تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ هُود

ابو یعلی میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ آپ بوڑھے سے ہو گئے؟ فرمایا مجھے سورہ ہود، سورہ واقعہ، سورہ عم، اور سورہ کورت نے بوڑھا کر دیا۔ ترمذی کی اس حدیث میں سورہ ہود، سورہ واقع، سورہ والمرسلات، سورہ النباء اور سورہ اذا الشمس کورت کا ذکر ہے۔ ایک روایت میں ہے سورہ ہود اور اس جیسی اور سورتوں نے مجھے بوڑھا کر دیا۔ بطرانی میں ہے مجھے سورہ ہود نے اور اس جیسی سورتوں مثلاً واقعہ الحاقہ، اذا الشمس کورت نے بوڑھا کر دیا۔ ایک روایت میں حضرت صدی قاکبر رضی اللہ عالیٰ عنہ کے اس سوال کے جواب میں آپ کا صرف دو سورتوں کا کر کرنا ہی مروی ہے۔ سورہ ہود اور سورہ واقعہ

 

۱

تعارف قرآن حکیم

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو حروف سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفصیل اس تفسیر کے شروع میں سورہ بقرہ کے ان حروف کے بیان میں گز چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں فرمان ہے کہ یہ قرآن لفظوں میں محکم اور معنی میں مفصل ہے۔ پس مضمون اور معنی ہر طرح سے کام ہے۔ یہ اس للہ کا کلام ہے جو اپنے اقوال و احکام میں حکیم ہے۔ جو کاموں کے انجام سے خبردار ہے۔ یہ قرآن اللہ کی عبادت کرانے اور دوسروں کی عبادت سے روکنے کے لیے اترا ہے۔ سب رسولوں صلی اللہ علیہ و سلم پر پہلی وحی توحید کی آتی رہی ہے۔ سب سے یہی فرمایا گیا ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں۔ اس کے سوا اور کسی کی پرستش نہ کریں۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی مخالفت کی وجہ سے جو عذاب آ جاتے ہیں ان سے میں ڈرا رہا اور اس کی اطاعت کی بنا پر جو ثواب ملتے ہیں، ان کی میں بشارت سناتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کے خاندانوں کو آواز دیتے ہیں۔ زیادہ قریب والے پہلے، پھر ترتیب وار جب سے جمع ہو جاتے ہیں تو آپ ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ اگر میں تم سے کہوں کہ کوئی لشکر صبح کو تم پر دھاوا کرنے والا ہے تو کیا تم تم مجھے سچا سمجھو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے آج تک آپ کی زبان سے کوئی جھوٹ سنا ہی نہیں۔ آپ نے فرمایا سنو میں تم سے کہتا ہوں کہ قیامت کے دن تہاری ان بد اعمالیوں کی وجہ سے سخت تر عذاب ہو گا۔ پس تم ان سے ہوشیار ہو جائے۔

 پھر ارشاد ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم یہ بھی کہہ دو کہ میں تمہیں اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ کرنے اور آئندہ کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اگر تم بھی ایسا ہی کرتے رہے تو دنیا میں بھی اچھی زندگی بسر کرو گے اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی بڑے بلند درجے عنایت فرمائے گا۔ قرآن کریم نے آیت من عمل صالحا من ذکر اونثی میں فرمایا ہے کہ جو مرد و عورت ایمان دار ہو کر نیک عمل بھی کرتا رہے، اسے ہم پاکیزہ زندگی سے زندہ رکھیں گے۔ صحیح حدیث میں بھی ہے۔ حضور صل اللہ علیہ و سلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اللہ کی رضامندی کی تلاش میں تو جو کچھ بھی خرچ کرے گا اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے پائے گا، یہاں تک کہ جو لقمہ تو اپنی بیوی کے منہ میں دے اس کا بھی۔ فضل والوں کو اللہ تعالیٰ فضل دے گا۔ یعنی گناہ تو برابر لکھا جاتا ہے اور نیکی دس گناہ لکھی جاتی ہے پھر اگر گناہ کی سزا دنیا میں ہی ہو گئی تو نیکیاں جوں کی توں باقی رہیں۔ اور اگر یہاں اس کی سزا نہ ملی تو زیادہ سے زیادہ ایک نیکی اس کے مقابل جا کر بھی نو نیکیاں بچ رہیں۔ پھر جس کی اکائیاں دہائیوں پر غالب آ جائیں وہ تو واقعی خود ہی بد اور برا ہے۔ پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے جو اللہ کے احکام کی رو گردانی کر لیں اور رسولوں کی نہ مانیں کہ ایسے لوگوں کو ضرور ضرور قیامت کے دن سخت عذاب ہو گا۔ تم سب کو لوٹ کر مالک ہی کے پاس جانا ہے، اسی کے سامنے جمع ہونا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے، اپنے دوستوں سے احسان اپنے دشمنوں سے انتقام، مخلوق کی نائی پیدائش، سب اس کے قبضے میں ہے۔ پس پہلے رغبت دلائی اور اب ڈرایا۔

 

۵

اندھیروں کی چادروں میں موجود ہر چیز کو دیکھتا ہے

آسمان کی طرف اپنی شرم گاہ کا رخ کرنا وہ مکروہ جانتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قرآت میں تثنونی ہے۔ مجامعت کے وقت اور تنہائی میں وہ عریانی سے حجاب کرتے تھے کہ پاخانہ کے وقت آسمان  تلے ننگے ہوں یا مجامعت اس حالت میں۔ وہ اپنے سروں کو ڈھانپ لیتے اور یہ بھی مراد ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں شک کرتے تھے اور کام برائی کے کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ برے کام یا برے عمل کے وقت وہ جھک جھک کر اپنے سینے دوہرے کر ڈالتے گویا کہ وہ سے شرما رہے ہیں۔ اور اس سے چھپ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ راتوں کو کپڑے اوڑھے ہوئے بھی جو تم کرتے ہو،  اس سے بھی اللہ تو خبردار ہے۔ جو چھپاؤ جو کھولو، جو دلوں اور سینوں میں رکھو، وہ سب کو جانتا ہے، دل کے بھید سینے کے راز اور ایک پوشیدگی اس پر ظاہر ہے۔ زہیر بن ابو سلمہ اپنے مشہور متعلق میں کہتا ہے کہ تمہارے دلوں کی کوئی بات اللہ تعالیٰ پر چھی ہوئی نہیں، تم گو کسی خیال میں ہو لیکن یاد رکھو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ممکن ہے کہ تہارے بد خیالات پر وہ تمہیں یہیں سزا کرے اور ہو سکتا ہے کہ وہ نامہ اعمال میں لکھ لیے جائیں اور قیامت کے دن پیش کئے جائیں یہ جاہلیت کا شاعر ہے۔ اسے اللہ کا، اس کے کام علم کا قیامت کا اور اس دن کی جزا سزا کا، اعمال نامے کا اور قیامت کے دن اس کے پیش ہونے کا قرار ہے۔ اس آیت کا یک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ جب رسول مقبول صل اللہ علیہ و علیہ و سلم کے پاس سے گزرتے تو سینہ موڑ لیتے اور سا ڈھانپ لیتے۔ آیت میں لیستخفو منہ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ سے چھپنا چاہتے ہیں یہی اولیٰ ہے کیونکہ اسی کے بعد ہے کہ جب یہ لوگ سوتے وقت کپڑے اوڑھ لیتے ہیں اسی وقت بھی اللہ تعالیٰ کو ان کے تمام افعال کا جو وہ چھپ کر کریں اور جو ظاہر کریں علم ہوتا ہے۔ حضرت اب عباس کی قرات میں الا انھم تشنونی صدورھم ہے۔ اس قرات پر بھی معنی تقریباً یکساں ہیں۔

 

۶

ہر مخلوق کا روزی رساں

ہر ایک چھوٹی بڑی، کشکی تری کی مخلوق کا روزی رساں ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہی ان کے چلنے پھرنے آنے جانے، رہنے سہنے، مرنے جینے اور ماں کے رحم میں قرار پکڑنے اور باپ کی پیٹھ کی جگہ کو جانتا ہے۔ امام بن ابی حاتم نے اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام کے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں اللہ علم ہے۔ یہ تمام باتیں اللہ کے پاس کی واضح کتاب میں لکھی ہوئی ہیں جسے فرمان ہے ومان من دابتۃ فی الرض ولا طائر یطیر بجناحیہ الاامم امثالکم الخ، یعنی زمین پر چلنے والے جانور اور اپنے پروں پر اڑنے والے پرند سب کے سب تم جیسی ہی امتیں ہیں، ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی، پھر سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف جمع کئے جائیں گے۔ اور فرمان ہے وعندہ مفتاح الغیب الخ، یعنی غیب کی کنجیاں اسی اللہ کے پاس ہیں۔ انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ خشکی تری کی تمام چیزوں کا اسے علم ہے جو پتہ جھڑتا ہے اس کے علم میں ہے کوئی دانہ زمین کے اندھیروں میں اور کوئی ترو خشک چیز ایسی نہیں جو واضح کتاب میں نہ ہو

 

۷

مخلوق کی ابتدا تو ہمیں سنائے کہ کس طرح ہوئی؟

آپ نے فرمایا سب سے پہلے اللہ تھا۔ اس کا عرش پانی کے اوپر تھا۔ اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز کا تذکرہ لکھا۔ راوی حدیث حضرت عمران کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اتنا ہی فرمایا تھا جو کسی نے آن کر مجھے خبر دی کہ تیری اونٹنی زانو کھلوا کر بھاگ گئی، میں اسے ڈھونڈنے چلا گیا۔ پھر مجھے نہیں معلوم کہ کیا بات ہوئی؟ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے۔ ایک روایت میں ہے اللہ تھا اور اس سے پہلے کچھ نہ تھا۔ ایک روایت میں ہے اس کے ساتھ کچھ نہ تھا۔ اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس نے ہر چیز کا تذکرہ لکھا۔ پھر آسمان و زمین کو پید اکیا۔ مسلم کی حدیث میں ہے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا۔ صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر کے موقع پر ایک قدسی حدیث لائے ہیں کہ اے انسان تو میری راہ میں خرچ کر میں تجھے دوں گا اور فرمایا اللہ کا ہاتھ اوپر ہے۔ دن رات کا خرچ اس میں کوئی کمی نہیں لاتا۔ خیال تو کرو کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے اب تک کتنا کچھ خرچ کیا ہو گا لیکن اس کے داہنے ہاتھ میں جو تھا وہ کم نہیں ہوتا اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس کے ہاتھ میں میزان ہے جھکاتا ہے اور اونچا کرتا ہے مسند میں ہے ابورزین لقیط بن عامر بن متفق عقیلی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ مخلوق پیدائش کرنے سے پہلے ہمارا پروردگار کہاں تھا؟ آپ نے فرمایا عما میں نیچے بھی ہوا اور اوپر بھی ہوا پھر عرش کو اس کے بعد پیدا کیا۔ یہ رویت ترمذی کتاب التفسیر میں بھی ہے۔ سنن ابن ماجہ میں بھی ہے۔ امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ کسی چیز کو پیدا کرنے سے پہلے عرش الٰہی پانی پر تھا۔ وھب ضمرہ، قتادہ، ابن جریر وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں۔ قتادہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے ابتداء مخلوق کس طرح ہوئی۔ ربیع بن انس کہتے ہیں کہ اس کا عرش پانی پر تھا۔ جب آسمان و زمین کو پیدا کیا تو اس پانی کے دو حصے کر دیئے۔ نصف عرش کے نیچے یہی بحر مسجود ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں بوجہ بلندی کے عرش کو عرش کہا جاتا ہے۔ سعد طائی فرماتے ہیں کہ عرش سرخ یاقوت کا ہے۔ محمد اسحاق فرماتے ہیں اللہ اسی طرح تھا جس طرح اس نے اپنے نفس کریم کا وصف کیا۔ اس لیے کہ کچھ نہ تھا، پانی تھا، اس پر عرش تھا، عرش پر ذوالجلال و الاکرام ذوالعزت والسلطان ذولاملک و ققدرہ ذوالعلم وارحمۃ والنعمہ تھا جو جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔ ابن عباس سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا کہ پانی کس چیز پر تھا؟ آپ نے فرمایا ہوا کی پیٹھ پر۔ پھر فرماتا ہے۔ آسمان و زمین کی پیدائش تمہارے نفع کے لیے ہے اور تم اس لیے ہو کہ اسی ایک خالق کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ یاد رکھ تم بے کار پیدا نہیں کئے گئے۔ آسمان و زمین اور ان کے درمیان چیزیں باطل پیدا نہیں کیں یہ گمان تو کافروں کا ہے اور کافروں کے لیے آگ کا عذاب اور آیت میں ہے۔ افحسبتم انما خلقنکم عبثا الخ، کیا تم یہ سمجھ بیٹے ہو کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہ جاؤ گے؟ اللہ جو سچا مالک ہے وہی حق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش کریم کا رب ہے اور آیت میں ہے انسانوں اور جنوں کو میں نے صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے وہ تمہیں آزما رہے ہیں کہ تم میں سے اچھے عمل والے کون ہیں؟ یہ نہیں فرمایا کہ زیادہ عمل والے کون ہیںَ؟ اس لیے کہ عمل حسن وہ ہوتا ہے جس میں خلص ہو اور شریعت محمدیہ کی تابعداری ہو۔ ان دونوں باتوں میں سے اگر ایک بھی نہ ہو تو وہ عمل بے کار اور غارت ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اگر آپ انہیں کہیں کہ تم مرنے کے بعد زندہ کئے جاؤ گے جس اللہ نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی پیدا کرے گا تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم اسے نہیں مانتے حالانکہ قائل بھی ہیں کہ زمین آسمان کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ شروع جس پر گراں نہ گزار۔ اس پر دوبارہ کی پیدائش کیسے گراں گزرے گی؟ یہ تو بہ نسبت اول مرتبہ کے بہت ہی آسمان ہے۔ فرمان الٰہی ہے وھوالذی یبداء الخلق ثم یعیدہ وھوا اھون علیہ اسی نے پہلی پیدائش شروع میں کی وہی دوبارہ پیدائش کرے گا اور یہ تو اس پر نہایت ہی آسان ہے اور آیت میں ہے کہ تم سب کا بنانا اور مار کر زندہ کرنا مجھ پر ایسا ہی ہے جیسا ایک کا۔ لیکن یہ لوگ اسے نہیں مانتے تھے اور اسے کھلے جادو سے تعبیر کتے تھے۔ کفر و عباد سے اس قول کو جادو کا اثر خیال کرتے۔

 پھر فرماتا ہے کہ اگر ہم عذاب و پکڑ کو ان سے کچھ مقرر مدت تک کے لیے موخر کر دیں تو یہ اس کو نہ آنے والا جان کر جلدی کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ عذاب ہم سے موخر کیوں ہو گئے؟ ان کے دل میں کفر و شرک اس طرح بیٹھ گیا ہے کہ اس سے چھٹکارا ہی نہیں ملتا۔ امت کا لفظ قرآن و حدیث میں کئی ایک معنی میں مستعمل ہے۔ اس سے مراد مدت بھی ہے اس آیت اور آیت واذکر بعد امتہ جو سورۃ یوسف میں ہے یہی معنی ہیں۔ امام و مقتدی کے معنی میں بی یہ لفظ آیا ہے۔ جیسے جیسے حضرت ابراہیم کے بارے میں امتہ قانتا الخ آیا ہے۔ ملت اور دین کے بارے میں بھی یہی لفظ آتا ہے جیسے مشرکوں کا قول انا وجدنا اباء نا علی امتہ ہے جماعت کے معنی میں بھی آتا ہے وجد علیہ امتہ الی آیت میں او آیت ولقد بعثنا فی کلی امت میں اور آیت ولکل امتہ رسول میں ان آیتوں میں امت سے مراد کافر مومن سب اُمتی ہیں۔ جیسے مسلم کی حدیث ہے ہاں تاگدار اُم وہ ہے جو رسولں کو مانے جیسے کنتم خیر اُمت والی آیت میں۔ صحیح حدیث میں ہے میں کہوں گا اُمت اُمتی اسی طرح امت کا لفظ فرقے اور گروہ کے لیے بھی مستعمل ہوتا ہے جیسے آیت ومن قوم موسیٰ امتہ الخ، اور جیسے آیت و من اھل الکتاب امۃ قائمۃ الا یہ میں۔

 

۱۲

انسان کا نفسیاتی تجزیہ

سوائے کامل ایمان والوں کے عموماً لوگوں میں جو برائیاں ہیں کا بیان ہو رہا ہے کہ راحت کے بعد کی سختی پر مایوس اور محض نا اُمید ہو جاتے ہیں اللہ سے بد گمانی کر کے آئندہ کے لیے بھلائی کو بھول بیٹھتے ہیں گویا کہ نہ کبھی اس سے پہلے کوئی آرام اُٹھایا تھا نہ اس کے بعد کسی راحت کی توقع ہے۔ یہی حال اس کے برخلاف بھی ہے اگر سختی کے بعد آسانی ہو گئی تو کہنے لگتے ہیں کہ بس اب برا وقت ٹل گیا۔ اپنی راحت اپنی تن آسانیوں پر مست و بے فکر ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کا استہزا کرنے لگتے ہیں۔ اکڑ فوں میں پڑ جاتے ہیں اور آئندہ کی سختی کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں۔ ہاں ایماندار اس بری خصلت سے محفوظ رہتے ہیں، وہ دکھ درد میں صبر استقامت سے کام لیتے ہیں راحت و آرام میں اللہ کی فرمان برداری کرتے ہیں۔ یہ صبر پر مغفرت اور نیکی پر ثواب پاتے ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔ اُس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے کہ مومن کو کوئی سختی کوئی مصیبت کوئی دکھ، کوئی غم ایسا نہیں پہنا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی خطائیں معاف نہ فرماتا ہو، یہاں تک کہ کانٹا لگنے پر بھی۔ بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ سراسر بہتر ہے۔ یہ راحت پاکر شکر کرتا ہے اور بھلائی سمیٹتا ہے۔ تکلیف اُٹھا کر صبر کرتا ہے، نیکی پاتا ہے اور ایسا حال مومن کے سوا اور کسی کا نہیں ہو۔ اسی کا بیان سورہ العصر میں ہے۔ یعنی عصر کے وقت کی قسم تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کریں اور ایک دوسرے کو دین حق کی اور صبر کی ہدایت کرتے رہیں یہی بیان آیت ان الانسان خلق ھلوعا الخ میں ہے۔

 

