آیت ۲۲۴ تا ۲۲۶ میں مشرکین مکہ کے اس الزام کی تردید میں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شاعر ہیں شعراء کا بے کردار ہونا واضح کیا گیا ہے تاکہ لوگ ایک نبی ایک شاعر کے فرق کو محسوس کر سکیں۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الشعراء ہے۔
مکی ہے اور سورہ کی ترکیب اور اس کے مضامین پر غور کرنے سے اندازہ ہو تا ہے کہ یہ مکہ کے ابتدائی دور کے اخیر اخیر میں نازل ہوئی ہو گی۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کی صداقت کو واضح کرنا اور اس سلسلے میں وارد کیے جانے والے شبہات کا ازالہ کرنا ہے۔
آیت ۱ تا ۹ تمہیدی آیات ہیں جن میں واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کا رسول کس سوز و گداز کے ساتھ لوگوں کو قبول حق کی دعوت دے رہا ہے اور لوگ کس طرح اس سے بے رخی برت رہے ہیں اور مذاق میں سے ٹال رہے ہیں۔ وہ اگر سنجیدہ ہوتے اور غور کرتے تو انہیں اس حق کی تائید میں جو رسول پیش کر رہا ہے قدم قدم پر نشانیاں دکھائی دیتیں۔
آیت ۱۰ تا ۶۸ میں حضرت موسیٰ کی سرگزشت بیان ہوئی ہے جس سے نہ صرف ان کی رسالت کی صداقت ثابت ہوتی ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہٹ دھرم لوگ کسی بھی نشانی کو دیکھ کر یہاں تک کہ حسی معجزہ کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔
آیت ۶۹ تا ۱۰۴ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعوت توحید کو پیش کیا گیا ہے جو انہوں نے اپنی قوم کو دی تھی۔
آیت ۱۰۵ تا ۱۱۹ میں متعدد انبیاء علیہم السلام کی دعوت توحید کو پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ہی مخالفین کے انجام کو بھی۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں انبیاء علیہم السلام کا ظہور، ان کی دعوت کی یکسانیت اور ان کے مخالفین کا برے انجام کو پہنچنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولوں کے بھیجے جانے کی واضح دلیل ہے اور یہ دلیل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات میں بھی موجود ہے۔ آیت ۱۹۲ تا ۲۲۷ میں قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے تعلق سے شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے۔
۲۔۔۔۔۔۔۔ یہ آیتیں ہیں روشن کتاب کی ۲ *
۳۔۔۔۔۔۔۔ (اے پیغمبر !) شاید تم اپنے کو ہلاک کردہ گے اس (سوز غم) میں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ۳ * !
۴۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم چاہیں گو آسمان سے ان پر ایسی نشانی اتار دیں کہ ان کی گردنیں ا سکے آگے جھکی رہ جائیں ۴ *
۵۔۔۔۔۔۔۔ ان کے پاس رحمن کی طرف سے جو تازہ یاد دہانی بھی آتی ہے یہ اس سے رخ پھیر تے ہیں ۵ *۔
۶۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ انہوں نے جھٹلا دیا جس چیز کا یہ مذاق اڑاتے ہیں اس کی حقیقت عنقریب ان کے سامنے آئے گی۔ ۶ *
۷۔۔۔۔۔۔۔ کیا انہوں نے زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے اس میں کتنی کثرت سے ہر قسم کی عمدہ چیزیں اگائی ہیں۔
۸۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً اس میں بڑ ی نشانی ہے ۷ * مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ ۸ *
۹۔۔۔۔۔۔۔ اور بے شک تمہارا رب غالب بھی ہے اور رحیم بھی ۹ *۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔ اور جب تمہارے رب نے موسی کو پکارا ۱۰ * کہ ظالم قوم ۱۱ * کے پاس جاؤ۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔ فرعون کی قوم کے پاس۔ کیا وہ ڈرتے نہیں ۱۲ * ؟
۱۲۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا اے میرے رب مجھے اندیشہ ہے وہ کہ مجھے جھٹلا دیں گے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔ میرا سینہ تنگ ہو تا ہے ۱۳ * اور میرے زبان نہیں چلتی ۱۴ *۔ تو ہارون کی طرف رسالت بھیج۔ ۱۵ *
۱۴۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھ پر ان کے نزدیک ایک جرم کا بار بھی ہے اس لئے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے ۱۶ *۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔ فرما یا۔ ہر گز نہیں ۱۷ *۔ تم دونوں ہماری نشانیوں کے ساتھ جاؤ۔
ہم تمھارے ساتھ سنتے رہیں گے ۱۸ *۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔ فرعون کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم رب العالمین ۱۹ * کے رسول ہیں۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔ (اور اس حکم کے ساتھ بھیجے گئے ہیں ) کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے ۲۰ *۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کیا کہا ہم نے تم کو اپنے یہاں بچپن میں پالا نہیں تھا ؟
اور تم نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں نہیں گزارے ۲۱ * ؟
۱۹۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد تم نے وہ حرکت کی جو کی اور تم ناشکر ے ہو ۲۲ *۔ !
۲۰۔۔۔۔۔۔۔ موسی نے جواب دیا میں یہ اس وقت کیا جب کہ میں نابلد تھا ۲۳ *۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں تم لوگوں کے خوف ۲۴ * سے بھاگ گیا۔ پھر میرے رب نے مجھے حکم عطا ء کیا ۲۵ * اور رسولوں میں شامل کر لیا۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ تیرا احسان ہے جو تو مجھ پر جتا رہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے ۲۶ *۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔ فرعون نے کہا رب العالمین کیا ہے ۲۷ * ؟
۲۴۔۔۔۔۔۔۔ اس نے جواب دیا آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی موجودات کا رب اگر تم یقین کرنے والے ہو ۲۸*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنے ارد گرد کے لو گوں سے کہا سنیے نہیں ہو؟ ۲۹*
۲۶۔۔۔۔۔۔۔ موسٰی نے کہا تمہارے گزرے ہوئے آباء واجد اد کا بہی رب۔ ۳۰*
۲۷۔۔۔۔۔۔۔ فرعون نے کہا تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے دیوانہ ہے۔ ۳۱*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔ موسٰی نے کہا مشرق و مغرب اور ان کے درمیان کی ساری موجودات کا رب اگر تم لوگ عقل رکھتے ہو۔ ۳۲*
۲۹۔۔۔۔۔۔۔ فرعون کہا اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود (الٰہ) بنایا ۳۳* تو میں تمہی قید کر کے رہوں گا۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔ موسیٰ نے کہا اس صورت میں بہی جب کہ میں تمہارے پاس ایک واضح چیز لے کر آیا ہو ں ؟
۳۱۔۔۔۔۔۔۔ فر عون نے تو پیش کرو اگر تم سچّے ہو۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔ موسٰی نے اپنا عصا ڈال دیا اور یکایک وہ صریح ا ژ د ہا بن گیا۔ ۳۴ *
۳۳۔۔۔۔۔۔۔ اور اس نے اپنا ہا تھ کھینچا تو وہ دیکھنے والوں کے لئے روشن ہو گیا۔ ۳۵ *
۳۴۔۔۔۔۔۔۔ فرعون نے اپنے سرداروں سے جو اس کے ارد گرد تھے کہا یہ شخص یقیناً ایک ما ہر جادوگر ہے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔ یہ چاہتا ہے کہ جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک سے نکال دے ۳۶ * تو تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو؟
۳۶۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا اس کو اور ا سکے بھائی کو ابھی مہلت دیجیے اور (پارہ۱۹) شہروں میں نقیب بھیج دیجیے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔ کہ تمام ماہر جادوگروں کو آپ کے پاس لے آئیں۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ جادو گر ایک مقررہ دن وقت معین پر جمع کر دئے گئے ۳۷ *۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔ اور لوگوں سے کہا گیا تم مجتمع ہو گے ؟ ۳۸ *
۴۰۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ ہم جادو گروں کے پیچھے چلیں اگر وہ غالب آ گئے ۳۹ *۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔ جب جادو گر آئے تو انہوں نے فرعون سے کہا ہمیں انعام تو ملے گانا اگر ہم غالب آ گئے !
۴۲۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا ہاں ضرور اور تم مقر بین میں شامل ہو جاؤ گے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔ موسی نے کہا ڈال دو کچھ تمھیں ڈالنا ہے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں اور بولے فرعون کی عزت کی ۴۰ * ہم غالب رہیں گے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔ پھر موسی نے اپنا عصا ڈالا تو یکایک وہ ان کے طلسم کو ہڑ پ کر نے لگا۔ ۴۱ *
۴۶۔۔۔۔۔۔۔ اس پر جادو گر بے اختیار سجدے میں گر پڑ ے ۴۲ *۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔ اور بول اٹھے ہم ایمان لائے رب العالمین پر۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔ موسی اور ہارون کے رب پر ۴۳ *۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔ فرعون نے کہا تم نے اس کو مان لیا قبل اس کے کہ میں تم کو اس کی اجازت دیتا۔ ۴۴ * یہ تمھارا بڑا ہے جس نے تم کو جادو سکھا یا ہے ۴۵ *۔ تو ابھی تمھیں معلوم ہوا جا تا ہے۔ میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دوں گا اور تم سب کو سولی پر چڑھاؤں گا۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے جواب دیا کوئی حرج نہیں۔ ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۴۶ *۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارے رب ہماری خطائیں معاف کر دے گا کہ ہم سب سے پہلے ایمان لائے۔ ۴۷ *
۵۲۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم ۴۸ * نے موسیٰ پر وحی کی کہ میرے بندوں کو لیکر رات میں نکل جاؤ۔ تمہارا پیچھا کیا جائے گا ۴۹ *۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔ اس پر فرعون نے شہروں میں نقیب بھیجے۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں ۵۰ *۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمیں غصہ دلا رہے ہیں۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم ایک چوکنا رہنے والی جمعیت ہیں ۵۱ *۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔ بالآخر ہم نے ان کو باغوں اور چشموں سے نکالا۔
۵۸۔۔۔۔۔۔۔ اور خزانوں اور بہترین مقام سے ۵۲ *۔
۵۹۔۔۔۔۔۔۔ (ان کے ساتھ) اسی طرح کیا اور بنی اسرائیل کو ہم نے ان (نعمتوں ) کا وارث بنا دیا۔ ۵۳ *
۶۰۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے صبح ہوتے ہی ان کا (بنی اسرائل کا) تعاقب کیا ۵۴ *۔
۶۱۔۔۔۔۔۔۔ جب دونوں گروہ آمنے سامنے ہو گئے تو موسی کے ساتھی پکار اٹھے ہم تو پکڑ ے گئے !
۶۲۔۔۔۔۔۔۔ موسی نے کہا ہر گز نہیں میرے ساتھ میرا رب ہے وہ مجھے راہ دکھائے گا ۵۵ *
۶۳۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت ہم نے موسی پر وحی کہ اپنا عصا سمندر پر مارو چنانچہ سمندر پھٹ گیا اور ہر حصہ عظیم پہاڑ کی طرح بن گیا۔ ۵۶*
۶۴۔۔۔۔۔۔۔ وہاں ہم دوسے گروہ کو بھی قریب لائے۔ ۵۷ *
۶۵۔۔۔۔۔۔۔ اور موسی اور ان سب کو جو ان کے ساتھ تھے ہم نے بچا لیا ۵۸ *
۶۶۔۔۔۔۔۔۔ پھر دوسروں کو غرق کر دیا ۵۹ *۔
۶۷۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً اس میں بہت بڑ ی نشانی ہے۶۰* ۔ مگر ان لوگوں میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں۔ ۶۱ *
۶۸۔۔۔۔۔۔۔ اور بے شک تمہارے رب غالب بھی ہے اور رحیم بھی ۶۲ *۔
۶۹۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کو ابراہیم کا واقعہ سناؤ ۶۳ *۔
۷۰۔۔۔۔۔۔۔ جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ تم کن چیزوں کی پرستش کر تے ہو ۶۴ * !
