دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الفَاتِحَة

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

تعارف

 

یہ سورہ نبوت کے ابتدائی زمانہ میں مکہ میں نازل ہوئی۔ اس کی سات آیتیں ہیں ۔ اس سورہ کی حیثیت دیباچۂ قرآن کی ہے اور اسی مناسبت سے اس کا نام سورۂ فاتحہ یعنی افتتاحی سورہ ہے، اس کا اعجاز یہ ہے کہ نہایت مختصر ہونے کے باوجود اس میں پورے قرآن کا لب لباب موجود ہے۔ اسی لیے اسے ام القرآن کہا گیا ہے۔ قرآن کی دعوت کے بنیادی نکات، توحید، آخرت اور رسالت کو نہایت خوبی کے ساتھ اس میں سمو دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت، ربوبیت اور الوہیت کی صفات بیان ہوئی ہیں جو توحید پر دلالت کرتی ہیں ۔ روز جزاء کا مالک ہونا توحید اور آخرت دونوں پر دلالت کرتا ہے اور انعام یافتہ لوگوں کا راستہ سلسلۂ رسالت پر دلالت کرتا ہے ۔

 

اس سورہ کے معانی پر غور کرنے سے حقائق و معارف کے بے شمار پہلو روشن ہو جاتے ہیں اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔

 

یہ سورہ دعائیہ پیرایہ میں ہے اور دعا بھی ایسی جو ایک سلیم الفطرت انسان کے ضمیر کی آواز اور اس کے دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا ترانۂ حمد ہے۔ گویا اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ ان الفاظ میں اس کے حضور دعاگو ہو، کلام کا یہ انداز نہایت لطیف ہے، لیکن جو لوگ لطافت سے نا آشنا ہوتے ہیں وہ یہ اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ اگر یہ اللہ کا کلام ہے تو " میں شروع کرتا ہوں ، اللہ کے نام سے"کہنے کا کیا مطلب؟ حالانکہ یہاں بلاغت کا پہلو نہایت روشن ہے اور فحوائے کلام سے بخوبی واضح ہے کہ خالق کائنات اپنے بندوں کو یہ تعلیم دے رہا ہے کہ وہ اس کی حمد و ثناء اس آغاز کے ساتھ اور ان الفاظ میں کریں اور ان کلمات کے ساتھ اس کے حضور دعاگو ہوں ۔ اس طرح بندوں کو نہ صرف بندگی کی تعلیم دی گئی ہے، بلکہ آدابِ بندگی بھی جا سکھائے گئے ہیں ۔

 

اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے یہود و نصاریٰ کو اسلام کی شاہراہ دکھائی تھی تاکہ وہ خود اس پر چلیں اور دنیا والوں کو اس پر چلنے کی دعوت دیں ، لیکن انہوں نے کجروی اختیار کر کے اپنے اوپر بھی راہِ حق گم جر دی اور دنیا والوں کو بھی تاریکی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ یہ دعا اس تاریکی سے نکلنے کی دعا ہے چنانچہ اس کی برکت سے دنیا کو قرآن کی روشنی ملی۔

 

بندہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی دعا کے جواب میں پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ تلاش جس کی ہے وہ راہِ ہدایت تیرے سامنے روشن ہے، اب اللہ کا نام لے اور اس راہ پر گامزن ہو جا۔

 

سورۂ فاتحہ اور نماز:نماز کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ لازماً پڑھی جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے مناجات ہے، اور اللہ تعالیٰ بندے کی طرف متوجہ ہو کر ہر ہر آیت کا جواب عنایت فرماتا ہے۔ حدیث قدسی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔

 

" میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا ہے اور میرے بندے کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے طلب کیا۔چنانچہ بندہ جب اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد کی۔ جب اَلرَّحْمٰنَ الرّحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ جب بندہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی، جب بندہ اِیاکَ نَعْبُدُ وَاِیاکَ نَسْتَعِینَ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے اور بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے کے لیے وہ کچھ ہے جو اس نے طلب کیا ، اور جب بندہ اِہْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ صِرَاطَ الَّذِینَ اَنْعَمْتَ عَلَیہِمْ غَیرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیہِمْ وَلاَالضّالِّینَ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ کچھ ہے جو اس نے مجھ سے طلب کیا۔"(مسلم، نسائی)

