اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔
۱۔۔۔ آ گیا اللہ کا حکم، پس تم لوگ جلدی مت مچاؤ اس کے لئے ، پاک ہے وہ (وحدہٗ لا شریک) اور بہت بلند (و بالا) ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ،
۲۔۔۔ وہ اتارتا ہے فرشتوں کو اپنے حکم سے اس (عظیم الشان) روح کے ساتھ، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے (اس بنیادی ہدایت کے ساتھ) کہ تم خبردار کر دو (میرے بندوں کو) کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے میرے ، پس تم سب مجھ ہی سے ڈرو،
۳۔۔۔ اسی نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین (کی اس حکمتوں بھری کائنات) کو حق کے ساتھ، وہ بہت بلند (و بالا) ہے اس شرک سے جو یہ لوگ (اس کی جناب اقدس کے بارے میں) کرتے ہیں
۴۔۔۔ اسی نے پیدا فرمایا (کائنات کے مخدوم و مطاع) اس انسان کو (قطرہ منی کی) ایک حقیر بوند سے ، پھر یہی (نا شکرا انسان) یکایک ایک کھلم کھلا جھگڑالو بن جاتا ہے ،
۵۔۔۔ اور چوپایوں کو بھی اسی نے پیدا فرمایا تمہارے (طرح طرح کے فائدوں کے) لئے جن میں تمہارے لئے سردی سے بچاؤ کی پوشاک بھی ہے ، اور دوسرے طرح طرح کے فائدے بھی، اور انہیں میں سے تم لوگ کھاتے بھی ہو،
۶۔۔۔ اور تمہارے لئے ان میں رونق بھی ہے (خاص کر اس وقت) جب کہ تم شام کے وقت انہیں چرا کر گھر واپس لاتے ہو، اور جب کہ تم (صبح کے وقت) ان کو چرانے کے لئے چھوڑتے ہو،
۷۔۔۔ اور تمہارے قسما قسم کے بوجھ بھی اٹھا کر دور دراز کے ایسے مقامات تک لے جاتے ہیں ، جہاں تم اپنی جانوں کو سخت مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے ، واقعی تمہارا رب بڑا ہی شفقت والا، نہایت ہی مہربان ہے ،
۸۔۔۔ اور گھوڑے خچر، گدھے بھی، (اس نے تمہارے لئے پیدا فرمائے) تاکہ تم ان پر سواری بھی کرو اور وہ تمہاری رونق بھی بنیں ، اور وہ اور بھی ایسی ایسی چیزیں پیدا فرماتا ہے (اور آئندہ پیدا فرمائے گا) جن کی تم لوگوں کو خبر بھی نہیں ،
۹۔۔۔ اور اللہ کے ذمے ہے (اس کے اپنے وعدہ کرم کے مطابق) سیدھا راستہ دکھانا، جب کہ راستے ٹیڑھے بھی ہیں ، اور وہ اگر چاہتا تو (جبراً) تم سب ہی کو راہِ راست پر لے آتا،
۱۰۔۔۔ وہ (اللہ) وہی تو ہے جو (ایک محیر العقول نظام کے ساتھ) آسمان سے تمہارے لئے پانی اتارتا ہے ، جس سے تم پیتے بھی ہو، اور اسی سے درخت بھی (پیدا) ہوتے ہیں ، جن میں تم (اپنے مویشیوں کو) چراتے بھی ہو،
۱۱۔۔۔ وہ اس پانی کے ذریعے تمہارے لئے کھیتیاں بھی اگاتا ہے ، اور زیتون ، کھجور، انگور اور قسم قسم کے دوسرے پھل بھی پیدا کرتا ہے ، بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں
۱۲۔۔۔ اور اسی نے (اپنی بے پایاں حکمت اور بے نہایت قدرت و رحمت سے) تمہارے کام میں لگا دیا رات اور دن (کے اس عظیم الشان سلسلے) کو اور سورج و چاند (کے اس عظیم الشان کروں) کو، اور (اسی طرح) یہ ستارے بھی (تمہاری) خدمت میں لگے ہوئے ہیں اس کے حکم سے ، بے شک اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں
۱۳۔۔۔ اور یہ طرح طرح کی رنگ برنگی (اور گوناگوں) چیزیں جو اس نے پھیلائیں تمہاری نفع رسانی کے لیے اس زمین میں (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے)، بے شک اس میں بھی بڑی بھاری نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو سبق حاصل کرنا چاہتے ہیں ،
۱۴۔۔۔ اور وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے تمہارے کام میں لگا دیا (اپنی رحمت و عنایت سے) سمندر (کے اس عظیم الشان ذخیرہ آب) کو، تاکہ تم لوگ اس سے ترو تازہ گوشت بھی کھاؤ اور اس سے زیب و زینت کی وہ مختلف چیزیں بھی نکالو جن کو تم لوگ پہنتے ہو، اور تم دیکھتے ہو کہ (کس طرح) چلتی ہیں یہ کشتیاں (اور دیو ہیکل جہاز) سمندر میں ، اس کے سینے کو چیرتے ہوئے (تاکہ تم اس سے طرح طرح کے فائدے حاصل کر سکو) اور تاکہ تم (اس کی آمدو رفت کے ذریعے) تلاش کر سکو اس کا فضل، اور تاکہ تم لوگ شکر ادا کرو (اس واہب مطلق کا)،
۱۵۔۔۔ اور اسی نے ڈال دئیے (اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے پہاڑوں کے) عظیم الشان لنگر زمین (کے اس کرے) میں ، تاکہ یہ ڈگمگانے نہ لگے تم کو لیکر اور اسی نے جاری کر دئیے اس میں طرح طرح کے دریا، اور اس نے بنا دئیے اس میں قسما قسم راستے تاکہ تم لوگ راہ پا سکو
۱۶۔۔۔ اور (ان راستوں کی پہچان کے لئے) اس نے رکھ دیں (زمین میں) طرح طرح کی نشانیاں ، اور لوگ ستاروں سے بھی راہ پاتے ہیں ،
۱۷۔۔۔ تو کیا وہ ذات جو (یہ کچھ) پیدا کرتی ہے اس کے برابر ہو سکتی ہے جو (ان میں سے کچھ بھی) پیدا نہ کر سکے ؟ کیا تم لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے ؟
۱۸۔۔۔ اور (ان مذکورہ بالا نعمتوں ہی پر کیا منحصر، وہ تو اتنی ہیں کہ) اگر تم لوگ اللہ کی نعمتوں کو گننے لگو تو تم کبھی بھی انکو شمار نہیں کر سکو گے ، (اس قدر نعمتوں پر بھی اس کی یہ ناشکری؟ اور پھر بھی اس کی طرف سے یہ چھوٹ، بخشش اور رحمت؟) بے شک اللہ بڑا ہی درگزر کرنے والا، انتہائی مہربان ہے
۱۹۔۔۔ اور اللہ ایک برابر جانتا ہے ان سب کاموں کو جو تم لوگ چھپا کر کرتے ہو، اور جو تم اعلانیہ کرتے ہو،
۲۰۔۔۔ اور جن ہستیوں کو یہ لوگ (پوجتے) پکارتے ہیں اللہ کے سوا، وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتیں ،
۲۱۔۔۔ بلکہ وہ تو خود (ایک عاجز) مخلوق ہیں ، وہ تو مردہ ہیں نہ کہ زندہٗ اور ان کو اس کی بھی کچھ خبر نہیں کہ لوگ کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے ،
۲۲۔۔۔ (پس ثابت ہوا کہ) معبود تم سب کا ایک ہی معبود ہے ، مگر جو لوگ ایمان نہیں رکھتے آخرت پر، ان کے دل اڑے ہوئے ہیں (حق و صداقت کے) انکار پر، اور وہ مبتلا ہیں اپنی (جھوٹی) بڑائی کے گھمنڈ میں ،
۲۳۔۔۔ یقیناً اللہ ان کے وہ سب کرتوت بھی جانتا ہے جو یہ لوگ چھپا کر کرتے ہیں ، اور وہ سب بھی جو یہ اعلانیہ کرتے ہیں ، بے شک وہ پسند نہیں فرماتا اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھنے والوں کو،
۲۴۔۔۔ اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا اتارا تمہارے رب نے ؟ تو یہ (پوری ڈھٹائی سے) کہتے ہیں کہ اجی! (بس قصے) کہانیاں پہلے لوگوں کی،
۲۵۔۔۔ تاکہ اس کے نیچے میں یہ لوگ پورے پورے اٹھائیں اپنے (گناہوں کے) بوجھ قیامت کے دن اور ان لوگوں کے بوجھوں میں سے بھی، جن کو یہ گمراہ کرتے ہیں پانی جہالت (و بدبختی) سے خبردار! بڑا ہی برا ہے وہ بوجھ جسے یہ لوگ خود ہی اپنے اوپر لادنے کا سامان کر رہے ہیں ،
۲۶۔۔۔ (اور ان کے مکر و فریب سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کہ) بلاشبہ ان سے پہلے کے (بہت سے) لوگوں نے بھی (حق کو نیچا دکھانے کے لئے طرح طرح کی) مکاریاں کیں ، مگر اللہ نے جڑ سے اکھاڑے پھینکا ان (کے مکر و فریب) کی عمارت کو، پھر خود ان ہی پر آ گری (ان کی اس عمارت کی) چھت ان کے اوپر سے ، اور آ پہنچا ان پر (اللہ کا) عذاب جہاں سے ان کو (وہم و) گمان بھی نہ تھا،
۲۷۔۔۔ (یہ حشر تو ان کے ساتھ دنیا میں ہوا) پھر قیامت کے روز اللہ انہیں (بطور خاص) رسوا کرے گا اور ان سے کہے گا (کہ بتاؤ اب) کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے بارے میں تم لوگ (اہل حق) سے جھگڑے کیا کرتے تھے ، تب کہیں گے وہ لوگ جن کو علم دیا گیا کہ واقعی آج کے دن سخت رسوائی اور بڑی بدبختی ہے ان کافروں کے لئے ،
۲۸۔۔۔ جن کی فرشتے جان قبض کرتے ہیں ، ایسی حالت میں کہ وہ (کفرو باطل پر اڑ کر برابر) ظلم کر رہے ہوتے ہیں خود اپنی جانوں کے حق میں ، یہ (فوراً) صلح کا پیغام ڈالیں گے ، کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے تھے ، (اس پر فرشتے کہیں گے کہ ہاں) کیوں نہیں ، بلاشبہ اللہ پوری طرح جانتا ہے وہ سب کچھ جو تم لوگ (زندگی بھر) کرتے رہے تھے ،
۲۹۔۔۔ سو اب داخل ہو جاؤ تم سب دوزخ (میں اس کے) دروازوں سے ، اس حال میں کہ تمہارا اس میں ہمیشہ کا رہنا مقدر ہو چکا ہے ، سو بڑا ہی برا ٹھکانا ہے تکبر کرنے والے کا
۳۰۔۔۔ اور (اس کے برعکس) جب پرہیزگار لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا اتارا ہے تمہارے رب نے ؟ تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ایک بہت ہی بڑی بھلائی،۲ جنہوں نے اچھائی کی اس دنیا میں ان کے لئے بڑی عظیم الشان بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو یقیناً (ایسے لوگوں کے لئے) اس سے کہیں بڑھ کر اچھا ہو گا، اور یقیناً بڑا ہی عمدہ گھر ہو گا پرہیزگاروں کا،
۳۱۔۔۔ یعنی ہمیشہ رہنے کے لئے ایسی عظیم الشان جنتیں جن میں وہ (با عزت طور پر) داخل ہوں گے ، بہہ رہی ہوں گی ان کے نیچے سے طرح طرح کی نہریں ، (اور) ان کے لئے وہاں پر ہر وہ چیز موجود ہو گی جو یہ چاہیں گے ، اسی طرح اللہ بدلہ دیتا ہے ان پرہیزگاروں کو
۳۲۔۔۔ جن کی فرشتے جان قبض کرتے ہیں اس حال میں کہ وہ پاکیزہ ہوتے ہیں (اپنے عقیدہ و عمل کے اعتبار سے)، فرشتے ان سے کہیں گے کہ سلامتی ہو تم پر، داخل ہو جاؤ تم اس جنت میں ، اپنے ان اعمال کے بدلے میں جو تم (زندگی بھر) کرتے رہے تھے ،
۳۳۔۔۔ تو کیا یہ لوگ (جو حق واضح ہونے کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے) اسی انتظار میں ہیں کہ آ پہنچیں ان کے پاس فرشتے (موت کے) یا آ جائے تمہارے رب کا؟ (عذاب مقدر، یا قیامت کی صورت میں) اسی طرح (کی ضد بازی اور ہٹ دھرمی کا معاملہ) وہ لوگ کر چکے ہیں جو گزر چکے ہیں ، ان سے پہلے ، اور (انہوں نے اپنے کئے کا مزہ بھی پا لیا، تو کہیں) اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا بلکہ وہ لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے تھے ،
۳۴۔۔۔ سو آخرکار پہنچ کر رہے ان کو برے نیچے ان کے اپنے ان اعمال کے ، جو وہ خود (زندگی بھر) کرتے رہے تھے ، اور گھیر لیا ان کو اسی چیز نے جس کا وہ مذاق اڑایا کتے تھے ،
۳۵۔۔۔ اور مشرک لوگ کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی بھی چیز کی عبادت نہ کرتے ، (نہ ہم) اور نہ ہی ہمارے باپ دادا، اور نہ ہی ہم اس کے (حکم) بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ، (سو ان کی یہ حجت بازی کوئی نئی چیز نہیں بلکہ) اسی طرح کیا ان لوگوں نے جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے ، سو پیغمبروں (کا اس طرح کی باتوں سے کچھ نہیں بگڑا، کہ ان) کے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے کھول کر، (حق اور حقیقت کو، اور بس اور یہ کام وہ کر چکے)
۳۶۔۔۔ اور بلاشبہ ہم نے ہر امت میں (اس بات کی تعلیم کے لئے کوئی نہ کوئی) پیغام رساں ضرور بھیجا ہے ، کہ تم لوگ بندگی کرو اللہ کی اور بچتے رہو طاغوت سے ، پھر ان میں سے کسی کو اللہ نے نواز دیا (نورِ حق) ہدایت سے ، اور کسی پر ٹھپہ لگ گیا گمراہی کا، سو تم لوگ چل پھر کر دیکھو (اللہ کی) زمین میں ، کہ کیسا ہوا انجام (حق) جھٹلانے والوں کا،
۳۷۔۔۔ اگر آپ (اے پیغمبر!) ان کی ہدایت کی طمع بھی کریں تو (اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہدایت تو اللہ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے اور) یقیناً اللہ کسی ایسے شخص کو (نورِ حق) ہدایت سے نہیں نوازتا جس کو وہ گمراہی (کی دلدل) میں ڈال دیتا ہے (اس کی ہٹ دھرمی کی بناء پر)، اور ایسوں کے لئے کوئی مددگار نہیں ہو گا،
۳۸۔۔۔ اور انہوں نے اللہ کے نام کی کڑی قسمیں کھا کر کہا کہ جو کوئی مر جاتا ہے اللہ اسے دوبارہ زندہ کر کے نہیں اٹھائے گا (اور قیامت نہیں آئے گی)، کیوں نہیں ، اللہ نے (دوبارہ زندہ کرنے کا) یہ وعدہ اپنے ذمے لازم کر رکھا ہے ، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ،
۳۹۔۔۔ اور (دوبارہ زندہ ہونا اس لئے بھی ضروری ہے) تاکہ اللہ ان کے سامنے کھول کر رکھ دے ان تمام حقائق کو جن کے بارے میں یہ لوگ اختلاف کیا کرتے تھے ، اور (اس لئے بھی) تاکہ کافر لوگ یقینی طور پر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے ،
۴۰۔۔۔ (اور مر کھپ جانے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو ہماری قدرت کے سامنے کچھ مشکل نہ سمجھو، کیونکہ) ہماری شان یہ ہے کہ جب ہم کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں صرف اتنا کہنا ہوتا ہے کہ ہو جا، پس وہ ہو جاتا ہے ،
۴۱۔۔۔ اور جن لوگوں نے ہجرت کی اللہ کی راہ میں اس کے بعد کہ ان پر ظلم ڈھائے گئے ، ہم ان کو ضرور عمدہ ٹھکانا دیں گے اس دنیا میں بھی، اور آخرت کا ثواب تو یقیناً اس سے کہیں بڑھ کر ہے ، کاش کہ لوگ جان لیتے (اس حقیقت کو)،
۴۲۔۔۔ (سو ان وعدوں کے مستحق وہ لوگ ہیں) جنہوں نے صبر سے کام لیا، اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں ،
۴۳۔۔۔ اور ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے (اے پیغمبر!) کسی کو بھی رسول بنا کر سوائے مردوں کے جن کی طرف ہم وحی کرتے رہے ، سو تم لوگ (اے انکار کرنے اور اچنبھا سمجھنے والو!) پوچھ لو اہل ذکر سے ، اگر تم خود نہیں جانتے ،
۴۴۔۔۔ روشن دلائل اور الہامی کتابوں کے ساتھ اور ہم نے آپ کی طرف بھی اتارا اس ذکر (حکیم) کو، تاکہ آپ کھول کر بیان کریں لوگوں کے لئے ان تمام چیزوں کو جن کو اتارا گیا ہے ان کی طرف، تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں
۴۵۔۔۔ تو کیا وہ لوگ جو بری چا لیں چلتے ہیں (حق اور اہل حق کے خلاف، کیا وہ نڈر اور) بے خوف ہو گئے اس بات سے کہ اللہ دھنسا دے ان کو زمین میں ؟ یا آ پہنچے ان پر عذاب جہاں سے اس کے آنے کا ان کو وہم و گمان بھی نہ ہو،
۴۶۔۔۔ یا وہ پکڑے لے ان کو چلتے پھرتے ، سو یہ ایسے نہیں کہ (اس کی گرفت و پکڑ سے نکل کر) عاجز کر دیں ،
۴۷۔۔۔ یا وہ ان کو پکڑے لے ایسے حال میں کہ یہ خوف پر خوف کھا رہے ہوں ، سو بے شک تمہارا رب بڑا ہی شفقت والا انتہائی مہربان ہے ،
۴۸۔۔۔ کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی بھی چیز کو نہیں دیکھتے ؟ کہ (کس طرح) جھکتے ہیں اس کے سائے ، دائیں اور بائیں سجدہ کرتے ہوئے اللہ کے حضور، سراپا عجز (و نیاز) بن کر،
۴۹۔۔۔ اور اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتی ہے ہر جاندار چیز خواہ وہ آسمان میں ہو، یا زمین میں ، اور سب فرشتے بھی، درآنحالیکہ وہ اپنی بڑائی کا کوئی گھمنڈ نہیں رکھتے ،
۵۰۔۔۔ وہ ڈرتے رہتے ہیں اپنے رب سے ، جو کہ ان کے اوپر ہے ، اور وہ (برضا و رغبت) بجا لاتے ہیں ان احکام کو جو ان کو دئیے جاتے ہیں ،
۵۱۔۔۔ اور فرمایا اللہ نے کہ تم نہیں بنانا دو معبود (اے انسانو! کہ) سوائے اس کے نہیں کہ وہ (معبود برحق) ایک ہی معبود ہے ، پس تم سب مجھ ہی سے ڈرو،