۱۲

کافروں کی تنقید کی پراہ نہ کریں

کافروں کی زبان پر جو آتا وہی طعنہ بازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کرتے ہیں اسلیے اللہ تعالیٰ اپنے سچے پیغمبر کو دلاسا اور تسلی دیتا ہے کہ آپ نہ اس سے کام میں سستی کریں، نہ تنگ دل ہوں یہ تو ان کا شیوہ ہے۔ کبھی وہ کہتے ہیں اگر یہ رسول ہے تو کھانے پینے کا محتاج کیوں ہے؟ بازاروں میں کیوں آتا جاتا ہے؟ اس کی ہم نوائی میں کوئی فرشتہ کیوں اتر؟ اسے کوئی خزانہ کیوں نہیں دیا گیا؟ اس کے کھانے کو کوئی خاص باغ کیوں نہیں بیایا گیا؟ مسلمانوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ تم تو اس کے پیچھے چل رہے ہو۔ جس پر جادو کر دیا گیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے پیغمبر آپ ملول خاطر نہ ہوں، آزردہ دل نہ ہوں، اپنے کام سے نہ رکئے، انہیں حق کی پکار سنانے میں کوتاہی نہ کیجئے، دن رات اللہ کی طرف بلاتے رہیئے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کی تکلیف دہ باتیں آپ کو بری لگتی ہیں، آپ توجہ بھی نہ کیجئے۔ ایسا نہ ہو آپ مایوس ہوائیں یا تنگ دل ہو کر بیٹھ جائیں کہ یہ آوازے کستے، پھبتیاں اڑاتے ہیں۔ اپنے سے پہلے کے رسولوں کو دیکھئے سب جھٹلائے گئے ستائے گئے اور صابر و ثابت قدم رہے یہاں تک اللہ کی مدد آ پہنچی۔

 پھر قرآن کا معجزہ بیان فرمایا کہ اس جیسا قرآن لانا تو کہاں؟ اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی ساری دنیا مل کر بنا کر نہیں لا سکتی اس لیے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ جیسی اس کی ذات مثال سے پاک، ویسے ہی اس کی صفتیں بھی بے مثال۔ اس کے کام جیسا مخلوق کا کلام ہو یہ نا ممکن ہے۔ اللہ کی ذات اس سے بلند بالا پاک اور منفر ہے معبود اور رب صرف وہی ہے۔ جب تم سے یہی نہیں ہو سکتا اور اب تک نہیں ہو سکا تو یقین کر لو کہ تم اس کے بنانے سے عاجز ہو اور اصل یہ اللہ کا کلام ہے اور اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اس کا علم، اس کے حکم احکام اور اسکی روک ٹوک اسی کلام میں ہیں اور ساتھ ہی مان لو کہ معبود برحق صرف وہی ہے بس آؤ اسلام کے جھنڈے تلے کھڑے ہو جاؤ۔

 

۱۵

ریا ہر نیکی کے لیے زہر ہے

ابن عباس فرماتے ہیں ریا کوروں کی نیکیوں کا بدلہ سب کچھ اسی دنیا میں مل جاتا ہے۔ ذرا سی بھی کمی نہیں ہوتی۔ پس جو شخص دنیا میں دکھاوے کے لے نماز پڑھے، روزے رکھے یا تہجد گزاری کرے، اس کا اجر اسے دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔ آخرت میں وہ خلی ہاتھ اور محض بے عمل اُٹھتا ہے۔ حضرت انس وغیرہ کا بیان ہے یہ آیت یہود و  نصاریٰ کے حق میں اتری اور اور مجاہد کہتے ہیں ریا کاروں کے بارے میں اتری ہے۔ الغرض کس کا جو قصد ہو اسی کے مطابق اس سے معاملہ ہوتا ہے دنیا طلبی کے لیے جو اعمال ہوں وہ آخرت میں کار آمد نہیں ہو سکتے۔ مومن کی نیت اور مقصد چونکہ آخرت طلبی ہی ہوتا ہے اللہ اسے آخرت میں اس کے اعمال کا بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے اور دنیا میں بھی اس کی نیکیاں کام آتی ہیں ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے۔ قرآن کریم کی آیت من کان یرید العاجلتہ الخ، میں بھی اسی کا تفصیلی بیانہ کہ دنیا طلب ہو گوں میں سے جسے ہم جس قدر چاہیں دے دیتے ہیں۔ پھر اس کا ٹھکان جہنم ہوتا ہے جہان وہ ذلیل و کہار ہو کر داخل ہوتا ہے۔ ہاں جس کے طلب آخرت ہو اور بالکل اسی کے مطابق اس کا عمل بھی ہو اور وہ ایمان دار بھی تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر دانی کی جاتی ہے۔ انہیں ہر ایک کو ہم تیرے رب کی عطا سے بڑھاتے رہتے ہیں تیرے پروردگار کا انعام کسی سے رکا ہوا نہیں۔ تو خود دیکھ لے کہ کس طرح ہم نے ایک ایک پر فضیلت بخشی ہے۔ آخرت کیا باعتبار درجوں کے اور کیا باعتبار فضیلت کے بہ ہی بڑی اور زبردست چیز ہے اور آیت میں ارشاد ہے من کان یرید حرث الا اخرۃ نزد لہ فی حرثہ الخ، جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم خوش اس میں اس کے لیے برکت عطا فرماتے ہیں اور جس کا ارادہ دنیا کی کھیتی کا ہو ہم گو اسے اس میں سے کچھ دے دیں لیکن آخرت میں وہ بے نصیب رہ جاتا ہے۔

 

۱۷

مومن کون ہیں؟

ان مومنوں کا وصف بیان ہو رہا ہے جو فطرت پر قائم ہیں جو اللہ کی وحدانیت کو دل سے مانتے ہیں۔ جیسے حکم الٰہی ہے کہ فاقم وجحکم الدین حنیفا الخ اپنا منہ دین حنیف پر قائم کر دے اللہ کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے کہ جانوروں کے بچے صحیح سالم پیدا ہوتے ہیں پھر لوگ ان کے کان کاٹ کر ڈالتے ہیں۔ مسلم شریف کی حدیث قدسی میں ہے میں نے اپنے تمام بدنوں کو موحد پیدا کیا ہے لیکن پھر شیطان آ کر انہیں ان کے دین سے بہکا دیت ہے اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیتا ہے اور انہیں کہتا ہے کہ میرے ساتھ انہیں شریک کریں جن کی کوئی دلیل میں نے نہیں اتاری۔ مسند اور سنن میں ہے کہ ہر بہ اس ملت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کی زبان کھلے، الخ۔ پس مومن طرفت رب پر ہی باقی رہا ہے۔ پس ایک تو فطرت اس کی صحیح سالم ہوتی ہے پھر اس کے پاس اللہ کا شاہد آتا ہے یعنی اللہ کی شریعت پیغمبر کے ذریعے پہنچی ہے جو شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کے ساتھ ختم ہوئی۔ پس شاہد سے مراد حضرت جبرائیل علیہ اسلام ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ایک قول میں کہا گیا ہے کہ وہ علی ہیں لیکن وہ قول ضعیف ہے۔ اس کا کوئی قائل ثابت ہی نہیں۔ حق بات پہلی ہی ہے۔ پس مومن کی طرفت اللہ کی وحی سے مل جاتی ہے۔ اجمالی طور پر اسے پہلے سے ہی یقین ہوتا ہے، پھر شریعت کی تفصیلات کو مان لیا ہے۔ اس کی طرف ایک ایک مسئلے کی تصدیق کرتی جاتی ہے۔ پس فطرت سلیم، اس کے ساتھ قرآن کی تعلیم، جسے حضرت جبرائیل نے اللہ کے نبی کو پہنچایا اور آپ نے اپنی اُم کو پھر اس سے پہلے کی ایک اور تائید بھی موجود ہے، وہ کتاب موسیٰ یعنی تورات جیسے اللہ نے اس زمانے کی اُمت کے لیے پیشوائی کے قابل بنا کر بھیجی تھی اور جو اللہ کی طرف سے رحمت تھی اس پر جن کا پورا ایمان ہے وہ لامحالہ اس نبی اور اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں کیونکہ اس کتاب نے اس کتاب پر ایمان لانے کی رہنمائی کی ہے۔ پس یہ لوگ اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ پھر پورے قرآن کو یا اس کے کسی حصے کو نہ ماننے والوں کی سزا کا بیان فرمایا کہ دنیا والوں میں سے جو گروہ جو فقہ اسے نہ مانے خواہ یہودی ہو، خواہ نصرانی کہیں کا ہو، کوئی ہو، کسی رنگت اور شکل و صورت کا ہو، قرآن پہنچا اور نہ مانا وہ جہنمی ہے۔ جسے رب العالمیں نے اپنے نبی کی زبانی اسی قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ لا نذر کم یہومن بلغ کہ میں اس سے تمہیں بھی آگاہ کر رہا ہوں اور انہیں بھی جنہیں یہ پہنچ جائے اور آیت میں ہے قل یا ایھالناس انی رسول اللہّٰہ الیکم جمیعا لوگوں میں اعلان کر دو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ ولیہ و سلم فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس اُمت میں سے جو بھی مجھے سن لے اور پھر مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنمی ہے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں میں جو صحیح حدیث سنتا ہوں اس کی تصدیق کتاب اللہ میں ضرور پاتا ہوں۔ مندرجہ بالا حدث سن کر میں اس تلاش میں لگا کہ اس کی تصدیق قرآن کی کسی آیت سے ہوتی ہے تو مجھے یہ آیت ملی پس تمام دین والے اس سے مراد ہیں۔ پھر جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ اس قرآن کے اللہ کی طرف سے سراسر حق ہونے میں تجھ کوئی شک و شبہ نہ کرنا چاہیے جیسے ارشاد ہے کہ اس کتاب کے رب العالمیں کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شبک و شبہ نہیں۔ اور جگہ ہے ذالک الکتاب لا ریب فیہ اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔ پھر ارشاد ہے کہ اکثر لوگوں ایمان سے کورے ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے وما اکثر الناس ولو حرمت بمومنین یعنی گو تیری چاہت ہو لیکن یقین کر لے کہ اکثر لوگ مومن نہیں ہوں گے۔ اور آیت میں ہے ون تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ اگر تو دنیا ولان کی اکثریت کی پیروی کرے گا تو وہ تو تجھے راہ حق سے بھٹکا دیں گے اور آیت میں ہے ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ فاتبعوہ الافریقا من المومنین یعنی ان پر ابلیس نے اپنا گمان سچ کر دکھایا اور سوائے مومنوں کی ایک مختصر سی جماعت کے باقی سب اسی کے پیچھے لگ گئے۔

 

۱۸

اللہ جل شانہ پہ بہتان باندھنے والے

جو لوگ اللہ کے ذمے بہتان باندھ لیں، ان کا انجام اور قیامت کے دن کی ساری مخلوق کے سامنے کی ان کی رسوائی کا بیان ہو رہا ہے۔ مسند احمد میں صفوان بن محزر کہتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا پھر پوچھنے لگا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے قیامت کے دن کی سرگوشی کی بارے میں کیا سنا ہے؟ آپ نے فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ اللہ عز و جل مومن کو اپنے سے قریب کرے گا یہاں تک کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور اسے لوگوں کی نگاہوں سے چھپا لے گا اور اسے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا کہ کیا تجھے اپنا فلاں گناہ یاد ہے؟ اور فلاں بھی اور فلاں بھی؟ یہ اقرار کرتا جائے گا یہاں تک کہ سمجھ لے گا کہ بس اب ہلاک ہوا۔ اس وقت الرحمان الرحیم فرمائے گا کہ میرے بندے دنیا میں ان پر پردہ ڈالتا رہا سن آج بھی میں انہیں بخشتا ہوں۔ پھر اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ اسے دے دیا جائے گا۔ اور کفار اور منافقین پر نو گواہ پیش ہوں گے جو کہیں گے کہ یہی وہ ہیں جو اللہ پر جھوٹ بولتے تھے یاد رہے کہ ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے۔

 یہ لوگ اتباع حق، ہدایت اور جنت سے اوروں کو روکتے رہے اور اپنا طریقہ ٹیڑھا ترچھا ہی تلاش کرتے رہے ساتھ ہی قیامت اور آخرت کے دن کے بھی منکر ہی رہے اور اسے مانا ہی نہیں۔ یاد رہے کہ یہ اللہ کے ماتحت ہیں وہ ان سے ہر وقت انتقام لینے پر قادر ہے، اگر چاہے تو آخرت سے پہلے دنیا میں ہی پکڑ لے لیکن اس کی طرف سے تھوڑی سی ڈھیل انہیں مل گئی ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ ظالموں کو مہلت دے دیتا ہے بالآخر جب پکڑتا ہے تب چھوڑتا ہی نہیں۔ ان کی سزائیں بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔ اس لیے کہ اللہ کی دی ہوئی قوتوں سے انہوں نے کام نہ لیا۔ سننے سے کانوں کو بہرہ رکھا۔ حق کی تابعداری سے آنکھوں کو اندھا رکھا جہنم میں جاتے وقت خود ہی کہیں گے کہ لو کنا نسمع اونعقل ما کنافی اصحاب السعیر یعنی اگر سنتے ہوے عقل رکھتے ہوتے تو آج دوزخی نہ بنتے یہی فرمان آیت الذین کفرو و صدوا عن سبیل اللہ زدنا ھم عذبا فوق العذاب الخ میں ہے کہ کافروں کے لیے اللہ کی راہ سے روکنے والوں کے لیے عذاب پر عذاب بڑھتا چلا جائے گا۔ ہر ایک حکم عدولی پر، ہر ایک برائی کے کام پر سزا بھگتیں گے۔ پس صحیح قول یہی ہے کہ آخرت کی نسبت کے اعتبار سے کفار بھی فروع شرع کے کلف ہیں۔ یہی ہیں وہ جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا اور خود اپنے تئیں جہنمی بنایا۔ جہاں کا عذاب ذرا سی دیر بھی ہلکا نہیں ہو گا۔ آگ کے شعلے کم ہونے تو کہاں اور تیز تیز ہوتے جائیں گے جنہیں انہوں نے گھڑ لیا تھا یعنی بت اور اللہ کے شریک وغرہ آج وہ ان کے کسی کام نہ آئے گے بلکہ نظر بھی نہ پڑیں گے بلکہ اور نقصان پہنچائیں گے۔ وہ تو ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کے شرک سے صاف مکر جائیں گے۔ گو یہ انہیں باعث عزت سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ ان کے لیے باعث ذلت ہیں۔ کھلے طور پر اس بات کا قیامت کے دن انکار کر دیں گے کہ ان مشرکوں نے انہیں پوجا۔ یہ ارشاد خلیل الرحمان کا اپنی قوم سے تھا کہ ان بتوں سے گو تم دنیوی تعلقات وابستہ رکھو لیکن قیامت کے دن ایک دوسرے کا انکار کر دیں گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگیں گے۔ اور تم سب کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور کوئی کسی کو کوئی مدد نہ پہنچائے گا۔ یہی مضمون آیت اذتبالذین اتبعو الخ میں ہے یعنی اس وقت پیشوا لوگ اپنے مریدوں سے دست بردار ہو جائیں گے عذاب الٰہی آنکھوں دیکھ لیں گے اور باہمی تعلقات سب منقطع ہو جائیں گے۔ اسی قسم کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں وہ بھی ان کی ہلاکت اور نقصان کی خبر دیتی ہیں۔ یقیناً یہی لوگ قیامت کے دن سب سے زیادہ نقصان اُٹھائیں گے۔ جنت کے درجوں کے بدلے انہوں نے جہنم کے گڑھے لیئے۔ اللہ کی نعمتوں کے بدلے جہنم کی آگ قبول کی۔ میٹھے ٹھنڈے خوشگوار جنتی پانی کے بدلے جہنم کا آگ جیسا کھولتا ہوا گرم پانی انہیں حور عین کے بدلے لہو پیپ اور بلند و بالا محلات کے بدلے دوزخ کے تنگ مقامات انہوں نے لیے، رب رحمان کی نزدیکی اور دیدار کے بدلے اس کا غضب اور سزا انہیں ملی۔ بے شک یہاں یہ سخت گھاٹے میں رہے۔

 

۲۳

عقل و ہوش اور ایمان والے لوگ

بروں کے ذکر کے بعد اچھے لگوں کا بیان ہو رہا ہے جن کے دل ایمان والے، جن کے جسمانی اعضا فرماں برداری کرنے والے تھے، قول و فعل سے فرمان رب بجا لانے والے اور رب کی نافرمانی سے بچنے والے تھے یہ لوگ جنت کے وارث ہوں گے۔ بلند و بالا بالا خانے، بچھے بچھائے، تخت، جھکے ہوئے خوشوں اور میوؤں کے درخت ابھرے  ابھرے فرش، خوبصورت بیویاں، قسم قسم کے خوش ذائقہ پھل، چاہت کے لذیذ کھانے پینے اور سب سے بڑھ کر دیدار الٰہی یہ نعمتیں ہوں گی جو ان کے لیے ہمیشگی کے لیے ہوں گی۔ نہ انہیں موت آئے گی نہ بڑھاپا، نہ بیماری، نہ غفلت، نہ رفع حاجت ہو گی، نہ تھوک نہ ناک مشک، نہ بو والا پسینہ آیا اور غذا ہضم۔ پہلے بیان کردہ کافر شقی لوگ اور یہ مومن متقی لوگ بالکل وہی نسبت رکھتے ہیں جو اندھے بہرے اور بینا اور سنتے ہیں ہے کافر دنیا میں حق کو دیکھنے میں اندھے تھے اور آخرت کے دن بھی بھلائی کی راہ نہیں پائیں گے نہ اسے دیکھیں گے۔ وہ حقانیت کی دلیلوں کی سننے سے بہرے تھے، نفع دینے والی بات سنتے ہی نہ تھے، اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ انہیں ضرور سناتا۔ اس کے خلاف مومن سمجھ دار، ذکی، عاقل، عالم، دیکھتا، بھالتا، سوچتا، سمجھتا حق و باطل میں تمیز کرتا۔ بھلائی لے لیتا، برائی چھوڑ دیتا، دلیل اور شبہ میں فرق کر لیتا اور باطل سے بچتا، حق کو مانا۔ بتلائے یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ تعجب ہے کہ پھر بھی تم جیسے دو مختلف شخصوں میں فرق نہیں سمجھتے۔ ارشاد ہے لا یستوی اصحاب النار و اصحاب الجنتہ الخ، دوزخی اور جنتی ایک نہیں ہوتے جنتی و بالکل کامیاب ہیں اور آیت میں ہے اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں، اندھیرا اور اُجالا برابر نہیں، سایہ اور دھوپ برابر نہیں، زندہ اور مردہ برابر نہیں۔ اللہ جو جسے چاہے سنا سکتا ہے تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا۔ تو تو صرف آ گاہ کر دینے والا ہے۔ ہم نے تجھے حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، ہر ہر امت میں ڈرانے والا ہو چکا ہے۔

 

