خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الانشقاق

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ انشقّت جس کو سورۂ انشقاق بھی کہتے ہیں مکّیہ ہے، اس میں ایک ۱ رکوع، پچّیس ۲۵ آیتیں، ایک سو سات۱۰۷ کلمات، چار سو تیس ۴۳۰ حرف ہیں۔

(۱)  جب آسمان شق ہو (ف ۲)

۲                 قیامت قائم ہونے کے وقت۔

(۲)  اور اپنے  رب کا حکم سنے  (ف ۳) اور اسے  سزاوار ہی یہ ہے۔

۳                 اپنے شق ہونے کے متعلق اور اس کی اطاعت کرے۔

(۳) اور جب زمین دراز کی جائے  (ف ۴)

۴                 اور اس پر کوئی عمارت اور پہاڑ باقی نہ رہے۔

(۴) اور جو کچھ اس میں ہے  (ف ۵) ڈال دے  اور خا لی ہو جائے۔

۵                 یعنی اس کے بطن میں خزانے اور مردے سب کو باہر۔

(۵) اور اپنے  رب کا حکم سنے  (ف ۶)  اور اسے  سزاوار ہی یہ ہے  (ف ۷)

۶                 اپنے اندر کی چیزیں باہر پھینک دینے کے متعلق اور اس کی اطاعت کرے۔

۷                 اس وقت انسان اپنے عمل کے نتائج دیکھے گا۔

(۶)  اے  آدمی! بیشک تجھے  اپنے  رب کی طرف (ف ۸) ضرور دوڑنا ہے  پھر اس سے  ملنا (ف ۹)

۸                 یعنی اس کے حضور حاضری کے لئے، مراد اس سے موت ہے۔ (مدارک)

۹                 اور اپنے عمل کی جزا پانا۔

(۷) تو وہ وہ اپنا نامۂ اعمال دہنے  ہاتھ میں دیا جائے  (ف ۱۰)

۱۰               اور وہ مومن ہے۔

(۸) اس سے  عنقریب سہل حساب لیا جائے  گا (ف ۱۱)

۱۱               سہل حساب یہ ہے کہ اس پر اس کے اعمال پیش کئے جائیں، وہ اپنی طاعت و معصیّت کو پہنچانے پھر طاعت پر ثواب دیا جائے اور معصیّت سے تجاوز فرمایا جائے، یہ سہل حساب ہے، نہ اس میں شدّتِ مناقشہ، نہ یہ کہا جائے کہ ایسا کیوں کیا، نہ عذر کی طلب ہو، نہ اس پر حجّت قائم کی جائے کیونکہ جس سے مطالبہ کیا گیا اسے کوئی عذر ہاتھ نہ آئے گا اور وہ کوئی حجّت نہ پائے گا، رسوا ہو گا۔ (اللہ تعالیٰ مناقشۂ حساب سے پناہ دے)

(۹) اور اپنے  گھر والوں کی طرف (ف ۱۲) شاد شاد  پلٹے  گا (ف ۱۳)

۱۲               گھر والوں سے جنّتی گھر والے مراد ہیں خواہ وہ حوروں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے۔

۱۳               اپنی اس کامیابی پر۔

 (۱۰) اور وہ جس کا نامۂ اعمال اس کی پیٹھ کے  پیچھے  دیا جائے  (ف ۱۴)

۱۴               اور وہ کافر ہے جس کا داہنا ہاتھ تو اس کی گردن کے ساتھ ملا کر طوق میں باندھ دیا جائے گا اور بایاں ہاتھ پسِ پشت کر دیا جائے گا، اس میں اس کا نامۂ اعمال دیا جائے گا، اس حال کو دیکھ کر وہ جان لے گا کہ وہ اہلِ نار میں سے ہے تو۔

(۱۱) وہ عنقریب موت مانگے  گا (ف ۱۵)

۱۵               اور یا ثبوراہ کہے گا۔ ثبور کے معنیٰ ہلاکت کے ہیں۔

(۱۲) اور بھڑکتی  آ گ میں جائے  گا۔

(۱۳) بیشک وہ اپنے  گھر میں (ف ۱۶) خوش تھا (ف ۱۷)

۱۶               دنیا کے اندر۔

۱۷               اپنی خواہشوں اور شہوتوں میں اور متکبّر و مغرور۔

(۱۴)  وہ سمجھا کہ اسے  پھرنا نہیں (ف ۱۸)

۱۸               اپنے رب کی طرف اور وہ مرنے کے بعد اٹھایا نہ جائے گا۔

(۱۵) ہاں کیوں نہیں (ف ۱۹) بیشک اس کا رب اسے  دیکھ رہا ہے۔

۱۹               ضرور اپنے رب کی طرف رجوع کرے گا، اور مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا اور حساب کیا جائے گا۔

(۱۶) تو مجھے  قسم ہے  شام کے  اجالے  کی (ف ۲۰)

۲۰               جو سرخی کے بعد نمودار ہوتا ہے اور جس کے غائب ہونے پر امام صاحب کے نزدیک وقتِ عشاء شروع ہوتا ہے۔ یہی قول ہے کثیر صحابہ کا اور بعض علماء شفق سے سرخی مراد لیتے ہیں۔