۵۲۔۔۔ اور اسی (وحدہٗ لاشریک) کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین کے اندر (موجود) ہے اور اسی کا حق ہے لازمی اطاعت (و فرمانبرداری) تو کیا پھر بھی تم لوگ اللہ کے سوا اوروں سے ڈرتے ہو؟
۵۳۔۔۔ اور جو بھی کوئی نعمت تمہیں حاصل ہے ، (اے لوگو) یہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہے ، پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے ، تو تم سب اسی کی طرف دوڑتے ہو چلاتے (اور فریاد کرتے) ہوئے ،
۵۴۔۔۔ مگر جب وہ دور کر دیتا ہے اس تکلیف کو تم سے (اپنے کرم سے) تو یکایک تم میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شریک ٹھہرانے لگتا ہے (دوسروں کو)
۵۵۔۔۔ تاکہ (اس طرح) وہ ناشکری کریں ان نعمتوں کی جو ہم نے انکو دی ہوتی ہیں ، سو مزے کر لو تم لوگ کچھ عرصہ کیلئے ، آگے چل کر تمہیں خود معلوم ہو جائے گا،
۵۶۔۔۔ اور یہ لوگ حصہ مقرر کرتے ہیں ان چیزوں کے لئے جن کے بارے میں یہ کچھ نہیں جانتے ، ان نعمتوں میں سے جو ہم نے بخشی ہوئی ہیں ان کو (اپنے کرم سے)، اللہ کی قسم تم سے ضرور پوچھ ہونی ہے (اے افتراء پردازو!) ان تمام افتراء پردازیوں کے بارے میں جو تم لوگ کرتے رہے تھے ،
۵۷۔۔۔ اور یہ لوگ خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ، سبحان اللہ (کیسی بے ہودہ بات کا ارتکاب کرتے ہیں یہ لوگ) اور (اس پر طرہ یہ کہ) ان کے لئے وہ کچھ ہے جو یہ خود چاہیں ،
۵۸۔۔۔ اور (ان کا اپنا حال یہ ہے کہ) جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور اس کا دم گھٹنے لگتا ہے
۵۹۔۔۔ وہ چھپتا پھرتا ہے اس خبر کی برائی سے جو اس کو دی گئی، (پھر سوچتا ہے کہ) کیا وہ اسے زندہ رکھے ذلت کے ساتھ، یا اس کو گاڑ دے مٹی میں ، آگاہ رہو کہ بڑے ہی برے ہیں وہ فیصلے جو یہ لوگ کرتے ہیں ،
۶۰۔۔۔ بڑی بری مثال ہے ان لوگوں کی جو ایمان نہیں رکھتے آخرت پر، اور سب سے برتر مثال تو اللہ ہی کے شایان شان ہے ، اور وہی ہے زبردست، نہایت حکمت والا،
۶۱۔۔۔ اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم (و زیادتی) پر فوری پکڑنے لگتا، تو زمین پر کسی حرکت کرنے والے (جاندار) کو باقی نہ چھوڑتا، لیکن وہ انہیں ڈھیل (پر ڈھیل) ہی دئیے جا رہا ہے ، ایک مقررہ وقت تک، پھر جب آ پہنچتا ہے ان کا وقت مقرر تو (وہ ان کو ایسے پکڑتا ہے کہ) یہ نہ اس سے پیچھے ہو سکتے ہیں ، اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں
۶۲۔۔۔ اور (ان کی گستاخی تو دیکھو کہ) یہ لوگ اللہ کے لئے وہ چیزیں تجویز کرتے ہیں جو انہیں خود اپنے لئے ناپسند ہیں ، اور اس پر ان کی زبانیں یہ جھوٹ بھی الاپتی ہیں کہ (آخرت کی) وہ بھلائی بھی انہی کے لئے مقرر ہے ، (ہرگز نہیں ، وہاں تو) ان کے لئے لازمی طور پر دوزخ کی وہ آگ ہی ہو گی، جس میں ان کو سب سے پہلے جھونکا جائے گا،
۶۳۔۔۔ (اور ان کا یہ بغض و عناد کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ، بلکہ) اللہ کی قسم ہم آپ سے پہلے بھی کتنی ہی امتوں کی طرف رسول بھیج چکے ہیں ، مگر شیطان نے ان کے لئے ان کے اعمال کو ایسا خوشنما بنا دیا (کہ انہوں نے رسولوں کی بات کو مان کر نہ دیا) سو وہی آج ان کا بھی دوست ہے ، اور ان لوگوں کے لئے بھی ایک بڑا ہی دردناک عذاب طے ہے ،
۶۴۔۔۔ اور ہم نے آپ پر (اے پیغمبر!) یہ کتاب تو صرف اس لئے اتاری ہے کہ آپ ان کے سامنے کھول کر بیان کر دیں وہ سب باتیں جن کے بارے میں یہ لوگ اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں ، اور تاکہ (اس عام فائدے کے علاوہ یہ کتاب بطور خاص) ان لوگوں کے لئے سراسر ہدایت اور عین رحمت ہو، جو ایمان رکھتے ہیں ،
۶۵۔۔۔ اور اللہ ہی آسمان سے پانی برساتا ہے (ایک بڑے ہی حکیمانہ نظام کے تحت) پھر اس کے ذریعے وہ زندہ کرتا ہے زمین کو اس کے مر چکنے کے بعد، بے شک اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو سنتے ہیں
۶۶۔۔۔ اور تمہارے لئے (اے لوگو! تمہارے) مویشیوں میں بھی بڑا سامان عبرت ہے (ذرا دیکھو تو سہی کہ کس طرح) ہم ان کے بیٹوں سے تمہارے پینے کے لئے گوبر اور خون کے (ما دے کے عین) درمیان سے ایسا خالص دودھ پیدا کرتے ہیں ، جو نہایت (مفید اور) خوشگوار ہوتا ہے پینے والوں کے لئے ،
۶۷۔۔۔ اور (اسی طرح) کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں سے بھی (تمہارے لئے کھانے اور پینے کا بندوبست کرتے ہیں ، مگر) تم لوگ اس سے نشہ آور چیز بھی بناتے ہو، اور اچھی غذا بھی، بلاشبہ اس میں بھی بڑی بھاری نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں ،
۶۸۔۔۔ اور (دیکھو کس طرح) تمہارے رب نے شہد کی مکھی کے جی میں یہ بات ڈال دی، کہ تو گھر (یعنی اپنے چھتے) بنا پہاڑوں میں بھی، درختوں میں بھی، اور ان چھتوں میں بھی جو یہ لوگ (اس غرض کے لئے) بناتے ہیں ،
۶۹۔۔۔ پھر تو کھا ہر قسم کے پھلوں سے (اور ان کے رس چوس)، پھر چل نکل اپنے رب کی ہموار کردہ راہوں پر (سو اس کے نتیجے میں) اس کے پیٹ سے پینے کی ایک ایسی (عظیم الشان) چیز نکلتی ہے جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اور اس میں شفاء ہے لوگوں کے لئے ، بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں ،
۷۰۔۔۔ اور (تم لوگ خود اپنی حالت پر بھی تو غور و کرو کہ کس طرح) اللہ ہی تمہیں پیدا فرماتا ہے ، پھر وہی تمہیں موت بھی دیتا ہے اور تم میں سے کسی کو لوٹا دیا جاتا ہے بدترین عمر کی طرف، تاکہ وہ کچھ نہ جانے سب کچھ جاننے کے بعد، بے شک اللہ سب کچھ جانتا، ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے ،
۷۱۔۔۔ اور (دیکھو) اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت (و فوقیت) بخشی رزق (و روزی) میں ، پھر وہ لوگ جن کو یہ فضیلت دی گئی ہے ایسے نہیں کہ وہ پھیر دیں اپنے رزق (و روزی) کو اپنے غلاموں کی طرف، اس طور پر کہ وہ سب اس میں برابر ہو جائیں ، تو کیا یہ لوگ پھر بھی اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں ؟
۷۲۔۔۔ اور اللہ (کے کرم و احسان کے بارے میں مزید سنو کہ اس) نے پیدا فرمائیں تمہارے لئے بیویاں خود تمہاری ہی جنس میں سے ، اور اسی (قادر مطلق) نے تمہاری بیویوں سے (تمہارے لئے) بیٹے بھی پیدا فرمائے اور پوتے بھی، اور اسی نے تمہیں کھانے (پینے) کے لئے (طرح طرح کی اور عمدہ سے عمدہ) پاکیزہ چیزیں عطا فرمائیں ، تو کیا پھر بھی یہ لوگ باطل (اور بے حقیقت و بے بنیاد چیزوں) پر ایمان رکھتے ہیں ، اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں ،
۷۳۔۔۔ اور پوجا کرتے ہیں یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی (بے حقیقت) چیزوں کی جو نہ تو آسمانوں سے ان کے لئے کسی طرح کی روزی رسانی کا اختیار رکھتی ہیں ، اور نہ ہی زمین سے ، اور نہ ہی وہ اس کی کچھ سکت رکھتے ہیں ،
۷۴۔۔۔ پس تم لوگ از خود اللہ کے لئے مثالیں مت بیان کرو، بے شک اللہ جانتا ہے (سب کچھ) اور تم لوگ نہیں جانتے ،
۷۵۔۔۔ اللہ (ابطال شرک کے لئے) ایک مثال بیان فرماتا ہے کہ (فرض کرو کہ) ایک غلام ہے جو دوسرے کا ایسا مملوک ہے کہ (اپنے مالک کی اجازت کے بغیر) وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا، اور دوسرا وہ شخص ہے جس کو ہم نے اپنی طرف سے دے رکھی ہو عمدہ روزی، اور وہ اس میں سے (اپنی مرضی کے مطابق) پوشیدہ بھی خرچ کرتا ہو، اور ظاہراً بھی، تو کیا یہ دونوں آپس میں برابر ہو سکتے ہیں ؟ (پس ثابت ہوا کہ معبود حقیقی بھی اللہ ہی ہے اور) ہر تعریف کا حقدار بھی اللہ ہی ہے ، مگر لوگوں کی اکثریت ہے کہ وہ جانتے نہیں (حق اور حقیقت کو)،
۷۶۔۔۔ اور اللہ (مزید توضیح کے لئے) ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ (فرض کرو کہ) دو شخص ہوں ، جن میں سے ایک ایسا گوں گا (بہرا) ہے کہ کچھ بھی نہیں کر سکتا، وہ اپنے آقا پر ایک بوجھ ہے ، وہ اسے جدھر بھی بھیجے اس سے کوئی بھلا کام نہ بن آئے ، تو کیا یہ اور دوسرا وہ شخص برابر ہو سکتے ہیں جو انصاف کا حکم دیتا ہے ، اور وہ خود بھی عین سیدھی راہ پر ہے ؟
۷۷۔۔۔ اور اللہ ہی کے لیے خاص ہے غیب آسمانوں کا اور زمین کا، (یہ تو شان ہے اس کے کمال علم کی) اور اس کی صفت قدرت کے کمال کا عالم یہ ہے کہ اس کے یہاں قیامت برپا کرنے کا معاملہ تو محض پلک جھپکنے کے برابر ہے ، یا اس سے بھی قریب تر، بلاشبہ اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے ،
۷۸۔۔۔ اور اللہ ہی نے باہر نکالا ہے تم سب کو (اے لوگو) تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے ، اس حال میں کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے ، پھر اس نے تم کو (نورِ علم سے نوازنے کے لئے) کان بخشے ، آنکھیں عطا فرمائیں ، اور دل دئیے تاکہ تم لوگ شکر ادا کرو،
۷۹۔۔۔ کیا یہ لوگ ان اڑتے پھرتے پرندوں کو نہیں دیکھتے ، جو کہ اس وحدہٗ لا شریک کے حکم کے بندھے فضائے آسمانی میں موجود ہیں ، ان کو اس طرح روک (اور تھام) سکتا ہے سوائے اللہ کے ؟ بے شک اس میں بھی بڑی بھاری نشانیاں ہیں ، ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں ،
۸۰۔۔۔ اور اللہ ہی نے رکھ دیا تمہارے لئے گھروں میں سکون (اطمینان) کا سامان اور اسی نے تمہارے لئے جانوروں کی کھالوں کے ایسے گھر بنا دئیے ، جن کو تم لوگ ہلکا پاتے ہو اپنے سفر کے دوران بھی، اور اپنے ٹھہراؤ کے دوران بھی، اور اس نے (ان جانوروں میں سے) بھیڑوں کی اون، اونٹوں کی روؤں اور بکریوں کے بالوں سے تمہارے لئے گھروں کا سامان اور (قسما قسم کے) فائدے کی دوسری چیزیں پیدا فرمائیں ، ایک مدت مقررہ تک
۸۱۔۔۔ اور اللہ نے اپنی پیدا کردہ بہت سی چیزوں سے تمہارے لئے طرح طرح کے سایوں کا بھی بندوبست کر دیا، اور اسی نے تمہارے لئے پہاڑوں سے (مضبوط) پناہ گاہیں بھی بنا دیں ، اور تمہارے لئے ایسی پوشاکیں بھی مہیا فرما دیں ، جو تمہیں بچاتی ہیں گرمی (اور سردی) سے ، اور ایسی پوشاکیں بھی، جو تمہاری آپس کی لڑائی کے دوران تمہاری حفاظت کرتی ہیں ، اللہ اسی طرح تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے تاکہ تم لوگ فرمانبردار بن جاؤ،
۸۲۔۔۔ پھر بھی اگر یہ لوگ (راہ حق سے) پھرے ہی رہیں تو یقیناً (اس میں اے پیغمبر! آپ کا کوئی قصور نہیں کہ) آپ کے ذمے تو بس پہنچا دینا ہے (حق کو) کھول کر، (اور بس)
۸۳۔۔۔ یہ لوگ پہچانتے ہیں اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کو، پھر بھی ان کا انکار کرتے ہیں ، اور اکثر لوگ تو ہیں ہی کفر (اور ناشکری) کا ارتکاب کرنے والے ،
۸۴۔۔۔ اور (وہ دن بھی یاد کرو، اے لوگو! جس دن کہ ہم ہر امت سے ایک گواہ کھڑا کریں گے پھر ان لوگوں کو جو کہ (زندگی بھر) اڑے رہے ہوں گے اپنے کفر (و باطل) پر، نہ ان کو (کسی عذر و معذرت کی) کوئی اجازت دی جائے گی، اور نہ ہی ان سے (اپنے رب کو) راضی کرنے کا کوئی مطالبہ کیا جائے گا،
۸۵۔۔۔ اور جب وہ لوگ جو کہ (دنیا میں) اپنے ظلم پر ہی کمربستہ رہے تھے دیکھ لیں گے (دوزخ کے اس ہولناک) عذاب کو، تو نہ وہ ان سے ہلکا کیا جائے گا، اور نہ ہی ان کو (کوئی) مہلت دی جائے گی
۸۶۔۔۔ اور جب دیکھیں گے مشرک لوگ اپنے (خود ساختہ) شریکوں کو، تو وہ (چھوٹتے ہی) کہیں گے ، اے ہمارے رب، یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنہیں ہم (دنیا میں پوجا) پکارا کرتے تھے تیرے سوا، تو اس پر وہ (شرکاء) پھینک ماریں گے بات ان پر کہ تم لوگ سراسر جھوٹے ہو،
۸۷۔۔۔ اور سب جھک جائیں گے اس روز اللہ کے حضور، (اور ختم ہو جائے گی ان کی سب اکڑ فوں) اور رفو چکر ہو جائیں گی ان کی وہ سب افتراء پردازیں (اور حجت بازیاں) جن سے یہ لوگ (دنیا میں)، کام لیا کرتے تھے ،
۸۸۔۔۔ جن لوگوں نے کفر کیا ہو گا (دنیا میں) اور انہوں نے روکا ہو گا اللہ کی راہ سے ، انہیں ہم عذاب پر عذاب دیں گے ، اس فساد (اور فتنہ انگیزی) کے بدلے میں جو وہ (دنیا میں) برپا کرتے رہے تھے ،
۸۹۔۔۔ اور (وہ ہولناک دن بہر حال یاد رکھنے کا ہے کہ) جس دن ہم اٹھا کھڑا کریں گے ہر امت میں ایک گواہ ان (کے کئے کرائے) پر گواہی دینے کے لئے خود انہی میں سے ، اور ہم آپ کو (اے پیغمبر) کتاب کو، کامل بیان بنا کر (ضروریات دین سے متعلق) ہر چیز کے لئے ، اور سراسر ہدایت، عین رحمت، اور عظیم الشان خوشخبری کے طور پر، (اس کے حضور) سر تسلیم خم کر دینے والوں کے لئے ،
۹۰۔۔۔ بے شک اللہ حکم فرماتا ہے عدل (و انصاف) کا، احسان کرنے اور رشتہ داروں کو دینے کو، اور وہ روکتا ہے بے حیائی، برائی اور زیادتی سے ، وہ نصیحت فرماتا ہے تمہیں تاکہ تم لوگ سبق لو،۳
۹۱۔۔۔ اور پورا کرو تم لوگ اللہ کے عہد کو، جب کہ تم آپس میں کوئی عہد کرو، اور اپنی قسموں کو توڑنا نہیں ، ان کو پکا کرنے کے بعد، درآنحالیکہ تم لوگ خود اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو، بے شک اللہ خوب جانتا ہے وہ سب کچھ جو تم لوگ کرتے ہو،
۹۲۔۔۔ اور مت ہو جانا تم اس عورت کی طرح جو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی تھی اپنے سوت کو، مضبوط کاتنے کے بعد، کہ تم اپنی قسموں کو آپس میں فساد (اور مکر و فریب) کا ذریعہ بنانے لگو، محض اس وجہ سے کہ ایک گروہ بڑھ جائے دوسرے گروہ سے ، بات صرف یہ ہے کہ اللہ اس طرح آزمائش میں ڈالتا ہے تم سب کو، اور اللہ ضرور بالضرور کھول کر بیان کر دے گا تمہارے لئے قیامت کے روز ان سب چیزوں کو جن (کے بارے) میں تم لوگ باہم اختلاف کیا کرتے تھے ،
۹۳۔۔۔ اور اگر اللہ چاہتا (کہ تمہارے اندر کوئی اختلاف ہو ہی نہ) تو وہ یقیناً (بڑی آسانی سے) تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، مگر وہ (اپنے دستور عدل و حکمت کے مطابق) جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت (کی دولت) سے نواز دیتا ہے ، اور (یاد رکھنا کہ تمہیں یونہی چھٹی نہیں ملی رہے گی، بلکہ) تم سب سے ضرور باز پرس ہونی ہے ، ان سب کاموں کے بارے میں جو تم لوگ کرتے رہے تھے (اپنی زندگیوں میں)
۹۴۔۔۔ اور اپنی قسموں کو آپس میں فساد کا ذریعہ بنا لینا کہ کہیں اس سے کوئی قدم ڈگمگا جائے اس کے جمنے کے بعد، اور اس کے نتیجے میں تمہیں بھگتنا پڑے برا انجام، اس بنا پر کہ تم نے روکا اللہ کی راہ سے ، اور (اس طرح آخرکار) تمہارے لئے ایک بہت بڑا عذاب قرار پا جائے ،
۹۵۔۔۔ اور (یاد رکھنا کہ) کہیں تم لوگ اللہ کے عہد کے بدلے میں (دنیائے دوں کا) کوئی گھٹیا مول نہ اپنا لینا، بے شک جو کچھ اللہ کے پاس ہے ، وہ تمہارے لئے کہیں بہتر ہے اگر تم جانو
۹۶۔۔۔ جو کچھ تمہارے پاس ہے (اے لوگو) وہ بہرحال (ایک نہ ایک دن) ختم ہو کر رہیگا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ (ہمیشہ) باقی رہنے والا ہے اور جو لوگ (راہ حق پر) ثابت قدم رہے ہم ان کو ضرور بالضرور بدلہ دیں گے ان کے ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کرتے رہے تھے
