تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ المؤمنون

۱۔۔۔  یعنی امانت اور قول و قرار کی حفاطت کرتے ہیں، خیانت اور بدعہدی نہیں کرتے نہ اللہ کے معاملہ میں نہ بندوں کے۔

۲۔۔۔   نمازیں اپنے اوقات پر آداب و حقوق کی رعایت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ بندوں کے معاملات میں پڑ کر عبادت الٰہی سے غافل نہیں ہوتے۔ یہاں تک مومنین مفلحین کی چھ صفات و خصال بیان کیں۔ (۱) خشوع و خضوع سے نمازیں پڑھنا، یعنی بدن اور دل سے اللہ کی طرف جھکنا۔ (۲) باطل لغو اور نکمی باتوں سے علیحدہ رہنا۔ (۳) زکوٰۃ یعنی مالی حقوق ادا کرنا یا اپنے بدن، نفس اور مال کو پاک رکھنا۔ (۴) شہواتِ نفسانی کو قابو میں رکھنا۔ (۵) امانت و عہد کی حفاظت کرنا گویا معاملات کو درست رکھنا۔ (۶) اور آخر میں پھر نمازوں کی پوری طرح حفاظت کرنا کہ اپنے وقت پر آداب و شروط کی رعایت کے ساتھ ادا ہوں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کا حق تعالیٰ کے یہاں کیا درجہ ہے اور کس قدر مہتم بالشان چیز ہے کہ اس سے شروع کر کے اسی پر ختم فرمایا۔

۴۔۔۔  ۱: جنت کے میراث ہونے پر پہلے کسی جگہ ہم لکھ چکے ہیں۔

۲:  کیونکہ سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام منتخب مٹی سے پیدا ہوئے اور ویسے بھی تمام بنی آدم نطفہ سے پیدا ہوتے ہیں اور نطفہ بھی مٹی سے نکلی ہوئی غذاؤں کا خلاصہ ہے۔

۶۔۔۔  یعنی رحم مادر میں جہاں سے کہیں ہل نہ سکے۔

۷۔۔۔  ۱: یعنی کچھ حصہ گوشت کا سخت کر کے ہڈیاں بنا دیں۔ اور ہڈیوں کے ڈھانچے پر پھر گوشت پوست منڈھ دیا۔ سورہ "حج" میں اسی کے قریب کیفیت تخلیق انسان کی بیان ہو چکی ہے۔

۲:  یعنی روح حیات پھونک کر ایک جیتا جاگتا انسان بنا دیا۔ جس پر آگے چل کر بچپن، جوانی، کہولت اور بڑھاپے کے بہت سے احوال و ادوار گزرتے ہیں۔

۳:  جس نے نہایت خوبصورتی سے تمام اعضاء و قویٰ کو بہترین سانچے میں ڈھالا اور اس کی ساخت عین حکمت کے موافق نہایت موزوں متناسب بنائی۔

۸۔۔۔  یعنی تمہارا وجود ذاتی اور خانہ زاد نہیں، مستعار اور دوسرے کا عطیہ ہے۔ چنانچہ موت آ کر سب نقشہ بگاڑ دیتی ہے۔ تم اس وقت اس کے زبردست پنجہ سے اپنی ہستی کو نہیں بچا سکتے۔ یقیناً کوئی اور قاہر طاقت تمہارے اوپر ہے جس نے وجود کی باگ اپنے ہاتھ میں تھام رکھی ہے جب چاہے ڈھیلی چھوڑ دے، جب چاہے کھینچ لے۔

۹۔۔۔  جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا وہ ہی دوبارہ بنا کر کھڑا کرے گا۔ تاکہ پہلے وجود کی مستور قوتیں اور اعمال کے نتائج اپنی کامل ترین صورتوں میں ظاہر ہو کر ثابت کر دیں کہ یہ اتنا بڑا کارخانہ کوئی بیکار اور بے نتیجہ ڈھونگ نہیں بنایا گیا تھا۔

۱۰۔۔۔   ۱: "طرائق" کے معنی بعض مفسرین و لغویین کے نزدیک طبقات کے ہیں۔ یعنی آسمان کے ساتھ طبقے اوپر نیچے بنائے۔ فہذا کما قال "کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقاً" (نوح، رکوع۱'آیت ۱۵) اور بعض نے طرائق کو راستوں کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی سات آسمان بنائے جو فرشتوں کی گزرگاہیں ہیں۔ بعض معاصر مصنفین نے "سبع طرائق" سے سات سیاروں کے مدارات مراد لیے ہیں۔ واللہ اعلم۔

۲:  ہر چیز پورے انتظام و احکام اور خبرداری سے بنائی ہے اور اس کی حفاظت و بقاء کے طریقوں سے ہم پورے باخبر ہیں۔ اجرامِ سماویہ اور مخلوقاتِ سفلیہ میں کوئی چیز نہیں جو ہمارے احاطہ علم و قدرت سے باہر ہو۔ ورنہ سارا انتظام ہی درہم برہم ہو جائے۔ " یَعْلَمُ مَایَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَایَخْرُجُ مِنْہَا وَمَایَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا"الخ (حدید، رکوع۱'آیت ۴۰)

۱۱۔۔۔  ۱: نہ اس قدر زیادہ کہ دنیا بے وقت اور بے موقع تباہ ہو جائے۔ اور نہ اتنا کم کہ ضروریات کو کافی نہ ہو۔

۲:  یعنی بارش کا پانی زمین اپنے اندر جذب کر لیتی ہے جس کو ہم کنواں وغیرہ کھود کر نکالتے ہیں۔

۳:  یعنی نہ اتارنا چاہیں تو نہ اتاریں اور اتارنے کے بعد تم کو اس سے منتفع ہونے کی دسترس نہ دیں مثلاً اس قدر گہرا کر دیں کہ تم نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکو، یا خشک کر کے ہوا میں اڑا دیں، یا کھاری اور کڑوا کر دیں، تو ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔

۱۲۔۔۔ یعنی ان کی بہار دیکھ کر خوش ہوتے ہو اور بعض کو بطور تفکہ اور بعض کو بطور غذا استعمال کرتے ہو۔

۱۳۔۔۔  یعنی زیتون کا درخت جس میں سے روغن نکلتا ہے جو مالش وغیرہ کے کام آتا ہے اور بہت ملکوں کے لوگ سالن کی جگہ اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اس درخت کا ذکر خصوصیت سے فرمایا کیونکہ اس کے فوائد کثیر ہیں اور خاص فضل و شرف رکھتا ہے۔ اسی لیے سورہ " التین" میں اس کی قسم کھائی گئی۔ جبل طور کی طرف نسبت کرنا بھی اس کی فضیلت و برکت ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ وہاں اس کی پیداوار زیادہ ہوتی ہو گی۔

۱۴۔۔۔  نباتات کے بعد یہ حیوانات کا ذکر ہوا، یعنی جانوروں کا دودھ ہم اپنی قدرت سے تم کو پلاتے ہیں۔ اور بہت کچھ فائدے تمہارے لیے ان کی ذات میں رکھ دیے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض جانوروں کا گوشت کھانا بھی حلال کر دیا۔

