تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ المؤمنون

دس آیتیں اور جنت کی ضمانت

نسائی، ترمذی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ حضرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر جب وحی اترتی تو ایک ایسی میٹھی میٹھی، بھینی بھینی، ہلکی ہلکی سی آواز آپ کے پاس سنی جاتی جیسے شہد کی مکھیوں کے اڑنے کی بھنبھناہٹ کی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ یہی حالت طاری ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی اتر چکی تو آپ نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ تو ہمیں زیادہ کر، کم نہ کر، ہمارا اکرام کر، اہانت نہ کر، ہمیں انعام عطا فرما، محروم نہ رکھ، ہمیں دوسروں پر کے مقابلے میں فضیلت دے، ہم پردوسروں کو پسندنہ فرما، ہم سے خوش ہو جا اور ہمیں خوش کر دے۔ عربی کے الفاظ یہ ہے۔ الہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولاتہنا واعطنا ولاتحرمنا واثرنا ولاتوثرعلینا وارض عناوارضنا۔

پھر فرمایا مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں ، جوان پر جم گیا وہ جنتی ہو گیا۔ پھر آپ نے مندرجہ بالا دس آیتیں تلاوت فرمائیں۔ امام ترمذی رحمۃ  اللہ علیہ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں ، کیونکہ اس کا راوی صرف یونس بن سلیم ہے جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں۔ نسائی میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے عادات و اخلاق کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا خلق قرآن تھا، پھر ان آیتوں کی یحافظون۔ تک تلاوت فرمائی۔ اور فرمایا یہی حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق تھے۔ مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے عدن پیدا کی اور اس میں درخت وغیرہ اپنے ہاتھ سے لگائے تو اسے دیکھ کر فرمایا کچھ بول۔ اس نے یہی آیتیں تلاوت کیں جو قرآن میں نازل ہوئیں۔ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے۔ فرشتے اس میں جب داخل ہوئے، کہنے لگے واہ واہ یہ تو بادشاہوں کی جگہ ہے۔ اور روایت میں ہے اس گا رہ مشک کا تھا۔ اور روایت میں ہے کہ اس میں وہ وہ چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ، نہ کسی دل میں سمائیں۔ اور روایت میں ہے کہ جنت نے جب ان آیتوں کی تلاوت کی تو جناب باری نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی اور جلال کی قسم تجھ میں بخیل ہرگز داخل نہیں ہو سکتا۔ اور حدیث میں ہے کہ اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے اور دوسری سرخ یاقوت کی اور تیسری سبز زبرجد کی۔ اس کا گارہ مشک کا ہے اس کی گاس زعفران ہے۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ اس حدیث کو بیان فرما کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت ومن یوق شح نفسہ فاولئک المفلحون پڑھی الغرض فرمان ہے کہ مومن مراد کو پہنچ گئے، وہ سعادت پا گئے، انہوں نے نجات پالی۔ ان مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں خشوع اور سکون کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ دل حاضر رکھتے ہیں ، نگاہیں نیچی ہوتی ہیں ، بازو جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ محمد بن سیرین رحمۃ  اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے۔ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کی نگاہیں نیچی ہو گئیں ، سجدے کی جگہ سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاتے تھے۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ جانماز سے ادھر ادھر ان کی نظر نہیں جاتی تھی اگر کسی کو اس کے سوا عادت پڑ گئی ہو تو اسے چاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کر لے۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے پس یہ خضوع خشوع اسی شخص حاصل ہو سکتا ہے، جس کا دل فارغ ہو، خلوص حاصل ہو اور نماز میں پوری دلچپسی ہو اور تمام کاموں سے زیادہ اسی میں دل لگتا ہو۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے رسول صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مجھے خوشبو اور عورتیں زیادہ پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے (نسائی) ایک نصاریٰ صحابی رضی اللہ تعالیٰ نے نماز کے وقت اپنی لونڈی سے کہا کہ پانی لاؤ، نماز پڑھ کر راحت حاصل کروں تو سننے والوں کو ان کی یہ بات گراں گزری۔ آپ نے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ و سلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے تھے۔ اے بلال اٹھو اور نماز کے ساتھ ہمیں راحت پہنچاؤ۔ 

مومنوں کے اوصاف

پھر اور وصف بیان ہوا کہ وہ باطل، شرک، گناہ اور ہر ایک بیہودہ اور بے فائدہ قول و عمل سے بچتے ہیں۔ جسے فرمان ہے واذا مروا باللغو مرواکراما وہ لغو بات سے بزرگانہ گزر جاتے ہیں وہ برائی اور بے سود کاموں سے اللہ کی روک کی وجہ سے رک جاتے ہیں۔ اور انکا یہ وصف ہے کہ یہ مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں لیکن اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال میں ہوتی ہے پھر مکی آیت میں اس بیان کیسے ؟ اس کا جواب یہ کہ اصل زکوٰۃ تو مکہ میں واجب ہو چکی تھی ہاں اس کی مقدار، مال کا نصاب وغیرہ یہ سب احکام مدینے میں مقرر ہوئے۔ دیکھئے سورۃ انعام بھی مکہ ہے اور اس میں یہی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے واتوا حقہ یوم حصادہ یعنی کھیتی کے کٹنے والے دن اس کی زکوٰ ۃ ادا کر دیا کرو۔ ہاں یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ مراد زکوٰۃ سے یہاں نفس کو شرک و کفر کے میل کچیل سے پاک کرنا ہو۔ جیسے فرمان ہے قد افلح من زکہا الخ، جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اس نے فلاح پالی۔ اور جس نے اسے خراب کر لیا وہ نامراد ہوا۔ یہی ایک قول آیت و ویل للمشرکین الذین لایوتون الزکوٰۃ الخ میں بھی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آیت میں دونوں زکوٰتیں ایک ساتھ مراد لی جائیں۔ یعنی زکوٰۃ نفس بھی اور زکوٰۃ مال بھی۔ فی الواقع مومن کامل وہی ہے جو اپنے نفس کو بھی پاک رکھے اور اپنے مال کی بھی زکوٰۃ دے واللہ اعلم۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ سوائے اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے دوسری عورتوں سے اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں۔ یعنی حرام کاری سے بچتے ہیں۔ زنا لواطت وغیرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ ہاں ان کی بیویاں جو اللہ نے ان پر حلال کی ہیں اور جہاد میں ملی ہوئی لونڈیاں جو ان پر حلال ہیں۔ ان کے ساتھ ملنے میں ان پر کوئی ملامت اور حرج نہیں۔ جو شخص ان کے سوا دوسرے طریقوں سے یا کسی دوسرے سے خواہش پوری کرے وہ حد سے گزر جانے والا ہے۔ قتادہ رحمۃ  اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے غلام کو لے لیا اور اپنی سند میں یہی آیت پیش کی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ معلوم ہوا تو آپ نے صحابہ کے سامنے اس معاملے کو پیش کیا۔ صحابہ نے فرمایا اس نے غلط معنی مراد لئے۔ اس پر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلام کا سرمنڈوا کر جلاوطن کر دیا اور اس عورت سے فرمایا اس کے بعد تو ہر مسلمان پر حرام ہے، لیکن یہ اثر منقطع ہے۔ اور ساتھ ہی غریب بھی ہے۔ امام ابن جریر نے اسے سورۃ مائدہ کی تفسیر کے شروع میں وارد کیا ہے لیکن اس کے وارد کرنے کی موزوں جگہ یہی تھی۔ اسے عام مسلمانوں پر حرام کرنے کی وجہ اس کے ارادے کے خلاف اسکے ساتھ معاملہ کرنا تھا واللہ اعلم۔ امام شافعی رحمۃ  اللہ علیہ اور ان کے موافقین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اپنے ہاتھ سے اپنا خاص پانی نکال ڈالنا حرام ہے کیونکہ یہ بھی ان دونوں حلال صورتوں کے علاوہ ہے اور مشت زنی کرنے والا شخص بھی حد سے آگے گزر جانے والا ہے۔ امام حسن بن عرفہ نے اپنے مشہور جز میں ایک حدیث وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظرِ رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالموں کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے پہلے جہنم میں جانے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل کرے گا یہ اور بات ہے کہ وہ توبہ کر لیں توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ مہربانی سے رجوع فرماتا ہے ایک تو ہاتھ سے نکاح کرنے والا یعنی مشت زنی کرنے والا اور اغلام بازی کرنے اور کرانے والا۔ اور نشے باز شراب کا عادی اور اپنے ماں باپ کو مارنے پیٹنے والا یہاں تک کہ وہ چیخ پکار کرنے لگیں اور اپنے پڑوسیوں کو ایذا پہنچانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت بھیجنے لگے اور اپنی پڑوسن سے بدکاری کرنے والا۔ لیکن اس میں ایک راوی مجہول ہے۔ واللہ اعلم۔ اور وصف ہے کہ وہ اپنی امانتیں اور اپنے وعدے پورے کرتے ہیں امانت میں خیانت نہیں کرتے بلکہ امانت کی ادائیگی میں سبقت کرتے ہیں وعدے پورے کرتے ہیں اس کے خلاف عادتیں منافقوں کی ہوتی ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ (۱)جب بات کرے، جھوٹ بولے (۲)جب وعدہ کرے خلاف کرے (۳)جب امانت دیا جائے خیانت کرے۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ نمازوں کی ان اوقات پر حفاظت کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے؟ آپ نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا ماں باپ سے سلوک کرنا۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا اللہ کے راہ میں جہاد کرنا (بخاری و مسلم) حضرت قتادہ رحمۃ  اللہ علیہ فرماتے ہیں  وقت، رکوع، سجدہ وغیرہ کی حفاظت مراد ہے۔ ان آیات پر دوبارہ نظر ڈالو۔ شروع میں  بھی نماز کا بیان ہوا اور آخر میں  بھی نماز کا بیان ہوا۔ جس سے ثابت ہوا کہ نماز سب سے افضل ہے حدیث شریف میں  ہے سیدھے سیدھے رہو اور تم ہرگز احاطہ نہ کر سکو گے۔ جان لو کہ تمہارے تمام اعمال میں  بہترین عمل نماز ہے۔ دیکھو وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کر سکتا ہے۔ ان سب صفات کو بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ یہی لوگ وارث ہے جو جنت الفردوس کے دائمی وارث ہوں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے اللہ سے جب مانگو جنت الفردوس مانگو، وہ سب سے اعلی اور اوسط جنت ہے۔ وہیں  سے سب نہریں  جاری ہوتی ہیں  اسی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے (بخاری و مسلم) فرماتے ہیں  تم میں  ہر ایک کی دو دو جگہیں  ہیں۔ ایک منزل جنت میں  ایک جہنم میں ، جب کوئی دوزخ میں  گیا تو اس کی منزل کے وارث جنتی بنتے ہیں۔ اسی کا بیان اس آیت میں  ہے۔ مجاہد رحمۃ  اللہ علیہ فرماتے ہیں  جنتی تو اپنی جنت کی جگہ سنوارلیتا ہے اور جہنم کی جگہ ڈھا دیتا ہے۔ اور دوزخی اس کے خلاف کرتا ہے، کفار جو عبادت کے لئے پیدا کئے گئے تھے، انہوں  نے عبادت ترک کر دی تو ان کے لئے جو انعامات تھے وہ ان سے چھین کر سچے مومنوں  کے حوالے کر دئیے گئے۔ اسی لئے انہیں  وارث کہا گیا۔ صحیح مسلم میں  ہے کچھ مسلمان پہاڑوں  کے برابر گناہ لے کر آئیں  گے، جہنیں  اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر ڈال دے گا اور انہیں  بخش دے گا۔ اور سند سے مروی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ایک ایک یہودی یا نصرانی دے گا کہ یہ تیرا فدیہ ہے، جہنم سے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ  اللہ علیہ نے جب یہ حدیث سنی تو راوی حدیث ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قسم دی انہوں  نے تین مرتبہ قسم کھا کر حدیث کو دوہرا دیا۔ اسی جیسی آیت یہ بھی ہے تلک الجنتہ اللتی نورث من عبادنا الخ، اسی جیسی آیت یہ بھی وتلک الجنتہ اللتی اور ثتموہا الخ، فردوس رومی زبان میں  باغ کو کہتے ہیں  بعض سلف کہتے کہ اس باغ کو جس میں  انگور کی بیلیں  ہوں۔ واللہ اعلم۔

 

