تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ هُود

زمانۂ نزول

اس سورت کے مضمون پر غور کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسی دور میں نازل ہوئی ہو گی جس میں سورۂ یونس نازل ہوئی تھی۔ بعید نہیں کہ یہ اس کے ساتھ متصلاً ہی نازل ہوئی ہو، کیونکہ موضوعِ تقریر وہی ہے، مگر تنبیہ کا انداز اس سے زیادہ سخت ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا "میں دیکھتا ہوں کہ آپ بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے ؟" جواب میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا "مجھ کو سورہ ہود اور اس کی ہم مضمون سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے "۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے وہ زمانہ کیسا سخت ہو گا جبکہ ایک طرف کفار قریش اپنے تمام ہتھیاروں سے اس دعوتِ حق کو کچل دینے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پے در پے تنبیہات نازل ہو رہی تھیں۔ ان حالات میں آپ کو ہر وقت یہ اندیشہ گھلائے دیتا ہو گا کہ کہیں اللہ کی دی ہوئی مہلت ختم نہ ہو جائے اور وہ آخری ساعت نہ آ جائے جبکہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عذاب میں پکڑ لینے کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔ فی الواقع اس سورت کو پڑھنے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک سیلاب کا بند ٹوٹنے کو ہے اور اس غافل آبادی کا، جو اس سیلاب کی زد میں ہے، آخری تنبیہ کی جا رہی ہے۔ 

موضوع اور مباحث

موضوع تقریر وہی ہے جو سورۂ یونس کا تھا یعنی دعوت، فہمائش اور تنبیہ لیکن فرق یہ ہے کہ سورۂ یونس کی بہ نسبت یہاں دعوت مختصر ہے، فہمائش میں استدلال کم اور وعظ و نصیحت زیادہ ہے اور تنبیہ مفصل اور پر زور ہے۔

دعوت یہ ہے کہ پیغمبر کی بات مانو، شرک سے باز آؤ، سب کی بندگی چھوڑ کر اللہ کے بندے بنو اور اپنی دنیوی زندگی کا سارا نظام آخرت کی جواب دہی کے احساس پر قائم کرو۔

فہمائش یہ ہے کہ حیاتِ دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کر کے جن قوموں نے اللہ کے رسولوں کی دعوت کو ٹھکرایا ہے وہ اس سے پہلے نہایت برا انجام دیکھ چکی ہیں، اب کیا ضرور ہے تم بھی اسی راہ چلو جسے تاریخ کے مسلسل تجربات قطعی طور پر تباہی کی راہ کر چکے ہیں۔

تنبیہ یہ ہے کہ عذاب کے آنے میں جو تاخیر ہو رہی ہے یہ دراصل ایک مہلت ہے جو اللہ اپنے فضل سے تمہیں عطا کر رہا ہے۔ اس مہلت کے اندر اگر تم نہ سنبھلے تو وہ عذاب آئے گا جو کسی کے ٹالے نہ ٹل سکے گا اور اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت کو چھوڑ کر تمہاری ساری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے گا۔

اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے براہ راست خطاب کی بہ نسبت قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط، اصحاب مدین اور قوم فرعون کے قصوں سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔ ان قصوں میں خاص طور پر جو بات نمایاں کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا جب فیصلہ چکانے پر آتا ہے تو پھر بالکل بے لاگ طریقہ سے چکاتا ہے۔ اس میں کسی کے ساتھ ذرہ برابر رعایت نہیں ہوتی۔ اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کس کا بیٹا اور کس کا عزیز ہے۔ رحمت صرف اس کے حصے میں آتی ہے جو راہ راست پر آ گیا ہو، ورنہ خدا کے غضب سے نہ کسی پیغمبر کا بیٹا بچتا ہے اور نہ کسی پیغمبر کی بیوی۔ یہی نہیں بلکہ جب ایمان و کفر کا دو ٹوک فیصلہ ہو رہا ہو تو دین کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ خود مومن بھی باپ اور بیٹے اور شوہر اور بیوی کے رشتوں کو بھول جائے اور خدا کی شمشیر عدل کی طرح بالکل بے لاگ ہو کر ایک رشتۂ حق کے سوا ہر دوسرے رشتے کو کاٹ پھینکے۔ ایسے موقع پر خون اور نسب کی رشتہ داریوں کا ذرہ برابر لحاظ کر جانا اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ یہی وہ تعلیم تھی جس کا پورا پورا مظاہرہ تین چار سال بعد مکہ کے مہاجر مسلمانوں نے جنگ بدر میں کر کے دکھایا۔

ترجمہ و تفسیر

ال ر۔ فرمان ہے ۱، جس کی آیتیں پُختہ اور مفصّل ارشا د ہوئی ہیں ۲، ایک دانا اور با خبر ہستی کی طرف سے، کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی۔ میں اُس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی۔ اور یہ کہ تم اپنے ربّ سے معافی چاہو اور اُس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدّتِ  خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا ۳اور ہر صاحبِ فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا۔۴ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ دیکھو! یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اُس سے چھُپ جائیں۔۵ خبردار! جب کہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں، اللہ ان کے چھُپے کو بھی جانتا ہے اور کھُلے کو بھی، وہ تو اُن بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں۔زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمّے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، ۶ سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔۔۔۔جبکہ اس سے پہلے اُس کا عرش پانی پر تھا ۷۔۔۔۔۔۔ تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ ۸ اب اگر اے محمد ؐ، تم کہتے ہو کہ لوگو، مرنے کے بعد تم دوبارہ اُٹھائے جاؤ گے تو منکرین فوراً بول اُٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے۔ ۹اور اگر ہم ایک خاص مُدّت تک ان کی سزا کو ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اُسے روک رکھا ہے ؟ سُنو! جس روز اُس سزا کا وقت آگیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آ گھیرے گی جس کا وہ مذاق اُڑا رہے ہیں۔ ؏١
 

۱- ’’کتاب‘‘ کا ترجمہ یہاں اندازِ بیان کی مناسبت سے ’’فرمان‘‘ کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ کتاب اور نوشتے ہی کے معنی میں نہیں آتا بلکہ حکم اور فرمان شاہی کے معنی میں بھی آتا ہے اور خود قرآن میں متعدد مواقع پر یہ لفظ اسی معنی میں مُستعمل ہوا ہے۔

۲-۲-یعنی س فرمان میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ پکی اور اَٹل ہیں۔ خوب جچی تُلی ہیں۔ نِری لفاظی نہیں ہے۔ خطابت کی ساحری اور تخیل کی شاعری نہیں ہے۔ ٹھیک ٹھیک حقیقت بیان کی گئی ہے اور اس کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو حقیقت سے کم یا زیادہ ہو۔ پھر یہ آیتیں مفصل بھی ہیں، ان میں ایک ایک بات کھول کھول کر واضح طریقے سے ارشاد ہوئی ہے۔ بیان الجھا ہوا، گنجلک اور مبہم نہیں ہے۔ ہر بات کو الگ الگ، صاف صاف سمجھا کر بتایا گیا ہے۔

۳-یعنی دنیا میں تمہارے ٹھیرنے کے لیے جو وقت مقرر ہے اس وقت تک وہ تم کو بُری طرح نہیں بلکہ اچھی طرح رکھے گا۔ اس کی نعمتیں تم پر برسیں گی۔ اس کی برکتوں سے سرفراز ہو گے۔ خوش حال و فارغ البال رہو گے۔ زندگی میں امن اور چین نصیب ہو گا۔ ذلت و خواری کے ساتھ نہیں بلکہ عزت و شرف کے ساتھ جیو گے۔ یہی مضمون دوسرے موقع پر اس طرح ارشاد ہو ا ہے کہ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْ مِنٌ فَلَنُحْیینَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً (النحل۔ آیت ۹۷) ’’ جو شخص بھی ایمان کے ساتھ نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، ہم اس کو پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے ‘‘۔ اس سے لوگوں کی اُس غلط فہمی کو رفع کرنا مقصود ہے جو شیطان نے ہر نادان دنیا پرست آدمی کو کان میں پھونک رکھی ہے کہ خدا ترسی اور راستبازی اور احساسِ ذمہ داری کا طریقہ اختیار کرنے سے آدمی کی آخرت بنتی ہو تو بنتی ہو، مگر دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے۔ اور یہ کہ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں فاقہ مستی و خستہ حالی کے سوا کوئی زندگی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تردید میں فرماتا ہے کہ اس راہِ راست کو اختیار کرنے سے تمہاری صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا بھی بنے گی۔ آخرت کی طرح اس دنیا کی حقیقی عزت و کامیابی بھی ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے جو سچی خدا پرستی کے ساتھ صالح زندگی بسر کریں۔ جن کے اخلاق پاکیزہ ہوں، جن کے معاملات درست ہوں، جن پر ہر معاملہ میں بھروسہ کیا جا سکے، جن سے ہر شخص بھلائی کا متوقع ہو، جن سے کسی انسان کو یا کسی قوم کو شر کا اندیشہ نہ ہو۔

اس کے علاوہ ’’مَتَاعٌ حَسَنٌ‘‘ کے الفاظ میں ایک اور پہلو ہے جو نگاہ سے اوجھل نہ رہ جانا چاہیے۔ دنیا کا سامانِ زیست قرآن مجید کی رو سے دو قسم کا ہے۔ ایک وہ سر و سامان ہے جو خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لیے دیا جاتا ہے اور جس سے دھوکا کھا کر ایسے لوگ اپنے آپ کو دنیا پرستی و خدا فراموشی میں اور زیادہ گم کر دیتے ہیں۔ یہ بظاہر تو نعمت ہے مگر بباطن خدا کی پھٹکار اور اس کے عذاب کا پیش خیمہ ہے۔ قرآن مجید اس کو ’’مَتَاعٌ غُرُوْرٌ‘‘ کے الفاظ سے یاد کرتا ہے۔ دوسرا وہ سر و سامان ہے جس سے انسان خوشحال اور قوی بازو ہو کر اپنے خدا کا اور زیادہ شکر گزار بنتا ہے، خدا اور اس کے بندوں کے اور خود اپنے نفس کے حقوق زیادہ اچھی طرح ادا کرتا ہے، خدا کے دیے ہوئے وسائل سے طاقت پا کر دنیا میں خیر و صلاح کی ترقی اور شر و فساد کے استیصال کے لیے زیادہ کار گر کوشش کرنے لگتا ہے۔ یہ قرآن کی زبان میں ’’مَتَاعٌ حَسَنٌ‘‘ ہے، یعنی ایسا اچھا سامانِ زندگی جو محض عیش دنیا ہی پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ نتیجہ میں عیش آخرت کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔

۴-یعنی جو شخص اخلاق و اعمال میں جتنا بھی آگے بڑھے گا اللہ اس کو اتنا ہی بڑا درجہ عطا کرے گا۔ اللہ کے ہاں کسی کی خوبی پر پانی نہیں پھیرا جاتا۔ اس کے ہاں جس طرح برائی کی قدر نہیں ہے اسی طرح بھلائی کی ناقدری بھی نہیں ہے۔ اس کی سلطنت کا دستور یہ نہیں ہے کہ

اسپ تازی شدہ مجروح بزیر پالاں

طوق زریں ہمہ در گردن خرمی بینم!

وہاں تو جو شخص بھی اپنی سیرت و کردار سے اپنے آپ کو جس فضیلت کا مستحق ثابت کر دے گا وہ فضیلت اس کو ضرور دی جائے گی۔

۵-مکے میں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا چرچا ہوا تو بہت سے لوگ وہاں ایسے تھے جو مخالفت میں تو کچھ بہت زیادہ سرگرم نہ تھے مگر آپؐ کی دعوت سے سخت بیزار تھے۔ اُن لوگوں کا رویہ یہ تھا کہ آپؐ سے کتراتے تھے، آپؐ کسی بات کو سُننے کے لیے تیار نہ تھے، کہیں آپؐ کو بیٹھے دیکھتے تو اُلٹے پاؤں پھر جاتے، دُور سے آپ کو آتے دیکھ لیتے تو رُخ بدل دیتے یا کپڑے کی اوٹ میں منہ چھپا لیتے، تاکہ آمنا سامنا نہ ہو جائے اور آپؐ انہیں مخاطب کر کے کچھ اپنی باتیں نہ کہنے لگیں۔ اسی قسم کے لوگوں کی طرف یہاں اشارہ کیا ہے کہ یہ لوگ حق کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں اور شتر مرغ کی طرح منہ چھپا کر سمجھتے ہیں کہ وہ حقیقت ہی غائب ہو گئی جس سے اُنہوں نے منہ چھپایا ہے۔ حالانکہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے اور وہ یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ یہ بے وقوف اس سے بچنے کے لیے منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔

۶-یعنی جس خدا کے علم کا حال یہ ہے کہ ایک ایک چڑیا کا گھونسلہ اور ایک ایک کیڑے کا بِل اس کو معلوم ہے اور وہ اسی کی جگہ پر اس کو سامانِ زیست پہنچا رہا ہے، اور جس کو ہر آن اس کی خبر ہے کہ کونسا جاندار کہاں رہتا ہے اور کہاں اپنی جان جانِ آفریں کے سپر د کر دیتا ہے، اس کے متعلق اگر تم یہ گمان کرتے ہو کہ اس طرح منہ چھپا چھپا کر یا کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر یا آنکھوں پر پردہ ڈال کر تم اس کی پکڑ سے بچ جاؤ گے تو سخت نادان ہو۔ داعی حق سے تم نے منہ چھپا بھی لیا تو آخر اس کا حاصل کیا ہے ؟ کیا خدا سے بھی تم چھپ گئے ؟ کیا خدا یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ ایک شخص تمہیں امرِ حق سے آگاہ کرنے میں لگا ہوا ہے اور تم یہ کوشش کر رہے ہو کہ کسی طرح اس کی کوئی بات تمہارے کان میں نہ پڑنے پائے ؟

۷-جملہ ٔ معترضہ ہے جو غالباً لوگوں کے اس سوال کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ آسمان و زمین اگر پہلے نہ تھے اور بعد میں پیدا کیے گئے تو پہلے کیا تھا؟ اس سوال کو یہاں نقل کیے بغیر اس کا جواب مختصر سے فقرے میں دے دیا گیا ہے کہ پہلے پانی تھا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس پانی سے مراد کیا ہے۔ یہی پانی جسے ہم اس نام سے جانتے ہیں؟ یا یہ لفظ محض استعارے کے طور پر مادّے کی اس مائع (Fluid) حالت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو موجودہ صورت میں ڈھالے جانے سے پہلے تھی؟ رہا یہ ارشاد کہ خدا کا عرش پہلے پانی پر تھا، تو اس کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ خدا کی سلطنت پانی پر تھی۔

۸-اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو اس لیے پیدا کیا کہ تم کو(یعنی انسان کو) پیدا کرنا مقصود تھا، اور تمہیں اس لیے پیدا کیا کہ تم پر اخلاقی ذمہ داری کا بار ڈالا جائے، تم کو خلافت کے اختیارات سپرد کیے جائیں اور پھر دیکھا جائے کہ تم میں سے کون ان اختیارات کو اور اس اخلاقی ذمہ داری کے بوجھ کو کس طرح سنبھالتا ہے۔ اگر اس تخلیق کی تہ میں یہ مقصد نہ ہوتا، اگر اختیارات کو تفویض کے باوجود کسی امتحان کا، کسی محاسبہ اور باز پرس کا اور کسی جزا و سزا کا کوئی سوال نہ ہوتا، اور اگر انسان کو اخلاقی ذمہ داری کا حامل ہونے کے باوجود یونہی بے نتیجہ مر کر مٹی ہو جانا ہی ہوتا، تو پھر یہ سارا کارِ تخلیق بالکل ایک مہمل کھیل تھا اور اس تمام ہنگامۂ وجود کی کوئی حیثیت ایک فعل عبث کے سوا نہ تھی۔

۹-یعنی ان لوگوں کی نادانی کا یہ حال ہے کہ کائنات کو ایک کھلنڈرے کا گھروندا اور اپنے آپ کو اس کے جی بہلانے کا کھلونا سمجھے بیٹھے ہیں اور اس احمقانہ تصور میں اتنے مگن ہیں کہ جب تم انہیں اس کارگاہِ حیات کا سنجیدہ مقصد، اور خود ان کے وجود کی معقول غرض و غایت سمجھاتے ہو تو قہقہہ لگاتے ہیں اور تم پر پھبتی کستے ہیں کہ یہ شخص تو جادو کی سی باتیں کرتا ہے۔

 

اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔ اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی ہم اُسے نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دِلَدّر پار ہو گئے، پھر وہ پھُولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔ ۱۰ اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے ۱۱ اور نیکوکار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔ ۱۲تو اے پیغمبر ؐ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اُن چیزوں میں سے کسی چیز کو (بیان کرنے سے ) چھوڑ دو جو تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہیں۔ اور اس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے ’’ اِس شخص پر کوئی خزانہ کیوں نہ اُتارا گیا‘‘ یا یہ کہ ’’ اِس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا۔‘‘ تم تو محض خبردار کرنے والے ہو، آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے۔ ۱۳کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے ؟ کہو ’’ اچھا یہ بات ہے تو اِس جیسی گھڑی ہوئی دس سُورتیں تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو ( تمہارے معبود) ہیں اُن کو مدد کے لیے بُلا سکتے ہو تو بُلا لو اگر تم ( اُنہیں معبود سمجھنے میں) سچے ہو۔اب اگر وہ(تمہارے معبود ) تمہاری مدد کو نہیں پہنچتے تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ پھر کیا تم ( اِس امرِ حق کے آگے ) سرِ تسلیم خم کرتے ہو؟ ‘‘ ۱۴جو لوگ بس اِسی دُنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ۱۵ اُن کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں اُن کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ۱۶ ( وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جو کچھ اِنہوں نے دُنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔ پھر بھلا وہ شخص جو اپنے ربّ کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا ۱۷، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے ( اِس شہادت کی تائید میں) آگیا، ۱۸ اور پہلے موسیٰ ؑ کی کتا ب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی ( کیا وہ بھی دُنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کر سکتا ہے ؟) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے ۱۹۔ اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اِ س کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبر ؐ، تم اس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے۔ اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے۔ ۲۰ ایسے لوگ اپنے ربّ کے حضُور پیش ہوں گے اور گواہ شہادت دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے ربّ پر جھوٹ گھڑا تھا۔ سُنو! خُدا کی لعنت ہے ظالموں پر ۲۱۔۔۔۔اُن ظالموں پر ۲۲ جو خُدا کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں، اُس کے راستے کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں ۲۳ اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔۔۔۔۲۴وہ زمین میں اللہ کو بے بس کرنے والے نہ تھے اور نہ اللہ کے مقابلے میں کوئی اُن کا حامی تھا۔ اُنہیں اب دوہرا عذاب دیا جائے گا۔۲۵ وہ نہ کسی کی سُن ہی سکتے تھے اور نہ خود ہی اُنہیں کچھ سُوجھتا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خود گھاٹے میں ڈالا اور وہ سب کچھ اُن سے کھویا گیا جو اُنہوں نے گھڑ رکھا تھا۔۲۶ناگزیر ہے کہ وہی آخرت میں سب سے بڑھ کر گھاٹے میں رہیں۔رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے ربّ ہی کے ہو کر رہے، تو یقیناً وہ جنتّی لوگ ہیں اور جنّت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ۲۷اِن دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے اور سُننے والا، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں؟۲۸ کیا تم ( اِس مثال سے ) کوئی سبق نہیں لیتے ؟ ؏۲
 