۷۱۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا ہم بتوں کی پوجا کر تے ہیں اور انہی کی پوجا پر ہم جمے رہیں گے۔
۷۲۔۔۔۔۔۔۔ اس نے پوچھا کیا یہ تمہاری سنتے ہیں جب تم انہیں پکار تے رہو۔ ؟
۷۳۔۔۔۔۔۔۔ یا تمھیں نفع یا نقصان پہونچا تے ہیں ؟
۷۴۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے جواب دیا نہیں بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے ۶۵ *
۷۵۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا تم نے ان (بتوں ) کو دیکھا جن کو تم پوجتے رہے ہو ۶۶ *۔
۷۶۔۔۔۔۔۔۔ تم اور تمہارے پچھلے باپ دادا۔
۷۷۔۔۔۔۔۔۔ میرے تو یہ سب دشمن ۶۷ * ہیں سوائے رب العالمین کے
۷۸۔۔۔۔۔۔۔ جس نے مجھے پیدا کیا اور وہ میری رہنمائی فرماتا ہے ۶۸ *۔
۷۹۔۔۔۔۔۔۔ جو مجھے کھلا تا اور پلاتا ہے۔
۸۰۔۔۔۔۔۔۔ اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں ۶۹ * تو وہ مجھے شفاء دیتا ہے ۷۰ *۔
۸۱۔۔۔۔۔۔۔ جو مجھے موت دے گا اور پھر زندہ کرے گا ۷۱ *۔
۸۲۔۔۔۔۔۔۔ اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ جزا کے دن وہ میرے خطائیں معاف فرمائے گا ۷۲ *
۸۳۔۔۔۔۔۔۔ اے میرے رب ۷۳ * مجھے حکمت عطا فرما ۷۴ * اور مجھے صالح لوگوں میں شامل کر ۷۵ *۔
۸۴۔۔۔۔۔۔۔ اور بعد والوں میں میرے لئے سچائی کا بول رکھ دے ۷۶ *۔
۸۵۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے جنت نعیم کے وارثوں میں شامل فرما۔ ۷۷ *
۸۶۔۔۔۔۔۔۔ اور میرے باپ کو معاف کر دے کہ وہ گمراہوں میں سے ہے ۷۸ *۔
۸۷۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔
۸۸۔۔۔۔۔۔۔ جس دن ۷۹ * نہ مال فائدہ دے گا اور نہ اولاد۔
۸۹۔۔۔۔۔۔۔ صرف وہی لوگ (کامیاب ہوں گے ) جو قلب سلیم ۸۰* لے کر اللہ کے حضور حاضر ہوں گے۔
۹۰۔۔۔۔۔۔۔ اور جنت مت قیوں کے لئے قریب لائی جائے گی ۸۱*۔
۹۱۔۔۔۔۔۔۔ اور جہنم گمراہوں کیلے بے نقاب کر دی جائے گی ۸۲*۔
۹۲۔۔۔۔۔۔۔ اور ان سے کہا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جن کی تم پر ستش کر تے تھے۔
۹۳۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کو چھوڑ کر۔ کیا وہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں یا اپنا بچاؤ کریں گے ۸۳* ؟۔
۹۴۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ اور تمام گمراہ لوگ اس میں اوندھے جھونک دئے جائیں گے۔
۹۵۔۔۔۔۔۔۔ اور ابلیس کے سارے لشکر بھی ۸۴*۔
۹۶۔۔۔۔۔۔۔ وہ وہاں آپس میں جھگڑ تے ہوئے کہیں گے۔
۹۷۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی قسم ! ہم صریح گمراہی میں تھے ۸۵*۔
۹۸۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ تم کو رب العالمین کے برابر ی کا ٹھرا تے تھے۔
۱۰۱۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ کوئی دوست ہے ۸۷*۔
۱۰۲۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہمیں ایک مرتبہ اور لوٹنے کا موقعہ مل جائے تو ہم مومن ہوں ۸۸*۔
۱۰۳۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً اس میں بڑ ی نشانی ہے ۸۹*۔ مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ۹۰*۔
۱۰۴۔۔۔۔۔۔۔ اور بے شک تمہارا رب غالب بھی ہے۔ اور رحیم بھی ۹۱*۔
۱۰۵۔۔۔۔۔۔۔ نوح ۹۲* کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا ۹۳*۔
۱۰۶۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ ان کے بھائی نوح ۹۴* نے ان سے کہا ڈرتے نہیں ہو ۹۵*۔
۱۰۷۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہارے لئے ایک امانتدار رسول ہوں ۹۶*۔
۱۰۸۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۹۷*۔
۱۰۹۔۔۔۔۔۔۔ میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ میرا اجر رب العالمین کے ذمہ ہے ۹۸*۔
۱۱۰۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۹۹*۔
۱۱۱۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا کیا ہم تمھیں مان لیں جب کہ تمھاری پیروی رزیل ترین لوگوں نے اختیار کی ہے ۱۰۰*۔
۱۱۲۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا مجھے کیا معلوم وہ کیا کرتے رہے ہیں ۱۰۱*۔
۱۱۳۔۔۔۔۔۔۔ ان کا احسان تو میرے رب کے ذمہ ہے۔ کاش کہ تم سمجھو۔
۱۱۴۔۔۔۔۔۔۔ اور میں ان لوگوں کو دھتکارنے والا نہیں جو ایمان لائے ہیں ۱۰۲*۔
۱۱۵۔۔۔۔۔۔۔ میں تو بس کھلا خبر دار کرنے والا ہوں۔
۱۱۶۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا اے نوح ! اگر تم باز نہ آئے تو ضرور سنگسار کیے جاؤ گے۔ ۱۰۳*
۱۱۷۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دعا کی ۱۰۴* اے میرے رب ! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا۔
۱۱۸۔۔۔۔۔۔۔ اب تو میرے اور ان درمیان واضح فیصلہ کر دے ۱۰۵* اور مجھے اورع جو اہل ایمان میرے ساتھ ہیں ان کو نجات دے۔
۱۱۹۔۔۔۔۔۔۔ بالآخر ہم نے اس کو اور ان کو جو اس ساتھ تھے بھری ہوئی کشتی ۱۰۶* میں نجات دی۔
۱۲۰۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔ ۱۰۷*۔
۱۲۱۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً اس میں بڑ ی نشانی ہے ۱۰۸* مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں۔
۱۲۲۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہارا رب غالب بھی ہے اور رحیم بھی۔
۱۲۳۔۔۔۔۔۔۔ عاد ۱۰۹* رسولوں کو جھٹلایا۔
۱۲۴۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ ان کے بھائی ہود نے ان سے کہا کہ تم ڈرتے نہیں ؟۔
۱۲۵ میں تمہارے لئے ایک امانت دار رسول ہوں۔
۱۲۶۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کر و ۱۱۰*۔
۱۲۷۔۔۔۔۔۔۔ میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں کرتا۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔
۱۲۸۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا بات ہے کہ تم ہر اونچے مقام پر فضول یاد گار تعمیر کر تے ہو ؟ ۱۱۱*
۱۲۹۔۔۔۔۔۔۔ اور بڑ ے بڑ ے محل بنا تے ہو گو یا تمھیں ہمیشہ (یہیں ) ۱۱۲* رہنا ہے۔
۱۳۰۔۔۔۔۔۔۔ اور جب تم (کسی کو) گرفت میں لیتے ہو تو جبار بن کر گرفت میں لیتے ہو ۱۱۳*۔
۱۳۱۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ سے ڈرو ۱۱۴* اور میری اطاعت کرو۔
۱۳۲۔۔۔۔۔۔۔ ڈرو اس سے جس نے تمہاری مدد کی ان چیزوں سے جن کو تم (اچھی طرح) جانتے ہو۔
۱۳۳۔۔۔۔۔۔۔ اس نے تمہاری مدد کی چو پایوں اور اولاد سے۔
۱۳۴۔۔۔۔۔۔۔ اور باغوں اور چشموں سے۔ ۱۱۵*
۱۳۵۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اندیشہ ہے تم پر ایک ایسے دن کا عذاب کا جو بڑا سخت ہو گا۔ ۱۱۶*
۱۳۶۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا ہمارے یکساں ہے تم نصیحت کر و یا نہ کرو ۱۱۷*۔
۱۳۷۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات تو اگلوں سے چلی آ رہی ہے ۱۱۸*۔
۱۳۸۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم کو عذاب نہیں دیا جائے گا۔
۱۳۹۔۔۔۔۔۔۔ غرضیکہ انہوں نے اس کو جھٹلا یا تو ہم نے ان کو ہلاک کر دیا ۱۱۹*۔ یقیناً اس میں بڑ ی نشانی ہے ۱۲۰*۔ مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں۔
۱۴۰۔۔۔۔۔۔۔ اور بے شک تمہارا رب غالب بھی ہے اور رحیم بھی۔
۱۴۱۔۔۔۔۔۔۔ ثمود ۱۲۱* رسولوں کو جھٹلا دیا۔
۱۴۲۔۔۔۔۔۔۔ جب ان بھائی صالح نے ان سے کہا کیا تم ڈر تے نہیں ؟
۱۴۳۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہارے لئے ایک امانت دار رسول ہوں۔
۱۴۴۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۱۲۲*۔
۱۴۵۔۔۔۔۔۔۔ میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ ۱۲۳*
۱۴۶۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم ان (نعمتوں ) میں یہاں چین کی حالت میں چھوڑ دئے جاؤ گے ؟
۱۴۷۔۔۔۔۔۔۔ باغوں اور چشموں میں۔
۱۴۸۔۔۔۔۔۔۔ کھیتوں اور کھجور کے باغوں میں جن کے خوشے بڑ ے لطیف ہوتے ہیں ۱۲۴*۔
۱۴۹۔۔۔۔۔۔۔ اور پہاڑوں کو تراش کر تم عمارتیں بناتے رہو گے تاکہ اپنے کمال فن پر فخر کرو ۱۲۵*۔
۱۵۰۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
۱۵۱۔۔۔۔۔۔۔ اور حد سے گزر نے والوں ۱۲۶* کی اطاعت نہ کرو۔
۱۵۲۔۔۔۔۔۔۔ جو زمین میں فساد بر پا کر تے ہیں اور اصلاح نہیں کر تے ۱۲۷*۔
۱۵۳۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا تم پر جادو کا اثر ہوا ہے ۱۲۸*۔
۱۵۴۔۔۔۔۔۔۔ اور تم ہمارے ہی جیسے بشر ۱۲۹* ہو اگر (اپنے دعوے رسالت میں ) سچے ہو تو لاؤ کوئی نشانی۔
۱۵۵۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا یہ اونٹنی ۱۳۰* ہے۔ ایک دن پانی پینے کی باری اس کی ہے اور ایک مقررہ دن پانی کی باری تمہارے لئے ہے ۱۳۱*۔
۱۵۶۔۔۔۔۔۔۔ اس کو تکلیف پہنچاؤ ورنہ ایک سخت دن کا عذاب تمھیں آلے گا۔
۱۵۷۔۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے اس کی کونجیں کاٹ دی ۱۳۲* اور پھر پچھتاتے رہ گئے ۱۳۳*۔
۱۵۸۔۔۔۔۔۔۔ آخر کار انہیں عذاب نے آ لیا ۱۳۴*۔ یقیناً اس میں بڑ ی نشانی ہے۔ ۱۳۵*
۱۵۹۔۔۔۔۔۔۔ اور بے شک تمہارا رب غالب بھی ہے اور رحیم بھی۔
۱۶۰۔۔۔۔۔۔۔ لوط ۱۳۶* کی قوم نے رسولوں کی جھٹلایا۔
۱۶۱۔۔۔۔۔۔۔ جب ان کے بھائی لوط نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں۔ ؟
۱۶۲۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہارے لئے ایک امانت دار رسول ہوں۔
۱۶۳۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
۱۶۴۔۔۔۔۔۔۔ میں اس پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کر تا۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔
۱۶۵۔۔۔۔۔۔۔ کیا دنیا کے لوگوں میں تم ایسے ہو نہ شہوت پوری کرنے کے لئے لڑکوں کے پاس جاتے ہو ۱۳۷*۔
۱۶۶۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہارے رب نے تمہارے لئے جو بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو ۱۳۸*۔
۱۶۷۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا میں اے لوط اگر تم باز ۱۳۹* نہ آئے تو لازماً تمھیں یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ ۱۴۰*
۱۶۸۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا میں تمہارے عمل سے سخت بیزار ہوں ۱۴۱*۔
۱۶۹۔۔۔۔۔۔۔ اے رب ! مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کے عمل سے نجات دے ۱۴۲*۔
۱۷۰۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم نے اس کو اور اس کے سارے گھر والوں ۱۴۳* کو نجات دی۔
۱۷۱۔۔۔۔۔۔۔ سواے ایک بڑھیا کہ جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی ۱۴۴*۔
۱۷۲۔۔۔۔۔۔۔ پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کر دیا ۱۴۵*۔
۱۷۳۔۔۔۔۔۔۔ اور ان پر ایک خاص قسم کی برسات برسائی ۱۴۶*۔ تو کیا ہی بری بارش تھی جو خبردار کیے جانے والوں پر بر سائی گئی۔
۱۷۴۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً اس میں بڑ ی نشانی ۱۴۷*۔ مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں۔
۱۷۵۔۔۔۔۔۔۔ اور بے شک تمہارے رب غالب بھی ہے اور رحیم بھی۔
۱۷۶۔۔۔۔۔۔۔ ایکہ والوں ۱۴۸* نے رسولوں کی جھٹلا دیا۔
۱۷۷۔۔۔۔۔۔۔ جب شعیب نے ان سے کہا کیا تم ڈر تے نہیں ؟
۱۷۸۔۔۔۔۔۔۔ میں تمھارے لئے ایک امانتدار رسول ہوں۔
۱۷۹۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
۱۸۰۔۔۔۔۔۔۔ میں اس پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا۔ میر اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔
۱۸۱۔۔۔۔۔۔۔ ناپ پورا پورا بھر و اور گھاٹا نہ دو ۱۴۹*۔
۱۸۲۔۔۔۔۔۔۔ صحیح ترازو سے تولو ۱۵۰*۔
۱۸۳۔۔۔۔۔۔۔ اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد پھیلائے نہ پھر و ۱۵۱*۔
۱۸۴۔۔۔۔۔۔۔ ڈرو اس سے جس نے تم کو بھی پیدا کیا اور گزری ہوئی خلقت کو بھی۔
۱۸۵۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا تم پر جادو کا اثر ہوا ہے۔
۱۸۶۔۔۔۔۔۔۔ اور تم بس ہمارے ہی جیسے بشر ہو اور ہم تو تمھیں بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں۔
۱۸۷۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا دو۔ ۱۵۲*
۱۸۸۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا میرا رب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو ۱۵۳*۔
۱۸۹۔۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے اسے جھٹلایا۔ آخر کار ان کو سائبان والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا ۱۵۴*۔
۱۹۰۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً اس میں بڑ ی نشانی ۱۵۵* ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں۔
۱۹۱۔۔۔۔۔۔۔ اور بیشک تمہارا رب غالب بھی سے اور رحیم بھی۔
۱۹۲۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ (قرآن) یقیناً رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے ۱۵۶*۔
۱۹۳۔۔۔۔۔۔۔ اس کو لے کر روح الامین ۱۵۷* نازل ہوا ہے۔
۱۹۴۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے قلب ۱۵۸) پر تاکہ تم (لوگوں کو* خبردار کرنے والے بنو ۱۵۹*۔
۱۹۵ ۔۔۔۔۔۔۔ واضح عربی زبان میں ۱۶۰*
۱۹۶۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ گزرے ہوئے لوگوں کے صحیفوں میں بھی موجود ہے ۱۶۱*۔
۱۹۷۔۔۔۔۔۔۔ کیا ان لوگوں کیلے یہ نشانی نہیں ہے کہ اسے بنی اسرائیل کے علماء جانتے ہیں ۱۶۲*۔
۱۹۸۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر ہم اسے کسی عجمی ۱۶۳* پر نازل کرتے۔
۱۹۹۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ان کو پڑھ کر سناتا تو یہ اس پر ایمان لانے والے نہ تھے ۱۶۴*۔
۲۰۰۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح ہم نے یہ بات مجرموں کے دلوں میں داخل کر دی ۱۶۵*۔
۲۰۱۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں ۱۶۶*۔
۲۰۲۔۔۔۔۔۔۔ وہ ان پر اچانک آئے گا اور اس سے وہ بے خبر ہوں گے۔
۲۰۳۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت کہیں گے کیا ہمیں کچھ مہلت ملے گی۔
۲۰۴۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لئے جلدی مچا رہے ہیں ؟
۲۰۵۔۔۔۔۔۔۔ تم سوچا اگر ہم انہیں چند سال اور سامان زندگی دے دیں۔
۲۰۶۔۔۔۔۔۔۔ پھر ان پر وہ (عذاب) آ جائے جس سے ان کو ڈرایا جا رہا ہے۔
۲۰۷۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ سامان زندگی جس سے وہ فائدہ اٹھاتے رہے ان کے کسی کام آئے گا ۱۶۷*۔
۲۰۸۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے کسی آبادی کو بھی ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لئے خبر دار کرنے والے رہے ہیں ۱۶۸*۔
۲۰۹۔۔۔۔۔۔۔ یاد دہانی ۱۶۹* کے لئے اور ہم ظالم نہیں ہیں ۱۷۰*۔
۲۱۰۔۔۔۔۔۔۔ اس (قرآن) کو شیاطین لے کر نہیں اتر ے ہیں۔
۲۱۱۔۔۔۔۔۔۔ نہ یہ ان سے کوئی مناسبت رکھتا ہے اور نہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں ۱۷۱*۔
۲۱۲۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو اس کے سننے سے بھی دور ر کھے گئے ہیں ۱۷۲*۔
۲۱۳۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو ورنہ تم بھی سزا پا نے والوں میں شامل ہو جاؤ گے ۱۷۳*
۲۱۴۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ ۱۷۴*۔
۲۱۵۔۔۔۔۔۔۔ اور جو ایمان لانے والے تمہاری پیروی کریں ان کے لئے اپنے بازو جھکا دو ۱۷۵*۔
۲۱۶۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر وہ تمھاری نافر مانی کریں تو ان سے کہو جو کچھ تم کر رہے ہو میں اس سے بری ہوں ۱۷۶*۔
۲۱۷۔۔۔۔۔۔۔ اور توکل کرو اس پر جو غالب اور رحیم ہے ۱۷۷*۔
۲۱۸۔۔۔۔۔۔۔ جو تمھیں دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم نماز میں کھڑ ے ہوتے ہو۔
۲۱۹۔۔۔۔۔۔۔ اور سجدہ ریز ہونے والوں کے درمیان تمہاری آمد و رفت کو بھی ۱۷۸*۔
۲۲۰۔۔۔۔۔۔۔ بے شک و ہ سب کچھ سننے کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔
۲۲۱۔۔۔۔۔۔۔ کیا میں تم لوگوں کو بتاؤں کہ شیاطین کس پر اتر تے ہیں ۱۷۹*۔
۲۲۲۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہر جھوٹی بات بنانے والے بد کا ر پر اتر تے ہیں ۱۸۰*۔
۲۲۳۔۔۔۔۔۔۔ جو (شیطان کی طرف) کان لگاتے ہیں ۱۸۱*۔ اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۱۸۲*۔
۲۲۴۔۔۔۔۔۔۔ اور شاعروں کی پیروی تو گمراہ لوگ کرتے ہیں ۱۸۳*۔
۲۲۵۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ۱۸۴*۔
۲۲۶۔۔۔۔۔۔۔ اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ۱۸۵*۔
۲۲۷۔۔۔۔۔۔۔ سواۓ ان کے جو ایمان لائے، جنہوں نے نیک عمل کیے ، اللہ کو بہ کثرت یاد کیا اور اس صورت میں بدلہ لیا جب کہ ان پر ظلم ہوا تھا ۱۸۶* اور جو ظلم کر رہے ہیں وہ عنقریب جان لیں گے کہ کس انجام کو ہو پہنچتے ہیں ۱۸۷*۔
۱۔۔۔۔۔۔۔ یہ حروف مقطعات ہیں اور جیسا کہ ہم وضاحت کرتے آئے ہیں یہ حروف سورہ کے مخصوص مضامین کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ "ط" کا اشارہ طاعت کی طرف ہے چنانچہ ہر پیغمبر نے لوگوں سے اَطیعونِ (میری اطاعت کرو) کا مطالبہ کیا تھا جیسا کہ آیت ۱۰۸، ۱۲۶، ۱۴۴،۔۱۵۰، اور ۱۶۳ میں بیان ہوا ہے۔
