تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الفَتْح

صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ فتح مکہ والے سال اثناء سفر میں راہ چلتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی اونٹنی پر ہی سورہ فتح کی تلاوت کی اور ترجیع سے پڑھ رہے تھے۔ اگر مجھے لوگوں کے جمع ہو جانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں آپ کی تلاوت کی طرح ہی تلاوت کر کے تمہیں سنا دیتا۔

ذی قعدہ سنہ ٦ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عمرہ ادا کرنے کے ارادے سے مدینہ سے مکہ کو چلے لیکن راہ میں مشرکین مکہ نے روک دیا اور مسجد الحرام کی زیارت سے مانع ہوئے پھر وہ لوگ صلح کی طرف جھکے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس بات پر کہ اگلے سال عمرہ ادا کریں گے ان سے صلح کر لی جسے صحابہ کی ایک بڑی جماعت پسند نہ کرتی تھی جس میں خاص قابل ذکر ہستی حضرت عمر فاروق کی ہے آپ نے وہیں اپنی قربانیاں کیں اور لوٹ گئے جس کا پورا واقعہ ابھی اسی سورت کی تفسیر میں آ رہا ہے ، انشاء اللہ۔ پس لوٹتے ہوئے راہ میں یہ مبارک سورت آپ پر نازل ہوئی جس میں اس واقعہ کا ذکر ہے اور اس صلح کو بااعتبار نتیجہ فتح کہا گیا۔ ابن مسعود وغیرہ سے مروی ہے کہ تم تو فتح فتح مکہ کو کہتے ہو لیکن ہم صلح حدیبیہ کو فتح جانتے تھے۔ حضرت جابر سے بھی یہی مروی ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت براء فرماتے ہیں تم فتح مکہ کو فتح شمار کرتے ہو اور ہم بیعت الرضوان کے واقعہ حدیبیہ کو فتح گنتے ہیں۔ ہم چودہ سو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اس موقعہ پر تھے حدیبیہ نامی ایک کنواں تھا ہم نے اس میں سے پانی اپنی ضرورت کے مطابق لینا شروع کیا تھوڑی دیر میں پانی بالکل ختم ہو گیا ایک قطرہ بھی نہ بچا آخر پانی نہ ہونے کی شکایت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے کانوں میں پہنچی آپ اس کنویں کے پاس آئے اس کے کنارے بیٹھ گئے اور پانی کا برتن منگوا کر وضو کیا جس میں کلی بھی کی پھر کچھ دعا کی اور وہ پانی اس کنویں میں ڈلوا دیا تھوڑی دیر بعد جو ہم نے دیکھا تو وہ تو پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا ہم نے پیا جانوروں نے بھی پیا اپنی حاجتیں پوری کیں اور سارے برتن بھر لئے۔ مسند احمد میں حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھا تین مرتبہ میں نے آپ سے کچھ پوچھا آپ نے کوئی جواب نہ دیا اب تو مجھے سخت ندامت ہوئی اس امر پر کہ افسوس میں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو تکلیف دی آپ جواب دینا نہیں چاہتے اور میں خوامخواہ سر ہوتا رہا۔ پھر مجھے ڈر لگنے لگا کہ میری اس بے ادبی پر میرے بارے میں کوئی وحی آسمان سے نہ نازل ہو چنانچہ میں نے اپنی سواری کو تیز کیا اور آگے نکل گیا تھوڑی دیر گزری تھی کہ میں نے سنا کوئی منادی میرے نام کی ندا کر رہا ہے میں نے جواب دیا تو اس نے کہا چلو تمہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم یاد فرماتے ہیں اب تو میرے ہوش گم ہو گئے کہ ضرور کوئی وحی نازل ہوئی اور میں ہلاک ہوا جلدی جلدی حاضر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا گذشتہ شب مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ نے (انافتحنا) الخ ، تلاوت کی۔ یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی ہے حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں حدیبیہ سے لوٹتے ہوئے (لیغفرک لک اللہ) الخ ، نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھ پر ایک آیت اتاری گئی ہے جو مجھے روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھ سنائی صحابہ آپ کو مبارکباد دینے لگے اور کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ تو ہوئی آپ کے لئے ہمارے لئے کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت(لیدخل المومنین) سے (عظیما) تک نازل ہوئی (بخاری و مسلم) حضرت مجمع بن حارثہ انصاری جو قاری قرآن تھے فرماتے ہیں حدیبیہ سے ہم واپس آ رہے تھے کہ میں نے دیکھا کہ لوگ اونٹوں کو بھگائے لئے جا رہے ہیں پوچھا کیا بات ہے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے تو ہم لوگ بھی اپنے اونٹوں کو دوڑاتے ہوئے سب کے ساتھ پہنچے آپ اس وقت کراع الغمیم میں تھے جب سب جمع ہو گئے تو آپ نے یہ سورت تلاوت کر کے سنائی تھی ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا یہ فتح ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی جان ہے یہ فتح ہے ، خیبر کی تقسیم صرف انہی پر کی گئی جو حدیبیہ میں موجود تھے اٹھارہ حصے بنائے گئے کل لشکر پندرہ سو کا تھا جس میں تین سو گھوڑے سوار تھے پس سوار کو دوہرا حصہ ملا اور پیدل کو اکہرا۔ (ابو داؤد وغیرہ) حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں حدیبیہ سے آتے ہوئے ایک جگہ رات گزارنے کیلئے ہم اتر کر سو گئے تو ایسے سوئے کہ سورج نکلنے کے بعد جاگے ، دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی سوئے ہوئے ہیں ہم نے کہا آپ کو جگانا چاہیے کہ آپ خود جاگ گئے اور فرمانے لگے جو کچھ کرتے تھے کرو اور اسی طرح کرے جو سو جائے یا بھول جائے۔ اسی سفر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کہیں گم ہو گئی ہم ڈھونڈنے نکلے تو دیکھا کہ ایک درخت میں نکیل اٹک گئی ہے اور وہ رکی کھڑی ہے اسے کھول کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لائے آپ سوار ہوئے اور ہم نے کوچ کیا ناگہاں راستے میں ہی آپ پر وحی آنے لگی وحی کے وقت آپ پر بہت دشواری ہوتی تھی جب وحی ہٹ گئی تو آپ نے ہمیں بتایا کہ آپ پر سورہ (انا فتحنا) الخ ، اتری ہے (ابو داؤد ، ترمذی مسندوغیرہ) حضور صلی اللہ علیہ و سلم نوافل تہجد وغیرہ میں اس قدر وقت لگاتے کہ پیروں پر ورم چڑھ جاتا تو آپ سے کہا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف نہیں فرما دےئے؟ آپ نے جواب دیا کیا پھر میں اللہ کا شکر گزار غلام نہ بنوں ؟ (بخاری و مسلم) اور روایت میں ہے کہ یہ پوچھنے والی ام المومنین عائشہ تھیں (مسلم) پس مبین سے مراد کھلی صریح صاف ظاہر ہے اور فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس کی وجہ سے بڑی خیرو برکت حاصل ہوئی لوگوں میں امن و امان ہوا مومن کافر میں بول چال شروع ہو گئی علم اور ایمان کے پھیلانے کا موقعہ ملا آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی یہ آپ کا خاصہ ہے جس میں کوئی آپ کا شریک نہیں۔ ہاں بعض اعمال کے ثواب میں یہ الفاظ اوروں کے لئے بھی آئے ہیں ، اس میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بہت بڑی شرافت و عظمت ہے آپ اپنے تمام کاموں میں بھلائی استقامت اور فرمانبرداری الٰہی پر مستقیم تھے ایسے کہ اولین و آخرین میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا آپ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ اکمل انسان اور دنیا اور آخرت میں کم اولاد آدم کے سردار اور رہبر تھے۔ اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سب سے زیادہ اللہ کے فرمانبردار اور سب سے زیادہ اللہ کے احکام کا لحاظ کرنے والے تھے اسی لئے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی تو آپ نے فرمایا اسے ہاتھیوں کے روکنے والے نے روک لیا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آج یہ کفار مجھ سے جو مانگیں گے دوں گا بشرطیکہ اللہ کی حرمت کی ہتک نہ ہو پس جب آپ نے اللہ کی مان لی اور صلح کو قبول کر لیا تو اللہ عز و جل نے فتح سورت اتاری اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمتیں آپ پر پوری کیں اور شرع عظیم اور دین قدیم کی طرف آپ کی رہبری کی اور آپ کے خشوع و خضوع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلند و بالا کیا آپ کی تواضع ، فروتنی، عاجزی اور انکساری کے بدلے آپ کو عزو جاہ مرتبہ منصب عطا فرمایا آپ کے دشمنوں پر آپ کو غلبہ دیا چنانچہ خود آپ کا فرمان ہے بندہ درگزر کرنے سے عزت میں بڑھ جاتا ہے اور عاجزی اور انکساری کرنے سے بلندی اور عالی رتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب کا قول ہے کہ تو نے کسی کو جس نے تیرے بارے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہو ایسی سز انہیں دی کہ تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے۔

 

۴

اطمینان و رحمت

سکینہ کے معنی ہیں اطمینان رحمت اور وقار کے فرمان ہے کہ حدیبیہ والے دن جن باایمان صحابہ نے اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مان لی اللہ نے ان کے دلوں کو مطمئن کر دیا اور ان کے ایمان اور بڑھ گئے اس سے حضرت امام بخاری وغیرہ ائمہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ دلوں میں ایمان بڑھتا ہے اور اسی طرح گھٹتا بھی ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کے لشکروں کی کمی نہیں وہ اگر چاہتا تو خود ہی کفار کو ہلاک کر دیتا۔ ایک فرشتے کو بھیج دیتا تو وہ ان سب کو برباد اور بے نشان کر دینے کے لئے بس تھا لیکن اس نے اپنی حکمت بالغہ سے ایمانداروں کو جہاد کا حکم دیا جس میں اس کی حجت بھی پوری ہو جائے اور دلیل بھی سامنے آ جائے اس کا کوئی کام علم و حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ ایمانداروں کو اپنی بہترین نعمتیں اس بہانے عطا فرمائے۔ پہلے یہ روایت گزر چکی ہے کہ صحابہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو مبارک باد دی اور پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے لئے کیا ہے؟ تو اللہ عز و جل نے یہ آیت اتاری کہ مومن مردو عورت جنتوں میں جائیں گے جہاں چپے چپے پر نہریں جاری ہیں اور جہاں وہ ابدالاباد تک رہیں گے اور اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ اور ان کی برائیاں دور اور دفع کر دے انہیں ان کی برائیوں کی سزا نہ دے بلکہ معاف فرما دے درگزر کر دے بخش دے پردہ ڈال دے رحم کرے اور ان کی قدر دانی کرے دراصل یہی اصل کامیابی ہے جیسے کہ اللہ عز و جل نے فرمایا (فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز) الخ، یعنی جو جہنم سے دور کر دیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا۔ پھر ایک اور وجہ اور غایت بیان کی جاتی ہے کہ اس لئے بھی کہ نفاق اور شرک کرنے والے مرد و عورت جو اللہ تعالیٰ کے احکام میں بد ظنی کرتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور اصحاب رسول کے ساتھ برے خیال رکھتے ہیں یہ ہیں ہی کتنے؟ آج نہیں تو کل ان کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا اس جنگ میں بچ گئے تو اور کسی لڑائی میں تباہ ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دراصل اس برائی کا دائرہ انہی پر ہے ان پر اللہ کا غضب ہے یہ رحمت الہی سے دور ہیں ان کی جگہ جہنم ہے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے دوبارہ اپنی قوت ، قدرت اپنے اور اپنے بندوں کے دشمنوں سے انتقام لینے کی طاقت کو ظاہر فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کے لشکر سب اللہ ہی کے ہیں اور اللہ تعالیٰ عزیز و حکیم ہے۔

 

