضری سے  منکر ہیں (ف ۱۹)

۱۷               منکِرینِ بَعث۔

۱۸               اور مٹی ہو جائیں گے اور ہمارے اجزا مٹی سے ممتاز نہ رہیں گے۔

۱۹               یعنی موت کے بعد اٹھنے اور زندہ کئے جانے کا انکار کر کے وہ اس انتہا تک پہنچے ہیں کہ عاقبت کے تمام امور کے منکِر ہیں حتّیٰ کہ ربّ کے حضور حاضر ہونے کے بھی۔

(۱۱) تم فرماؤ تمہیں وفات دیتا ہے  موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر ہے  (ف ۲۰) پھر اپنے  رب کی طرف واپس جاؤ گے  (ف ۲۱)

۲۰               اس فرشتہ کا نام عزرائیل ہے علیہ السلام اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحیں قبض کرنے پر مقرر ہیں، اپنے کام میں کچھ غفلت نہیں کرتے جس کا وقت آ جاتا ہے بے درنگ اس کی روح قبض کر لیتے ہیں۔ مروی ہے کہ مَلَک الموت کے لئے دنیا مثلِ کفِ دست کر دی گئی ہے تو وہ مشارق و مغارب کی مخلوق کی روحیں بے مشقّت اٹھا لیتے ہیں اور رحمت و عذاب کے بہت فرشتے ان کے ماتحت ہیں۔

۲۱               اور حساب و جزا کے لئے زندہ کر کے اٹھائے جاؤ گے۔

(۱۲) اور کہیں تم دیکھو جب مجرم (ف ۲۲) اپنے  رب کے  پاس سر نیچے  ڈالے  ہوں گے  (ف ۲۳) اے  ہمارے  رب  اب ہم نے  دیکھا (ف ۲۴) اور سنا (ف ۲۵) ہمیں پھر بھیج کہ نیک کام کریں ہم کو یقین آگیا (ف ۲۶)

۲۲               یعنی کُفّار و مشرکین۔

۲۳               اپنے افعال و کردار سے شرمندہ و نادم ہو کر اور عرض کرتے ہوں گے۔

۲۴               مرنے کے بعد اٹھنے کو اور تیرے وعدہ وعید کے صدق کو جن کے ہم دنیا میں منکِر تھے۔

۲۵               تجھ سے تیرے رسولوں کی سچّائی کو تو اب دنیا میں۔

۲۶               اور اب ہم ایمان لے آئے لیکن اس وقت کا ایمان لانا انہیں کچھ کام نہ دے گا۔

(۱۳) اور اگر ہم چاہتے  ہر جان کو اس کی ہدایت فرماتے  (ف ۲۷) مگر میری بات قرار پا چکی کہ ضرور جہنم کو بھر دوں گا ان جِنوں اور آدمیوں سب سے  (ف ۲۸)

۲۷               اور اس پر ایسا لطف کرتے کہ اگر وہ اس کو اختیار کرتا تو راہ یاب ہوتا لیکن ہم نے ایسا نہ کیا کیونکہ ہم کافِروں کو جانتے تھے کہ وہ کُفر ہی اختیار کریں گے۔

۲۸               جنہوں نے کُفر اختیار کیا اور جب وہ جہنّم میں داخل ہوں گے تو جہنّم کے خازن ان سے کہیں گے۔

(۱۴) اب چکھو بدلہ اس کا کہ تم اپنے  اس دن کی حاضری  بھولے  تھے  (ف ۲۹) ہم نے  تمہیں چھوڑ دیا (ف ۳۰) اب ہمیشہ کا عذاب چکھو اپنے  کیے  کا بدلہ۔

۲۹               اور دنیا میں ایمان لائے تھے۔

۳۰               عذاب میں اب تمہاری طرف التفات نہ ہو گا۔

(۱۵) ہماری آیتوں پر وہی ایمان لاتے  ہیں کہ جب وہ انہیں یاد دلائی  جاتی  ہیں سجدہ میں گر جاتے  ہیں (ف ۳۱) اور اپنے  رب کی تعریف کرتے  ہوئے  اس کی پاکی بولتے  ہیں اور تکبر نہیں کرتے، السجدۃ۔۹

