آیت ۳۵ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا بیان ہوئی ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام "ابراہیم" ہے۔
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جبکہ ایمان لانے والوں کو سخت اذیتیں پہنچائی جا رہی تھیں۔ یہ زمانہ ہجرت حبشہ اور اس کے بعد کا ہے اور اغلب ہے کہ سورۂ رعد کے بعد یہ نازل ہوئی ہو گی۔
یہ واضح کرتا ہے کہ رسول کو بھیجنے کا مقصد کیا ہے اور اس کے ذریعہ انسانیت پر خدا کی راہ کس طرح روشن ہو رہی ہے۔ جو لوگ اس عظیم مقصد کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں وہ رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے ہیں اور اس کے پیروؤں کو اذیتیں پہنچانے کے درپے ہیں۔ ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہی ٹوٹ سکتا ہے اور وہ بدترین سزا ہی کے مستحق ہو سکتے ہیں۔
آیت ۱ تا ۴ میں رسول اور قرآن کے بھیجنے کے مقصد واضح کیا گیا ہے آیت ۵ تا ۱۷ میں تاریخ انبیاء کے کچھ اوراق پیش کئے گئے ہیں جن سے یہ سبق ملتا ہے کہ رسول کی مخالفت کرنے والے اور ان کی راہ میں کانٹے بچھانے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں جو سزا بھگتنا ہو گی اس کی بھی ایک جھلک پیش کی گئی ہے جو رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ آیت ۱۸ تا ۲۳ میں ان کی نامرادی کا مزید حال پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اہل ایمان کس طرح با مراد ہوں گے۔ آیت ۲۴ تا ۳۴ میں ایمان اور کفر کے مختلف نتائج کو مثال کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے۔ کافروں کو نعمتِ خداوندی کی ناشکری پر متنبہ کیا گیا ہے اور اہل ایمان کو شکر گزاری کا طریقہ بتایا گیا ہے۔
آیت ۳۵ تا ۴۱ میں ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعا پیش کی گئی ہے جو تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ اپنی نسل کو شرک سے محفوظ اور توحید پر قائم رکھنے کے لیے ایک بے تاب دل رکھتے تھے مگر ان کی اولاد (بنی اسمٰعیل) ان کو اپنا پیشوا مانتے ہوئے آج جو کچھ کر رہی ہے وہ ان کی آرزو، ان کی دعا اور ان کے طرز عمل کے سراسر خلاف ہے۔ آیت ۴۲ تا ۵۲ خاتمہ کلام ہے جس میں قیامت اور اس کے عذاب کا ہولناک نقشہ کھینچا گیا ہے۔
۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الف۔ لام۔ را۔ ۱* یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے (اے پیغمبر!) تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آؤ ۲* اس کی راہ پر جو غالب بھی ہے اور خوبیوں والا بھی۳*
۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کہ مالک ہے ان چیزوں کا جو آسمانوں میں ہیں اور ان چیزوں کا جو زمین میں ہیں۔ اور تباہی ہے کافروں کے لیے کہ انہیں سخت سزا بھگتنا ہو گی۔
۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں ۴* اور اللہ کے راستہ سے لوگوں کو روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ۵* یہ لوگ پرلے درجہ کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔
۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے جو رسول بھی بھیجا اس کی قوم کی زبان ہی میں (پیغام دیکر) بھیجا تاکہ وہ (اس پیغام کو) لوگوں پر اچھی طرح واضح کر دے۔ ۶* پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ ۷* وہ غالب اور حکمت والا ہے۔
۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ اور انہیں اللہ کے یادگار دن۸* یاد دلاؤ۔ اس میں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہے بڑی نشانیاں ہیں۔ ۹*
۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا ۱۰* اللہ نے جو فضل تم پر کیا ہے اسے یاد رکھو جب اس نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی جو تمہیں بری طرح تکلیف دیتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ ۱۱* اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔
۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تمہارے رب نے خبردار کیا تھا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں مزید دوں گا۱۲* اور اگر نا شکری کرو گے تو (یاد رکھو) میری سزا بڑی سخت ہے ۱۳*
۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تم اور وہ سب جو روئے زمین پر ہیں نا شکری کریں تو اللہ (کو کچھ پروا نہیں۔ وہ) بے نیاز اور خوبیوں والا ہے۔ ۱۴*
۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تمہیں ۱۵* ان لوگوں کی خبریں نہیں پہنچیں جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ قوم نوح، عاد، اور ثمود اور وہ قومیں جوان کے بعد ہوئیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۱۶* ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لیکر آئے تھے لیکن انہوں نے اپنے منہ میں اپنے ہاتھ ٹھونس لیے ۱۷* اور کہا جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو اس سے ہمیں انکار ہے اور جس بات کی طرف تم بلاتے ہو اس میں ہمیں شک ہے جس نے ہمیں الجھن میں ڈال دیا ہے۔
۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے رسولوں نے کہا کیا تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ۱۸* ہے ؟ وہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے گناہ بخش دے اور ایک مقررہ وقت تک مہلت دے ۱۹* انہوں نے کہا تم تو ہمارے ہی جیسے آدمی ہو۔ تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان سے روک دو جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں۔ اچھا تو لاؤ کوئی کھلا معجزہ۔
۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے رسولوں نے کہا واقعی ہم تمہارے ہی جیسے آدمی ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے ۲۰* اور یہ بات ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی معجزہ لا دکھائیں۔ ہاں اللہ کے حکم سے یہ بات ہو سکتی ہے اور ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جبکہ اس نے ہماری راہیں ہم پر کھول دیں۔ ۲۱* ہم ان اذیتوں پر صبر کریں گے جو تم ہمیں دے رہے ہو۔ اور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے یا پھر تمہیں ہمارے مذہب میں لوٹ آنا ہو گا۲۲* تو ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کریں گے۔
۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے بعد تمہیں زمین میں بسائیں گے۔ یہ (صلہ) اس کے لیے ہے جو ڈرا میرے حضور کھڑے ہونے سے اور ڈرا میری تنبیہ سے۔
۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہوں نے فیصلہ چاہا اور (فیصلہ اس طرح ہوا کہ) ہر سرکش ضدی نامراد ہوا۔ ۲۳*
۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے آگے جہنم ہے ۲۴* اور اسے پیپ لہو پلایا جائے گا۔ ۲۵*
۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جسے وہ گھونٹ گھونٹ کر کے پئے گا مگر حلق سے آسانی کے ساتھ اُتار نہ سکے گا۔ موت ہر طرف سے اس پر آئے گی مگر وہ مر نہ سکے گا۔ اور آگے ایک سخت عذاب کا اسے سامنا کرنا ہو گا۔
۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے راکھ کہ آندھی کے دن اسے ہوا تیزی کے ساتھ لے اُڑے۔ ۲۶* جو کچھ انہوں نے کمایا اس سے کچھ بھی ان کو حاصل نہ ہو سکے گا۔ یہی ہے پر لے درجہ کی گمراہی۔
۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آسمانو ں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم کو فنا کر دے اور ایک نئی مخلوق لے آئے۔ ۲۷*
۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ دشوار نہیں۔
۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (ایسا ہو گا کہ) اللہ کے حضور سب حاضر ہوں گے اس وقت کمزور لوگ ان لوگوں سے جو بڑے بن کر رہے تھے کہیں گے ہم تو تمہارے تابع تھے۔ اب کیا تم ہم کو اللہ کے عذاب سے بچانے کے لیے کچھ کر سکتے ہو؟ وہ کہیں گے اگر اللہ نے ہم کو راہ دکھائی ہوتی تو ہم تم کو ضرور دکھاتے۔ اب ہمارے لیے یکساں ہے خواہ چیخ پکار کریں خواہ جھیل لیں۔ ہمارے لیے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ ۲۸*
۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان بولے گا اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تھا تو وعدہ خلافی کی۔ ۲۹* میرا تم پر کوئی زور نہ تھا البتہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا بلاوا قبول کر لیا۔ ۳۰* لہٰذا مجھے ملامت نہ کرو۔ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو۔ اس سے پہلے تم نے جو مجھے شریک ٹھہرایا تھا تو میں اس سے بیزاری ظاہر کرتا ہوں۔ ۳۱* ظالموں کے لیے تو درد ناک عذاب ہے۔
۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے وہ ایسے باغوں میں داخل کئے جائیں گے جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔ اس میں وہ اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ رہیں گے۔ وہاں ان کی دعائے ملاقات سلام ہو گی۔ ۳۲*
۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے غور نہیں کیا کہ اللہ نے کس طرح کلمۂ طیبہ کی مثال بیان فرمائی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھا درخت جس کی جڑ جمی ہوئی اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی۔
۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہر وقت اپنے رب کے حکم سے پھل لاتا ہے۔ ۳۳* اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ ہوش میں آئیں۔
۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کلمۂ خبیثہ کی مثال ایک نکمے درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح ہی سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ اس کے لیے کوئی جماؤ نہیں۔ ۳۴*
۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اہل ایمان کو مضبوط قول کے ذریعہ دنیا کی زندگی میں بھی مضبوطی عطا کرتا ہے اور آخرت میں بھی۔ ۳۵* اور غلط کار لوگوں کو اللہ گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ۳۶*
۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل ڈالا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں جا اتارا؟۳۷*
۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (یعنی) جہنم جس میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہوں نے اللہ کے ہم سر۳۸* بنائے تاکہ لوگوں کو اس کے راستہ سے بھٹکائیں۔ کہو مزے کر لو بالآخر تمہیں جانا دوزخ ہی میں ہے۔
۳۱۔ ۔ ۔ ۔ میرے بندوں سے جو ایمان لائے ہیں کہہ دو نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کریں ۳۹* قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی اور نہ دوستی کام آئے گی۔
۳۲۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہی نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ تمہارے رزق کے لیے پھل پیدا کئے اور تمہارے لیے کشتی کو مسخر کیا کہ اس کے حکم سے سمندر میں چلے اور تمہارے لیے دریا مسخر کر دئیے۔ ۴۰*
۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے لیے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا کہ ایک طریقہ پر کاربند ہیں نیز رات اور دن کو بھی مسخر کر دیا۔ ۴۱*
۳۴) اس نے تمہاری ہر طلب پوری کر دی۴۲* اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے۔ ۴۳* حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی نا انصاف بڑا ہی نا شکرا ہے۔ ۴۴*
۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے دعا کی تھی کہ اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنا۴۵* اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے بچا کہ بتوں کی پوجا کرنے لگیں۔ ۴۶*
۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے میرے رب! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے ۴۷* تو جو میری پیروی کرے وہ میرا ہے اور جو میری نا فرمانی کرے تو تو بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ۴۸*
۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض۴۹* کو ایک ایسی وادی میں جہاں کاشت نہیں ہوتی۵۰* تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے ۵۱* اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ ۵۲* لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے ۵۳* اور پھلوں سے ان کو رزق بہم پہنچا۵۴* تاکہ وہ شکر گزار بنیں۔
۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے رب! تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ اور اللہ سے کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں۔ ۵۵*
۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شکر ہے اللہ کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمٰعیل اور اسحاق عطا فرمائے ۵۶* یقیناً میرا رب دعائیں سننے والا ہے۔
۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد کو بھی۔ اے ہمارے رب! میری دعا قبول فرما۔ ۵۷*
۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین کو اور مومنوں کو اس دن بخش دے جس دن حساب قائم ہو گا۔ ۵۸*
۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ظالم جو کچھ کر رہے ہیں اس سے تم اللہ کو غافل نہ سمجھو۵۹* وہ تو ان کو اس دن تک کے لیے مہلت دے رہا ہے جب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ ۶۰*
۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سر اٹھائے ہوئے بھاگ رہے ہوں گے۔ ۶۱* نگاہیں ہیں کہ لوٹ کر آنے والی نہیں ۶۲* اور دل ہیں کہ اُڑے جاتے ہیں۔ ۶۳*
۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کو اس دن سے خبردار کر دو جبکہ عذاب ان کو آئے گا۶۴* اس وقت ظالم کہیں گے اے ہمارے رب! ہمیں تھوڑی سی مدت کے لیے مہلت دیدے ہم تیری دعوت قبول کریں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے۔ کیا تم اس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر نہیں کہتے تھے کہ ہمیں (دنیا سے) منتقل ہونا نہیں ہے۔ ۶۵*
۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم ان لوگوں کی بستیوں میں بس گئے تھے جنہوں نے اپنے ہی اوپر ظلم کیا تھا۶۶* اور تم پر واضح ہوا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا اور تمہارے لیے ہم نے مثالیں بھی بیان کر دی تھیں۔ ۶۷*
۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہوں نے طرح طرح کی چالیں چلیں اور اللہ کے پاس ان کی ہر چال کا جواب تھا اگرچہ ان کی چالیں ایسی تھیں کہ پہاڑ ٹل جائیں۔ ۶۸*
۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس تم یہ خیال نہ کرو کہ اللہ نے اپنے رسولوں سے جو وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا۔ ۶۹* اللہ غالب ہے اور سزا دینے والا ہے۔ ۷۰*
۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن کہ جب یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی۷۱* اور سب اللہ واحد و قہار (زبردست) کے حضور حاضر ہوں گے !۷۲*
۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم اس دن مجرموں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے لباس تارکول کے ہوں گے اور چہروں پر آگ چھائی ہوئی ہو گی۔
۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس لیے ہو گا کہ اللہ ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ دے۔ بلا شبہ وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔
۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک پیغام ہے تمام انسانوں کے لیے ۷۳* اور اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو خبردار کر دیا جائے اور وہ جان لیں کہ وہی بس ایک خدا ہے اور جو سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ یاد دہانی حاصل کریں۔ ۷۴*
۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حروفِ مقطعات کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یونس نوٹ ۱ اور سورۂ بقرہ نوٹ ۱۔
۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ اہم ترین مقصد ہے جس کے لیے قرآن کا نزول ہوا ہے یعنی لوگوں کو عقیدہ و عمل کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و عمل صالح کی روشنی میں لے آنا۔ پیغمبر کہ ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دعوت و تبلیغ، فہمائش و تذکیر اور تعلیم و ارشاد کے ذریعہ لوگوں کو روشنی میں لانے کی کوشش کرے اور اس روشنی کو قبول کرنے کی توفیق دینا اللہ ہی کا کام ہے۔ بالفاظ دیگر جو لوگ روشنی میں آئے اللہ کی توفیق ہی سے آئے مگر ذریعہ پیغمبر اور قرآن بنے۔
۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی روشنی میں لانے کا مطلب اللہ کی راہ پر لانا ہے۔ یہاں اللہ کی دو صفتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ وہ عزیز یعنی غالب ہے اور دوسری یہ کہ وہ حمید یعنی خوبیوں والا ہے۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ یہ دین جو خدا تک پہنچنے کی واحد راہ ہے انسان اس پر چل کر ایک ایسی ہستی سے اپنا تعلق قائم کر لیتا ہے جس کے قبضۂ قدرت میں پوری کائنات ہے اور جو خوبیوں ہی خوبیوں والا ہے اس لیے اس سے تعلق استوار کر کے انسان نہال ہی ہو سکتا ہے اور اس کی کوئی امید ایسی نہیں ہو سکتی جو بر نہ آئے۔
۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان جس چیز کو سب سے زیادہ عزیز رکھتا ہے اس کے لیے دوسری چیزوں کو قربان کر نے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ جو لوگ دنیا کو عزیز رکھتے ہیں وہ اس کے مفاد کو کسی طرح چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے خواہ آخرت کے مفاد کو انہیں قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔ دنیا کی حد سے زیادہ محبت ہی انہیں آخرت کے انکار پر آمادہ کرتی ہے۔ اگر وہ کھل کر آخرت کا انکار ہیں کرتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعی انہوں نے آخرت کو اپنا نصب العین بنا لیا ہوتا تو جو قدم بھی وہ اٹھاتے آخرت کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر ہی اٹھاتے۔
۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ آل عمران نوٹ ۱۲۵ میں گزر چکی۔
۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول کو بھیجنے سے مقصود اچنبھے دکھانا نہیں بلکہ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی سنت (قاعدہ) یہ رہی ہے کہ جس قوم میں بھی اس نے رسول بھیجا اس کی زبان کو وہ جاننے والا تھا تاکہ وہ اللہ کے پیغام کی اچھی طرح وضاحت کر سکے۔ اسی سنت الٰہی کے مطابق نبی عربی کا ظہور ہوا ہے اور قرآن عربی میں نازل کیا گیا ہے تاکہ وہ عرب قوم کو جو اس کی اولین مخاطب ہے پوری وضاحت کے ساتھ اللہ کا پیغام پہنچا سکے اور اس پر اللہ کی حجت پوری طرح قائم ہو۔
۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حجت قائم ہو جانے کے بعد قبولِ ہدایت کی توفیق ان ہی لوگوں کو نصیب ہو گی جو اللہ کی مشیت کے مطابق اس کے مستحق ٹھہریں گے۔
۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ تاریخی دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرتناک واقعات ظہور میں آئے۔ کسی قوم پر عذاب کا کوڑا برسا اور کسی گروہ کو انعام سے سرفراز کیا گیا۔
۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان واقعات میں قوموں کے عروج و زوال کے تعلق سے رہنمائی کا کافی سامان موجود ہے مگر اس رہنمائی سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے اندر صبر و شکر کا مادہ ہوتا ہے صبر یہ کہ اللہ سے اجر ملنے کی امید میں اس کی راہ میں پہنچنے والی تکلیفوں کو آدمی برداشت کرے اور شکر یہ کہ اس نے دین کی جو نعمت عطا فرمائی ہے اور اس کے روحانی سکون کا جو سامان کیا ہے اس کی وہ پوری پوری قدر کرے۔
۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بنی اسرائیل سے کہا۔
۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ اعراف نوٹ ۲۰۵ میں گزر چکی بائبل میں ہے کہ مصر کے بادشاہ نے اس اندیشہ کے پیش نظر کہ اسرائیلی تعداد میں زیادہ نہ ہو جائیں دائیوں کو حکم دیا تھا کہ عبرانی عورتوں کی جب وہ زچگی کریں تو:
"اگر بیٹا ہو تو اسے مار ڈالنا اور اگر بیٹی ہو تو وہ جیتی رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور فرعون نے اپنی قوم کے سب لوگوں کو تاکیداً کہا کہ ان میں جو بیٹا پیدا ہو تم اسے دریا میں ڈال دینا اور جو بیٹی ہو اُسے جیتی چھوڑنا۔ " (خروج ۱:۱۶،۲۲)
۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شکر میں تین باتیں لازماً شامل ہیں۔ ایک یہ کہ بندہ ہر اس نعمت کو جو اسے ملی اللہ کی نوازش سمجھے کسی اور کی نہیں۔ دوسری یہ کہ اس کے دل میں جذبۂ شکر پیدا ہو اور تیسری بات یہ کہ وہ اپنے محسن حقیقی کے ساتھ وفا داری اور عبادت و اطاعت کا طریقہ اختیار کرے۔
بندہ جب شکر گزاری کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو وہ مزید انعام کا مستحق قرار پاتا ہے۔
۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات میں یہ بات اس طرح موجود ہے : "لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خداوند اپنے خدا کی بات سن کر اس کے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو لگیں گی۔ شہر میں بھی تو لعنتی ہو گا اور کھیت میں بھی لعنتی ہو گا۔ " (استثناء ۲۸:۱۵۔ ۱۶)
۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : "اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے سب انس و جن سب سے زیادہ فاجر، شخص کے برابر ہو جائیں تو اس سے میری سلطنت میں کوئی کمی واقع نہ ہو گی۔ " (صحیح مسلم کتاب البر)
۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر موسیٰ علیہ السلام کا بیان ختم ہوا۔ یہاں خطاب قرآن کے مخاطبین سے ہے۔
۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے قوموں کی تاریخ کے اس جزء کی طرف جو پردۂ غیب میں چلا گیا ہے۔ قوم ثمود کا زمانہ غالباً ڈھائی ہزار سال قبل مسیح کا ہے۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک کتنی ہی قومیں ایسی ہوئیں جن میں رسول مبعوث ہوئے اور ان کے انکار و سرکشی کے نتیجہ میں عذاب الٰہی کا کوڑا ان پر برسا۔ یہ تمام واقعات تاریخ کے اوراق میں آج محفوظ نہیں ہیں لیکن اللہ کے علم میں ضرور ہیں۔
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے یہاں بھی ایسے آثار پائے جاتے ہیں جن سے قوموں کی تباہی کا پتہ چلتا ہے مثلاً ہڑپا (Harappa) جو پنجاب میں ہے اور موہن جودارو (Mohonjodaro) جو سندھ میں ہے نیز لوتھل (Lothal) جو گجرات میں ہے یہ سب قدیم بستیاں ہیں جو اپنی پوری تہذیب اور تمدن کے ساتھ زمین میں دفن ہوئی تھیں اور جن کا انکشاف اس دور میں ہوا ہے۔ ان آثار قدیمہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کی تہذیب مشرکانہ تھی اس لیے عجب نہیں کہ ان قومو ں کی طرف بھی رسول بھیجے گئے ہوں اور ان کی دعوتِ توحید کو رد کر دینے کی پاداش میں اللہ کا عذاب زلزلہ کی صورت میں آیا ہو اور اس نے ان قوموں کو زمین میں دفن کر دیا ہو۔ یہ زمانہ قومِ ثمود کے بعد اور ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا یعنی دو ہزار سال قبل مسیح سے بھی پہلے کا رہا ہو گا۔ تاریخ نے ان قوموں کے نام محفوظ رکھے ہیں اور نہ ان کے رسولوں کے۔ ان کا علم اللہ ہی کو ہے۔ البتہ یہ آثار اس بات کی شہادت ضرور دیتے ہیں کہ قدیم ہندوستان میں بھی شرک اور کفر کے نتیجہ میں عذاب الٰہی کا کوڑا ضرور برس چکا ہے۔
۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ منہ میں ٹھونسنا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب غیظ و غضب اور تعجب کا اظہار ہے۔
۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہم جو دعوت تمہارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ توحید خالص کی دعوت ہے جس کی صحت شبہ سے بالاتر ہے۔ اس میں شک وہی شخص کر سکتا ہے جس کو اس بنیادَی حقیقت کے بارے میں شک ہو کہ اس کائنات کو ایک خدا نے پیدا کیا ہے۔ اگر تمہیں یقین ہے کہ اس کائنات کا خالق اللہ ہی ہے تو پھر اس کے الٰہی واحد ہونے اور اس کے مستحق عبادت ہونے میں شک کے لیے کہاں گنجائش ہے ؟
۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی توحید کی جو دعوت تمہارے سامنے پیش کی جا رہی ہے اس کو اگر تم قبول کرو تو شرک اور معصیت کے جو کام تم اب تک کر چکے ہو ان کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا اور تم پر عذاب نازل کرنے کے بجائے تم کو وقتِ مقررہ تک زندگی گزارنے کے لیے مہلت دے گا۔
۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہم نے یہ کب دعویٰ کیا کہ ہم انسان نہیں بلکہ کوئی اور مخلوق ہیں ؟ ہم ہیں تو تم جیسے انسان ہی لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے نواز کر رسالت کے منصب پر فائز کیا ہے۔ واضح ہوا کہ رسالت کا منصب ایسا نہیں ہے کہ انسان اپنی کوششوں سے اس کو حاصل کر سکے بلکہ یہ اللہ کا عطیہ اور فضل خاص ہے جسے چاہے اس سے نوازے۔
۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان جب پورے شعور کے ساتھ اللہ پر ایمان لاتا ہے تو خدا اور مذہب کے تعلق سے اس کی ساری الجھنیں ختم ہو جاتی ہیں اور اس کے لیے زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھنے اور کامیابی کی منزل تک پہنچنے کی راہیں کھل جاتی ہیں۔
۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کافروں کا قول ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہ ہو گا کہ انبیاء علیہم السلام نبوت سے پہلے ان کے مذہب پر ہو گئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام نبوت سے پہلے دین فطرت یعنی توحید ہی پر قائم رہے ہیں لیکن چونکہ وہ رسالت کے دعوے کے ساتھ توحید کا پرچار کرتے نظر نہ آتے تھے اس لیے اختلافِ عقیدہ کے باوجود ہم قوم ہونے کی بنا پر کافر ان کو اپنا ہم مذہب خیال کرتے تھے۔ انہوں نے جو دھمکی دی اس کا مطلب یہ ہے کہ تم توحید اور رسالت کا یہ پرچار چھوڑ دو اور اپنی سابقہ حالت پر واپس آ جاؤ تو ہم تم سے تعرض نہیں کریں گے۔
۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا ہی میں ان کا فیصلہ چکا دیا گیا اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ اللہ کے عذاب نے رسولوں کے مخالفین کو ہلاک کر دیا اور ان کی دعوت قبول کرنے والوں کو بچا لیا گیا۔
۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا میں عذاب بھگتنے کے بعد انہیں آخرت میں جہنم سے واسطہ ہے۔
۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عذاب کے اس تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اگر انسان اس پر غور کرے تو اس کے دل میں رقت پیدا ہو جائے اور جہنم کے عذاب سے بچنے کی فکر اسے دامنگیر ہو:
موقع کلام کے لحاظ سے یہ وعید ان لوگوں کو سنائی گئی جو رسول کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور اس کی پیروی کرنے والوں پر شدید مظالم ڈھا رہے تھے۔ گویا ان سے کہا گیا کہ تم سرکشی اور ظلم کی جیسی چاہو مثالیں قائم کرو آگے تمہارے لیے طرح طرح کے عذاب تیار ہیں۔
واضح رہے کہ سزا جنسِ عمل سے ہوتی ہے۔ ان کے عقائد خبیث تھے ، ان کے اعمال خبیث تھے اور وہ خبیث غذائیں اور خبیث مال کھاتے رہے اس لیے وہ اس سزا کے مستحق ٹھہرے کہ پیپ جیسی خبیث چیز ان کو پینے کے لیے دی جائے۔
۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کفر تمام اعمال کو بے حقیقت اور بے وزن بنا دیتا ہے خواہ وہ اعمال مذہبی مراسم ہوں ، ظاہری نیکیاں ہوں یا خیراتی و رفاہی کام۔ جن لوگوں نے کفر کی اساس پر نیکی کے کام انجام دیئے ہوں گے ان کو کفر کی آگ جلا کر راکھ کر دے گی اس لیے ان کے سارے مذہبی کارنامے قیامت کے دن راکھ کا ڈھیر ثابت ہوں گے جس کو قیامت کی آندھی لے اڑے گی۔
۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو شخص بھی کھلی آنکھوں سے اس کائنات کا مشاہدہ کرے گا اسے صاف دکھائی دے گا کہ اس کی تخلیق اور اس کے نظام میں کمال درجہ کی حکمت پائی جاتی ہے۔ کوئی چیز بھی خالی از مصلحت نہیں ہے پھر انسان کی تخلیق بے مقصد کیسے ہو سکتی ہے جبکہ وہ اس بزم کا رکن رکین ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے ایک اعلیٰ مقصد کے لیے پیدا کیا ہے لہٰذا اس کو چاہیے کہ وہ اپنے مقصد وجود کو سمجھے اور اس کے مطابق زندگی گزارے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اللہ کا کچھ نہیں بگڑتا۔ وہ اپنے ہی کو نا کامیابی کے حوالہ کرتا ہے۔ اللہ تو اس بات پر قادر ہے کہ پوری انسانیت کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے اور اس کی جگہ کوئی نئی مخلوق لے آئے۔ انسان کو تو اس کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے اسے یہ موقع عطا کیا ہے کہ دنیا کی امتحان گاہ سے سلامتی کے ساتھ گزر کر اس کی ابدی رحمت اور لازوال نعمتوں کا مستحق بن جائے۔
۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان لیڈروں اور پیشواؤں کی بے بسی کی تصویر ہے جن کے پیچھے عوام آنکھیں بند کر کے چلتے رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ وہ ان کی صحیح رہنمائی کر رہ ہیں۔ قیامت کے دن جب دونوں کو اپنے اپنے جرم کی پاداش میں عذاب کی طرف دھکیلا جائے گا تو ان لیڈروں اور پیشواؤں سے ان کے پیرو یہ درخواست کریں گے کہ ہمارے لیے عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نکالی جائے مگر وہ اپنی بے بسی کا کھلے طور پر اعتراف کریں گے اس وقت ان کے پیروں کو اس بات کا احساس ہو گا کہ دنیا میں ان کے پیچھے چل کر انہوں نے کیسی زبردست غلطی کی ہے۔
قرآن قبل اس کے کہ لوگ اس انجام سے دو چار ہوں انہیں متنبہ کر رہا ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور گمراہ لیڈروں اور پیشواؤں کی باتوں میں نہ آئیں۔ رسول کی رہنمائی کو قبول کریں اور اپنے کو اس راہ پر ڈال دیں جو قرآن نے کھولی ہے۔
۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عدالت خداوندی جب یہ فیصلہ چکا دے گی کہ کون جزا کا مستحق ہے اور کون سزا کا تو شیطان اپنے تمام پیروؤں کے سامنے اعتراف کرے گا کہ اللہ تعالیٰ نے آخرت کا تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ بالکل سچا تھا اور اس کے مطابق آج سب کچھ پیش آگیا لیکن میں نے تمہیں جن جن باتوں کا یقین دلایا تھا وہ سب غلط اور جھوٹ ثابت ہوئیں۔ شیطان کا یہ اعتراف اس کے پیروؤں کے لیے زبردست طمانچہ ہو گا جس سے ان کی مایوسی اور ذلت میں اضافہ ہی ہو گا۔
واضح رہے کہ شیطان کے وعدے وہ خیالات ہوتے ہیں جو انسان کے دل میں وہ ڈالتا ہے مثلاً یہ کہ فلاں اور فلاں کو پکارو تو وہ تمہاری مدد کو پہنچیں گے۔ یہ اور یہ ہستیاں خدا کے حضور تمہارے سفارشی ہیں۔ زندگی بس دنیا کی زندگی ہے مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں اس لیے دنیا میں خوب مزے اڑا لو۔ یہ اور اس قسم کی دوسری باتیں شیطان ذہن میں ڈالتا ہے اور جب کوئی شخص ان باتوں کو قبول کر لیتا ہے تو وہ اس کی فکر بن جاتی ہیں۔ موجودہ دور میں شیطان نے انسانی ذہن کو متاثر کرنے کے لیے جدید اسلوب اختیار کیا ہے وہ کہتا ہے "خدا کو انسان نے پیدا کیا ہے ورنہ اس کا کہیں کوئی وجود نہیں "۔ "مذہب ایک اعصابی خلل ہے " "جو ہم نہیں جانتے اس کا قائل ہونا غلط ہے۔ " "مادہ قائم بالذات ہے اور زندگی ایک جدلیاتی مادیت ہے۔ " وغیرہ۔
۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے یہ قوت نہیں بخشی ہے کہ وہ انسان کو گمراہی قبول کرنے اور بری باتوں پر عمل کرنے کے لیے مجبور کر دے۔ وہ جو کچھ کر سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ انسان کو گمراہی کی طرف بلائے اور بری باتوں کی ترغیب دے اس لیے انسان شیطان کو الزام دیکر بری نہیں ہو سکتا۔ وہ خود اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔
۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان کے یہ کہنے کا مطلب کہ "تم نے اس سے پہلے مجھے شریک ٹھہرایا تھا" یہ ہے کہ دنیا میں تم میری اطاعت اس طرح کرتے رہے جس طرح کہ اللہ کی اطاعت کی جاتی ہے۔ میرے کہنے سے تم نے توحید کا انکار کیا، غیر اللہ کو معبود ٹھہرایا، رسولوں کو جھٹلایا، آخرت کو نہ مانا، شریعت کا انکار کرتے رہے اور اپنی زندگی کی باک ڈور میرے ہاتھ میں دیدی کہ میں اپنی مرضی کے مطابق تمہیں چلاؤں۔ اس طرح تم نے مجھے خدائی کے مقام پر بٹھا دیا۔
۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنت میں اہل ایمان کا خیر مقدم سلامی کی مبارکباد سے ہو گا اور ہر طرف سے ان کے لیے سلامتی کی صدائیں بلند ہوں گی۔ وہاں جب وہ ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے تو ان کے آداب ملاقات میں سلام کا کلمہ شامل ہو گا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جنت میں اہل ایمان کو کیسی پر وقار زندگی نصیب ہو گی اور وہاں کا ماحول کتنا پُر امن ہو گا۔ بخلاف اس کے دوزخی ایک دوسرے کو ملامت کریں گے اور ان پر ہر طرف سے پھٹکار پڑے گی۔
۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کلمۂ طیبہ کے معنیٰ اچھی اور پاکیزہ بات کے ہیں۔ اس سے مراد کلمۂ توحید ہے جو اسلامی عقیدہ کی بنیاد اور ایمان کی اساس ہے۔ اس کی مثال ایک اچھے درخت سے دی گئی ہے جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی اور شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہی خصوصیت کلمۂ توحید کی ہے کہ اس کی جڑ انسانی فطرت کے اندر جمی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں یعنی کلمۂ توحید کی بنیاد پر عمل کا ایک تناور درخت وجود میں آتا ہے اور اعمال صالح ہونے کی بنا پر بلندی کی طرف چڑھتے ہیں اور خوب نشو و نما پاتے ہیں۔ پھر یہ مثالی درخت جس طرح ہر وقت پھل دیتا ہے اسی طرح کلمۂ توحید کا فیضان ہر وقت جاری رہتا ہے اور آخرت میں اس کے ثمرات و برکات کا ظہور ہمیشگی کی نعمتوں کی شکل میں ہو گا۔
۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کلمۂ خبیثہ کے معنیٰ بری اور ناپاک بات کے ہیں۔ مراد باطل کلمہ ہے خواہ وہ شرک ہو، الحاد ہو یا کفر۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے نکما درخت یعنی جھاڑ جھنکار جس کی جڑیں زمین میں جمی ہوئی نہیں ہوتیں۔ اسی طرح کلمۂ باطل کی جڑ انسانی فطرت کے اندر جمی ہوئی نہیں ہوتی اس لیے اس کو آسانی سے اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بے فیض کلمہ ہے جو انسان کو اعمال صالحہ سے محروم کر دیتا ہے اور آخرت میں نامرادی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔
۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قول ثابت (مضبوط قول) سے مراد کلمۂ توحید ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کلمۂ توحید کو قبول کر لیتے ہیں یعنی ایمان لاتے ہیں ان کو ایک مضبوط اساس فراہم ہوتی ہے۔ اس اساس پر ان کے عقائد میں مضبوطی، ان کے خیالات اور ان کے کردار میں استحکام پیدا ہو جاتا ہے۔ اس طرح اس کار زارِ حیات میں اللہ تعالیٰ انہیں استحکام اور ثابت قدمی عطا فرماتا ہے اور جب وہ قبر یعنی عالمِ برزخ میں پہنچتے ہیں تو وہاں بھی انہیں استقلال حاصل ہوتا ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "مسلمان سے جب قبر میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ یہی بات ہے جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے "یُثبّتُ اللّٰہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ " اللہ ایمان والوں کو مضبوط قول کے ذریعہ دنیا کی زندگی میں بھی مضبوطی عطاء فرماتا ہے اور آخرت میں بھی۔ " (بخاری کتاب التفسیر)
اسی طرح قیامت کے دن انہیں موقف کی مضبوطی حاصل ہو گی جس کی بدولت وہ ابدی کامیابی سے ہم کنار ہوں گے۔
۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح رہے کہ اللہ کا چاہتا اس کی حکمت کے مطابق اور اس کے تمام فیصلے حکیمانہ ہوتے ہیں۔
۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ قریش کی طرف ہے جنہیں عرب قوم کی قیادت حاصل تھی اور جنہوں نے مشرکانہ طور طریقے رائج کر کے قوم کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔
۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۲۹ اور۲۰۰۔
۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکہ میں جبکہ شریعت کے ابتدائی احکام ہی نازل ہوئے تھے نماز کا اہتمام کرنے اور اللہ کی خاطر خرچ کرنے کا حکم تاکید کے ساتھ دیا گیا جس سے ان دونوں چیزوں کی اہمیت واضح ہوتی ہے نیز اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ایک مسلمان پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہو یا نہ ہوتی ہو اسے اللہ کی خاطر انفاق کرتے رہنا چاہیے اور یہ انفاق دونوں طریقے سے مطلوب ہے پوشیدگی میں بھی اور علانیہ بھی۔ پوشیدگی میں جو خرچ اللہ کی خاطر کیا جاتا ہے وہ ریا اور نمائش سے پاک ہوتا ہے اور علانیہ کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے دوسروں کو انفاق کی ترغیب ہوتی ہے لیکن اس صورت میں بھی اسے ریا اور نمائش سے پاک رکھنا ضروری ہے۔
۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کی ربوبیت (پروردگاری) پر استدلال ہے کہ تمہاری پرورش کا یہ سارا کام اسی نے کر رکھا ہے تو تم نے دوسروں کو خدا کس طرح بنا لیا۔ پرورش کے اس پورے نظام میں کیا کسی کا کوئی حصہ ہے۔ اگر نہیں اور واقعہ یہ ہے کہ کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے تو پھر وہ خدا کہاں سے ہوئے ؟اور عبادت جو سراسر اللہ کا حق ہے اس میں دوسروں کو شریک کرنے کے کیا معنیٰ ؟
۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسخر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ چیزیں انسان کے تابع کر دی گئی ہیں جیسا کہ لوگ عام طور سے سمجھتے ہیں کیونکہ دن اور رات بہر حال انسان کے تابع نہیں ہیں بلکہ مسخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں انسان کی خدمت میں لگا دی گئی ہیں اور ان کے ذریعہ انسان کی نفع رسانی کا سامان کر دیا گیا ہے۔
۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان کو جو طبعی ضرورتیں تھیں وہ سب پوری کر دیں مثال کے طور پر سانس لینے کے لیے ہوا، پیاس بجھانے کے لیے پانی، بھوک مٹانے کے لیے غذا اور جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے جوڑے کی ضرورت تھی۔ ان تمام ضرورتوں کو جو انسان کی فطری مانگیں ہیں پورا کرنے کا انتظام اس کے خالق نے کر دیا۔ اسی طرح اس کی فطرت کی اہم ترین مانگ ہدایت ہے اور اس کو پورا کرنے کا انتظام بھی اس کے خالق نے کر دیا۔
۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان اگر غور کرے تو وہ اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہے گا کہ اس کے خالق نے اس کو ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے اور اس کے اس پر بے شمار احسانات ہیں۔ اگر وہ کھانے کے ایک لقمہ ہی پر غور کرے تو شکر کا جذبہ اس کے اندر ابھرنے لگے کہ اس کے رب نے اس لقمہ کو تیار کرنے کے لیے کیسے کیسے اسباب کئے۔ آسمان و زمین، بارش، ہواؤں اور سورج کی گرمی وغیرہ کو اس نے کس طرح سازگار بنایا کہ بیج مختلف مرحلوں سے گزر کر غلہ بنا اور غلہ مختلف مرحلوں سے گزر کر لقمہ بن گیا جس کو اب وہ مزے کے ساتھ کھا رہا ہے۔ انسان کے لیے جب اپنے بالوں کو یا آسمان کے تاروں کو گننا ممکن نہیں ہے تو وہ اللہ کی نعمتوں کو کیونکر گن سکتا ہے ؟
۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ عام انسان کا حال بیان ہوا ہے کہ وہ نہ اپنے رب کا حق ادا کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے اور نہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لیے۔
۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس شہر سے مراد مکہ ہے اور اس کو امن والا شہر بنانے کی دعا ابراہیم علیہ السلام نے اس لیے کی تھی تاکہ اس کی یہ امتیازی خصوصیت لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرتی رہے کہ اس کی یہ خصوصیت اس کے مرکز توحید ہونے کی بنا پر ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو شرک اور بت پرستی سے بالکل پاک رکھا جائے۔
اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور مکہ کو حرم ٹھہرا کر وہاں لڑائی ہمیشہ کے لیے ممنوع قرار دی۔
۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمانہ میں بت پرستی کا فتنہ عام تھا اور ماحول کے دباؤ کے تحت انسان اس قسم کے فتنوں کا بہ آسانی شکار ہو جاتا ہے اس لیے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اس سے بچنے کی دعا کی کہ توفیق الٰہی کے بغیر آدمی اس فتنہ سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بت بہ کثرت لوگوں کی گمراہ کا باعث بنے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کا یہ بیان ایک تاریخی حقیقت ہے چنانچہ دنیا کی بڑی بڑی قومیں بت پرستی میں مبتلا رہی ہیں اور قوم نوح سے لیکر آج تک یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ موجودہ دور کے انسان نے اگرچہ زبردست علمی ترقی کی ہے مگر بڑی بڑی متمدن قومیں بت پرستی کے معاملہ میں اسی جہالت میں مبتلا ہیں جس میں ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ کی قومیں مبتلا تھیں۔ بت پرستی کا سراسر نا معقول ہونا بالکل ظاہر ہے لیکن اس کا جادو قوموں پر ایسا چلا کہ وہ اس سے چمٹ کر رہ گئیں اور ہمارے ملک میں تو ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ بت پرست پہلے اپنے ہاتھ سے اپنے خداؤں کو ڈھال لیتے ہیں اور پھر ان کی بارات نکال کر اپنے ہاتھوں ان کو دریا برد کرتے ہیں۔ یہ عقل کا دیوالیہ پن اور پرلے درجہ کی گمراہی نہیں تو اور کیا ہے ؟
۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی نافرمانی کرنے والوں کے معاملہ کو اللہ کے حوالہ کرتے ہوئے اس کی ان دو صفتوں کا ذکر کیا جس سے مقصود اس بات کا اظہار ہے کہ تیری طرف سے عفو و درگزر اور فیضانِ رحمت میں کمی نہیں ہو سکتی البتہ اگر بندے اس کے اہل قرار نہ پائیں تو اور بار ہے۔
۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد مکہ کی بے آب و گیاہ زمین ہے جو پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ بیت اللہ کے لیے کسی سر سبز و شاداب خطہ کے بجائے اس صحرائی زمین کا انتخاب اس لیے کیا گیا تاکہ لوگوں کے لیے وجہ کشش دنیا کی رعنائیاں نہیں بلکہ دین کی دولت بنے اور ایک پر کیف ماحول انہیں میسر آ جائے جہاں ایمان کی پرورش اور روح کی بالیدگی کا بھر پور سامان ہو۔
۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محترم گھر سے مراد خانۂ کعبہ ہے جو نہایت مقدس اور نہایت قابلِ احترام ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد میں سے اسمٰعیل علیہ السلام کو مکہ میں بسایا اور اسحاق علیہ السلام کو فلسطین میں۔ اسمٰعیل علیہ السلام سے جو نسل چلی وہ بنی اسمٰعیل کہلائی قریش ان ہی کی نسل سے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم ان ہی میں مبعوث ہوئے۔ ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا سے ایک بات تو یہ واضح ہوئی کہ یہ دعا انہوں نے خانۂ کعبہ کی تعمیر کے بعد کی تھی اور دوسری یہ کہ انہوں نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کو اس وقت مکہ میں بسایا جبکہ خانۂ کعبہ کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔ قرآن نے دوسری جگہ واضح کیا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اسمٰعیل علیہ السلام بھی شریک تھے۔ رہ گئیں وہ روایتیں جن میں اسمٰعیل کو جبکہ وہ ابھی شیر خوار بچہ تھے ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ مکہ کے ریگستان میں تنہا چھوڑ کر جانے کا عجیب و غریب قصہ بیان ہوا ہے تو یہ روایتیں نہ قرآن کے اس بیان سے مطابقت رکھتی ہیں اور نہ قرینِ قیاس ہیں نیز ان روایتوں کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف صحیح نہیں جیسا کہ علامہ سید سلیمان ندوی نے ارض القرآن میں لکھا ہے :
"اس سے (یعنی سورۂ ابراہیم کی آیت ۳۹) سے ثابت ہوتا ہے کہ اسمٰعیل کے مکہ آنے کے وقت اسحاق پیدا ہو چکے تھے۔ تورات سے ثابت ہے کہ اسمٰعیلؑ اسحاقؑ سے تیرہ برس بڑے تھے ، بخاری کی کتاب الرؤیا اور کتابُ الانبیاء میں حضرت ابن عباس کی جو حدیث اسمٰعیلؑ کی شیر خوارگی کے متعلق ہے وہ مرفوع نہیں ہے یعنی اس کا سلسلہ آنحضرت ؐ تک نہیں پہنچتا (بجز چند خاص ضمنی فقروں کے) اس لیے وہ حضرت ابن عباس کے اسرائیلیات میں سے ہے اور اس کا ثبوت آج بھی موجود ہے۔ بخاری میں اس کے متعلق جو طویل حدیث ہے وہ بجز جزہم اور مکہ کے ذکر کے مدارش اور تالمود میں بعینہ حرف بہ حرف مذکور ہے۔ " (ارض القرآن ج۲ ص ۴۴۰)
اور علامہ ابن کثیر ؒ نے اس طویل حدیث کو جس میں اسمٰعیل کی شیر خوارگی کی حالت میں مکہ میں چھوڑنے کا ذکر ہے نقل کر کے لکھا ہے :
"یہ حدیث ابن عباس کا کلام ہے البتہ اس کا ایک حصہ مرفوع ہے (یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم مروی ہے) اور اس کے ایک حصہ میں غرابت (عجیب باتیں) ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس نے اس کو اسرائیلیات سے لیا ہے اور اس میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس وقت اسمٰعیل شیر خوار بچہ تھے۔ " (البدایۃ و النہایۃ ج۱ ص۱۵۶)
۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز بیت اللہ کی تعمیر کا اولین مقصد ہے اور ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کو یہاں اس لیے بسایا تھا کہ ان سے جو نسل چلے وہ بیت اللہ کے زیر سایہ نماز قائم کرے لیکن قریش نے جو ان کی نسل سے ہیں نماز کی جگہ بت پرستی اختیار کر لی۔ ابراہیم کے طریقہ سے یہ کتنا بڑا انحراف ہے جو قریش نے کیا!
۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف اس طرح مائل کر دیا کہ بنی اسمٰعیل پورے عرب کا مرجع بن گئے۔
۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۱۴۶ میں گزر چکی۔
۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کو ہمارے دل کا حال بھی معلوم ہے اور اس سے زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں۔
۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی تو اس وقت ان کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق کی ولادت ہو چکی تھی۔ بائبل کا بیان ہے کہ حضرت اسمٰعیل کی پیدائش کے وقت ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۸۶ سال اور حضرت اسحاق کی پیدائش کے وقت۱۰۰سال تھی۔ یعنی حضرت اسحاق حضرت اسمٰعیل کے ۱۴ سال بعد پیدا ہوئے اور دونوں کی پیدائش کنعان (فلسطین) میں ہوئی تھی:
"اور جب ابرام سے ہاجرہ کے اسمٰعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا۔ " (پیدائش ۱۶:۱۶)
"اور جب اس کا بیٹا اسحاق اس سے پیدا ہوا تو ابرہام سو برس کا تھا۔ " (پیدائش ۲۱:۵)
گویا خانۂ کعبہ کی تعمیر اور اسمٰعیل کو مکہ میں بسانے کا واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ اسمٰعیل کی عمر چودہ سال سے زیادہ تھی۔
۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابراہیم کی شریعت میں بھی نماز کو اولین اہمیت حاصل تھی اور یہ دین کا وہ ستون ہے جس کو قائم کرنے کے لیے ایک مومن اللہ سے توفیق طلب کرے۔ نیز اپنی اولاد کے حق میں بھی دعا کرے کہ وہ نماز قائم کرنے والے بن جائیں۔
۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی اس کی تشریح سورۂ توبہ نوٹ ۲۱۰ اور ۲۱۱ میں گزر چکی۔ اس موقع پر مذکورہ نوٹ پیشِ نظر رہیں۔
"جس دن حساب قائم ہو گا" سے مراد قیامت کا دن ہے جب ہر شخص کی اللہ کے حضور پیشی ہو گی اور اسے اپنی عملی زندگی کا حساب پیش کرنا ہو گا۔
ابراہیم علیہ اسلام کی اس مہم ترین دعا سے بائبل کے صفحات خالی ہیں مگر قرآن نے اس کو محفوظ کر لیا۔ اس سے معترضین کے اس الزام کی آپ سے آپ تردید ہوتی ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے بائبل کی خوشہ چینی کی ہے۔
۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر مقصود عام لوگوں کو خبردار کرنا ہے کہ حق کی مظلومیت اور باطل کے غلبہ کو دیکھ کر کوئی شخص اس غلط خیال میں مبتلا نہ ہو کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے اور خدا اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے خدا اچھی طرح با خبر ہے لیکن چونکہ اس نے حساب اور جزا و سزا کے لیے قیامت کا دن مقرر کر رکھا ہے اس لیے وہ لوگوں کو مہلت دے رہا ہے کہ وہ اچھا برا جس طرح چاہیں طرز عمل اختیار کریں۔ یہ اندھیر نگری نہیں بلکہ حکیمانہ منصوبہ بندی ہے۔
۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن ایسے ہولناک مناظر سامنے آئیں گے کہ غلط کار لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ وہ قیامت پر یقین نہیں رکھتے تھے اس لیے یہ مناظر دیکھ کر حیران ہوں گے کہ ہم کس دنیا میں پہنچ گئے !
۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قبر سے اٹھنے کے بعد وہ اپنے موقف (پیشی کی جگہ) کی طرف بھاگیں گے اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے لیے ان کو کتنا طویل فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔
۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دہشت اور خوف کی وجہ سے وہ ٹکٹکی باندھ کر دیکھیں گے۔
۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غم اور خوف کی شدت سے ان کا برا حال ہو رہا ہو گا اور ان کے دلوں کی کیفیت یہ ہو گی کہ گویا اڑے جا رہے ہیں۔ اصل میں دلوں کو مضبوطی عطا کرنے والی چیز ایمان ہے اور جب ان کے دل ایمان سے خالی رہے تو قیامت کے دن ان کا حواس باختہ ہونا اس کا لازمی نتیجہ ہو گا۔
۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے عذاب سے لوگوں کو خبردار کرنے کا یہ تاکیدی حکم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دعوتِ قرآنی کا یہ اہم ترین نکتہ ہے جسے پوری طرح کھول کر اور نہایت پر زور طریقہ پر لوگوں کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔
موجودہ غافل دنیا کو جھنجھوڑنا اور قیامت کے عذاب سے انہیں خبردار کرنا پیروانِ قرآن کا اہم ترین فریضہ بھی ہے اور وقت کا سب سے بڑا تقاضا بھی۔
۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پورے وثوق کے ساتھ تم یہ کہتے تھے کہ دنیا سے منتقل ہو کر تمہیں کہیں جانا نہیں ہے۔ زندگی بس اس دنیا ہی کی زندگی ہے اور آخرت کا کہیں وجود نہیں ہے۔ اب تمہیں اپنی خام خیالی کا احساس ہو گیا جبکہ امتحان کا وقت گزر چکا۔ یہ گھڑی تو نتائج کے ظہور میں آنے کی ہے۔
۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد ملکِ عرب ہے جس کے مختلف علاقوں میں ہلاک شدہ قوموں کے آثار پائے جاتے ہیں مثلاً وادیِ حجر میں قومِ ثمود کے آثار وغیرہ۔
۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری عبرت اور نصیحت کے لیے تاریخی واقعات بھی پیش کئے گئے تھے اور طرح طرح کی مثالیں بھی بیان کی گئی تھیں چنانچہ اس سورہ میں کلمۂ طیبہ اور کلمۂ خبیثہ کی مثالیں گزر چکیں۔ لیکن تم نے کسی بات سے بھی کوئی سبق نہ لیا۔
۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان قوموں نے رسولوں کے خلاف زبردست چالیں چلی تھیں لیکن اللہ نے ان کی ہر چال کو ناکام بنا دیا تھا تو کیا اب تم (اے قریش!) یہ امید رکھتے ہو کہ ہمارے رسول کے خلاف تمہاری سازشیں کامیاب ہوں گی؟
۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے اور مقصود آپ کو اور آپ کے پیروؤں کو اطمینان دلانا ہے کہ وہ مخالفین کی چالوں سے آزردہ نہ ہوں جس طرح اللہ سابق میں اپنے رسولوں کی مدد کرتا رہا ہے اسی طرح وہ اپنے اس رسول کی بھی مدد فرمائے گا۔ ممکن نہیں کہ اللہ کا وعدہ پورا نہ ہو۔
۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ غالب ہے اس لیے سب اس کے قابو میں ہیں اور وہ سزا دینے والا ہے اس لیے وہ ان ظالموں کو جو اس کے رسول کی مخالفت کرتے اور اس کے خلاف چالیں چلتے ہیں ضرور سزا دے گا۔
۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن زمین و آسمان میں ایسی تبدیلیاں (Changes) لائی جائیں گی کہ وہ ایک نئی ہیئت اور نئے نظام کے ساتھ وجود میں آ جائیں گے۔
حدیث میں حشر کی زمین کی ہیئت اس طرح بیان کی گئی ہے :"یحشر الناس یوم القیامۃ علی ارضٍ بیضاءَ عفراءَ کقرصہ النقی لیس فیہامعلم لاحدٍ۔ قیامت کے دن لوگوں کو سفید سرخی مائل زمین پر جمع کیا جائے گا جو میدے کی روٹی کی ٹکیہ کی طرح ہو گی۔ اس پر کسی کے مکان وغیرہ نشان نہ ہو گا۔ " (بخاری کتاب الرقاق) جب ماضی میں مادہ میں بہت سے تغیرات رونما ہوتے رہے یہاں تک کہ اس نے موجودہ زمین کی شکل اختیار کر لی تو آئندہ اس کی ساخت میں تبدیلی کا رونما ہونا ہرگز بعید نہیں ہے اور اس کا خالق یقیناً اس بات پر قادر ہے کہ اس کے عناصر ترکیبی اور اس کے طبعی قوانین کو بدل دے۔
غرضیکہ قیامت کے دن موجودہ دنیا ایک نئی دنیا سے بدل جائے گی جس کے زماں اور مکاں بالکل مختلف ہوں گے اور اس وقت لوگوں کو اللہ کی قدرت کا صحیح اندازہ ہو جائے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ان کی دنیا کو نئی دنیا سے بدل دینے پر قادر تھا۔
۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن انسان انسان ہی کی حیثیت سے اٹھے گا یعنی روح اور جسم کے ساتھ اور تمام انسان شاہ ہو یا گدا، مرد ہو یا عورت اور معمولی آدمی ہو یا ممتاز شخصیت سب کی اللہ کے حضور پیشی ہو گی تاکہ وہ دنیا میں جو کچھ کرتے رہے ہیں اس کی جوابدہی کریں اور اپنے عمل کے مطابق جزا یا سزا پائیں۔
یہ ہے قرآن کا تصور آخرت جو عقل اور انصاف کے ترازو میں پورا اترتا ہے اس کی بالمقابل مشرکین ہند آوا گوان کے نظریہ پر یقین رکھتے ہیں جس میں روح ایک جسم سے دوسرے جسم میں کبھی انسان میں اور کبھی حیوان میں بدلتی رہتی ہے اور اپنے رب کے حضور حاضری کی نوبت آتی ہی نہیں ہے۔ خدا کے حضور حاضر نہ ہونے کا یہ تصور عقل و انصاف کے سراسر خلاف اور قرآن کی رو سے بالکل باطل ہے۔
۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن اللہ کا پیغام ہے اور یہ پیغام عربوں کے لیے خاص نہیں بلکہ دنیا کی تمام قوموں اور تمام انسانوں کے لیے ہے۔
۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے قرآن کا اصل مشن (Mission) : اولاً خدا اور آخرت سے غافل لوگوں کو جگانا اور انہیں اس کے نتائج بد سے آگاہ کرنا۔
ثانیاً توحید یعنی اس حقیقت سے لوگوں کو واقف کرانا کہ اللہ کے سوا نہ کسی خدا کا وجود ہے اور نہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق ہے
ثالثاً جو عقل سے کام لینے والے ہیں ان کے لیے تذکیر تاکہ وہ دنیا میں ایک ذمہ دارانہ زندگی گزاریں۔