۱۰-یہ انسان کے چھچورے پن، سطح بینی، اور قلت تدبر کا حال ہے جس کا مشاہدہ ہر وقت زندگی میں ہوتا رہتا ہے اور جس کو عام طور پر لوگ اپنے نفس کا حساب لے کر خود اپنے اندر بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ آج خوشحال اور زور آور ہیں تو اکڑ رہے ہیں اور فخر کر رہے ہیں۔ ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف ہرا ہی نظر آ رہا ہے اور خیال تک نہیں آتا کہ کبھی اس بہار پر خزاں بھی آ سکتی ہے۔ کل کسی مصیبت کے پھیر میں آ گئے تو بلبلا اُٹھے، حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے، اور بہت تَلمَلائے تو خد ا کو گالیاں دے کر ا ور اس کی خدائی پر طعن کر کے غم غلط کر نے لگے۔ پھر جب بُرا وقت گزر گیا اور بھلے دن آئے تو وہی اکڑ، وہی ڈینگیں اور نعمت کے نشے میں وہی سرمستیاں پھر شروع ہو گئیں۔ انسان کی اس ذلیل صفت کا یہاں کیاں ذکر ہو رہا ہے ؟ اس کی غرض ایک نہایت لطیف انداز میں لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ آج اطمینان کے ماحول میں جب ہمارا پیغمبر خبردار کرتا ہے کہ خدا کی نافرمانیاں کرتے رہو گے تو تم پر عذاب آئے گا، اور تم اس کی یہ بات سُن کر ایک زور کا ٹھٹھا مار تے ہو، اور کہتے ہو کہ ’’دیوانے دیکھتا نہیں کہ ہم پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہے، ہر طرف ہماری بڑائی کے پھریرے اُڑ رہے ہیں، اس وقت تجھے دن دہاڑے یہ ڈراؤنا خواب کیسے نظر آگیا کہ کوئی عذاب ہم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے ‘‘، تو دراصل پیغمبر کی نصیحت کے جواب میں تمہارا یہ ٹھٹھا اِسی ذلیل صفت کا ایک ذلیل تر مظاہرہ ہے۔ خدا تو تمہاری گمراہیوں اور بدکاریوں کے باوجود محض اپنے رحم و کرم سے تمہاری سزا میں تاخیر کر رہا ہے تا کہ تم کِسی طرح سنبھل جاؤ، مگر تم اس مہلت کے زمانے میں یہ سوچ رہے ہو کہ ہماری خوش حالی کیسی پائیدار بنیادوں پر قائم ہے اور ہمارا یہ چمن کیسا سدا بہار ہے کہ اس پر خزاں آنے کا کوئی خطرہ ہی نہیں۔

۱۱-یہاں صبر کے ایک اور مفہوم پر روشنی پڑتی ہے۔ صبر کی صفت اُ س چھچور پن کی ضد ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ صابر وہ شخص ہے جو زمانہ کے بدلتے ہوئے حالات میں اپنے ذہن کے توازن کو برقرار رکھے۔ وقت کی ہر گردش سے اثر لے کر اپنے مزاج کا رنگ بدلتا نہ چلا جائے بلکہ ایک معقول اور صحیح رویہ پر ہر حال میں قائم رہے۔ اگر کبھی حالات سازگار ہوں اور وہ دولت مندی، اقتدار اور ناموری کے آسمانوں پر چڑھا چلا جا رہا ہو تو بڑا ئی کے نشے میں مست ہو کر بہکنے نہ لگے۔ اور اگر کسی دوسرے وقت مصائب و مشکلات کی چکی اسے پیسے ڈال رہی ہو تو اپنے جوہر انسانیت کو اس میں ضائع نہ کر دے۔ خدا کی طرف سے آزمائش خواہ نعمت کی صورت میں آئے یا مصیبت کی صورت میں، دونوں صورتوں میں اس کی بردباری اپنے حال پر قائم رہے اور اس کا ظرف کسی چیز کی بھی چھوٹی یا بڑی مقدار سے چھلک نہ پڑے۔

۱۲-یعنی اللہ ایسے لوگوں کے قصور معاف بھی کرتا ہے اور ان کی بھلائیوں پر اجر بھی دیتا ہے۔

۱۳-اس ارشاد کا مطلب سمجھنے کے لیے اُن حالات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے جن میں یہ فرمایا گیا ہے۔ مکہ ایک ایسے قبیلے کا صرف مقام ہے جو تمام عرب پر اپنے مذہبی اقتدار، اپنی دولت و تجارت اور اپنے سیاسی دبدبے کی وجہ سے چھایا ہوا ہے۔ عین اس حالت میں جب کہ یہ لوگ اپنے انتہائی عروج پر ہیں اس بستی کا ایک آدمی اُٹھتا ہے اور علی الاعلان کہتا کہ جس مذہب کے تم پیشوا ہو وہ سراسر گمراہی ہے، جس نظام تمدن کے تم سردار ہو وہ اپنی جڑ تک گلا اور سڑا ہوا نظام ہے، خدا کا عذاب تم پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تُلا کھڑا ہے اور تمہارے لیے اس سے بچنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ اُس مذہبِ  حق اور اس نظام صالح کو قبول کر لو جو میں خدا کی طرف سے تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ اس شخص کے ساتھ اس کی پاک سیرت اور اس کی معقول باتوں کے سوا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں ہے جس سے عام لوگ اسے مامور من اللہ سمجھیں۔ اور گرد و پیش کے حالات میں بھی مذہب و اخلاق اور تمدن کی گہری بنیادی خرابیوں کے سوا کوئی ایسی ظاہر علامت نہیں ہے جو نزول عذاب کی نشان دہی کر تی ہو۔ بلکہ اس کے برعکس تمام نمایاں علامتیں یہی ظاہر کر رہی ہیں کہ ان لوگوں پر خدا کا (اور ان کے عقیدے کے مطابق) دیوتاؤں کا بڑا فضل ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں ٹھیک ہی کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں یہ بات کہنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے، اور اس کے سوا کچھ ہو بھی نہیں سکتا، کہ چند نہایت صحیح الدماغ اور حقیقت رس لوگوں کے سوا بستی کے سب لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ کوئی ظلم و ستم سے اس کو دبانا چاہتا ہے۔ کوئی جھوٹے الزامات اور اوچھے اعتراضات سے اس کی ہوا اُکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی متعصبانہ بے رخی سے اس کی ہمت شکنی کرتا ہے اور کوئی مذاق اُڑا کر، آوازے اور پھبتیاں کس کر، اور ٹھٹھے لگا کر اس کی باتوں کو ہوا میں اڑا دینا چاہتا ہے۔ یہ استقبال جو کئی سال تک اس شخص کی دعوت کا ہوتا رہتا ہے، جیسا کچھ دل شکن اور مایوس کن ہو سکتا ہے، ظاہر ہے۔ بس یہی صورتِ حال ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی ہمت بندھانے کے لیے تلقین فرماتا ہے کہ اچھے حالات میں پھول جانا اور بُرے حالات میں مایوس ہو جانا چھچورے لوگوں کا کام ہے۔ ہماری نگاہ میں قیمتی انسان وہ ہے جو نیک ہو اور نیکی کے راستے پر صبر و ثبات اور پا مردی کے ساتھ چلنے والا ہو۔ لہٰذا جس تعصب سے، جس بے رُخی سے، جس تضحیک و استہزا سے اور جن جاہلانہ اعتراضات سے تمہارا مقابلہ کیا جا رہا ہے ان کی وجہ سے تمہارے پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آنے پائے۔ جو صداقت تم پر بذریعۂ وحی منکشف کی گئی ہے ا سکے اظہار و اعلان میں اور اس کی طرف دعوت دینے میں تمہیں قطعاً کوئی باک نہ ہو۔ تمہارے دل میں اس خیال کا کبھی گزر تک نہ ہو کہ فلاں بات کیسے کہوں جبکہ لوگ سنتے ہی اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں اور فلاں حقیقت کا اظہار کیسے کروں جب کہ کوئی اس کے سننے تک کا روادار نہیں ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، تم جسے حق پاتے ہو اسے بے کم و کاست اور بے خوف بیان کیے جاؤ، آگے سب معاملات اللہ کے حوالہ ہیں۔

۱۴-یہاں ایک ہی دلیل سے قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا ثبوت بھی دیا گیا ہے اور توحید کا ثبوت بھی۔ استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ :

(۱) اگر تمہارے نزدیک یہ انسانی کلام ہے تو انسان کو ایسے کلام پر قادر ہونا چاہیے، لہٰذا تمہارا یہ دعویٰ کہ میں نے اسے خود تصنیف کیا ہے صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتا ہے کہ تم ایسی ایک کتاب تصنیف کر کے دکھاؤ۔ لیکن اگر بار بار چیلنج دینے پر بھی تم سب مل کر اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتے تو میرا دیہ دعویٰ صحیح ہے کہ میں اس کتاب کا مصنف نہیں ہوں بلکہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے۔

(۲) پھر جب کہ اس کتاب میں تمہارے معبودوں کی بھی کھلم کھلا مخالفت کی گئی ہے اور صاف صاف کہا گیا ہے کہ ان کی عبادت چھوڑ دو کیونکہ الوہیت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے، تو ضرور ہے کہ تمہارے معبودوں کی بھی (اگر فی الواقع ان میں کوئی طاقت ہے ) میرے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے اور اس کتاب کی نظیر پیش کرنے میں تمہاری مدد کرنی چاہیے۔ لیکن اگر وہ اس فیصلے کی گھڑی میں بھی تمہاری مدد نہیں کرتے اور تمہارے اندر کوئی ایسی طاقت نہیں پھونکتے کہ تم اس کتاب کی نظیر تیار کر سکو، تو اس سے صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ تم نے خواہ مخواہ ان کو معبود بنا رکھا ہے، ورنہ درحقیقت ان کے اندر کوئی قدرت اور کوئی شائبۂ الوہیت نہیں ہے جس کی بنا پر وہ معبود ہونے کے مستحق ہوں۔

اس آیت سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ سورۃ ترتیب کے اعتبار سے سورۂ یونس سے پہلے کی ہے۔ یہاں دس سورتیں بنا کر لانے کا چیلنج دیا گایا ہے اور جب وہ اس کا جواب نہ دے سکے تو پھر سورۂ یونس میں کہا گیا کہ اچھا ایک ہی سورۃ اس کے مانند تصنیف کر لاؤ۔ (یونس۔ آیت ۳۸ حاشیہ ۴۶)

۱۵-اس سلسلہ ٔ کلام میں یہ بات اس مناسبت سے فرمائی گئی ہے کہ قرآن کی دعوت کو جس قسم کے لوگ اُس زمانہ میں رد کر رہے تھے اور آج بھی رد کر رہے ہیں وہ زیادہ تر وہی تھے اور ہیں جن کے دل و دماغ پر دنیا پرستی چھائی ہوئی ہے۔ خدا کے پیغام کو رد کرنے کے لیے جو دلیل بازیاں وہ کرتے ہیں وہ سب تو بعد کی چیزیں ہیں۔ پہلی چیز جو اس انکار کا اصل سبب ہے وہ ان کے نفس کا یہ فیصلہ ہے کہ دنیا اور اس کے مادی فائدوں سے بالاتر کوئی شے قابل قدر نہیں ہے، اور یہ کہ ان فائدوں سے متمع ہونے کے لیے ان کو پوری آزادی حاصل رہنی چاہیے۔

۱۶-یعنی جس کے پیشِ نظر محض دنیا اور اس کا فائدہ ہو، وہ اپنی دنیا بنانے کی جیسی کوشش یہاں کرے گا ویسا ہی اس کا پھل اسے یہاں مل جائے گا۔ لیکن جب کہ آخرت اس کے پیشِ نظر نہیں ہے اور اس کے لیے اس نے کوئی کوشش بھی نہیں کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی دنیا طلب مساعی کی بار آوری کا سلسلہ آخرت تک دراز ہو۔ وہاں پھل پانے کا امکان تو صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ دنیا میں آدمی کی سعی اُن کاموں کے لیے ہو جو آخرت میں بھی مانع ہوں۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص چاہتا ہے کہ ایک شاندار مکان اسے رہنے کے لیے ملے اور وہ اس کے لیے اُن تدابیر کو عمل میں لاتا ہے جن سے یہاں مکان بنا کرتے ہیں تو ضرور ایک عالی شان محل بن کر تیار ہو جائے گا اور اس کی کوئی اینٹ بھی محض اس بنا پر جمنے سے انکار نہ کرے گی کہ ایک کافر اسے جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس شخص کو اپنا یہ محل اور اس کا سارا سر و سامان موت کی آخر ی ہچکی کے ساتھ ہی اِس دنیا میں چھوڑ دینا پڑے گا اور اس کی کوئی چیز بھی وہ اپنے ساتھ دوسرے عالم میں نہ لے جا سکے گا۔ اگر اس نے آخرت میں محل تعمیر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس کا یہ محل وہاں ا س کے ساتھ منتقل ہو۔ وہاں کوئی محل وہ پا سکتا ہے تو صرف اس صورت میں پا سکتا ہے جب کہ دنیا میں اس کی سعی اُن کاموں میں ہو جن سے قانونِ الٰہی کے مطابق آخرت کا محل بنا کرتا ہے۔

اب سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس دلیل کا تقاضا تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہاں اسے کوئی محل نہ ملے۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ محل کے بجائے وہاں اسے آگ ملے ؟ اس کا جواب یہ ہے (اور یہ قرآن ہی کا جواب ہے جو مختلف مواقع پر اس نے دیا ہے ) کہ جو شخص آخرت کو نظر انداز کر کے محض دنیا کے لیے کام کرتا ہے وہ لازماً و فطرۃً ایسے طریقوں سے کام کرتا ہے جن سے آخرت میں محل کے بجائے آگ کا الاؤ تیار ہوتا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ یونس، حاشیہ نمبر ۱۲)۔

۱۷-یعنی جس کو خود اپنے وجود میں اور زمین و آسمان کی ساخت میں اور کائنات کے نظم و نسق میں اِس امر کی کھلی شہادت مل رہی تھی کہ اِس دنیا کا خالق، مالک، پروردگار اور حاکم و فرما نروا صرف ایک خدا ہے، اور پھر انہیں شہادتوں کو دیکھ کر جس کا دل یہ گواہی بھی پہلے ہی دے رہا تھا کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی ضرور ہونی چاہیے جس میں انسان اپنے خدا کو اپنے اعمال کا حساب دے اور اپنے کیے کی جزا اور سزا پائے۔

۱۸-یعنی قرآن، جس نے آ کر اُس فطری و عقلی شہادت کی تائید کی اور اسے بتایا کہ فی الواقع حقیقت وہی ہے جس کا نشان آفاق و انفس کے آثار میں تُو نے پایا ہے۔

۱۹-سلسلۂ کلام کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو پر اور اس کی خوش نمائیوں پر فریفتہ ہیں اُن کے لیے تو قرآن کی دعوت کو رد کر دینا آسان ہے۔ مگر وہ شخص جو اپنی ہستی اور کائنات کے نظام میں پہلے سے توحید و آخرت کی کھلی شہادت پا رہا تھا، پھر قرآن نے آ کر ٹھیک وہی بات کہی جس کی شہادت وہ پہلے سے اپنے اندر بھی پا رہا تھا اور باہر بھی، اور پھر اس کی مزید تائید قرآن سے پہلے آئی ہوئی کتاب آسمانی میں بھی اسے مل گئی، آخر وہ کس طر ح اتنی زبردست شہادتوں کی طرف سے آنکھیں بند کر کے اِن منکرین کا ہم نوا ہو سکتا ہے ؟ اس ارشاد سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نزول قرآن سے پہلے ایمان بالغیب کی منزل سے گزر چکے تھے۔ جس طرح سورۂ اَنعام میں حضرت ابراہیم کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ نبی ہونے سے پہلے آثارِ کائنات کے مشاہدے سے توحید کی معرفت حاصل کر چکے تھے، اسی طرح یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی غور و فکر سے اس حقیقت کو پا لیا تھا اور اس کے بعد قرآن نے آپ کو حقیقت کا براہِ راست کی بلکہ آ کر اس کی نہ صرف تصدیق و توثیق کا علم بھی عطا کر دیا گیا۔

۲۰-یعنی یہ کہے کہ اللہ کے ساتھ خدائی اور استحقاق بندگی میں دوسرے بھی شریک ہیں۔ یا یہ کہے کہ خدا کو اپنے بندوں کی ہدایت و ضلالت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس نے کوئی کتاب اور کوئی نبی ہماری ہدایت کے لیے نہیں بھیجا ہے بلکہ ہمیں آزاد چھوڑ دیا ہے کہ جو ڈھنگ چاہیں اپنی زندگی کے لیے اختیار کر لیں۔ یا یہ کہے کہ خدا نے ہمیں یونہی کھیل کے طور پر پیدا کیا اور یونہی ہم کو ختم کر دے گا، کوئی جواب دہی ہمیں اس کے سامنے نہیں کرنی ہے اور کوئی جزا و سزا نہیں ہونی ہے۔

۲۱-یہ عالم آخرت کا بیان ہے کہ وہاں یہ اعلان ہو گا۔

۲۲-یہ جملۂ معترضہ ہے کہ جن ظالموں پر وہاں خدا کی لعنت کا اعلان ہو گا وہ وہی لوگ ہوں گے جو آج دنیا میں یہ حرکات کر رہے ہیں۔

۲۳-یعنی وہ اس سیدھی راہ کو جوان کے سامنے پیش کی جا رہی ہے پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ یہ راہ کچھ ان کی خواہشات نفس اور ان کے جاہلانہ تعصّبات اور ان کے اوہام و تخیلات کے مطابق ٹیڑھی ہو جائے تو وہ اسے قبول کریں۔

۲۴-یہ پھر عالمِ آخرت کا بیان ہے۔

۲۵-ایک عذاب خود گمراہ ہو نے کا۔ دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے اور بعد کی نسلوں کے لیے گمراہی کی میراث چھوڑ جانے کا۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۳۰)

۲۶-یعنی وہ سب نظریات پا در ہوا ہو گئے جو انہوں نے خدا اور کائنات اور اپنی ہستی کے متعلق گھڑ رکھے تھے، اور وہ سب بھروسے بھی جھوٹے ثابت ہوئے جو انہوں نے اپنے معبودوں اور سفارشیوں اور سرپرستوں پر رکھے تھے، اور وہ قیاسات بھی غلط نکلے جو انہوں نے زندگی بعد موت کے بارے میں قائم کیے تھے۔

۲۷-یہاں عالم آخرت کا بیان ختم ہوا۔

۲۸-یعنی کیا ان دونوں کا طرزِ عمل اور آخر کار دونوں کا انجام یکساں ہو سکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ جو شخص نہ خود راستہ دیکھتا ہے اور نہ کسی ایسے شخص کی بات ہی سنتا ہے جو اسے راستہ بتا رہا ہو وہ ضرور کہیں ٹھوکر کھائے گا اور کہیں کسی سخت حادثہ سے دوچار ہو گا۔ بخلاف اس کے جو شخص خود بھی راستہ دیکھ رہا ہو اور کسی واقف راہ کی ہدایات سے بھی فائدہ اُٹھاتا ہو وہ ضرور اپنی منزل پر بسلامت پہنچ جائے گا۔ بس یہی فرق اُن لوگوں کے درمیان بھی ہے جن میں سے ایک اپنی آنکھوں سے بھی کائنات میں حقیقت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور خدا کے بھیجے ہوئے رہنماؤں کی بات بھی سنتا ہے، اور دوسرا نہ خود ہی کی آنکھیں کھلی رکھتا ہے کہ خدا کی نشانیاں اسے نظر آئیں اور نہ پیغمبروں کی بات ہی سُن کر دیتا ہے۔ کیونکر ممکن ہے کہ زندگی میں ان دونوں کا طرزِ عمل یکساں ہو؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ آخر کار ان کے انجام میں فرق نہ ہو؟

 

(اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوح ؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا تھا۔۲۹ (اُس نے کہا) ’’میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر ایک روز دردناک عذاب آئے گا۔‘‘ ۳۰ جواب میں اُس کی قوم کے سردار، جنہوں نے اس کی بات ماننے سے انکار کیا تھا، بولے ’’ ہمارے نظر میں تو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ بس ایک انسان ہو ہم جیسے۔ ۳۱ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس اُن لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذل تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیار کر لی ہے۔ ۳۲ اور ہم کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے کچھ بڑھے ہوئے ہو ۳۳، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے ایک کھُلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھ کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا ۳۴ مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا نہ چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سَر چپیک دیں؟اور اے برادرانِ قوم، میں اِس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، ۳۵ میرا اجر تو اللہ کے ذمّہ ہے۔ اور میں اُن لوگوں کو دھکے دینے سے بھی رہا جنہوں نے میری بات مانی ہے، وہ آپ اپنے ربّ کے حضور جانے والے ہیں۔۳۶ مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو۔اور اے قوم، اگر میں اِن لوگوں کو دھتکار دوں تو خدا کی پکڑ سے کون مجھے بچائے گا؟ تم لوگوں کی سمجھ میں کیا اتنی بات بھی نہیں آتی؟اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔۳۷ اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا۔‘‘ آخرِ کار ان لوگوں نے کہا کہ ’’ اے نُوح ؑ، تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کر لیا۔ اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم دھمکی دیتے ہو اگر سچے ہو۔‘‘ نُوح ؑ نے جواب دیا ’’ وہ تو اللہ ہی لائے گا، اگر چاہے گا، اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے روک دو۔اب اگر میں تمہاری کچھ خیر خواہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیر خواہی تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جب کہ اللہ ہی نے تمہیں بھٹکا دینے کا ارادہ کر لیا ہو،۳۸ وہی تمہارا ربّ ہے اور اُسی کی طرف تمہیں پلٹنا ہے۔ ‘‘اے محمد ؐ، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے ؟ ان سے کہو ’’ اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جُرم کی ذمّہ داری ہے، اور جو جُرم تم کر رہے ہو اس کی ذمّہ داری سے میں بری ہوں۔‘‘ ۳۹ ؏ ۳
 

۲۹-مناسب ہو کہ اس موقع پر سورۂ اعراف رکوع ۸ کے حواشی پیشِ نظر رکھے جائیں۔

۳۰-یہ وہی بات ہے جو اس سورہ کے آغاز میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے ادا ہوئی ہے۔

۳۱-وہی جاہلانہ اعتراض جو مکہ کے لوگ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں پیش کرتے تھے کہ جو شخص ہماری ہی طرح کا ایک معمولی انسان ہے، کھاتا پیتا ہے، چلتا پھرتا ہے، سوتا اور جاگتا ہے، بال بچے رکھتا ہے، آخر ہم کیسے مان لیں کہ وہ خدا کی طرف سے پیغمبر مقرر ہو کر آیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورہ یٰس، حاشیہ نمبر ۱۱)۔

۳۲-یہ بھی وہی بات ہے جو مکہ کے بڑے لوگ اور اُونچے طبقے والے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق کہتے تھے کہ اِن کے ساتھ ہے کون؟ یا تو چند سر پھرے لڑکے ہیں جنہیں دنیا کا کچھ تجربہ نہیں، یا کچھ غلام اور ادنیٰ طبقہ کے عوام ہیں جو عقل سے کورے اور ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو سورۂ انعام، حواشی نمبر ۳۴ تا ۳۷ و سورۂ یونس، حاشیہ نمبر ۷۸)۔

۳۳-یعنی یہ جو تم کہتے ہو کہ ہم پر خدا کا فضل ہے اور اس کی رحمت ہے اور وہ لوگ خدا کے غضب میں مبتلا ہیں جنہوں نے ہمارا راستہ اختیار نہیں کیا ہے، تو اس کی کوئی علامت ہمیں نظر نہیں آتی۔ فضل اگر ہے تو ہم پر ہے کہ مال و دولت اور خدم و حشم رکھتے ہیں اور ایک دنیا ہماری سرداری مان رہی ہے۔ تم ٹٹ پونجیے لوگ آخر کس چیز میں ہم سے بڑھے ہوئے ہو کہ تمہیں خدا کا چہیتا سمجھا جائے۔

۳۴-یہ وہی بات ہے جو ابھی پچھلے رکوع میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے کہوائی جا چکی ہے کہ پہلے میں خود آفاق و انفس میں خدا کی نشانیاں دیکھ کر توحید کی حقیقت تک پہنچ چکا تھا، پھر خدا نے اپنی رحمت (یعنی وحی) سے مجھے نوازا اور ان حقیقتوں کی براہِ راست علم مجھے بخش دیا جن پر میرا دل پہلے سے گواہی دے رہا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام پیغمبر نبوت سے قبل اپنے غور و فکر سے ایمان بالغیب حاصل کر چکے ہوتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ ان کو منصب نبوت عطا کرتے وقت ایمان بالشہادۃ عطا کرتا تھا۔

۳۵-یعنی میں ایک بے غرض ناصح ہوں۔ اپنے کسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ تمہارے ہی بھلے کے لیے یہ ساری مشقتیں اور تکلیفیں برداشت کر رہا ہوں۔ تم کسی ایسے ذاتی مفاد کی نشان دہی نہیں کر سکتے جو اس امر حق کی دعوت دینے میں اور اس کے لیے جان توڑ محنتیں کرنے اور مصیبتیں جھیلنے میں میرے پیشِ نظر ہو۔ (ملاحظہ ہو المومنون، حاشیہ ۷۰۔ یٰس حاشیہ ۱۷۔الشوریٰ، حاشیہ ۴۱)

۳۶-یعنی ان کی قدر و قیمت جو کچھ بھی ہے وہ ان کے ربّ کو معلوم ہے اور اسی کے حضور جا کر وہ کھلے گی۔ اگر یہ قیمتی جواہر ہیں تو میرے اور تمہارے پھینک دینے سے پتھر نہ ہو جائیں گے، اور اگر یہ بے قیمت پتھر ہیں تو ان کے مالک کو اختیار ہے کہ انہیں جہاں چاہے پھینکے۔ (ملاحظہ ہو الانعام، آیت ۵۲۔ الکہف، آیت ۲۸)

۳۷-یہ اس بات کا جواب ہے کہ جو مخالفین نے کہی تھی کہ ہمیں تو تم بس اپنے ہی جیسے ایک انسان نظر آتے ہو۔ اس پر حضرت نوح فرماتے ہیں کہ واقعی میں ایک انسان ہی ہوں، میں نے انسان کے سوا کچھ اور ہونے کا دعویٰ کب کیا تھا کہ تم مجھ پر یہ اعتراض کر تے ہو۔ میرا دعویٰ جو کچھ ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ خدا نے مجھے علم و عمل کا سیدھا راستہ دکھایا ہے۔ اِس کی آزمائش تم جس طرح چاہو کر لو۔ مگر اس دعوے کی آزمائش کا آخر یہ کونسا طریقہ ہے کہ کبھی تم مجھ سے غیب کی خبریں پوچھتے ہو، اور کبھی ایسے ایسے عجیب مُطالبے کرتے ہو گویا خدا کے خزانوں کی ساری کنجیاں میرے پاس ہیں، اور کبھی اس بات پر اعتراض کرتے ہو کہ میں انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا ہوں، گویا میں نے فرشتہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ جس آدمی نے عقائد، اخلاق اور تمدن میں صحیح رہبری کا دعویٰ کیا ہے اس سے اِن چیزوں کے متعلق جو چاہو پوچھو، مگر تم عجیب لوگ ہو جو اس سے پوچھتے ہو کہ فلاں شخص کی بھینس کٹڑا جنے گی یا پَڑیا۔ گویا انسانی زندگی کے لیے صحیح اصولِ اخلا ق و تمدن بتانے کا کوئی تعلق بھینس کے حمل سے بھی ہے ! (ملاحظہ ہو سورہ انعام، حاشیہ نمبر ۳۱، ۳۲)

۳۸-یعنی اگر اللہ نے تمہاری ہٹ دھرمی، شر پسندی اور خیر سے بے رغبتی دیکھ کر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ تمہیں راست روی کی توفیق نہ دے اور جن راہوں میں تم خود بھٹکنا چاہتے ہو انہی میں تم کو بھٹکا دے تو اب تمہاری بھلائی کے لیے میری کوئی کوشش کار گر نہیں ہو سکتی۔

۳۹-اندازِ کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے حضرت نوح کا یہ قصہ سنتے ہوئے مخالفین نے اعتراض کیا ہو گا کہ محمد ؐ یہ قصے بنا بنا کر اس لیے پیش کرتا ہے کہ انہیں ہم پر چسپاں کرے۔ جو چوٹیں وہ ہم پر براہِ راست نہیں کرنا چاہتا ان کے لیے ایک قصہ گھڑتا ہے اور اس طرح ’’در حدیث دیگراں‘‘ کے انداز میں ہم پر چوٹ کرتا ہے۔ لہٰذا سلسلۂ کلام توڑ کر ان کے اعتراض کا جواب اِس فقرے میں دیا گیا۔

واقعہ یہ ہے کہ گھٹیا قسم کے لوگوں کا ذہن ہمیشہ بات کے بُرے پہلو کی طرف جایا کرتا ہے اور اچھائی سے اُنہیں کوئ دلچسپی نہیں ہوتی کہ بات کے اچھے پہلو پر ان کی نظر جا سکے۔ ایک شخص نے اگر کوئی حکمت کی بات کہی ہے یا وہ تمہیں کوئی مفید سبق دے رہا ہے یا تمہاری کسی غلطی پر تم کو متنبہ کر رہا ہے تو اُس سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنی اصلاح کرو۔ مگر گھٹیا آدمی ہمیشہ اس میں برائی کا کوئی ایسا پہلو تلاش کرے گا جس سے حکمت اور نصیحت پر پانی پھیر دے اور نہ صرف خود اپنی برائی پر قائم رہے بلکہ قائل کے ذمّے بھی اُلٹی کچھ برائی لگا دے۔ بہتر سے بہتر نصیحت بھی ضائع کی جا سکتی ہے اگر سننے والا اسے خیر خواہی کے بجائے ’’چوٹ‘‘ کے معنی میں لے لے اور اس کا ذہن اپنی غلطی کے احساس و ادراک کے بجائے برا ماننے کی طرف چل پڑے۔ پھر اس قسم کے لوگ ہمیشہ اپنی فکر کی بنا ایک بنیادی بدگمانی پر رکھتے ہیں۔ جس بات کے حقیقت واقعی ہونے اور این بناوٹی داستان ہونے کا یکساں امکان ہو، مگر وہ ٹھیک ٹھیک تمہارے حال پر چسپاں ہو رہی ہو اور اس میں تمہاری کسی غلطی کی نشان دہی ہوتی ہو، تو تم ایک دانش مند آدمی ہو گے اگر اُسے ایک واقعی حقیقت سمجھ کر اُس کے سبق آموز پہلو سے فائدہ اُٹھاؤ گے، اور محض ایک بدگمان و کج نظر آدمی ہو گے اگر کسی ثبوت کے بغیر یہ الزام لگا دو گے کہ قائل نے محض ہم پر چسپاں کرنے کے لیے یہ قصہ تصنیف کر لیا ہے۔ اسی بنا پر یہ فرمایا کہ اگر یہ داستان میں نے گھڑی ہے تو اپنے جرم کا میں ذمہ دار ہوں، لیکن جس جرم کا تم ارتکاب کر رہے ہو وہ تو اپنی جگہ قائم ہے اور اس کی ذمہ داری میں تم ہی پکڑے جاؤ گے نہ کے میں۔

 

نوح ؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے۔ ان کے کرتُوتوں پر غم کھانا چھوڑ دواور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو۔ اور دیکھو، جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اُن کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔۴۰ نُوح ؑ کشتی بنا رہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتا تھا وہ اس کا مذاق اُڑاتا تھا۔ اس نے کہا ’’ پھر اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں،عنقریب تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اُسے رُسوا کر دے گا اور کس پر وہ بلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے گی۔‘‘ ۴۱یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور اُبل پڑا ۴۲ تو ہم نے کہا ’’ ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی۔۔۔۔ سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے ۴۳۔۔۔۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں۔۴۴‘‘ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح ؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ نوح ؑ نے کہا ’’ سوار ہو جاؤ اِس میں، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھہرنا بھی، میرا ربّ بڑا غفور و رحیم ہے۔ ‘‘ ۴۵کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اُٹھ رہی تھی۔ نوح ؑ کا بیٹا دُور فاصلے پر تھا۔ نوح ؑ نے پُکار کر کہا ’’بیٹا، ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ، کافروں کے ساتھ نہ رہ۔‘‘ اُس نے پلٹ کر جواب دیا ’’ میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔‘‘ نوح ؑ نے کہا ’’ آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اِس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے۔ ‘‘ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔حکم ہوا ’’ اے زمین، اپنا سارا پانی نِگل جا اور اے آسمان، رُک جا۔‘‘ چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا، فیصلہ چکا دیا گیا، کشتی جودی پر ٹِک ۴۶ گئی، اور کہہ دیا گیا کہ دُور ہوئی ظالموں کی قوم! نُوحؑ نے اپنے ربّ کو پکارا۔ کہا ’’ اے ربّ، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے ۴۷ اور تُو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے۔ ۴۸‘‘جواب میں ارشاد ہوا ’’ اے نُوح ؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہُوا کام ہے ۴۹، لہٰذا تُو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تُو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کر تا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے۔ ۵۰‘‘نُوح ؑ نے فوراً عرض کیا ’’اے میرے ربّ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تُو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا۔‘‘ ۵۱حکم ہوا ’’ اے نوح ؑ اُتر جا ۵۲، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں، اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدّت سامانِ زندگی بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔‘‘ اے محمد ؐ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم۔ پس صبر کرو، انجام کار متقیوں ہی کے حق میں ہے۔ ۵۳ ؏ ۴
 

۴۰-اس سے معلوم ہوا کہ جب نبی کا پیغام کسی قوم کو پہنچ جائے تو اسے صرف اس وقت تک مہلت ملتی ہے جب تک اس میں کچھ بھلے آدمیوں کے نکل آنے کا امکان باقی ہو۔ مگر جب اس کے صالح اجزاء سب نکل چکتے ہیں اور وہ صرف فاسد عناصر ہی کا مجموعہ رہ جاتی ہے تو اللہ اس قوم کو پھر کوئی مہلت نہیں دیتا اور اس کی رحمت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ سڑے ہوئے پھلوں کے اس ٹوکرے کو دور پھینک دیا جائے تاکہ وہ اچھے پھلوں کو بھی خراب نہ کر دے۔ پھر اس پر رحم کھانا ساری دنیا کے ساتھ اور آنے والی نسلوں کے ساتھ بے رحمی ہے۔

۴۱-یہ ایک عجیب معاملہ ہے جس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا کے ظاہر سے کس قدر دھوکا کھاتا ہے۔ جب نوح ؑ دریا سے بہت دور خشکی پر اپنا جہاز بنا رہے ہوں گے تو فی الواقع لوگوں کو یہ ایک نہایت مضحکہ خیز فعل محسوس ہوتا ہو گا اور وہ ہنس ہنس کر کہتے ہوں گے کہ بڑے میاں کی دیوانگی آخر کو یہاں تک پہنچی کہ اب آپ خشکی میں جہاز چلائیں گے۔ اس وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی بات نہ آ سکتی ہو گی کہ چند روز بعد واقعی یہاں جہاز چلے گا۔ وہ اس فعل کو حضرت نوج کی خرابی دماغ کا ایک صریح ثبوت قرار دیتے ہوں گے اور ایک ایک سے کہتے ہوں گے کہ اگر پہلے تمہیں اس شخص کے پاگل پن میں کچھ شبہہ تھا تو اب اپنی آنکھوں سے دیکھ لو کہ یہ کیا حرکت کر رہا ہے۔ لیکن جو شخص حقیقت کا علم رکھتا تھا اور جسے معلوم تھا کہ کل یہاں جہاز کی کیا ضرورت پیش آنے والی ہے اسے ان لوگوں کی جہالت و بے خبری پر اور پھر ان کے احمقانہ اطمینان پر اُلٹی ہنسی آتی ہو گی اور وہ کہتا ہو گا کہ کس قدر نادان ہیں یہ لوگ کہ شامت ان کے سر پر تُلی کھڑی ہے، میں اِنہیں خبر دار کر چکا ہوں کہ وہ بس آیا چاہتی ہے اور ان کی آنکھوں کے سامنے اس سے بچنے کی تیاری بھی کر رہا ہوں، مگر یہ مطمئن بیٹھے ہیں اور اُلٹا مجھے دیوانہ سمجھ رہے ہیں۔ اس معاملہ کو اگر پھیلا کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ دنیا کے ظاہر و محسوس پہلو کے لحاظ سے عقلمندی و بے وقوفی کا جو معیار قائم کیا جاتا ہے وہ اُس معیار سے کس قدر مختلف ہوتا ہے جو علمِ حقیقت کے لحاظ سے قرار پاتا ہے۔ ظاہر بیں آدمی جس چیز کو انتہائی دانش مندی سمجھتا ہے وہ حقیقت شناس آدمی کی نگاہ میں انتہائی بے وقوفی ہوتی ہے، اور ظاہر بیں کے نزدیک جو چیز بالکل لغو، سراسر دیوانگی اور نرا مضحکہ ہوتی ہے، حقیقت شناس کے لیے وہی کما دانش، انتہائی سنجیدگی اور عین مقتضائے عقل ہوتی ہے۔

۴۲-اس کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ مگر ہمارے نزدیک صحیح وہی ہے جو قرآن کے صریح الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے کہ طوفان کی ابتدا ایک خاص تنور سے ہوئی جس کے نیچے سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا، پھر ایک طر ف آسمان سے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور دوسری طرف زمین میں جگہ جگہ سے چشمے پھوٹنے لگے۔ یہاں صرف تنور کے اُبل پڑنے کا ذکر ہے اور آگے چل کر بارش کی طرف بھی اشارہ ہے۔ مگر سورۂ قمر میں اس کی تفصیل دی گئی ہے کہ فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآ ءٍ مُّنْھَمِرٍ وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآءُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ۔ ’’ہم نے آسمان کے دروازے کھول دے جن سے لگا تار بارش برسنے لگی اور زمین کو پھاڑ دیا کہ ہر طرف چشمے پھوٹ نکلے اور یہ دونوں طرح کے پانی اُس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گئے جو مقدر کر دیا گیا تھا‘‘۔ نیز لفظ تنور پر الف لام داخل کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تنور کو اس کام کی ابتدا کے لیے نام زد فرمایا تھا جو اشارہ پاتے ہی ٹھیک اپنے وقت پر ابل پڑا اور بعد میں طوفان والے تنور کی حیثیت سے معروف ہو گیا، سورۂ مومنون آیت ۲۷ میں تصریح ہے کہ اس تنور کو پہلے سے نامزد کر دیا گیا تھا۔

۴۳-یعنی تمہارے گھر کے جن افراد کے متعلق پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ کافر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں انہیں کشتی میں نہ بٹھاؤ۔ غالباً یہ دو ہی شخص تھے۔ ایک حضرت نوح ؑ کا بیٹا جس کے غرق ہونے کا ابھی ذکر آتا ہے۔ دوسری حضرت نوح ؑ کی بیوی جس کا ذکر سورۂ تحریم میں آیا ہے۔ ممکن ہے کہ دوسرے افراد خاندان بھی ہوں مگر قرآن میں ان کا ذکر نہیں ہے۔

