آیت ۷۱ میں کافروں کو جہنم کی طرف زُمَر کی شکل میں گروہ در گروہ ہنکائے جانے اور آیت ۷۳ میں متقیوں کو زمر کی شکل میں یعنی گروہ در گروہ لے جائے جانے کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سرہ کا نام اَلزُّمَر ہے۔
طاعت و عبادت کو اللہ کے لیے خالص کرنا ہے۔ آیت ۱ تا ۸ میں قرآن کی اس بنیادی تعلیم کو بدلائل پیش کیا گیا ہے کہ دین خالص اللہ ہی کے لیے ہے۔
آیت ۱ تا ۸ میں قرآن کی اس بنیادی تعلیم کو بدلائل پیش کیا گیا ہے کہ دین خالص اللہ ہی کے لیے ہے۔
آیت ۹ تا ۲۰ میں دونوں گروہوں کا فرق واضح کیا گیا ہے۔ ایک وہ جو دینِ خالص کا پیرو اور صرف اللہ کا پرستار ہے اور دوسرا وہ جو غیر اللہ کا پرستار ہے۔
آیت ۲۱ تا ۳۵ میں قرآن کی رہنمائی کو قبول کرنے والوں کی خصوصیات اور ان کی جزاء بیان کی گئی ہے اور اس سے اعراض کرنے والوں کو برے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔
آیت ۳۶ تا ۵۲ میں اس طور سے فہمائش کی گئی ہے کہ توحید ابھر کر سامنے آئے اور ایمان لانے کا ولولہ پیدا ہو۔
آیت ۵۳ تا ۶۳ میں ان بندگانِ خدا کو جو بے راہ روی میں مبتلا ہیں اللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
آیت ۶۴ تا ۷۵ سورہ کے خاتمہ کی آیات ہیں جن میں یہ واضح کرتے ہوئے کہ توحید کا موقف ہی مضبوط موقف ہے۔ قیامت کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے اور منکرین اور متقین کے گروہوں کی شکل میں اپنی اپنی منزل کی طرف الگ الگ روانگی اور ان کے آخری انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
سونے سے پہلے اس سورہ کی تلاوت کرنا:۔ ترمذی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : کانَ النبّیُ صلی اللّٰہ علیہ و سلم لاَ ینامُ حتیَّ یَقْرَاءٗ بنی اسرائیل وَالزُّمَر " نبی صلی اللہ علیہ و سلم سوتے نہ تھے جب تک کہ سورہ بنی اسرائیل اور سورۂ زُمر کی تلاوت نہ کرتے۔ " (ترمذی ابواب فضائل القرآن)
۱۔۔۔۔۔۔۔ اس کتاب کا اتارا جانا اللہ کی طرف سے ہے ۱ *جو غالب اور حکمت والا ہے ۲*۔
۲۔۔۔۔۔۔۔ یہ کتاب ہم نے تمہاری طرف (مقصدِ) حق کے ساتھ اتاری ہے ۳*۔ لہٰذا تم اللہ ہی کی عبادت کرو دین (عاجزی و بندگی) کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ ۴*
۳۔۔۔۔۔۔۔ سنو! خالص دین (بندگی) اللہ ہی کے لیے ہے۔ ۵* اور جن لوگوں نے دوسرے کار ساز بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔ ۶* اللہ یقیناً ان لوگوں کے درمیان اس بات کا فیصلہ کر دے گا جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ ۷* اللہ کسی ایسے شخص کو راہیاب نہیں کرتا جو جھوٹا اور نا شکرا ہو۔ ۸*
۴۔۔۔۔۔۔۔ اگر اللہ بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا چن لیتا۔ وہ پاک ہے (اس سے کہ اس کا بیٹا ہو) ۹*۔ وہ اللہ ایک ہے سب پر مضبوط گرفت رکھنے والا۔ ۱۰*
۵۔۔۔۔۔۔۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو با مقصد پیدا کیا ہے ۱۱*۔ وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے کہ ہر ایک وقت مقرر تک چلا جا رہا ہے ۱۲*۔ سنو! وہ غالب ہے معاف کرنے والا ۱۳*۔
۶۔۔۔۔۔۔۔ اس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا ۱۴*۔ اور اس نے تمہارے لیے مویشیوں کی آٹھ قسمیں (نر و مادہ) پیدا کیں ۱۵*۔ وہ تمہیں تمہارے ماؤں کے پیٹ میں تین تاریکیوں کے درمیان پیدا کرتا ہے ۱۶* ایک خلقت کے بعد دوسری خلقت میں ۱۷*۔ وہی اللہ تمہارا رب ہے۔ اسی کی فرمانروا ئی ہے۔ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ۱۸* پھر تم کو کہاں پھیرا جا رہا ہے ۱۹* ؟
۷۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم ناشکری کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے (تمہارا محتاج نہیں) اور اپنے بندوں کے لیے ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔ اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرتا ہے ۲۰*۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۲۱*۔ پھر تمہاری واپسی تمہارے رب ہی کی طرف ہے وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ ۲۲* وہ دلوں کا حال جانتا ہے ۲۳*۔
۸۔۔۔۔۔۔۔ انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع ہو کر اسے پکارتا ہے ۲۴*۔ پھر جب وہ اسے اپنی نعمت عطا فرماتا ہے تو وہ اس چیز کو بھول جاتا ہے جس کے لیے وہ پہلے پکار رہا تھا ۲۵*۔ اور اللہ کے ہمسر (برابری کے) ٹھہرانے لگتا ہے ۲۶* تاکہ (لوگوں کو) اس کی راہ سے بھٹکا دے ۲۷*۔ (ایسے شخص سے) کہو اپنے کفر سے تھوڑے دن فائدہ اٹھا لے۔ تو یقیناً دوزخ والو ں میں سے ہے۔ ۲۸*
۹۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدہ اور قیام کی حالت میں عبادت میں سرگرم رہتا ہے ۲۹* ، آخرت کا اندیشہ رکھتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہے ۳۰* اور وہ جو کافر ہے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ۳۱* ان سے پوچھو ۳۲ *کیا وہ جو علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے دونوں یکساں ہو سکتے ہیں ۳۳*؟ یاد دہانی تو اہلِ دانش ہی حاصل کرتے ہیں ۳۴*۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔ کہو۔ (اللہ فرماتا ہے) اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو اپنے رب سے ڈرو۔ جو لوگ اس دنیا میں نیک بن کر رہے ان کے لیے نیک بدلہ ہے۔ اور اللہ کی زمین کشادہ ہے ۳۵* صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا ۳۶*۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔ کہو۔ مجھے حکم دیا گیا ہے میں اللہ ہی کی عبادت کروں دین (طاعت و بندگی) کو اس کے لیے خالص کر کے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے مسلم بنوں ۳۷*۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔ کہو اگر میں اپنے رب کی نا فرمانی کروں تو مجھے ایک سخت دن ۳۸* دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔ کہو میں تو اللہ ہی کی عبادت کرتا ہوں دین (خضوع و بندگی) کو اس کے لیے خالص کر کے ۳۹*۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔ تم اس کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو ۴۰*۔ کہو حقیقی خسارہ میں رہنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو خسارہ میں ڈالا۔ سنو یہی کھلا خسارہ ہے ۴۱*۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔ ان کے لیے آگ کی تہیں ہوں گی اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی ۴۲*۔ یہ ہے وہ چیز جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ۴۳*۔ اے میرے بندو! میرا تقویٰ اختیار کرو ۴۴*۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔ اور جن لوگوں نے طاغوت ۴۵* کی عبادت سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کر لیا ان کے لیے خوشخبری ہے ۴۶*۔ تو میرے ان بندوں کو خوشخبری دے دو۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔ جو کلام کو توجہ سے سنتے ہیں اور بہترین معنی کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں ۴۷*۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔ کیا جس پر عذاب کا فرمان لاگو ہو گیا ہو (اسے کوئی بچا سکتا ہے ؟) کیا تم اسے بچا سکتے ہو جو دوزخ میں جانے والا ہو؟ ۴۸*
۲۰۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لیے (ایسی بلند عمارتیں ہوں گی جن میں) بالا خانوں پر بالا خانے بنے ہوئے ہوں گے۔ ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اس کو زمین کے اندر چشموں کی شکل میں جاری کر دیتا ہے پھر اس سے مختلف قسم کی کھیتیاں پیدا کر دیتا ہے۔ پھر وہ سوکھ جاتی ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئی ہیں۔ پھر وہ ان کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے۔ یقیناً اس میں یاد دہانی ہے ۴۹*۔ عقل رکھنے والوں کے لیے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے اور وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہے (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں بھٹک رہا ہو ؟۵۰* تو تباہی ہے ان کے لیے جن کے دل اللہ کے ذکر کی طرف سے سخت ہو گئے ہیں ۵۱*۔ یہ لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے ۵۲*۔ ایک ایسی کتاب جس کی آیتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں ۵۳* اور اس قابل ہیں کہ بار بار دہرائی جائیں ۵۴* اس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۵۵*۔ پھر ان کے بدن اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں ۵۶*۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے ۵۷* ہے جس کے ذریعے وہ راہیاب کرتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اور جس پر اللہ راہ گم کر دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیا وہ شخص جو قیامت کے دن برے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے چہرہ کو سپر بنائے گا ۵۸*۔ (اور وہ شخص جو عذاب سے محفوظ ہو گا دونوں یکساں ہوں گے ؟) اور ظالموں سے کہا جائے گا جو کمائی تم کرتے رہے ہو ۵۹* اس کا مزا چکھو۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔ ان سے پہلے کے لوگ جھٹلا چکے ہیں تو ان پر ایسے رُخ سے عذاب آیا جس کا وہ گمان بھی نہیں کر سکتے تھے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ نے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی رسوائی کا مزا چکھایا ۶۰* اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑا ہے۔ کاش یہ لوگ جانتے !