۱۱

انسان کی پیدائش مرحلہ وار

اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کی ابتدا بیان کرتا ہے کہ اصل آدم مٹی سے ہیں ، جو کیچڑ کی اور بجنے والی مٹی کی صورت میں  تھی پھر حضرت آدم علیہ السلام کے پانی سے ان کی اولاد پیدا ہوئی۔ جیسے فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں  مٹی سے پیدا کر کے پھر انسان بنا کر زمین پر پھیلا دیا ہے۔ مسند میں  اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو خاک کی ایک مٹھی سے پیدا کیا، جسے تمام زمین پر سے لیا تھا۔ پس اسی اعتبار سے اولاد آدم کے رنگ روپ مختلف ہوئے، کوئی سرخ ہے، کوئی سفید ہے، کوئی سیاہ ہے، کوئی اور رنگ کا ہے۔ ان میں  نیک ہیں  اور بد بھی ہیں۔ ثم جعلنہ۔ میں  ضمیر کا مرجع جنس انسان کی طرف ہے جیسے ارشاد ہے وبدا خلق الانسان من طین ثم جعل نسلہ من سللتہ من ماء مہین۔ اور آیت میں  ہے الم نخلکم من ماء مہین فجعلنہ فی قرارمکین۔ پس انسان کے لئے ایک مدت معین تک اس کی ماں  کا رحم ہی ٹھکانہ ہوتا ہے جہاں  ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف اور ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ پھر نطفے کی جو ایک اچھلنے والا پانی ہے جو مرد کی پیٹ سے عورت کے سینے سے نکلتا ہے شکل بدل کر سرخ رنگ کی بوٹی کی شکل میں  بدل جاتا ہے پھر اسے گوشت کے ایک ٹکڑے کی صورت میں  بدل دیا جاتا ہے جس میں  کوئی شکل اور کوئی خط نہیں  ہوتا۔ پھر ان میں  ہڈیاں  بنا دیں  سر ہاتھ پاؤں  ہڈی رگ پٹھے وغیرہ بنائے اور پیٹھ کی ہڈی بنائی۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم انسان کا تمام جسم سڑ گل جاتا ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے۔ اسے سے پیدا کیا جاتا ہے اور اسے سے ترغیب دی جاتی ہے۔ پھر ان ہڈیوں  کو وہ گوشت پہناتا ہے تاکہ وہ پوشیدہ اور قوی رہیں۔ پھر اس میں  روح پھونکتا ہے جس سے وہ ہلنے جلنے چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے اور ایک جاندار انسان بن جائے۔ دیکھنے کی سننے کی سمجھنے کی اور حرکت وسکون کی قدرت عطا فرماتا ہے۔ وہ بابرکت اللہ سب سے اچھی پیدائش کا پیدا کرنے والا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب نطفے پر چار مہینے گزر جاتے ہیں  تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھجتا ہے جو تین تین اندھیریوں  میں  اس میں  روح پھونکتا ہے یہی معنی ہے کہ ہم پھر اسے دوسری ہی پیدائش میں  پیدا کرتے ہیں  یعنی دوسری قسم کی اس پیدائش سے مراد روح کا پھونکا جانا ہے پس ایک حالت سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی طرف ماں  کے پیٹ میں  ہی ہیر پھیر ہونے کے بعد بالکل ناسمجھ بچہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ بڑھتا جاتا ہے یہاں  تک کہ جوان بن جاتا ہے پھر ادھیڑ پن آتا ہے پھر بوڑھا ہو جاتا ہے پھر بالکل ہی بڈھا ہو جاتا ہے الغرض روح کا پھونکا جانا پھر ان کے انقلابات کا آنا شروع ہو جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ صادق و مصدوق آنحضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  کہ تم میں  سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں  کے پیٹ میں  جمع ہوتی ہے پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت میں  رہتا ہے پھر چالیس دن تک وہ گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں  رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس میں  روح پھونکتا ہے اور بحکم الٰہی چار باتیں  لکھ لی جاتی ہیں  روزی، اجل، عمل، اور نیک یا بد، برا یا بھلا ہونا پس قسم ہے اس کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں  کہ ایک شخص جنتی عمل کرتا رہتا یہاں  تک کہ جنت سے ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے لیکن تقدیر کا وہ لکھا غالب آ جاتا ہے اور خاتمے کے وقت دوزخی کام کرنے لگتا ہے اور اسی پر مرتا ہے اور جہنم رسید ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک انسان برے کام کرتے کرتے دوزخ سے ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے لیکن پھر تقدیر کا لکھا آگے بڑھ جاتا ہے اور جنت کے اعمال پر خاتمہ ہو کر داخل فردوس بریں  ہو جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم وغیرہ) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  نطفہ جب رحم میں  پڑتا ہے تو وہ ہر ہر بال اور ناخن کی جگہ پہنچ جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد اس کی شکل جمے ہوئے خون جیسی ہو جاتی ہے۔ مسند احمد میں  ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اصحاب سے باتیں  بیان کر رہے تھے کہ ایک یہودی آگیا تو کفار قریش نے اس سے کہا یہ نبوت کے دعویدار ہیں  اس نے کہا اچھا میں  ان سے ایک سوال کرتا ہوں  جیسے نبیوں  کے سوا اور کوئی نہیں  جانتا۔ آپ کی مجلس میں  آ کر بیٹھ کر پوچھتا ہے کہ بتاؤ انسان کی پیدائش کس چیزسے ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا مرد عورت کے نطفے سے۔ مرد کا نطفہ غلیظ اور گاڑھا ہوتا ہے اس سے ہڈیاں  اور پٹھے بنتے ہیں  اور عورت کا نطفہ رقیق اور پتلا ہوتا ہے اس سے گوشت اور خون بنتا ہے اس نے کہا۔ آپ سچے ہیں  اگلے نبیوں  کا بھی یہی قول ہے۔ حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  جب نطفے کو رحم میں  چالیس دن گزر جاتا ہیں  تو ایک فرشتہ آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتا ہے کہ اے اللہ یہ نیک ہو گا یا بد؟ مرد ہو گایا عورت؟ جو جواب ملتا ہے وہ لکھ لیتا ہے اور عمل، عمر، اور نرمی گرمی سب کچھ لکھ لیتا ہے پھر دفتر لپیٹ لیا جاتا ہے اس میں  پھر کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں  رہتی بزار کی حدیث میں  ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہے جو عرض کرتا ہے اے اللہ اب نطفہ ہے، اے اللہ اب لوتھڑا ہے، اے اللہ اب گوشت کا ٹکڑا ہے۔ جب جناب باری تعالیٰ پیدا اسے پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پوچھتا ہے اے اللہ مرد ہو یا عورت،شکی ہو یا سعید؟ رزق کیا ہے ؟ اجل کیا ہے؟ اس کا جواب دیا جاتا ہے اور یہ سب چیزیں  لکھ لی جاتی ہیں  ان سب باتوں  اور اتنی کامل قدرتوں  کو بیان فرما کر فرمایا کہ سب سے اچھی پیدائش کرنے والا اللہ برکتوں  والا ہے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  میں  نے اپنے رب کی موافقت چار باتوں  میں  کی ہے جب یہ آیت اتری کہ ہم نے انسان کو بجتی مٹی سے پیدا کیا ہے تو بے ساختہ میری زبان سے فتبارک اللہ احسن الخالقین نکلا اوروہی پھر اترا زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اوپر والی آیتیں  لکھوا رہے تھے اور ثم انشانا ہ خلقہ آخر تک لکھوا چکے تو حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کیسے ہنسے ؟ آپ نے فرمایا اس آیت کے خاتمے پر بھی یہی ہے اس حدیث کی سند کا ایک روی جابر جعفی ہے جو بہت ہی ضعیف ہے اور یہ روایت بالکل منکر ہے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتب وحی مدینے میں  تھے نہ کہ مکے میں  حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کا واقعہ بھی مدینے کا واقعہ ہے اور یہ آیت مکے میں  نازل ہوئی ہے پس مندرجہ بالا روایت بالکل منکر ہے واللہ اعلم۔ اس پہلی پیدائش کے بعد تم مرنے والے ہو، پھر قیامت کے دن دوسری دفعہ پیدا کئے جاؤ گے، پھر حساب کتاب ہو گا خیر و شر کا بدلہ ملے گا۔

 

۱۶

آسمان کی پیدائش مرحلہ وار

انسان کی پیدائش کا ذکر کر کے آسمانوں  کی پیدائش کا بیان ہو رہا ہے جن کی بناوٹ انسانی بناوٹ سے بہت بڑی بہت بھاری اور بہت بڑی صنعت والی ہے۔ سورۃ الم سجدے میں  بھی اس کا بیان ہے جیسے حضور صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کے دن صبح کی نماز کی اول رکعت میں  پڑھا کرتے تھے وہاں  پہلے آسمان و زمین کی پیدائش کا ذکر ہے پھر انسانی پیدائش کا بیان ہے پھر قیامت کا اور سزا جزا کا ذکر ہے وغیرہ۔ سات آسمانوں  کے بنانے کا ذکر کیا ہے جسے فرمان ہے تسبح لہٗ السموت السبح والارض ومن فیہن الخ، ساتوں  آسمان اور سب زمینیں  اور ان کی سب چیزیں  اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہیں  کیا تم نہیں  دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اوپر تلے ساتوں  آسمانوں  کو بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے انہی جیسی زمینیں  بھی۔ اس کا حکم ان کے درمیان نازل ہوتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور تمام چیزوں  کو اپنے وسیع علم سے گھیرے ہوئے ہے اللہ اپنی مخلوق سے غافل نہیں۔ جو چیز زمین میں  جائے جو زمین سے نکلے اللہ کے علم میں  ہے آسمان سے جو اترے اور جو آسمان کی طرف چڑھے وہ جانتا ہے جہاں  بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے ایک ایک عمل کو وہ دیکھ رہا ہے۔ آسمان کی بلند و بالا چیزیں  اور زمین کی پوشیدہ چیزیں ، اور پہاڑوں  کی چوٹیاں ، سمندروں ، میدانوں ، درختوں  کی اسے خبر ہے۔ درختوں  کا کوئی پتہ نہیں  گرتا جو اس کے علم نہ ہو کوئی دانہ زمین کی اندھیریوں  میں  ایسا نہیں  جاتا جسے وہ نہ جانتا ہو کوئی تر خشک چیز ایسی نہیں  جو کھلی کتاب میں  نہ ہو۔ 

آسمان سے نزول بارش

اللہ تعالیٰ کی یوں  تو بے شمار اور ان گنت نعمتیں  ہیں۔ لیکن چند بڑی بڑی نعمتوں  کا یہاں  ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آسمان سے بقدر حاجت و ضرورت برساتا ہے۔ نہ تو بہت زیادہ کہ زمین خراب ہو جائے اور پیداوار گل سڑ جائے۔ نہ بہت کم کہ پھل اناج وغیرہ پیدا ہی نہ ہو۔ بلکہ اس اندازے سے کہ کھیتی سرسبز رہے، باغات ہرے بھرے رہیں۔ خوض، تالاب، نہریں  ندیاں ، نالے، دریا بہ نکلیں  نہ پینے کی کمی ہو نہ پلانے کی۔ یہاں  تک کہ جس جگہ زیادہ بارش کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں  کم کی ضرورت ہوتی ہے کم ہوتی ہے اور جہاں  کی زمین اس قابل ہی نہیں  ہوتی وہاں  پانی نہیں  برستا لیکن ندیوں  اور نالوں  کے ذریعہ وہاں  قدرت برساتی پانی پہنچا کر وہاں  کی زمین کو سیراب کر دیتی ہے۔ جیسے کہ مصر کے علاقہ کی زمین جو دریائے نیل کی تری سے سرسبزوشاداب ہو جاتی ہے۔ اسی پانی کے ساتھ سرخ مٹی کھینچ کر جاتی ہے جو حبشہ علاقے میں  ہوتی ہے وہاں  کی بارش کے ساتھ مٹی بہ کر پہنچتی ہے جو زمین پر ٹھیر جاتی ہے اور زمین قابل زراعت ہو جاتی ہے ورنہ وہاں  کی شور زمین کھیتی باڑی کے قابل نہیں۔ سبحان اللہ اس لطیف خبیر، اس غفور رحیم اللہ کی کیا کیا قدرتیں  اور حکمتیں  زمین میں  اللہ پانی کو ٹھیرا دیتا ہے زمین میں  اس کوچوس لینے اور جذب کر لینے کی قابلیت اللہ تعالیٰ پیدا کر دیتا ہے تاکہ دانوں  کو اور گٹھلیوں  کو اندر ہی اندر وہ پانی پہنچا دے پھر فرماتا ہے ہم اس کے لے جانے اور دور کر دینے پر یعنی نہ برسانے پر بھی قادر ہیں  اگر چاہیں  شور، سنگلاخ زمین، پہاڑوں  اور بے کار بنوں  میں  برسا دیں۔ اگر چاہیں  تو پانی کو کڑوا کر دیں  نہ پینے کے قابل رہے نہ پلانے کے، نہ کھیت اور باغات کے مطلب کار ہے، نہ نہانے دھونے کے مقصد۔ اگر چاہیں  زمین میں  وہ قوت ہی نہ رکھیں  کہ وہ پانی کو جذب کر لے چوس لے بلکہ پانی اوپر ہی اوپر تیرتا پھرے یہ بھی ہمارے اختیار میں  ہے کہ ایسی دوردراز جھلیوں  میں  پانی پہنچا دیں  کہ تمہارے لے بے کار ہو جائے اور تم کوئی فائدہ اس سے نہ اٹھا سکو۔ یہ خاص اللہ کا فضل و کرم اور اس کا لطف ورحم ہے کہ وہ بادلوں  سے میٹھا عمدہ ہلکا اور خوش ذائقہ پانی برساتا ہے پھر اسے زمین میں  پہنچاتا ہے اور ادھر ادھر ریل پیل کر دیتا ہے کھیتیاں  الگ پکتی ہیں  باغات الگ تیار ہوتے ہیں ، خود پیتے ہو اپنے جانوروں  کو پلاتے ہو نہاتے دھوتے ہو پاکیزگی اور ستھرائی حاصل کرتے ہو فالحمدللہ۔

آسمانی بارش سے رب العالمین تمہارے لئے روزیاں  اگاتا ہے، لہلہاتے ہوئے کھیت ہیں ، کہیں  سرسبز باغ ہیں  جو خوش نما اور خوش منظر ہونے کے علاوہ مفید اور فیض والے ہیں۔ کھجور انگور جو اہل عرب کا دل پسند میوہ ہے۔ اور اسی طرح ہر ملک والوں  کے لئے الگ الگ طرح طرح کے میوے اس نے پیدا کر دیے ہیں۔ جن کے حصول کے عوض اللہ کے شکر گزاری بھی کس کے بس کی نہیں۔ بہت میوے تمہیں  اس نے دے رکھے ہیں  جن کی خوبصورتی بھی تم دیکھتے ہو اور ان کے ذائقے سے بھی کھا کر فائدہ اٹھاتے ہو۔ پھر زیتون  کے درخت کا ذکر فرمایا۔ طورسیناوہ پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بات چیت کی تھی اور اس کے گرد کی پہاڑیاں  طور اس پہاڑ کو کہتے ہیں  جو ہرا اور درختوں  والا ہو ورنہ اسے جبل کہیں  گے طور نہیں  کہیں  گے۔ پس طورسینا میں  جو درخت زیتون  پیدا ہوتا ہے اس میں  سے تیل نکلتا ہے جو کھانے والوں  کو سالن کا کام دیتا ہے۔ حدیث میں  ہے زیتون  کا تیل کھاؤ اور لگاؤ وہ مبارک درخت میں  سے نکلتا ہے (احمد) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں  ایک صاحب عاشورہ کی شب کو مہمان بن کر آئے تو آپ نے انہیں  اونٹ کی سری اور زیتون کھلایا اور فرمایا یہ اس مبارک درخت کا تیل ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا ہے چوپایوں  کا ذکر ہو رہا ہے اور ان سے جو فوائد انسان اٹھا رہے ہیں ، ان پر سوار ہوتے ہیں  ان پر اپنا سامان اسباب لادتے ہیں  اور دور دراز تک پہنچتے ہیں  کہ یہ نہ ہوتے تو وہاں  تک پہنچنے میں  جان آدھی رہ جاتی بے شک اللہ تعالیٰ بندوں  پر مہربانی اور رحمت والا ہے جسے فرمان ہے اولم یروا خلقنا لہم الخ کیا وہ نہیں  دیکھتے کہ خود ہم نے انہیں  چوپایوں  کا مالک بنا رکھا ہے کہ یہ ان کے گوشت کھائے ان پر سواریاں  لیں  اور طرح طرح کہ نفع حاصل کریں  کیا اب بھی ان پر ہماری شکر گزاری واجب نہیں  ؟ یہ خشکی کی سواریاں  ہیں  پھر تری کی سواریاں  کشتی جہاز وغیرہ الگ ہیں۔

 

۲۲

نوح علیہ السلام اور متکبر وڈیرے

نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بشیر و نذیر بنا کر ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا۔ آپ نے ان میں  جا کر پیغام الٰہی پہنچایا کہ اللہ کی عبادت کرواس کے سوا تمہاری عبادت کا حقدار کوئی نہیں۔ تم اللہ کے سوا اس کے ساتھ دوسروں  کو پوجتے ہوئے اللہ سے ڈرتے نہیں  ہو؟ قوم کے بڑوں  نے اور سرداروں  نے کہا یہ تو تم جیسا ہی ایک انسان ہے۔ نبوت کا دعویٰ کر کے تم سے بڑا بننا چاہتا ہے سرداری حاصل کرنے کی فکر میں  ہے بھلا انسان کی طرف وحی کیسے آتی ؟ اللہ کا ارادہ نبی بھیجنے کا ہوتا تو کسی آسمانی فرشتے کو بھیج دیتا۔ یہ تو ہم نے کیا، ہمارے باپ دادوں  نے بھی نہیں  سنا کہ انسان اللہ کا رسول بن جائے۔ یہ تو کوئی دیوانہ شخص ہے کہ ایسے دعوے کرتا ہے اور ڈینگیں  مارتا ہے۔ اچھا خاموش رہو دیکھ لو ہلاک ہو گا۔

