تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ السَّجدَة

(سورۃ السجدۃ ۔ سورہ نمبر ۳۲ ۔ تعداد آیات ۳۰)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     ا لٓ مٓ

۲۔۔۔     یہ سراسر اتاری گئی کتاب ہے اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں یہ پروردگار عالم کی طرف سے

۳۔۔۔     کیا یہ لوگ (پھر بھی) یہ کہتے ہیں کہ اس کو اس شخص نے خود گھڑ لیا ہے (نہیں ) بلکہ یہ سراسر حق ہے آپ کے رب کی طرف سے تاکہ آپ خبردار کریں ان لوگوں کو جن کے پاس آپ سے قبل (ماضی قریب میں ) کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تاکہ یہ لوگ راہ راست پا سکیں

۴۔۔۔     اللہ وہی تو ہے جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو اور ان تمام چیزوں کو جو کہ ان دونوں کے درمیان ہیں چھ دنوں (کی مدت) میں پھر وہ جلوہ افروز ہوا عرش پر اس کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی (و سرپرست) ہے اور نہ کوئی سفارشی تو کیا تم لوگ سمجھتے نہیں ہو؟

۵۔۔۔     وہی تدبیر فرماتا ہے (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ) ہر کام کی آسمان سے زمین تک پھر اسی کی طرف چڑھتا ہے وہ کام ایک ایسے عظیم الشان دن میں جس کی مقدار ہزار برس ہے (ماہ و سال کی) اس گنتی کے اعتبار سے جو تم لوگ کرتے ہو

۶۔۔۔     یہ ہے (اللہ) جاننے والا ہر نہاں و عیاں کا (سب پر) غالب انتہائی مہربان (اور کرم فرمانے والا)

۷۔۔۔     جس نے نہایت عمدہ بنایا ہر چیز کو جس کو بھی بنایا اور اس نے انسان کی پیدائش کا آغاز فرمایا مٹی سے

۸۔۔۔     پھر اس نے رکھ دیا اس کی نسل کو ایک (نہایت ہی پر حکمت طریقے سے ) ایک بے قدرے پانی کے ست میں

۹۔۔۔     پھر اس نے برابر کر دیا اس (کے اعضاء و جوارح) کو (رحم مادر کے اندھیرے میں ) اور پھونک دیا اس کے اندر اپنی روح میں سے اور اس نے نواز دیا تمہیں کانوں آنکھوں اور دلوں کی (عظیم الشان نعمتوں ) سے بہت ہی کم شکر کرتے ہو تم لوگ

۱۰۔۔۔     اور کہتے ہیں کہ کیا جب ہم (مر کر) زمین میں نیست و نابود ہو جائیں گے تو کیا واقعی ہمیں نئے سرے سے پھر پیدا کیا جائے گا؟ (اور بات صرف تعجب ہی کی نہیں ) بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے رب سے ملنے کے ہی منکر ہیں

۱۱۔۔۔     (ان سے ) کہو کہ تمہاری جان پوری کی پوری قبض کرتا ہے موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم سب کو بہر حال اپنے رب ہی کے حضور لوٹ کر جانا ہے

۱۲۔۔۔     اور اگر تم (اس وقت کا حال) دیکھ سکو کہ جب مجرم لوگ اپنے رب کے حضور اپنے سروں کو جھکائے (کھڑے ) ہوں گے (اور نہایت ہی حسرت و لجاجت کے ساتھ عرض کر رہے ہوں گے کہ) اے ہمارے رب اب ہم نے خود دیکھ اور سن لیا پس تو ہمیں واپس بھیج دے (دنیا میں ) تاکہ ہم نیک کام کریں کہ اب ہمیں پورا یقین آگیا ہے

۱۳۔۔۔     حالانکہ اگر ہمیں (مشاہدہ اضطرار کا ایسا ایمان) منظور ہوتا تو ہم ہر شخص کو اس کی ہدایت کبھی کے دے چکے ہوتے مگر اب تو (ان پر) پکی ہو گئی میری بات کہ میں نے ضرور بھرنا ہے جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے

۱۴۔۔۔     سو (اس وقت ایسوں سے کہا جائے گا کہ) اب چکھو تم لوگ مزہ (اس عذاب کا) اس بناء پر کہ تم نے بھلا دیا تھا اپنے اس (عظیم الشان) دن کی پیشی کو اب ہم تمہیں بھلائے دیتے ہیں اور اب تم چکھو عذاب ہمیشہ کا اپنے ان کرتوتوں کی پاداش میں جو تم (زندگی بھر) کرتے رہے تھے

۱۵۔۔۔     ہماری آیتوں پر ایمان تو بس وہی لوگ رکھتے ہیں (جن کی شان یہ ہوتی ہے کہ) جب ان کو نصیحت کی جاتی ہے ان (آیتوں ) کے ذریعے تو وہ گر پڑتے ہیں سجدہ ریزہ ہو کر (اپنے رب کے حضور) اور وہ تسبیح کرتے ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور وہ اپنی بڑائی کا گھمنڈ نہیں رکھتے

۱۶۔۔۔     جن کے پہلو دور رہتے ہیں اپنے بستروں سے (اپنے رب کی یاد دلشاد اور اس کی رضا کے لئے اور) وہ پکارتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہوتا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں

۱۷۔۔۔     سو کوئی نہیں جان سکتا کہ ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان چھپا کر رکھا گیا ہے ان کے ان اعمال بدلے میں جو وہ (زندگی بھر) کرتے رہے تھے

۱۸۔۔۔     تو کیا جو شخص مومن ہو وہ اس جیسا ہو سکتا ہے جو فاسق ہو یہ دونوں کبھی باہم برابر نہیں ہو سکتے

۱۹۔۔۔     چنانچہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے تو ان کے لئے راحت کے باغ ہونگے مہمانی کے طور پر ان کے ان اعمال کے بدلے میں جو یہ کرتے رہے تھے (اپنی دنیاوی زندگی میں )

۲۰۔۔۔     اور (اس کے برعکس) جو لوگ اڑے رہے ہوں گے اپنے کفر (و باطل) پر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جب وہ چاہیں گے کہ (کسی طرح) اس سے نکل جائیں تو ان کو اسی میں دھکیل دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ اب چکھتے رہو تم لوگ مزہ آگ کے اس عذاب کا جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے

۲۱۔۔۔     اور ہم چکھاتے رہیں گے ان کو چھوٹے چھوٹے عذاب اس بڑے عذاب سے پہلے تاکہ یہ لوگ باز آ جائیں (اپنی سرکشی سے )

۲۲۔۔۔     اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جس کو نصیحت کی جائے اس کے رب کی آیتوں کے ذریعے پھر وہ ان سے منہ موڑے یقیناً ہم نے انتقام لے کر رہنا ہے ایسے مجرموں سے

۲۳۔۔۔     اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو بھی (آپ ہی کی طرح) وہ کتاب دی تھی پس آپ کو اس کے ملنے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے اور ہم نے اس کو ہدایت (و راہنمائی) کا ذریعہ بنایا تھا بنی اسرائیل کے لئے

۲۴۔۔۔     اور ہم نے ان میں سے کچھ کو پیشوا بنایا تھا جو (لوگوں کی) راہنمائی کرتے تھے ہمارے حکم کے مطابق جب کہ انہوں نے صبر سے کام لیا اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے

۲۵۔۔۔     بلاشبہ تمہارا رب (آخری اور عملی) فیصلہ فرمائے گا ان لوگوں کے درمیان قیامت کے روز ان تمام باتوں کا جن کے بارہ میں یہ اختلاف کرتے رہے تھے

۲۶۔۔۔     کیا ان لوگوں کو اس سے بھی کوئی راہنمائی نہ ملی کہ ہم ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں بلاشبہ اس میں بہت بڑی نشانیاں ہیں تو کیا یہ لوگ سنتے نہیں ؟