۲۷۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں بیان کر دی ہیں ۶۱*۔ تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔ عربی قرآن ۶۲* جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ۶۳* تاکہ وہ (عذاب سے) بچیں۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔ اللہ مثال بیان فرماتا ہے ایک شخص (غلام) کی جس کی ملکیت میں نزاع کرنے والے کئی آقا شریک ہیں اور دوسرا شخص جو پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں کا حال یکساں ہو سکتا ہے ؟ ۶۴* اللہ کے لیے حمد ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۶۵*۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔ (اے نبی!) تم کو بھی مرنا ہے اور ان لوگوں کو بھی مرنا ہے ۶۶*۔
(۳۱۔۔۔۔۔۔پھر قیامت کے دن تم لوگ اپنے رب کے حضور اپنا مقدمہ پیش کرو گے ۶۷*۔
۳۲۔۔۔۔۔۔پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ۶۸* اور سچائی ۶۹* جب اس کے پاس آئی تو اسے جھٹلایا۔ کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے ؟
۳۳۔۔۔۔۔۔اور جو سچائی لے کر آیا ۷۰* اور جس نے اس کو سچ مانا ۷۱* ایسے ہی لوگ متقی ہیں ۷۲*۔
۳۴۔۔۔۔۔۔ان کے لیے ان کے رب کے پاس وہ سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے یہ جزا ہے نیکو کاروں کی ۷۳*۔
۳۵۔۔۔۔۔۔تاکہ اللہ دور کر دے ان کے بُرے سے بُرے عمل کو اور جو بہترین اعمال وہ کرتے رہے ان کی انہیں جزا دے۔ ۷۴*
۳۶۔۔۔۔۔۔کیا اللہ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں ہے ؟ یہ لوگ تمہیں ان (معبودوں) سے ڈراتے ہیں جو انہوں نے اس کو چھوڑ کر بنا رکھے ہیں ۷۵* اور جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کو ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ ۷۶*
۳۷۔۔۔۔۔۔اور جس کو اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔ کیا اللہ غالب اور سزا دینے والا نہیں ہے ؟ ۷۷*
۳۸۔۔۔۔۔۔اگر تم ان سے پوچھو آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ کہیں گے اللہ نے کہو پھر تم نے یہ بھی سوچا کہ جن کو تم پوجتے ہو وہ کیا اس تکلیف کو جو اللہ مجھے پہنچانا چاہے دور کر سکتے ہیں ؟ یا اگر وہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں ؟ ۷۸* کہو میرے لیے اللہ کافی ہے اور بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔
۳۹۔۔۔۔۔۔کہو اے میری قوم کے لوگو! تم اپنی جگہ کام کرو میں اپنی جگہ کام کرتا رہوں گا۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔
۴۰۔۔۔۔۔۔کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر کے رکھ دے گا اور وہ عذاب نازل ہوتا ہے جو اس پر قائم رہنے والا ہو گا۔
۴۱۔۔۔۔۔۔اور ہم نے لوگوں کے لیے یہ کتاب تم پر حق کے ساتھ اتاری ہے ۷۹*۔ تو جو ہدایت حاصل کرے گا وہ اپنے ہی لیے کرے گا اور جو گمراہ ہو گا تو اس کی گمراہی کا وبال اسی پر پڑے گا۔ ۸۰* اور (اے پیغمبر!) تم ان پر ذمہ دار نہیں مقرر کئے گئے ہو۔ ۸۱*
۴۲۔۔۔۔۔۔اللہ ہی جانوں (روحوں) کو قبض کرتا ہے ان کی موت کے وقت اور ان (جانوں) کو بھی جن کو موت نہیں آئی نیند کی حالت میں ۸۲*۔ پھر جن کی موت کا فیصلہ وہ کر چکا ہوتا ہے ان کو وہ روک لیتا ہے ۸۳*۔ اور دوسری جانوں (روحوں) کو ایک مقررہ وقت کے لیے واپس بھیج دیتا ہے ۸۴*۔ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ ۸۵*
۴۳۔۔۔۔۔۔کیا انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو (اس کے حضور) سفارشی بنا رکھا ہے کہو کیا وہ اس صورت میں بھی سفارش کریں گے جبکہ وہ نہ کوئی اختیار رکھتے ہوں اور نہ سمجھتے ہوں ؟ ۸۶*
۴۴۔۔۔۔۔۔کہو شفاعت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں ہے ۸۷*۔ آسمانوں اور زمین کی فرمانروائی اللہ ہی کے لیے ہے۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔جب صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔ ۸۸*
۴۶۔۔۔۔۔۔کہو ۸۹* اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ، غائب اور حاضر کے جاننے والے ، تو اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں وہ اختلاف کر رہے ہیں ۹۰*۔
۴۷۔۔۔۔۔۔اور اگر اِن ظالموں کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اسی کے بقدر اور بھی ہو تو یہ قیامت کے دن بُرے عذاب سے بچنے کے لیے سب کچھ فدیہ میں دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے ۹۱*۔ اور اللہ کی طرف سے وہ کچھ ان کے سامنے آئے گا جس کا ان کو گمان بھی نہیں تھا۔
۴۸۔۔۔۔۔۔ان کی کمائی کے بُرے نتائج ان کے سامنے آئیں گے اور جس چیز کا وہ مذاق اڑاتے رہے ہیں وہ ا ن کو گھیر لے گی ۹۲ *۔
۴۹۔۔۔۔۔۔جب انسان کو کوئی دکھ پہنچتا ہے تو ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے نعمت عنایت کرتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے (اپنے) علم کی بنا پر ملی ہے ۹۳*۔ نہیں بلکہ یہ ایک آزمائش ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۹۴*۔
۵۰۔۔۔۔۔۔یہی بات ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی کہی تھی مگر انہوں نے جو کچھ کمایا تھا وہ ان کے کچھ کام نہ آیا ۹۵*۔
۵۱۔۔۔۔۔۔اور اپنی کمائی کے برے نتائج ان کو بھگتنا پڑے۔ اور ان لوگوں میں سے بھی جو ظالم میں وہ اپنی کمائی کے بُرے نتائج سے عنقریب دوچار ہوں گے۔ وہ ہمارے قابو سے نکل جانے والے نہیں ہیں۔
۵۲۔۔۔۔۔۔کیا انہیں نہیں معلوم کہ اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے نپا تلا کر دیتا ہے۔ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ ۹۶*
۵۳۔۔۔۔۔۔(اے نبی!) کہہ دو کہ (اللہ فرماتا ہے) اے میرے بندو ۹۷* جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے ۹۸* اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ اللہ سارے گناہ بخش دے گا۔ ۹۹* وہ بڑا معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۵۴۔۔۔۔۔۔اور رجوع کرو اپنے رب کی طرف اور اس کے فرمانبردار بنو قبل اس کے کہ تم پر عذاب آئے پھر تم کو کوئی مدد مل نہ سکے گی۔ ۱۰۰*
۵۵۔۔۔۔۔۔اور تمہارے رب کی طرف سے جو بہترین چیز تمہاری طرف نازل ہوئی ہے ۱۰۱* اس کی پیروی کرو قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آئے اور تم کو اس کی خبر بھی نہ ہو۔
۵۶۔۔۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کہنے لگے افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں اللہ کے معاملہ میں کرتا رہا اور میں مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔ ۱۰۲*
۵۷۔۔۔۔۔۔یا کہنے لگے اگر اللہ نے مجھے ہدایت دی ہوتی تو میں بھی متقیوں میں سے ہوتا۔ ۱۰۳*
۵۸۔۔۔۔۔۔یا جب عذاب کو دیکھ لے تو کہنے لگے اگر مجھے (دنیا میں) لوٹنے کا ایک اور موقع مل جائے تو میں نیک عمل کرنے والوں میں سے بن جاؤں۔ ۱۰۴*
۵۹۔۔۔۔۔۔کیوں نہیں ، میری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں لیکن تو نے ان کو جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو کافروں میں سے تھا۔ ۱۰۵*
۶۰۔۔۔۔۔۔اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے قیامت کے دن تم دیکھو گے کہ ان کے چہرے سیاہ ہیں۔ ۱۰۶* کیا ان تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم نہیں ہیں ؟ ۱۰۷*
۶۱۔۔۔۔۔۔اور اللہ ان لوگوں کو نجات دے گا ۱۰۸* جو متقی بنے رہے ان کے کامیاب ہونے کی بنا پر۔ ان کو نہ کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ و ہ غمگین ہوں گے۔
۶۲۔۔۔۔۔۔اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور ہر وہ چیز پر نگہبان ہے۔ ۱۰۹*
۶۳۔۔۔۔۔۔آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ۱۱۰* اور جنہوں نے اللہ کی آیتوں ۱۱۱* کا انکار کیا وہی لوگ گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔
۶۴۔۔۔۔۔۔کہو اے جاہلو! کیا تم مجھے اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرنے کا حکم دیتے ہو؟ ۱۱۲*
۶۵۔۔۔۔۔۔حالانکہ تمہاری طرف بھی اور تم سے پہلے گزرے ہوئے (انبیاء) کی طرف بھی یہ وحی بھیجی جاچکی ہے کہ تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا اور تم گھاٹے میں رہو گے۔ ۱۱۳*
۶۶۔۔۔۔۔۔(لہٰذا غیر اللہ کی عبادت نہ کرو) بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے شکر گزار بنو۔ ۱۱۴*
۶۷۔۔۔۔۔۔ان لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ ۱۱۵* قیامت کے دن پوری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ ۱۱۶* پاک اور برتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔ ۱۱۷*
۶۸۔۔۔۔۔۔اور صور پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں سب بیہوش ہو کر گر پڑیں گے سوائے ان کے جن کو اللہ چاہے ۱۱۸* (کہ بے ہوش نہ ہوں) پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تو یکایک لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور دیکھنے لگیں گے۔ ۱۱۹*
۶۹۔۔۔۔۔۔زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی ،۱۲۰* اعمال کا ریکارڈ رکھ دیا جائے گا، ۱۲۱* انبیاء اور گواہ حاضر کر دیئے جائیں گے ۱۲۲* اور لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا ۱۲۳* اور ان کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں کی جائے گی۔
۷۰۔۔۔۔۔۔ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ لوگ جو کچھ کرتے ہیں اس کو وہ خوب جانتا ہے۔
۷۱۔۔۔۔۔۔اور کافروں کی طرف گروہ در گروہ ہنکاتے ہوئے لے جایا جائے گا۔ ۱۲۴* یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دئے جائیں گے ۱۲۵* اور اس کے نگراں ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے جنہوں نے تمہارے رب کی آیتیں تمہیں سنائی ہوں اور تمہارے اس دن کے پیش آنے سے تمہیں ڈرایا ہو؟ ۱۲۶* وہ کہیں گے ضرور آئے تھے لیکن کافروں پر عذاب کا فرمان پورا ہو کر رہا۔ ۱۲۷*
۷۲۔۔۔۔۔۔کہا جائے گا داخل ہو جاؤ جہنم کے دروازوں میں۔ اس میں ہمیشہ رہو گے۔ تو کیا ہی برا ٹھکانہ ہے متکبروں کا ! ۱۲۸*
