اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ ہر خوبی (اور تعریف) اللہ ہی کے لئے ہے جو (عدم محض سے ) بنا نکالنے والا ہے آسمانوں اور زمین (کی اس عظیم الشان کائنات) کو جو پیغام رساں بنانے والا ہے ایسے فرشتوں کو جو دو دو تین تین اور چار چار پروں والے ہیں وہ اضافہ فرماتا ہے اپنی مخلوق میں جو چاہتا ہے بلاشبہ اللہ کو ہر چیز پر پوری پوری قدرت ہے
۲۔۔۔ اللہ اپنے بندوں کے لئے جو بھی کوئی رحمت کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے کوئی کھولنے والا نہیں (اس کے سوا) اور وہی ہے (سب پر) غالب نہایت ہی حکمت والا
۳۔۔۔ اے لوگوں یاد کرو تم اللہ کے ان (طرح طرح کے ) احسانات کو جو اس نے تم پر فرمائے ہیں کیا اللہ کے سوا اور کوئی خالق ہے جو تمہیں رزق سے نوازتا ہو آسمان اور زمین سے کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں سوائے اس (وحدہٗ لاشریک) کے پھر تم لوگ کہاں (اور کیسے ) اوندھے ہوئے جا رہے ہو؟
۴۔۔۔ اور اگر یہ لوگ جھٹلائیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو (اے پیغمبر !) تو (یہ کوئی نئی بات نہیں کہ) بے شک جھٹلایا جا چکا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کو اور اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں (اور لوٹائے جائیں گے ) سب کام
۵۔۔۔ اے لوگوں بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پس تم کو دھوکے میں نہ ڈالنے پائے دنیاوی زندگی (اور اس کی چمک دمک) اور تم کو دھوکے میں نہ ڈالنے پائے اللہ کے بارے میں وہ بڑا دھوکے باز
۶۔۔۔ بلاشبہ شیطان دشمن ہے تم سب کا (اے لوگوں !) پس تم اس کو ہمیشہ اپنا دشمن ہی سمجھنا اس کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بلاتا (اور دعوت دیتا) ہے اپنی پارٹی (اور اپنے یاروں ) کو تاکہ وہ ہو جائیں (دوزخ کی دہکتی) بھڑکتی آگ کے یاروں میں سے
۷۔۔۔ جو لوگ اڑے رہے اپنے کفر (و باطل) پر ان کے لئے بڑا ہی سخت عذاب ہے اور جو ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے انکے لئے عظیم الشان بخشش بھی ہے اور بہت بڑا اجر بھی
۸۔۔۔ بھلا (اس شخص کی محرومی اور بدبختی کا کوئی ٹھکانا ہو سکتا ہے ؟) جس کیلئے خوشنما بنا دیا گیا ہو اس کے برے عمل کو (اس کی اپنی بد نیتی اور سوء اختیار کی بناء پر) جس سے وہ اس کو اچھا ہی سمجھے جا رہا ہو؟ سو اللہ گمراہی (کے گڑھے ) میں ڈالتا ہے جس کو چاہتا ہے اور (نور حق و) ہدایت سے نوازتا ہے جس کو چاہتا ہے پس گھلنے نہ پائے آپ کی جان (عزیز اے پیغمبر !) ان (بدبختوں کی حرمان نصیبی) پر افسوس کرتے ہوئے بے شک اللہ پوری طرح جانتا ہے ان سب کاموں کو جو یہ لوگ کر رہے ہیں
۹۔۔۔ اور اللہ وہی تو ہے جو بھیجتا ہے ہواؤں کو (اپنی قدرت کاملہ اور رحمت شاملہ سے ) پھر وہ اٹھاتی ہیں بادل کو پھر اس کو ہم ہانک دیتے ہیں کسی مردہ زمین کی طرف پھر اس کے ذریعے ہم زندہ کر دیتے ہیں زمین کو اس کے بعد کہ وہ مر چکی ہوتی ہے اسی طرح ہو گا دوبارہ اٹھایا جانا
۱۰۔۔۔ جو کوئی عزت چاہتا ہو تو (وہ جان لے کہ) عزت تو سب اللہ ہی کے پاس ہے اسی کی طرف چڑھتے ہیں پاکیزہ کلمات اور عمل صالح اس کو اوپر اٹھاتا ہے اور جو لوگ بری چا لیں چلتے ہیں (حق کے مقابلے میں ) ان کیلئے بڑا سخت عذاب ہے اور ان کی یہ چال بازیاں خود نابود ہو کر رہیں گی
۱۱۔۔۔ اور اللہ ہی نے پیدا فرمایا تم سب کو (اے لوگوں !) مٹی سے پھر نطفہ سے پھر اس نے تمہیں کر دیا جوڑے جوڑے اور (اس کے علم کا یہ عالم ہے کہ) نہ کوئی مادہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اس کے علم میں ہوتا ہے اور (اسی طرح) نہ کوئی عمر پاتا ہے عمر پانے والا اور نہ کچھ کم کیا جاتا ہے اس کی عمر میں سے مگر یہ کہ یہ سب کچھ (ثبت و مندرج) ہے ایک عظیم الشان کتاب میں بلاشبہ یہ سب کچھ اللہ کے لیے بہت آسان ہے
۱۲۔۔۔ اور برابر نہیں ہو سکتے پانی کے یہ دونوں عظیم الشان ذخیرے ایک تو میٹھا پیاس بجھانے والا اور خوشگوار (و لذیذ) ہے پینے میں اور دوسرا سخت کھاری حلق چھیل دینے والا اور ہر ایک سے تم لوگ تازہ گوشت بھی کھاتے ہو اور وہ زیور بھی نکالتے ہو جس کو تم پہنتے ہو اور اسی پانی میں تم وہ (دیو پیکر) جہاز بھی چلتے دیکھتے ہو جو اس کو چیرتے ہوئے جاتے ہیں تاکہ تم لوگ تلاش کر سکو اس کے فضل سے (اپنی روزی) اور تاکہ تم شکر گزار بنو
۱۳۔۔۔ وہ داخل کرتا ہے (حد درجہ پابندی اور باریکی کے ساتھ) رات کو دن میں اور دن کو رات میں اور اسی نے کام میں لگا رکھا ہے سورج اور چاند (کے ان دو عظیم الشان کُرُّوں ) کو ہر ایک چلے جا رہا ہے (پوری پابندی کے ساتھ) ایک وقت مقرر تک یہ ہے اللہ رب تم سب کا (اے دنیا جہاں کے انسانو !) اسی کے لئے ہے بادشاہی اور اس کے سوا جن کو تم لوگ (پوجتے ) پکارتے ہو وہ گٹھلی کے چھلکے تک کے بھی مالک نہیں
۱۴۔۔۔ اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار کو سن نہیں سکتے اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو وہ تمہاری پکار کا کوئی جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے روز وہ صاف طور پر انکار کر دیں گے تمہارے اس شرک کا اور تم کو کوئی خبر نہیں دے سکے گا (حق اور حقیقت کے بارے میں ) ایک انتہائی باخبر ہستی کی طرح