۴۴-اس سے اُن مؤرخین اور علماء انساب کے نظریہ کی تردید ہوتی ہے جو تمام انسانی نسلوں کا شجرۂ نسب حضرت نوح کے تین بیٹوں تک پہنچاتے ہیں۔ دراصل اسرائیلی روایات نے یہ غلط فہمی پھیلا دی ہے کہ اس طوفان سے حضرت نوحؑ اور ان کے  تین بیٹوں اور ان کی بیویوں کے سوا کوئی نہ بچا تھا (ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب پیدائش ۶ : ۱۸ و ۷ : ۷ و ۹ : ۱ و ۹ : ۱۹)۔ لیکن قرآن متعدد مقامات پر اس کی تصریح کرتا ہے کہ حضرت نوح کے خاندان کے سوا اُن کی قوم کی ایک معتدبہ تعداد کو بھی اگرچہ وہ تھوڑی تھی، اللہ نے طوفان سے بچا لیا تھا۔ نیز قرآن بعد کی نسلوں کو صرف نوحؑ کی اولاد نہیں بلکہ ان سب لوگوں کو اولاد قرار دیتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کشتی میں بٹھایا تھا، ذُریۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ (بنی اسرائیل آیت ۳) اور مِنْ ذُرِّ یَّۃِ اٰدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ (مریم، آیت ۵۸)۔

۴۵-یہ ہے مومن کی اصلی شان۔ وہ عالمِ اسباب میں ساری تدابیر قانون فطرت کے مطابق اسی طرح اختیار کرتا ہے جس طرح اہلِ دنیا کرتے ہیں، مگر اس کا بھروسہ ان تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ پر ہوتا ہے اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ اس کی کوئی تدبیر نہ تو ٹھیک شروع ہو سکتی ہے، نہ ٹھیک چل سکتی ہے اور نہ آخری مطلوب تک پہنچ سکتی ہے جب تک اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم شامل حال نہ ہو۔

۴۶-جودی پہاڑ کُردستان کے علاقہ میں جزیرۂ ابن عمر کے شمالی جانب واقع ہے۔ بائیبل میں کشتی کے ٹھیرنے کی جگہ اراراط بتائی گئی ہے جو ارمینیا کے ایک پہاڑ کا نام بھی ہے اور ایک سلسلۂ کوہستان کا نام بھی۔ سلسلۂ کوہستان کے معنی میں جس کا اراراط کہتے ہیں وہ آرمینیا کی سطح مرتفع سے شروع ہو کر جنوب میں کردستان تک چلتا ہے اور جبل الجودی اسی سلسلے کا ایک پہاڑ ہے جو آج بھی جودی ہی کے نام سے مشہور ہے۔ قدیم تاریخوں میں کشتی کے ٹھیرنے کی یہی جگہ بتائی گئی ہے۔ چنانچہ مسیح سے ڈھائی سو برس پہلے بابِل کے ایک مذہبی پیشوا بیراسُس (Berasus) نے پرانی کلدانی روایات کی بنا پر ایک ملک کی جو تاریخ لکھی ہے اس میں وہ کشتی نوح کے ٹھیرنے کا مقام جودی ہی بتاتا ہے۔ ارسطو کا شاگرد ابیڈینوس (Abydenus) بھی اپنی تاریخ میں اس کی تصدیق کرتا ہے۔ نیز وہ اپنے زمانہ کا حال بیان کرتا ہے کہ عراق میں بہت سے لوگوں کے پاس اس کشتی کے ٹکڑے محفوظ ہیں جنہیں وہ گھول گھول کر بیماروں کو پلاتے ہیں۔

یہ طوفان، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، عالمگیر طوفان تھا یا اس خاص علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح کی قوم آباد تھی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا۔ اسرائیلی روایات کی بنا پر عام خیال یہی ہے کہ طوفان تمام روئے زمیں پر آیا تھا (پیدائش ۲۴-۱۸:۷) مگر قرآن میں یہ بات کہیں نہیں کی گئی ہے۔ قرآن کے ارشادات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی انسانی نسلیں انھیں لوگوں کی اولاد سے ہیں جو طوفانِ نوح سے بچا لیے گئے تھے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا ہو، کیونکہ یہ بات اس طرح بھی صحیح ہو سکتی ہے کہ اس وقت بنی آدم کی آبادی اسی خطہ تک محدود رہی ہو جہاں طوفان آیا تھا، اور طوفان کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئی ہوں وہ بتدریج تمام دنیا میں پھیل گئی ہوں۔ اس نظریہ کی تائید دو چیزوں سے ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ دجلہ و فرات کی سرزمیں میں تو ایک زبردست طوفان کا ثبوت تاریخی روایات سے، آثارِ قدیمہ سے اور طبقات الارض سے ملتا ہے، لیکن روئے زمیں کے تمام خطوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جس سے کسی عالمگیر طوفان کا یقین کیا جا سکے۔ دوسرے یہ کہ روئے زمیں کی اکثر و بیشتر قوموں میں ایک طوفان عظیم کی روایات قدیم زمانے سے مشہور ہیں، حتیٰ کہ آسٹریلیا، امریکہ اور نیوگنی جیسے دور دراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کسی وقت ان سب قوموں کے آباء و اجداد ایک ہی خطہ میں آباد ہوں گے جہاں یہ طوفان آیا تھا۔ اور پھر جب ان کی نسلیں زمیں کے مختلف حصوں میں پھیلیں تو یہ روایات ان کے ساتھ گئیں۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۴۷)

۴۷-یعنی تو نے وعدہ کیا تھا کہ میرے گھر والوں کو اس تباہی سے بچا لے گا، تو میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں ہی میں سے ہے، لہٰذا اسے بھی بچا لے۔

۴۸-یعنی تیرا فیصلہ آخری فیصلہ ہے جس کا کوئی اپیل نہیں۔ اور تو جو فیصلہ بھی کرتا ہے خالص علم اور کامل انصاف کے ساتھ کرتا ہے۔

۴۹-یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کے جسم کا کوئی عضو سڑ گیا ہو اور ڈاکٹر نے اس کو کاٹ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہو۔ اب وہ مریض ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ یہ تو میرے جسم کا ایک حصہ ہے اسے کیوں کاٹتے ہو۔ اور ڈاکٹر اس کے جواب میں کہتا ہے کہ یہ تمہارے جسم کا حصہ نہیں ہے کیوں کہ یہ سڑ چکا ہے۔ اس جواب کا مطلب یہ نہ ہو گا کہ فی الواقع وہ سڑا ہوا عضو جسم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہارے جسم کے لیے جو اعضا مطلوب ہیں وہ تندرست اور کارآمد اعضاء ہیں نہ کہ سڑ ے ہوئے اعضا جو خود بھی کسی کام کے نہ ہوں اور باقی جسم کو بھی خراب کر دینے والے ہوں۔ لہٰذا جو عضو بگڑ چکا ہے وہ اب اُس مقصد کے لحاظ سے تمہارے جسم کا ایک حصہ نہیں رہا جس کے لیے اعضاء سے جسم کا تعلق مطلوب ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک صالح باپ سے یہ کہنا کہ یہ بیٹا تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے کیونکہ اخلا ق و عمل کے لحاظ سے بگڑ چکا ہے، یہ معنی نہیں رکھتا کہ اس کے بیٹا ہونے کی نفی کی جا رہی ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ بگڑا ہوا انسان تمہارے صالح خاندان کا فرد نہیں ہے۔ وہ تمہارے نسبی خاندان کا ایک رکن ہو تو ہوا کر ے مگر تمہارے اخلاقی خاندان سے اس کا کوئی رشتہ نہیں۔ اور آج جو فیصلہ کیا جا رہا ہے وہ نسلی یا قومی نزاع کا نہیں ہے کہ ایک نسل والے بچائے جائیں اور دوسری نل والے غارت کر دیے جائیں، بلکہ یہ کفرو ایمان کی نزاع کا فیصلہ ہے جس میں صرف صالح بچائے جائیں گے اور فاسد مٹا دیے جائیں گے۔

بیٹے کو بگڑا ہوا کام کہہ کر ایک اور اہم حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ ظاہر بین آدمی اولاد کو صرف اس لیے پرورش کرتا ہے اور اسے محبوب رکھتا ہے کہ وہ اس کی صُلب سے یا اس کے پیٹ سے پیدا ہوئی ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ صالح ہو یا غیر صالح، لیکن مومن کی نگاہ تو حقیقت پر ہونی چاہیے۔ اُسے تو اولاد کو اِس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ یہ چند انسان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے فطری طریقہ سے میرے سپرد کیا ہے تاکہ ان کو پال پوس کر اور تربیت دے کر اُس مقصد کے لیے تیار کروں جس کے لیے اللہ نے دنیا میں انسان کو پیدا کیا ہے۔ اب اگر اس کی تمام کوششوں اور محنتوں کے باوجود کوئی شخص جو اس کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس مقصد کے لیے تیار نہ ہو سکا اور اپنے اس رب ہی کا وفادار خادم نہ بنا جس نے اس کو مومن باپ کے حوالے کیا تھا، تو اس باپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی ساری محنت و کوشش ضائع ہو گئی، پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایسی اولاد کے ساتھ اسے کوئی دل بستگی ہو۔

پھر جب یہ معاملہ اولاد جیسی عزیز ترین چیز کے ساتھ ہے تو دوسرے رشتہ داروں کے متعلق مومن کا نقطۂ نظر جو کچھ ہو سکتا ہے وہ ظاہر ہے۔ ایمان ایک فکری و اخلاقی صفت ہے۔ مومن اسی صفت کے لحاظ سے مومن کہلاتا ہے۔ دوسرے انسانوں کے ساتھ مومن ہونے کی حیثیت سے اس کا کوئی رشتہ بجز اخلاقی و ایمانی رشتہ کے نہیں ہے۔ گوشت پوست کے رشتہ دار اگر اس صفت میں اس کے ساتھ شریک ہیں تو یقیناً وہ اس کے رشتہ دار ہیں، لیکن اگر وہ اس صفت سے خالی ہیں تو مومن محض گوشت پوست کی حد تک ان سے تعلق رکھے گا، اس کا قلبی و روحی تعلق ان سے نہیں ہو سکتا۔ اور اگر ایمان و کفر کی نزاع میں وہ مومن کے مدِ مقابل آئیں تو اس کے لیے وہ اور اجنبی کافر یکساں ہوں گے۔

۵۰-اس ارشاد کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ حضرت نوح کے اندر روح ایمان کی کم تھی، یا ان کے ایمان میں جاہلیت کا کوئی شائبہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ انبیاء بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور کوئی انسان بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتا کہ ہر وقت اُس بلند ترین معیار کمال پر قائم رہے جو مومن کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ و اشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہو جاتا ہے۔ لیکن جونہی کہ اسے یہ احساس ہوتا ہے، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے احساس کرا دیا جاتا ہے کہ اس کا قدم معیار مطلوب سے نیچے جا رہا ہے، وہ فوراً توبہ کرتا ہے اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے میں اس ایک لمحہ کے لیے بھی تَامُل نہیں ہوتا۔ حضرت نوح کی اخلاقی رفعت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ابھی جان جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے غرق ہوا ہے اور اس نظارہ سے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے، لیکن جب اللہ تعالیٰ اُنہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض ا س لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے، تو وہ فوراً اپنے دل کے زخم سے بے پروا ہو کر اُس طرزِ فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے۔

۵۱-پسر نوح کا یہ قصہ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت موثر پیرایہ میں یہ بتایا ہے کہ اُس کا انصاف کس قدر بے لاگ اور اس کا فیصلہ کیسا دو ٹوک ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کیسے ہی کام کریں، مگر ہم پر خدا کا غضب نازل نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم حضرت ابراہیم کی اولاد اور فلاں فلاں دیویوں اور دیوتاؤں کے متوسل ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی ایسے ہی کچھ گمان تھے اور ہیں۔ اور بہت سے غلط کار مسلمان بھی اس قسم کے جھوٹے بھروسوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ ہم فلاں حضرت کی اولاد اور فلاں حضرت کے دامن گرفتہ ہیں، ان کی سفارش ہم کو خدا کے انصاف سے بچا لے گی۔ لیکن یہاں یہ منظر دکھا یا گیا ہے کہ ایک جلیل القدر پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لختِ جگر کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا ہے اور تڑپ کر بیٹے کی معافی کے لیے درخواست کرتا ہے، لیکن دربار خداوندی سے اُلٹی اس پر ڈانٹ پڑ جاتی ہے اور باپ کی پیغمبری بھی ایک بد عمل بیٹے کو عذاب سے نہیں بچا سکتی۔

۵۲-یعنی اُس پہاڑ سے جس پر کشتی ٹھیری تھی۔

۵۳-یعنی جس طرح نوح اور ان کے ساتھیوں ہی کا آخر کار بول بالا ہوا، اسی طرح تمہارا ا اور تمہارے ساتھیوں کا بھی ہو گا۔ خدا کا قانون یہی ہے کہ ابتداءِ کار میں دشمنانِ حق خواہ کتنے ہی کامیاب ہوں مگر آخری کامیابی صرف ان لوگوں کا حصہ ہوتی ہے جو خدا سے ڈر کر فکر و عمل کی غلط راہوں سے بچتے ہوئے مقصدِ حق کے لیے کام کرتے ہیں۔ لہٰذا اِس وقت جو مصائب و شدائد تم پر گزر رہے ہیں جن مشکلات سے تم دوچار ہو رہے ہو اور تمہاری دعوت کو دبانے میں تمہارے مخالفوں کو بظاہر جو کامیابی ہوتی نظر آ رہی ہے اس پر بد دل نہ ہو بلکہ ہمت اور صبر کے ساتھ اپنا کام کیے چلے جاؤ۔

 

اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہُودؑ کو بھیجا۔۵۴ اُس نے کہا ’’ اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، تمہارا کوئی خدا اُس کے سوا نہیں ہے۔ تم نے محض جھُوٹ گھڑ رکھے ہیں۔۵۵ اے برادرانِ قوم، اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اس کے ذمّہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے ؟۵۶اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے ربّ سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔۵۷ مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو۔‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’اے ہُودؑ، تُو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں آیا ہے ۵۸، اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے، اور تُجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تیرے اُوپر ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار پڑ گئی ہے۔ ‘‘ ۵۹ہُود ؑ نے کہا ’’ میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں۔۶۰ اور تم گواہ رہو کہ یہ جو اللہ کے سوا دُوسروں کو تم نے خدائی میں شریک ٹھہرا رکھا ہے اس سے میں بیزار ہوں۔۶۱تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کسر نہ اُٹھا رکھو اور مجھے مہلت نہ دو ۶۲،میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا ربّ بھی ہے اور تمہارا ربّ بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ بے شک میرا ربّ سیدھی راہ پر ہے۔ ۶۳اگر تم منہ پھیرتے ہو تو پھیر لو۔ جو پیغام دے کر میں تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ میں تم کو پہنچا چکا ہوں۔ اب میرا ربّ تمہاری جگہ دُوسری قوم کو اُٹھائے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے ۶۴۔ یقیناً میرا ربّ ہر چیز پر نگراں ہے۔ ‘‘پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہُود ؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے نجات دے دی اور ایک سخت عذاب سے انہیں بچا لیا۔یہ ہیں عاد، اپنے ربّ کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے رسُولوں کی بات نہ مانی،۶۵ اور ہر جبّار دُشمنِ حق کی پیروی کرتے رہے۔ آخرِ کار اس دُنیا میں بھی ان پر پھِٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی۔ سُنو! عاد نے اپنے ربّ سے کُفر کیا، سُنو! دُور پھینک دیے گئے عاد، ہُود ؑ کی قوم کے لوگ۔ ؏ ۵
 

۵۴-سورۂ اعراف رکوع ۵ کے حواشی پیشِ نظر رہیں۔

۵۵-یعنی وہ تمام دوسرے معبود جن کی تم بندگی و پرستش کر رہے ہو حقیقت میں کسی قسم کی بھی خدائی صفات اور طاقتیں نہیں رکھتے۔ بندگی و پرستش کا کوئی استحقاق اُن کو حاصل نہیں ہے۔ تم نے خواہ مخواہ ان کو معبود بنا رکھا ہے اور بلاوجہ اُن سے حاجت روائی کی آس لگائے بیٹھے ہو۔

۵۶-یہ نہایت بلیغ فقرہ ہے کہ جس میں ایک بڑا استدلال سمیٹ دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری بات کو جس طرح سرسری طور پر تم نظر انداز کر رہے ہو اور اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔ ورنہ اگر تم عقل سے کام لینے والے ہوتے تو ضرور سوچتے کہ جو شخص اپنی کسی ذاتی غرض کے بغیر دعوت و تبلیغ اور تذکیر و نصیحت کی یہ سب مشقیں جھیل رہا ہے، جس کی اس تگ و دو میں تم کسی شخصی یا خاندانی مفاد کا شائبہ تک نہیں پا سکتے، وہ ضرور اپنے پاس یقین و اذعان کی کوئی ایسی بنیاد اور ضمیر کے اطمینان کی کوئی ایسی وجہ رکھتا ہے جس کی بنا پر اس نے اپنا عیش و آرام چھوڑ کر، اپنی دنیا بنانے کی فکر سے بے پروا ہو کر، اپنے آپ کو اس جوکھم میں ڈالا ہے کہ صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے عقائد، رسوم اور طرزِ زندگی کے خلاف آواز اُٹھائے اور اس کی بدولت دنیا بھر کی دشمنی مول لے لے۔ ایسے شخص کی بات کم از کم اتنی بے وزن تو نہیں ہو سکتی کہ بغیر سوچے سمجھے اسے یونہی ٹال دیا جائے اور اس پر سنجیدہ غور و فکر کی ذرا سی تکلیف بھی ذہن کو نہ دی جائے۔

۵۷-یہ وہی بات ہے جو پہلے رکوع میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے کہلوائی گئی تھی کہ ’’اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت ہی میں نہیں اس دنیا میں بھی قوموں کی قسمتوں کا اتار چڑھاؤ اخلاقی بنیادوں پر ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عالم پر جو فرمانروائی کر رہا ہے وہ اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے نہ کہ اُن طبعی اصولوں پر جو اخلاقی خیر و شر کے امتیاز سے خالی ہوں۔ یہ بات کئی مقامات پر قرآن میں فرمائی گئی ہے کہ جب ایک قوم کے پاس نبی کے ذریعہ سے خدا کا پیغام پہنچتا ہے تو اس کی قسمت اُس پیغام کے ساتھ متعلق ہو جاتی ہے۔ اگر وہ اسے قبول کر لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اگر رد کر دیتی ہے تو اسے تباہ کر ڈالا جاتا ہے۔ یہ گویا ایک دفعہ ہے اُس اخلاقی قانون کی جس پر اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ معاملہ کر رہا ہے۔ اِسی طرح اس قانون کی ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ جو قوم دنیا کی خوشحالی سے فریب کھا کر ظلم و معصیت کی راہوں پر چل نکلتی ہے اس کا انجام بربادی ہے۔ لیکن عین اس وقت جبکہ وہ اپنے اس بُرے انجام کی طرف بگ ٹُٹ چلی جا رہی ہو، اگر وہ اپنی غلطی کو محسوس کر لے اور نافرمانی چھوڑ کر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے تو اس کی قسمت بدل جاتی ہے، اس کی مہلت عمل میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور مستقبل میں اس کے لیے عذاب کے بجائے انعام، ترقی اور سرفرازی کا فیصلہ لکھ دیا جاتا ہے۔

۵۸-یعنی ایسی کوئی کھلی علامت یا ایسی کوئی واضح دلیل جس سے ہم غیر مشتبہ طور پر معلوم کر لیں کہ اللہ نے تجھے بھیجا ہے اور جو بات تو پیش کر رہا ہے وہ حق ہے۔

۵۹-یعنی تُو نے کسی دیوی یا دیوتا یا کسی حضرت کے آستانے پر کچھ گستاخی کی ہو گی، اسی کا خمیازہ ہے جو تُو بھگت رہا ہے کہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے اور وہی بستیاں جن میں کل تُو عزت کے ساتھ رہتا تھا آج وہاں گالیوں اور پتھروں سے تیری تواضع ہو رہی ہے۔