۷۳۔۔۔۔۔۔اور جو لوگ اللہ سے ڈرتے رہے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا ۱۲۹* یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھول دیئے گئے ہوں گے ۱۳۰* تو اس کے پاسبان ان سے کہیں گے سلام ہو تم پر، اچھے ہو تم، داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ کے لیے۔ ۱۳۱*
۷۴۔۔۔۔۔۔وہ کہیں گے شکر ہے اللہ کا ۱۳۲* جس نے ہمارے حق میں اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنایا ۱۳۳* کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں رہیں ۱۳۴*۔ تو کیا خوب اجر ہے (نیک) عمل کرنے والوں کا! ۱۳۵*
۷۵۔۔۔۔۔۔اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے اپنے رب کی حمد و تسبیح کر رہے ہیں ۱۳۶* اور لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا ۱۳۷* اور کہا جائے گا کہ حمد ہے اللہ رب العالمین کے لیے ۱۳۸*
۱۔۔۔۔۔۔یعنی اس کتاب کا پیغمبر پر نازل کیا جانا اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اس میں کسی کا کوئی دخل نہیں ، نہ شیطان کا اور نہ انسان کا۔ یہ آسمان سے اتاری جا رہی ہے نہ کہ پیغمبر اسے تصنیف کر رہے ہیں۔ یہ قرآن کا بہت بڑا دعویٰ ہے جو اس نے بار بار دہرایا ہے تاکہ اس کتاب کو لوگ عام مذہبی کتابوں میں سے ایک کتاب نہ سمجھ لیں بلکہ یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ یہ اللہ کے حضور سے نازل ہوئی ہے اور اس بنا پر وہ نہایت امتیازی شان کی حامل ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ آج دنیا کی کوئی مذہبی کتاب بجز قرآن کے اپنے کو وثوق کے ساتھ اس حیثیت سے پیش نہیں کرتی کہ اس کا نازل کرنے والا اللہ فرمانروائے کائنات ہے۔
۲۔۔۔۔۔۔اللہ عزیز (غالب) ہے اس لیے اس کا منصوبہ نافذ ہو کر رہتا ہے اور اس کا فرمان پورا ہو کر رہتا ہے۔ اور وہ حکیم ہے اس لیے اس کی کتاب بھی حکیمانہ شان کی ہے جس کا مشاہدہ اس کتاب میں بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔" حق کے ساتھ نازل کی ہے " کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب حق لے کر نازل ہوئی ہے۔ اس کی تعلیم سراسر حق ہے اور باطل کا اس میں ادنیٰ شائبہ بھی نہیں ہے اور نہ کوئی بات بے مقصد کہی گئی ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔" دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے " اس فقرہ میں دین کا لفظ بندگی اور عاجزی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس کی تائید قرآن کی ان متعدد آیات سے ہوتی ہے جن میں مشرکین کے اس طرزِ عمل کا ذکر ہوا ہے کہ جب وہ کسی طوفان وغیرہ سے دوچار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے : واِذاَغشِیہَم موجٌ کالظللِ دَعَوُاللّٰہَ مُخلِصِین لَہٗ الدِّیْنَ (لقمان:۳۲) " اور جب موجیں سائبانوں کی طرح ان پر چھا جاتی ہیں تو وہ اللہ کو پکارتے ہیں دین (عاجزی و بندگی) کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ "
یہاں "الدین" کا مطلب دل کا عجز و نیاز اور بندگی ہی ہو سکتا ہے اور یہ مشرکین کی نفسیات کی عکاسی ہے جو طوفان کی زد میں آنے کی صورت میں ان میں پیدا ہو جایا کرتی تھیں۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ دل کا عجز و نیاز، عقیدت (Devotion) اور شانِ بندگی خالصۃً اسی کے لیے ہو۔ ایسی عبادت نہیں جس میں دل اللہ کے سوا کسی اور کی طرف جھکا ہوا ہو اور عجز و نیاز اور بندگی کا نذرانہ کسی اور کو بھی پیش کر دیا جائے۔ اللہ اسی عبادت کو قبول فرماتا ہے جو خلوص دل سے خضوع اور بندگی کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے کی گئی ہو یعنی اس عاجزی و بندگی میں نہ ریا وغیرہ کی آمیزش ہو اور نہ غیر اللہ کے لیے کوئی حصہ۔
واضح رہے کہ لغت میں دین کے معنی اطاعت کے ہیں لیکن محض لغت پر انحصار کر کے قرآن کی اصطلاحات کا جامع مفہوم متعین نہیں کیا جا سکتا بلکہ ضروری ہے کہ ایسے الفاظ کے سلسلے میں قرآن کے استعمالات کو بھی پیش نظر رکھا جائے اور محلِ کلام کی مناسبت سے مفہوم متعین کیا جائے۔
۵۔۔۔۔۔۔یعنی ایسی بندگی جو ہر قسم کے شرک سے پاک ہو اللہ ہی کے لیے خاص ہے اور وہی اس کا مستحق ہے اور دین (بندگی) کے مفہوم میں جیسا کہ اوپر کے نوٹ میں واضح کیا گیا۔ عاجزی کی وہ کیفیت جو دل میں پیدا ہوتی ہے نیز اپنے بندہ اور غلام ہونے کا احساس شامل ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔مشرکین نے فرشتوں کو اپا کارساز بنایا تھا کہ ان کی پرستش کرو وہ ہمارے کام بنا دیں گے ان کا خیال تھا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے فرشتوں کو وسیلہ بنانا ضروری ہے۔ اور فرشتوں کو وسیلہ بنانے کے لیے وہ ان باتوں کو ان کے حق میں روا رکھتے جو اللہ کے لیے خاص ہیں مثلاً ان سے فریاد کرتے ، اپنی حاجتیں ان سے طلب کرتے ، مصیبت میں انہیں پکارتے ، حالانکہ یہ سب باتیں پرستش میں شامل ہیں اور وہ اس کی توجہ یہ کرتے کہ ہم فرشتوں کی پرستش اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔ یعنی فرشتوں کی پرستش اللہ کے قرب کا ذریعہ اور وسیلہ ہے اس آیات میں ان کی اس پر فریب توجہ کو باطل قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی کی پرستش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ وحدہٗ کی براہِ راست اور پورے اخلاص کے ساتھ پرستش کر کے ہی اس کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔
جو توجیہ مشرکینِ مکہ فرشتوں کی پرستش کے سلسلے میں کرتے تھے وہی توجیہ قبر پرست اولیاء اور پیروں کے معاملہ میں کرتے ہیں کہ ہم ان کی نذر و نیاز اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے وسیلہ سے ہماری رسائی خدا تک ہو۔ اگر وہ قرآن کی ان آیتوں کو بغور پڑھتے تو شیطان کے فریب میں مبتلا نہ ہوتے۔
۷۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن اللہ اپنا فیصلہ نافذ کر دے گا۔
۸۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کے بارے میں جھوٹ بولنے والے اور اس کے نام سے جھوٹی دینداری چلانے والے اور اس کی نعمتوں کو پاکر کسی اور کا شکر کرنے والے اللہ کی ہدایت سے محروم رہتے ہیں جب تک کہ وہ اپنی اس غلط روش کو چھوڑنے کے لیے آمادہ نہ ہو جائیں۔
۹۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں ہونے کا تصور سراسر باطل ہے۔ بفرض محال وہ بیٹا بنانا چاہتا تو اس کی صورت ہی ہو سکتی تھی کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو بیٹے کی حیثیت سے چن لیتا مگر اس صورت میں بیٹا اس کا مملوک اور بندہ ہی رہتا کیونکہ اس کی تمام مخلوق مملوک ہے اور سب اس کے بندے ہیں۔ خدا کا جزء تو وہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ خدا کا نہ کوئی جز ہوتا ہے اور ہ اس سے کوئی چیز خارج ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس جیسا نہیں ہے۔ اللہ نے اپنی مخلوق میں سے بھی کسی کو بیٹے کی حیثیت سے نہیں چنا کیوں کہ کسی کو بیٹے کی حیثیت دینا شانِ خداوندی کے خلاف ہے اور اس سے کمزوری کا اظہار ہوتا ہے اور اللہ ہر قسم کی کمزوریوں اور عیبوں سے پاک ہے۔ اس کی شان اس سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنا لے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔خدا کے اگر اولاد ہوتی تو خدائی بھی منقسم ہو جاتی (بٹ جاتی) مگر خدائی ناقابل انقسام ہے (بٹ نہیں سکتی) وہ اکیلا ہے اور سب پراس کی گرفت مضبوط ہے اس لیے کوئی مخلوق اس کی گرفت سے آزاد نہیں ہو سکتی۔ پھر اس کے لیے اولاد ہونے کا تصور کیا معنی رکھتا ہے !
۱۱۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام نوٹ ۱۲۴ اور سورۂ یونس نوٹ ۱۵۔
۱۲۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ رعد نوٹ ۸۔
۱۳۔۔۔۔۔۔وہ غالب ہے اس لیے اس کی نا فرمانی سے تمہیں ڈرنا چاہیے اور وہ بخشنے والا ہے اس لیے تمہیں اپنے گناہوں پر اس سے معافی مانگنا چاہیے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔اس آیت میں ثُمَّ (پھر) کا مطلب یہ ہے کہ پھر اس کی قدرت کی اس کرشمہ سازی کو بھی دیکھو کہ اس نے اسی ایک جان سے اس کا جوڑا بنایا۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نساء نوٹ ۳ اور سورۂ اعراف نوٹ ۲۹۲۔
۱۵۔۔۔۔۔۔اَنعام (مویشی) سے مراد پالتو چوپائے اونٹ، گائے ، بھیڑ اور بکری ہیں اور ان کے نر و مادہ مل کر آٹھ قسمیں ہوئیں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نساء نوٹ ۲۶۱۔
ان مویشیوں کی تخلیق کیلئے اَنْزلْنَا (ہم نے اتارا) کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کی تخلیق اس طرح ہوئی گویا وہ ایک نعمت ہے جو انسان کے لیے آسمان سے نازل کی گئی ہے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔تین تاریکیوں (اندھیروں) سے مراد تین پردے ہیں۔ پیٹ رحم اور مشیمہ (وہ جھلی جس میں بچہ لپٹا ہوا ہوتا ہے) یہ دلیل ہے اس بات کی کہ انسان کا خالق کھلی اور چھپی ، روشن اور تاریک سب چیزوں کا جاننے والا ہے اور اس کی تخلیق کا کام تاریکیوں میں بھی انجام پاتا ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔یعنی ان تین پردوں کے درمیان جنین (بچہ) کو خلقت کے مختلف مراحل سے گزارتا رہتا ہے اور اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ ابھی ابھی وہ گوشت کا لو تھڑا تھا اور اب اس نے انسانی صورت اختیار کر لی۔
۱۸۔۔۔۔۔۔یہ ساری کارفرمائی جس کا ابھی ابھی ذکر ہوا ہے اللہ ہی کی ہے۔ ان کاموں میں کسی کا کوئی دخل نہیں۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہی تمہارا رب ہے اور وہی پوری کائنات کا فرمانروا ہے۔ اس کے بعد اللہ کے سوا کسی اور کے خدایا معبود ہونے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کا واحد خدا اور معبود ہونا ایک روشن حقیقت ہے جس کا مشاہدہ تم رات دن کرتے ہو پھر کیا چیز ہے جو تمہیں اس حقیقت سے پھیر دیتی ہے ؟ یہ اشارہ ہے شیطان کی طرف جو انسان کو توحید کی راہ سے منحرف کر کے شرک میں پھنسا دیتا ہے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔ناشکری در حقیقت کفر ہے۔ جو شخص اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ لیکن اس کے دل میں اس کے لیے جذبۂ شکر نہیں ابھرتا یا ان نعمتوں کو وہ کسی اور کی دین سمجھ کر اس کے آگے نذر و نیاز پیش کرنے لگتا ہے تو وہ بہت بڑی ناشکری کرتا ہے جو سراسر کفر ہے۔ ناشکری کا رویہ اختیار کر کے انسان اللہ کا کچھ نہیں بگاڑتا بلکہ اپنے لیے ہی محرومی کا سامان کرتا ہے۔ اللہ اس بات کا ہرگز محتاج نہیں ہے کہ بندے اس کا شکر کریں۔ اللہ کو نہ بندوں کے شکر سے فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ان کی ناشکری سے نقصان۔ یہ حقیقت حدیثِ قدسی میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔ :
" اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے سب انس و جن سب سے زیادہ متقی شخص کے برابر ہو جائیں تو اس سے میری سلطنت میں کوئی اضافہ نہ ہو گا۔ اور اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے سب انس و جن سب سے زیادہ فاجر شخص کے برابر ہو جائیں تو اس سے میری سلطنت میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ " (مسلم کتاب البر)
البتہ جو شخص شکر گزاری کا رویہ اختیار کرتا ہے وہ حقیقت پسندی کا ثبوت دیتا ہے اور اللہ کو اپنے بندوں کے حق میں یہی بات پسند ہے اس لیے اس کی رضا ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو شکر گزار ہوں۔ برخلاف اس کے ناشکری اللہ کو سخت نا پسند ہے اور جو ناشکرے ہوتے ہیں ان کو اللہ کی رضا حاصل نہیں ہوتی۔
۲۱۔۔۔۔۔۔یعنی ہر شخص کو اپنے گناہ کا بوجھ اٹھانا ہے۔ کوئی شخص بھی دوسرے کے گناہ اپنے سر نہیں لے گا۔ لہٰذا ہر شخص اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور دوسروں کے کہنے پر گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن ہر شخص کے سامنے اس کے اعمال کا دفتر کھول کر رکھ دیا جائے گا۔
۲۳۔۔۔۔۔۔اللہ کو ہر ہر شخص کے دل کا حال معلوم ہے کہ اللہ کے لیے اس کے دل میں شکر کے جذبات ہیں یا ناشکری کے ، ایمان کا ولولہ ہے یا کفر و معصیت اور محبت ہے یا نفرت۔
۲۴۔۔۔۔۔۔یعنی تکلیف میں دل کی ا نابت (رجوع) کے ساتھ اپنے حقیقی رب کو پکارتا ہے اور دعا کرتا ہے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔یعنی جب اللہ اس کی تکلیف کو دور فرماتا اور اسے راحت عطا کرتا ہے تو وہ بھول جاتا ہے کہ کبھی وہ تکلیف میں مبتلا تھا اور اس کو دور کرنے کے لیے اس نے اپنے رب سے دعا کی تھی۔ یہ ہے اس کی ناشکری کی مثال۔
۲۶۔۔۔۔۔۔اللہ کے ہمسر ٹھہرانے کا مطلب یہ ہے کہ جو معاملہ اللہ ہی کے ساتھ کیا جانا چاہیے وہ معاملہ وہ غیر اللہ کے ساتھ بھی کرنے لگتا ہے مثلاً غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز، قربانی اور پرستش کے دوسرے مراسم۔
۲۷۔۔۔۔۔۔یعنی خود تو بھٹک ہی گیا۔ دوسروں کو بھی بھٹکا رہا ہے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔ایسے شخص کا ٹھکانہ بالآخر دوزخ ہی بننے والا ہے۔
اس آیات کی رو سے ایسے شخص کو جو بت پرستی اور کھلے شرک اور کفر میں مبتلا ہو اور توحید قبول کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو متنبہ کر دینا چاہیے کہ وہ جہنمی ہے تاکہ اس پر حجت پوری طرح قائم ہو جائے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔قانتٌ کے معنی یہاں عبادت میں سرگرم رہنے کے ہیں اور رات کی گھڑیوں میں عبادت الٰہی میں مشغول رہنا ایمان کی اعلیٰ صفت ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ رات میں آدمی زیادہ سے زیادہ جتنی نماز بھی پڑھ لے فضیلت ہی کی بات ہو گی۔ رکعات کی کوئی قید نہیں ہے۔ سورۂ فرقان میں بھی اس صفت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ وَالَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وّ قِیَاماً " جو اپنے رب کے آگے سجدہ و قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ "
۳۰۔۔۔۔۔۔یعنی آخرت میں اللہ کے حضور جوابدہی سے ڈرتا بھی ہے اور اس کی رحمت کی امید بھی رکھتا ہے۔ اس لیے نہ وہ خوش فہمیوں اور آرزوؤں میں جیتا ہے اور نہ مایوسی کا شکار ہوتا ہے بلکہ اعتدال پر اپنے کو قائم رکھتا ہے
۳۱۔۔۔۔۔۔یہ جملہ عربی کے اسلوبِ بلاغت کے مطابق محذوف ہے یعنی الفاظ میں بیان نہیں ہوا ہے اس لیے ہم نے اسے قوسین میں کھول دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اللہ کے دو بندے جن میں سے ایک اس سے لرزاں رہتا ہے کہ رات میں اپنی نیند اور اپنے آرام کو چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں سرگرم ہو جاتا ہے اور اس کی رحمت کا امیدوار ہوتا ہے اور دوسرا وہ شخص جو اللہ سے غافل ہے ،اس کی عبادت کی اس کو کوئی پرواہ نہیں اور وہ اس کی ناشکری کرتا ہے تو کیا دونوں اپنے کردار اور انجام کے لحاظ سے برابر ہو سکتے ہیں ؟ اگر نہیں تو پھر تم اس کی ناشکری کرتے ہوئے کس طرح اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہو کہ کسی نہ کسی کے واسطہ اور وسیلہ سے تمہیں اللہ کا تقرب حاصل ہو جائے گا؟
۳۲۔۔۔۔۔۔یعنی ان منکرین سے پوچھو۔
۳۳۔۔۔۔۔۔علم سے مراد اللہ کی معرفت، مقصدِ زندگی کا شعور، احکامِ الٰہی سے واقفیت اور آخرت کی جزا و سزا سے آگاہی ہے جو شخص یہ علم رکھتا ہے اور جو شخص یہ علم نہیں رکھتا دونوں کس طرح اپنے وصف میں اور اپنے انجام کے اعتبار سے برابر ہو سکتے ہیں ؟ یہ حقیقی اور بنیادی علم جو انسان کی زندگی کے رُخ کو متعین کر دیتا ہے ہر شخص کے لیے اس کا حصول نا گزیر ہے۔ جو لوگ اس علم سے بے پرواہ ہو کر جو مادی علوم بھی حاصل کرتے ہیں جہالت کی تاریکیوں ہی میں رہتے ہیں اور اپنے برے انجام سے بے خبر، ہوتے ہیں۔
۳۴۔۔۔۔۔۔یعنی ان باتوں کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ عقل کو ایک خول میں بند رکھ کر ان حقیقتوں کو نہیں سمجھا جا سکتا۔
۳۵۔۔۔۔۔۔اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر خدائے واحد کی عبادت کرنے اور اس سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارنے میں کفار مزاحم ہو رہے ہیں تو اپنے دین اور ایمان کے تحفظ کے لیے کسی دوسرے علاقہ یا ملک کو ہجرت کر کے جا سکتے ہو۔ اس کی زمین کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہے بلکہ نہایت وسیع ہے۔ اور دین کی خاطر وطن چھوڑا جا سکتا ہے لیکن وطن کی خاطر دین نہیں چھوڑا جا سکتا۔
واضح رہے کہ اس زمانے میں ہجرت کے لیے راہیں کھلی ہوئی تھیں۔ اور اگر موجودہ زمانہ میں تقریباً مسدود ہیں تو حالات میں زبردست فرق بھی واقع ہوا ہے۔ اس زمانے میں عقیدہ و مذہب کی آزادی نہیں تھی۔ قبیلہ و قوم کے مذہب کو چھوڑ دینے کی بنا پر اکثر تشدد کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن موجودہ زمانے میں قانوناً عقیدہ و مذہب کی آزادی حاصل ہے اور تبدیلیِ مذہب کی بنا پر لازماً تشدد کا سامنا کرنا نہیں پڑتا۔ اس لیے ہجرت کی ضرورت کم ہی پیش آتی ہے خاص طور سے سیکولر ریاستوں میں جہاں اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کی بھی آزادی حاصل ہوتی ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔صبر کرنے والوں سے مراد دینِ حق پر ثابت قدم رہنے والے اور راہِ حق کی مصیبتوں اور تکلیفوں کو جھیلنے والے لوگ ہیں۔ اور بے حساب اجر سے مراد بے اندازہ اجر ہے یعنی اتنا بڑا اجر جس کا وہ اندازہ نہیں کر سکتے۔ اردو میں " بے شمار" کے الفاظ اسی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔
یہ ہے صبر کی فضیلت اور قرآن اسی قسم کے اوصاف پیدا کرنے پر زور دیتا ہے اور ان کی بہت بڑی فضیلت بیان کرتا ہے لیکن ضعیف اور موضوع حدیثوں نے چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا اتنا بڑا اجر بیان کر دیا ہے کہ لوگ ان نیکیوں ہی کا اہتمام کرنے لگے اور ان اوصاف کی طرف سے غافل ہو گئے۔ نتیجہ یہ کہ دین کے معاملہ میں وہ توازن برقرار نہیں رہا جو قرآن نے قائم کیا تھا۔ قرآن سے زیادہ ضعیف اور موضوع حدیثوں سے چپک کر رہنے کا یہ زبردست نقصان ہے جو ملت اسلامیہ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔یعنی مجھے حکم ملا ہے کہ کوئی اپنے کو اللہ کے حوالہ کرے یا نہ کرے میں سب سے پہلے اپنے کو اللہ کے حوالہ کروں۔
مسلم یعنی وہ جس نے اللہ کے دین اسلام کو قبول کر کے اپنے کو مکمل طور پر اللہ کے حوالہ کر دیا۔
۳۹۔۔۔۔۔۔آیت ۸ میں اللہ کی مخلصانہ عبادت کا حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا گیا تھا۔ اس آیت میں اس کی تعمیل کا ذکر ہوا ہے۔
۴۰۔۔۔۔۔۔یعنی اگر تم اللہ کی مخلصانہ عبادت نہیں کرنا چاہتے تو پھر جس کی چاہو کرو اور اپنے برے انجام کے لیے تیار رہو۔
۴۱۔۔۔۔۔۔دنیا کے فائدہ وقتی ہیں اور جو لوگ آخرت کو نظر انداز کر کے ان ہی کو حاصل کرنے میں عمریں کھپا دیتے ہیں وہ بہت بڑے خسارہ کا سودا کرتی ہیں۔ یعنی دنیا کے عارضی فائدے کی خاطر آخرت کے جاودانی فائدوں سے محرومی کا۔ مگر ایسے لوگ اس فریب میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ بڑی کامیاب زندگی گزار رہے ہیں اور موت کے بعد انہیں کسی نقصان سے دو چار ہونا نہیں ہے وہ اپنے اہل و عیال کو بھی دنیا پرستی ہی کی راہ دکھاتے ہیں اور بالعموم وہ ان ہی کے پیچھے چلتے ہیں اس لیے قیامت کے دن ان کے ساتھ ان کے اہل و عیال بھی تباہ ہوں گے۔
۴۲۔۔۔۔۔۔آگ کی تہیں اوپر سے بھی ہوں گی اور نیچے سے بھی۔ اس طرح وہ آگ میں بالکل گھرے ہوئے ہوں گے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔یعنی اس انجام سے ڈراتا ہے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔یعنی اس انجام سے دو چار ہونا نہیں چاہیے تو پھر اللہ سے ڈرنے اور اس کی نا فرمانی سے بچنے کی روش اختیار کرو۔
۴۵۔۔۔۔۔۔طاغوت کے معنی امام راغب نے جو قرآنی لغت کے امام ہیں اس طرح بیان کئے ہیں۔
والطاغوت عبارۃ عن کل متعد و کل معبود من دون اللّٰہ۔۔۔۔۔۔۔ سمی الساحر والکاہن و الماردمن الجن و الصارف عن طریق الخیر طاغوتاً۔ " طاغوت سے مراد ہر وہ فرد ہے جو حد سے تجاوز کرنے والا ہو اور ہر وہ معبود ہے جو اللہ کے سوا ہو۔ ۔ ۔ ساحر" کاہن" سرکش جن اور خیر کی راہ سے ہٹانے والے کو طاغوت کہا جاتا ہے۔ " (مفردات راغب ص۳۰۷) مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نحل نوٹ ۵۵
۴۶۔۔۔۔۔۔خوشخبری ان لوگوں کو دی گئی ہے جو اللہ کی طرف رجوع کریں کہ غیر اللہ کی پرستش و بندگی سے انہوں نے اپنے کو بچا لیا ہے۔