"س" کا اشارہ سحر (جادو) کے الزام کی طرف ہے جو پیغمبروں پر لگایا جاتا رہا ہے اور جس کا ذکر آیت ۳۴، ۳۵، ۴۹، ۱۵۳، اور ا۸۵ میں ہوا ہے۔
اور "م" کا اشارہ مرسلین، (پیغمبروں ) کی طرف ہے جو مختلف قوموں کی طرف بھیجے گئے تھے۔ یہ لفظ آیت، ۱۰۵، ۱۴۱، ۱۶۰ اور ۱۷۲ میں آیا ہے۔
گویا ط س م سورہ کے اس مضمون کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں کہ اللہ نے مختلف قوموں کی طرف اپنے پیغمبر بھیجے تھے اور ان سب نے رسول ہونے کی حیثیت سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کیا تھا لیکن لوگوں نے ان پر جادو کا الزام لگایا کسی کو ساحر کہا اور کسی کو مسحور۔ اس سے یہ تاریخی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبروں کے مخالفین کی ذہنیت ہمیشہ یکساں رہی ہے اور آج بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین اسی ذہنیت کا ثبوت دے رہے ہیں (حروف مقطعات کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ بقرہ نوٹ ۱ اور سورہ یونس نوٹ ۱)۔
۲۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ یوسف نوٹ ۲ میں گزر چکی۔
۳۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ کہف نوٹ ۷۔
۴۔۔۔۔۔۔۔ کفار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حسی معجزہ طلب کر رہے تھے اس کے جواب میں یہاں فرمایا گیا ہے کہ اگر اللہ چاہے تو ان کا مطلوبہ معجزہ ہی نہیں ایسا حسی معجزہ بھی نازل کر سکتا ہے جس کے بعد انکار کی گنجائش باقی ہی نہ رہے اور یہ لوگ اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
یقیناً اللہ ایسا معجزہ دکھانے پر قادر ہے لیکن اللہ کی مشیت یہ نہیں ہے کیونکہ مقصود عقل کا امتحان ہے نہ کہ کسی بات کے ماننے پر عقل کو مجبور کر دینا۔
۵۔۔۔۔۔۔۔ تقریباً یہی بات سورہ انبیاء ۲ میں بیان ہوئی ہے تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انبیاء نوٹ ۲۔
۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ نتائج اور وہ انجام ان کے سامنے آئے گا جس سے ان کو خبردار کیا گیا ہے اور جس کا مذاق اڑانے میں وہ لگے ہوئے ہیں۔
۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زمین سے اگنے والی بہ کثرت عمدہ نباتات میں اس حق کی واضح نشانیاں موجود ہیں جس کو پیغمبر پیش کر رہا ہے یعنی توحید کی بھی اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کی بھی۔ زمین پر جو دسترخوان بچھا دیا گیا ہے اس سے لوگ اپنے ذوق کی تسکین کا سامان تو کر لیتے ہیں لیکن اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ یہ نفیس دسترخوان بچھایا کس نے ہے ؟ وہ کیسی ہستی ہے جس نے یہ انواع و اقسام کے کھانے اس وسیع دستر خوان پر چنے ہیں ؟
انسان پر نعمتوں کی بارش کر کے وہ اسے کیا بنانا چاہتا ہے ؟ اور انسان کا اپنے اس محسن حقیقی کے ساتھ رویہ کیا ہونا چاہیے ؟
۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان میں سے اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ان قدرتی نشانیوں کو دیکھ کر جو ان کے ارد گرد پھیلی ہوئی ہیں ایمان لانا نہیں چاہتے۔
واضح رہے کہ یہ اس صورت حال کا ذکر ہے جو اس وقت مکہ کی سوسائٹی میں پائی جاتی تھی چنانچہ ہجرت تک لوگ خال خال ہی ایمان لائے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔ اس موقع پر ان دو صفتوں کے ذکر سے مقصود یہ واضح کرنا ہے ایمان نہ لانے والے اللہ کے قابو سے باہر نہیں ہیں وہ بلا تاخیر ان پر عذاب نازل کر سکتا ہے لیکن اس کی رحمت اس بات کی متقاضی ہے کہ ان کو سنبھلنے کا مزید موقع دیا جائے نیز اس بات کی طرف اشارہ بھی ہے کہ اگر چہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے ہیں لیکن اللہ کے غلبہ اور اس کی رحمت کے کرشمے ظاہر ہو کر رہیں گے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔ یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سرگزشت پیش کی گئی ہے۔ اس کی تشریح کے سلسلہ میں سورہ طٰہٰ نوٹ ۹ تا ۹۴ پیش نظر رہیں۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔ فرعون کی قوم کا ذکر ظالم قوم کے نام سے کیا گیا کیوں کہ اس کی سر کشی اور اس کا ظلم انتہا کو پہنچ گیا تھا اور وہ بربریت پر اتر آئی تھی جس کی واضح مثال اس کا اپنے ملک کی مسلم اقلیت (بنی اسرائیل) کے نو زائیدہ بچوں کو قتل کرنا تھا۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ظالمانہ حرکتیں کرتے ہوئے اپنے رب سے ڈرتے نہیں کہ اس کا قہر ان پر نازل ہو سکتا ہے اور وہ اس کے غضب کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیفیت رسالت کی گراں بار ذمہ داری کے احساس کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی روانی کے ساتھ نہیں چلتی۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ طٰہٰ نوٹ ۲۸۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔ یہ حضرت موسیٰ کا رسالت کو قبول کرنے سے انکار نہیں تھا جیسا کہ بائبل (خروج باب ۱۳:۴، ۱۴) کا بیان ہے بلکہ رسالت کی عظیم ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی کوتاہ دستی اور مشکلات و موانع کا اظہار تھا تاکہ اللہ تعالٰیٰ ان کی دست گیری فرمائے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسالت کا منصب کتنی عظیم ذمہ داری کا منصب ہے جس کو قبول کرتے ہوئے حضرت موسیٰ جیسا شخص کانپ اٹھتا ہے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ طٰہٰ نوٹ ۴۲ یہ واقعہ تفصیل سے سورہ قصص میں آ رہا ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرعون کی قوم تمہیں قتل نہیں کر سکے گی اور نہ تمہارے فرضہ رسالت کی ادائیگی میں کوئی چیز مانع ہو سکے گی۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم تمہارے ساتھ سننے کے لیے موجود ہوں گے ور فرعون جو جواب بھی دے گا اس سے ہم باخبر ہوں گے اس لیے تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں جس مدد کی بھی ضرورت ہو گی ہم کریں گے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔ فرعون کا دعویٰ اپنی سلطنت یعنی ملک مصر کی حد تک رب ہونے کا تھا اور وہ بھی مخصوص معنی میں اس لیے موسیٰ علیہ السلام کو یہ ہدایت ہوئی کہ وہ اپنے کو رب العالمین کے رسول کی حیثیت سے پیش کریں تاکہ فرعون پر آغاز ہی میں واضح ہو جائے کہ اللہ مصر سمیت تمام کائنات کا حقیقی رب ہے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کے ارسال کا مطالبہ کوئی قومی مطالبہ نہیں تھا بلکہ اللہ کا حکم تھا جس کو فرعون تک پہنچانے کی ہدایت حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام کو دی گئی تھی۔ گویا ان پیغمبروں کو دعوت کے ساتھ اس مہم پر روانی کیا گیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو ملک مصر سے نکال لائیں اس لیے انہوں نے آغاز ہی میں فرعون کے سامنے جہاں دعوت پیش کی وہاں یہ مطالبہ بھی پیش کر دیا کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دیا جائے۔ سیاق کلام سے بالکل واضح ہے کہ یہ مطالبہ شروع ہی میں پیش کیا گیا تھا اس سے اس نظریہ کی تردید ہوتی ہے کہ دعوتی مرحلہ میں کسی ظالم یا غیر اسلامی حکومت کے سامنے کوئی ملّی مطالبہ نہیں پیش کیا جا سکتا اگر چہ دینی مصالح اس کے متقاضی ہو، مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۱۶۱
۲۱۔۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ کی پرورش کرشمہ الٰہی سے فرعون کے گھر میں ہوئی تھی جس کی تفصیل سورہ طٰہٰ نوٹ ۳۶ تا ۴۱ میں گزر چکی۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے قتل کے اس واقعہ کی طرف جو حضرت موسیٰ سے غلطی سے سر زد ہوا تھا تشریح کے لیے دیکھیے سور ہ طٰہٰ نوٹ ۴۳
۲۳۔۔۔۔۔۔۔ یہ حضرت موسیٰ کا اپنے نفس کی رُو رعایت کے بغیر اعتراف تھا کہ مجھ سے یہ غلطی ضرور سرد ہوئی تھی لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ مجھ پر ہدایت کی راہ نہیں کھلی تھی جواب کھلی ہے یعنی اب میں منصب رسالت پر مامور کیا گیا ہوں اور پوری روشنی میں چل رہا ہوں اس لیے ماضی کی غلطی کو زیر بحث لانے سے کیا فائدہ؟
واضح رہے کہ آیت میں ضلالت کا لفظ عقیدہ و عمل کی گمراہی کے معنی میں نہیں ہوا ہے بلکہ علم کی اس روشنی کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے جو انہیں ثبوت کے بعد حاصل ہو گئی تھی۔ قبطی کو انہوں نے دانستہ قتل نہیں کیا تھا بلکہ گھونسا مارنے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی تھی اس لیے یہ واقعہ قتل خطا کا تھا اور حضرت موسیٰ نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے اپنی بخشش کے لیے جن الفاظ میں دعا کی تھی اس کے ایک ایک لفظ سے مترشح ہوتا ہے وہ اس وقت بھی ہدایت پر تھے (دیکھیے سورہ قصص آیت ۱۵ تا ۱۷)۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم لوگوں کی سزا کے خوف سے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔ حکم سے مراد دانائی اور حکمت ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔ یہ حضرت موسیٰ کا فرعون کو منہ توڑ اور حقیقت کو آشکارا کرنے والا جواب تھا۔ اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ تجھے وہ احسان تو یاد ہے جو تو نے مجھ پر میری پرورش کی صورت میں کیا لیکن میری قوم بنی اسرائیل کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر جو ظلم تو ان پر ڈھا رہا ہے اس کو تو بھول گیا! کیا تو چاہتا ہے کہ میں تیرے احسان کا یہ بدلہ چکاؤں کہ بنی اسرائیل پر تیری طرف سے جو ظلم ہو رہا ہے اس کے خلاف آواز نہ اٹھاؤں اور تجھے اپنی من مانی کرنے دوں ؟ کیا تیرا یہ منشاء ہے کہ میں تیرے احسان تلے جو تو نے مجھ پر بچپن میں کیا تھا اس طرح دبا رہا ہوں کہ ایک مظلوم قوم کی گلو خلاصی کے لیے کچھ نہ کہوں۔ ؟
۲۷۔۔۔۔۔۔۔ فرعون کے اس سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا قائل نہیں تھا کہ کائنات کا کوئی رب ہے جو تدبیر امر کرتا ہے۔ رہا اس کا اپنے رب اعلیٰ ہونے کا دعویٰ تو وہ مصر کی حد تک اور اس کے فرمانروا ہونے کی بنا پر تھا۔ مصر کے فراعنہ اپنا رشتہ سورج دیوتا سے جوڑ تے تھے جیسا کہ ہم سورہ اعراف نوٹ ۱۸۰ میں واضح کر چکے ہیں۔ اس کے نزدیک جو سلطنت کا مالک ہے وہ رعایا کے لیے مقتدر اعلیٰ بھی ہے اور معبود (لائق پرستش) بھی۔ اس کو اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے اور کوئی بالا تر ہوتی ایسی نہیں جو اس کو حکم دینے کا اختیار رکھتی ہو۔ اس طرح وہ اپنی سیاسی اور مذہبی دونوں طرح کی حاکمیت کا مدعی تھا چنانچہ وہ اپنے من مانے احکام بھی جاری کرتا تھا اور لوگوں سے یہ مطالبہ بھی کرتا تھا کہ وہ اس کو پوجیں اس لیے اس کے دعوے کو محض سیاسی حاکمیت کے معنی میں لینا صحیح نہ ہو گا۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔ یقین علم سے حاصل ہوتا ہے اور علم کے حصول کا ایک اہم ذریعہ دلائل اور نشانیاں ہیں۔ حضرت موسیٰ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ وسیع کائنات جس میں آسمان زمین، سورج، چاند اور ستارے سب شامل ہیں اس بات پر صریح طور سے دلالت کرتی ہے کہ یہاں ایک بلند و بالا ہستی ہے جو پوری کائنات کی خالق بھی ہے اور مال بھی اور جس کی فرمان روائی سب پر چھا ئی ہوئی ہے لہٰذا انسان کا رب حقیقی بھی وہی ہے۔ اس حقیقت کا یقین تمہیں ہو سکتا ہے بشرطیکہ تم دلیل کی روشنی میں اس کائنات پر غور کرو۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔ یہ حضرت موسیٰ کے جواب پر طنز اور تعجب کا اظہار تھا۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔ یہ مزید وضاحت تھی اس بات کی کہ رب العالمین کون ہے نیز اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اگر فرعون تمہارا رب ہے تو تمہارے آبا و اجداد کا رب کون تھا؟ یہ فرعون تو بعد میں پیدا ہوا ہے اس لیے ان کا رب ہونے کا تو یہ مدعی ہو نہیں سکتا۔ مگر خالق کائنات کی ربوبیت ہمہ گیر ہے وہ گزرے ہوئے لوگوں سمیت تمام انسانوں کا رب ہے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔ جب فرعون سے حضرت موسیٰ کی دلیل کا کوئی جواب بن نہ پڑا تو ان پر دیوانہ ہونے کا الزام لگایا وہ جانتا تھا کہ موسیٰ دیوانے نہیں ہیں اگر وہ ان کو دیوانہ سمجھتا تو نہ بحث کو آگے بڑھاتا اور نہ ان سے اپنی سلطنت کے لیے خطرہ محسوس کرتا کیونکہ کسی دیوانہ سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مشرق و مغرب پر کس کی حکومت ہے ؟ سورج کس کے حکم سے نکلتا اور ڈوبتا ہے ؟ اور کون ہے جس کی فرمانروائی مشرق و مغرب کے درمیان کی تمام موجودات پر ہے ؟ اگر آدمی عقل سے کام لے تو اس کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کہ اللہ ہی رب العالمین ہے۔ مشرق و مغرب کا ذکر کرنے میں اس بات کی طرف بھی اشارہ تھا کہ فرعون تو زمین کے ایک محدود علاقہ کا محض مجازی حکمراں ہے وہ رب کیسے ہو سکتا ہے جب کہ اس کو نہ مشرق پر اختیار ہے اور نہ مغرب پر۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ فرعون کا دعویٰ محض سیاسی حاکمیت ہی کا نہیں تھا بلکہ اپنے معبود (لائق پرستش) ہونے کا بھی تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ اس کو پوجتے بھی رہیں تاکہ اس کو اپنی رعایا میں تقدس کا مقام حاصل ہو اور اس کی بادشاہت کی جڑیں مضبوط ہوں۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔ لاٹھی کا سانپ بن جانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزہ تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطاء کیا گیا۔ آپ کی لاٹھی حقیقۃً سانپ بن جاتی تھی اور اس کی شکل اژدھا کی سی ہوتی تھی یہ واضح نشانی تھی اس بات کی کہ حضرت موسیٰ اس ہستی کی طرف سے بھیجے گئے ہیں جو کائنات کا رب ہے اور تمام اشیاء پر قدرت رکھتا ہے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔ یہ دوسرا معجزہ تھا جو موسیٰ علیہ السلام کو عطاء ہوا۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ طٰہٰ نوٹ ۲۳
۳۶۔۔۔۔۔۔۔ یہ جھوٹا الزام تھا جو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر لگایا ورنہ انہوں نے کوئی بات ایسی نہیں کہی تھی۔ وہ تو بنی اسرائیل کو مصر سے باہر لے جانا چاہتے تھے۔ فرعون کی قوم کو ملک سے نکال باہر کرنے کا انہوں نے کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا مگر فرعون نے ان پر یہ سیاسی الزام لگایا تاکہ لوگوں کو ان کے خلاف ورغلایا جا سکے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔ یہ جشن کا دن تھا اور ن چڑھے کا وقت تھا جیسا کہ دوسری جگہ صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔ سوالیہ انداز میں لوگوں کو جمع ہونے کی ترغیب دی گئی۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔ کہنے والے فرعون کے حامی تھے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ جو غالب ہو گا یا جو حق ظاہر ہو گا اس کی ہم اتباع کریں گے بلکہ کہا کہ ہم جادو گروں کی اتباع کریں گے اگر وہ غالب آ گئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ متعصبانہ ذہنیت کے ساتھ آئے تھے۔ اور جادو گروں کی اتباع کا مطلب فرعون کے طریقہ کی اتباع تھا۔ چونکہ اس وقت دو فریق میں مقابلہ ہو رہا تھا ایک جادو گر دوسرے موسیٰ و ہارون اس لیے انہوں نے ایک فریق کی حیثیت سے جادو گروں کا ذکر کیا ورنہ مراد فرعون کی ہی تباع تھی۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔ عربی میں عزت کے معنی قوت اور غلبہ (Might and Power) کے بھی ہیں اور شرف (Honour) کے بھی۔ جادو گروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھائی جس سے انکی مشرکانہ ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ ۱۶۶
۴۲۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ ۱۷۱۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ ۱۷۲، ۱۷۳۔
جادو گروں کے ایمان لانے سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ حضرت موسیٰ جو کچھ پیش کر رہے ہیں وہ جادو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزہ ہے۔ جادو اور معجزہ کے فرق کو جادوگر اچھی طرح جانتا ہے اور ان کی یہ شہادت کہ حضرت موسیٰ کی لاٹھی کا سانپ بن جانا جادو کے زور سے نہیں بلکہ تائید الٰہی کی بنا پر ہے حق و باطل کے فرق کو نمایاں کرنے والی بات تھی۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔ کیسی ظالمانہ حکومت ہو گی وہ جہاں اللہ پر ایمان لانے کے لیے بھی حکومت سے اجازت لینے کی ضرورت ہو !