۲۵

آدم علیہ اسلام کے بعد سب سے پہلا نبی؟

سب سے پہلے کافروں کی طرف رسول بنا کر بت پرستی سے روکنے کے لیے زمین پر حضرت نوح علیہ السلام ہی بھیجے گئے تھے۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈرانے آیا ہوں اگر تم غیر اللہ کی عبادت نہ چھوڑو گے تو عذاب میں پھنسو گے۔ دیکھو تم صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرتے رہو۔ اگر تم نے خلف ورزی کی تو قیامت کے کے دن کے دردناک سخت عذابوں میں مجھے تمہاری لینے کا خوف ہے۔ اس پر قومی کافروں کے روئسا اور امراء بول اُٹھے کہ آپ کوئی فرشتہ تو ہیں نہیں ہم جیسے ہی انسان ہیں۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم سب کو چھوڑ کر تم ایک ہی کے پاس وحی آئے۔ اور ہم اپنی آنکھو دیکھ رہے ہیں کہ ایسے رذیل لوگ آپ کے حلقے میں شامل ہو گئے ہیں کوئی شریف اور رئیس آپ کا فرماں بردار نہیں ہوا اور یہ لوگ بے سوچے سمجھے بغیر غور فکر کے آپ کی مجلس میں آن بیٹھے ہیں اور ہاں میں ہاں ملائے جاتے ہیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس نئے دین نے تمہیں کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچایا کہ تم خوش حال ہو گئے ہو تمہاری روزیاں بڑھ گئی ہوں یا خَلق و خُلق میں تمہیں کوئی برتری ہم پر حاصل ہو گئی ہو۔ بلکہ ہمارے خیال سے تم سب سے بھی جھوٹے ہو نیکی اور صلاحیت اور عبادت پر جو ودیعت ہمیں آخرت ملک کے دے رہے ہو ہمارے نزدیک تو یہ سب بھی جھوٹی باتیں ہیں۔ ان کفار کی بے عقلی تو دیکھئے اگر حق کے قبول کرنے والے نچلے طبقہ کے لوگ ہوئے تو کیا اس سے حق کی شان گھٹ گئی؟ حق حق ہی ہے خواہ اس کے ماننے والے بڑے لوگ ہوں خواہ چھوٹے لوگ ہوں۔ بلکہ حق بات یہ ہے کہ حق کی پیروی کرنے والے ہی شریف لوگ ہیں۔ چاہے وہ مسکین مفلس ہی ہوں اور حق سے روگردانی کرنے والے ہیں ذلیل اور رذیل ہیں گو وہ غنی مالدار اور مارا امراء ہوں۔ ہاں یہ واقع ہے کہ سچائی کی آواز کو پہلے پہل غریب مسکین لوگ ہی قبول کرتے ہیں اور امیر کبیر لوگ ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں۔ فرمان قرآن ہے کہ تجھ سے پہلے جس جس بستی میں ہمارے انبیاء آئے وہاں کے بڑے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے آپ باپ دادوں کو جس دین پر پایا ہے ہم تو انہیں کی خوشہ چینی کرتے رہیں گے۔ شاہ روم ہرقل نے جو ابوسفیان سے پوچھا تھا کہ شریف لوگوں نے اس کی تابعداری کی ہے یا ضعیف لوگوں نے؟ تو اس نے یہی جواب دیا تھا کہ ضعیفوں نے جس پر ہرقل نے کہا تھا کہ رسولوں کے تابعدار یہی لوگ ہوتے ہیں۔ حق کی فوری قبولیت بھی کوئی عیب کی بات نہیں، حق کی وضاحت کے بعد رائے فکر کی ضرورت ہی کیا؟ بلکہ ہر عقل مند کا کام یہی ہے کہ حق کو ماننے میں سبقت اور جلدی کرے۔ اس میں تامل کرنا جہالت اور کند ذہنی ہے۔ اللہ کے تمام پیغمبر بہت واضح اور صاف اور کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ میں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اس میں کچھ نہ کچھ جھجھک ضرور پائی سوائے ابوبکر کے کہ انہوں نے کوئی تردد و تامل نہ کیا واضح چیز کو دیکھتے ہی فوراً بے جھجھک قبول کر لیا ان کا تیسرا اعتراض نہ ہم کوئی برتری تم میں نہیں دیکھتے یہ بھی ان کے اندھے پن کی وجہ سے ہے اپنی ان کی آنکھیں اور کان نہ ہیں اور ایک موجود چیز کا انکار کریں تو فی الواقع اس کا نہ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہ تو نہ حق کو دکھیں نہ حق کو سنیں بلکہ اپنے شک میں غوطے لگاتے رہتے ہیں۔ اپنی جہالت میں ڈبکیاں مارتے رہتے ہیں۔ جھوٹے مفتری خالی ہاتھ رذیل اور نقصانوں والے ہیں۔

 

۲۸

بلا اجرت خیر خواہ سے ناروا سلوک

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو جواب دیا کی سچی نوبت یقین اور واضح چیز میرے پاس تو میرے رب کی طرف سے آ چکا ہے۔ بہت بڑی رحمت و نعمت اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائیں اور وہ تم سے پوشیدہ رہی تم اسے نہ دیکھ سکے نہ تم نے اس کی قدر دانی کی نہ اسے پہنچانا بلکہ بے سوچے سمجھے تم نے اسے دھکے دے دئے اسے جھٹلائے لگ گئے اب بتاؤ کہ تمہاری اس نا پسندی کی کی حالت میں میں کیسے یہ کر سکتا ہوں کہ تمہیں اس کا ماتحت بنا دوں؟

 

۲۹

دعوت حق سب کے لیے یکساں ہے

آپ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ نصیحت تمہیں کر رہا ہوں جنتی خیر خواہی تمہاری کرتا ہوں  اسکی کوئی اجرت تو تم سے نہیں مانگتا، میری اجرت تو اللہ کے ذمے ہے۔ تم جو مجھ سے کہتے ہو کہ ان غریب مسکین ایمان والوں میں میں دکھے دیدوں مجھ سے تو یہ کبھی نہیں ہونے کا۔ یہی طلب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی کی گئی تھی جس کے جواب میں یہ آیت اتری لا تطردالذین یدعون ربھم بالغدا وۃ والعشی الک یعنی صبح شام اپنے رب کے پکارے والں کو اپنی مجلس سے نہ نکال۔ اور آیت میں ہے وکذالک فنتا بعضھم ببعض الخ، اسی طرح ہم نے ایک کو دورے سے آزما لیا اور وہ کہنے لگے کہ کیا یہی وہ لوگ ہیں جن پر ہم سب کو چھوڑ کر اللہ کا فضل نازل ہوا کیا اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نہیں جانتا؟

 

۳۱

میرا پیغام اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت ہے

آپ فرماتے ہیں میں صرف اللہ ہوں، اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ کی عبادت اور توحید کی طرف اس کے فرمان کے مطابق تم سب کو بلاتا ہوں۔ اس سے میری مراد تم سے مال سمیٹنا نہیں۔ ہر بڑے چھوٹے کے لیے میری دعوت عام ہے جو قبول کرے گا نجات پائے گا۔ اللہ کے خزانوں کے ہیر پھیر کی مجھ میں قدرت نہیں۔ میں غیب نہیں جانتا ہاں جو بات اللہ مجھے معلوم کرا دے معلوم ہو جاتی ہے۔ میں فرشتہ ہونے کا دعوی دار نہیں ہوں۔ بلکہ ایک انسان ہوں جس کی تائید اللہ کی طرف سے معجزوں سے ہو رہی ہے۔ جنہیں تم رذیل اور ذلیل سمجھ رہے ہو میں تو اس کا قائل نہیں کہ انہیں اللہ کے ہاں ان کی نیکوں کا بدلہ نہیں ملے گا۔ ان کے باطن کا حال بھی مجھ معلوم نہیں اللہ ہی کو اس کا علم ہے۔ اگر باہر کی طرح باطن میں بھی ایماندار ہیں تو انہیں اللہ کے ہاں ضرور نیکیاں ملیں گی جو ان کے انجام کی برائی کو کہے اس نے ظلم کیا اور جہالت کی بات کہی۔

 

۳۲

قوم نوح کی عجلت پسندی کی حماقت

قوم نو کی عجلت بیان ہو رہی ہے کہ عذاب مانگ بیٹھے۔ کہنے لگے جس حجتیں تو ہم نے بہت سی سن لیں۔ آخری فیصلہ ہمارا یہ ہے کہ ہم تو تیری تابداری نہیں کرنے کے اب اگر تو سچا ہے تو دعا کر کے ہمارے پر عذاب لے آئے۔ آپ نے جواب دیا کہ یہ بھی میرے بس کی بات نہیں اللہ کے ہاتھ ہے۔ اسے کوئی عاجز کرنے والا نہیں اگر اللہ کا ارادہ ہی تمہاری گمراہی اور بربادی کا ہے تو پھر واقعی میری نصیحت بے سود ہے۔ سب کا مالک اللہ ہی ہے تمام کاموں کی تکمیل اسی کے ہاتھ ہے۔ متصرف، حکم، عادل، غیر ظالم، فیصلوں کے امر کا مالک، ابتداء پیدا کرنے والا، پھر لوٹانے والا، دنیا و آخرت کا تنہا مالک وہی ہے۔ ساری مخلوق کو اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

 

۳۵

کفار کا الزام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا جواب

یہ درمیانی کلام اس قصے کے بیچ میں اس کی تائیب اور تقریر ہے کہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے کہ یہ کفار تجھ پر اس قرآن کے از خود گھڑ لینے کا الزام لگا رہے ہیں تو جوا دے کہ اگر ایسا ہے تو میرا گناہ مجھ پر ہے میں جانتا ہوں کہ اللہ کے عذاب کیسے کچھ ہیں؟ پھر کیسے ممکن ہے کہ میں اللہ پر جھوٹ افتراء گھڑ لوں؟ ہاں اپنے گناہوں کے ذمے دار تم آپ ہو۔

 

۳۶

قوم نوح کا مانگا ہوا عذاب اسے ملا

قوم نوح جب عذابوں کی مانگ جلدی مچائی تو آپ نے اللہ سے دعا کی الٰہی زمین کسی کافر کو رہتا بستا نہ چھوڑ۔ پروردگار میں عجز آگیا ہوں، تو میری مدد کر۔ اسی وقت وحی آئی کہ جو ایمان لا چکے ہیں ان کے سوا اور کوئی اب ایمان نہ لائے گا تو ان پر افسوس نہ کر نہ ان کا کوئی ایسا خاص خیال کر۔ ہمارے دیکھتے ہی ہماری تعلیم کے مطابق ایک کشتی تیار کر اور اب ظالموں کے بارے میں ہم سے کوئی بات چیت نہ کر، ہم انکا ڈبو دینا مقرر کر چکے ہیں۔ بعض سلف کہتے ہیں حکم ہوا کہ لکڑیاں کاٹ کر سکھا کر تختے بنا لو۔ اس میں ایک سو سال گزر گئے پھر مکمل تیاری میں سو سال اور نکل گئے ایک قول ہے چالیس سال لگے واللہ اعلم۔ امام محمد بن اسحق توراۃ سے نقل کرتے ہیں کہ ساگ کی لکڑی کی یہ کشتی تیار ہوئی اس کا طول اسی ہاتھ تھا اور عرض پچاس ہاتھ کا تھا۔ اندر باہر سے روغن کیا گیا تھا پانی کاٹنے کے پر پرزے بھی تھے قتادہ کا قل ہے کہ لمبائی تین سو ہاتھ کی تھی۔ ابن عباس کا فرمان ہے کہ طول بارہ سو ہاتھ کا تھا اور چوڑائی چھ سو ہاتھ کی تھی۔ کہا گیا ہے کہ طول دو ہزار ہاتھ اور چوڑائی ایک سو ہاتھ کی تھی واللہ اعلم۔ اس کی اندرونی اونچائی تیس ہاتھ کی تھی اس میں تین درجے تھے ہر درجہ دس ہاتھ اونچا تھا۔ سب سے نیچے کے حصے میں چوپائے اور جنگلی جانور تھے۔ درمیان کے حصے میں انسان تھے اور اوپر کے حصے میں پرندے تھے۔ ان میں چھوٹا دروازہ تھا، اوپر سے بالکل بند تھی۔ ابن جریر نے ایک غریب اثر عبد اللہ بن عباس سے ذکر کیا ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم سے درخواست کی کہ اگر آپ بحکم الٰہی کسی اسے مردہ کو جلاتے جس نے کشتی نوح دیکھی ہو تو ہمیں اسے معلومات ہوتیں آپ نے انہیں لے کر ایک ٹیلے پر پہنچ کر وہاں کی مٹی اُٹھائی اور فرمایا جانتے ہو یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو ہی علم ہے۔ آپ نے فرمایا یہ پنڈلی ہے حام بن نوح کی پھر آپ نے ایک لکڑی اس ٹیلے پر مار کر فرمایا اللہ کے حکم سے اٹھ کھڑا ہو اسی وقت ایک بڈھا سا آدمی اپنے سر سے مٹی جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ آپ نے اس پس سے پوچھا کیا تو بڑھاپے میں مرا تھا۔ اس نے کہا نہیں مرا تو تھا جوانی میں لیکن اب دل پر دہشت بیٹھی کہ قیامت قائم ہو گئی اس دہشت نے بوڑھا کر دیا۔ آپ نے فرمایا اچھا حضرت نوح کی کشتی کی بابت اپنی معلومات بیان کرو۔ اس نے کہا وہ بارہ سو ہاتھ لمبی اور چھ سو ہاتھ چوڑی تھی تین درجوں کی تھی۔ ایک میں جانور اور چوپائے تھے، دوسرے میں انسان، تیسرے میں پرند، جب جانوروں کا گوبر پھیل گیا تو اللہ تعالیٰ حضرت نوح کی طرف وحی بھیجی کے ہاتھی کہ دم ہلاؤ۔ آپ کے ہلاتے ہی اس سے خنزیر نر مادہ نکل آئے اور وہ میلا کھانے لگے۔ چوہوں نے جب اس کے تختے کترنے شروع کئے تو حکم ہوا کہ شیر کی پیشانی پر انگلی لگا۔ اس سے بلی کا جوڑا نکلا اور چوہوں کی طرف لپکا۔ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے سوال کیا کہ حضرت علیہ اسلام کو شہروں کے غرقاب ہونے کا علم کیسے ہو گیا؟ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے کوئے کو خبر لینے لیے بھیجا لیکن وہ ایک لاش پر بیٹھ گیا، دیر تک وہ واپس نہ آیا تو آپ نے اس کے لیے ہمیشہ ڈرتے رہنے کی بد دعا کی۔ اسی لیے وہ گھروں سے مانوس نہیں ہوتا۔ پھر آپ نے کبوتر کو بھیجا وہ اپنی چونچ میں زیتون کے درخت کا پتہ لے کر آیا اور اپنے پنجوں میں خشک مٹی لایا اس سے معلوم ہو گیا کہ شہر ڈوب چکے ہیں۔ آپ نے اس کی گردن میں کصرہ کا طوق ڈال دیا اور اس کے لیے امن و انس کی دعا کی پس وہ گھروں میں رہتا سہتا ہے۔ حواریوں نے کہا اے رسول اللہ آپ انہیں ہمارے ہاں لے چلئے کہ ہم میں بیٹھ کر اور بھی باتیں ہمیں سنائیں۔ آپ نے فرمایا یہ تمہارے ساتھ کیسے آ سکتا ہے جب کہ اس کی روزی نہیں۔ پھر فرمایا اللہ کے حکم سے جیسا تھا ویسا ہی ہو جا، وہ اسی مٹی ہو گیا۔ نوح علیہ السلام تو کشتی بنانے میں لگے اور کافروں کو ایک مذاق ہاتھ لگ گیا وہ چلتے پھرتے انہیں چھیڑتے اور باتیں بناتے اور طعنہ دیتے کیونکہ انہیں جھوٹا جانتے تھے اور عذاب کے وعدے پر انہیں یقین نہ تھا۔ اس کے جواب میں حضرت نوح علیہ السلام فرماتے اچھا دل خوش کر لو وقت آ رہا ہے کہ اس کا پورا بدلہ لے لیا جائے۔ ابھی جان لو گے کہ کون اللہ کے عذاب سے دنیا میں رسوا ہوتا ہے اور کس پر اخروی عذاب آ چمٹتا ہے جو کبھی ٹالے نہ ٹلے۔

 

۴۰

قوم نوح پر عذاب الٰہی کا نزول

حسب فرمان ربی آسمان سے موسلا دھار لگاتار بارش برسنے لگی اور زمین سے بھی پانی ابلنے لگا اور ساری زمین پانی سے بھر گئی اور جہاں تک منظور رب تھا پانی بھر گیا اور حضرت نوح کو رب العالمین نے اپنی نگاہوں کے سامنے چلنے والی کشتی پر سوار کر دیا۔ اور کافروں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچا دیا۔ تنور کے ابلنے سے بقول ابن عباس یہ مطلب ہے کہ روئے زمین سے چشمے پھوٹ پڑے یہاں تک کہ آگ کی جگہ تنور میں سے بھی پانی ابل پڑا۔ یہی قول جمہور سلف و خلف ہے کا ہے۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ تنور صبح کا نکلا اور فجر کا روشن ہونا ہے یعنی صبح کی روشنی اور فجر کی چمک لیکن زیادہ غالب پہلا قول ہے۔ مجاہد اور شعبی کہتے ہیں یہ تنور کوفے میں تھا۔ ابن عباس سے مروی ہے ہند میں ایک نہر ہے۔ قتادہ کہتے ہیں جزیرہ میں ایک نہر ہے جسے عین الوردہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ سب اقوال غریب ہیں۔ الغرض ان علامتوں کے ظاہر ہوتے ہیں نوح علیہ السلام کو اللہ کا حکم ہوا کہ اپنے ساتھ کشتی میں جاندار مخلوق میں سے ہر قسم کا ایک ایک جوڑا نر مادہ سوار کر لو۔ کہا گیا ہے کہ غیر جاندار کے لیے بھی یہی حکم تھا۔ جیسا نباتات۔ کہا گیا ہے کہ پرندوں میں سب سے پہلے درہ کشتی میں آیا اور سب سے آخر میں گدھا سوار ہونے لگا۔ ابلیس اس کی دم میں لٹک گیا جب اس کے دو اگلے پاؤں کشتی میں آ گئے اس کا اپنا دھڑ اٹھانا چاہا تو نہ اٹھا سکا کیونکہ دم پر اس ملعون کا بوجھ تھا۔ حضرت نوح جلدی کر رہے تھے یہ بہترا چاہتا تھا مگر پچھلے پاؤں چڑھ نہیں سکتے تھے۔ آخر آپ نے فرمایا آج تیرے ساتھ ابلیس بھی ہو آیا تب وہ چڑھ گیا اور ابلیس بھی اس کے ساتھ ہی آیا۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ شیر کو اپنے ساتھ لے جانا مشکل ہو گیا، آخر اسے بخار چڑھ آیا تب اسے سوار کر لیا۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ اسلام نے جب تمام مویشی اپنی کشتی میں سوار کر لیے تو لوگوں نے کہا شیر کی موجودگی میں یہ مویشی کیسے آرام سے رہ سکیں گے؟ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بخار ڈال دیا۔ اس سے پہلے زمین پر یہ بیماری نہ تھی۔ پھر لوگوں نے چوہے کی شکایت کی یہ ہمارا کھانا اور دیگر چیزیں خراب کر رہے ہیں تو اللہ کے حکم سے چیز کی چھینک میں سے ایک بلی نکلی جس سے چوہے دبک کر کونے کھدرے میں بیٹھ رہے۔ حضرت نوح کو حکم ہوا کہ اپنے گھر والوں کو بھی اپنے ساتھ کشتی میں بٹا لو مگر ان میں سے جو ایمان نہیں انہیں ساتھ نہ لینا۔ آپ کا لڑکا حم بھی انہیں کافروں میں تھا وہ الگ ہو گیا۔ یا آپ کی بیوی کہ وہ بھی اللہ رسول کی منکر تھی اور تیری قوم کے تمام مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ بٹھا لے لیکن ان مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ساڑھے نو سو سال کے قیام کی طویل مدت میں آپ پر بہت ہم کم لوگ ایمان لائے تھے اب عباس فرماتے ہیں کل اسی آدمی تھے جن میں عورتیں بھی تھیں کعب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سب بہتر (٧٢) اشخاص تھے۔ ایک قول ہے صرف دس آدمی تھے ایک قول ہے حضرت نوح تھے اور ان کے تین لڑکے تھے سام، حام، یافث اور چار عورتیں، تھیں۔ تین تو ان تینوں کی بیویاں اور چوتھی حام کی بیوی اور کہا گیا ہے کہ خود حضرت نوح کی بیوی۔ لیکن اس میں نظر ہے ظاہر یہ ہے حضرت نوح ہلاک ہونے والوں میں ہلاک ہوئی۔ اس لیے کہ وہ اپنی قوم کے دین پر ہی تھی تو جس طرح لوط علیہ اسلام کی بیوی قوم کے ساتھ ہلاک ہوئی اسی طرح یہ بھی واللہ اعلم واحکم۔