۱ ۵۔۔۔  یعنی خشکی میں جانوروں کی پیٹھ پر اور دریا میں جہازوں اور کشتیوں پر سوار ہو کر کہیں سے کہیں نکل جاتے ہو اور بڑے بڑے وزنی سامان ان پر بار کرتے ہو۔ کشتی کی مناسبت سے آگے نوح علیہ السلام کا قصہ ذکر فرماتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان سے کشتی بنوائی جو طوفانِ عظیم کے وقت مومنین کی نجات کا ذریعہ بنی۔ پھر نوح علیہ السلام کی مناسبت سے بعض دوسرے انبیاء کے واقعات بھی ذکر فرما دیئے۔ شاید یہاں ان قصص کے بیان میں یہ بھی اشارہ ہو گا کہ جس طرح اوپر کی آیات میں تمہاری جسمانی ضروریات کا انتظام مذکور تھا اسی طرح خداوند رحمان نے تمہاری روحانی حوائج و ضروریات کا سرا نجام کرنے کے لیے ابتدائے دنیا سے وحی و رسالت کا سلسلہ بھی قائم فرما دیا۔ یا یوں کہہ لو کہ اوپر قدرت کے نشانات بیان فرما کر توحید کی طرف متوجہ کرنا تھا۔ اس کی تکمیل کے لیے یہاں سے سلسلہ نبوت کا بیان شروع کر دیا۔ جس کے ضمن میں انبیاء اور ان کے متبعین کی خوش انجامی اور مکذبین و معاندین کی بد انجامی بھی ذہن نشین کر دی گئی۔

۱۷۔۔۔  ۱: یعنی اس میں اور تم میں فرق کیا ہے جو یہ رسول بن جائے تم نہ بنو۔

۲:  یعنی بڑا بن کر رہنا چاہتا ہے اس لیے یہ سب ڈھونگ بنایا ہے۔ ورنہ خدا کسی کو رسول بنا کر بھیجتا تو کیا یہ ہی اس کام کے لیے رہ گیا تھا۔

۳:  یعنی ہم نے ایسی عجیب بات کبھی نہیں سنی کہ ایک ہماری طرح کا معمولی آدمی خدا کا رسول بن جائے اور تمام دیوتاؤں کو ہٹا کر تنہا ایک خدا کی حکومت منوانے لگے۔

۱۸۔۔۔  معلوم ہوتا ہے کہ اس غریب کا دماغ چل گیا۔ بھلا ساری قوم کے خلاف اور اپنے باپ دادوں کے خلاف ایسی بات زبان سے نکالنا جو کوئی شخص باور نہ کر سکے کھلا جنون نہیں تو اور کیا ہو گا بہتر ہے چند روز صبر کرو اور انتظار کرو، شاید کچھ دنوں کے بعد اسے ہوش آ جائے اور جنون کے دورہ سے افاقہ ہو یا یوں ہی مر مرا کر قصہ ختم ہو جائے۔ (العیاذ باللہ)

۱۹۔۔۔  یعنی جب نوح کی ساری کوششیں بیکار ثابت ہوئیں، ساڑھے نو سو برس سختیاں جھیل کر بھی ان کو راہِ راست پر لانے میں کامیاب نہ ہوئے تو خدا سے فریاد کی کہ اب ان اشقیاء کے مقابلہ میں میری مدد فرمایئے۔ کیونکہ بظاہر یہ لوگ میری تکذیب سے باز آنے والے نہیں۔ اوروں کو بھی خراب کریں گے۔

۲۰۔۔۔ ۔۱: طوفان نوح۔ یہ قصہ پہلے سورہ،، ھود، وغیرہ میں گزر چکا ہے۔ وہاں ان الفاظ کی تفسیر ملاحظہ ہو۔ ف۷ یعنی کافروں کو، خواہ تیرے کنبہ کے ہوں سوار مت کر۔

۲:  یعنی حکم قطعی عذاب کا ہو چکا۔ یہ فیصلہ اٹل ہے، ضرور ہو کر رہے گا۔ اب ظالموں میں سے کسی کو بچانے کے لیے ہم سے سعی سفارش نہ کرنا۔

۲۱۔۔۔  یعنی ہم کو ان سے علیحدہ کر کے عذاب سے مأمون رکھ۔

۲۲۔۔۔  یعنی کشتی میں اچھی آرام کی جگہ دے اور کشتی سے جہاں اتارے جائیں وہاں بھی کوئی تکلیف نہ ہو۔ ہر طرح اور ہر جگہ تیری رحمت و برکت شامل حال رہے۔

۲۳۔۔۔  کہ کون ان نشانوں کو سن کر عبرت و نصیحت حاصل کرتا ہے کون نہیں کرتا۔ کما قال تعالیٰ "وَلَقَدْتَرَکْنٰہَآ ایٰۃً فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ" (قمر، رکوع۱'آیت ۱۵)

۲۴۔۔۔  یہ ذکر "عاد" کا ہے یا "ثمود" کا۔

۲ ۵۔۔۔  یعنی حضرت ہود یا حضرت صالح علیہما السلام۔

۲۶۔۔۔  ۱: یعنی اس کے معتقد نہ تھے کہ مرنے کے بعد ایک دن خدا سے ملنا ہے۔ بس دنیا کی زندگی اور اس کا عیش و آرام ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔

۲:  یعنی بظاہر کوئی بات اس میں تم سے سوا نہیں۔

۲۷۔۔۔  ۱: یعنی اس سے بڑی خرابی اور ذلت کیا ہو گی کہ اپنے جیسے ایک معمولی آدمی کو خواہ مخواہ مخدوم و مطاع ٹھہرا لیا جائے۔

۲:  یعنی کس قدر بعید از عقل بات کہتا ہے کہ ہڈیوں کے ریزے مٹی کے ذرات میں مل جانے کے بعد پھر قبروں سے آدمی بن کر اٹھیں گے؟ ایسی مہمل بات ماننے کو کون تیار ہو گا۔

۳۰۔۔۔  یعنی کہاں کی آخرت، اور کہاں کا حساب کتاب۔ ہم تو جانیں یہ ہی ایک دنیا کا سلسلہ اور یہ ہی ایک مرنا اور جینا ہے جو سب کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہتا ہے۔ کوئی پیدا ہوا، کوئی فنا ہو گیا آگے کچھ نہیں۔

۳۱۔۔۔  کہ میں اس کا پیغمبر ہوں اور وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کر کے عذاب و ثواب دے گا۔ یہ دونوں دعوے ایسے ہیں جن کو ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ خواہ مخواہ جھگڑنے اور درد سری کرنے سے کیا فائدہ؟

۳۲۔۔۔ یعنی آخر پیغمبر نے کفار کی طرف سے نااُمید ہو کر دعا کی۔

۳۳۔۔۔  یعنی عذاب آیا چاہتا ہے جس کے بعد پچھتائیں گے، اور وہ پچھتانا نفع نہ دے گا۔