۲۷۔۔۔     کیا یہ لوگ اس میں غور نہیں کرتے کہ ہم (کس پر حکمت طریقے سے ) چلاتے ہیں پانی کو خشک پڑی (اور بے آب و گیاہ) زمین کی طرف پھر اس کے ذریعے ہم (طرح طرح کی) ایسی پیداواریں نکالتے ہیں جن سے ان کے جانور بھی کھاتے ہیں اور یہ خود بھی تو کیا ان کو کچھ سوجھتا نہیں ؟

۲۸۔۔۔     اور کہتے ہیں کہ کب ہو گا یہ فیصلہ اگر تم سچے ہو؟

۲۹۔۔۔     کہو کہ فیصلے کے اس دن نہ تو کافروں کو انکا (اس وقت کا) ایمان کچھ کام آ سکے گا اور نہ ہی ان کو (اس کے بعد) کسی طرح کی کوئی مہلت مل سکے گی

۳۰۔۔۔     پس آپ منہ موڑ لیں ان (ہٹ دھرموں ) سے اور انتظار کریں (ان کے انجام بد کا کہ) بے شک یہ بھی انتظار میں لگے ہیں

تفسیر

 

۶۔۔۔    سو غیب و شہادت یعنی نہاں وعیاں کو پوری طرح اور ایک برابر جاننا اسی وحدہٗ لاشریک کی صفت اور اسی کی شان ہے، اس میں اور کوئی بھی اس کا شریک و سہیم نہ ہے نہ ہو سکتا ہے اور وہ عزیز و زبردست اور سب پر غالب بھی ہے، پس وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے۔ نہ اس کے لئے کوئی مشکل و رکاوٹ۔ اور نہ کوئی اس کا مزاحم و مقابل، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ رحیم اور انتہائی مہربان بھی ہے۔ اس لئے وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اپنی رحمت بے پایاں کے تقاضوں کے مطابق ہی کرتا ہے۔ اور جب اس کی ان صفات کے مطابق ہی کرتا ہے اور اپنی عظیم الشان صفات و شؤون میں کوئی بھی اس کا شریک و سہیم نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں بھی کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں ہو سکتا۔ پس معبود برحق وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا حق ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ اور جب وہ ایسی صفت و شان کا مالک ہے تو پھر بندوں کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اور ہر حال میں بھروسہ و اعتماد بھی اسی وحدہٗ لاشریک کریں۔

