۱ سورۂ والعصر جمہور کے نزدیک مکّیہ ہے، اس میں ایک ۱ رکوع، تین۳ آیتیں، چودہ ۱۴کلمے، اڑسٹھ ۶۸ حرف ہیں۔
۲ عصر زمانہ کو کہتے ہیں اور زمانہ چونکہ عجائبات پر مشتمل ہے اس میں احوال کا تغیّر و تبدّل ناظر کے لئے عبرت کا سبب ہوتا ہے اور یہ چیزیں خالقِ حکیم کی قدرت و حکمت اور اس کی واحدانیّت پر دلالت کرتی ہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ زمانہ کی قَسم مراد ہو، اور عصر اس وقت کو بھی کہتے ہیں جو غروب سے قبل ہوتا ہے، ہو سکتا ہے کہ خاسر کے حق میں اس وقت کی قَسم یاد فرمائی جائے جیسا کہ رابح کے حق میں ضحیٰ یعنی وقتِ چاشت کی قَسم ذکر فرمائی گئی، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ عصر سے نمازِ عصر مراد ہو سکتی ہے جو دن کی عبادتوں میں سب سے پچھلی عبادت ہے اور سب سے لذیذ۔ و راجح تفسیر وہی ہے جو حضرت مترجِم قدّس سِرّہ نے اختیار فرمائی کہ زمانہ سے مخصوص زمانہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا مراد ہے جو بڑی خیر و برکت کا زمانہ اور تمام زمانوں میں سب سے زیادہ فضیلت و شرف والا ہے اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے زمانۂ مبارک کی قَسم یاد فرمائی جیسا کہ لَا اُقْسِمُ بھِٰذَا الْبَلَدِ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے مسکن و مکان کی قَسم یاد فرمائی ہے اور جیسا کہ لَعَمْرُ کَ میں آپ کی عمر شریف کی قَسم یاد فرمائی اور اس میں شانِ محبوبیّت کا اظہار ہے۔
۳ کہ اس کی عمر جو اس کا راسُ المال ہے اور اصل پونجی ہے وہ ہر دم گھٹ رہی ہے۔
۵ ان تکلیفوں اور مشقّتوں پر جو دِین کی راہ میں پیش آئیں یہ لوگ بفضلِ الٰہی ٹوٹے میں نہیں ہیں کیونکہ انکی جتنی عمر گزری نیکی اور طاعت میں گزری تو وہ نفع پانے والے ہیں۔