۳۱     تواضُع اور خشوع سے اور نعمتِ اسلام پر شکر گزاری کے لئے۔

(۱۶) ان کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خوابگاہوں ہسے  (ف ۳۲) اور اپنے  رب کو پکارتے  ہیں ڈرتے  اور امید کرتے  (ف ۳۳) اور ہمارے  دیے  ہوئے  سے  کچھ خیرات کرتے  ہیں۔

۳۲     یعنی خوابِ استراحت کے بستروں سے اٹھتے ہیں اور اپنے راحت و آرام کو چھوڑتے ہیں۔

۳۳     یعنی اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور اس کی رحمت کی امید کرتے ہیں یہ تہجُّد ادا کرنے والوں کی حالت کا بیان ہے۔

 شانِ نُزول : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت ہم انصاریوں کے حق میں نازل ہوئی کہ ہم مغرب پڑھ کر اپنی قیام گاہوں کو واپس نہ آتے تھے جب تک کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نمازِ عشاء نہ پڑھ لیتے۔

(۱۷) تو کسی جی کو نہیں معلوم جو آنکھ کی ٹھنڈک ان کے  لیے  چھپا رکھی ہے  (ف ۳۴) صلہ ان کے  کاموں کا (ف ۳۵)

۳۴               جس سے وہ راحتیں پائیں گے اور ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔

یعنی ان طاعتوں کا جو انہوں نے دنیا میں ادا کیں۔

(۱۸) تو کیا جو ایمان والا ہے  وہ اس جیسا ہو جائے  گا  جو بے  حکم ہے  (ف ۳۶) یہ برابر نہیں۔

یعنی کافِر ہے۔

شانِ نُزول : حضرت علی مرتضیٰ کرّم اللہ تعالیٰ وجہ سے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کسی بات میں جھگڑ رہا تھا، دورانِ گفتگو میں کہنے لگا خاموش ہو جاؤ تم لڑکے ہو میں بوڑھا ہوں، میں بہت زبان دراز ہوں، میری نوکِ سنان تم سے زیادہ تیز ہے، میں تم سے زیادہ بہادر ہوں، میں بڑا جھتے دار ہوں، حضرت علی مرتضیٰ کرّم اللہ تعالیٰ وجہ نے فرمایا چپ تو فاسق ہے، مراد یہ تھی کہ جن باتوں پر تو ناز کرتا ہے انسان کے لئے ان میں سے کوئی قابلِ مدح نہیں، انسان کا فضل و شرف ایمان و تقویٰ میں ہے جسے یہ دولت نصیب نہیں وہ انتہا کا رذیل ہے، کافِر مومن کے برابر نہیں ہو سکتا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت علی مرتضیٰ کرّم اللہ تعالیٰ وجہ کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی۔

(۱۹) جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  ان کے  لیے  بسنے  کے  باغ ہیں، ان کے  کاموں کے  صلہ میں مہمانداری (ف ۳۷)

یعنی مومنینِ صالحین کی جنّتِ ماویٰ میں عزّت و اکرام کے ساتھ مہمانداری کی جائے گی۔

(۲۰) رہے  وہ جو بے  حکم ہیں (ف ۳۸) ان کا ٹھکانا  آ  گ ہے، جب کبھی  اس میں سے  نکلنا چاہیں گے  پھر اسی میں پھیر دیے  جائیں گے  اور ان سے  کہا جائے  گا چکھو اس آگ کا عذاب جسے  تم جھٹلاتے  تھے۔

۳۸               نافرمان کافِر ہیں۔

(۲۱) اور ضرور ہم انہیں چکھائیں گے  کچھ نزدیک کا عذاب (ف ۱۳۹) اس بڑے  عذاب سے  پہلے  (ف ۴۰) جسے  دیکھنے  والا امید کرے  کہ ابھی باز آئیں گے۔