۳۴۔۔۔  ۱: اس سے بظاہر مترشح ہوتا ہے کہ یہ قصہ "ثمود" کا ہے کہ وہ چنگھاڑ سے مرے ہیں۔ واللہ اعلم۔

۲:  جیسے سیلاب خس و خاشاک کو بہا لے جاتا ہے، اس طرح عذاب الٰہی کے سیل میں بہے چلے گئے۔

۳: یعنی خدا کی رحمت سے۔

۳۶۔۔۔  یعنی ہر ایک قوم جس نے پیغمبروں کی تکذیب کی ٹھیک اپنے اپنے وعدہ پر ہلاک کی جاتی رہی، جو میعاد کسی قوم کی تھی ایک منٹ اس سے آگے پیچھے نہ ہوئی۔

۳۷۔۔۔   ۱: یعنی رسولوں کا تانتا باندھ دیا یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے اور مکذبین میں بھی ایک کو دوسرے کے پیچھے چلتا کرتے رہے۔ ادھر پیغمبروں کی بعث کا اور ادھر ہلاک ہونے والوں کا نمبر لگا دیا۔ چنانچہ بہت قومیں ایسی تباہ و برباد کی گئیں جن کے قصے کہانیوں کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ آج ان کی داستانیں محض عبرت کے لیے پڑھی اور سنی جاتی ہیں۔

۲:  یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے۔

۳:  اس لیے خدائی پیغام کو خاطر میں نہ لائے۔ کبر و غرور کے نشہ نے ان کے دماغوں کو بالکل مختل کر رکھا تھا۔

۴۰۔۔۔  یعنی موسیٰ و ہارون کی قوم (بنی اسرائیل) تو ہماری غلامی کر رہی ہے ان میں کے دو آدمیوں کو ہم اپنا سردار کس طرح بنا سکتے ہیں۔

۴۲۔۔۔  یعنی فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد ہم نے ان کو تورات شریف مرحمت کی تاکہ لوگ اس پر چل کر جنت اور رضائے الٰہی کی منزل تک پہنچ سکیں۔

۴۳۔۔۔ ۱: یعنی قدرتِ الٰہیہ کی نشانی ہے کہ تنہا ماں سے بن باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کر دیا۔ جیسا کہ "آل عمران" اور سورہ "مریم" میں اس کی تقریر کی جا چکی۔

۲:  شاید یہ وہ ہی ٹیلہ یا اونچی زمین ہو جہاں وضع حمل کے وقت حضرت مریم تشریف رکھتی تھیں۔ چنانچہ سورہ مریم کی آیات "فَنَادَاہَامِنْ تَحْتِہَ ا اَنْ لَّاتَحْزَنِی قَدْجَعَلَ رَبُّکِ تَحْتِکَ سَرِیّاً وُہُزِّیْ اِلَیْکَ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَباً جَنِیّاً" دلالت کرتی ہیں کہ وہ جگہ بلند تھی۔ نیچے چشمہ یا نہر بہہ رہی تھی۔ اور کھجور کا درخت نزدیک تھا۔ (کذافسرہ ابن کثیر رحمہ اللّٰہ) لیکن عموماً مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ حضرت مسیح کے بچپن کا واقعہ ہے۔ ایک ظالم بادشاہ ہیردوس نامی نجومیوں سے سن کر کہ حضرت عیسیٰ کو سرداری ملے گی، لڑکپن ہی میں ان کا دشمن ہو گیا تھا اور قتل کے درپے تھا۔ حضرت مریم الہام ربانی سے ان کو لے کر مصر چلی گئیں اور اس ظالم کے مرنے کے بعد پھر شام واپس چلی آئیں۔ چنانچہ "انجیل متی" میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے اور مصر کا اونچا ہونا باعتبار رَودِ نیل کے ہے ورنہ غرق ہو جاتا اور "ماءِ معین" رودِ نیل ہے بعض نے "ربوہ" (اونچی جگہ) سے مراد شام یا فلسطین لیا ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ جس ٹیلہ پر ولادت کے وقت موجود تھیں وہیں اس خطرہ کے وقت بھی پناہ دی گئی ہو۔ واللہ اعلم۔ بہرحال اہل اسلام میں کسی نے "ربوہ" سے مراد کشمیر نہیں لیا۔ نہ حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر کشمیر میں بتلائی۔ البتہ ہمارے زمانہ کے بعض زائغین نے "ربوہ" سے کشمیر مراد لیا ہے اور وہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر بتلائی ہے جس کا کوئی ثبوت تاریخی حیثیت سے نہیں۔ محض کذب و در و غبافی ہے۔ محلہ "خان یار" شہر سری نگر میں جو قبر "یوز آسف" کے نام سے مشہور ہے اور جس کی بابت "تاریخ اعظمی" کے مصنف نے محض عام افواہ نقل کی ہے کہ "لوگ اس کو کسی نبی کی قبر بتاتے ہیں وہ کوئی شہزادہ تھا اور دوسرے ملک سے یہاں آیا" اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر بتانا پرلے درجہ کی بے حیائی اور سفاہت ہے۔ ایسی اٹکل پچوں قیاس آرائیوں سے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات کو باطل ٹھہرانا بجز خبط اور جنون کے کچھ نہیں اگر اس قبر کی تحقیق مطلوب ہو اور یہ کہ "یوز آسف" کون تھا تو جناب منشی حبیب اللہ صاحب امرتسری کا رسالہ دیکھو جو خاص اس موضوع پر نہایت تحقیق و تدقیق سے لکھا گیا ہے۔ اور جس میں اس مہمل خیال کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ عنا وعن سائر المسلمین احسن الجزاء۔

۴۴۔۔۔  ۱: یعنی سب پیغمبروں کے دین میں یہ ہی ایک حکم رہا کہ حلال کھانا حلال راہ سے کما کر۔ اور نیک کام کرنا۔ نیک کام سب خلق جانتی ہے۔ چنانچہ تمام پیغمبر نہایت مضبوطی اور استقامت کے ساتھ اکل حلال، صدق مقال اور نیک اعمال پر مواظبت اور اپنی امتوں کو اسی کی تاکید کرتے رہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ اسی طرح کا حکم جو یہاں رسولوں کو ہوا، عامہ مومنین کو دیا گیا ہے۔ اس میں نصاریٰ کی رہبانیت کا بھی رد ہو گیا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کا کھانا پینا، حرام کا ہو، اسے اپنی دعاء کے قبول ہونے کی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔ اور بعض احادیث میں ہے کہ جو گوشت حرام سے آگاہ ہو، دوزخ کی آگ اس کی زیادہ حق دار ہے۔ العیاذ باللہ۔

۲: یعنی حلال کھانے اور نیک کام کرنے والوں کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام کھلے چھپے احوال و افعال سے باخبر ہے۔ اسی کے موافق ہر ایک سے معاملہ کرے گا۔ یہ رسولوں کو خطاب کر کے امتوں کو سنایا۔