۹۷۔۔۔ جو بھی کوئی نیک کام کریگا خواہ وہ کوئی مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ ایمان رکھتا ہو، تو ہم اسے (دنیا میں) ضرور ایک پاکیزہ زندگی سے نوازیں گے اور (قیامت کے روز) ہم ایسے لوگوں کو ضرور ان کا اجر عطا کریں گے ان کے ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ (زندگی بھر) کرتے رہے تھے ،
۹۸۔۔۔ پس جب تم قرآن پڑھنے لگو، تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو، شیطان مردود (اور اس کے شر) سے ،
۹۹۔۔۔ (کیونکہ) اس کا ان لوگوں پر کوئی زور نہیں چلتا جو ایمان رکھتے ہیں ، اور وہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں ،
۱۰۰۔۔۔ اس کا زور تو بس انہیں لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا دوست بناتے ہیں ، اور وہ اس کے (بہکانے کے) باعث شرک کرتے ہیں ،
۱۰۱۔۔۔ اور جب ہم کسی آیت کی جگہ اس کے بدلے میں کوئی دوسری آیت اتارتے ہیں ، اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ کہ وہ اتارتا ہے ، تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ سوائے اس کے نہیں کہ تم خود ہی گھڑ کر لے آتے ہو (نہیں) بلکہ (اصل حقیقت یہ ہے کہ) ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں
۱۰۲۔۔۔ کہو کہ اس کو تو بتدریج اتارتی ہے وہ پاکیزہ روح تمہارے رب کی جانب سے حق کے ساتھ تاکہ وہ ثابت قدم رکھے (اس کے ذریعے) ایمان والوں کو، اور تاکہ یہ ایک عظیم الشان ہدایت اور خوشخبری ہو فرمانبرداروں کے لیے
۱۰۳۔۔۔ اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ (آپ کے بارے میں) کہتے ہیں کہ سوائے اس کے نہیں کہ اس شخص کو سکھاتا ہے ایک انسان، حالانکہ جس شخص کی طرف یہ لوگ اس بات کی نسبت کرتے ہیں اس کی زبان (ہی عربی نہیں ، بلکہ) عجمی ہے ، جبکہ یہ (قرآن حکیم) کھلی عربی زبان ہے ،
۱۰۴۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ایمان نہیں رکھتے اللہ کی آیتوں پر اللہ ان کو ہدایت (کی دولت) سے نہیں نوازتا اور ان کے لیے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے ،
۱۰۵۔۔۔ (پیغمبر کبھی جھوٹ نہیں گھڑتا بلکہ) جھوٹ تو وہی لوگ گھڑتے ہیں ، جو ایمان نہیں رکھتے اللہ کی آیتوں پر، اور ایسے لوگ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں ،
۱۰۶۔۔۔ جو کوئی اللہ کے ساتھ کفر کرے گا اپنے ایمان کے بعد، مگر جس کو مجبور کر دیا جائے بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو اس پر کوئی گناہ نہیں)، لیکن جس نے دل کھول کر کفر کا ارتکاب کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا بھاری غضب بھی ہو گا، اور ان کے لیے ایک بہت بڑا عذاب بھی ہے ،
۱۰۷۔۔۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے پسند کیا دنیا کی (اس فانی) زندگی کو آخرت کے مقابلے میں ، اور (اس لیے کہ) یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اللہ ہدایت (کی دولت) سے نہیں نوازتا ایسے کافر لوگوں کو،
۱۰۸۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ مہر لگا دی اللہ نے ان کے دلوں پر، (اور اس نے ڈاٹ رکھ دئے) ان کے کانوں میں ، اور (پردے ڈال دئے) ان کی آنکھوں پر، (ان کی اپنی بدنیتی اور سوء اختیار کی بنا پر) اور یہی لوگ ہیں بے خبر (و بے فکر اپنی آخرت اور انجام سے ،)
۱۰۹۔۔۔ لازمی بات ہے کہ یہ لوگ آخرت میں سراسر خسارہ اٹھانے والے ہیں ،
۱۱۰۔۔۔ پھر بے شک تمہارا رب (بڑا ہی بخشنے والا، انتہائی مہربان ہے ، خاص کر) ان لوگوں کے لئے جنہوں نے ہجرت کی (اس کی راہ میں) اس کے بعد کہ ان کو فتنہ (و آزمائش) میں مبتلا کیا گیا، پھر انہوں نے (راہِ حق میں) جہاد کیا، اور صبر سے کام لیا، بے شک تمہارا رب اس کے بعد بڑا ہی بخشنے والا، انتہائی مہربان ہے ،
۱۱۱۔۔۔ (اور یاد کرو، اے لوگو، اس ہولناک دن کو، کہ) جس دن ہر شخص اپنے ہی لئے جھگڑتا ہوا آئے گا، ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور ان پر (ذرہ برابر) کوئی ظلم نہ ہونے پائے گا،
۱۱۲۔۔۔ اور اللہ نے مثال بیان فرمائی ایک ایسی بستی کی، جو ہر طرح سے امن و چین میں تھی، اسے اس کی روزی ہر جگہ سے بفراغت چلی آ رہی تھی، مگر اس (کے باشندوں) نے کفر کیا اللہ کی نعمتوں کے ساتھ، جس کے نتیجے میں اللہ نے چکھایا ان کو لباس بھوک اور خوف کا، بوجہ (ان لوگوں کے) ان کاموں کے جو یہ کرتے رہے تھے ،
۱۱۳۔۔۔ اور بلاشبہ آ چکے ان کے پاس ایک عظیم الشان رسول خود انہی میں سے ، پھر انہوں نے (اس کو غنیمت جان کر ایمان لانے کی بجائے الٹا) ان کو جھٹلایا، تو آخرکار پکڑا ان کو اس عذاب نے (جس کے وہ مستحق ہو چکے تھے)، درآنحالیکہ وہ کمربستہ تھے اپنے ظلم پر،
۱۱۴۔۔۔ پس کھاؤ (پیو) تم لوگ ان چیزوں میں سے جو بخشی ہیں تم کو اللہ نے حلال، پاکیزہ، اور شکر (ادا) کرو تم اللہ کی نعمتوں کا، اگر واقعی تم لوگ اسی (وحدہٗ لاشریک) کی بندگی کرتے ہو،
۱۱۵۔۔۔ سوائے اس کے نہیں کہ اس نے حرام فرمایا تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت، اور اس (نذرو نیاز) کو جس پر نام لیا گیا ہو اللہ کے سوا کسی اور کا، پھر جو کوئی مجبور ہو گیا (بھوک وغیرہ کی وجہ سے ، اور اس نے ان چیزوں میں سے کچھ کھا لیا) بشرطیکہ نہ تو وہ طالب لذت ہو اور نہ ہی حد ضرورت سے بڑھنے والا، (اس پر کوئی گناہ نہیں کہ) بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت مہربان ہے ،
۱۱۶۔۔۔ اور مت کہو تم لوگ ان چیزوں کے بارے میں جن کو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں کہ یہ حلال اور یہ حرام، تاکہ اس طرح تم افتراء باندھو اللہ پر جھوٹا، بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹا افتراء باندھتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتے ،
۱۱۷۔۔۔ (ان کے لئے زندگی میں) فائدے کا تھوڑا سا سامان ہے اور (آخرت میں) ان کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے ،
۱۱۸۔۔۔ اور ان لوگوں پر جو کہ یہودی بن گئے ہم نے حرام کر دیا تھا ان سب چیزوں کو جن کا ذکر ہم آپ سے کر چکے ہیں اس سے پہلے ، اور ہم نے ان پر (کسی طرح کا) کوئی ظلم نہیں کیا تھا، مگر وہ لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے ،
۱۱۹۔۔۔ پھر آپ کا رب یقینی طور پر ان لوگوں کے لئے جنہوں نے ارتکاب کر لیا برائی کا جہالت کی بناء پر، پھر انہوں نے (صدقِ دل سے) توبہ کر لی، اور اصلاح کر لی (اپنے فساد و بگاڑ کی) بے شک تمہارا رب اس کے بعد بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے ،
۱۲۰۔۔۔ بے شک ابراہیم اپنی ذات میں ایک پوری امت تھا، اللہ کا فرمانبردار، و یکسو، اور اس کا کوئی لگاؤ نہیں تھا مشرکوں سے ،
۱۲۱۔۔۔ وہ شکر ادا کرنے والا تھا اپنے رب کی نعمتوں کا، اس کو اللہ نے چن لیا تھا، اور ڈال دیا تھا اس کو سیدھی راہ پر
۱۲۲۔۔۔ اور ہم نے اسے دنیا میں بھی بھلائی دی تھی اور آخرت میں بھی وہ یقیناً (ہمارے قرب خاص کے) سزاواروں میں سے ہو گا،
۱۲۳۔۔۔ (اور) پھر ہم نے آپ کی طرف بھی یہ وحی بھیجی (اے پیغمبر!) کہ آپ بھی پیروی کریں ابراہیم کی ملت کی، جو کہ (ہر باطل سے) یکسو (اور بیزار) تھا، اور اس کو کوئی لگاؤ نہیں تھا مشرکوں سے ،
۱۲۴۔۔۔ سوائے اس کے نہیں کہ ہفتے کا دن تو انہی لوگوں پر مقرر کیا گیا تھا، جنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا تھا، اور یقیناً تمہارا رب (عملی اور آخری طور پر)، فیصلہ فرما دے گا ان لوگوں کے درمیان ان تمام باتوں کا جن کے بارے میں یہ اختلاف میں پڑے ہوئے تھے ،
۱۲۵۔۔۔ بلاتے رہو آپ اپنے رب کی راہ کی طرف، دانش مندی اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور (بوقت ضرورت) ان سے بحث کرو اس طریقے کے ساتھ جو کہ سب سے اچھا ہو، بے شک آپ کا رب خوب جانتا ہے اس شخص کو بھی جو بھٹکا ہوا ہے اس (اللہ) کی راہ سے ، اور وہی خوب جانتا ہے ان سب کو بھی جو سیدھی راہ پر ہیں ،
۱۲۶۔۔۔ اور اگر (حسب موقع) بدلہ لینا ہو (اے مسلمانو!) تو تم اسی قدر بدلہ لو جس قدر کہ تم پر زیادتی کی گئی ہو، لیکن اگر تم صبر سے کام لو تو یقیناً یہ بہت ہی اچھا ہے ، صبر کرنے والوں کے لئے ،
۱۲۷۔۔۔ اور آپ (اے پیغمبر!) صبر ہی سے کام لیتے رہیں اور آپ کا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے ، اور کسی طرح کی تنگی میں نہیں پڑنا ان چالبازوں کی بناء پر، جن سے یہ لوگ کام لے رہے ہیں ،
۱۲۸۔۔۔ بے شک اللہ ساتھ ہے ان لوگوں کے جو تقویٰ (و پرہیزگاری) کو اپنائے رکھتے ہیں ، اور جو نیکوکار ہیں ۔
۱۔۔۔ سو لوگوں کو عذاب کے لئے جلدی مچانے کے بجائے اس سے بچنے کی فکر و کوشش کرنی چاہیئے، کیونکہ اس کے آ جانے کے بعد اس کے ٹلنے کی، یا اس سے بچنے کی پھر کوئی صورت ممکن نہ ہو گی۔ اور جن لوگوں نے ازخود اور اپنے طور پر اللہ تعالیٰ کے شریک اور سفارشی گھڑ رکھے ہیں اور اس بناء پر وہ اس خبط میں مبتلا ہیں کہ ان کے یہ من گھڑت سفارشی اور شریک ان کو عذاب الٰہی سے چھڑا اور بچالیں گے، تو وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے تمام شریکوں، اور اس طرح کے ہر شرک سے پاک ہے۔ اور اس طرح کے شرکیہ تصورات رکھنے والے لوگ سخت گمراہی میں ہیں والعیاذ باللہ جل وعلا
۲۔۔۔ اس ارشاد سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے صرف انہی حضرات پر اترتے ہیں جن کو وہ اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے، نہ کہ ہر کسی پر، دوسری اہم حقیقت اس سے یہ واضح فرمائی گئی ہے کہ جس طرح جسم کی زندگی روح سے ہے، اسی طرح روح کی زندگی وحی سے ہے۔ اسی لئے وحی کو یہاں پر روح سے تعبیر فرمایا گیا ہے، اور تیسری اہم حقیقت اس سے یہ واضح فرمائی گئی ہے کہ ہر پیغمبر کو اللہ کی طرف سے یہی ہدایت ہوئی کہ لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس تم سب مجھ ہی سے ڈرو۔ اور میری ہی عبادت کرو۔ کسی اور کو میرا شریک مت ٹھہراؤ۔ سو عقیدہ توحید ہر دین سماوی کی اساس و بنیاد رہا ہے، والحمد للّٰہ جَلَّ وَعَلَا
۷۔۔۔ سو ان آیات کریمات میں مخاطب لوگوں کو ان کے ارد گرد کی چیزوں کے بعض اہم اور عظیم الشان فوائد و منافع کا حوالہ دے کر ان کو توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ حضرت خالق جَلَّ مَجْدہٗ کے ان پر کتنے بڑے اور کس قدر عظیم الشان احسانات ہیں، جن سے اس نے محض اپنے فضل و کرم سے ان کو نوازا ہے۔ اور ان کی طرف سے بغیر کسی اپیل و درخواست کے نوازا ہے۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ خالق و مالک کس قدر رحیم و کریم، اور کتنا بڑا مہربان اور حکیم و قدیر ہے۔ اور جب اس کی ان نعمتوں اور ان عنایات میں اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم کس طرح ہو سکتا ہے؟ سو وہ ہر طرح سے اور ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک ہے۔ اور ہر قسم کی عبادت و بندگی۔ اور اس کی ہر طرح و شکل اسی کا اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔
۸۔۔۔ سو گھوڑوں، خچروں، اور گدھوں، کی معروف سواریوں کی تخلیق کی غرض و غایت کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ان سب کو اسی وحدہٗ لاشریک نے تمہارے فائدے اور بھلے کلئے پیدا فرمایا، تاکہ تم لوگ ان پر سواری بھی کرو۔ اور یہ تمہارے لئے زیب و زینت کا ذریعہ بھی بنیں۔ اور اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ وہ تمہارے لئے اس کے علاوہ اور بھی ایسی چیزیں پیدا فرماتا ہے اور پیدا فرمائے گا، جن کو تم لوگ ابھی جانتے بھی نہیں ہو، سو اس کے عموم میں دورِ حاضر کے ہوائی جہازوں سمیت تمام جدید سواریاں بھی داخل ہیں۔ جن کو انسانوں نے اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی عقلوں اس کی دی ہوئی صلاحیتوں اور اس کے پیدا کردہ مواد کے ذریعے بنایا ہے۔ سو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کا نتیجہ ہے۔ مگر انسان اسی سے غافل ہے، الا ماشاء اللہ، والعیاذ باللہ جل وعلا
۹۔۔۔ سو اللہ تعالیٰ کی مشیت اگر یہ ہوتی کہ سب لوگوں کو جبری طور پر راہِ راست پر لایا جائے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں تھا۔ بلکہ اس کے لئے تو محض اس کا ایک اشارہ ہی کافی تھا۔ لیکن ایسا جبری ایمان نہ مفید ہے اور نہ مطلوب۔ بلکہ مفید و مطلوب وہ ایمان ہے جو انسان کے اپنے ارادہ و اختیار سے، اور اس کے عقل و فکر کے نتیجہ میں۔ اور پیغمبر کی دعوت و تبلیغ کے مطابق ہو۔ کہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی اسی پر موقوف ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت و عنایت سے راہ حق و ہدایت کی سیدھی راہ کو بتانا اپنے ذمے لازم قرار دیا ہے۔ کہ اس تک پہنچنا توحید کی سیدھی راہ ہی سے ممکن ہو سکتا ہے اس لئے اس نے اپنے انبیاء و رسل کے ذریعے توحید کی اس راہ کو بیان کرنے کا ہمیشہ اہتمام و انتظام فرمایا، کیونکہ توحید کے خلاف دوسرے سب راستے ٹیڑھے ہیں، جن کے ذریعے وصول الی اللہ یعنی اللہ تک رسائی ممکن نہیں۔ پس جن لوگوں نے حضرت انبیاءِ و رسل کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق راہ حق کو اپنایا وہی لوگ دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفراز ہوئے۔ اور وہی اس سے سرفراز ہو سکیں گے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے اس سے اعراض و روگردانی برتی، والعیاذُ باللہ، وہ راہ حق و ہدایت سے بہرحال محروم ہیں۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا، سو راہ حق و ہدایت سے سرفرازی کا اصل دار و مدار انسان کے اپنے باطن اور اس کے ارادہ و اختیار پر ہے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید، بکل حالٍ من الاحوال وفی کل مواطنٍ من المواطن فی الحیاۃ