۴۵۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ طٰہٰ نوٹ ۸۱۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔ دیکھیے سورہ طٰہٰ نوٹ ۸۳۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس نازک موقعہ پر فرعون کی قوم میں سے ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے بنے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان ایک طویل عرصہ تک جو دعوتی کشمکش ہوتی رہی اس کا ذکر سورہ اعراف میں ہوا ہے۔ یہاں ابتدائی سرگزشت بیان کرنے کے بعد فرعون کے انجام کو بیان کیا گیا ہے کیونکہ موقع کے لحاظ سے یہاں یہ بات واضح کرتا مقصود ہے کہ ہٹ دھرم لوگ معجزوں کو دیکھ کر ایمان نہیں لاتے۔ ان کی آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب وہ انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل مصر میں جشن کے علاقہ میں رہتے تھے اور بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے پے درپے نازل ہونے والی آفتوں سے تنگ آ کر انہیں پہلے تو جانے کی اجازت دے دی لیکن بعد میں اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اس لیے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔
ادھر حضرت موسیٰ کے حکم سے بنی اسرائیل نے ہجرت کی تیاری کی ہو گی اور جب اللہ تعالیٰ نے مخصوص رات کا نکل جانے کا حکم دے دیا تو بنی اسرائیل کا قافلہ حضرت موسیٰ کی قیادت میں نکل پڑا۔
رات کا وقت مقرر کرنے کی ایک مصلحت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ صحرا میں سفر کے لیے رات کا وقت سکون کا ہونے کی وجہ سے زیادہ موزوں ہوتا ہے۔
حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی باخبر کر دیا تھا کہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔ یعنی بنی اسرائیل فرعون والوں کو پیچھا کرتے دیکھ کر پریشان نہ ہوں اللہ تعالیٰ ان کی نجات کا سامان کرے گا۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بنی اسرائیل ایک اقلیتی گروہ ہیں۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔ فرعون کا یہ اعلان فوج اور سرداروں کو ہر طرف سے مجتمع کرنے کے لیے تھا تاکہ بنی اسرائیل کے خطرہ کا آخری طور سے مقابلہ کیا جا سکے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی اس تدبیر کو ان ہی کے خلاف الٹ دیا اور اس کی صورت وہ ہوئی جو آگے بیان ہوئی ہے۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالٰیٰ کی تدبیر ایسی ہوئی کہ فرعون اس اعیان سلطنت اور اس کا لشکر اپنے عشرت کدوں کو چھوڑ کر محض بنی اسرائیل کی دشمنی میں اس کا پیچھا کرنے کی غرض سے باہر نکل گئے اور ایسے نکل گئے کہ پھر ان کو لوٹنا نصیب نہ ہوا۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کو مصر کی ان چیزوں کا وارث بنا دیا کیونکہ مصر سے ہجرت کرنے کے بعد وادی تیہ ہوتے ہوئے انہوں نے فلسطین کا رخ کیا جو ان کی اصل منزل تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو نعمتیں قوم فرعون کو عطاء ہوئی تھیں وہ ان سے چھین لی گئیں اور یہ نعمتیں (یعنی ایسی ہی نعمتیں ) بنی اسرائیل کو عطا کی گئیں چنانچہ سورہ اعراف میں بیان ہوا ہے ، وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْ یُس تَضْعَفُوْ نَ مَشَا رِقَ الْارْضِ وَمَغَرِبَھَا الَّتِی بٰرَکْنَا فِیْھَا (اعراف۔ ۱۳۷)۔ " اور جس قوم کو کمزور بنا کر رکھا گیا تھا ہم نے اس کو اس سر زمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں "۔
ظاہر ہے یہاں برکتوں والی سر زمین سے مراد فلسطین کی سر زمین ہے۔ اور قرآن یہ بھی صراحت کرتا ہے کہ اگر ایک طرف فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کر دیا گیا تو دوری طرف ملک پر ایسی تباہی لائی گئی کہ اونچی اونچی عمارتیں ڈھ گئیں اور اس کی ساری تمدنی ترقی خاک میں مل گئی۔
وَدَمَّرْ نَا مَا کَا نَ یَصْنَعُ فِرْعَونَ وَقَوْمُہٗ وَمَا کَانُوْ یَعْرِشُوْنَ (اعراف۔ ۱۳۷) " اور فرعون اور اس کی قوم نے جو کچھ بنایا تھا اور جو عمارتیں بلند کی تھیں وہ سب ہم نے ملیا میٹ کریدیں "۔
مصر میں یہ تباہی غالباً پُروا ہوا کے چلنے سے آئی تھیں۔ واللہ اعلم
۵۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔ اس نازک موقع پر دراصل توکل کا امتحان تھا۔ حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کی گھبراہٹ کو دور کرنے کے لیے جو کلمات کہے اس سے ان کے کمال توکل کا اظہار ہوتا ہے۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔ سمندر اس طرح پھٹنا کہ پانی کے دو حصے پہاڑ کی طرح کھڑ ے ہو جائیں اور بیچ میں خشک راستہ بن جائے جیسا کہ سورہ طٰہٰ آیت ۷۷ میں بیان ہوا ہے صریح معجزہ (خدا کی طرف سے ظاہر ہونے والی غیر معمولی نشانی) تھا۔ یہ معجزہ قرآن کے بیان کے مطابق حضرت موسیٰ کے سمندر پر عصا مارنے کے نتیجہ میں ظہور میں آیا تھا اس لیے اس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ یہ خیال کرنا صحیح ہے کہ طوفانی ہواؤں کے نتیجہ میں سمندر کا پانی ہٹ کیا تھا کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ طوفانی ہوائیں سمندر کے پانی کو ہٹا کر بیچ میں خشک راستہ بنا دیں پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر طوفانی ہوائیں یا پروا ہوا اترنی تیز چل رہی تھی کہ اس نے سمندر کے پانی کو ڈھکیل کر دیوار کھڑ ی کر دی تھی تو بنی اسرائیل کے لیے ان طوفانی ہواؤں سے صحیح سلامت گزرنا کیونکر ممکن ہوا۔ ایسا زبردست طوفان تو ان کی لاشیں گرا سکتا تھا۔ مگر کیا وجہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس کی زد میں نہیں آیا۔ یہ عجب نہیں کہ اس وقت پروا ہوا بھی چلی ہو جیسا کہ بائیبل کا بیان ہے لیکن سمندر کے پھٹنے کو پرسا ہوا کا سبب قرار دینا صحیح نہیں۔ قرآن اس واقعہ کو ایک معجزہ کی حیثیت سے پیش کرتا ہے نہ کہ اتفاقی حادثہ یا معمول کے مطابق وقوع میں آنے والے کسی واقعہ کی حیثیت سے۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرعون والوں کو وہاں پہنچا دیا۔
۵۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی موسیٰ کی قیادت میں جو قافلہ چل رہا تھا وہ بخیریت سمندر کو عبور کر گیا۔ نہ ان کو کوئی گزند پہنچا اور نہ فرعون اور اس کا لشکر ان کو پکڑ نے میں کامیاب ہوا۔
۵۹۔۔۔۔۔۔۔ لیکن دوسرے گروہ یعنی فرعون اور اس کے لشکر کے ساتھ اللہ تعالٰیٰ کا معاملہ یہ ہوا کہ جب وہ راستہ کھلا پا کر سمندر کے بیچ پہنچ گئے تو اللہ کے حکم سے سمندر کے دونوں حصے ایک دوسرے سے مل گئے اور فرعون بھی ڈوب مرا اور اس کا لشکر بھی جس میں اعیان سلطنت بھی تھے یہ حشر ہوا اس شخص کا جو رب اعلیٰ ہونے کا دعویدار تھا اور یہ حشر ہو ا ان لوگوں کا جو اس کے حکم اور اشاروں پر چلتے تھے۔
۶۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انبیائی تاریخ کے اس واقعہ میں اس بات کی صریح نشانی موجود ہے کہ اللہ لوگوں کو راہ حق دکھانے کے لیے رسول بھیجتا ہے اور جب اس کی قوم اس پر ایمان لانے سے انکار کر دیتی ہے اور اس کے خلاف تشدد پر اتر تی ہے تو اس قوم کو اللہ تعالٰیٰ عبرت ناک سزا دیتا ہے۔
فرعون اور اس کے لشکر کی غرقابی اور حضرت موسیٰ، حضرت ہارون اور بنی اسرائیل کی ظالم قوم سے نجات اور ان کا غیر معمولی طریقہ پر سمندر کو عبور کر جانا ایک ناقابل انکار تاریخی واقعہ ہے جو تورات (بائیبل) سے بھی ثابت ہے اور قرآن سے بھی۔ گویا دنیا کی اکثریت (یہود، نصاریٰ اور مسلمان) اس پر متفق ہے۔ پھر کیا ایمان لانے کے لیے اتنی بڑ ی شہادت بھی کافی نہیں ؟
۶۱۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے نوٹ ۸۔
۶۲۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے نوٹ ۹۔
اوپر کی آیت میں اور اس آیت میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس کو آگے بھی ہر واقعہ کے اختتام پر دہرایا گیا ہے تاکہ غافل انسان چونک جائے۔
۶۳۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ابراہیم علیہ السلام کا وہ واقعہ پیش کیا جا رہا ہے جو ان کی دعوت سے تعلق رکھتا ہے اور واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ بت پرستی اور شرک وہ عظیم گمراہی ہے جس سے بندگان خدا کو نجات دینے کے لیے ابراہیمؑ جیسا جلیل القدر نبی اٹھ کھڑا ہوا تھا لہٰذا اگر آج قرآن کا پیغمبر اسی مقصد کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے بلکہ یہ انبیائی دعوت کا خاصہ ہے۔ انبیاء علیہم السلام سب سے پہلے اسی گمراہی کا نوٹس لیتے ہیں اور پر زور انداز میں اس کی تردید کرتے ہوئے توحید کو پیش کرتے ہیں۔
۶۴۔۔۔۔۔۔۔ دعوت کا ایک حکیمانہ اسلوب یہ ہے کہ اس طرح کے سوالات ابھارے جائیں۔
دوسری بات یہ بھی واضح ہوئی کہ اگر بیٹا مومن اور باپ مشرک ہے تو بیٹے چاہیے کہ اپنے باپ کے سامنے توحید کی حجت پیش کرے کہ یہ اسوہ ابراہیمی ہے۔
۶۵۔۔۔۔۔۔۔ بت پرستوں کا یہ اعتراف کہ بت نہ سنتے ہیں اور نہ نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں بت پرستی کے بے حقیقت اور نا معقول ہونے کا واضح ثبوت ہے مگر اس نا معقولیت کو انہوں نے محض اس بنا پر جائز قرار دیا کہ باپ دادا سے ان کی پرستش ہوتی چلی آ رہی ہے یعنی ہم اپنے آبائی مذہب کو اور اپنے قومی کلچر کو کس طرح ترک کر سکتے ہیں ؟
۶۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی باپ دادا کی اندھی تقلید کا مطلب تو غور و فکر کی صلاحیتوں کو معطل کر دینا ہے اس صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر غور و فکر کی صلاحیتیں انسان کو کس لیے عطا کی گئی ہیں۔ اگر اس لیے عطا کی گئی ہیں کہ ان کو کام میں لا کر انسان صحیح اور غلط اور جائز و ناجائز میں تمیز کرے تو پرستش اور عبادت جیسے اہم ترین معاملہ میں انسان اندھا کیوں بن جاتا ہے وہ اس بات پر کیوں نہیں سوچتا کہ جو معاملہ خداوند عالم کے ساتھ کیا جا سکتا ہے وہ اینٹ پتھر کے ساتھ کرنے کے کیا معنی !