۸

آنکھوں دیکھا گواہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو فرماتا ہے ہم نے تمہیں مخلوق پر شاہد بنا کر ، مومنوں کو خوشخبریاں سنانے والا کافروں کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اس آیت کی پوری تفسیر سورہ احزاب میں گزر چکی ہے۔ تاکہ اے لوگو اللہ پر اور اس کے نبی پر ایمان لاؤ اور اس کی عظمت و احترام کرو بزرگی اور پاکیزگی کو تسلیم کرو اور اس لئے کہ تم اللہ تعالیٰ کی صبح شام تسبیح کرو۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی تعظیم و تکریم بیان فرماتا ہے کہ جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ دراصل خود اللہ تعالیٰ سے ہی بیعت کرتے ہیں جیسے ارشاد ہے (من یطع الرسول فقد اطاع اللہ) یعنی جس نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کی اس نے اللہ کہا مانا اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے یعنی وہ ان کے ساتھ ہے ان کی باتیں سنتا ہے ان کا مکان دیکھتا ہے ان کے ظاہر باطن کو جانتا ہے پس دراصل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے سے ان سے بیعت لینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ، جیسے فرمایا (ان اللہ اشتری من المومنین) الخ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں اور ان کے بدلے میں جنت انہیں دے دی ہے وہ راہ اللہ میں جہاد کرتے ہیں مرتے ہیں اور مارتے ہیں اللہ کا یہ سچا وعدہ تورات و انجیل میں بھی موجود ہے اور اس قرآن میں بھی سمجھ لو کہ اللہ سے زیادہ سچے وعدے والا کون ہو گا ؟ پس تمہیں اس خرید فروخت پر خوش ہو جانا چاہیے دراصل سچی کامیابی یہی ہے ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جس نے راہ اللہ میں تلوار اٹھالی اس نے اللہ سے بیعت کر لی اور حدیث میں ہے حجراسود کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کھڑا کرے گا اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے دیکھے گا اور زبان ہو گی جس سے بولے گا اور جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہے اس کی گواہی دے گا اسے بوسہ دینے والا دراصل اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنے والا ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر فرماتا ہے جو بیعت کے بعد عہد شکنی کرے اس کا وبال خود اسی پر ہو گا اللہ کا وہ کچھ نہ بگاڑے گا اور جو اپنی بیعت کو نبھا جائے وہ بڑا ثواب پائے گا یہاں جس بیعت کا ذکر ہے وہ بیعت الرضوان ہے جو ایک ببول کے درخت تلے حدیبیہ کے میدان میں ہوئی تھی اس دن بیعت کرنے والے صحابہ کی تعداد تیرہ سو چودہ سو یا پندرہ سو تھی ٹھیک یہ ہے کہ چودہ سو تھی اس واقعہ کی حدیثیں ملاحظہ ہوں۔ بخاری شریف میں ہے ہم اس دن چودہ سو تھے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے آپ نے اس پانی میں ہاتھ رکھا پس آپ کی انگلیوں کے درمیان سے اس پانی کی سوتیں ابلنے لگیں۔ یہ حدیث مختصر ہے اس حدیث سے جس میں ہے کہ صحابہ سخت پیاسے ہوئے پانی تھا نہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر دیا انہوں نے جا کر حدیبیہ کے کنویں میں اسے گاڑ دیا اب تو پانی جوش کے ساتھ ابلنے لگا یہاں تک کہ سب کو کافی ہو گیا حضرت جابر سے پوچھا گیا کہ اس روز تم کتنے تھے ؟ فرمایا چودہ سو لیکن اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو پانی اس قدر تھا کہ سب کو کافی ہو جاتا ، بخاری کی روایت میں ہے کہ”پندرہ سو تھے” حضرت جابر سے ایک روایت میں پندرہ سو بھی مروی ہے ، امام بیہقی فرماتے ہیں فی الواقع تھے تو پندرہ سو اور یہی حضرت جابر کا قول تھا پھر آپ کو کچھ وہم سا ہو گیا اور چودہ سو فرمانے لگے ابن عباس سے مروی ہے کہ سوا پندرہ سو تھے۔ لیکن آپ سے مشہور روایت چودہ سو کی ہے اکثر راویوں اور اکثر سیرت نویس بزرگوں کا یہی قول ہے کہ چودہ سو تھے ایک روایت میں ہے اصحاب شجرہ چودہ سو تھے اور اس دن آٹھواں حصہ مہاجرین کا مسلمان ہوا۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ حدیبیہ والے سال رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھ سات سو صحابہ کو لے کر زیارت بیت اللہ کے ارادے سے مدینہ سے چلے قربانی کے ستر اونٹ بھی آپ کے ہمراہ تھے ہر دس اشخاص کی طرف سے ایک اونٹ ہاں حضرت جابر سے روایت ہے کہ آپ کے ساتھی اس دن چودہ سو تھے ابن اصحاق اسی طرح کہتے ہیں اور یہ ان کے اوہام میں شمار ہے ، بخاری و مسلم جو محفوظ ہے وہ یہ کہ ایک ہزار کئی سو تھے جیسے ابھی آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس بیعت کا سبب سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر کو بلوایا کہ آپ کو مکہ بھیج کر قریش کے سرداروں سے کہلوائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم لڑائی بھڑائی کے ارادے سے نہیں آئے بلکہ آپ بیت اللہ شریف کے عمرے کے لئے آئے ہیں لیکن حضرت عمر نے فرمایا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے خیال سے تو اس کام کے لئے آپ حضرت عثمان کو بھیجیں کیونکہ مکہ میں میرے خاندان میں سے کوئی نہیں یعنی بنوعدی بن کعب کا قبیلہ نہیں جو میری حمایت کرے آپ جانتے ہیں کہ قریش سے میں نے کتنی کچھ اور کیا کچھ دشمنی کی ہے اور وہ مجھ سے وہ کس قدر خار کھائے ہوئے ہیں مجھے تو وہ زندہ ہی نہیں چھوڑیں گے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس رائے کو پسند فرما کر جناب عثمان ذوالنورین کو ابو سفیان اور سرداران قریش کے پاس بھیجا آپ جاہی رہے تھے کہ راستے میں یا مکہ میں داخل ہوتے ہی ابان بن سعید بن عاص مل گیا اور اس نے آپ کو اپنے آگے سواری پر بٹھا لیا اپنی امان میں انہیں اپنے ساتھ مکہ میں لے گیا آپ قریش کے بڑوں کے پاس گئے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا پیغام پہنچایا انہوں نے کہا کہ اگر آپ بیت اللہ شریف کا طواف کرنا چاہیں تو کر لیجئے آپ نے جواب دیا کہ یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے میں طواف کر لوں ، اب ان لوگوں نے جناب ذوالنورین کو روک لیا ادھر لشکر اسلام میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ حضرت عثمان کو شہید کر ڈالا گیا ، اس وحشت اثر خبر نے مسلمانوں کو اور خود رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو بڑا صدمہ پہنچایا اور آپ نے فرمایا کہ اب تو ہم بغیر فیصلہ کئے یہاں سے نہیں ہٹیں گے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو بلوایا اور ان سے بیعت لی ایک درخت تلے یہ بیعت الرضوان ہوئی۔ لوگ کہتے ہیں یہ بیعت موت پر لی تھی یعنی لڑتے لڑتے مر جائیں گے لیکن حضرت جابر کا بیان ہے کہ موت پر بیعت نہیں لی تھی بلکہ اس اقرار پر کہ ہم لڑائی سے بھاگیں گے نہیں جتنے مسلمان صحابہ اس میدان میں تھے سب نے آپ سے بہ رضامندی بیعت کی سوائے جد بن قیس کے جو قبیلہ بنو سلمہ کا ایک شخص تھا یہ اپنی اونٹنی کی آڑ میں چھپ گیا پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کو معلوم ہو گیا کہ حضرت عثمان کی شہادت کی افواہ غلط تھی اس کے بعد قریش نے سہیل بن عمرو، حویطب بن عبدالعزیٰ اور مکرز بن حفص کو آپ کے پاس بھیجا یہ لوگ ابھی یہیں تھے کہ بعض مسلمانوں اور بعض مشرکوں میں کچھ تیز کلامی شروع ہو گئی نوبت یہاں تک پہنچی کہ سنگ باری اور تیر باری بھی ہوئی اور دونوں طرف کے لوگ آمنے سامنے ہو گئے ادھر ان لوگوں نے حضرت عثمان وغیرہ کو روک لیا ادھر یہ لوگ رک گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منادی نے ندا کر دی کہ روح القدس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور بیعت کا حکم دے گئے آؤ اللہ کا نام لے کر بیعت کر جاؤ اب کیا تھا مسلمان بے تابانہ دوڑے ہوئے حاضر ہوئے آپ اس وقت درخت تلے تھے سب نے بیعت کی اس بات پر کہ وہ ہرگز ہرگز کسی صورت میں میدان سے منہ موڑنے کا نام نہ لیں گے اس سے مشرکین کانپ اٹھے اور جتنے مسلمان ان کے پاس تھے سب کو چھوڑ دیا اور صلح کی درخواست کرنے لگے۔ بیہقی میں ہے کہ بیعت کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا الٰہی عثمان تیرے اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے کام کو گئے ہوئے ہیں پس آپ نے خود اپنا ایک ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھا گویا حضرت عثمان کی طرف سے بیعت کی۔ پس حضرت عثمان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ ان کے اپنے ہاتھ سے بہت افضل تھا۔ اس بیعت میں سب سے پہل کرنے والے حضرت ابو سنان اسدی تھے رضی اللہ عنہ۔ انہوں نے سب سے آگے بڑھ کر فرمایا حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں بیعت کر لوں آپ نے فرمایا کس بات پر بیعت کرتے ہو ؟ جواب دیا جو آپ کے دل میں ہو اس پر آپ کے والد کا نام وہب تھا صحیح بخاری میں شریف میں حضرت نافع سے مروی ہے کہ لوگ کہتے ہیں حضرت عمر کے لڑکے حضرت عبد اللہ نے اپنے والد سے پہلے اسلام قبول کیا دراصل واقعہ یوں نہیں۔ بات یہ ہے کہ حدیبیہ والے سال حضرت عمر نے اپنے صاحبزادے حضرت عبد اللہ کو ایک انصاری کے پاس بھیجا کہ جا کر اپنے گھوڑے لے آؤ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں سے بیعت لے رہے تھے حضرت عمر کو اس کا علم نہ تھا یہ اپنے طور پوشیدگی سے لڑائی کی تیاریاں کر رہے تھے۔ حضرت عبد اللہ نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے تو یہ بیعت سے مشرف ہوئے پھر گھوڑا لینے گئے اور گھوڑا لا کر حضرت عمر کے پاس آئے اور کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم بیعت لے رہے ہیں اب جناب فاروق آئے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کی اس بنا پر لوگ کہتے ہیں کہ بیٹے کا اسلام باپ سے پہلے کا ہے۔ بخاری کی دوسری روایت میں ہے لوگ الگ الگ درختوں تلے آرام کر رہے تھے کہ حضرت عمر نے دیکھا کہ ہر ایک کی نگاہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر ہیں اور لوگ آپ کو گھیرے ہوئے ہیں حضرت عبد اللہ سے فرمایا جاؤ ذرا دیکھو تو کیا ہو رہا ہے ؟ یہ آئے دیکھا کہ بیعت ہو رہی ہے تو بیعت کر لی پھر جا کر حضرت عمر کو خبر کی چنانچہ آپ بھی فوراً آئے اور بیعت سے مشرف ہوئے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ جب ہم نے بیعت کی ہے اس وقت حضرت عمر فاروق آپ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور آپ ایک ببول کے درخت تلے تھے۔ حضرت معقل بن یسار کا بیان ہے کہ اس موقعہ پر درخت کی ایک جھکی ہوئی شاخ کو آپ کے سر سے اوپر کو اٹھا کر میں تھامے ہوئے تھا ہم نے آپ سے موت پربیعت نہیں کی بلکہ نہ بھاگنے پر۔ حضرت سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں ہم نے مرنے پر بیعت کی تھی آپ فرماتے ہیں ایک مرتبہ بیعت کر کے میں ہٹ کر ایک طرف کو کھڑا ہو گیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا سلمہ تم بیعت نہیں کرتے ؟ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں نے تو بیعت کر لی آپ نے فرمایا خیر آؤ بیعت کرو چنانچہ میں نے قریب جا کر پھر بیعت کی۔ حدیبیہ کا وہ کنواں جس کا ذکر اوپر گزرا صرف اتنے پانی کا تھا کہ پچاس بکریاں بھی آسودہ نہ ہو سکیں آپ فرماتے ہیں کہ دوبارہ بیعت کر لینے کے بعد آپ نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ میں بے سپر ہوں تو آپ نے مجھے ایک ڈھال عنایت فرمائی پھر لوگوں سے بیعت لینی شروع کر دی پھر آخری مرتبہ میری طرف دیکھ کر فرمایا سلمہ تم بیعت نہیں کرتے ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پہلی مرتبہ جن لوگوں نے بیعت کی میں نے ان کے ساتھ ہی بیعت کی تھی پھر بیچ میں دوبارہ بیعت کر چکا ہوں آپ نے فرمایا اچھا پھر سہی چنانچہ اس آخری جماعت کے ساتھ بھی میں نے بیعت کی آپ نے پھر میری طرف دیکھ کر فرمایا سلمہ تمہیں ہم نے جو ڈھال دی تھی وہ کیا ہوئی؟ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عامر سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ان کے پاس دشمن کا وار روکنے والی کوئی چیز نہیں میں نے وہ ڈھال انہیں دے دی تو آپ ہنسے اور فرمایا تم بھی اس شخص کی طرح ہو جس نے اللہ سے دعا کی کہ اے الٰہی میرے پاس کسی ایسے کو بھیج دے جو مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہو۔ پھر اہل مکہ سے صلح کی تحریک کی آمدورفت ہوئی اور صلح ہو گئی میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ کا خادم تھا ان کے گھوڑے کی اور ان کی خدمت کیا کرتا تھا وہ مجھے کھانے کو دے دیتے تھے میں تو اپنا گھر بار بال بچے مال دولت سب راہ اللہ میں چھوڑ کر ہجرت کر کے چلا آیا تھا ، جب صلح ہو چکی ادھر کے لوگ ادھر ادھر کے ادھر آنے لگے تو میں ایک درخت تلے جا کر کانٹے وغیرہ ہٹا کر اس کی جڑ سے لگ کر سو گیا اچانک مشرکین مکہ میں سے چار شخص وہیں آئے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں کچھ گستاخانہ کلمات سے آپس میں باتیں کرنے لگے مجھے بڑا برا معلوم ہوا میں وہاں سے اٹھ کر دوسرے درخت تلے چلا گیا ، اب لوگوں نے اپنے ہتھیار اتارے درخت پر لٹکا کر وہاں لیٹ گئے تھوڑی دیر گزری ہو گی جو میں نے سنا کہ وادی کے نیچے کے حصہ سے کوئی منادی ندا کر رہا ہے کہ اے مہاجر بھائیو حضرت دہیم قتل کر دئیے گئے میں نے جھٹ سے تلوار تان لی اور اسی درخت تلے گیا جہاں چاروں سوئے ہوئے تھے جاتے ہی پہلے تو ان کے ہتھیار قبضے میں کئے اور اپنے ایک ہاتھ میں انہیں دبا کر دوسرے ہاتھ سے تلوار تول کر ان سے کہا سنو اس اللہ کی قسم جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو عزت دی ہے تم میں سے جس نے بھی سر اٹھا یا میں اس کا سر قلم کر دونگا جب وہ اسے مان چکے میں نے کہا اٹھو اور میرے آگے آگے چلو چنانچہ ان چاروں کو لے کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا ادھر میرے چچا حضرت عامر بھی مکرز نامی عبلات کے ایک مشرک کو گرفتار کر کے لائے اور بھی اسی طرح کے ستر مشرکین حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر کئے گئے تھے آپ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا انہیں چھوڑ دو برائی کی ابتداء بھی انہی کے سر رہے اور پھر اس کی تکرار کے ذمہ دار بھی یہی رہیں چنانچہ ان سب کو رہا کر دیا گیا اسی کا بیان آیت (وھوا لذی کف ایدیھم عنکم) الخ ، میں ہے۔ حضرت سعید بن مسیب کے والد بھی اس موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے آپ کا بیان ہے کہ اگلے سال جب ہم حج کو گئے تو اس درخت کی جگہ ہم پر پوشیدہ رہی ہم معلوم نہ کر سکے کہ کس جگہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر ہم نے بیعت کی تھی اب اگر تم پر یہ پوشیدگی کھل گئی ہو تو تم جانو ایک روایت میں حضرت جابر سے مروی ہے کہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آج زمین پر جتنے ہیں ان سب پر افضل تم لوگ ہو۔ آپ فرماتے ہیں اگر میری آنکھیں ہوتیں تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھا دیتا ، حضرت سفیان فرماتے ہیں اس جگہ کی تعین میں بڑا اختلاف ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ جن لوگوں نے اس بیعت میں شرکت کی ہے ان میں سے کوئی جہنم میں نہیں جائے گا (بخاری و مسلم) اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جن لوگوں نے اس درخت تلے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے سب جنت میں جائیں گے مگر سرخ اونٹ والا ہم جلدی دوڑے دیکھا تو ایک شخص اپنے کھوئے ہوئے اونٹ کی تلاش میں تھا ہم نے کہا چل بیعت کر اس نے جواب دیا کہ بیعت سے زیادہ نفع تو اس میں ہے کہ میں اپنا گم شدہ اونٹ پا لوں۔ مسند احمد میں ہے آپ نے فرمایا کون ہے جو ثنیۃ المرار پر چڑھ جائے اس سے وہ دور ہو جائے گا جو بنی اسرائیل سے دور ہوا پس سب سے پہلے قبیلہ خزرج کے ایک صحابی اس پر چڑھ گئے پھر تو اور لوگ بھی پہنچ گئے پھر آپ نے فرمایا تم سب بخشے جاؤ گے مگر سرخ اونٹ والا ہم اس کے پاس آئے اور اس سے کہا تیرے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے استغفار طلب کریں تو اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم مجھے میرا اونٹ مل جائے تو میں زیادہ خوش ہوں گا بہ نسبت اس کے کہ تمہارے صاحب میرے لئے استغفار کریں یہ شخص اپنا گم شدہ اونٹ ڈھونڈ رہا تھا حضرت حفصہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی یہ سنا کہ اس بیعت والے دوزخ میں داخل نہیں ہوں گے تو کہا ہاں ہوں گے آپ نے انہیں روک دیا تو مائی صاحبہ نے آیت (وان منکم الا واردھا) پڑھی یعنی تم میں سے ہر شخص کو اس پر وارد ہونا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کے بعد ہی فرمان باری ہے (ثم ننجی الذین) یعنی پھر ہم تقویٰ والوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل اس میں گرا دیں گے (مسلم) حضرت حاطب بن ابو بلتعہ کے غلام حضرت حاطب کی شکایت لے کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حاطب ضرور جہنم میں جائیں گے آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے وہ جہنمی نہیں وہ بدر میں اور حدیبیہ میں موجود رہا ان بزرگوں کی ثنا بیان ہو رہی ہے کہ یہ اللہ سے بیعت کر رہے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے اس بیعت کو توڑنے والا اپنا ہی نقصان کرنے والا ہے اور اسے پورا کرنے والا بڑے اجر کا مستحق ہے جیسے فرمایا (لقد رضی اللہ عنہ المومنین) الخ ، یعنی اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے راضی ہو گیا جبکہ انہوں نے درخت تلے تجھ سے بیعت کی ان کے دلی ارادوں کو اس نے جان لیا پھر ان پر دلجمعی نازل فرمائی اور قریب کی فتح سے انہیں سرفراز فرمایا۔

