۱ سورۂ فتح مدنیّہ ہے، اس میں چار ۴رکوع انتیس ۲۹آیتیں پانچ سو اڑسٹھ۵۶۸ کلمے دو ہزار پانچ سو انسٹھ ۲۵۵۹حرف ہیں۔
۲ شانِ نزول : اِنَّا فَتَحْنَا حدیبیہ سے واپس ہوتے ہوئے حضور پر نازل ہوئی، حضور کو اس کے نازل ہونے سے بہت خوشی حاصل ہوئی اور صحابہ نے حضور کو مبارکبادیں دیں۔ (بخاری و مسلم و ترمذی) حدیبیہ ایک کنواں ہے مکّہ مکرّمہ کے نزدیک۔ مختصر واقعہ یہ ہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے خواب دیکھا کہ حضور مع اپنے اصحاب کے امن کے ساتھ مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے، کوئی حلق کئے ہوئے، کوئی قصر کئے ہوئے اور کعبہ معظمہ میں داخل ہوئے، کعبہ کی کنجی لی، طواف فرمایا، عمرہ کیا، اصحاب کو اس خواب کی خبر دی، سب خوش ہوئے، پھر حضور نے عمرہ کا قصد فرمایا اور ایک ہزار چار سو اصحاب کے ساتھ یکم ذی القعدہ ۶ ھ ہجری کو روانہ ہو گئے، ذوالحلیفہ میں پہنچ کر وہاں مسجد میں دو رکعتیں پڑھ کر عمرہ کا احرام باندھا اور حضور کے ساتھ اکثر اصحاب نے بھی، بعض اصحاب نے جحفہ سے احرام باندھا، راہ میں پانی ختم ہو گیا، اصحاب نے عرض کیا کہ پانی لشکر میں بالکل باقی نہیں ہے سوائے حضور کے آفتابہ کے کہ اس میں تھوڑا سا ہے، حضور نے آفتابہ میں دستِ مبارک ڈالا تو انگشت ہائے مبارک سے چشمے جوش مارنے لگے تمام لشکر نے پیا، وضو کئے، جب مقامِ عُسفان میں پہنچے تو خبر آئی کہ کفّارِ قریش بڑے سرو سامان کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہیں، جب حدیبیہ پر پہنچے تو اس کا پانی ختم ہو گیا، ایک قطرہ نہ رہا، گرمی بہت شدید تھی، حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے کنوئیں میں کلی فرمائی، اس کی برکت سے کنواں پانی سے بھر گیا، سب نے پیا، اونٹوں کو پلایا۔ یہاں کفّارِ قریش کی طرف سے حال معلوم کرنے کے لئے کئی شخص بھیجے گئے، سب نے جا کر یہی بیان کیا کہ حضور عمرہ کے لئے تشریف لائے ہیں، جنگ کا ارادہ نہیں ہے۔ لیکن انہیں یقین نہ آیا، آخر کار انہوں نے عروہ بن مسعود ثقفی کو جو طائف کے بڑے سردار اور عرب کے نہایت متموّل شخص تھے تحقیقِ حال کے لئے بھیجا، انہوں نے آ کر دیکھا کہ حضور دستِ مبارک دھوتے ہیں تو صحابہ تبرک کے لئے غسالہ شریف حاصل کرنے کے لئے ٹوٹے پڑتے ہیں، اگر کبھی تھوکتے ہیں تو لوگ اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کو وہ حاصل ہو جاتا ہے وہ اپنے چہروں اور بدن پر برکت کے لئے ملتا ہے، کوئی بال جسمِ اقدس کا گرنے نہیں پاتا اگر احیاناً جدا ہوا تو صحابہ اس کو بہت ادب کے ساتھ لیتے اور جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، جب حضور کلام فرماتے ہیں تو سب ساکت ہو جاتے ہیں۔ حضور کے ادب و تعظیم سے کوئی شخص نظر اوپر کو نہیں اٹھا سکتا۔ عروہ نے قریش سے جا کر یہ سب حال بیان کیا اور کہا کہ میں بادشا ہانِ فارس و روم و مصر کے درباروں میں گیا ہوں، میں نے کسی بادشاہ کی یہ عظمت نہیں دیکھی جو محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ان کے اصحاب میں ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ تم ان کے مقابل کامیاب نہ ہو سکو گے، قریش نے کہا ایسی بات مت کہو، ہم اس سال انہیں واپس کر دیں گے، وہ اگلے سال آئیں، عروہ نے کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں کوئی مصیبت پہنچے۔ یہ کہہ کر وہ معہ اپنے ہمراہیوں کے طائف واپس چلے گئے اور اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں مشرّف بہ اسلام کیا، یہیں حضور نے اپنے اصحاب سے بیعت لی، اس کو بیعتِ رضوان کہتے ہیں، بیعت کی خبر سے کفّار خوف زدہ ہوئے اور ان کے اہلُ الرائے نے یہی مناسب سمجھا کہ صلح کر لیں، چنانچہ صلح نامہ لکھا گیا اور سالِ آئندہ حضور کا تشریف لانا قرار پایا اور یہ صلح مسلمانوں کے حق میں بہت نافع ہوئی بلکہ نتائج کے اعتبار سے فتح ثابت ہوئی، اسی لئے اکثر مفسّرین فتح سے صلحِ حدیبیہ مراد لیتے ہیں اور بعض تمام فتوحاتِ اسلام جو آئندہ ہونے والی تھیں۔ اور ماضی کے صیغہ سے تعبیر ان کے یقینی ہونے کی وجہ سے ہے۔ (خازن و روح البیان)
۳ اور تمہاری بدولت امّت کی مغفرت فرمائے۔ (خازن و روح البیان)
۵ تبلیغِ رسالت و اقامتِ مراسمِ ریاست میں۔ (بیضاوی)
۶ دشمنوں پر کامل غلبہ عطا کرے۔
۷ اور باوجود عقیدۂ راسخہ کے اطمینانِ نفس حاصل ہو۔
۸ وہ قادر ہے، جس سے چاہے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی مدد فرمائے۔ آسمان وز مین کے لشکروں سے یا تو آسمان اور زمین کے فرشتے مراد ہیں یا آسمانوں کے فرشتے اور زمین کے حیوانات۔
۹ اس نے مومنین کے دلوں کی تسکین اور وعدۂ فتح و نصرت اس لئے فرمایا۔
۱۰ کہ وہ اپنے رسول سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور ان پر ایمان لانے والوں کی مدد نہ فرمائے گا۔
۱۲ اپنی امّت کے اعمال و احوال کا تاکہ روزِ قیامت ان کی گواہی دو۔
۱۳ یعنی مومنینِ مقرِّین کو جنّت کی خوشی اور نافرمانوں کو عذابِ دوزخ کا ڈرسناتا۔
۱۴ صبح کی تسبیح میں نمازِ فجر اور شام کی تسبیح میں باقی چاروں نمازیں داخل ہیں۔
۱۵ مراد اس بیعت سے بیعتِ رضوان ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے حدیبیہ میں لی تھی۔
۱۶ کیونکہ رسول سے بیعت کرنا اللہ تعالیٰ ہی سے بیعت کرنا ہے جیسے کہ رسول کی اطاعت اﷲ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔
۱۷ جن سے انہوں نے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بیعت کا شرف حاصل کیا۔
۱۸ اس عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا۔
۱۹ یعنی حدیبیہ سے تمہاری واپسی کے وقت۔
۲۰ قبیلۂ غِفَار و مُزَ نِیَّہ وجُہَنِیَّہ واشجع و اسلم کے جب کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے سالِ حدیبیہ بہ نیّتِ عمرہ مکّہ مکرّمہ کا ارادہ فرمایا تو حوالیِ مدینہ کے گاؤں والے اور اہلِ بادیہ بخوفِ قریش آپ کے ساتھ جانے سے رکے باوجود یہ کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور قربانیاں ساتھ تھیں اور اس سے صاف ظاہر تھا کہ جنگ کا ارادہ نہیں ہے پھر بھی بہت سے اعراب پر جانا بار ہوا اور وہ کام کا حیلہ کر کے رہ گئے اور ان کا گمان یہ تھا کہ قریش بہت طاقتور ہیں، مسلمان ان سے بچ کر نہ آئیں گے، سب وہیں ہلاک ہو جائیں گے، اب جب کہ مددِ الٰہی سے معاملہ ان کے خیال کے بالکل خلاف ہوا تو انہیں اپنے نہ جانے پر افسوس ہو گا اور معذرت کریں گے۔