 

۴۱

کشتی نوح پر کون کون سوار ہوا؟

حضرت نوح جنہیں اپنے ساتھ لے جانے چاہتے تھے ان سے فرمایا کہ آؤ اس میں سوار ہو جائے اس کا پانی پر چلنا اللہ کے نام کی برکت سے ہے اور اسی طرح اس کا آخر ٹھہراؤ بھی اسی پاک نام سے ہے۔ ایک قرآت میں مجرھا و مرسھا بھی ہے۔ یہی اللہ کا آپ کو حکم تھا کہ جب تم اور تمہارے ساتھی ٹھیک طرح بیٹھ جاؤ تو کہنا الحمد اللہّٰہ الی نجانا من القوم الظامیںO اور یہ بھی دعا کرنا کہ رب انزلنی منزلا مبارکا وانت خیر المنزلین O اس لیے مستحب ہے کہ تام کاموں کے شوع میں بسم اللہ پڑھ لی جائے خواہ کشتی پر سوار ہونا ہو، خواہ جانور پر سوار ہونا ہو، جیسے فرمان باری ہے کہ اسی اللہ نے تمہارے لیے تمام جوڑے پیدا کئے ہیں اور کشتیاں اور چوپائے تمہاری سواری کے پیدا کئے ہیں کہ تم ان کی پیٹھ پر سوار کرو، الخ،۔ حدیث میں بھی اس کی تاکید اور رغبت آئی ہے، سورہ خرف میں اس کا پورا بیان ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ طبرانی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں میری اُمت کے لیے ڈوبنے سے بچاؤ ان کے اس قول میں ہے سوار ہوتے ہوئے کہہ لیں بسم اللّٰہ الملک وما قدر و اللہّٰہ حق قدرہ پوری آیت بسم اللّٰہ مجر ھا و مرسھا ان ربی لغفور رحیم اس دعا کے آخر میں اللہ کا وصف غفور و رحیم اس لیے لائے کہ کافروں کی سزا کے مقابلے میں مومنون پر رحمت و شفقت کا اظہار ہو۔ جیسے فرمان ہے تیرا راب جلد سزا کرنے والا اور ساتھ ہی غٖور و رحیم بھی ہے۔ اور آیت میں ہے ان ربکا لذوا مغفرۃ للناس علی ظلمھم ون ربک لشدید العقاب O یعنی تیرا پروردگار لوگوں کے گناہوں کو بخشنے والا بھی ہے اور سخت سزا دینے والا بھی ہے۔ اور بی بہت سی آیتیں ہیں جن میں رحمت و انتقام کا بیان ملا جلا ہے۔

 پانی روئے زمین پر پھر گیا ہے، کسی اونچے سے اونچے پہاڑ کی بلندی سے بلند چھوٹی بھی دکھائی نہیں دیتی بلکہ پہاڑوں سے اوپر پندرہ ہاتھ اور بقولے  اسی میل اوپر کو ہو گیا ہے باوجود اس کی کشتی نوح بحکم الٰہی برابر صحیح طور پر جا رہی ہے۔ خود اللہ اس کا محافظ ہے اور وہ خاص اس کی عنایت و مہر ہے۔ جیسے فرمان ہے انا لما طغی الماء حمل نا کم فی الجاریتہ الخ، یعنی پانی میں طغیانی کے وقت ہم نے آپ تمہیں کشتی میں چڑھا لیا کہ ہم اسے تمہارے لیے نصیحت بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھ لیں اور آیت میں ہے کہ ہم نے تمہیں اس تختوں والی کشتی پر سوار کرایا اور اپنی حفاظت میں پار اتارا اور کافروں کو ان کے کفر کا انجام دیکھا دیا اور اسے ایک نشان بنا دیا کیا اب بھی کوئی ہے جو عبرت حاصل کرے؟ اس وقت حضرت نوح نے اپنے صاحبزادے کو بلایا یہ آپ کے چوتھے لڑکے تھے اس کا حام تھا یہ کافر تھا اسے آپ نے کشتی میں سوار ہونے کے وقت ایمان کی اور اپنے ساتھ بیٹھ جانے کی ہدایت کی تاکہ ڈوبنے سے اور کافروں کے عذاب سے بچ جائے۔ مگر اس بد نیتی نے جواب دیا کہ نہیں مجھے اس کی ضرورت نہیں میں پہاڑ پر چڑھ کر طوفان باراں سے بچ جاؤں گا۔ ایک اسرائیلی روایت میں ہے کہ اس نے شیشے کی کشتی بنائی تھی واللہ اعلم۔ قرآن میں تو یہ ہے کہ اس نے یہ سمجھا کہ یہ طوفان پہاڑوں کی چوٹیوں تک نہیں پہنچنے کا میں جب جا پہنچوں گا تو یہ پانی میرا کیا بگاڑے گا؟ اس پر حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ آج عذاب الٰہی سے کہیں پناہ نہیں وہی بچے گا جس پر اللہ کا رحم ہو۔ یہاں عاصم معصوم کے معنی میں ہے جیسے طاعم مطعوم کے معنی میں اور کاسی مسکو کے معنی میں آیا ہے۔ یہ باتیں ہو ہی رہی ہیں جو ایک موج آئی اور پسر نوح کو لے ڈوبی۔

 

۴۴

طوفان نوح علیہ السلام کی روداد

روئے زمین کے سب لوگ اس طوفان میں جو درحقیقت غضب الٰہی اور مظلوم پیغمبر کی بد دعا کا عذاب تھا غرق ہو گئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ عزوجل نے زمین کو اس پانی کے نگل لینے کا حکم دیا جو اس کا اگلا ہوا اور آسمان کا برسایا ہوا تھا۔ ساتھ ہی آسمان کو بھی پانی برسانے سے رک جانے کا حکم ہو گا۔ پانی گھٹنے لگا اور کام پورا ہو گیا یعنی تمام کافر نابود ہو گئے، صرف کشتی والے مومن ہی بچے۔ کشتی بحکم ربی جو دی پر رکی۔ مجاہد کہتے ہیں یہ جزیرہ میں ایک پہاڑ ہے سب پہاڑ ڈبو دیئے گئے تھے اور یہ پہاڑ بوجہ اپنی عاجزی اور تواضع کے غرق ہونے سے بچ رہا تھا یہیں کشتی نوح لنگر انداز ہوئی۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں مہینے بھر تک یہیں لگی رہی اور سب اتر گئے اور کشی لوگوں کی عبرت کے لیے یہی ثابت و سالم رکھی رہی یہاں تک کہ اس اُمت کے اول لوگوں بے بھی اسے دیکھ لیا۔ حالانکہ اس کے بعد کی بہترین اور مضبوط سینکڑوں کشتیاں بنیں بگڑیں بلکہ راکھ اور خاک ہو گئیں۔ ضحاک فرماتے ہیں جودی نام کا پہاڑ موصل میں ہے۔ بوض کہتے ہیں طور پہاڑ کو ہی جودی بھی کہتے ہیں۔ زربن جیش کو ابواب کندہ سے داخل ہو کر دائیں طرف کے زاویہ میں نماز بکثرت پڑھتے ہوئے دیکھ کر نوبہ بن سالم نے پوچھا کہ آپ جو جمع کے دن برابر یہاں اکثر نماز پڑھا کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ کشتی نوح یہیں لگی تھی۔ ابن عباس کا قول ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں بال بچوں سمیت کل اسی آدمی تھے۔ ایک سو پچاس دن تک وہ سب کشتی میں ہی رہے۔ الہ تعالیٰ نے کشتی کا منہ مکہ شریف کی طرف کر دیا۔ یہاں وہ چالیس دن تک بیت اللہ شریف کا طواف کرتی رہی۔ پھر اسے الہ تعالیٰ نے جودی کی طرف روانہ کر دیا، وہاں وہ ٹھہر گئی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کوئے کو بھیجا کہ وہ خشکی کی خبر لائے۔ وہ ایک مردار کے کھانے میں لگ گیا اور دیر لگا دی۔ آپ نے ایک کبوتر کو بھیجا وہ اپنی چونچ میں زیتون کے درخت کا پتہ اور پنجوں میں مٹی لے کر واپس آیا۔ اس وے حضرت نوح علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ پانی سوکھ گیا ہے اور زمین ظاہر ہو گئی ہے۔ پس آپ جودی کے نیچے اترے اور وہیں ایک بستی کی بنا ڈالی جسے ثمانین کہتے ہیں۔ ایک ایک دن صبح کو جب لوگ جاتے تو ہر ایک کی زبان بدلی ہوئی تھی۔ ایسی زبانیں بولنے لگے جن میں سب سے اعلیٰ اور بہترین عربی زبان تھی۔ ایک کو دوسرے کا کلام سمجھنا محال ہو گیا۔ نوح علیہ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے سب زبانیں معلوم کرا دیں، آپ ان سب کے درمیان مترجم تھے۔ ایک کا مطلب دوسرے کو سمجھا دیتے تھے۔ حضرت کعب احبار فرماتے ہیں کہ کشتی نوح مشرق مغرب کے درمیان چل پھر رہی تھی پھر جودی پر ٹھہر گئ۔ حضرت قتادہ وغیرہ فرماتے ہیں رجب کی دسویں تاریخ مسلمان اس میں سوار ہوئے تھے پانچ ماہ تک اسی میں رہے انہیں لے کر کشتی جودی پر مہینے بھر تک ٹھہری رہی۔ آخر محرم کے عاشورے کے دن وہ سب اس میں سے اترے۔ اسی قسم کی ایک مرفوع حدیث بھی ابن جریر میں ہے، انہوں نے اس دن روزہ بھی رکھا۔ واللہ علم۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی صلی اللہ و علیہ و سلم نے چند یہودیوں کو عاشورے کے دن روزہ رکھے ہوئے دیکھ کر ان سے اس کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو دریا سے پا اتارا تھا اور فرعون اس اس کی قوم کو ڈبو دیا تھا۔ اور اسی دن کشتی نوح جودی پر لگی تھی۔ پس ان دونوں پیغمبروں نے شکر الٰہی کا روزہ اس دن پر رکھا تھا۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا پھر موسیٰ علیہ اسلام کا سب سے زیادہ حق دار میں ہوں اور اس دن کے روزے کا میں زیادہ مستحق ہوں۔ پس آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں سے جو آج روزے سے ہو وہ تو اپنا روزہ پورا کرے اور جو ناشتہ کر چکا ہو وہ بھی باقی دن کچھ نہ کھائے۔ یہ روایت اس سند سے تو غریب ہے لیکن اس کے بعض حصے کے شاہد صحیح حدیث میں بھی موجود ہیں۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ظالموں کو خسارہ، ہلاکت اور رحمت حق سے دوری ہوئی۔ وہ سب ہلاک ہوئے ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا۔ تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ قوم نوح میں سے کسی پر بھی رحم کرنے والا ہوتا تو اس بچے کی ماں پر رحم کرتا۔ حضرت نوھ اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال تک تھہرے آپ نے ایک درخت بویا تھا جو سو سال تک بڑھتا اور بڑا ہوتا رہا پھر اس کاٹ کر تکتے بنا کر کشتی بنانی شروع کی۔ کافروں لوگ مذاقت اڑاتے کہ یہ اس کشکی میں کشتی کیسے چلائیں گے؟ آپ جواب دیتے تھے کہ عنقریب اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے جب آپ بنا چکے اور انی زین سے ابلنے اور آسمان سے برسنے لگا اور گلیاں اور راستے پانی سے ڈوبنے لگے تو اس بچے کی ماں جسے اپنے اس بچے سے غایت درجے کی محبت تھی وہ اسے لے کر پہاڑ کی طرف چلی گئی اور جلدی جلدی اس پر چڑھنا شروع کیا، تہائی ھصے پر چڑھ گئی لیکن جب اس نے دیکھا کہ پانی وہاں بھی پہنچا تو اور اوپر کو چڑھی۔ دو تہائی کو پہنچی جب پانی وہاں بھی پہنچا تو اس نے چوٹی پر جا کر دمل لیا لیکن پانی وہاں بی پہنچ گیا جب گردن گردن پانی چڑھ گیا تو اس نے اپنے بچے کو اپنے دونون ہاتھوں میں لے کر اونچا لیا لیکن پانہ وہاں بھی پہنچا اور ماں بچہ دنون غرق ہو گئے۔ پس اگر اس دن کوئی کافر بی بچنے والا ہوتا تو الہ تعالیٰ اس بچے کی ماں پر حم کرتا۔ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے کہ کعب احبار، مجاہد اور ابن جبیر سے بھی اس بچے اور اس کی ماں کا یہی قصہ مروی ہے۔

 

۴۵

نوح علیہ اسلام کی اپنے بیٹے کے لیے نجات کی دعا اور جواب

یاد رہے کہ یہ دعا حضرت نوح علیہ اسلام کی محض اس غرض سے تھی کہ آپ کو صحیح طور پر اپنے ڈوبے ہوئے لڑکے کا حال معلوم ہو جائے۔ کہتے ہیں کہ پروردگار یہ بھی ظاہر ہے کہ میرا لڑکا میری اہل میں سے تھا۔ اور میری اہل کو بچانے کا تیرا وعدہ تھا اور یہ بھی ناممکن کہ تیرا وعدہ غلط ہو۔ پھر یہ میرا بچہ کفار کے ساتھ کیسے غرق کر دیا گیا؟ جواب ملا کہ تیری جس اہل کو نجات دینے کا میرا وعدہ تھا ان میں تیرا یہ بچہ داخل نہ تھا، میرا یہ وعدہ ایمانداروں کی نجات کا تھا۔ میں کہہ چکا تھا کہ واھلک الامن سبق علیہ القول یعنی تیری اہل کو بھی تو کشتی میں چڑھا لے مگر جس پر میری بات بڑھ چکی ہے وہ بوجہ اپنے کر کے انہیں میں سے تھا جو میرے سابق علم میں کفر والے اور ڈوبنے والے مقرر ہو چکے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جن بعض لوگوں نے کہا ہے یہ دراصل حضرت نوح علیہ السلام کا لڑکا تھا ہی نہیں کیونکہ آپ کے بطن سے نہ تھا۔ بلکہ بدکاری سے تھا اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آپ کی بیوی کا اگلے گھر کا لڑکا تھا۔ یہ دونوں قول غلط ہیں بہت سے بزرگوں نے صاف لفظوں میں اسے غلط کہا ہے بلکہ ابن عباس اور بہت سے سلف سے منقول ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی زنا کاری نہیں کی۔ پس یہاں اس فرمان سے کہ وہ تیری اہل میں سے نہیں ہی مطلب ہے کہ تیرے جس اہل کی نجات کا میرا وعدہ ہے یہ ان میں سے نہیں۔ یہی بات سچ ہے اور یہی قول اصلی ہے۔ اس کے سوا اور طرف جانا محض غلطی ہے اور ظاہر خطا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی غیرت اس بات کو قبول نہیں کر سکتی کہ اپنے کسی نبی کے گھر میں زانیہ عورت دے۔ خیال فرمائے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسب جنہوں نے بہتان بازی کی تھی ان پر اللہ تعالیٰ کس قدر غضبناک ہوا اس لڑکے کے اہل میں سے نکل جانے کی وجہ خود قرآن نے بیان فرما دی ہے کہ اس کے عمل نیک نہ تھے عکرمہ فرماتے ہیں ایک قرات انہہ عمل عملا غیر صالح ہے مسند کی حدیث میں ہے حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو انہ عمل غیر صالح پڑتھے سنا ہے اور یا عبادی الذین اسر فوا علی انفسھم الخ پڑھتے سنا ہے۔ حضرت ابن عباس سے سوال ہوا کہ فخا نتا ھما کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا اس سے مراد زنا نہیں بلکہ حضرت نوح کی بیوی کی خیانت تو یہ تھی کہ لوگوں سے کہتی تھی یہ مجنون ہے۔ اور حضرت لوط کی بیوی کی خیانت یہ تھی کہ جو مہمان آپ کے ہاں آتے اپنی قوم کو خبر کر دیتی۔ پھر آپ نے فرمایا اللہ سچا ہے اس نے اسے حضرت نوح کا لڑکا فرمادیا ہے۔ پس وہ یقیناً حضرت نوح کا ثابت النسب لڑکا ہی تھا۔ دیکھو اللہ فرماتا ہے ونادا نوح نبنہ اور یہ بھی یاد رہے کہ بعض علماء کا قول ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی زنا کاری نہیں کی ایسا ہی حضرت مجاہد سے مروی ہے۔ اور یہی ابن جریر کا پسندیدہ ہے۔ اور فی الواقع ٹھیک اور صحیح بات بھی یہی ہے۔

 