 

۲۵

جب نوح علیہ السلام ان سے تنگ آ گئے اور مایوس ہو گئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میرے پروردگار میں  لاچار ہو گیا ہوں  میری مدد فرما۔ جھٹلانے والوں  پر مجھے غالب کر اسی وقت فرمان الٰہی آیا کہ کشتی بناؤ اور خوب مضبوط چوڑی چکلی۔ اس میں  ہر قسم کا ایک ایک جوڑا رکھ لو حیوانات نباتات پھل وغیرہ وغیرہ اور اسی میں  اپنے والوں  کو بھی بٹھا لو مگر جس پر اللہ کی طرف سے ہلاکت سبقت کر چکی ہے جو ایمان نہیں  لائے۔ جیسے آپ کی قوم کے کافر اور آپ کا لڑکا اور آپ کی بیوی واللہ اعلم  اور جب تم عذاب آسمانی بصورت بارش اور پانی آتا دیکھ لو پھر مجھ سے ان ظالموں  کی سفارش نہ کرنا۔ پھر ان پر رحم نہ کرنا نہ ان کے ایمان کی امید رکھنا۔ بس پھر تو یہ سب غرق ہو جائیں  گے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہو گا۔ اس کا پورا قصہ سورۃ ھود کی تفسیر میں  گزر چکا ہے اس لئے ہم نہیں  دہراتے۔ جب تو اور تیرے مومن ساتھی کشتی پرسوار ہو جاؤ تو کہنا کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، جس نے ہمیں  ظالموں  سے نجات دی جسے فرمان ہے کہ اللہ نے تمہاری سواری کے لئے کشتیاں  اور چوپائے بنائے ہیں  تاکہ تم سواری لے کر اپنے رب کی نعمت کو مانوں  اور سوار ہو کر کہو کہ وہ اللہ پاک ہے جس نے ان جانوروں  کو ہمارے تابع بنا دیا ہے حالانکہ ہم میں  خود اتنی طاقت نہ تھی بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے یہی کہا اور فرمایا آؤ اس میں  بیٹھ جاؤ اللہ کے نام کے ساتھ اس کا چلنا اور ٹھیرنا ہے پس شروع چلنے کے وقت بھی اللہ کو یاد کیا۔ اور جب وہ ٹھیرنے لگی تب بھی اللہ کو یاد کیا اور دعا کی کہ اے اللہ مجھے مبارک منزل پر اتارنا اور تو ہی سب سے بہتر اتارنے والا ہے اس میں  یعنی مومنوں  کی نجات اور کافروں  کی ہلاکت میں  انبیاء کی تصدیق کی نشانیاں  ہیں  اللہ کی الواہیت کی علامتیں  ہیں  اس کی قدرت اس کا علم اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ یقیناً رسولوں  کو بھیج کر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  کی آزمائش اور ان کا پورا امتحان کر لیتا ہے

 

۳۰

عاد و ثمود کا تذکرہ

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد بھی بہت سی امتیں  آئیں  جسے عاد جو ان کے بعد آئی یا ثمود قوم جن پر چیخ کا عذاب آیا تھا۔ جیسے کہ اس آیت میں  ہے ان میں  بھی اللہ کے رسول علیہ السلام آئے اللہ کی عبادت اور اس کی توحید کی تعلیم دی۔ لیکن انہوں  نے جھٹلایا، مخالفت کی، اتباع سے انکار کیا۔ محض اس بنا پر کے یہ انسان ہیں۔ قیامت کو بھی نہ مانا، جسمانی حشر کے منکر بن گئے اور کہنے لگے کہ یہ بالکل دورازقیاس ہے۔ بعثت و نشر،حشر و قیامت کوئی چیز نہیں۔ اس شخص نے یہ سب باتیں  از خود گھڑ لی ہیں  ہم ایسی فضول باتوں  کے مانے والے نہیں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی اور ان پر مدد طلب کی۔ اسی وقت جواب ملا کہ تیری ناموافقت ابھی ابھی ان پر عذاب بن کر برسے گی اور یہ آٹھ آٹھ آنسوروئیں  گے۔ آخر ایک زبردست چیخ اور بے پناہ چنگھاڑ کے ساتھ سب تلف کر دئیے گئے اور وہ مستحق بھی اسی کے تھے۔ تیز و تند آندھی اور پوری طاقتور ہوا کے ساتھ ہی فرشتے کی دل دہلانے والی خوف ناک آواز نے انہیں  پارہ پارہ کر دیا وہ ہلاک اور تباہ ہو گئے۔ بھوسہ بن کر اڑ گئے۔ صرف مکانات کے کھنڈران گئے گزر ہوئے لوگوں  کی نشاندہی کے لئے رہ گئے وہ کوڑے کرکٹ کی طرح ناچیز محض ہو گئے۔ ایسے ظالموں  کے لئے دوری ہے۔ ان پر رب نے ظلم نہیں  کیا بلکہ انہی کا کیا ہوا تھا جوان کے سامنے آیا پس اے لوگو! تمہیں  بھی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت سے ڈرنا چاہے

 

۴۱

اکثریت ہمیشہ بدکاروں کی رہی

ان کے بعد بھی بہت سی امتیں  اور مخلوق آئی جو ہماری پیدا کردہ تھی۔ ان کی پیدائش سے پہلے ان کی اجل جو قدرت نے مقرر کی تھی، اسے اس نے پورا کیا نہ تقدیم ہوئی نہ تاخیر۔ پھر ہم نے پے درپے لگاتار رسول بھیجے۔ ہر امت میں  پیغمبر آیا اس نے لوگوں  کو پیغام الٰہی پہنچایا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے ماسوا کسی کی پوجا نہ کرو۔ بعض راہ راست پر آ گئے اور بعض پر کلمہ عذاب راست آگیا۔ تمام امتوں  کی اکثریت نبیوں  کی منکر رہی جیسے سورۃ یاسین میں  فرمایا یاحسرۃ علی العباد الخ افسوس ہے بندوں  پر ان کے پاس جو رسول آیا انہوں  نے اسے مذاق میں  اڑایا۔ ہم نے یکے بعد دیگرے سب کو غارت اور فنا کر دیا وکم اہلکنا من القرون من بعد نوح نوح علیہ السلام کے بعد بھی ہم نے کئی ایک بستیاں  تباہ کر دیں۔ انہیں  ہم نے پرانے افسانے بنا دیا وہ نیست و نابود ہو گئے اور قصے ان کے باقی رہ گئے۔ بے ایمانوں  کے لئے رحمت سے دور ہی ہے

 

۴۴

دریا برد فرعون

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون اور قوم فرعون کے پاس پوری دلیلوں  کے ساتھ اور زبردست معجزوں  کے ساتھ بھیجا لیکن انہوں  نے بھی سابقہ کافروں  کی طرح اپنے نبیوں  کی تکذیب و مخالفت کی اور سابقہ کفار کی طرح یہی کہا کہ ہم اپنے جیسے انسانوں  کی نبوت کے قائل نہیں  ان کے دل بھی بالکل ان جیسے ہی ہو گئے بالاخر ایک ہی دن میں  ایک ساتھ سب کو اللہ تعالیٰ نے دریا برد کر دیا۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لوگوں  کی ہدایت کے لئے تورات ملی۔ دوبارہ مومنوں  کے ہاتھوں  کافرہلاک کئے گئے جہاد کے احکام اترے اس طرح عام عذاب سے کوئی امت فرعون اور قوم فرعون یعنی قبطیوں  کے بعد ہلاک نہیں  ہوئی۔ ایک اور آیت میں  فرمان ہے گذشتہ امتوں  کی ہلاکت کے بعد ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب عنایت فرمائی جو لوگوں  کے لئے بصیرت ہدایت اور رحمت تھی۔ تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں  

 

۴۹

ربوہ کے معنی

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کی ایک زبردست نشانی بنایا آدم کو مرد و عورت کے بغیر پیدا کیا حوا کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا عیسیٰ علیہ السلام کو صرف عورت سے بغیر مرد کے پیدا کیا۔ بقیہ تمام انسانوں  کو مرد و عورت سے پیدا کیا۔ ربوہ کہتے ہیں  بلند زمین کو جو ہری اور پیداوار کے قابل ہو وہ جگہ گھانس پانی والی تر و تازہ اور ہری بھری تھی۔ جہاں  اللہ تعالیٰ نے اپنے غلام اور نبی کو اور کی صدیقہ والدہ کو جو اللہ کی بندی اور لونڈی تھیں  جگہ دی تھی۔ وہ جاری پانی والی صاف ستھری ہموار زمین تھی۔ کہتے ہیں  یہ ٹکڑا مصر کا تھا یا دمشق کا یا فلسطین کا ربوۃ ریتلی زمین کو بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ ایک بہت ہی غریب حدیث میں  ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا کہ تیرا انتقال ربوہ میں  ہو گا۔ وہ ریتلی زمین میں  فوت ہوئے۔ ان تمام اقوال میں  زیادہ قریب قول وہ ہے کہ مراد اس سے نہر ہے جیسے اور آیت میں  اس طرح بیان فرمایا گیا ہے قد جعل ربک تحتک سریا تیرے رب نے تیرے قدموں  تلے ایک نہر بہا دی ہم۔ پس یہ مقام بیت المقدس کا مقام ہے تو گویا اس آیت کی تفسیر یہ آیت ہے اور قرآن کی تفسیر اولاً قرآن سے پھر حدیث سے پھر آثار سے کرنی چاہے۔ 

اکل حلال کی فضیلت

اللہ تعالیٰ اپنے تمام انبیاء علیہ السلام کو حکم فرماتا ہے کہ وہ حلال لقمہ کھائیں  اور نیک اعمال بجا لایا کریں  پس ثابت ہو کہ لقمہ حلال عمل صالحہ کا مددگار ہے پس انبیاء نے سب بھلائیاں  جمع کر لیں ، قول، فعل، دلالت، نصیحت، سب انہوں  نے سمیٹ لی۔ اللہ تعالیٰ انہیں  اپنے سب بندوں  کی طرف سے نیک بدلے دے۔ یہاں  کوئی رنگت مزہ بیان نہیں  فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ حلال چیزیں  کھاؤ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے بننے کے اجرت میں  سے کھاتے تھے صحیح حدیث میں  ہے کوئی نبی ایسا نہیں  جس نے بکریاں  نہ چرائی ہوں  لوگوں  نے پوچھا آپ سمیت؟ آپ نے فرمایا ہاں  میں  بھی چند قیراط پر اہل مکہ کی بکریاں  چرایا کرتا تھا ؟ اور حدیث میں  ہے حضرت داؤد علیہ السلام اپنی ہاتھ کی محنت کا کھایا کرتے تھے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں  ہے اللہ کو سب سے زیادہ پسند روزہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے اور سب سے زیادہ پسندیدہ قیام داؤد علیہ السلام کا قیام ہے۔ آدھی رات سوتے تھے اور تہائی رات نماز تہجد پڑھتے تھے اور چھٹا حصے سوجاتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہ رکھتے تھے میدان جنگ میں  کبھی پیٹھ نہ دیکھتے ام عبد اللہ بن شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں  میں  نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں  دودھ کا ایک پیالہ شام کے وقت بھیجا تاکہ آپ اس سے اپنا روزہ افطار کریں  دن کا آخری حصہ تھا اور دھوپ کی تیزی تھی تو آپ نے قاصد کو واپس کر دیا اگر تیری بکری کا ہوتا تو خیر اور بات تھی۔ انہوں  نے پیغام بھیجا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں  نے یہ دودھ اپنے مال سے خرید کیا ہے پھر آپ نے پی لیا دوسرے دن مائی صاحبہ حاضر خدمت ہو کر کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس گرمی میں  میں  نے دودھ بھیجا بہت دیر سے بھیجا تھا آپ نے میرے قاصد کو واپس کر دیا۔ آپ نے فرمایا ہاں  مجھے یہی فرمایا گیا ہے۔ "انبیاء"صرف حلال کھاتے ہیں  اور صرف نیک عمل کرتے ہیں ، اور حدیث میں  ہے آپ نے فرمایا لوگوں  اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ صرف پاک کو ہی قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں  کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسول کو دیا ہے کہ اے رسولو!پاک چیار کے اؤ اور نیک کام کرو میں  تمہارے اعمال کا عالم ہوں  یہی حکم ایمان والوں  کو دیا کہ اے ایماندارو!جو حلال چیزیں  ہم نے تمہیں  دے رکھی ہیں  انہیں  کھاؤ۔ پھر آپ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے پراگندہ بالوں  والا غبار آلود چہرے والا ہوتا ہے لیکن کھانا پہننا حرام کا ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر اے رب اے رب کہتا ہے لیکن ناممکن ہے کہ اس کی دعا قبول فرمائی جائے۔ امام ترمذی رحمۃ  اللہ علیہ اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں۔ پھر فرمایا اے پیغمبر و تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے ایک ہی ملت ہے یعنی اللہ واحد لاشریک لہٗ کی عبادت کی طرف دعوت دینا۔ اسی لئے اسی بعد فرمایا کہ میں  تمہارا رب ہوں۔ پس مجھ سے ڈرو۔ سورۃ انبیاء میں  اس کی تفسیر و تشریح ہو چکی ہے امۃ واحدۃ پر نصب حال ہونے کی وجہ ہے۔ جن امتوں  کی طرف حضرات انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے تھے انہوں  نے اللہ کے دین کے ٹکڑے کر دئے اور جس گمراہی پر اڑ گئے اسی پر نازاں  و فرحاں  ہو گئے اس لئے کہ اپنے نزدیک اسی کو ہدایت سمجھ بیٹھے۔ پس بطور ڈانٹ کے فرمایا انہیں  ان کے بہکنے بھٹکنے میں  ہی چھوڑ دیجئے یہاں  تک کہ ان کی تباہی کا وقت آ جائے۔ کھانے پینے دیجئے، مست و بے خود ہونے دیجئے، ابھی ابھی معلوم ہو جائے گا۔ کیا یہ مغرور یہ گمان کرتے ہیں  کہ ہم جو مال و اولاد انہیں  دے رہے ہیں  وہ ان کی بھلائی اور نیکی کی وجہ سے ان کے ساتھ سلوک کر رہے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ یہ تو انہیں  دھوکا لگا ہے یہ اس سے سمجھ بیٹھے ہیں  کہ ہم جیسے یہاں  خوش حال ہیں  وہاں  بھی بے سزا رہ جائیں  گے یہ محض غلط ہے جو کچھ انہیں  دنیا میں  ہم دے رہے ہیں  وہ تو صرف ذرا سی دیر کی مہلت ہے لیکن یہ بے شعور ہیں۔ یہ لوگ اصل تک پہنچے ہی نہیں۔ جیسے فرمان ہے۔ فلاتعجبک اموالہم ولا اولادہم الخ، تجھے ان کے مال و اولاد دھوکے میں  نہ ڈالیں  اللہ کا ارادہ تو یہ ہے کہ اس سے انہیں  دنیا میں  عذاب کرے۔ اور آیت میں  ہے یہ ڈھیل صرف اس لئے دی گئی ہے کہ وہ اپنے گناہوں  میں  اور بڑھ جائیں۔ اور جگہ ہے۔ مجھے اور اس بات کے جھٹلانے والوں  کو چھوڑ دے ہم انہیں  اس طرح بتدریج پکڑیں  گے کہ انہیں  معلوم بھی نہ ہو۔ اور آیتوں  میں  فرمایا ہے ذرنی ومن خلقت وحیدا الخ، یعنی مجھے اور اسے چھوڑ دے جس کو میں  نے تنہا پیدا کیا ہے اور بہ کثرت مال دیا ہے اور ہمہ وقت موجود فرزند دئیے ہیں  اور سب طرح کا سامان اس لئے مہیا کر دیا ہے پھر اسے ہوس ہے کہ میں  اسے اور زیادہ دوں ، ہرگز نہیں  وہ ہماری باتوں  کا مخالف ہے اور آیت میں  ہے۔ وما اموالکم ولااولادکم بالتی تقربکم عندنا زلفی الامن امن وعمل صالحاالخ، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں  تمہیں  مجھ سے قربت نہیں  دے سکتیں  مجھ سے قریب تو وہ ہے جو ایماندار اور نیک عمل ہو۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں  ہیں  حضرت قتادہ رحمۃ  اللہ علیہ فرماتے ہیں  یہی اللہ کا شکر ہے پس تم انسانوں  کو مال اور اولاد سے نہ پرکھو بلکہ انسان کی کسوٹی ایمان اور نیک عمل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  اللہ تعالیٰ نے تمہارے اخلاق بھی تم میں  اسی طرح تقسیم کئے ہیں  جس طرح روزیاں  تقسیم فرمائی ہیں  اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت رکھے اور اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت نہ رکھے ہاں  دین صرف اسی کو دیتا ہے جس سے پوری محبت رکھتا ہوپس جسے اللہ دین دے سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں  محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی جان ہے بندہ مسلمان نہیں  ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور زبان مسلمان نہ ہو جائے اور بندہ مومن نہیں  ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں  سے بے فکر نہ ہو جائیں۔ لوگوں  نے پوچھا کہ ایذاؤں  سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا دھوکے بازی، ظلم وغیرہ۔ سنو جو بندہ حرام مال حاصل کر لے اس کے خرچ میں  برکت نہیں  ہوتی اس کا صدقہ قبول نہیں  ہوتا جو چھوڑ کر جاتا ہے وہ اس کا جہنم کا توشہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں  مٹاتا ہاں  برائی کو بھلائی سے رفع کرتا ہے۔ خبیث کو نہیں  مٹاتا