 

۱۱

مجاہدین کی کامیاب واپسی

جو اعراب لوگ جہاد سے جی چرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ چھوڑ کر موت کے ڈر کے مارے گھر سے نہ نکلتے تھے اور جانتے تھے کہ کفر کی زبردست طاقت ہمیں چکنا چور کر دے گی اور جو اتنی بڑی جماعت سے ٹکر لینے گئے ہیں یہ تباہ ہو جائیں گے بال بچوں کو ترس جائیں گے اور وہیں کاٹ ڈالے جائیں گے جب انہوں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم معہ اپنی پاکباز مجاہدین کی جماعت کے ہنسی خوشی واپس آ رہے ہیں تو اپنے دل میں مسودے گانٹھنے لگے کہ اپنی مشیخت بنی رہے یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو پہلے ہی سے خبردار کر دیا کہ یہ بد باطن لوگ آ کر اپنے ضمیر کے خلاف اپنی زبان کو حرکت دیں گے اور عذر پیش کریں گے کہ حضور بال بچوں اور کام کاج کی وجہ سے نکل نہ سکے ورنہ ہم تو ہر طرح تابع فرمان ہیں ہماری جان تک حاضر ہے اپنی مزید ایمان داری کے اظہار کے لئے یہ بھی کہہ دیں گے کہ حضرت آپ ہمارے لئے استغفار کیجئے۔ تو آپ انہیں جواب دے دینا کہ تمہارا معاملہ سپرد اللہ ہے وہ دلوں کے بھید سے واقف ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچائے تو کون ہے جو اسے دفع کر سکے ؟ اور اگر وہ تمہیں نفع دینا چاہے تو کون ہے جو اسے روک سکے ؟ تصنع اور بناوٹ سے تمہاری ایمانداری اور نفاق سے وہ بخوبی آگاہ ہے ایک ایک عمل سے وہ باخبر ہے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں دراصل تمہارا پیچھے رہ جانا کسی عذر کے باعث نہ تھا بلکہ بطور نافرمانی کے ہی تھا۔ صاف طور پر تمہارا نفاق اس کے باعث تھا تمہارے دل ایمان سے خالی ہیں اللہ پر بھروسہ نہیں رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت میں بھلائی کا یقین نہیں اس وجہ سے تمہاری جانیں تم پر گراں ہیں تم اپنی نسبت تو کیا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت بھی یہی خیال کرتے تھے کہ یہ قتل کر دئیے جائیں گے ان کی بھوسی اڑا دی جائے گی ان میں سے ایک بھی نہ بچ سکے گا جو ان کی خبر تو لا کر دے ، ان بد خیالیوں نے تمہیں نامرد بنا رکھا تھا تم دراصل برباد شدہ لوگ ہو کہا گیا ہے کہ بورالغت عمان ہے جو شخص اپنا عمل خالص نہ کرے اپنا عقیدہ مضبوط نہ بنا لے اسے اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ میں عذاب کرے گا گو دنیا میں وہ بہ خلاف اپنے باطن کے ظاہر کرتے رہے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ملک اپنی شہنشاہی اور اپنے اختیارات کا بیان فرماتا ہے کہ مالک و متصرف وہی ہے بخشش اور عذاب پر قادر وہ ہے لیکن ہے غفور اور رحیم جو بھی اس کی طرف جھکے وہ اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور جو اس کا در کھٹکھٹائے وہ اس کے لئے اپنا دروازہ کھول دیتا ہے خواہ کتنے ہی گناہ کئے ہوں جب توبہ کرے اللہ قبول فرما لیتا ہے اور گناہ بخش دیتا ہے بلکہ رحم اور مہربانی سے پیش آتا ہے۔

 

۱۵

مال غنیمت کے طالب

ارشاد الٰہی ہے کہ جن بدوی لوگوں نے حدیبیہ میں اللہ کے رسول اور صحابہ کا ساتھ نہ دیا وہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اور ان صحابہ کو خیبر کی فتح کے موقع پر مال غنیمت سمیٹنے کے لئے جاتے ہوئے دیکھیں گے تو آرزو کریں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے لو ، مصیبت کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے راحت کو دیکھ کر شامل ہو نا چاہتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ انہیں ہرگز ساتھ نہ لینا جب یہ جنگ سے جی چرائیں تو پھر غنیمت میں حصہ کیوں لیں ؟ اللہ تعالیٰ نے خیبر کی غنیمتوں کا وعدہ اہل حدیبیہ سے کیا ہے نہ کہ ان سے جو کٹھن وقت پر ساتھ نہ دیں اور آرام کے وقت مل جائیں ان کی چاہت ہے کہ کلام الٰہی کو بدل دیں یعنی اللہ نے تو صرف حدیبیہ کی حاضری والوں سے وعدہ کیا تو یہ چاہتے ہیں کہ باوجود اپنی غیر حاضری کے اللہ کے اس وعدے مل جائیں تاکہ وہ بھی بدلا ہوا ثابت ہو جائے ابن زید کہتے ہیں مراد اس سے یہ حکم الہی ہے (فان رجعک اللہ الیٰ طائفۃ منھم) الخ ، یعنی اے نبی اگر تمہیں اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے اور وہ تم سے جہاد کے لئے نکلنے کی اجازت مانگیں تو تم ان سے کہہ دینا کہ تم میرے ساتھ ہرگز نہ نکلو اور میرے ساتھ ہو کر کسی دشمن سے نہ لڑو تم وہی ہو کہ پہلی مرتبہ ہم سے پیچھے رہ جانے میں ہی خوش رہے پس اب ہمیشہ بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو لیکن اس قول میں نظر ہے اس لئے کہ یہ آیت سورہ برات کی ہے جو غزوہ تبوک کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور غزوہ تبوک غزوہ حدیبیہ کے بہت بعد کا ہے ابن جریج کا قول ہے کہ مراد اس سے ان منافقوں کا مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر جہاد سے باز رکھنا ہے فرماتا ہے کہ انہیں ان کی اس آرزو کا جواب دو کہ تم ہمارے ساتھ چلنا چاہو اس سے پہلے اللہ یہ وعدہ اہل حدیبیہ سے کر چکا ہے اس لئے تم ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے اب وہ طعنہ دیں گے کہ اچھا ہمیں معلوم ہو گیا تم ہم سے جلتے ہو تم نہیں چاہتے کہ غنیمت کا حصہ تمہارے سوا کسی اور کو ملے اللہ فرماتا ہے دراصل یہ ان کی ناسمجھی ہے اور اسی ایک پر کیا موقوف ہے یہ لوگ سراسر بے سمجھ ہیں۔