۴۸

طوفان نوح کا آخری کا آخری منظر

کشتی ٹھہری اور اللہ کا سلام آپ پر اور آپ کے تمام مومن ساتھیوں پر اور ان کی اولاد میں سے قیامت تک جو ایماندار آنے والے ہیں سب پر نازل ہوا۔ ساتھ ہی کافروں کے دنیوی فائدے سے مستفید ہونے اور پھر عذاب میں گرفتار ہونے کا بھی اعلان ہوا۔ پس یہ آیت قیامت تک کے مومنوں کی سلامتی اور برکت اور کافروں کی سزاپر مبنی ہے۔ امام ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب جناب باری جل شانہ نے طوفان بند کرنے کا ارادہ فرما لیا تو روئے زمین پر ایک ہوا بھیج دی جس نے پانی کو ساکن کر دیا اور اس کا اُبلنا بند ہو گیا ساتھ ہی آسمان کے دروازے بھی جواب تک پانی برسا رہے تھے بند کر دئے گئے۔ زمین کو پانی کے جذب کر لینے کا حکم ہو گی اس وقت پانی کم ہونا شروع ہو گیا اور بقول اہل توراۃ کے ساتویں مہینے کی سترہویں تاریخ کشی نوح جودی پر لگی۔ دسویں مہینے کی پہلی تاریخ کو پہاڑوں کی چوٹیاں کھل گئیں۔ اس کے چالیس دن کے بعد کشتی کے روزن پانی کے اوپر دکھائی دینے لگے پر آپ نے کوے کو پانی کی تحقیق کے لیے بھیجا لیکن وہ پلٹ کر نہ آیا، آپ نے کبوتر کو بھیجا جو واپس آیا۔ اپنے پاؤں رکھنے کو اسے جگہ نہ ملی، آپ نے اپنے ہاتھ پر لے کر اسے اندر لے لیا، پھر ساتھ دن کے بعد اسے دوبارہ بھیجا۔ شام کو وہ واپس آیا، اپنی چونچ میں زیتون کا پتہ لیے ہوئے تھا اس سے اللہ کے نبی نے معلوم کر لیا کہ پانی زمین سے کچھ ہی اونچا رہ گیا ہے۔ پھر سات دن کے بعد بھیجا اب کی مرتبہ وہ نہ لوٹا تو آپ نے سمجھ لیا کہ زمین بالکل خشک ہو چکی ہے۔ الغرض پورے ایک سال کے بعد حضرت نوح علیہ اسلام نے کشی کا سرپوش اُٹھا یا اور آواز آئی کہ اسے نوح ہماری نازل کردہ سلامتی کے ساتھ اب اتر آؤ الخ۔

 

۴۹

یہ تاریخ ماضی وحی کے ذریعے بیان کی گئی ہے

قصہ نوح اور اسی قسم کے گذشتہ واقعات وہ ہیں جو تیرے سامنے نہیں ہوئے لیکن بذریعہ وحی کے ہم تجھے انکی خبر کر ہے ہیں اور تو لوگوں کے سامنے ان کی حقیقت اس طرح کھول رہا ہے کہ گویا ان کے ہونے کے وقت تو وہیں موجود تھے۔ اس سے پہلے نہ تو تجھے ہی انکی کوئی خبر تھی اور تیری قوم میں سے کوئی اور ان کا علم رکھتا تھا۔ کہ کسی کو بھی گمان ہو کہ شاید تو نے اس سے سیکھ لیے ہوں پاس صاف با ہے کہ یہ اللہ کی وحی سے تجھے علم ہوئے اور ٹھیک اسی طرح جس طرح اگلی کتابوں میں موجود ہیں۔ پس اب تجھے ان کے ستانے جھٹلانے پر صبر و برداشت کرنا چاہیے ہم تیری مدد پر ہیں تجھے اور تیرے تابعداروں کو ان پر غلبہ دین گے، انجام کے لحاظ سے تم ہی غالب رہو گے، یہی طریقہ اور پیغمبروں کا بھی رہا۔

 

۵۰

قوم ہود کی تاریخ

اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود علیہ اسلام کو ان کی قوم کی طرف پنا رسول صلی اللہ علیہ و سلم بنا کر بھیجا، انہوں نے قوم کو اللہ کی توحید کی دعوت دی۔ اور اس کے سوا اوروں کی پوجا پاٹ سے روکا۔ اور بتلایا کہ جن کو تم پوجتے ہو ان کی پوجا خود تم نے گھڑ لی ہے۔ بلکہ ان کے نام اور وجود تمہارے خیالی ڈھکوسلے ہیں۔ ان سے کہا کہ میں اپنی نصیحت کا کوئی بدلہ اور معاوضہ تم سے نہیں چاہتا۔ میرا ثواب میر رب مجھے دے گا۔ جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ کیا تم یہ موٹی سی بات بھی عقل میں نہیں لاتے ْ کہ یہ دنیا آخرت کی بھلائی کی تہیں راہ دکھانے والا ہے اور تم سے کوئی اجرت طلب کرنے والا نہیں۔ تم استغفار میں لگ جاؤ، گذشتہ گناہوں کی معافی اللہ تعالیٰ سے طلب کرو۔ اور توبہ کرو، آئندہ کے لیے گناہوں سے رک جاؤ۔ یہ دونوں باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اس کی روزی اس پر آسنا کرتا ہے۔ اس کا کام اس پر سہل کرتا ہے۔ اس کی نشانی کی حفاظت کرتا ہے۔ سنو ایسا کرنے سے تم پر بارشیں برابر عمدہ اور زیادہ برسیں گی اور تمہاری قوت و طاقت میں دن دونی رات چوگنی برکتیں ہوں گے۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص استغفار کو لازم پکڑ لے اللہ تعالیٰ اسے ہر مشکل سے نجات دیتا ہے، ہر تنگی سے کشادگی عطا فرماتا ہے اور روزی تو اسی جگہ سے پہنچاتا ہے جو خود اس کے خواب و خیال میں بھی ہو۔

 

۵۳

قوم ہود کے مطالبات

قوم ہود نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نصیحت سن کر جواب دیا کہ آپ جس چیز کی طرف ہمیں بلا رہے ہیں اس کی کوئی دلیل و حجت تو ہمارے پاس آپ لائے نہیں۔ اور یہ ہم کرنے سے رہے کہ آپ کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دو اور ہم چھوڑ ہی دیں۔ نہ وہ آپ کو سچا ماننے والے ہیں نہ آپ پر ایمان لانے والے۔ بلکہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ چونکہ تو ہمیں ہمارے ان معبودوں کی عبادت سے روک رہا ہے اور انہیں عیب لگاتا ہے۔ اس لیے جھنجھلا کر ان میں سے کسی کی مار تجھ پر پڑی ہے تیری عقل چل گئی ہے۔ یہ سن کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر یہی ہے تو سنو میں نہ صرف تمہیں ہی بلکہ اللہ کو بھی گواہ کر کے اعلان کرتا ہوں کہ میں اللہ کے سوا جس جس کی عبادت ہو رہی ہے سب سے بری اور بے زار ہوں اب تم ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ اور ون کو بھی بلا لو اور اپنے ان سب جھوٹے معبودوں کو بھی ملا لو اور تم سے جو ہو سکے مجھے نقصان پہنچا دو۔ مجھے کوئی مہلت نہ لینے دو۔ نہ مجھ پر کوئی ترس کھاؤ۔ جو نقصان تمہارے بس میں ہو مجھے پہنچانے میں کمی نہ کرو۔ میرا توکل ذات رب پر ہے وہ میرا اور تمہارا سب کا مالک ہے ناممکن کہ اس کی منشاء بغیر میرا بگاڑ کوئی بھی کر سکے۔ دنیا بھر کے جاندار اس کے قبضے میں اور اس کی ملکیت میں ہیں۔ کوئی نہیں جو اس کے حکم سے باہر اس کی بادشاہی سے الگ ہو۔ وہ ظالم نہیں جو تمہارے منصوبے پورے ہونے دے وہ صحیح راستے پر ہے۔ بندوں کی چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں، مومن پر وہ اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جو مہربان ماں باپ کو اولاد پر ہوت ہے وہ کری ہے اس کے کرم کی کوئی ھد نہیں۔ اسی وجہ سے بعض لوگ بہک جاتے ہیں اور غافل ہو جاتے ہیں۔ حضرت ہود علیہ اسلام کے اس فرمان پر دوبارہ غور کیجئے کہ آپ نے عادیوں کے لیے اپنے اس قول میں توحید ربانی کی بہت سے دلیلیں بیان کر دیں۔ بتا دیا کہ جب اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان نہیں پنچا سکتا جب اس کے سوا کسی چیز پر کسی کا قبضہ نہیں تو پھر وہی ایک مساتحق عبادت ٹھہرا۔ اور جن کی عبادت تم اس کے سوا کر رہے ہو وہ سب باطل ٹھہرے۔ اللہ ان سے پاک ہے ملک تصرف قبضہ اختیار اسی کا ہے سب اسی کی ماتحتی میں ہیں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

 

۵۷

ہود علیہ السلام کا قوم کو جواب

حضرت ہود علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ اپنا کام تو میں پورا کر چکا، اللہ کی رسالت تمہیں پہنچا چکا، اب اگر تم منہ موڑ لو اور نہ مانو تو تمہارا وبال تم پر ہی ہے نہ کہ مجھ پر۔ اللہ کو قدرت ہے کہ وہ تمہاری جگہ انہیں دے جو اس کی توحید کو مانیں اور صرف اسی کی عبادت کیں۔ اسے تمہاری کوئی پرواہ نہیں، تمہارا کفر اسے کوئی نقصان نہیں دینے کا بلکہ اس کا وبال تم پر ہی ہے۔ میرا رب بندوں پر شاہد ہے۔ ان کے اقوال افعال اس کی نگاہ میں ہیں۔ آخر ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آگیا۔ خیر و برکت سے خالی، عذاب و سزا سے بھری ہوئی آندھیاں چلنے لگیں۔ اس وقت حضرت ہود علیہ اسلام اور آپ کی جماعت مسلمیں اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے نجات پا گئے۔ سزاؤں سے بچ گئے، سخت عذاب ان پر سے ہٹا لئے گے۔ یہ تھے عادی جنہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا، اللہ کے پیغمبروں کی مان کر نہ دی۔ یہ یاد رہے کہ ایک نبی کا نافرمان کل نبیوں کا نافرمان ہے۔ یہ انہیں کی مانتے رہے جو ان میں ضدی اور سرکش تھے۔ اللہ کی اور اس کے مومن بندوں کی لعنت ان پر برس پڑی۔ اس دنیا میں بھی ان کا ذکر لعنت سے ہونے لگا اور قیامت کے دن بھی میدان محشر میں سب کے سامنے ان پر اللہ کی لعنت ہو گی۔ اور پکار دیا جائے گا کہ عادی اللہ کے منکر ہیں۔ حضرت سدی کا قول ہے کہ ان کے بعد جتنے نبی آئے سب ان پر لعنت ہی کرتے آئے ان کی زبانی اللہ کی لعنتیں بھی ان پر ہوتی رہیں۔

 

۶۱

صالح علیہ السلام اور ان کی قوم میں مکالمات

حضرت صالح علیہ اسلام ثمودیوں کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ قوم کو آپ نے اللہ کی عبادت کرنے کی اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت سے باز آنے کی نصیحت کی۔ بتالا کہ انسان اکی ابتدائی پیدائش اور اللہ تعالیٰ نے مٹی سے شروع کی ہے۔ تم سب کے باپ باوا آدم علیہ اسلام اسی مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔ اسی نے اپنے فضل سے تمہیں زمین پر بسایا ہے کہ تم اس میں گزر ان کر رہے ہو۔ تمہیں اللہ سے استغفار کرنا چاہیے۔ اس کی طرف جھکے رہنا چاہیے۔ وہ بہت ہی قریب ہے اور قبول فرمانے و الا ہے۔

 

۶۲

باپ دادا کے معبود ہی ہم کو پیارے ہیں

حضرت صالح علیہ اسلام اور آپ کی قوم کے درمیان جو بات چیت ہوئی اس کا بیان ہو رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ تو یہ بات زبان سے نکال۔ اس سے پہلے تو ہماری بہت کچھ اُمیدیں تجھ سے وابستہ تھیں، لیکن تو نہ ان سے سب پر پانی پھر دیا۔ ہمیں پرانی روش اور باپ دادا کے طریقے اور پوجا پاٹ سے ہٹانے لگا۔ ہمیں تو تیری اس نئی رہبر میں بہت بڑا شک شبہ ہے۔ آپ نے فرمایا سنو میں اعلیٰ دلیل پر ہوں۔ میرے پاس رب کی نشانی ہے، مجھے اپنی سچائی پر دلی اطمینان ہے میرے پاس اللہ کی رسالت کی رحمت ہے۔ اب اگر میں تمہیں اس کی دعوت نہ دون اور اللہ کی نافرمانی کرو اور اس کی عبادت کی طرف تمہیں نہ بلاؤں و کون ہے جو میری مدد کر سکے اور اللہ کے عذاب سے مجھے بچا سکے؟ میر ایمان ہے کہ مخلوق میرے کام نہیں آسکتی تم میرے لیے محض بے سود ہو۔ سوائے میرے نقصان کے تم مجھے اور کیا دے سکتے ہو۔

 

۶۴

ان تمام آیتوں کی پوری تفسیر اور ثمودیوں کی ہلاکت کے اور اونٹنی کے مفصل واقعات سورہ اعراف میں بیان ہو چکے ہیں یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں

 

۶۹

ابراہیم علیہ السلام کی بشارت اولاد اور فرشتوں سے گفتگو

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس وہ فرشتے بطور مہان بشکل انان آتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کی خوشخبری اور حضرت ابراہیم کے ہاں فرزند ہونے کی بشارت لے کر اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔ وہ آ کر سلام کرتے ہیں۔ آپ ان کے جواب میں سلام کہتے ہیں۔ اس لفظ کو پیش سے کہنے میں علم بیان کے مطابق ثبوت و دوام پایا جاتا ہے۔ سلام کے بعد ہی حضرت ابراہیم علیہ اسلام ان کے سامنے مہمان داری پیش کرتے ہیں۔ بچھڑے کا گوشت جسے گرم پتھروں پر سینک لیا گیا تھا، لاتے ہیں۔ جب دیکھا کہ ان نو وارد مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے ہی نہیں، اس وقت ان سے کچھ بدگمان سے ہو گئے اور کچھ دل میں خوف کھانے لگے حضرت سدی فرماتے ہیں کہ ہلاکت قوم لوط کے لیے جو فرشتے بھیجے گئے وہ بصورت نوجوان انسان زمین پر آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے گھر پر اترے آپ نے انہیں دیکھ کر بڑی تکریم کی، جلدی جلدی اپنا بچھڑا لے کر اس کا گرم پتھوں پر سینک کر لا حاضر کیا اور خود بھی ان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ گئے، آپ کی بیوی صاحبہ حضرت سارہ کھلانے پلانے کے کام کاج میں لگ گئیں۔ ظاہر ہے کہ فرشتے کھانا نہیں کھاتے۔ وہ کھانے سے رکے اور کہنے لگے ابراہیم ہم جب تلک کسی کھانے کی قیمت نہ دے دیں کھایا نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا ہاں قیمت دے دیجئے انہوں نے پوچھا کیا قیمت ہے، آپ نے فرمایا بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرنا اور کھانا کھا کر الحمد اللہ کہنا یہی اس کی قیمت ہے۔ اس وقت حضرت جبرائیل نے حضرت میکائل کی طرف دیکھ اور دل میں کہا کہ فی الواقع یہ اس قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنا خلیل بناۓ۔ اب بھی جو انہوں نے کھانا شروع نہ کیا تو آپ کے دل میں طرح طرح کے خیالات گزرنے لگے۔ حضرت سارہ نے دیکھا کہ خود حضرت ابراہیم ان کے اکرام میں یعنی ان کے کھانے کی خدمت میں ہیں، تاہم وہ کھانا نہیں کھاتے تو ان مہمانوں کی عجیب حالت پر انہیں بیساختہ ہنسی آ گئی۔ حضرت ابراہیم کو خوف زدہ دیکھ کر فرشتوں نے کہا  آپ خوف نہ کیجئے۔ اب دہشت دور کرنے کے لیے اصلی واقعہ کھول دیا کہ ہم کوئی انسان نہیں فرشتے ہیں۔ قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں کہ انہیں ہلاک کریں۔ حضرت سارہ کو قوم لوط کی ہلاکت کی خبر نے خوش کر دیا۔ اسی وقت انہیں ایک دوسری خوشخبری بھی ملی کہ اس نا اُمیدی کی عمر میں تمہارے ہاں بچہ ہو گا۔ انہیں عجب تھا کہ جس قوم پر اللہ کا عذاب اتر رہا ہے، وہ پوری غفلت میں ہے۔ الغرض فرشتوں نے آپ کو اسحاق نامی بچہ پیدا ہونے کی بشارت دی۔ اور پھر اسحاق کے ہاں یعقوب کے ہونے کی بھی ساتھ ہی خوش خبری سنائی۔ اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ اسلام تھے۔ کیونکہ حضرت اسحاق علی اسلام کی تو بشارت دی گئی تھی اور ساتھ ہی ان کے ہاں بھی اولاد ہونے کی بشارت دی گئی تھی۔ یہ سن کر حضرت سارہ علیہ اسلام نے عورتوں کی عام عادت کے مطابق اس پر تعجب ظاہر کیا کہ میاں بیوی دونوں کے اس بڑھے ہوئے بڑھاپے میں اولاد کیس ؟ یہ تو سخت حیرت کی بات ہے۔ فرشتوں نے کہا امر اللہ میں کیا حیرت ؟ تم دنوں کو اس عمر میں ہی اللہ بیٹا دے گا گو تم سے آج تک کوئی اولاد نہیں ہوئی اور تمہارے میاں کی عمر بھی ڈل چکی ہے۔ لیکن اللہ کی قدرت میں کمی نہیں وہ جو چاہے ہو کر رہتا ہے، اے نبی کے گھر والو تم پر اللہ رحمتیں اور اس کی برکتیں ہیں، تمہیں اس کی قدرت میں تعجب نہ کرنا چاہے۔ اللہ تعالیٰ تعریفوں والا اور بزرگ ہے۔

 

۷۴

حضرت ابراہیم کی بردباری اور سفارش

مہمانوں کے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے حضرت ابراہیم کے دل میں جو دہشت سمائی تھی۔ ان کا ھل کھل جانے پر وہ دور ہو گئی۔ پھر آپ نے اپنے ہاں لڑکا ہونے کی خوش خبری بھی سن لی۔ اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ فرشتے قوم لوط کی ہلاکت کے لیے بھیجے گئے ہیں تو آپ فرمانے لگے کہ اگر کسی بستی میں تین سو مومن ہوں کیا پھر بھی وہبستی ہلاک کی جائے گی؟ حضرت جبرائیل علیہ اسلام اور ان کے ساتھیوں نے جواب دیا کہ نہیں پ۔ پھر پوچھا کہ اگر چالیس ہوں؟ جواب ملا پھر بھی نہیں۔ دریافت کیا اگر تیس ہوں۔ کہا گیا پھر بھی نہیں۔ یہاں تک کے تعداد گھٹاتے گھٹاتے پانچ کی بابت پوچھا تو فرشتوں نے یہی جواب دیا۔ پھر ایک کی نسبت سوال کیا اور یہ جواب ملا تو آپ نے فرمایا پھر اس بسی کو حضرت لوط علیہ اسلام کی موجودگی میں تم کیسے ہلاک کرو گے فرشتوں نے کہا ہمیں وہاں حضت لوط کی موجودگی کا علم ہے اسے اور اس کےا ہل خانہ کو سوائے اس کی بیوی کے ہم بچا لیں گے۔ اب آپ کو اطمینان ہوا اور خاموش ہو گئے۔ حضرت ابراہیم بربار، نرم دل اور رجوع رہنے والے تھے اس آیت کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پیغمبر کی بہترین صفتیں بیان فرمائیں ہیں۔ حضرت ابراہیم کی اس گفتگو اور سارش کے جواب میں فرمان باری ہوا کہ اب آپ اس سے چشم پوشی کیجئے۔ قجاء حق نافذ و جاری ہو گئی اب عذاب آئے گا اور وہ لوٹا یا نہ جائے گا۔