(۱۷) اور رات کی اور جو چیزیں اس میں جمع ہوتی ہیں (ف ۲۱)

۲۱               مثل جانوروں کے جو دن میں منتشر ہوتے ہیں اور شب میں اپنے آشیانوں اور ٹھکانوں کی طرف چلے آتے ہیں اور مثل تاریکی کے اور ستاروں اور ان اعمال کے جو شب میں کئے جاتے ہیں مثل تہجّد کے۔

(۱۸)  اور چاند کی جب پورا  ہو (ف ۲۲)

۲۲               اور اس کا نور کامل ہو جائے اور یہ ایّامِ بیض یعنی تیرھویں، چودھویں، پندرھویں تاریخوں میں ہوتا ہے۔

(۱۹) ضرور تم منزل بہ منزل چڑھو گے  (ف ۲۳)

۲۳               یہ خطاب یا تو انسانوں کو ہے اس تقدیر پر معنیٰ یہ ہیں کہ تمہیں حال کے بعد حال پیش آئے گا، حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ موت کے شدائد و اہوال، پھر مرنے کے بعد اٹھنا، پھر موقفِ حساب میں پیش ہونا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان کے حالات میں تدریج ہے، ایک وقت دودھ پیتا بچّہ ہوتا ہے، پھر دودھ چھوٹتا ہے، پھر لڑکپن کا زمانہ آتا ہے، پھر جوان ہوتا ہے، پھر جوانی ڈھلتی ہے، پھر بوڑھا ہوتا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ہے کہ آپ شبِ معراج ایک آسمان پر تشریف لے گئے، پھر دوسرے پر، اسی طرح درجہ بدرجہ، مرتبہ بمرتبہ، منازلِ قرب میں واصل ہوئے۔ بخاری شریف میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا حال بیان فرمایا گیا ہے معنیٰ یہ ہیں آپ کو مشرکین پر فتح و ظفر حاصل ہو گی اور انجام بہت بہتر ہو گا، آپ کفّار کی سرکشی اور ان کی تکذیب سے غمگین نہ ہوں۔

(۲۰) تو کیا ہوا  انہیں ایمان نہیں لاتے  (ف ۲۴)

۲۴               یعنی اب ایمان لانے میں کیا عذر ہے باوجود دلائل ظاہر ہونے کے کیوں ایمان نہیں لاتے۔

(۲۱) اور جب قرآن پڑھا جائے  سجدہ نہیں کرتے  (ف ۲۵) السجدۃ ۔۱۳

۲۵               مراد اس سے سجدۂ تلاوت ہے۔

شانِ نزول : جب سورۂ اقراء میں وَاسْجُدْوَاقْتَرِبْ نازل ہوا تو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے یہ آیت پڑھ کر سجدہ کیا مومنین نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا اور کفّارِ قریش نے سجدہ نہ کیا، ان کے اس فعل کی برائی میں یہ آیت نازل ہوئی کہ کفّار پر جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدۂ تلاوت نہیں کرتے۔

مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ سجدۂ تلاوت واجب ہے سننے والے پر اور حدیث سے ثابت ہے کہ پڑھنے والے سننے والے دونوں پر سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں سجدہ کی چودہ آیتیں ہیں جن کو پڑھنے یا سننے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے، خواہ سننے والے نے سننے کا ارادہ کیا ہو یا نہ کیا ہو۔

مسئلہ : سجدۂ تلاوت کے لئے بھی وہی شرطیں ہیں جو نماز کے لئے مثلِ طہارت اور قبلہ رو ہونے اور سترِ عورت وغیرہ کے۔

مسئلہ : سجدہ کے اوّل و آخر اللہ اکبر کہنا چاہئے۔

مسئلہ : امام نے آیتِ سجدہ پڑھی تو اس پر اور مقتدیوں پر اور جو شخص نماز میں نہ ہو اور سن لے اس پر سجدہ واجب ہے۔

مسئلہ : سجدہ کی جتنی آیتیں پڑھی جائیں گی، اتنے ہی سجدے واجب ہوں گے، اگر ایک ہی آیت ایک مجلس میں بار بار پڑھی گئی تو ایک ہی سجدہ واجب ہوا۔ والتفصیل فی کتب الفقہ۔ (تفسیر احمدی)

(۲۲) بلکہ کافر جھٹلا رہے  ہیں (ف ۲۶)

۲۶               قرآن کو اور مرنے کے بعد اٹھنے کو۔

(۲۳)  اور اللہ خوب جانتا ہے  جو اپنے  جی میں رکھتے  ہیں (ف ۲۷)

۲۷               کفر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تکذیب۔

(۲۴)  تو تم انہیں دردناک عذاب کی بشارت دو (ف ۲۸)

(۲۵) مگر جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  ان کے  لیے  وہ ثواب ہے  جو کبھی ختم نہ ہو گا۔

۲۸               ان کے کفر و عناد پر۔