۴۶۔۔۔  ۱: یعنی اصول کے اعتبار سے تمام انبیاء کا دین و ملت ایک اور سب کا خدا بھی ایک ہے جس کی نافرمانی سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے۔ لیکن لوگوں نے پھوٹ ڈال کر اصل دین کو پارہ پارہ کر دیا اور جدی جدی راہیں نکال لیں۔ اس طرح آراء وا ہواء کا اتباع کر کے سینکڑوں فرقے اور مذہب بن گئے۔ یہ تفریق انبیاء نے نہیں سکھلائی۔ ان کے یہاں ازمنہ و امکنہ وغیرہ کے اختلاف سے صرف فروعی اختلاف تھا۔ اصول دین میں سب بالکلیہ متفق رہے ہیں۔ عموماً مفسرین نے آیت کی تقریر اسی طرح کی ہے۔ لیکن حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "ہر پیغمبر کے ہاتھ اللہ تعالیٰ نے جو اس وقت کے لوگوں میں بگاڑ تھا، اس کا سنوار فرمایا۔ پیچھے لوگوں نے جانا ان کا حکم جدا جدا ہے۔ آخر ہمارے پیغمبر کی معرفت سب بگاڑ کا سنوار (اور سب خرابیوں کا علاج) اکٹھا بتا دیا اب سب دین مل کر ایک دین ہو گیا۔" اور سب قومیں ایک جھنڈے تلے جمع کر دی گئیں۔

۲:  یعنی سمجھتے ہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں اور ہماری ہی راہ سیدھی ہے۔

۴۷۔۔۔  یعنی جن لوگوں نے انبیاء کی متفقہ ہدایات میں رخنے ڈال کر الگ الگ فرقے اور ملتیں قائم کر دیں ہر فرقہ اپنے ہی عقائد و خیالات پر دل جمائے بیٹھا ہے۔ کسی طرح اس سے ہٹنا نہیں چاہتا، خواہ آپ کتنی ہی نصیحت فرمائیں تو آپ بھی ان کے غم میں زیادہ نہ پڑیے بلکہ تھوڑی سی مہلت دیجئے کہ یہ اپنی غفلت و جہالت کے نشہ میں ڈوبے رہیں۔ یہاں تک کہ وہ گھڑی آ پہنچے جب ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔ یعنی موت یا عذاب الٰہی ان کے سروں پر منڈلانے لگے۔

۴۹۔۔۔   ۱: یہ ہی خیال ان کا تھا۔ چنانچہ کہتے تھے "نَحْنُ اَکْثَرُ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا وَّمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ" (سبا، رکوع۴'آیت ۳۵) یعنی ہم اگر خدا کے ہاں مردود و مبغوض ہوتے تو یہ مال و دولت اور اولاد وغیرہ کی بہتات کیوں ہوتی۔

۲:  یعنی سمجھتے نہیں کہ مال و اولاد کی یہ افراط ان کی فضیلت و کرامت کی وجہ سے نہیں امہال و استدراج کی بناء پر ہے۔ جتنی ڈھیل دی جا رہی ہے اسی قدر ان کی شقاوت کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ "سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ وَاُمْلِی لَہُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ " (اعراف، رکوع۲۳)

 ۵۰۔۔۔  یعنی باوجود ایمان و احسان کے کفار و مغرورین کی طرح "مکراللہ" سے مامون نہیں ہمہ وقف خوف خدا سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں کہ نہ معلوم دنیا میں جو انعامات ہو رہے ہیں استدراج تو نہیں۔ حسن بصری کا مقولہ ہے۔"اِنَّ الْمُومِنَ جمع اِحْسَانًا وَّشَفْقَۃً وَّاِنَّ الْمُنَافِقَ جَمَعَ اِسَاءَ ۃً وَاَمْنَا۔" (مومن نیکی کرتا اور ڈرتا رہتا ہے اور منافق بدی کر کے بے فکر ہوتا ہے)

 ۵۱۔۔۔  یعنی آیاتِ کونیہ و شرعیہ دونوں پر یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ ادھر سے پیش آئے عین حکمت اور جو خبر دی جائے بالکل حق اور جو حکم ملے وہ بہمہ وجوہ صواب و معقول ہے۔

 ۵۲۔۔۔  یعنی خالص ایمان و توحید پر قائم ہیں۔ ہر ایک عمل صدق و اخلاص سے ادا کرتے ہیں۔ شرک جلی یا خفی کا شائبہ بھی نہیں آنے دیتے۔

 ۵۳۔۔۔ یعنی کیا جانے وہاں قبول ہوا یا نہ ہوا، آگے کام آئے یا نہ آئے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کر کے یہ کھٹکا لگا رہتا ہے، اپنے عمل پر مغرور نہیں ہوتے، نیکی کرنے کے باوجود ڈرتے ہیں۔

 ۵۴۔۔۔  دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ کما قال تعالیٰ۔ "فَاَتَاہُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاَخِرَۃِ" (آل عمران، رکوع۱۵'آیت ۱۴۸) تو درحقیقت اصلی بھلائی اعمال صالحہ، اخلاق حمیدہ اور ملکات فاضلہ میں ہوئی نہ کہ اموال و اولاد میں، جیسے کفار کا گمان تھا۔

 ۵ ۵۔۔۔  یعنی اوپر جو اعمال و خصال بیان کیے گئے کوئی ایسے مشکل کام نہیں جن کا اٹھانا انسانی طاقت سے باہر ہو۔ ہماری یہ عادت نہیں کہ لوگوں کو تکلیف مالایطاق دی جائے۔ یہ سب باتیں وہ ہیں جن کو اگر توجہ کرو تو بخوبی حاصل کر سکتے ہو۔ اور جو لوگ سابقین کاملین کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتے انہیں بھی اپنی وسعت و ہمت کے موافق پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اسی کے مکلف ہیں۔ ہمارے یہاں صحائف اعمال میں درجہ بدرجہ ہر ایک کے اعمال لکھے ہوئے موجود ہیں جو قیامت کے دن سب کے سامنے کھول کر رکھ دیئے جائیں گے اور ان ہی کے موافق جزا دی جائے گی جس پر رتی برابر ظلم نہ ہو گا نہ کسی کی نیکی ضائع ہو گی۔ نہ اجر کم کیا جائے گا، نہ بے وجہ بے قصور دوسرے کا بوجھ اس پر ڈالا جائے گا۔

 ۵۶۔۔۔  یعنی آخرت کے حساب کتاب سے یہ لوگ غافل ہیں اور دنیا کے دوسرے دھندوں میں پڑے ہیں جن سے نکلنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی جو آخرت کی طرف توجہ کریں۔ یا یہ مطلب ہے کہ ان کے دل شک و تردد اور غفلت و جہالت کی تاریک موجوں میں غرقاب ہیں۔ بڑا گناہ تو یہ ہوا، باقی اس سے ورے اور بہت سے گناہ ہیں جن کو وہ سمیٹ رہے ہیں۔ ایک دم کو ان سے جدا نہیں ہوتے، اور جدا بھی کیونکر ہوں، جو کام ان کی سوءِ استعداد کی بدولت مقدر ہو چکے ہیں وہ کر کے رہیں گے اور لامحالہ ان کا خمیازہ بھی اٹھانا پڑے گا۔