۷۔۔۔    سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو بھی پیدا فرمایا نہایت عمدگی سے پیدا فرمایا، اور ایسا اور اس طور پر کہ ہر چیز سے اس کی قدرت بے نہایت اس کی حکمت بے غایت اور اس کے کمال ربوبیت کے عظیم الشان شواہد و مظاہر سامنے آتے ہیں، اور ایسے اور اس طور پر کہ سوچنے اور غور کرنے سے اس کی صنعت و کاریگری پر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اور وہ بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ یعنی بڑا ہی برکت والا ہے وہ اللہ جو نہایت ہی عمدہ پیدا کرنے والا ہے۔ اور پھر اس کے لئے انسان کو خود اس کی اپنی ذات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی کہ اس کے لئے تم لوگوں کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ تم لوگ خود اپنی ہی خلقت و پیدائش میں غور کر کے دیکھ لو۔ اور خود اپنی ہی تخلیق کے مختلف مدارج و مراحل میں غور و فکر کر لو۔ اور دیکھو کہ اس کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و ربوبیت کی کیا کیا شانیں خود تمہارے اپنے وجود کے اندر پائی جاتی ہیں، یہ انسان جو اپنی لیاقتوں اور قابلیتوں پر نازاں و فرحاں ہے حضرت قادرِ مطلق جَلَّ جَلَالُہ، نے اس کو اس بے جان اور بے حس مٹی سے بنایا اور پیدا کیا ہے، جو اس کے پاؤں تلے روندی جانے والی چیز ہے، ذرا سوچو کہ کہاں یہ خاک بے جان اور کہاں اس سے وجود میں آنے والا، اور عقل و فکر کے جوہر سے آراستہ پیراستہ یہ انسان جو کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں، قادرِ مطلق نے اس کو کہاں سے اٹھا کر کہاں پہنچا دیا۔ پھر خلقت انسانی کے دوسرے مرحلے میں اس کو مٹی کے بجائے ایک حقیر و ناپاک پانی کے ست سے بنایا۔ اور پھر اس کے تسویہ یعنی اس کی نوک پلک سنوارنے کے بعد اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔ جس کے نتیجے میں اس کے اندر سمع و بصر، دل و دماغ، اور علم و ادراک، کی وہ عظیم الشان صلاحیتیں نمودار ہوئیں جن سے یہ دوسری تمام حیوانی مخلوقات سے امتیازی پوزیشن کا حامل بنا۔ سو اس روح سے مراد وہ ملکوتی روح ہے جو حیوانی روح سے الگ، اور اس سے اعلیٰ و بالا نوعیت کی ہوتی ہے، اور رُوْحِہٖ کی اضافت سے اس کے اختصاص اور اس کے شرف و مرتبہ کا اظہار ہوتا ہے، کہ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص فیوض و برکات میں سے ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ اس وحدہٗ لاشریک کی روح کا کوئی حصہ اس کے اندر آگیا، کہ وہ ایسے تمام تصورات سے پاک، اور اس سے کہیں اعلیٰ و بالا ہے، سبحانہ و تعالیٰ، سو اپنی تخلیق و پیدائش کے ان مختلف مدارج و مراحل میں غور و فکر سے تم لوگ اندازہ کر سکتے ہو کہ اس قادر مطلق کے تم پر کتنے بڑے۔ اور کس قدر عظیم الشان احسانات ہیں، کہاں سے تمہارا آغاز کیا۔ اور تم کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ سو اس کا تقاضا اور اس کا حق تو یہ تھا کہ تمہارے جسم کا رواں رواں اس کے لئے شکر و سپاس بن جاتا۔ اور تم دل و جان سے اس کے آگے جھک جھک جاتے، اور جھکے ہی رہتے۔ تم اس کی عنایت و ربوبیت پر اس کے شکر میں رطب اللسان رہتے اور اس کی بخشی ہوئی ان نعمتوں اور صلاحیتوں کو جو اس نے محض اپنے فضل و کرم سے تم لوگوں کو عطاء فرمائی ہیں۔ اس کی رضاء کے حصول۔ اور اس کی خوشنودی کے لئے صرف کرتے۔ مگر تم لوگ ہو کہ اسی سے غافل ہو گئے ہو۔ اور اسی کے ناشکرے اور نافرمان ہو گئے ہو۔ فَقَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ، والعیاذُ باللّٰہ جَلَّ وَعَلَا