۱۳۔۔۔ سو ایسے لوگ ان نشانہائے قدرت و حکمت سے درس لیتے؟ اور سبق حاصل کرتے ہیں، کہ ہمارا وہ خالق و مالک کتنا مہربان، اور کس قدر وہاب و کریم ہے، جس نے محض اپنے فضل و کرم سے اس کرہ ارضی کو اپنی ان گوناگوں رحمتوں اور عنایتوں سے اس طرح بھر دیا۔ اور ایسی گوناگوں اور قسما قسم کی ان بوقلموں نعمتوں کو نہایت ہی پُر حکمت طریقے سے زمین میں پھیلا دیا۔ اور اس طور پر کہ اس کا گوشہ گوشہ عجائب قدرت و حکمت سے معمور ہے۔ تاکہ انسان جہاں بھی نگاہ ڈالے، اپنے خالق و مالک کی قدرت و حکمت، اور اس کی رحمت و ربوبیت کی مختلف شانوں کو دیکھ کر اپنے ایمان و یقین کی تازگی و تقویت کا سامان کر سکے۔ نیز اسی سے وہ اس اہم اور بنیادی حقیقت پر بھی غور کر سکے کہ جس خالق و مالک کی رحمت و عنایت کے یہ عظیم الشان مظاہر چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں، اس کا اس پر کیا حق واجب ہوتا ہے؟ اور اس کے اس حق کی ادائے گی کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟ نیز اسی سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ایک ایسا یوم حساب آئے جس میں لوگوں سے ان کے کئے کرائے کی باز پرس ہو۔ تاکہ ان نعمتوں کا حق ادا کرنے والے شکر گزاروں کو شکر نعمت کا صلہ و بدلہ ملے۔ اور ناشکروں کو ان کی ناشکری کی سزا ملے۔ تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ اور تخلیق کائنات کی حکمت کا تحقق ہو سکے۔ ورنہ یہ سارا کارخانہ قدرت عبث و بیکار قرار پائے گا۔ جو کہ حضرت خالق حکیم کی حکمت کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ سو زمین میں پھیلی بکھری ان نعمتوں میں غور و فکر سے توحید خداوندی اور رسالت و معاد سب ہی کے دلائل واضح ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ انہی لوگوں کے لئے ہے جو عقل و فکر سے کام لیتے ہیں۔ اور وہ سبق لینا چاہتے ہیں۔ ورنہ ان اندھوں بہروں کے لئے اس میں کوئی درس نہیں، جن کی ساری کوشش اور محنت مادہ و معدہ کے تقاضوں کے گرد ہی گھومتی ہے اور وہ بطن و فرج کی شہوات کی تکمیل ہی کو اپنا مقصد حیات اور نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم
۱۴۔۔۔ سو اس ارشاد سے خشکی کی نعمتوں کے بعد سمندر کی نعمتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، کہ اس قادر مطلق خالق و مالک کل رب ذوالجلال والاکرام نے اپنی بے پایاں قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت سے سمندر کے اس عظیم الشان ذخیرہ آب کو بھی تم لوگوں کے کام میں لگا دیا ہے جس میں اس کی قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت کے عظیم الشان دلائل و مظاہر ہیں۔ سو تم لوگ اس میں پھیلی بکھری قسما قسم کی اور بے حدو حساب مچھلیوں سے تازہ عمدہ لذیذ، اور نہایت مفید گوشت حاصل کرتے اور اس سے لذت کام و دہن کا سامان کرتے ہو اور اسی سے تم لوگ ہیروں، موتیوں، اور مونگوں، وغیرہ کی شکل میں عظیم الشان اور قیمتی زیورات بھی نکالتے، اور ان سے طرح طرح کے فائدے اٹھاتے ہو۔ اور اسی میں طرح طرح کی کشتیاں اور قسما قسم کے دیو ہیکل بحری جہاز بھی چلتے ہیں، جو اس کے سینے کو چیرتے ہوئے تمہارے نفع اور فائدہ کے لئے طرح طرح کے سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔ جن میں تمہاری معیشت و معاش، اور تمہاری روزی روٹی سے متعلق عظیم الشان فوائد و منافع ہیں۔ سو وہی تمہارا خالق و مالک تمہارا معبود برحق ہے۔ ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے، سو ایسے میں اس سے غفلت و لاپرواہی برتنا کتنی بڑی بے انصافی اور کس قدر ظلم ہے؟ والعیاذ باللہ العظیم
۲۲۔۔۔ یعنی یہ حقیقت تو ایک قطعی حقیقت ہے کہ معبودِ حقیقی تم سب کا ایک ہی معبود ہے، یعنی اللہ وحدہٗ لاشریک سبحانہ و تعالیٰ، عقل سلیم اور نقل صحیح دونوں اس پر متفق ہیں۔ لیکن جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل اس حقیقت کو ماننے اور تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہیں اس لئے وہ حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ آباء و اجداد کے طور طریقوں کو چھوڑ کر حق بات ماننے میں یہ لوگ اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ آخرت پر چونکہ ان کا ایمان ہے نہیں، اس لئے یہ بے فکر اور لا پرواہ ہیں، سو حق تو پوری طرح واضح ہے لیکن ان لوگوں کی محرومی اصل سبب ان کی اپنی آن اور انا کا ہے۔ جس کفر و باطل پر وہ ہمیشہ سے چلے آئے ہیں اس کو ترک کرنا، اور اپنے آپ کے باطل پر ہونے کا اقرار کرنا ان کو گوارا نہیں۔ سو استکبار یعنی اپنی بڑائی کا زعم و گھمنڈ اور عقیدہ آخرت سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم
۲۳۔۔۔ سو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ظاہر کے انکار اور ان کے باطن کے محرک کو پوری طرح اور ایک برابر جانتا ہے ان کے دلوں کے اندر چونکہ استکبار کا خناس سمایا ہوا ہے اس لئے یہ لوگ حق کو حق جانتے ہوئے بھی جھٹلا رہے ہیں۔ اور باطل کو باطل سمجھتے ہوئے بھی اس کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ سو اللہ تعالیٰ ایسے مغروروں اور متکبروں کو پسند نہیں فرماتا۔ بلکہ یہ اس کے یہاں بڑے مبغوض اور برے لوگ ہیں۔ سو استکبار یعنی اپنی بڑائی کا گھمنڈ محرومیوں کی محرومی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم
۲۵۔۔۔ یعنی یہ منکرین عاد و ثمود وغیرہ کے ان تاریخی واقعات کو جو نہایت مؤثر اور عبرت آموز دروس و عبر پر مشتمل ہیں ان کو یہ لوگ گو محض بے اصل قصے قرار دیتے اور اپنے پیروکاروں سے کہتے کہ ان سے گھبرانے اور ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں، اپنے آباؤ اجداد کی جس روش پر ہم لوگ چل رہے ہیں وہی صحیح ہے۔ پس تم لوگ کہیں ان قصوں سے متاثر ہو کر اپنے آباؤ اجداد کے طور طریقوں سے پھر نہیں جانا۔
۲۷۔۔۔ سو اس ارشاد سے ان بدبختوں کی اس سعی نامراد کا نتیجہ و انجام بیان فرمایا گیا ہے، جس کو انہوں نے حق سے روکنے کے لئے اختیار کیا۔ کہ یہ لوگ اپنے اِضْلال و اِفْساد کی بناء پر اپنے ہولناک بوجھوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے بوجھ بھی قیامت کے روز اپنی پیٹھوں پر لادے ہونگے جن کو انہوں نے اپنی مفسدانہ کوششوں سے راہِ حق و ہدایت سے بہکایا بھٹکایا تھا، نیز یہاں پر مِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْن یُضِلُّوْنَہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ کی تصریح سے ایک طرف تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ لوگ اپنے پیروکاروں کے بوجھ اس طور پر نہیں اٹھائیں گے کہ ان کو سبکدوش کر دیں۔ بلکہ یہ تو صرف ان کے اضلال یعنی گمراہ کرنے کا بوجھ اٹھائیں گے۔ جبکہ ان کو اپنے ضلال یعنی گمراہ ہونے اور ان گمراہوں کی پیروی کرنے کا بوجھ بہرحال خود انہوں نے، اٹھانا ہو گا کہ انہوں نے نہ اپنی عقل و خرد سے کام لیا۔ اور نہ دعوت حق و ہدایت کو اپنایا۔ بلکہ انہوں نے ان گمراہوں کے پیچھے چل کر دوزخ کی راہ کو اپنایا اور دوسری طرف اس میں بِغَیْرٍ عِلْمٍ کی تصریح سے مفسدین کے جرم کی سنگینی کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ ایک طرف تو حق کی دعوت تھی جو سراسر علم پر مبنی تھی۔ اور دوسری طرف ان مفسدین کی یہ کاروائیاں تھیں جو کسی علم پر مبنی نہیں تھیں۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے ان کو گلے لگا کر ہلاکت و تباہی کی راہ کو اپنایا، والعیاذ باللہ العظیم،
۲۸۔۔۔ سو اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جو لوگ علم حق کی دولت سے سرفراز تھے اور انہوں نے اپنی زندگی اپنے اسی علم کی روشنی میں حق اور ہدایت کے مطابق گزاری ہو گی، اور انہوں نے خود اپنے باطن کو نور حق و ہدایت سے معمور و منور رکھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی حق و ہدایت کی راہنمائی کی ہو گی، وہ اس روز کفر و شرک کے علمبرداروں کی اس رسوائی کو دیکھ کر خوشی سے پکار اٹھیں گے کہ آج کی رسوائی اور عذاب ان کافروں کا حصہ ہے جنہوں نے ظلم و سرکشی ہی کی حالت میں جان دی۔ کہ دنیا میں انہوں نے حق اور اہل حق کی بات سن کر نہ دی۔ بلکہ اپنے کفر و باطل ہی میں دندناتے رہے۔ پس اب یہ اپنے اس کبر و غرور کا مزہ چکھ لیں۔ سو یہ قرآن حکیم کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے غیب کے ان عظیم الشان حقائق سے اس قدر صراحت و وضاحت کے ساتھ آگہی بخش دی، جن کے جاننے کا دوسرا کوئی ذریعہ ممکن نہیں۔ مگر قرآن حکیم نے ان سے اس قدر پیشگی، اور اتنی صراحت کے ساتھ آگہی بخش دی۔ تاکہ جنہوں نے بچنا ہو بچ جائیں قبل اس سے کہ اس کا موقع اور فرصت ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پچھتانا پڑے۔ والعیاذ باللّٰہ، وباللّٰہ التوفیق، لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال۔ وفی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطن فی الحیاۃ
۳۰۔۔۔ سو منکرین و متکبرین کے رویے کے ذکر و بیان کے بعد، اس سے ان کے بالمقابل متقی اور پرہیزگار لوگوں کے حال اور ان کے رویے کا ذکر و بیان فرمایا گیا ہے کہ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا اتارا؟ تو وہ بڑے شکر و تحسین کے انداز میں کہتے ہیں کہ ایک عظیم الشان خیر اور بھلائی۔ یعنی خیراً کی تنوین تعظیم کے لئے ہے۔ یعنی نہایت عظیم الشان خیر کیونکہ یہ دنیا و آخرت کی سعادت و سرخروئی کی ضامن و کفیل ہے، جس جیسی دوسری کوئی خیر ہو ہی نہیں سکتی۔ پس شکر وسپاس کی مستحق وہی ذات اقدس واعلیٰ ہے جس نے ہمیں اس خیر عظیم سے نوازا، ورنہ ہم راہ حق و ہدایت سے کبھی سرفراز و فیضیاب نہ ہو سکتے۔ فالحمدللہ الذی ھدانا لھذا وماکنا لنھتدی لولا ان ھدانا اللہ
۳۲۔۔۔ سو اس سے ان متقی اور پرہیزگاروں کو ملنے والے اس صلہ اور بدلہ کو ذکر فرمایا گیا ہے جو ان کو اپنے اس تقویٰ اور پرہیزگاری کی بناء پر اور اس کے نتیجے میں نصیب ہو گا۔ اور جس سے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں سرفراز ہونگے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسوں کو اس دنیا میں بھی عظیم الشان بھلائی نصیب ہو گی اور آخرت کا تو کہنا ہی کیا۔ وہ تو بہرحال اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ سو تقوی و پرہیزگاری دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اس سے اس دنیا میں انسان کو حیات طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ اور آخرت میں جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی نصیب ہو گی۔ جہاں ان کو ہر وہ نعمت ملے گی جس کی یہ خواہش کریں گے۔ اور وہ سب کچھ ملے گا جو یہ وہاں پر چاہیں گے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَلَکُمْ فِیْہَا مَاتَشْتَہِیْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ (حٰم۔ السجدۃ۔۳۱) وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ من الاحوال، وفی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطن فی الحیاۃ۔
۳۳۔۔۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حق کو جھٹلانا خود اپنی جانوں پر ظلم کرنا ہے، چنانچہ ان سے پہلے کی قوموں نے اپنے رسولوں کی دعوت کو جھٹلایا۔ جس کے نتیجے میں آخرکار ان کو اس عذاب الٰہی نے آپکڑا۔ جس نے ان کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ سو دورِ حاضر کے منکر بھی اگر انہی لوگوں کی روش پر چلتے رہے، اور دعوت حق کی تکذیب ہی کرتے گئے تو ان کا حشر بھی وہی ہو گا جو کل کے ان منکروں کا ہو چکا ہے، کہ اللہ تعالیٰ کا قانون بے لاگ اور سب کے لئے یکساں ہے سو کل کے ان منکروں کا جو انجام ہوا وہ ان کے اپنے ظلم اور سرکشی کا طبعی نتیجہ تھا ورنہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا۔ وہ ظلم و زیادتی کے ہر شائبے سے پاک ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ
۳۵۔۔۔ ۱: سو اس سے منکرین کی کج بحثی اور ان کی ہٹ دھرمی کا ایک نمونہ پیش فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اہل حق کو زچ کرنے کے لئے ان سے کہتے ہیں کہ ہم جن معبودوں کی پوجا کرتے ہیں، اور ان کے نام پر جن چیزوں کو حرام ٹھہراتے ہیں، تو یہ سب کچھ ہم اللہ کی مرضی سے کرتے ہیں کیونکہ اللہ کی مرضی اگر نہ ہوتی تو وہ ہمیں اپنی قدرت سے ان کاموں سے روک دیتا۔ کہ اس کی قدرت میں تو سب کچھ ہے۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے یہ کام اس کی مرضی کے خلاف نہیں، ورنہ ہم لوگ یہ کام کر ہی نہیں سکتے تھے۔ سو یہ ایسے لوگوں کے عناد و ہٹ دھرمی اور ان کی کوڑ مغزی و مت ماری کا نتیجہ ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چیز ہے، اور اس کی رضا و خوشنودی بالکل دوسری چیز، کفر و شرک وغیرہ اس کی مشیت میں تو داخل ہیں کہ اس کی کائنات میں مشیت اسی کی چلتی ہے، سبحانہ و تعالیٰ لیکن یہ اس کی مرضی اور پسند کی چیز بہرحال نہیں، کہ اس کا صاف و صریح ارشاد ہے وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ اَلْکُفَرْ۔
۲: سو رسولوں کے ذمے پیغام حق کو پہنچا دینا ہے اور بس، اس کے بعد ان کا ذمہ فارغ، آگے حق بات کو منوا دینا نہ ان کے ذمے ہے، اور نہ ہی ان کے بس میں، اور نہ ہی اس بارے ان سے کوئی پوچھ ہو گی۔ کہ اس کے لئے وہ عند اللہ مسؤل ہیں ہی نہیں۔ علیہم الصلوٰۃ والسلام۔ اور اللہ پاک کا طریقہ یہ ہے ہی نہیں کہ وہ کسی کو حق یا باطل میں سے کسی ایک کے قبول کرنے پر مجبور کر دے۔ بلکہ اس نے اس معاملہ میں لوگوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔ اور سارا امتحان اسی میں ہے، پس جو کوئی اپنے ارادہ و اختیار سے حق کی راہ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو اسی کی توفیق ملتی ہے اور اس کے برعکس جو باطل کو اپناتا ہے اس کو اسی کے حوالے کر دیا جاتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّیٰ وَ نُصْلِہٖ جَہّنَّمَ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا (النساء۔ ۱۱۵)
۳۶۔۔۔ پس منکرین و مشرکین کا یہ کہنا بالکل غلط، اور خلاف واقعہ ہے کہ جس کفر و شرک پر وہ چل رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے، والعیاذ باللہ، بلکہ اصل حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کے اندر رسول بھیجا کہ لوگوں کو اس بات کی تعلیم وتلقین کرو کہ تم لوگ بندگی صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کی کرو۔ اور طاغوت کی پوجا سے بہرحال بچ کر رہو، اس کے بعد جنہوں نے حق و ہدایت کی راہ کو اپنایا ان کو اس کی توفیق ملی۔ اور اس کے برعکس جو ضلالت و گمراہی پر جمے رہ گئے۔ ان پر اسی کا ٹھپہ لگ گیا۔ اور ان کی خود اپنی اختیار کردہ گمراہی ان پر مسلط ہو کر رہ گئیں۔ والعیاذ باللہ العظیم، سو اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کی ہدایت و گمراہی اور اس کے بناؤ و بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن اور ارادہ و نیت سے ہے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید، وہو الہادی الی سواء السبیل