واضح رہے کہ بت پرست اپنے دیوی دیوتاؤں کے بارے میں تو وہم کی بنا پر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ان کو نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن بتوں کے بارے میں وہ یہ چھوٹا دعویٰ کرنے کی بھی جرأت نہیں کر سکتے کیونکہ بتوں کی بے بسی کا ہر شخص مشاہدہ کرتا ہے جب کہ دیوی دیوتاؤں کا وجود محض خیالی ہے اس لیے ان میں خدا کی صفات پائے جانے کا دعویٰ کرنا ان لوگوں کے لیے آسان ہوا جو بے بنیاد باتوں پر مذہب کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
۶۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بتوں کو میں اپنا دشمن سمجھتا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ بتوں کو معبود بنانے کا نتیجہ جہنم ہے اس لیے ان کو اپنا دشمن سمجھ کر ان سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے
۶۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو میرا خلق ہے وہ میرا ہادی بھی ہے اس لیے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا اور مذہب کے معاملہ میں وہ روشنی قبول نہ کروں جو وہ دکھا رہا ہے اور وہم و گمان کی وادیوں میں بھٹکتا پھروں ؟۔
۶۹۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات اس طرح بھی کہی جا سکتی تھی " وہی مجھے بیمار کرتا ہے "۔ لیکن اس میں اللہ تعالٰیٰ کے لیے سوئے ادب کا پہلو تھا اس لیے حضرت ابراہیم نے فرمایا " جب میں بیمار ہوتا ہوں " اس سے ان کے کمال ادب کا اظہار ہوتا ہے اور انبیاء علیہم السلام اللہ تعالٰیٰ کے لیے غایت درجہ ادب کو ملحوظ رکھتے ہیں اور ان کی زبان سے جو کلمات نکلتے ہیں وہ جواہر ریزے ہوتے ہیں۔
۷۰۔۔۔۔۔۔۔ بیمار کو شفاء دینا اللہ ہی کا کام ہے۔ یہ بات مشرکین کو سمجھانے کی تھی مگر موجودہ دور کے مسلمانوں کو بھی سمجھانا پڑ رہی ہے کیونکہ وہ شفا پانے کے لیے درگاہوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں صرف وہی مسلمان اس سے بچے ہوئے ہیں جو بتوفیق الہٰی صحیح عقیدہ رکھتے ہیں۔
۷۱۔۔۔۔۔۔۔ یہ توحید کے ساتھ قیامت کا ذکر اور اس پر ایمان لانے کا اظہار ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کی دعوت جو انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے سامنے پیش کی تھی قرآن میں متعدد مقامات پر بیان ہوئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے انہوں نے مختلف مواقع پر مختلف انداز میں دعوت پیش کی۔ یہاں انہوں نے اپنے عقیدہ و ایمان کا اظہار کیا ہے کہ میں کس کو رب مانتا ہوں اور اس کی کیسی شان اور کیسی صفات ہیں۔ دعوت کا یہ اسلوب نفسیاتی اثر رکھتا تھا اور ہر شخص کو یہ سوچنے پر آمادہ کرنے والا تھا کہ وہ اپنے عقیدہ کا جائزہ لے۔
۷۲۔۔۔۔۔۔۔ یہاں یہ بحث فضول ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سے کون سی خطائیں سر زد ہوئی تھیں ہو سکتا ہے نبوت سے پہلے کی خطائیں مراد ہوں ، بہر حال بندہ کا کام اپنے کو خطا کار سمجھ کر خدا سے معافی مانگنا ہے کیونکہ بعض مرتبہ خطائیں نا دانستہ طور پر سر زد ہو جاتی ہیں اور انبیاء علیہم السلام میں تو یہ احساس بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے اس لیے وہ اللہ تعالٰیٰ سے معافی کے خواستگار ہوتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کیا کرتے تھے اور اسی احساس کا اظہار حضرت ابراہیم کے اس بیان سے ہوتا ہے۔
۷۳۔۔۔۔۔۔۔ اوپر کی آیت میں حضرت ابراہیم کا وہ ارشاد ختم ہوا جو انہوں نے اپنے باپ اور قوم سے خطاب کر کے فر مایا تھا یہاں ان کی وہ دعا پیش کی جا رہی ہے جو اسی ماحول میں انہوں نے کی تھی۔
۷۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی صحیح فہم عطا فرما کہ حالات کو سمجھ کر صحیح رخ اختیار کر سکوں اور لوگوں کے سامنے حکمت بھری باتیں پیش کر سکوں۔
۷۵۔۔۔۔۔۔۔ صالح بننا اللہ ہی کی توفیق پر منحصر ہے اس لیے ایک نبی بھی اس کے لیے اللہ سے توفیق طلب کرتا ہے اور صالحین کے زمرہ میں شامل کیے جانے کی دعا کرتا ہے۔
۷۶۔۔۔۔۔۔۔ مراد دنیوی شہرت نہیں بلکہ وہ ذکر خیر ہے جو سچی محبت اور والہانہ عقیدت کی بنیاد پر زبانوں پر جاری ہو۔ لسان صدق (سچائی کا بول) کے الفاظ بڑ ے معنی خیز ہیں اور خاص طور سے اس مفہوم پر دلالت کرتے ہیں کہ میرے فیض نبوت سے بعد والے بھی سرشار ہوں اور میرے حق میں ہر طرف سے سچائی کی صدائیں بلند ہوں۔ آپ کی دعا کو اللہ تعالٰیٰ نے اس طرح شرف قبولیت بخشا کہ ہر زمانہ میں ہل ایمان آپ کو گلہائے عقیدت پیش کرتے رہے یہاں تک کہ آخری امت کی نمازوں میں آپ کے ذکر جمیل نے جگہ پائی چنانچہ جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجا جاتا ہے وہاں : "کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْراھِیْمَ و عَلیٰ اٰلِ ابْراھیم"۔ " جس طرح تو نے ابراہیم پر اور ان کی آل پر درود بھجا" کے دعائیہ کلمات بھی ادا کیے جاتے ہیں۔ اور حج اور قربانی کے موقعہ پر کون ہے جو اس پیکر صدق و وفا کو نذرانہ عقیدت پیش نہ کرتا ہو ! سلامٌ علیٰ ابراہیم " سلام ہو ابراہیم پر"۔
۷۷۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ جنت کے نصیب ہونے کی دعا کرنا انبیائی طریقہ ہے اور جنت سے بے نیاز ہو کر نیک کام کرنے کا نظریہ محض صوفیانہ ٹکیل کی پرواز ہے۔
۷۸۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم کی اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت کی دعا اس وقت کی بات ہے جب کہ اس کی ممانعت نہیں آئی تھی۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ توبہ نوٹ ۲۱۰
۷۹۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم کی دعا اوپر کی آیت پر ختم ہو گئی۔ اب اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے روز جزاء کے بارے میں مزید صراحت ہے تاکہ موقع کی مناسبت سے تذکیر ہو۔
۸۰۔۔۔۔۔۔۔ قلب سلیم (سلامتی والا دل) سے مراد جیسا کہ سیاق کلام سے واضح ہے وہ دل ہے جو شرک سے پاک ہو اور توحید کا عقیدہ اس میں ایسا راسخ ہو گیا ہو کہ ایمان کی کیفیت پیدا ہو جائے اور کردار میں صالحیت آ جائے۔ بالفاظ دیگر وہ دل جو ہر قسم کے باطنی امراض اور معصیتوں کی آلودگی سے پاک ہو اور جس کا تقویٰ اس کی صحت کا باعث بنے اور عملہ زندگی کو سنوارے۔
۸۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن جنت متقیوں کے استقبال کے لیے موجود ہو گی۔ میدان حشر سے جنت میں پہنچنے کے لیے کچھ دیر نہیں لگے گی ادھر فیصلہ ہوا ادھر جنت میں پہنچ گئے۔
۸۲۔۔۔۔۔۔۔ جہنم آج نظروں سے اوجھل ہے لیکن قیامت کے دن گمراہ لوگ میدان حشر میں اس کو اپنے سامنے بالکل کھلا پائیں گے۔
۸۳۔۔۔۔۔۔۔ بت پرستوں کے ساتھ ان کے بت بھی جہنم میں جھونک دیے جائیں گے۔ اس وقت بتوں کی بے بسی ان کے پرستاروں پر بالکل عیاں ہو گی کہ یہ اپنے پرستاروں کی مدد کیا کر سکتے ہیں خود اپنے کو بھی نہیں بچا سکتے۔
اور یہی حشر فرعون جیسے سرکش لیڈروں کا بھی ہو گا جو دنیا میں معبود بن بیٹھے تھے کہ وہ اپنے پرستاروں کی مدد کیا کریں گے اپنے ہی کو جہنم سے بچا نہیں سکیں گے۔
۸۴۔۔۔۔۔۔۔ مراد شیاطین ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرتے رہے۔
۸۵۔۔۔۔۔۔۔ وہ خدا کی قسم کھا کر اپنی گمراہی کا اعتراف کریں گے۔ گویا انہیں اپنی گمراہی کا یقین اس وقت آگیا جب وہ اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
۸۶۔۔۔۔۔۔۔ مراد گمراہ پیشوا، حکمراں اور لیڈر ہیں۔
۸۷۔۔۔۔۔۔۔ گمراہوں کے جو جگری دوست دنیا میں رہے ہوں گے ان سے دوستی کا کوئی رشتہ آخرت میں باقی نہیں رہے گا۔ اور کوئی نہ ہو گا جو ان کے ساتھ ہمدردی کرے یا ان کے ساتھ ہمدردی کرے یا ان کا غم گسار بن جائے۔
۸۸۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں لوٹنے کی وہ تمنا کریں گے تاکہ مومن بن جائیں لیکن ان کی یہ تمنا پوری نہ ہو سکے گی۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انعام نوٹ ۴۶ تا ۴۸
۸۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی حضرت ابراہیم کا جو واقعہ اوپر بیان ہوا اس میں اس بات کی صریح نشانی موجود ہے کہ بت پر ستی اور شرک کر رہا ہے وہ سرتا سر دعوت حق ہے اور دعوت ابراہیمی سے کچھ بھی مختلف نہیں۔
۹۱۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے نوٹ ۹۔
۹۲۔۔۔۔۔۔۔ حضرت نوح کی سرگزشت تفصیل کے ساتھ سورہ اعراف، سورہ ہود اور سورہ مومنون میں گزر چکی۔
۹۳۔۔۔۔۔۔۔ حضرت نوح کو جھٹلانا تمام رسولوں کو جھٹلانے کے ہم معنی تھا کیونکہ سب کا دین ایک ہی رہا ہے اور سب کی دعوت بھی ایک۔
۹۴۔۔۔۔۔۔۔ حضرت نوح کو ان کی قوم کا بھائی اس بنا پر کہا گیا ہے کہ وہ اس سوسائٹی کے فرد تھے اس لیے نہ زبان کی کوئی مغائرت تھی اور نہ لوگوں کے لیے ان کو پہچاننا مشکل تھا۔
۹۵۔۔۔۔۔۔۔ مراد اللہ سے ڈرنا ہے۔
۹۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے پیغام پہنچانے کی جو امانت میرے سپرد کی ہے اس کو میں پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنے والا ہوں اپنی طرف سے اس میں نہ میں کمی کروں گا اور نہ بیشی۔ اس لیے جو کچھ میں کدا کی طرف سے پیش کر رہا ہوں اس کو امانت سمجھ کر قبول کرو۔
۹۷۔۔۔۔۔۔۔ یہی بات جیسا کہ آگے بیان ہوا ہے ہر رسول نے اپنی قوم سے کہی تھی اس لیے یہ فقرہ انبیاء علیہم السلام کی مشترکہ دعوت کا ترجمان ہے۔ اس سے دعوت کے بعض اہم پہلوؤں پر روشنی پڑ تی ہے۔
۱)۔ اللہ کا ڈر جواس کی عظمت کے تصور سے پیدا ہوتا ہے دین کے لیے بمنزلہ اساس کے ہے اس لیے کھلے الفاظ میں اللہ سے ڈرنے اور اس کا تقویٰ اختیار کرنے کی دعوت دینا چاہیے اور یہ حقیقت ہے کہ جب تک انسان کو اس کے غلط طرز عمل پر متنبہ نہیں کیا جات اور پیش آنے والے خطرات سے آگاہ نہیں کیا جاتا وہ اصلاح کے لیے آمادہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ ایک رسول جب دعوت کو لے کر اٹھتا ہے تو وہ خدا سے غافل لوگوں کو چونکاتا ہے ، اس کے عذاب سے ڈراتا ہے اور ان تمام خطرات سے آگاہ کرتا ہے جو آخرت میں پیش آنے والے ہیں۔ انذار (خبردار کرنے ) کا یہ رنگ اس کی دعوت پر غالب ہوتا ہے۔
۲) " اللہ کا تقویٰ اختیار کرو" کی دعوت میں اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت دونوں کا مطالبہ شامل ہے کیونکہ تقویٰ کے معنی اللہ سے ڈر کر اس کے گناہ سے بچنے اور پرہیز گاری کرنے کے ہیں۔ جو شخص اللہ کی عبادت یکسو ہو کر نہیں کرتا وہ خدا سے بے خوف یعنی تقویٰ کی صفت سے بالکل عاری ہے اور جو شخص اس کی اطاعت نہیں کرتا وہ گناہ پر گناہ کیے چلا جاتا ہے اس لیے وہ تقویٰ سے محروم ہے اور اس کا شمار متقیوں میں نہیں ہو سکتا۔
آیت سے یہ بھی واضح ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت اللہ کی عبادت اور اطاعت دونوں کی طرف ہوتی ہے۔ قرآن میں اگر ان کی دعوت کو اُعَبْدُوُو اللہَ مَا لَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (اللہ کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی خدا نہیں ) کے الفاظ میں پیش کر دیا گیا ہے تو دوسرے مقام پر ان کی دعوت کے اس پہلو کو بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ اِتَّقُو اللہ (اللہ سے ڈرو) سورہ نوح میں تو حضرت نوح کی دعوت کے دونوں پہلو نیز رسول کی اطاعت کا پہلو بھی سب ایک ساتھ پیش کر دیے گئے ہیں اُعبُد و اللہَ وَاتَّقُوہ وَاَطِیْعُونِ (اللہ کی عبادت کرو، اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو)۔
۳) اللہ کی عبادت و اطاعت کے ساتھ وقت کا رسول اپنی اطاعت کا بھی مطالبہ کرتا رہا ہے واطیعون (اور میری اطاعت کرو) یہ اس لیے بھی کہ رسول اسی لیے بھیجا جاتا ہے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے اور اس لیے بھی کہ رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی عملی جامہ پہنانے کے لیے جن تفصیلات کی ضرورت ہوتی ہے ان کو ایک رسول ہی اپنے قول و عمل سے واضح کر دیتا ہے اس لیے یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ رسول کی حیثیت محض پیغام پہنچا دینے والے کی ہے بلکہ وہ عملی رہنمائی کا ذمہ دار بھی ہے اور لوگوں پر اس کی اتباع اور اطاعت واجب ہے۔
یہ ہیں انبیائی دعوت کی خصوصیات مگر موجودہ زمانہ میں جو اسلامی تحریکیں اٹھی ہیں وہ خدا کا خوف پیدا کرنے کا سامان اتنا نہیں کرتیں جتنا کہ اسلام کے سیاسی و اجتماعی نظام کی تشریح و توضیح کا سامان کرتی ہیں۔ وہ لوگوں میں نجات اخروی کی فکر پیدا کرنے سے زیادہ دنیا میں صالح معاشرہ کے قیام کی فکر پیدا کرتی ہیں ، وہ غیر اللہ کی پرستش پر لوگوں کو جہنم کی وعید سنانے کا اہتمام تو بہت کم کرتی ہیں البتہ انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلانے کا نعرہ پورے زور سے لگاتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ دعوت دوسرے رخ پر جا پڑ تی ہے اورت اس کی سپرٹ بھی متاثر ہو جاتی ہے۔
۹۸۔۔۔۔۔۔۔ ایک نبی کی زندگی اس کے مخلص اور بے لوث ہونے کا واضح ثبوت ہوتی ہے اس لیے اس کا یہ دعویٰ کہ میرے پیش نظر تمہاری بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور صرف اللہ ہی سے اجر کا امید وار ہوں اپنی دلیل آپ ہوتا ہے۔
۹۹۔۔۔۔۔۔۔ حضرت نوح نے اپنی یہ دعوت پھر دہرائی یہ واضح کرنے کے لیے کہ میرا مطالبہ تم سے مال کا نہیں بلکہ دعوت کے قبول کرنے کا ہے اور میں یہ خدمت بے لوث ہو کر انجام دے رہا ہوں جس میں تمہارے لیے شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
۱۰۰۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ ہود نوٹ ۴۱۔
۱۰۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میں ان کے ظاہری عمل کو جانتا ہوں اور اس لحاظ سے وہ اللہ کے مومن بندے ہیں۔ رہے ان کے پوشیدہ اعمال تو اللہ ہی کو اس کا علم ہے۔ غیب کی باتیں مجھے کیا معلوم۔ پھر میں کس بنیاد پر انہیں رذیل قرار دوں جب کہ میرے علم میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو انہیں رذیل ٹھیراتی ہو۔
حضرت نوح کے جواب سے واضح ہوا کہ ان کے ساتھیوں پر رذیل (غیر شریف) ہونے کا الزام سراسر جھوٹ تھا۔
۱۰۲۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لئے دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۴۴۔
۱۰۳۔۔۔۔۔۔۔ قوم کی جسارت دیکھیے کہ جو شخصیت ان کے درمیان سب سے زیادہ قدر کی مستحق تھی اور جس نے ان کی خیر خواہی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی اس کی تواضع وہ پتھّر سے کرنا چاہتے تھے۔ جن لوگوں کی عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں وہ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔
۱۰۴۔۔۔۔۔۔۔ یہ دعا حضرت نوح نے اس وقت کی جب کہ طویل دعوتی جد و جہد کے بعد ان کو اپنی قوم کے ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔
۱۰۵۔۔۔۔۔۔۔ مراد دو ٹوک فیصلہ ہے جو کافروں کے لیے عذاب اور مومنوں کے لیے نجات کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
۱۰۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی کشتی جو ایمان لانے والوں سے اور کام آنے والے جانوروں سے بھری ہوئی تھی۔
۱۰۷۔۔۔۔۔۔۔ قوم نوح کے غرق ہونے کا قصہ سورہ ہود آیت۳۷ تا ۴۴ میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔
۱۰۸۔۔۔۔۔۔۔ نشانی اس بات کی کہ رسول کی مخالفت کرنے والی قوم پر اللہ کا قہر نازل ہوتا ہے اور وہ اس طرح تباہ کر دی جاتی ہے کہ اس کا ایک فرد بھی ہلاکت سے نہیں بچتا جب کہ رسول اور اس کے وہ تمام ساتھ جو اس پر ایمان لا چکے ہوتے ہیں اس طرح بچا لیے جاتے ہیں کہ ان میں سے ایک فرد بھی عذاب کی زد میں نہیں آتا۔ اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے اس کرشمہ کا ظہور تاریخ کی واضح شہادت ہے۔
مگر تعجب ہے کہ تاریخ کی ان واضح شہادتوں کو جن کی نشاندہی قرآن کرتا ہے تاریخ کی موجودہ کتابوں میں ڈھونڈنا پڑ تا ہے کیوں کہ مورخین نے اپنی مخصوص ذہنیت کے تحت ان سے بے اعتنائی برتی ہے اور ہمارے ملک میں دنیا کی جو تاریخ کالجوں میں پڑھائی جاتی ہے اس میں قوموں کے عروج و زوال کا یہ اہم ترین پہلو سرے سے زیر بحث لایا ہی نہیں گیا ہے۔ کیسے عجیب ہیں یہ مورخ اور کیسی عجیب ہیں ان کی یہ کتابیں !