۱۶۔۔۔    سو اس سے کامیاب اور فائز المرام لوگوں کی ان اہم اور بنیادی صفات کو واضح فرما دیا گیا جن کے سبب اور جن کے نتیجے میں ان کو وہ عظیم الشان اور بے مثال کامیابی نصیب ہو گی جو سب سے بڑی اور حقیقی کامیابی ہے، اور ان میں سے اہم اور بنیادی صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ استکبار یعنی اپنی بڑائی کے زعم اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے وہ حق کو صدقِ دل سے قبول کرتے تھے۔ خواہ وہ ان کو کہیں سے بھی اور کسی بھی واسطے سے ملے، چنانچہ اسی بناء پر وہ اللہ کی آیتوں پر ایمان رکھتے تھے، اور اس طور پر کہ جب ان کو ان آیتوں کے ذریعے تذکیر اور یاد دہانی کرائی جاتی تو وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہوئے اس کے حضور سجدے میں گر پڑتے، اور وہ اپنے رب کی یاد دلشاد کی بناء پر اور اس کی رضا و خوشنودی کی خاطر اپنے بستروں سے دور رہتے، اپنے رب کو خوف و امید کے ساتھ پکارتے، اور اس کے دیئے بخشے میں سے اس کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے خرچ بھی کرتے تھے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ وہاں پر نجات اپنے ایمان و اخلاص اور عمل و کردار کی بناء پر ہو گی۔ نہ کہ حسب ونسب وغیرہ کی بناء، پس محض فلاں ابن فلاں کی اس کے یہاں کوئی حیثیت نہیں سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۷۔۔۔    سو اس سے ایسے فائز المرام نیک بختوں اور خوش نصیبوں کے لئے ان کے بے مثال انعام و اکرام کا ذکر فرما دیا گیا کہ کوئی نہیں جان سکتا کہ ان کے لئے ان کے اعمال کے بدلے میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان پوشیدہ رکھا گیا ہے، حدیث قدسی میں اس بارہ میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے، جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی دل پر اس کا گزر ہی ہوا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی تائید میں اسی آیت کریمہ کا حوالہ دیا۔ اور ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگ چاہو تو اس آیت کریمہ کو پڑھ لو۔ اور یہ سب کچھ ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی سے نصیب ہو گا۔ اور یہ اسی کی شان کرم و عنایت ہے کہ وہ حیات دنیا کی چند روزہ فرصت میں کی گئی مساعی کے عوض ان کو اس ابدی بادشاہی سے نوازے گا، اور مزید کرم بالائے کرم یہ کہ وہ جنت کی ان عظیم الشان نعمتوں، اور وہاں کی اس اَبَدی بادشاہی کو اہل ایمان کے عمل کا بدلہ قرار دے گا، جیسا کہ یہاں ارشاد فرمایا گیا جَزَاء بِمَا کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ یعنی یہ ان کے ان اعمال کا بدلہ ہو گا جو وہ اپنی دنیاوی زندگی میں کرتے رہے ہونگے ان کے سرور کو دو بالا کرنے کے لئے ان سے فرمائے گا کہ یہ تم لوگوں کے اپنے ان اعمال کا صلہ و بدلہ ہے۔ جو تم لوگ دنیا میں کرتے رہے تھے، چنانچہ قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَنُوْدُوْا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃَ اُوْرِثْتُموْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (الاعراف۔۴۴) یعنی ان کو پکار کر ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہے تمہاری وہ جنت جس کا تم کو وارث بنا دیا گیا تمہارے ان اعمال کے بدلے میں جو تم لوگ کرتے رہے تھے، اور یہ اس لئے کہ انسان کو طبعی طور پر اپنے اعمال اور کارناموں کے ثمرات و نتائج سے جو خوشی و مسرت حاصل ہوتی ہے وہ کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہو سکتی، اس لئے اہل جنت کو جب بلا اور پکار کر یہ خوشخبری سنائی جائیگی کہ تم لوگوں کو اس جنت کا وارث بنا دیا گیا ہے تمہارے ان کاموں کے بدلے اور نتیجے میں جو تم اپنی دنیاوی زندگی میں اپنے رب کی رضا و خوشنودی کے لئے کرتے رہے تھے تو ان کی خوشی کا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے؟ اللہ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین

۲۲۔۔۔    استفہام یہاں پر انکاری ہے، یعنی ایسے لوگوں سے بڑھ کر ظالم اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ جن کو ان کے رب کی آیتوں کے ذریعے تذکیر و یاد دہانی کرائی جائے لیکن وہ اس کے باوجود ان سے اعراض و روگردانی برتیں، کیونکہ اپنے رب کی آیتوں سے منہ موڑنا بڑی بے قدری و ناشکری بھی ہے۔ اور محرومیوں کی محرومی بھی اس لئے اس کے مرتکب لوگ مجرم ہیں۔ اور مجرموں سے ان کے جرم کا انتقام اور بدلہ لینا رب کے عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ اس لئے وہ ایسے مجرموں سے آخرکار اور بہر حال انتقام لے گا۔ اور ان کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہر حال بھگتنا ہے، والعیاذُ باللہ العظیم

