آیت ۲۱ میں قوم عاد کے مسکن الاحقاف کا ذکر ہوا ہے جو یمن کے قریب ایک ریگستانی علاقہ ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام " الاحقاف" ہے۔
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔ بعض مفسرین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ یہ سورہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سفر طائف سے واپسی پر نازل ہوئی تھی مگر طائف میں آپ کی دعوت کا جس طرح مذاق اڑایا گیا تھا اور جو شدید تکلیفیں آپ کو پہنچائی گئیں ان کی طرف اس سورہ میں کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ رہا نخلہ کے مقام پر جنوں کے قرآن سننے کا واقعہ تو اس سلسلہ میں آیت ۲۹ کے ذیل میں وضاحت کر دی جائے گی انشاء اللہ۔
اس بات سے خبردار کرنا ہے کہ توحید، آخرت اور رسالت کا انکار در حقیقت اس مقصدِ حق کا انکار ہے جس کے لیے اس کائنات کی تخلیق ہوئی ہے۔
آیت ۱ تا ۱۲ میں قرآن کے کلامِ الوہی ہونے کے دعوے کو پیش کرتے ہوئے شرک کی نا معقولیت واضح کی گئی ہے اور رسالت کے سلسلہ میں شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے۔
آیت ۱۳ تا ۱۶ میں اہل ایمان کے لیے تسلی اور خوشخبری ہے۔
آیت ۱۷ تا ۲۰ میں کافروں کو انجامِ بد سے خبردار کر دیا گیا ہے۔
آیت ۲۱ تا ۲۸ میں قومِ عاد کے انجام سے عبرت دلائی گئی ہے۔
آیت ۲۹ تا ۳۲ میں جنوں کے قرآن سننے اور اس سے متاثر ہو کر ایمان لانے کا ذکر ہوا ہے۔
آیت ۳۳ اور ۳۴ میں زندگی بعد موت کے سلسلہ میں شہ کا ازالہ بھی ہے اور جہنم کے عذاب سے خبردار بھی کر دیا گیا ہے۔
آیت ۲۵ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو صبر کی تلقین اور تسلی ہے۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔ ۲*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی چیزوں کو (مقصدِ) حق کے ساتھ ۳* اور ایک معین مدت کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ ۴* مگر یہ کافر اس چیز سے ۵* رخ پھیرے ہوئے ہیں جس سے انہیں خبردار کیا گیا ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو تم نے ان پر غور کیا جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو؟ بتاؤ زمین کی کون سی چیز انہوں نے پیدا کی ہے یا آسمانوں کی تخلیق میں ان کا کیسا حصہ ہے ؟ اس سے پہلے کی کوئی کتاب یا کوئی علمی ثبوت (جو اس کی تائید میں ہو) میرے پاس لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ ۶*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو سکتے ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو قیامت تک ان کو جو اب نہیں دے سکتے اور وہ ان کی پکار سے بے خبر ہیں۔ ۷*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب تمام لوگ جمع کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔ ۸*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں کو جب ہماری روشن آیتیں سنائی جاتی ہیں تو یہ کافر حق کے بارے میں جو ان کے پاس آگیا ہے کہتے ہیں کہ یہ صریح جادو ہے۔ ۹*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اس کو گھڑ لیا ہے ؟ کہو اگر میں نے گھڑ لیا ہے تو تم لوگ مجھے اللہ سے ذرا بھی نہ بچا سکو گے اور تم جو باتیں بناتے ہو ان کو خوب جانتا ہے۔ میرے اور تمہارے درمیان وہ گواہی کے لیے کافی ہے۔ وہ بڑا معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ۱۰*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو میں کوئی نرالا رسول تو نہیں ہوں ۱۱* اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ۔ ۱۲* میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے۔ اور میں تو بس کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔ ۱۳*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کیا جبکہ بنی اسرائیل کے ایک گواہ نے اس جیسی کتاب پر گواہی دی ہے چنانچہ وہ ایمان لے آیا اور تم نے تکبر کیا۔ ۱۴* (تو یہ کتنا بڑا جرم ہو گا؟) اللہ ایسے ظالم لوگوں کو راہ پر نہیں لگاتا۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافر ایمان لانے والوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر یہ (قرآن) خیر ہوتا تو یہ لوگ ہم سے پہلے اس کو نہ پا لیتے۔ ۱۵* اور چونکہ انہوں نے اس سے ہدایت نہیں پائی اس لیے کہیں گے کہ یہ پرانا جھوٹ ہے۔ ۱۶*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب رہنما اور رحمت بن کر آ چکی ہے۔ ۱۷* اور یہ کتاب اس کی تصدیق کرنے والی ہے۔ ۱۸* عربی زبان میں تاکہ ظلم کرنے والوں ۱۹* (غلط) کار لوگوں ، کو خبردار کر دے اور یہ بشارت ہے نیکو کاروں کے لیے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے پھر اس پر جمے رہے ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ۲۰*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جنت والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہو گی ان اعمال کی جو وہ کرتے رہے۔ ۲۱*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ ۲۲* اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اس کو پیٹ میں رکھا اور تکلیف کے ساتھ اس کو جنا۔ ۲۳* اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے ۲۴* یہاں تک کہ جب وہ اپنے شباب کو پہنچا اور پہنچا چالیس سال کی عمر کو ۲۵* تو اس نے دعا کی اے میرے رب! مجھے توفیق عطا فرما کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمایا۔ اور وہ نیک عمل کروں جو تجھے پسند ہے۔ اور میری اولاد کو بھی میرے لیے نیک بنا دے۔ میں نے تیری طرف رجوع کیا اور میں مسلمین (تیرے فرماں برداروں) میں سے ہوں۔ ۲۶*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے لوگوں کے بہترین اعمال کو ہم قبول کریں گے۔ ۲۷* اور ان کی برائیوں سے درگزر کریں گے۔ وہ جنت والوں میں شامل ہوں گے۔ سچا وعدہ جو ان سے کیا جاتا رہا ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس شخص نے اپنے والدین سے کہا تم پر اُف ہے ! کیا تم مجھے اس سے ڈراتے ہو کہ میں قبر سے نکالا جاؤ ں گا حالانکہ مجھ سے پہلے کتنی ہی قومیں گزر چکی ہیں۔ ۲۸* اور وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے ہوئے اس سے کہتے ہیں کہ افسوس تجھ پر! ایمان لا۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ مگر وہ کہتا ہے کہ یہ گزرے ہوئے لوگوں کے فسانے ہیں۔ ۲۹*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ (کے عذاب) کا فرمان لاگو ہوا ان گروہوں میں جو جنوں اور انسانوں میں سے ان سے پہلے گزرے۔ ۳۰* یقیناً یہ تباہ ہونے والے ہیں۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر ایک کے لیے ان کے اعمال کے لحاظ سے درجے ہوں گے۔ ۳۱* اور یہ (یہ اس لیے ہو گا کہ) وہ ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے۔ اور ان پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس دن کافر آگ کے سامنے پیش کئے جائیں گے (تو ان سے کہا جائے گا) تم اپنے حصہ کی اچھی چیزیں دنیا کی زندگی میں لے چکے اور ان سے فائدہ اٹھایا۔ ۳۲* تو آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ اس بات کی پاداش میں کہ تم زمین میں بغیر کسی حق کے تکبر کرتے رہے اور اس لیے کہ تم نافرمانی کرتے رہے۔ ۳۳*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد کرو عاد کے بھائی کو ۳۴* جب اس نے احقاف ۳۵* میں اپنی قوم کو خبردار کیا ہے __ اور خبردار کرنے والے اس کے آگے بھی آئے تھے اور اس کے پیچھے بھی آئے۔ ۳۶*__ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ مجھے تم پر ایک ہولناک دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔ ۳۷*
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا تم اس لیے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے برگشتہ کر دو۔ ۳۸* اگر تم سچے ہو تو لے آؤ وہ عذاب جس سے ہمیں ڈرا رہے ہو۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔ میں تو وہ پیغام تمہیں پہنچا رہا ہوں جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جب انہوں نے اس کو ۳۹* بادل کی شکل میں اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔ نہیں بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کے لیے تم نے جلدی مچا رکھی تھی۔ یہ ہوا (کا طوفان) ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔ ۴۰*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہر چیز کو تباہ کر دے گی اپنے رب کے حکم سے۔ چنانچہ ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ ۴۱* ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔ ۴۲*
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کو وہ اقتدار بخشا تھا جو تم کو نہیں بخشا۔ ۴۳* ہم نے ان کو کان، آنکھیں اور دل دئے تھے مگر نہ ان کے کان ان کے کچھ کام آئے ، نہ ان کی آنکھیں اور نہ ان کے دل۔ اس بنا پر کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ ۴۴* اور ان کو گھیر لیا اس چیز نے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ ۴۵*
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تمہارے گردو پیش کی بستیوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ ۴۶* ہم نے اپنی آیتیں گوناگوں طریقہ پر پیش کی تھیں تاکہ وہ رجوع کریں۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیوں نہ ان کی مدد کی ان ہستیوں نے جن کو انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر تقرب کے لیے معبود بنا رکھا تھا۔ ۴۷* بلکہ وہ سب ان سے کھوئے گئے۔ یہ ان کا جھوٹ اور ان کی گھڑی ہوئی باتیں تھیں۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب ہم نے جنوں ۴۸* کے ایک گروہ کو تمہارے طرف پھیر دیا تاکہ وہ قرآن سنیں۔ ۴۹* جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے (آپس میں) کہا خاموش ہو جاؤ (اور سنو)۔ جب اس کی تلاوت پوری ہو گئی تو وہ اپنی قوم کی طرف خبردار کرنے والے بن کر لوٹے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا اے ہماری قوم کے لوگو ! ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے۔ ۵۰* تصدیق کرتی ہے اس کتاب کی جو پہلے آ چکی ہے۔ ۵۱* یہ حق اور سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ ۵۲*