وہ سخت لڑاکا قوم جن سے لڑنے کی طرف یہ بلائے جائیں گے کونسی قوم ہے ؟ اس میں کئی اقوال ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد قبیلہ ہوازن ہے دوسرے یہ کہ اس سے مراد قبیلہ ثقیف ہے تیسرے یہ کہ اس سے مراد قبیلہ بنو حنیف ہے چوتھے یہ کہ اس سے مراد اہل فارس ہیں پانچویں یہ کہ اس سے مراد رومی ہیں چھٹے یہ کہ اس سے مراد بت پرست ہیں بعض فرماتے ہیں اس سے مراد کوئی خاص قبیلہ یا گروہ نہیں بلکہ مطلق جنگجو قوم مراد ہے جو ابھی تک مقابلہ میں نہیں آئی حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اس سے مراد کوئی خاص قبیلہ یا گروہ نہیں بلکہ مطلق جنگجو قوم مراد ہے جو ابھی تک مقابلہ میں نہیں آئی حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اس سے مراد کرو لوگ ہیں ایک مرفوع حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم ایک ایسی قوم سے نہ لڑو جن کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوں گی اور ناک بیٹھی ہوئی ہو گی ان کے منہ مثل تہ بہ تہ ڈھالوں کے ہوں گے حضرت سفیان فرماتے ہیں اس سے مراد ترک ہیں ایک حدیث میں ہے کہ تمہیں ایک قوم سے جہاد کرنا پڑے گا جن کی جوتیاں بال دار ہوں گی حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اس سے مراد کرد لوگ ہیں پھر فرماتا ہے کہ ان سے جہاد قتال تم پر مشروع کر دیا گیا ہے اور یہ حکم باقی ہی رہے گا اللہ تعالیٰ ان پر تمہاری مدد کرے گا یا یہ کہ وہ خودبخود بغیر لڑے بھڑے دین اسلام قبول کر لیں گے پھر ارشاد ہوتا ہے اگر تم مان لو گے اور جہاد کے لئے اٹھ کھڑے ہو جاؤ گے اور حکم کی بجا آوری کرو گے تو تمہیں بہت ساری نیکیاں ملیں گی اور اگر تم نے وہی کیا جو حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا یعنی بزدلی سے بیٹھے رہے جہاد میں شرکت نہ کی احکام کی تعمیل سے جی چرایا تو تمہیں المناک عذاب ہو گا۔ پھر جہاد کے ترک کرنے کے جو صحیح عذر ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے پس دو عذر تو وہ بیان فرمائے جو لازمی ہیں یعنی اندھا پن اور لنگڑا پن اور ایک عذر وہ بیان فرمایا جو عارضی ہے جیسے بیماری کہ چند دن رہی پھر چلی گئی۔ پس یہ بھی اپنی بیماری کے زمانہ میں معذور ہیں ہاں تندرست ہونے کے بعد یہ معذور نہیں پھر جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمانبردار جنتی ہے اور جو جہاد سے بے رغبتی کرے اور دنیا کی طرف سراسر متوجہ ہو جائے ، معاش کے پیچھے معاد کو بھول جائے اس کی سزا دنیا میں ذلت اور آخرت کی دکھ مار ہے۔

 

۱۸

چودہ سو صحابہ اور بیعت رضوان

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ بیعت کرنے والے چودہ سو کی تعداد میں تھے اور یہ درخت ببول کا تھا جو حدیبیہ کے میدان میں تھا ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن جب حج کو گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جگہ نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ تو جواب ملا کہ یہ وہی درخت ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت الرضوان ہوئی تھی۔ حضرت عبدالرحمن نے واپس آ کر یہ قصہ حضرت سعید بن مسیب سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا میرے والد صاحب بھی ان بیعت کرنے والوں میں تھے ان کا بیان ہے کہ بیعت کے دوسرے سال ہم وہاں گئے لیکن ہم سب کو بھلا دیا گیا وہ درخت ہمیں نہ ملا پھر حضرت سعید فرمانے لگے تعجب ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی زیادہ جاننے والے ہو۔ پھر فرمایا ہے ان کی دلی صداقت نیت وفا اور سننے اور ماننے والی عادت کو اللہ نے معلوم کر لیا پس ان کے دلوں میں اطمینان ڈال دیا اور قریب کی فتح انعام فرمائی۔ یہ فتح وہ صلح ہے جو حدیبیہ کے میدان میں ہوئی جس سے عام بھلائی حاصل ہوئی اور جس کے قریب ہی خیبر فتح ہوا پھر تھوڑے ہی زمانے کے بعد مکہ بھی فتح ہو گیا پھر اور قلعے اور علاقے بھی فتح ہو تے چلے گئے۔ اور وہ عزت و نصرت و فتح و ظفر و اقبال اور رفعت حاصل ہوئی کہ دنیا انگشت بدنداں حیران و پریشان رہ گئی۔ اسی لئے فرمایا کہ بہت سی غنیمتیں عطا فرمائے گا۔ سچے غلبہ والا اور کامل حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے ہم حدیبیہ کے میدان میں دوپہر کے وقت آرام کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منادی نے ندا کی کہ لوگو بیعت کے لئے آگے بڑھو روح القدس آ چکے ہیں۔ ہم بھاگے دوڑے حاضر حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہوئے آپ اس وقت ببول کے درخت تلے تھے ہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی جس کا ذکر آیت (لقد رضی اللہ) الخ ، میں ہے۔ حضرت عثمان کی طرف سے آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر خود ہی بیعت کر لی ، تو ہم نے کہا عثمان بڑے خوش نصیب رہے کہ ہم تو یہاں پڑے ہوئے ہیں اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے یہ سن کر جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بالکل ناممکن ہے کہ عثمان ہم سے پہلے طواف کر لے گو کئی سال تک وہاں رہے۔

 

۲۰

کفار کے بد ارادے ناکام ہوئے

ان بہت سی غنیمتوں سے مراد آپ کے زمانے اور بعد کی سب غنیمتیں ہیں جلدی کی غنیمت سے مراد خیبر کی غنیمت ہے اور حدیبیہ کی صلح ہے اس اللہ کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ کفار کے بد ارادوں کو اس نے پورا نہ ہونے دیا نہ مکے کے کافروں کے نہ ان منافقوں کے جو تمہارے پیچھے مدینے میں رہے تھے۔ نہ یہ تم پر حملہ اور ہو سکے نہ وہ تمہارے بال بچوں کو ستا سکے یہ اس لئے کہ مسلمان اس سے عبرت حاصل کریں اور جان لیں کہ اصل حافظ و ناصر اللہ ہی ہے پس دشمنوں کی کثرت اور اپنی قلت سے ہمت نہ ہار دیں اور یہ بھی یقین کر لیں کہ ہر کام کے انجام کا علم اللہ ہی کو ہے بندوں کے حق میں بہتری یہی ہے کہ وہ اس کے فرمان پر عامل رہیں اور اسی میں اپنی خیریت سمجھیں گو وہ فرمان بہ ظاہر خلاف طبع ہو ، بہت ممکن ہے کہ تم جسے ناپسند رکھتے ہو وہی تمہارے حق میں بہتر ہو وہ تمہیں تمہاری حکم بجا آوری اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور سچی جانثاری کی عوض راہ مستقیم دکھائے گا اور دیگر غنیمتیں اور فتح مندیاں بھی عطا فرمائے گا جو تمہارے بس کی نہیں لیکن اللہ خود تمہاری مدد کرے گا اور ان مشکلات کو تم پر آسان کر دے گا سب چیزیں اللہ کے بس میں ہیں وہ اپنا ڈر رکھنے والے بندوں کو ایسی جگہ سے روزیاں پہنچاتا ہے جو کسی کے خیال میں تو کیا؟ خود ان کے اپنے خیال میں بھی نہ ہوں اس غنیمت سے مراد خیبر کی غنیمت ہے جس کا وعدہ صلح حدیبیہ میں پنہاں تھا یا مکہ کی فتح تھی یا فارس اور روم کے مال ہیں یا وہ تمام فتوحات ہیں جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہوں گی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ مسلمانوں کو خوشخبری سناتا ہے کہ وہ کفار سے مرعوب اور خائف نہ ہوں اگر کافر مقابلہ پر آئے تو اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کی مدد کرے گا۔ اور ان بے ایمانوں کو شکست فاش دے گا یہ پیٹھ دکھائیں گے اور منہ پھیر لیں گے اور کوئی والی اور مددگار بھی انہیں نہ ملے گا اس لئے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے آئے ہیں اور اس کے ایماندار بندوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ پھر فرماتا ہے یہی اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ جب کفرو ایمان کا مقابلہ ہو وہ ایمان کو کفر پر غالب کرتا ہے اور حق کو ظاہر کر کے باطل کو دبا دیتا ہے جیسے کہ بدر والے دن بہت سے کافروں کو جا باسامان تھے چند مسلمانوں کے مقابلہ میں جو بے سرو سامان تھے شکست فاش دی۔ پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے میرے احسان کو بھی نہ بھولو کہ میں نے مشرکوں کے ہاتھ تم تک نہ پہنچنے دئیے اور تمہیں بھی مسجد حرام کے پاس لڑنے سے روک دیا اور تم میں اور ان میں صلے کرا دی جو دراصل تمہارے حق میں سراسر بہتری ہے کیا دنیا کے اعتبار سے اور کیا آخرت کے اعتبار سے وہ حدیث یاد ہو گی جو اسی سورت کی تفسیر میں بہ روایت حضرت سلمہ بن اکوع گزر چکی ہے کہ جب ستر کافروں کو باندھ کر صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپ نے فرمایا انہیں جانے دو ان کی طرف سے ہی ابتدا ہو اور انہی کی طرف سے دوبارہ شروع ہو اسی بابت یہ آیت اتری ، مسند احمد میں ہے کہ اسی کافر ہتھیاروں سے آراستہ جبل (تنعیم) کی طرف سے چپ چپاتے موقعہ پا کر اتر آئے لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم غافل نہ تھے آپ نے فوراً لوگوں کو آگاہ کر دیا سب گرفتار کر لئے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کئے گئے آپ نے ازراہ مہربانی ان کی خطا معاف فرما دی اور سب کو چھوڑ دیا ، اور نسائی میں بھی ہے حضرت عبد اللہ بن مغفل فرماتے ہیں جس درخت کا ذکر قرآن میں ہے اس کے نیچے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تھے ہم لوگ بھی آپ کے اردگرد تھے اس درخت کی شاخیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی کمر سے لگ رہی تھیں حضرت علی بن ابو طالب اور سہیل بن عمرو آپ کے سامنے تھے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھو اس پر سہیل نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ تھام لیا اور کہا ہم رحمن اور رحیم کو نہیں جانتے ہمارے اس صلح نامہ میں ہمارے دستور کے مطابق لکھوائیے ، پس آپ نے فرمایا (باسمک اللھم) لکھ لو۔ پھر لکھا یہ وہ ہے جس پر اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل مکہ سے صلح کی اس پر پھر سہیل نے آپ کا ہاتھ تھام کر کہا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں تو پھر ہم نے بڑا ظلم کیا اس صلح نامہ میں وہی لکھوائے جو ہم میں مشہور ہے تو آپ نے فرمایا لکھو یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اہل مکہ سے صلح کی اتنے میں تیس نوجوان کفار ہتھیار بند آن پڑے آپ نے ان کے حق میں بددعا کی اللہ نے انہیں بہرا بنا دیا ہم اٹھے اور ان سب کو گرفتار کو کے آپ کے سامنے پیش کر دیا۔ آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہیں کسی نے امن دیا ہے ـ؟ یا تم کسی کی ذمہ داری پر آئے ہو ؟ انہوں نے انکار کیا لیکن باوجود اس کے آپ نے ان سے درگزر فرمایا اور انہیں چھوڑ دیا اس پر یہ آیت (وھوالذی)ٌالخ ، نازل ہوئی (نسائی) ابن جریر میں ہے جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم قربانی کے جانور لے کر چلے اور ذوالحلیفہ تک پہنچ گئے تو حضرت عمر نے عرض کی اے نبی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ ایک ایسی قوم کی بستی میں جا رہے ہیں جو برسرپیکار ہیں اور آپ کے پاس نہ تو ہتھیار ہیں نہ اسباب ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر آدمی بھیج کر مدینہ سے سب ہتھیار اور کل سامان منگوا لیا جب آپ مکہ کے قریب پہنچ گئے تو مشرکین نے آپ کو روکا آپ مکہ نہ آئیں آپ کو خبر دی کہ عکرمہ بن ابوجہل پانچ سو کا لشکر لے کر آپ پر چڑھائی کرنے کے لئے آ رہا ہے آپ نے حضرت خالد بن ولید سے فرمایا اے خالد تیرا چچازاد بھائی لشکر لے کر آ رہا ہے حضرت خالد نے فرمایا پھر کیا ہوا؟ میں اللہ کی تلوار ہوں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اسی دن سے آپ کا لقب سیف اللہ ہوا۔ مجھے آپ جہاں چاہیں اور جس کے مقابلہ میں چاہیں بھیجیں چنانچہ عکرمہ کے مقابلہ کے لئے آپ روانہ ہوئے گھاٹی میں دونوں کی مڈبھیڑ ہوئی حضرت خالد نے ایسا سخت حملہ کیا کہ عکرمہ کے پاؤں نہ جمے اسے مکہ کی گلیوں تک پہنچا کر حضرت خالد واپس آ گئے لیکن پھر دوبارہ وہ تازہ دم ہو کر مقابلہ پر آیا اب کی مرتبہ بھی شکست کھا کر مکہ کی گلیوں میں پہنچ گیا وہ پھر تیسری مرتبہ نکلا اس مرتبہ بھی یہی حشر ہوا اسی کا بیان آیت (وھوالذی کف) الخ ، میں ہے ، پس اللہ تعالیٰ نے باوجود حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ظفر مندی کے کفار کو بھی بچا لیا تاکہ جو مسلمان ضعفاء اور کمزور مکہ میں تھے انہیں اسلامی لشکر کے ہاتھوں کوئی گزند نہ پہنچے لیکن اس روایت میں بہت کچھ نظر ہے ناممکن ہے کہ یہ حدیبیہ والے واقعہ کا ذکر ہو اس لئے کہ اس وقت تک تو حضرت خالد مسلمان ہی نہ ہوئے تھے بلکہ مشرکین کے طلایہ کے یہ اس دن سردار تھے جیسے کہ صحیح حدیث میں موجود ہے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ یہ واقعہ عمرۃ القضا کا ہو۔ اس لئے کہ حدیبیہ کے صلح نامہ کی شرائط کے مطابق یہ طے شدہ امر تھا کہ اگلے سال حضور صلی اللہ علیہ و سلم آئیں عمرہ ادا کریں اور تین دن تک مکہ میں ٹھہریں چنانچہ اسی قرارداد کے مطابق جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما ہوئے تو کافروں نے آپ کو روکا نہیں نہ آپ سے جنگ و جدال کیا۔ اسی طرح یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ یہ واقعہ فتح مکہ کا ہو اس لئے کہ فتح مکہ والے سال آپ اپنے ساتھ قربانیاں لے کر نہیں گئے تھے اس وقت تو آپ جنگی حیثیت سے گئے تھے لڑنے اور جہاد کرنے کی نیت سے تشریف لے گئے تھے پس اس روایت میں بہت کچھ خلل ہے اور اس میں ضرور قباحت واقع ہوئی ہے خوب سوچ لینا چاہیے واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس کے مولیٰ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ قریش نے اپنے چالیس یا پچاس آدمی بھیجے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے لشکر کے اردگرد گھومتے رہیں اور موقعہ پا کر کچھ نقصان پہنچائیں یا کسی کو گرفتار کر کے لے آئیں یہاں یہ سارے کے سارے پکڑے لئے گئے لیکن پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں معاف فرما دیا اور سب کو چھوڑ دیا انہوں نے آپ کے لشکر پر کچھ پتھر بھی پھینکے تھے اور کچھ تیر بازی کر کے ان کو شہید کر دیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ سوار ان کے تعاقب میں روانہ کئے وہ ان سب کو جو تعداد میں بارہ سو تھے گرفتار کر کے لے آئے آپ نے ان سے پوچھا کہ کوئی عہدو پیمان ہے ؟ کہا نہیں لیکن پھر بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں چھوڑ دیا اور اسی بارے میں آیت (وھوالذی کف ایدیھم عنکم) الخ ، نازل ہوئی۔