۲۴۔۔۔    سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو کتاب دی گئی تھی اس کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنایا تھا۔ پھر ان میں سے جن لوگوں نے اس کی تکذیب کی، وہ اس انجام سے دو چار ہوئے جو کتاب الٰہی کے مکذبین کے لئے ازل سے مقدر و مقرر ہے، اور اس کے برعکس جنہوں نے اس کو قبول کیا، وہ اس پر صدق دل سے ایمان لائے۔ اور اس صحیفہ ہدایت کو اپنا ہادی و راہنما بنایا۔ انہوں نے اس سے فیض پایا۔ اور وہ اس کی ہدایت و راہنمائی سے مستفید و فیضیاب ہوئے۔ اور اس کی بدولت ان کو اللہ تعالیٰ نے قوموں کی امامت و پیشوائی کے منصب سے سرفراز فرمایا۔ اور ان کے اندر اس نے ایسے لوگوں کو اٹھایا جو اللہ کے حکم سے لوگوں کی راہنمائی کرتے تھے۔ جبکہ انہوں نے راہ حق پر صبر و استقامت سے کام لیا۔ اور وہ اللہ کی آیتوں پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ سو اس سے ایک تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ راہ حق و صواب پر صبر و استقامت ذریعہ سرفرازی ہے، اور دوسری اہم بات اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ قیادت و امامت کتابِ الٰہی کے لازمی ثمرات میں سے ہے۔ والحمدللہ جل وعلا

۲۵۔۔۔    سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ ان لوگوں کا معاملہ خداوند قدوس کی اخروی عدالت میں بھی پیش ہو گا، جہاں پر ان کے درمیان ان تمام باتوں کا عملی اور آخری فیصلہ فرمایا جائے گا جس کے مطابق ان کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان ہو گا، اور اپنی کامل اور آخری شکل میں بھگتنا ہو گا کہ دارالجزا اور بدلے اور اس انصاف کا گھر وہی ہے جبکہ دنیا کی اصل حیثیت دارالعمل اور دارالابتلاء کی ہے۔

۲۶۔۔۔    یعنی ان کو سننا اور ماننا چاہیے تاکہ ان کی بگڑی بن سکے، اور یہ ماضی کی ان قوموں کے انجام سے درس عبرت لے سکیں جن کے کھنڈرات اور آثار ان کے سامنے ہیں، جن پر سے ان کا گزر ہمیشہ ہوتا رہتا ہے، لیکن عبرت پذیری کا جو گوہر اصل مطلوب ہے وہی عنقاء ہے، اور دنیا ہے کہ پہلے کی طرح آج بھی غفلت کا شکار ہے، الا ماشاء اللہ جل وعلا، بہر کیف دوسروں کے حالات کو دیکھ کر عبرت پکڑنا، اور اصلاح احوال کی طرف متوجہ ہونا عقل و نقل سب کا تقاضا ہے، جیسا کہ فرمایا گیا السَّعِیْدُ مَنْ وُعِظَ بِغَیْرِہٖ۔ یعنی سعادت مند وہی ہے جو دوسرے کے حال کو دیکھ کر عبرت پکڑے، تاکہ وہ برے انجام سے بچ سکے قبل اس سے کہ فرصت عمل اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور پھر تلافی و تدارک کا موقع باقی نہ رہے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے امین ثم امین یا رب العالمین