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ہماری قوم کے لوگو ! اللہ کے داعی ۵۳* کی دعوت قبول کرو اور اس پر ایمان لے آؤ۔ ۵۴* اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا ۵۵* اور تمہیں درد ناک عذاب سے بچائے گا۔ ۵۶*
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو اللہ کے داعی کی دعوت قبول نہیں کرے گا تو اس کے بس میں نہیں ہے کہ زمین میں اللہ کے قابو سے نکل جائے ۵۷* اور نہ اللہ کے مقابل اس کا کوئی مددگار ہو گا۔ یہ لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ ۵۸*
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ جس نے آسمان و زمین پیدا کئے اور جن کے پیدا کرنے سے وہ تھکا نہیں وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ کیوں نہیں وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن ۵۹* کافر جہنم کی آگ پر پیش کئے جائیں گے۔ (ان سے پوچھا جائے گا) کیا یہ حق نہیں ہے ؟ ۶۰* وہ کہیں گے ہاں ہمارے رب کی قسم۔ (یہ یقیناً حق ہے) فرمائے گا تو چکھو عذاب کا مزہ اپنے کفر کی پاداش ہیں۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس (اے نبی!) صبر کرو جس طرح عزم و ہمت والے رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لیے جلدی نہ کرو۔ ۶۱* جس دن یہ لوگ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو وہ محسوس کریں گے کہ گویا (وہ دنیا میں) دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے تھے۔ ۶۲* یہ پیغام ہے۔ تو نافرمان لوگوں کے سوا اور کون تباہ ہو گا؟ ۶۳*
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ان حروف کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مومن نوٹ ۱۔
اس سورۂ میں آیت ۲ میں اللہ کے حکیم ہونے کا ذکر ہوا ہے۔ اور یہ حروف اس کی اسی صفت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ جاثیہ نوٹ ۲۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۱۲۴ اور سورۂ یونس نوٹ ۱۵۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ روم نوٹ ۱۴۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت اور جزا و سزا سے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عبادت کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو خالق ہو۔ مشرکین بتائیں کہ وہ اللہ کے سوا جن کو معبود ٹھہراتے ہیں انہوں نے کیا چیز پیدا کی ہے اس کائنات کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ ہے ؟ اگر نہیں ہے تو وہ معبود کس طرح ہوئے ؟ اور اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ اللہ کے سوا اور ہستیوں نے بھی کوئی چیز پیدا کی ہے اور وہ خدا کے شریک ہیں تو یہ بات کس طرح معلوم ہوئی۔ اس کے جاننے کا ذریعہ اللہ کی کتاب ہو سکتی ہے یا انبیائی ہدایت جو اس طرح منقول ہو کہ علم و یقین کا درجہ حاصل ہو جائے۔ اب اگر اس کا ثبوت نہ قرآن سے پہلے کی کسی آسمانی کتاب میں مل رہا ہے اور نہ انبیائی ہدایت میں جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل سے منقول ہے تو اتنے بڑے دعوے کے لیے کیا بنیاد رہ جاتی ہے ؟
واضح رہے کہ قرآن کا چیلنج ان کتابوں کے بارے میں ہے جو واقعی آسمانی کتابیں ہیں اور جن کا رسولوں پر نازل ہونا ایک تاریخی حقیقت ہے۔ تورات، زبور، اور انجیل میں اگرچہ بہت کچھ رد و بدل ہوا ہے لیکن ان میں کلام الٰہی کے اجزاء موجود ہیں۔ ان کتابوں میں یہ کہیں بھی نہیں کہا گیا ہے کہ ایک خدا کے سوا کسی اور نے کوئی چیز پیدا کی ہے یا اس کائنات کے کئی خدا ہیں یا یہ کہ انسان کو ایک خدا کے سوا کسی اور کی بھی پرستش کرنی چاہیے۔ رہیں وہ کتابیں جن کو مختلف مذہبی گروہوں نے اپنے اپنے مذہب کی مقدس کتاب قرار دے رکھا ہے تو ان کے آسمانی کتاب ہونے کا نہ تاریخی ثبوت ہے اور نہ ان کتابوں کا یہ دعویٰ ہے کہ و ہ کلامِ الٰہی ہیں اور نہ ان کے مضامین ان کے کلامِ الہیٰ ہونے کی شہادت دیتے ہیں اس لیے ان مذہبی کتابوں میں اگر مختلف دیوی دیوتاؤں کا تصور پایا جاتا ہے تو وہ کوئی دلیل نہیں بلکہ وہ ان کتابوں کو مرتب کرنے والوں کے باطل عقائد ہیں جن کو انہوں نے اپنے مذہب کی " مقدس کتاب " کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ یہ اللہ پر افتراء اور بہتان ہے نہ کہ اس کی فرمودہ بات۔
