تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الانشقاق

۲ ۔۔۔       یعنی اللہ کی طرف سے جب پھٹنے کا حکمِ تکوینی ہو گا، آسمان اس کی تعمیل کرے گا اور وہ مقدورو مقہور ہونے کے لحاظ سے اسی لائق ہے کہ بایں عظمت و رفعت اپنے مالک و خالق کے سامنے گردن ڈال دے اور اس کی فرمانبرداری میں ذرا چون و چرا نہ کرے۔

۳ ۔۔۔     محشر کے دن یہ زمین ربڑ کی طرح کھینچ کر پھیلا دی جائے گی اور عمارتیں پہاڑ وغیرہ سب برابر کر دیے جائیں گے تاکہ ایک سطح مستوی پر سب اولین و آخرین بیک وقت کھڑے ہو سکیں اور کوئی حجاب و حائل باقی نہ رہے۔

 ۴ ۔۔۔      زمین اس دن اپنے خزانے اور مردوں کے اجزاء اگال ڈالے گی اور ان تمام چیزوں سے خالی ہو جائے گی جن کا تعلق اعمال عباد کے مجازات سے ہے۔

۵ ۔۔۔    زمین و آسمان جس کے حکمِ تکوینی کے تابع و منقاد ہوں ، آدمی کو کیا حق ہے کہ اس کے حکم تشریعی سے سرتابی کرے۔

۶ ۔۔۔      یعنی رب تک پہنچنے سے پہلے ہر آدمی اپنی استعداد کے موافق مختلف قسم کی جدوجہد کرتا ہے کوئی اس کی طاعت میں محنت و مشقت اٹھاتا ہے، کوئی بدی اور نافرمانی میں جان کھپاتا ہے۔ پھر خیر کی جانب میں ہو یا شرکی، طرح طرح کی تکلیفیں سہ سہ کر آخر پروردگار سے ملتا اور اپنے اعمال کے نتائج سے دوچار ہوتا ہے۔

۸ ۔۔۔    آسان حساب یہ ہی کہ بات بات پر گرفت نہ ہو گی۔ محض کاغذات پیش ہو جائیں گے اور بدون بحث و مناقشہ کے سستے چھوڑ دیے جائیں گے۔

۹ ۔۔۔      نہ سزا کا خوف رہے گا نہ غصہ کا ڈر، نہایت امن واطمینان سے اپنے احباب و اقارب اور مسلمان بھائیوں کے پاس خوشیاں مناتا ہوا آئے گا۔

۱۰ ۔۔۔     یعنی پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا۔ فرشتے سامنے سے اس کے صورت دیکھنا پسند نہیں کریں گے گویا غایت کراہیت کا اظہار کیا جائے گا۔ اور ممکن ہے پیچھے کو مشکیں بندھی ہوں اس لئے اعمالنامہ پشت کی طرف سے دینے کی نوبت آئے۔

۱۱ ۔۔۔   یعنی عذاب کے ڈر سے موت مانگے گا۔

۱۳ ۔۔۔      یعنی دنیا میں آخرت سے بے فکر تھا اس کا بدلہ یہ ہے کہ آج سخت غم میں مبتلا ہونا پڑا۔ اس کے برعکس جو لوگ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی فکر میں گھلے جاتے تھے۔ ان کو آج بالکل بے فکری اور امن چین ہے۔ کافر یہاں مسرور تھا، مومن وہاں مسرور ہے۔

۱ ۴ ۔۔۔     اسے کہاں خیال تھا کہ ایک روز خدا کی طرف واپس ہونا اور رتی رتی کا حساب دینا ہے اسی لئے گناہوں اور شرارتوں پر خوب دلیر رہا۔