ترجمہ

ترجمہ

نوٹ: نشان " *" سے  تفسیری نوٹ کے نمبر شمار کی نشان دہی کی گئی ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے ۱*

 

۱۔۔۔۔۔۔حمد۲* اللہ ہی ۳* کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ۴* ہے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔ رحمن و رحیم ۵* ہے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔ روزِ جزا ۶* کا مال ہے۔

 

۴۔ ۔۔۔۔ہم تیری ہی عبادت ۷* کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد ۸* مانگتے ہیں۔

 

۵۔ ۔۔۔۔ہمیں سیدھے راستے ۹* کی ہدایت بخش ۔

 

۶۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں کے راستے کی جنہیں تو نے انعام ۱۰* سے نوازا۔

 

۷۔۔۔۔۔۔ جو نہ مغضوب ۱۱* ہوئے اور نہ گمراہ ۱۲*۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔ یہ قرآن کی افتتاحی آیت ہے اور ہر سورہ کا آغاز بجز سورۂ توبہ کے اسی آیت سے ہوا ہے۔ گویا اس کی حیثیت تمہید کی سی ہے۔ یہ مختصر، جامع، معنٰی خیز اور نہایت ہی بابرکت کلمات ہیں جس میں خدا کے متبرک نام اور اس کی صفتِ رحمت کا ذکر ہے۔ ان ابتدائی کلمات ہی پر غور کرنے سے معرفت الٰہی ( خدا کی صحیح پہچان) کے دروازے کھلنے لگتے ہیں اور انسان کے اندر اس کی صحیح بیان کا پیدا ہو جانا اس کی رحمت کا فیضان ہے۔

 

کسی بھی اچھے کام کو شروع کرنے کے لیے ان سے زیادہ موزوں اور بہتر کلمات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اچھے کام کا آغاز حتیٰ کہ کھانے پینے کی ابتداء بھی ان کلمات ( بسم اللہ) سے کرنا اسلامی تہذیب کا شعار ہے۔

 

پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کا آغاز اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الّذِی خَلَقَ( پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا) سے ہوا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آیت بسم اللہ نازل کر کے بندہ کی رہنمائی فرمائی کہ وہ اس حکم کی تعمیل ان الفاظ میں کرے۔

 

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں تورات میں یہ پیشین گوئی موجود ہے کہ آپ کا کلام اللہ کا نا لیکر پیش کریں گے۔ چنانچہ تورات کی کتاب استثنا میں ہے:۔

 

" میں ان کے لیے انہیں کے بھائیوں میں سے تیری (موسیٰ) مانند ایک نبی بر پا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے حکم دوں گا وہی وہ اُن سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لیکر کہہ گا نہ سنے گا تو میں اُن کا حساب اس سے لوں گا۔"(استثناء ۱۸:۱۸،۱۹)

 

یہ آیت دعا کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا بندہ کتابِ الٰہی کا آغاز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ تیری توفیق ہی پر منحصر ہے اور ہدایت کی راہ مجھ پر اسی صورت میں روشن ہو سکتی ہے اور حقائق و معارف کے اس ا تھاہ سمندر میں علم و بصیرت کی موتی ہیں اسی صورت میں چن جا سکتا ہوں جبکہ تو میری دستگیری فرمائے۔

 

" بسم اللہ" کی " ب" قرآن کا پہلا حرف ہے اور عربی قاعدے کے مطابق یہ بائے استعانت ہے۔گویا قرآن کا پہلا حرف ہی قاری کی یہ حیثیت متعین کرتا ہے کہ وہ ایک عاجز بندہ ہے جو اللہ کی مدد کا ہر وقت محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت کا دروازہ ان ہی لوگوں پر کھولتا ہے جو خدا کی کتاب کا مطالعہ خدا بنکر نہیں کرتے بلکہ بندہ کی حیثیت سے جویائے حق اور طالب ہدایت بن کر کرتے ہیں ۔