۳۸۔۔۔ سو اس سے منکرین کے عناد اور انکی ہٹ دھرمی کا ایک اور نمونہ پیش فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اللہ کے نام کی کڑی قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ اللہ ان لوگوں کو دوبارہ زندہ کر کے نہیں اٹھائے گا جو مر جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے اس انکار کی کوئی بنیاد نہ تھی نہ ہو سکتی تھی۔ کیونکہ بعث بعد الموت ان غیبی حقائق میں سے ہے جو انسان کے دائرہ علم و ادراک سے باہر ہیں۔ ان کا علم وحی الٰہی ہی سے ہو سکتا ہے جو حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی طرف سے پیغمبر کو کی جاتی ہے، تو پھر ان کے انکار اور اس طرح کے قطعی انکار کی آخر کیا بنیاد ہو سکتی ہے؟ سو ان کی تردید میں اسی طرح کے زورِ اور قوت سے ارشاد فرمایا گیا کہ قیامت کیوں نہیں آئے گی، اور لوگ دوبارہ زندہ ہو کر کیوں نہیں اٹھیں گے، جبکہ اللہ نے اس کا وعدہ اپنے ذمے لازم کر رکھا ہے، جس نے اپنے وقت پر، بہرحال پورا ہو کر رہنا ہے۔ لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔ سو عدم علم اور پھر اپنی جہالت پر اصرار محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
۳۹۔۔۔ سو اس سے بعث بعد الموت کی ضرورت کو ذکر و بیان فرمایا گیا ہے کہ اس کا آنا اس لئے ضروری ہے کہ تاکہ لوگوں کے سامنے وہ حقائق پوری طرح واضح ہو جائیں جن کے بارے میں یہ لوگ اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں، تاکہ اس طرح یہ اپنے کئے کرائے کا انجام جو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ اور اس کا بھگتان خود بھگت لیں۔ اور تاکہ وہ لوگ جو قسمیں کھا کھا کر آج قیامت کا انکار کر رہے ہیں وہ جان لیں کہ وہ اپنی ان قسموں میں قطعی جھوٹے تھے، جس سے ان کے باطن کی آگ اور تیز ہو گی۔
۴۰۔۔۔ سو اس سے منکرین کے اس استبعاد کو دور فرمایا گیا ہے، جو وہ بعث بعد الموت کے بارے میں رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب لوگ مر مٹ کر ختم ہو جائیں گے۔ اور مٹی میں مل کر کالعدم ہو جائیں گے تو پھر ان کو دوبارہ آخر کس طرح زندہ کر کے اٹھایا جائے گا؟ تو ان کے اس استبعاد کے جواب میں، اور اس کے ازالے کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ ہمارے لئے یہ امر کچھ بھی مشکل نہیں۔ کیونکہ ہمیں کسی کام کی انجام دہی کے لئے کسی اہتمام و انتظام کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے لئے ہمیں صرف اتنا کہنا ہوتا ہے کُنْ یعنی ہو جا تو وہ ہو چکا ہوتا ہے۔ پس اس کے لئے مردوں کا زندہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں، وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، سبحانہ و تعالیٰ۔
۴۳۔۔۔ سو اس سے منکرین کے دوسرے استبعاد کا جواب دیا گیا یعنی یہ کہ اپنے ہی جیسے ایک بشر کو رسول کیسے مانا جائے۔ چنانچہ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا، پانی پیتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، سو ان کے اس استبعاد کے ازالے کے لئے پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے آپ سے پہلے بشر اور انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ پس ان کا امتیاز یہ تھا کہ ہم ان کی طرف وحی بھیجتے تھے، اس لئے منکرین کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اہل ذکر سے پوچھ لو، اگر تم خود نہیں جانتے۔ سو ان کو ہم نے کھلے دلائل اور الہامی کتابوں کے ساتھ بھیجا۔ پس پیغمبر کا بشر ہونا انکار اور اچنبھے کی چیز نہیں، بلکہ یہ عقل سلیم اور فطرت مستقیم دونوں کا تقاضا ہے۔ تاکہ وہ لوگوں کے لئے زندگی کے ہر عمل اور ہر دائرے سے متعلق عملی نمونہ پیش کریں۔ اور لوگ ان کی پیروی کر سکیں۔ ورنہ پیغمبر اگر کسی اور ایسی مخلوق سے ہوتے جو ان ضرورتوں سے پاک اور بری ہوں تو بندوں کے لئے انکی پیروی ممکن نہیں تھی۔
۴۷۔۔۔ سو اس سے منکرین و مکذبین کو تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ وہ اللہ کے عذاب سے نچنت اور بے فکر نہ ہو۔ کہ اس کا عذاب کسی بھی وقت، کسی بھی شکل میں، اور کسی بھی طرح آ سکتا ہے۔ پس اللہ اگر چاہے تو ایسے لوگوں کو زمین میں دھنسا دے، یا اللہ کا عذاب ان پر وہاں سے آ جائے جہاں سے ان کو وہم و گمان بھی نہ ہو، یا وہ ان کو ان کے چلنے پھرنے کے دوران ہی دھر لے۔ سو ان میں سے کسی بھی صورت میں یہ لوگ اس کے قابو سے باہر نہیں ہو سکتے۔ یا وہ ان کو ایسے حال میں پکڑے جبکہ یہ خوف پر خوف کھا رہے ہوں، اور یہ اس کے لئے پوری طرح بیدار ہوں، مگر اس کے مقابلے اور دفاع کے لئے کچھ بھی نہ کر سکتے ہوں غرضیکہ وہ ان کو کسی بھی وقت اور کسی بھی صورت میں پکڑ سکتا ہے۔ لیکن وہ اگر ان کو نہیں پکڑتا تو محض اس وجہ سے نہیں پکڑتا کہ وہ بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم والا ہے۔ پس اس کے عذاب سے بے فکر اور لا پرواہ ہونے کے بجائے لوگوں کو اس کے شکر و سپاس میں ڈوب جانا چاہیئے۔ واضح رہے کہ یہ مختلف عذاب جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، یہ آئے دن لوگوں پر آتے رہتے ہیں۔ اور جگہ جگہ آتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کتنی ہی مرتبہ ایسے ہوتا ہے کہ کسی زلزلے، یا طوفان، یا لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں بعض اوقات کئی کئی شہر اور علاقے ملیامیٹ ہو جاتے ہیں، کچھ عرصہ قبل امریکہ کی ایک ریاست میں پچاس ہزار نفوس پر مشتمل ایک شہر طوفانی بارشوں سے اس قدر تباہ ہو گیا تھا کہ وہاں کی حکومت نے اس شہر کو اجتماعی قبرستان قرار دے دیا تھا، اور اسی طرح کچھ ہی عرصہ قبل جاپان کا شہر کانو زلزلے سے ایسا تباہ ہوا کہ اس کا نام و نشان بھی مٹ گیا۔ اسی طرح ترکی اور آذربائیجان۔ اور ہندوستانی ریاست گجرات میں کچھ ہی عرصہ قبل زلزلے نے ایسی تباہی مچائی کہ ہزاروں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے، لاکھوں بے گھر ہو گئے، بڑی بڑی عمارتیں چند ہی منٹوں کے اندر ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ اسی طرح ہندوستانی ریاست بھوپال میں ایک فیکٹری سے زہریلی گیس لیک ہونے سے، اور روس کے چرنوبل کے پلانٹ سے تابکاری مواد کے رِسْنے سے ہزاروں لوگ اور مختلف قسم کے جانور ہلاکت و بربادی کا شکار ہو گئے۔ اور کتنے ہی اپاہج اور بیکار ہو گئے، اسی طرح ابھی پچھلے کچھ دنوں قبل بعض امریکی ریاستوں، اور اس کے پڑوسی ملکوں، اور بنگلہ دیش، اور ہندوستان کے بعض ساحلی علاقوں اور سندھ کے ساحلی علاقوں کو خوف و ہراس کی اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کو یہاں پر علیٰ تَخَوُّف یعنی خوف پر خوف کے الفاظ کا ایک واضح نمونہ اور کھلا مصداق قرار دیا جا سکتا ہے، اس دوران ان علاقوں کے لوگوں کو لگاتار اور بار بار خبردار کیا جاتا تھا کہ سمندری طوفان اتنی قوت اور اتنے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ان کی طرف بڑھا چلا آرہا ہے، جس سے وہ لوگ اپنے بچاؤ کے لئے اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی کر رہے تھے، اور ایسا ایک مرتبہ نہیں بلکہ بار بار، اور آئے دن ہوتا رہتا ہے۔ مگر غافل انسان پھر بھی کوئی سبق نہیں لیتا، والعیاذُ باللہ العظیم، اور اسی طرح اس وقت جبکہ راقم ان سطور کی پروف ریڈنگ کر رہا ہے ہمارے ملک کے مختلف دریاؤں میں سخت طغیانی آئی ہوئی ہے جس سے سینکڑوں دیہات پانی میں ڈوب گئے ہیں، اور لوگوں کو ریڈیو، ٹی وی وغیرہ مختلف ذرائع سے دن رات خبردار کیا جا رہا ہے کہ پانی کا ریلہ فلاں جگہ سے گزر رہا ہے جو اتنی بڑی قوت سے اور اتنی بڑی مقدار میں گزر رہا ہے، اور لوگ خطرے کے مارے فوج وغیرہ کی مدد سے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ اور یہ سلسلہ گزشتہ تین ہفتوں سے جاری ہے۔ اور آگے پتہ نہیں کب تک جاری رہے گا، لوگ مسلسل اور لگاتار خطرات اور مصائب میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں، والعیاذ باللہ العظیم
۵۵۔۔۔ سو اس سے انسان کی بے قدری، ناشکری، اور اس کے کفرانِ نعمت کا ایک اور مظہر پیش فرمایا گیا ہے، کہ ایسے لوگوں کو جب کوئی مشکل اور مصیبت پیش آتی ہے تو یہ چیختے اور چلاتے ہوئے اللہ کی طرف دوڑتے اور اسی کے حضور فریاد کرتے ہیں۔ لیکن جب اللہ اپنے فضل و کرم سے ان سے اس مصیبت اور تکلیف کو دور فرما دیتا ہے تو ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ اور وہ اپنے من گھڑت اور خود ساختہ حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کے گن گانے لگتا ہے، کہ یہ سب ان ہی کا کرم اور ان ہی کی نظر عنایت ہے کہ ہمیں اس مصیبت سے رہائی ملی ہے، اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے ان خاص ٹھکانوں کی طرف لپکتا۔ دوڑتا اور ان کی رضا و خوشنودی کے لئے طرح طرح کے شرکیہ اعمال کا ارتکاب کرتا ہے۔ چنانچہ غیر اللہ کے نام کے بکرے کٹنے۔ اور دیگیں پکنے لگتی ہیں۔ اور عیش و عشرت کے طرح طرح کے سامان کئے جاتے ہیں۔ سو ایسے لوگوں سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ کچھ عرصہ کے لئے مزے کر لو۔ مگر عنقریب تمہیں اپنے کئے کرائے کا نتیجہ و انجام بھگتنا ہو گا۔ جو وقت آنے پر تمہیں خود معلوم ہو جائے گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم
۵۷۔۔۔ یعنی ستم بالائے ستم، اور ظلم بالائے ظلم یہ کہ اول تو یہ لوگ اللہ کے لئے اولاد ٹھہراتے ہیں۔ حالانکہ وہ ایسے تمام علائق اور تصورات سے پاک ہے۔ اس کی شان تو لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ کی شان ہے۔ لیکن یہ لوگ ہیں کہ اس کے لئے اولاد ٹھہراتے ہیں اور اولاد بھی وہ جو یہ خود اپنے لئے پسند نہیں کرتے یعنی بیٹیاں، سو شرک نے ان لوگوں کی مت ایسے مار کر رکھ دی اور انکو ایسا اُوندھا کر دیا کہ ان کو اتنی موٹی اور اس قدر واضح حقیقت بھی سمجھ نہیں آتی والعیاذ باللہ العظیم
۶۰۔۔۔ یعنی اصل حقیقت یہی ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کے لئے بڑی بُری مثال ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے سب سے اعلیٰ اور عمدہ صفات ہیں۔ کہ سب خوبیوں کا مالک اور عمدہ صفات کا مستحق وہی وحدہٗ لاشریک ہے، لیکن ان لوگوں نے معاملہ اس کے برعکس سمجھ رکھا ہے جس کی بناء پر یہ لوگ اللہ کی طرف وہ چیزیں منسوب کرتے ہیں جن کو یہ خود اپنے لئے بری سمجھتے ہیں اور اپنے لئے اچھے نتائج اور عمدہ انجام کے دعویدار و امیدوار ہیں۔ سو اس سے ایسے لوگوں کی محرومی ونحوست اور ان کی مت ماری، کا اندازہ کیا جا سکتا ہے سو شرک اور اسی طرح بدعت ایسی منحوس چیزیں ہیں کہ ان سے انسان کی مت مار دی جاتی ہے جس سے اس کو سیدھی بات بھی الٹی نظر آنے لگتی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم
۶۱۔۔۔ سو اس سے اللہ تعالیٰ کی شان رحمت کا اظہار و بیان بھی ہو جاتا ہے اور کفار کے مطالبہ عذاب کا جواب بھی، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ کا ضابطہ و اصول، اور اس کا طریقہ و شان یہ نہیں کہ وہ لوگوں کو ان کے ظلم پر فوراً پکڑ لے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو کسی جاندار کو بھی زمین پر جینے کی مہلت نہ ملتی۔ بلکہ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ایک معین مدت تک مہلت اور ڈھیل دیتا ہے، تاکہ جس نے توبہ اور اصلاح کرنی ہو وہ کرے، نہیں تو وہ اپنا پیمانہ اچھی طرح بھر لے، پھر جب وہ معین وقت آ جاتا ہے جو ایسے لوگوں کے لئے مقرر ہوتا ہے تو نہ ان کو پیچھے ہٹنے کا موقع ملتا ہے۔ نہ آگے بڑھنے کا۔ پس جن لوگوں کو ان کے ظلم و عصیان کے باوجود ڈھیل مل رہی ہے، ان کو اس سے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور مہربانی جان کر دل و جان سے اس کے آگے جھک جھک جانا چاہیے اور جھکے جھکے ہی رہنا چاہیے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید۔
۶۲۔۔۔ سو اس سے مشرکین کی حماقت در حماقت کا ایک اور نمونہ اور مظہر پیش فرمایا گیا ہے، کہ اول تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد مانتے ہیں، حالانکہ وہ ایسے تمام تصورات سے پاک اور ان سے اعلیٰ و بالا ہے اور پھر مزید حماقت یہ کہ اس کے لئے یہ لوگ اولاد بھی وہ تجویز کرتے ہیں جو ان کو خود اپنے لئے گوارا نہیں یعنی بیٹیاں، اور اس پر انکی مزید حماقت یہ کہ یہ لوگ اس گھمنڈ میں بھی مبتلا ہیں اور اپنی زبانوں سے یہ راگ بھی الاپتے ہیں کہ آخرت اگر ہوئی بھی تو وہاں کی اچھائی اور خیریت بھی انہی کو ملے گی۔ سو کرتُوت تو ان کے یہ اور یہ ہیں۔ شرک کی نجاست میں یہ سراسر لتھڑے ہوئے ہیں۔ اور دعوے یہ اس طرح کے کرتے ہیں کہ دنیا و آخرت کی بھلائی کے حق دار یہی ہیں۔ سو یہی نتائج ہوتے ہیں مت ماری کے کہ آدمی اوندھے سے اوندھا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور بالآخر اس آخری اور انتہائی ہولناک انجام سے دو چار ہو کر رہتا ہے جس سے نجات اور گلو خلاصی کی پھر کوئی صورت ایسے لوگوں کے لئے ممکن نہیں رہتی۔ اور وہ دائمی لعنت اور پھٹکار کے ہولناک گڑھے میں جا گرتے ہیں، جو کہ خساروں کا خسارہ ہے والعیاذ باللہ۔ سو ان کے اسی زعم فاسد اور گمان کاسد کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا گیا اور ادوات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ لازماً ان کے لئے دوزخ کی وہ انتہائی ہولناک آگ ہو گی جس میں ان کو سب سے پہلے جھونکا جائے گا۔ اور ان کو اسی میں بڑا چھوڑ دیا جائے گا۔ کہ یہی نتیجہ و انجام ہوتا ہے کفر و شرک کے ایسے پیشواؤں اور علمبرداروں کا۔ والعیاذ باللہ العظیم
۶۳۔۔۔ سو اس ارشاد میں ایک طرف تو پیغمبر کے لئے تسلیہ و تسکین کا سامان ہے، اور دوسری طرف منکرین و مکذبین کے لئے تنبیہ و تہدید، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ان منکرین کا یہ بغض و عناد اور ان کی یہ تکذیب و انکار کوئی نئی اور اچنبھے کی چیز نہیں، بلکہ اس سے پہلے بھی ایسے ہی ہوتا آیا ہے کہ ہم نے آپ سے پہلے بھی اے پیغمبر! مختلف امتوں کی طرف رسول بھیجے تاکہ لوگوں کو راہ حق و ہدایت نصیب ہو سکے۔ اور اس کو اپنا کر وہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہو سکیں، مگر انہوں نے دعوت حق و ہدایت کو اپنا کر اپنے لئے دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفرازی کا سامان کرنے کے بجائے الٹا انکی تکذیب کی۔ اور ان کے پیش کردہ حق کے انکار کا ارتکاب کیا۔ اور شیطان نے منکرین کے اعمال بدہی کو ان کے لئے ایسا مزین اور خوشنما بنا دیا کہ وہ پیغمبروں کی تعلیمات سے منہ موڑ کر اسی کے پیچھے لگ گئے۔ اور وہی آج بھی ان کا ساتھی اور سرپرست بنا ہوا ہے۔ سو ایسے محروم اور بدبختوں کے لئے بڑا ہی دردناک عذاب ہے، والعیاذُ باللہ العظیم