۲۱ کیونکہ عورتیں اور بچّے اکیلے تھے اور ان کا کوئی خبر گیر نہ تھا، اس لئے ہم قاصر رہے۔
۲۲ اﷲ تعالیٰ ان کی تکذیب فرماتا ہے۔
۲۳ یعنی وہ اعتذار و طلبِ استغفار میں جھوٹے ہیں۔
۲۴ دشمن ان سب کا وہیں خاتمہ کر دیں گے۔
۲۵ کفر و فساد کے غلبہ کا اور وعدۂ الٰہی کے پورا نہ ہونے کا۔
۲۷ اس آیت میں اعلام ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے، ان میں سے کسی ایک کا بھی منکِر ہو وہ کافر ہے۔
۲۸ یہ سب اس کی مشیّت و حکمت پر ہے۔
۲۹ جو حدیبیہ کی حاضری سے قاصر رہے اے ایمان والو۔
۳۰ خیبر کی۔ اس کا واقعہ یہ تھا کہ جب مسلمان صلحِ حدیبیہ سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فتحِ خیبر کا وعدہ فرمایا اور وہاں کی غنیمتیں حدیبیہ میں حاضر ہونے والوں کے لئے مخصوص کر دی گئیں، جب مسلمانوں کو خیبر کی طرف روانہ ہونے کا وقت آیا تو ان لوگوں کو لالچ آیا اور انہوں نے بطمعِ غنیمت کہا۔
۳۱ یعنی ہم بھی خیبر کو تمہارے ساتھ چلیں اور جنگ میں شریک ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۳۲ یعنی اللہ کا وعدہ جو اہلِ حدیبیہ کے لئے فرمایا تھا کہ خیبر کی غنیمت خاص ان کے لئے ہے۔
۳۳ یعنی ہمارے مدینہ آنے سے پہلے۔
۳۴ اور یہ گوارا نہیں کرتے کہ ہم تمہارے ساتھ غنیمتیں پائیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۳۶ یعنی محض دنیا کی، حتّیٰ کہ ان کا زبانی اقرار بھی دنیا ہی کی غرض سے تھا اور امورِ آخرت کو بالکل نہیں سمجھتے تھے۔ (جمل)
۳۷ جو مختلف قبائل کے لوگ ہیں اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جن کے تائب ہونے کی امید کی جاتی ہے، بعض ایسے بھی ہیں جو نفاق میں بہت پختہ اور سخت ہیں، انہیں آزمائش میں ڈالنا منظور ہے تاکہ تائب و غیرِ تائب میں فرق ہو جائے اس لئے حکم ہوا کہ ان سے فرما دیجئے۔
۳۸ اس قوم سے بنی حنیفہ یمامہ کے رہنے والے جو مسیلمہ کذّاب کی قوم کے لوگ ہیں وہ مراد ہیں جن سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ فرمائی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سے مراد اہلِ فارس و روم ہیں جن سے جنگ کے لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعوت دی۔
۳۹ مسئلہ : یہ آیت شیخینِ جلیلین حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے صحتِ خلافت کی دلیل ہے کہ ان حضرات کی اطاعت پر جنّت کا اور انکی مخالفت پر جہنّم کا وعدہ دیا گیا۔
۴۱ جہاد کے رہ جانے میں۔ شانِ نزول : جب اوپر کی آیت نازل ہوئی تو جو لوگ اپاہج و صاحبِ عذر تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہمارا کیا حال ہو گا، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۴۲ کہ یہ عذر ظاہر ہے اور جہاد میں حاضر نہ ہونا ان کے لئے جائز ہے، کیونکہ نہ یہ لوگ دشمن پر حملہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، نہ اس کے حملہ سے بچنے اور بھاگنے کی۔ انہیں کے حکم میں داخل ہیں وہ بڈھے، ضعیف جنہیں نشست و برخاست کی طاقت نہیں یا جنہیں د مہ کھانسی ہے یا جن کی تلّی بہت بڑھ گئی ہے اور انہیں چلنا، پھرنا دشوار ہے، ظاہر ہے کہ یہ عذر جہاد سے روکنے والے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی اعذار ہیں مثلاً غایت درجہ کی محتاجی اور سفر کے ضروری حوائج پر قدرت نہ رکھنا یا ایسے اشغالِ ضروریہ جو سفر سے مانع ہوں جیسے کسی ایسے مریض کی خدمت جس کی خدمت اس پر لازم ہے اور اس کے سوائے کوئی اس کا انجام دینے والا نہیں۔