 

۵۶

مؤمن کی تعریف

فرمان ہے کہ احسان اور ایمان کے ساتھ ہی ساتھ نیک اعمال اور پھر اللہ کی ہیبت سے تھرتھرانا اور کاپنتے رہنا یہ ان کی صفت ہے۔ یہ ان کی صفت ہے حسن رحمۃ  اللہ علیہ فرماتے ہیں  کہ مومن نیکی اور خوف الٰہی کا مجموعہ ہوتا ہے۔ منافق برائی کے ساتھ نڈر اور بے خوف ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شرعی اور فطری آیات اور نشانیوں  پر یقین رکھتے ہیں  جیسے حضرت مریم علیہا السلام کا وصف بیان ہوا ہے کہ وہ اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں  کا یقین رکھتی تھیں  اللہ کی قدرت قضا اور شرع کا انہیں  کامل یقین تھا۔ اللہ کے ہر امر کو وہ محبوب رکھتے ہیں  اللہ کے منع کردہ ہرکام کو وہ ناپسند رکھتے ہیں ، ہرخبر کو وہ سچ مانتے ہیں  وہ موحد ہوتے ہیں  شرک سے بیزار رہتے ہیں ، اللہ کو واحد اور بے نیاز جانتے ہیں  اسے بے اولاد اور بیوی کے بغیر مانتے ہیں ، بینظر اور بے کفوسمجھتے ہیں  اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں  کرتے اللہ کے نام پر خیراتیں  کرتے ہیں  لیکن خوف زدہ رہتے ہیں  کہ ایسا نہ ہو قبول نہ ہوئی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں  جن سے زنا،چوری، اور شراب خواری ہو جاتی ہے ؟ لیکن ان کے دل میں  خوف الٰہی ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اے صدیق کی لڑکی یہ نہیں  بلکہ یہ وہ ہیں  جو نمازیں  پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، صدقے کرتے ہیں ، لیکن قبول نہ ہونے سے ڈرتے ہیں ، یہی ہیں  جو نیکیوں  میں  سبقت کرتے ہیں  (ترمذی) اس آیت کی دوسری قرأت عربی یاتون ما اتوا بھی ہے یعنی کرتے ہیں  جو کرتے ہیں  لیکن دل ان کے ڈرتے ہیں  مسند احمد ہیں  کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس ابوعاصم گئے۔ آپ نے مرحبا کہا اور کہا برابر آتے کیوں  نہیں  ہو ؟ جواب دیا اس لئے کہ کہیں  آپ کو تکلیف نہ ہو لیکن آج میں  ایک آیت کے الفاظ کی تحقیق کے لئے حاضر ہوا ہوں  یوتون ما اتوا ہیں  یایاتون مااتواہیں  ؟ آپ نے فرمایا کیا ہونا تمہارے لئے مناسب ہے میں  نے کہا آخرکے الفاظ اگرہوں  تو گویا میں  نے ساری دنیا پالی۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ خوشی مجھے ہو گی آپ نے فرمایا پھر تم خوش ہو جاؤ۔ واللہ میں  نے اسی طرح انہی الفاظ کو پڑھتے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سنا ہے۔ اس کا ایک روی اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے۔ ساتوں  مشہور قرأتوں  اور جمہور کی قرأت میں  وہی ہے جو موجودہ قرآن میں  ہے اور معنی کی رد سے بھی زیادہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہیں  سابق قرار دیا ہے اور اگر دوسری قرأت کو لیں  تو یہ سابق نہیں  بلکہ ہیں  واللہ اعلم

 

۶۱

آسان شریعت

اللہ تعالیٰ نے شریعت آسان رکھی ہے۔ ایسے احکام نہیں  دئیے جو انسانی طاقت سے خارج ہوں۔ پھر قیامت کے دن وہ اعمال کا حساب لے گا جو سب کے سب کتابی صورت میں  لکھے ہوئے موجود ہوں  گے۔ یہ نامہ اعمال صحیح صحیح طور پر ان کا ایک ایک عمل بتا دے گا۔ کسی طرح کا ظلم کسی پر نہ کیا جائے گا کوئی نیکی کم نہ ہو گی ہاں  اکثر مومنوں  کی برائیاں  معاف کر دی جائیں  گی۔ لیکن مشرکوں  کے دل قرآن سے بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں۔ اس کے سوا بھی ان کی اور بد اعمالیاں  بھی ہیں  جیسے شرک وغیرہ جسے یہ دھڑلے سے کر رہے ہیں۔ تاکہ ان کی برائیاں  انہیں  جہنم سے دور نہ رہنے دیں۔ چنانچہ وہ حدیث گزر چکی جس میں  فرمان ہے کہ انسان نیکی کے کام کرتے کرتے جنت سے صرف ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے جو اس پر تقدیر کا لکھا غالب آ جاتا اور بد اعمالیاں  شروع کر دیتا ہم کہ جہنم واصل ہو جاتا ہے۔ یہاں  تک کہ جب ان میں  سے آسودہ حال دولت مند لوگوں  پر عذاب الٰہی آ پڑتا ہے تو اب وہ فریاد کرنے لگتے ہیں۔ سورۃ مزمل میں  فرمان ہے کہ مجھے اور ان مالدار جھٹلانے والوں  کو چھوڑ دیجئے انہیں  ہمارے پاس بیڑیاں  بھی ہیں  اور جہنم بھی ہے اور گلے میں  اٹکنے والا کھانا ہے اور دردناک سزا ہے۔ اور آیت میں  ہے وکم اہلکنا من قبلہم من قرن فنادوا ولات حین منام۔ یعنی ہم نے ان سے پہلے اور بھی بہت سی بستیوں  کو تباہ کر دیا اس وقت انہوں  نے واویلا شروع کی جب کہ وہ محض بے سود تھی۔ یہاں  فرماتا ہے آج تم کیوں  شور مچا رہے ہو؟ کیوں  فریاد کر رہے ہوں ؟ کوئی بھی تمہیں  آج کام نہیں  آ سکتا تم پر عذاب الٰہی آ پڑے اب چیخنا چلانا سب بے سود ہے۔ کون ہے ؟ جو میرے عذابوں  کے مقابلے میں  تمہاری مدد کر سکے؟ پھر ان کا ایک بڑا گناہ بیان ہو رہا ہے کہ یہ میری آیتوں  کے منکر تھے انہیں  سنتے تھے اور ٹال جاتے تھے، بلائے جاتے تھے لیکن انکار کر دیتے تھے توحید کا انکار کرتے تھے شرک پر عقیدہ رکھتے تھے حکم تو بلند و برتر اللہ ہی کا چلتا ہے مستکبرین دال ہے ان کے حق سے ہٹنے اور حق کا انکار کرنے سے آیت ہے کہ یہ اس وقت تکبر کرتے تھے اور حق اور اہل حق کو حقیر سمجھتے تھے۔ اس معنی کی رو سے بہ کے ضمیر کا مرجع یا تو حرم ہے یعنی مکہ کے یا اس میں  بیہودہ بکواس بکتے تھے یا قرآن ہے جیسے یہ مذاق میں  اڑاتے تھے کبھی شاعری کہتے تھے کبھی کہانت وغیرہ۔ یا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہیں  کہ راتوں  کو بے کار بیٹھے ہوے اپنے گپ شب میں  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو کبھی شاعر کہتے، کبھی کاہن کہتے، کبھی جادوگر کہتے، کبھی جھوٹا کہتے، کبھی مجنون بتلاتے۔ حالانکہ حرم اللہ کا گھر ہے قرآن اللہ کا کلام ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں  جہنیں  اللہ نے اپنی مدد پہنچائی اور مکے پر قابض کیا ان مشرکین کو وہاں  سے ذلیل وپست کر کے نکالا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ یہ لوگ بیت اللہ کی وجہ سے فخر کرتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ وہ اولیاء اللہ ہیں  حالانکہ یہ خیال محض وہم تھا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ مشرکین قریش بیت اللہ پر فخر کرتے تھے اپنے آپ کو اس کا مہتمم اور متولی بتلاتے تھے حالانکہ نہ اسے آباد کرتے تھے نہ اس کا صحیح ادب کرتے تھے امام ابن ابی حاتم رحمۃ  اللہ علیہ نے یہاں  پر بہت کچھ لکھا ہے حاصل سب کا یہی ہے

 

۶۷

قرآن کریم سے فرار

اللہ تعالیٰ مشرکوں  کے اس فعل پر اظہار کر رہا ہے جو وہ قرآن کے نہ سمجھنے اور اس میں  غور و فکر نہ کرنے میں  کر رہے تھے اور اس سے منہ پھیر لیتے تھے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ رب العزت نے ان پر اپنی وہ پاک اور برتر کتاب نازل فرمائی تھی جو کسی نبی پر نہیں  اتاری گئی، یہ سب سے اکمل اشرف اور افضل کتاب ہے ان کے باپ دادے جاہلیت میں  مرے تھے جن کے ہاتھوں  میں  کوئی الہامی کتاب نہ تھی ان میں  کوئی پیغمبر نہیں  آیا تھا۔ تو انہیں  چاہے تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مانتے کتاب اللہ کی قدر کرتے اور دن اس پر عمل کرتے جیسے کہ ان میں  کے سمجھ داروں  نے کیا کہ وہ مسلمان متبع رسول ہو گئے۔ اور اپنے اعمال سے اللہ کو راضی رضامند کر دیا۔ افسوس کفار نے عقلمندی سے کام نہ لیا۔ قرآن کی متشابہ آیتوں  کے پیچھے پڑ کر ہلاک ہو گئے۔ کیا یہ لوگ محمدصلی اللہ علیہ و سلم کو جانتے نہیں ؟ کیا آپ کی صداقت امانت دیانت انہیں  معلوم نہیں  ؟ آپ تو انہی میں  پیدا ہوئے انہی میں  پلے انہی بڑے ہوئے پھر کیا وجہ ہے کہ آج اسے جھوٹا کہنے لگ جسے اس سے پہلے سچا کہتے تھے ؟ دو غلے ہو رہے تھے۔ حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شاہ حبش نجاشی رحمۃ  اللہ علیہ سے سر دربار یہی فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین وحدہٗ لاشریک نے ہم میں  ایک رسول بھیجا ہے جس کا نسب جس کی صداقت جس کی امانت ہمیں  خوب معلوم تھی۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسریٰ سے بوقت جنگ میدان میں  یہی فرمایا تھا ابوسفیان صخربن حرب نے شاہ روم سے یہی فرمایا تھا جب کہ سردربار اس نے ان سے اور ان کے ساتھیوں  سے پوچھا تھا۔ حالانکہ اس وقت تک وہ مسلمان بھی نہیں  تھے لیکن انہیں  آپ کی صداقت امانت دیانت سچائی اور نسب کی عمدگی کا اقرار کرنا پڑا کہتے تھے اسے جنون ہے یا اس میں  قرآن اپنی طرف سے گھڑلیا ہے حالانکہ بات اس طرح سے نہیں۔ حقیت صرف یہ ہے کہ ان کے دل ایمان سے خالی ہیں  یہ قرآن پر نظریں  نہیں  ڈالتے اور جو زبان پر آتا ہے بک دیتے ہیں  قرآن تو وہ کلام ہے جس کی مثل اور نیظر سے ساری دنیا عاجز آ گئی باوجود سخت مخالفت کے اور باجود پوری کوشیش اور انتہائی مقابلے کے کسی سے نہ بن پڑا کہ اس جیسا قرآن خود بنا لیتا یا سب کی مدد لے کر اس جیسی ایک ہی سورت بنا لاتا۔ یہ تو سراسرحق ہے اور انہیں  حق سے چڑ ہے پچھلا جملہ حال ہے اور ہو سکتا ہے کہ خبر یہ مستنفع واللہ اعلم۔

مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ ایک شخص سے فرمایا مسلمان ہو جا اس نے کہا اگرچہ مجھے یہ ناگوار ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں  اگرچہ ناگوار ہو ایک روایت میں  ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو راستے میں  ملا آپ نے اس سے فرمایا اسلام قبول کراسے یہ برا محسوس ہوا اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا آپ نے فرمایا دیکھو اگر تم کسی غیرآباد خطرناک غلط راستے پر چلے جا رہے ہو اور تمہیں  ایک شخص ملے جس کے نام نسب سے جس کی سچائی اور امانت داری سے تم بخوبی واقف ہو وہ تم سے کہے کہ اس راستے پر چلو جو وسیع آسان سیدھا اور صاف ہے بتاؤ تم اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلو گے یانہیں ؟ اس نے کہا ہاں  ضرور آپ نے فریاما بس تو یقین مانوقسم اللہ کی تم اس دن بھی سخت دشوار اور خطرناک راہ سے بھی زیادہ بری راہ پرہو اور میں  تمہیں  ایزی راہ کی دعوت دیتا ہوں  میری مان لو۔ مذکور ہے کہ ایک اور ایسے ہی شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھاجب کہ اس نے دعوت اسلام کا برا منایا بتاتو؟ اگر تیرے دوساتھی ہوں  ایک تو سچا امانت دار دوسرا جھوٹا خیانت پیشہ بتاؤ تم کس سے محبت کرو گے اس نے کہا سچے امین سے فرمایا اسی طرح تم لوگ اپنا رب کے نزدیک ہو حق سے مراد بقول سدی رحمۃ  اللہ علیہ خود اللہ تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ اگر انہی کی مرضی کے مطابق شریعت مقرر کرتا تو زمینوں  آسمان بگڑ جاتے جیسے اور آیت میں  کہ کافروں  نے کہا ان دونوں  بستیوں  میں  سے کسی بڑے شخص کے اوپر یہ قرآن کیوں  نہ اترا اس کے جواب میں  فرمان ہے کہ کیا اللہ کی رحمت کی تقسیم ان کے ہاتھوں  میں  ہے اور آیت میں  ہے کہ اور اگر انہیں  ملک کے کسی حصے کا مالک بنا دیا ہوتا تو کسی کو ایک کوڑی بھی نہ پرکھاتے۔ پس ان آیتوں  میں  جناب باری تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ انسانی دماغ مخلوق کے انتظام کی قابلیت میں  نااہل ہے یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ اس کی صفتیں  اس کے فرمان اس کے افعال اس کی شریعت اس کی تقدیر اس کی تدبیر تمام مخلوق کو حاوی ہے اور تمام مخلوق کی حاجت برآری اور ان کی مصلحت کے مطابق ہے اس کے سوا نہ کوئی معبود ہے نہ پالنہار ہے پھر فرمایا اس قرآن کو ان کی نصیحت کے لئے ہم لائے اور یہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں  پھر ارشاد ہے کہ تو تبلیغ قرآن پر ان سے کوئی اجرت نہیں  مانگتا تیری نظریں  اللہ پر ہیں  وہی تجھے اس کا اجر دے گا جسے فرمایا جو بدلہ میں  تم سے مانگو وہ بھی تمہیں  ہی دیا میں  تو اجر کا طالب صرف اللہ ہی سے ہوں۔ ایک آیت میں  ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم ہوا کہ اعلان کر دو کہ نہ میں  کوئی بدلہ چاہتا ہوں  نہ میں  تکلف کرنے والوں  میں  سے ہوں  اور جگہ ہے کہہ دے کہ میں  تم سے کوئی اجرت نہیں  چاہتا۔ صرف قرات داری کی محبت کا خواہاں  ہوں۔ سورۃ یاسین میں  ہے کہ شہرکے دور کے کنارے سے جو شخص دوڑا ہوا آیا اس نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگوں  نبیوں  کی اطاعت کرو جو تم سے کسی اجر کے خواہاں  نہیں  یہاں  فرمایا وہی بہترین رازق ہے۔ تو لوگوں  کو صحیح راہ کی طرف بلارہا ہے مسند امام احمد میں  ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سوئے ہوئے تھے جو دو فرشتے آئے ایک آپ کے پاؤں  میں  بیٹھا دوسرا سر کی طرف پہلے نے دوسرے سے کہا ان کی اور دوسروں  کی امت کی مثالیں  بیان کرواس نے کہا ان کی مثال ان مسافروں  کے قافلے کی مثل ہے جو ایک بیابان چٹیل میدان میں  تھے ان کے پاس نہ توشہ تھا نہ دانہ پانی نہ آگے بڑھنے کی قوت نہ پیچھے ہٹنے کی طاقت حیران تھے کہ کیا ہو گا اتنے میں  انہوں  نے دیکھا کہ ایک بھلا آدمی ایک شریف انسان عمدہ لباس پہنے ہوئے آ رہا ہے اس نے آتے ہی ان کی گھبراہٹ اور پریشانی دیکھ کر ان سے کہا کہ اگر تم میرا کہامانو اور میرے پیچھے چلو تو میں  تمہیں  پھلوں  سے لدے ہوئے باغوں  اور پانی سے بھرے حوضوں  پر پہنچادوں۔ سب نے اس کی بات مان لی اور اس نے انہیں  فی الواقع ہرے بھرے تر و تازہ باغوں  اور جاری چشموں  میں  پہنچا دیا یہاں  ان لوگوں  نے بے روک ٹوک کھایا پیا اور آسودہ حالی کی وجہ سے موٹے تازہ ہو گئے ایک دن اس نے کہا دیکھو میں  تمہیں  اس ہلاکت وافلاس سے بچا کر یہاں  لایا اور اس فارغ البالی میں  پہنچایا۔ اب اگر تم میری مانو تو میں  تمہیں  اس سے بھی اعلیٰ باغات اور اس سے طیب جگہ اور اس سے بھی زیادہ جگہ لہر دار نہروں  کی طرف لے چلوں  اس پر ایک جماعت تو تیار ہو گئی اور انھوں  نے کہا ہم آپ کے ساتھ ہیں  لیکن دوسری جماعت نے کہا ہمیں  اور زیادہ کی ضرورت نہیں  بس یہیں  رہ پڑے۔ ابویعلیٰ موصلی میں  ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  میں  تمہیں  اپنی باہوں  میں  سمیٹ کر تمہاری کمریں  پکڑ پکڑ کر جہنم سے روک رہا ہوں۔ لیکن تم پرنالوں  اور برساتی کیڑوں  کی طرح میرے ہاتھوں  سے چھوٹ چھوٹ کر آگ میں  گر رہے ہو کیا تم یہ چاہتے ہو؟ کہ میں  تمہیں  چھوڑ دوں ؟ سنو میں  تو حوض کوثر پر بھی تمہارا پیشوا اور میرسامان ہوں۔ وہاں  تم اکا دکا اور گروہ گروہ بن کر میرے پاس آؤ گے۔ میں  تمہیں  تمہاری نشانیوں  علامتوں  اور ناموں  سے پہچان لوں گا۔ جیسے کہ ایک نو وارد انجان آدمی اپنے اونٹوں  کو دوسروں  کے اونٹوں  سے تمیز کر لیتا ہے۔ میرے دیکھتے ہوئے تم میں  سے بعض کو بائیں  طرف والے عذاب کے فرشتے پکڑ کر لے جانا چاہیں  گے تو میں  جناب باری تعالیٰ میں  عرض کروں  گا۔ کہ اے اللہ یہ میری قوم کے میری امت کے لوگ ہیں۔ پس جواب دیا جائے گا آپ کو نہیں  معلوم کہ انہیں  نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں  نکالیں  تھیں ؟ یہ آپ کے بعد اپنی ایڑیوں  کے بل لوٹتے ہی رہتے۔ میں  انہیں  بھی پہچان لوں  گا جو قیامت کے دن اپنی گردن پر بکری لئے ہوئے آئے گا جو بکری چیخ رہی ہو گی وہ میرا نام لے کر آوازیں  دے رہا ہو گا۔ لیکن میں  اس سے صاف کہہ دوں  گا کہ میں  اللہ کے سامنے تجھے کچھ کام نہیں  آ سکتا میں  نے تو اللہ کی باتیں  پہنچا دی تھیں۔ اسی طرح کوئی ہو گا جو اونٹ کو لئے ہوئے آئے گا جو بلبلا رہا ہو گا۔ ندا کرے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم!میں  کہہ دوں  گا کہ میں  اللہ کے ہاں  تیرے لئے کچھ اختیار نہیں  رکھتا میں  نے تو حق بات تمہیں  پہنچا دی تھی۔ بعض آئیں  گے جن گردن پر گھوڑاسوار ہو گا جو ہنہنا رہا ہو گا وہ بھی مجھے آواز دے گا اور میں  یہی جواب دوں  بعض آئیں  گے اور مشکیں  لادے ہوئے پکاریں  گے یا محمد صلی اللہ علیہ و سلم یا محمد صلی اللہ علیہ و سلم !میں  کہوں  گا تمہارے کسی معاملہ سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ میں  تو تم تک حق بات پہنچا چکا تھا۔ امام علی بن مدینی رحمۃ  اللہ علیہ فرماتے ہیں  اسی حدیث کی سند ہے توحسن لیکن اس کا ایک راوی حفص بن حمید مجہول ہے لیکن امام یحییٰ بن ابی معین نے اسے صالح کہا ہے اور نسائی اور ابن حبان نے نے بھی اسے ثقہ کہا ہے۔ آخرت کا یقین نہ رکھنے والے راہ راستے سے ہٹے ہوئے ہیں۔ جب کوئی شخص سیدھی راہ سے ہٹ گیا تو عرب کہتے ہیں  نکب فلان عن الطریق۔ ان کے کفر کی پختگی بیان ہو رہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ سے سختی کو ہٹا دے انہیں  قرآن سنا اور سمجھا بھی دے تو بھی یہ اپنے کفر و عناد سے، سرکشی اور تکبر سے باز نہ آئیں  گے۔ جو کچھ نہیں  ہو وہ جب ہو گا تو کس طرح ہو گا اس کا علم اللہ کو ہے۔ اس لئے اور جگہ ارشاد فرمایا دیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان میں  بھلائی دیکھتا تو ضرور انہیں  اپنے احکام سناتا اگر انہیں  سناتا بھی تو وہ منہ پھیرے ہوئے اس سے گھوم جاتے یہ تو جہنم کے سامنے کھڑے ہو کر ہی یقین کریں  گے اور اس وقت کہیں  گے کاش کہ ہم لوٹا دئیے جاتے اور رب کی باتوں  کو نہ جھٹلاتے اور یقین مند ہو جاتے۔ اس سے پہلے جو چھپا تھا وہ اب کھل گیا۔ بات یہ ہے کہ اگر یہ لوٹا بھی دئیے جائیں  تو پھر سے منع کردہ کاموں  کی طرف لوٹ آئیں  گے۔ پس یہ وہ بات ہے جو ہو گی نہیں  لیکن اگر ہو تو کیا ہو؟ اسے اللہ جانتا ہے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ لوسے جملہ قرآن کریم میں  ہے وہ کبھی واقع ہونے والا نہیں

 

۷۵

جرائم کی سزا پانے کی باوجود نیک نہ بن سکے

فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں  ان کی برائیوں  کی وجہ سے سختیوں  اور مصیبتوں  میں  بھی مبتلا کیا لیکن تاہم نہ تو انہوں  نے اپنا کفر چھوڑا نہ اللہ کی طرف جھکے بلکہ کفر و ضلالت پر اڑے رہے۔ نہ ان کے دل نرم ہوئے نہ یہ سچے دل سے ہماری طرف متوجہ ہوئے نہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔ جیسے فرمان ہے فلولااذجاہم باسنا تضرعوا الخ، ہمارا عذاب دیکھ کر یہ ہماری طرف عاجزی سے کیوں  نہ جھکے ؟ بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہو گئے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  اس آیت میں  اس قحط سالی کا ذکر ہے جو قریشیوں  پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نہ ماننے کے صلے میں  آئی تھی، جس کی شکایت لے کر ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے تھے اور آپ کو اللہ کی قسمیں  دے کر، رشتے داریوں  کے واسطے دے کر کہا تھا کہ ہم تو اب لید اور خون کھانے لگے ہیں۔ (نسائی) بخاری و مسلم میں  ہے کہ قریش کی شرارتوں  سے تنگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بد دعا کی تھی کہ جسے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں  سات سال کی قحط سالی آئی تھی، ایسے ہی قحط سے اے اللہ تو ان پر میری مدد فرما۔ ابن ابی حاتم میں  ہے کہ حضرت وہب بن منبہ رحمۃ  اللہ علیہ و سلم کو قید کر دیا گیا۔ وہاں  ایک نوعمر شخص نے کہا میں  آپ کو جی بہلانے کے لئے اشعار سناؤں  ؟ تو آپ نے فرمایا "اس وقت ہم عذاب اللہ میں  ہیں  اور قرآن نے ان کی شکایت کی ہے جو ایسے وقت بھی اللہ کی طرف نہ جھکیں  " پھر آپ نے تین روزے برابر رکھے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ یہ بیچ میں  افطار کئے بغیر روزے کیسے ؟ تو جواب دیا کہ ایک نئی چیز ادھر سے ہوئی یعنی قید، تو ایک نئی چیز ہم نے کی یعنی زیادتی عبادت۔ یہاں  تک کہ حکم الٰہی آ پہنچا اچانک وقت آگیا اور جس عذاب کا وہم و گمان بھی نہ تھا وہ آ پڑا تو تمام خیر سے مایوس ہو گئے آس ٹوٹ گئی اور حیرت زیادہ رہ گئے اللہ کی نعمتوں  کو دیکھو، اس نے کان دئیے، آنکھیں  دیں ، دل دیا، عقل فہم عطا فرمائی کہ غور و فکر کر سکو، اللہ کی وحدانیت کو اس کے اختیار کو سمجھ سکو۔ لیکن جسے جسے نعمتیں  بڑھیں  شکر کم ہوئے جیسے فرمان ہے تو گو حرص کر لیکن ان میں  سے اکثر بے ایمان ہیں  پھر اپنی عظیم الشان سلطنت اور قدرت کا بیان فرما رہا ہے کہ اس نے مخلوق کو پیدا کر کے وسع زمین پر پھیلا دیا ہے پھر قیامت کے دن بکھرے ہوؤں  کو سمیٹ کر اپنے پاس جمع کرے گا اب بھی اسی نے پیدا کیا ہے پھر بھی وہی جلائے گا کوئی چھوٹا بڑا اگے پیچھے کا باقی نہ بچے گا۔ وہی بوسیدہ اور کھوکھلی ہڈیوں  کا زندہ کرنے والا اور لوگوں  کو مار ڈالنے والا ہے اسی کے حکم سے دن چڑھتا ہے رات آتی ہے ایک ہی نظام کے مطابق ایک کے بعد ایک آتا جاتا ہے نہ سورج چاند سے آگے نکلے نہ رات دن پر سبقت کرے کیا تم میں  اتنی بھی عقل نہیں  ؟ کہ اتنے بڑے نشانات دیکھ کر اپنے اللہ کو پہچان لو ؟ اور اس کے غلبے اور اس کے علم کے قائل بن جاؤ بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے کافر ہوں  یا گذشتہ زمانوں  کے ان سب کے دل یکساں  ہیں  زبانیں  بھی ایک ہی ہیں  وہی بکواس جو گذشتہ لوگوں  کی تھی وہی ان کی ہے کہ مر کر مٹی ہو جانے اور صرف بوسیدہ ہڈیوں  کی صورت میں  باقی رہ جانے کے بعد بھی دوبارہ پیدا کئے جائیں  یہ سمجھ سے باہر ہے ہم سے بھی یہی کہا گیا ہمارے باپ داداؤں  کو بھی اس سے دھمکایا گیا لیکن ہم نے تو کسی کو مر کر زندہ ہوتے نہیں  دیکھا ہمارے خیال میں  تو یہ صرف بکواس ہے۔ دوسری آیت میں  ہے کہ انہوں  نے کہا کیا جب ہم بوسیدہ ہڈیاں  ہو جائیں  گے اس وقت بھی پھر زندہ کئے جائیں  گے؟ جناب باری نے فرمایا جسے تم انہونی بات سمجھ رہے ہو وہ تو ایک آواز کے ساتھ ہو جائے گی اور ساری دنیا اپنی قبروں  سے نکل کر ایک میدان میں  ہمارے سامنے آ جائے گی۔ سورۃ یاسین میں  بھی یہ اعتراض اور جواب ہے۔ کہ کیا انسان دیکھتا نہیں  کہ ہم نے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ ضدی جھگڑالو بن بیٹھا اور اپنی پیدائش کو بھول بسرگیا اور ہم پر اعتراض کرتے ہوئے مثالیں  دینے لگا کہ ان بوسیدہ ہڈیوں  کو کون جلائے گا؟ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تم انہیں  جواب دو کہ انہیں  نئے سرے سے وہ اللہ پیدا کرے گا جس نے انہیں  اول بار پیدا کیا ہے اور جو ہر چیز کی پیدائش کا عالم ہے