 

۷۷

حضرت لوط علیہ اسلام کے گھر فرشتوں کا نزول

حضرت ابراہیم کو یہ فرشتے اپنا بھید بتا کر وہاں سے چل دیئے اور حضرت لوط علیہ السلام کے پاس ان کے زمین میں یا ان کے مکان میں پہنچے۔ مرد خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے تاکہ قوم لوط کی پوری آزمائش ہو جائے، حضرت لوط ان مہمانوں کو دیکھ کر قوم کی حالت سامنے رکھ کر سٹ پٹا گئے، دل ہی میں دل میں پیچ تاب کھانے لگے کہ اگر انہیں مہمان بناتا ہوں تو مکن ہے خبر پاکر لوگ چڑھ دوڑیں اور اگر مہمان نہیں رکھتا تو یہ انہیں کے ہاتھ پڑ جائیں گے۔ زبان سے بھی نکل گیا کہ آج کا دن بڑا ہیبت ناک دن ہے۔ قوم والے اپنی شرارت سے باز نہیں آئیں گے۔ مجھ میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔ کیا ہو گا؟ قتادہ فرماتے ہیں۔ حضرت لوط اپنی زمین پر تھے کہ یہ فرشتے بصورت انسان آئے اور ان کے مہمان بنے۔ شرما شرمی انکار تو نہ سکے اور انہیں لے کر گھر چلے، راستے میں صرف اس نیت سے کہ یہ اب بھی واپس چلے جائیں ان سے کہا کہ واللہ یہاں کے لوگوں سے زیادہ برے اور خبیث لوگ اور کہیں نہیں ہیں۔ کچھ دور جا کر پھر یہی کہا غرض گھر پہنچنے تک چار بار یہی کہا۔ فرشتوں کو اللہ کا حکم بھی یہی تھا کہ جب تک ان کا نبی، ان کی برائی نہ بیان کرے انہیں ہلاک نہ کرنا۔ سدی فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پاس سے چل کر دوپہر کو یہ فرشتے نہر سدوم پہنچے وہاں حضرت لوط کی صاحبزادی جو پانی لینے گئی تھیں، مل گئیں۔ ان سے انہوں نے پوچھا کہ یہاں ہم کہیں ٹھیر سکتے ہیں۔ اس نے کہا آپ یہیں رکیئے میں واپس آ کر جواب دوں گی۔ انہیں ڈر لگا کہ اگر قوم والوں کے ہاتھ یہ لگ گئے تو ان کی بڑی بے عزتی ہو گی۔ یہاں آ کر والد صاحب سے ذکر کیا کہ شہر کے دروازے پر چند پردیسی نوعمر لوگ ہیں، میں نے تو آج تک نہیں دیکھے، جاؤ اور انہیں ٹھیراؤ ورنہ قوم والے انہیں ستائیں گے۔ اس بستی کے لوگوں نے حضرت لوط سے کہہ رکھا تھا کہ دیکھو کسی باہر والے کو تم اپنے ہاں ٹھیرایا نہ کرو۔ ہم آپ سب کچھ کر لیا کریں گے۔ آپ نے جب یہ حالت سنی تو جا کر چپکے سے انہیں اپنے گھر لے آئے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ مگر آپ کی بیوی جو قوم سے ملی ہوئ تھی، اسی کے ذریعہ بات پھوٹ نکلی۔ اب کیا تھا۔ دوڑے بھاگے آ گئے، جسے دیکھو خوشیاں مناتا جلدی جلدی لپکتا چلا آتا ہے ان کی تو یہ خو خصلت ہو گی تھی اس سیاہ کاری کو تو گویا انہوں نے عادت بنا لیا تھا۔ اس وقت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں نصیحت کرنے لگے کہ تم اس بد خصلت کو چھوڑو اپنی خواہشیں عورتوں سے پوری کرو۔ بناتی یعنی میری لڑکیاں۔ اس لیے فرمایا کہ ہر نبی اپنی اُمت کا گویا باپ ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی ایک اور آیت میں ہے کہ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ ہم تو پہلے ہی آپ کو منع کر چکے تھے کہ کسی کو اپنے ہاں نہ ٹھیرایا کرو۔ حضرت لوط نے انہیں سمجھایا اور دنیا آخرت کی بھلائی انہیں سجھائی اور کہا کہ عورت ہی اس بات کے لیے موزوں ہیں۔ ان سے نکاح کر کے اپنی خواہش پوری کرنا ہی پاک کام ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ سمجھا جائے کہ آپ نے اپنی لڑکیوں کی نسبت یہ فرمایا تھا نہیں بلکہ نبی اپنی پوری امت کا گویا باپ ہوتا ہے۔ قتادہ وغیرہ سے بھی یہ مروی ہے۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں یہ بھی نہ سمجھنا چاہیے کہ حضرت لوط نے عورتوں سے بے نکاح ملاپ کرنے کو فرمایا ہو۔ نہیں مطلب آپ کا ان سے نکاح کر لینے کے حکم کا تھا۔ فرماتے ہیں اللہ ڈرو میرا کہا مانو، عورتوں کی طرف رغبت کرو، ان سے نکاح کر کے حاجت روائی کرو۔ مردوں کی طرف اس رغبت سے نہ آؤ اور خصوصاً یہ تو میرے مہمان ہیں، میری عزت کا خیال کرو کیا تم میں ایک بھی سمجھدار، نیک راہ یافتہ بھلا آدمی نہیں۔ اس کے جواب ان سرکشوں نے کہا کہ ہمیں عورتیں سے کوئی سروکار ہی نہیں یا ہے بھی بناتک یعنی تیری لڑکیاں کے لفظ سے مراد قوم کی عورتیں ہیں۔ اور تجھے معلوم ہے کہ ہمارا ارادہ کیا ہے یعنی ہمارا ارادہ ان لڑکوں سے ملنے کا ہے۔ پھر جھگڑا اور نصیحت بے سود ہے۔

 

۸۰

لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل ہوتا ہے

حضرت لوط علیہ اسلام نے جب دیکھا کہ میری نصیحت ان پر اثر نہیں کرتی تو انہیں دھمکایا کہ اگر مجھ میں قوت، طاقت ہوتی یا میرا کنبہ، قبیلہ زور دار ہوتا تو میں تمہیں تمہاری اس شرارت کا مزہ چکھا دیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ اللہ کی رحمت ہو لوط علیہ اسلام پر کہ وہ زور اور قوم کی پناہ لینا چاہتے تھے۔ مراد اس سے ذات اللہ تعالیٰ عزوجل ہے۔ آپ کے بعد پھر جو پیغمبر بھیجا گیا وہ اپنے آبائی وطن میں ہی بھیجا گیا۔ ان کی اس افسردگی، کامل ملال اور سخت تنگ دلی کے وقت فرشوں نے آپ کو ظاہر کر دیا کہ ہم اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ ہم تک یا آپ تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ آپ رات کے آخری حصے میں اپنے اہل و عیال کو لے کر یہاں سے نکل جائیں خود ان سب کے پیچھے رہیے۔ اور سیدھے اپنی راہ چلے جائیں قوم والوں کی آہ و بکا پر ان کے چیخنے چلانے پر تمہیں مڑ کر بھی نہ دیکھا چاہیے۔ پھر اس اثبات سے حضرت لوط کی بیوی کا استثنا کر لیا کہ وہ اس حکم کی پابندی نہ کر سکے گی۔ وہ عذاب کے وقت قوم کی ہائے وائے سن کر مڑ کر دیکھ گی۔ اس لیے کہ رحمانی قضا میں اس کا بھی ان کے ساتھ ہلاک ہوں طے ہو چکا ہے۔ ایک قرات میں الا امراتک تے کے پیش سے بھی ہے جن جن لوگوں کے نزدیک پیش اور زبر دونوں جائز ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ آپ کی بیوی بھی یہاں سے نکلنے میں آپ کے ساتھ تھی لیکن عذاب کے نازل ہونے پر قوم کا شور سن کر صبر نہ کر سکی اور مڑ کر ان کی طرف دیکھا اور زبان سے نکل گیا کہ ہائے میری قوم۔ اسی وقت آسمان سے ایک پتھر اس پر بھی آیا اور وہ ڈھیر ہو گئی۔ حضرت لوط کی مزید تشفی کے لیے فرشتوں نے اس خبیث قوم کی ہلاکت کا وقت بھی بیان کر دیا کہ یہ صبح ہوتے ہی تباہ ہو جائے گی۔ اور صبح اب بالکل قریب ہے۔ یہ کور باطن آپ کا گھر گھیرے ہوئے تھے اور ہر طرف سے لپکتے ہوئے تھے۔ حضرت لوط علیہ اسلام دروازے پر کھڑے ہوئے ان لوطیوں کو روک رہے تھے، جب کسی طرح وہ نہ مانے اور جب لوط علیہ اسلام آزردہ خاطر ہو کر تنگ آ گئے اس وقت جبرائیل علیہ اسلام گھر میں سے نکلے اور ان کے منہ پر اپنا پر مارا جس سے ان آنکھیں اندھی ہو گئیں۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ خود حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ان لوگوں کے پاس آتے، انہیں سمجھاتے کہ دیکھو اللہ کا عذاب نہ خریدو مگر انہوں نے خلیل الرحمان کی بھی نہ مانی۔ یہاں تک کہ عذاب کے آنے کا قدرتی وقت آ پہنچا۔ فرشتے حضرت لوط علیہ اسلام کے پاس آئے۔ آپ اس وقت اپنے کھیت میں کام کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ آج کی رات ہم آپ کے مہمان ہیں۔ حضرت جبرائیل کو فرمان رب ہو چکا تھا کہ جب تک حضرت لوط علیہ اسلام تین مرتبہ ان کی بد چلنی کی شہادت نہ دے لیں۔ ان پر عذاب نہ کیا جائے۔ آپ جب انہیں لے کر چلے تو چلنے کی خبر دی کہ یہاں کے لوگ بڑے بد ہیں یہ برائی ان میں گھسی ہوئی ہے۔ کچھ دور اور جانے کے بعد دوبارہ کہا کہ کیا تمہیں اس بستی کے لوگوں کی برایء کی خبر نہیں؟ میرے علم میں تو روئے زمین پر ان سے زیادہ برے لوگ نہیں، آہ میں تمہیں کہا لے جاؤ؟ میری قوم تو تمام مخلوق سے بد تری ہے۔ اس وقت حضرت جبرائیل علیہ اسلام نے فرشتوں سے کہا دیکھو دو مرتبہ یہ کہہ چکے۔ جب انہیں لے کر آپ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے تو رنج افسوس کے ساتھ کہنے لگے میری قوم تمام مخلوق سے بدتر ہے۔ تمہیں کیا معلوم نہیں کہ یہ کس بدی میں مبتلا ہیں؟ روئے زمین پر کوئی بسی اس بستی سے بری نہیں۔ اس وقت حضرت جبرئیل علیہ اسلام نے پھر فرشتوں سے فرمایا دیکھو تین مرتبہ یہ اپنی قوم کی بد چلنی کی شہادت دے چکے ہیں۔ یاد رکھنا اب عذاب ثابت ہو چکا ہے۔ گھر میں گئے اور یہاں سے آپ کی بڑھیا بیوی اونچی جگہ پر چڑھ کر کپڑا ہلانے لگی جس دیکھتے ہی بستی کے بدکار دوڑے پڑے۔ پوچھا کیا بات ہے اس نے کہا لوط کے ہاں مہمان آئے ہیں میں تو ان سے زیادہ خوب صورت اور ان سے زیادہ خوشبو والے لوگ کبھی دیکھے ہی نہیں۔ اب کیا تھا یہ خوشی خوشی مٹھیاں بند کئے دوڑتے بھاگتے حضرت لوط کے گھر گئے۔ چاروں طرف سے آپ کے گھر کو گھیر لیا۔ آپ نے انہیں قسمیں دیں، پند و نصائح کئے۔ فرمایا کہ عورتیں بہت ہیں۔ لیکن وہ اپنی شرارت اور اپنے بد ارادے سے باز نہ آئے۔ اس وقت حضرت جبرئیل علیہ اسلام نے اللہ تعالیٰ سے ان کے عذاب کی اجازت چاہی اللہ کی جانب سے اجازت مل گئی۔ آپ اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہو گئے۔ آپ کے دو پر ہیں۔ جن پر موتیوں کا جڑاؤ ہے۔ آپ کے دانت صاف چمکتے ہوئے ہیں۔ آپ کی پیشانی اونچی اور بڑی ہے۔ مرجان کی طرح کے دانت ہیں لو لو ہیں اور آپ کے پاؤں سبزی کی طرح ہیں۔ حضرت لوط علیہ اسلام سے آپ نے فرما دیا کہ ہم تو تیرے پروردگار کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، یہ لوگ تجھ تک پہنچ نہیں سکتے۔ آپ اس دروازے سے نکل جایئے۔ یہ کہہ کر ان کے منہ پر اپنا پر مارا جس سے وہ اندھے ہو گئے۔ راستوں تک کو نہیں پہچان سکتے تھے۔ حضرت لوط علیہ اسلام اپنی اہل کے لے کر راتوں رات چل دیئے یہ اللہ کا حکم بھی تھا۔ محمد بن کعب قتادہ سدی وغیر کا یہی بیان ہے۔

 

۸۲

آج کے ایٹم بم اس وقت کے پتھروں کی بارش

سورج کے نکلنے کے وقت اللہ کا عذاب ان پر آگیا۔ ان کی بستی سدوم نامہ تہ و بالا ہو گئی۔ عذاب نے اوپر تلے سے ڈھانک لیا۔ آسمان سے پکی مٹی کے پتھر ان پر بسرنے لگے۔ جو سخت، وزنی اور بہت بڑے بڑے تھے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے سجین سجیل دونوں ایک ہی ہیں۔ منضود سے مراد پے بہ پے تہ بہ تہ ایک ایک کے بعد ایک کے ہیں۔ ان پتروں پر قدرتی طور پر ان لوگوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ جس کے نام کا پتھر تھا سی پر گرتا تھا۔ وہ مثل طوق کے تھے جو سرخی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ یہ ان شہریوں پر بھی برسے اور یہاں کے جو لوگ اور گاؤں گوٹھ میں تھے ان پر بھی وہیں گرے۔ ان میں سے جو جہاں تھا وہیں پتھر سے ہلاک کیا گیا۔ کوئی کھڑا ہوا، کسی جگہ کسی سے باتیں کر رہا ہے وہیں پتھر آسمان سے آیا اور اسے ہلاک کر گیا۔ غرض ان میں سے ایک بھی نہ بچا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں حضرت جبرئیل علیہ اسلام نے ان سب کو جمع کر کے ان کے مکانات اور مویشیوں سمیت اونچا اُٹھا لیا یہاں تک کہ ان کے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آسمان کے فرشتوں نے سن لیں۔ آپ اپنے داہنے پر کے کنارے پر ان کی بستی کو اٹھائے ہوئے تھے۔ پھر انہیں زمین پر الٹ دیا۔ ایک کو دوسرے سے ٹکرا دیا اور سب ایک ساتھ غارت ہو گئے اکہ دکہ جو رہ گئے تھے ان کے بھیجے آسمانی پتھروں نے پوھر دئے اور محض بے نام و شنان کر دیئے گئے۔ مذکور ہے کہ ان کی چار بستیاں تھیں۔ ہربستی میں ایک لاکھ آدمیوں کی آبادی تھی۔ ایک روایت میں ہے تین بستیاں تھیں۔ بڑی بستی کا نام دسوم تھا۔ یہاں کبھی کبھی خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام بھی آ کر وعظ نصیحت فرما جا یا کرتے تھے۔ پھر فرماتا ہے یہ چیزیں کچھ ان سے دور نہ تھیں۔ سنن کی حدیث میں ہے کسی اگر تم لواطت کرتا ہوا پاؤ تو اوپر والے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو۔

 

۸۴

اہل مدین کی جانب حضرت شعیب کی آمد

عرب کا قبیلہ جو حجاز و شام کے درمیان معان کے قریب رہتا تھا ان کے شہروں کا نام اور خود ان کا ما بھی مدین تھا۔ ان کی جانب اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت شعیب علیہ اسلام بھیجے گئے۔ آپ ان میں شریف النسب اور اعلیٰ خاندان کے تھے اور انہیں میں سے تھے۔ اسی لیے اخاہم کے لفظ سے بیان کیا یعنی ان کے بھائی آپ نے بھی انبیاء کی عادت اور سنت اور اللہ کے پلے اور تاکیدی حکم کے مطابق اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ وحدہٗ لاشریک لہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی ناپ تول کی کمی سے رکا کہ کسی کا حق نہ مارو۔ اور اللہ کا یہ احسان یاد لایا کہ اس نے تمہیں فارغ البال اور آسودہ حال کر رکھا ہے۔ اور اپنا ڈر ظاہر کیا کہ اپنی مشرکانہ روش اور ظالمانہ حضرت سے اگر باز نہ آؤ گے تو تمہاری یہ اچھی حالت بد حالی سے بدل جائے گی۔

 

۸۵

ناپ تول میں انصاف کرو

پہلے تو اپنی قوم کو ناپ تول کی کمی سے روکا۔ اب لین دین کے دونوں وقت عدل و انصاف کے ساتھ پورے پورے ناپ تول کا حکم دیتے ہیں۔ اور زمین میں فساد اور تباہ کاری کرنے کو منع کرتے ہیں۔ ان میں رہزنی اور ڈاکے مانے کی بد خصلت بھی تھی۔ لوگوں کے حق مار کر نفع اُٹھانے سے اللہ کا دیا ہوا نفع بہت بہتر ہے۔ اللہ کی یہ وصیت تمہارے لیے خیریت لیے ہوئے ہیں۔ عذاب سے جیسے ہلاکت ہوتی ہے اس کے مقابلے میں رحمت سے برکت ہوتی ہے۔ ٹھیک تول کر پورے ناپ کر حلال سے جو نفع ملے اسی میں برکت ہوتی ہے۔ خبیث و طیب میں کیا مساوت؟ دیکھو میں تمہیں ہر وقت دیکھ نہیں رہا۔ تمہیں بائیوں کا ترک اور نیکیوں کا فعل اللہ ہی کے لیے کرنا چاہیے نہ کہ دنیا دکھاوے کے لیے۔

