تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الانشقاق

(سورۃ الانشقاق ۔ سورہ نمبر ۸۴ ۔ تعداد آیات ۲۵)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     جب پھٹ پڑے گا آسمان (کا یہ عظیم الشان نیلگونی چھت)

۲۔۔۔     اور وہ تعمیل کرے گا اپنے رب کے حکم کی اور یہی اس کے لائق بھی ہے

۳۔۔۔     اور جب پھیلا دیا جائے گا زمین (کے اس عظیم الشان کرے ) کو

۴۔۔۔     اور وہ باہر نکال کر پھینک دے گی وہ سب کچھ جو کہ اس کے اندر ہے اور وہ بالکل خالی ہو جائے گی

۵۔۔۔     اور یہ پوری طرح بجا لائے گی حکم اپنے رب کا اور یہی اس کے لائق بھی ہے

۶۔۔۔     اے انسان تو یقیناً کشاں کشاں جا رہا ہے اپنے رب کی طرف سو (تو مان یا نہ مان بہرکیف) تجھے آخرکار اس سے ملنا ہے

۷۔۔۔     پھر جس کو دیا گیا اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں

۸۔۔۔     تو اس سے بڑا ہی آسان (اور برائے نام سا) حساب لیا جائے گا

۹۔۔۔     اور وہ (حساب سے فراغت کے بعد) لوٹے گا اپنوں کی طرف خوش باش

۱۰۔۔۔     اور جس کو دیا گیا اس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے

۱۱۔۔۔     تو وہ (رہ رہ کر) پکارے گا موت کو

۱۲۔۔۔     اور اسے بہر حال داخل ہونا ہو گا (دوزخ کی دہکتی) بھڑکتی آگ میں

۱۳۔۔۔     بے شک یہ (دنیا میں ) اپنے لوگوں میں مست و مگن رہا کرتا تھا

۱۴۔۔۔     اس نے تو یہ سمجھ رکھا تھا کہ اس نے کبھی (ہمارے پاس) لوٹ کر آنا ہی نہیں

۱۵۔۔۔     کیوں نہیں اس کا رب تو اسے ہر حال میں دیکھ رہا تھا

۱۶۔۔۔     پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں شفق کی

۱۷۔۔۔     اور رات کی اور ان تمام چیزوں کی جن کو وہ سمیٹ لیتی ہے (اپنی سیاہ چادر میں )

۱۸۔۔۔     اور چاند کی جب کہ وہ پورا ہو جاتا ہے

۱۹۔۔۔     تم لوگوں کو ضرور بالضرور (اور درجہ بدرجہ) ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف بڑھتے اور چڑھتے چلے جانا ہے

۲۰۔۔۔     پھر ان لوگوں کو کیا ہو گیا کہ یہ ایمان نہیں لاتے

۲۱۔۔۔     اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو یہ سجدہ ریز نہیں ہوتے (اپنے رب کے حضور)

۲۲۔۔۔     بلکہ یہ لوگ تو الٹا جھٹلاتے ہی جاتے ہیں

۲۳۔۔۔     اور اللہ کو خوب معلوم ہے وہ سب کچھ جو یہ جمع کرتے ہیں

۲۴۔۔۔     سو خوشخبری سنا دو ان کو ایک بڑے ہی دردناک عذاب کی

۲۵۔۔۔     بجز ان (خوش نصیبوں ) کے جو ایمان لائے (صدق دل سے ) اور انہوں نے کام بھی نیک کیے کہ ان کے لئے ایک ایسا عظیم الشان اجر ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گا

تفسیر

 