 

۸۳

اللہ تعالیٰ ہی معبود واحد ہے

اللہ تعالیٰ جل و علا اپنے وحدانیت، خالقیت، تصرف اور ملکیت کا ثبوت دیتا ہے تاکہ معلوم جائے کہ معبود برحق صرف وہی ہے اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں  کرنی چاہے۔ وہ واحد اور لاشریک ہے پس اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان مشرکین سے دریافت فرمائیں  تو وہ سات لفظوں  میں  اللہ کے رب ہونے کا اقرار کرے گے اور اس میں  کسی کو شریک نہیں  بتائیں  گے۔ آپ انہیں  کے جواب کو لے کر انہیں  قائل کریں  کہ جب خالق، مالک، صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں  پھر معبود بھی تنہا وہی کیوں  نہ ہو؟ اس کے ساتھ دوسروں  کی عبادت کیوں  کی جائے ؟ واقعہ یہی ہے کہ وہ اپنے معبودوں  کو بھی مخلوق الٰہی او رمملوک رب جانتے تھے لیکن انہیں  مقربان رب سمجھ کر اس نیت سے ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ ہمیں  بھی مقرب بارگاہ اللہ بنا دیں  گے۔ پس حکم ہوتا ہے کہ زمین اور زمین کی تمام چیزوں  کا خالق کون ہے ؟ اس کی بابت ان مشرکوں  سے سوال کرو۔ ان کا جواب یہی ہو گا کہ اللہ واحدہ لاشریک لہٗ اب تم پھر ان سے کہو کہ کیا اب بھی اس اقرار کے بعد بھی تم اتنا نہیں  سمجھتے کہ عبادت کے لائق بھی وہی ہے کیونکہ خالق ورزاق وہی ہے۔ پھر پوچھو کہ اس بلند و بالا آسمان کا اس کی مخلوق کا خالق کون ہے؟ جو عرش جیسی زبردست چیز کا رب ہے ؟ جو مخلوق کی چھت جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ اللہ کی شان بہت بڑی ہے اس کا عرش آسمانوں  پر اس طرح ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے قبہ کی طرح بنا کر بتایا "(ابوداؤد) ایک اور حدیث میں  ہے کہ ساتوں  آسمان اور زمین اور ان کی کل مخلوق کرسی کے مقابلے پر اسی ہے جسے کسی چٹیل میدان میں  کوئی حلقہ پڑا ہو اور کرسی اپنی تمام چیزوں  سمیت عرش کے مقابلے میں  بھی ایسی ہی ہے۔ بعض سلف سے منقول ہے عرش کی ایک جانب سے دوسری جانب کی دوری پچاس ہزار سال کی مسافت کی ہے۔ اور ساتویں  زمین سے اس کی بلندی پچاس ہزار سال کی مسافت کی ہے۔ عرش کا نام عرش اس کی بلندی کی وجہ سے ہی ہے۔ کعب احبار سے مروی ہے کہ آسمان عرش کے مقابلے میں  ایسے ہیں  جسے کوئی قندیل آسمان و زمین کے درمیان ہو۔ مجاہد رحمۃ  اللہ علیہ کا قول ہے کہ آسمان و زمین بمقابلہ عرش الٰہی ایسے ہیں  جسے کوئی چھلا کسی چٹیل وسیع میدان میں  پڑا ہو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  عرش کی قدرت و عظمت کا کوئی بھی سوا اللہ تعالیٰ کے اندازہ نہیں  کر سکتا بعض سلف کا قول ہے کہ عرش سرخ رنگ یاقوت کا ہے اس آیت میں  عرش عظیم کہا گیا ہے اور اس سورت کے آخر میں  عرش کریم کہا گیا ہے یعنی بہت بڑا اور بہت حسن و خوبی والا۔ پس لمبائی،چوڑائی، وسعت و عظمت،حسن و خوبی میں  وہ بہت ہی اعلیٰ و بالا ہے اسی لئے لوگوں  نے اسے یاقوت سرخ کہا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ تمہارے رب کے پاس رات دن کچھ نہیں  اس کے عرش کا نور اس کے چہرے کے نور سے ہے۔ الغرض اس سوال کا جواب بھی وہ یہی دیں  گے کہ آسمان اور عرش کا رب اللہ ہے تو تم کہو کہ پھر تم اس کے عذاب سے کیوں  نہیں  ڈرتے ؟ اس کے ساتھ دوسروں  کی عبادت کیوں  کر رہے ہو۔ کتاب التفکر والاعتبار میں  امام ابوبکر ابن ابی الدنیا ایک حدیث لائے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عموماً اس حدیث کو بیان فرمایا کرتے تھے کہ "جاہلیت کے زمانے میں  ایک عورت پہاڑ کی چوٹی پر اپنی بکریاں  چرایا کرتی تھی اس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا ایک مرتبہ اس نے اپنی ماں  سے دریافت کیا کہ اماں  جان تمہیں  کس نے پیدا کیا ہے ؟ اس نے کہا اللہ نے کہا میرے والد کو کس نے پیدا کیا؟ اس نے جواب دیا اللہ نے پوچھا اور ان پہاڑوں  کو اماں  کس نے بنایا ہے ماں  نے جواب دیا ان کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ پوچھا اور ان ہماری بکریوں  کا خالق کون ہے ماں  نے کہا اللہ ہی ہے اس نے کہا سبحان اللہ۔ اللہ کی اتنی بڑی شان ہے بس اس قدر عظمت اس کے دل میں  اللہ تعالیٰ کی سما گئی کہ وہ تھر تھر کانپنے لگا اور پہاڑسے گرپڑا اور جان اللہ کے سپرد کر دی اس کا ایک راوی ذرا ٹھیک نہیں  واللہ اعلم۔

دریافت کرو کہ تمام ملک کا مالک ہر چیز کا مختار کون ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی قسم عموماً ان لفظوں  میں  ہوتی تھا کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے اور جب کوئی تاکیدی قسم کھاتے تو فرماتے اس کی قسم جو دلوں  کا مالک اور ان کے پھرنے والا ہے پھر یہ بھی پوچھ کہ وہ کون ہے؟ جو سب کو پناہ دے اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کوئی توڑنہ سکے اور اس کے مقابلے پر کوئی پناہ دے نہ سکے کسی کی پناہ کا وہ پابند نہیں  یعنی اتنا بڑا سیدومالک کے تمام خلق، ملک،حکومت، اسی کے ہاتھ میں  ہے بتاؤ وہ کون ہے ؟ عرب میں  دستور تھا کہ سردار قبیلہ اگر کسی کو پناہ دے دے تو سارا قبیلہ اس کا پابند ہے لیکن قبیلے میں  سے کوئی کسی کو پناہ میں  لے لے تو سردار پر اس کی پابندی نہیں۔ پس یہاں  اللہ تعالیٰ کی سلطنت و عظمت بیان ہو رہی ہے کہ وہ قادر مطلق حاکم کل ہے اس کا ارادہ کوئی بدل نہیں  سکتا۔ وہ سب سے باز پرس کر لے لیکن کسی کی مجال نہیں  کہ اس سے کوئی سوال کر سکے۔ اس کی عظمت، اس کی کبریائی، اس کا غلبہ، اس کا دباؤ، اس کی قدرت، اس کی عزت، اس کی حکمت، اس کا عدل بے پایاں  اور بے مثل ہے۔ سب مخلوق اس کے سامنے عاجز پست اور لا چار ہے۔ اب ساری مخلوق کی بعض پرس کرنے والا ہے اس سوال کا جواب بھی ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور نہیں  کہ وہ اقرار کریں  کہ اتنا بڑا بادشاہ ایسا خود مختار اللہ واحد ہی ہے کہہ دے کہ پھر تم پر کیا ٹپکی پڑی ہے ؟ ایسا کونسا جادو تم پر ہو گیا ہے ؟ باوجود اس اقرار کے پھر بھی دوسروں  کی پرستش کرتے ہو؟ ہم تو ان کے سامنے حق واضع کر چکے توحید ربوبیت کے ساتھ ساتھ توحید الوہیت بیان کر دی صحیح دلیلیں  اور صاف باتیں  پہنچا دیں  اور ان کا غلط گو ہونا ظاہر کر دیا کہ یہ شریک بنانے میں  جھوٹے ہیں  اور ان کا جھوٹ خود ان کے اقرار سے ظاہر و باہر ہے جسے کہ سورت کے آخر میں  فرمایا کہ اللہ کے سوا دوسروں  کے پکارنے کی کوئی سند نہیں۔ صرف باپ دادا کی تقلید پر ضد ہے اور وہ یہی کہتے بھی تھے کہ ہم نے اپنے بزرگوں  کو اسی پر پایا اور ہم ان کی تقلید نہیں  چھوڑیں گے

 

۹۰

وہ ہر شان میں بے مثال ہے

اللہ تعالیٰ اس سے اپنی برتری بیان فرما رہا ہے کہ اس کی اولاد ہو یا اس کا شریک ہو۔ ملک میں ، تصرف میں ، عبادت کا مستحق ہونے میں ، وہ یکتا ہے، نہ اسکی اولاد ہے، نہ اس کا شریک ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ کئی ایک اللہ ہیں  تو ہر ایک اپنی مخلوق کامستقل مالک ہونا چاہے تو موجودات میں  نظام قائم نہیں  رہ سکتا۔ حالانکہ کائنات کا انتظام مکمل ہے، عالم علوی اور عالم سفلی، آسمان و زمین وغیرہ کمال ربط کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ کام میں  مشغول ہیں۔ دستور سے ایک انچ ادھر ادھر نہیں  ہوتے۔ پس معلوم ہوا کہ ان سب کا خالق مالک اللہ ایک ہی ہے نہ کہ متفرق کئی ایک اور بہت سے الٰہ مان لینے کی صورت میں  یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر ایک دوسرے کو پست و مغلوب کرنا اور خود غالب اور طاقتور ہونا چاہے گا۔ اگر غالب آگیا تو مغلوب الٰہ نہ رہا اگر غالب نہ آیا تو وہ خود اللہ نہیں۔ پس یہ دونوں  دلیلیں  بتا رہی ہیں  کہ اللہ ایک ہی ہے۔ متکلمین کے طور پر اس دلیل کو دلیل تمانع کہتے ہیں۔ ان کی تقریر یہ ہے کہ اگر دو اللہ مانے جائیں  یا اس سے زیادہ پھر ایک تو ایک جسم کی حرکت کا ارادہ کر لے اور دوسرا اس کے سکون کا ارادہ کرے اب اگر دونوں  کی مراد حاصل نہ ہو تو دونوں  ہی عاجز ٹھہرے اور جب عاجز ٹھہرے تو اللہ نہیں  ہو سکتے۔ کیونکہ واجب عاجز نہیں  ہوتا۔ اور یہ بھی ناممکن ہے کہ دونوں  کی مراد پوری ہو کیونکہ ایک کے خلاف دوسرے کی چاہت ہے۔ تو دونوں  کی مراد کا حاصل ہونا محال ہے۔ اور یہ محال لازم ہوا ہے اس وجہ سے کہ دو یا دو سے زیادہ اللہ فرض کئے گئے تھے پس یہ تعدد میں  باطل ہو گیا۔ اب رہی تیسری صورت یعنی یہ کہ ایک کی چاہت پوری ہو اور ایک کی نہ ہو تو جس کی پوری ہوئی وہ تو غالب اور واجب رہا اور جس کی پوری نہ ہوئی اور مغلوب اور ممکن ہوا۔ کیونکہ واجب کی صفت یہ نہیں  کہ وہ مغلوب ہو تو اس صورت میں  بھی معبودوں  کی کثرت تعداد باطل ہوتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اللہ ایک ہے وہ ظالم سرکش،حد سے گزر جانے والے، مشرک جو اللہ کی اولاد ٹھیراتے ہیں  اور اس کے شریک بتاتے ہیں ، ان کے ان بیان کردہ اوصاف سے ذات الٰہی بلند و بالا اور برتر و منزہ ہے۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے جو مخلوق سے پوشیدہ ہے۔ اور اسے بھی جو مخلوق پر عیاں  ہے۔ پس وہ ان تمام شرکا سے پاک ہے، جسے منکر اور مشرک شریک الٰہ بتاتے ہیں۔

قل رب اما ترینی مایوعدون رب فلاتجعلنی فی القوم الظلمین وانا علی ان نریک مانعدہم لقدرون اذفع بالتی ہی احسن السیۃ

 

۹۲

برائی کے بدلے اچھائی

سختیوں  کے اترنے کے وقت کی دعا تعلیم ہو رہی ہے کہ اگر تو ان بدکاروں  پر عذاب لائے اور میں  ان میں  موجود ہوں۔ تو مجھے ان عذابوں  سے بچا لینا۔ مسند احمد اور ترمذی شریف کی حدیث میں  ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دعاؤں  میں  یہ جملہ بھی ہوتا تھا کہ اے اللہ جب تو کسی قوم کے ساتھ فتنے کا ارادہ کر، تو مجھے فتنہ میں  ڈالنے سے پہلے اٹھا لے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تعلیم دینے کے بعد فرماتا ہے کہ ہم ان عذابوں  کو تجھے دکھا دینے پر قادر ہیں۔ جو ان کفار پر ہماری جانب سے اترنے والے ہیں۔ پھر وہ بات سکھائی جاتی ہے جو تمام مشکلوں  کی دوا، اور رفع کرنے والی ہے اور وہ یہ کہ برائی کرنے والے سے بھلائی کی جائے۔ تاکہ اس کی عداوت محبت سے اور نفرت الفت سے بدل جائے۔ جیسے ایک اور آیت میں  بھی ہے کہ بھلائی سے دفع کر تو جانی دشمن، ولی دوست بن جائے گا۔ لیکن یہ کام انہیں  سے ہو سکتا ہے جو صبر کرنے والے ہوں۔ یعنی اس کے حکم کی تعمیل اور اس کی صفت کی تحصیل صرف ان لوگوں  سے ہو سکتی ہے جو لوگوں  کی تکلیف کو برداشت کر لینے کے عادی ہو جائیں۔ اور گو وہ برائی کریں  لیکن یہ بھلائی کرتے جائیں۔ یہ وصف انہی لوگوں  کا ہے جو بڑے نصیب دار ہوں۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی جن کی قسمت میں  ہو۔ 