۱۵۔۔۔ اے لوگوں تم سب محتاج ہو اللہ کے اور اللہ ہی ہے جو ہر طرح سے بے نیاز ہر تعریف کا حق دار ہے
۱۶۔۔۔ وہ اگر چاہے تو لے جائے تم سب کو اور لا بسائے تمہاری جگہ کسی اور نئی مخلوق کو
۱۷۔۔۔ اور ایسا کرنا اللہ کے لئے کچھ بھی دشوار نہیں
۱۸۔۔۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر کوئی (گناہ کا) بوجھ لدا ہوا شخص اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے کسی کو پکارے گا بھی تب بھی اس کے بوجھ کا کچھ بھی حصہ اٹھانے کیلئے کوئی تیار نہ ہو گا اگرچہ وہ اس کا کوئی (قریبی) رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو آپ کے خبردار کرنے کا اثر تو انہی لوگوں پر ہو سکتا ہے جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے بن دیکھے اور وہ نماز قائم کرتے ہیں اور جو کوئی پاکی اختیار کرے گا تو وہ اپنے ہی لئے کرے گا اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے (سب کو)
۱۹۔۔۔ اور آپس میں برابر نہیں ہو سکتے اندھا اور آنکھوں والا
۲۰۔۔۔ اور نہ ہی اندھیرے اور روشنی
۲۱۔۔۔ اور نہ ہی سایہ اور دھوپ کی تپش
۲۲۔۔۔ اور نہ ہی برابر ہو سکتے ہیں زندے اور مردے بلاشبہ اللہ سناتا ہے جسے چاہتا ہے اور آپ (اے پیغمبر !) ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں (پڑے ) ہیں
۲۳۔۔۔ آپ کا کام تو بس خبردار کر دینا ہے (برے انجام سے )
۲۴۔۔۔ بلاشبہ ہم نے بھیجا آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر (سب لوگوں کے لئے ) حق کے ساتھ اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی نہ کوئی خبردار کرنے والا نہ گزرا ہو۔
۲۵۔۔۔ اگر یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب کریں تو (یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں کہ) ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں (حق اور حقیقت کو) ان کے پاس بھی ان کے رسول آئے کھلے دلائل صحیفے اور روشنی بخشنے والی کتابیں لے کر
۲۶۔۔۔ مگر ان کی قوموں نے ان کو جھٹلایا پھر آخرکار میں نے پکڑا ان لوگوں کو جو اڑے رہے تھے اپنے کفر (و باطل) پر سو دیکھو کیسا تھا میرا عذاب
۲۷۔۔۔ کیا تم نے کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ اللہ (کس طرح) اتارتا ہے آسمان سے پانی پھر اس کے ذریعے ہم نکالتے ہیں طرح طرح کے پھل (اور قسما قسم کی پیداواریں ) جن کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اور پہاڑوں کے بھی مختلف حصے ہیں سفید اور سرخ پھر ان میں بھی مختلف رنگوں والے اور بالکل سیاہ کا لے (بھجنگے ) بھی
۲۸۔۔۔ اور انسانوں جانوروں اور چوپایوں کے بھی اسی طرح مختلف رنگ ہیں اللہ سے تو اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں (حق اور حقیقت کا) بلاشبہ اللہ نہایت ہی زبردست بڑا ہی بخشنے والا ہے
۲۹۔۔۔ جو لوگ (صدق دل سے ) پڑھتے ہیں اللہ کی کتاب اور وہ نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہوتا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں (ہماری رضا کے لئے ) پوشیدہ طور پر بھی اور کھلے عام بھی وہ بلاشبہ امید رکھتے ہیں ایک ایسی عظیم الشان تجارت کی جس میں ہرگز کوئی خسارہ نہیں
۳۰۔۔۔ تاکہ اللہ پورے پورے دے ان کو ان کے اجر اور ان کو نوازے اپنے مزید فضل (و کرم) سے بے شک وہ بڑا ہی بخشنے والا انتہائی قدر دان ہے
۳۱۔۔۔ اور جو کتاب ہم نے آپ کی طرف وحی کے ذریعے بھیجی ہے (اے پیغمبر !) وہی حق ہے جو تصدیق کرنے والی ہے ان تمام کتابوں کی جو کہ آ چکی ہیں اس سے پہلے بلاشبہ اللہ اپنے بندوں سے پوری طرح باخبر سب کچھ دیکھتا ہے
۳۲۔۔۔ پھر ہم نے اپنی اس کتاب کا وارث بنا دیا ان لوگوں کو جن کو ہم نے چن لیا تھا (اس شرف کیلئے ) اپنے بندوں میں سے پھر ان میں سے کوئی تو ظلم ڈھانے والا ہے خود اپنی جان پر کوئی میانہ رو ہے اور کوئی سبقت لے جانے والا ہے نیکیوں میں اس کے اذن (و عنایت) سے یہی ہے بڑا فضل
۳۳۔۔۔ یعنی ہمیشہ رہنے کی وہ جنتیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے وہاں ان کو آراستہ کیا جائے گا سونے کے کنگنوں سے اور عظیم الشان موتیوں سے اور لباس ان کا وہاں پر ریشم ہو گا
۳۴۔۔۔ اور یہ (خوش نصیب) لوگ (خوشیوں میں جھوم جھوم کر) کہیں گے کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے دور کر دیا ہم سے غم (اور ہر قسم کا فکر) بلاشبہ ہمارا رب بڑا ہی بخشنے والا انتہائی قدر داں ہے
۳۵۔۔۔ جس نے اتار دیا ہمیں اپنے فضل (و کرم) سے سدا رہنے کی اس (عظیم الشان) جگہ میں جس میں ہمیں نہ کوئی تکلیف لاحق ہوتی ہے اور نہ کوئی تھکان
۳۶۔۔۔ اور اس کے برعکس جو لوگ اڑے رہے ہوں گے اپنے کفر (و باطل) پر ان کے لئے جہنم کی آگ ہے نہ تو ان پر قضاء آئے گی کہ وہ مر ہی جائیں اور نہ ہی کسی طرح ان سے اس کے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائے گی (کہ کچھ آرام پا سکیں ) اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں (اور دیں گے ) ہر بڑے ناشکرے (کافر) کو