اسی طرح عقیدہ کے بارے میں انبیاء علیہم السلام کی طرف منسوب وہی روایتیں دلیل اور حجت کی حیثیت رکھتی ہیں جو علم و یقین کے درجہ کی ہوں۔ مثال کے طور پر حضرت ابراہیم کا بیت اللہ کو تعمیر کرنا اور حج کا سلسلہ جاری کرنا تاکہ توحید کے نقوش ہر زمانہ میں نمایاں ہوتے رہیں۔ اسی لیے قرآن نے اثارۃٍ کے ساتھ مِنْ عِلم کی قید لگائی ہے یعنی وہ باتیں جن کا کسی رسول سے منقول ہونا علم و یقین کی حد تک درست ہو۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت میں مَنْ (جو Whom) کا لفظ استعمال ہوا ہے جو عربی میں عقل رکھنے والوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے مراد فرشتے ، جن، انبیاء اور بزرگ شخصیتیں ہی ہو سکتی ہیں۔ قرآن صراحت کرتا ہے کہ ان کو حاجت روئی، مشکل کشائی اور فریاد رسی کے لیے پکارنا بہت بڑی گمراہی اور بالکل بے معنی بات ہے ان کو پکارنے کے لیے نہ کوئی وجہ جواز ہے اور نہ وہ کسی کی پکار سنتے ہیں۔
قرآن کی اس صراحت کے باوجود مسلمانوں کی بڑی تعداد اس گمراہی میں مبتلا ہے۔ وہ اولیاء اور پیروں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قبروں میں دفن ہونے کے باوجود وہ ہماری پکار سن لیتے ہیں حالانکہ وہ ان کی پکار سے بالکل بے خبر رہتے ہیں۔ یہ عقیدہ ہی فاسد ہے کہ جو قبروں میں مدفون ہیں وہ پکارنے والے کی پکار سنتے ہیں جب وہ اپنی زندگی میں دور سے پکارنے والے کی آواز نہیں سن سکتے تھے تو مرنے کے بعد ان کو یہ قدرت کہاں سے حاصل ہوئی کہ عالمِ برزخ میں رہتے ہوئے دنیا والوں سے ربط پیدا کریں اور اپنے ہر عقیدت مند کی خواہ وہ دنیا کے کسی گوشہ میں رہتا ہو پکار سنیں ؟ یہ سراسر لغو بات ہے مگر ایسی لغو باتوں کو " جاہل عالموں " نے اسلامی عقیدہ کی حیثیت دی ہے اور ان آیتوں کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ بت پرستوں کے بارے میں ہیں۔ اس غلط تاویل کے نتیجہ میں مسلمانوں کی بڑی تعداد شرک میں مبتلا ہے۔ اگر وہ صاف ذہن سے قرآن کا مطالعہ کرتے تو ان کو ہدایت نصیب ہوتی۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ جن کی عقیدت میں غلو کر کے (بڑھ کر) تم انہیں اپنی حاجتیں پوری کرنے کے لیے پکار ر ہے ہو وہ قیامت کے دن تم سے خوش ہوں گے نہیں بلکہ وہ تمہارے دشمن ہوں گے کہ تم نے ان کے ساتھ وہ معاملہ کیوں کیا جو خدا ہی کے ساتھ کرنے کا تھا اور تمہاری اس پکار کا جو عبادت کی حیثیت رکھتی ہے صاف انکار کریں گے کہ ہمیں اس کی کوئی خبر نہ تھی۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کلامِ الٰہی کی تاثیر کو دیکھ کر اسے جادو قرار دیتے ہیں۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہیں موقع دے رہا ہے کہ توبہ اور اصلاح کر کے اس کی معرفت اور رحمت کے مستحق ہو جاؤ۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسا تو نہیں ہے کہ انسانی تاریخ رسولوں سے خالی رہی ہو اور اب میرے دعوے رسالت کو سن کر لوگوں کو تعجب ہو کہ ایک نرالی بات ہے جو ہمارے سامنے آ رہی ہے۔ جب تاریخی واقعات اس پر شاہد ہیں کہ اس سے پہلے بھی رسول آتے رہے ہیں تو پھر میرا رسول ہونا کوئی نرالی بات نہیں ہوئی۔ اس لیے تمہیں غور کرنا چاہیے کہ آیا میرا یہ دعویٰ محض دعویٰ ہے یا ایک ایسی حقیقت جو ناقابل انکار دلائل سے ثابت ہے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مجھے نہیں معلوم کہ رسول ہونے کی حیثیت سے مجھے آئندہ کن مراحل سے گزارا جائے گا اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ تمہارے بارے میں کب کیا فیصلہ کیا جانے والا ہے۔ آیا تمہیں توبہ کی توفیق بخشی جائے گی یا تمہیں بھی اسی طرح ہلاک کر دیا جائے گا جس طرح تم سے پہلے کی قوموں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ ان باتوں کا تفصیلی علم مجھے نہیں ہے البتہ وحی الٰہی کے ذریعہ جو علم مجھے حاصل ہوتا ہے اس پر میں یقین کرتا ہوں۔
یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو مستقبل کے حالات کا علم اسی حد تک ہوتا تھا جس حد تک کہ وحی الٰہی آپ کو اس کا علم بخشی تھی ورنہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے۔
علامہ آلوسی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
" میں کہنے والے کے اس قول کو اچھا نہیں سمجھتا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم غیب کو جانتے تھے۔ اس کے بجائے یہ کہنا بہتر ہو گا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے غیب پر مطلع فرمایا تھا اور آپ کو اس کا علم بخشا تھا۔ " (روح المعانی ج ۲۶ ص ۱۰)
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کے بعد اس پر ایمان لانا تمہاری ذمہ داری ہے۔ میری یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ ایمان لانے کے لیے مجبور کروں۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کے ایک گواہ سے مراد ان میں کا ایک شخص ہے جو تورات کا علم رکھتا تھا اور ان آیات کے نزول کے وقت ایمان لایا تھا۔ اس کے بعد مکہ میں اہل کتاب میں سے اور لوگ بھی ایمان لائے جن کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل میں ہوا ہے :
اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوالعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖ اِذَاایُتْلٰی عَلَیْہِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا۔ وَیَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنِ رَبِّنَا اِنْ کَانَ وَعْدُرَبِّنَا لَمَفْعُوْلاً۔ (بنی اسرائیل:۱۰۷،۱۰۸) " جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر جاتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا رب۔ ہمارے رب کا وعدہ اسی لیے تھا کہ پورا ہو کر رہے۔ "
تو جس طرح سورۂ بنی اسرائیل کی اس آیت میں کوئی خاص شخصیت مراد نہیں ہے اسی طرح آیت زیر تفسیر میں بھی گواہ سے کوئی خاص شخصیت مراد نہیں ہے بلکہ وہ شخص مراد ہے جو تورات کا علم رکھتے ہوئے قرآن پر ایمان لایا تھا اور علامہ ابن کثیر نے آیت کی یہی توجیہ کی ہے۔ جن مفسرین نے مدینہ کے یہودی عالم عبداللہ بن سلام کی شخصیت مراد لی ہے انہوں نے اس آیت کو مدنی قرار دیا ہے حالانکہ پوری سورۂ مکی ہے یہ تکلف انہیں اس لیے کرنا پڑا کہ عبداللہ بن سلام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد ایمان لائے تھے اس لیے اس آیت کے نزول کے وقت وہ اس کا مصداق نہیں ہو سکتے تھے۔ صاحبِ تدبر قرآن نے ایک اور بات لکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس گواہ سے مراد حضرت مسیح علیہ السلام ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کی پیشین گوئی کی تھی مگر آیت کے یہ الفاظ کہ وہ اس جیسی چیز پر ایمان لے آیا ان پر منطق نہیں ہوتے۔
مدعا اس آیت کا منکرین قرآن کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ جب نبی اسرائیل کا ایک شخص جو کتابِ الٰہی کا علم رکھتا ہے یہ گواہی دیتے ہوئے کہ قرآن کی تعلیم تورات کی تعلیم سے بالکل مطابقت رکھتی ہے اس پر ایمان لایا ہے تو تمہارا اس کو ایک نرالی تعلیم سمجھ کر رد کر دینا کتنی بڑی غیر ذمہ دارانہ بات ہے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کافروں کے سرداروں اور دنیوی حیثیت رکھنے والوں کا قول ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ شان و شوکت ہمیں اسی لیے حاصل ہے کہ اللہ ہم سے خوش ہے لہٰذا اگر قرآن اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہوتا تو اتنے بڑے خیر سے وہ سب سے پہلے ہمیں نوازتا مگر جب اس کی توفیق ہمیں نہیں ملی اور ایسے لوگوں نے اسے قبول کیا جو غریب ہیں اور اثر و رسوخ نہیں رکھتے تو یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ خیر کیسے ہو سکتا ہے ؟ان کی یہی غلط ذہنیت تھی جس کی وجہ سے وہ ہدایت سے محروم رہے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن قیامت اور جزا و سزا وغیرہ کی جو باتیں کرتا ہے وہ بالکل جھوٹ ہیں اور اس جھوٹ کی تاریخ بہت پرانی ہے کیونکہ گزری ہوئی قوموں کو بھی ایسی باتیں کہہ کر ڈرایا جاتا رہا ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس چیز کو وہ جھوٹ قرار دے رہے ہیں وہ جھوٹ کس طرح ہو سکتا ہے جب کہ وہ چیز لوگوں کی صحیح رہنمائی کرتی رہی ہے چنانچہ تورات سے لوگ ہدایت حاصل کرتے رہے ہیں اور اس بنا پر اللہ کی رحمت ان پر سایہ فگن رہی ہے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن بنیادی طور پر وہی تعلیم پیش کر رہا ہے جو تورات کی تعلیم تھی۔ یہ کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جو نرالی تعلیم پیش کرتی ہو۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ظلم کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو شرک جیسی معصیت میں مبتلا ہو کر خود اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حٰم السجدہ نوٹ ۴۴ اور ۴۵۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت مفت ملنے کی چیز نہیں ہے بلکہ وہ اعمال کی جزا میں دی جائے گی۔ لہٰذا جو شخص بھی جنت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اپنی عملی زندگی سے جنت کا مستحق ہونا ثابت کر دکھائے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ بندوں کے حقوق میں سب سے بڑا حق ماں باپ کا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی سخت تاکید کی ہے۔ اچھے برتاؤ میں ان کا ادب و احترام، ان کی خدمت ، ان کی مدد، ان کو خوش و خرم رکھنے کی کوشش، ان کے لیے ایثار اور ان کے حق میں دعائے خیر سب شامل ہے۔ یہ ان سے فطری تعلق کا تقاضا ہے اس لیے شریعت نے اس کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اور بہت بڑی نیکی قرار دیا ہے۔ مگر مغربی معاشرہ جو اخلاق سے عاری ہو گیا ہے اس حق کو نہیں مانتا۔ اولاد ماں باپ سے بالکل بے پرواہ رہتی ہے اور ان کے تعلق سے اپنی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتی اور جو لوگ خدا کا حق نہ پہنچاتے ہوں وہ بندوں کا حق کیا پہچانیں گے۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ لقمان نوٹ ۱۷ ،۲۰ اور ۲۱ نیز سورہ بنی اسرائیل نوٹ ۲۸۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی بناء پر باپ کی بہ نسبت ماں حسن سلوک کی زیادہ مستحق ہے۔ آیت کے اس اشارہ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کھول کر بیان فرمایا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ:
" ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:
اے اللہ کے رسول ؐ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟
فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں ، اس نے پوچھا پھر کون ؟ فرمایا تمہاری ماں ، اس نے پوچھا پھر کون ؟ فرمایا پھر تمہارا باپ۔ " (بخاری کتاب الادب)
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت اکٹھا طور پر تیس مہینے بیان ہوئی ہے جب کہ سورہ لقمان میں دودھ چھڑانے کی مدت دو سال بیان ہوئی ہے :
وفِصٰلُہٗ فِی عَامَیْن (لقمان:۱۴) " اور دو سال اس کے دودھ چھڑانے میں لگے۔ "
نیز سورۂ بقرہ میں مدت رضاعت کامل دو سال بیان ہوئی ہے (سورۂ بقرہ آیت۔۲۳۳) اس لیے فقہا نے سورۂ احقاف کی اس آیت سے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔ یعنی اگر نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ تولد ہوتا ہے تو وہ جائز اولاد سمجھی جائے گی۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ جوانی کی عمر ہوش سنبھالنے اور چالیس سال کی عمر عقل کی پختگی کی عمر ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں اس شخص کا کردار بیان ہوا ہے جو اللہ سے ڈرنے اور اس کے حضور جوابدہی کا احساس رکھنے والا ہے۔ وہ ہوش سنبھالتے ہی اللہ کے احسان کو یاد کرتا ہے اور خاص طور سے اس احسان کو کہ اس نے اس کے ماں باپ کو اولاد عطا فرمائی اور اس کی پرورش کے قابل انہیں بنایا۔ جب وہ چالیس سال کا ہوتا ہے تو یہ احساس اس میں اور شدت سے ابھرتا ہے اور وہ شکر کی اور نیک بننے کی توفیق طلب کرتا ہے نیز یہ دعا کرتا ہے کہ میری اولاد کو بھی نیک بنا دے۔
واضح ہوا کہ نیک آدمی اپنی اولاد کو بھی نیک دیکھنا ہی پسند کرتا ہے۔ ایسا شخص لازماً اپنی اولاد کو دین کی تعلیم دے گا اور اس کی صحیح تربیت کرے گا۔
آیت میں " وہ نیک عمل کروں جو تجھے پسند ہے " کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ نیکی وہی معتبر ہے جو خالصۃً اللہ کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے کی گئی ہو۔ جو ریاء اور نمائش وغیرہ سے پاک ہو۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسے لوگوں کے اچھے اعمال نہ صرف اچھے ہیں بلکہ چونکہ وہ نیک نیتی کے ساتھ اپنی صحیح اسپرٹ میں ادا کئے گئے ہیں اس لیے اللہ کی نظر میں وہ بہترین اعمال ہیں اس لیے وہ قبولیت کا درجہ حاصل کریں گے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو قومیں گزر چکی ہیں وہ دوبارہ زندہ ہو کر نہیں آئیں۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس شخص کا کردار ہے جو آخرت کا منکر ہے اور جب اس کے مومن والدین اس کو ایمان لانے کے لیے کہتے ہیں تو وہ دوسری زندگی کو افسانہ قرار دینے لگتا ہے۔ والدین کی نصیحت کو قبول کرنے کے بجائے ان کے ساتھ گستاخی سے پیش آنے لگتا ہے۔
ان آیات کا کھلا اشارہ اس وقت کے حالات کی طرف ہے جب یہ سورہ نازل ہوئی اس وقت دونوں ہی کردار جن کا ان آیتوں میں ذکر ہوا ہے ابھر کر سامنے آ گئے تھے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کردار کے لوگ عذاب کے مستحق ہے اور انسانوں اور جنوں کے اس گروہ میں شامل ہیں جو اس سے پہلے عذاب کا مستحق ہو چکا ہے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو شخص جتنا نیک ہو گا اسی مناسبت سے جنت میں اس کا درجہ ہو گا اور جو شخص جتنا برا ہو گا اسی مناسبت سے جہنم میں اس کی جگہ متعین ہو گی۔
اگر آدمی آخرت میں اعلیٰ درجہ چاہتا ہے تو اعلیٰ درجہ کے اعمال کرے۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کی تھیں ان میں تم ایسے مگن رہے کہ نہ تمہیں خدا یاد آیا اور نہ آخرت۔ دنیا کی نعمتیں تو اس لیے ہیں کہ آدمی اپنے رب کا شکر گزار ہو اور ان کو اس طرح استعمال کرے کہ آخرت میں اس کا نعم البدل ملے۔ نہ اس لیے کہ وہ بس دنیا بٹورے اور مادہ پرست بن کر رہ جائے۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تکبر سے دل کے گھمنڈ کی طرف اور فسق (نافرمان) سے برے اعمال کی طرف اشارہ ہے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد ہود علیہ السلام ہیں جو قوم عاد کے ایک فرد تھے اور اس کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ ان کی سر گزشت سورۂ اعراف اور سورۂ ہود میں گزر چکی۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ احقاف کے معنی ریت کے ٹیلوں کے ہیں اور مراد اس سے وہ علاقہ ہے جو حضرِ موت کے قریب یمن کے مشرق میں واقع ہے۔ یہاں قوم عاد آباد تھی جس کا زمانہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا ہے۔ یہ علاقہ اس زمانہ کا سب سے بڑا متمدن علاقہ تھا لیکن اب تک ایک لق و دق ریگستان ہے جہاں ریت کے ایسے تودے ہیں کہ سفر کرنا مشکل ہے۔ جغرافیہ میں اس علاقہ کا نام الرّبع الخالی ہے۔ (دیکھئے نقشہ بر صفحہ تفسیر سورۂ فجر)