شیطان سے بچنے کی دعائیں

انسان کی برائی سے بچنے کی بہترین ترکیب بتا کر پھر شیطان کی برائی سے بچنے کی ترکیب بتائی جاتی ہے کہ اللہ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں  شیطان سے بچا لے۔ اس لئے کہ اس کے فن فریب سے بچنے کا ہتھیار تمہارے پاس سوائے اس کے اور نہیں۔ وہ سلوک واحسان سے بس میں  نہیں  آنے کے استعاذہ کے بیان میں  ہم لکھ آئے ہیں  کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ہمزہ و نفخہ و نفشہ پڑھا کرتے تھے۔ اور ذکر شیطان کی شمولیت کو روک دیتا ہے۔ کھانا پینا جماع ذبح وغیرہ کل کاموں  کے شروع کرنے سے پہلے اللہ کا ذکر کرنا چاہے۔ ابوداؤد میں  ہے کہ حضور علیہ السلام کی ایک دعا یہ بھی تھی۔ اللہم انی اعوذبک من الہرم و اعوذمن الہدم ومن الغرق واعوذبک ان یتخبطنی الشیطان عندالموت۔ اے اللہ میں  تجھ سے بڑے بڑھاپے سے اور دب کر مرجانے سے اور ڈوب کر مرجانے سے پناہ مانگتا ہوں  اور اس سے بھی کہ موت کے وقت شیطان مجھ کو بہکاوے۔ مسند احمد میں  ہے کہ ہمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک دعا سکھاتے تھے کہ نیند اچاٹ ہو جانے کے مرض کو دور کرنے کے لئے ہم سوتے وقت پڑھا کریں۔ بسم اللہ اعوذبکلمات اللہ التامۃ من غضبہ وعقابہ ومن شرعبادہ ومن ہمزات الشیاطین وان یحضرون۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دستور تھا کہ اپنی اولاد میں  سے جو ہوشیار ہو تے انہیں  یہ دعا سکھا دیا کرتے اور جو چھوٹے ناسمجھ ہوتے یاد نہ کر سکتے ان کے گلے میں  اس دعا کو لکھ کرلٹکا دیتے۔ ابوداؤد ترمذی اور نسائی میں  بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی رحمۃ  اللہ علیہ اسے حسن غریب بتاتے ہیں  

 

۹۸

بعد از مرگ

بیان ہو رہا ہے کہ موت کے وقت کفار اور بدترین گنگارسخت نادم ہوتے ہیں  اور حسرت وافسوس کے ساتھ آرزو کرتے ہیں  کہ کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں۔ تاکہ ہم نیک اعمال کر لیں۔ لیکن اس وقت وہ امید فضول یہ آرزو لاحاصل ہے چنانچہ سورۃ منافقون میں  فرمایا جو ہم نے دیا ہے ہماری راہ میں  دیتے رہو، اس سے پہلے کہ تم میں  سے کسی کی موت آ جائے اس وقت وہ کہے کہ اے اللہ ذرا سی مہلت دے دے تو میں  صدقہ خیرات کر لوں  اور نیک بندہ بن جاؤں  لیکن اجل آ جانے کے بعد کسی کو مہلت نہیں  ملتی تمہارے تمام اعمال سے اللہ تعالیٰ خبردار ہے اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں  ہیں۔ مثلاً یوم یاتیہم العذب سے من رسول تک اور یوم یاتی تاویلہ سے تعمل تک اور ولوتری اذ المجرمون سے موقنون تک اور ولوتری اذ وقفوا سے لکاذبون تک اور وتری الظالمین سے من سبیل تک اور آیت قالوا ربنا امتنا اور اس کے بعد کی آیت و وہم یصطرخون فیہا الخ، وغیرہ ان آیتوں  میں  بیان ہوا ہے کہ ایسے بدکار لوگ موت کو دیکھ کر قیامت کے دن کم سامنے کی پیشی کے وقت جہنم کے سامنے کھڑے ہودنیا میں  واپس آنے کی تمنا کریں  گے اور نیک اعمال کرنے کا وعدہ کریں  گے۔ لیکن ان وقتوں  میں  ان کی طلب پوری نہ ہو گی۔ یہ تو وہ کلمہ ہے جو بہ مجبوری ایسے آڑے وقتوں  میں  ان کی زبان سے نکل ہی جاتا ہے اور یہ بھی کہ یہ کہتے ہیں  مگر کرنے کے نہیں۔ اگر دنیا میں  واپس لوٹائے بھی جائیں  تو عمل صالح کر کے نہیں  دینے کے بلکہ ویسے ہی رہیں  گے جسے پہلے رہے تھے یہ تو جھوٹے اور لپاڑئیے ہیں  کتنا مبارک وہ شخص ہے جو اس زندگی میں  نیک عمل کر لے اور کیسے بدنصیب یہ لوگ ہیں  کہ آج نہ انہیں  مال و اولاد کی تمنا ہے۔ نہ دنیا اور زینت دنیا کی خواہش ہے صرف یہ چاہتے ہیں  کہ دو روز کی زندگی اور ہو جائے تو کچھ نیک اعمال کر لیں  لیکن تمنا بیکار، آرزوبے سود، خواہش بے جا۔ یہ بھی مروی ہے کہ ان کی تمنا پر انہیں  اللہ ڈانٹ دے گا اور فرمائے گا کہ یہ بھی تمہاری بات ہے عمل اب بھی نہیں  کرو گے۔ حضرت علابن زیاد رحمۃ  اللہ علیہ کیا ہی عمدہ بات فرماتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں ، تم یوں  سمجھ لوکہ میری موت آ چکی تھی، لیکن میں  نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے چند روز کی مہلت دے دی جائے تاکہ میں  نیکیاں  کر لوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں  کافر کی اس امیدکویاد رکھو اور خود زندگی کی گھڑیاں  اطاعت اللہ میں  بسر کرو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  جب کافر اپنی قبر میں  رکھا جاتا ہے اور اپنا جہنم کا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے تو کہتا ہے میرے رب مجھے لوٹا دے میں  توبہ کر لوں  گا اور نیک اعمال کرتا رہوں  گا جواب ملتا ہے کہ جتنی عمر تجھے دی گئی تھی تو ختم کر چکا پھر اس کی قبر اس پر سمٹ جاتی ہے اور تنگ ہو جاتی ہے اور سانپ بچھو چمٹ جاتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں  گناہ گاروں  پر ان قبریں  بڑی مصیبت کی جگہیں  ہوتی ہیں  ان کی قبروں  میں  انہیں  کالے ناگ ڈستے رہتے ہیں  جن میں  سے ایک بہت بڑا اس کے سرہانے ہوتا ہے ایک اتنا ہی بڑا پاؤں  کی طرف ہوتا ہے وہ سر کی طرف سے ڈسنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہیں  یہ پیروں  کی طرف سے کاٹنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے یہاں  تک کہ بیچ کی جگہ آ کر دونوں  اکٹھے ہو جاتے ہیں  پس یہ ہے وہ برزخ جہاں  یہ قیامت تک رہیں  گے من وراۂم کہ معنی کئے گے ہیں  کہ ان کے آگے برزخ ایک حجاب اور آڑ ہے دنیا اور آخرت کے درمیان وہ نہ تو صحیح طور دنیا میں  ہیں  کہ کھائیں  پئیں  نہ آخرت میں  ہیں  کہ اعمال کے بدلے میں  آ جائیں  بلکہ بیچ ہی بیچ میں  ہیں  پس اس آیت میں  ظالموں  کو ڈرایا جا رہا ہے کہ انہیں  عالم برزخ میں  بھی بڑے بھاری عذاب ہوں  گے جیسے فرمان ہے ومن وراۂم جہنم ان کے آگے جہنم ہے اور آیت میں  ہے ومن وراۂ عذاب غلیظ ان کے آگے سخت عذاب ہے برزخ کا۔ قبر کا یہ عذاب ان پر قیامت کے قائم ہونے تک برابر جاری رہے گا۔ جسے حدیث میں  ہے کہ وہ اس میں  برابر عذاب میں  رہے گا یعنی زمین میں۔ 

قبروں سے اٹھنے کے بعد

جب جی اٹھنے کا صور پھونکا جائے گا اور لوگ اپنی قبروں  سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں  گے، اس دن نہ تو کوئی رشتے ناتے باقی رہیں  گے۔ نہ کوئی کسی سے پوچھے گا، نہ باپ کو اولاد پر شفقت ہو گی، نہ اولاد باپ کا غم کھائے گی۔ عجب آپادھاپی ہو گی۔ جیسے فرمان ہے کہ کوئی دوست کسی دوست سے ایک دوسرے کو دیکھنے کے باوجود کچھ نہ پوچھے گا۔ صاف دیکھے گا کہ قریبی شخص ہے مصیبت میں  ہے، گناہوں  کے بوجھ سے دب رہا ہے لیکن اس کی طرف التفات تک نہ کرے گا، نہ کچھ پوچھے گا آنکھ پھیر لے گا "جیسے قرآن میں  ہے کہ "اس دن آدمی اپنے بھائی سے، اپنی ماں  سے، اپنے باپ سے، اپنی بیوی سے، اور اپنے بچوں  سے بھاگتا پھرے گا"حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں  کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اگلوں  پچھلوں  کو جمع کرے گا پھر ایک منادی ندا کرے گا جس کسی کا کوئی حق کسی دوسرے کے ذمہ ہو وہ بھی آئے اور اس سے اپنا حق لے جائے۔ تو اگرچہ کسی کا کوئی حق باپ کے ذمہ یا اپنی اولاد کے ذمہ یا اپنی بیوی کے ذمہ ہو وہ بھی خوش ہوتا ہوا اور دوڑتا ہوا آئے گا اور اپنے حق کے تقاضے شروع کرے گا جسے اس آیت میں  ہے مسند احمد کی حدیث میں  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جو چیز اسے نہ خوش کرے وہ مجھے بھی ناخوش کرتی ہے اور جو چیز اسے خوش کرے وہ مجھے بھی خوش کرتی ہے قیامت کے روز سب رشتے ناتے ٹوٹ جائیں  گے لیکن میرا نسب میرا سبب میری رشتہ داری نا ٹوٹے گی اس حدیث کی اصل بخاری مسلم میں  بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑ ا ہے اسے ناراض کرنے والی اور اسے ستانے والی چیزیں  مجھے ناراض کرنے والی اور مجھے تکلیف پہنچانے والی ہے مسند احمد میں  ہے رسول اللہ علیہ و سلم نے منبر پر فرمایا لوگوں  کا کیا حال ہے کہ کہتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا رشتہ بھی آپ کی قوم کو کوئی فائدہ نہ دے گا واللہ میرے رشتہ دنیا میں  اور آخرت میں  ملا ہوا ہے۔ اے لوگو میں  تمہارا میرسامان ہوں ، جب تم آؤ گے، ایک شخص کہے گا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں  فلاں  بن فلاں  ہوں ، میں  جواب دوں گا کہ ہاں  نسب تو میں  نے پہچان لیا لیکن تم لوگوں  نے میرے بعد بدعتیں  ایجاد کی تھیں  اور ایڑیوں  کے بل مرتد ہو گے تھے۔ مسند امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں  ہم نے کئی سندوں  سے یہ روایت کی ہے کہ جب آپ نے ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کیا تو فرمایا کرتے تھے واللہ مجھے اس نکاح سے صرف یہ غرض تھی کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ ہرسبب ونسب قیامت کے دن کٹ جائے گا مگر میرا نسب اور سبب یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے ان کا مہر از روئے تعظیم و بزرگی چالیس ہزار مقرر کیا تھا ابن عساکر میں  ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کل رشتے ناتے اور سسرالی تعلقات بجز میرے ایسے تعلقات کے قیامت کے دن کٹ جائیں  گے۔ ایک حدیث میں  ہے کہ میں  نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جہاں  میرا نکاح ہوا ہے اور جس کا نکاح میرے ساتھ ہوا ہے وہ سب جنت میں  بھی میرے ساتھ رہیں  تو اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی۔ جس کی ایک نیکی بھی گناہوں  سے بڑھ گئی وہ کامیاب ہو گیا جہنم سے آزاد اور جنت میں  داخل ہو گیا اپنی مراد کو پہنچ گیا اور جس سے ڈرتا تھا اس سے بچ گیا۔ اور جس کی برائیاں  بھلائیوں  سے بڑھ گئیں  وہ ہلاک ہوئے نقصان میں  آ گئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  قیامت کے دن ترازو پر ایک فرشتہ مقرر ہو گا جو ہر انسان کو لا کر ترازو کے پاس بیچوں  بیچ کھڑا کرے گا، پھر نیکی بدی تولی جائے گی اگر نیکی بڑھ گئی تو با آواز بلند اعلان کرے گا کہ فلاں  بن فلاں  نجات پا گیا اب اس کے بعد ہلاکت اس کے پاس بھی نہیں  آئے گی اور اگر بدی بڑھ گئی تو ندا کرے گا اور سب کوسنا کر کہے گا کہ فلاں  کا بیٹا فلاں  ہلاک ہوا اب وہ بھلائی سے محروم ہو گیا اس کی سند ضعیف ہے داؤد ابن حجر راوی ضعیف و متروک ہے ایسے لوگ ہمیشہ جہنم میں  رہیں  گے دوزخ کی آگ ان کے منہ جھلس دے گی چہروں  کو جلا دے گی کمر کو سلگا دے گی یہ بے بس ہوں  گے آگ کو ہٹا نہ سکیں  گے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  پہلے ہی شعلے کی لپٹ ان کا سارے گوشت پوست ہڈیوں  سے الگ کر کے ان کے قدموں  میں  ڈال دے گی وہ وہاں  بد شکل ہوں  گے دانت نکلے ہوں  گے ہونٹ اوپر چڑھا ہوا اور نیچے گرا ہو ہو گا اوپر کا ہونٹ تو  تالو تک پہنچا ہوا ہو گا اور نیچے کا ہونٹ ناف تک آ جائے گا

 