۶۴۔۔۔ سو اس ارشاد سے ایک تو یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح فرما دی گئی کہ پیغمبر پر کتاب اس لئے اتاری گئی کہ آپ لوگوں کے لئے حق اور حقیقت کو کھول کر بیان فرمائیں۔ آگے لوگوں سے منوا لینا نہ آپ کے بس میں ہے۔ اور نہ ہی یہ آپ کی ذمہ داری ہے، تبیین حق کے بعد پیغمبر کا ذمہ فارغ۔ اور دوسری اہم حقیقت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ یہ قرآن سراسر ہدایت اور عین رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں، یا ایمان لانا چاہتے ہیں، پس جو ایمان لانا چاہتے ہی نہیں ان کے لئے محرومی کے سوا کچھ نہیں۔ والعیاذ باللہ سو ایمان و یقین کی دولت دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ اور اصل و اساس ہے، جبکہ اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے، والعیاذ باللہ العظیم، وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید،
۶۷۔۔۔ سو اس سے چوپایوں کی نعمت کے ذکر کے بعد پھلوں کی نعمت کی تذکیر و یاد دہانی فرمائی گئی ہے، کہ جس طرح اس مالک الملک واہب مطلق جل جلالہ، نے تمہارے لئے تمہارے چوپایوں سے دودھ جیسی عظیم الشان نعمت پیدا فرمائی ہے اسی طرح اس نے تمہیں کھجوروں اور انگوروں کے عظیم الشان فواکہ سے بھی نوازا ہے جن میں تم لوگوں کے لئے طرح طرح کے فوائد اور منافع ہیں یہاں پر رِزْقًا کے ساتھ حَسَنًا کی قید سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا ہے، کہ ان عظیم الشان پھلوں کو اس نے تمہارے لئے پاکیزہ روزی کے طور پر پیدا فرمایا۔ پس تم لوگ جو ان سے نشہ آور چیزیں بناتے ہو وہ ان کا صحیح استعمال نہیں، بلکہ تم لوگوں کا ان میں غلط اور ناجائز تصرف ہے۔ ان کا صحیح استعمال یہی ہے کہ ان سے پاکیزہ اور صحت بخش غذا حاصل کی جائے جس سے عقل اور جسم دونوں کو توانائی حاصل ہو۔ نہ کہ ان کو ایسی شکل میں تبدیل کر دیا جائے کہ یہ عقل اور دل کو ماؤف کر دینے والی بن جائیں، والعیاذُ باللہ جل وعلا
۶۹۔۔۔ سو اس سے شہد کی نعمت کی تذکیر و یاد دہانی فرمائی گئی ہے کہ تم لوگ ذرا سوچو کہ شہد کی مکھی کا یہ چھوٹا سا وجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے القاء فرمودہ فطری اور جبلی تعلیم اور خلقی ہدایت و راہنمائی کے مطابق اپنی فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کس پُر حکمت طریقے سے شہد جیسا مفید اور نفع بخش مشروب تیار کرتا ہے۔ اور تم اپنے خالق و مالک کی اس رحمت و عنایت کو دیکھو کہ اس نے تمہارے لئے شہد کے اس عظیم الشان اور نفع بخش مشروب کی تیاری کے لئے کیسا عظیم الشان اور پر حکمت انتظام فرمایا ہے کہ شہد کی مکھی کو یہ طبعی، فطری، اور جبلی القاء و الہام فرمایا کہ تو پہاڑوں درختوں اور لوگوں کی بنائی ہوئی چھتوں میں اپنے گھر یعنی چھتے بنا۔ پھر ہر قسم کے پھلوں اور پھولوں کے رس چوس، پھر اپنے رب کی ہموار کردہ راہوں پر چل، سو وہ اپنے رب کے اس فطری اور جبلی القاء و الہام کے مطابق ایسے ہی کرتی ہے۔ چنانچہ وہ جو چھتے بناتی ہے ان میں ایسی حیرت انگیز کاریگری دکھاتی ہے کہ پرکار سے بھی اگر ان کو ناپا پرکھا جائے تو ان میں ذرہ برابر کوئی فرق بھی نظر نہیں آئے گا، اور پھر وہ ایسے عمدہ اور مضبوط کہ سردی و گرمی اور سخت ہواؤں اور جھکڑوں کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں، پھر وہ اپنے رب کی اس فطری وحی اور جبلی تعلیم کے مطابق مختلف قسم کے پھولوں اور پھلوں کے رس چوسنے کے لئے دور دور تک نکل جاتی ہے۔ اور ان کے رس بھی وہ ایسے پُر حکمت طریقے سے چوستی ہے کہ دنیا بھر کی حکومتوں کے پاس آج تک کوئی مشین یا کوئی آلہ ایسا نہیں جو اس کا مقابلہ کر سکے چنانچہ وہ پھول پر بیٹھ کر اسطرح اس کا رس چوستی ہے کہ نہ پھول ٹوٹتا ہے، اور نہ اس میں کوئی نقص واقع ہوتا ہے جبکہ دنیا والے پھولوں کو توڑ کر، اور ان کو مختلف قسم کی مشینوں کے مشینی عمل سے گزار کر ان کا رس نکالتے، اور ان کا عرق حاصل کرتے ہیں اور پھر شہد کی یہ مکھی وہ قدرت ہی کی تعلیم و ہدایت کے مطابق اس رس کو چوسنے کے بعد ایسا محفوظ رکھتی ہے کہ وہ اس کی غذا اور خوراک بننے کے بجائے شہد جیسی نفع بخش چیز کی صورت میں نکلتا ہے، سو اس میں حق تعالیٰ کی رحمت و عنایت اور اس کی قدرت و حکمت کی ایک نہایت عظیم الشان نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور اسطرح وہ ایمان و یقین کی قوت اور اس کی لذت سے مزید سرفراز و سرشار ہوتے ہیں، وباللہ التوفیق یما یُحِبُّ ویرید وعلی ما یُحِبُّ ویرید
۷۲۔۔۔ سو اس سے بیوی بچوں کی نعمت کے بارے میں اس حقیقت کی تذکیر و یاد دہانی فرمائی گئی ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی عطاء و بخشش کا نتیجہ و ثمرہ ہے، سو اللہ تعالیٰ ہی نے اپنی بے پایاں قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت سے تمہارے لئے اے لوگو! خود تمہاری جانوں سے تمہاری بیویاں پیدا فرمائیں تاکہ ان کے ذریعے تم سکون حاصل کر سکو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا لِتَسْکُنُوْا اِلَیْہَا اور ان بیویوں کے ذریعے اس نے تمہیں بیٹوں اور پوتوں کی نعمت سے بھی نوازا۔ جو کہ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا پھل، اور قدرت کی عظیم الشان نعمت ہے۔ اور جو انسان کی نسل اور اس کے نسب کی بقاء اور اس کے تسلسل کا واحد ذریعہ ہے اور بیٹوں پوتوں کی نعمت کے علاوہ اس نے اپنے کرم سے تم لوگوں کو طرح طرح کی پاکیزہ چیزوں کی روزی سے بھی نوازا۔ یہ سب کچھ واضح ہونے کے باوجود جو لوگ اپنے جھوٹے اور من گھڑت خداؤں اور حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کو مانتے اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں وہ کتنے ظالم، اور کس قدر بے انصاف ہیں؟ والعیاذُ باللہ۔ سو ایسے بدبخت اور ناشکرے لوگ اللہ وحدہٗ لاشریک کی بخشی ہوئی ان نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں، انہی کے گن گاتے، ان ہی کے آگے جھکتے اور سجدہ ریز ہوتے ہیں، انہی کے نام کی دیگیں پکاتے۔ نذریں نیازیں دیتے۔ اور یہاں تک کہ انہی کے ناموں کی نسبت سے یہ لوگ شرکیہ نام بھی رکھتے ہیں۔ جو کہ ظلم بالائے ظلم، ناشکری پر ناشکری ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، لیکن اس سب کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو جو ڈھیل دے رکھی ہے وہ اسی وحدہٗ لاشریک کی شان حلم و کرم ہے، سبحانہ و تعالیٰ فلہ الحمد ولہ الشکر،
۷۴۔۔۔ اس بنیادی اور اصولی ارشاد سے شرک کے ایک بڑے مصدر اور معروف دروازے کو بند کر دیا گیا۔ وہ یہ کہ لوگ اللہ تعالیٰ کو انسانوں پر قیاس کر کے اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ حالانکہ اس وحدہٗ لاشریک کی شان لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ کی شان ہے، کہ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ خود کسی کی اولاد وہ یکتا اور وحدہٗ لاشریک ہے۔ اسی طرح لوگوں نے اس وحدہٗ لاشریک کو دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کر کے اس کے لئے طرح طرح کے خود ساختہ اور من گھڑت وسیلے اور واسطے فرض کئے، کہ جس طرح ایک عام آدمی خود براہ راست کسی بادشاہ کے پاس نہیں پہنچ سکتا۔ اور اگر پہنچ بھی جائے تو وہاں اس کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ اسی طرح ہم لوگ اللہ تعالیٰ تک خود نہیں پہنچ سکتے، اور ہماری کوئی شنوائی نہیں ہو سکتی، جب تک کہ ہم اپنے مزعومہ وسائل اور واسطوں میں سے کسی وسیلہ اور واسطہ کو نہ اپنائیں۔ سو یہ سب تصورات غلط اور بے بنیاد ہیں۔ اور ان کی گمراہی کی اساس و بنیاد یہ ہے کہ ان میں حضرت حق جل مجدہٗ کو مخلوق پر قیاس کیا گیا ہے۔ جبکہ وہ وحدہٗ لاشریک مخلوق کے تمام شوائب سے پاک اور دائرہ مخلوق سے وراء الوراء ہے، سبحانہ و تعالیٰ، اسی لئے ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ جانتا ہے اور تم لوگ نہیں جانتے، یعنی وہ جانتا ہے کہ اس کی شان اور اس کی صفات کیا اور کیسی ہیں، تم لوگ ان کو نہ جانتے ہو نہ جان سکتے ہو۔ پس اس نے اپنی ذات و صفات کے بارے میں اپنی وحی کے ذریعے اپنے رسول کے واسطے سے جو کچھ بتایا ہے وہی اس کے سوا اس کی معرفت اور اس کو جاننے کی اور کوئی صورت ممکن نہیں، پس نور وحی کے واسطے کے بغیر معرفت الٰہی کے حصول کے لئے جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا وہ ضلالت و محرومی ہی کا باعث ہو گا، والعیاذُ باللہ جل وعلا
۷۶۔۔۔ سو ان دو شخصوں میں سے ایک تو وہ ہے جو گونگا بہرا اور غلام ہے جو کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا۔ وہ اپنے آقا پر ایک بوجھ ہے اس کا آقا اس کو جہاں بھی بھیجے وہ کوئی صحیح اور اچھا کام کر نہ سکے۔ جبکہ اس کے بالمقابل دوسرا شخص بولتا چالتا، سنتا دیکھتا، اور آزاد ہے۔ وہ دوسروں کو عدل و انصاف کی تعلیم دیتا ان کو راہ حق و ہدایت کی راہنمائی کرتا۔ اور خود بھی سیدھے راستے پر ہے۔ تو کیا یہ دونوں شخص باہم برابر ہو سکتے ہیں؟ جب نہیں اور یقیناً نہیں، اور جب یہ دونوں شخص باہم برابر نہیں ہو سکتے۔ حالانکہ یہ دونوں مخلوق ہیں تو پھر اللہ وحدہٗ لاشریک جو اس ساری کائنات کا خالق و مالک، سب لوگوں کا ہادی و راہنما ہے۔ وہ اور اس کی عاجز و بے بس مخلوق آخر کس طرح اور کیونکر باہم برابر ہو سکتے ہیں؟ فتعٰلی اللّٰہ الملک الحق عَمَّا یُشْرِکُوْنَ
۷۷۔۔۔ سو اس ارشاد سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ آسمانوں اور زمین کی اس ساری کائنات کا غیب اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی عالم غیب ہے نہ ہو سکتا ہے۔ پس قیامت کا علم بھی اسی کے پاس ہے، وہی جانتا ہے کہ وہ کب آئے گی۔ اور دوسری طرف اس سے حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی قدرت لامتناہی کی شان کو بھی واضح فرما دیا گیا، کہ قیامت کا معاملہ تو اس کے لئے پل جھپکنے کی طرح بلکہ اس سے بھی جلد اور نزدیک تر ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ پس تم لوگ وقوع قیامت کو بعید سمجھ کر فرصت عمر کی اس دولت کو ضائع مت کرو۔ جو آج تم لوگوں کو حاصل و میسر ہے، کہ یہ ہاتھ سے نکلنے کے بعد پھر دوبارہ کبھی ملنے والی نہیں۔ اس لئے عقل و نقل دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اپنی آخرت اور قیامت کو نہایت قریب سمجھتے ہوئے زندگی کے ایک ایک لمحے کو اس کی کمائی اور وہاں کی کامیابی کے لئے صرف کرو۔ کہ یہ بہرحال ایک قطعی اور اٹل حقیقت ہے کہ دنیا کی یہ فرصت ہاتھ سے نکلنے کے بعد پھر کسی بھی طرح دوبارہ ملنے والی نہیں، پس خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس اہم اور بنیادی حقیقت کا پورا شعور و ادراک رکھتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں وہ حیات دنیا کی اس فرصت محدود و مختصر کو آخرت کی اپنی حقیقی اور اَبَدی زندگی کی کمائی کے لئے صرف کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ آخرت کی حقیقی اور اَبَدی زندگی میں اصل اور حقیقی کامیابی سے سرفراز ہونگے۔ وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، بکل حالٍ من الاحوال
۷۸۔۔۔ سو اس سے نعمت خلق و وجود اور قوائے علم و ادراک اور ان عظیم الشان نعمتوں اور انکے مقتضیٰ کی تذکیر و یاد دہانی فرمائی گئی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہی نے تم لوگوں کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، جیسا کہ ظاہر ہے کہ بچہ جب ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے تو وہ محض گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے، جو علم و ادراک اور عقل و فکر کی ہر قوت اور صلاحیت سے عاری اور بے بہرہ ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے اس کو سمع و بصر اور دل و دماغ کی ان عظیم الشان قوتوں اور صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔ جن سے وہ علم و ہنر کے طرح طرح کے خزانوں سے سرفراز ہوتا ہے۔ سو ان عظیم الشان نعمتوں کا تقاضا یہ تھا اور یہ ہے کہ انسان اپنے رب کے لئے سراپا شکر و سپاس بن کر اس کے حضور جھک جائے۔ اور ہمیشہ اور ہر حال میں، اور اپنے ظاہر و باطن ہر اعتبار سے اس کے حضور جھکا جھکا ہی رہے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال،
۸۱۔۔۔ سو اس سے اللہ تعالیٰ کی عنایت فرمودہ کچھ اور نعمتوں کا ذکر و بیان فرمایا گیا ہے جن سے انسان ہمیشہ اور طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہوتا ہے، مگر اس طرف توجہ نہیں کرتا کہ یہ کس کا فضل و کرم اور انعام و احسان ہے؟ اور اس کا کیا حق ہم پر واجب ہوتا ہے؟ الا ماشاء اللہ، سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے تمہارے لئے سائے بھی پیدا کئے، اور تمہارے لئے پہاڑوں میں طرح طرح کی پناہ گاہیں بھی بنائیں، اور تمہارے لئے ایسے لباس بھی پیدا کئے جو تم لوگوں کو سردی گرمی سے بچاتے ہیں، اور ایسے لباس بھی جو تمہاری باہمی جنگوں میں تمہاری حفاظت کرتے ہیں۔ سو اس طرح اس نے تم پر اتمام نعمت فرمایا، تاکہ تم اس کے سوا اور کسی کے محتاج نہ رہو۔ اور اپنے آپ کو کُلِّیَّۃً اپنے رب کے حوالے کر دو۔ اور جب ان چیزوں میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں جس کو تم لوگ اللہ کے سوا اور کسی کی طرف منسوب کر سکو۔ تو پھر تم دوسروں کو آخر پوجتے پکارتے کیوں ہو؟ اور انکے آگے جھکنے اور سجدہ ریز ہونے کی ذلت آخر کیوں اور کس لئے اٹھاتے ہو؟
۸۳۔۔۔ سو یہ لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں، کہ یہ سب نعمتیں اللہ ہی کی بخشی ہوئی ہیں کسی اور کا ان نعمتوں کے خلق و ایجاد اور انکی بخشش و عطاء میں کوئی عمل دخل نہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ اللہ کے ناشکرے ہیں۔ اور یہ جان کر انجان بنے ہوئے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر لوگ ناشکرے ہیں، ان میں ایمان و شکر کی نعمت سے سرفراز ہونے والے تھوڑے ہی ہونگے۔ پس ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ کہ ایسے منکر و معاند لوگوں سے الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ اپنا بھگتان خود بھگتیں گے۔ کہ منکرین و معاندین کا علاج اور ان کے لئے آخری جواب اور سلامتی کی راہ یہی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم
۸۴۔۔۔ کہ اس کا مرحلہ گزر چکا ہو گا۔ اس کا موقع دنیاوی زندگی میں تھا۔ جو کہ عمل اور کمائی کی فرصت کا موقع تھا اور اس استعتاب کا اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنے سے ناراض ہونے والے کو اس کی وجہ شکایت کا ازالہ کر کے راضی کرے۔ سو قیامت کے اس یوم حساب میں کافروں اور نا فرمانوں سے اسطرح کی کوئی فرمائش نہیں کی جائے گی کہ وہ اپنے رب کی ناراضگی کو دور کر کے اس کو راضی کریں۔ کہ اس وقت سعی و عمل کے دروازے بند ہو چکے ہونگے۔ اور جزا و سزا کا مرحلہ شروع ہو چکا ہو گا۔ سو اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ قیامت کے روز جب رسولوں کی گواہی سے معاملہ صاف ہو جائے گا، تو نہ کافروں کو عذر و معذرت کے لئے زبان کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔ اور نہ اس سے یہ کیا جائے گا کہ وہ رب کو راضی کریں، کہ اس کا وقت بہرحال گزر چکا ہو گا۔ اسی حقیقت کو فرمان نبوی سے اس طرح بیان فرمایا گیا ہے فَمَا بعد الموت مِنْ مُسْتغْتَبٍ ولا بعد الدنیا من دارالا الجنۃ او لنار۔ اور اسی کے بارے میں قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر اس طرح ارشاد فرمایا گیا وَلَایُؤْذَنَ لَہُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ۔ وَیْلٌ یُّؤْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ (المرسلات۔۳۶۔۳۷) یعنی اس دن ان لوگوں کو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ یہ کوئی عذر و معذرت پیش کر سکیں۔ سو اس روز بڑی ہی خرابی اور ہلاکت ہو گی جھٹلانے والوں کیلئے۔ والعیاذُ باللہ العظیم
۸۸۔۔۔ سو ایسوں کو عذاب پر عذاب کی سزا بھگتنا ہو گی۔ کیونکہ ان کا جرم بھی دوہرا اور ڈبل تھا، کہ انہوں نے فساد کے ساتھ افساد اور ضلال کے ساتھ اِضْلال کے دہرے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ سو ان کو اپنے ضلال و فساد کا بھگتان بھی بھگتنا ہو گا۔ اور دوسروں کو ضلال و فساد کی راہ پر ڈالنے کے جرم کا بھی، والعیاذ باللہ، جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال،
۸۹۔۔۔ سو اس سے قیامت کے یوم حساب کی تذکیر و یاد دہانی بھی فرمائی گئی ہے اور اس کی اس گواہی کی بھی جو ہر پیغمبر اپنی امت کے بارے میں اس روز دیں گے۔ کیونکہ پیغمبر اپنی امت پر حق کے گواہ ہوتے ہیں، اس لئے وہ قیامت کے روز اس کی گواہی دیں گے کہ انہوں نے حق کو پہنچا دیا تھا، اور پھر حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کو ہم ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ اور پھر اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا کہ حق کی گواہی اور اتمام حجت کے طور پر آپ پر یہ کتاب عظیم نازل فرمائی گئی جو کہ دین سے متعلق ہر ضروری چیز کا پورا اور وافی و شافی بیان ہے۔ اور یہ سراسر ہدایت ہے۔ اس کو جس اعتبار سے اور جس زاویہ نگاہ سے بھی دیکھا جائے یہ حق کی راہنمائی کرتی ہے اور جو لوگ اس کی ہدایت کو صدق دل سے اپناتے اور قبول کرتے ہیں ان کے لئے یہ سراسر رحمت ہے۔ اور یہ عظیم الشان خوشخبری ہے ان لوگوں کے لئے جو صدق دل سے اس کے حضور سرتسلیم خم کر دیتے ہیں، وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید۔
۹۰۔۔۔ اس آیت کریمہ میں تمام قرآنی اوامر و نواہی کا خلاصہ پیش فرما دیا گیا ہے یعنی قرآن حکیم جن باتوں کا حکم دیتا ہے ان کی بنیادوں کو بھی اس میں واضح فرما دیا گیا ہے، اور جن چیزوں سے وہ روکتا ہے ان کی اساسات کی طرف بھی اس میں اشارہ فرما دیا گیا ہے۔ سو قرآنی اوامر کی اساس و بنیاد عدل، احسان، اور ذوی القربی، یعنی رشتہ داروں کو دینے پر ہے۔ اور اس کی منہیات میں وہ سب چیزیں داخل ہیں جن میں فواحش و منکرات اور بغی و زیادتی کی تلویث پائی جاتی ہو۔ والعیاذ باللہ۔ سو ان مبادی کے ذکر و بیان سے منکرین و مخالفین کے عقول و قلوب پر دستک دی گئی ہے کہ یہ لوگ جس قرآن حکیم کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے ہیں وہ ذرا دیکھیں اور سوچیں تو سہی کہ اس کی تعلیمات کیا ہیں۔ اور وہ ان کو کس چیز سے نواز رہا ہے، عدل سے مقصود و مراد یہ ہے کہ جس کا جو اور جتنا حق بنتا ہو وہ بلا کم و کاست پورے کا پورا اس کو ادا کیا جائے، قطع نظر اس سے کہ وہ کمزور ہے یا طاقتور، یا وہ مبغوض ہے یا محبوب، اور احسان عدل سے بھی ایک زائد شے ہے۔ سو اس سے یہ واضح فرما دیا گیا کہ صرف یہی نہیں کہ صاحب حق کو اس کا حق دے دیا جائے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس کے ساتھ احسان اور خوبی کا معاملہ کیا جائے۔ اور قرابتداروں کو دینا اسی احسان کی ایک اہم فرع ہے۔ سو اس کا بطور خاص اہتمام کیا جائے، اور اس کے برعکس منہیات میں سب سے پہلے فحشاء کو ذکر فرمایا گیا جو کھلی بے حیائی اور بدکاری کو کہا جاتا ہے۔ جیسے زنا اور لواطت وغیرہ۔ اور دوسری چیز ہے منکر جو کہ معروف کی ضد ہے۔ معروف کا اطلاق ان اچھی باتوں پر ہوتا ہے جو مہذب معاشرے میں قابل تعریف ہوں، جیسے مہمان نوازی اور مسافر نوازی وغیرہ، پس منکر وہ تمام باتیں ہونگی جو ایسی تمام معروفات کے خلاف ہوں۔ اور بغی کے معنی زیادتی اور سرکشی وغیرہ کے ہیں۔ سو یہ چیزیں ممنوع ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال،
۹۲۔۔۔ سو کشف حقائق اور ظہور نتائج کے اس یوم عظیم میں اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں کو پوری طرح کھول کر بیان فرما دے گا، جن کے بارے میں آج تم لوگ اپنی مختلف اہواء و اغراض کی بناء پر اختلاف میں پڑے ہوئے ہو، اور تم دیدہ و دانستہ ان پر پردے ڈالنے کی کوشش کرتے ہو، سو اس روز حقائق اپنی اصل شکل میں سامنے آ جائیں گے، اور اس طور پر کہ نہ ان میں سے کسی حقیقت کے انکار کرنے کی کوئی گنجائش ہو گی۔ اور نہ ہی کسی حقیقت کی کسی بھی طرح کی کوئی پردہ پوشی ممکن ہو گی۔ سو اس وقت تم لوگوں کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال اور بھرپور طور پر بھگتنا ہو گا، العیاذُ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال
۹۳۔۔۔ سو ایسا کرنا اس قادر مطلق کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں۔ کہ وہ تم سب کو ایک ہی راہ پر ڈال دے اور سب کو مسلمان اور اپنا فرمانبردار بنا دے۔ اس کے لئے تو محض اس کے ارادے کی دیر ہے۔ آخر جس نے سورج و چاند کے ان عظیم الشان کُروں کو اور آسمانوں و زمین کی اس عظیم الشان کائنات کو، اس پُر حکمت طریقے سے کام میں لگا رکھا ہے۔ اس کے لئے یہ امر کیوں اور کیا مشکل ہو سکتا ہے کہ وہ چند فٹ کے اس انسان کو راہ راست پر ڈال دے؟ اور اس طور پر کہ یہ اس میں ذرہ برابر اختلاف و انحراف نہ کر سکے۔ لیکن ایسا جبری اور غیر اختیاری ایمان نہ مفید ہے نہ مطلوب، بلکہ مفید اور مطلوب وہ ایمان ہے جو انسان کے اپنے ارادہ و اختیار سے ہو کہ اجر و ثواب کا دار و مدار اسی اختیاری ایمان و عقیدہ پر ہے، پس اس کی مشیت جو کہ تمام تر اس کے علم و حکمت ہی پر مبنی ہوتی ہے، یہ ہے کہ جو لوگ نور حق و ہدایت سے سرفرازی کے لئے سچی طلب اور تڑپ رکھتے ہیں، وہ ان کو اس سے نوازتا ہے، اور جو اس سے اعراض و رُو گردانی برتتے ہیں، ان کو وہ انکی اپنی اختیار کردہ ضلالت و گمراہی ہی کے حوالے کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں آخرکار ایسوں کو دوزخ کی ہولناک آگ میں داخل ہونا ہو گا، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارہ ارشاد فرمایا نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّیٰ وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِیْرًا (النساء۔۱۱۵) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور ضلالت کے درمیان فرق و امتیاز کو پوری طرح واضح فرما دیا۔ کہ اس کے لئے اس نے ایک طرف انسان کو عقل و خرد کی اس روشنی سے نوازا ہے۔ جو عظیم الشان روشنی ہے، اور مزید یہ کہ اس نے اپنے انبیاء و رسل کو مبعوث فرما کر۔ اور ان پر اپنی کتابیں نازل فرما کر حق کو پوری طرح واضح فرما دیا۔ اور اپنی حجت کا اتمام فرما دیا۔ اس کے بعد جو لوگ راہِ حق سے منہ موڑ کر باطل ہی کو اپناتے اور اختیار کرتے ہیں، ان سے قیامت کے روز ان کے کئے کرائے کے بارے میں ضرور پوچھ ہو گی۔ اور سب اپنے اعمال کے مطابق سزا و جزاء پائیں گے۔ تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ اور اپنی اصل اور کامل شکل میں پورے ہوں۔ کیونکہ دنیا میں ایسے نہ ہوتا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ دنیا اپنی اصل کے اعتبار سے دارالعمل اور دارالابتلاء ہے نہ کہ دارالجزاء اور دارالانعام۔ اور دنیا کے ظرفِ محدود میں اتنی گنجائش ہی نہیں کہ اس میں کسی کو اس کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ اور بدلہ مل سکے۔ نہ اچھے عمل کا اور نہ برے کا۔ اس لئے انسان کو اس کے کئے کرائے کا پورا صلہ اور بدلہ آخرت ہی میں مل سکے گا۔ لہٰذا اس یوم حساب و جزا کے تقاضوں کو ہمیشہ ہمیشہ نظر رکھا جائے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الْاَحوال۔
۹۷۔۔۔ سو اس سے اس حقیقت کی تصریح فرما دی گئی کہ ایمان صادق اور عمل صالح کی دولت دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، کہ اس سے انسان کو اس دینا میں حیات طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی کی سعادت نصیب ہوتی ہے خواہ وہ کوئی مرد ہو یا عورت ایسے لوگوں کو دنیاوی زندگی میں آزمائشیں اگرچہ پیش آتی ہیں۔ اور شیاطین جن و انس ان کو ستانے اور پریشان کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، اور ان کو اس کے لئے ڈھیل بھی ملتی ہے، لیکن اس ڈھیل کی ایک حد متعین ہوتی ہے، اور اس سے حق والوں کے صبر اور ان کی استقامت کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ ایسے امتحانات سے گزرنے کے بعد ایسے لوگوں کا ایمان قوی سے قوی تر ہو جاتا ہے۔ اور ان کو سکون و اطمینان کی خاص کیفیت سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے، اور ان کے لئے اجر و ثواب کا عظیم الشان ذخیرہ بھی جمع ہوتا ہے۔ اور ان کے اطمینان قلب کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ان کو اگر اس راہِ میں موت بھی پیش آتی ہے تو وہ اس کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں، اور اہل ایمان کی اس روحانی بادشاہی کا اندازہ کرنا ان لوگوں کے بس میں نہیں ہوتا، جو لذت ایمان اور قوت یقین سے محروم ہوتے ہیں۔ اور آخرت میں ان کو ان کے اعمال کے بہترین بدلے میں نوازا جاتا ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الْاَحوال۔
۹۸۔۔۔ سو شیطان چونکہ انسان کا سب سے بڑا، اور کھلم دشمن ہے جس نے اس کو گمراہ کرنے کا اعلان اور اس کی قسم کھا رکھی ہے، اور قرآن کا بھی اصل دشمن یہی لعین ہے، اور اس عدو مبین یعنی کھلے دشمن سے پناہ بھی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے، اسی لئے یہاں پر اس بات کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی کہ جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ اور قرأت یعنی قرآن پڑھنے سے بھی مراد عام ہے کہ خواہ یہ پڑھنا تلاوت کے طور پر ہو۔ یا دعوت و تذکیر کے طور پر، ان دونوں ہی حالتوں اور صورتوں میں قرآن پڑھنے سے پہلے شیطان مردود اور اس کے شر سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگنا مامور و مطلوب ہے، کہ اس مردود کے شر سے اللہ تعالیٰ ہی پناہ دے سکتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ،
۹۹۔۔۔ سو اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ شیطان کے شر سے محفوظ کون لوگ ہوتے ہیں۔ اور اس کا شکار کون بنتے ہیں۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ کے ان خاص بندوں پر اس لعین کا کوئی زور اور اثر نہیں ہوتا جو ایمان رکھتے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس کا اثر اور زور تو انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس سے دوستی کرتے اور اس کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور اسی حقیقت کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ اِلاَّ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِیْنَ۔ وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمَوْعِدُھُمْ اَجْمَعِیْنَ (الحجر۔۴۲۔۴۳) یعنی اللہ تعالیٰ نے شیطان کے چیلنج کے جواب میں اس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا کہ میرے خاص بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا سوائے ان گمراہوں کے جو خود تیرے پیچھے چلیں گے، اور ایسے سب لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم، سو ایمان و یقین کی دولت اور توکل علی اللہ کی سعادت ایک ایسی عظیم الشان دولت اور بے مثال سعادت ہے جو انسان کو ابلیس کے وار سے محفوظ رکھے۔ اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اللہ نصیب فرمائے اور اس درجے میں نصیب فرمائے جو اس کی رضا و خوشنودی سے سرفراز کر دے۔ آمین ثم آمین یا ربَّ العالمین
۱۰۴۔۔۔ اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان و ہدایت سے سرفرازی انہی لوگوں کو نصیب ہو سکتی ہے۔ جو اس کے لئے اپنے اندر تڑپ اور طلب صادق رکھتے ہیں، تو پھر ان لوگوں کو حق اور ہدایت کی دولت سے سرفرازی آخر کیونکر نصیب ہو سکتی ہے جو نہ ایمان لاتے ہیں، اور نہ لانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے تو اپنے اوپر حق اور ہدایت کی روشنی کے دروازے خود بند کر دیئے۔ سو ایسوں کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے، والعیاذُ باللہ العظیم۔ سو اس سے یہ حقیقت ایک مرتبہ پھر واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کے بناؤ بگاڑ، اور اس کی صحت و فساد کا اصل اور بنیادی تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے۔ جیسی کسی کی نیت ہو گی ویسی ہی اس کو مراد ملے گی۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید وعلی مایحب ویرید۔ بکل حالٍ من الاحوال،
۱۰۵۔۔۔ سو اس سے ان لوگوں کو جواب دیا گیا جو پیغمبر پر افتراء کا الزام لگاتے ہیں اور پیغمبر کو خطاب کر کے ان سے کہتے ہیں اِنَّمَا اَنْتَ مُفْتَرٍ یعنی تم تو محض افتراء کرنے والے ہو۔ سو اس کے جواب اور اس کی تردید میں ارشاد فرمایا گیا کہ جھوٹا افتراء تو وہ لوگ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور وہ اپنے خود ساختہ اور ناحق دین کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں سو یہی لوگ ہیں جھوٹے، اور افتراء پرداز۔ والعیاذُ باللہ، جَلَّ وَعَلَا