۳۹               دنیا ہی میں قتل اور گرفتاری اور قحط و امراض وغیرہ میں مبتلا کر کے چنانچہ ایسا ہی پیش آیا کہ حضور کی ہجرت سے قبل قریش امراض و مصائب میں گرفتار ہوئے اور بعدِ ہجرت بدر میں مقتول ہوئے، گرفتار ہوئے اور سات برس قحط کی ایسی سخت مصیبت میں مبتلا رہے کہ ہڈیاں اور مردار اور کتّے تک کھا گئے۔

۴۰               یعنی عذابِ آخرت سے۔

(۲۲) اور اس سے  بڑھ کر ظالم کون جسے  اس کے  رب کی آیتوں سے  نصیحت کی گئی پھر اس نے  ان سے  منہ پھیر لیا (ف ۴۱) بیشک ہم مجرموں سے  بدلہ لینے  والے  ہیں۔

اور آیات میں غور نہ کیا اور ان کے وضوح و ارشاد سے فائدہ نہ اٹھایا اور ایمان سے بہرہ اندوز نہ ہوا۔

(۲۳) اور بیشک ہم نے  موسیٰ کو کتاب (ف ۴۲) عطا فرمائی تو تم اس کے  ملنے  میں شک نہ کرو (ف ۴۳) اور ہم نے  اسے  (ف ۴۴) بنی اسرائیل کے  لیے  ہدایت کیا۔

یعنی توریت۔

یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب کے ملنے میں یا یہ معنیٰ ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ملنے اور ان سے ملاقات ہونے میں شک نہ کرو چنانچہ شبِ معراج حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔

۴۴               یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یا توریت کو۔

(۲۴) اور ہم نے  ان میں سے  (ف ۴۵) کچھ امام بنائے  کہ ہمارے  حکم سے  بناتے  (۴۶) جبکہ انہوں نے  صبر کیا (ف ۴۷) اور وہ ہماری آیتوں پر یقین لاتے  تھے۔

۴۵               یعنی بنی اسرائیل میں سے۔

۴۶               لوگوں کو خدا کی طاعت اور اس کی فرمانبرداری اور اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی شریعت کا اِتّباع، توریت کے احکام کی تعمیل اور یہ امامِ انبیائے بنی اسرائیل تھے یا انبیاء کے متّبِعین۔

۴۷               اپنے دین پر اور دشمنوں کی طرف سے پہنچنے والی مصیبتوں پر۔

فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ صبر کا ثمرہ امامت اور پیشوائی ہے۔

(۲۵) بیشک تمہارا رب ان میں فیصلہ کر دے  گا (ف ۴۸) قیامت کے  دن جس بات میں اختلاف کرتے  تھے  (ف ۴۹)

۴۸               یعنی انبیاء میں اور ان کی اُمّتوں میں یا مومنین و مشرکین میں۔

۴۹               امورِ دین میں سے اور حق و باطل والوں کو جُدا جُدا ممتاز کر دے گا۔

(۲۶) اور کیا انہیں (ف ۵۰) اس پر ہدایت نہ ہوئی کہ ہم نے  ان سے  پہلے  کتنی سنگتیں (قومیں ) (ف ۵۱) ہلاک کر دیں کہ آج یہ ان کے  گھروں میں چل پھر رہے  ہیں (ف ۵۲) بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں تو کیا سنتے  نہیں (ف ۵۳)

۵۰               یعنی اہلِ مکّہ کو۔

۵۱               کتنی اُمّتیں مثلِ عاد و ثمود و قومِ لوط کے۔

۵۲               یعنی اہلِ مکّہ جب بسلسلۂ تجارت شام کے سفر کرتے ہیں تو ان لوگوں کے منازل و بلاد میں گزرتے ہیں اور ان کی ہلاکت کے آثار دیکھتے ہیں۔

