آیت ۲۷ میں حج کے اعلان عام کا ذکر ہوا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الحج ہے۔
مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۰۱ھ میں حج کے قریبی ایام میں نازل ہوئی ہو گی۔
خانۂ کعبہ کی تعمیر اور حج کی مشروعیت جس مقصد کے لیے ہوئی تھی اس کی تجدید کرنا اور اس مرکزِ توحید کو مشرکوں کے تسلط سے آزاد کر کے امتِ مسلمہ کے حوالہ کرنا ہے۔
آیت ۱ تا ۴ تمہیدی آیات ہیں جن میں عام انسانوں کو مخاطب کر کے قیامت کے شدید جھٹکے سے خبر دار کیا گیا ہے اور اس بات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ شیطان کے اشارے پر کتنے ہی لوگ خدا کے بارے میں بے بنیاد باتوں اور گمراہ کن بحثوں میں الجھتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ قیامت کے دن بھڑکتی آگ میں جا گریں گے۔
آیت ۵ تا ۱۰ میں دوسری زندگی پر استدلال اور خدا کے بارے میں لوگ گمراہی کی جو باتیں کرتے ہیں اس کا انجام۔
آیت ۱۱ تا ۲۴ میں خدا کی غیر مخلصانہ عبادت کو بے معنی قرار دیتے ہوئے شرک کی تردید کی گئی ہے اور انکار کرنے والوں کے درد ناک انجام کو اور مخلص مؤمنین کے مسرت بخش انجام کو نہایت مؤثر طریقہ پر پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۲۵ تا ۳۷ میں اس بات کے پیش نظر کہ مشرکین نے اہل ایمان کے لیے مسجد حرام اور حج بیت اللہ کی راہ بند کر دی ہے اس تاریخی حقیقت کو نمایاں کیا گیا ہے کہ معمار حرم نے خدائے واحد کی عبادت کے لیے اس کی تعمیر کی تھی اور اسی مقصد کے لیے حج کی عام منادی کی تھی۔ ساتھ ہی حج کے منا سک اور ان کی روح کو اجاگر کیا گیا ہے۔
آیت ۳۸ تا ۴۱ میں مدینہ کے مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ وہ مسجد حرام کو مشرکین کے تسلط سے آزاد کرنے کے لیے ان سے جنگ (جہاد) کریں اور یہ کہ اللہ ان کی مدد کرے گا اور ان کو اقتدار بخشے گا۔ آیت ۴۲ تا ۴۸ میں عذاب کے لیے جلدی مچانے والوں کی توجہ ظالم قوموں کی ہلاکت کے واقعات کی طرف مبذول کرائی گئی ہے۔
آیت ۴۹ تا ۵۷ میں واضح کیا گیا ہے کہ رسول کا کام خبردار کرنا ہے مگر اس کی دعوتی جدوجہد کے خلاف شیطان اسی طرح سرگرم عمل ہو گیا ہے جس طرح وہ ہر رسول کی دعوت کے خلاف پروپگنڈے کی مہم چلاتا رہا ہے۔ اس کے اس پروپگنڈے سے وہی لوگ متاثر ہوتے ہیں جن کے دلوں میں روگ ہوتا ہے۔ اللہ کے وفادار بندوں کے تو علم و یقین میں اس جھوٹے پروپگنڈے کو دیکھ کر اضافہ ہو جاتا ہے۔
آیت ۵۸ تا ۶۲ میں ان لوگوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی تھی۔
آیت ۶۳ تا ۶۶ میں اللہ کی ربوبیت اور اس کے احسانات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔
آیت ۶۷ تا ٍٍ۷۶ میں معترضین کے شبہات کو دور کتے ہوئے شرک کا بے حقیقت ہونا واضح کیا گیا ہے اور اللہ کی عظمت کا احساس دلاتے ہوئے سلسلۂ رسالت کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
آیت ٍ۷۷ اور۷۸ اختتامی آیات ہیں جن میں اہل ایمان کو ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی بھی تاکید کی گئی ہے جو ان کی ذات اور ان کے کردار سے متعلق ہیں اور ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی بھی جو اللہ کی راہ میں جدوجہد اور لوگوں کے سامنے اس کے دین کی شہادت پیش کرنے سے متعلق ہیں۔
۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو ! ۱* اپنے رب سے ڈرو۔ ۲* قیامت کا زلزلہ بڑی ہولناک چیز ہے۔ ۳*
۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن تم اسے دیکھو گے اس دن ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچہ کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا اور لوگوں کو تم دیکھو گے کہ وہ مدہوش ہیں حالانکہ وہ مدہوش نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہو گا۔ ۴*
۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کے بارے میں علم کے بغیر بحث کرتے ہیں ۵* اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے ہولیتے ہیں۔
۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کے لیے یہ بات مقدر ہے کہ جو کوئی اُسے دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کر کے رہے گا اور دہکتی جہنم کے عذاب کی طرف لے جائے گا۔
۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو! اگر تمہیں (مرنے کے بعد) اٹھائے جانے کے بارے میں شک ہے تو (غور کرو) ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ٍٍ۷* پھر نطفہ سے ۸* پھر جمے ہوئے خون سے ۹* پھر گوشت کے ٹکڑے سے ۱۰* جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بغیر شکل کے بھی۔ ۱۱* (یہ اس لیے ہوتا ہے) تاکہ تم پر (اپنی قدرت کی کرشمہ سازیاں) واضح کریں۔ ۱۲* اور ہم جس کو چاہتے ہیں رحم میں ایک مقررہ مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں۔ پھر تم کو بچہ کی شکل میں باہر لاتے ہیں۔ ۱۳* پھر (تمہاری پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی جوانی (کی عمر) کو پہنچ جاؤ۔ اور تم میں سے کسی کا وقت تو پہلے ہی پورا ہو جاتا ہے اور کوئی عمر کے بدترین حصہ کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔ ۱۴* اور تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک پڑی ہے۔ پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ ابھرنے اور پھولنے لگتی ہے اور ہر قسم کی خوشنما نباتات اگاتی ہے۔ ۵*
۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے ۱۶* اور وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے ۱۷* اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ۱۸*
ٍٍ۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں اور اللہ ان کو اٹھا کھڑا کرے گا جو قبروں میں ہیں۔ ۱۹*
۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو کسی علم، کسی ہدایت اور کسی روشن کتاب کے بغیر اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ ۲۰*
۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکڑتے ہوئے تاکہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے گمراہ کریں۔ ۲۱* ایسے شخص کے لیے دنیا میں رسوائی ہے ۲۲* اور قیامت کے دن ہم اس کو جلنے کے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔
۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے وہ جو تیرے ہاتھو ں نے پہلے سے تیار کیا تھا ۲۳* اور اللہ اپنے بندوں پر ہرگز ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو اللہ کی عبادت ایک کنارہ پر رہ کر کرتے ہیں۔ اگر فائدہ پہنچا تو اس سے مطمئن ہو گئے اور اگر آزمائش آ گئی تو الٹے پھر گئے۔ دنیا بھی کھو دی اور آخرت بھی۔ یہی ہے کھلا خسارہ۔ ۲۴*
۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو پکارتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ فائدہ۔ یہ ہے پرلے درجہ کی گمراہی۔ ۲۵*
۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ان کو پکارتے ہیں جن کا نقصان ان کے فائدہ سے زیادہ قریب ہے۔ ۲۶* بہت برا ہے کارساز اور بہت برا ہے ساتھی۔ ۲۷*
۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے شک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور اچھے عمل کئے ۲۸* ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں رواں ہوں گی۔ بلا شبہ الہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص یہ خیال کرتا ہو کہ اللہ دنیا و آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا اسے چاہیے کہ آسمان تک ایک رسی تان لے پھر اسے کاٹ ڈالے اور دیکھ لے کہ آیا اس کی اس تدبیر نے اس کے غم و غصہ کو دور کر دیا؟ ۲۹*
۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم نے اس (قرآن کو روشن دلیلوں کی شکل میں اتارا ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ ۳۰*
۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور صابی اور نصاریٰ اور مجوسی اور وہ جو مشرک ہوئے ، ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا۔ ۳۱* اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں نیز سورج ، چاند، ستارے ، پہاڑ، درخت، جانور اور بہ کثرت انسان۔ اور بہت سے انسان ایسے ہیں جن پر عذاب لازم ہو چکا ہے۔ ۳۲* اور جسے اللہ ذلیل کر دے اسے عزت دینے والا کوئی نہیں۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دو فریق ہیں ۳۳* جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا تو جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے آگ کے لباس کاٹ دئے گئے ہیں۔ ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈال دیا جائے گا۔
۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس سے ان کے پیٹ کے اندر کی چیزیں اور ان کی کھالیں گل جائیں گی۔
۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز ان (کو سزا دینے) کے لیے لوہے کے گُرز ہوں گے۔
۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کبھی وہ اس گھٹن سے نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کے عذاب کا مزا۔ ۳۴*
۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔ ان کو وہاں سونے کے کنگن اور موتی کے زیور پہنائے جائیں گے اور ان کا لباس ریشم کا ہو گا۔ ۳۵*
۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں پاکیزہ بات کی ہدایت کی گئی ۳۶* اور انہیں اس ہستی کی راہ دکھائی گئی جس کے لیے حمد ہی حمد ہے۔ ۳۷*
۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا اور جو اللہ کی راہ سے روک رہے ہیں۔ ۳۸* نیز مسجد حرام ۳۹* سے جسے ہم نے لوگوں کے لے اس طرح بنایا ہے کہ اس کے رہنے والے اور باہر سے آنے والے سب وہاں برابر ہیں۔ ۴۰* اور جو کوئی وہاں ظلم کے ساتھ انحراف کی راہ اختیار کرنا چا ہے گا ہم اسے دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ ۴۱*
۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے بیت اللہ کی جگہ مقرر کر دی تھی ۴۲* کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور میرے گھر کو پاک رکھو طواف کرنے والوں ، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے۔ ۴۳*
۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۴۴* وہ تمہارے پاس پیدل آئیں گے اور لاغر اونٹنیوں پر بھی جو دور دراز راہوں سے آئیں گی۔ ۴۵*
۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ وہ اپنی منفعتوں کو دیکھ لیں ۴۶* اور مقررہ دنوں میں ۴۷* مویشی چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں ۴۸* پس اس میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ۔ ۴۹*
۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اپنا میل کچیل دور کریں ۵۰* اپنی نذریں پوری کریں ۵۱* اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔ ۵۲*
۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ (ہیں حج کے منا سک) اور جو اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمتوں کی تعظیم کرے گا تو یہ اس کے رب کے ہاں اس کے لیے بہتر ہے۔ ۵۳* اور تمہارے لیے مویشی حلال ٹھہرائے گئے ہیں بجز ان کے جن کا حکم تمہیں سنا دیا گیا ہے ۵۴* لہٰذا بتوں کی گندگی سے بچو ۵۵* اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ ۵۶*
۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے وفادار بنکر رہو کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ ۵۷* اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا وہ گویا آسمان سے گر گیا پھر پرندے اسے اچک لیں یا ہوا اسے لے جا کر کسی دور دراز جگہ پھینک دے۔ ۵۸*
۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے (اصل حقیقت) اور جو اللہ کے مقرر کئے ہوئے شعائر کی تعظیم کرے گا تو یہ بات دل کے تقویٰ سے تعلق رکھنے والی ہے۔ ۵۹*
۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے لیے ان (قربانی کے جانوروں) میں ایک مقررہ وقت تک فائدے ہیں پھر ان کے قربان کرنے کی جگہ اس قدیم گھر کے پاس ہے۔ ۶۰*
۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا تاکہ وہ مویشی چار پایوں پر اللہ کے نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔ ۶۱* تو تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے لہٰذا اپنے کو اسی کے حوالہ کر دو۔ اور (اے نبی!) عاجزی اختیار کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ ۶۲*
۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں۔ ۶۳* جو مصیبت میں صبر کرنے والے اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں بخشا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے رہتے ہیں۔
۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں سے ٹھہرایا ۶۴* ہے تمہارے لیے ان میں بہتری ہے تو انہیں قطار میں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو۔ ۶۵* پھر جب وہ اپنے پہلوؤں پر گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ ۶۶* اور کھلاؤ قناعت کرنے والوں اور مانگنے والوں کو۔ ۶۷* اس طرح ہم نے ان کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔
۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ ۶۸* اس طرح ہم نے ان کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ تم اللہ کے ہدایت بخشنے پر اس کی کبریائی (بڑائی) بیان کرو ۶۹* اور (اے نبی!) نیکو کاروں کو خوشخبری دے دو۔
۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً ٍٍ۷۰* اللہ ان لوگوں کی مدافعت کرے گا جو ایمان لائے ہیں۔ اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کرنے والا اور ناشکرا ہو۔ ۷۱*
۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں کو (جنگ کی) اجازت دی گئی جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے۔ کیونکہ وہ مظلوم ہیں ٍٍ۷۲* اور اللہ ان کی مدد پر یقیناً قادر ہے۔
۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے محض اس بنا پر کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔ ۷۳* اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں ، گرجے ، کنیسے اور مسجدیں جن بہ کثرت اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ڈھا دی گئی ہوتیں۔ ۷۴* اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ ۷۵* بلا شبہ اللہ قوت والا اور غالب ہے۔
۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، بھلی بات کا حکم دیں گے اور برائیوں سے روکیں گے۷۶* اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ ۷۷*
۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے نبی!) اگر ے تمہیں جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے قومِ نوح، عاد اور ثمود نے بھی جھٹلایا تھا۔ ۷۸*
۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور قوم ابراہیم اور قوم لوط بھی جھٹلا چکی ہے۔
۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز مدین والوں نے بھی جھٹلایا تھا۔ ۷۹* اور موسیٰ بھی جھٹلائے گئے تھے۔ ۸۰* تو میں نے ان کافروں کو مہلت دی پھر ان کو پکڑ لیا۔ تو دیکھو کیسی رہی میری سزا!
۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کر دیا تو وہ اپنی چھتوں پر گر گئیں اور کتنے ہی کنویں بیکار ہو گئے اور کتنے ہی پختہ محل (ویران ہو گئے) ! ۸۱*
۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے اور ان کے کان سننے والے ہوتے۔ ۸۲* حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ ۸۳*
۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر!) یہ لوگ تم سے عذاب کے لیے جلدی کر رہے ہیں حالانکہ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں۔ اور تمہارے رب کے نزدیک ایک دن تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ ۸۴*
۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو میں نے مہلت دی اور وہ ظالم تھیں۔ پھر ان کو پکڑ لیا اور میری ہی طرف سب کی واپسی ہے۔
۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے نبی!) کہو اے لوگو! میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمہیں کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔ ۸۵*
۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔ ۸۶*
۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جن لوگوں کی سرگرمیاں ہماری آیتوں کو نیچا دکھانے کے لیے ہوں گی وہ دوزخ والے ہیں۔ ۸۷*
۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر!) تم سے پہلے ہم نے جو رسول اور نبی بھی بھیجا ہے۔ ۸۸* (ضرور ایسا ہوا ہے کہ) جب اس نے تمنا کی شیطان نے اس کی امنگ میں خلل ڈال دیا۔ ۸۹* مگر اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسوں کو مٹاتا ہے پھر اللہ اپنی آیتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ۹۰* اور اللہ علیم و حکیم ہے۔ ۹۱*
۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (یہ صورت اس لیے پیش آتی ہے) تاکہ وہ شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسوں کو ان لوگوں کے لیے فتنہ (ذریعہ آزمائش) بنا دے جن کے دلوں میں روگ ہے اور جن کے دل سخت ہیں۔ ۹۲* بلا شبہ یہ ظالم مخالفت میں بہت دور نکل گئے ہیں۔
۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تاکہ وہ لوگ جن کو علم عطاء ہوا ہے جان لیں کہ یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے اور وہ اس پر ایمان رکھیں اور ان کے دل اس کے آگے جھک جائیں۔ ۹۳* یقیناً اللہ ایمان لانے والوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے۔
۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کفر کرنے والے تو اس کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہیں گے۔ یہاں تک کہ ان پر قیامت کی گھڑی اچانک آ جائے یا محرومی کے دن کا عذاب آ جائے۔ ۹۴*
۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن ۹۵* بادشاہی اللہ ہی کی ہو گی۔ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ تو جو لوگ ایمان رکھتے ہوں گے اور اچھے عمل کئے ہوں گے وہ نعمت بھرے باغوں میں ہوں گے۔
۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جنہوں نے کفر کیا ہو گا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہو گا ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہو گا۔
۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ۹۶* پھر قتل کر دئے گئے یا مر گئے اللہ ان کو ضرور اچھا رزق دے گا ۹۷* اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے۔
۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ انہیں ایسی جگہ داخل کرے گا جس سے وہ خوش ہو جائیں گے۔ ۹۸* بلا شبہ اللہ علم والا اور بردبار ہے۔ ۹۹*
۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے (ان لوگوں کا اجر) اور جو کوئی بدلہ لے ویسا ہی جیسا کہ اس کے ساتھ کیا گیا پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔ ۱۰۰* اللہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔ ۱۰۱*
۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس لیے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں اور اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ ۱۰۲*
۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز اس لیے بھی کہ اللہ ہی حق ہے اور وہ چیزیں باطل ہیں جن کو یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں۔ ۱۰۳* اور اللہ ہی بلند مرتبہ اور بڑا ہے۔ ۱۰۴*
۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے تو زمین سر سبز ہو جاتی ہے۔ یقیناً اللہ بڑا باریک بیں اور خبر رکھنے والا ہے۔ ۱۰۵*
۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور بلا شبہ اللہ بے نیاز اور خوبیوں والا ہے تعریف کا مستحق۔ ۱۰۶*
۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کر دی ہیں۔ ۱۰۷* اور کشتی کو کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلتی ہے۔ وہ آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر گر نہ پڑے مگر اس کے حکم سے۔ یقیناً اللہ لوگوں کے لیے بڑی شفقت رکھنے والا اور بڑی رحمت والا ہے۔ ۱۰۸*
۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے تم کو زندگی بخشی پھر وہی تم کو موت دیتا ہے اور وہی تم کو پھر زندہ کرے گا۔ در حقیقت انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ ۱۰۹*
۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر امت کے لیے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا تھا جس پر وہ چل رہی ہیں۔ ۱۱۰* لہٰذا اس معاملہ میں وہ تم سے نہ جھگڑیں۔ ۱۱۱* تم اپنے رب کی طرف دعوت دو۔ ۱۱۲* یقیناً تم سیدھی راہ پر ہو۔ ۱۱۳*
۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہ دو اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔
۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان اس بات کا فیصلہ کر دے گا جس میں تم اختلاف کر رہے ہو۔
ٍٍ۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اللہ اس کو جانتا ہے۔ یہ سب ایک کتاب میں درج ہے۔ ۱۱۴* بلاشبہ یہ اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔
ٍٍ۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور نہ ان کے بارے میں ان کو کوئی علم ہی ہے۔ ۱۱۵* ان ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں۔
ٍٍ۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ان کو ہماری روشن آیتیں سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ ان کے چہروں سے ناگواری ظاہر ہو رہی ہے ۱۱۶* گویا وہ ان لوگوں پر حملہ کر بیٹھیں گے جو ہماری آیتیں ان کو سناتے ہیں۔ کہو میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے بھی بدتر چیز کیا ہے ؟ آگ جس کا اللہ نے کافروں سے وعدہ کر رکھا ہے۔ ۱۱۷* اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
ٍٍ۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے غور سے سنو اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے خواہ وہ سب اس کے لیے اکٹھا ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ ۱۱۸* اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو وہ اس سے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ ۱۱۹* طالب بھی کمزور اور مطلوب بھی کمزور۔ ۱۲۰*
ٍٍ۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے اللہ کی قدر نہیں پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔ بلا شبہ وہ قوت والا اور غالب ہے۔ ۱۲۱*
ٍٍ۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ فرشتوں میں سے بھی پیغامبر منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ ۱۲۲* وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ ۱۲۳*
ٍٍ۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ اور سارے معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ ۱۲۴*
ٍٍ۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! ۱۲۵* رکوع کرو ، سجدہ کرو ۱۲۶* اپنے رب کی عبادت کرو ۱۲۷* اور بھلائی کے کام کرو ۱۲۸* تاکہ تم کامیاب ہو۔
ٍٍ۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ ۱۲۹* اس نے تمہیں چن لیا ہے ۱۳۰* اور تمہارے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ۱۳۱ تمہارے باپ ابراہیم کا دین۔ ۱۳۲* اس نے (اللہ نے) تمہارا نام پہلے بھی مسلم رکھا اور اس (قرآن) میں بھی۔ ۱۳۳* تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ ۱۳۴* پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ کو مضبوط پکڑ لو۔ ۱۳۵* وہی تمہارا مولیٰ ہے۔ تو کیا ہی اچھا مولیٰ ہے اور کیا ہی اچھا مددگار!
۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب عام انسانوں سے ہے اور خطاب کی یہ عمومیت دلیل ہے کہ یہ سورۂ مدنی ہے نیز یہ کہ قیامت تک کے لوگ اس کے مخاطب ہیں۔
۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سورہ کا پہلا سبق یہی ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک سے ڈرے۔ خدائے واحد کا وجود کھلی حقیقت ہے اور اس کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس کے سامنے سرکشی کی جرأت نہ کرے، عبادت کا تعلق اپنے خالق سے جوڑنے کے بجائے مخلوق سے نہ جوڑے اور اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ڈرے کہ اس کی سزا اس کے ہاں بڑی سخت ہے اور قیامت کے ہر عمل کی جوابدہی اس کے حضور کرنا ہو گی۔
۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کا زلزلہ ایسا زبردست ہو گا کہ پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اور انسان کو کہیں عافیت نہیں مل سکے گی۔
۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے اس زلزلہ کی ہولناکی کی تصویر کہ زمین ایسی تھرتھرانے لگے گی کہ روئے زمین پر اس وقت جو لوگ بھی موجود ہوں گے وہ ہکا بکا رہ جائیں گے کہ یہ کیا معاملہ ہے ہر شخص کو جان کے لالے پڑے ہوں گے یہاں تک کہ جن ماؤں کی گود میں دودھ پیتے بچے ہوں گے وہ اپنے بچوں کو بھول جائیں گی اور جو عورتیں حاملہ ہوں گی ان کے حمل گر جائیں گے اور دہشت کی وجہ سے لوگوں کا یہ حال ہو گا کہ گویا وہ نشے میں مدہوش ہیں یعنی ان کے ہوش و حواس برقرار نہیں رہیں گے۔ یہ گویا روئے زمین پر اللہ کا آخری عذاب ہو گا جو قیامت کی شکل میں نمودار ہو گا۔ یہ اس موقع کی بات ہے جبکہ پہلا صور پھونکا جائے گا اور اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس وقت روئے زمین پر برے لوگ ہی بس رہے ہوں گے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ قیامت اشرار ہی پر قائم ہو گی: لاتَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلاّ عَلٰی شِرَارِ النَّاسِ۔"قیامت بدترین لوگوں ہی پر قائم ہو گی۔" (مسلم کتاب الفتن)
۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی محض قیاس و گمان اور مفروضات و نظریات کی بنیاد پر خدا کے بارے میں رائے قائم کرنے اور بحثیں کھڑی کرنے لگتے ہیں جب کہ یہ ایک ایسا نازک موضوع ہے کہ اس پر علم کے بغیر زبان کھولنا غیر ذمہ دارانہ پن کا ثبوت دینا ہے۔ اور علم کے معنی کسی چیز کو فی الواقع وہ جیسی ہے جان لینا ہے۔ خدا کے بارے میں صحیح معرفت کا ابتدائی ذریعہ تو انسانی فطرت ہے پھر وہ نشانیاں ہیں جو آفاق میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس کے بعد بہت واضح اور مکمل شکل میں وہ علم ہے جو انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوتا ہے۔
۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ اوپر کی آیت میں"ہر سرکش شیطان" سے مراد ابلیس اور اس کی فوج ہے۔
شیاطین اگرچہ انسانو ں میں بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کا گُرو ابلیس ہی ہے اس لیے جو گمراہی کا امام ہے اس کے شر سے متنبہ کر دیا گیا۔
ٍٍ۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کے مرنے کے بعد اٹھائے جانے کی جو خبر قرآن دے رہا ہے اس میں لوگ اس لیے شک کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد جسم فنا ہو جاتا ہے اسے دوبارہ جسم سمیت اٹھا کھڑا کرنا ایک ایسے پیش آنے والے واقعہ کی خبر ہے جو کبھی مشاہدہ میں نہیں آیا۔ اسی شک کو رفع کرنے کے لیے یہاں چند ایسی باتوں پر غور و فکر کی دعوت دی جا رہی ہے جو امر واقعہ ہیں۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ آدم کی تخلیق مٹی ہی سے ہوئی تھی۔ قرآن کے اس بیان کی تائید عام مشاہدہ سے بھی ہوتی ہے کہ مٹی سے غذا بنتی ہے اور غذا سے پرورش پا کر انسان زندہ رہتا ہے نیز یہ کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے اور انسان مر کر مٹی ہی میں مل جاتا ہے۔ لہٰذا جس ہستی کے لیے مٹی جیسے بے جان مادہ میں جان ڈالنا پہلی بار ممکن ہوا اس کے لیے مٹی میں ملے ہوئے انسان کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا کیا مشکل ہے ؟ اب اگر ہمیں یقینی ذریعہ سے یہ خبر مل رہی ہے کہ انسان کے خالق نے ا سکو مرنے کے بعد قیامت کے دن اٹھا کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ہم اسے کیوں صحیح تسلیم نہ کر لیں ؟
۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کے بعد اس کی نسل کا سلسلہ جس طریقہ سے چلایا اس کو ایک اہم دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بات کہ انسان کی پیدائش مادۂ منویہ کے اس قلیل جزو سے ہوتی ہے جسے نطفہ (پانی کی بوند) کہتے ہیں ایک معلوم حقیقت ہے اور قرآن کا استدلال اس عام اور معلوم حقیقت ہی سے ہے البتہ موجودہ دور میں علم الجنین (Embryology) نے جن حقائق کا انکشاف کیا ہے وہ قدرت الٰہی کی کرشمہ سازیوں کو نمایاں کر کے اس کو دعوتِ فکر دینے والی ہیں۔ چنانچہ ایک وقت میں جو مادۂ منویہ خارج ہوتا ہے اس میں دوسو ملین جراثیم حیات (Spermatozoa) ہوتے ہیں جبکہ ایک جرثومۂ حیات بیضۂ انثیٰ کو باردار (Fertilize) کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ بیضۂ انثیٰ عورت کے بیضہ دان (Ovary) سے ہر ماہ صرف ایک عدد خارج ہوتا ہے اور رحم سے متصل نلی (Fallopian Tube) میں آہستہ آہستہ سفر کرتا ہے۔ اگر جرثومۂ حیات کا ملاپ اس بیضہ سے ہوتا ہے تو بیضہ بار آور (Fertilize) ہو جاتا ہے یہ گویا حمل کا آغاز ہے۔
۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیضہ بار آور ہونے کے بعد چند دنوں میں جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر خون کا تھکا کچھ دنوں میں گوشت کا ٹکڑا بن جاتا ہے۔ یہ عمل قرار حمل کے چوتھے ہفتہ میں ہوتا ہے۔
۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی گوشت کا یہ ٹکڑا جو بغیر شکل و صورت کے تھا ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے جہاں وہ ایک خاص شکل (Shape) اختیار کرنے لگتا ہے او ر کبھی اس سے پہلے ہی اسقاط ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد علی البار نے علم الجنین (Embryology) کی تحقیقات کے پیش نظر قرآن و حدیث کے پیش کردہ حقائق کو اپنی کتاب "خلق الانسان بین الطب و القرآن" میں جو عربی میں ہے وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہوئے قرآن کے علمی اعجاز کو نمایاں کیا ہے۔ اسقاط کے مسئلہ پر موصوف لکھتے ہیں :
"اب ہم یہ جاننے لگے ہیں کہ اسقاط اکثر شکل بننے سے پہلے ہوتا ہے اور یہ مرحلہ علم الجنین کی اصطلاح میں تکوین الاعضاء (Organo Genesis) کہلاتا ہے اور اس کا آغاز حمل کے چوتھے ہفتہ سے ہوتا ہے اور آٹھویں ہفتہ تک رہتا ہے۔ (خلق الانسان ص ۴۰۷)
۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گویا رحم مادر (Womb) ایک قدرتی کارخانہ (Natural/Factory) ہے جس میں انسان ڈھلتا ہے اور اس طرح ڈھلتا ہے کہ ڈھالنے والے کا ہاتھ دکھائی نہیں دیتا مگر ایک قطرہ یا جرثومہ جن ارتقائی مرحلوں سے گزرکر انسان کا روپ اختیار کرنے کے مرحلہ میں پہنچتا ہے وہ نہایت ہی عجیب و غریب عمل (Process) ہے جو دعوت فکر دیتا ہے اور سوچنے والوں میں یقین پیدا کرتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک علیم و قدیر ہستی کا ہاتھ ہے اور انسان کی تخلیق اس کی قدرت کی کرشمہ سازیوں کا بین ثبوت ہے۔
۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنین (Embryo) حمل کے دن پورے ہو جانے کے بعد اس دنیا میں جنم لیتا ہے اور یہ اس کی طفولیت (بچپن) کا آغاز ہے۔ اس میں اس بات کی طرف واضح اشارہ موجود ہے کہ جنین کی دنیا رحم کی تنگ اور تاریک جگہ تھی جس کے بعد اس نے ایک وسیع دنیا میں جنم لیا۔ اب اگر اس کا خالق اس کو یہ خبر دے رہا ہے کہ اس دنیا سے گزر کر اسے اس سے وسیع دنیا (آخرت) میں داخل ہونا ہے تو اس میں شک کی کیا وجہ ہے ؟ کیا انسان اپنے کو اس دنیا ہی کے خول میں بند رکھنا چاہتا ہے ؟
۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا میں آنے کے بعد بھی انسان عمر کے مختلف مرحلوں سے گزرتا ہے۔ بچپن سے جوانی کی طرف اور جوانی سے بڑھاپے کی طرف یعنی کمال سے زوال کی طرف اور علم سے لا علمی (نسیان) کی طرف۔ پھر اگر موت کے بعد کے مراحل کی خبر دی جا رہی ہے تو یہ اس کے لیے کیوں ناقابل قبول ہے ؟
۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شک کو رفع کرنے کے لیے دوسری دلیل ہے۔ اس دنیا میں ہر وقت تغیرات ہوتے رہتے ہیں۔ زمین ابھی خشک تھی مگر جوں ہی پانی برسا سر سبز و شاداب ہو گئی اور اپنے خزانے اگلنے لگی۔ گویا مردہ زمین میں حیات تازہ پیدا ہو گئی کیا یہ مشاہدہ انسان کے اندر ایک قادر مطلق ہستی کا یقین پیدا نہیں کرتا اور اگر وحی الٰہی قیامت کے دن انسان کو اٹھائے جانے کی خبر دے رہی ہے تو اس پر ایمان لانے میں کیا چیز مانع ہے ؟ اگر زمین تغیرات کا منظر پیش کرتی رہتی ہے تو اس میں ایک زبردست تغیر کیوں ممکن نہیں اور اگر زمین اپنے خزانے اگلتی رہتی ہے تو قیامت کے دن اس کا مردوں کو اُگلنا کیوں بعید ہے ؟
۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مٹی سے انسان جیسی اعلیٰ مخلوق کی پیدائش اور اس کے بعد پانی کی ایک بوند سے اس کا سلسلۂ تناسل پھر طفولیت سے شباب کو پہنچنا اور اس کمال کے بعد ضعیف کا طاری ہو جانا اسی طرح خشک زمین کا سرسبز و شاداب ہو کر پُر رونق بن جانا ایک خالق کی خلاقی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ دنیا اتفاقی حادثہ ہوتی تو انسان کی تخلیق میں یہ تدریج ، حالات کا یہ تغیر اور ایک نقشہ اور پلاننگ کے ساتھ انسان کا وجود اس زمین پر ممکن نہ ہوتا۔ لہٰذا اللہ کا وجود ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے اور اس کے وجود یا اس کی وحدانیت سے انکار محض کٹ حجتی ہے۔
۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی مثالوں سے یہ بات بھی واضح ہے کہ اللہ بے جان مادوں میں جان ڈالتا رہتا ہے۔
۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رات دن مشاہدہ میں آنے والے یہ واقعات جن کا ذکر اوپر ہوااس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ اللہ کی ہستی ایک عظیم قدرت والی ہستی ہے اور اس کے لیے کوئی چیز بھی نا ممکن نہیں۔
۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے اس تخلیقی عمل سے جس کا ذکر اوپر کی آیت میں ہوا اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ قیامت کا وقوع اور مردوں کا اٹھایا جانا برحق ہے۔
"قبر میں جو ہیں" سے مراد مردے ہیں خواہ ان کی قبر بنی ہو یا نہ بنی ہو۔
دراصل انسانی زندگی کا عقیدہ قیامت اور دوسری زندگی کو ایک حقیقت مان لینے کی صورت ہی میں حل ہوتا ہے ورنہ کسی مفکر اور کسی فلسفی کے بس کی بات نہیں کہ وہ اس عقیدہ کو حل کر سکے۔ چنانچہ اس کے بغیر زندگی کا نہ کوئی سنجیدہ مقصد متعین کیا جا سکا ہے اور نہ اس پلاننگ کا کوئی نقشہ پیش کیا جا سکا ہے جو انسان کی پیدائش کے پیچھے کارفرما ہے۔ مثال کے طور پر آواگون (تناسخ) کا نظریہ ان بنیادی سوالات کا جواب دینے سے بالکل قاصر ہے اور اس سے زندگی کی کوئی گرہ کھلنے سے تو رہی البتہ مزید گرہیں پڑ جاتی ہیں اور ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے۔
۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم کی تشریح نوٹ ۵ میں گزر چکی ہے۔ ہدایت سے یہاں مراد وہ دلیل ہے جسے عقل سلیم پیش کرے اور روشن کتاب سے مراد آسمانی کتاب ہے۔ علم میں یہ دونوں چیزیں شامل ہیں مگر ان کی اہمیت کے پیش نظر ان کا ذکر یہاں خصوصیت سے کیا گیا۔
۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان لیڈروں کا حال بیان ہوا ہے جو خدا کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کا رویہ بڑا متکبرانہ ہوتا ہے۔
۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ خدا کے بارے میں تکبر کا رویہ اختیار کرتے ہیں ان کو اس دنیا ہی میں ذلت کا مزا چکھنا پڑتا ہے۔ مراد وہ رسوائی ہے جو اخلاق کی سطح پر ہوتی ہے اور جس کو وہی لوگ محسوس کرتے ہیں جن کی اخلاقی حِس تیز ہوتی ہے اگرچہ ذلیل ہونے والا شخص دنیا کی نظروں میں کتنا ہی معزز ہو۔
۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کا ہر عمل مستقبل میں ایک نتیجہ پیدا کرنے والا ہے اور انسان کے یہ کرتوت ہی ہوں گے جس کی بنا پر وہ جہنم کا مستحق قرار پائے گا۔
۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تصویر ہے ان لوگوں کی جو اللہ کو نہ صرف ماننے کا دعویٰ کرتی ہیں بلکہ اس کی عبادت بھی کرتے رہتے ہیں لیکن یکسو ہو کر نہیں بلکہ ذہنی تحفظات (Reservations) کے ساتھ۔ اگر خوشحالی میسر آئی تو خدا کے گن بھی گائیں گے اور اس کی پرستش بھی کریں گے لیکن اگر تکلیف اور مصیبت میں مبتلا ہو گئے تو اس سے بے تعلق ہو کر اس کے خلاف شکایت کرنے لگیں گے۔ ایسے لوگ دنیا میں بھی ان سعادتوں سے محروم ہو جاتے ہیں جو سچی خدا پرستی کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہو جاتی ہیں اور آخرت میں بھی وہ بالکل نامراد ہوں گے۔
واضح ہوا کہ خدا پرستی وہی معتبر ہے جس کی تہ میں وفا داری کا جذبہ ہو اور جس پر انسان نرم گرم ہر طرح کے حالات میں قائم ہے۔
۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا پرستی کی جگہ بت پرستی سراسر خلافِ حق اور یکسر باطل ہے۔ اب اگر کوئی شخص حقیقت (Reality) کے خلاف کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس پر راہ راست کا گم ہو جانا بالکل یقینی ہے۔
۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بتوں کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ اینٹ پتھر ہیں جو ہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان لیکن ان کو پوجنے والے یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنا خدائی وجود بھی رکھتے ہیں۔ ان کے اسی خیال کی نا معقولیت یہاں واضح کی جا رہی ہے کہ ان سے کسی فائدہ کی توقع تو دور کی بات ہے البتہ ان کی پرستش سے جو فوری اور لازمی نقصان پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ بندہ کا رشتہ اللہ سے ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ کسی اور کو حاجت روا ماننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایسا شخص اللہ کو واحد حاجت روا (الٰہ) نہیں مانتا۔ بالفاظ دیگر بتوں سے وفاداری اللہ سے بے وفائی کی قیمت پر ہوتی ہے اور یہ کھلا اور زبردست نقصان ہے۔
۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بتوں سے عقیدت پیدا کر کے انہوں نے اپنے لیے بہت برے کارساز اور ساتھی پیدا کر لئے ہیں جو ان کے لیے تباہی کا باعث ہیں۔
۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محلِ کلام دلیل ہے کہ یہاں ایمان لانے اور نیک عمل کرنے کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ ایسے لوگ اللہ ہی کو حاجت روا مان کر اس کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرتے ہیں اور اچھے برے ہر حال میں اس سے جڑے رہتے ہیں۔
۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس شخص کے لیے تہدید (تنبیہ) ہے جو ناخوشگوار حالات میں اللہ کی مدد سے مایوس ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جب اللہ دنیا میں میری مدد نہیں کر رہا ہے تو آخرت میں بھی نہیں کرے گا۔ اس طرح خدا سے مایوسی اس میں باغیانہ ذہنیت پیدا کر دیتی ہے۔ موجودہ زمانہ میں تو ایسے لوگ بہ کثرت دیکھے جا سکتے ہیں جو حوادث زمانہ کا شکار ہونے کی بنا پر خدا کو رحیم ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیتے ہیں۔ یہ خدا کے رحم اور اس کی مدد سے مایوسی ہی ہے جس نے خدا کے بارے میں ان کے اندر جھنجھلاہٹ پیدا کر دی ہے۔ ایسے لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ خدائی منصوبہ کے خلاف کوئی تدبیر کر سکتے ہیں تو کر دیکھیں۔ اگر وہ رسی تان کر آسمان پر چڑھ سکتے ہیں تو چڑھیں اس کے بعد اس رسی کو بھی کاٹ دیں تاکہ دنیا سے ان کا تعلق بالکل منقطع ہو جائے۔ ایسا کر کے وہ دیکھ لیں کہ ان کا غم و غصہ دور ہوتا ہے یا نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی مدد میں تاخیر کو دیکھ کر انسان اگر اس سے مایوس ہو جاتا ہے اور اس کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے تو اس سے کیا فائدہ ؟ وہ کوئی ایسی تدبیر تو کر نہیں سکتا کہ خدائی منصوبہ سے آزاد ہو جائے یا اس آزمائشی دنیا سے نکل کر کسی اور دنیا میں چلا جائے۔ اس لیے صحیح راہِ عمل یہی ہے کہ وہ اللہ سے امیدیں وابستہ رکھے اس کو اپنا حقیقی سہارا سمجھے اور ناسازگار حالات میں بھی اس پر بھروسہ کرے کہ وہ اس کی ضرور مدد کرے گا۔
واضح رہے کہ اس آیت میں جس طرح آسمان تک رسی تان دینے کی بات کہی گئی ہے اسی طرح سورۂ ص میں آسمان پر چڑھ جانے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ اَمْ لَہُمْ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا فَلی رْتَقُوْانِی الْاَسْبَابِ" کیا یہ آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی موجود ات کے اقتدار کے مالک ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو یہ آسمانوں میں چڑھ جائیں۔" (سورۂ ص : ۱۰)
ظاہر ہے اس آیت میں جو فرمایا گیا کہ آسمانوں میں چڑھ جائیں تو اس سے مقصود کافروں کی بے بسی کو ظاہر کرنا ہے اسی طرح آیت زیر تفسیر میں یہ جو فرمایا گیا کہ ایسا شخص آسمان تک رسی تان لے تو اس سے بھی مقصود اس کی بے بسی کو ظاہر کرنا ہے۔
۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں قرآن کی رہنمائی بالکل واضح اور مدلّل ہے لیکن اس سے روشنی اسی کو ملتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ بینائی عطا کرے۔
۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ان چھ مذہبی گروہوں کا ذکر ہوا ہے جو اس وقت عرب اور اس کے اطراف میں موجود تھے یعنی مسلمان یہودی، صابی، نصاریٰ، مجوس اور مشرک۔
صبائی کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۸۶ میں گزر چکی۔
مجوس سے مراد آتش پرست لوگ ہیں جو اپنے کو زرتشت کا پیرو قرار دیتے ہیں۔ اس وقت ایران کا یہی مذہب تھا۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۳
مشرک سے مراد متعدد خداؤں کو ماننے والے ، غیر اللہ کی پرستش کرنے والے اور بت پرست ہیں۔ عرب سے باہر کے دسرے مشرکانہ مذاہب خواہ وہ کسی نام سے پکارے جاتے ہوں اسی کے تحت آتے ہیں۔
ان میں سے ہر گروہ اس بات کا مدعی ہے کہ خدا اور مذہب کے معاملہ میں صحیح راہ وہی ہے جس کو وہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ اہل مذاہب کے ان دعوؤں اور الجھی ہوئی باتوں کو باطل قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ سچائی کی راہ اہل ایمان کی راہ ہے یعنی ان لوگوں کی جو قرآن کی دعوت کو قبول کرتے ہیں بالفاظ دیگر مخلص مسلمان جن کا دین اسلام ہے۔ اس کے باوجود اگر لوگ اپنے اپنے مذہب ہی سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں تو قیامت کے دن وہ اس کا نتیجہ دیکھ لیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ اس نزاع کا فیصلہ فرمائے گا۔
۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ رعد نوٹ ۳۸ اور سورۂ نحل نوٹ ٍٍ۔ ۷۱
اس آیت میں اس بات پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ اس کائنات کی تمام مخلوقات خواہ وہ جان دار ہوں ، نباتات ہوں یا جمادات اپنے خالق کے آگے جھکی ہوئی ہیں اور اپنے اپنے طریقہ پر اسی کو سجدہ کر رہی ہیں۔ مختلف علامتوں سے ان کی سجدہ ریزی کا اظہار ہوتا ہے اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے بکثرت لوگ اللہ کے آگے جھکتے ہیں لیکن بہ کثرت لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی مرضی سے اس کے حضور جھکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں پر عذاب کا کوڑا لازماً برسنے والا ہے۔ ان کے اس غلط رویہ کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ یہ کائنات اللہ ہی کے آگے سربسجود ہے اور جب یہ حقیقت ہے تو تم اپنا رویہ اس کے مطابق کیوں نہیں بنا لیتے ؟
یہ آیت سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت پر سجدہ کرنا ضروری ہے۔
۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایک مومنوں کا گروہ ہے جو قرآن پر ایمان لاتا ہے اور دوسرا کافروں کا گروہ ہے جو قرآن پر ایمان نہیں لاتا خواہ وہ کتنی ہی مذہبی فرقہ بندیوں میں بٹا ہوا ہو۔
۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دردناک عذاب کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر جن کا احساس مردہ ہو گیا ہو وہ اس کا کیا اثر قبول کر سکتے ہیں۔
۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیات سے واضح ہے کہ یہاں ایمان لانے کے مفہوم میں دو باتیں بدرجہ اولیٰ شامل ہیں۔ ایک توحید اور دوسرے قیامت کے دن اٹھایا جانا۔ جو لوگ اس طرح ایمان لائیں اور ان کی زندگیاں بھی نیکی کی آئینہ دار ہوں ان کو قیامت کے دن جس اعزاز و ا کرام سینوازا جائے گا اس کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے۔ یہ تقابل بھی لائق غور ہے کہ کافروں کے لیے جہاں آگ کے کپڑے قطع کئے جائیں گے وہاں اہل ایمان کو ریشم کا لباس پہنایا جائے گا۔ دنیا کی زندگی ایک امتحانی اور عبوری دور ہے اس لیے یہاں نعمتوں کے استعمال کے سلسلہ میں کچھ شرعی پابندیاں بھی ہیں لیکن جنت کی زندگی انعام کے طور پر ہو گی اس لیے وہاں نہ صرف یہ کہ نعمتوں کے استعمال میں کوئی روک ٹوک نہیں ہو گی بلکہ شاہانہ زندگی بسر کرنے کا سارا سامان مہیا کر دیا جائے گا اور اہل جنت کو زیورات اور لباس سے اس طرح آراستہ کیا جائے گا گویا ہر مؤمن ایک دولہا ہے اور ہر مؤمنہ ایک دلہن۔
۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد کلمۂ توحید ہے۔
۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی راہ جس کے لیے تمام خوبیاں ہیں اور جو اس کا مستحق ہے کہ اس کے گن گائے جائیں۔
۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں کو روکتے ہیں کہ وہ اللہ کا دین (اسلام) قبول نہ کریں۔
۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس صورت حال کی طرف کہ جو مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آ گئے تھے ان پر مشرکین مکہ نے حرم کے دروازے بند کر دیئے تھے وہ نہ حج کر سکتے تھے اور نہ عمرہ۔
۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسجد حرام پر کسی کی اجارہ داری صحیح نہیں کہ جس کو چاہیں زیارت کرنے دیں اور جس کو چاہیں روکیں۔ یہ مرکز توحید ہے اور اہل توحید کو خواہ وہ زمین کے کسی خطہ یا گوشہ میں رہتے ہوں یہ حق ہے کہ وہ یہاں آ کر خدائے واحد کی بندگی کریں۔ اس مسجد کے دروازے کسی پر بھی بند نہیں ہیں اور اس معاملہ میں اہل مکہ اور غیر اہل مکہ کا کوئی امتیاز نہیں ہے لہٰذا اہلِ توحید میں سے کسی کو حج یا عمرہ کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔
مسجد حرام کی اس حیثیت کے پیش نظر دنیا کی کسی حکومت کو خواہ وہ مسلمانوں کی ہو یا غیر مسلموں کی یہ حق نہیں پہنچتا کہ حج اور عمرہ کے سلسلہ میں ناروا قانونی پابندیاں عائد کرے اور نہ اس سرزمین پر حکومت کرنے والوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ویزا وغیرہ کی ایسی پابندیاں عائد کرے کہ عازمین کے لیے بلا وجہ کی دشواریاں پیدا ہوں۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ حرم میں قیام و طعام کے سلسلہ میں ایسے طور طریقے اختیار ہ کئے جائیں جن سے بیت اللہ کی زیارت کرنے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہو اور ناجائز انتفاع (لوٹ کھسوٹ Exploitation) تو یہاں شدید جرم ہے۔
۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو شخص مکہ میں رہتے ہوئے ظلم و زیادتی کے ساتھ ان مقاصد سے انحراف کرے گا جن کے لیے یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے وہ اللہ کی طرف سے درد ناک سزا کا مستحق ہو گا۔
ظلم سے مراد کھلی معصیت کے کام ہیں جن میں شرک بدرجۂ اولیٰ شامل ہے اور اِلحاد (انحراف) سے مراد مسجد حرام کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنا بھی ہے اور بے دینی پھیلانا بھی۔ اس آیت کا واضح اشارہ مشرکین مکہ کی طرف ہے جو بیت اللہ کے اصل مقصد (توحید) سے ہٹ گئے تھے اور بت پرستی کو وہاں رائج کیا تھا لیکن بات عمومیت کے ساتھ کہی گئی ہے اس لیے اس کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جو وہاں شرک و بدعت کو رائج کرنے کی کوشش کرے۔ اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ جو نام نہاد مسلمان کسی شر کے ارادہ سے یا تخریبی کارروائی کی غرض سے مکہ آنا چاہتے ہوں ان کے داخلہ پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خانۂ کعبہ کی تعمیر کے لیے سرزمین مکہ کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا تھا اور اس کے لیے جگہ کا ٹھیک ٹھیک تعین بھی اسی نے کیا تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جو کچھ کیا وہ اللہ کے حکم کی تعمیل تھی۔
واضح رہے کہ قرآن کریم خانۂ کعبہ کا معمار حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قرار دیتا ہے اور اس بات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتا کہ اس کی تعمیر تو حضرت آدم نے کی تھی پھر یہ طوفان نوح کی زد میں آگیا تھا اور حضرت ابراہیم نے اس کی صرف تجدید کی۔ کسی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں ہے اس لیے جن روایتوں کو بنیاد بنا کر مفسرین اس طرح کی باتیں کہتے ہیں وہ قرآن کے صریح بیان سے مطابقت نہ رکھنے کی بنا پر اس قابل نہیں ہیں کہ کسی تفسیر میں جگہ پائیں۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ آل عمران نوٹ ۱۱۷)
۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہدایت ابراہیم علیہ السلام کو اس لیے دی گئی تھی تاکہ اول روز ہی سے بیت اللہ کی تعمیر کا مقصد واضح ہو جائے اور ان کے پیرو اس ہدایت کو حرزِ جان بنا لیں۔ گھر کو پاک رکھنے کا مطلب خاص طور سے بتوں سے پاک رکھنا ہے نیز ہر قسم کی آلائشوں سے بھی۔
۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب خانۂ کعبہ کی تعمیر ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ حج کی عام منادی کر دیں۔ اس منادی کا مطلب یہ تھا کہ
اولاً یہ گھر کسی مخصوص قبیلہ ، قوم یا علاقہ کے رہنے والوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ تمام لوگوں کے لیے عبادت گاہ ہے۔ لوگ یہاں آئیں اور اللہ ہی کی عبادت کریں۔ ثانیاً اس گھر کی خصوصیت یہ ہے کہ حج کی عبادت اسی سے وابستہ ہے۔ حج کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ وہ مخصوص شکل میں اللہ کے حضور حاضری ہے اور توحید کا نقش دل میں بٹھا کر اس سے گہری محبت و ابستگی اور اس کے لیے قربانی کے جذبات پیدا کرنے والی عبادت ہے۔ ثالثاً حج کی عام دعوت در حقیقت توحید کو قبول کرنے اور خدائے واحد کی عبادت کرنے کی عام دعوت تھی۔ یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ لوگ اپنے رب کی طرف لپکیں اور اس کی عبادت کے لیے اس گھر کو مرجع بنائیں۔
۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اتنی دور سے آئیں گے کہ سفر کی وجہ سے اونٹ دبلے ہو گئے ہوں گے۔ ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں صحرائی سفر طے کرنے کا ذریعہ اونٹ ہی تھے اس لیے اس کا ذکر ہوا اور آج تو کاروں ، بسوں ، اسٹیمروں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ لوگ دور دور کے علاقوں سے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے حج کے لیے آتے ہیں اور ہر سال مسجد حرام میں دو ملین (بیس لاکھ) سے زائد توحید کے پروانوں کا اجتماع ہوتا ہے۔
۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ اپنے معاشی اور مادی فائدے دیکھ لیں کیونکہ حج کا حکم اس طرح کے فائدوں کے لیے نہیں دیا گیا ہے بلکہ مراد دینی فائدے ہیں کیونکہ حج نہایت افضل عبادت ہے۔ مشہور مفسر علامہ حصاس لکھتے ہیں : "منافع (منفعتوں) سے بالخصوص دنیا کی منفعتیں ہرگز مراد نہیں ہو سکتی کیونکہ اس صورت میں حج کی دعوت کا مطلب یہ ہو گا کہ دنیا کی منفعتیں حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے حالانکہ حج کا مطلب طواف، سعی، وقوف عرفہ و مزدلفہ، قربانی اور دیگر منا سک کی ادائیگی ہے۔ دنیوی منفعتیں اس میں طبعاً داخل ہیں اور صرف رخصت کے درجہ میں ہیں حج کا مقصد نہیں ہیں۔" (احکام القرآن ج۳ ص ۲۳۷)
حج کے دینی فائدوں میں سب سے بڑا اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری کا تصور ہے چنانچہ حج کے دوران لبیک (خدا حاضر ہوں) کی صدا بلند کی جاتی ہے۔ پھر بیت اللہ اور شعائر اللہ کا مشاہدہ ایمان کی تقویت، اللہ کی محبت اور اس سے گہری وابستگی کا باعث ہوتا ہے۔ اللہ کے لیے صبر کرنے اور اس کی راہ میں مجاہدہ کرنے نیز اطاعت و تسلیم اور قربانی کے اعلیٰ جذبات کی پرورش کا سامان ہوتا ہے۔ اسلام کی تاریخ کے نقوش ابھر کر سامنے آتے ہیں حضرت ابراہیم و حضرت اسمعیلؑ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے جن کے کارہائے نمایاں سے خانۂ کعبہ کی تاریخ کے ابواب روشن ہیں عقیدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بیت اللہ کے زیر سایہ مسلمانوں کا عالمگیر اور روح پرور اجتماع امت مسلمہ کے مقصد وجود کو محسوس شکل میں پیش کرتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ کے حضور تواضع اور بندی اور اس سے ملاقات کا احساس ایک ایسی روح (Spirit) پیدا کرتا ہے جو دنیا میں مومنانہ اور متقیانہ زندگی گزارنے کے لیے ایک زبردست قوت اور متاعِ عزیز ہے۔ رہیں مادی اور دنیوی برکتیں تو وہ حج کے ضمنی فوائد ہیں۔
۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد یوم النحر اور ایام تشریق ہیں۔ یعنی ذی الحجہ کی دسویں گیارہویں ، بارہویں اور تیرہویں تاریخ۔ حدیث میں آتا ہے : کُلُّ اَیَّامِ الْتِّشرِیْقِ ذِبْحٌ" سب ایام تشریق ذبح کے دن ہیں۔ "
یہ مسند احمد کی حدیث ہے اور اسے علامہ ناصر الدین البانی نے منا سک الحج و العمرہ میں نقل کر کے لکھا ہے کہ یہ حدیث میرے نزدیک اسناد کے تمام طریقوں سے صحیح ہے۔ (کتاب مذکور صفحہ ۳۴)
۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ قربانی (ہدی) ہے جو حج کے منا سک میں سے ہے یہ قربانی ان جانوروں کی جائز ہے جو مویشی (انعام) یعنی پالتو ہوں۔ یہ چار ہیں اونٹ ، گائے ، دنبہ اور بکری خواہ نر ہوں یا مادہ۔ (یہ بات سورۂ انعام آیت ۱۴۴۷۔ ۱۴۳ سے بھی واضح ہے اور حدیث سے بھی۔ اور فقہ السنۃ کے مؤلف سید سابق نے لکھا ہے کہ اس پر اجماع ہے۔ کتاب مذکور ج ۱ ص ٍٍ۷۳۷)
۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی صراحت ہے کہ قربانی (ہدی) کا گوشت کھانے اور کھلانے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے یعنی اس کا حکم سوختی (جس کا گوشت آگ کھا لے) کا سا نہیں ہے جو یہود کے لیے تھی جیسا کہ بائبل سے واضح ہے بلکہ یہ سادہ اور آسان شریعت ہے جو طریقۂ ابراہیم کے ٹھیک مطابق ہے۔
قربانی کا گوشت محتاجوں کو کھلانے کی خاص طور سے ترغیب دی گئی ہے لیکن اس کو قربانی کا اصل مقصد نہیں قرار دیا گیا بلکہ اصل مقصد جیسا کہ اوپر کے فرقہ سے واضح ہے مویشی چوپایوں کو الہ کے نام پر قربان کرنا ہے یعنی یہ ایک عبادت کی نوعیت کی چیز ہے اور اس سے حاصل ہونے والے دوسرے فوائد ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔
مشرکین جانوروں کی قربانی بتوں اور دیوی دیوتاؤں کے نام پر کرتے رہتے ہیں لیکن اسلام نے اس طریقہ عبادت کو الہ کے لیے خاص کر دیا ہے جس کو اختیار کر کے آدمی توحید پر قائم ہو جاتا ہے اس لیے اگر حالات کی مجبوری سے گوشت کو کسی مصرف میں نہ لایا جا سکتا ہو تب بھی قربانی کرنا ضروری ہو گا اللہ کے نام پر جانور کی قربانی پیش کرنے سے قربانی کا اصل مقصد تو حاصل ہوہی جاتا ہے اور گوشت کا کسی مصرف میں آنا اس کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ حدیث میں بھی اہراق دم (جانور کا خون بہانے) کو افضل عمل قرار دیا گیا ہے اور اس عمل کی اصل قدر و قیمت اسی وقت سمجھ میں آ سکتی ہے جبکہ آدمی توحید کی اہمیت کو سمجھتا ہو اور عبادت الٰہی کی قدرت و قیمت جانتا ہو۔
اگر قربانی کی اصل اہمیت گوشت کی ہوتی تو سابقہ شریعت میں قربانی کے گوشت کو جلانے کا حکم نہ ہوتا لیکن جن لوگوں کی نگاہ قربانی کی حقیقت پر نہیں بلکہ اس کے گوشت پر ہوتی ہے وہ بعض ایسے حالات میں جبکہ قربانی کے گوشت کا انتظامی دشواریوں کی بنا پر کوئی مصرف نہیں ہوتا قربانی کو عبث سمجھ کر اس کا دل صدقہ کی شکل میں تجویز کرنے لگتے ہیں حالانکہ کسی ایسی چیز کا جو تعبدی نوعیت کی ہو بدل تجویز کرنے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں اور اگر عبادت کے معاملہ میں ہم نے عقلی گھوڑے دوڑانا شروع کئے تو دین کا پورا نظام متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔
۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی احرام کی پابندیوں کی وجہ سے جو میل کچیل ہو جاتا ہے اسے دور کریں۔ احرام کی حالت ایک مخصوص حالت ہوتی ہے جس میں بال کٹوانا، ناخن ترشوانا اور خوشبو لگانا ممنوع ہے اس لیے جسم کی صفائی کا وہ اہتمام نہیں ہو پاتا جو عام حالت میں ہوتا ہے مگر قربانی کے بعد سر کے بال منڈائے یا ترشوائے جاتے ہیں اور احرام اتارا جاتا ہے۔
۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "نذر" کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۴۵۰۔ یہاں نذر کا ذکر خاص طور سے اس لیے ہوا کہ کسی نے قربانی کی نذر مانی ہے تو وہ اس موقع پر اسے پورا کر دے۔
۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کے مخاطبین کے پیش نظر خانۂ کعبہ کو قدیم گھر سے تعبیر کیا گیا کیونکہ نزول قرآن سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل حضر ت ابراہیم و حضرت اسمعٰیل علیہم السلام کے ہاتھوں اس کی تعمیر ہوئی تھی اس کا قدیم ہونا اس کی تاریخی حیثیت کو واضح کرتا ہے۔
سرمنڈانے یا بال کتروانے کے بعد منیٰ سے مکہ پہنچنا اور بیت اللہ کا طواف کرنا ضروری ہے اسے طواف افاضہ یا طوافِ زیارہ کہا جاتا ہے اور یہ حج کارکن ہے۔
۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حرمتوں میں شعائر بھی شامل ہیں اور منا سک بھی۔ شعائر میں کعبہ، مسجد حرام، صفا و مروہ اور قربانی کے جانور جیسی خدا پرستی کی نشانیاں شامل ہیں اور ان کی تعظیم اسی طور سے مطلوب ہے جس طور سے کہ اسے مشروع قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر صفا و مروہ کی تعظیم کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے درمیان سعی کی جائے۔ اس سعی کے دوران آدمی صفا اور مروہ پر پاؤں رکھتا ہے لیکن اس پر پاؤں رکھنا تعظیم کے خلاف نہیں ہے۔ اسی طرح مسجد حرام سے نکلتے ہوئے آدمی کی پیٹھ خانۂ کعبہ کی طرف ہوتی ہے مگر یہ اس کی تعظیم کے خلاف نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اس کو تعظیم کے خلاف سمجھ کر الٹے پاؤں چلتا ہے تو یہ تعظیم نہیں بلکہ بدعت ہو گی۔ اسی طرح جو غلاف خانۂ کعبہ پر چڑھایا جانے والا ہو اس کے لیے کوئی جلوس وغیرہ کا اہتمام کرتا ہے تو اس کا شمار بھی بدعت ہی میں ہو گا کیونکہ تعظیم کا یہ طریقہ دین میں ایک نئے طریقہ کا اضافہ ہے۔
۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے سورۂ نحل کی آیت۱۱۵ کی طرف جس میں مرد وغیرہ کی حرمت بیان ہوئی ہے۔
مویشیوں کے حلال ہونے کا ذکر یہاں اوپر کے بیان کی مناسبت سے ہوا ہے۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ نے اپنی قائم کردہ حرمتوں کی تعظیم کا حکم ضرور دیا ہے لیکن شرک اور وہم پرستی کی بنیاد پر لوگوں نے جو حرمتیں قائم کی ہیں ان کی تعظیم کا حکم اس نے ہرگز نہیں دیا ہے۔ مشرکین مکہ نے بحیرہ اور سائبہ وغیرہ کے نام سے جن مویشیوں کو حرام ٹھہرایا تھا اس کے باطل ہونے کی طرف یہ اشارہ ہے۔ گائے کی تقدیس بھی اسی حکم میں ہے۔
۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بتوں کی گندگی سے مراد عقیدہ و عمل کی وہ گندگی ہے جو بت پرستی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اوہام و خرافات اور ذہنی خباثت میں مبتلا رہتے ہیں۔
انسان کے نفس کا تزکیہ کرنے والی چیز عقیدۂ توحید اور ایمان ہی ہے شرک تو انسان کے باطن کو نجاست سے بھر دیتا ہے۔
۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بت پرستی اور شرک کی وجہ سے انسان خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہنے لگتا ہے جو بالکل جھوٹ اور باطل ہوتی ہیں ایسے لوگ خود ساختہ مذہبی رسومات کو ادا کرتے ہیں اور مخصوص جانوروں کی تقدیس کا حکم لگاتے ہیں اور جب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آ جاتا ہے تو وہ قانون سازی کے ذریعہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حلال کو حرام اور اس کے ٹھہرائے ہوئے حرام کو حلال قرار دیتے ہیں۔
حدیث میں شہادتِ زور (باطل کی گواہی) کوسنگن گناہ قرار دیا گیا ہے۔
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الا اُنَبِّئُکمْ باَکبر الکبائرِ؟ قلنا بَلٰی یارسول اللّٰہ؟ قال: الاشراک باللّٰہ، وُعقُوق الوالدین، وکانَ مُتّکئِاً فجلس فقالَ: اَلاَ وقول والزُّور و شہادۃ الزور۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ بڑے بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ کون سے ہیں ! ہم نے عرض کیا ضرور اے اللہ کے رسول۔ فرمایا: "اللہ کا شریک ٹھہرانا اور والدین سے قطع تعلق" آپ آرام فرما تھے کہ اٹھ بیٹھے اور فرمایا: "سنو جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی۔ "
۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی توحید کی راہ اختیار کرو اور اس پر قائم رہو کسی قسم کے شرک کی آمیزش کے بغیر۔
۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شرک کے انجام کی مثال ہے۔ انسان جب شرک کرتا ہے تو فطرت کی بلندی سے گرتا ہے۔ بلندی سے گرتے ہی اسے شیاطین پرندوں کی طرح اچک لے جاتے ہیں اور اس کے پرخچے اڑا دیتے ہیں۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ جب وہ بلندی سے گرا تو ہواؤں نے اسے دور لے جا کر کسی گڑھے میں پھینک دیا اور واقعہ یہ ہے کہ شرک کے نتیجہ میں انسان خواہشات کا شکار ہو جاتا ہے اور خواہشات اسے پستی کی طرف لے جا کر تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ چنانچہ ایک مشرک میں کبھی فکری بلندی پیدا نہیں ہو پاتی بلکہ وہ ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے پستی ہی کی طرف مائل رہتا ہے۔
۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شعائر کی تعظیم محض رسمی بات نہیں بلکہ اس کا تعلق دل کے تقویٰ سے ہے۔ شعائر کو دیکھ کر اللہ کی عظمت کا تصور پیدا ہوتا ہے اور اللہ کی عظمت کا تصور خوف اور پرہیزگاری پیدا کرتا ہے۔
۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ھَدْی (حج کی قربانی) کے جانوروں کا دودھ پیا جا سکتا ہے اور ان سے سواری کا فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ پھر ان کو قربان کرنے کی جگہ بیت اللہ کے پاس ہے۔ حدیث میں صراحت ہے کہ قربانی منٰی میں بھی کی جا سکتی ہے اور مکہ میں بھی۔ وَکُلُّ مِنٰی وَکُلُّ فِجَاجِ مَکَّۃَ مَنْحَر۔ "منیٰ پورا قربان گاہ ہے اور مکہ کے تمام راستے قربان گاہ ہیں۔" (ابوداؤد کتاب الصیام)
گویا قربان گاہ بیت اللہ کے جوار سے منی تک وسیع ہے لیکن چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حج کے موقع پر منیٰ میں قربانی کی تھی اس لیے منیٰ میں قربانی کرنا مسنون ہے اور مسجد حرام کے ماحول کی نظافت کے پیش نظر یہی مناسب ہے۔
۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس سے پہلے دوسری شریعتوں میں قربانی کے طریقے مختلف رہے ہیں مثلاً اہل کتاب میں سوختی (آتشیں) قربانی کا طریقہ رائج تھا (احبار ۲۲:۱۷تا ۳۳) لیکن قربانی کا اصل اصول تمام شریعتوں میں یہی تھا کہ صرف اللہ کے لیے قربانی کی جائے۔ اس کے بخشے ہوئے جانوروں کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا یا قربان کرنا کسی شریعت میں بھی روا نہیں رہا۔ اس لیے جن مذاہب میں اللہ کے سوا کسی اور کے لیے قربانی کا طریقہ رائج ہے وہ ایک مشرکانہ بدعت ہے۔ اللہ کے دین اور اس کی شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے قربانی کی اصل اسپرٹ کہ آدمی توحید کا اقرار کرے ، اپنے کو مکمل طور پر اس کے حوالہ کرے اور اپنے اندر عجز و نیاز کی صفت پیدا کرے۔ جانور کو زمین پر گرا دینے کا مطلب در حقیقت اپنے کو اللہ کے آگے گرا دینا ہے۔
۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اہل ایمان کی اہم ترین خصوصیت ہے کہ جہاں اللہ کا ذکر ہوا دل کانپ اٹھے۔ اللہ کے معاملہ میں وہ بڑے حساس ہوتے ہیں۔ اور اس کے ذکر سے ان کے دل دھڑکنے لگتے ہیں۔
۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود اونٹ کے ذبیحہ کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور مشرکین غیر اللہ کے لیے اونٹ کو نامزد کرتے تھے۔ قرآن نے اس کے برعکس اللہ کے نام پر اونٹ کو ذبح کرنا جائز ٹھہرایا اور اس کی قربانی کو شعائر اللہ میں سے قرار دیا۔
۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اونٹ کو ذبح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو کھڑا کر کے اس کے حلق میں برچھی چبھو دی جائے۔ یہ طریقہ "نَحر" کہلاتا ہے۔ اس طرح خون بہنے لگتا ہے اور اونٹ خود بخود اپنے پہلو پر گر جاتا ہے۔ اگر اونٹ جیسے جانور کو لٹا کر ذبح کرنے کا حکم ہوتا تو اس میں دشواری ہوتی۔ ان کو صف بستہ کھڑا کرنے میں عبادت الٰہی کی شان کا بھی اظہار ہے۔
۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ذبح کرنے کے بعد جب ان کی جان نکل جائے تو ان کا گوشت کھانے کے کام میں لاؤ۔
۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہَدْی (حج کی قربانی) کا گوشت خود بھی کھا سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی کھلا سکتا ہیں۔ ضرورت مندوں کو خواہ وہ قناعت پسند ہوں یا سائل، کھلانے کی خاص طور سے ہدایت کی گئی ہے۔
۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے قربانی کی اصل روح اور اس کی غایت کہ اللہ کو اس کا خون اور گوشت مطلوب نہیں بلکہ تقویٰ (خدا خوفی اور پرہیزگاری) مطلوب ہے۔ اور قربانی کی عبادت اسی لیے مشروع ہوئی ہے تاکہ تقویٰ کے جذبات پرورش پائیں۔
قابیل کی قربانی کے قبول نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس کی پشت پر تقویٰ کا جذبہ کار فرما نہ تھا (سورۂ مائدہ آیت ۲۷) ۔
۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی حکم کی تعمیل میں قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر (اللہ کے نام سے اللہ سب سے بڑا ہے) کہا جاتا ہے۔
۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حج کا بیان اوپر ختم ہوا۔ اب کلام کا رخ جہاد کی طرف پھر رہا ہے جو ظلم کو دفع کرنے کے لیے بھی ضروری تھا اور مسجد حرام کو مشرکوں کے تسلط سے آزاد کرنے کے لیے بھی۔
۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاد کا حکم بیان کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل ایمان کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ وہ ان کی طرف سے مدافعت کرے گا یعنی کفر و اسلام کی جنگ میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اہل ایمان کو حاصل ہو گی اور وہ کافروں کی چالوں کو ناکام کر دے گا۔ ایسا اس لیے کرے گا کہ وہ خیانت کرنے والوں اور نا شکری کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ قریش اور ان کے ساتھی خائن ہیں کیونکہ خانۂ کعبہ کی جو امانت ان کے سپرد ہوئی تھی اس میں وہ اس خیانت اور بد عہدی کے مرتکب ہوئے کہ اس میں بت لا کر بٹھا دیئے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنے کے بجائے شرک اور ناشکری کی راہ اختیار کی۔
۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ پہلی آیت ہے جس میں جہاد (اللہ کی راہ میں جنگ) کرنے کی اجازت دی گئی یہ ۰۱ھ کے اواخر کی بات ہے۔ اس آیت میں جنگ کی اجازت کے دو وجوہ بیان کئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ مشرکین مکہ نے اہل ایمان کے خلاف خود جنگ چھیڑ دی ہے چنانچہ صورتحال یہ تھی کہ جہاں وہ موقع پاتے مسلمانوں کے ایک نہ ایک گروہ پر حملہ کر دیتے یعنی مدینہ میں بھی ان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا گیا بلکہ ان کے خلاف جارحانہ حملوں کا آغاز کر دیا گیا۔ (اس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں ملتی ہے) دوسری وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ اہل ایمان مظلوم ہیں ان کا مظلوم ہونا بالکل ظاہر ہے کیونکہ ان کو ناحق اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اب اگر وہ اپنی مدافعت میں تلوار اٹھاتے ہیں تو ایسا کرنے میں وہ بالکل حق بجانب ہیں۔
۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مشرکین مکہ نے اہل ایمان کو جو گھر سے بے گھر کیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ توحید کے قائل تھے اور شرک اور بت پرستی سے انہیں انتہائی نفرت تھی۔ ان کی یہ خوبی مشرکین کی نظر میں نہ صرف عیب بلکہ جرم تھی گویا اللہ کے وفادار بندوں کو اللہ کی زمین پر جینے کا حق نہیں ہے۔
۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اس سنت (قاعدہ) کا اعلان ہے جس کے مطابق وہ ظالم اور مفسد قوم کا سر کچلنے کے لیے کسی نہ کسی قوم کو اٹھاتا رہتا ہے اور دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی قوم یا گروہ ظلم پر اتر آیا ہے تو اس کو ہٹانے کا سامان کسی دوسری قوم یا گروہ کے ذریعہ ہوتا رہا ہے۔ اس کی مصلحت یہاں واضح فرما دی کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ عبادت گاہیں جن میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے خواہ وہ نصاریٰ کی ہوں یہود کی ہوں یا مسلمانوں کی ظالموں کے ہاتھوں کبھی مسمار ہو چکی ہوتیں۔
اس سنت الٰہی کو بیان کرنے سے مقصود یہاں یہ واضح کرنا ہے کہ قریش نے مسجد حرام کے تقدس کو باقی نہیں رکھا اور مدینہ کے مسلمانوں پر اس کے دروازے بند کر دئے ہیں۔ ان کے اس ظلم کو دفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے گروہ کو میدان میں لا رہا ہے۔
واضح رہے کہ آیت میں جن عبادت گاہوں کا ذکر ہوا ہے وہ یا تو اہل کتاب سے تعلق رکھتی ہیں یا مسلمانوں سے کیونکہ ان میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اس لحاظ سے وہ قابل احترام ہیں۔ رہے بت پرستوں کے مندر تو ان میں اللہ کا ذکر نہیں کیا جاتا بلکہ بتوں کو پوجا جاتا ہے اس لیے ان کی نوعیت مذکورہ عبادت گاہوں سے بالکل مختلف ہے۔
۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی مدد کرنے کا مطلب اس کے دین کی مدد کرنا اور اس کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے جہاد کرنا ہے ورنہ اللہ کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے بلکہ بندے اس کی مدد کے محتاج ہیں۔ آگے اللہ تعالیٰ کی دو صفتوں کا ذکر ہوا ہے۔ ایک یہ کہ وہ قوت والا ہے اور دوسری یہ کہ وہ غالب ہے۔ اس کے بعد کسی غلط فہمی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ ایک گروہ ایسا تیار ہو گیا ہے جس کو اگر اللہ تعالیٰ اقتدار بخشے تو وہ نماز اور زکوٰۃ جیسے دین کے بنیادی ارکان کو قائم کرنے والا ہو گا۔ وہ فساد کی جگہ زمین میں اصلاح کا کام کرے گا بھلائیوں کو پھیلائے گا اور برائیوں کو مٹائے گا۔
معلوم ہوا کہ جو لوگ ان خصوصیات کے حامل ہوں وہی اقتدار کے مستحق اور حکومت کرنے کے اہل ہیں۔
یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں ایک ایسا گروہ برپا ہو گیا تھا جو خلافت و حکومت کا اہل تھا چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عرب پر اقتدار حاصل ہوا تو آپ کے اصحاب اس کا مصداق ثابت ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب خلافت قائم ہوئی تو وہ اس کا عملی نمونہ تھے۔ مگر مسلمانوں کا ایک فرقہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں غلو کر کے صحابہ کرام کی پوری جماعت کو بجز چند اصحاب کے مطعون کرتا ہے اور تینوں خلفاء کو غاصب ٹھہراتا ہے۔ ان کا یہ اعتقاد اس بات سے صریح انحراف ہے جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے اور ان کی گمراہی کے لیے یہ ایک دلیل ہی کافی ہے۔
۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کسی بھی معاملہ کا آخری فیصلہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے اس لیے حالات کیسے ہی ہوں ہو جو کچھ چاہتا ہے ظہور میں آ کر رہے گا۔ یہ اشارہ تھا اس بات کی طرف کہ اہل ایمان کو بالآخر اقتدار حاصل ہو گا۔
۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر یہ آپ کو جھٹلاا رہے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اس سے پہلے بھی کتنی قومیں اپنے اپنے وقت کے پیغمبروں کو جھٹلا چکی ہیں۔ مثال کے طور پر نوح کو ان کی قوم نے جھٹلایا تھا اسی طرح عاد نے اپنے پیغمبر ہود کو اور ثمود نے اپنے پیغمبر صالح کی تکذیب کی تھی۔
۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مدین والوں نے اپنے پیغمبر شعیب کو جھٹلایا تھا۔
۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ کو ان کی قوم بنی اسرائیل نے نہیں جھٹلایا تھا بلکہ فرعون والوں نے جھٹلایا تھا۔
اس لیے مجہول کا صیغہ استعمال کیا گیا کہ "موسیٰ جھٹلائے گئے تھے۔"
۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمانے میں جب کہ قرآن نازل ہو رہا تھا تباہ شدہ قوموں کے آثار عرب کے مختلف علاقوں میں موجود تھے اور یہ اس بات کا تاریخی ثبوت تھا کہ انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانے کے نتیجہ میں یہ قومیں اللہ کے عذاب کا نشانہ بنیں۔
کنویں صحرا میں بڑی اہمیت رکھتے تھے مگر جب بستیاں تباہ ہو گئیں تو یہ بیکار ہو کر رہ گئے۔ اسی طرح شاندار محل ویران ہو گئے۔
۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ لوگ سفر کرتے رہتے ہیں اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار ان کے مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں مگر وہ کبھی ان کو عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔
یہی حال موجودہ زمانہ کی اثری تحقیقات کرنے والوں اور آثار قدیمہ کی زیارت کرنے والوں کا ہے کہ وہ ان چیزوں کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ ان گزری ہوئی قوموں نے آرٹ کے کیسے نمونے پیش کئے اور ان کی تہذیب کیا تھی؟ رہی یہ بات کہ انہوں نے زمین میں بناؤ کا کام کیا یا بگاڑ کا؟ اپنے رب کے ساتھ شکر گزاری کا رویہ اختیار کیا تھا یا نا شکری کا؟ انہوں نے جو نمونے پیش کئے ہیں وہ آرٹ کے ہیں یا اسراف کے ؟ ان کی تہذیب دنیا پرستانہ تھی یا آخرت کو نصب العین قرار دینے والی؟ تو ان باتوں سے وہ تعرض ہی نہیں کرتے کیوں کہ ان کو ان باتوں سے دلچسپی ہی نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ کہ حقیقت تک ان کی رسائی نہیں ہو پاتی۔
۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دل کے اندھا ہونے کا مطلب بصیرت سے محروم ہونا ہے آدمی سر کی آنکھوں سے ظاہری حالات کو دیکھتا ہے مگر ان کے اندر حقیقت تک رسائی کا جو سامان ہے اس کو دیکھنے کے لیے دل کی آنکھیں درکار ہوتی ہیں یعنی بصارت کے ساتھ بصیرت کی بھی ضرورت ہے۔ ورنہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود آدمی کچھ بھی نہیں دیکھتا۔ یہی دل کا اندھا پن ہے۔ آیت میں جس اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ انسان کے تمام باطنی قویٰ کا مرکز قلب (دل) ہے جو سینہ کے اندر ہوتا ہے یعنی اس کا باطن حدیث نبوی میں بھی اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا گیا ہے :
اَلاَ وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الجَسَدُ کُلُّہٗ وَ اِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلاَ وَہِیَ الْقًلْبُ (بخاری کتاب الایمان) "اچھی طرح سمجھ لو کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست حالت میں رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے آگاہ ہو جاؤ کہ وہ قلب ہے۔ "
اور واقعہ یہ ہے کہ انسان کے تمام احساسات و جذبات کا مرکز دل ہی ہے جبکہ دماغ کی حیثیت ایک سوچنے والے آلہ اور ایک معاون کی ہے۔ محبت و نفرت ،دوستی اور دشمنی، خلوص اور بدنیتی، ہمدردی اور شقاوت، سبق آموزی اور بے حسی جیسی باتیں دل ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس لیے اگر قرآن نے عقیدہ و عمل کے لیے اصل محرک قلب کو قرار دیا ہے تو اس نے درحقیقت ایک بہت بڑی حقیقت کی نشاندہی کی ہے۔
۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہو کہ وقت کے جو پیمانے تم نے قائم کئے ہیں اور جس کی بنا پر تم عجلت اور تاخیر کا حکم لگاتے ہو وہی پیمانے اللہ کے ہاں بھی ہیں۔ نہیں بلکہ قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اس کے نزدیک وقت کا پیمانہ تمہارے پیمانوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے نزدیک ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ گویا کسی قوم کے لیے چند سالوں کی مہلت کائناتی گھڑی کے حساب سے محض چند منٹوں کی مہلت ہے۔
اب تو یہ بات انسان کے علم میں آ چکی ہے کہ مختلف سیاروں میں دن کی مقدار زمین کے دن کی مقدار سے مختلف ہوتی ہے لہٰذا اگر قرآن یہ خبر دیتا ہے کہ قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے وقت کا جو پیمانہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اس کی رو سے ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔
۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میرا کام تو اللہ کی نافرمانی کے نتائج بد سے آگاہ کر دینا ہے اس کے بعد ماننا یہ نہ ماننا تمہارا کام۔
۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت میں اہل ایمان کو جو رزق ملے گا وہ نہ صرف عمدہ اور نفیس ہو گا بلکہ اعزاز کے ساتھ ملے گا۔
۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات اصلاً کافروں کے تعلق سے کہی گئی تھی مگر موجودہ زمانہ میں ایسے مسلمانوں کی کمی نہیں جو اپنے سیاسی اور دنیوی مفادات کے پیش نظر قرآن کے احکام اور اس کی تعلیمات کو نیچا دکھانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں۔ یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ قرآن میں جو باتیں کافروں کے تعلق سے کہی گئی ہیں وہ کافروں کے لیے مخصوص ہیں بلکہ وہ اصولی باتیں ہیں اور ایک مسلمان کا کسی کافرانہ طرز عمل کو اختیار کرنا اتنا ہی قابل مذمت ہے جتنا کہ ایک غیر مسلم کا اس کو اختیار کرنا۔
۸۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول اور نبی میں منصب کی حقیقت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر اس کی ذمہ داریاں ایک نبی سے بڑھ کر ہوتی ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نبی بھی تھے اور رسول بھی۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ٍٍ۷۱۔
۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی بھی رسول اور نبی کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ جس حق کو لیکر وہ آیا ہے اس کو لوگ قبول کر لیں مگر جب وہ اپنی یہ دعوت پیش کرتا ہے تو شیطان لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کر کے پیغمبر اور اس کی دعوت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیتا ہے اور لوگوں کو اس کی مخالفت پر اکساتا ہے اس طرح شیطان پیغمبر کی امنگ میں خلل ڈالتا ہے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیتا ہے۔ آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ ایک طرف آپ کی یہ دلی تمنا تھی کہ آپؐ کی قوم آپ پر ایمان لائے اور دعوتِ حق کو قبول کر کے اللہ کی رحمتوں کی مستحق بن جائے اور دوسری طرف قوم کا طرز عمل یہ تھا کہ آپ کی دعوت کو برداشت کرنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں تھی یہاں تک کہ آپ کو مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس موقع پر آپ کو تسلی دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ آپ کے ساتھ جو معاملہ پیش آ رہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے پیغمبروں کے ساتھ ہمیشہ یہی معاملہ پیش آتا رہا ہے۔
۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسے مٹ جاتے ہیں اور حق اس طرح نکھر کر سامنے آ جاتا ہے جیسے بادلوں کے چھٹ جانے سے چاند روشن ہو کر سامنے آگیا ہو۔
قرآن کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ شیطان کی وسوسہ اندازی کے نتیجہ میں جو شبہات پیدا ہو گئے تھے ان کا ازالہ ہو گیا اور دین حق اس طرح جلوہ گر ہو گیا کہ اس پر کوئی غبار نہ تھا۔
۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی ان دو صفتوں کو یہاں بیان کرنے سے مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ جو کچھ نبی کے ساتھ پیش آتا ہے وہ مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے ساتھ جو معاملہ کرتا ہے وہ علم و حکمت پر مبنی ہوتا ہے لہٰذا یقین رکھو کہ شیطان نے جو شر پیدا کیا ہے اس کے مقابلہ میں اللہ خیر ابھارے گا۔
آیت کا جو مفہوم ہم نے اوپر بیان کیا وہ نہ صرف سیاق و سباق کے مطابق ہے بلکہ اس سے ملتی جلتی جو باتیں قرآن میں دیگر مقامات پر ارشاد ہوئیں ہیں اس سے بھی مطابقت رکھتا ہے لیکن بعض مفسرین نے ایک موضوع حدیث کا سہارا لیکر اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کو سورۂ والنجم سنا رہے تھے جس میں بت پرستی کی مذمت کی گئی ہے تو شیطان نے آپ کی زبان پر بتوں کے لیے تعریفی کلمات (تلک الغرانیق) جاری کر دئے یہی شیطان کا القاء تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے بعد میں منسوخ کر دیا جیسا کہ بعد کی آیت میں بیان ہوا ہے۔
یہ روایت ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر جامع البیان میں جو عربی کی مشہور اور قدیم ترین تفسیر ہے بلا تحقیق بیان کر دی۔ اس کے بعد کچھ دوسرے مفسرین نے مکھی پر مکھی چپکانے کا کام کیا لیکن اکثر مفسرین ، محدثین اور علماء نے اس کا سخت نوٹس لیا اور اس روایت کو موضوع اور باطل قرار دیا چنانچہ امام رازی نے اپنی تفسیر میں اس پر مفصل بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ قصہ موضوع ہے۔ (تفسیر کبیر ج ج۲۳ص۵۱)
"اس قصہ کی تمام روایتیں مرسل (منقطع) ہیں اور میرے دیکھنے میں نہیں آیا کہ کہیں صحیح اسناد کے ساتھ متصلاً بیان ہوا ہے۔" (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۲۲۹)
اور علامہ آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں :
بہت سے محققین نے اس قصہ کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ بیہقی کہتے ہیں یہ قصہ عقل کی رو سے ثابت نہیں ہوتا اور قاضی عیاض الشفاء میں فرماتے ہیں اس حدیث کو بے وقعت قرار دینے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اس کو اہل صحت (اصحاب صحاح ستہ) میں سے کسی نے بیان نہیں کیا اور نہ کسی ثقہ راوی نے اسے صحیح سلیم اور متصل سند کے ساتھ بیان کیا ہے بلکہ اس سے صرف ایسے مفسرین اور مورخین کو دلچسپی رہی ہے جنہیں ہر غریب (غیر معروف) روایت سے دلچسپی ہوتی ہے اور جو کتابوں سے ہر صحیح و سقیم روایت کو اخذ کرتے ہیں اور "بحر" میں ہے اس قصہ کے بارے میں امام محمد بن اسحاق السیرۃ النبویہ کے مؤلف سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا یہ زندیقوں کا گھڑا ہوا ہے۔" (روح المعانی ج ۶ ص ۱۷۷)
علامہ آلوسی نے اس قصہ کی تردید میں مبسوط بحث کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا آسان ہے کہ شیطان نے بعض راویوں کی زبان پر یہ بات القاء کر دی تھی بہ نسبت اس کے کہ رسولؐ اللہ کی زبان پر شیطان نے غرانیق (بتوں کی تعریف) کی بات القاء کی تھی۔ ملاحظہ ہو روح المعانی ج ۲ ص ۱۸۲) اردو میں علامی شبلی اپنی محققانہ تصنیف "سیرۃ النبیؐ" میں اس قصہ کو بے ہودہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
یہ قصبہ اگرچہ سرتاپا بیہودہ اور ناقابل ذکر ہے اور اکثر کبار محدثین مثلاً بیہقی، قاضی عیاض ، علامہ عینی، حافظ منذری، علامہ نووی نے اس کو باطل اور موضوع لکھا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ بہت سے محدثین نے اس روایت کو بہ سند نقل کیا ہے" (سیرت النبی ج ۱ ص ۲۲۴)
اور مولانا مودودی نے اپنی وقیع تفسیر"تفہیم القرآن" میں اس پر مبسوط اور مدلل بحث کرتے ہوئے اس روایت کے پرخچے اڑا دئے ہیں اور اخیر میں لکھا ہے :
"خدا کی پناہ اس روایت پرستی سے جو محض سند کا اتصال یا راویوں کی ثقاہت یا طرق روایت کی کثرت دیکھ کر کسی مسلمان کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بارے میں ایسی سخت باتیں تسلیم کرنے پر آمادہ کر دے۔" (تفہیم القرآن ج ۳ ص ۲۴۴)
دراصل یہ روایت اس قدر بیہودہ ہے کہ اس کو بیان کرنا بھی طبیعت پر گراں گزرتا ہے اسی لیے ہم نے اس کو پوری طرح نقل بھی نہیں کیا بلکہ اس کا خلاصہ بیان کرنے پر اکتفاء کیا۔ یہ روایت قرآن کی تصریحات کے بالکل خلاف اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر صریح بہتان ہے اس لیے اس کو رد کرنے کے لیے یہ ایک بات ہی کافی ہے مگر جو لوگ روایت پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی تاویل کے ذریعہ ایک ایسی بات کو بھی قبول کر لیتے ہیں جو قرآن کے خلاف ہوتی ہے۔ وہ راویوں پر کوئی حرف نہیں آنے دینا چاہتے اگرچہ پیغمبر کی شخصیت مجروح ہو رہی ہو۔ قبولِ حدیث کا یہ معیار سراسر غلط ہے خواہ فن حدیث کا کوئی ماہر ہی اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور کیوں نہ لگائے قرآن فرقان یعنی کسوٹی ہے اس لیے جو روایت اس کسوٹی پر کھوٹی ثابت ہو وہ رد اور باطل ہے۔ ایسی روایت کو فن حدیث کی بحثوں میں الجھا کر صحیح ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
اور جہاں تک آیت زیر تفسیر کا تعلق ہے اس میں تو یہ بات عمومیت کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ شیطان کس طرح ایک نبی کی امنگ میں خلل انداز ہوتا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسی سورۂ انعام آیت ۱۱۳، ۱۱۴ میں بیان ہوئی ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص قرار دیا جائے اور نہ اس تکلف کی ضرورت ہے کہ تَمنّٰی کے معنی معروف معنی سے ہٹ کر پڑھنے اور تلاوت کرنے کے لیے جائیں جیسا کہ متعدد مفسرین نے لیے ہیں۔ مزید برآں جو قصہ بیان کیا جاتا ہے وہ مکی دور سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا زمانہ ہجرت حبشہ کے کچھ عرصہ بعد کا بتایا جاتا ہے۔
جب کہ سورۂ حج مدنی تنزیل ہے جیسا کہ اس کے مضامین (ہجرت جہاد وغیرہ کے احکام اور حج سے مسلمانوں کو روک دینے کے بیان) سے ظاہر ہے اس لیے اس سورہ کی زیر تفسیر آیت کا اس شانِ نزول سے کوئی تعلق نہیں ہے جو اس قصہ میں بیان ہوا ہے۔
۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان حالات سے نبی کو اس لیے گزارتا ہے کہ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات ان لوگوں کے لیے وجہ آزمائش بن جائیں جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہو گئے ہیں۔ روگ سے مراد متعصبانہ اور مجرمانہ ذہنیت ہے اور دلوں کے سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہ نتیجہ ہے اسی گنہگارانہ ذہنیت کا۔ ایسے لوگ جب شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات کے ذریعہ آزمائش میں پڑتے ہیں تو وہ اس کے فتنہ کا شکارہو جاتی ہیں اور ان کے دلوں کا کھوٹ ابھر کر سامنے آ جاتا ہے اور ان کی مخالفت میں شدت پیدا ہو جاتی ہے۔
۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ جہالت کی تاریکی میں نہیں رہتے بلکہ علم کی روشنی میں چلتے ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کہ فضا شکوک و شبہات سے مکدر ہو گئی ہے تو سمجھتے ہیں کہ یہ سب شیطان کی فتنہ پردازی ہے اور نبی کی دعوت برحق ہے۔ حق و باطل کی یہ کشمکش ان کے لیے غیر متوقع نہیں ہوتی اور اس کشمکش کو دیکھ کر ان کے ایمان اور زیادہ پختہ ہو جاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں کہ اس آزمائش کے پیچھے اس کی عظیم حکمت کارفرما ہے۔
۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں وہ پیغمبر کی بات کسی دلیل سے ماننے والے نہیں۔ وہ اپنے انکار پر جمے رہیں گے اور ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں گی جب وہ قیامت کو دیکھ لیں گے یا اس عذاب کو جو کفر کی پاداش میں ان پر آئے گا۔
محرومی کے دن سے مراد خیر سے محرومی کا دن ہے۔ یعنی ہلاکت کا دن۔
۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قیامت کا دن ہے۔
۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہجرت اسلام میں وہی معتبر ہے جو اللہ کی راہ میں ہو یعنی جو خالصۃً اللہ کے لیے اور اس کے دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کی غرض سے کی گئی ہو حدیث میں آتا ہے :
اِنَّمَا الاَعْمَالُ بِالنِّیِ وانمالِامْرِیٔ مَّانَویَ فَمَنْ کَانَتْ ہَجرتُہُ اِلٰی اللّٰہِ ورسُولِہِ وَمَنْ کاَنَتْ ہِجرتُہُ اِلٰی دُنیا یُصیْبُہَا اَوْ اِمْراۃٍ یتزوجہا فہجرتُہُ الی مَاہَاجَرَ اِلیْہِ۔ (بخاری کتاب الایمان والنذر) "اعمال نیتوں پر موقوف ہیں۔ آدمی کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔ تو جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہے اور جس کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے و تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔ "
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نساء نوٹ ۱۷۷
۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد آخرت کا رزق ہے۔
۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ جانتا ہے کون لوگ اس انعام کے مستحق ہیں اور وہ ان کے ساتھ نہایت عالی ظرفی کے ساتھ معاملہ کرے گا۔
۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ان کے لیے آخرت میں یہ انعام ہے۔ رہی ان کی مظلومانہ زندگی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ان مظلوموں کی مدد فرمائے گا۔
ہجرت کے بعد مشرکین مکہ نے مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف جارحانہ کارروائی شروع کر دی تھی جیسا کہ آیت ۳۹ سے واضح ہے۔ مدینہ کے باہر سفر کرنے والے مسلمان پر ان کے حملوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس موقع پر مسلمانوں کو اس آیت کے ذریعہ ہدایت دی گئی کہ زیادتی کے جواب میں وہ ویسی ہی زیادتی کر سکتے ہیں اور اگر اس کے بعد زیادتی کا سلسلہ نہیں رکا تو اللہ تعالیٰ مظلوموں کی تائید اپنی نصرت خاص سے کرے گا چنانچہ جب مشرکین مکہ کی جارحانہ کارروائیوں کا سلسلہ نہیں رکا تو انہوں نے مظلوم اہل ایمان کے خلاف جنگی اقدام کیا تو بدر کے معرکہ میں اہل ایمان کے لیے نصرتِ الٰہی نازل ہوئی۔
۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مظلوم اہل ایمان کے لیے تسلی ہے کہ اللہ ان کے قصوروں کو معاف کر دے گا اور انہیں بخش دے گا۔
۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو ہستی رات اور دن کے ہیر پھیر پر قادر ہے وہ یقیناً اس بات پر بھی قادر ہے کہ ظلم کے گھٹاؤں کو ختم کر کے انصاف کی ہوائیں چلائے۔ پھر وہ اپنے مظلوم اور وفادار بندوں کی مدد کیو ں نہیں کرے گا جبکہ وہ سب کچھ سن بھی رہا ہے اور دیکھ بھی رہا ہے۔
۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مشرکین جب معبودوں کو پکارتے ہیں وہ باطل ہیں کسی کی مدد کرنے پر ہرگز قادر نہیں لیکن اللہ حقیقی معبود ہے اور وہ مدد کرنے پر یقیناً قادر ہے پھر وہ کفر و اسلام کی اس کشمکش میں اہلِ ایمان کی مدد کیوں نہیں کرے گا۔
۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں اللہ کی دو صفتیں علی اور کبیر بیان ہوئی ہیں۔ علی کی صفت اس کے مرتبہ کو ظاہر کرتی ہے اور کبیر کی صفت اس کی قدرت اور اقتدار کی عظمت کو۔
شرک کرنے والے اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو اس کی شان کے بھی خلاف ہوتی ہیں اوراس کے اقتدار کے بھی منافی۔ بالفاظ دیگر وہ اللہ کو مانتے بھی ہیں تو اس طرح کہ اس کے علی اور کبیر ہونے کی نفی کرتے ہیں جبکہ اللہ کو ماننا وہی معتبر ہے جس سے ان صفات کی نفی نہ ہوتی ہو جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔
۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگ بارش اور زمین کے سر سبز ہونے کے منظر کو دیکھتے ہیں مگر غور نہیں کرتے اگر غور کرتے تو خدا کی صحیح معرفت (پہچان) انہیں حاصل ہو جاتی۔ خشک زمین کا بارش کے چھینٹے گرتے ہی سرسبز ہو جانا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب ایک ایسی ہستی کی کار فرمائی ہے جو نہایت لطیف تدبیر کرنے والی اور حالات سے باخبر رہنے والی ہے۔ لہٰذا خدا کے بارے میں اس تصور کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ اس نے دنیا کے بارے میں اس تصور کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ اس نے دنیا کو پیدا تو کیا لیکن اب اس کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اس کی نہ اسے خبر ہے اور نہ اس سے اسے کوئی سروکار۔
۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو ہستی پوری کائنات کی مالک ہو وہ کب کسی چیز کی محتاج ہو سکتی ہے۔ اس لیے اللہ کی یہ صفت کہ وہ ہر قسم کی ضرورتوں سے بے نیاز ہے ایک واضح حقیقت ہے اور یہ حقیقت بالکل آشکار ہے کہ کمالات اور خوبیوں سے متصف اور تعریف کا مستحق ہے۔
۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری خدمت میں لگا دی ہیں۔
۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجرام سماوی کا فضائے بسیط میں معلق رہنا اور آسمان کا چھت کی صورت میں قائم رہنا اس طور سے کہ کبھی اس کا کوئی ٹکڑا زمین پر نہ گرے کیا یہ یقین انسان میں پیدا نہیں کرتا کہ کائنات کا رب انسان کے حق میں بڑا شفیق اور مہربان ہے !
۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی بہت بڑی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو بخشی ہے اور دوسری زندی اصلاً مکمل نعمت ہے بشرطیکہ انسان اس نعمت کا قدر شناس ہو اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرے۔ رہی موت تو وہ عارضی زندگی اور ابدی زندگی کے درمیان ایک عبوری مرحلہ ہے۔ مگر اس حقیقت کو نظر انداز کر کے انسان زندگی کی نعمت کو ضائع کر دیتا ہے اور اپنے رب کا ناشکرا بنتا ہے۔
۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سورۂ میں حج کے جو منا سک بیان کئے گئے اس پر بعض گوشوں سے اور خاص طور سے مدینہ کے یہود کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا ہو گا کہ اگر ے طریقۂ عبادت اللہ کی طرف سے مقرر ہے تو دوسرے نبیوں کی امتوں میں اللہ کی عبادت کے دوسرے طریقے کس طرح رائج ہو گئے۔ مثلاً یہود کی شریعت میں قربانی کا طریقہ تو ہے لیکن اونٹ کی قربانی کو شعائر اللہ میں سے نہیں قرار دیا گیا اسی طرح قربانی کے لیے حج کے ایام مخصوص نہیں کئے گئے ہیں یا یہ کہ یہود کے ہاں سبت منانے کا حکم ہے لیکن قرآن کی شریعت میں یہ حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اس شبہ کے ازالہ کے لیے یہاں فرمایا گیا کہ ہم نے ہر امت کے لیے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا تھا جس پر وہ چلتی رہی۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کے طور طریقے مقرر کرنے میں حالات کو لحاظ سے فرق رہا ہے۔ اب اگر اللہ کی حکمت کا یہ تقاضا ہوا کہ آخری نبی کی امت کے لیے ایک مخصوص طریقہ عبادت مقرر کر دیا جائے تو اس پر کسی کو اعتراض کا کیا حق ہے ؟ کیا اللہ کی عبادت کا طریقہ مقرر کرنے میں لوگوں کی مرضی کا دخل ہونا چاہیے یا اللہ کو یہ حق ہے کہ وہ جو طریقہ چا ہے مقر ر کر دے ؟
۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ اصول حقیقت ان لوگوں کے سامنے پیش کرنا کافی ہے۔ اس مسئلہ پر مزید بحث کی ضرورت نہیں۔
۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی عبادت کے طور طریقوں میں اختلاف کے مسئلہ پر بحث کو طول دینے کے بجائے اصل دعوت کو پیش کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اے پیغمبر جس طریقہ عبادت کو تم اختیار کئے ہوئے ہو وہ اس وحی کے مطابق ہے جو تم پر کی گئی ہے اس لیے تم ہدایت پر ہو اور ہدایت کی یہی راہ ہے جو سیدھی اللہ تک پہنچتی ہے۔
۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شرک کی تردید کے لیے جو آگے کی جا رہی ہے تمہید ہے کہ اللہ جس کو کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم ہے اور جس نے کائنات کی تمام موجودات اور واقعات کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے کا سامان کیا ہے اس کے علم میں تو یہ بات نہیں ہے کہ کہیں کسی اور خدا کا وجود ہے۔ اگر کوئی اور خدا یا دیوی دیوتا ہوتے تو اس کو اس کی خبر کیسے نہیں ہوتی؟
۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے سوا کسی اور کے مستحق عبادت ہونے کے بارے میں نہ وحی الٰہی کی کوئی حجت موجود ہے اور نہ کوئی عقلی و فطری دلیل جس کو علم سے تعبیر کیا جا سکے۔
۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چونکہ اللہ کی آیتوں میں خالصتہً توحید کا ذکر ہوتا ہے اور ان کے معبودوں کو باطل قرار دیا جاتا ہے اس لیے آیتوں کو سن کر ان کے چہروں پر ناگواری کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں۔
۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس ناگواری سے بھی بدتر چیز۔ مطلب یہ ہے کہ ناگواری کی بدترین کیفیت وہ ہو گی جو تم دوزخ میں محسوس کرو گے۔
۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکھی نہایت حقیر جاندار ہے اور جب مشرکین کے خدا سب مل کر بھی اتنی حقیر چیز پیدا نہیں کر سکتے تو کیا پیدا کر سکتے ہیں ؟ اور جب کچھ نہیں پیدا کر سکتے تو خدا کیونکر ہوئے ؟
۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ اپنے بتوں پر شہد اور زعفران لیپ دیتے تھے اور مشرکین ہند ان کے سامنے مٹھائی پیش کرتے ہیں۔ جبکہ اپنے خداؤں کے سامنے کھانا پیش کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ ان خداؤں کی بے بسی کا حال یہ ہے کہ اگر مکھی ان کے کھانوں میں سے کچھ اڑا لے جاتی ہے تو وہ اس کو واپس نہیں لے سکتے۔
۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پرستار بھی کمزور اور معبود بھی کمزور۔ ایسے معبودوں کی پرستش سے ان کے پرستاروں کو کیا فائدہ پہنچنے والا ہے ؟
اس عام فہم مثال کے ذریعہ شرک اور بت پرستی کی تردید اتنے موثر انداز میں کی گئی ہے کہ اس کے باطل ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لیکن انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اندھی عقیدت میں مبتلاہو جاتا ہے پھر وہ ہوش و حواس سے کام لینے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں بھی جبکہ "عقل" کی پرواز آسمانو ں میں ہے انسان اپنے رب حقیقی کو پا نہیں سکا ہے اور کتنی ہی قومیں ہیں جنہوں نے اینٹ پتھر کو خدا بنا لیا ہے۔
۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ زبردست طاقت والا اور سب پر غالب ہے۔ جس شخص کے ذہن میں اللہ کی عظمت کا یہ تصور ہو وہ کسی اور کے خدا ہونے کا قائل ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اللہ کے سوا نہ کوئی طاقتور ہے اور نہ غالب۔ شرک کرنے والے اس لیے متعدد خداؤں کے قائل ہوتے ہیں کہ ان کا تصور خدا صحیح نہیں ہوتا۔ وہ اللہ کی عظمت پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اسے فروتر خیال کرتے ہیں۔
۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین رسالت کے قائل نہیں ہوتے البتہ خدا کے لیے بیٹے بیٹیوں یا اوتار کے قائل ہوتے ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ اللہ اپنے خاص بندوں کو جو اونچے سے اونچا مقام عطا کرتا ہے وہ کیا ہے۔ فرمایا وہ مقام رسول (پیغامبر) ہونے کا ہے جو اللہ کا بندہ ہی ہوتا ہے نہ کہ خدا۔
اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے ان ہی میں سے ایسے افراد کو منتخب کرتا ہے جو اس کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے کی گراں بار ذمہ داری کو اٹھانے کے اہل ہوتے ہیں اور ان رسولوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے وہ فرشتوں میں سے پیغامبر منتخب کرتا ہے جو اللہ کا پیغام اس کے رسولوں پر وحی کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طریقہ پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا رسالت کے لیے انتخاب ہوا ہے۔
۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ پیغامبر اپنی ذمہ داریوں کو جس طرح ادا کرتے ہیں اس سے وہ بے خبر نہیں رہتا بلکہ وہ ان کی ہر بات سنتا اور ان کے ہر کام کو دیکھتا ہے۔
۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول ہونے کی بنا پر کسی کو بھی خدا کی پوزیشن حاصل نہیں ہوتی کہ لوگ اس کو مرجع قرار دیکر حاجت روائی کے لیے اس کو پکارنے لگیں۔ مرجع تو صرف اللہ ہے اسی کے حضور سارے معاملات پیش ہوتے ہیں اور وہی فیصلے صادر کرتا ہے۔
۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اختتامی آیتیں ہیں جن میں خطاب کا رخ اہل ایمان کی طرف ہو گیا ہے۔
۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رکوع اور سجدہ تعبیر ہے نماز سے۔
۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عبادت خواہ نماز کی شکل میں ہو، حج اور قربانی کی شکل میں یا کسی اور شکل میں اللہ ہی کے لیے جو تمہارا حقیقی رب ہے مخصوص ہونی چاہیے۔
۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھلائی (خیر) کے کاموں میں وہ تمام کام شامل ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مبنی ہوں اور جن کا فیض بندگانِ خدا کو پہنچتا ہو۔
۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں جہاد سے مراد وہ جہاد ہے جس میں قوت استعمال کی جائے اور مخالف طاقت کا زور توڑا جائے۔ "اللہ کی راہ میں" کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مقصد اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا ہو اور ان لوگوں سے جہاد کیا جائے جنہوں نے اپنے شرک اور کفر کی بنا پر للہ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہوں تاکہ لوگ اس کے دین کو قبول نہ کریں یا اس کے اہم ترین تقاضوں کو پورا نہ کریں۔ اس سورۂ میں گزر چکا کہ مشرکین مکہ نے اسلام کی راہ میں کیسی کیسی رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں اور مسلمانوں کے خلاف کس طرح طاقت کا استعمال کر رہے تھے۔ اسی پس منظر میں اہل ایمان کو نہ صرف جہاد کرنے بلکہ حق جہاد ادا کرنے یعنی پوری طرح تن من دھن کی بازی لگانے کا حکم دیا گیا۔ اور جہاد کی یہ اصولی ہدایت اپنے شرائط کے ساتھ قیامت تک کے لیے ہے۔ حدیث میں آتا ہے : لاتَزَالُ طائفۃٌ مِنْ اُمَّتِی یُقاتِلُون عَلٰی الْحَقِّ ظَاہِرِیْنَ الی یوم القیامۃ (مسلم کتاب الایمان) "میری امت کا ایک گروہ حق پر ہو کر قیامت تک لڑتا رہے گا اور غالب ہو گا۔ "
۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہیں یہ سعادت بخشی کہ اس کے دین کے علمبردار بن جاؤ اور لوگوں کے لیے مینارۂ ہدایت بنو۔
واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب کا گروہ جو ان آیات کا مخاطب اول تھا اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ گروہ تھا اس لیے مسلمانوں کو جو فرقے چند صحابہ کو مستثنیٰ کر کے اس پورے گروہ کو مطعون کرتے ہیں وہ ناقابل اعتبار روایتوں اور مسخ شدہ واقعات کی بنا پر جو تاریخ کی کتابو ں میں درج ہو گئے ہیں قرآن کی تصریحات سے انحراف کرتے ہیں۔ یہ لوگ اگر صاف ذہن سے قرآن کا مطالعہ کریں اور روایتوں کے مقابلہ میں قرآن کو مقدم رکھیں تو اس گروہ کے سچے قدر داں بن جائیں جس کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا تھا۔
۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس شریعت میں وہ سخت احکام نہیں ہیں جو اس سے پہلے کی شریعتوں میں رہے ہیں مثلاً سبت منانے کا حکم جو یہود کو دیا گیا تھا بڑا ہی سخت تھا اور یہ سخت احکام انہیں ان کی سرکشی کی بنا پر دئے گئے تھے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جو شریعت دی گئی ہے وہ کسی مخصوص قوم یا دور کے لیے نہیں ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ہے جو اپنی ترکیب میں آفاقی ہے اور قیامت تک کے لیے ہے اس لیے اس کو آسان بنا دیا گیا ہے اور اس میں زیادہ رخصتیں رکھی گئی ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی ایسا حکم دیا ہی نہیں گیا ہے جس کی بجا آوری اہل ایمان کے لیے مشکل ہو۔ اوپر جہاد کا حکم گزرچکا جو جان اور مال کی قربانی کا مطالبہ ہے اس لیے آیت کا صحیح مفہوم وہی ہو سکتا ہے جو قرآن کی دوسری تصریحات کے مطابق ہو۔
۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ وہی دینِ توحید ہے جو ابراہیم کا دین تھا نیز یہ شریعت بھی بنیادی طور سے وہی ہے جو ابراہیم کو دی گئی تھی۔ یعنی سادہ شریعت الحنیفیۃ السمحۃ اور جس میں حج اور اس کے منا سک بھی شامل ہیں۔
۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے تمہارا___ایمان لانے والوں کا____نام سابقہ امتوں میں بھی "مسلم، ہی رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی تمہارا یہی نام ہے یہ خیال صحیح نہیں کہ یہ نام حضرت ابراہیم کا رکھا ہوا ہے اور ان سے پہلے یہ نام نہیں رکھا گیا تھا۔ حضرت نوح نے جو حضرت ابراہیم سے بہت پلے گزرے ہیں اپنے مسلم ہونے کا اعلان کیا تھا۔ وَ اُمِرْتُ اَنْ اَکُونَ مِنَ المسلمین "اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بنکر رہوں" (سورۂ یونس ٍٍ۷۲)
یہ نام ان صفات کو ظاہر کرتا ہے جو اس کے معنی میں مضمر ہیں یعنی وہ جس نے اسلام کو قبول کر کے اپنے کو اللہ کے حوالہ کیا ہو اور اس کا فرمانبردار ہو۔
اس کے بعد مسلمانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کے رکھے ہوئے نام کی جگہ اپنا کوئی اور نام رکھیں یا اس پر کسی اور نام کا اضافہ کریں مگر مسلمانوں میں جب فرقہ بندیاں ہو گئیں تو ہر فرقہ نے اپنا ایک الگ نام رکھا اور آج تو مسلمان عام طور سے اپنے نام کے ساتھ کوئی نہ کوئی دم چھلا لگا دیتے ہیں جو ان کے مسلک وغیرہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے اصلاح بہت ضروری ہے۔ اپنے کو صرف مسلم کہنے پر اکتفا کرنا چاہیے جو اللہ کا رکھا ہوا نام ہے۔
۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان خصوصیات کی حامل امت بنا کر تمہیں اس لیے کھڑا کیا گیا ہے تاکہ تم اس دین کی لوگوں کے سامنے گواہی دو جس کی گواہی تمہارے سامنے دینے کے لیے رسولوں کو بھیجا گیا ہے۔
یہ حکم امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرے اور اس کے لیے اپنے تمام ممکنہ وسائل کو رو بہ کار لائے۔ دعوت و تبلیغ اور اشاعت دین وہ اہم ترین فریضہ ہے جس کی انجام دہی کے لیے یہ امت برپا کی گئی ہے مگر آج مسلمانوں میں اس کا احساس بہت کم پایا جاتا ہے اسلیے وہ محض ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے افراد بہت کم ہیں جن کو شہادتِ دین کی فکر ہو اور جو غیر مسلموں کے سامنے دین کی دعوت پیش کرتے ہوں۔
۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو مضبوط پکڑنے کا مطلب اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنا ہے اور تعلق باللہ اس کی صفات کے شعور، اس کی عبادت اور اطاعت ، اس سے محبت اور اس پر توکل کرنے سے مضبوط ہوتا ہے۔