تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ العَصر

مسیلمہ کذاب اور عمرو بن عاص میں مکالمہ

حضرت عمر بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مسلمان ہونے سے پہلے ایک مرتبہ مسیلمہ کذاب سے ملے اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر رکھا تھا عمرو کو دیکھ کر پوچھنے لگا کہو اس مدت میں تمہارے نبی پر بھی کوئی وحی نازل ہوئی ہے حضرت عمرو نے جواب دیا ایک مختصر سی نہایت فصاحت والی سورت اتری ہے پوچھا وہ کیا ہے حضرت عمر نے سورہ والعصر پڑھ کر سنا دی مسیلمہ ذرا دیر تو سوچتا رہا پھر کہنے لگا عمرو! دیکھو مجھ پر بھی اسی جیسی سورت اتری ہے عمرو نے کہا وہ کیا ؟ کہا یہ یا وبریا وبر انما انت اذنان وصدر وفسائر حضرنقر پھر کہنے لگا عمرو کہو تمہارا کیا خیال ہے؟ عمرو نے کہا میرا خیال تو خود ہی جانتا ہے کہ مجھے تیرے جھوٹا ہونے کا علم ہے۔ وبربلی جیسا ایک جانور ہے اس کے دونوں کان ذرا بڑے ہوتے ہیں اور سینہ بھی باقی جسم بالکل حقیر اور واہیات ہوتا ہے اس کذاب نے ایسی فضول گوئی اور بکواس کے ساتھ اللہ کے کلام کا معارضہ کرنا چاہا جسے سن کر عرب کے بت پرست لوگوں نے بھی اس کا کاذب اور مفتری ہونا سمجھ لیا۔ طبرانی میں ہے کہ دو صحابیوں کا یہ دستور تھا کہ جب ملتے ایک اس سورت کو پڑھتا وسرا سنتا پھر سلام کر کے رخصت ہو جاتے حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر لوگ اس سورت کو غور و تدبر سے پڑھیں اور سمجھیں تو صرف یہی ایک سورت کافی ہے۔

 

۱

مختصر نقصان اور اصحاب فلاح و نجات

عصر سے مراد زمانہ ہے جس میں انسان نیکی بدی کے کام کرتا ہے، حضرت زید بن اسلم نے اس سے مراد عصر کی نماز یا عصر کی نماز کا وقت بیان کیا ہے لیکن مشہور پہلا قول ہی ہے اس قسم کے بعد بیان فرماتا ہے کہ انسان نقصان میں ٹوٹے میں اور ہلاکت میں ہے ہاں اس نقصان سے بچنے والے وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان ہو اعمال میں نیکیاں ہوں حق کی وصیتیں کرنے والے ہوں یعنی نیکی کے کام کرنے کی حرام کاموں سے رکنے کی اکی دوسرے کو تاکید کرتے ہوں قسمت کے لکھے پر مصیبتوں کی برداشت پر صبر کرتے ہوں اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے ہوں ساتھ ہی بھلی باتوں کا حکم کرنے اور بری باتوں سے روکنے میں لوگوں کی طرف سے جو بلائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو ان کو بھی برداشت کرتے ہوں اور اسی کی تلقین اپنے ساتھیوں کو بھی کرتے ہوں یہ ہیں جو اس صریح نقصان سے مستثنیٰ ہیں۔ سورہ والعصر کی تفسیر بحمد للہ ختم ہوئی۔"