۴۳ طاعت سے اعراض کرے گا اور کفر و نفاق پر رہے گا۔
۴۴ حدیبیہ میں چونکہ ان بیعت کرنے والوں کو رضائے الٰہی کی بشارت دی گئی اس لئے اس بیعت کو بیعتِ رضوان کہتے ہیں، اس بیعت کے سبب باسبابِ ظاہر یہ پیش آیا کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے حدیبیہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اشرافِ قریش کے پاس مکّہ مکرّمہ بھیجا کہ انہیں خبر دیں کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم بیت اللہ کی زیارت کے لئے بقصدِ عمرہ تشریف لائے ہیں، آپ کا ارادہ جنگ کا نہیں ہے اور یہ بھی فرما دیا تھا کہ جو کمزور مسلمان وہاں ہیں انہیں اطمینان دلا دیں کہ مکّہ مکرّمہ عنقریب فتح ہو گا اور اللہ تعالیٰ اپنے دِین کو غالب فرمائے گا، قریش اس بات پر متفق رہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اس سال تو تشریف نہ لائیں اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر آپ کعبہ معظّمہ کا طواف کرنا چاہیں تو کریں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں بغیر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے طواف کروں یہاں مسلمانوں نے کہا کہ عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے خوش نصیب ہیں جو کعبہ معظّمہ پہنچے اور طواف سے مشرف ہوئے، حضور نے صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ وہ ہمارے بغیر طواف نہ کریں گے، حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکّہ مکرّ مہ کے ضعیف مسلمانوں کو حسبِ حکم فتح کی بشارت بھی پہنچائی، پھر قریش نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روک لیا، یہاں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کر دیئے گئے، اس پر مسلمانوں کو بہت جوش آیا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے صحابہ سے کفّار کے مقابل جہاد میں ثابت رہنے پر بیعت لی، یہ بیعت ایک بڑے خار دار درخت کے نیچے ہوئی، جس کو عرب میں سَمُرَہ کہتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اپنا بایاں دستِ مبارک داہنے دستِ اقدس میں لیا اور فرمایا کہ یہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت ہے اور فرمایا یا رب عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیرے اور تیرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے کام میں ہیں۔ ا س واقعہ سے معلوم ہوتا کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو نورِ نبوّت سے معلوم تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید نہیں ہوئے جبھی تو ان کی بیعت لی، مشرکین اس بیعت کا حال سن کر خائف ہوئے اور انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیج دیا۔ حدیث شریف میں ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی ان میں سے کوئی بھی دوزخ میں داخل نہ ہو گا۔ ( مسلم شریف) اور جس درخت کے نیچے بیعت کی گئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو نا پدید کر دیا، سالِ آئندہ صحابہ نے ہر چند تلاش کیا کسی کو اس کا پتہ بھی نہ چلا۔