۱۰۴

مکمل آگاہی کے بعد بھی محروم ہدایت

کافروں  کو ان کے کفر اور گناہوں  پر ایمان نہ لانے پر قیامت کے دن جو ڈانٹ ڈپٹ ہو گی، اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں  نے تمہاری طرف رسول بھیجے تھے، تم پر کتابیں  نازل فرمائی تھیں ، تمہارے شک زائل کر دئیے تھے تمہاری کوئی حجت باقی نہیں  رکھی تھی جیسے فرمان ہے کہ تاکہ لوگوں  کا عزررسولوں  کے آنے کے بعد باقی نہ رہے اور فرمایا ہم جب تک رسول نہ بھیج دے عذاب نہیں  کرتے ایک اور روایت میں  ہے جب جہنم میں  کوئی جماعت جائے گی اس سے وہاں  کے داروغے پوچھے گے کہ کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے آگاہ کرنے والے آئے نہ تھے ؟ اس وقت یہ حرماں  نصیب لوگ اقرار کرے گے کہ بے شک تیری حجت پوری ہو گئی تھی لیکن ہم اپنی بدقسمتی اور سخت دلی کے باعث درست نہ ہوئے اپنی گمراہی پر اڑ گئے اور راہ راست پر نہ چلے۔ اللہ اب تو ہمیں  پھر دنیا کی طرف بھیج دے اگر اب ایسا کریں  تو بیشک ہم ظالم ہیں  اور مستحق سزا ہیں ، جیسے فاعترفنا بذنوبنا فہل الی خروج من سبیل ہمیں  اپنی تقصیروں  کا اقرار ہے کیا اب کسی طرح بھی چھٹکارے کی راہ مل سکتی ہے ؟ لیکن جواب دیا جائے گا کہ اب سب راہیں  بند ہیں۔ دار فنا ہو گیا، اب دار جزا ہے۔ توحید کے وقت شرک کیا، اب پچھتانے سے کیا حاصل،

 

۱۰۷

ناکام آرزو

کافر جب جہنم سے نکلنے کی آرزو کریں  گے تو انہیں  جواب ملے گا کہ اب تو تم اسی میں  ذلت کے ساتھ پڑھے رہو گے خبردار اب یہ سوال مجھ سے نہ کرنا آہ یہ کلام رحمن ہو گا جو دوزخیوں  کو ہر کھیل سے مایوس کر دے گا اللہ ہمیں  بچائے اے رحمتوں  والے اللہ ہمیں  اپنے رحم کے دامن میں  چھپا لے اپنی ڈانٹ دپٹ اور غصے سے بچا لے آمین حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  کہ جہنمی پہلے تو داروغہ جہنم کو بلائے گے چالیس سال تک اسے پکارتے رہیں  گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں  گے چالیس برس کے بعد جواب ملے گا کہ تم یہیں  پڑے رہو۔ ان کی پکار کی کوئی وقعت اور داروغہ جہنم کے پاس ہو گی نہ اللہ و علا کے پاس پھر براہ راست اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں  گے اور کہیں  گے کہ اے اللہ ہم اپنی بدبختی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے ہم اپنی گمراہی میں  ڈوب گئے اے اللہ اب تو ہمیں  یہاں  سے نجات دے اگر اب بھی ہم یہی برے کام کریں  تو جو چاہے سزا کرنا اس کا جواب انہیں  دنیا کی دگنی عمر تک نہ دیا جائے گا پھر فرمایا جائے گا کہ رحمت سے دور ہو کر ذلیل و خوار ہو کر اسی دوزخ میں  پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو اب یہ محض مایوس ہو جائیں  گے اور گدھوں  کی طرح چلاتے اور شور مچاتے جلتے اور بھنتے رہے گے اس وقت ان کے چہرے بدل جائیں  گے صورتیں  مسخ ہو جائیں  گی یہاں  تک کہ بعض مومن شفاعت کی اجازت لے کر آئیں  گے لیکن یہاں  کسی کو نہیں  پہچانیں  گے جہنمی انہیں  دیکھ کر کہیں  گے کہ میں  فلاں  ہوں  لیکن یہ جواب دیں  گے کہ غلط ہے تم تمہیں  نہیں  پہچانیں  گے۔ اب دوزخی لوگ اللہ کو پکاریں  گے اور وہ جواب پائیں  گے جو اوپر مذکور ہوا ہے پھر دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جائیں  گے اور یہ وہی سڑتے رہیں  گے۔ انہیں  شرمندہ اور پشیمان کرنے کے لئے ان کا ایک زبردست گناہ پیش کیا جائے گا کہ وہ اللہ کے پارے بندوں  کا مذاق اڑتے تھے اور ان کی دعاؤں  پر دل لگیں  کرتے تھے وہ مومن اپنے رب سے بخشش و رحمت طلب کرتے تھے اسے رحمن الراحمین کہہ کر پکارتے تھے لیکن یہ اسے ہنسی میں  اڑتے تھے اور ان کے بغض میں  ذکر رب چھوڑ بیٹھتے تھے اور ان کی عبادتوں  اور دعاؤں  پر ہنستے تھے جسے فرمان ہے ان الذین اجرموا کانوا من الذین امنوا یضحکون الخ، یعنی گنہگار ایمانداروں  سے ہنستے تھے اور انہوں  مذاق میں  اڑتے تھے اب ان سے اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ میں  نے اپنے ایماندار صبر گذار بندوں  کو بدلہ دے دیا ہے وہ سعادت سلامت نجات و فلاح پا چکے ہیں  اور پورے کامیاب ہو چکے ہیں  

 

۱۱۱

مختصر زندگی طویل گناہ

بیان ہو رہا ہے کہ دنیا کی تھوڑی سے عمر میں  یہ بدکاریوں  میں  مشغول ہو گئے اگر نیکوں  کار رہتے تو اللہ کے نیک بندوں  کے ساتھ ان نیکیوں  کا بڑا اجر پاتے آج ان سے سوال ہو گا کہ تم دنیا میں  کس قدر رہے جواب دیں  گے کہ بہت ہی کم ایک دن یا اس بھی کم حساب دانوں  کو لوگوں  سے دریافت کر لیا جائے جواب ملے گا کہ اتنی مدت ہو یا زیادہ لیکن واقع میں  وہ آخرت کی مدت کے مقابلے میں  بہت ہی کم ہے اگر تم اسی کو جانتے ہوتے تو اس فانی کو اس جاودانی ترجیح نہ دیتے اور برائی کر کے اس تھوڑی سی مدت میں  اس قدر اللہ کو ناراض نہ کر دیتے وہ ذرا سا وقت اگر صبر و ضبط سے اطاعت الٰہی میں  بسر کر دیتے تو آج راج تھا خوشی ہی خوشی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  جب جنتی دوزخی اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں  گے تو جناب باری عز و جل مومنوں  سے پوچھے گا کہ تم دنیا میں  کتنی مدت رہے ؟ وہ کہیں  گے یہی کوئی ایک آدھ دن اللہ فرمائے گا پھر تو بہت ہی اچھے رہے کہ اتنی سی دیر کی نیکیوں  کا یہ بدلہ پایا کہ میری رحمت رضامندی اور جنت حاصل کر لی ہمیشگی ہے پھر جہنمی سے یہ سوال ہو گا وہ بھی اتنی ہی مدت بتائیں  تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہاری تجارت بڑی گھاٹے والی ہو کہ اتنی سی مدت میں  تم نے میری ناراضگی غصہ اور جہنم خرید لیا جہان تم ہمیشہ پڑے رہو گے کیا تم لوگ یہ سمجھے ہوئے ہو کہ تم بیکار بے قصد ارادہ پیدا کئے گے ہو؟ کوئی حکمت تمہاری پیدائش میں  نہیں  ؟ محض کھیل کے طور پر تمہیں  پیدا کر دیا گیا ہے ؟ کہ مثل جانوروں  کے تم اچھل کودتے پھرو ثواب عذاب کے مستحق ہو یہ گمان غلط ہے تم عبادت کے لئے اللہ کے حکموں  کی بجا آوری پیدا کیے گئے ہو کیا تم یہ خیال کر کے نچنت ہو گے ہو کہ تمہیں  ہماری طرف لوٹنا ہی نہیں ؟ یہ بھی غلط خیال ہے جیسے فرمایا ایحسب الانسان ان یترک سدی کیا لوگ یہ گماں  کرتے ہیں  کہ وہ مہمل چھوڑ دئیے جائیں  گے اللہ کی بات اس سے بلند و برتر ہے کہ وہ کوئی عبث کام کرے بیکار بنائے بگاڑے وہ سچا بادشاہ اس سے پاک ہیں  اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں  وہ عرش عظیم کا مالک ہے جو تمام مخلوق پر مثل چھت کے چھایا ہوا ہے وہ بہت بھلا اور عمدہ ہے خوش شکل اور نیک منظر ہے جیسے فرمان ہے زمین میں  ہم نے ہر جوڑا عمدہ پیدا کر دیا ہے خلفۃ المسلمین امیر المومنین حضرت عمر بن العزیر رحمۃ  اللہ علیہ نے اپنے آخری خطبے میں  اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ لوگوں  تم بیکار اور عبث پیدا نہیں  کئے گئے اور تم مہمل چھوڑ دئے نہیں  گے یاد رکھو کہ وعدے کا ایک دن ہے جس میں  خود اللہ تعالیٰ فیصلے کرنے اور حکم فرمانے کیلئے نازل ہو گا۔ وہ نقصان میں  پڑا اس نے خسارہ اٹھایا وہ بے نصیب اور بدبخت ہو گیا، وہ محروم اور خالی ہاتھ رہا، جو اللہ کی رحمت سے دور ہو گیا اور جنٹ سے روک دیا گیا، جس کی چوڑائی مثل کل زمینوں  اور آسمانوں  کی ہے۔ کیا تمہیں  معلوم نہیں  کہ کل قیامت کے دن عذاب الٰہی سے وہ بچ جائے گا، جس کے دل میں  اس دن کا خوف آج ہے اور جو اس فانی دنیا کو اس باقی آخرت پر قربان کر رہا ہے، اس تھوڑے کو اس بہت کے حاصل کرنے کیلئے بے تکان خرچ کر رہا ہے اور اپنے اس خوف کو امن سے بدلنے کے اسباب مہیا کر رہا ہے۔ کیا تم نہیں  دیکھتے کہ تم سے گزشتہ لوگ ہلاک ہوئے، جن کے قائم مقام اب تم ہو۔ اسی طرح تم بھی مٹا دیئے جاؤ گے اور تمہارے بدلے آئندہ آنے والے آئیں  گے یہاں  تک کہ ایک وقت آئے گا کہ ساری دنیا سمٹ کر اس خیرالوراثین کے دربار میں  حاضری دے گی۔ لوگو خیال تو کرو کہ تم دن رات اپنی موت سے قریب ہو رہے ہو اور اپنے قدموں  اپنی گور کی طرف جا رہے ہو، تمہارے پھل پک رہے ہیں ، تمہاری امیدیں  ختم ہو رہی ہیں ، تمہاری عمریں  پوری ہو رہی ہیں۔ تمہاری اجل نزدیک آ گئی ہے، تم زمین کے گڑھوں  میں  دفن کر دیئے جاؤ گے، جہاں  نہ کوئی بستر ہو گا، نہ تکیہ، دوست احباب چھوٹ جائیں  گے، حساب کتاب شروع ہو جائے گا، اعمال سامنے آ جائیں  گے، جو چھوڑ آئے وہ دوسروں  کا ہو جائے گا۔ جو آگے بھیج چکے، اسے سامنے پاؤ گے، نیکیوں  کے محتاج ہو گے، بدیوں  کی سزائیں  بھگتو گے۔ اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو، اس کی باتیں  سامنے آ جائیں  اس سے پہلے موت تم کو اچک لے جائے۔ اس سے پہلے جواب دہی کیلئے تیار ہو جاؤ، اتنا کہا تھا کہ رونے کے غلبہ نے آواز بلند کر دی۔ منہ پر چادر کا کونہ ڈال کر رونے لگے اور حاضری کی بھی آہ و زاری شروع ہو گئی۔ ابن ابی حاطم میں  ہے کہ ایک بیمار شخص جسے کوئی جن ستا رہا تھا، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے الحسبتم سے سورت کے ختم تک کی آیتیں  اس کے کان میں  تلاوت فرمائیں  وہ اچھا ہو گیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا ذکر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم نے اس کے کان میں  کیا پڑھا تھا؟ " آپ نے بتایا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "تم نے یہ آیتیں  اس کے کان میں  پڑھ کر اسے جلا دیا۔ واللہ ان آیتوں  کو اگر کوئی با ایمان اور با یقین شخص کسی پہاڑ پر پڑھے تو وہ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائے۔ " ابو نعیم نے روایت کی ہے کہ ہمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک لشکر میں  بھیجا اور حکم فرمایا کہ ہم صبح شام افحسبتم انما خلقنا کم عبثا وانکم الینا لا ترجعون پڑھتے رہیں  ہم نے برابر اس کی تلاوت دونوں  وقت جاری رکھی۔ الحمدللہ ہم سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  "میری امت کا ڈوبنے سے بچاؤ کشتیوں  میں  سوار ہونے کے وقت یہ کہنا ہے۔ بسم اللہ الملک الحق و ماقدرو واللہ حق قدرہ والارض جمعیا قبضۃ یوم القیامۃ والسموت مطویات بیمینہ سبحانہ و تعالیٰ عما یشرکون بسم اللہ مجریھا و مرسھا ان ربی لغفور رحیم

 

۱۱۶

دلائل کے ساتھ مشرک کا موحد ہونا

مشرکوں  کو اللہ واحد ڈرا رہا ہے اور بیان فرما رہا ہے کہ ان کے پاس ان کے شرک کی کوئی دلیل نہیں۔ یہ جملہ معترضہ ہے اور جواب شرط فانما والے جملے کے ضمن میں  ہے یعنی اس کا حساب اللہ کے ہاں  ہے۔ کافر اس کے پاس کامیاب نہیں  ہو سکتے۔ وہ نجات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ایک سخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ تو کس کس کو پوجتا ہے؟ اس نے کہا صرف اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کام آنے والا وہی ہے تو پھر اس کے ساتھ ان دوسروں  کی عبادت کی کیا ضرورت ہے؟ کیا تیرا خیال ہے کہ وہ اکیلا تجھے کافی نہ ہو گا؟ جب اس نے کہا یہ تو نہیں  کہہ سکتا، البتہ ارادہ یہ ہے کہ اوروں  کی عبادت کر کے اس کا پورا شکر بجا لاسکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، سبحان اللہ! علم کے ساتھ یہ بے علمی؟ جانتے ہو اور پھر انجان بنے جاتے ہو؟ اب کوئی جواب بن نہ پڑا۔ چنانچہ وہ مسلمان ہو جانے کے بعد کہا کرتے تھے مجھے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے قائل کر دیا۔ یہ حدیث مرسل ہے ترمذی میں  سنداً بھی مروی ہے۔ پھر ایک دعا تعلیم فرمائی گئی۔ غفر کے معنی جب وہ مطلق ہو تو گناہوں  کو مٹا دینے اور انہیں  لوگوں  سے چھپا دیں ے کے آتے ہیں۔ اور رحمت کے معنی صحیح راہ پر قائم رکھنے اور اچھے اقوال و افعال کی توفیق دینے کے ہوتے ہیں۔ الحمد للہ سورۃ مومنون کی تفسیر ختم ہوئی