 

۲۔۔۔۔۔۔ متن میں حمد کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی تعریف اور شکر دونوں کے ہیں ۔ " تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔" کا مطلب یہ ہے کہ اللہ خوبیوں والا ہے اور کمالات سے متصف ہے۔ وہ عیوب اور کمزوریوں سے نہ صرف پاک اور منزّہ ہے بلکہ اس کے لیے حسن ہی حسن اور جمال ہی جمال ہے اور وہ سرچشمۂ خیرو برکت ہے اس کے یہ فضائل و کمالات ذاتی اور مستقل ہیں اور وہ تمام صفات حسنہ میں تنہا اور یکتا ہے۔ اس لیے تنہا وہی لائق ستائش ہے اور اسی کے گن گائے جانے چاہئیں ، اس کے سوا کوئی ہستی نہیں ہے جو بالذات اپنے اندر خوبیاں رکھتی ہو اس لیے کائنات میں ایک سے زیادہ خداؤں کے تصور کیلئے سرے سے کوئی بنیاد موجود ہی نہیں ہے اور جب حقیقت یہ ہے تو پھر اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کو خدا سمجھ کر اس کے گن گانے اور اس کی مالا جپنے کا سوال پیدا ہی کہاں ہوتا ہے؟

 

"اور شکر اللہ ہی کے لیے ہے" کا مطلب یہ ہے کہ انسان جن بیشمار نعمتوں سے نوازا گیا ہے وہ سب اللہ ہی کی بخشش اور دین ہیں ۔ مثلاً زندگی جیسی عظیم نعمت ، خورد و نوش کا اعلیٰ ذوق اور اس کے مطابق رزق کا سامان، اولاد جیسی آنکھوں کی ٹھنڈک، عقل و شعور اور علم کی دولت اور دیگر ظاہری اور باطنی نعمتیں سب اسی کی عطا جر دہ ہیں ۔ اس لیے شکر کا مستحق بھی تنہا وہی ہے اسی کی نعمتوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور اسی کا سپاس گزار اور شکر گزار بنکر رہنا چاہیے۔

 

شکر کا یہ جذبہ دین کی اساس ہے اور اسی بنیاد پر خالق کائنات سے انسان کا صحیح تعلق قائم ہوتا ہے۔ گویا یہ ہدایت کی کلید ہے۔ اسی لیے قرآن انسان کی ذہنی و فکری تربیت اس انداز سے کرتا ہے کہ اس کے اندر شکر کا جذبہ ابھرے اور وہ اللہ تعالیٰ کا گرویدہ بن جائے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔ اللہ اس ہستی کا نام ہے جو تمام کائنات کی خالق ہے یہ نام ہمیشہ سے اس کے لیے خاص رہا ہے، اس لفظ سے نہ جمع کا صیغہ بنایا جا سکتا ہے اور نہ مونث کا۔عربی میں اس کے معنی معبود حقیقی کے ہیں دوسری زبانوں میں اس کا ٹھیک ٹھیک بدل ملنا مشکل ہے۔ اردو میں خدا اور انگریزی میں (God) کے الفاظ عام طور سے خالق کائنات کے لیے مستعمل ہیں ، لیکن خدا سے جمع کا صیغہ خداؤں اور خداوندان بنایا جاتا ہے اور(God) دیوی دیوتا کے لیے بھی بولا جاتا ہے، چنانچہ اس کا مونث (Goddess) آتا ہے جس کے معنی دیوی کے ہیں چنانچہ زہرہ سیارہ کو (Goddess Venus) کہا جاتا ہے نیز عیسائیوں کے عقیدۂ تثلیث میں حضرت عیسیٰ کو(God the Son) کا خطاب دیا گیا ہے۔ (The Oxford Eng. Dictionary Vol.IV P.268.271)

 