۴۷۔۔۔۔۔۔دانشمندی یہ ہے کہ آدمی اللہ کے کلام کو توجہ سے سنے اور اس کا بہترین مفہوم اخذ کر کے اس کی اتباع کرے۔ ہدایت کی راہ ایسے ہی لوگوں پر کھلتی ہے اور ایسے ہی لوگوں کو کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔ بر خلاف اس کے جو لوگ کلام الہی کو توجہ سے نہیں سنتے اور اس کے بہترین مفہوم کو چھوڑ کر اس کو کچھ اور معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بحث میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور غیر دانشمندی کا ثبوت دیتے ہیں جس کا نتیجہ ہدایت سے محرومی ہے۔
اس آیت سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اگر ایک لفظ کے لغت میں کئی معنی ہوں تو سوچنا چاہیے کہ قرآن میں جہاں وہ لفظ استعمال ہوا ہے کس بہترین مفہوم کو ادا کر رہا ہے کیوں کہ اللہ کا کلام اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے اعلیٰ ہی ہو سکتا ہے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔یعنی کافر جس پر اللہ کے عذاب کا فیصلہ لاگو ہو گیا ہو اسے عذاب سے کون بچا سکتا ہے ؟ اللہ کا رسول بھی اسے بچا نہیں سکتا۔ سلامتی اسی میں ہے کہ لوگ عقل سے کام لیں اور اس کلام کی پیروی کریں جو اللہ کا رسول ان کے سامنے پیش کر رہا ہے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔یاد دہانی اس بات کی کہ یہ دنیا سدا بہار نہیں ہے بلکہ اس پر لازماً خزاں آنے والی ہے۔ اس لیے دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی دنیا کی رونق پر اپنی نگاہوں کو نہ جمائے اور اس کی دلفریبیوں پر نہ ریجھے بلکہ آخرت کو مقصود بنا کر دنیا میں ذمہ دارانہ زندگی گزار ے کہ حقیقی اور جاودانی نعمتیں آخرت ہی کی ہیں۔
۵۰۔۔۔۔۔۔سینہ کھول دینے سے مراد مطمئن کر دینا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص کا دل بتوفیقِ الٰہی اسلام پر مطمئن ہو گیا ہو اور وہ اس دین کے بارے میں کسی قسم کا شک ، شبہ اور تنگی محسوس نہ کرتا ہو اسے ہدایت کی روشنی حاصل ہوتی ہے اور وہ اس روشنی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرتا ہے۔ کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کا دل اسلام کے بارے میں تعصب اور عناد کی بنا پر سخت ہو گیا ہو اور وہ اس روشنی سے محروم ہو کر جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہو۔ جو نہ اپنے رب کو پہچانتا ہو اور نہ جسے اپنے مقصدِ زندگی کا شعور ہو اور نہ یہ جانتا ہو کہ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اعمال کے کیا اثرات و نتائج رونما ہونے والی ہیں۔ ان دونوں اشخاص کو اگر ایک دوسرے سے مختلف خصوصیات اور متضاد طرزِ عمل کی بنا پر یکساں قرار نہیں دیا جا سکتا تو پھر دونوں کا انجام یکساں کیسے ہو سکتا ہے ؟
۵۱۔۔۔۔۔۔کفر اور معصیت پر اصرار کے نتیجہ میں دل سخت ہو جاتے ہیں۔ پھر نہ انہیں اللہ کے ذکر سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ان پر کوئی نصیحت اثر انداز ہوتی ہے۔ وہ قبولِ حق کی فطری صلاحیت کھو چکے ہوتے ہیں۔ جس طرح سنگلاخ زمین پر پانی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اسی طرح ان سنگ دل لوگوں پر قرآن کی تذکیر کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔
۵۲۔۔۔۔۔۔قرآن بہترین کلام ہے کیونکہ یہ اپنے اندر لفظی اور معنوی، ظاہری اور باطنی ہر قسم کی خوبیوں کو لئے ہوئے ہے۔ اس میں بہترین اسلوب میں بہترین بات کہی گئی ہے ، اس کا اندازہ اس قدر موثر ہے کہ دل میں رقت پیدا ہو جاتی ہے اس کی تلاوت عزم و یقین میں پختگی پیدا کرتی ہے اور اس کی سلاست اور روانی حفظ کو آسان بنا دیتی ہے۔ اس کلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک مومن اُسے بار بار پڑھتے ہوئے بھی نہیں تھکتا۔
حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے تھے :
فَاِنَّ خَیرَ الْحَدِیثِ کتابُ اللّٰہ " بلا شبہ بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے۔ " (ریاض الصالحین بروایۃ مسلم)
لہٰذا اس کتاب کی تلاوت اور اس کے مطالعہ کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جانا چاہیے اور یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا کی کوئی کتاب اس کے ہم پلہ نہیں ہو سکتی۔
۵۳۔۔۔۔۔۔یعنی یہ کلام اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی کتاب کی شکل میں نازل فرمایا ہے جس کے اجزاء ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور اس کے مضامین میں کمال درجہ کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اس کتاب کا موضوع نہایت وسیع الاطراف ہے۔ اس کے باوجود اس کی باتوں میں کہیں تضاد نہیں ہے اور نہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ سے غیر مربوط ہے۔ اس کو جہاں سے بھی پڑھو کلام کی روح ایک ہی ہو گی اور جمال ہر جگہ نمایاں ہو گا۔
۵۴۔۔۔۔۔۔اس کتاب کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کی آیتیں مثانی ہیں یعنی اس قابل ہیں کہ بار بار دہرائی جائیں۔ ان کو جتنی مرتبہ بھی پڑھا جائے سیری نہیں ہوتی اور شوقِ تلاوت اور بڑھ جاتا ہے۔ نمازوں میں آیتیں بار بار پڑھی جاتی ہیں اور ہر وقت ان کے خوشگوار اثرات قلب و ذہن پر مرتب ہوتے ہیں۔
۵۵۔۔۔۔۔۔اللہ سے ڈرنے والے جب کلامِ الٰہی کی سماعت یا تلاوت کرتے ہیں تو اللہ کی عظمت و جلال کے تصور سے ان پر ایسی ہیبت طاری ہوتی ہے کہ ان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کلام الٰہی کی یہ زبردست تاثیر ہے جو دلوں میں خشیت پیدا کرتی اور اسے پروان چڑھاتی ہے اور یہ خشیت ہی ہے جو انسان کو صالح اور پرہیزگار بناتی ہے۔ خشیت تو قرآن کی مجرد تلاوت سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ جو قرآن کا اعجاز (معجزہ) ہے لیکن رونگٹے کھڑے ہونے کی کیفیت اس صورت میں پیدا ہوتی ہے جب کہ قرآن کو معنی و مفہوم کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ کے عذاب سے قرآن میں ڈرایا گیا ہے اور جہنم میں سزا بھگتنے والوں کا جو حال اس میں بیان کیا گیا ہے وہ یقیناً رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے لیکن جو شخص ان آیتوں کو سمجھ کر نہ پڑھے اس پر یہ کیفیت کس طرح طاری ہو گی؟ غور کیجئے فہم قرآن سے بے اعتنائی کتنے بڑے خیر سے محرومی کی موجب ہے۔
آیت سے یہ بات واضح ہے کہ خشیتِ الٰہی کا اعلیٰ درجہ یہی ہے کہ بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور یہی کیفیت مطلوب ہے۔ رہی وجد کی کیفیت تو یہ سراسر تکلف اور صوفیوں کی اختراع (من گھڑت طریقہ) ہے۔ قرآن اس کے ذکر سے خالی ہے اور سیرتِ رسول بھی۔ صحابۂ کرام جن کو قرآن سے زبردست شغف تھا وہ بھی وجد وغیرہ کی کیفیتوں سے نا آشنا تھے۔ صحابۂ کرام کے قرآن کی تلاوت و سماعت کے بارے میں علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں۔
" وہ نہ چیختے تھے اور نہ تکلف سے کام لے کر کسی مصنوعی کیفیت کا مظاہرہ کرتے تھے بلکہ وہ ثبات، سکون، ادب اور خشیت میں ایسے ممتاز تھے کہ کوئی ان کے مقام کو نہ پہنچ سکا۔ " (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۵۱)
۵۶۔۔۔۔۔۔قرآن میں جہاں اللہ کی عظمت و جلال کا بیان ہے وہاں اس کے غفور اور رحیم ہونے کی صفات بھی بیان ہوئی ہیں۔ اس لیے رونگٹے کھڑے کرنے والی کیفیت سکون میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جب پڑھنے والے کے سامنے اللہ کی جمالی صفات کا ذکر آتا ہے تو اس کا دل پسیج جاتا ہے وہ اللہ سے پر اُمید ہو جاتا ہے اور اس کے جسم پر سکون کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اس سکون و طمانیت کے ساتھ وہ اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتا ہے اور اسے بہ کثرت یاد کرنے لگتا ہے۔ گویا ذکرِ الٰہی سے رغبت قرآن سے تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور بڑھتی ہے۔
۵۷۔۔۔۔۔۔کلامِ الٰہی کی اس تاثیر کو ہدایت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس نے یہ اثر قبول کیا اس پر ہدایت کی راہ کھل گئی۔
۵۸۔۔۔۔۔۔کافر قیامت کے دن عذاب کی زد سے اپنے کو بچانے کے لیے اپنے ہاتھوں کو بیڑیوں میں جکڑا ہوا پاکر اپنے چہرہ کو سپر بنانے کی کوشش کرے گا مگر وہ عذاب کی زد سے بچ نہ سکے گا۔ اس کی اسی بے بسی کا یہاں ذکر ہوا ہے۔
۵۹۔۔۔۔۔۔انسان کا ہر عمل اپنا ایک اثر اور نتیجہ رکھتا ہے اس لیے اعمال کو کسَب (کمائی) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قیامت کے دن ہر شخص محسوس کرے گا کہ جو اچھا یا برا عمل اس نے کیا تھا وہ اس کی اچھی یا بری کمائی تھی جو آج اس کو پوری پوری مل رہی ہے۔
۶۰۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کافروں اور فاسقوں کو دنیا میں بھی سزا دیتا رہتا ہے اس سلسلہ میں بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے جو حساب کتاب کے لیے مقرر ہے کیونکر سزا دی جا سکتی ہے ؟ تو در حقیقت سزا دینے کا معاملہ حساب کتاب پر موقوف نہیں ہے۔ یہ اہتمام تو اس لیے ہے کہ اسے مکمل سزا دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کی حجت اس پر قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ اس پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں کی ہے بلکہ جو کچھ وہ کرتا رہا ہے اسی کا پھل وہ پا رہا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آخرت کی عدالت برپا ہونے سے پہلے وہ مجرموں کو کوئی سزا نہ دے گا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کافر اور مجرم ہیں اس لیے وہ اپنے اس علم کی بنا پر دنیا میں بھی ان کو عذاب کا مزا چکھاتا رہتا ہے جو عذاب کی محض ایک قسط ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کی روحوں کو عالمِ برزخ میں جس کا دوسرا نام قبر ہے عذاب میں مبتلا رکھتا ہے۔ مگر بے بصیرت لوگ قبر کے عذاب کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حساب کتاب سے پہلے عذاب کیسا؟ مگر ان کے اس شبہ کی تردید کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں پر دنیا میں بھی عذاب نازل کرتا رہا ہے اور عذاب کی یہ قسط ان کو حساب کتاب سے پہلے ہی ملتی رہتی ہے۔
۶۱۔۔۔۔۔۔مثالیں بیان کرنے کا مطلب صرف تمثیلیں بیان کرنا نہیں ہے بلکہ وہ واقعات بھی جن میں عبرت کی باتیں بیان ہوئی ہیں مثلاً ان امتوں کا حال جن کے کفر کی وجہ سے ان پر عذاب آیا۔