۴۶ یعنی فتحِ خیبر کا جو حدیبیہ سے واپس ہو کر چھ ماہ بعد حاصل ہوئی۔
۴۷ خیبر کی اور اہلِ خیبر کے اموال کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے تقسیم فرمائے۔
۴۸ اور تمہاری فتوحات ہوتی رہیں گی۔
۴۹ کہ وہ خائف ہو کر تمہارے اہل و عیال کو ضرر نہ پہنچا سکے۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ جب مسلمان جنگِ خیبر کے لئے روانہ ہوئے تو اہلِ خیبر کے حلیف بنی اسد و غطفان نے چاہا کہ مدینہ طیّبہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کے اہل و عیال کو لوٹ لیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈالا اور ان کے ہاتھ روک دیئے۔
۵۰ یہ غنیمت دینا اور دشمنوں کے ہاتھ روک دینا۔
۵۱ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے اور کام اس پر مفوَّض کرنے کی جس سے بصیرت و یقین زیادہ ہو۔
۵۳ مراد اس سے یا مغانمِ فارس و روم ہیں یا خیبر جس کا اللہ تعالیٰ نے پہلے سے وعدہ فرمایا تھا اور مسلمانوں کو امیدِ کامیابی تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح دی۔ اور ایک قول یہ ہے کہ وہ فتحِ مکّہ ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ وہ ہر فتح ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا فرمائی۔
۵۴ یعنی اہلِ مکّہ یا اہلِ خیبر کے حلفائے اسد و غطفان۔
۵۵ مغلوب ہوں گے اور انہیں ہزیمت ہو گی۔
۵۶ کہ وہ مومنین کی مدد فرماتا ہے اور کافروں کو مقہور کرتا ہے۔
۵۸ روزِ فتحِ مکّہ، اور ایک قول یہ ہے کہ بطنِ مکّہ سے حدیبیہ مراد ہے۔ اور اس کے شانِ نزول میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اہلِ مکّہ میں سے اسّی۸۰ ہتھیار بند جوان جبلِ تنعیم سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے ارادہ سے اترے، مسلمانوں نے انہیں گرفتار کر کے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر کیا، حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے معاف فرمایا اور چھوڑ دیا۔
۶۰ وہاں پہنچنے سے اور اس کا طواف کرنے سے۔
۶۱ یعنی مقامِ ذبح سے جو حرم میں ہے۔
۶۵ یعنی مسلمان کافروں سے ممتاز ہو جاتے۔
۶۶ تمہارے ہاتھ سے قتل کرا کے اور تمہاری قید میں لا کر۔
۶۷ کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور حضور کے اصحاب کو کعبہ معظّمہ سے روکا۔
۶۸ کہ انہوں نے سالِ آئندہ آنے پر صلح کی، اگر وہ بھی کفّارِ قریش کی طرح ضد کرتے تو ضرور جنگ ہو جاتی۔
۶۹ کلمۂ تقویٰ سے مراد لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے۔
۷۰ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دِین اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی صحبت سے مشرّف فرمایا۔
۷۱ کافروں کا حال بھی جانتا ہے، مسلمانوں کا بھی، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں۔