 

۸۷

پرانے معبودوں سے دستبرداری سے انکار

حضرت اعمش فرماتے ہیں صلواۃ سے مراد یہاں قرات ہے۔ وہ لوگ از راہ مذاق کہتے ہیں کہ واہ آپ اچھے رہے کہ آپ کو آپ کی قرآت نے حکم دیا کہ ہم باپ دادوں کی روش کو چھوڑ کر اپنے پرانے معبودوں کی عبادت سے دست بردار ہو جائیں۔ یہ اور بھی غلط ہے کہ ہم اپنے مال کے بھی مالک نہ رہیں کہ جس طرح جو چاہیں اس میں تصرف کریں کسی کو ناپ تول میں کم نہ دیں۔ حضرت حسنفرماتے ہیں واللہ واقعہ یہی ہے کہ حضرت شعیب علیہ اسلام کی نماز کا حکم ہی یہی تھا کہ آپ انہیں غیر اللہ کی عبادت اور مخلوق کے حقوق کے غصب سے روکیں۔ ثوریل فرماتے ہیں کہ ان کے اس قول کا مطلب کہ جو ہم چاہیں، اپنے مالوں میں کریں یہ ہے کہ زکوٰۃ کیوں دیں؟ نبی اللہ کو ان کا حلیم و رشید کہنا از راہ مذاق و حقارت تھا۔

 

۸۸

قوم کو تبلیغ

آپ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ دیکھو میں اپنے رب کی طرف سے کسی دلیل و حجت اور بصیر پر قائم ہوں اور اسی کی طرف تمہیں بلا رہا ہوں۔ اس نے اپنی مہربانی سے مجھے بہترین روزی دے رکھی ہے۔ یعنی نبوت یا رزق حلال یا دونوں، میری روش تم یہ نہ پاؤ گے کہ تمہیں تو بھلی بات کا حکم کروں اور خود تم سے چھپ کر اس کے برعکس کروں۔ میری مراد تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کرنی ہے۔ ہاں میرے ارادہ کی کامیابی اللہ کے ہاتھ ہے۔ اسی پر میرا بھروسہ اور توکل ہے اور اسی کی جانب رجوع توجہ اور جھکان ہے۔ مسند امام احمد میں ہے حکیم بن عماوہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ اس کے بھائی ملک نے کہا کہ اے معاویہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے پڑیوسیوں کو گرفتار کر رکھا ہے، تم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے تمہاری بات چیت بھی ہو چکی ہے اور تمہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہچانتے بھی ہیں۔ پس میں اس کے ساتھ چلا۔ اس نے کہا کہ میرے پڑیوسیوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم رہا کر دیجئے وہ مسلمان ہو چکے تھے۔ آپ نے اس سے منہ پھر لیا۔ وہ غضب ناک ہو کر اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا اللہ اگر آپ نے ایسا جواب دیا تو لوگ کہیں گے کہ آپ ہمیں تو پڑوسیوں کے بارہ میں اور حکم دیتے ہیں اور آپ خود اس کے خلاف کرتے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کیا لوگوں نے ایسی بات زبان سے نکالی ہے؟ اگر میں ایسا کروں تو اس کا وبال مجھ پر ہی ہے ان پر تو نہیں۔ جاؤ اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو۔ اور روایت میں ہے کہ اس کی قوم کے چند لوگ کسی شبہ میں گرفتار تھے۔ اس پر قوم کا ایک آدمی خاص حاضر ہوا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ فرما رہے تھے۔ اس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کسی چیز سے اوروں کو روکتے ہیں اور خود اسے کرتے ہیں۔ آپ نے سمجھا نہیں۔ اس لیے پوچھا کہ لوگ کیا کہتے ہیں حضرت بہز بن حکیم کے دادا کہتے ہیں میں نے بیچ میں بولنا شروع کر دیا کہ اچھا ہے آپ کے کان میں یہ الفاظ نہ پڑیں کہیں ایسا نہ کہ آپ کے منہ سے میری قوم کے لیے کوئی بد دعا نکل جائے کہ پھر انہیں فلاح نہ ملے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم برابر اسی کوشش میں رہے یہاں تک کہ آپ نے اس کی بات سمجھ لی اور فرمانے لگے کیا انہوں نے ایسی بات زبان سے نکالی؟ یا ان میں سے کوئی اس کا قائل ہے؟ واللہ اگر میں ایسا کروں تو اس کا بوجھ بار میرے ذمے ہے ان پر کچھ نہیں۔ اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو۔ اس قبیل سے وہ حدیث بھی ہے جس مسند احمد لائے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میری جانب سے کوئی ایسی حدیث سنو کہ تمہارے دل اس کا انکار کریں اور تمہارے بدن اور بال اس سے علیحدہ کریں اور تم سمجھ لو کہ وہ تم سے بہت دور رہے تو میں اس سے اس سے بھی زیادہ دور ہوں۔ اس کی اسناد صحیح ہے۔ حضرت مسروقل کہتے ہیں کہ ایک عورت حضرت عبد اللہ بن مسعود کے پاس آئی اور کہنے لگی کیا آپ بالوں میں جوڑ لگانے کو منع کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا آپ کے گھر کی بعض عورتیں تو ایسا کرتی ہیں آپ نے فرمایا اگر ایسا ہو تو میں نے اللہ کے نیک بندے کی وصیت کی حفاظت نہیں کی۔ میرا ارادہ نہیں کہ جس چیز سے تمہیں روکوں اس کے برعکس خود کروں۔ حضرت ابو سلیمان ضبی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس امیر المومنین حضرت امور بن عبد العزیز کے رسالے آتے تھے جن میں اوامر و نواہی لکھے ہوئے ہوتے تھے اور آخر میں یہ لکھا ہوتا تھا کہ میں بھی اس میں ہی ہوں جو اللہ کے نیک بندے نے فرمایا کہ میری توفیق اللہ ہی کے فضل سے ہے۔ اسی پر میرا توکل ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔

 

۸۹

میری عداوت میں اپنی بربادی مت مول لو

فرماتے ہیں کہ میری عداوت اور بغض میں آ کر تم اپنے کفر اور اپنے گناہوں پر جم نہ جاؤ ورنہ تمہیں وہ عذاب پہنچے گا جو تم سے پہلے ایسے کاموں کا ارتکاب کرنے والوں کو پہنچا ہے۔ خصوصاً قوم لوط جو تم سے قریب زمانے میں ہی گزری ہے اور قریب جگہ میں ہے یم اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگو۔ آئندہ کے لیے گناہوں سے توبہ کرو۔ ایسا کرنے والوں پر مریا رب بہت ہی مہربان ہو جاتا ہے اور ان کو اپنا پیارا بنا لیا ہے ابو لیی کندی کہتے ہیں کہ میں اپنے مالک کا جانور تھامے کھڑا تھا۔ لوگ حضرت عثمان رضٰ اللہ عنہ کے گھر کو گھیرے ہوئے تھے آپ نے اوپر سے سر بلند کیا اور یہی آیت تلاوت فرمائی۔ اور فرمایا میری قوم کے لوگو مجھے قتل نہ کرو۔ تم اسی طرح تھے۔ پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ڈال کر دکھائیں۔

 

۹۱

قوم مدین کا جواب اور اللہ کا عتاب

قوم مدین کے کہا کہ اے شعیب آپ کی اکثر باتیں ہماری سمجھ میں تو آتی نہیں۔ اور خود آپ بھی ہم میں بے انتہا کمزور ہیں۔ سعید وغیرہ کا قول ہے کہ آپ کی نگاہ کم تھی۔ مگر آپ بہت ہی صاف گو تھے، یہاں تک کہ آپ کو خطیب الانبیاء کا لقب حاصل تھا۔ سدی کہتے ہیں اس وجہ سے کمزور کہا گیا ہے کہ آپ اکیلے تھے۔ مراس سے آپ کی حقارت تھی۔ اس لیے کہ آپ کے کنبے والے بھی آپ کے دین پر نہ تھے۔ کہتے ہیں کہ اگر تیری برادری کا لحاظ نہ ہوتا تو ہم تو پتھر مار مار کر تیرا قصہ ہی ختم کر دیتے۔ یا یہ کہ تجھے دل کھول کر برا کہتے۔ ہم میں تیری کوئی قدر و منزلت، رفعت و عزت نہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا بھائیو تم مجھے میری قرابت داری کی وجہ سے چھوڑ تے ہو۔ اللہ کی وجہ سے نہیں چھوڑتے تو گیا تمہارے نزدیک قبیلے والے اللہ سے بھی بڑھ کر ہیں اللہ کے نبی کو برائی پہنچاتے ہوئے اللہ کا خوف نہیں کرتے افسوس تم نے کتاب اللہ کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا۔ اس کی کوئی عظمت و اطاعت تم میں نہ رہی۔ خیر اللہ تعالیٰ تمہارے تمام حال احوال جانتا ہے وہ تمہیں پورا بدلہ دے گا۔

 

۹۳

مدین والوں پر عذاب الٰہی

جب اللہ کے نبی علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہو گئے تو تھک کر فرمایا اچھا تم اپنے طریقے پر چلے جاؤ میں اپنے طریقے پر قائم ہوں۔ تمہیں عنقیرب معلوم ہو جائے گا کہ رسوا کرنے والے عذاب کن پر نازل ہوتے ہیں اور اللہ کے نزدیک جھوٹا کون ہے؟ تم منظر رہو میں بھی انتظار میں ہوں۔ آخرش ان پر بھی عذاب الٰہی اترا اس وقت نبی اللہ اور مومن بچا دیئے گئے ان پر رحمت رب ہوئی اور ظالموں کو تہس نہس کر دیا گیا۔ وہ جل بھجے بے حس و حرکت رہ گئے۔ ایسے کہ گویا کبھی اپنے گھروں میں آباد ہی نہ تھے۔ اور جیسے کہ ان سے پہلے کے ثمودی تھے اللہ کی لعنت کا باعث بنے ویسے ہی یہ بھی ہو گئے۔ ثمودی ان کے پڑوسی تھے اور گناہ اور بدامنی میں انہیں جیسے تھے اور یہ دونوں قومیں عرب ہی سے تعلق رکھتی تھیں۔

 

۹۶

قبطی قوم کا سردار فرعون اور موسیٰ علیہ السلام

فرعون اور اس کی جماعت کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو اپی آیتوں اور ظاہر باہر دلیلوں کے ساتھ بھیجا لیکن انہوں نے فرعون کی اطاعت نہ چھوڑی۔ اسی کی گمراہ روشن پر اس کے پیچھے لگے رہے۔ جس طرح یہاں انہوں نے اس کی فرمان برداری ترک نہ کی اور اسے اپنا سردر مانتے رہے۔ اسی طرح قیامت کے دن اسی کے پیچھے یہ ہوں گے اور وہ اپنی پیشوائی میں انہیں سب کو اپنے ساتھ ہی جہنم میں لے جائے گا اور خود دگنا عذاب برداشت کرے گا۔ یہی حال بڑوں کی تابعداری کرنے والوں کا ہوتا ہے وہ کہیں گے بھی کہ اللہ انہیں لوگوں نے ہمیں بہکایا تو انہوں دوگنا عذاب دے۔ مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جاہلیت کے شاعروں کا جھنڈا مراؤ القیس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ انہیں لے کر جہنم کی طرف جائے گا۔ اس آگ کے عذاب پر یہ اور زیادتی ہے کہ یہاں اور وہاں دونوں جگہ یہ لوگ ابدی لعنت میں پڑے۔ قیامت کے دن کی لعنت مل کر ان پر دو دو لعنتیں پڑ گئیں۔ یہ اور لوگوں کو جہنم کی دعوت دینے والے امام تھے۔ اس لیے ان پر دوہری لعنت پڑی۔

 

۱۰۰

عبرت کدے کچھ آباد ہیں کچھ ویران

نبیوں اور ان کی امتوں کے واقعات بیان فرما کر ارشاد باری ہوتا ہے کہ یہ ان بستیوں والوں کے واقعات ہیں۔ جنہیں ہم تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں۔ ان میں سے بعض بستیاں تو اب تک آباد ہیں اور بعض مٹ چکی ہیں۔ ہم نے انہیں ظلم سے ہلاک نہیں۔ بلکہ خود انہوں نے ہی اپنے کفر و تکذیب کی وجہ سے اپنے اوپر اپنے ہاتھوں ہلاکت مسلط کر ی۔ اور جن معبود ان باطل کے انہیں سہارے تھے وہ بروقت انہیں کچھ کام نہ آسکے۔ بلکہ ان کی پوجا پاٹ نے انہیں اور غارت کر دیا۔ دونوں جہاں کا وبال ان پر آ پڑا۔

 

۱۰۲

جس طرح ان ظالموں کی ہلاکت ہوئی ان جیسا جو بھی ہو گ اسی نتیجے کو وہ بھی دیکھے گا۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ المناک اور بہت سختی والی ہوتی ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ ظالموں کو ڈھیل دے کر پھر پکڑیں گے۔ وقت ناگہاں دبا لیتا ہے۔ پھر مہلت نہیں ملتی پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی۔

 

۱۰۳

ہلاکت اور نجات، ٹھوس دلائل

کافروں کی اس ہلاکت اور مومنوں کی نجات میں صاف دلیل ہے ہمارے ان وعدوں کی سچائی پر جو ہم نے قیامت کے بارے میں کئے ہیں جس دن تمام اول و آخر کے لوگ جمع کئے جائیں گے۔ ایک بھی باقی نہ چھوٹے گا اور وہ بڑا بھاری دن ہو گا تمام فرشتے، تمام رسول، تمام مخلوق حاضر ہو گی۔ حاکم حقیقی عادل کافی انصاف کرے گا۔ قیامت کے قائم ہونے میں دیر کی وہ یہ ہے کہ رب یہ بات پہلے ہی مقرر کر چکا ہے کہ اتنی مدت تک دنیا بنی آدم سے آباد رہے گی۔ اتنی مدت خاموش پر گزرے گی پھر فلاں وقت قیامت قائم ہو گی۔ جس دن قیامت آ جائے گی۔ کوئی نہ ہو گا جو اللہ کی اجازت کے بغیر لب بھی کھول سکے۔ مگر رحمن جسے اجازت دے اور وہ بات بھی ٹھیک بولے۔ تمام آوازیں رب رحمن کے سامنے پست ہوں گی۔ بخاری و مسلم کی حدیث شفاعت میں ہے اس دن صرف رسول ہی بولیں گے اور ان کا کلا بھی صرف یہی ہو گا کہ یا اللہ سلامت رکھ، یا اللہ سلامتی دے۔ مجمع محشر میں بہت سے تو برے ہوں گے اور بہت سے نیک۔ اس آیت کے اترنے پر حضرت عمر پوچھتے ہیں کہ پھر یا رسول اللہ ہمارے اعمال اس بنا پر ہیں جس سے پہلے ہی فراغت کر لی گئی ہے یا کسی نئی بنا پر؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اس حساب پر جو پہلے سے ختم ہو چکا ہے جو قلم چل چکا ہے لیکن ہر ایک کے لیے وہی آسمان ہو گا۔ جس کے لیے اس کی پیدائش کی گئی ہے۔

 

۱۰۶

عذاب یافتہ لوگوں کی چیخیں

گدھے کے چیخنے میں جیسے زیر و بیم ہوا ہے ایسے ہی ان کی چیخیں ہوں گی۔ یہ یاد رہے کہ عرب کے محاوروں کے مطاق قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ وہ ہمیشگی کے محاوے کو اسی طرح بولا کرتے ہیں کہ یہ ہمیشیگی والا ہے جب تک آسمان و زمین کو قیم ہے۔ یہ بھی ان کے محاورے میں ہے کہ یہ باقی رہے گا جب تک دن رات کا چکر بندھا ہوا ہے۔ پس ان الفاظ سے ہمیشگی مراد ہے نہ کہ قید۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس زمین و آسمان کے بعد دار آخرت میں ان کے سوا اور آسمان و زمین ہو پس یہاں مراد جنس ہے۔ چنانچہ ھضر ابن عباس سے مروی ہے کہ ہر جنت کا اصمان و زمین ہے۔ اس کے بعد اللہ کی منشا کا ذکر ہے جیسے آیت النار مثولک خالدین فیھا الا ماشا اللہّٰہ میں ہے۔ اس استثنا کے بارے میں بہت سے قول ہیں جنہیں جوزی نے زاد المیسر میں نقل کیا ہے۔ اببن جریر نے خالد بن معدان، ضحاک، قتادہ اور بن سنان کے اس قول کو پسند فرمایا ہے کہ موحد گنہگاروں کی طرف استثناء عائد ہے بعض سلف سے اس کی تفسیر میں بڑے ہی غریب اقواد وارد ہوئے ہیں۔ قتادہ فرماتے ہیں اللہ ہی کو اس کا پورا علم ہے۔

 

۱۰۸

انبیاء کے فرماں بردار اور جنت

رسولوں کے تابعدار جنت میں رہیں گے۔ جہاں سے کبھی نکلنا نہ ہو گا۔ زمین و آسمان کی بقا تک ان کی بھی جنت میں بقا رہے گی مگر جو اللہ چاہے یعنی یہ بات بذاتہ واجب نہیں بلکہ اللہ کی مشیت اور اسکے ارادے پر ہے بقول ضحاک و حسن یہ بھی موحد گنہگاروں کے حق میں ہے وہ کچھ مدت جہنم میں گزار کر اس کے بعد وہاں سے نکالے جائیں گے یہ عطیہ ربانی ہے جو ختم نہ ہو گا۔ نہ گھٹے گا یہ اس لیے فرمایا کہ کہیں ذکر مشیت سے یہ کھٹکا نہ گزرے کہ ہمیشگی نہیں۔ جیسے کہ دوزخیوں کے دوام کے بعد بھی اپنی مشیت اور ارادے کی طرف رجوع کیا ہے۔ سب اس کی حکمت و عدل ہے وہ ہر اس کام کو کر گزرتا ہے جس کا ارادہ کرے۔ بخاری و مسلم میں ہے موت کو چتکبرے مینڈھے کی صورت میں لایا جائے گا اور اسے ذبح کر دیا جائے گا۔ پھر فرما دیا جائے گا کہ اہل جنت تم ہمیشہ رہو گے اور موت نہیں اور جہنم والوں تمہارے لیے ہمیشگی ہے موت نہیں۔

 