۶۰-یعنی تم کہتے ہو کہ میں کوئی شہادت لے کہ نہیں آیا، حالانکہ چھوٹی چھوٹی شہادتیں پیش کرنے کے بجائے میں تو سب سے بڑی شہادت اس خدائی کی پیش کر رہا ہوں جو اپنی ساری خدائی کے ساتھ کائنات ہستی کے ہر گوشے اور ہر جلوے میں اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ جو حقیقتیں میں نے تم سے بیان کی ہیں وہ سراسر حق ہیں، ان میں جھوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں اور جو تصورات تم نے قائم کر رکھے ہیں وہ بالکل افترا ہیں، سچائی ان میں ذرہ برابر بھی نہیں۔

۶۱-یہ ان کی اس بات کا جواب ہے کہ تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ فرمایا میرا بھی یہ فیصلہ سُن رکھو کہ تمہارے اِن معبودوں سے میں قطعی بیزار ہوں۔

۶۲-یہ ان کے اس فقرے کا جواب ہے کہ ہمارے معبودوں کی تجھ پر مار پڑی ہے (تقابل کے لیے ملاحظہ وہ یونس، آیت ۷۱)۔

۶۳-یعنی وہ جو کچھ کرتا ہے صحیح کرتا ہے۔ اس کا ہر کام سیدھا ہے۔ اس کے ہاں اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ وہ سراسر حق اور عدل کے ساتھ خدائی کر رہا ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ تم گمراہ و بدکار ہو اور پھر فلاح پاؤ، اور میں راستباز و نیکو کار ہوں اور پھر ٹوٹے میں رہوں۔

۶۴-یہ ان کی اس بات کا جواب ہے کہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

۶۵-اگرچہ ان کے پاس ایک ہی رسول آیا تھا، مگر جس چیز کی طرف اس نے دعوت دی تھی وہ وہی ایک دعوت تھی جو ہمیشہ ہر زمانے اور ہر قوم میں خدا کے رسول پیش کرتے رہے ہیں، اسی لیے ایک رسول کی بات نہ ماننے کو سارے رسولوں کی نافرمانی قرار دیا گیا۔

 

اور ثمود کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالحؑ کو بھیجا۔۶۶ اُس نے کہا ’’ اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خُدا نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور یہاں تم کو بسایا ہے۔ ۶۷ لہٰذا تم اُس سے معافی چاہو ۶۸ اور اُس کی طرف پلٹ آؤ، یقیناً میرا ربّ قریب ہے اور وہ دُعاؤ کا جواب دینے والا ہے۔ ‘‘ ۶۹ اُنہوں نے کہا ’’ اے صالح ؑ، اس سے پہلے تُو ہمارے درمیان ایسا شخص تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔۷۰ کیا تُو ہمیں اُن معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے ؟۷۱ تُو جس طریقے کی طرف ہمیں بُلا رہا ہے اُس کے بارے میں ہم کو سخت شُبہ ہے جس نے ہمیں خلجان میں ڈال رکھا ہے۔ ‘‘ ۷۲صالح ؑ نے کہا ’’ اے برادرانِ قوم، تم نے کچھ اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا، اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا تو اِس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا اگر میں اُس کی نافرمانی کروں؟ تم میرے کس کام آ سکتے ہو سوائے اس کے کہ مجھے اَور زیادہ خسارے میں ڈال دو۔۷۳اور اے میری قوم کے لوگو، دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے۔ اِسے خدا کی زمین میں چَرنے کے لیے آزاد چھوڑ دو۔ اِس سے ذرا تعّرض نہ کرنا ورنہ کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ تم پر خدا کا عذاب آ جائے گا۔‘‘ مگر انہوں نے اُونٹنی کو مار ڈالا۔ اس پر صالح ؑ نے اُن کو خبردار کر دیا کہ ’’بس اب تین دن اپنے گھروں میں اور رہ بس لو۔ یہ ایسی معیاد ہے جو جھُوٹی نہ ثابت ہو گی۔‘‘ آخرِ کار جب ہمارے فیصلے کا وقت آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے صالح ؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بچا لیا اور اُس دن کی رُسوائی سے ان کو محفوظ رکھا ۷۴۔ بے شک تیرا ربّ ہی دراصل طاقتور اور بالا دست ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا تھا تو ایک سخت دھماکے نے ان کو دھر لیا اور وہ اپنی بستیوں میں اس طرح بے حِسّ و حرکت پڑے رہ گئے کہ گویا وہ وہاں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ سُنو! ثمود نے اپنے ربّ سے کُفر کیا۔ سُنو! دُور پھینک دیے گئے ثمود ! ؏ ٦
 

۶۶-سورۂ اعراف رکوع ۱۰ کے حواشی پیشِ نظر رہیں۔

۶۷-یہ دلیل ہے اس دعوے کی جو پہلے فقرے میں کیا گیا تھا کہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی خدا اور کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ مشرکین خود بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ ان کا خالق اللہ ہی ہے۔ اسی مسلمہ حقیقت پر بنائے استدلال قائم کر کے حضرت صالح ان کو سمجھاتے ہیں کہ جب وہ اللہ ہی ہے جس نے زمین کے بے جان مادّوں کی ترکیب سے تم کو یہ انسانی وجود بخشا، اور وہ بھی اللہ ہی ہے جس نے زمین میں تم کو آباد کیا، تو پھر اللہ کے سوا خدائی اور کس کی ہو سکتی ہے اور کسی دوسرے کو یہ حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے کہ تم اس کی بندگی و پرستش کرو۔

۶۸-یعنی اب تک جو تم دوسروں کی بندگی و پرستش کرتے رہے ہو اس جرم کی اپنے رب سے معافی مانگو۔

۶۹-یہ مشرکین کی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا رد ہے جو بالعموم ان سب میں پائی جاتی ہے اور اُن اہم اسباب میں سے ایک ہے جنہوں نے ہر زمانہ میں انسان کو شرک میں مبتلا کیا ہے۔ یہ لوگ اللہ کو اپنے راجوں مہاراجوں اور بادشاہوں پر قیاس کرتے ہیں جو رعیت سے دور اپنے محلوں میں داد عیش دیا کرتے ہیں، جن کے دربار تک عام رعایا میں سے کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی، جن کے حضور میں کوئی درخواست پہنچانی ہو تو مقربین بارگاہ میں سے کسی کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور پھر اگر خوش قسمتی سے کسی کی درخواست ان کے آستانہ ٔ بلند پر پہنچ بھی جاتی ہے تو ان کا پندارِ خدائی یہ گوارا نہیں کرتا کہ خود اس کو جواب دیں، بلکہ جواب دینے کا کام مقربین ہی میں سے کسی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ اس غلط گمان کی وجہ سے یہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور ہوشیار لوگوں نے ان کو ایسا سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے کہ خداوند عالم کا آستانۂ قدس عام انسانوں کی دست رس سے بہت ہی دور ہے۔ اس کے دربار تک بھلا کسی عام کی پہنچ کیسے ہو سکتی ہے۔ وہاں تک دعاؤں کا پہنچنا اور پھر ان کا جواب ملنا تو کسی طرح ممکن ہی نہیں ہو سکتا جب تک کہ پاک روحوں کا وسیلہ نہ ڈھونڈ ا جائے اور اُن مذہبی منصب داروں کی خدمات نہ حاصل کی جائیں جو اوپر تک نذریں، نیازیں اور عرضیاں پہنچانے کے ڈھب جانتے ہیں۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس نے بندے اور خدا کے درمیان بہت سے چھوٹے بڑے معبودوں اور سفارشیوں کا ایک جم غفیر کھڑا کر دیا ہے اور س کے ساتھ مہنت گری (Priesthood) کا وہ نظام پیدا کیا ہے جس کے توسط کے بغیر جاہلی مذاہب کے پیرو پیدائش سے لے کر موت تک اپنی کوئی مذہبی رسم بھی انجام نہیں دے سکتے تھے۔

حضرت صالح ؑ جاہلیت کے اس پورے طلسم کو صرف دو لفظوں سے توڑ پھینکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ قریب ہے۔ دوسرے یہ ہے کہ وہ مجیب ہے۔ یعنی تمہارا یہ خیال بھی غلط ہے کہ وہ تم سے دور ہے، اور یہ بھی غلط ہے کہ تم براہِ راست اس کو پکار کر اپنی دعاؤں کا جواب حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ اگرچہ بہت بالا و برتر ہے مگر اسکے باوجود وہ تم سے بہت قریب ہے۔ تم میں سے ایک ایک شخص اپنے پاس ہی ا س کو پا سکتا ہے، ا س سے سرگوشی کر سکتا ہے، خلوت اور جلوت دونوں میں علانیہ بھی اور بصیغۂ راز بھی اپنی عرضیاں خود اس کے حضور پیش کر سکتا ہے۔ اور پھر وہ براہِ راست اپنے ہر بندے کی دعاؤں کا جواب خود دیتا ہے۔ پس جب سلطانِ  کائنات کا دربارِ عام ہر وقت ہر شخص کے لیے کھلا ہے اور ہر شخص کے قریب ہی موجود ہے تو یہ تم کس حماقت میں پڑے ہو کہ اس کے لیے واسطے اور وسیلے ڈھونڈتے پھرتے ہو۔ (نیز ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ کا حاشیہ نمبر ۱۸۸)۔

۷۰-یعنی تمہاری ہوشمندی، ذکاوت، فراست، سنجیدگی و متانت اور پر وقار شخصیت کو دیکھ کر ہم یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ بڑے آدمی بنو گے۔ اپنی دنیا بھی خوب بناؤ گے اور ہمیں بھی دوسری قوموں اور قبیلوں کے مقابلے میں تمہارے تدبر سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملے گا۔ مگر تم نے یہ توحید اور آخرت کا نیا راگ چھیڑ کر تو ہماری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ یاد رہے کہ ایسے ہی کچھ خیالات محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق بھی آپ کے ہم قوموں میں پائے جاتے تھے۔ وہ بھی نبوت سے پہلے آپؐ کی بہترین قابلیتوں کے معترف تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ یہ شخص ایک بہت بڑا تاجر بنے گا اور اس کی بیدار مغزی سے ہم کو بھی بہت کچھ فائدہ پہنچے گا۔ مگر جب ان کی توقعات کے خلا ف آپؐ نے توحید و آخرت اور مکارم اخلاق کی دعوت دینی شروع کی تو وہ آپؐ سے نہ صرف مایوس، بلکہ بیزار ہو گئے اور کہنے لگے کہ اچھا خاصا کام کا آدمی تھا، خدا جانے اسے کیا جنون لاحق ہو گیا کہ اپنی زندگی بھی برباد کی اور ہماری امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا۔

۷۱-یہ گویا دلیل ہے اس امر کی کہ یہ معبود کیوں عبادت کے مستحق ہیں اور ان کی پوجا کس لیے ہوتی رہنی چاہیے۔ یہاں جاہلیت اور اسلام کے طرزِ استدلال کا فرق بالکل نمایاں نظر آتا ہے۔ حضرت صالح نے کہا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے، اور اس پر دلیل یہ دی تھی کہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور زمین میں آباد کیا ہے۔ اس کے جواب میں ان کی مشرک قوم کہتی ہے کہ ہمارے یہ معبود بھی مستحق عباد ت ہیں اور ان کی عبادت ترک نہیں کی جا سکتی کیونکہ باپ داد ا کے وقتوں سے ان کی عبادت ہوتی چلی آ رہی ہے۔ یعنی مکھی پر مکھی صرف اس لیے ماری جاتی رہنی چاہیے کہ ابتدا میں کسی بے وقوف نے س جگہ مکھی مار دی تھی اور اب اس مقام پر مکھی مارتے رہنے کے لیلے اس کے سوا کسی معقول وجہ کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یہاں مدتوں سے مکھی ماری جا رہی ہے۔

۷۲-یہ شبہہ اور یہ خلجان کس امر میں تھا؟ اس کی کوئی تصریح یہاں نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلجان میں تو سب پڑ گئے تھے، مگر یہ ایک خلجان الگ نوعیت کا تھا۔ یہ دعوتِ حق کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو لوگوں کا اطمینانِ قلب رخصت ہو جاتا ہے اور ایک عام بے کلی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر چہ ہر ایک کے احساسات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں مگر اس بے کلی میں سے سب کو کچھ نہ کچھ حصہ ضرور مل کر رہتا ہے۔ اس سے پہلے جس اطمینان کے ساتھ لوگ اپنی ضلالتوں میں منہمک رہتے تھے اور کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس ہی نہ کرتے تھے کہ ہم کیا کر رہے ہیں، وہ اطمینان اس دعوت کے اٹھنے کے بعد باقی نہیں رہتا اور نہیں رہ سکتا۔ نظام جاہلیت کی کمزوریوں پر داعی حق کی بے رحم تنقید، اثبات حق کے لیے اس کے پر زور اور دل لگتے دلائل، پھر اس کے بلند اخلاق، اس کا عزم، اس کا حلم، اس کی شرافت نفس، اس کا نہایت کھَرا اور راستبازانہ رویہ اور اس کی وہ زبردست حکیمانہ شان جس کا سکہ بڑے سے بڑے ہٹ دھرم مخالف کے دل پر بھی بیٹھ جاتا ہے، پھر وقت کی سوسائٹی میں سے بہترین عناصر کا اس سے متاثر ہوتے چلے جانا اور ان کی زندگیوں میں دعوت حق کی تاثیر سے غیر معمولی انقلاب رونما ہونا، یہ ساری چیزیں مل جل کر ان سب لوگوں کے دلوں کو بے چین کر ڈالتی ہیں جو حق آ جانے کے بعد بھی پرانی جاہلیت کا بول بالا رکھنا چاہتے ہیں۔

۷۳-یعنی اگر میں اپنی بصیرت کے خلاف اور اُس علم کے خلا ف جو اللہ نے مجھے دیا ہے، محض تم کو خوش کرنے کے لیے گمراہی کا طریقہ اختیار کر لوں تو یہی نہیں کہ خدا کی پکڑ سے تم مجھ کو بچا نہ سکو گے، بلکہ تمہاری وجہ سے میرا جرم اور زیادہ بڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ مجھے اس بات کی مزید سزا دے گا کہ میں نے تم کو سیدھا راستہ بتانے کے بجائے تمہیں جان بوجھ کر اُلٹا اور گمراہ کیا۔

۷۴-جزیرہ نمائے سینا میں جو روایات مشہور ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ثمود پر عذاب آیا تو حضرت صالحؑ ہجرت کر کے وہاں سے چلے گئے تھے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ والے پہاڑ کے قریب ہی ایک پہاڑی کا نام نبی صالح ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہی جگہ آنجناب کی جائے قیام تھی۔

 

اور دیکھو، ابراہیم ؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے۔ کہا، تم پر سلام ہو۔ ابراہیم ؑ نے جواب دیا، تم پر بھی سلام ہو۔ پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیم ؑ ایک بھُنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لیے ) لے آیا۔۷۵ مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہو گیا اور دل میں ان سے خوف محسوس کرنے لگا۔ ۷۶ اُنہوں نے کہا ’’ ڈرو نہیں، ہم تو لُوط ؑ کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں ۷۷۔ ‘‘ابراہیم ؑ کی بیوی بھی کھڑی ہوئی تھی۔ وہ یہ سُن کر ہنس دی۔۷۸ پھر ہم نے اُس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب ؑ کی خوشخبری دی۔وہ بولی ’’ ہائے میری کم بختی!۸۰ کیا اب میرے ہاں اولاد ہو گی جبکہ میں بڑھیا پھُونس ہو گئی اور یہ میرے میاں بھی بُوڑھے ہو چکے ؟ ۸۱ یہ تو بڑے عجیب بات ہے۔ ‘‘فرشتوں نے کہا ’’ اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟۸۲ ابراہیم ؑ کے گھر والو، تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اُس کی برکتیں ہیں، اور یقیناً اللہ نہایت قابلِ تعریف اور بڑی شان والا ہے۔ ‘‘پھر جب ابراہیم ؑ کی گھبراہٹ دُور ہو گئی اور (اولاد کی بشارت سے ) اُس کا دل خوش ہو گیا تو اُس نے قومِ لُوط کے معاملہ میں ہم سے جھگڑا شروع کیا۔ ۸۳حقیقت میں ابراہیم ؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہمارے طرف رجوع کرتا تھا۔ (آخرِ کار ہمارے فرشتوں نے اس سے کہا) ’’اے ابراہیم ؑ، اس سے باز آ جاؤ، تمہارے ربّ کا حکم ہو چکا ہے اور اب ان لوگوں پر وہ عذاب آ کر رہے گا جو کسی کے پھیرے نہیں پھر سکتا۔‘‘ ۸۴اور جب ہمارے فرشتے لُوط کے پاس پہنچے ۸۵ تو اُن کی آمد سے وہ بہت گھبرایا اور دل تنگ ہوا اور کہنے لگا کہ ’’آج بڑی مصیبت کا دن ہے۔ ‘‘ ۸۶ (ان مہمانوں کا آنا تھا کہ) اس کی قوم کے لوگ بے اختیار اس کے گھر کی طرف دَوڑ پڑے۔ پہلے سے وہ ایسی ہی بدکاریوں کے خوگر تھے۔ لُوط ؑ نے ان سے کہا ’’ بھائیو، یہ میری بیٹیاں موجود ہیں، یہ تمہارے لیے پاکیزہ تر ہیں۔۸۷ کچھ خدا کا خوف کرو اور میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے ذلیل نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں ؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’تجھے تو معلوم ہی ہے کہ تیری بیٹیوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے ۸۸ اور تُو یہ بھی جانتا ہے کہ ہم چاہتے کیا ہیں۔‘‘ لُوط ؑ نے کہا ’’ کاش میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ تمہیں سیدھا کر دیتا، یا کوئی مضبوط سہارا ہی ہوتا کہ اس کی پناہ لیتا۔‘‘ تب فرشتوں نے اس سے کہا کہ ’’ اے لُوط ؑ، ہم تیرے ربّ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، یہ لوگ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ بس تُو کچھ رات رہے اپنے اہل و عیال کو لے کر نِکل جا۔ اور دیکھو، تم میں سے کوئی شخص پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے۔ ۸۹ مگر تیری بیوی ( ساتھ نہیں جائے گی) کیونکہ اس پر بھی وہی کچھ گزرنے والا ہے جو اِن لوگوں پر گزرنا ہے۔ ۹۰ ان کی تباہی کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے۔۔۔۔ صبح ہوتے اب دیر ہی کتنی ہے !‘‘ پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آ پہنچا تو ہم نے اس بستی کو تل پٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مَٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے ۹۱جن میں سے ہر پتھر تیرے ربّ کے ہاں نشان زدہ تھا۔۹۲ اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دُور نہیں ہے ۹۳۔ ؏ ۷
 

۷۵-اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کے ہاں انسانی صورت میں پہنچے تھے اور ابتداءً انہوں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم ؑ نے خیال کیا کہ یہ کوئی اجنبی مہمان ہیں اور ان کے آتے ہی فوراً ان کی ضیافت کا انتظام فرمایا۔

۷۶-بعض مفسرین کے نزدیک یہ خوف اس بنا پر تھا کہ جب ان اجنبی نو واردوں نے کھانے میں تأمل کیا تو حضرت ابراہیم ؑ کو ان کی نیت پر شبہہ ہونے لگا اور آپ اس خیال سے اندیشہ ناک ہوئے کہ کہیں یہ کسی دشمنی کے ارادے سے تو نہیں آئے ہیں، کیونکہ عرب میں جب کوئی شخص کسی کی ضیافت قبول کرنے سے انکار کرتا تو اس سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ مہمان کی حیثیت سے نہیں آیا ہے بلکہ قتل و غارت کی نیت سے آیا ہے۔ لیکن بعد کی آیت اس تفسیر کی تائید نہیں کرتی۔

