پہلی آیت میں ھُمَزَہُ اہل ایمان پر انگلیاں اٹھانے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کی یہ حرکتیں ان کے لیے تباہی کا موجب ہوں گی۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلْھُمَزَۃ ہے۔
مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورہ عصر کے بعد نازل ہوئی ہو گی۔
زر پرستوں کو جھنجھوڑنا ہے کہ جن کے کردار کا یہ حال ہو وہ لازماً کیفر کردار کو پہنچ کر رہیں گے۔
آیت ۱ تا ۳ میں رز پرستوں کے کردار کی تصویر پیش کی گئی ہے اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ کردار لازماً تباہی کا موجب ہے۔
آیت ۴ تا ۹ میں زر پرستوں کا اخروی انجام بیان کیا گیا ہے۔
یہ سورہ سابق سورہ سے اس درجہ مربوط ہے کہ بالکل اس کا تتمہ معلوم ہوتی ہے۔ اگر سابق سورہ کا اختتام ان اوصاف کے بیان کرنے پر ہوا تھا جو کامیابی کی ضمانت ہیں تو اس سورہ کا آغاز ان خصائل کے ذکر سے ہوا ہے جو ہلاکت کا موجب ہیں۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے ہر اس شخص کے لیے جو (اہل ایمان پر) انگلیاں اٹھاتا اور طعن و تشنیع کرتا ہے ۱*۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے مال سمیٹا اور اسے گن گن کر رکھا ۲*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے مال نے اس کو ہمیشگی کی زندگی بخشی ہے۔ ۳*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر گز نہیں ۴* ، وہ حُطَمہ ۵* کچل دینے والی* میں پھینک دیا جاۓ گا۔ ۶*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ حُطَمہ کیا ہے ؟ ۷*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی بھڑ کائی ہوئی آگ ۸*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جو دلوں پر جا چڑھے گی ۹*۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ سابق سورہ کی آخری آیت میں وہ اوصاف بیان کیے گۓ تھے جو آخرت کے خسران سے بچانے والے اور کامیابی کی ضمانت ہیں۔ یہ اوصاف اہل ایمان کے کردار کی خصوصیات ہیں لیکن دنیا پرستوں کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور خاص طور سے جو لوگ مال و دولت کے پجاری ہوتے ہیں وہ اس کردار کے لوگوں کو نہ صرف نے وقعت خال کرتے ہیں بلکہ ان کی تذلیل و تحقیر پر اتر آتے ہیں۔ مال کا گھمنڈ ان کے اندر اوچھا پن پیدا کر دیتا ہے اور وہ ان پر انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ ان پر بس آخرت ہی کی دھن سوار ہے۔ وہ ان کی دینداری کا مذاق اڑاتے ہیں اور جہاں موقع پاتے ہیں ان پر فقرے چست کر دیتے ہیں۔
اس سورہ کے نزول ک زمانہ میں قریش کے سرداروں کا یہی حال تھا وہ مال کے گھمنڈ میں مبتلا تھے اور جو لوگ مال کے پیچھے پڑنے کے بجاۓ آخرت کی دولت جمع کر رہے تھے ان پر انگلیاں اٹھا رہے تھے کہ یہ کس عزت کے مستحق ہیں ؟ عزت والا تو وہی ہے جو دولت مند ہے۔ ان کی دینداری اور ان کی متقیانہ زندگیوں پر وہ طرح طرح کی پھبتیاں جست کرتے اور سخت طعنہ زنی کرتے۔ یہاں ان کی ان ہی حرکتوں پر گرفت کی گئی ہے۔
موقع کلام کے لحاظ سے اہل ایمان پر انگلیاں اٹھانے اور طعن و تشنیع کرنے کی بری حرکت کو بخیل سرمایہ داروں کا شیوہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ آگے کی آیت سے واضح ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ حرکت صرف زر پرست ہی کرتے ہیں بلکہ آیت کا اصل مدعا یہ ہے کہ جو بھی یہ حرکت کرے گا وہ اپنی تباہی ا سامان کرے گا۔ سورہ توبہ میں جو مدنی سورہ ہے منافقین کی اس طعنہ زنی کا ذکر ہوا ہے پر وہ صدقات کے سلسلہ میں کیا کرتے تھے۔ غریب اہل ایمان محنت مزدوری کر کے جو کچھ کماتے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے۔ مال کی بری مقدار ان کے پاس خرچ کے لیے نہ ہوتی مگر منافقین اس پر طنز کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے :
اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّ عِیْنَ مِنَ الْمؤ مِنیْنَ فِی الصَّدَقاَتِ وَا لَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلّا جُھْدَ ھُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْھُمْ (التوبۃ۔ ۷۹) ’’ جو خوش دلی سے انفاق کرنے والے مؤمنوں پر ان کے صدقات کے سلسلہ میں طعنہ زنی کرتے ہیں اور ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو اپنی محنت و مزدوری کے سوا انفاق کے لیے کچھ اور نہیں پا تے ‘‘۔
جہاں تک آیت کے خصوصی پہلو کا تعلق ہے یعنی سیاق و سباق کے لحاظ سے اس کا جو مفہوم ہے اس کی وضاحت اوپر ہو چکی۔ رہا اس کا مجموعی پہلو تو وہ یہ ہے کہ شریعت نے جن لوگوں کے احترام کا حکم دیا ہے ان کا احترام کرنے کے بجاۓ ان کی پگڑی اچھالنا، عیب چینی کرنا اور ان کے خلاف دل خراش باتیں کرنا وہ مذموم خصلت ہے جس کا نتیجہ آخرت میں بہت برا نکلے گا خواہ اس کا مرتکب کوئی مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ پرانے زمانہ میں عیب چینی اور طعن و تشنیع کے جو طریقے رائج تھے مثلاً راہ چلتے آنکھوں سے اشارہ کرنا ، انگلیاں اٹھانا، آوازے کسنا ، پھبتیاں چست کرنا ، برے نام دھرنا وغیرہ۔ موجودہ زمانہ میں ان کے علاوہ کچھ نۓ طریقوں کا بھی اضافہ ہو گیا ہے مثلاً کارٹون ، طنز نگاری ، مزاحیہ ڈرامے ، تیر و نشتر کے کالم جو آج کل اخبارات کی زینت بن ہوۓ ہیں اور جس نے باقاعدہ فن کی شکل اختیار کر لی ہے ھَمْز و لَمْز (عیب چینی و طعنہ زنی ) ہی کی ’’ ترقی یافتہ ‘‘ شکلیں ہیں جب کہ ان کے ذریعہ ایسے لوگوں کی پگڑی اچھالی جاۓ جن کی عزت کو شریعت نے محترم ٹھیرایا ہے۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ مال کا گھمنڈ ہے جس نے ان کے اندر یہ ذہن پیدا کر دیا کہ وہ ان غریبوں کو حقیر جانیں اور ان کا مذاق اڑائیں جنہوں نے اپنے رب سے صحیح تعلق پیدا کر لیا ہے اور اپنی زندگیوں کو نیکیوں سے سنوارا ہے۔
زر پرستوں کو ہمیشہ مال ہی کی فکر لگی رہتی ہے اور حریص سرمایہ دار ہمیشہ سرمایہ ہی کے الٹ پھیر میں لگے رہتے ہیں۔ ان کا دل، کاروبار میں اٹکا ہوا ہوتا ہے اور ان کا دماغ حساب کتاب میں لگا ہوا۔ ان کی ساری توجہ ایک ہی مسئلہ پر مرکوز ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ان کے سرمایہ میں کس طرح اضافہ ہو اور ان کا بنک بیلنس کس طرح بڑھے۔ یہ فکر ان کے دل و دماغ کو اس طرح پریشان کیے رہتی ہے کہ نہ انہیں خدا اور آخرت کے بارے میں کچھ سوچنے کی فرصت ہوتی ہے اور نہ نفسیاتی طور پر وہ نصیحت کی باتیں سننے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی حرص انہیں اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتی کہ وہ خدا کے بخشے ہوۓ مال میں بندگان خدا کا جو حق ہے وہ ادا کریں بلکہ وہ اپنے مال پر سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ زر پرستی کی مذمت انجیل میں بھی بڑے مؤثر انداز میں کی گئی ہے مثلاً :
’’اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں بلکہ اپنے لیے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے اور نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے ہیں چراتے ہیں۔ کیونکہ جہاں تیرا مال ہے وہیں تیرا دل بھی لگا رہے گا‘‘۔ (متی ۶: ۱۹۔ ۲۱ )
’’تم خدا ور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے ‘‘۔ (متی ۶ : ۲۴ )
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سرمایہ پرست کی نفسیات کا عکس ہے۔ وہ اپنے مال کو سرمایہ زندگی سمجھتا ہے اور جو طرز عمل اختیار کرتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا اس کو دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے اور کبھی موت آنے والی نہیں ہے۔