۲۸۔۔۔     یعنی یہ لوگ دل دماغ کو روشن کرنے اور چشم بصیرت و بصارت کو وا کر دینے والے ان دلائلِ آفاق انفس، اور تاریخی آثار و شواہد، میں غور و فکر کرنے، اور ان سے کام لینے، کے بجائے الٹا یہ لوگ بطور طنز و مزاح اور بطور تکذیب و استہزاء کہتے ہیں، کہ کب ہو گا یہ فیصلہ اگر تم لوگ سچے ہو اپنی اس بات میں؟ یعنی اگر سچ مچ اس نے آنا ہے تو آخر وہ آتا کیوں نہیں؟ یعنی یہ لوگ ان دلائل و شواہد کی روشنی میں اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں، بلکہ یہ اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہی مانیں گے۔ یعنی یہ لوگ وہ ماننا چاہتے ہیں جو حیوان کا ماننا ہوتا ہے، کہ وہ اسی وقت مانتا ہے جب کہ ڈنڈا اس کے سر پر پڑتا ہے۔ سو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ اسی وقت مانیں گے، جبکہ عذاب کا کوڑا ان کے سروں پر برسے کا حالانکہ عقل و خرد کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو اس کے وقوع سے پہلے مانا جائے۔ تاکہ اس سے بچنے کی فکر و کوشش کی جاس کے۔ ورنہ اس کے وقوع کے بعد ماننے کا کوئی نتیجہ و فائدہ نہیں ہو گا، کہ اس کے بعد اس سے بچنے کی پھر کوئی صورت ممکن نہ ہو گی۔

۲۹۔۔۔    سو اس سے ان لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ فرما دیا گیا کہ جس دن فیصلے کا دن آ جائے گا۔ اس دن ان کے ماننے اور ایمان لانے سے ان کو کسی طرح کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اور نہ ہی ان کو کوئی مہلت دی جائیں گی، کہ یہ توبہ و اصلاح کر کے تلافیِ مافات کر سکیں۔ کیونکہ وہ ایمان شہود و مشاہدہ کا ایمان ہو گا، جو کہ نہ مطلوب ہے اور نہ مفید، مطلوب و مفید وہ ایمان ہے۔ جو اپنے ارادہ و اختیار سے، اور بالغیب یعنی بن دیکھے لایا جائے، اور اپنی عقل و بصیرت کی روشنی و راہنمائی میں اور پیغمبر کی دعوت و تبلیغ کی بناء پر لایا جائے۔ ورنہ اگر جبری ایمان مطلوب ہوتا تو اس کے لئے تو اللہ تعالیٰ کا محض ارادہ اور ایک اشارہ ہی کافی تھا۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں دوسرے کئی مقامات پر اس حقیقت کو طرح طرح سے بیان اور واضح فرمایا گیا ہے۔

۳۰۔۔۔    سو اس سے معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کے بارے میں آخری ہدایت ارشاد فرمائی گئی ہے، کہ اگر یہ لوگ سننے ماننے، اور دعوت حق کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، تو ان کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ اور ان کے ساتھ کسی قسم کی مزید بحث نہ کرو۔ کہ پتھر پر جونک نہیں لگ سکتی۔ اس لئے ایسوں کے ساتھ مزید بحث و مباحثہ اور دعوت و گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ کی دعوت کا فائدہ تو انہی لوگوں کو ہوتا ہے، اور انہیں ہی ہو سکتا ہے، اور وہی اس سے مستفید و فیضیاب ہو سکتے ہیں، جن کے اندر خوف و خشیت خداوندی کا جوہر موجود ہو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ الایٰۃ (یٰس۔۱۲) یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے انذار کا فائدہ تو انہی لوگوں کو ہو سکتا ہے، جو خدائے رحمان سے بن دیکھے ڈرتے ہیں، پس ان ہٹ دھرموں سے منہ موڑ لو۔ اور ان کے حق میں فیصلے کے دن ہی کا انتظار کرو۔ کہ یہ بھی اسی کے منتظر ہیں۔ اس دن سب کچھ ان کے سامنے آ جائے گا۔ اور حقیقت حال پوری طرح واضح ہو جائے گی۔ سو ہٹ دھرمی محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ، سو اس ارشاد میں ایک طرف تو پیغمبر کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا کوئی قصور نہیں، بلکہ اصل قصور ان لوگوں کا اپنا ہے، جو اپنے عناد اور ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں، اور دوسری طرف اس میں بن کر اور معاند لوگوں کے لئے تنبیہ و تحذیر بھی ہے کہ اگر یہ لوگ اس سب کے باوجود سننے ماننے کو تیار نہیں ہوتے تو پھر اپنے انتہائی ہولناک انجام کے لئے تیار ہو جاؤ، العیاذ باللہ العظیم