۷۲ شانِ نزول : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے حدیبیہ کا قصد فرمانے سے قبل مدینہ طیّبہ میں خواب دیکھا تھا کہ آپ مع اصحاب کے مکّہ معظّمہ میں بامن داخل ہوئے اور اصحاب نے سر کے بال منڈائے، بعض نے ترشوائے، یہ خواب آپ نے اپنے اصحاب سے بیان فرمایا تو انہیں خوشی ہوئی اور انہوں نے خیال کیا کہ اسی سال وہ مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوں گے، جب مسلمان حدیبیہ سے بعد صلح کے واپس ہوئے اور اس سال مکّہ مکرّمہ میں داخلہ نہ ہوا تو منافقین نے تمسخر کیا، طعن کئے اور کہا کہ وہ خواب کیا ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اس خواب کے مضمون کی تصدیق فرمائی کہ ضرور ایسا ہو گا چنانچہ اگلے سال ایسا ہی ہوا اور مسلمان اگلے سال بڑے شان و شکوہ کے ساتھ مکّہ مکرّمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے۔
۷۵ یعنی یہ کہ تمہارا داخل ہونا اگلے سال ہے اور تم اسی سال سمجھے تھے اور تمہارے لئے یہ تاخیر بہتر تھی کہ اس کے باعث وہاں کے ضعیف مسلمان پامال ہونے سے بچ گئے۔
۷۷ فتحِ خیبر کہ فتحِ موعود کے حاصل ہونے تک مسلمانوں کے دل اس سے راحت پائیں، اس کے بعد جب اگلا سال آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خواب کا جلوہ دکھلایا اور واقعات اس کے مطابق رونما ہوئے، چنانچہ ارشاد فرماتا ہے۔
۷۸ خواہ وہ مشرکین کے دِین ہوں یا اہلِ کتاب کے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت عطا فرمائی اور اسلام کو تمام ادیان پر غالب فرما دیا۔
۷۹ اپنے حبیب محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی رسالت پر جیسا کہ فرماتا ہے۔
۸۱ جیسا کہ شیر شکار پر۔ اور صحابہ کا تشدّد کفّار کے ساتھ اس حد پر تھا کہ وہ لحاظ رکھتے تھے کہ ان کا بدن کسی کافر کے بدن سے نہ چھو جائے اور ان کے کپڑے سے کسی کافر کا کپڑا نہ لگنے پائے۔ (مدارک )
۸۲ ایک دوسرے پر محبّت و مہربانی کرنے والے ایسے کہ جیسے باپ بیٹے میں ہو اور یہ محبّت اس حد تک پہنچ گئی کہ جب ایک مومن دوسرے کو دیکھے تو فرطِ محبّت سے مصافحہ و معانقہ کرے۔
۸۳ کثرت سے نمازیں پڑھتے، نمازوں پر مداومت کرتے۔
۸۴ اور یہ علامت وہ نور ہے جو روزِ قیامت ان کے چہروں سے تاباں ہو گا، اس سے پہچانے جائیں گے کہ انہوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے لئے بہت سجدے کئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے چہروں میں سجدہ کا مقام ماہِ شب چہار دہم کی طرح چمکتا دمکتا ہو گا۔ عطاء کا قول ہے کہ شب کی دراز نمازوں سے انکے چہروں پر نور نمایاں ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جو رات کو نماز کی کثرت کرتا ہے صبح کو اس کا چہرہ خوب صورت ہو جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرد کا نشان بھی سجدہ کی علامت ہے۔
۸۶ یہ مثال ابتدائے اسلام اور اس کی ترقی کی بیان فرمائی گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم تنہا اٹھے، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے مخلصین اصحاب سے تقویّت دی۔ قتادہ نے کہا کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اصحاب کی مثال انجیل میں یہ لکھی ہے کہ ایک قوم کھیتی کی طرح پیدا ہو گی، وہ نیکیوں کا حکم کریں گے، بدیوں سے منع کریں گے، کہا گیا ہے کہ کھیتی حضور ہیں اور اس کی شاخیں اصحاب اور مومنین۔
۸۷ صحابہ سب کے سب صاحبِ ایمان و عملِ صالح ہیں، اس لئے یہ وعدہ سب ہی سے ہے۔