۵۳               جو عبرت حاصل کریں اور پند پذیر ہوں۔

(۲۷) اور کیا نہیں دیکھتے  کہ ہم پانی بھیجتے  ہیں خشک زمین کی طرف (ف ۵۴) پھر اس سے  کھیتی نکالتے  ہیں کہ اس میں سے  ان کے  چوپائے  اور وہ خود کھاتے  ہیں (ف ۵۵) تو کیا انہیں سوجھتا نہیں (ف ۵۶)

۵۴               جس میں سبزہ کا نام و نشان نہیں۔

۵۵               چوپائے بھوسہ اور وہ خود غلّہ۔

۵۶               کہ وہ یہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے کمالِ قدرت پر استدلال کریں اور سمجھیں کہ جو قادرِ برحق خشک زمین سے کھیتی نکالنے پر قادر ہے مُردوں کا زندہ کرنا اس کی قدرت سے کیا بعید۔

(۲۸) اور کہتے  ہیں یہ فیصلہ کب ہو گا اگر تم سچے  ہو (ف ۵۷) تم فرماؤ فیصلہ کے  دن (ف ۵۸) کافروں کو ان کا ایمان لانا نفع نہ دے  گا اور نہ انہیں مہلت ملے  (ف ۵۹)

۵۷               مسلمان کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور مشرکین کے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور فرمانبردار اور نافرمان کو ان کے حسبِ عمل جزا دے گا، اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہم پر رحمت و کرم کرے گا اور کُفّار و مشرکین کو عذاب میں مبتلا کرے گا، اس پر کافِر بطورِ تمسخُر و اِستِہزاء کہتے تھے کہ یہ فیصلہ کب ہو گا، اس کا وقت کب آئے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب سے ارشاد فرماتا ہے۔

۵۸               جب عذابِ الٰہی نازل ہو گا۔

۵۹               توبہ و معذرت کی فیصلہ کے دن سے یا روزِ قیامت مراد ہے یا روزِ فتحِ مکّہ یا روزِ بدر بر تقدیرِ اوّل اگر روزِ قیامت مراد ہو تو ایمان کا نافع نہ ہونا ظاہر ہے کیونکہ ایمان وہی مقبول ہے جو دنیا میں ہو اور دنیا سے نکلنے کے بعد نہ ایمان مقبول ہو گا نہ ایمان لانے کے لئے دنیا میں واپس آنا میسّر آئے گا اور اگر فیصلہ کے دن سے روزِ بدر یا روزِ فتحِ مکّہ مراد ہو تو معنیٰ یہ ہیں کہ جبکہ عذاب آ جائے اور وہ لوگ قتل ہونے لگیں تو حالتِ قتل میں ان کا ایمان لانا قبول نہ کیا جائے گا اور نہ عذاب مؤخّر کر کے انہیں مہلت دی جائے چنانچہ جب مکّہ مکرّمہ فتح ہوا تو قوم بنی کنانہ بھاگی حضرت خالد بن ولید نے جب انہیں گھیرا اور انہوں نے دیکھا کہ اب قتل سر پر آ گیا کوئی امید جاں بَری کی نہیں تو انہوں نے اسلام کا اظہار کیا، حضرت خالد نے قبول نہ فرمایا اور انہیں قتل کر دیا۔ (جمل وغیرہ)

(۲۹) تو ان سے  منہ پھیر لو اور انتظار کرو (ف ۶۰) بیشک انہیں بھی انتظار کرنا ہے  (ف ۶۱)

۶۰               ان پر عذاب نازل ہونے کا۔

۶۱               بخاری و مسلم شریف کی حدیث شریف میں ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم روزِ جمعہ نمازِ فجر میں یہ سورت یعنی سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر پڑھتے تھے۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ جب تک حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم یہ سورت اور سورۂ  تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ پڑھ نہ لیتے خواب نہ فرماتے۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ سورۂ سجدہ عذابِ قبر سے محفوظ رکھتی ہے۔ (خازن و مدارک)