 ۵۸۔۔۔  یعنی جب دنیاوی یا اخروی عذاب میں پکڑے جائیں گے تو چلائیں گے اور شور مچائیں گے کہ ہمیں اس آفت سے بچاؤ۔ بھلا وہاں بچانے والا کون؟ حکم ہو گا کہ چلاؤ نہیں، یہ سب چیخ پکار بیکار ہے۔ آج کوئی تمہاری مدد کو نہیں پہنچ سکتا نہ ہمارے عذاب سے چھڑا سکتا ہے۔ چنانچہ اس عذاب کا ایک نمونہ کفارِ مکہ کو بدر میں دکھلایا گیا جہاں ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے یا قید ہو گئے۔ عورتیں مہینوں تک ان کا نوحہ کرتی رہیں، سر کے بال کٹوا کر ماتم کیے گئے، روئے پیٹے، چیخے چلائے، کچھ بن نہ پڑا۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مظالم سے تنگ آ کر بددعا فرمائی تو سات سال کا قحط مسلط ہوا مردار کی ہڈیاں اور چمڑے کھانے اور خون پینے کی نوبت آ گئی، آخر رحمۃً للعالمین سے رحم کا واسطہ دے کر دعا کی درخواست کی۔ تب اللہ تعالیٰ نے وہ عذاب اٹھایا۔ اس وقت نہ "لات و منات" کام آئے نہ ہبل و نائلہ۔

 ۵۹۔۔۔  یعنی اب کیوں شور مچاتے ہو، وہ وقت یاد کرو جب خدا کے پیغمبر آیات پڑھ کر سناتے تھے تو تم الٹے پاؤں بھاگتے تھے، سننا بھی گوارا نہ تھا۔ تمہاری شیخی اور تکبر اجازت نہ دیتا تھا کہ حق کو قبول کرو اور پیغمبروں کی بات پر کان دھرو۔

۶۰۔۔۔  یعنی پیغمبر کی مجلس سے ایسے بھاگتے تھے گویا کسی فضول قصہ گو کو چھوڑ کر چلے گئے یا سَامِرًا تَہْجُرُوْنَ کا مطلب یہ ہے کہ رات کے وقت حرم میں بیٹھ کر پیغمبر علیہ السلام اور قرآن کریم کی نسبت باتیں بناتے اور طرح طرح کے قصے گھڑتے تھے، کوئی جادو کہتا تھا، کوئی شاعری، کوئی کہانت، کوئی کچھ اور۔ اسی طرح کی بکواس اور بیہودہ ہذیان کیا کرتے تھے۔ آج اس کا مزہ چکھو۔ چیخنے چلانے سے کچھ حاصل نہیں۔

۶۱۔۔۔  ۱: یعنی قرآن کی خوبیوں میں غور وفکر نہیں کرتے۔ ورنہ حقیقت حال منکشف ہو جاتی کہ بلاشبہ یہ کام اللہ جل شانہٗ کا ہے جس میں ان کی بیماریوں کا صحیح علاج بتلایا گیا ہے۔

۲:  یعنی نصیحت کرنے والے ہمیشہ ہوتے رہے ہیں، پیغمبر ہوئے یا پیغمبر کے تابع ہوئے۔ آسمانی کتابیں بھی برابر اترتی رہی ہیں۔ کبھی کہیں، کبھی کہیں۔ سو یہ کوئی انوکھی بات نہیں جس کا نمونہ پیشتر سے موجود نہ ہو۔ ہاں جو اکمل ترین و اشرف ترین کتاب اب آئی اس شان و مرتبہ کی پہلے نہ آئی تھی تو اس کا مقتضی یہ تھا کہ اور زیادہ اس نعمت کی قدر کرتے اور آگے بڑھ کر اس کی آواز پر لبیک کہتے۔ جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہی۔ (تنبیہ) شاید یہاں "آباء اولین" سے آباء ابعدین مراد ہوں۔ اور سورہ "یس" میں جو آیا ہے۔ "لتنذرقوما ماانذر اٰبآؤہم" وہاں آباء اقربین کا ارادہ کیا گیا ہو۔ واللہ اعلم۔

۶۲۔۔۔   یعنی کیا اس لیے اعراض و تکذیب پر تلے ہوئے ہیں کہ ان کو پیغمبر کے احوال سے آگاہی نہیں، حالانکہ سارا عرب جانتا ہے کہ آپ بچپن سے صادق و امین اور عفیف و پاکباز تھے۔ چنانچہ حضرت جعفر نے بادشاہ حبشہ کے سامنے، حضرت مغیرہ ابن شعبہ نے تائب کسریٰ کے آگے اور ابو سفیان نے بحالت کفر قیصر روم کے دربار میں اسی چیز کا اظہار کیا۔ پھر ایسے مشہور و معروف راست باز بندہ کی نسبت کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ (العیاذ باللہ) خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے لگے۔

۶۳۔۔۔  یعنی سودائیوں اور دیوانوں کی باتیں کہیں ایسی کھری اور سچی ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ بھی محض زبان سے کہتے تھے، دل ان کا جانتا تھا کہ بیشک جو کچھ آپ لائے ہیں حق ہے۔ پر حق بات چونکہ ان کی اغراض و خواہشات کے موافق نہ تھی۔ اس لیے بری لگتی تھی اور قبول کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوتے تھے۔

۶۴۔۔۔  ۱: یعنی سچی بات بری لگتی ہے تو لگنے دو۔ سچائی ان کی خوشی اور خواہش کے تابع نہیں ہو سکتی۔ اگر سچا خدا ان کی خوشی اور خواہش ہی پر چلا کرے تو وہ خدا ہی کہاں رہے۔ معاذ اللہ بندوں کے ہاتھ میں ایک کٹ پتلی بن جائے۔ ایسی صورت میں زمین و آسمان کے یہ محکم انتظامات کیونکر قائم رہ سکتے ہیں۔ اگر ایک چھوٹے سے گاؤں کا انتظام محض لوگوں کی خواہشات کے تابع کر دیا جائے، وہ بھی چار دن قائم نہیں رہ سکتا چہ جائیکہ زمین و آسمان کی حکومت۔ کیونکہ عام خواہشات نظام عقلی کے مزاحم اور باہم دگر بھی متناقض واقع ہوئی ہیں۔ عقل و ہویٰ کی کشمکش اور اہوائے مختلفہ کی لڑائی میں سارے انتظامات درہم برہم ہو جائیں گے۔

۲:  جس کی وہ تمنا کیا کرتے تھے۔ "لَوْاَنَّ عِنْدَنَا ذِکْرًا مِّنَ الْاَ وَّ لِیْنَ لَکُنَّا عِبَادَاللّٰہِ الْمُخْلَصِیْنَ" (صا فات، رکوع۵'آیت ۱۶۸)