۶۲۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یوسف نوٹ ۳۔
۶۳۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ کہف نوٹ ۱۔
۶۴۔۔۔۔۔۔یہ مثال ہے مشرک اور مؤحِّد (توحید کو ماننے والے) کی اگر ایک غلام کے مالک متعدد ہوں اور ان کے درمیان نزاع ہو تو اس غلام کا کیا حال ہو گا۔ وہ کس کس کی خدمت انجام دے گا اور کس کس کو خوش کرنے کی کوشش کرے گا؟ بخلاف اس کے اگر ایک غلام کا مالک ایک ہی ہو تو اس کو صرف اسی کی خدمت کرنا ہو گی اور اسی کو اسے خوش کرنا ہو گا۔ جب ان دونوں کا حال یکساں نہیں ہو سکتا تو متعدد خداؤں کا عقیدہ رکھنے والے شخص کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ ہر خدا کی پرستش کرے اور اسے خوش کرنے کی کوشش کرے جو ظاہر ہے سخت پریشانی کا موجب ہے کیونکہ ہر خدا کو خوش نہیں کیا جا سکتا بالخصوص جب کہ ان کا اقتدار متضاد نوعیت کا ہو۔ مثلاً اگر ایک جنگ کی دیوی ہے تو دوسری امن کی دیوی، اگر ایک تباہی لانے والا دیوتا ہے تو دوسرا بناؤ کا سامان کرنے والا، اگر ایک دیوی بیماری لائی ہے تو دوسری سکھ بخشتی ہے۔ اگر ایک بارش کا دیوتا ہے تو دوسرا آگ کا بتائیے آدمی کس کس دیوتا کی پوجا کرے اور کس کس کو خوش کرنے کی کوشش کرے۔ ہندوستان کے مشرکانہ مذہب میں تو ان گنت دیوی دیوتا ہیں۔ اس مذہب کے لوگ جتنے بھی دیوی دیوتاؤں کو پوجیں کچھ نہ کچھ تو باقی رہ ہی جائیں گے۔ وہ نہ سب کی پوجا کر سکتے ہیں اور نہ سب کو خوش کر سکتے ہیں۔ پھر ان کو دلی اطمینان اور سکون کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے ؟
برخلاف اس کے توحید کے ماننے والے کو ایک ہی اللہ کی عبادت کرنا ہے اور اسی کی رضا کا طالب بننا ہے اس لیے وہ ذہنی پریشانی سے بچ جاتا ہے ، اس کو یکسوئی حاصل ہوتی ہے اور دل کا سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
۶۵۔۔۔۔۔۔یعنی تعریف کا مستحق اللہ ہی ہے جو بڑی خوبیوں والا ہے۔ مگر اکثر لوگ اس روشن حقیقت کو بھی نہیں جانتے اور دوسروں میں خدائی کی صفات کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے گن گانے لگتے ہیں۔
۶۶۔۔۔۔۔۔مطلب یہ ہے کہ اگر اس صریح حجت کے بعد بھی یہ لوگ پیغمبر کی دعوت توحید کو قبول نہیں کرتے تو نہ کریں۔ مرنا تو سب کو ہے پھر یہ لوگ مر کر کہاں جائیں گے ؟ انہیں لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہو گا۔
آیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اِنَّکَ مَیّتٌ (تم کو بھی مرنا ہے) جس سے واضح ہوا کہ نبی کی شخصیت بھی موت سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ آپ پر بھی موت وارد ہونے والی تھی اور بعد میں وارد ہوئی اور موت روح کی جسم سے جدائی کا نام ہے اس لیے آپ کے جسم میں روح باقی نہیں رہی۔ البتہ عالمِ برزخ میں آپ کی روح یقیناً زندہ ہے اور زندگی بھی نہایت اعلیٰ و ارفع کیوں کہ جب شہداء کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کے زندہ ہونے کا احساس نہیں ہوتا تو ایک نبی جس کا مرتبہ شہداء سے بہت بلند ہے اس کا عالم برزخ میں زندہ رہنا شبہ سے بالاتر ہے۔ مگر اس زندگی کو دنیوی زندگی پر ہرگز قیاس نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آپ ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔
۶۷۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے د ن ہر فریق اپنا اپنا مقدمہ اللہ کے حضور پیش کرے گا۔ توحید کے ماننے والے مشرکوں اور کافروں کے خلاف مقدمہ پیش کریں گے اور مشرکین اور کفار اپنے دفاع کی ناکام کوشش کریں گے۔
۶۸۔۔۔۔۔۔اللہ کے بارے میں کوئی بات بھی ایسی کہنا جو خلافِ واقعہ ہے اس پر جھوٹ باندھنا ہے خواہ وہ اللہ کی ذات و صفات کے تعلق سے ہو یا اس کے دین کے تعلق سے مثلاً یہ بات کہنا کہ خدا کے بیٹا یا بیٹیاں ہیں یا یہ کہ تمام مذاہب اس کے نزدیک پسندیدہ ہیں یا یہ کہ اس نے اولیاء کو تصرف کے ایسے اختیارات دئے ہیں کہ وہ حاضر و ناظر بھی ہیں اور فریاد رسی بھی کرتے ہیں۔ غرضیکہ اللہ پر جو جھوٹ بھی باندھا جائے زبردست جسارت کی بات ہے اور ایسا شخص حد درجہ غلط کار اور سب سے بڑا ظالم ہے۔
۷۰۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کا پیغمبر جو قرآن لے کر آیا۔
۷۱۔۔۔۔۔۔مراد پیغمبر کے پیرو ہیں جو قرآن اور پیغمبر کو سچا مان کر ان پر ایمان لے آئے۔
۷۲۔۔۔۔۔۔یعنی یہی لوگ در حقیقت اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔
۷۳۔۔۔۔۔۔ایمان" تقویٰ اور حسنِ عمل کے اوصاف جن لوگوں نے اپنے اندر پیدا کر لئے وہ اللہ کے ہاں اس طرح فائزِ المرا (اپنے مقصد میں کامیاب) ہوں گے کہ ان کی تمام آرزوئیں پوری ہوں گے اور وہ جو چاہیں گے وہ انہیں ملے گا۔ کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کے لیے انہیں تکلیف اور رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس لیے ان کی زندگی اطمینان ، سکون، راحت اور مسرت کی زندگی ہو گی۔
۷۴۔۔۔۔۔۔یہ نیکو کاروں (محسنین) کی جزا بیان ہوئی ہے کہ اگر ایسے شخص سے کوئی بہت برا عمل بھی سر زد ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ اس کو مٹا دیگا اور اس کے بہترین اعمال کی قدر کرتے ہوئے بہترین جزا عنایت فرمائے گا۔ یہ بات ایسے شخص کے لیے جو نیکی کی زندگی گزارتا ہو اتفاقاً سر زد ہونے والے گناہوں کی بخشش کے سلسلہ میں امید کا بڑا سہارا ہے۔
واضح رہے کہ یہ وعدہ ان لوگوں سے نہیں ہے جو مسلمان ہو کر فسق و فجور کی زندگی گزارتے ہیں۔ آیت کے الفاظ فاسقوں اور فاجروں پر کسی طرح چسپاں نہیں ہوتے۔
۷۵۔۔۔۔۔۔یعنی انہوں نے جو جھوٹے معبود بنا کر رکھے ہیں وہ ان سے تمہیں ڈراتے ہیں کہ کہیں وہ تمہیں آفت اور مصیبت میں مبتلا نہ کر دیں۔ یہ ان کی محض وہمی باتیں ہیں ورنہ اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں کچھ نہیں ہے کہ وہ کسی کا کچھ بگاڑ سکے نہ بتوں کے اختیار میں اور نہ دیوی دیوتاؤں کے اختیار میں۔
۷۶۔۔۔۔۔۔ہدایت اور گمراہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو قاعدہ مقرر کر رکھا ہے اسی کے مطابق آدمی ہدایت پاتا ہے یا گمراہ ہو جاتا ہے۔ کسی گمراہ شخص کو ہدایت دینا کسی کے بس کی بات نہیں اور نہ کسی ہدایت یافتہ کو گمراہ کرنا کسی کے بس کی بات ہے۔ شیطان گمراہی کی طرف بلا تو سکتا ہے لیکن زبردستی کسی کو گمراہ نہیں کر سکتا۔
۷۷۔۔۔۔۔۔اللہ غالب ہے اس لیے اس کے احکام نافذ ہو کر رہتے ہیں اور وہ سزا دینے والا ہے اس لیے جہاں حق و عدل کا تقاضا ہوتا ہے اس کی سزا کا قانون حرکت میں آتا ہے۔ یہ تنبیہ ہے کافروں اور مشرکوں کو کہ وہ یہ خیال نہ کریں کہ اللہ ان کے کفر، شرک اور بغاوت کی سزا نہیں دے گا۔
۷۸۔۔۔۔۔۔یعنی جب تم مانتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کا خالق اللہ ہی ہے نہ کہ بت یا دیوی اور دیوتا پھر نفع و نقصان پہنچانے والے بھی وہی ہے۔ تم نے جن کو معبود بنا رکھا ہے وہ اس کے ارادہ کو نافذ ہونے سے کس طرح روک سکتے ہیں ؟ پھر جو ذات حقیقت میں نفع و نقصان پہنچانے والی ہے اس کو چھوڑ کر ان کو نفع و نقصان پہنچانے والا سمجھنا کیسی نا معقول بات ہے۔
۷۹۔۔۔۔۔۔یعنی اس کتاب کا اللہ کی طرف سے نازل ہونا بھی بر حق ہے اور اس میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ بھی حق ہی حق ہے اور یہ اس لیے نازل کی گئی ہے تاکہ اس کی افادیت عام ہو اور لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں۔
۸۰۔۔۔۔۔۔قرآن جس راہ کی طرف بلا رہا ہے اس کو جو شخص بھی قبول نہیں کرے گا وہ گمراہ ہے اور اس گمراہی کا خمیازہ اسی کو بھگتنا ہو گا۔
۸۱۔۔۔۔۔۔یعنی تم ان کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہو۔
۸۲۔۔۔۔۔۔موت کی حقیقت تو نفس انسانی کی __ جس کا دوسرا نام روح ہے __جسم سے مکمل جدائی ہے۔ اسی سے ملتی جلتی کیفیت نیند میں بھی ہوتی ہے جب کہ تمیز (شناخت) اور فہم و ادراک کی قوتیں معطل ہو جاتی ہیں۔ اس لیے نیند کی حالت کو بھی موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
وَہُوَا الَّذِیْ یَتَوَفَّاکُمْ بالَّلیْلِ " اور وہی ہے جو رات کے وقت تمہیں وفات دیتا ہے۔ " (انعام: ۶۰)
گویا شعور کا غائب ہو جانا نفسِ انسانی کا غائب ہو جانا ہے یہ کس طرح غائب ہوتا اور کہاں جاتا ہے اس سے ہم بالکل لا علم ہیں البتہ قرآن ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ اللہ اسے قبض کرتا ہے اور بے شعوری کی یہ حالت موت کے مترادف ہے۔
۸۳۔۔۔۔۔۔یعنی نیند کی حالت میں جن کی قضا آتی ہے ان کو پھر شعور کی حالت میں نہیں لایا جاتا اور یہ واقعہ ہے کہ کتنے ہی لوگ نیند کی حالت میں مر جاتے ہیں۔
۸۴۔۔۔۔۔۔یعنی جن کی موت کا فیصلہ نہیں ہو چکا ہوتا ان کا شعور واپس لوٹ آتا ہے اور وہ بیدار ہو جاتے ہیں۔ شعور کی یہ واپسی گویا نفسِ انسانی کی واپسی ہے جو اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔
۸۵۔۔۔۔۔۔نشانیاں اللہ کے کمالِ قدرت کی، نفسِ انسانی پر اس کے اقتدار اور غلبہ کی، اس کے علم اور اس کی رحمت کی نیز اس بات کی کہ زندگی و موت اسی کے ہاتھ میں ہے اور نیند کے بعد بیداری موت کے بعد زندہ ہونے کی واضح مثال بھی ہے اور دلیل بھی۔ لیکن ان نشانیوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو غور و فکر کرنے والے یعنی بیدار مغز ہوتے ہیں۔ رہے بے شعور لوگ تو وہ سوتے ہی رہیں گے۔ ان کو ہوش اس وقت آئے گا جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں گے۔
۸۶۔۔۔۔۔۔مراد بت ہیں جن کی پرستش کی ایک توجیہ ان کے پرستار یہ کرتے ہیں کہ وہ ہماری پرستش سے خوش ہو کر خدا کے حضور ہمارے لیے سفارش کریں گے اور ہمیں مصیبت اور عذاب سے بچا لیں گے اور اگر آخرت برپا ہوئی تو ہمیں پروانۂ نجات دلا کر رہیں گے۔ گویا ان کی پرستش واسطہ اور وسیلہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی نا معقولیت ان پر واضح کرنے کے لیے ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ وہ سفارش کس طرح کریں گے جب کہ نہ ان کو سفارش کا کوئی اختیار ہے اور نہ وہ عقل رکھتے ہیں کہ کسی کی پکار سن سکیں اور اس کے حق میں سفارش کر سکیں۔ یہ مٹی اور پتھر کے بت کیا خاک سفارش کریں گے !