۱۰۹

مشرکوں کا حشر

مشرکوں کے شرک کے مطابق ہونے میں ہرگز شبہ تک نہ کرنا۔ ان کے پاس وائے باپ دادا کی بھونڈی تقلید کے اور دلیل ہی کیا ہے؟ ان کی نیکیاں انہیں دنیا میں ہی مل جائیں گی آخرت میں عذاب ہی عذاب ہو گا۔ جو خیرو شکر کے وعدے ہیں سب پورے ہونے والے ہیں۔ ان کا عذاب کا مقررہ حصہ انہیں ضرور پہنچے گا۔ موسیٰ علیہ السلام کو اہم نے کتاب دی لیکن لوگوں نے تفرقہ ڈالا۔ کسی نے اقرار کیا تو کسی نے انکار کر دیا۔ پس انہی نبیوں جیسا حال آپ کا بھی ہے کوئی مانے گا کوئی ٹالے گا۔ چونکہ ہم وقت مقرر کی چکے ہیں چونکہ ہم بغیر حجت پوری کئیع ذاب نہیں کیا کرتے اس لیے یہ تاخیر ہے ورنہ ابھی انہیں ان کے گناہوں کا مزہ یاد آ جاتا ہے۔ کافروں کو اللہ اور اس کے رسول کی باتیں غلط ہی معلوم ہوتی ہیں۔ ان کا شک و شبہ ائل نہیں ہوتا۔ سب کو اللہ جمع کرے گا اور ان کے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ دے گا۔ اس قرآۃ کا بھی معنی اس ہمارے ذکر کردہ معنی کی طرف ہی لوٹنا ہے۔

 

۱۱۲

استقامت کی ہدایت

استقامت اور سیدھی راہ پر دوام، ہمیشگی اور ثابت قدمی کی ہدایت اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور تمام مسلمانوں کو کہا ہے۔ یہی سب سے بڑی چیز ہے۔ ساتھ ہی سرکشی سے روکا ہے کیونکہ یہی توبہ کرنے والی چیز ہے گو کسی مشک ہی پر کی گئی ہو۔ پروردگار بندوں کے ہر عمل سے آگاہ ہے مداہنت اور دین کے کاموں میں سستی نہ کرو۔ شرک کی طرف نہ جھکو۔ مشرکین کے اعمال پر رضامندی کا اظہار نہ کرو۔ ظالموں کی طرف نہ جھکو۔ ورنہ آگ تمہیں پکڑ لے گی۔ ظالموں کی طرف داری ان کے ظلم پر مد ہے یہ ہرگز نہ کرو۔ اگر ایسا کیا تو کون ہے جو تم سے عذاب اللہ ہٹائے اور کون ہے جو تمہیں اس سے بچائے۔

 

۱۱۴

اوقات نماز کی نشاندہی

ابن عباس وغیرہ کہتے ہیں دن کے دنوں سرے سے مراد صبح کی اور مغرب کی نماز ہے۔ قتادہ ضحاک وغیرہ کا قول ہے کہ پہلے سرے سے مراد صبح کی نماز اور دوسرے سے مراد ظہر اور عصر کی نماز رات کی گھڑیوں سے مراد عشا کی نماز بقول مجاہد وغیرہ مغرب و عشا کی۔ نیکیوں کو کرنا گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔ سنن میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جس مسلمان سے کئی گناہ ہو جائے پر وہ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ لے، تو اللہ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کیا پھر فرمایا اسی طرح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو وضو کرتے دیکھا ہے اور آپ نے فرمایا ہے جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے، جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے تمام اگلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ مسند میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی منگوایا، وضو کیا، پھر فرمایا میرے اس وضو کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وضو کیا کرتے تھے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے اور کھڑا ہو کر ظہر کی نماز ادا کرے، اس کے صبح سے لے کر اب تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، پھر عصر کی نماز پڑھے، تو ظہر سے عصر تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں، پھر مغرب کی نماز ادا کرے، تو عصر سے لے کر مغرب تک کے گناہ بخش دیئے اجتے ہیں۔ پھر عشا کی نماز سے مغرب سے عشا تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ سوتا ہے لوٹ پوٹ ہوتا ہے پھر صبح اُٹھ کر نماز فجر پڑھ لینے سے عشا سے لے کر صبح کی نماز کے کے سب گناہ بخش یدئے جاتے ہیں۔ یہی ہیں وہ بھلائیاں جو برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں،  بتلاؤ تو اگر تم میں سے کسی کے مکان کے دروازے پر ہی نہر جاری ہو اور وہ اس میں ہر دن پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس کے جسم پر ذرا سی بھی میل باقی رہ جائے گا؟ لوگوں کے نے کہا ہرگز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بس یہی مثال ہے۔ پانچ نمازوں کی کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خطائیں اور گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  پانچویں نمازیں اور جمعہ جمعہ تک اور رمضان رمضان تک کا کفارہ ہے جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے مسند احمد میں ہے  ہر نماز اپنے سے پہلے کی خطاؤں کو مٹا دیتی ہے۔ بخاری میں ہے کہ کسی شخص نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا پھر حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے اس گناہ کی ندامت ظاہر کی۔ اس پر یہ آیت اتری اس نے کہا کیا میرے لیے ہی یہ مخصوص ہے؟ آپ نے جواب دیا نہیں بلکہ میری ساری اُمت کے لیے یہی حکم ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس نے کہا میں نے باغ میں اس عورت سے سب کچھ کیا، ہاں جماع نہیں کیا اب میں حاضر ہوں جو سزا میرے لیے آپ تجویز فرمائیں میں برداشت کر لوں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ چلا گیا۔ حضرت عمر نے فرمایا اللہ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی اگر یہ بھی اپنے نفس کی پردہ پوشی کرتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم برابر اسی شخص کی طرف دیکھتے رہے پھر فرمایا۔ اسے واپس بلا لاء۔ جب وہ آ گیا تو آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ اس پر حضرت معاد نے دریافت کیا کہ  کیا یہ اسی کے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ سب لوگوں کے لیے ہے۔ مسند احمد میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  اللہ تعالیٰ نے جس طرح تم میں روزیاں تقسیم فرمائی ہیں۔ اخلاق بھی تقسیم فرماۓ ہیں اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے۔ جس سے خوش ہو اور اسے بھی جس سے غضبناک ہو۔ لیکن دین صرف انہیں کو دیتا ہے جن سے اسے محبت ہو۔ پس جسے دین مل جائے یقیناً اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور اسکی زبان مسلمان نہ جائے۔ اور بندہ ایماندار نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اسکی ایذاؤں سے بے فکر نہ جائیں۔ لوگوں نے پوچھا ایذائیں کیا کیا؟ فرمایا دھوکہ اور ظل۔ سنو جو شخص مال حرام کامئے پر اس میں سے خرچ کرے اللہ اسے برکت سے محروم کر دیتا ہے۔ اگر وہ اس میں سے صدقہ کرے تو قبول نہیں ہوتا۔ اور جتنا کچھ اپنے بعد باقی چھوڑ مرے وہ سب اس کے لیے آگ دوزخ کا توشہ ہے بنتا ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو بھلائی سے مٹاتا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ ایک عورت سودا لینے کے لیے آتی تھی افسوس کہ میں اسے کوٹھڑی میں لے جا اس سے بجز جماع کے اور ہر طرح لطف اندوز ہوا۔ اب جو اللہ کا حکم ہو وہ مجھ پر جاری کیا جائے۔ آپ نے فرمایا شاید اس کا خاوند غیر حاضر ہو گا اس نے کہا جی ہاں یہ بات تھی۔ آپ نے فرمایا تم جاؤ حضرت ابوبکر صدیق سے یہ مسلۂ پوچھو۔ حضرت ابوبکر صدیق نے بھی یہی سوال کیا پس آپ نے بھی حضرت عمر کی طرف فرمایا پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوے اور اپنی حالت بیان کی آپ نے فرمایا شاید اس کا خاوند اللہ کی راہ میں گیا ہوا ہو گا؟ پس قرآن کریم کی یہ آیت اتری تو کہنے لگا  کیا یہ خاص میرے لیے ہی ہے ؟ تو حضرت عمر نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا نہیں اس طرح صرف تیری ہی آنکھیں ٹھنڈی نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ سب لوگوں کے لیے عام ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عمر سچے ہیں۔ ابن جریر میں ہے کہ وہ عورت مجھ سے ایک درہم کی کھجوریں خریدنے آئی تھی تو میں اسے کہا کے اندر کوٹھری میں اس سے بہت اچھی کھجوریں ہیں وہ اندر گئی میں نے بھی اندر جا کر اسے چوم لیا۔ پھر وہ حضرت عمر کے پاس گیا تو آپ نے فرمایا اللہ سے ڈر اور اپنے نفس پر پردہ ڈالے رہ۔ لیکن ابو الیسر عنہ کہتے ہیں مجھ سے صبر نہ ہو سکا۔ میں نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے واقعہ بیان کیا آپ نے فرمایا افسوس تو نے ایک غازی مرد کی اس غیر حاضری میں ایسی خیانت کی۔ میں نے تو یہ سن کر اپنے آپ کو جہنمی سمجھ لیا اور میرے دل میں خیال آنے لگا کہ کاش کہ میرا اسلام اس کے بعد کو ہوتا؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ذرا سی دیر اپنی گردن جھکا لی اسی وقت حضرت جبرئیل یہ آیت لے کر اترے۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک شخص نے آ کر حضور صیلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی اللہ کی مقرر کردہ حد مجھ پر جاری کیجئے۔ ایک دو دفعہ اس نے یہ کہا لیکن آپ نے اس کی طرف سے منہ موڑ لیا۔ پھر جب نماز کھڑی ہوئی اور آپ نماز سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے؟ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا تو نے اچھی طرح وضو کیا؟ اور ہمارے ساتھ نماز پڑھی اس نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا بس تو تو ایسا ہی ہے جیسے اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ خبردار اب کوئی ایسی حرکت نہ کرنا۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ حضرت ابو عثمان کا بیان ہے کہ میں حضرت سلمان کے ساتھ تھا۔ انہوں نے ایک درخت کی خشک شاخ پکڑ کے اسے جھنجھوڑا تو تمام خشک پتے جھڑ گئے پھر فرمایا ابو عثمان تم پوچھتے نہیں ہو کہ میں نے یہ کیوں کیا؟ میں کہا ہاں جناب ارشاد ہو۔ فرمایا اسی طرح میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے کیا۔ پھر فرمایا جب بندہ مسلمان اچھی طرح وضو کر کے پانچوں نمازیں ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ ایسے ہی چھڑ جاتے ہیں جیسے اس خشک شاخ کے پتے جھڑ گئے۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں برائی اگر کوئی ہو جائے تو اس کے پیچھے ہی نیکی کر لو کہ اسے مٹا دے۔ اور لوگوں سے خوش اخلاقی سے ملا کرو۔ اور حدیث میں ہے  جب تجھ سے کوئی گناہ ہو جائے تو اس کے پیچھے ہی نیکی کر لیا کر تاکہ یہ اسے مٹا دے میں نے کہا یارسول اللہ کیا لا الہ الا اللہ پڑھنا بھی نیکی ہے؟ آپ نے فرمایا وہ تو بہترین اور افضل نیکی ہے۔ ابو یعلی میں ہے۔  دن رات کے جس وقت میں کوئی لا الہ الا اللہ پڑھے اس کے نامہ اعمال میں سے برائیاں مٹ جاتی ہیں یہاں تک کہ ان کی جگہ وہی ہی نیکیاں ہو جاتی ہیں۔ اس کے راوی عثمان میں ضعف ہے۔ بزار میں ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں نے کوئی خواہش ایسی نہیں چھوڑی جسے پوری نہ کی ہو۔ آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کے ایک ہونے کی اور میری رسالت کی گواہی دیتا ہے؟ اس نے کہا ہاں تو آپ نے فرمایا بس یہ ان سب پر غالب رہے گی۔

 

۱۱۶

نیکی کی دعوت دینے والے چند لوگ

یعنی سوائے چند لوگوں کے ہم گزشتہ زمانے کے لوگوں میں ایسے کیوں نہیں پاتے جو شریر و ناور منکروں کو برائیوں سے روکتے رہیں۔ یہی وہ ہیں جنہیں ہم اپنے عذاب سے بچا لیا کرتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امت میں ایسی جماعت کی موجودگی کا قطعی اور فرضی حکم دیا۔ فرمایا ولتکن منکم امتہ یدعون الی الخیر الخ، بھلائی اور نیکی کی دعوت دینے والی ایک جماعت تم میں ہر وقت موجد رہنی چاہیے۔ الخ، ظالموں کا شیوہ یہی ہے کہ وہ اپنی بد عادتوں سے باز نہیں آتے۔ نیک علماء کے فرمان کی طرف توجہ بھی نہیں کریے یہاں تک کہ اللہ کے عذاب ان کی بے خبری میں ان پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ بھلی بستیوں پر اللہ کی طرف سے از راہ ظلم عذاب کبھی آتے ہی نہیں۔ ہم ظلم سے پاک ہیں لیکن خود ہی وہ اپنی جانوں پر مظالم کرنے لگتے ہیں۔

 

۱۱۸

جس پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہو

اللہ کی قدر کسی کام سے عاجز نہیں۔ وہ چاہے تو سب کو ہی السلام یا کفر پر جمع کر دے لیکن اس کی حکمت ہے جو انسانی رائے ان کے دین و مذاہب جدا جدا برابر جاری و ساری ہیں۔ طریقے مختلف، مالی حالات جداگانہ ایک ایک کے ماتحت یہاں مراد دین و مذہب کا اختلاف ہے۔ جن پر اللہ کا رحم ہو جائے وہ رسولوں کی تابعداری رب تعالیٰ کی حکم برداری میں برابر لگے رہتے ہیں۔ اب وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے مطیع ہیں۔ اور یہی نجات پانے والے ہیں۔ چنانچہ مسند و سنن میں حدیث ہے جس کی ہر سند دوسری سند کو تقویت پہنچا رہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہودیوں کے اکہتر گروہ ہوئے۔ نصاریٰ بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے، اس امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے، سب جہنمی ہیں سوائے ایک جماعت کے، صحابہ نہ پوچھا  یا رسول وہ کون لوگ ہیں  ؟ آپ نے جواب دیا وہ جو اس پر ہوں جس پر میں ہو اور میرے اصحاب (مستدرک حاکم) بقول عطا مختلفین سے مراد یہودی، نصرانی، مجوسی ہیں اور اللہ کے رحم والی جماعت سے مراد یک طرفہ دین اسلام کے مطیع لوگ ہیں۔ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ جماعت ہے گو ان کے وطن اور بدن جدا ہوں اور اہل معصیت فرقت و اختلاف والے ہیں گو ان کے وطن اور بدن ایک ہی جا جمع ہوں۔ قدرتی طور پر ان کی پیدائش ہی اسی لیے ہے شقی و سعید کی ازلی تقسیم ہے۔ یہ بھی مطلب ہے کہ رحمت حاصل کرنے والی یہ جماعت بالخصوص اسی لیے ہے۔ حضرت طاؤسل کے پاد و شخص پنا جھگڑا لے کر آئے اور آپس کے اختلاف میں بہت بڑھ گئے تو آپ نے فرمایا کہ تم نے جھگڑا اور اختلاف کیا اس پر ایک شخص نے کہا اسی لیے ہم پیدا کئے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا، غلط ہے اس نے اپنے ثبوت میں اسی آیت کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا اس لیے نہیں پیدا کیا کہ آپس میں اختلاف کریں، بلکہ پیدائش تو جمع کے لیے اور رحمت حاصل کرنے کے لیے ہوئی ہے جیسے کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ رحمت کے لیے پیدا کیا ہے نہ کہ عذاب کے لیے۔ اور آیت میں ہے وما خلقت الجن و النس الا لیعبدونO۔ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ تیسرا قول ہے کہ رحمت اور اک اف کے لیے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ مالک اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک فرقہ جنتی اور ایک جہنمی۔ انہیں رحمت حاصل کرنے اور انہیں اختلاف میں مصروف رہنے کے لیے پیدا کیا ہے تیرے رب کا یہ فیصلہ ناطق ہے کہ اس کی مخلوق میں ان دونوں اقسام کے لوگ ہوں گے اور ان دونوں سے جنت دوزخ پر کئے جائیں گے۔ اس کی کامل حکمتوں کو وہی جانتا ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ جنت دوزخ دونوں میں آپس میں گفتگو ہوئی۔ جنت نے کہا مجھ میں تو صرف ضعیف اور کمزور لوگ ہی داخل ہوتے ہیں اور جہنم نے کہا میں تکبر اور ظلم کرنے ولوں کے ساتھ مخصوص کی گئی ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ عزوجل نے جنت سے فرمایا و میرے رحمت ہے، جسے میں چاہوں اسے تجھ سے نواز دوں گا۔ اور جہنم سے فرمایا تو میرا عذاب ہے جس سے میں چاہوں تیرے عذاب کے ذریعہ اس سے انتقام لوں گا۔ تم دونوں پر ہو جاؤ گی۔ جنت میں تو برابر زیادتی رہے گی یہاں تک کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا اور اسے اس میں بسائے گا اور جہنم بھی برابر زیادتی طلب کرتی رہے گی یہاں تک کہ اس پر اللہ رب العزت اپنا قدم رکھ دے گا تب وہ کہے گی تیری عزت کی قسم اب بس ہے بس ہے۔

 

۱۲۰

ذکر ماضی تمہارے لیے سامان سکون

پہلی امتوں کا اپنے نبیوں کو جھٹلانا، نبیوں کا ان کی ایذاؤں پر صبر کرنا۔ آ کر اللہ کے عذاب کا آنا، کافروں کا برباد ہونا، نبیوں رسولوں اور مومنوں کا نجات پانا، یہ سب واقعات ہم تجھے سنا رہے ہیں۔ تاکہ تیرے دل کو ہم اور مضبوط کر دیں اور تجھے کام سکون حاصل ہو جائے۔ اس سورت میں بھی حق تجھ پر واضح ہو چکا ہے کہ اس دنیا میں بھی تیرے سامنے سچے واقعات بیان ہو چکے ہیں۔ یہ عبرت ہے کفار کے لیے اور نصیحت ہے مومنوں کے لیے کہ وہ اس سے نفع حاصل کریں۔

 

۱۲۱

بطور دھمکانے ڈرانے اور ہوشیار کرنے کے ان کافروں سے کہہ دو کہ اچھا تم اپنے طریقے سے نہیں ہٹتے تو نہ ہٹو ہم بی اپنے طریقے پر کار بند ہیں۔ تم منظر ہر کہ آخر انجام کیا ہوتا ہے ہم بھی اسی انجام کی راہ دیکھتے ہیں فالحمد اللہ دنیا نے ان کافروں کا انجام دیکھ لیا ان مسلمانوں کا بھی جو اللہ کے فضل و کرم سے دنیا پر چھا گئے۔ مخالفین پر کامیابی کے ساتھ غلبہ حاصل کر لیا دنیا کو مٹھی میں لے لیا فللہ الحمد۔

 

۱۲۳

علم غیب اور حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ ہی کو سزاوار ہے

آسمان و زمین کے ہر غیب کو جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ عروج ہی ہے۔ اسی کی سب کو عبادت کرنی چاہیے اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ جو بھی اس پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ جو بھی اس پر بھروسہ رکھے وہ اس کے لیے کافی ہے۔ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تورات کا خاتمہ بھی انہیں آیتوں پر ہے اللہ تعالیٰ مخلوق میں سے کسی کے کسی عمل سے بے خبر نہیں۔