دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ القُرَیش

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

 پہلی آیت میں  قُرَیْش کا ذکر ہوا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام قُریش ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

 اس سورہ میں  رَبَّ ھٰذا البَیْتِ ( اس گھر کا رب ) کے الفاظ آۓ ہیں  جو اس بات کا ثبوت ہیں  کہ یہ سورہ مکی ہے کیونکہ خانہ کعبہ کے لیے شارہ قریب (ہٰذا ) مکہ میں  نازل ہونے کی صورت ہی میں  موزوں  ہو سکتا تھا۔

 

مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورہ فیل کے بعد نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

 قریش پر اللہ کا یہ حق ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں۔

 

نظم کلام

 

 آیت ۱ اور ۲ میں  قریش کی اس اُلفت کو جو ان کو اپنے تجارتی سفر سے تھی قابل تعجب قرار دیا گیا ہے کیونکہ انہیں  یہ نعمت اللہ کے گھر کی بدولت حاصل تھی مگر وہ اللہ کی ناشکری کر رہے تھے۔

 

آیت ۳ میں  اس نعمت کا یہ تقاضا بیان کیا گیا ہے کہ وہ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں۔

 

آیت ۴ میں  بتایا گیا ہے کہ رزق اور امن اللہ ہی کی بخشی ہوئی نعمتیں  ہیں  لہٰذا اس کا اعتراف کرتے ہوۓ صرف اسی ی عبادت کرنا چاہیے۔

ترجمہ

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کس ۱*  قدر اُلفت ہے قریش ۲*  کو ! ۳*  

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو جو اُلفت ہے سرما و گرما کے سفر سے

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا ان کو چاہیے کہ اس گھر ۴*  کے رب کی عبادت کریں ۵*  

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے ان کو بھوک سے بچا کر کھانا کھلایا اور خوف سے بچا کر امن ۶*  بخشا۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ لِ (لام مجرور)  یہاں  تعجب کے معنی میں  ہے جسے عربی میں  لام تعجب کہتے ہیں۔ ابن جریر طبری نے بھی اسی معنی کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے ہم نے لِاِیلافِ کا ترجمہ ’’ کس قدر الفت ہے !‘‘ کیا ہے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ قریش ایک قبیلہ کا نام ہے جس کے ہاتھ میں  خانہ کعبہ کی تَولِیَت تھی۔ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کو مکہ کی سر زمین میں  بسایا تھا۔ قریش ان ہی کی نسل سے ہیں۔ اس قبیلہ کی ایک شاخ بنی ہاشم کہلائی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ مکہ کی زمین زراعت کے قابل نہیں  تھی اس لیے قریش نے تجارت کو اپنا پیشہ بنا لیا تھا۔ چنانچہ ان کے تجارتی قافلے سردیوں  میں  یمن کا رخ کرتے اور گرمیوں  میں  شام و فلسطین کا۔ یہ تجارتی سفر ان کی معاش کا بہت بڑا ذریعہ اور ان کی دولت میں  اضافہ کا باعث تھے۔ وہ جن راہوں  سے گزرتے تھے وہ اگر چہ کہ بین الاقوامی شاہراہیں  تھیں  لیکن عام بد امنی اور لوٹ مار کی وجہ سے محفوظ نہیں  تھیں۔ اس کے باوجود قریش کے کاروان تجارت بے خطر آیا جایا کرتے تھے کیونکہ کعبہ کے متولی ہونے کی بنا پر لوگ ان کا احترام کرتے تھے۔ علاوہ ازیں  انہوں  نے ان ریاستوں  کے بادشاہوں  سے تجارتی مراعات حاصل کر لی تھیں  کہ وہ بے روک ٹوک ان کے ملک میں  آتے جاتے رہیں  گے۔ چنانچہ ہاشم نے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پر دادا ہیں  شام، روم اور غسان کے بادشاہ سے ، عبد شمس نے نجاشی سے ، نوفل نے کسریٰ سے اور مُطَّلب نے حِمْیَرْ (یمن) کے بادشاہ سے فرمان حاصل کر لیے تھے (البدایۃ و النہایۃ ج ۲ ص ۲۵۳ )

 