۳۷۔۔۔ اور وہ اس میں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں (ایک بار) نکال دے اس سے تاکہ ہم نیک کام کریں ان کاموں کے خلاف جو کہ ہم (اس سے پہلے ) کرتے رہے تھے (جواب ملے گا) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں سبق لے لیتا جس نے سبق لینا ہوتا اور پہنچ چکا تھا تمہارے پاس ہماری طرف سے خبردار کرنے والا؟ پس اب تم لوگ مزہ چکھتے رہو (اپنے کئے کا) سو ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں
۳۸۔۔۔ بلاشبہ اللہ ہی ہے جاننے والا آسمانوں اور زمین کے غیب کا بلاشبہ وہ پوری طرح جانتا ہے سینوں کے بھیدوں کو
۳۹۔۔۔ وہ وہی ہے جس نے تم لوگوں کو خلیفہ (اور جانشین) بنایا اپنی زمین میں سو جس نے کفر کیا تو اس کے کفر کا وبال خود اسی پر ہو گا اور کافروں کا کفر ان کے رب کے یہاں ناراضگی ہی میں اضافہ کرتا ہے اور کافروں کے لئے ان کا کفر خسارے (اور گھاٹے ) ہی میں اضافے کا باعث ہوتا ہے
۴۰۔۔۔ (ان سے ) کہو کہ کیا تم لوگوں نے کبھی غور (نہیں ) کیا اپنے ان خود ساختہ شریکوں کے بارے میں ؟ جن کو تم لوگ (پوجتے ) پکارتے ہو اللہ (وحدہٗ لاشریک) کے سوا؟ مجھے دکھاؤ (اور بتاؤ) تو سہی کہ انہوں نے کیا پیدا کیا زمین میں سے یا ان کا کوئی حصہ ہے آسمانوں میں ؟ یا ہم نے ان کو کوئی ایسی کتاب دے رکھی ہے جس کی بناء پر یہ لوگ کسی کھلی سند پر قائم ہوں ؟ (کچھ بھی نہیں ) بلکہ ظالم لوگ ایک دوسرے کو محض دھوکے (کے جھانسے ) دئیے چلے جا رہے ہیں
۴۱۔۔۔ بلاشبہ اللہ ہی نے روک (اور تھام) رکھا ہے آسمانوں اور زمین (کی اس عظیم الشان کائنات) کو اس سے کہ یہ دونوں ٹل جائیں اپنی اپنی جگہ سے اور اگر کبھی یہ ٹل جائیں تو پھر کون ہے جو ان کو روک سکے اس کے بعد؟ بے شک وہ بڑا ہی بردبار نہایت ہی (درگزر اور) معاف کرنے والا ہے
۴۲۔۔۔ اور یہ لوگ تو بڑی زور دار قسمیں کھا (کر کہا کرتے ) تھے کہ اگر ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والا آگیا تو یہ ضرور بالضرور دوسری ہر امت سے بڑھ کر راست رو ہونگے مگر جب آ پہنچا ان کے پاس ایک عظیم الشان خبردار کرنے والا تو اس کی آمد (اور تشریف آوری) سے ان کی نفرت (اور حق سے فرار) ہی میں اضافہ ہوا
۴۳۔۔۔ اپنی بڑائی کے گھمنڈ کی بناء پر (اللہ کی) اس زمین میں اور اپنی بری چالوں کے نتیجے میں اور بری چا لیں اپنے چلنے والوں ہی کو گھیر کر (اور پھانس کر) رہتی ہیں تو کیا یہ لوگ اب اسی برتاؤ (اور انجام) کے منتظر ہیں جو ان سے پہلے لوگوں کے ساتھ ہو چکا ہے ؟ تو تم ہرگز اللہ کے قانون میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم ہرگز اللہ کے قانون میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے
۴۴۔۔۔ کیا یہ لوگ چلے پھرے نہیں (عبرتوں بھری) اس زمین میں ؟ تاکہ یہ دیکھتے کہ کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے حالانکہ وہ طاقت میں ان سے کہیں زیادہ بڑھے ہوئے تھے اور اللہ ایسا نہیں کہ کوئی چیز اس کے قابو سے نکل جائے نہ آسمانوں (کی بلندیوں ) میں اور نہ زمین (کی پستیوں ) میں بے شک وہ سب کچھ جانتا پوری قدرت والا ہے
۴۵۔۔۔ اور اگر کہیں اللہ پکڑنے لگتا لوگوں کو ان کے کئے کرائے پر تو وہ کسی متنفس کو بھی روئے زمین پر (زندہ) نہ چھوڑتا لیکن وہ ان کو ڈھیل دئیے جا رہا ہے ایک وقت مقرر تک پھر جب آ پہنچے گا ان کا وہ وقت مقرر تو ان کا حساب پوری طرح چکا دیا جائے گا بے شک اللہ پوری طرح نگاہ رکھے ہوئے ہے اپنے بندوں پر
۳۔۔۔ سو اس آیت کریمہ میں پہلے تو لوگوں کو ان گوناگوں اور بے حدو حساب نعمتوں کی تذکیر و یاد دہانی فرمائی گئی ہے، جن میں وہ سرتاپا ڈوبے ہوئے ہیں جس سے آپ سے آپ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سب کچھ کس کی عطاء و بخشش کا صلہ و ثمرہ ہے؟ اور کیا حق عائد ہوتا ہے بندے پر اس واہب مطلق کا؟ جَلَّ جَلَالُہ، وَعَمَّ نَوالُہ، اور پھر اس کے اس حق واجب کی ادائیگی کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟ اسی ایک سوال کے صحیح جواب سے انسان کے لئے راہ حق و صواب بھی واضح ہو جاتی ہے اور دین حق کی اہمیت اور ضرورت بھی، سو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا دیا بخشا، اور اسی وحدہٗ لاشریک کا عطا فرمودہ ہے، اور جس کا لازمی تقاضا اور طبعی ثمرہ و نتیجہ یہ ہے کہ اطاعت مطلقہ اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے، اور اس کی ادائیگی کا طریقہ اس کے رسول کی اطاعت و اتباع ہے۔ سواس عمومی تذکیر کے بعد ان کو مخاطب کر کے ان سے سوال کیا گیا کہ آسمان و زمین کے باہمی تعامل سے جو تم لوگوں کو قسما قسم کی روزی ملتی ہے۔ کہ آسمان سے نہایت پرحکمت طریقے سے پانی برستا ہے تو اس کے نتیجے میں زمین سے تمہارے لئے طرح طرح کی پیداواریں اگاتی ہے، اور تمہاری معیشت و معاش کی گونا گوں چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ تو کیا اللہ کے سوا اور کوئی خالق ایسا ہو سکتا ہے جو تم لوگوں کو اس طرح آسمان و زمین سے روزی سے نوازے؟ جب نہیں اور یقیناً نہیں، اور تم لوگوں کو تسلیم ہے کہ نہیں تو اس کا لازمی نتیجہ اور طبیعی تقاضا ہے کہ معبود برحق بھی اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کوئی نہ ہو۔ تو پھر تم لوگوں کی مت کہاں اور کیسے ماری جاتی ہے؟ اور تم کس طرح اوندھے ہو رہے ہو؟ کہ پھر بھی تم لوگ اس کی عبادت و بندگی میں دوسروں کو شامل کر کے شرک کا ارتکاب کرتے ہو؟ تمہاری مت آخر کہاں، اور کیسے ماری جاتی ہے؟ سو آسمان اور زمین کے باہمی تعامل سے ملنے والی روزی کا یہ ایک معاملہ ہی اثبات توحید کے لئے کافی ہے، اور ایسا اور اس حد تک کہ ایک سلیم الفطرت انسان اس کے نتیجے میں بے ساختہ پکار اٹھتا ہے لَا اِلٰہَ اِلاَّ ہُوَ۔ یعنی کوئی معبود نہیں سوائے اس وحدہٗ لاشریک کے، سبحانہ و تعالیٰ، مگر غفلت اور لاپرواہی کا کیا کیا جائے؟ والعیاذ باللہ العظیم،