۸۷۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کے عذاب سے نجات دلانا کسی کے اختیار میں نہیں۔ کوئی نہیں جو اس کے حضور کسی کو عذاب سے بچانے کے لیے اس کی اجازت کے بغیر زبان کھول سکے کجا یہ کہ وہ سفارش منوا کر رہے۔
سفارش (شفاعت) کا غلط تصور ہی ہے جو آدمی کو شرک میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہ نجاتِ اخروی کے معاملہ میں بے فکر ہو جاتا ہے۔ قرآن نے جا بجا اس بات کی صراحت کی ہے کہ شفاعت پر تکیہ کئے رہنا صحیح نہیں۔ نجات کا دار و مدار عمل پر ہے۔ شفاعت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں ہو گی اور وہ جن کو اجازت دے گا اور جس وقت دے گا وہ ان کے حق میں شفاعت کر سکیں گے جن کے لیے شفاعت وہ پسند فرمائے گا۔ اور مشرکین کے لیے تو شفاعت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کیوں کہ شرک ناقابل معافی گناہ ہے۔
۸۸۔۔۔۔۔۔یہ ہے شرک کرنے والوں کی ذہنیت۔ اللہ کے ذکر سے انہیں دلچسپی نہیں ہوتی۔ جب اس کی وحدانیت کی بات کی جاتی ہے تو وہ ناگواری محسوس کرنے لگتے ہیں اور جب ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کا نام ان کے سامنے آتا ہے تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔
مسلمانوں میں سے بھی وہ لوگ جنہوں نے انبیاء اور اولیاء کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے یا رسول اللہ! یا غوث! جیسے نعرے لگانا اور سننا بہت پسند کرتے ہیں لیکن توحید کی باتیں کہ الہ کے سوا نہ کوئی حاضر و ناظر ہے اور نہ غوث (یعنی فریاد کو پہنچنے والا) سننا تک گوارا نہیں کرتے۔
۸۹۔۔۔۔۔۔خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اور آپ کے واسطہ سے اہلِ ایمان سے ہے۔
۹۰۔۔۔۔۔۔یہ دعائیہ انداز میں اللہ پر توکل کا اظہار ہے۔
۹۱۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مائدہ نوٹ ۱۲۴۔
۹۳۔۔۔۔۔۔یعنی اپنی قابلیت اور ہنر وغیرہ کی وجہ سے حالانکہ اسے کہنا چاہیے تھا کہ یہ نعمت مجھے اللہ کے فضل اور اس کے احسان کی وجہ سے ملی ہے مگر وہ اپنی قابلیت کے زعم میں اپنے محسن کو بھول جاتا ہے۔ اگر قابلیت کی بنیاد پر آدمی کے لیے دنیوی نعمتیں حاصل کرنا ممکن ہوتا تو کتنے ہی قابل لوگ محروم نہ رہ جاتے اور کتنے ہی ایسے لوگ جو علم اور قابلیت نہیں رکھتے دنیوی مال و متاع کی فراوانی سے بہرہ مند نہ ہوتے۔
۹۴۔۔۔۔۔۔یعنی بہت سے لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ نعمتیں اللہ ہی کے عطا کرنے سے حاصل ہوتی ہیں اور اس لیے عطاء کی جاتی ہیں تاکہ وہ وجہ آزمائش بنیں کہ ان کو پا لینے کے بعد آدمی اللہ کا احسان مانتا ہے یا نہیں اور اس کا شکر ادا کرتا ہے یا نہیں۔
۹۵۔۔۔۔۔۔یعنی گزری ہوئی قومیں بھی مال و دولت کی فراوانی اور اپنی مادی ترقی کو اپنے ہنر اور سائنس کا نتیجہ قرار دیتی اور ان پر اتراتی رہیں ہیں لیکن جب ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب آیا تو یہ چیزیں ان کے کچھ بھی کام نہ آ سکیں۔
۹۶۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ روم نوٹ ۶۶۔
۹۷۔۔۔۔۔۔" اے میرے بندو" سے مراد اللہ کے بندے ہیں نہ کہ رسول کے اور یہ بات نفسِ مضمون سے بھی واضح ہے اور قرآن کے دوسرے بہت سے مقامات سے بھی جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یا عبادی کہہ کر خطاب کیا ہے نیز اس لیے بھی کہ اسلام کا بنیادی عقیدہ یہی ہے کہ تمام انسان اللہ ہی کے بندے ہیں کسی اور کے نہیں۔ پھر اس آیت میں رسول کے بندے مراد لینے کا کیا تک ہے ؟ مگر بدعتی تفسیر میں ایسی بے تکی باتیں بھی بیان ہوئی ہیں اور بڑی جسارت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ تمام مسلمان حضور کے بندے ہیں جب کہ عربی کی مستند تفاسیر میں سے کسی میں بھی یہ معنی بیان نہیں ہوئے ہیں۔
اصل میں قرآن کا اسلوب ایجاز (اختصار) کا ہے۔ اس لیے وہ ان الفاظ کو حذف کر دیتا ہے جن پر مضمون دلالت کرتا ہے مگر جو لوگ اپنی بدعتوں کو قرآن سے ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ الفاظ میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ان کو صدف سے مطلب ہوتا ہے گہر سے نہیں۔
اللہ کے ارشاد کا مطلب بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے گنہگار بندوں سے کہ دو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔
۹۹۔۔۔۔۔۔یہ گنہگاروں کے لیے نہایت امید افزا پیام ہے۔ گناہ خواہ کیسے ہی بڑے بڑے سر زد ہوئے ہوں۔ اللہ کی رحمت سے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور اصلاح کا موقع باقی ہے۔ اگر توبہ کر کے اپنا طرزِ عمل درست کر لو تو اللہ تمہارے وہ سارے گناہ جو تم سے سر زد ہو چکے ہیں معاف کر دے گا لہٰذا اپنی روش بدلو اور اللہ کی رحمت و مغفرت کے مستحق بنو۔
آیت کا یہ مفہوم بعد والی آیتوں سے بھی مطابقت رکھتا ہے جن میں اللہ کی طرف رجوع کرنے ، اس کا فرمانبردار بننے اور قرآن کی اتباع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور ایسا نہ کرنے پر عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ اس لیے اس سیاقِ کلام Context میں آیت کا یہ مطلب ہو ہی نہیں سکتا کہ جتنے چاہو گناہ کرتے رہو اللہ تعالیٰ سب کو بخش دیگا۔ آیت کا منشاء گنہگار کو گناہ کا لائسنس دینا نہیں بلکہ ان کو توبہ اور اصلاح کی طرف راغب کرنا ہے خاص طور سے مشرکین اور کفار کو جن کی زندگیاں گناہوں سے آلودہ رہی ہیں۔
علامہ ابن کثیر نے اس پر اچھی روشنی ڈالی ہے۔
" یہ آیتِ کریمہ کافروں اور دیگر تمام گناہگاروں کو توبہ و انابت کی دعوت دیتی ہے اور خبر دیتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کے تمام گناہ معاف کر دے گاجو گناہوں سے توبہ کریں گے اور ان سے باز آئیں گے خواہ وہ کیسے ہی ہوں اور سمندر کے جھاگ سے بھی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ لیکن اس آیت کو توبہ نہ کرنے والوں پر محمول کرنا صحیح نہ ہو گا۔ کیونکہ شرک بغیر توبہ کے بخشا نہیں جائے گا۔ " (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص۵۸)
۱۰۰۔۔۔۔۔۔آیت کے مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے اولین مخاطب مشرکین اور کفار ہیں۔ انہیں توبہ کر کے اسلام قبول کرنے (اللہ کا فرمانبردار بننے) کی دعوت دی گئی ہے۔
۱۰۲۔۔۔۔۔۔یعنی اگر تم نے قرآن کی اتباع نہیں کی تو قیامت کے دن پچھتانا پڑے گا۔ اللہ کے معاملہ میں جس نے بھی کوتاہی کی ہو گی یعنی اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا ہو گا وہ اس پر افسوس کرے گا اور اس وقت اسے احساس ہو گا کہ قرآن اور اسلام کو مذاق بنا لینا کتنی زبردست غلطی تھی۔
۱۰۳۔۔۔۔۔۔اللہ نے قرآن کے ذریعے تمام انسانوں کی ہدایت کا سامان کر دیا ہے تاکہ قیامت کے دن کوئی شخص یہ نہ کہے کہ اگر اللہ نے مجھے ہدایت دی ہوتی تو میں متقی بن گیا ہوتا۔
۱۰۴۔۔۔۔۔۔یعنی عذاب کو دیکھ لینے کے بعد امتحان کا موقع باقی نہیں رہے گا اور دنیا میں لوٹائے جانے کی تمنا ہرگز پوری نہیں ہو سکے گی لہٰذا چاہیے کہ ہر شخص اللہ کے تعلق سے اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور حق کو قبول کرنے اور اس کی پیروی کرنے میں پس و پیش نہ کرے۔
۱۰۵۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن ان پچھتانے والوں سے کہا جائے گا کہ تم نے ہدایت حاصل کیوں نہیں کی اور نیک کیوں نہیں بنے جب کہ میری آیتیں (احکام) تمہارے پاس پہنچ چکی تھیں ؟ ان کو قبول کرنے میں کیا عذر مانع تھا؟ تم نے تو ان کو جھٹلا دیا تھا اور گھمنڈ کرتے رہے اور اخیر وقت تک انکار (کفر) پر بہ ضد رہے لہٰذا تم اپنے کئے کے ذمہ دار ہو اور اب تمہیں عذاب ہی بھگتنا ہو گا۔
۱۰۶۔۔۔۔۔۔جھوٹ اور پھر وہ اللہ پر بولا جائے چہرہ کی رونق کو ختم کر دیتا ہے اور قیامت کے دن تو اس گناہ کی سیاہی چہرہ کو بالکل سیاہ کر کے رکھ دے گی۔
۱۰۷۔۔۔۔۔۔یعنی جو لوگ اللہ کی بات ماننے کے بجائے اپنی بات پر مصر رہتے ہیں وہ تکبر اور گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں اور جو لوگ اللہ کے مقابل میں تکبر (بڑائی) کریں ان کا ٹھکانہ بجا طور پر جہنم ہی میں ہو سکتا ہے کیونکہ عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ سے بغاوت و سرکشی کی سزا جہنم ہو۔
۱۰۸۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن عذاب سے بچا لے گا۔
۱۰۹۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ نے کائنات کو پیدا کر کے یونہی چھوڑ نہیں دیا ہے بلکہ وہ ایک ایک چیز کی نگہبانی کر رہا ہے ایک ایک شخص پر وہ نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
۱۱۰۔۔۔۔۔۔یعنی وہی آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اور متصرف (اپنے اختیارات استعمال کرنے والا) ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جس کا ان خزانوں پر اختیار ہو کہ کسی کو کچھ دلا سکے۔ نہ بت، نہ دیو اور نہ ولی۔
۱۱۱۔۔۔۔۔۔آیتوں سے مراد توحید کی نشانیاں بھی ہیں ، اللہ کے احکام بھی اور قرآن کی آیتیں بھی۔
۱۱۲۔۔۔۔۔۔یہ سخت جواب ہے ان جاہلوں کو جو توحید کے دلائل واضح ہو جانے کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اصرار کر رہے تھے کہ آپ بھی ان کے بتوں کی پوجا کریں۔ ایسے نادانوں پر کلام نرم و نازک بے اثر ہوتا ہے اس لیے حکمتِ دعوت کا تقاضا ہے کہ انہیں سخت تنبیہ کی جائے اور جاہل کہہ کر انہیں خطاب کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ ممکن ہے وہ چونک جائیں۔
۱۱۳۔۔۔۔۔۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب ہے کہ ہم نے تم پر بھی یہ وحی بھیجی ہے اور تم سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں ان پر بھی یہ وحی بھیجی تھی کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے تمام اعمال اکارت جائیں گے اور تم تباہ ہو کر رہ جاؤ گے۔ ہر نبی کو شرک سے بچنے کی اس سختی کے ساتھ جو تاکید کی گئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ شرک ایسا سنگین گناہ ہے کہ اس معاملہ میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک نبی سے بھی شرک کے سر زد ہونے کا احتمال ہوتا ہے بلکہ یہ بات اس لیے ارشاد ہوتی ہے تاکہ شرک کی سزا کے معاملہ میں اللہ کے قانون کا بے لاگ ہونا واضح ہو جائے۔