۱۰۹۔۔۔۔۔۔۔ عاد کا قصہ سورہ اعراف آیت ۶۵تا ۷۲، سورہ ہود آیت ۴۸ تا ۶۰ میں تفصیل سے بیان ہوا ہے اس کے تشریحی نوٹ نیز سورہ فجر کے تشریحی نوٹ ۸ تا ۱۱ میں پیش نظر رہیں۔
۱۱۰۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح اوپر نوٹ ۹۷ میں گزر چکی۔
۱۱۱۔۔۔۔۔۔۔ وہ ٹیلوں اور پہاڑ یوں پر ایسی عمارتیں تعمیر کرتے تھے جو کسی جائز تمدنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نہیں ہوتی تھیں بلکہ انکا مقصد قومی یاد گاروں کو قائم کرنا تھا تا کہ ان پر فخر کیا جا سکے دنیا پرست ایسی عمارتوں کو دیکھ کر بنانے والے کے فن تعمیر کی داد دیتے ہیں۔ مگر اسلام کی نظر میں یہ سب فضول کام ہیں کیونکہ اپنی قوتوں اور وسائل کو نمائشی کاموں میں لگانے سے آدمی اپنے مقصد حیات سے غافل ہو جاتا ہے اور آخرت کے بجائے دنیا ہی کو منزل مقصود سمجھنے لگتا ہے۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اسلام تمدنی زندگی کے لیے بھی ہدایت دیتا ہے اور لوگوں کو من مانی کرنے کی آزادی نہیں دیتا۔ قرآن کی اس گرفت کے باوجود جو اس نے فضول یادگاریں قائم کرنے پر کی ہے مسلمان حکمراں اپنی یادگاریں قائم کرنے کا شوق پورا کرتے رہے جس کی مثالیں دہلی کا قطب مینار اور آگرہ کا تاج محل ہے۔ مسلمان ان یادگاروں کو اپنا قومی اثاثہ سمجھتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں جب کہ اسلام کے نقطہ نظر سے یہ ایک فضول اور مصرفانہ کام تھا جو قابل فخر نہیں بلکہ قابل افسوس ہے۔ اور اس سے زیادہ قابل اعتراض وہ شاندار درگاہیں اور روضے ہیں جو بزرگوں کی عقیدت میں تعمیر کیے گئے ہیں اور شرک اور گمراہی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
۱۱۲۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ دنیا کو امتحان گاہ نہیں بلکہ عشرت کدہ سمجھتے ہیں ان کے ہاتھ میں جب دولت آ جاتی ہے تو وہ شاندار محل تعمیر کر کے داد عیش دینے لگتے ہیں جس کا ایک نمونہ قدیم ترین زمانہ میں قوم عاد تھی۔ قرآن کی اس سخت تنبیہ کے باوجود مسلمان حکمرانوں نے بھی اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لیے بڑ ے بڑ ے اور شاندار محل تعمیر کیے۔ غرناطہ اسپین کا الحمراء اور جنۃ العریف اور دہلی کے لال قلعہ کے دیوان خاص اس کی عبرت ناک مثالیں ہیں۔ جواہرات سے مرصع دیوان خاص پر تو اس کو جنت کا نمونہ بنانے کا دعویٰ بھی کندہ ہے
مگر اب مکاں رہ گیا مکیں نہ رہے۔
۱۱۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہاری پکڑ بڑ ی ظالمانہ ہوتی ہے۔ سوسائٹی کا مالدار طبقہ غریب طبقہ کو بری طرح ظلم کے شکنجہ میں لے لیتا ہے۔ آیت کا اشارہ غالباً اسی صورت حال کی طرف ہے۔
۱۱۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ سے ڈرو اور یہ غلط کام نہ کرو۔
۱۱۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو قدرتی نعمتیں تم کو عطا ہوئی ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤ اور تعیشات میں نہ پڑ و جس نے یہ نعمتیں تمہیں عطا کی ہیں وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے لہٰذا اس سے ڈرو۔
۱۱۶۔۔۔۔۔۔۔ سخت دن ایک تو وہ ہو گا جب ان پر دنیا ہی میں اللہ کا عذاب نازل ہو گا اور دوسرا قیامت کا دن۔ دن کا سخت ہونا عذاب ہونے کی تعبیر ہے۔
۱۱۷۔۔۔۔۔۔۔ ان کے اس جواب سے واضح ہے کہ وہ نصیحت کی کوئی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
۱۱۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نصیحت کرنا اور وعیدیں سنانا گزرے ہوئے لوگوں کا بھی طریقہ رہا ہے مگر اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں اور نہ کسی پر عذاب آتا ہے۔
۱۱۹۔۔۔۔۔۔۔ عاد کی ہلاکت کی تفصیل سورہ ذاریات آیت ۴۱ اور سورہ حاقہ آیت ۶ میں بیان ہوئی ہے۔
۱۲۰۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے نوٹ ۱۰۸۔
۱۲۱۔۔۔۔۔۔۔ ثمود کی سرگزشت سورہ اعراف آیت ۷۳ تا ۷۹ سورہ ہود آیت ۶۱ تا ۶۸ اور سورہ فجر نوٹ ۸۰ تا ۸۴ میں گزر چکی۔ ان کے تشریحی نوٹ پیش نظر رہیں نیز سورہ فجر نوٹ ۱۲ تا ۱۴ اور سورہ شمس نوٹ ۱۱ تا ۱۷ بھی۔
۱۲۲۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح اس سورہ کے نوٹ ۹۷ میں گزر چکی۔
۱۲۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جو نعمتیں تمہیں عطا ہوئی ہیں وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی۔ نہ یہ نعمتیں کبھی تم سے چھین لی جائیں گی اور نہ ان کے بارے میں تم سے کبھی باز پرس ہو گی کہ تم نے ان کو کس طرح استعمال کیا اور ان نعمتوں کو پا کر اپنے محسن حقیقی کا شکر ادا کرتے رہے یا ناشکری کی ؟
۱۲۴۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ جس علاقہ میں ثمود آباد تھے وہاں اللہ تعالٰیٰ نے سر سبز باغ، کھیتیاں اور نخلستان (کھجور کے باغ) پیدا کریے تھے۔ اور عرب کے ریگستانی علاقہ میں یہ سر سبزی و شادابی بہت بڑ ی نعمت تھی۔
۱۲۵۔۔۔۔۔۔۔ متن میں لفظ فارھین استعمال ہوا ہے جس کے معنی فنی کمال کا ثبوت دینے کے بھی ہیں اور فخر کرنے اور اترانے کے بھی پہاڑوں کو تراش کر مکان بنا لینا اپنی واقعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے فن تعمیر کے مظاہرہ کے لیے تھا اور اس لیے تھا کہ وہ اپنے پیچھے قومی یادگاریں چھوڑیں تاکہ آنے والی نسلیں ان کے کمال فن کی داد دیں۔ ایلوا اور اجنتا کے تراشے ہوئے غار جو مشرکین ہند کے لیے سرمایہ فخر ہیں ثمودی طرز تمدن کا نمونہ پیش کرتے ہیں ان کا آرٹ بت پرستی اور بے حیائی دونوں کو فروغ دینے والا ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۱۲۰ اور سورہ حجر نوٹ ۸۲ ۔
۱۲۶۔۔۔۔۔۔۔ حد سے گزرنے والے (مسرفین) سے مراد وہ لوگ ہیں جو حدود بندگی، حدود اخلاق اور حدود انسانیت سب سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ وہ اپنے کو ان سب قیود سے آزاد اور خود مختار سمجھتے ہیں۔ '
۱۲۷۔۔۔۔۔۔۔ ایسے لوگ سوسائٹی کے لیے ناسور ہوتے ہیں اس لیے وہ اصلاح کا کام کیا کریں گے ہر طرح کی خرابی اور فساد ہی کا سبب بنتے ہیں۔ مگر لوگ ان لیڈروں کے اصلاحی کاموں کے دعوے سے متاثر ہو کر ان کے پیچھے چل پڑ تے ہیں۔
۱۲۸۔۔۔۔۔۔۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ جادو ذہنی قویٰ کو متاثر کر کے اسے پاگل اور خبطی بنا دیتا ہے۔ حضرت صالح کی بات کا کوئی معقول جواب ان کے پاس نہیں تھا اس لیے انہوں نے ان پر یہ الٹا الزام لگایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے تم پر جادو کیا ہے اور اس کے زیر اثر تم یہ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو۔
واضح رہے کہ جادو اور ٹونے ٹوٹکے میں ہر گز یہ اثر نہیں ہے کہ وہ کسی کو پاگل بنا دے۔ یہ محض وہم ہے جو آج بھی لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ اگر اس میں یہ اثر ہوتا تو جادو گر بادشاہوں اور حکمرانوں کو پاگل بنا کر ان کی سلطنت کا خاتمہ کر سکتے تھے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا ہٹلر کی ظالمانہ کاروائیوں سے دنیا پریشان آ گئی تھی لیکن دنیا کا کوئی جادوگر ایسا نہیں ہوا جو اسے جادو کے سیر اثر پاگل بنا دیتا اور دنیا کو اس سے نجات مل جاتی۔
۱۲۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نہ تم پر آسمان سے وحی آتی ہے اور نہ رسالت کا منصب تم کو حاصل ہے۔
۱۳۰۔۔۔۔۔۔۔ یہ اونٹنی کوئی عام اونٹنی نہیں تھی بلکہ ایک غیر معمولی اونٹنی تھی جس کا ظہور معجزہ کے طور پر ہوا تھا۔ قرآن کہتا ہے کہ ثمود نے اپنے پیغمبر سے نشانی یعنی حسی معجزہ طلب کیا تھا اور اللہ تعالٰیٰ نے ان کا یہ مطالبہ اونٹنی کی شکل میں پورا کیا تھا تاکہ حضرت صالح کے رسول ہونے کا واضح ثبوت ہو۔
مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ ۱۱۹۔
۱۳۱۔۔۔۔۔۔۔ اونٹنی کے پانی پینے کے لیے ایک دن کی باری مقرر کرنا اونٹنی کے غیر معمولی ہونے کی واضح دلیل ہے اگر معمولی اونٹنی ہوتی تو اس کے لیے پانی کی ضرورت اس وافر مقدار میں نہ ہوتی کہ اس کے لیے پانی پینے کے لیے پورا دن مخصوص کر دیا جاتا۔
ثمود کے مطالبہ پر جب اللہ تعالٰیٰ نے معجزہ ظاہر کر دیا تو اس میں ان کی آزمائش کا سامان رکھ دیا اور وہ یہ کہ کنوؤں اور چشموں سے پانی لینے کے لیے باری مقرر کر دی۔ ایک دن تمام کنویں اور چشمے اللہ کی اونٹنی کے پانی پینے کے لیے خاص ہو گا اور دوسرے دن لوگ اپنے لیے پانی لے سکیں گے اور اپنے جانوروں کو بھی پلا سکیں گے۔ یہ سخت امتحان تھا اور اللہ جس طرح چاہتا ہے اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے۔
۱۳۲۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۱۱۹۔
۱۳۳۔۔۔۔۔۔۔ یہ ندامت احساس گناہ کے نتیجہ میں نہیں تھی ورنہ وہ اللہ کے حضور توبہ کرتے بلکہ عذاب کے اندیشہ سے تھی۔ اگر چہ وہ عذاب کا انکار کر رہے تھے مگر اونٹنی کو قتل کرنے کے بعد ان کے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوا ہو گا کہ اگر حضرت صالح کی بات صحیح ہوئی تو ہم پر آفت آ سکتی ہے۔ اس خدشہ کی وجہ سے وہ اپنے کیے پر پچھتانے لگے۔
۱۳۴۔۔۔۔۔۔۔ ثمود پر جس قسم کا عذاب آیا اس کی تفصیل سورہ اعراف میں آیت ۷۸ میں بیان ہوئی ہے۔
۱۳۵۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو اس سورہ کا نوٹ ۱۰۸۔
۱۳۶۔۔۔۔۔۔۔ حضرت لوط کی سرگزشت سورہ اعراف آیت ۸۰ تا ۸۴، سورہ ہود آیت ۷۷ تا ۸۳ اور سورہ حجر آیت ۸۵ تا ۷۷ میں گزر چکی تشریح کے لیے ان کے نوٹ دیکھ لیے جائیں۔
۱۳۷۔۔۔۔۔۔۔ حضرت لوط کی دعوت وہی تھی جو تمام رسولوں کی رہی ہے یعنی " اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو" لیکن خصوصیت کے ساتھ انہوں نے ایک ایسی برائی پر انہیں تنبیہ کی جو اخلاقی لحاظ سے بڑ ی گھناؤنی تھی اور جس میں سوسائٹی بری طرح مبتلا تھی یعنی امرد پرستی (مردوں کا لڑکوں سے جنسی تعلق قائم کرنا)۔
اس سے دعوت و اصلاح کے سلسلے میں یہ اصولی بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام جہاں توحید و آخرت کی دعوت کو ہر قسم کی فکری و عملی اصلاح کے لیے بنیاد کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں وہاں ان بڑ ی بڑ ی برائیوں پربھی سخت گرفت کرتے ہیں جن کا منکر ہونا خلاف فطرت ہونے کی وجہ سے محتاج دلیل ہوتا ہے اور جو وبا کی طرح سوسائٹی میں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ مردوں کا نو عمر لڑکوں سے شہوانی تعلق قائم کرنا ایک صریح منکر تھا اس لیے حضرت لوط نے اپنی بنیادی دعوت کے ساتھ اس کی اصلاح کے لیے آواز اٹھائی اور اس پر قوم کو سخت جھنجوڑا۔
۱۳۸۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالٰیٰ نے عورتیں اس لیے پیدا کی ہیں تاکہ وہ مردوں کے لیے زوج (جوڑا) ہوں مگر اندھی خواہشات انسان کو اندھا بنا دیتی ہیں۔ پھر وہ خلاف فطرت کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ بیویوں کو چھوڑ کر اغلام بازی جیسے گھناؤنے افعال میں وہی لوگ مبتلا ہوتے ہیں جو فطری اور اخلاقی حدوں کی پابندی سے آزاد ہوتے ہیں۔
۱۳۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو نصیحت ہمیں کر رہے ہو اس سے اگر باز نہ آئے۔ مطلب یہ کہ بس کرو اپنی یہ نصیحت اور ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو۔
۱۴۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم کو زبردستی اس ملک سے باہر نکال دیا جائے گا۔ یہ مجرموں کی طرف سے چیلنج تھا جو حضرت لوط کو دیا گیا۔
۱۴۱۔۔۔۔۔۔۔ حضرت لوط نے مجرموں کے چیلنج کا جواب یہ دیا کہ جس بد عملی میں تم مبتلا ہو وہ سخت قابل نفرت ہے اس لیے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اس پر اظہار نفرت نہ کروں۔ اچھی طرح سن لو کہ میں اس سے بیزار ہوں۔
۱۴۲۔۔۔۔۔۔۔ یہ دعا حضرت لوط نے اس وقت کی جب کہ ان کی دعوتی اور اصلاحی جدوجہد کو قوم کسی طرح برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئی اور انہوں نے حضرت لوط کے خلاف اقدام کرنے کی ٹھان لی۔
گندہ عمل کرنے والوں کی کثرت پورے ماحول کو گندہ بنا دیتی ہے ایسے ماحول میں کوئی نفاست پسند آدمی سانس لینا بھی پسند نہیں کرتا اس لیے جب اصلاح کی امیدیں ختم ہو گئیں تو حضرت لوط نے اسی گندے ماحول سے نجات کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔
۱۴۳۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے حضرت لوط پر ایمان لانے والے ان کے خاندان ہی کے افراد تھے۔
۱۴۴۔۔۔۔۔۔۔ یہ حضرت لوط کی بیوی تھی جو ایمان نہیں لائی تھی۔