۷۷-اِس اندازِ کلام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کھانے کی طرف ان کے ہاتھ نہ بڑھنے سے ہی حضرت ابراہیمؑ تاڑ گئے تھے کہ یہ فرشتے ہیں۔ اور چونکہ فرشتوں کا علانیہ انسانی شکل میں آنا غیر معمولی حالات ہی میں ہوا کرتا ہے اس لیے حضرت ابراہیم کو خوف جس بات پر ہوا وہ دراصل یہ تھی کہ کہیں آپ کے گھر والوں سے یا آپ کی بستی کے لوگوں سے یا خود آپ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں ہو گیا ہے جس پر گرفت کے لیے فرشتے اس صورت میں بھیجے گئے ہیں۔ اگر بات وہ ہوتی جو بعض مفسرین نے سمجھی ہے تو فرشتے یوں کہتے کہ ’’ڈرو نہیں ہم تمہارے ربّ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں‘‘۔ لیکن جب انہوں نے آپ کا خوف دور کرنے کے لیے کہا کہ ’’ہم تو قومِ لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں‘‘ تو اس سے معلوم ہوا کہ ان کا فرشتہ ہونا تو حضرت ابراہیمؑ جان گئے تھے، البتہ پریشانی اس بات کی تھی کہ یہ حضرات اس فتنے اور آزمائش کی شکل میں جو تشریف لائے ہیں تو آخر وہ بدنصیب کون ہے جس کی شامت آنے والی ہے۔

۷۸-اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کے انسانی شکل میں آنے کی خبر سنتے ہی سارا گھر پریشان ہو گیا تھا اور حضرت ابراہیم ؑ کی اہلیہ بھی گھبرائی ہوئی باہر نکل آئی تھیں۔ پھر جب انہوں نے یہ سن لیا کہ ان کے گھر پر یا ان کی بستی پر کوئی آفت آنے والی نہیں ہے تب کہیں ان کی جان میں جان آئی اور وہ خوش ہو گئیں۔

۸۰-اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت سارہ فی الواقع اس پر خوش ہونے کے بجائے الٹی اس کو کم بختی سمجھتی تھیں۔ بلکہ دراصل یہ اس قسم کے الفاظ میں سے ہے جو عورتیں بالعموم تعجب کے مواقع پر بولا کرتی ہیں اور جن سے لغوی معنی مراد نہیں ہوتے بلکہ محض اظہارِ تعجب مقصود ہوتا ہے۔

۸۱-بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی عمر اس وقت ۱۰۰ برس اور حضرت سارہ کی عمر ۹۰ برس کی تھی۔

۸۲-مطلب یہ ہے کہ اگرچہ عادۃً اس عمر میں انسان کے ہاں اولاد نہیں ہوا کرتی، لیکن اللہ کی قدرت سے ایسا ہونا کچھ بعید نہیں ہے۔ اور جب کہ یہ خوشخبری تم کو اللہ کی طرف سے دی جا رہی ہو تو کئی وجہ نہیں کہ تم جیسی ایک مومنہ اس پر تعجب کرے۔

۸۳- ’’جھگڑے ‘‘ کا لفظ اس موقع اُس انتہائی محبت اور ناز کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو حضرت ابراہیمؑ اپنے خدا کے ساتھ رکھتے تھے۔ اس لفظ سے یہ تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے کہ بندے اور خدا کے درمیان بڑی دیر تک رد و کد جاری رہتی ہے۔ بندہ اصرار کر رہا ہے کہ کسی طرح قوم لوطؑ پر سے عذاب ٹال دیا جائے۔ خدا جواب میں کہہ رہا ہے کہ یہ قوم اب خیر سے بالکل خالی ہو چکی ہے اور اس کے جرائم اس حد سے گزر چکے ہیں کہ اس کے ساتھ کوئی رعایت کی جا سکے۔ مگر بندہ ہے کہ پھر یہی کہے جاتا ہے کہ ’’پروردگار، اگر کچھ تھوڑی سے بھلائی بھی اس میں باقی ہو تو اسے اور ذرا مہلت دیدے، شاید وہ بھلائی پھل لے آئے۔ ‘‘ بائیبل میں اس جھگڑے کی کچھ تشریح بھی بیان ہوئی ہے، لیکن قرآن کا مجمل بیان اپنے اندر اس سے زیادہ معنوی وسعت رکھتا ہے۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب پیدائش، باب ۱۸-آیات ۳۲-۲۳)

۸۴-اس سلسلۂ بیان میں حضرت ابراہیمؑ کا یہ واقعہ، خصوصاً قوم لوطؑ کے قصّے کی تمہید کے طور پر، بظاہر کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے۔ مگر حقیقت میں یہ اُس مقصد کے لحاظ سے نہایت برمحل ہے جس کے لیے پچھلی تاریخ کے یہ واقعات یہاں بیان کیے جا رہے ہیں۔ اس کی مناسبت سمجھنے کے لیے حسب ذیل دو باتوں کو پیش نظر رکھیے :

(۱) مخاطب قریش کے لوگ ہیں جو حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہونے کے وجہ ہی سے تمام عرب کے پیر زادے، کعبۃ اللہ کے مجاور اور مذہبی و اخلاقی اور سیاسی و تمدّنی پیشوائی کے مالک بنے ہوئے ہیں اور اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ ہم پر خدا کا عذاب کیسے نازل ہو سکتا ہے جبکہ ہم خدا کے اُس پیارے بندے کی اولاد ہیں اور وہ خدا کے دربار میں ہماری سفارش کرنے کو موجود ہے۔ اس پندارِ غلط کو توڑنے کے لیے پہلے تو یہ منظر دکھایا گیا کہ حضرت نوحؑ جیسا عظیم الشان پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر گوشے کو ڈوبتے دیکھ رہا ہے اور تڑپ کر خدا سے دعا کرتا ہے کہ اس کے بیٹے کو بچا لیا جائے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کی سفارش بیٹے کے کچھ کام نہیں آتی، بلکہ اس سفارش پر باپ کو اُلٹی ڈانٹ سننی پڑتی ہے۔ اس کے بعد اب یہ دوسرا منظر خود حضرت ابراہیمؑ کا دکھایا جاتا ہے کہ ایک طرف تو ان پر بے پایاں عنایات ہیں اور نہایت پیار کے انداز میں ان کا ذکر ہو رہا ہے، مگر دوسری طرف جب وہی ابراہیمؑ خلیل انصاف کے معاملہ میں دخل دیتے ہیں تو ان کے اصرار و الحاح کے باوجود اللہ تعالیٰ مجرم قوم کے معاملے میں ان کی سفارش کو رد کر دیتا یے۔

(۲) اس تقریر میں یہ بات بھی قریش کے ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ قانونِ مکافات، جس سے لوگ بالکل بے خوف اور مطمئن بیٹھے ہوئے تھے، کس طرح تاریخ کے دوران میں تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ ظاہر ہوتا رہا ہے اور خود ان کے گرد و پیش اس کے کیسے کھلے کھلے آثار موجود ہیں۔ ایک طرف حضرت ابراہیمؑ ہیں جو حق اور صداقت کی خاطر گھر سے بے گھر ہو کر ایک اجنبی ملک میں مقیم ہیں اور بظاہر کوئی طاقت ان کے پاس نہیں ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ ان کے حسن عمل کا یہ پھل ان کو دیتا ہے کہ بانجھ بیوی کے پیٹ سے بڑھاپے میں اسحاق علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں، پھر ان کے ہاں یعقوب علیہ السلام کی پیدائش ہوتی ہے، اور ان سے بنی اسرائیل کی وہ عظیم الشان نسل چلتی ہے جس کی عظمت کے ڈنکے صدیوں تک اُسی فلسطین و شام میں بجتے رہے جہاں حضرت ابراہیمؑ ایک بے خانماں مہاجر کی حیثیت سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ دوسری طرف قوم لوطؑ ہے جو اسی سرزمین کے ایک حصّہ میں اپنی خوشحالی پر مگن اور اپنی بدکاریوں میں مست ہے۔ دور دور تک کہیں بھی اس کو اپنی شامتِ اعمال کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ اور لوط علیہ السلام کی نصیحتوں کو وہ چٹکیوں میں اڑا رہی ہے۔ مگر جس تاریخ کو ابراہیمؑ کی نسل سے ایک بڑی اقبال مند قوم کے اُٹھائے جانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے، ٹھیک وہی تاریخ ہے جب اِس بدکار قوم کو دنیا سے نیست و نابود کرنے کا فرمان نافذ ہوتا ہے اور وہ ایسے عبرتناک طریقہ سے فنا کی جاتی ہے کہ آج اس کی بستیوں کا نشان کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔

۸۵-سورۂ اَعراف رکوع ۱۰ کے حواشی پیش نظر رہیں۔

۸۶-اس قصّے کی جو تفصیلات قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں ان کے فحوائے کلام سے یہ بات صاف مترشح ہوتی ہے کہ یہ فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوطؑ کے ہاں پہنچے تھے اور حضرت لوطؑ اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ فرشتے ہیں۔ یہی سبب تھا کہ ان مہمانوں کی آمد سے آپ کو سخت پریشانی و دل تنگی لاحق ہوئی۔ اپنی قوم کو جانتے تھے کہ وہ کیسی بدکردار اور کتنی بے حیا ہو چکی ہے۔

۸۷-ہو سکتا ہے کہ حضرت لوطؑ کا اشارہ قوم کی لڑکیوں کی طرف ہو۔ کیونکہ نبی اپنی قوم کے لیے بمنزلہ باپ ہوتا ہے اور قوم کی لڑکیاں اس کی نگاہ میں اپنی بیٹیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے آپ کا اشارہ خود اپنی صاحبزادیوں کی طرف ہو۔ بہرحال دونوں صورتوں میں یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ حضرت لوطؑ نے ان سے زنا کرنے کا لیے کہا ہو گا۔ "یہ تمہارے لیے پاکیزہ تر ہیں" کا فقرہ ایسا غلط مفہوم لینے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ حضرت لوطؑ کا منشا صاف طور پر یہ تھا کہ اپنی شہوتِ نفس کو اُس فطری اور جائز طریقے سے پورا کرو جو اللہ نے مقرر کیا ہے اور اس کے لیے عورتوں کی کمی نہیں ہے۔

۸۸-یہ فقرہ ان لوگوں کے نفس کی پوری تصویر کھینچ دیتا ہے کہ وہ خباثت میں کس قدر ڈوب گئے تھے۔ بات صرف اس حد تک ہی نہیں رہی تھی کہ وہ فطرت اور پاکیزگی کی راہ سے ہٹ کر ایک گندی خلافِ فطرت راہ پر چل پڑے تھے، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ان کی ساری رغبت اور تمام دلچسپی اب اسی گندی راہ ہی میں تھی۔ ان کے نفس میں اب طلب اُس گندگی ہی کی رہ گئی تھی اور وہ فطرت اور پاکیزگی کی راہ کے متعلق یہ کہنے میں شرم محسوس نہ کرتے تھے کہ یہ راستہ تو ہمارے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ یہ اخلاق کے زوال اور نفس کے بگاڑ کا انتہائی مرتبہ ہے جس سے فروتر کسی مرتبے کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ اس شخص کا معاملہ تو بہت ہلکا ہے جو محض نفس کی کمزوری کی وجہ سے حرام میں مبتلا ہو جاتا ہو مگر حلال کو چاہنے کے قابل اور حرام کو بچنے کے قابل چیز سمجھتا ہو۔ ایسا شخص کبھی سدھر بھی سکتا ہے، اور نہ سدھرے تب بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بگڑا ہوا انسان ہے۔ مگر جب کسی شخص کی ساری رغبت صرف حرام ہی میں ہو اور وہ سمجھے کہ حلال اس کے لیے ہے ہی نہیں تو اس کا شمار انسانوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ وہ دراصل ایک گندہ کیڑا ہے جو غلاظت ہی میں پرورش پاتا ہے اور طیّبات سے اس کے مزاج کو کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ ایسے کیڑے کسی صفائی پسند انسان کے گھر میں پیدا ہو جائیں تو وہ پہلی فرصت میں فنائیل ڈال کر ان کے وجود سے اپنے گھر کو پاک کر دیتا ہے۔ پھر بھلا خدا اپنی زمین پر ان گندے کیڑوں کے اجتماع کو کب تک گوارا کر سکتا تھا۔

۸۹-مطلب یہ ہے کہ اب تم لوگوں کو بس یہ فکر ہونی چاہیے کہ کسی طرح جلدی سے جلدی اس علاقے سے نکل جاؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پیچھے شور اور دھماکوں کی آوازیں سُن کر راستے میں ٹھہر جاؤ اور جو رقبہ عذاب کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے اس میں عذاب کا وقت آ جانے کے بعد بھی تم میں سے کوئی رکا رہ جائے۔

۹۰-یہ تیسرا عبرتناک واقعہ ہے جو اِس سورہ میں لوگوں کو یہ سبق دینے کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ تم کو کسی بزرگ کی رشتہ داری اور کسی بزرگ کی سفارش اپنے گناہوں کی پاداش میں نہیں بچا سکتی۔

۹۱-غالباً یہ عذاب ایک سخت زلزلے اور آتش فشانی انفجار کی شکل میں آیا تھا۔ زلزلے نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کیا اور آتش فشاں مادے کے پھٹنے سے ان کے اوپر زور کا پتھراؤ ہُوا۔ پکی ہوئی مٹی کے پتھروں سے مراد شاید وہ مُتَحّجر مٹی ہے جو آتش فشاں علاقے میں زیر زمیں حرارت اور لاوے کے اثر سے پتھر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ آج تک بحر لوط کے جنوب اور مشرق کے علاقے میں اس انفجار کے آثار ہر طرف نمایاں ہیں۔

۹۲-یعنی ہر ہر پتھر خدا کی طرف سے نامزد کیا ہوا تھا کہ اسے تباہ کاری کا کیا کام کرنا ہے اور کس پتھر کو کس مجرم پر پڑنا ہے۔

۹۳-یعنی آج جو لوگ ظلم کی اس روش پر چل رہے ہیں وہ بھی اس عذاب کو اپنے سے دور نہ سمجھیں۔ عذاب اگر قومِ لوطؑ پر آ سکتا تھا تو ان پر بھی آ سکتا ہے۔ خدا کو نہ لوطؑ کی قوم عاجز کر سکتی تھی، نہ یہ کر سکتے ہیں۔

 

اور مَدیَن والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب ؑ کو بھیجا۔۹۴ اُ س نے کہا ’’ اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں، مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لیے گا۔ اور اے برادرانِ قوم، ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پُورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو۔ اور بہر حال میں تمہارے اوپر کوئی نگرانِ کار نہیں ہوں۔‘‘ ۹۵انہوں نے جواب دیا ’’اے شعیب ؑ، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے ۹۶ کہ ہم اُن سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے ؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصّرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟۹۷ بس تُو ہی تو ایک عالی ظرف اور راستباز آدمی رہ گیا ہے !‘‘ شعیب ؑ نے کہا ’’بھائیو، تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے ایک کھُلی شہادت پر تھا اور پھر اس نے اپنے ہاں سے مجھ کو اچھا رزق بھی عطا کیا ۹۸ (تو اس کے بعد میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں میں تمہارا شریکِ حال کیسے ہو سکتا ہوں؟)۔اور میں ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں۔۹۹ میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے۔ اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اسی کر طرف رُجوع کرتا ہوں۔اور اے برادرانِ قوم، میرے خلاف تمہاری ہٹ دھرمی کہیں یہ نوبت نہ پہنچا دے کہ آخرِ کار تم پر بھی وہی عذاب آ کر رہے جو نوح ؑ یا ہُود ؑ یا صالح ؑ کی قوم پر آیا تھا۔ اور ؑ لُوط کی قوم تو تم سے کچھ زیادہ دُور بھی نہیں ہے۔ ۱۰۰دیکھو! اپنے ربّ سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، بے شک میرا ربّ رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے۔ ‘‘ ۱۰۱انہوں نے جواب دیا ’’ اے شعیب ؑ، تیری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں۔۱۰۲ اور ہم دیکھتے ہیں کہ تُو ہمارے درمیان ایک بے زور آدمی ہے، تیری برادری نہ ہوتی تو ہم کبھی کا تجھے سنگسار کر چکے ہوتے، تیرا بل بوتا تو اتنا نہیں ہے کہ ہم پر بھاری ہو۔‘‘ ۱۰۳شعیب ؑ نے کہا ’’ بھائیو، کیا میری برادری تم پر اللہ سے زیادہ بھاری ہے کہ تم نے (برادری کا تو خوف کیا اور ) اللہ کو بالکل پسِ پُشت ڈال دیا؟ جان رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ اے میری قوم کے لوگوں، تم اپنے طریقے پر کام کیے جاؤ اور میں اپنے طریقے پر کرتا رہوں گا، جلدی ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر ذلّت کا عذاب آتا ہے اور کون جھوٹا ہے۔ تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ چشم براہ ہوں۔‘‘ آخرِ کار جب ہمارے فیصلے کا وقت آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے شعیب ؑ اور اس کے ساتھی مومنوں کو بچا لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک سخت دھماکے نے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حسّ و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے گویا وہ کبھی وہاں رہے بسے ہی نہ تھے۔ سُنو ! مَدیَن والے بھی دُور پھینک دیے گئے جس طرح ثمود پھینکے گئے تھے۔ ؏ ۸
 

 

۹۴-سورۂ اعراف رکوع ۱۱ کے حواشی پیشِ نظر رہیں۔

۹۵-یعنی میرا کوئی زور تم پر نہیں ہے۔ میں تو بس ایک خیر خواہ ناصح ہوں۔ زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کر سکتا ہوں کہ تمہیں سمجھا دوں۔ آگے تمہیں اختیار ہے، چاہو مانو، چاہے نہ مانو۔ سوال میری باز پرس سے ڈرنے یا نہ ڈرنے کا نہیں ہے۔ اصل چیز خدا کی باز پرس ہے جس کا اگر تمہیں کچھ خوف ہو تو اپنی ان حرکتوں سے باز آ جاؤ۔

۹۶-یہ دراصل ایک طعن آمیز فقرہ ہے جس کی رُوح آج بھی آپ ہر اُس سوسائٹی میں موجود پائیں گے جو خدا سے غافل اور فسق و فجور میں ڈوبی ہوئی ہو۔ چونکہ نماز دینداری کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ نمایاں مظہر ہے، اور دینداری کو فاسق اور فاجر لوگ ایک خطرناک، بلکہ زیادہ خطرناک مرض سمجھتے ہیں، اس لیے نماز ایسے لوگوں کی سوسائٹی میں عبادت کے بجائے علامتِ مرض شمار ہوتی ہے۔ کسی شخص کو اپنے درمیان نماز پڑھتے دیکھ کر انہیں فوراً یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اس شخص پر ’’مرض دینداری‘‘ کا حملہ ہو گیا ہے۔ پھر یہ لوگ دینداری کی اس خاصیّت کو بھی جانتے ہیں کہ یہ چیز جس شخص کے اندر پیدا ہو جاتی ہے وہ صرف اپنے حسنِ عمل پر قانع نہیں رہتا بلکہ دوسروں کو بھی درست کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور بے دینی اور بد اخلاقی پر تنقید کیے بغیر اُس سے رہا نہیں جاتا، اس لیے نماز پر ان کا اضطراب صرف اسی حیثیت سے نہیں ہوتا کہ ان کے ایک بھائی پر دینداری کا دورہ پڑ گیا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ہی انہیں یہ کھٹکا بھی لگ جاتا ہے کہ اب عنقریب اخلاق و دیانت کا وعظ شروع ہونے والا ہے اور اجتماعی زندگی میں کیڑے نکالنے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی سوسائٹی میں نماز سب سے بڑھ کر طعن  و تشنیع کی ہدف بنتی ہے۔ اور اگر کہیں نمازی آدمی ٹھیک ٹھیک انہی اندیشوں کے مطابق، جو اس کی نماز سے پہلے ہی پیدا ہو چکے تھے، برائیوں پر تنقید اور بھلائیوں کی تلقین بھی شروع کر دے، تب تو نماز ہر طرح کوسی جاتی ہے کہ گویا یہ ساری بلا اُسی کی لائی ہوئی ہے۔