۵۔۔۔ پس آیت کریمہ میں پہلے تو اللہ تعالیٰ کے وعدے اور اس کی وعید کی قطعیت کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وہ قطعی طور پر حق اور سچ ہے۔ اس نے اپنے وقت مقرر پر بہر حال پورا ہو کر رہنا ہے، اس لئے خبردار کوئی اس کو ہوائی بات سمجھ کر یونہی نہ ٹال دے، اور اس طرح وہ اپنے آپ کو ہمیشہ کے خسارے میں نہ ڈال دے۔ والعیاذُ باللہ، اور اس کے بعد انسان کو ان دو دھوکوں سے خبردار کیا گیا ہے جو اس کے بہکاوے کے دو بڑے سبب ہیں ایک دنیاوی زندگی کہ اسی کی چہل پہل، چمک دمک، اور اسی کی، عیش وعشرت کو اپنا اصل مقصد بنا لیا جائے۔ کہ یہ بہر حال فانی، عارضی، اور وقتی چیزہے، اور اس کامل جانا کامیابی کی علامت نہیں، بلکہ یہ ابتلاء و آزمائش کا سامان ہے، اور دوسرا دھوکہ وہ ہے جو انسان کو اپنے ازلی دشمن سب سے بڑے دھوکے باز (الغرور) یعنی ابلیس لعین سے لگتا ہے، جو اللہ کے بارے میں انسان کو طرح طرح سے دھوکے میں ڈالتا ہے، پس ان دونوں دھوکوں سے مختاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے ہر قسم کے دھوکے سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، اور ہر قدم اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ہی اٹھانے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین،
۱۰۔۔۔ اس آیت کریمہ سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ عزت سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے۔ پس جو عزت سے سرفراز ہونا چاہے اس کو چاہیے کہ وہ اپنے اس خالق ومالک اور واہب مطلق سے اپنا تعلق صحیح رکھے۔ پھر اس ربِّ رحمان ورحیم اور خدائے وحدہٗ لاشریک کے ساتھ صحیح تعلق پیدا کرنے اور اس کی طرف سے عزت سے سرفراز ہونے کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیا گیا کہ اس کی طرف چڑھنے والی اور اس کے حضور پہنچنے وای چیز کلمہ طیب یعنی کلمہ ایمان و توحید ہے، اس کے سوا دوسری کوئی چیز نہیں جو اس وحدہٗ لاشریک کے حضور توسل اور قرب کا ذریعہ بن سکے۔ اور اس کلمہ طیب یعنی کلمہ توحید اور ایمان کو جو چیز ساہارا دیتی اور رفعت بخشتی ہے، وہ ہے عمل صالح، کہ عمل صالح کے بغیر کلمہ ایمان مرجھا کے رہ جاتا ہے، گویا کہ کلمہ ایمان کی مثال انگور کی بیل کی سی ہوئی۔ جو بذات خود نہایت ثمر دار اور بار آور ہوتی ہے۔ لیکن اس کی شادابی اور ثمر باری کا تمام تر مدار و انحصار اس امر پر ہوتا ہے کہ اس کو کوئی سہارا ملے جس پر چڑھ کر وہ پھیلے اور پھلے پھولے، ورنہ ایک ہی جگہ پڑی رہنے سے وہ گل سڑ کر ختم ہو جاتی ہے، سو شجر ایمان کو یہ سہارا عمل صالح ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ جس سے یہ پروان چڑھتا اور مثمرو بار آور بنتا ہے۔ ورنہ جس طرح انگور کی بیل بغیر سہارے کے سکڑ کر رہ جاتی ہے۔ اسی طرح شجر ایمان بھی عمل صالح کے بغیر مرجھا کر رہ جاتا ہے، حضرت ابن عباس وغیرہ اکابر نے الکلم الطیب سے مراد کلمہ ایمان ہی لیا ہے، اور طیب کی صفت سے اس کی زرخیزی اور ثمر یاری کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، جیسا کہ سورہ ابراہیم میں اس کی صفت میں ارشاد فرمایا گیا ہے تُؤتِیْ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِاذْنِ رَبِّہَا۔ یعنی وہ اپنے رب کے اذن سے ہر وقت پھل دیتا ہے، سو فلسفہ دین کے نقطہ نظر سے یہی کلمہ تمام علم و حکمت کی اساس اور جڑ بنیاد ہے، جس نے اس کو پالیا اس نے تمام علم و حکمت کے خزانوں کو پالیا۔ اور یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ ایمان اور عمل صالح باہم لازم و ملزوم ہیں، جس طرح ایمان کے بغیر عمل صالح کی کوئی بنیاد نہیں ہو سکتی اسی طرح عمل کے بغیر ایمان ایک بے جان اور بے ثمر چیز ہے، اس ارشاد سے مشرکین کے مشرکانہ فلسفہ عزت کی جڑ نکال دی گئی۔ وہ اپنے خود ساختہ معبودوں اور من گھڑت شریکوں کو اللہ تعالیٰ یہاں عزت کا ذریعہ سمجھتے تھے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِہٰۃً لِیَکُوْنُوْا لَہُمْ عِزًّا (مریم۔٨۱) یعنی انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے عزت کا ذریعہ بن سکیں۔ اسی لئے ان کے اس زعم باطل کی تردید کے لئے وہیں ارشاد فرمایا گیا کہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا بلکہ وہ ان کی عبادت ہی کا انکار کر دینگے، اور الٹا ان کے مخالف اور دشمن ہو جائیں گے چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کَلاَّ سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُوْنُوْن عَلَیْہِمْ ضِدًّا (مریم۔٨۲) سو عزت اور سچی اصل اور حقیقی عزت ایمان صادق، عمل صالح اور پاکیزہ کردار ہی سے نصیب ہو سکتی ہے اور بس، اس کے سوا اس سے سرفرازی کا دوسرا کوئی ذریعہ نہیں، باقی سب کے سب دھوکے کے سامان اور خسارے کا باعث ہیں، والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنا ہی بنائے رکھے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے، آمین،