مرہٹی میں ایشور اور پرمیشور کے الفاظ خدائے تعالیٰ( Being Supreme)کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں لیکن یہ شیو اور وشنو کے القاب بھی ہیں ۔ لفظ ایشور(ईश ) اور (वर )سے مرکب ہے( ईश)کے معنی مالک اور حاکم کے ہیں اور ( वर) کے معنی برتر اس طرح ( ईश्वर)کے معنی ہوئے خدائے برتر لیکن اس کا مونث ایشوری( ईश्वरी)آتا ہے جو دیوی کے لیے بولا جاتا ہے ملاحظہ ہو(Moles Worth's Marathi Eng-Dictionary P.84) اسی طرح پرمیشور परमेश्वर ( परम) اور(ईश्वर)سے مرکب ہے( परम) کے معنیٰ اعلیٰ کے ہیں اور پرمیشور کے معنی اعلیٰ ایشور کے۔ ایشور اور پرمیشور دونوں الفاظ کے استعمالات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ الفاظ اگرچہ خالق کائنات کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے مخصوص نہیں ہیں بلکہ دیوی دیوتاؤں کے لیے بطور صفت یا لقب انکا استعمال ہوتا ہے اسی طرح بھگوان (भगवान ) کا اسم بھی خدا کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ بطور لقب یا صفت دیوؤں کے لیے اس کا استعمال عام ہے مثلاً بھگوان واسودیو۔ اسی طرح وشنو اور شیو کو بھی بھگوان کہا جاتا ہے۔

 

لہٰذا یہ اسماء قرآن کے اسم " اللہ" کا بدل نہیں ہو سکتے جو خالق کائنات کے لیے بالکل مخصوص ہے اور ہر قسم کے احتمالات سے پاک ہے یہ لفظ واحد ہے اس کی کوئی جمع نہیں آتی۔نیز اس کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ یہ نام زبان پر آتے ہی ذہن اس کی صفاتِ کمالیہ کی طرف منتقل ہونے لگتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں جہاں کہیں اسم اللہ آیا ہے ہم نے ترجمہ میں بھی لفظ اللہ ہی رکھا ہے۔

 

اسم اللہ قرآن میں ۲۶۹۷ بار آیا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس نام کی معرفت کتنی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ قرآن میں پیش کی گئی ہے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔رب کے معنی ہیں پرورش کرنے والا اور مالک و آقا۔ اللہ کے کائنات کا رب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کائنات کا صرف خالق و پروردگار ہی نہیں ہے بلکہ اس کا مالک اور آقا بھی ہے ۔ سارے اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں اور کائنات کا سارا انتظام وہی تنہا کر رہا ہے۔ ساری مخلوق اس کے سامنے عاجز ہے اور سب اس کے بے اختیار اور بے بس بندے ہیں ۔ حقیقی حاکم اور فرمانروا بھی وہی ہے کیونکہ مالک اور آقا ہونے کا یہ لازمی مفہوم ہے۔ اس کی یہ ربوبیت اس جہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ ستاروں سے آگے جو اور جہاں ہیں وہاں بھی اس کی ربوبیت کا ظہور ہے۔ غرض انسان اور حیوان ، جن اور فرشتے دنیا اور آخرت سب کا پروردگار اور مالک وہی ہے۔

 

یہاں یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ فرمایا ہے رَبُّ المُسْلِمِینَ نہیں فرمایا کیونکہ اللہ کسی ایک گروہ ایک طبقہ اور ایک فرقہ کا رب نہیں ہے بلکہ بلا تفریق پوری نوع انسانی کا رب ہے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔ رحمن و رحیم دونوں الفاظ رحمت سے مشتق ہیں اور اللہ کی صفت ہیں ۔ رحمن مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بے انتہا مہربان۔ اس میں جوش رحمت کا پہلو غالب ہے اور یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ انسان کی تخلیق اس کے غضب کے نتیجہ میں نہیں بلکہ جوش رحمت کے نتیجہ میں ہوئی ہے اور اس کی یہ رحمت نہایت وسیع اور ہمہ گیر ہے جن سے انسانوں کا کوئی گروہ یا مخصوص فرقہ یا مخصوص قوم نہیں بلکہ پوری نوع انسانی فیضیاب ہو رہی ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات اور پوری کائنات پر اس کی رحمت چھائی ہوئی ہے اور ہمہ گیر رحمت کے اس مفہوم کے پیش نظر یہ نام اللہ کے لیے خاص ہو گیا ہے اور الرحمن کے نام سے اسی کو پکارا جاتا ہے گویا اس لفظ کی حیثیت اسم علم کی سی ہے اس لیے خدا کی صفت رحمن کو نمایاں کرنے کے لیے الرحیم کا اضافہ نہایت موزوں ہوا۔