۳:  جب آ گئی اور ایسی آئی جس سے ان کو قومی حیثیت سے عظیم الشان فخر و شرف حاصل ہوا، تو اب منہ پھیرتے ہیں اور ایسے اعلیٰ فضل و شرف کو ہاتھ سے گنوا رہے ہیں۔

۶ ۵۔۔۔ ۱ یعنی آپ دعوت و تبلیغ اور نصیحت و خیر خواہی کر کے ان سے کسی معاوضہ کے بھی طلبگار نہیں۔ خدا تعالیٰ نے دارین کی جو دولت آپ کو مرحمت فرمائی ہے وہ اس معاوضہ سے کہیں بہتر ہے۔

۶۷۔۔۔  یعنی آپ کے صدق و امانت کا حال سب کو معلوم ہے۔ جو کلام آپ لائے اس کی خوبیاں اظہر من الشمس ہیں۔ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خلل دماغ نہیں، ان سے کسی معاوضہ کے طالب نہیں، جس راستہ کی طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم بلاتے ہیں بالکل سیدھا اور صاف راستہ ہے جس کو ہر سیدھی عقل والا بسہولت سمجھ سکتا ہے کوئی ایچ پیچ نہیں ٹیڑھا ترچھا نہیں۔ ہاں اس پر چلنا ان ہی کا حصہ ہے جو موت کے بعد دوسری زندگی مانتے ہوں اور اپنی بد انجامی سے ڈرتے ہوں، جسے انجام کا ڈر اور عاقبت کی فکر ہی نہیں وہ کب سیدھے راستہ پر چلے گا، یقیناً ٹیڑھا رہے گا۔ اور سیدھی سی بات کو بھی اپنی کجروی سے کج بنا لے گا۔

۶۸۔۔۔  یعنی تکلیف سے نکال کر آرام دیں۔ تب بھی احسان نہ مانیں اور شرارت و سرکشی سے باز نہ آئیں۔ حضرت کی دعا سے ایک مرتبہ مکہ والوں پر قحط پڑا تھا، پھر حضرت ہی کی دعا سے کھلا۔ شاید یہ اسی کو فرمایا، یا یہ مطلب ہے کہ اگر ہم اپنی رحمت سے ان کے نقصان کو دور کر دیں۔ یعنی قرآن کی سمجھ دے دیں۔ تب بھی یہ لوگ اپنے ازلی خسران اور سوءِ استعداد کی وجہ سے اطاعت و انقیاد اختیار کرنے والے نہیں کمال قال تعالیٰ "وَلَوْعَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَأ سْمَعَہُمْ وَلَوْاَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَہُمْ مُعْرِضُونَ۔" (انفال، رکوع۳)

۶۹۔۔۔  مثلاً قحط وغیرہ آفات مسلط ہوئیں۔ تب بھی عاجزی کر کے خدا کی بات نہ مانی۔

۷۰۔۔۔  اس سے یا تو آخرت کا عذاب مراد ہے یا شاید وہ دروازہ لڑائیوں کا کھلا جس میں تھک کر عاجز ہوئے۔

۷۱۔۔۔  کانوں سے اس کی آیات تنزیلیہ کو سنو اور آنکھوں سے آیات تکوینیہ کو دیکھو اور دلوں سے دونوں کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ ان نعمتوں کا شکریہ تھا کہ اللہ کی دی ہوئی قوتوں کو ان کے کام میں لاتے لیکن ایسا نہ ہوا۔ اکثر آدمیوں نے اکثر اوقات میں ان قوتوں کو بے جا خرچ کیا۔

۷۲۔۔۔  وہاں ہر ایک کو شگر گزاری اور ناشکری کا بدلہ مل جائے گا۔ اس وقت کوئی شخص یا کوئی عمل غیر حاضر نہ ہو سکے گا۔ جس نے پھیلایا اس کو سمیٹنا کیا مشکل ہے۔

۷۳۔۔۔   زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ، یا اندھیرے سے اجالا اور اجالے سے اندھیرا کر دیا جس کے قبضہ میں ہے اس کی قدرتِ عظیمہ کے سامنے کیا مشکل ہے کہ تم کو دوبارہ زندہ کر دے اور آنکھوں کے آگے سے ظلمت جہل کے پردے اٹھا دے۔ جس کے بعد حقائق اشیاء ٹھیک ٹھیک منکشف ہو جائیں، جیسا کہ قیامت میں ہو گا۔ فَبْصُرَکَ الْیَوْمَ حَدِیْد۔

۷۶۔۔۔  ۱: یعنی عقل و فہم کی بات کچھ نہیں محض پرانے لوگوں کی اندھی تقلید کیے چلے جا رہے ہیں، وہ ہی دقیانوسی شکوک پیش کرتے ہیں جو ان کے پیشرو کیا کرتے تھے۔ یعنی مٹی میں مل کر اور ریزہ ریزہ ہو کر ہم کیسے زندہ کیے جائیں گے؟ ایسی دور از عقل باتیں جو ہم کو سنائی جا رہی ہیں پہلے ہمارے باپ دادوں سے بھی کہی گئی تھیں۔ لیکن ہم نے تو آج تک خاک کے ذروں اور ہڈیوں کے ریزوں کو آدمی بنتے نہ دیکھا۔ ہو نہ ہو یہ سب قصے کہانیاں ہیں جو پہلے لوگ گھڑ گئے تھے۔ اور اب ان ہی کی نقل کی جا رہی ہے۔

۲:  کہ جس کا قبضہ ساری زمین اور زمینی چیزوں پر ہے۔ کیا تمہاری مشت خاک اس کے قبضہ سے باہر ہو گی؟

۸۰۔۔۔  کہ اتنا بڑا شہنشاہِ مطلق تمہاری ان گستاخیوں اور نافرمانیوں پر تم کو دھر گھسیٹے۔ کیا یہ انتہائی گستاخی نہیں کہ اس شہنشاہِ مطلق کو ایک ذرہ بے مقدار سے عاجز قرار دینے لگے۔

۸۲۔۔۔  ۱: یعنی  ہر چیز پر اسی کا اختیار چلتا ہے جس کو چاہے وہ پناہ دے سکتا ہے۔ لیکن کوئی دوسرا اس کے مجرم کو پناہ نہیں دے سکتا۔

۲:  جس سے مسحور ہو کر تم ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہو کہ ایسی موٹی باتیں بھی نہیں سمجھ سکتے جب تمام زمین و آسمان کا مالک وہ ہی ہوا اور  ہر چیز اسی کے زیر تصرف و اقتدار ہوئی، تو آخر تمہارے بدن کی ہڈیاں اور ریزے اس کے قبضہ اقتدار سے نکل کر کہاں چلے جائیں گے کہ ان پر وہ قادرِ مطلق اپنی مشیت نافذ نہ کر سکے گا۔

۸۳۔۔۔  یعنی دلائل و شواہد سے ظاہر کر دیا گیا کہ جو کچھ ان سے کہا جا رہا ہے مو بمو صحیح اور حق ہے اور وہ لوگ محض جھوٹے خیالات کی پیروی کر رہے ہیں۔