۱۳۔۔۔ قطمیر جیسا کہ ترجمے سے ظاہر ہے اس باریک غلاف کو کہا جاتا ہے جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے، اور اس کا ذکر و بیان کسی چیز کی تحقیر اور اس کی بے حقیقتی کو واضح کرنے کے لئے کیا جاتا ہے، یعنی جن خود ساختہ اور من گھڑت معبودوں کو تم لوگ پوجتے پکارتے ہو وہ اس قدر بے حقیقت اور عاجز و بے بس ہیں کہ ذرہ برابر چیز کے بھی مالک نہیں، جبکہ خداوند قدوس جو کہ خالق ومالک حقیقی ہے، اس کی رحمتوں عنایتوں سے یہ پوری کائنات معمور و منور، اور بھرپور لبریز ہے، اسی نے تمہارے لئے بحر و بر کو پیدا فرمایا۔ جس کی ان گنت ولا تعداد نعمتوں سے تم لوگ ہمیشہ اور طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہوتے ہو۔ اسی نے میٹھے اور کھاری پانی کے دو عظیم الشان ذخیروں کو پیدا فرمایا، اور تمہارے لئے کام میں لگا دیا، جن کے ساتھ تمہارے طرح طرح کے عظیم الشان اور بے مثال فوائد و منافع وابستہ ہیں، اسی نے رات اور دن کے ادلنے بدلنے کے اس نہایت پُر حکمت اور عظیم الشان نظام کو قائم فرمایا ہے، جس سے تمہاری زندگی کے ان گنت اور بے مثال فوائد و منافع وابستہ ہیں۔ اور اسی نے سورج اور چاند کے ان عظیم الشان اور روشن ومنور کروں کو تمہارے لئے کام میں گا دیا۔ جو نہایت پابندی کے ساتھ محو گردش، اور رواں دواں ہیں۔ جن سے تم لوگ ہر وقت اور طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہوتے ہو۔ سو ایک طرف تو اللہ خالق ومالک حقیقی ہے، جو کہ رب ہے تم سب کا، اس کی قدرت و حکمت، اس کی رحمت و عنایت، اور اس کی ربوبیت عامہ کے یہ عظیم الشان مظاہر ہیں جن سے یہ پوری کائنات مملو اور معمور و منور ہے، جن کو تم لوگ خود اور اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھتے ہو۔ اور دوسری طرف تمہارے یہ خود ساختہ اور من گھڑت خدا ہیں جو کہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے تک کے بھی مالک نہیں، تو پھر تم سوچو کہ تم لوگ کس سے تعلق توڑ کر کس سے جوڑ رہے ہو؟ اور شرک کے کس ہاوئے میں گر کر، اپنے لئے کس قدر ہولناک خسارے کا سامان کر رہے ہو؟ آخر تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا؟ اور تمہاری مت کہاں مار دی گئی؟ اور تم توحید کی شاہراہ مستقیم پر چھوڑ کر دوزخ کی راہ پر آخر کیوں چلتے ہو؟ والعیاذُ باللہ،
۱۷۔۔۔ سو اس سے تمام لوگوں کو خطاب کر کے اس اہم اور بنیادی حقیقت سے آگاہ فرما دیا گیا ہے کہ تم لوگ بہر حال اور ہر اعتبار سے اللہ کے محتاج ہو، اس دنیا میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی، جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے۔ اور اللہ سب سے اور ہر اعتبار سے غنی اور بے نیاز ہے، اس کی بے نیازی کا عالم تو یہ ہے کہ وہ اگر چاہے تو تم سب کو فنا کر دے۔ اور تمہاری جگہ ایک نئی مخلوق کو لابسائے۔ وہ اگر ایسا کرنا چاہے تو اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں۔ بلکہ محض اس کے ارادے اور اشارے کی دیر ہے، سبحانہ و تعالیٰ، سو وہ تم لوگوں کو جو حق کی دعوت دے رہا ہے، اور اللہ کے رسول جو تم لوگوں کو دن رات جگانے جھنجوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو یہ سب کچھ محض تم لوگوں کے فائدے اور بھلے کے لئے ہے۔ تاکہ تم دائمی عذاب سے بچ سکو۔ ورنہ اس کا کوئی کام اس سے اٹکا ہوا نہیں ہے، وہ سب سے اور ہر لحاظ واعتبار سے غنی و بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمور ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، نیز تم میں سے کسی کو اگر اس کے دین کی خدمت کا کوئی موقع مل رہا ہے تو وہ اس کو غنیمت سمجھے، اور اس کو اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا کرم جان کر اس کا شکر ادا کرے، ورنہ دین اس کا محتاج نہیں۔
۲۲۔۔۔ پس جو لوگ عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر اپنے قواء فکر و ادراک کو ضائع کر دیتے ہیں، وہ عقلی اور روحانی اعتبار سے بالکل مردہ ہو جاتے ہیں اگرچہ بظاہر وہ چلتے پھرتے نظر آتے ہوں، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ چلتی پھرتی قبروں کی طرح ہوتے ہیں، اور جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے مردوں کو سنانا آپ کے بس میں نہیں۔ اسی طرح ان منکروں کے جسموں کی اندر موجود ان کی مردہ روحوں کو سنانا بھی آپ کے بس میں نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا قانون و دستور یہی ہے کہ وہ سننے سمجھنے، اور حق کے فہم و ادراک، کی توفیق انہی لوگوں کو دیتا ہے جن کے لئے وہ چاہتا ہے، کیونکہ وہی جانتا ہے کہ کس کے باطن کی کیفیت کیا ہے۔ اور کون حق کو سننے ماننے کے لائق اور اس کا اہل ہے اور وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس کی بخشی ہوئی فطری صلاحیتوں کی قدر کرتے اور ان کو زندہ رکھتے ہیں، سو ایسوں کو حق سننے سمجھنے اور اس کو اپنانے کی توفیق ملتی ہے اس کے برعکس جو لوگ فطری ہدایت، اور جبلی قوتوں، کی قدر نہیں کرتے ان کی یہ صلاحیت مر جاتی ہے، اور وہ اخلاقی اور روحانی اعتبار سے مردوں کے حکم میں ہو جاتے ہیں اور ان کے جسم ان کے لئے چلتی پھرتی قبروں کی طرح ہو جاتے ہیں، اور قبروں میں پڑے ہوئے ایسے مردوں کو سنانا اللہ کے سوا اور کسی کے لئے ممکن نہیں۔