اس طرح اللہ کے گھر کی بدولت ان پر رزق کی راہیں  بھی کھل گئی تھیں  اور عام بد امنی کے باوجود انکے لیے سفر بھی پر امن ہو گیا تھا۔ ان فوائد کی وجہ سے ان کو اپنے تجارتی سفرو سے الفت پیدا ہو گئی تھی چنانچہ وہ پابندی کے ساتھ موسم سرما میں  یمن کا اور موسم گرما میں  شام و فلسطین کا سفر کرتے۔ یمن کا علاقہ چونکہ گرم ہے اس لیے موسم سرما میں  اس ملک کے سفر کو ترجیح دیتے اور شام و فلسطین اک علاقہ چونکہ سرد ہے اس لیے موسم گرما میں  ان ممالک کے سفر کو وہ موزوں  خیال کرتے۔

 

اس آیت میں  ان کے ان تجارتی سفروں سے الفت اور وابستگی کو اس بنا پ قبل تعجب قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے طرز عمل سے حق نا شناسی اور ناشکری کا نوبت دے رہے ہیں  کیونکہ یہ نعمتیں  انہیں  حاصل ہو رہی ہیں  خدا کے گھر کی بدولت لیکن وہ خدا کے ہی حق کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ وہ کھاتے ہیں  خدا کا دیا ہوا رزق مگر گن گاتے ہیں  بتوں  کے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس گھر سے مراد خانہ کعبہ ہے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ قریش کو متوجہ کیا گیا ہے کہ جب تم اس گھر کو اللہ کا گھر مانتے ہو تو پھر تمہیں  س کا حق ادا کرن چاہیے اور وہ حق یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کی عبادت کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ اسی طرح اس گھر کی بدولت جو تجارتی فوائد تمہیں  حاصل ہو رہے ہیں  اور جو آسودگی تمہیں  میسر آ رہی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس گھر کے رب کے شکر گزار بندے بن کر رہو اور ناشکری کا طریقہ اختیار نہ کرو۔

 

خانہ کعبہ کی تعمیر خداۓ واحد کی عبادت کے لیے ہوئی تھی پھر اس گھر کے متولیوں  کے لیے خدا کی پرستش کے بجاۓ بتوں  کی پرستش کے لیے جواز کہاں  سے پیدا ہو گیا ؟۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زمانہ میں  عربوں  کی معاشی حالت خستہ تھی اور اس علاقہ کے جغرافیائی حالات ایسے تھے کہ غذائی اجناس کی بھی بڑی قلت تھی۔ گویا یہ غربت اور فاقہ زدگی کا علاقہ تھا مزید برآں  قبائلی سسٹم ہونے اور کسی مضبوط حکومت کے نہ ہونے کی وجہ سے بڑی بد امنی پھیلی ہوئی تھی۔ قتل و غارتگری اور لوٹ مار کے واقعات نے ان کی زندگی کا سکون چھین لیا تھا مگر قریش کی حالت معاشی لحاظ سے بھی  بہتر تھی اور امن و امان کے لحاظ سے بھی۔ معاشی لحاظ سے بہتر ہونے کی وجہ تو ان کے کامیاب تجارتی سفر تھے۔ رہا امن و امان تو اس کے حرم ہونے کی بنا پر تھا اور باہر نکلنے کے بعد ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کوئی شخص یا قبیلہ یا حکومت اس لیے نہیں  کرتی تھی کہ وہ پاسبان حرم اور خادم حجاج سمجھے جاتے تھے۔ مختصر یہ کہ قریش کو یہ دونوں  نعمتیں  یعنی رزق اور امن جو انسان کی بنیادی ضرورتیں  ہیں  خدا ہی کے عطا کرنے سے حاصل ہو رہی تھیں  اس لیے اس کا شکر اور حق بندگی ان پر واجب تھا نہ کہ بتوں  کا جن کا نہ بھوک کو مٹانے میں  کوئی دخل تھا اور نہ خوف کو دور کرنے میں۔

 

اس سورہ میں  خداۓ واحد کی عبادت کا مطالبہ اگر چہ کہ قریش سے کیا گیا ہے لیکن در حقیقت یہ مطالبہ پوری انسانیت سے ہے کیونکہ تمام انسانوں  کا رب وہی ہے جو خانہ کعبہ کا رب ہے۔