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی حضرت ہود کوئی نئے رسول نہیں تھے۔ ان سے پہلے بھی رسول آئے تھے اور ان کے بعد بھی رسول آتے رہے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد نزولِ عذاب کا دن ہے جس کی تباہی نہایت ہولناک ہو گی۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بت پرست قوم تھی اور اپنے بتوں کو چھوڑ کر اللہ کو واحد معبود مان لینے کے لیے ہرگز آمادہ نہیں تھی۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بادل کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے کہ بارش ہو گی اور انہیں سکون ملے گا مگر حضرت ہود نے __جیسا کہ قرینہ سے واضح ہے __ان کو متنبہ کیا کہ یہ تمہارے لیے باعثِ رحمت نہیں بلکہ باعثِ زحمت ہے اور یہ عذاب ہے جو تمہارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی طوفانی ہوا نے ان کو اس طرح ہلاک کیا کہ وہ صفحۂ ہستی سے مٹ گئے اور ان کا شاندار تمدن بھی خاک میں مل گیا۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مجرم قوموں کو اللہ تعالیٰ جس طرح دنیا میں سزا دیتا ہے اس کا ایک نمونہ یہ عذاب ہے جو قومِ ہود پر نازل ہوا۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ کان، آنکھ اور دل و دماغ کی صلاحیتیں (Faculties) اسی صورت میں کار آمد ثابت ہوتی ہیں جب کہ اللہ کی نشانیوں کو دیکھنے اور اس کی آیتوں (Revelations) کو پڑھنے اور سننے کے لیے ان کو استعمال کیا جائے پھر جو حقیقت روشن ہو کر سامنے آئے اس کو قبول کیا جائے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے عذاب نے جس کا وہ مذاق اُڑاتے تھے۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عاد، ثمود، مدین وغیرہ کی بستیاں جو عرب علاقہ ہی میں تھیں۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے یہ معبود جن کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں اس وقت ان کی مدد کو کیوں نہ آئے جب ان پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑا؟ جب یہ معبود اپنے پرستاروں کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکے تو یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو فریاد رس (غوث) ،مشکل کشا اور مدد گار ہو اور اس کے سوا کوئی نہیں جو عبادت کا مستحق ہو۔ کسی کو تقربِ الٰہی کا ذریعہ سمجھ کر اس کے ساتھ وہ معاملہ کرنا جو خدا ہی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے سراسر گمراہی اور اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ جن (Genie) اللہ ہی کی پیدا کردہ ایک مخلوق ہے جو ہمیں دکھائی نہیں دیتی لیکن وحی الٰہی نے ہمیں اس سے باخبر کیا ہے۔ ان کی تخلیق کے بارے میں دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۲۵۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کے ایک گروہ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف متوجہ کر دیا تاکہ وہ آپؐ سے قرآن سنیں۔ جب انہوں نے قرآن سنا تو انہیں یہ پہچاننے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی کہ یہ وحی الٰہی ہے چنانچہ بات فوراً ان کے دل میں اتر گئی اور وہ ایمان لائے اور نہ صرف ایمان لائے بلکہ اس کے مبلغ بن کر اپنی قوم کی طرف لوٹے اور انہیں خبردار کیا۔ یہاں اس واقعہ کو پیش کر کے واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ قرآن کا کلام الٰہی ہونا ایک واضح حقیقت ہے۔ اس کو پہچاننے میں نہ سلیم الفطرت انسانوں کو کوئی دقت پیش آتی ہے اور نہ سلیم الفطرت جنوں کو اور یہ اس کی معجزانہ شان ہے۔
سورۂ جن میں بھی جنوں کے ایک گروہ کے قرآن کے سننے اور اس پر ایمان لانے کا ذکر ہوا ہے مگر سورۂ احقاف کی ان آیتوں میں ان کے مبلغ بن کر اپنی قوم کو خبردار کرنے کا بھی ذکر ہے اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ سورۂ جن کا واقعہ مکہ کے ابتدائی دور کا معلوم ہوتا ہے اور سورۂ احقاف میں بیان کردہ واقعہ اس کے بعد کا یعنی مکہ کے درمیانی دور کا۔ عام طور سے مفسرین نے ابنِ ہشام کی روایت پر اعتماد کیا ہے جس کے مطابق یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طائف کے سفر سے واپسی میں نخلہ کے مقام پر پیش آیا تھا۔ مگر بخاری اور مسلم کی حدیثیں نخلہ کے واقعہ کو سورۂ جن کے نزول سے متعلق قرار دیتی ہیں اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ (دیکھئے بخاری کتاب التفسیر،تفسیر سورۂ جناور مسلم کتاب الصلوٰۃ باب الجہر با القرآن فی القبح)