 

رحیم اس صفت ہے اور اس پہلو کو ظاہر کرتی ہے کہ اس کی رحمت مستقل اور دائمی ہے ، اس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ انسان کی تخلیق نہ صرف اس کی رحمت کے جوش میں آنے سے ہوئی بلکہ وہ اس پر برابر اپنی رحمت کی بارش کر رہا ہے اور جو لوگ اس کے راستہ پر چلیں گے انہیں وہ ابدی طور پر اپنی رحمت سے نوازے گا۔

 

واضح رہے کہ رحیم کو رام کے مترادف سمجھنا صحیح نہیں کیونکہ رحیم اللہ وحدہ کی صفت ہے جبکہ رام ایک مذہبی پیشوا کا نام ہے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کا دن جبکہ اللہ عدالت برپا کرے گا اور تمام اگلے پچھلے انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ اس کے حضور پیش ہو کر اپنے کارنامۂ زندگی کا حساب دیں اور اپنے اچھے یا برے اعمال کے مطابق جزا یا سزا پائیں ۔

 

عدل و انصاف اللہ کی صفت ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ بندوں کے درمیان انصاف کیا جائے۔ اس کے وفادار بندے انعام سے نوازے جائیں اور سرکشوں کو کڑی سزا دی جائے۔

 

جزا و سزا کا یہ تصور عقیدۂ تناسخ سے بالکل مختلف ہے کیونکہ عقیدۂ تناسخ ایک چکر ہے جس کی نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ انتہا۔ اس عقیدہ کی رُو سے یہ دنیا دارالعذاب ہے۔ یہ عقیدہ انسان کے دوبارہ اٹھائے جانے، فرمانروائے کائنات کی طرف سے عدالت کے برپا کئے جانے، انسانی اعمال کا ریکارڈ پیش کئے جانے اور اللہ کی طرف سے ابدی انعام یاسزا پانے کے تصور سے بالکل خالی ہے۔

 

عدل کا تصور انسان کی سرشت میں موجود ہے۔ اسی بنا پر انسان عدالتیں قائم کرتا ہے لہٰذا فرمانروائے کائنات کا ایک دن سب کو جمع کر کے عدالت برپا کرنا کوئی غیر معقول بات نہیں ہے بلکہ عقل کے عین مطابق اور فطرت سے بالکل ہم آہنگ اور اس کا کھلا تقاضا ہے۔

 

قرآن میں جا بجا اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت اور صفت عدل و حکمت سے آخرت پر استدلال کیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پرورش اور ربوبیت کا جو سامان کیا ہے اس کو انسان جب کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو ربوبیت کا تقاضا ابھر کر سامنے آ جاتا ہے کہ جزا و سزا کا ایک دن ہونا چاہیے۔ تاکہ نیکو کاروں کو ان کی نیکیوں کا بھر پور صلہ اور بد کاروں کو ان کے کئے کی منصفانہ سزا ملے۔قرآن کہتا ہے جس ہستی نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کو محفوظ چھت بنایا۔ تمہاری روشنی کے لیے سورج اور چاند چمکائے، تمہارے جمالیاتی ذوق کے لیے ستاروں کی پر رونق بزم سجائی، ہوا کو تمہاری خدمت میں لگایا اور بارش کے ذریعہ پانی کا حیرت انگیز انتظام کیا۔ قسم قسم کے پھل پھول اور میوے پیدا کئے، نباتات اور اناج پیدا کر کے ، تمہارے رزق کا سامان مہیا کیا، جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کیا اور پوشش اور زیبائش کے لیے لباس مہیا کیا، غرضیکہ جس نے اس بزم کائنات کو سجا کر تم پر اپنی نعمتوں کی بارش کی اس ہستی کے بارے میں کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ اس نے یہ کارخانہ محض کھیل کے طور پر بنایا ہے اور اس کے پیچھے کوئی مقصد کار فرما نہیں ہے اور کیا ان نعمتوں کے سلسلے میں تم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ جس کی باز پرس ہو؟ واقعہ یہ ہے کہ جزا و سزا سے انکار وہی کر جا سکتا ہے جو خواہش نفس سے مغلوب ہو گیا ہو کیونکہ خواہشات کا غلبہ اسے اس بات پر آمادہ نہیں کرتا کہ وہ ذمہ دارانہ زندگی گزارے، بلکہ اس کی نظروں میں ایسی زندگی کو خوش آئند بنا کر پیش کرتا ہے جس میں کسی کے حضور جواب دہی کا تصور نہ ہو اور اس پر نہ ذمہ داریوں کا بوجھ ہو اور نہ اس کی آزادی محدود جر دی گئی ہو۔قرآن کہتا ہے ہر انسان ذمہ دار ہے اور اس سے لازماً اس کے اعمال کے بارے میں باز پرس ہونی ہے اور فیصلہ کا ایک دن مقرر ہے جس نے اپنی ذ مہ داریاں پوری کی ہوں گی،وہ کامیاب ہو گا اور جس نے ان کو نظر انداز کیا ہو گا وہ ناکام رہے گا۔