۲۵۔۔۔ سو اس سے اوپر والی حقیقت کی تائید و تاکید تاریخی حوالے سے فرما دی گئی۔ چنانچہ پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ منکرین و معاندین کی طرف سے انکار و تکذیب کے جس معاملے کا سامنا اور سابقہ آج آپ کو پیش آرہا ہے، یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں، جس سے آپ ہی کو پہلی مرتبہ واسطہ پڑ رہا ہو۔ بلکہ اس سے پہلے بھی ایسے ہی ہوتا آیا ہے، ان منکرین و معاندین سے پہلے جو قومیں گزری ہیں انہوں نے بھی اپنے رسولوں کی تکذیب کی، اور حق کو مان کر نہیں دیا، حالانکہ ان کے رسول بھی کھلے دلائل و معجزات عبرتوں اور نصیحتوں بھرے صحیفوں اور حق و ہدایت کی روشنی بخشنے والی کتابوں کے ساتھ آئے تھے۔ مگر ان میں سے کسی بھی چیز سے وہ لوگ قائل نہ ہوئے۔ اور انہوں نے حق کو مان کر نہ دیا۔ اور انہوں نے اپنے رسولوں کے ساتھ تکذیب و انکار کا وہی معاملہ کیا، جس سے آج آپ کو بھی اپنی قوم کی طرف سے واسطہ پیش آرہا ہے، سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ کے رسولوں کے ساتھ ان منکر قوموں کا حال اور ان کا رویہ ہمیشہ یہی رہا۔ اور ان سابقہ منکرین و معاندین کے نتیجہ و انجام کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ آخرکار میں نے ان منکروں کو پکڑا۔ سو دیکھو کہ پھر کیسی تھی میری وہ پکڑ؟ اور وہ عبرتناک سزا جو ان کو دی گئی؟ سو منکرین و معاندین کو مہلت اور ڈھیل خواہ کتنی ہی ملے۔ لیکن آخر وہ ڈھیل اور مہلت ہی ہوتی ہے۔ جس نے اپنے وقت مقرر پر بہر حال ختم ہو جانا ہوتا ہے اور معاند منکرین آخرکار اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں، سو اس میں موجودہ دور کے منکرین کے لئے بڑا درس عبرت و بصیرت ہے کہ یہ لوگ اپنے انکار و تکذیب اور عناد و ہٹ دھرمی کی روش سے باز آ جائیں ورنہ انکا انجام بھی وہی ہو گا جو کل کے ان منکرین کا ہو چکا ہے، کہ اللہ تعالیٰ کا قانون بے لاگ اور سب کے لئے یکساں ہے، والعیاذ باللہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ،
۲۹۔۔۔ سو اس سے ان خوش نصیبوں کی نشاندہی فرما دی گئی جو حقیقی فوز و فلاح سے سرفراز ہونے والے ہیں، چنانچہ ایسے لوگوں کی تین صفتیں بیان فرمائی گئی ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت دوسری نماز کو قائم کرنا۔ اور تیسری اللہ کے دیئے بخشے میں سے اس کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے خرچ کرنا پوشیدہ بھی اور اعلانیہ طور پر بھی، یعنی ضرورت اور موقع کے مطابق جیسا مناسب ہو۔ اور یہ تین چیزیں ایسی اہم ہیں کہ یہ دین کی حقیقی محافظ اور خوف و خشیت خداوندی کی اصلی علامت ہیں، اسی لئے قرآن حکیم نے یہود بے بہبود کی ہلاکت و بربادی کے سلسلے میں تصریح فرمائی کہ ان لوگوں نے اللہ کی کتاب کو فراموش کر کے پس پشت ڈال دیا تھا۔ نماز کو ضائع کر دیا تھا اور یہ کہ بخل وزر پرستی ان پر مسلط ہو گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں یہ لوگ نور حق و ہدایت سے محروم ہو گئے تھے، اور ان کو قرآن پر ایمان لانے کی توفیق بھی انکو نصیب نہ ہو سکی۔ ان کے اندر سے صرف وہی لوگ قرآن حکیم پر ایمان لائے جو ان بیماریوں سے محفوظ تھے۔ سو ایسے لوگوں نے چونکہ دنیاوی زندگی کو مقصود بنا کر حرام وحلال سمیٹنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے اخروی زندگی کو اپنا اصل اور حقیقی مقصد بنا کر اپنے مال و دولت کو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے خرچ کیا، اس لئے انہوں نے اس طریقے سے ایک ایسی تجارت اور بے مثال و مبارک کاروبار کو اپنایا کہ اس میں کبھی کسی خسارے کا کوئی خوف و خطرہ نہیں۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال،
۳۴۔۔۔ سو اہل جنت جب اللہ تعالیٰ کے تمام وعدوں کی صداقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ تو اس وقت ان کی زبانوں پر بے ساختہ کلمہ حمد و شکر جاری ہو جائے گا سو وہ کہیں گے کہ سب تعریفیں، اور شکر وسپاس اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں ان ابدی اور سدا بہار نعمتوں سے نواز دیا۔ اور ہم سے سب غموں کو دور فرما دیا۔ اب نہ ہمیں ماضی کا کوئی غم اور پچھتاوا رہا۔ اور نہ مستقبل کے بارے میں کوئی خوف و اندیشہ، واقعی ہمارا رب بڑا ہی غفور و شکور ہے، اس نے ہماری کوتاہیوں اور کمزوریوں سے درگزر فرمایا، اور ہماری ایک ایک نیکی کو شرف قبول سے نوازا۔ اور اس کا اجر وصلہ ہمارے گمان و حسبان سے بھی کہیں زیادہ دیا۔ سو اس طرح وہ خوش نصیب وہاں کی ان بے مثال نعمتوں کو دیکھ کر سراپا شکر و سپاس بن جائیں گے۔ اور وہاں پر ہر طرف اسی واہب مطلق جل جلالہ کی حمد و ثنا کے ترانے ہونگے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ ان کی ہر مجلس اور ہر بات کا خاتمہ حمد و ثنا ہی پر ہو گا چنانچہ ارشاد فرمایا گیا وَاٰخِرُدَعْوٰنٰہُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (یونس۔