مال چونکہ دنیوی عیش و عشرت کا ذریعہ ہے اس لیے ارباب مال اس فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ مال ان کے لیے حیات بخش ہے اور ان کی بقا کا موجب ہے۔ حالانکہ مال میں نہ قوت حیات ہے اور نہ قوت بقاء ، اگر اس میں قوت حیات ہوتی تو وہ انسان کو ضرور قلبی سکون بخشتا جب کہ مالداروں کو یہ چیز نصیب نہیں ہوتی اور بالعموم ان کی زندگیاں پریشانیوں میں گھری ہوئی ہوتی ہیں البتہ تقویٰ کی زندگی اختیار کر کے انسان قلبی سکون محسوس کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان کو حیات جاوداں عطاء کرنے والی چیز تقویٰ ہے نہ کہ مال۔ قرآن میں یہ حقیقت مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہے اور انجیل میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آدمی روٹی ہی سے نہیں جیتا بلکہ خدا کے کلام سے جیتا ہے (متی ۴:۴ ) اور واقعہ یہ ہے کہ آدمی کا مال اس کی قبر تک بھی نہیں جاتا کجا کہ اسے حیات جاوداں بخشے۔ مگر آج بھی مال کے معاملہ میں انسان کی ذہنیت وہی ہے جو ماضی میں تھی یعنی وہ مال کو دنیوی زندگی کا سامان سمجھنے اور خیر کے کاموں میں خرچ کرنے کے بجاۓ اس سے اپنی بقا کی امیدیں وابستہ کرتا ہے اور اسے جمع کرتا رہتا ہے۔ پھر جمع کرنے کی بھی کوئی حد نہیں ہوتی۔ لکھ پتی بن جانے کے بعد وہ کروڑ پتی بننا چاہتا ہے اور کروڑ پتی بن جانے کے بعد، ارب پتی جب کہ معاشرہ میں کتنے ہی لوگ اپنی بنیادی ضرورتوں کے لیے محتاج ہوتے ہیں اور خیر کے کتنے ہی کام محض روپیے کی کمی کی وجہ سے انجام نہیں پاتے۔
مختصر یہ کہ قرآن مال جمع کرنے کے اس رجحان کو مذموم قرار دیتا ہے الا یہ کہ آدمی پنی اور اپنے متعلقین کی حقیقی ضروریات کے لیے مال روکے رکھے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سرمایہ پرستوں کے اس خیال کی تردید ہے جو اوپر بیان ہوا۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں لفظ حُطَمہ استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ چُور چُور کر دینے والی ور کچلنے والی کے لیے ہیں۔ یہ جہنم کا نام ہے اور اس کی یہ صفت ہمز و لمز کی اس مذموم خصلت کے مقابلہ میں بیان ہوئی ہے جس کا ذکر آیت ۱ میں ہوا۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جو شخص اللہ کے مخلص بندوں کی عزت کو مجروح کرتا ہے جہنم اس کی عزت کے پرخچے اڑاۓ گی اور اہل ایمان کی تحقیر و تذلیل کرنے کی پاداش میں اسے کچل ڈالے گی۔
غور کیجیے ہُمَزَہ و لُمَزَہ کے مقابلہ میں حُطَمہ کے لفظ نے لفظی یکسانیت ہی نہیں بلکہ معنوی مناسبت بھی پیدا کر دی ہے اور قرآن کی بلاغت اور اس کے اعجاز کی یہ ادنیٰ مثال ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ پھینک دینے میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ وہ مال و دولت کی وجہ سے جس گھمنڈ میں مبتلا تھا اس کا پتہ اسے اس وقت چلے گا جب کہ وہ جہنم میں حقارت کے ساتھ پھینک دیا جاۓ گا۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوال جہنم کی ہولناکی کا احساس دلانے کے لیے ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حُطَمہ کی تشریح ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرمائی ہے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جن دلوں میں اللہ کی محبت کے بجاۓ مال کی محبت رچ بس گئی تھی ان پر ایہ آگ چڑھ دوڑے گی۔ اور دل میں آگ کے گھس جانے سے کرب و الم کی جو کیفیت سے بھی نہیں کیا جا سکتا۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اس آگ کے لمبے لمبے ستونوں میں گھرے ہوۓ ہوں گے۔