 

۲۵

مسجد حرام بیت اللہ کے اصل حقدار

مشرکین عرب جو قریش تھے اور جو ان کے ساتھ اس عہد پر تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جنگ کریں گے ان کی نسبت قرآن خبر دیتا ہے کہ دراصل یہ لوگ کفر پر ہیں انہوں نے ہی تمہیں مسجد حرام بیت اللہ شریف سے روکا ہے حالانکہ اصلی حقدار اور زیادہ لائق بیت اللہ کے تم ہی لوگ تھے پھر ان کی سرکشی اور مخالفت نے انہیں یہاں تک اندھا کر دیا کہ اللہ کی راہ کی قربانیوں کو بھی قربان گاہ تک نہ جانے دیا یہ قربانیاں تعداد میں ستر تھیں جیسے کہ عنقریب ان کا بیان آ رہا ہے ان شاء اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ سردست تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دینے میں یہ راز پوشیدہ تھے کہ ابھی چند کمزور مسلمان مکے میں ایسے ہیں جو ان ظالموں کی وجہ سے نہ اپنے ایمان کو ظاہر کر سکے ہیں نہ ہجرت کر کے تم میں مل سکے ہیں اور نہ تم انہیں جانتے ہو تو یوں دفعۃً اگر تمہیں اجازت دے دی جاتی اور تم اہل مکہ پر چھاپہ مارتے تو وہ سچے پکے مسلمان بھی تمہارے ہاتھوں شہید ہو جاتے اور بے علمی میں تم ہی مستحق گناہ اور مستحق دیت بن جاتے ، پاس ان کفار کی سزا کو اللہ نے کچھ اور پیچھے ہٹا دیا تاکہ ان کمزور مسلمانوں کو چھٹکارا مل جائے اور بھی جن کی قسمت میں ایمان ہے وہ ایمان لے آئیں۔ اگر یہ مومن ان میں نہ ہوتے تو یقیناً ہم تمہیں ان کفار پر ابھی اسی وقت غلبہ دے دیتے اور ان کا نام مٹا دیتے حضرت جنید بن سبیع فرماتے ہیں صبح کو میں کافروں کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے لڑ رہا تھا لیکن اسی شام کو اللہ تعالیٰ نے میرا دل پھیر دیا میں مسلمان ہو گیا اور اب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہو کر کفار سے لڑ رہا تھا ، ہمارے ہی بارے میں یہ آیت (لو لا رجال) الخ ، نازل ہوئی ہے ہم کل نو شخص تھے سات مرد و عورتیں (طبرانی) اور روایت میں ہے کہ ہم تین مرد تھے اور نو عورتیں تھیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اگر یہ مومن ان کافروں میں لے جلے نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ اسی وقت مسلمانوں کے ہاتھوں ان کافروں کو سخت سزا دیتا یہ قتل کر دئیے جاتے۔ پھر فرماتا ہے جبکہ یہ کافر اپنے دلوں میں غیرت و حمیت جاہلیت کو جما چکے تھے صلح نامہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے سے انکار کر دیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نام کے ساتھ لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لکھوانے سے انکار کیا ، پس اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے نبی اور مومنوں کے دل کھول دئیے ان پر اپنی سکینت نازل فرما کر انہیں مضبوط کر دیا اور تقوے کے کلمے پر انہیں جما دیا یعنی لا الہ الا اللہ پر جیسے ابن عباس کا فرمان ہے اور جیسے کہ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں موجود ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ لیں جس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا اس نے مجھ سے اپنے مال کو اور اپنی جان کو بچا لیا مگر حق اسلام کی وجہ سے اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ایک قوم کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا (انھم اذا قیل لھم لا الہ الا اللہ یستکبرون) یعنی ان سے کہا جاتا تھا کہ سوائے اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں تو یہ تکبر کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ جل ثناء وہ نے یہاں مسلمانوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ یہی اس کے زیادہ حقدار اور یہی اس کے قابل بھی تھے۔ یہ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے انہوں نے اس سے تکبر کے اور مشرکین قریش نے اسی سے حدیبیہ والے دن تکبر کیا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے ایک مدت معینہ تک کے لئے صلح نامہ مکمل کر لیا ، ابن جریر میں بھی یہ حدیث ان ہی زیادتیوں کے ساتھ مروی ہے لیکن بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پچھلے جملے راوی کے اپنے ہیں یعنی حضرت زہری کا قول ہے جو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ گویا حدیث میں ہی ہے مجاہد فرماتے ہیں اس سے مراد وہ اخلاص ہے عطا فرماتے ہیں وہ کلمہ یہ ہے (لا الہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ لہالملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر) حضرت فرماتے ہیں اس سے مراد (لا الہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ) ہے حضرت علی فرماتے ہیں اس سے (لا الہ الا اللہ واللہ اکبر) مراد ہے یہی قول حضرت ابن عمر کا حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ کی وحدانیت کی شہادت ہے جو تمام تقوے کی جڑ ہے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس سے مراد لا الہ الا اللہ بھی ہے اور جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے۔ حضرت عطا خراسانی فرماتے ہیں کلمہ تقویٰ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے حضرت زہری فرماتے ہیں بسم اللہ الرحمن الرحیم مراد ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں مراد لا الہ الا اللہ ہے پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے اسے معلوم ہے کہ مستحق خیر کون ہے ؟ اور مستحق شر کون ہے ؟ حضرت ابی بن کعب کی قرأت اسی طرح ہے (اذ جعل الذین کفرو فی قلوبھم الحمیتہ حمیتہ الجاھلیتہ ولو حمیتم کما حموا الفسد المسجد الحرام) یعنی کافروں نے جس وقت اپنے دل میں جاہلانہ ضد پیدا کر لی اگر اس وقت تم بھی ان کی طرح ضد پر آ جاتے تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مسجد حرام میں فساد برپا ہو جاتا جب حضرت عمر کو اس قرأت کی خبر پہنچی تو بہت تیز ہوئے لیکن حضرت ابی نے فرمایا یہ تو آپ کو بھی معلوم ہو گا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتا جاتا رہتا تھا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ آپ کو سکھاتا تھا آپ اس میں سے مجھے بھی سکھاتے تھے اس پر جناب عمر فاروق نے فرمایا آپ ذی علم اور قرآن دان ہیں آپ کو جو کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سکھایا ہے وہ پڑھئے اور سکھائیے (نسائی)”ان احادیث کا بیان جن میں حدیبیہ کا قصہ اور صلح کا واقعہ ہے “مسند احمد میں حضرت مسور بن محزمہ اور حضرت مروان بن حکم فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زیارت بیت اللہ کے ارادے سے چلے آپ کا ارادہ جنگ کا نہ تھا ستر اونٹ قربانی کے آپ کے ساتھ تھے کل ساتھی آپ کے سات سو تھے ایک ایک اونٹ دس دس آدمیوں کی طرف سے تھا آپ جب عسفان پہنچے تو بشر بن سفیان کعبی نے آپ کو خبر دی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قریشیوں نے آپ کے آنے کی خبر پا کر مقابلہ کی تیاریاں کر لی ہیں انہوں نے اونٹوں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے ساتھ لے لئے ہیں اور چیتے کی کھالیں پہن لی ہیں اور عہد و پیمان کر لئے ہیں کہ وہ آپ کو اس طرح جبراً مکہ میں نہیں آنے دیں گے خالد بن ولید کو انہوں نے چھوٹا سا لشکر دے کر کراع غمیم تک پہنچا دیا یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا افسوس قریشیوں کو لڑائیوں نے کھا لیا کتنی اچھی بات تھی کہ وہ مجھے اور لوگوں کو چھوڑ دیتے اگر وہ مجھ پر غالب آ جاتے تو ان کا مقصود پورا ہو جاتا اور اگر اللہ تعالیٰ مجھے اور لوگوں پر غالب کر دیتا تو پھر یہ لوگ بھی دین اسلام کو قبول کر لیتے اور اگر اس وقت بھی اس دین میں نہ آنا چاہتے تو مجھ سے لڑتے اور اس وقت ان کی طاقت بھی پوری ہوتی قریشیوں نے کیا سمجھ رکھا ہے ؟ قسم اللہ اس دین پر میں ان سے جہاد کرتا رہوں گا اور ان سے مقابلہ کرتا رہوں گا یہاں تک کہ یا تو اللہ مجھے ان پر کھلم کھلا غلبہ عطا فرما دے یا میری گردن کٹ جائے پھر آپ نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ دائیں طرف حمص کے پیچھے سے اس راستہ پر چلیں جو (ثنیۃ المرار) کو جاتا ہے اور حدیبیہ مکہ کے نیچے کے حصے میں ہے۔ خالد والے لشکر نے جب دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے راستہ بدل دیا ہے تو یہ دوڑے ہوئے قریشیوں کے پاس گئے اور انہیں اس کی خبر دی ، ادھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب (ثنیۃ المرار) میں پہنچے تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگ کہنے لگے اونٹنی تھک گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ یہ تھکی نہ اس کی بیٹھ جانے کی عادت اسے اس اللہ نے روک لیا ہے جس نے مکہ سے ہاتھیوں کو روک لیا تھا۔ سنو قریش آج مجھ سے جو چیز مانگیں گے جس میں صلہ رحمی ہو میں انہیں دوں گا پھر آپ نے لشکریوں کو حکم دیا کہ وہ پڑاؤ کریں انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس پوری وادی میں پانی نہیں آپ نے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر ایک صحابی کو دیا اور فرمایا اسے یہاں کے کسی کنویں میں گاڑ دو اس کے گاڑتے ہی پانی جوش مارتا ہوا ابل پڑا تمام لشکر نے پانی لے لیا اور وہ برابر بڑھتا چلا جا رہا تھا جب پڑاؤ ہو گیا اور وہ اطمینان سے بیٹھ گئے اتنے میں بدیل بن ورقہ اپنے ساتھ قبیلہ خزاعہ کے چند لوگوں کو لے کر آیا آپ نے اس سے بھی وہی فرمایا جو بشر بن سفیان سے فرمایا تھا چنانچہ یہ لوٹ گیا اور جا کر قریش سے کہا کہ تم لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں بڑی عجلت کی حضور صلی اللہ علیہ و سلم تم سے لڑنے کو نہیں آئے آپ تو صرف بیت اللہ کی زیارت کرنے اور اس کی عزت کرنے کو آئے ہیں تم اپنے فیصلے پر دوبارہ نظر ڈالو دراصل قبیلہ خزاعہ کے مسلم و کافر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طرفدار تھے مکہ کی خبریں انہی لوگوں سے آپ کو پہنچا کرتی تھی قریشیوں نے انہیں جواب دیا کہ گو آپ اسی ارادے سے آئے ہوں لیکن یوں اچانک تو ہم انہیں یہاں نہیں آنے دیں گے ورنہ لوگوں میں تو یہی باتیں ہوں گی کہ آپ مکہ گئے اور کوئی آپ کو روک نہ سکا انہوں نے پھر مکرز بن حفص کو بھیجا یہ بنو عامر بن لوئی کے قبیلے میں سے تھا اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ عہد شکن شخص ہے اور اس سے بھی آپ نے وہی فرمایا جو اس سے پہلے آنے والے دونوں اور شخصوں سے فرمایا تھا یہ بھی لوٹ گیا اور جا کر قریشیوں سے سارا واقعہ بیان کر دیا قریشیوں نے پھر حلیس بن علقمہ کنانی کو بھیجا یہ ادھر ادھر کے مختلف لوگوں کا سردار تھا اسے دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ اس قوم سے ہے جو اللہ کے کاموں کی عظمت کرتی ہے اپنی قربانی کے جانوروں کو کھڑا کر دو۔ اس نے جو دیکھا کہ ہر طرف سے قربانی کے نشان دار جانور آ جا رہے ہیں اور رک جانے کی وجہ سے ان کے بال اڑے ہوئے ہیں یہ تو وہیں سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے بغیر لوٹ گیا اور جا کر قریش سے کہا کہ اللہ جانتا ہے تمہیں حلال نہیں کہ تم انہیں بیت اللہ سے روکو اللہ کے نام کے جانور قربان گاہ سے رکے کھڑے ہیں یہ سخت ظلم ہے۔ اتنے دن رکے رہنے سے ان کے بال تک اڑ گئے ہیں میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آ رہا ہوں قریش نے کہا تو تو نرا اعرابی ہے خاموش ہو کر بیٹھ جا اب انہوں نے مشورہ کر کے عروہ بن مسعود ثقفی کو بھیجا عروہ نے اپنے جانے سے پہلے کہا کہ اے قریشیو جن جن کو تم نے وہاں بھیجا وہ جب واپس ہوئے تو ان سے تم نے کیا سلوک کیا یہ میں دیکھ رہا ہوں تم نے انہیں برا کہا ان کی بے عزتی کی ان پر تہمت رکھی ان سے بد گمانی کی میری حالت تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہیں مثل باپ کے سمجھتا ہوں تم خوب جانتے ہو کہ جب تم نے ہائے وائے کی میں نے اپنی تمام قوم کو اکٹھا کیا اور جس نے میری بات مانی میں نے اسے اپنے ساتھ لیا اور تمہاری مدد کے لئے اپنی جان مال اور اپنی قوم کو لے کر آ پہنچا سب نے کہا بے شک آپ سچے ہیں ہمیں آپ سے کسی قسم کی بد گمانی نہیں آپ جائیے۔ اب یہ چلا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہنچ کر آپ کے سامنے بیٹھ کر کہنے لگا کہ آپ نے ادھر ادھر کے کچھ لوگوں کو جمع کر لیا ہے اور ائے ہیں اپنی قوم کی شان و شوکت کو آپ ہی توڑنے کے لئے۔ سنئے یہ قریشی ہیں آج یہ مصمم ارادہ کر چکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ ہیں جو چیتوں کی کھالیں پہنے ہوئے ہیں وہ اللہ کو بیچ میں رکھ کر عہد و پیمان کر چکے ہیں کہ ہرگز ہر گز آپ کو اس طرح اچانک زبردستی مکہ میں نہیں آنے دیں گے اللہ کی قسم مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ یہ لوگ جو اس وقت بھیڑ لگائے آپ کے اردگرد کھڑے ہوئے ہیں یہ لڑائی کے وقت ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گے ، یہ سن کر ابوبکر صدیق سے رہا نہ گیا آپ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے آپ نے کہا جالات کی وہ چوستا رہ ، ہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں؟ عروہ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا یہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا ابو قحافہ کے بیٹے تو کہنے لگا اگر مجھ پر تیرا احسان پہلے کا نہ ہوتا تو میں تجھے ضرور مزہ چکھاتا اس کے بعد عروہ نے پھر کچھ کہنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ڈاڑھی میں ہاتھ ڈالا اس کی اس بے ادبی کو حضرت مغیرہ بن شعبہ برداشت نہ کر سکے یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ہی کھڑے تھے لوہا ان کے ہاتھ میں تھا وہی اس کے ہاتھ پر مار کر فرمایا اپنا ہاتھ دور رکھ تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم کو چھو نہیں سکتا۔ یہ کہنے لگا تو بڑا ہی بد زبان اور ٹیڑھا آدمی ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تبسم فرمایا اس نے پوچھا یہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ تیرا بھتیجا مغیرہ بن شعبہ ہے ؟ تو کہنے لگا غدار تو تو کل طہارت بھی نہ جانتا تھا۔ الغرض اسے بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے وہی جواب دیا جو اس سے پہلے والوں کو فرمایا تھا اور یقین دلا دیا کہ ہم لڑنے نہیں آئے۔ یہ واپس چلا اور اس نے یہاں کا یہ نقشہ دیکھا تھا کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کس طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پروانے بنے ہوئے ہیں آپ کے وضو کا پانی وہ اپنے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں آپ کے تھوک کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے وہ ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں آپ کا کوئی بال گر پڑے تو ہر شخص لپکتا ہے کہ وہ اسے لے لے ، جب یہ قریشیوں کے پاس پہنچا تو کہنے لگا اے قریش کی جماعت کے لوگو!میں کسریٰ کے ہاں اس کے دربار میں ہو آیا ہوں اللہ کی قسم میں نے ان بادشاہوں کی بھی وہ عظمت اور وہ احترام نہیں دیکھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے آپ کے اصحاب تو آپ کی وہ عزت کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ ناممکن ہے اب تم سوچ سمجھ لو اور اس بات کو باور کر لو کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم ایسے نہیں کہ اپنے نبی کو تمہارے ہاتھوں میں دے دیں ، اب آپ نے حضرت عمر کو بلایا اور انہیں مکہ والوں کے پاس بھیجنا چاہا لیکن اس سے پہلے یہ واقعہ ہو چکا تھا کہ آپ نے ایک مرتبہ حضرت خراش بن امیہ خزاعی کو اپنے اونٹ پر جس کا نام ثعلب تھا سوار کرا کر مکہ مکرمہ بھیجا تھا قریش نے اس اونٹ کی کوچیں کاٹ دیں تھیں اور خود قاصد کو بھی قتل کر ڈالتے لیکن احابیش قوم نے انہیں بچا لیا (شاید اسی بنا پر) حضرت عمر نے جواب میں کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ مجھے قتل نہ کر دیں کیونکہ وہاں میرے قبیلہ بنو عدی کا کوئی شخص نہیں جو مجھے ان قریشیوں سے بچانے کی کوشش کرے اس لئے کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ آپ حضرت عثمان بن عفان کو بلا کر انہیں مکہ میں بھیجیں کہ جا کر قریش سے کہہ دیں کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے بلکہ صرف بیت اللہ شریف کی زیارت اور اس کی عظمت بڑھانے کو آئے ہیں ، حضرت عثمان نے شہر میں قدم رکھا ہی تھا جو ابان بن سعید بن عاص آپ کو مل گئے اور اپنی سواری سے اتر کو حضرت عثمان کو آگے بٹھایا اور خود پیچھے بیٹھا اور اپنی ذمہ داری پر آپ کو لے چلا کہ آپ پیغام رسول صلی اللہ علیہ و سلم اہل مکہ کو پہنچا دیں چنانچہ آپ وہاں گئے اور قریش کو یہ پیغام پہنچا دیا ، انہوں نے کہا کہ آپ تو آ ہی گئے ہیں آپ اگر چاہیں تو بیت اللہ کا طواف کر لیں لیکن ذوالنورین نے جواب دیا کہ جب تک حضور صلی اللہ علیہ و سلم طواف نہ کر لیں ناممکن ہے کہ میں طواف کروں قریشیوں نے جناب عثمان کو روک لیا اور انہیں واپس نہ جانے دیا ادھر لشکر اسلام میں یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے ، زہری کی روایت میں ہے کہ پھر قریشیوں نے سہیل بن عمرو کو آپ کے پاس بھیجا کہ تم جا کر صلح کر لو لیکن یہ ضروری ہے کہ اس سال آپ مکہ میں نہیں آسکتے تاکہ عرب ہمیں یہ طعنہ نہ دے سکیں کہ وہ آئے اور تم روک نہ سکے چنانچہ سہیل یہ سفارت لے کر چلا جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے دیکھا تو فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ قریشیوں کا ارادہ اب صلح کا ہو گیا جو اسے بھیجا ہے اس نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے باتیں شروع کیں اور دیر تک سوال جواب اور بات چیت ہوتی رہی شرائط صلح طے ہو گئے صرف لکھنا باقی رہا ، حضرت عمر دوڑے ہوئے حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور فرمانے لگے کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں تو کہا پھر کیا وجہ ہے کہ ہم دینی معاملات میں اتنی کمزوری دکھائیں ، حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا عمر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی رکاب تھامے رہو آپ اللہ کے سچے رسول ہیں حضرت عمر نے فرمایا یہ مجھے بھی کامل یقین ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ، حضرت عمر سے پھر بھی نہ صبر ہو سکا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسی طرح کہا آپ نے جواب میں فرمایا سنو میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کا غلام ہوں میں اس کے فرمان کے خلاف نہیں کر سکتا اور مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے ضائع نہ کرے گا ، حضرت عمر فرماتے ہیں کہنے کو تو اس وقت جوش میں میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سب کچھ کہہ گیا لیکن پھر مجھے بڑی ندامت ہوئی میں نے اس کے بدلے بہت روزے رکھے بہت سی نمازیں پڑھیں اور بہت سے غلام آزاد کئے اس سے ڈر کر کہ مجھے اس گستاخی کی کوئی سزا اللہ کی طرف سے نہ ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کو صلح نامہ لکھنے کے لئے بلوایا اور فرمایا لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم اس پر سہیل نے کہا میں اسے نہیں جانتا یوں لکھئے (بسمک اللھم) آپ نے فرمایا اچھا یوں ہی لکھو پھر فرمایا لکھو یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا اس پر سہیل نے کہا اگر میں آپ کو رسول مانتا تو آپ سے لڑتا ہی کیوں ؟ یو لکھئے کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) اور سہیل بن عمرو نے کیا اس بات پر کہ دس سال تک ہم میں کوئی لڑائی نہ ہو گی لوگ امن و امان سے رہیں گے ایک دوسرے سے بچے ہوئے رہیں گے اور یہ کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر چلا جائے گا آپ اسے واپس لوٹا دیں گے اور جو صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قریشیوں کے پاس چلا جائے گا وہ اسے نہیں لوٹائیں گے ہم میں آپ میں لڑائیاں بند رہیں گی صلح قائم رہے گی کوئی طوق و زنجیر قید و بند بھی نہ ہو گا اسی میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی جماعت اور آپ کے عہدو پیمان میں آنا چاہے وہ آسکتا ہے اور جو شخص قریش کے عہد و پیمان میں آنا چاہے وہ بھی آسکتا ہے اس پر بنو خزاعہ جلدی سے بول اٹھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہدو پیمان میں آنا اور بنو بکر نے کہا کہ ہم قریشیوں کے ساتھ ان کے ذمہ میں ہیں صلح نامہ میں یہ بھی تھا کہ اس سال آپ واپس لوٹ جائیں مکہ میں نہ آئیں اگلے سال آئیں اس وقت ہم باہر نکل جائیں گے اور آپ نے اپنے اصحاب سمیت آئیں تین دن مکہ میں ٹھہریں ہتھیار اتنے ہی ہوں جتنے ایک سوار کے پاس ہو تے ہیں تلوار میان میں ہو ، ابھی صلح نامہ لکھا جا رہا تھا کہ سہیل کے لڑکے حضرت ابو جندل صلی اللہ علیہ و سلم لوہے کی بھاری زنجیروں میں جکڑے ہوئے گرتے پڑتے مکہ سے چھپتے چھپاتے بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین مدینہ سے نکلتے ہوئے ہی فتح کا یقین کئے ہوئے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خواب دیکھ چکے تھے اس لئے انہیں فتح ہونے میں ذرا سا بھی شک نہ تھا یہاں آ کر جو یہ رنگ دیکھا کہ صلح ہو رہی ہے اور بغیر طواف کے بغیر زیارت بیت اللہ کے یہیں سے واپس ہونا پڑے گا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے نفس پر دباؤ ڈال کر صلح کر رہے ہیں تو اس سے وہ بہت ہی پریشان خاطر تھے بلکہ قریب تھا کہ ہلاک ہو جائیں۔ یہ سب کچھ تو تھا ہی مزید برآں جب حضرت ابو جندل جو مسلمان تھے اور جنہیں مشرکین نے قید کر رکھا تھا اور جن پر طرح طرح کے مظالم توڑ رہے تھے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم آئے ہوئے ہیں کسی نہ کسی طرح موقعہ پا کر بھاگ آتے ہیں اور طوق و زنجیر میں جکڑے ہوئے حاضر حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہوتے ہیں تو سہیل اٹھ کر انہیں طمانچے مارنا شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) میرے آپ کے درمیان تصفیہ ہو چکا ہے یہ اس کے بعد آیا ہے لہذا اس شرط کے مطابق میں اسے واپس لے جاؤں گا آپ جواب دیتے ہیں کہ ہاں ٹھیک ہے سہیل کھڑا ہوتا ہے اور حضرت ابو جندل کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر گھسیٹتا ہوا انہیں لے کر چلتا ہے حضرت ابو جندل بلند آواز کہتے ہیں اے مسلمانو مجھے مشرکوں کی طرف لوٹا رہے ہو ؟ ہائے یہ میرا دین مجھ سے چھیننا چاہتے ہیں اس واقعہ نے صحابہ کو اور برافروختہ کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو جندل سے فرمایا ابو جندل صبر کر اور نیک نیت رہ اور طلب ثواب میں رہ نہ صرف تیرے لئے ہی بلکہ تجھ جیسے جتنے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ راستہ نکالنے والا ہے اور تم سب کو اس دردو غم رنج و الم ظلم و ستم سے چھڑوانے والا ہے ، ہم چونکہ صلح کر چکے ہیں شرطیں طے ہو چکی ہیں اس بنا پر ہم نے انہیں سردست واپس کر دیا ہے ، ہم غدر کرنا ، شرائط کے خلاف کرنا ، عہد شکنی کرنا نہیں چاہتے۔ حضرت عمر بن خطاب حضرت ابو جندل کے ساتھ ساتھ پہلو بہ پہلو جانے لگے اور کہتے جاتے تھے کہ ابو جندل صبر کرو ان میں رکھا ہی کیا ہے ؟ یہ مشرک لوگ ہیں ان کا خون مثل کتے کے خون کے ہے۔ حضرت عمر ساتھ ہی ساتھ اپنی تلوار کی موٹھ حضرت ابو جندل کی طرف کرتے جا رہے تھے کہ وہ تلوار کھینچ لیں اور ایک ہی وار میں باپ کے آر پار کر دیں لیکن حضرت ابو جندل کا ہاتھ باپ پر نہ اٹھا۔ صلح نامہ مکمل ہو گیا فیصلہ پورا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم احرام میں نماز پڑھتے تھے اور جانور حلال ہونے کے لئے مضطرب تھے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا کہ اٹھو اپنی اپنی قربانیاں کر لو اور سر منڈوا لو لیکن ایک بھی کھڑا نہ ہوا تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ آپ لوٹ کر ام سلمہ کے پاس گئے اور فرمانے لگے لوگوں کو یہ کیا ہو گیا ہے ؟ ام المومنین نے جواب دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت جس قدر صدمے میں یہ ہیں آپ کو بخوبی علم ہے آپ ان سے کچھ نہ کہئے اپنی قربانی کے جانور کے پاس جائیے اور اسے جہاں وہ ہو وہیں قربان کر دیجئے اور خود سر منڈوا لیجئے پھر تو ناممکن ہے کہ اور لوگ بھی یہی نہ کریں آپ نے یہی کیا اب کیا تھا ہر شخص اٹھ کھڑا ہوا قربانی کو قربان کیا اور سر منڈوا لیا اب آپ یہاں سے واپس چلے آدھا راستہ طے کیا ہو گا جو سورۃ الفتح نازل ہوئی ، یہ روایت صحیح بخاری شریف میں بھی ہے اس میں ہے کہ آپ کے سامنے ایک ہزار کئی سو صحابہ تھے ، ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ نے قربانی کے اونٹوں کو نشان دار کیا اور عمرے کا احرام باندھا اور اپنے ایک جاسوس کو جو قبیلہ خزاعہ میں سے تھا تجسس کے لئے روانہ کیا۔ غدیر اشطاط میں آ کر اس نے خبر دی کہ قریش نے پورا مجمع تیار کر لیا ہے ادھر ادھر کے مختلف لوگوں کو بھی انہوں نے جمع کر لیا ہے اور ان کا ارادہ لڑائی کا اور آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا ہے آپ نے صحابہ سے فرمایا اب بتاؤ کیا ہم ان کے اہل و عیال پر حملہ کر دیں اگر وہ ہمارے پاس آئیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی گردن کاٹ دی ہو گی ورنہ ہم انہیں غمگین چھوڑ کر جائیں گے اگر وہ بیٹھ رہیں گے تو اس غم و رنج میں رہیں گے اور اگر انہوں نے نجات پالی تو یہ گردنیں ہوں گی جو اللہ عز و جل نے کاٹ دی ہوں گی ، دیکھو تو بھلا کتنا ظلم ہے کہ ہم نہ کسی سے لڑنے کو آئے نہ کسی اور ارادے سے آئے صرف اللہ کے گھر کی زیارت کے لئے جا رہے ہیں اور وہ ہمیں روک رہے ہیں بتاؤ ان سے ہم کیوں نہ لڑیں ؟ اس پر حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ بیت اللہ کی زیارت کو نکلے ہیں آپ چلے چلئے ہمارا ارادہ جدال وقتال کا نہیں لیکن جو ہمیں اللہ کے گھر سے روکے گا ہم اس سے ضرور لڑیں گے خواہ کوئی ہو ، آپ نے فرمایا بس اب اللہ کا نام لو اور چل کھڑے ہو۔ کچھ اور آگے چل کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خالد بن ولید طلائیہ کا لشکر لے کر آ رہا ہے پس تم دائیں طرف کو ہو لو خالد کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم مع صحابہ کے ان کے کلے پر پہنچ گئے اب خالد دوڑا ہوا قریشیوں میں پہنچا اور انہیں اس سے مطلع کیا اونٹنی کا نام اس روایت میں قصویٰ بیان ہوا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جب یہ فرمایا کہ جو کچھ وہ مجھ سے طلب کریں گے میں دوں گا بشرطیکہ حرمت اللہ کی اہانت نہ ہو پھر جو آپ نے اونٹنی کو للکارا تو وہ فوراً کھڑی ہو گئی بدیل بن ورقاء خزاعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جا کر قریشیوں کو جب جواب پہنچاتا ہے تو عروہ بن مسعود ثقفی کھڑے ہو کر اپنا تعارف کرا کر جو پہلے بیان ہو چکا یہ بھی کہتا ہے کہ دیکھو اس شخص نے نہایت معقول اور واجبی بات کہی ہے اسے قبول کر لو اور جب یہ خود حاضر حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہو کر آپ کا یہی جواب آپ کے منہ سے سنتا ہے تو آپ سے کہتا ہے کہ سنئے جناب دو ہی باتیں ہیں یا آپ غالب وہ مغلوب یا وہ غالب آپ مغلوب اگر پہلی بات ہی ہوئی تو بھی کیا ہوا آپ ہی کی قوم ہے آپ نے کسی کے بارے میں ایسا سنا ہے کہ جس نے اپنی قوم کا ستیاناس کیا ہو ؟ اور اگر دوسری بات ہو گی تو یہ جتنے آپ کے پاس ہیں میں تو دیکھتا ہوں کہ سارے ہی آپ کو چھوڑ چھاڑ دوڑ جائیں گے ، اس پر حضرت ابوبکر صدیق کا وہ جواب دیا جو پہلے گزر چکا۔ حضرت مغیرہ والے بیان میں یہ بھی ہے کہ ان کے ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خود تھا ان کے مارنے پر عروہ نے کہا غدار میں نے تو تیری غداری میں تیرا ساتھ دیا تھا بات یہ ہے کہ پہلے یہ جاہلیت کے زمانہ میں کافروں کے ایک گروہ کے ساتھ تھے موقعہ پا کر انہیں قتل کر ڈالا اور ان کا مال لے کر حاضر حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہوئے آپ نے فرمایا تمہارا اسلام تو میں منظور کرتا ہوں لیکن اس مال سے میرا کوئی تعلق نہیں عروہ نے یہاں یہ منظر بھی بچشم خود دیکھا کہ آپ تھوکتے ہیں تو کوئی نہ کوئی صحابی لپک کر اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے اور اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا ہے آپ کے ہونٹوں کو جنبش ہوتے ہی فرمانبرداری کے لئے ایک سے ایک آگے بڑھتا ہے جب آپ وضو کرتے ہیں تو آپ کے اعضاء بدن سے گرے ہوئے پانی پر جو قریب ہوتا ہے یوں لپکتا ہے جیسے صحابہ لڑ پڑیں ، جب آپ بات کرتے ہیں تو بالکل سناٹا ہو جاتا ہے مجال نہیں جو کہیں سے چوں کی آواز بھی سنائی دے حد تعظیم یہ ہے کہ صحابہ آنکھ بھر کر آپ کے چہرہ منور کی طرف تکتے ہی نہیں بلکہ نیچی نگاہوں سے ہر وقت با ادب رہتے ہیں اس نے پھر واپس آن کر یہی حال قریشیوں کو سنایا اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جو انصاف و عدل کی بات پیش کر رہے ہیں اسے مان لو بنو کنانہ کے جس شخص کو اس کے بعد قریش نے بھیجا اسے دیکھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ لوگ قربانی کے جانوروں کی بڑی تعظیم کرتے ہیں اس لئے قربانی کے جانوروں کو کھڑا کر دو اور اس کی طرف ہانک دو اس نے جو یہ منظر دیکھا ادھر صحابہ کی زبانی لبیک کی صدائیں سنیں تو کہہ اٹھا کہ ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا نہایت لغو حرکت ہے اس میں یہ بھی ہے کہ مکرز کو دیکھ کر آپ نے فرمایا یہ ایک تاجر شخص ہے ابھی یہ بیٹھا باتیں کر ہی رہا تھا جو سہیل آگیا اسے دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا لو اب کام سہل ہو گیا اس نے جب بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا واللہ میں رسول اللہ ہی ہوں گو تم نہ مانو ، یہ اس بنا پر کہ جب آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی تھی تو آپ نے کہہ دیا تھا کہ یہ حرمات الٰہی کی عزت رکھتے ہوئے مجھ سے جو کہیں گے میں منظور کر لوں گا ، آپ نے صلح نامہ لکھواتے ہوئے فرمایا کہ اس سال ہمیں یہ بیت اللہ کی زیارت کر لینے دیں گے لیکن سہیل نے کہا یہ ہمیں منظور نہیں ورنہ لوگ کہیں گے کہ ہم دب گئے اور کچھ نہ کر سکے جب یہ شرط ہو رہی تھی کہ جو کافر ان میں سے مسلمان ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چلا جائے آپ اسے واپس کر دیں گے اس پر مسلمانوں نے کہا سبحان اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ کہ وہ مسلمان ہو کر آئے اور ہم اسے کافروں کو سونپ دیں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت ابو جندل اپنی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے آ گئے ، سہیل نے کہا اسے واپس کیجئے آپ نے فرمایا ابھی تک صلح نامہ مکمل نہیں ہوا میں اسے کیسے واپس کر دوں ؟ اس نے کہا پھر تو اللہ کی قسم میں کسی طرح اور کسی شرط پر صلح کرنے میں رضامند نہیں ہوں آپ نے فرمایا تم خود مجھے خاص اس کی بابت اجازت دے دو اس نے کہا میں اس کی اجازت بھی آپ کو نہیں دوں گا آپ نے دوبارہ فرمایا لیکن اس نے پھر بھی انکار کر دیا مگر مکرز نے کہا ہاں ہم آپ کو اس کی اجازت دیتے ہیں اس وقت حضرت ابو جندل نے مسلمانوں سے فریاد کی ان بے چاروں کو مشرکین بڑی سخت سنگین سزائیں کر رہے تھے اس پر حضرت عمر حاضر حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہوئے اور وہ کہا جو پہلے گزر چکا پھر پوچھا کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں کہا کہ یہ اسی سال ہو گا حضرت عمر فرماتے ہیں میں پھر ابوبکر کے پاس آیا اور وہی کہا جس کا اوپر بیان گزرا ہے اس میں اتنا اور ہے کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نہیں ؟ اس کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا ہاں ، پھر میں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشین گوئی کا اسی طرح ذکر کیا اور وہی جواب مجھے ملا جو ذکر ہو ا۔ جو جواب خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دیا تھا۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے اونٹ کو نحر کیا اور نائی کو بلوا کر سر منڈوا لیا پھر تو سب صحابہ ایک ساتھ کھڑے ہو گئے اور قربانیوں سے فارغ ہو کر ایک دوسرے کا سر خود مونڈنے لگے اور مارے غم کے اور اژدحام کے قریب تھا کہ آ پس میں لڑ پڑیں۔ اس کے بعد ایمان والی عورتیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں جن کے بارے میں آیت (یا ایھا الذین امنو ا اذا جاء کم المومنات) الخ ، نازل ہوئی اور حضرت عمر نے اس حکم کے ماتحت اپنی دو مشرکہ بیویوں کو اسی دن طلاق دے دی جن میں سے ایک نے معاویہ بن ابو سفیان سے نکاح کر لیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ سے نکاح کر لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یہیں سے واپس لوٹ کر مدینہ شریف آ گئے ابو بصیر نامی ایک قریشی جو مسلمان تھے موقعہ پا کر مکہ سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مدینہ شریف پہنچے ان کے پیچھے ہی دو کافر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ عہد نامہ کی بنا پر اس شخص کو آپ واپس کیجئے ہم قریشیوں کے بھیجے ہوئے قاصد ہیں اور ابو بصیر کو واپس لینے کے لئے آئے ہیں آپ نے فرمایا اچھی بات ہے میں اسے واپس کر دیتا ہوں چنانچہ آپ نے حضرت ابو بصیر کو انہیں سونپ دیا یہ انہیں لے کر چلے جب ذوالحلیفہ پہنچے اور بے فکری سے وہاں کھجوریں کھانے لگے تو حضرت ابو بصیر نے ان میں سے ایک شخص سے کہا واللہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی تلوار نہایت عمدہ ہے۔ اس نے کہا ہاں بے شک بہت ہی اچھے لوہے کی ہے میں نے بارہا اس کا تجربہ کر لیا ہے اس کی کاٹ کا کیا پوچھنا ہے ؟ یوں کہتے ہوئے اس نے تلوار میان سے نکال لی ، حضرت ابو بصیر نے ہاتھ بڑھا کر کہا ذرا مجھے دکھانا اس نے دے دی آپ نے ہاتھ میں لیتے ہی تول کر ایک ہی ہاتھ میں اس ایک کافر کا تو کام تمام کیا ، دوسرا اس رنگ کو دیکھتے ہی مٹھیاں بند کر کے ایسا سرپٹ بھاگا کہ سیدھا مدینہ پہنچ کر دم لیا اسے دیکھتے ہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ بڑی گھبراہٹ میں ہے کوئی خوفناک منظر دیکھ چکا ہے ، اتنے میں یہ قریب پہنچ گیا اور دہائیاں دینے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور میں بھی اب تھوڑے دم کا مہمان ہوں دیکھئے وہ آیا اتنے میں حضرت ابو بصیر پہنچ گئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذمہ کو پورا کر دیا آپ نے اپنے وعدے کے مطابق مجھے ان کے حوالے کر دیا ، اب یہ اللہ تعالیٰ کی کریمی ہے کہ اس نے مجھے ان سے رہائی دلوائی آپ نے فرمایا افسوس یہ کیسا شخص ہے؟ یہ تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے کاش کہ کوئی اسے سمجھا دیتا یہ سنتے ہی حضرت ابو بصیر چونک گئے کہ معلوم ہوتا ہے آپ شاید مجھے دوبارہ مشرکین کے حوالے کر دیں گے یہ سوچتے ہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے چلے گئے مدینہ کو الوداع کہا اور لمبے قدموں سمندر کے کنارے کی طرف چل دئیے اور وہیں بود و باش اختیار کر لی یہ واقعہ مشہور ہو گیا ادھر سے ابو جندل بن سہیل جنہیں حدیبیہ میں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے واپس کیا تھا وہ بھی موقعہ پا کر مکہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور براہ راست حضرت ابو بصیر کے پاس چلے ، اب یہ ہوا کہ مشرکین قریش میں سے جو بھی ایمان قبول کرتا سیدھا حضرت ابو بصیر کے پاس آ جاتا اور یہیں رہتا سہتا یہاں تک کہ ایک خاص معقول جماعت ایسے ہی لوگوں کی یہاں جمع ہو گئی اور انہوں نے یہ کرنا شروع کیا کہ قریشیوں کا جو قافلہ شام کی طرف جانے کے لئے نکلتا یہ اس سے جنگ کرتے جس میں قریشی کفار قتل بھی ہوئے اور ان کے مال بھی ان مہاجر مسلمانوں کے ہاتھ لگے یہاں تک کہ قریش تنگ آ گئے بالاخر انہوں نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آدمی کو بھیجا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہم پر رحم فرما کر ان لوگوں کو وہاں سے واپس بلوا لیجئے ہم ان سے دستبردار ہوتے ہیں ان میں سے جو بھی آپ کے پاس آ جائے وہ امن میں ہے ہم آپ کو اپنی رشتہ داریاں یاد دلاتے ہیں اور اللہ کا واسطہ دیتے ہیں کہ انہیں اپنے پاس بلوا لو چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس درخواست کو منظور فرما لیا اور ان حضرات کے پاس ایک آدمی بھیج کر سب کو بلوا لیا اور للہ عز و جل نے آیت (وھوالذی کف ایدیکم) الخ ، نازل فرمائی۔ ان کفار کی حمیت جاہلیت یہ تھی کہ انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھنے دی آپ کے نام کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھنے دیا آپ کو بیت اللہ شریف کی زیارت نہ کرنے دی صحیح بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں ہے حبیب بن ابو ثابت کہتے ہیں میں ابو وائل کے پاس گیا تاکہ ان سے پوچھوں انہوں نے کہا ہم صفین میں تھے ایک شخص نے کہا کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا کہ وہ کتاب اللہ کی طرف بلائے جاتے ہیں پس حضرت علی بن ابو طالب نے فرمایا ہاں پس سہیل بن حنیف نے کہا اپنی جانوں پر تہمت رکھو ہم نے اپنے آپ کو حدیبیہ والے دن دیکھا یعنی اس صلح کے موقعہ پر جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی اگر ہماری رائے لڑنے کی ہوتی تو ہم یقیناً لڑتے ، حضرت عمر نے آ کر کہا کہ کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ؟ کیا ہمارے مقتول جنتی اور ان کے مقتول جہنمی نہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں کہا پھر ہم کیوں اپنے دین میں جھک جائیں اور لوٹ جائیں ؟ حالانکہ اب تک اللہ تعالیٰ نے ہم میں ان میں کوئی فیصلہ کن کاروائی نہیں کی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے ابن خطاب میں اللہ کا رسول ہوں وہ مجھے کبھی بھی ضائع نہ کرے گا یہ جواب سن کر حضرت عمر لوٹ آئے لیکن بہت غصے میں تھے وہاں سے حضرت صدیق کے پاس آئے اور یہی سوال و جواب یہاں بھی ہوئے اور سورہ فتح نازل ہوئی بعض روایات میں حضرت سہیل بن حنیف کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو ابو جندل والے دن دیکھا کہ اگر مجھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کو لوٹانے کی قدرت ہوتی تو میں یقیناً لوٹا دیتا ، اس میں یہ بھی ہے کہ جب سورہ فتح اتری تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر کو بلا کر یہ سورت انہیں سنائی مسند احمد کی روایت میں ہے کہ جس وقت یہ شرط طے ہوئی کہ ان کا آدمی انہیں واپس کیا جائے اور ہمارا آدمی وہ واپس نہ کریں گے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا گیا کہ کیا ہم یہ بھی مان لیں ؟ اور لکھ دیں آپ نے فرمایا ہاں اس لئے کہ ہم میں سے جو ان میں جائے اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے (مسلم) مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جب خارجی نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے علیحدگی اختیار کی تو میں نے ان سے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیبیہ والے دن جب مشرکین سے صلح کی تو مشرکین نے کہا اگر ہم آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مانتے تو آپ سے ہرگز نہ لڑتے تو آپ نے فرمایا علی اسے مٹا دو۔ اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں علی اسے کاٹ دو اور لکھو یہ وہ شرائط ہیں جن پر صلح کی محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اللہ کی قسم رسول اللہ حضرت علی بہت بہتر تھے پھر بھی آپ نے اس لکھے ہوئے کو کٹوایا اس سے کچھ آپ نبوت سے نہیں نکل گئے مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیبیہ والے دن ستر اونٹ قربان کئے جن میں ایک اونٹ ابوجہل کا بھی تھا جب یہ اونٹ بیت اللہ سے روک دئیے گئے تو اس طرح نالہ و بکا کرتے تھے جیسے کسی سے اس کا دودھ پیتا بچہ الگ ہو گیا ہو۔