 

ذمہ داری کا یہ احساس اور آخرت کا یقین آدمی کو خدا اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی پر آمادہ کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں آدمی ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔ گویا عقیدۂ آخرت کی برکتیں اس دنیا ہی میں ظاہر ہونے لگتی ہیں ۔ بشرطیکہ آدمی اس کو شعوری طور پر اور حقیقت سمجھ کر قبول کرے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔ عبادت عبد سے ہے جس کے معنی بندے کے ہیں اور عبادت کے معنیٰ ہیں بندگی۔ اس کے لغوی معنی میں اطاعت بھی شامل ہے جو خضوع کے ساتھ ہو چنانچہ لسان العرب میں ہے: وَ معنی العبادۃ فی اللغۃ الطاعۃ مع الخضوع(لسان العرب ج ۳ ص ۲۷۳) عبادت کی روح انتہائی خشوع و خضوع اور عاجزی و فروتنی کا اظہار ہے۔ پرستش اور اس کی مختلف شکلیں مثلاً قیام، رکوع، سجدہ، نماز، طواف، دعاء، استعاذہ، فریاد اور حاجت روائی کے لیے پکارنا، ذکر و تسبیح، گن گانا اور نام جپنا سب عبادت ہیں ۔

 

قرآن میں عبادت کا لفظ ایک جامع اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے، جو پرستش،بندگی اور بے قید وغیر مشروط اطاعت، (جو خضوع کے ساتھ ہو) کے مفہوم پر مشتمل ہے۔ البتہ چونکہ پرستش اس کا اولین اور متبادل مفہوم ہے اس لیے موقع کی مناسبت سے یہ لفظ صرف پرستش کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں اس لفظ کا جامع مفہوم ہی مراد ہے ۔

 

عبادت اللہ کے لیے خاص ہے کیونکہ لائق عبادت اسی کی ذات ہے۔ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں خواہ پتھر ہوں یا درخت، سورج ہوں یا ستارے انسان ہوں یا جن اور انبیاء ہوں یا فرشتے۔( مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ کہف نوٹ ۳۵)

 

۸۔۔۔۔۔۔ حقیقی مددگار اللہ ہی ہے اس لیے مدد صرف اسی سے طلب کرنا چاہیے خواہ مدد عبادت کے معاملہ میں مطلوب ہو یا کسی اور معاملہ میں ، اس سے یہ بات واضح ہے کہ کسی پیغمبر، ولی، جن، فرشتہ، یا دیوی دیوتا کو مدد کے لیے پکارنا ہرگز روا نہیں اس لیے کہ اللہ کے سوا کوئی مشکل کشا اور حاجت روا نہیں ہے۔

 

یہاں بندہ خاص طور سے عبادت کے معاملہ میں اللہ سے مدد کا طالب ہے کیونکہ اس کی توفیق کے بغیر انسان اس کی عبادت کی سعادت حاصل نہیں کر جا سکتا۔