واضح رہے کہ اس زمانہ میں مسلم معاشرہ کا کہیں وجود نہیں تھا سوائے چند افراد کے۔ اس لیے نکاح کے سلسلے میں شریعت کے احکام بھی نرم تھے۔ ایک نبی جس قوم سے تعلق رکھتا تھا شادی بیاہ بھی اسی میں کر سکتا تھا اس لیے بعض انبیاء کو ایسی بیویوں سے سابقہ پڑا جو باوجود ان کی کوششوں کے ایمان نہیں لائیں۔
۱۴۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کفر کرنے والوں کو۔
۱۴۶۔۔۔۔۔۔۔ مراد پتھروں کی بارش ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورہ ہود نوٹ ۱۱۸۔
۱۴۷۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح اوپر نوٹ ۱۰۸ میں گزر چکی۔
۱۴۸۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ حجر نوٹ ۷۷۔
۱۴۹۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سور اعراف نوٹ ۱۳۷ اور سورہ مطففین نوٹ ۱۔
۱۵۰۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ ترازو کو درست رکھنا اور کاروبار میں دیانت داری برتنا اخلاق کا تقاضا بھی ہے اور انبیاء علیہم السلام کی شریعت کا ایک اہم جز بھی۔
موجودہ زمانہ میں وزن کرنے کے لیے مختلف قسم کے ترازو ایجاد ہو گئے ہیں جن میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ شکل الکٹرونک ترازو (Electronic Scale) کی ہے۔ مگر ہر ترازو کا درست ہونا ضروری ہے تاکہ کم تولا نہ جائے۔
۱۵۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں بگاڑ پیدا نہ کرو۔ فساد کے مفہوم میں ہر قسم کی ظلم و زیادتی شامل ہے۔
۱۵۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر اپنی رسالت کے دعوے میں سچے ہو تو یہ معجزہ دکھاؤ کہ آسمان کا ٹکڑا ہم پر آ گرے۔
۱۵۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم پر اگر عذاب ابھی نہیں آ رہا ہے تو یہ نہ سمجھو کہ اللہ تمہارے ان کرتوتوں سے بے خبر ہے۔ وہ باخبر ہے اور ان کا نوٹس لے گا۔
۱۵۴۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے آسمان کا ٹکڑا گرا دینے کا مطالبہ کیا تھا اس لیے ان پر عذاب سائبان (بادل) کی شکل میں آیا۔ سورہ ہود میں قوم شعیب کے عذاب کو صیحہ (ہولناک آواز) سے اور سورہ اعراف میں رجفہ (لرزا دینے والی آفت) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے پہلے بادلوں نے ان کو ڈھانک لیا اور وہ سمجھے کہ یہ سخت تپش میں ہمارے لیے چھتری (سائبان) بن گیا ہے لیکن اس میں سے بجلی شدید چنگھاڑ کے ساتھ ان پر گر گئی جس نے ان کو ایسا لرزا دیا کہ اوندھے منہ زمین پر گرے اور ہلاک ہو کر رہ گئے۔
۱۵۵۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے اوپر ۱۰۸۔
۱۵۶۔۔۔۔۔۔۔ انبیاء علیہم السلام کی سرگزشتیں سنانے کے بعد اب پھر سلسلہ کلام قرآن اور اس کے پیغمبر کی طرف لوٹ آیا ہے۔
۱۵۷۔۔۔۔۔۔۔ روح الامین کے معنی ہیں امانت دار روح۔ مراد حضرت جبرئیل ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:
قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّ الجِبْرِیلَ فَاِنَّہٗ نَزَّ لَہٗ عَلیٰ قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ (بقرہ۔ ۹۷) "کہو جو جبرئیل کا دشمن ہوا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبرئیل نے اللہ کے اذن سے یہ (قرآن) تمہارے دل پر اتارا ہے "
اور واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ نزول وحی کا ذریعہ مادی نہیں بلکہ روحانی ہے۔ پیغام لانے والا ایک فرشتہ ہے جس کی حقیقت روح ہے جو نہایت لطیف شئے ہوتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی۔ پھر یہ فرشتہ غایت درجہ امانت دار ہے جو پیغام اللہ تعالیٰ اس کے سپرد کرتا ہے وہ اسے بے کم و کاست اس کے رسول تک پہنچا دیتا ہے۔
۱۵۸۔۔۔۔۔۔۔ قلب انسان کے اندر وہ مرکزی چیز اور اشرف مقام ہے جو معنوی چیزوں کو قبول کرنے اور ان کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ " تمہاری یاد میرے دماغ میں ہے " کیونکہ دماغ محض آلہ ہے جب کہ دل محفوظ رکھنے کی جگہ۔ اور قلب سے مراد گوشت کا وہ لوتھڑا نہیں ہے جو جسم میں خون پھیلاتا ہے بلکہ وہ باطنی وقت ہے جو اس جگہ ہوتی ہے۔ جس طرح ہم برقی رو کو دیکھ نہیں سکتے اسی طرح دل کا آپریشن کرنے پر بھی ہم نہ باطنی قوتوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور نہ روح کا۔
پیغمبر کے قلب مصفّٰی پر وحی کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ حضرت جبرئیل وحی کو براہ راست آپ کے دل پر اتارتے تھے اس طور سے کہ آپ کے لوح دل پر اس کا ایک ایک لفظ مرتسم (نقش) ہو جاتا تھا۔ اس لیے اس میں بھول چوک کا سرے سے امکان ہی نہیں ہے۔
۱۵۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فاسد عقائد و اعمال کے برے انجام سے۔
۱۶۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ قرآن عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے اور ایسی عربی میں جو اپنے مفہوم اور مدعا کو بخوبی واضح کرنے والی ہے۔
قرآن کے اس بیان سے واضح ہوا کہ قرآن وہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے ادا ہوا ہے اور جو عربی زبان میں مصحف کی شکل میں محفوظ ہے۔ رہے اس کے ترجمے تو وہ اس کے معنی اور مفہوم کو ادا کرنے کی انسانی کوشش ہے۔ اس لیے کسی بھی ترجمہ کو خواہ وہ عربی میں ہی کیوں نہ کیا گیا ہو نہ قرآن کہا جا سکتا ہے اور نہ کلام الٰہی بلکہ قرآن کا ترجمہ اور معانی ہی کہا جا سکتا ہے لہٰذا تلاوت اور نماز میں قرآن پڑھنا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے بہ زبان عربی اتارا ہے۔
۱۶۱۔۔۔۔۔۔۔ یہ مطلب نہیں ے کہ قرآن ان ہی الفاظ میں لکھا ہوا اگلے صحیفوں میں موجود تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم اور ہدایت وہی ہے جو سابقہ کتب آسمانی کی رہی ہے اس لیے وہ اپنی اصل کے اعتبار سے ان کتابوں میں موجود رہا ہے نیز ان میں ایسی پیشن گوئیاں بھی موجود ہیں جو اس پیغمبر کی بعثت اور اس پر کلام الٰہی کے نزول پر دلالت کرتی ہیں۔
۱۶۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بنی اسرائیل کے علماء اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ قرآن توحید کی جو دعوت پیش کر رہا ہے وہی دعوت تورات اور دوسری آسمانی کتب کی رہی ہے۔ بت پرستی جس کو قریش نے جائز ٹھیرا لیا ہے تمام سابقہ کتب اس کے مشرک اور باطل ہونے پر متفق ہیں۔ قرآن کہتا ہے انسان کو قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جائے گا تاکہ ہر شخص اپنے عمل کا بدلہ پائے۔ مشرکین مکہ اس کو نا ممکن خیال کرتے ہیں لیکن بنی اسرائیل کے علماء جانتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں آخرت کا یہی تصور پیش کیا گیا ہے اسی طرح وہ اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسانوں ہی میں سے رسول بھیجتا رہا ہے اور ان پر وحی اور کتاب نازل فرماتا رہا ہے۔ اگر بنی اسرائیل کے علماء جو تورات کے حامل ہیں اگر ان میں سے کسی بات سے بھی انکار نہیں کرسکتے تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ قرآن کوئی نئی دعوت نہیں پیش کر رہا ہے یہ انبیائی دعوت ہی کی تجدید ہے۔
۱۶۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر کسی غیر عرب پر قرآن نازل کیا جاتا تو انکار کے لیے ان کو یہ بہانا مل جاتا کہ عرب قوم کے لیے قرآن غیر عرب شخص پر کیوں نازل کیا گیا۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے انبیاء پر جو کتابیں نازل ہوئی تھیں ان کی مشرکین عرب نے قبول نہیں کیا مگر اب جبکہ ایک عرب شخصیت پر ہی عربی میں قرآن نازل کیا گیا تو ان کے لیے اس عذر کو پیش کرنے کا بھی کوئی موقع باقی نہیں رہا۔ مطلب یہ ہے کہ عرب قوم میں رسول عربی کی بعثت اور عربی قرآن کے نزول نے ان پر اللہ کی حجت پوری طرح قائم کر دی ہے۔
واضح رہے کہ اس کا یہ مطلب لینا ہر گز صحیح نہیں کہ قرآن غیر عربوں کے لیے حجت نہیں ہے اس کا پیغام جن جن قوموں تک پہنچ جائے ان سب کے لیے حجت ہے خواہ وہ عربی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں۔ امت مسلمہ کے ذریعہ جو قرآن کی شہادت ہی کے لیے برپا کی گئی ہے قرآن کے پیغام کا پہنچنا حجت کا قائم ہو جانا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قیصر و کسریٰ کو دعوت دی جو غیر عرب تھے چنانچہ قیصر نے آپ کا نامہ مبارک جس میں قرآن کی آیت بھی درج تھی ایک ترجمان سے پڑھوایا اور خلفائے راشدین نے غیر عرب اقوام کے خلاف فوجی کار روائی کرنے سے پہلے انہیں قبول اسلام کی دعوت دی۔
۱۶۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی نہ کوئی حیلہ بہانا کر کے کتاب الٰہی کا ماننے سے انکار کیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کا قانون ضلالت ان پر لاگو ہو گیا ہے اور اللہ کا قانون ضلالت یہ ہے کہ جو شخص آنکھیں بند کیے رہتا ہے اسے آفتاب عالمتاب بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے لیے تاریکی میں بھٹکنا مقدر ہے۔
مجرم سے مراد ہٹ دھرم لوگ ہیں جو اپنے شرک اور کفر پر جمے رہنا چاہتے ہیں۔
۱۶۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ دلیل سے بات ماننے والے نہیں ہیں۔ مانیں گے تو اس وقت جب عذاب آ نمودار ہو گا مگر اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
۱۶۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر ہم نے ان کی مہلت میں اضافہ کیا اور انہیں دنیا میں عیش و عشرت کا کچھ اور موقع مل گیا تو اس سے ان کو کیا فائدہ جب کہ ان کو ایک نہ ایک دن اپنے برے انجام سے دوچار ہونا ہی ہے۔
۱۶۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی تمام بستیوں کی طرف رسول بھیجے گئے تھے جنہوں نے اللہ سے نہ ڈرنے کے انجام سے خبردار کر دیا تھا۔
۱۶۹۔۔۔۔۔۔۔ یہ رسول تنبیہ کے ساتھ یاد دہانی اور نصیحت بھی کرتے رہے تاکہ بات ایک طریقہ سے نہیں تو دوسرے طریقہ سے سمجھ میں آئے۔
۱۷۰۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی شخص اپنے اوپر مٹی کا تیل چھڑ ک کر آگ لگا دے تو وہ جل کر رہے گا۔ وہ اپنی اس حرکت کے بعد اپنی ہلاکت کی ذمہ داری خدا پر نہیں ڈال سکتا۔ اسی طرح جو لوگ اپنے کو عقیدہ و عمل کی اس راہ پر ڈال دیتے ہیں جہاں آتش فشانی لاوا ابلتا ہے تو وہ ضرور ہلاک ہو کر ہیں گے اور وہ اپنی اس ہلاکت کی ذمہ داری اللہ پر نہیں ڈال سکتے جب کہ اس نے اپنے رسولوں کے ذریعہ اس کو اس راہ کے پر خطر ہونے سے آگاہ کر دیا تھا۔
۱۷۱۔۔۔۔۔۔۔ مشرکین مکہ نے جب دیکھا کہ قرآن ایک غیر معمولی کلام ہے جو غیب کی خبریں دے رہا ہے تو انہوں نے اس کی توجیہ یہ کی یہ القائے شیطانی ہے یعنی شیطانوں نے (نعوذ باللہ) نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دل میں یہ باتیں ڈال دی ہیں۔ اسی کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ نہ یہ کام شیطانوں کے لائق ہے اور نہ ان کے بس کی بات ہے۔ شیطانوں کو تو شر سے دلچسپی ہوتی ہے وہ ایک ایسا کلام کیوں نازل کرنے لگیں جو سر تا سر خیر ہو؟ قرآن کی تعلیم تو عقیدہ و عمل اور اخلاق و کردار کی پاکیزگی کی تعلیم ہے شیطانوں کو ایسی تعلیم سے کیا مناسبت ہو سکتی ہے ؟ اور ان کے بس میں یہ کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ قرآن جیسا بلند پایہ کلام نازل کریں جس کا ایک ایک لفظ حق و صداقت کی شہادت دیتا ہے۔ جو انسانی زندگی کے راز سربستہ کو کھولتا اور اس کی منزل متعین کرتا ہے ، وہ کائنات کے اسراء سے پردہ اٹھاتا اور غیبی حقائق کو پیش کرتا ہے ، اس کی دعوت فطرت کی پکار اور عقل کے لیے روشنی ہے۔ اس کے الفاظ نہایت جچے تلے اور معانی سے پُر ہیں اور بندش ایسی کہ ایک لفظ ادھر سے اُدھر نہیں کیا جا سکتا اور کلمات ایسے بلیغ اور مؤثر ہیں کہ بات براہ راست دل میں اتر جاتی ہے۔
ان تمام حقائق سے صرف نظر کر کے قرآن کو شیطانی الہام کا نتیجہ قرار دینا ایسے ہی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جو عقل و ہوش سے کام لینا نہ چاہتے ہوں۔ موجودہ زمانہ میں رشدی نے قرآنی آیات کو شیطانی آیات (Satanic Verses) سے تعبیر کر کے اسی ذہنیت کا ثبوت دیا ہے جس ذہنیت کا ثبوت نزول قرآن کے زمانہ کے منکرین دے رہے تھے اور اس کو " شاباشی" بھی شیطانوں ہی کی طرف سے مل رہی ہے۔
۱۷۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نزول وحی کے لیے یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ جب فرشتہ وحی لے کر پیغمبر پر نازل ہو تو اس کو شیاطین سن نہ سکیں اس لیے وہ اس میں کوئی مداخلت بھی نہیں کر سکتے۔