۸۴۔۔۔  ۱: یعنی زمین و آسمان اور ذرہ ذرہ کا تنہا مالک و مختار وہ ہی ہے نہ اسے بیٹے کی ضرورت نہ مددگار کی، نہ اس کی حکومت و فرمانروائی میں کوئی شریک جسے ایک ذرہ کا مستقل اختیار ہو۔ ایسا ہوتا تو ہر ایک با اختیار حاکم اپنی رعایا کو لے کر علیحدہ ہو جاتا اور اپنی جمعیت فراہم کر کے دوسرے پر چڑھائی کر دیتا اور عالم کا یہ مضبوط و محکم نظام چند روز بھی قائم نہ رہ سکتا۔ سورہ انبیاء کی آیت "لَوْکَانَ فِیْہِمَا اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا" کے فوائد میں اس کی تقریر کی جا چکی ہے ملاحظہ کر لی جائے۔

۲:   کیا خدا کی شان یہ ہوتی ہے کہ اس کے آگے کوئی دم مار سکے یا ایک ذرہ اس کے حکم سے باہر ہو سکے۔

۸ ۵۔۔۔  یعنی جس کی قدرت عامہ و تامہ کا حال پہلے بیان ہو چکا اور علم محیط ایسا کہ کوئی ظاہر و باطن اور غیب و شہادت اس سے پوشیدہ نہیں۔ اس کی حکومت میں کیا وہ چیزیں شریک ہوں گی جن کی قدرت اور علم وغیرہ سب صفات محدود و مستعار ہیں؟ استغفراللہ۔

۸۷۔۔۔  یعنی حق تعالیٰ کی جناب میں ایسی گستاخی کی جاتی ہے تو یقیناً کوئی سخت آفت آ کر رہے گی۔ اس لیے ہر مومن کو ہدایت ہوئی کہ اللہ کے عذاب سے ڈر کر یہ دعاء مانگے کہ جب ظالموں پر عذاب آئے تو الٰہی مجھ کو اس کے ذیل میں شامل نہ کرنا۔ جیسا کہ حدیث میں آیا "وَاِذَا اَرَدْتَ بِقَوْمٍ فِتْنَۃً فَا قْبِضْنِیْ غَیْرَ مَفْتُونٍ" کا مطلب یہ ہے کہ خداوندا ہم کو ایمان و احسان کی راہ پر مستقیم رکھ۔ کوئی ایسی تقصیر نہ ہو کہ العیاذ باللہ تیرے عذاب کی لپیٹ میں آ جائیں۔ جیسے دوسری جگہ ارشاد ہوا۔ "وَاتَّقُوا فِتْنَۃً لَّاتُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَآصَّۃً" (انفال، رکوع۳'آیت ۲۵) یہاں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا ہے اور یہ قرآنِ کریم کی عام عادت ہے۔

۸۹۔۔۔  یعنی ہم کو قدرت ہے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے دنیا ہی میں ان کو سزا دے دیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مقامِ بلند اور اعلیٰ اخلاق کا مقتضی یہ ہے کہ ان کی برائی کو بھلائی سے دفع کریں جہاں تک اس طرح دفع ہو سکتی ہے۔ اور ان کی بیہودہ بکواس سے مشتعل نہ ہوں۔ اس کو ہم خوب جانتے ہیں، وقت پر کافی سزا دی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اغماض اور نرم برتاؤ کا اثر یہ ہو گا کہ بہت سے لوگ گرویدہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف جھکیں گے اور دعوت و اصلاح کا مقصود حاصل ہو گا۔

۹۰۔۔۔  پہلے شیاطین الانس کے ساتھ برتاؤ کرنے کے طریقہ بتلایا تھا۔ لیکن شیاطین الجن اس طریقہ سے متأثر نہیں ہو سکتے۔ کوئی تدبیر یا نرمی ان کو رام نہیں کر سکتی۔ اس کا علاج صرف استعاذہ ہے یعنی اللہ کی پناہ میں آ جانا، تاوہ قادرِ مطلق ان کی چھیڑخانی اور شر سے محفوظ رکھے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ شیطان کی چھیڑ یہ ہے کہ دین کے سوال و جواب میں بے موقع غصہ چڑھے اور لڑائی ہو پڑے۔ اسی پر فرمایا کہ برے کا جواب دے اس سے بہتر۔

۹۱۔۔۔ یعنی کسی حال میں بھی شیطان کو میرے پاس نہ آنے دیجئے کہ مجھ پر وہ اپنا وار کر سکے۔

۹۳۔۔۔  ۱: یعنی آپ ان کفار کی برائیوں کو بھلے طریقہ سے دفع کرتے رہیے۔ اور جو باتیں یہ بناتے ہیں ان کو ہمارے حوالہ کیجئے یہاں تک کہ ان میں سے بعض کی موت کا وقت آپہنچے اور نزع کی حالت میں مبادی عذاب کا معائنہ کر کے پچھتاوا شروع ہو۔ اس وقت تمنا کریں گے کہ اے پروردگار! قبر کی طرف لے جانے کے بجائے ہم کو پھر دنیا کی طرف واپس کر دو۔ تاکہ گذشتہ زندگی میں جو تقصیرات ہم نے کی ہیں اب نیک عمل سے ان کی تلافی کر سکیں۔ آئندہ ہم ایسی خطائیں ہرگز نہیں کریں گے۔ کما قال تعالیٰ۔ "وَاَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَا کُمْ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتَ فَیَقُولُ رَبِّ لَوْلَآ اَخَرْتَنِیْ اِلیٰ اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصَّالحِےْنَ مافون، رکوع۲'آیت ۱۰)

۲:  یعنی اجل آ جانے کے بعد اس کام کے لیے ہرگز واپس نہیں کیا جا سکتا اور بالفرض واپس کر دیا جائے تو ہرگز نیک کام نہ کرے گا۔ وہ ہی شرارتیں پھر سوجھیں گی۔ "وَلَوْرُدُّوا لْعَادُوا لِمَانُہُوا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ " (انعام، رکوع۳'آیت ۲۸) یہ محض اس کی بات ہے جو زبان سے بنا رہا ہے اور غلبہ حسرت و ندامت کی وجہ سے خاموش نہیں رہ سکتا وہ ہی اپنی طرف سے یہ بات کہتا ہے، کہتا رہے، ہمارے یہاں شنوائی نہیں ہو گی۔

۳:  یعنی ابھی کیا دیکھا ہے۔ موت ہی سے اس قدر گھبرا گیا۔ آگے اس کے بعد ایک اور عالم برزخ آتا ہے۔ جہاں پہنچ کر دنیا والوں سے پردہ میں ہو جاتا ہے اور آخرت بھی سامنے نہیں آتی۔ ہاں عذاب آخرت کا تھوڑا سا نمونہ سامنے آتا ہے جس کا مزہ قیامت تک پڑا چکھتا رہے گا۔