 اس ارشاد سے اہل دنیا کو راہ حق و ہدایت سے آگاہ و ہمکنار کرنے کے لئے ایک اہم ہدایت و ارشاد سے نوازا گیا ہے۔ تاکہ وہ غفلت سے چونک کر حق و صواب کے اس راہ کو اپنائیں جو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی راہ ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ابنائے دنیا اپنی دنیاوی کامیابیوں کے نشے میں ایسے محو و منہمک ہیں کہ آخرت کی اپنی اصل اور حقیقی منزل کو بھول چکے ہیں اور اس کو بھولے ہی رہتے ہیں، سو ایسوں کو دنیاوی زندگی میں جو کامیابیوں پر کامیابیاں اور فتوحات پر فتوحات حاصل ہوتی رہتی ہیں ان کی بناء پر یہ مزید غفلت اور مستی میں کھوتے جاتے ہیں اور ایسے اور اس حد تک کہ مادیت اور مادہ پرستی کے اس خول سے نکل کر یہ کسی چیز کے بارے میں سوچئے اور غور کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ دنیا میں یہ ایک کامیابی کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری کامیابی کے حصول کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں اور ایسے اور اس حد تک کہ ان کو کبھی اس سوال پر غور کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی کہ ہماری اصل منزل کیا ہے؟ اور اس کے اپنے تقاضے کیا ہیں؟ یہ لوگ دنیا ہی کی کسی کامیابی کو اپنا اصل مقصد اور حقیقی منزل سمجھ لیتے ہیں حالانکہ یہ دنیا ساری اور اس کی ہر چیز فانی اور عارضی ہے اور انسان کی اصل منزل آخرت ہی ہے اور سب لوگ خداوند قدوس کے قانون کی زنجیر میں ایسے بندھے ہوئے ہیں کہ سب کے سب بغیر کسی اختیار کے نہایت بے بسی کے ساتھ کشاں کشاں آخرت کی اپنی اس اصل اور حقیقی منزل کی طرف بڑھے چلے جا رہے ہیں مگر ان کو اس کا کوئی شعور و احساس ہی نہیں، اِلاّ ماشاء اللہ اگر ان کی نظر زندگی کے اس پہلو پر ہوتی تو یہ کبھی جادہ حق و صواب سے منحرف نہ ہوتے۔ اور ان کو یہ حقیقت صاف طور پر نظر آتی کہ جتنی تیز رفتاری کے ساتھ یہ اپنی خواہشات اور مرغوبات دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ یہ اپنی زندگی کی انتہاء اور اپنے اعمال کے محاسبہ اور جوابدہی کے لئے یہ اپنے خالق و مالک کی طرف بڑھ رہے ہیں، سو اِنَّکَ کَادِحٌ اِلیٰ رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلاَقِیْہِ کا یہ ارشاد ایک بڑا ہی موثر اور بلیغ ارشاد ہے کیونکہ کَدْحًا کے معنی کسی کام میں پوری محنت اور مشقت کے ساتھ کوشش کرنے کے ہوتے ہیں سو اس بلیغ تعبیر سے اس اہم حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ انسان جس دن وجود میں آتا ہے اسی دن سے اس کا سفر خداوند قدوس کی طرف سے ٹھہرائی گئی اس کی اصل اور حقیقی منزل کی طرف شروع ہو جاتا ہے اور اس کی ٹھہرائی گئی وہ منزل انسان کی موت اور اس کے بعد آخرت کا وہ ابدی جہاں ہے جو موت کے متصل بعد سے شروع ہو جاتا ہے اور اس کا یہ سفر بغیر کسی توقف کے جاری رہتا ہے خواہ سردی ہو یا گرمی، صحت ہو یا مرض، خوشی ہو یا غمی، انسان چاہے یا نہ چاہے، ولادت سے لے کر موت تک اس کا یہ سفر کبھی نہیں رکتا، انسان بچپن، لڑکپن، جوانی، ادھیڑ پن اور پیری و ناتوانی کے مختلف مراحل طے کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے کبھی منٹ سیکنڈ کے لئے بھی اس کو کوئی وقفہ اور آرام نہیں مل سکتا اس میں شاہ وگدا، امیر و غریب اور حاکم و محکوم سب ایک برابر ہیں، دنیاوی کامیابیوں پر اکڑتا بپھرتا، کبر وغرور میں مست ومبتلا یہ انسان قانون قدرت کی زنجیروں میں ایسا بندھا اور جکڑا ہوا ہے کہ یہ اگر اس راہ پر نہ بھی چلنا چاہے تو بھی اس کو چلنا پڑے گا۔ اور اس پر کسی اینکڑی پینکڑی کے بغیر ایسے چلے گا کہ کہیں رکنے اور دم لینے کا بھی کوئی موقع نہ پاس کے گا۔ کوئی ایسا نہیں جو اپنے بچپن اور لڑکپن ہی پر اڑ کر اور جم کر بیٹھ جائے، اور کہے کہ میں آگے نہیں بڑھوں گا، اور نہ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ہمیشہ جوان ہی رہوں گا بڑھاپے کی حدود میں قدم نہیں رکھوں گا، یا بڑھاپے کے ضعف اور اس کی کمزوری کی حدود میں داخل نہیں ہوؤں گا، یا موت کا کڑوا گھونٹ کبھی نہیں پیوں گا وغیرہ وغیرہ، سو انسان ان تمام مراحل میں پوری بے بسی اور درماندگی کے ساتھ آگے بڑھتا جا رہا ہے، کہیں رکنا اور ٹھہرنا اس کے بس میں نہیں، لیکن اس سب کے باوجود اس کی اپنی آخرت اور اپنے مآل و انجام سے یہ غفلت و لا پرواہی کس قدر ہولناک خسارے کا باعث ہے۔ و العیاذُ  باللہ، اور فَمُلَاقِیْہِ کی تصریح سے واضح فرما دیا گیا کہ اس سفر پیہم کے نتیجہ میں تم کو بہر حال اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے اور اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ پانا ہے، پس عقل و نقل سب کا تقاضا ہے کہ انسان آنے والے اس ہولناک وقت کے بارے میں سوچے کہ اس کے لئے وہ کیا سامان کر رہا ہے، وَلَتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّاقَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُواللّٰہَ یعنی ہر کوئی دیکھ اور سوچ لے کہ آنے والے اس ہولناک کل کے لئے اس نے کیا سامان آگے بھیجا ہے، اور تم لوگ ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہا کرو،