۱۵ ۔۔۔       یعنی پیدائش سے موت تک برابر دیکتا تھا کہ اس کی روح کہاں سے آئی، بدن کس کس چیز سے بنا۔ پھر کیا اعتقاد رکھا، کیا عمل کیا۔ دل میں کیا بات تھی۔ زبان سے کیا نکلا۔ ہاتھ پاؤں سے کیا کمایا، اور موت کے بعد اس کی روح کہاں گئی اور بدن کے اجزاء بکھر کر کہاں کہاں پہنچے۔ وغیر ذٰلک۔ جو خدا آدمی کے احوال سے اس قدر واقف ہو اور ہر جزئی وکلی حالت کو نگاہ میں رکھتا ہو، کیا گمان کر سکتے ہو کہ وہ اس کو یوں ہی مہمل اور معطل چھوڑ دے گا؟ ضرورت ہے کہ اس کے اعمال پر ثمرات و نتائج مرتب کرے۔

۱۷ ۔۔۔  یعنی آدمی اور جانور جو دن میں تلاشِ معاش کے لئے مکانوں سے نکل کر اِدھر اُدھر منتشر ہوتے ہیں رات کے وقت سب طرف سمٹ کر اپنے اپنے ٹھکانوں پر جمع ہو جاتے ہیں ۔

۱۸ ۔۔۔      یعنی چودھویں رات کا چاند جو اپنی حدِ کمال کو پہنچ جاتا ہے۔

۱۹ ۔۔۔     یعنی دنیا کی زندگی میں مختلف دور سے بتدریج گزر کر اخیر میں موت کی سیڑھی ہے، پھر عالمِ برزخ کی، پھر قیامت کی، پھر قیامت میں خدا جانے کتنے احوال و مراتب درجہ بدرجہ طے کرنے ہیں ۔ جیسے رات کے شروع میں شفق کے باقی رہنے تک ایک قسم کی روشنی رہتی ہے۔ جو فی الحقیقت بقیہ ہے آفتاب کے اثرات کا، پھر شفق غائب ہونے پر دوسرا دور تاریکی کا شروع ہوتا ہے جو سب چیزوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ اس میں چاند بھی نکلتا ہے اور درجہ بدرجہ اس کی روشنی بڑھتی ہے آخر چودھویں شب کو ماہ کامل کا نور اس تاریک فضاء میں ساری رات اجالا رکھتا ہے۔ گویا انسانی احوال کے طبقات رات کی مختلف کیفیات سے مشابہ ہوئے۔ واللہ اعلم۔

۲۰ ۔۔۔      کہ ہم کو موت کے بعد بھی کسی طرف رجوع ہونا ہے اور ایک بڑا بھاری سفر درپیش ہے جس کے لئے کافی توشہ ساتھ ہونا چاہئیے۔

۲۱ ۔۔۔     یعنی اگر ان کی عقل خود بخود ان حالات کو دریافت نہیں کر سکتی تھی تو لازم تھا کہ قرآن کے بیان سے فائدہ اٹھاتے لیکن اس کے برخلاف ان کا حال یہ ہے کہ قرآن معجز بیان کو سن کر بھی ذرا عاجزی اور تذلل کا اظہار نہیں کرتے۔ حتیٰ کے جب مسلمان خدا کی آیات سن کر سجدہ کرتے ہیں ، ان کو سجدہ کی توفیق نہیں ہوتی۔

۲۳ ۔۔۔       یعنی فقط اتنا ہی نہیں کہ اللہ کی آیات سن کر انقیاد و تذلل کا اظہار نہیں کرتے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان کو زبان سے جھٹلاتے ہیں اور دلوں میں جو تکذیب و انکار، بغض و عناد اور حق کی دشمنی بھری ہوئی ہے اس کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔

۲ ۴ ۔۔۔  یعنی خوشخبری سنا دیجئے کہ جو کچھ وہ کما رہے ہیں اس کا پھل ضرور ملے گا۔ ان کی یہ کوشش ہرگز خالی نہیں جائیں گی۔

۲۵ ۔۔۔     جو کبھی ختم نہ ہو گا۔