۹۷-یہ اسلام کے مقابلہ میں جاہلیّت کے نظریہ کی پوری ترجمانی ہے۔ اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے سوا جو طریقہ بھی ہے غلط ہے اور اسی کی پیروی نہ کرنی چاہیے۔ کیونکہ دوسرے کسی طریقے کی لیے عقل، علم اور کتبِ آسمانی میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور یہ کہ اللہ کی بندگی صرف ایک محدود مذہبی دائرے ہی میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمدّن، معاشرت، معیشت، سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ دنیا میں انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ ہی کا ہے اور انسان کسی چیز پر بھی اللہ کی مرضی سے آزاد ہو کر خود مختارانہ تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس کے مقابلہ میں جاہلیّت کا نظریہ یہ ہے کہ باپ دادا سے جو طریقہ بھی چلا آ رہا ہو انسان کو اسی کی پیروی کرنی چاہیے اور اس کی پیروی کے لیے اس دلیل کے سوا کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ باپ دادا کا طریقہ ہے۔ نیز یہ کہ دین و مذہب کا تعلق صرف پوجا پاٹ سے ہے، رہے ہماری زندگی کے عام دنیوی معاملات، تو ان میں ہم کو پوری آزادی ہونی چاہیے کہ جس طرح چاہیں کام کریں۔

اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی کو مذہبی اور دنیوی دائروں میں الگ الگ تقسیم کرنے کا تخیل آج کوئی نیا تخیل نہیں ہے بلکہ آج سے تین ساڑھے تین ہزار برس پہلے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو بھی اس تقسیم پر ویسا ہی اصرار تھا جیسا آج اہلِ مغرب اور اُن کے مشرقی شاگردوں کو ہے۔ یہ فی الحقیقت کوئی نئی ’’روشنی‘‘ نہیں ہے جو انسان کو آج ’’ذہنی ارتقاء‘‘ کی بدولت نصیب ہو گئی ہو۔ بلکہ یہ وہی پرانی تاریک خیالی ہے جو ہزارہا برس پہلے کی جاہلیّت میں بھی اِسی شان سے پائی جاتی تھی۔ اور اس کے خلاف اسلام کی کش مکش بھی آج کی نہیں ہے، بہت قدیم ہے۔

۹۸-رزق کا لفظ یہاں دوہرے معنی دے رہا ہے۔ اس کے ایک معنی تو علم حق کے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشا گیا ہو۔ اور دوسرے معنی وہی ہیں جو بالعموم اس لفظ سے سمجھے جاتے ہیں، یعنی وہ ذرائع جو زندگی بسر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دیتا ہے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے یہ آیت اُسی مضمون کو ادا کر رہی ہے جو اسے سورے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم، نوح اور صالح علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوتا چلا آ رہا ہے کہ نبوت سے پہلے بھی میں اپنے رب کی طرف سے حق کی کھلی کھلی شہادت اپنے نفس میں اور کائنات کے آثار میں پا رہا تھا، اور اس کے بعد میرے رب نے براہ راست علم حق بھی مجھے دے دیا۔ اب میرے لیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ جان بوجھ کر اُن گمراہیوں اور بد اخلاقیوں میں تمہارا ساتھ دوں جن میں تم مبتلا ہو۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے یہ آیت اُس طعنے کا جواب ہے جو ان لوگوں نے حضرت شعیب کو دیا تھا کہ ’’بس تم ہی تو ایک عالی ظرف اور راستباز آدمی رہ گئے ہو۔‘‘ اس تندو ترش حملے کا یہ ٹھنڈا جواب دیا گیا ہے کہ بھائیوں، اگر میرے رب نے مجھے حق شناس بصیرت بھی دی ہو اور رزق حلال بھی عطا کیا ہو تو آخر تمھارے طعنوں سے یہ فضل غیر فضل کیسے ہو جائے گا۔ آخر میرے لیے یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے کہ جب خدا نے مجھ پر یہ فضل کیا ہے تو میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں کو حق و حلال کہ کر اس کی ناشکری کر دوں۔

۹۹-یعنی میری سچائی کا تم اس بات سے اندازہ کر سکتے ہو کہ جو کچھ دوسروں سے کہتا ہوں اسی پر خود عمل کرتا ہوں۔ اگر میں تمہیں غیراللہ کے آستانے سے روکتا اور خود کسی آستانے کا مجاور بن بیٹھا ہوتا تو بلا شبہ تم کہہ سکتے تھے کہ اپنی پیری چمکانے کے لیے دوسری دکانوں کی ساکھ بگاڑنا چاہتا ہے۔ اگر میں تم کو حرام کے مال کھانے سے منع کرتا اور خود اپنے کاروبار میں بے ایمانیاں کر رہا ہوتا تو ضرور تم یہ شبہ کر سکتے تھے کہ میں اپنی ساکھ جمانے کے لیے ایمانداری کا ڈھول پیٹ رہا ہوں۔ لیکن تم دیکھتے ہو کہ میں خود ان برائیوں سے بچتا ہوں جب سے تم کو منع کرتا ہوں۔ میری اپنی زندگی ان دھبوں سے پاک ہے جن سے تمہیں پاک دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے اپنے لیے بھی اُسی طریقہ کو پسند کیا ہے جس کی تمہیں دعوت دے رہا ہوں۔ یہ چیز اس بات کی شہادت کے لیے کافی ہے کہ میں اپنی اس دعوت میں صادق ہوں۔

۱۰۰-یعنی قوم لوط کا واقعہ ابھی تازہ ہی ہے اور تمہارے قریب ہی کے علاقے میں پیش آ چکا ہے۔ غالباً اس وقت قوم لوط کی تباہی پر چھ سات سو برس سے زیادہ نہ گزرے تھے۔ اور جغرافی حیثیت سے بھی قوم شعیب کا ملک اس علاقے سے بالکل متصل واقع تھا جہاں قوم لوط رہتی تھی۔

۱۰۱-یعنی اللہ تعالیٰ سنگ دل اور بے رحم نہیں ہے۔ اس کو اپنی مخلوقات سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ خواہ مخواہ سزا دینے ہی کو اس کا جی چاہے اور اپنے بندوں کو مار مار کر ہی وہ خوش ہو۔ تم لوگ جب اپنی سرکشیوں میں حد سے گزر جاتے ہو اور کسی طرح فساد پھیلانے سے باز ہی نہیں آتے تب وہ بادل ناخواستہ تمہیں سزا دیتا ہے۔ ورنہ اس کا حال تو یہ ہے کہ تم خواہ کتنے ہی قصور کر چکے ہو، جب بھی اپنے افعال پر نادم ہو کر اس کی طرف پلٹو گے اس کے دامن رحمت کو اپنے لیے وسیع پاؤ گے۔ کیونکہ اپنی پیدا کی ہوئی مخلوق سے وہ بے پایاں محبت رکھتا ہے۔

اس مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دو نہایت لطیف مثالوں سے واضح فرمایا ہے۔ ایک مثال تو آپ نے یہ دی ہے کہ اگر تم میں سے کسی شخص کا اونٹ ایک بے آب و گیاہ صحرا میں کھویا گیا ہو اور اس کے کھانے پینے کا بھی اسی اونٹ پر ہو اور وہ شخص اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مایوس ہو چکا ہو یہاں تک کہ زندگی سے بے آس ہو کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا ہو، اور عین اس حالت میں یکا یک وہ دیکھے کہ اس کا اونٹ سامنے کھڑا ہے، تو اس وقت جیسی کچھ خوشی اس کو ہو گی، اس سے زیادہ خوشی اللہ کو اپنے بھٹکے ہوئے بندے کے پلٹ آنے سے ہوتی ہے۔ دوسری مثال اس سے بھی زیادہ مؤثر ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں کچھ جنگی قیدی گرفتار ہو کر آئے۔ ان میں ایک عورت بھی تھی جس کا شیرخوار بچہ چھوٹ گیا تھا اور وہ مامتا کی ماری ایسی بے چین تھی کہ جس بچے کو پا لیتی اسے چھاتی سے چمٹا کر دودھ پلانے لگتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا حال دیکھ کر ہم لوگوں سے پوچھا کیا تم لوگ یہ توقع کر سکتے ہو کہ یہ ماں اپنے بچے کو خود اپنے ہاتھوں آگ میں پھینک دے گی؟ ہم نے عرض کیا ہر گز نہیں، خود پھینکنا تو درکنار، وہ آپ گرتا ہو تو یہ اپنی حد تک تو اسے بچانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے گی۔ فرمایا اللہ ارحم بعبادہٖ من ھٰذِہ یولدھا۔ "اللہ کا رحم اپنے بندوں پر اس سے بہت زیادہ ہے جو یہ عورت اپنے بچے کے لیے رکھتی ہے۔ "

اور ویسے بھی غور کرنے سے یہ بات بخوبی سمجھ آ سکتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی تو ہے جس نے بچوں کی پرورش کے لیے ماں باپ کے دل میں محبت پیدا کی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر خدا اس محبت کو پیدا نہ کرتا تو ماں اور باپ سے بڑھ کر بچوں کا کوئی دشمن نہ ہوتا۔ کیونکہ سے سے بڑھ کر وہ انہی کے لیے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ اب ہر شخص خود سمجھ سکتا ہے کہ جو خدا محبتِ مادری اور شفقتِ پدری کا خالق ہے خود اُس کے اندر اپنی مخلوق کے لیے کیسی کچھ محبت موجود ہو گی۔

۱۰۲-یہ سمجھ میں نہ آنا کچھ اس بنا پر نہ تھا کہ حضرت شعیبؑ کسی غیر زبان میں کلام کرتے تھے، یا ان کی باتیں بہت مُغلق اور پیچیدہ ہوتی تھیں۔ باتیں تو سب صاف اور سیدھی ہی تھیں اور اُسی زبان میں کی جاتی تھیں جو یہ لوگ بولتے تھے، لیکن ان کے ذہن کا سانچا اس قدر ٹیڑھا ہو چکا تھا کہ حضرت شعیب کی سیدھی باتیں کسی طرح اس میں نہ اتر سکتی تھیں۔ قاعدے کی بات ہے کہ جو لوگ تعصّبات اور خواہشِ نفس کی بندگی میں شدت کے ساتھ مبتلا ہوتے ہیں، وہ اول تو کوئی ایسی بات سن ہی نہیں سکتے جو ان کے خیالات سے مختلف ہو، اور اگر سن بھی لیں تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس دنیا کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

۱۰۳-یہ بات پیشِ نظر رہے کہ بعینہٖ یہی صورت حال اِن آیات کے نزول کے وقت مکہ میں درپیش تھی۔ اس وقت قریش کے لوگ بھی اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے اور چاہتے تھے کہ آپ کی زندگی کا خاتمہ کر دیں۔ لیکن صرف اس وجہ سے آپ پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتے تھے کہ بنی ہاشم آپؐ کی پشت پر تھے۔ پس حضرت شعیب اور ان کی قوم کا یہ قصہ ٹھیک ٹھیک قریش اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے معاملہ پر چسپاں کرتے ہوئے بیان کیا جا رہا ہے، اور آگے شعیبؑ کا جو انتہائی سبق آموز جواب نقل کیا گیا ہے اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ اے قریش کے لوگو، تم کو بھی محمدؐ کی طرف سے یہی جواب ہے۔

 

اور موسیٰ ؑ کو ہم نے اپنی نشانیوں اور کھُلی کھُلی سَنَدِ ماموریّت کے ساتھفرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کی طرف بھیجا، مگر انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا حکم راستی پر نہ تھا۔قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہو گا اور اپنی پیشوائی میں انہیں دوزخ کی طرف لے جائے گا۔۱۰۴ کیسی بد تر جائے وُرُود ہے یہ جس پر کوئی پہنچے ! اور ان لوگوں پر دُنیا میں بھی لعنت پڑی اور قیامت کے روز بھی پڑے گی۔ کیسا بُرا صِلہ ہے یہ جو کسی کو ملے ! یہ چند بستیوں کی سرگزشت ہے جو ہم تمہیں سُنا رہے ہیں۔ ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے۔ ہم نے اُن پر ظلم نہیں کیا، انہوں نے آپ ہی اپنے اُوپر ستم ڈھایا۔ اور جب اللہ کا حکم آگیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پُکارا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آ سکے اور انہوں نے ہلاکت و بربادی کے سوا انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔اور تیرا ربّ جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہُوا کرتی ہے، فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایک نشانی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو عذابِ آخرت کا خوف کرے۔ ۱۰۵ وہ ایک دن ہو گا جس میں سب لوگ جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اُس روز ہو گا سب کی آنکھوں کے سامنے ہو گا۔ہم اس کے لانے میں کچھ بہت زیادہ تاخیر نہیں کر رہے ہیں، بس ایک گِنی چُنی مُدّت اس کے لیے مقرر ہے۔ جب وہ آئے گا تو کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہو گی، اِلّا یہ کہ خدا کی اجازت سے کچھ عرض کرے۔ ۱۰۶ پھر کچھ لوگ اس روز بد بخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔جو بد بخت ہوں گے وہ دوزخ میں جائیں گے ( جہاں گرمی اور پیاس کی شدت سے ) وہ ہانپیں گے اور پھُنکارے ماریں گے اور اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں ۱۰۷، اِّلا یہ کہ تیرا ربّ کچھ اور چاہے۔ بے شک تیرا ربّ پُورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے کرے۔ ۱۰۸رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے، تو وہ جنّت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں، اِلّا یہ کہ تیرا ربّ کچھ اور چاہے۔ ۱۰۹ ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا۔ پس اے نبی ؐ، تُو ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں نہ رہ جن کی یہ لوگ عبادت کر رہے ہیں۔ یہ تو ( بس لکیر کے فقیر بنے ہوئے ) اُسی طرح پُوجا پاٹ کیے جا رہے ہیں جس طرح پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے، ۱۱۰ اور ہم ان کا حصہ انہیں بھرپور دیں گے بغیر اس کے کہ اس میں کچھ کاٹ کسر ہو۔ ؏ ۹

 

۱۰۴-اس آیت سے اور قرآن مجید کی بعض دوسری تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں کسی قوم یا جماعت کے رہنما ہوتے ہیں وہی قیامت کے روز بھی اس کے رہنما ہوں گے۔ اگر وہ دنیا میں نیکی اور سچائی اور حق کی طرف رہنمائی کرتے ہیں تو جن لوگوں نے یہاں ان کی پیروی کی یے وہ قیامت کے روز بھی انہی کے جھنڈے تلے جمع ہوں گے اور ان کی پیشوائی میں جنت کی طرف جائیں گے۔ اور اگر وہ دنیا میں کسی ضلالت، کسی بد اخلاقی یا کسی ایسی راہ کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں جو دین حق کی راہ نہیں ہے، تو جو لوگ یہاں ان کے پیچھے چل رہے ہیں وہ وہاں بھی ان کے پیچھے ہوں گے اور انہی کی سرکردگی میں جہنم کا رُخ رکیں گے۔ اسی مضمون کی ترجمانی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد میں پائی جاتی ہے کہ امرؤ القیس حامل لواِء شعراء الجاھلیۃ الی النار، یعنی ’’قیامت کے روز جاہلیت کی شاعری کا جھنڈا امرؤالقیس کے ہاتھ میں ہو گا اور عرب جاہلیت کے تمام شعراء اسی کی پیشوائی میں دوزخ کی راہ لیں گے۔ ‘‘ اب یہ منظر ہر شخص کا تخیل اس کی آنکھوں کے سامنے کھینچ سکتا ہے کہ یہ دونوں قسم کے جلوس کس شان سے اپنی منزل مقصود کی طرف جائیں گے ظاہر ہے کہ جن لیڈروں نے دنیا میں لوگوں کو گمراہ کیا اور خلافِ حق راہوں پر چلایا ہے اُن کے پیرو جب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ یہ ظالم ہم کو کس خوفناک انجام کی طرف کھینچ لائے ہیں، تو وہ اپنی ساری مصیبتوں کا ذمہ دار انہی کو سمجھیں گے اور اُن کا جلوس اس شان سے دوزخ کی راہ پر رواں ہو گا کہ آگے آگے وہ ہوں گے او پیچھے پیچھے ان کے پیرووں کا ہجوم ان کو گالیاں دیتا ہوا اور ان پر لعنتوں کی بوچھاڑ کرتا ہوا جا رہا ہو گا۔ بخلاف اس کے جن لوگوں کی رہنمائی نے لوگوں کو جنت نعیم کا مستحق بنایا ہو گا ان کے پیرو اپنا یہ انجام دیکھ کر اپنے لیڈروں کو دعائیں دیتے ہوئے اور ان کی مدح و تحسین کے پھول برساتے ہوئے چلیں گے۔

۱۰۵-یعنی تاریخ کے اِن واقعات میں ایک ایسی نشانی ہے جس پر اگر انسان غور کرے تو اسے یقین آ جائے گا کہ عذاب آخرت ضرور پیش آنے والا ہے اور اس کے متعلق پیغمبروں کی دی ہوئی خبر سچی ہے۔ نیز اسی نشانی سے وہ یہ بھی معلوم کر سکتا ہے کہ عذاب آخرت کیسا سخت ہو گا اور یہ علم اس کے دل میں خوف پیدا کر کے اسے سیدھا کر دیگا۔

اب رہی یہ بات کے تاریخ میں وہ کیا چیز ہے ہو آخرت اور اس کے عذاب کی علامت کہی جا سکتی ہے، تو ہر وہ شخص اسے بآسانی سمجھ سکتا ہے جو تاریخ کو محض واقعات کا مجموعہ ہی نہ سمجھتا ہو بلکہ ان واقعات کی منطق پر بھی کچھ غور کرتا ہو اور ان سے نتائج بھی اخذ کرنے کا عادی ہو۔ ہزارہا برس کی انسانی تاریخ میں قوموں اور جماعتوں کا اٹھنا اور گرنا جس تسلسل اور با ضابطگی کے ساتھ رونما ہوتا رہا ہے، اور پھر اس گرنے اور اٹھنے میں جس طرح صریحاً کچھ اخلاقی اسباب کارفرما رہے ہیں، اور گرنے والی قومیں جیسی جیسی عبرت انگیز صورتوں سے گری ہیں، یہ سب کچھ اس حقیقت کی طرف کھلا اشارہ ہے کہ انسان اس کائنات میں ایک ایسی حکومت کا محکوم ہے جو محض اندھے طبیعاتی قوانین پر فرمانروائی نہیں کر رہی ہے، بلکہ اپنا ایک معقول اخلاقی قانون رکھتی ہے جس کے مطابق وہ اخلاق کی ایک خاص حد سے اوپر رہنے والوں کو جزا دیتی ہے، اس سے نیچے اترنے والوں کو کچھ مدت تک ڈھیل دیتی رہتی ہے، اور جب وہ اس سے بہت زیادہ نیچے چلے جاتے ہیں تو پھر انہیں گر کر ایسا پھینکتی ہے کہ وہ داستان عبرت بن کر رہ جاتے ہیں۔ ان واقعات کا ہمیشہ ایک ترتیب کے ساتھ رونما ہوتے رہنا اس امر میں شبہ کرنے کی زرہ برابر گنجائش نہیں چھوڑتا کہ جزا اور مُکافات اس سلطنتِ کائنات کا ایک مستقل قانون ہے۔