۱۰۶۔۔۔ سو اس ارشاد سے مظلوم اور ستم رسیدہ انسانوں کے ظلم و ستم کی رعایت کے سلسلہ میں یہ خاص ہدایت فرمائی گئی کہ جو کوئی دشمنوں کی ایذاء رسانیوں کی بناء پر اپنی جان کو بچانے کے لئے محض ظاہری طور پر کلمہ کفر کہہ دے جبکہ اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو، تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اس بہانے سے اس کی کوئی گنجائش نہیں، کہ انسان کفر کے لئے اپنا سینہ کھول دے، اور جس کسی نے ایسا کر دیا تو ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا بھاری غضب اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے کیونکہ ایسے لوگوں کا جرم بہت سنگین ہے۔ کہ انہوں نے حق کو پہچاننے اور اپنانے کے بعد اس کا انکار کیا۔ والعیاذُ باللہ۔ اور حق کو اپنانے کے بعد اس بات کی گنجائش تو ہو سکتی ہے کہ انسان اس کی حفاظت کے لئے کوئی تدبیر اختیار کرے۔ اگرچہ وہ بظاہر اس کے خلاف ہی ہو۔ لیکن اس کے لئے کوئی گنجائش ممکن نہیں ہو سکتی کہ وہ ایمان سے دستبردار ہو کر کھلے کفر کو اپنا لے۔ اور اپنا سینہ اس کے لئے کھول دے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
۱۰۸۔۔۔ سو ان لوگوں نے جب آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دی۔ اور نور حق و ہدایت سے اعراض و روگردانی اختیار کر کے اس کی ناقدری کی۔ تو قانون قدرت اور سنت خداوندی کے مطابق ان کے قوائے علم و ادراک ماؤف ہو گئے۔ جو ان کے اس عمل و کردار کا طبعی تقاضا اور منطقی نتیجہ ہے سو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ ان کے کانوں میں ڈاٹ لگا دئے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے۔ جس سے یہ حق کے فہم و ادراک اور اس کو اپنانے کے شرف سے محروم ہو گئے، والعیاذ باللہ جل وعلا، اور اس کے نتیجے میں یہ غافل و بے خبر ہو گئے اپنے مآل و انجام سے کیونکہ خدا فراموشی کا لازمی نتیجہ خود فراموشی ہے والعیاذ باللہ، اس لئے دوسرے مقام پر اس بارہ اس طرح تنبیہ و تصریح فرمائی گئی وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰہُمْ اَنْفُسَہُمْ اُولٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ(الحشر۔۱٩) یعنی تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا۔ جس کے نتیجے میں اللہ نے ان کو ان خود انکی اپنی جانوں سے غافل کر دیا یہی لوگ ہیں فاسق وبدکار۔ اور اللہ تعالیٰ کے غافل کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا دستور ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ بھلا دیتے ہیں اس کے نتیجے میں وہ خود اپنی جانوں کے نفع و نقصان سے غافل و بے خبر ہو جاتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم
۱۱۱۔۔۔ سو اس سے قیامت کے یوم حساب کی تذکیر و یاد دہانی فرمائی گئی ہے، تاکہ غافل انسان غفلت سے چونک کر اس کے لئے فکر مند ہو جائے، اور اس کے لئے تیاری میں لگ جائے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یاد کرو اس یوم عظیم کو جس میں ہر انسان پر نفسی نفسی کی ایسی کیفیت طاری ہو گی۔ کہ کسی کو کسی کا ہوش نہیں ہو گا، نہ کوئی کسی دوسرے کی وکالت کر سکے گا۔ اور نہ کسی کے اندر کسی دوسرے کا سفارشی بننے کی ہمت ہو گی۔ بلکہ ہر کسی کو اپنی ہی پڑی ہو گی۔ اور وہ اپنے بارے میں خود ہی جھگڑ رہا ہو گا۔ ہر کسی کا زندگی بھر کا کیا کرایا اس کے سامنے موجود ہو گا، اس کو اس کا پورا پورا صلہ و بدلہ دیا جائے گا، ہر ایک سے کمال انصاف کا معاملہ ہو گا۔ کسی کے ساتھ بھی نہ کسی طرح کا کوئی ظلم ہو گا نہ زیادتی۔ پس نہ کسی کی کوئی نیکی کم کی جائے گی۔ اور نہ کسی کے کھانے میں کوئی ناکردہ گناہ ڈالا جائے گا۔ پس ہر کسی کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کل کے اس یوم حساب کے لئے کیا کمائی کر رہا ہے وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُواللّٰہَ الایۃ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید، فِیْ کُلِّ لَحْظَۃٍ مِّنَ اللَّحظات، وبکل حالۃ من الاحالات۔
۱۱۲۔۔۔ قریۃ اس مرکزی بستی کو کہا جاتا ہے جس کے ساتھ اس کے توابع اور ملحقات ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کا اطلاق بڑے شہر پر بھی ہوتا ہے، جیسا کے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمِ (الزخرف۔۳۱) یعنی کفار و منکرین کا کہنا تھا کہ اس قرآن کو ان دو بستیوں یعنی مکے اور طائف کے کسی بڑے شخص پر کیوں نہیں اتارا گیا، سو اس ارشاد میں مکے اور طائف کے دونوں بڑے شہروں پر قریہ کا اطلاق فرمایا گیا ہے، رہ گئی یہ بات کہ زیر بحث آیت کریمہ میں وارد لفظ قریہ سے کونسی بستی ہے تو اس کے بارے میں یہاں پر اس بات کی تصریح نہیں فرمائی گئی کہ اس سے کونسی بستی مراد ہے۔ اس لئے حضرات اہل علم کے اس کے بارے میں دو قول ہیں بعض نے کہا اس سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد قوم سبا کی بستی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے بڑے خاص انعامات فرمائے تھے۔ جیسا کہ سورہ سبا میں اس سے متعلق تصریح فرمائی گئی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس بستی کے باشندوں کو امن و اطمینان کی دولت بھی نصیب تھی۔ اور ان کے لئے ان کے رزق و روزی کی نعمت بھی ہر طرف سے کھچی چلی آتی تھی مگر ان لوگوں نے ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کی ناشکری کی۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے کئے کرائے کی پاداش میں بھوک اور خوف کا مزہ چکھایا۔ یہاں پر لباس الجوع والخوف میں عربی زبان کے معروف اسلوب کے مطابق حذف وایجاز سے کام لیا گیا ہے، اگر اس کو کھول دیا جائے تو پوری عبارت اس طرح ہو گی فَاَذَاقَہَا اللّٰہُ طَعْمَ الْجُوْعِ واَلْبَسَہَا لِبَاسَ الخَوْفِ۔ یعنی کفران نعمت کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اس بستی کے باشندوں کو بھوک کا مزہ چکھایا، اور ان کو خوف لباس پہنایا، جس سے وہ ظاہر و باطن ہر اعتبار سے خوف میں مبتلا ہو گئے، سو یہ ترکیب عَلَّفْتُہَا بَیْنًا ومَاءً وَارِدًا کے قبیل سے ہے جو کہ بلاغت کا ایک مشہور و معروف اسلوب ہے، سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ دین حق سے منہ موڑنا اور اعراض و سرکشی سے کام لینا ایک سنگین جرم و گناہ اور باحث محرومی ہے اور دوسری بات یہ واضح ہو جاتی ہے کہ برے اعمال اور خاص کر کفران نعمت کی سزا آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی ملتی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الْاَحوال، وفِی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطِن فِی الحیاۃ۔
۱۱۶۔۔۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ تحلیل و تحریم یعنی کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینا اللہ تعالیٰ ہی کا حق اور اسی کی شان ہے کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی خدائی سند کے بغیر محض اپنے مفروضات اور مزعومات کی بناء پر کسی چیز کو از خود حلال یا حرام قرار دے۔ ایسا کرنا اللہ پر افتراء باندھنا ہے۔ کیونکہ اس طرح اللہ کی طرف وہ بات منسوب کی جاتی ہے جو اس نے نہیں فرمائی۔ اور یہی افتراء علی اللہ ہے جو کہ ایک بڑا سنگین جرم ہے۔ اور یہ ایک قطعی حقیقت ہے کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹا افتراء باندھتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتے، والعیاذُ باللہ العظیم
۱۱۷۔۔۔ سو اللہ پر افتراء باندھنے والے ایسے لوگ دنیاوی زندگی کی چند روزہ فرصت میں کچھ عیش کر لیں، لیکن اس کے بعد ان کے لئے بہرحال ایک بڑا ہی دردناک عذاب اور ہولناک خسارہ ہے، والعیاذ باللہ العظیم
۱۱۸۔۔۔ سو یہود پر اصل اور بنیادی طور پر وہی چیزیں حرام تھیں جن کا ذکر اوپر آیت نمبر۱۱۵ میں فرمایا گیا ہے۔ لیکن انہوں نے از خود کئی چیزوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیا تھا۔ جن کو ان کی سرکشی کی بناء پر ان پر حرام قرار دے دیا گیا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان پر ہم نے کوئی ظلم نہیں کیا تھا بلکہ وہ لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہے تھے۔ سو بندوں کے لئے بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنی حدود بندگی کے اندر ہیں۔ ان سے تجاوز کر کے حدود الٰہی میں مداخلت کرنا ظلم ہے جس کا ارتکاب ایسے لوگ کرتے ہیں، سو اس کا بھگتان ان کو بہرحال بھگتنا پڑے گا، والعیاذُ باللہ العظیم
۱۲۰۔۔۔ سو اس ارشاد سے حضرت ابراہیم کی انفرادیت اور آنجناب کی اس عظمت شان کو بھی واضح فرما دیا گیا جس سے حق تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ان کو نوازا تھا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ صرف ایک فرد نہیں تھے بلکہ ایک مستقل امت تھے۔ انہوں نے تن تنہا وہ کام کئے جو ایک پوری امت اور جماعت کے کرنے تھے اور دوسری طرف اس سے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ وہ اللہ کے فرمانبردار اور یکسو تھے۔ وہ نہ یہودی تھے، نہ نصرانی، اور نہ ہی ان کا مشرکوں سے کوئی لگاؤ تھا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر بھی اس بارہ ارشاد فرمایا گیا کہ مَا کَانَ اِبْرَاہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَّ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (اٰل عمران۔۶۷) یعنی ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ یکسو مسلمان تھے اور نہ ہی ان کا مشرکوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ پس یہود و نصاریٰ اور مشرکین جو حضرت ابراہیم کے ساتھ انتساب کے مدعی اور ابراہیمی ہونے کے دعوے کرتے ہیں وہ سب غلط اور بے بنیاد ہے حضرت ابراہیم کا ان سے کوئی لگاؤ نہیں تھا، کہ یہ سب لوگ شرک میں ملوث ہیں،
۱۲۱۔۔۔ سو اس سے حضرت ابراہیم کی ایک اور امتیازی صفت کو ذکر و بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے کیونکہ وہ اس حقیقت پر ایمان و یقین رکھتے تھے کہ نعمتیں سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کی دی بخشی۔ اور اسی کی عطاء و بخشش کا نتیجہ و ثمرہ ہوتی ہیں۔ لہٰذا شکر کا اصل حقدار بھی وہی ہے، سبحانہ و تعالیٰ، جبکہ مشرکین ان کو اپنے خود ساختہ معبودوں اور فرضی آستانوں وغیرہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم کی اسی شکر گزاری کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے ان کو چنا اور ان کو سیدھی راہ کی ہدایت و راہنمائی سے نوازا۔ سو اس سے اسوہ ابراہیمی کے بعض اہم گوشے بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ اور شکر خداوندی کی عظمت شان بھی اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے، اور اس پیمانے پر نصیب فرمائے جس سے رب راضی ہو جائے، سبحانہ و تعالیٰ، اور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنا شاکر و ذاکر بنائے رکھے، آمین ثم آمین یا رب العالمین
۱۲۲۔۔۔ سو حضرت ابراہیم کو ان کے صدق و اخلاص، قوت ایمان و یقین جذبہ ایثار و قربانی اور صبر و استقامت کی بناء پر دنیا میں بھی بڑی عظمت شان سے نوازا گیا اور ایسی بڑی اور اس انفرادی نوعیت کی عظمت شان سے نوازا گیا جو آنجناب کے سوا اور کسی کو نہ نصیب ہوئی اور نہ قیامت تک کبھی نصیب ہو سکے گی۔ چنانچہ آپ تاریخ کی وہ واحد ہستی ہیں جن کو یہود و نصاریٰ اور مشرکین سب ہی اپنا مقتدیٰ و پیشوا مانتے ہیں اور ایسا مقتدیٰ و پیشوا کہ آپ سے انتساب ہی کو وہ اپنے لئے سرمایہ مجد و افتخار سمجھتے ہیں، جبکہ مسلمان تو ہیں ہی ملت ابراہیمی پر، اور حضرت امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو صاف اور صریح طور پر ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اور پھر آنجناب کے تعمیر کردہ بیت اللہ کی زیارت و حاضری، اس کا طواف اور وہاں کی عبادت کا سلسلہ جو دن رات کے چوبیس گھنٹہ کی ہر ساعت میں اور مسلسل و لگاتار جاری رہتا ہے، اور جس کا اجر و ثواب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو برابر ملتا رہتا ہے، اس کا تو کہنا ہی کیا، اور پھر حج اور عمرہ کے اعمال کے دوران آپ کے چھوڑے ہوئے نقوش تابندہ کی پیروی، اور آپ کی قربانیوں کی تذکیر و یاد دہانی، اس پر مزید ہے اور پھر قرآن حکیم اور سنت رسول کے مقدس ذخیرے کے اندر جس طرح آنجناب کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے تو آنجناب کی یاد اور آپ کا ذکر خیر جب سے اب تک جاری ہے۔ اور تا قیامِ قیامت ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔ اور نہ صرف یہ کہ ذکر جاری رہے گا۔ بلکہ ہمیشہ کے لئے اس کا اجر و ثواب بھی آپ کو مسلسل اور لگاتار ملتا رہے گا۔ اور آخرت میں آپ کو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ کے قرب خاص کے سزاواروں میں شامل فرمایا جائے گا۔ جس پر ملنے والے انعامات کا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے؟ سوائے حق تعالیٰ کے، سبحانہ و تعالیٰ
۱۲۵۔۔۔ سو اس ارشاد سے دعوت و ارشاد سے متعلق اہم اصولی اور بنیادی باتوں کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے جن میں سب سے پہلی بات تو یہ تعلیم فرمائی گئی ہے کہ رب کے راستے کی طرف دعوت حکمت کے ساتھ ہو، یعنی وہ دلائل و براہین پر مبنی ہو، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْ اِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ الایۃ (یوسف۔٨۔۱) اور دوسری بات یہ کہ دعوت مشفقانہ انداز کی تذکیر و تنبیہ میں ہو۔ جس کو یہاں پر موعظہ حسنۃ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ پس آدمی جو بات کہے دلیل اور برہان کی روشنی میں کہے اور کہنے کا انداز بھی دہونس جمانے کا نہ ہو بلکہ صدق و اخلاص اور ہمدردی و خیر خواہی کا ہو۔ جس سے مخاطب بدکنے کے بجائے داعی کی بات کو سننے اور اس پر غور کرنے کے لئے تیار اور اس کی طرف مائل ہو جائے۔ اور اگر کبھی دعوت کے دوران بحث اور گفتگو کی ضرورت پڑے، تو اس کے لئے بہتر سے بہتر طریقہ اختیار کیا جائے، جس سے حریف اشتعال میں آنے کے بجائے سننے اور ماننے کے لئے آمادہ ہو جائے۔ کیونکہ شیطان ایسے مواقع میں اشتعال اور اکساہٹ پیدا کر کے معاملے کے فساد و بگاڑ کے درپے ہوتا ہے، جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر۵۲ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الْاَحوال،وَفِیْ کُلِّ موطَنٍ مِّن المواطنِ فی الحیاۃ۔ وبہذا قدتم التفسیر المختصر لسورۃ النحل، والحمد للہ ربِّ العالمین،