تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الفَاتِحَة

(سورہ نمبر ۱ ۔ تعداد آیات ۷)

 

(نمبر شمار آیت نمبر کی نشان دہی کرتا ہے)

ترجمہ

 

۱۔۔ اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

۲۔۔ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو پروردگار ہے سب جہانوں کا،

۳۔۔ جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے،

۴۔۔ جو مالک ہے، بدلے کے دن کا، (مالک!)

۵۔۔ ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں، (اور کرتے رہیں گے) اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، (اور مانگتے رہیں گے)

۶۔۔ سرفراز فرما دے ہمیں سیدھی راہ سے،

۷۔۔ یعنی ان حضرات کی راہ سے، جن پر تیرا انعام ہوا نہ ان کی جن پر تیرا غضب ہوا، اور نہ ان کی جو بھٹک گئے (راہ حق و صواب سے)۔

تفسیر

۲۔ اور ظاہر ہے کہ جب اس ساری کائنات کا خالق بھی وہی ہے، اور مالک بھی وہی، اور اس میں حکم و تصرف بھی اسی وحدہٗ لاشریک کا چلتا ہے، اور اس میں ظاہری و باطنی، اور حسی و معنوی جو بھی کوئی نعمت پائی گئی، یا پائی جاتی ہے، یا پائی جائیگی، وہ سب اسی وحدہٗ لاشریک کی طرف سے ہے، اس لئے ہر تعریف کا حقدار بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہے، سو الحمد للہ کے اسی ایک چھوٹے اور مختصر سے جملے سے مومن کا راستہ باقی سب دنیا سے الگ ہو جاتا ہے، کہ باقی لوگوں کی نظریں دنیا کے انہی مادی ظواہر و مظاہر میں اٹک کر اور الجھ کر رہ جاتی ہیں، اور یہاں تک کہ کتنی ہی دنیا انہی ظواہر کے مادی فوائد و منافع کو دیکھ کر ان کی پوجا میں لگ جاتی ہے، اور اسطرح وہ ہاویہ جہنم کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ لیکن مومنِ صادق الحمد للہ کے اسی مختصر اور جامع جملے سے اعلان کر دیتا ہے کہ تعریف ان ظواہر و مظاہر کی نہیں، بلکہ اس اللہ کی ہے۔ جو ان سب کا خالق و مالک ہے، پس معبود برحق وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۴۔مالک تو آج بھی سب کا وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ لیکن آج طرح طرح کے ناموں سے دوسری حکومتیں اور بادشاہیاں بھی موجود ہیں، اور مختلف لوگوں کی اور مختلف قسم کی ملکیتیں بھی پائی جاتی ہیں، لیکن فصل و تمیز اور فیصلے اور جزاء کے اس دن میں ان میں سے کسی کا بھی کوئی نام و نشان نہیں ہو گا۔ بلکہ اس روز اسی وحدہٗ لاشریک کی حکومت و بادشاہی اور اسی کی ملکیت کا ظہورِ کامل ہو گا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ یَحْکُمْ بَیْنَہُمْ الایٰۃ (الحج۔ ۵۶) یعنی اس روز بادشاہی اسی وحدہٗ لاشریک کی ہو گی اور وہی ان سب کے درمیان فیصلہ کریگا، نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ (الانفطار۔۱۹) یعنی اس روز حکم و ارشاد اللہ تعالیٰ ہی کا ہو گا، سبحانہ و تعالیٰ۔

 

۵۔یعنی اِیَّاکَ کی ضمیر منفصل کی تقدیم سے حَصْر کا مفہوم پیدا ہو گیا۔ جیسا کہ ترجمے سے ظاہر ہے، پس ہر طرح کی عبادت و بندگی، اور اس کی ہر قسم اور شکل اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے، لہٰذا دست بستہ قیام، رکوع، سجود، طواف اور نذر و نیاز وغیرہ سب اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے کہ یہ سب عبادت کی مختلف قسمیں اور شکلیں ہیں اور عبادت کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے۔ ان میں سے کسی بھی شکل اور قسم کو اس کے سوا کسی اور کے لئے بجا لانا شرک ہو گا۔ جو کہ ظلم عظیم ہے۔ والعیاذُ باللہ، مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ہماری تفسیرعمدۃ البیان فی تفسیر القران المعروف تفسیر المدنی الکبیر، والحمد للہ جل وعلا، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال، اور جس طرح عبادت و بندگی کی ہر قسم اسی کا حق ہے، اسی طرح غائبانہ پکارنا، اور مافوق الاسباب حاجت روائی و مشکل کشائی بھی اسی وحدہٗ لاشریک کا حق اور اسی کا اختصاص ہے، سو اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی اس مختصر سی آیت کریمہ سے جو کہ ہر مسلمان اپنی ہر نماز اور اس کی ہر رکعت میں پڑھتا ہے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے اور اس کے تمام دروازے بند ہوتے ہیں، والحمد للہ رب العالمین۔