پھر جو عذاب مختلف قوموں پر آئے ہیں اُن پر مزید غور کرنے سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ازروئے انصاف قانونِ جزا و مُکافات کے جو اخلاقی تقاضے ہیں وہ ایک حد تک تو ان عذابوں سے ضرور پورے ہوئے ہیں مگر بہت بڑی حد تک ابھی تشنہ ہیں۔ کیونکہ دنیا میں جو عذاب آیا اس نے صرف اُس نسل کو پکڑا جو عذاب کے وقت موجود تھی۔ رہیں وہ نسلیں جو شرارتوں کے بیج پو کر اور ظلم و بدکاری کی فصلیں تیار کر کے کٹائی سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں اور جن کے کرتوتوں کا خمیازہ بعد کی نسلوں کو بھگتنا پڑا، وہ تو گویا قانون مکافات کے عمل سے صاف ہی بچ نکلی ہیں۔ اب اگر ہم تاریخ کے مطالعہ سے سلطنت کائنات کے مزاج کو ٹھیک ٹھیک سمجھ چکے ہیں تو ہمارا یہ مطالعہ ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ عقل اور انصاف کی رو سے قانون مکافات کے جو اخلاقی تقاضے ابھی تشنہ ہیں، ان کو پورا کرنے کے لیے یہ عادل سلطنت یقیناً پھر ایک دوسرا عالم برپا کرے گی اور وہاں تمام ظالموں کو ان کے کرتوتوں کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ بدلہ اِن دنیا کے عذابوں سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۳۰ و سورۂ ہونس، حاشیہ نمبر ۱۰)

۱۰۶-یعنی یہ بے وقوف لوگ اپنی جگہ اس بھروسے میں ہیں کہ فلاں حضرت ہماری سفارش کر کے ہمیں بچالیں گے، فلاں بزرگ اَڑ کر بیٹھ جائیں گے اور اپنے ایک ایک متوسل کو بخشوائے بغیر نہ مانیں گے، فلاں صاحب جو اللہ میاں کے چہیتے ہیں جنت کے راستے میں مچل بیٹھیں گے اور اپنے دامن گرفتوں کی بخشش کا پروانہ لے کر ہی ٹلیں گے۔ حالانکہ اَڑنا اور مچلنا کیسا، اُس پُر جلال عدالت میں تو کسی بڑے سے بڑے انسان اور کسی معزّز سے معزّز فرشتے کو بھی مجال دم زدن تک نہ ہو گی اور اگر کوئی کچھ کہہ بھی سکے گا تو اُس وقت جبکہ احکم الحاکمین خود اسے کچھ عرض کرنے کی اجازت دیدے، پس جو لوگ یہ سمجھتے ہوئے غیر اللہ کے آستانوں پر نذریں اور نیاز چڑھا رہے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں بڑا اثر اور رسوخ رکھتے ہیں، اور اُن کی سفارش کی بھروسے پر اپنے نامۂ اعمال سیاہ کئے جا رہے ہیں، ان کو وہاں سخت مایوسی سے دوچار ہونا پڑے گا۔

۱۰۷- ان الفاظ سے یا تو عالمِ آخرت کے زمین و آسمان مراد ہیں، یا پھر محض محاورے کے طور پر ان کو دوام اور ہمیشگی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ بہر حال موجودہ زمین و آسمان تو مراد نہیں ہو سکتے کیونکہ قرآن کے بیان کی رو سے یہ قیامت کے روز بدل ڈالے جائیں گے اور یہاں جن واقعات کا ذکر ہو رہا ہے وہ قیامت کے بعد پیش آنے والے ہیں۔

۱۰۸-یعنی کوئی اور طاقت تو ایسی ہے ہی نہیں جو ان لوگوں کو اس دائمی عذاب سے بچا سکے۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ خود ہی کسی کے انجام کو بدلنا چاہے یا کسی کو ہمیشگی کا عذاب دینے کے بجائے ایک مدّت تک عذاب دے کر معاف کر دینے کا فیصلہ فرمائے تو اسے ایسا کرنے کا پورا اختیار ہے، کیونکہ اپنے قانون کا وہ خود ہی واضع ہے، کوئی بالاتر قانون ایسا نہیں ہے جو اس کے اختیارات کو محدود کرتا ہو۔

۱۰۹-یعنی ان کا جنت میں ٹھیرنا بھی کسی ایسے بالاتر قانون پر مبنی نہیں ہے جس نے اللہ کو ایسا کرنے پر مجبور کر رکھا ہو۔ بلکہ یہ سراسر اللہ کی عنایت ہو گی کہ وہ ان کو وہاں رکھے گا۔ اگر وہ ان کی قسمت بھی بدلنا چاہے تو اسے بدلنے کو پورا اختیار حاصل ہے۔

۱۱۰-اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم واقعی ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں تھے، بلکہ دراصل یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے عامۃ الناس کو سنائی جا رہی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کسی مرد معقول کو اس شک میں نہ رہنا چاہیے کہ یہ لوگ جو ان معبودوں کی پرستش کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے میں لگے ہوئے ہیں تو آخر کچھ تو انہوں نے دیکھا ہو گا جس کی وجہ سے یہ ان سے نفع کو امیدیں رکھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ پرستش اور نذریں اور نیازیں اور دعائیں کسی علم، کسی تجربے اور کسی حقیقی مشاہدے کی بنا پر نہیں ہیں، بلکہ یہ سب کچھ نری اندھی تقلید کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ آخر یہی آستانے پچھلی قوموں کے ہاں بھی تو موجود تھے۔ اور ایسی ہی ان کی کرامتیں ان میں بھی مشہور تھیں۔ مگر جب خدا کا عذاب آیا تو وہ تباہ ہو گئیں اور یہ آستانے یونہی دھرے کے دھرے رہ گئے۔

 

ہم اِس سے پہلے موسیٰ ؑ کو بھی کتا ب دے چکے ہیں اور اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا تھا( جس طرح آج اِس کتاب کے بارے میں کیا جا رہا ہے جو تمہیں دی گئی ہے ۱۱۱)۔ اگر تیرے ربّ کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کر دی گئی ہوتی تو اِن اختلاف کرنے والوں کے درمیان کبھی کا فیصلہ چُکا دیا گیا ہوتا۔۱۱۲ یہ واقعہ ہے کہ یہ لوگ اِ س کی طرف سے شک اور خلجان میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا ربّ انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا، یقیناً وہ ان کی سب حرکتوں سے باخبر ہے۔ پس اے محمد ؐ، تم، اور تمہارے وہ ساتھی جو ( کُفر و بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں، ٹھیک ٹھیک راہِ راست پر ثابت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ اور بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرو۔ جو کچھ تم کر رہے ہو اس پر تمھارا رب نگاہ رکھتا ہے۔ ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آ جاؤ گے اور تمھیں کوئی ایسا ولی اور سر پرست نہ ملے گا جو خدا سے تمھیں نہ بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچ سکے گی۔اور دیکھو، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔۱۱۳ در حقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لئے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔۱۱۴اور صبر کر، اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔پھر کیوں نہ اُن قوموں میں جو تم سے پہلے گُزر چکی ہیں ایسے اہلِ خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے ؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا، ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے۔ تیرا ربّ ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔۱۱۵بے شک تیرا ربّ اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے ربّ کی رحمت ہے۔ اِسی (آزادیِ  انتخاب و اختیار) کے لیے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا۔۱۱۶ اور تیرے ربّ کی وہ بات پوری ہو گئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنّم کو جِن اور انسانوں سے بھر دوں گا۔اور اے محمد ؐ، یہ پیغمبروں کے قصے جو ہم تمہیں سُناتے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبُوط کرتے ہیں۔ ان کے اندر تم کو حقیقت کا علم مِلا اور ایمان لانے والوں کو نصیحت اور بیداری نصیب ہوئی۔رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے، تو ان سے کہہ دو کہ تم اپنے طریقے پر کام کرتے رہو اور ہم اپنے طریقے پر کیے جاتے ہیں،انجامِ کار کا تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی منتظر ہیں
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ چھُپا ہوا ہے سب اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے اور سارا معاملہ اسی کی طرف رُجوع کیا جاتا ہے۔ پس اے نبی ؐ، تُو اُسی کی بندگی کر اور اُسی پر بھروسا رکھ، جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو تیرا ربّ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ ۱۱۷ ؏ ١۰
 

۱۱۱-یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آج اس قرآن کے بارے میں مختلف لوگ مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کر رہے ہیں، بلکہ اس سے پہلے جب موسیٰ کو کتاب دی گئی تھی تو اس کے بارے میں بھی ایسی ہی مختلف رائے زنیاں کی گئی تھیں، لہٰذا اے محمدؐ، تم یہ دیکھ کر بد دل اور شکستہ خاطر نہ ہو کہ ایسی سیدھی سیدھی اور صاف باتیں قرآن میں پیش کی جا رہی ہیں اور پھر بھی لوگ ان کو قبول نہیں کرتے۔

۱۱۲-یہ فقرہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کو مطمئن کرنے اور صبر دلانے کے لیے فرمایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم اس بات کے لیے بے چین نہ ہو کہ جو لوگ اس قرآن کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ان کا فیصلہ جلدی سے چکا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ طے کر چکا ہے کہ فیصلہ وقت مقرر سے پہلے نہ کیا جائے گا، اور یہ کہ دنیا کے لوگ فیصلہ چاہنے میں جو جلد بازی کرتے ہیں، اللہ فیصلہ کر دینے میں وہ جلد بازی نہ کرے گا۔

۱۱۳-دن کے دونوں سروں پر سے مراد صبح اور مغرب ہے، اور کچھ رات گزرنے پر سے مراد عشا کا وقت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ارشاد اس زمانے کا ہے جب نماز کے لیے ابھی پانچ وقت مقرر نہیں کیے گئے تھے۔ معراج کا واقعہ اس کے بعد پیش آیا جس میں پنج وقتہ نماز فرض ہوئی۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو بنی اسرائیل حاشیہ ۹۵ - طہٰ حاشیہ ۱۱۱ - الروم حاشیہ ۱۲۴)

۱۱۴-یعنی جو برائیاں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور جو برائیاں تمہارے ساتھ اس دعوت حق کی دشمنی میں کی جا رہی ہیں، ان سب کو دفع کرنے کا اصلی طریقہ یہ ہے کہ تم خود زیادہ سے ایادہ نیک بنو اور اپنی نیکی سے اِس بدی کو شکست دو، اور تم کو نیک بنانے کا بہترین ذریعہ نماز ہے جو خدا کی یاد کو تازہ کرتی رہے گی اور اس کی طاقت سے تم، بدی کے اِس منظّم طوفان کا نہ صرف مقابلہ کر سکو گے بلکہ اسے رفع کر کے دنیا میں عملاً خیر و صلاح کا نظام بھی قائم کر سکو گے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو العنکبوت حواشی ۷۷ تا ۷۹)۔

۱۱۵-ان آیات میں نہایت سبق آموز طریقے سے ان قوموں کی تباہی کے اصل سبب پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کی تاریخ پچھلے چھ رکوعوں میں بیان ہوئی ہے۔ اس تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جاتا ہے کہ صرف انہی قوموں کو نہیں، بلکہ پچھلی انسانی تاریخ میں جتنی قومیں بھی تباہ ہوئی ہیں ان سب کو جس چیز نے گرایا وہ یہ بھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں سرفراز کیا تو وہ خوشحالی کے نشے میں مست ہو کر زمیں میں فساد برپا کرنے لگیں اور ان کا اجتماعی خمیر اس درجہ بگڑ گیا کہ یا تو ان کے اندر ایسے نیک لوگ باقی رہے ہی نہیں جو ان کو برائیوں سے روکتے، یا اگر کچھ لوگ ایسے نکلے بھی تو وہ اتنے کم تھے اور ان کی آواز اتنی کمزور تھی کہ ان کے روکنے سے فساد نہ رک سکا۔ یہی چیز ہے جس کی بدولت آخرکار یہ قوتیں اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہوئیں، ورنہ اللہ کو اپنے بندوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ وہ تو بھلے کام کر رہے ہوں اور اللہ ان کی خواہ مخواہ عذاب میں مبتلا کر دے۔ اس ارشاد سے یہاں تین باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں:۔

ایک یہ کہ ہر اجتماعی نظام میں ایسے نیک لوگوں کا موجود رہنا ضروری ہے جو خیر کی دعوت دینے والے اور شر سے روکنے والے ہوں۔ اس لیے کہ خیر ہی وہ چیز ہے جو اصل میں اللہ کو مطلوب ہے، اور لوگوں کے شرور کو اگر اللہ برداشت کرتا بھی ہے، تو اس خیر کی خاطر کرتا ہے جو ان کے اندر موجود ہو، اور اُسی وقت تک کرتا ہے جب تک ان کے اندر خیر کا کچھ امکان باقی رہے۔ مگر جب کوئی انسانی گروہ اہل خیر سے خالی ہو جائے اور اس میں صرف شریر لوگ ہی باقی رہ جائیں، یا اہل خیر موجود ہوں بھی تو کوئی ان کی سن کر نہ دے اور پوری قوم کی قوم اخلاقی فساد کی راہ پر بڑھتی چلی جائے، تو پھر خدا کا عذاب اس کے سر پر اس طرح منڈلانے لگتا ہے جیسے پورے دنوں کی حاملہ کہ کچھ نہیں کہہ سکتے کب اس کا وضع حمل ہو جائے۔

دوسرے یہ کہ جو قوم اپنے درمیان سب کچھ برداشت کرتی ہو مگر صرف اُنہی چند گنے چنے لوگوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو جو اسے برائیوں سے روکتے اور بھلائیوں کی دعوت دیتے ہوں، تو سمجھ لو کہ اس کے برے دن قریب آ گئے ہیں، کیونکہ اب وہ خود اپنی جان کی دشمن ہو گئی ہے۔ اسے وہ سب چیزیں تو محبوب ہیں جو اس کی ہلاکت کی موجب ہیں اور صرف وہی ایک چیز گوارا نہیں ہے جو اس کی زندگی کی ضامن ہے۔

تیسرے یہ کہ ایک قوم کے مبتلائے عذاب ہونے یا نہ ہونے کا آخری فیصلہ جس چیز پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں دعوت خیر پر لبیک کہنے والے عناصر کس حد تک موجود ہیں۔ اگر اس کے اندر ایسے افراد اتنی تعداد میں نکل آئیں جو فساد کو مٹانے اور نظام صالح کو قائم کرنے کے لیے کافی ہو تو اس پر عذاب عام نہیں بھیجا جاتا بلکہ ان صالح عناصر کو اصلاح حال کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن پیہم سعی و جہد کے باوجود اس میں سے اتنے آدمی نہیں نکلتے جو اصلاح کے لیے کافی ہو سکیں، اور وہ قوم اپنی گود سے چند ہیرے پھینک دینے کے بعد اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیتی ہے کہ اب اس کے پاس کوئے ہی کوئلے باقی رہ گئے ہیں، تو پھر زیادہ دیر نہیں لگتی کہ وہ بھٹی سلگا دی جاتی ہے جو ان کوئلوں کو پھونک کر رکھ دے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الزاریات، حاشیہ ۳۴)۔

۱۱۶-یہ ایک تشبیہ کا جواب ہے جو بالعموم ایسے مواقع پر تقدیر کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔ اوپر اقوام گزشتہ کی تباہی کا جو سبب بیان کیا گیا ہے اس پر یہ اعتراض کیا جا سکتا تھا کہ ان میں اہل خیر کا موجود نہ رہنا یا بہت کم پایا جانا بھی تو آخر اللہ کی مشیت ہی سے تھا، پھر اس کا الزام ان قوموں پر کیوں رکھا جائے ؟ کیوں نہ اللہ نے ان کے اندر بہت سے اہل خیر پیدا کر دیے ؟ اس کے جواب میں یہ حقیقت حال صاف صاف بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ کی مشیت انسان کے بارے میں یہ ہے ہی نہیں کہ حیوانات اوار نباتات اور ایسی ہی دوسری مخلوقات کی طرح اُس کو بھی جِبلی طور پر ایک لگے بندھے راستے کا پابند بنا دیا جائے جس سے ہٹ کر وہ چل ہی نہ سکے۔ اگر یہ اس کی مشیت ہوتی تو پھر دعوتِ ایمان، بعثتِ انبیاء اور تنزیلِ کتب کی ضرورت ہی کیا تھی، سارے انسان مسلم و مومن ہی پیدا ہوتے اور کفر و عصیان کا سرے سے کوئی امکان ہی نہ ہوتا۔ لیکن اللہ نے انسان کے بارے میں جو مشیت فرمائی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ اس کو انتخاب و اختیار کی آزادی بخشی جائے، اسے اپنی پسند کے مطابق مختلف راہوں پر چلنے کی قدرت دی جائے، اس کے سامنے جنت اور دوزخ دونوں کی راہیں کھول دی جائیں اور پھر ہر انسان اور ہر انسانی گروہ کو موقع دیا جائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کو بھی اپنے لیے پسند کرے اس پر چل سکے تاکہ ہر ایک جو کچھ بھی پائے اپنی سعی اور کسب کے نتیجہ میں پائے۔ پس جب وہ اسکیم جس کے تحت انسان پیدا کیا گیا ہے، آزادیِ انتخاب اور اختیاری کفر و ایمان کے اصول پر مبنی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی قوم خود تو بڑھنا چاہے بدی کی راہ پر اور اللہ زبردستی اس کو خیر کی راہ پر موڑ دے۔ کوئی قوم خود اپنے انتخاب سے تو انسان سازی کا وہ کارخانہ بنائے جو ایک سے ایک بڑھ کر بدکار اور ظالم اور فاسق آدمی ڈھال ڈھال کر نکالیں، اور اللہ اپنی براہ راست مداخلت سے اس کو وہ پیدائشی نیک انسان مہیا کر دے جو اس کے بگڑے ہوئے سانچوں کو ٹھیک کر دیں۔ اس قسم کی مداخلت خدا کے دستور میں نہیں ہے۔ نیک ہو یا بد، دونوں قسم کے آدمی ہر قوم کو خود ہی مہیا کرنے ہوں گے۔ جو قوم بحیثیت مجموعی بدی کی راہ کو پسند کرے گی، جس میں سے کوئی معتدبہ گروہ ایسا نہ اُٹھے گا جو نیکی کا جھنڈا بلند کرے، اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں اس امر کی گنجائش ہی نہ چھوڑی ہو گی کہ اصلاح کی کوششیں اس کے اندر پھل پھول سکیں، خدا کو کیا پڑی ہے کہ اس کو بزور نیک بنائے۔ وہ تو اس کو اسی انجام کی طرف دھکیل دے گا جو اس نے خود اپنے لیے انتخاب کیا ہے۔ البتہ خدا کی رحمت کی مستحق اگر کوئی قوم ہو سکتی ہے تو صرف وہ جس میں بہت سے افراد ایسے نکلیں جو خود دعوت خیر کو لبیک کہنے والے ہوں اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں یہ صلاحیت باقی رہنے دی ہو کہ اصلاح کی کوشش کرنے والے اس کے اندر کام کر سکیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، حاشیہ ۲۴)۔

۱۱۷-یعنی کفر و اسلام کی اس کشمکش کے دونوں فریق جو کچھ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کی نگاہ میں ہے۔ اللہ کی سلطنت کوئی اندھیر نگری چوپٹ راجہ کہ مصداق نہیں ہے کہ اس میں خواہ کچھ ہی ہوتا رہے شِہ بے خبر کو اس سے کچھ سروکار نہ ہو۔ یہاں حکمت اور بردباری کی بنا پر دیر تو ضرور ہے مگر اندھیر نہیں ہے۔ جو لوگ اصلاح کی کوشش کر رہے ہیں وہ یقین رکھیں کہ ان کی محنتیں ضائع نہ ہوں گی۔ اور وہ لوگ بھی جو فساد کرنے اور اسے بپا رکھنے میں لگے ہوئے ہیں، جو اصلاح کی سعی کرنے والوں پر ظلم و ستم توڑ رہے ہیں، اور جنہوں نے اپنا سارا زور اس کوشش میں لگا رکھا ہے کہ اصلاح کا یہ کام کسی طرح چل نہ سکے، انہیں بھی خبردار رہنا چاہیے کہ ان کے یہ سارے کرتوت اللہ کے علم میں ہیں اور ان کی پاداش انہیں ضرور بھگتنی پڑے گی۔