 

۹۔۔۔۔۔۔ سیدھے راستہ سے مراد وہ راستہ ہے جو سیدھا اللہ تک پہنچتا ہے۔ اور جس پر چل کر آدمی منزلِ مقصود کو پہنچ جاتا ہے اور جو حقیقی فوز و فلاح کا ضامن اور رضائے الٰہی کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ راستہ اسلام اور صرف اسلام کا ہے۔ جس طرح دو نقطوں کے درمیان ایک ہی خط مستقیم کھینچ جا سکتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تک پہنچنے کی واحد راہ یہی اسلام کی صراط مقیم ہے۔ اس سے خود بخود اس گمراہ کن نظریہ کی تردید ہوتی ہے کہ تمام راستے اللہ تک پہنچتے ہیں ۔ لہٰذا آدمی جس راہ پر بھی چل پڑے، خدا تک رسائی ہو جائے گی۔یہ غلط قسم کی رواداری ہے اور قرآن انسان کو رواداری کے اس پُر فریب تصور میں چھوڑنا نہیں چاہتا۔

 

اسلام کو شاہراہ سے تعبیر کرنے میں دین حقیقی کا تصور بھی مضمر ہے یعنی یہ دین " مذہبی مراسم کا مجموعہ" نہیں ہے بلکہ ایک طریق زندگی(Way of Life) ہے جس پر گامزن ہو کر اور عملی جدوجہد کر کے ہی انسان کامیابی کی منزل کو پہنچ جا سکتا ہے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم حقیقی انعام کے طالب ہیں اور تیرے حضور اس کی درخواست لے کر حاضر ہوئے ہیں ۔ ہم پر ہدایت و شریعت کی راہ کھول دے اور اپنے فیض اور اپنی خوشنودی سے ہمیں نوازا۔ اللہ تعالیٰ اپنے حقیقی انعام سے انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین کو نوازتا رہا ہے۔ یہ دعا اسی انعام یافتہ گروہ کی راہ پر چلانے کیلئے ہے۔ یہیں سے رسالت پر ایمان لانے کی ضرورت بھی ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ اللہ کے راستہ کو معلوم کرنے کا انسان کے پاس کیا ذریعہ ہے؟ انسان اپنی عقل سے اس کے راستہ، اس کی عبادت کے طور طریقے اور اس کی پسند اور نا پسند کا تعین نہیں کر سکتا بلکہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کے بتانے ہی سے معلوم ہو سکتی ہیں ۔ اسی مقصد کیلئے اللہ تعالیٰ نے مختلف زمانوں اور ملکوں میں پیغمبر بھیجے۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔ اللہ کا غضب ان لوگوں پر ہوا جنہوں نے اللہ کے دین اور اس کی شریعت کو دل کی آمادگی کے ساتھ قبول نہیں کیا بلکہ محض رسمی طور پر قبول کیا اور خواہشات کے پیچھے پڑ کر شرعی احکام کی خلاف ورزی کی اور سرکشی کا رویہ اختیار کر بیٹھے اس کی مثال یہود ہیں ۔

 

۱۲ ۔۔۔۔۔۔گمراہ وہ لوگ ہوئے جنہوں نے اللہ کے دین کی نعمت کو پایا لیکن غلو، بدعات، ترک دنیا اور فلسفیانہ بحثوں کے چکر میں پڑ کر راہ راست سے بہت دور نکل گئے۔ اس کی مثال نصاریٰ ہیں یہاں یہود و نصاریٰ کی گمراہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ صراطِ مستقیم( دین حق) کو پانے کے بعد اسے گم کرنے کی یہ جیتی جاگتی اور نمایاں مثالیں ہیں اور اس سے مقصود امت مسلمہ کو متوجہ کرنا ہے کہ وہ ان گمراہ ملتوں کی سی روش اختیار نہ کریں ۔ رہے مشرک، کافر اور ملحد تو وہ پرلے درجہ کے گمراہ ہیں اور ان کی گمراہی محتاجِ بیان نہیں ۔

 

٭٭٭٭٭