۱٠) دارالمقامۃ سے اس حقیقت کو واضح کر دیا گیا کہ ہمیشہ کی اقامت یہی ہے، اس سے پہلے دنیا میں تو ہم ایک سرائے اور دار فانی میں تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم نے اس کو فانی ہی سمجھا، اور آخرت کے اس گھر کو ہی ہم نے اصل اور حقیقی گھر سمجھا۔ اب ہمارے رب نے ہمیں ایسے گھر میں اتار دیا جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ اب اس میں ہمارے لئے نہ کوئی محنت ہے نہ مشقت، اور نہ کوئی تھکان اور افسردگی۔ سو جنت میں ایسا بے غل وغش اور متنوع عیش حاصل ہو گا کہ اہل جنت اس میں کبھی کوئی اکتاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ اللہ نصیب فرمائے، آمین ثم آمین، یا رب العالمین،
۳۷۔۔۔ یعنی جب تم لوگوں کو دنیا میں اتنی زندگی اور مہلت بھی مل گئی کہ اگر تم سبق لینا چاہتے تو لے لیتے۔ اور نصیحت حاصل کرنا چاہتے تو کر لیتے۔ اور مزید برآں تمہارے پاس خبردار کرنے والا (نذیر) بھی آگیا جس نے تمہیں تمہارے مآل وانجام سے پوری طرح آگاہ اور خبردار بھی کر دیا مگر تم لوگوں نے اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی بلکہ تم لوگ اپنے ظلم وعدوان ہی پر اڑے رہے۔ یہاں تک کہ تم اپنے انجام کو پہنچ کر رہے سو اب تمہارے اس چیخنے چلانے کا نہ کوئی فائدہ ہے نہ اثر، اب تمہارے لئے کوئی مددگار نہیں جو تمہیں اس انجام سے رہائی دلا سکے اب تمہیں اپنے کئے کرائے کا نتیجہ اور اپنے ظلم و عدوان کا بھگتان بہر حال بھگتنا ہے۔ پس تم چکھو اور چکھتے ہی رہو اپنے کئے کرائے کے بدلے اور عذاب کو، والعیاذ باللہ جل وعلا، بکل حالٍ من الاحوال،
۳۸۔۔۔ سو اس سے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے کمال علم کی شان کو واضح فرما دیا گیا، کہ وہ آسمانوں اور زمین کے سب غیبوں کو بھی جانتا ہے، اور سینوں کے بھیدوں سے بھی پوری طرح واقف و آگاہ ہے۔ اس لئے اس سے نہ زمین و آسمان کی اس پوری کائنات کی کوئی چیز مخفی اور پوشیدہ رہ سکتی ہے۔ اور نہ ہی انسانوں کے سینوں کے احوال میں سے کوئی شیئ، سو اس میں اہل حق و صدق کے لئے تسکین وتسلیہ کا سامان بھی ہے، کہ وہ حق کے لئے جو قربانیاں دے رہے ہیں ان میں سے کچھ بھی اس مالک الملک سے مخفی نہیں، اس لئے وہ اپنی قربانیوں کا صلہ و بدلہ ضرور پائیں گے۔ پس وہ صبر و استقامت ہی سے کام لیں۔ اور دوسری طرف اس میں اہل کفر و باطل کے لئے تہدید و تنبیہ بھی ہے کہ یہ لوگ حق اور اہل حق کے خلاف جو مظالم ڈھا رہے ہیں وہ اللہ سے مخفی نہیں ہیں۔ پس اس کا خمیازہ ان لوگوں کو بہر حال بھگتنا ہو گا، بہر کیف اس آیت کریمہ سے اللہ تعالیٰ کے کمال علم و آگہی کو واضح فرمادیا گیا ہے پس بندے کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اس خداوند قدوس کے ساتھ اپنا معاملہ صحیح رکھے، اپنے ظاہر کے اعتبار سے بھی اور اپنے باطن کے لحاظ سے بھی، کہ بندے کے ظاہر و باطن کے ہر حال کو پوری طرح اور ایک برابر جانتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ، وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید،
۳۹۔۔۔ سو اہل کفر و باطل خود اپنی ہی ہلاکت و تباہی کا سامان کرتے۔ اور اپنی سیاہ بختی میں اضافہ کرتے ہیں، کہ اس طرح یہ لوگ اپنے اس کفر و انکار سے اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب۔ اور اپنے ہولناک خسارے ہی میں اضافہ کرتے ہیں۔ کسی اور کا کوئی نقصان نہیں کرتے، مگر یہ ان کے کفر و انکار کی نحوست اور ان لوگوں کی مت ماری کا نتیجہ ہے کہ یہ اپنے اس نقصان کے شعور ہی سے عاری اور بے خبر ہیں۔ جو کہ خسارے پر خسارہ ہے، سو جس کفر و باطل پر آج یہ لوگ اڑے ہوئے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگڑے گا، بلکہ اس سے یہ اپنی سیاہ بختی کے داغ کو اور پکا کر رہے ہیں، اور اس سے یہ اللہ کے غضب میں اور اضافہ کر رہے ہیں اور یہی چیز ان کی دنیا و آخرت دونوں کی تباہی کا باعث بنیں گی، والعیاذُ باللہ العظیم، پس صحت وسلامتی اور فوز و فلاح کا راستہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ اپنا ربوا وتعلق رکھے، جس کا طریقہ ہے ایمان صحیح، علم صالح اور صدق و اخلاص کو اپنانا، اور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنائے رکھنا، اَللّٰہُمَّ فَخُذْنَا بِنَواصِیْنَا اِلیٰ مَافِیْہِ حُبُّک والرضہ بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الْاحوال، وفی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطن، فی الحیاۃ، یامَنْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلَّ شَیْئٍ،