۱۱۴۔۔۔۔۔۔واضح ہوا کہ اللہ کا شکر گزار وہی ہو سکتا ہے جو صرف اس کی عبادت کرے۔ بت پرست اور مشرک اللہ کا شکر گزار ہرگز نہیں ہو سکتا۔
۱۱۵۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کی عظمت کا صحیح تصور وہ نہ کر سکے اور اس کے مرتبہ کو وہ جان نہ سکے۔
۱۱۶۔۔۔۔۔۔اس سے اللہ کی عظمت کا تصور قائم ہوتا ہے۔ قیامت کے دن زمین کا اس کی مٹھی میں ہونا اور آسمانوں کا اس کے ہاتھ میں لپٹا ہوا ہونا اس کے کمالِ قدرت اور کمالِ تصرف کا مظہر ہو گا۔ قیامت کے دن جب لوگ اس کا مشاہدہ کریں گے تو انہیں اللہ کی عظمت کا صحیح اندازہ ہو گا۔ یہاں یہ بحث فضول ہے کہ اللہ کی مٹھی اور ہاتھ سے مراد کیا ہے۔ تاویل کے چکر میں پڑے بغیر مدعا کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے اور مدعا بالکل واضح ہے۔ جہاں تک سلف کا تعلق ہے وہ کہتے تھے کہ اس کلام کا منشا لوگوں کو اللہ کی عظمت اور اس کے جلال سے آگاہ کرنا ہے لیکن وہ اللہ کی مٹھی اور ہاتھ کو مجاز پر محمول نہیں کرتے تھے ساتھ ہی اللہ کو جسم اور اعضاء سے منزہ (پاک) قرار دیتے تھے۔ (دیکھئے تفسیر روح المعانی جزء ۲۴ ص ۲۶) در حقیقت اللہ کی صفات کے معاملہ میں عقیدہ کا مسئلہ بڑا ہی نازک ہے اور بعد والوں نے کلامی (فلسفیانہ) بحثوں میں پڑ کر مسئلہ کو بہت الجھا دیا ہے اس لیے سلامتی کی راہ یہی ہے کہ آدمی سلف کے طریقہ کو اختیار کرے۔ اور اللہ کے لیے مٹھی ، ہاتھ وغیرہ کے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کی کوئی تاویل نہ کرتے ہوئے کلام کے اصل مدعا کو سمجھنے کی کوشش کرے۔
آیت کے مدعا کو صحیح مسلم کی حدیث مزید واضح کرتی ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن اس آیت کو منبر پر پڑھا۔ آپ اپنی انگلیوں کو بند کرتے اور کھولتے ہوئے فرما رہے تھے : اللہ آسمانوں اور زمین کو اپنے دونوں ہاتھ میں لے گا اور فرمائے گا میں ہوں اللہ، میں ہوں بادشاہ، عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ منبر نیچے سے ہل رہا ہے یہاں تک کہ مجھے اندیشہ محسوس ہوا کہ کہیں منبر آپ کے ساتھ گر نہ پڑے (مسلم کتاب صفات المنافقین)
۱۱۷۔۔۔۔۔۔جب زمین و آسمان اللہ کے دستِ قدرت میں ہیں تو پھر کسی اور خدا کا وجود کہاں رہا؟
۱۱۸۔۔۔۔۔۔قیامت کا پہلا صور جب پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان کی تمام ذی عقل اور ذی روح مخلوق پر سخت دہشت طاری ہو گی (جیسا کہ سورۂ نمل آیت ۸۷ میں بیان ہوا ہے) اور پھر سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے اور جو انسان زمین پر ہوں گے وہ سب مر جائیں گے۔ قیامت کی بے ہوشی سے وہی فرشتے اور روحیں مستثنیٰ ہوں گی جن کو اللہ کی مشیت مستثنیٰ قرار دینے کی متقاضی ہو گی۔ اور اس کا علم اللہ ہی کو ہے کہ وہ کن افراد کو مستثنیٰ قرار دے گا۔
۱۱۹۔۔۔۔۔۔دوسرے صور کے تعلق سے انسان کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ جب وہ پھونکا جائے گا تو تمام انسان فوراً زندہ ہو کر قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور حیرت سے دیکھنے لگیں گے کہ یہ ہم کس عالم میں پہنچ گئے ہیں۔
۱۲۰۔۔۔۔۔۔سورج کی بساط تو پہلے ہی لپیٹی جاچکی ہو گی اس لیے میدانِ حشر میں نئی روشنی کا انتظام ہو گا اور وہ یہ کہ اللہ کے نور سے زمین جگمگا اٹھے گی۔ اس نور کی نسبت اللہ کی طرف کس معنی میں ہے اس کا تعین کرنا ہمارے لیے مشکل ہے کیونکہ یہ محض قیاسی بات ہو گی جس سے احتراز ضروری ہے۔ البتہ یہ بات بخوبی واضح ہے کہ جب زمین اس روشنی سے جگمگا اٹھے گی تو ہر چیز اپنی اصل حالت میں دکھائی دے گی۔ کوئی چیز بھی ڈھکی چھپی اور غیر مرئی (جو نہ دیکھی جا سکے) نہیں رہے گی۔ انسان کی نگاہ بھی بہت تیز ہو گی اور جو حقیقتیں اس کی نگاہوں سے اوجھل رہی ہیں ان کا وہ عینی مشاہدہ بھی کر لے گا۔
۱۲۱۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کی عدالت برپا ہو گی تمام انسانوں کے اعمال کا ریکارڈ جو دنیا میں فرشتے تیا ر کرتے رہے ہیں سامنے رکھ دیا جائے گا۔
۱۲۲۔۔۔۔۔۔انبیاء عدالتِ الٰہی میں حاضر ہو کر گواہی دیں گے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچایا تھا اور انہوں نے یہ اور یہ جواب دیا۔ دوسرے گواہوں سے مراد انبیاء علیہم السلام کے سچے پیرو ہیں جنہوں نے لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دی تھی وہ بھی گواہی دیں گے کہ انہوں نے لوگوں تک دعوت پہنچائی تھی۔
۱۲۳۔۔۔۔۔۔یعنی اعمال کے ریکارڈ اور گواہوں کے بیان کے بعد ہر ہر فرد کے بارے میں فیصلہ چکا دیا جائے گا اور یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ حق و عدل کے ساتھ فرمائے گا۔
۱۲۴۔۔۔۔۔۔یہ سورہ کی اختتامی آیات ہیں جن میں اس وقت کا مشاہدہ کرا دیا گیا ہے جب عدالتِ الٰہی فیصلہ سنا چکی ہو گی اور کافروں کو جہنم کی طرف اور متقیوں کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ قرآن نے قیامت کے اس واقعہ کی اس طرح عکاسی کی ہے کہ گویا جہنم اور جنت اس دنیا ہی میں بے نقاب ہو کر سامنے آ گئے ہیں۔ اس سے یقین کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ منطقی استدلال سے نہیں ہو سکتی۔
سورہ کے آغاز اور اس کے مرکزی مضمون کے پیش نظر یہاں کافروں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے توحید کو قبول کرنے اور اللہ کی مخلصانہ عبادت کرنے سے انکار کیا، قرآن اور اس کے پیغمبر کو جھٹلاتے رہے ، آخرت کے انجام کی کوئی پرواہ نہیں کی اور شرک، بت پرستی اور بد عقیدگی میں مبتلا رہے۔
۱۲۵۔۔۔۔۔۔جہنم قید خانہ ہے جس کے دروازے مجرموں کے وہاں پہنچنے پر کھول دئے جائیں گے۔
۱۲۶۔۔۔۔۔۔یعنی جہنم کے دروازوں پر جو فرشتے مامور ہوں گے وہ ان مجرمین سے کہیں گے کہ کیا اللہ کی حجت اس کے رسولوں کے ذریعہ تمہارے پاس پہنچی نہ تھی اور کیا تمہیں اس دن کی پیشی سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا؟ پھر تم کیوں کافر بنے رہے ؟
۱۲۷۔۔۔۔۔۔وہ اعتراف کریں گے کہ اللہ کے رسولوں کے ذریعہ ہم پر حجت قائم ہوئی تھی لیکن عذاب ہمارے لیے مقدر تھا اس لیے ہم حق کا انکار کرتے رہے۔ وہ اپنے جرم کی کوئی توجیہ نہ کر سکیں گے۔ اس لیے اپنی قسمت ہی کو روئیں گے۔
۱۲۸۔۔۔۔۔۔اللہ کے مقابل میں تکبر کرنے والوں کی سزا جہنم ہے اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے۔ اتنی کڑی سزا کو سن کر بھی جو لوگ ٹس سے مس نہ ہوں وہ عذاب کو دیکھ کر ہی ہوش میں آ سکتے ہیں۔
۱۲۹۔۔۔۔۔۔کافروں اور متکبروں کے مقابلہ میں متقیوں کا انجام بیان ہوا ہے۔ واضح ہوا کہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کا رویہ تکبر کرنے والوں کے رویہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ گناہ کے ہر کام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ تکبر کرنے والے گناہ کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔
متقیوں کو کامیابی کا فیصلہ جب سنایا جائے گا تو انہیں فرشتے جنت کی طرف لے چلیں گے۔ ان کی یہ روانگی نہایت شاندار طریقہ پر گروہوں کی شکل میں ہو گی۔ گویا متقیوں کے جلوس فرشتوں کے جِلو میں پوری شان و شوکت کے ساتھ ابدی کامیابی کی منزل کی طرف روانہ ہوں گے۔ کتنا دل خوش کن منظر ہو گا وہ!
۱۳۰۔۔۔۔۔۔یعنی جنت کے دروازے ان کے استقبال کے لیے پہلے ہی سے کھول دیئے گئے ہوں گے گویا جنت ان کی منتظر ہو گی۔
۱۳۱۔۔۔۔۔۔جنت کے پاسبان ان گروہوں کا بڑا پر تپاک استقبال کریں گے۔ ان کا خیر مقدم وہ سلام سے کریں گے اور ان کی پاکیزگی اور اچھائی کا ذکر کر کے ان کی قدر افزائی کریں گے۔ وہ انہیں جنت میں داخل ہونے کے لیے کہیں گے اس خوشخبری کے ساتھ کہ یہاں تم ہمیشہ رہو گے۔
۱۳۲۔۔۔۔۔۔جنت میں داخل ہونے والوں کی شان یہ بھی ہو گی کہ وہ اس میں داخل ہوتے ہی اللہ کا شکر ادا کریں گے اور ان کی زبان پر اللہ کے لیے حمد کے کلمات ہوں گے۔
۱۳۳۔۔۔۔۔۔زمین سے مراد جنت کی زمین ہے اور اس کا وارث بنانے کا مطلب اس کا مالک بنا دینا ہے۔
۱۳۴۔۔۔۔۔۔یعنی جنت نہایت وسیع ہو گی اس لیے اپنے محل سے باہر سیر و تفریح کرنے اور قیام کرنے کے پورے مواقع حاصل ہوں گے۔
۱۳۵۔۔۔۔۔۔جنت کے بارے میں بہ کثرت لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ مفت میں ملے گی لیکن یہ آیت اس اصولی حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ جنت نیک عمل کرنے والوں کو اجر کے طور پر دی جائے گی۔
۱۳۶۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن تم بہ سر چشم دیکھو گے کہ فرشتے اللہ کی عبادت میں سرگرم ہیں۔ وہ عرشِ الٰہی کے گرد حلقہ بنا کر اجتماعی طور پر اللہ کی تسبیح کرنے اور اس کے گن گانے میں مشغول ہیں۔ اللہ کی عظمت اور اس کی شان کو ظاہر کرنے والا یہ منظر کتنا روح پرور ہو گا!
۱۳۷۔۔۔۔۔۔یعنی تمام انسانوں کے درمیان ان کے انجام کے تعلق سے فیصلہ چکا دیا گیا ہو گا اور یہ فیصلہ حق و عدل کی بنیاد پر کر دیا گیا ہو گا جو شخص اپنے عمل کے اعتبار سے جس چیز کا مستحق ہو گا۔ وہی چیز اس کو بدلہ میں دی جائے گی۔ نا انصافی کسی کے ساتھ بھی نہیں ہو گی۔
۱۳۸۔۔۔۔۔۔یعنی تمام لوگوں کو فیصلہ چکا دینے کے بعد صدا اٹھے گی کہ اللہ رب العالمین کے لیے حمد ہی حمد ہے۔ کیونکہ حمد کا حقیقتاً مستحق اللہ ہی ہے اور اس لیے بھی کہ اس نے اپنی عدالت برپا کر کے جو فیصلے چکا دیئے وہ کمال درجہ عدل پر مبنی تھے نیز اس لیے بھی کہ اس موقع پر اس کے عدل کی صفت ہی ظاہر نہیں ہوئی بلکہ اس کی یہ شان بھی ظاہر ہوئی کہ وہ کمال درجہ کی خوبیوں سے متصف ہے۔