۹۴۔۔۔  یعنی عالم برزخ کے بعد قیامت کی گھڑی ہے۔ دوسری مرتبہ صور پھونکنے کے بعد تمام خلائق کو ایک میدان میں لا کھڑا کریں گے۔ اس وقت ہر ایک شخص اپنی فکر میں مشغول ہو گا۔ اولاد ماں باپ سے، بھائی بھائی سے اور میاں بیوی سے سروکار نہ رکھے گا۔ ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے۔ کوئی کسی کی بات نہ پوچھے گا۔ "یَوْمَ یَفِرُّ الْمُرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہِ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَینِیْہٖ لِکُلِّ امْرِیٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئذٍ شَاْنٌ یُغْنِیْہِ" (عبس رکوع۱'آیت ۳۴ تا ۳۷) اس کے بعد دوسرے وقت ممکن ہے بعض قرابتوں سے کچھ نفع پہنچ جائے کما قال تعالیٰ "وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَتُہُمْ وَمَآاَلْتَنَاہُمْ مِنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْ ئٍ۔" (طور، رکوع۱'آیت ۲۰) (تنبیہ) بعض احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سارے نسب اور دامادی کے تعلقات منقطع ہو جائیں گے (یعنی کام نہ دیں گے) "اِلَّانَسَبِیْ وَصِہْرِی" (بجز میرے نسب اور صہر کے) معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے تعلقات عموم سے مستثنیٰ ہیں۔ اسی حدیث کو سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب سے نکاح کیا، اور چالیس ہزار درہم مہرباندھا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "وہاں باپ بیٹا ایک دوسرے کو شامل نہیں، ہر ایک سے اس کے عمل کا حساب ہے۔"'

۹۷۔۔۔  جلتے جلتے بدن سوج جائے گا، نیچے کا ہونٹ لٹک کر ناف تک اور اوپر کا پھول کر کھوپڑی تک پہنچ جائے گا، اور زبان باہر نکل کر زمین میں لٹکتی ہو گی جسے دوزخی پاؤں سے روندیں گے (اللہم احفظنا منہ ومن سآئر انواع العذاب)

۹۸۔۔۔   یعنی اس وقت ان سے یوں کہیں گے۔ گویا جن باتوں کو دنیا میں جھٹلایا کرتے تھے، اب آنکھوں سے دیکھ لو سچی تھیں یا جھوٹی؟

۱۰۰۔۔۔  یعنی اعتراف کریں گے کہ بیشک ہماری بدبختی نے دھکا دیا جو سیدھے راستہ سے بہک کر اس ابدی ہلاکت کے گڑھے میں آپڑے۔ اب ہم نے سب کچھ دیکھ لیا۔ ازراہِ کرم ایک دفعہ ہم کو یہاں سے نکال دیجئے۔ پھر کبھی ایسا کریں تو گنہگار، جو سزا چاہیے دیجئے گا۔

۱۰۲۔۔۔  یعنی بک بک مت کرو، جو کیا تھا اب اس کی سزا بھگتو۔ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جواب کے بعد پھر فریاد منقطع ہو جائے گی۔ بجز زفیر و  شہیق کے کچھ کلام نہ کر سکیں گے۔ العیاذ باللہ۔

۱۰۳۔۔۔  یعنی دنیا میں مسلمان جب اپنے رب کے آگے دعاء و استغفار کرتے تو تم کو ہنسی سوجھتی تھی۔ اس قدر ٹھٹھا کرتے اور ان کی نیک خصلتوں کا اتنا مذاق اڑاتے تھے کہ ان کے پیچھے پڑ کر تم نے مجھے بھی یاد نہ رکھا، گویا تمہارے سر پر کوئی حاکم ہی نہ تھا جو کسی وقت ان حرکتوں پر نوٹس لے اور ایسی سخت شرارتوں کی سزا دے سکے۔

۱۰۴۔۔۔  بیچارے مسلمانوں نے تمہاری زبانی اور عملی ایذاؤں پر صبر کیا تھا، آج دیکھتے ہو تمہارے بالمقابل ان کو کیا پھل ملا۔ ان کو ایسے مقام پر پہنچا دیا گیا جہاں وہ ہر طرح کامیاب اور ہر قسم کی لذتوں اور مسرتوں سے ہمکنار ہیں۔

۱۰۶۔۔۔  یعنی فرشتوں سے۔ جنہوں نے ہر نیکی بدی گن رکھی ہے یہ بھی گنا ہو گا۔ "زمین میں رہنا" یعنی قبر میں رہنا یا دنیا کی عمر، یہ بھی وہاں تھوڑی نظر آئے گی۔ یہ پوچھنا اس واسطے کہ دنیا میں عذاب کی شتابی کیا کرتے تھے، اب جانا کہ شتاب ہی آیا۔ (کذا فی موضح القرآن)

۱۰۷۔۔۔  یعنی واقعی دنیا کی عمر تھوڑی ہی تھی۔ لیکن اگر اس بات کو پیغمبروں کے کہنے سے دنیا میں سمجھ لیتے تو کبھی اس متاع فانی پر مغرور ہو کر انجام سے غافل نہ ہوتے اور وہ گستاخیاں اور شرارتیں نہ کرتے جن کا دنیا کی زائل و فانی لذتوں میں پڑ کر ارتکاب کیا۔

۱۰۸۔۔۔  یعنی دنیا میں تو نیکی بدی کا پورا نتیجہ نہیں ملتا۔ اگر اس زندگی کے بعد دوسری زندگی نہ ہو تو گویا یہ سب کارخانہ محض کھیل تماشہ اور بے نتیجہ تھا۔ سو حق تعالیٰ کی جناب اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی نسبت ایسا رکیک خیال کیا جائے۔

۱۰۹۔۔۔   جب وہ بالا و برتر، شہنشاہ مالک علی الاطلاق ہے تو ہو نہیں سکتا کہ وفاداروں اور مجرموں کو یوں کس مپرسی کی حالت میں چھوڑ دے۔

۱۱۰۔۔۔  یعنی وہاں حساب ہو کر مقدار جرم کے موافق سزا دی جائے گی۔

۱۱۱۔۔۔  یعنی ہماری تقصیرات سے درگزر فرما اور اپنی رحمت سے دنیا و آخرت میں سرفراز کر۔ تیری رحمت بے نہایت کے سامنے کوئی چیز مشکل نہیں۔ ف۹ "افحسبتم" سے ختم سورت تک کی یہ آیتیں بہت بڑی فضیلت اور تاثیر رکھتی ہیں، جس کا ثبوت بعض احادیث سے ہوا ہے اور مشائخ نے تجربہ کیا ہے۔ چاہیے کہ ان آیات کا ورد رکھا جائے، خاتمہ پر وہ دعاء تبرکاً "و تفاؤلاًنقل کرتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر صدیق کو تلقین فرمائی کیونکہ اس کے الفاظ ان آیات کے مناسب ہیں۔ "اَللّٰہُمَّ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْراً وَاِنَّہٗ لَایَغْفِرُ الذُّنُوبِ اِلَّا اَنْتَ فَاغْفِرْلِی مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِی اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیْم۔" تم سورۃ المومنون بفضلہ ومنہ وحسن توفیقہ ونرجومنہ اکمال بقیۃ الفوائد۔