۴۱۔۔۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ زمین و آسمان کی یہ کائنات جس میں انسان رہتا بستا ہے اس کے اندر اس کے لئے بڑے درسہائے عبرت و بصیرت ہیں، بشرطیکہ یہ لوگ اس میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لیں، اور اس میں صحیح طور پر غور و فکر سے ان کے لئے حق و ہدایت کی راہ بھی روشن ہو جائے گی، اور ان سے غفلت و لا پرواہی کے پردے بھی ہٹ اور چھٹ جائیں گے۔ سو انسان سوچے اور دیکھے کہ یہ کرہ ارضی جس پر یہ رہتا بستا ہے، اور جو آج کی سائنس کے مطابق ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے محو گردش ہے۔ اور اس کے اوپر تنی ہوئی آسمان کی یہ عظیم الشان چھت جو اس قدر استحکام اور مضبوطی سے اس کے سر پر قائم ہے آخر یہ سب کچھ کس کی قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت کا نتیجہ ہے؟ سو وہی ہے اللہ خالق کل، مالک کل، اور قادر مطلق، جس کی قدرت بے پایاں اس کی حکمت بے نہایت اور اس کی رحمت و عنایت بے غایت سے یہ سب کچھ قائم اور محو حرکت و گردش ہے، ورنہ اگر لمحہ بھر کے لئے بھی اس کی توجہ اس سے ہٹ جائے تو یہ سب کچھ تہ و بالا اور نیست ونابود ہو جائے۔ اس وحدہٗ لاشریک کے سوا کسی کے بس میں نہیں کہ وہ پھر اس کو روک اور باقی رکھ سکے۔ نیز یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ وہ اگر باغیوں اور مجرموں کو نہیں پکڑتا تو صرف اس لئے کہ وہ بڑا ہی حلیم و بردبار اور غفور و بخشنہار ہے۔ پس اس کے حلم و کرم سے کسی کو کبھی دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیئے، والعیاذ ُباللہ جل وعلا،
۴۲۔۔۔ سو اس سے انسان کی بے قدری ناشکری اور اس کی بے وفائی کا ایک نمونہ و مظہر سامنے آتا ہے کہ نور حق و ہدایت سے سرفرازی سے قبل یہ لوگ اللہ کے نام کی قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر ان کے پاس کوئی نذیر آ جائے، تو یہ ضرور بالضرور ہر امت سے بڑھ کر راست روہونگے، مگر جب ان کے پاس ایک عظیم الشان نذیر آگیا تو ان کے اندر نفرت اور حق سے دوری ہی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اور ان کی محرومی اور بڑھتی گئی، والعیاذُ باللہ، جل وعلا،
۴۳۔۔۔ سو اس سے ان لوگوں کی محرومی کے سبب اور باعث کو بھی بیان فرما دیا گیا، اور اس کے نتیجے و انجام کو بھی، اور اس بارہ میں اللہ تعالیٰ کی سنت کی تذکیر و یاد دہانی بھی فرما دی گئی۔ سو ان کی محرومی کا سبب اور باعث ان کا استکبار ہے یعنی اپنی بڑائی کا زعم و گھمنڈ، جس کے نتیجے میں انہوں نے قبول حق سے اعراض و انکار برتا۔ اور حق کو اپنانے کے بجائے الٹا یہ اس کے خلاف بری سازشیں کرنے لگے، اور بُری سازشوں کے بارے میں واضح فرما دیا گیا ہے کہ وہ خود سازشی لوگوں ہی پر پڑتی ہیں۔ پس حق کے خلاف سازش دراصل خود اپنے ہی خلاف سازش ہوتی ہے اور ایسے لوگ جو جال دوسروں کے لئے بنتے ہیں اس میں وہ خود ہی پھنستے ہیں، راہ حق کی مخالفت کرنا خود اپنی راہ گم کرنا۔ اور اپنی عاقبت برباد کرنا ہے دوسروں کو تو کوئی ضرر وہ اللہ کے اذن کے بغیر نہیں پہنچا سکتا۔ لیکن اپنی اس حرکت سے وہ اپنے آپ کو بہر حال ہلاکت کے حوالے کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کی یہی سنت گزشتہ قوموں اور امتوں کے بارے میں رہی۔ اور یہی اب ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ سو اس وحدہٗ لاشریک کی جو سنت کل کے ان منکروں کے لئے تھی وہی آج کے ان منکروں کے لئے بھی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی، یہی مطلب ہے فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا کا۔ اور پھر جب اس کی اس سنت کے وقوع کا وقت آ جائے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ تو کسی کی طاقت نہیں کہ وہ اس کو روک سکے۔ یا اس کو ہٹا کر کسی اور پر ڈال دے۔ اور یہی مطلب ہے۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا کا،
۴۵۔۔۔ سو اس سے اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کی اس سنت کے ایک پہلو کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور وہ ہے اس کے امہال و تاجیل کا پہلو۔ جو کہ اس کی رحمت و عنایت اور اس کے حلم و کرم کا آئینہ دار ہے، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے کسب و کمائی پر فورا نہیں پکڑتا۔ ورنہ اگر وہ کہیں ایسا کرنے لگتا تو زمین کی پشت پر کسی جاندار کو بھی زندہ نہ چھوڑتا۔ کیونکہ ایسا کون ہو سکتا ہے جو ہر قسم کے خطاء و قصور سے پاک اور مبرا ہو؟ اور انسان و جن کے علاوہ باقی تمام مخلوق اگرچہ مکلف نہیں، لیکن اس کی تخلیق اور اس کا وجود تو انسان ہی کے بھلے اور فائدے، اور اسی کے تابع کی خدمت اور بہتری کے لئے ہے۔ اور جب انسان کا وجود ہی باقی نہ رہا۔ تو پھر ان دیگر اشیاء کے وجود کی کیا ضرورت؟ خادم کا وجود تو مخدوم ہی کے لئے ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے کسب و کمائی پر فورا نہیں پکڑتا۔ بلکہ وہ ان کو ڈھیل پر ڈھیل دیئے جاتا ہے۔ تاکہ جس نے سنبھلنا ہو سنبھل جائے، اور اس طرح وہ اس کی گرفت و پکڑ اور اس کے عذاب الیم سے بچ جائے، لیکن اس کی یہ ڈھیل بھی لامحدود اور ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتی۔ بلکہ ایک خاص وقت اور مقررہ مدتک ہی کے لئے ہے۔ جب وہ مقررہ وقت آ جائے گا۔ اور جب یہ مہلت اور ڈھیل اپنی انتہاء اور خاتمے کو پہنچ جائے گی تو ان لوگوں نے بہر حال اس کی گرفت میں آکر رہنا ہوتا ہے، اور اپنے آخری انجام کو پہنچ جانا ہوتا ہے، کہ یہ تقاضا ہے اس کے عدل و حکمت کا، اور وہ اپنے بندوں پر پوری طرح نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ اس لئے وہی جانتا ہے کہ کس کو کب تک مہلت دے۔