اس لیے سورہ احقاف میں بیان کردہ واقعہ کو نخلہ کا واقعہ سمجھنا صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ یہ کسی اور مقام پر پیش آیا ہو گا۔
واضح رہے کہ قرآن نے کہیں بھی یہ صراحت نہیں کی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جنوں کو دیکھ لیا تھا اور آپ کی ان سے بالمشافہ گفتگو ہوئی بلکہ صراحت کرتا ہے کہ آپ کو ان کے قرآن سننے کی خبر وحی کے ذریعہ دی گئی اور بخاری و مسلم کی حدیثوں میں بھی جو سورۂ جن کے نزول سے متعلق ہیں یہی بات بیان ہوئی ہے۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۲۴۱۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ کا ذکر جنوں نے اس لیے کیا کہ ان کو ایک جامع کتاب تورات عطا ہوئی تھی، زبور اور انجیل کا نزول اس اصل کتاب کی تجدید کے لیے ہوا تھا نیز اس لیے بھی کہ حضرت سلیمان حضرت موسیٰ کی امت میں سے تھے اور جنوں کو حضرت سلیمان کے تابع کر دیا گیا تھا۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ تصدیق کرتی ہے کہ تورات اللہ کی کتاب تھی نیز اس کی تعلیم بھی وہی ہے جو تورات کی تھی۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ صحیح اور سچا عقیدہ پیش کرتی ہے اور وہ راہ دکھاتی ہے جو اللہ تک پہنچنے والی ہے۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد اللہ کا رسول ہے۔ اس کی دعوت کو قبول کرنے میں قرآن پر ایمان لانا بھی شامل ہے۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول پر ایمان لے آؤ۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح انسان گناہ کے کام کرتا ہے اسی طرح جن بھی گناہ کے کام کرتے ہیں اور جس طرح ایمان لانے سے انسان کے وہ گناہ جو وہ کر چکا ہے معاف ہوتے ہیں اسی طرح کسی جن کے ایمان لانے سے اس کے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔
واضح ہوا کہ جن بھی اللہ کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر ایمان لانے نیز ایک اللہ ہی کی عبادت کرنے اور نیک عمل کرنے کے مکلف (ذمہ دار بنائے گئے) ہیں اور ان کے لیے بھی یہ دنیا اسی طرح دارالامتحان ہے جس طرح انسانوں کے لیے البتہ زمین کا خلیفہ (حاکم) انسان کو بنایا گیا ہے نہ کہ جنات کو اس لیے دونوں کے عمل کا دائرہ الگ الگ ہے اس لیے ممکن ہے ان کے لیے کسی تفصیلی شریعت کی ضرورت نہ ہو اور دین کی کلیات پر عمل کرنا ان کے لیے کافی ہو۔ مثلاً عقیدہ، عبادت، اخلاق، حق اور نیکی کی تلقین اور برائیوں سے روکنا وغیرہ۔ چونکہ جنات کا معاملہ غیب سے تعلق رکھتا ہے اس لیے ان کے بارے میں ہمیں اسی علم پر اکتفاء کرنا چاہیے جو قرآن اور احادیثِ صحیحہ کے ذریعہ حاصل ہو اور مزید کاوش نہیں کرنی چاہیے۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کے درد ناک عذاب سے نجات بجائے خود بہت بڑی کامیابی ہے۔ رہی جنت تو جیسا کہ سورۂ رحمن میں جنوں اور انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے : وَلِمَنْ خَافَ مَقَازَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ۔ (الرحمن:۴۶) " اور جو کوئی اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ "
صالح جنوں کو بھی انعام کے طور پر جنت اسی طرح ملے گی جس طرح صالح انسانوں کو ملے گی اور وہاں دونوں میں سے ہر ایک کے لیے اس کی فطرت کے تقاضوں کے مطابق عیش و عشرت کا سامان ہو گا۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جنوں کا اصل مسکن زمین ہی ہے اس لیے فرمایا: " اس کے بس میں نہیں کہ زمین میں اللہ کے قابو سے نکل جائے۔ "
۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں جنوں کا بیان ختم ہوا۔
۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عذاب جہنم کا تم انکار کرتے رہے اب کیا یہ تمہارے سامنے حقیقت کی صورت میں موجود نہیں ہے ؟
۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے نیز آپ کے واسطہ سے دعوتِ دین پیش کرنے والوں کو تسلی بھی ہے اور تلقین بھی کہ جب تم نے دین کی دعوت کو صحیح طور سے پیش کر دیا اور اس کے بعد بھی منکرین مخالفت پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اذیت دہ باتیں کرتے ہیں تو تم اس پر صبر کرو اور ان پر عذاب کے لیے جلدی نہ کرو۔
۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یونس نوٹ ۷۴ اور سورۂ نازعات نوٹ ۳۲
۶۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ اللہ کا پیغام ہے جو اس کے رسول نے تم کو پہنچا دیا ہے۔ اب جو لوگ نافرمان بن کر رہیں گے وہی تباہ ہونے والے ہیں۔ اس کو قبول کرنے والے یقیناً تباہی سے بچیں گے۔