قرآن کی اس صراحت کے بعد اس روایت کے جھوٹ ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے جس میں :تلک الفرانیق (بتوں کی تعریف) والا قصہ بیان ہوا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ آپ کی زبان پر شیطان نے بتوں کی تعریف کے کلمات جاری کیے تھے جو بعد میں منسوخ ہوئے۔ اس جھوٹی روایت کی تردید ہم سورہ حج کے نوٹ ۹۱ میں کر چکے ہیں رشدی نے "شیطانی آیات" میں سی جھوٹی روایت کا سہارا لیا ہے۔
۱۷۳۔۔۔۔۔۔۔ جب پیغمبر کو اتنی سخت بات سنائی گئی ہے کہ اس نے اللہ کے سوا کسی اور کو حاجت روائی کے لیے پکارا یا اس کی پرستش کی تو اسے بھی سزا بھگتنا ہو گی تو دوسرے لوگ شرک کر کے کہاں بچ سکتے ہیں۔
اگرچہ پیغمبر کے شرک میں مبتلا ہونے کا کوئی احتمال نہیں تھا لیکن چونکہ یہ اصولی بات واضح کرتا تھی کہ شرک ایک ناقابل معافی جرم ہے اور اس کی سزا کے سلسلے میں کسی کی رو رعایت نہیں کی جائے گی اس لیے خطاب پیغمبر سے کیا گیا۔
۱۷۴۔۔۔۔۔۔۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبر دار کرنے کا حکم ظاہر ہے دعوتی جد و جہد کے آغاز ہی میں دیا گیا لوگا اس لیے اندازہ ہے کہ یہ سورہ مکہ کے شروع دور ہی میں نازل ہوئی ہو گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے قریش کے ایک ایک خاندان کا نام بنام پکارا اور جب وہ صفا پر جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا: فَانِّی نذیرٌ لکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عذابٌٍ شدِید(بخاری کتاب التفسیر) " میں تمہیں آنے والے سخت عذاب سے خبر دار کرتا ہوں۔
اس موقع پر آپ نے جو بات کہی وہ دو ٹوک انداز میں قیامت کے عذاب سے ڈرانے کی بات تھی اور یہ ٹھیک ٹھیک اس حکم کی تعمیل تھی کہ : وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَ قْرَبِیْنَ : "اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ " نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ اسوہ دعوتی میدان میں کام کرنے والوں کو دعوت فکر دیتا ہے۔
۱۷۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو ایمان والے تمہاری پیروی کریں گے وہی اپنے ایمان میں مخلص ہوں گے اور ایسے مخلص اہل ایمان کے ساتھ تم ترمی اور تواضع سے پیش آؤ اور شفقت و رحمت کا برتاؤ کرو۔
۱۷۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خبر دار کرنے کے بعد بھی اگر وہ ایمان لانے اور تمہاری پیروی اختیار کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے تو صاف کہہ دو کہ تمہارے مشرکانہ اعمال سے میرا کوئی تعلق نہیں میں اپنی ذمہ داری پوری کر چکا اب تمہارے عمل کے تم ذمہ دار ہو۔
۱۷۷۔۔۔۔۔۔۔ توکل کی ہدایت کے ساتھ یہاں اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا ذکر ہوا ہے ایک یہ کہ وہ عزیز یعنی غالب ہے لہٰذا اس کا فیصلہ نافذ ہو کر رہے گا اور دوسرے یہ کہ وہ رحیم ہے اس لیے یقین رکھو کہ وہ اپنے مخلص بندوں کو اپنی رحمت سے ضرور نوازے گا۔
۱۷۸۔۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پسندیدگی کا اظہار ہے کہ جس وقت تم نماز کے لیے کھڑ ے ہوتے ہو اس کی نظر عنایت تم پر ہوتی ہے اور اس وقت بھی جب تم اپنے عبادت گزار ساتھیوں کے درمیان ہوتے ہو۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے عبادت گزار ہیں اور آپ کی پیروی کرنے والے بھی عبادت میں سرگرم رہنے والے لوگ ہیں۔ آپ اپنے ساتھیوں کی تربیت اس طرح کر رہے ہیں کہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونا ان کا امتیازی وصف قرار پائے اس لیے آپ کی مجلس اللہ والوں کی مجلس ہے جس کی فیض بخشی شبہ سے بالا تر ہے مگر لوگ حقیقت واقعہ سے آنکھیں بند کر کے پیغمبر کو کبھی کاہن قرار دیتے ہیں تو کبھی شاعر اور کبھی کچھ اور۔
۱۷۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی شیاطین کن لوگوں کے دلوں میں فاسد خیالات اور باطل کلمات ڈال کر ان کو اپنا آلہ کار بناتے ہیں۔
۱۸۰۔۔۔۔۔۔۔ متن میں لفظ اَفَّک استعمال ہوا ہے جس کے معنی محض جھوٹ بولنے والے کے نہیں ہیں بلکہ جھوٹے قصے اور جھوٹی روایتیں گڑھنے والے ، جھوٹی خبریں دینے والے اور بہتان تراشی کرنے والے کے ہیں۔ یہاں خاص طور سے مراد کاہن (Sooth Sayers) ہیں جن کا پیشہ ہی لوگوں کو غیب کی خبریں دینا اور پیش گوئی کرنا تھا۔ اس کے لیے وہ شیطانی اعمال (سفلی اعمال) کرتے اور شیطانوں سے مدد لیتے۔ کہانت کا بڑا ذریعہ ستاروں کے اثرات کا علم رہا ہے جسے علم نجوم (Astrology) کہا جاتا ہے مگر موجودہ زمانہ میں علم الافلاک (Astronomy) کی ترقی نے ستاروں اور سیاروں کے بارے میں سائنسی معلومات کا ڈھیر لگا دیا نتیجہ یہ کہ پرانا علم نجوم (Astrology) جو نحوست اور سعادت سے بحث کرتا تھا مٹتا چلا گیا اور اس کے ساتھ کاہنوں کا وجود بھی نہیں رہا۔ موجودہ علم جوتش (Astrology) اسی کا بچا کھچا حصہ ہے۔
کاہنوں کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ بد کار ہوتے ہیں۔ جب آدمی جھوٹ کو پیشہ بنا لے تو اس کے کردار میں پاکیزگی کس طرح آ سکتی ہے وہ بد اخلاق اور بد کردار ہی ہو سکتے ہیں۔ اور شیطان اپنا رشتہ اشرار ہی سے جوڑ تا ہے۔
۱۸۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو شیطان کے دلوں میں ڈالی جانے والی باتوں کو اس طرح قبول کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں جیسے وہ ان ہی کی طرف کان لگائے ہوئے ہوں۔ مراقبہ (Meditation) میں بیٹھ کر جن یا شیطان کے الہام کا انتظار کرنا شیاطین کی طرف کان لگانے کی بہت واضح شکل ہے۔
۱۸۲۔۔۔۔۔۔۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں کچھ لوگ سچے بھی ہوتے ہیں بلکہ مطلب یہ کہ وہ جو خبریں دیتے ہیں اور جو پیش گوئی کرتے ہیں ان میں وہ اکثر جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ان کی کوئی بات صحیح ثابت ہو۔
واضح رہے کہ پامسٹری (ہاتھ کی لکیروں کا علم) جو مستقبل کا حال بتاتی ہے کہانت ہی کی ایک قسم ہے اسی طرح جنات کو حاضر کر کے ان سے باتیں اگلوانے کا دعویٰ نیز فال گیری سب ڈھکوسلا اور عوام کو الّو بنانے والی باتیں ہیں مگر بد اعتقاد لوگ جب ان کے ہاں چوری وغیرہ ہو جاتی ہے تو " باواؤں " کی طرف رجوع کرتے ہیں جو انہیں چور کی جھوٹی علامتیں بتا دیتے ہیں۔ بد اعتقاد لوگوں کی سمجھ میں اتنی بات بھی نہیں آتی کہ اگر فال کے ذریعہ مجرم کا پتہ لگانا ممکن ہوتا تو ہزاروں مجرموں کی تفتیش کی لمبی کار روائی پولس کو نہ کرنا پڑ تی۔ وہ چند فال گیری کرنے والوں کی خدمات حاصل کر کے مجرموں کا پتہ لگا لیتی۔ مگر وہم پرستی اور بد اعتقادی میں مبتلا ہونے والوں کی عقل ماری جاتی ہے۔
۱۸۳۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس شبہ کی تردید ہے کہ قرآن شاعرانہ کلام ہے۔ قرآن کی بلاغت، اس کے جملوں کی حیرت انگیز ترکیب اور اس کی اثر انگیزی کو دیکھ کر منکرین سے جب کوئی جواب بن نہ پڑ تا تو وہ اس کی توجیہ یہ کرتے کہ یہ شعر و شاعری کے سوا کچھ نہیں۔ ان کی اسی توجیہ کی تردید کرتے ہوئے انہیں دعوت فکر دی گئی کہ کیا تم ایک شاعر اور ایک نبی کا فرق محسوس نہیں کرتے ؟ یا شاعری اور کلام الٰہی میں امتیاز تمہارے لیے مشکل ہو رہا ہے ؟ دیکھتے نہیں کہ شاعروں کی طرف کون لوگ کھنچتے ہیں۔ گمراہ لوگ ہی ہیں جوان کی واہی تباہی باتوں کی داد دیتے اور ان کا اثر قبول کرتے ہیں بخلاف اس کے جن لوگوں نے رسول کی پیروی اختیار کی ہے وہ جویائے حق ہیں اور پیغمبر سے انہوں نے رشد و ہدایت کی روشنی پائی ہے۔ ان کی راست روی کو دیکھ کر ہر گز یہ رائے قائم نہیں کی جا سکتی کہ یہ کسی شاعر کے پیچھے چلنے والے لوگ ہیں۔
واضح رہے کہ اس زمانہ کے شعراء گمراہی پھیلانے میں پیش پیش تھے۔ امراء القیس تو عرب شعراء کا امام سمجھا جاتا تھا اور سبع معلقات (شاعری کے سات مجموعے ) جو خانہ کعبہ میں آویزاں کیے گئے تھے ان میں اس کا کلام ایک امتیازی شان رکھتا تھا مگر اس کی شاعری بے ہودہ گوئی، عشق بازی اور فحش بیانی کی بد ترین مثال ہے۔ کہاں اخلاق کو سنوارنے والا نبی۔
۱۸۴۔۔۔۔۔۔۔ شاعری اصل میں تخیل کی پرواز ہے اس لیے شاعر کبھی زمین پر ہوتے ہیں تو کبھی آسمان پر، کبھی مے خانہ میں ہوں گے تو کبھی بت خانہ میں ، کبھی محبوب کی بے وفائی کا گلہ کریں گے تو کبھی اس کی جدائی پر آنسو بہائیں گے ، کبھی غم عشق میں مریں گے اور کبھی داد عیش دیں گے ، جب کسی سے ناراض ہوئے تو ہجو کی اور خوش ہوئے تو قصیدہ پڑھا، ایک طرف زہد کا سبق دیں گے تو دوسری طرف عیش کوشی پر ابھاریں گے ، مبالغہ آرائی اور خیال آرائی ان کے فن کا کمال ہے وہ ؏
رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں
اس لیے شعروں کے بارے میں قرآن کا یہ بیان کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے رہتے ہیں حقیقت واقعہ ہے اور اس کے پیش نظر شاعر اور رسول کا فرق بالکل واضح ہے۔ رسول داعئ حق ہوتا ہے اور وہ نشانات راہ کو واضح کرتے ہوئے ایک متعین منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ وہ ٹھوس باتیں کرتا ہے اور ٹھوس نتائج سے باخبر کرتا ہے۔ وہ صداقت کا پیکر ہوتا ہے اور اس کی ہر بات جچی تلی ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ قرآن نے شعراء کے بارے میں جو بات کہی ہے وہ اس زمانہ کے شعراء تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک عام حکم کی حیثیت رکھتی ہے اور مقصود ان کی عام خصلت اور ان میں پائی جانے والی عام کمزوری کو بیان کرنا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کے دور میں بھی شعراء کا یہی کچھ حال رہا ہے اور آج بھی یہی حال ہے۔
عربی میں فرزوق اور اس کے ہم مشرب شاعروں نے ہجو گوئی اور عریاں بیانی کی تو فارسی میں خیام اور اس کے ہم مشرب شاعروں نے مے نوشی اور عیش و طرب کا شوق پیدا کیا۔ رہی اردو تو کیا میرؔ اور کیا غالبؔ سب کا موضوعِ سخن ہی غم عشق رہا اور اب جب کہ مادی اور معاشی تحریکیں چل رہی ہیں موضوع سخن غم روز گار ہے۔
حدیث میں ایسے اشعار کو قابل نفرت قرار دیا گیا ہے جو فکر و ذہن اور اخلاق و کردار پر برا اثر ڈالتے ہوں۔
لَاَنْ یَمْتلِئَ جَوْفُ فَجُلٍ قَیحاً خَیْر لُہٗ مِنْ اَنْ یَمْتَلِئَ شِعْراً (بخاری کتاب الادب) " کسی شخص کے پیٹ کا پیپ سے بھر جانا بہتر ہے اس سے کہ وہ شعر سے بھرا ہوا ہو"۔
۱۸۵۔۔۔۔۔۔۔ یہ شاعروں کی سب سے بڑ ی کمزوری ہے جس کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ وہ گفتار کے غازی ہوتے ہیں کردار کے غازی نہیں بنتے کیونکہ ان کا اصل مشغلہ تُک بندی اور سخن آفرینی ہوتا ہے تاکہ عام سے داد حاصل کریں وہ بے کردار ہوتے ہیں با کردار نہیں اور قوال ہوتے ہیں فعال نہیں۔ اس کے برعکس رسول جو کہتا ہے وہ کرتا ہے اور جو تعلیم دیتا ہے اس پر خود عمل پیرا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کی زندگی مکارم اخلاق اور اوصاف حمیدہ کا بہترین نمونہ ہوتی ہے۔
۱۸۶۔۔۔۔۔۔۔ اوپر جن گمراہ شاعروں کا ذکر ہوا ان سے مستثنیٰ وہ شاعر ہیں جن میں یہ چار اوصاف پائے جائیں۔ ایک یہ کہ وہ اہل ایمان ہوں ، دوسرے یہ کہ وہ عمل کے اعتبار سے صالح ہوں ، تیسرے یہ کہ وہ اللہ کو بہ کثرت یاد کرنے والے ہوں۔ اور ذکر الہٰی ان کے کلام میں اس طرح رچ بس جائے کہ جو شخص بھی ان کے اشعار سنے اس کو خدا یاد آ جائے۔ اور چوتھے یہ کہ وہ کسی کو برا بھلا کہیں تو ہجو گوئی کے طور پر نہیں بلکہ اپنی مدافعت کے طور پر کہ مظلوم کو ظالم کے خلاف کہنے کا حق ہے۔
آگے جا کر دربار رسول کے جو شاعر ہوئے ان میں یہ سب اوصاف پائے جاتے تھے اور ان میں سب سے زیادہ ممتاز شخصیت حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی تھی۔
قرآن کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ وہ شعر و شاعری کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا اور نہ شعر گوئی کی ترغیب دیتا ہے بلکہ کڑ ی شرائط کے ساتھ اس کو صرف رخصت کے درجہ میں رکھتا ہے البتہ اگر کوئی شاعر ان حدود و قیود میں رہتے ہوئے دین کی مدافعت کے لیے یا صحیح دینی اسپرٹ پیدا کرنے کے لیے سخن آرائی کرتا ہے تو جیسا کہ حدیث میں آتا ہے اللہ کی طرف سے اس کی تائید کا سامان بھی ہوتا ہے۔
۱۸۷۔۔۔۔۔۔۔ مراد وہ لوگ ہیں جو خود گمراہ ہیں اور نہیں چاہتے کہ دوسرے لوگ بھی ہدایت کی راہ اختیار کریں اس لیے وہ پیغمبر اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ظلم و زیادتی پر اتر آئے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد ان ظالموں کا جو حشر اس دنیا میں ہوا اس سے آج کون واقف نہیں ہے ؟