 

۲۷

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب دیکھا تھا کہ آپ مکہ میں گئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔ آپ نے اس کا ذکر اپنے اصحاب سے مدینہ شریف میں ہی کر دیا تھا حدیبیہ والے سال جب آپ عمرے کے ارادے سے چلے تو اس خواب کی بنا پر صحابہ کو یقین کامل تھا کہ اس سفر میں ہی کامیابی کے ساتھ اس خواب کا ظہور دیکھ لیں گے۔ وہاں جا کر جو رنگت بدلی ہوئی دیکھی یہاں تک کہ صلح نامہ لکھ کر بغیر زیارت بیت اللہ واپس ہو نا پڑا تو ان صحابہ پر نہایت شاق گزرا۔ چنانچہ حضرت عمر نے تو خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ کہا بھی کہ آپ نے تو ہم سے فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور طواف سے مشرف ہوں گے آپ نے فرمایا یہ صحیح ہے لیکن یہ تو میں نے نہیں کہا تھا کہ اسی سال ہو گا ؟ حضرت عمر نے فرمایا ہاں یہ تو نہیں فرمایا تھا آپ نے فرمایا پھر جلدی کیا ہے ؟ تم بیت اللہ میں جاؤ گے ضرور اور طواف بھی یقیناً کرو گے۔ پھر حضرت صدیق سے یہی کہا اور ٹھیک یہی جواب پایا۔ اس آیت میں جو ان شاء اللہ ہے یہ استثنا کے لئے نہیں بلکہ تحقیق اور تاکید کے لئے ہے اس مبارک خواب کی تاویل کو صحابہ نے دیکھ لیا اور پورے امن و اطمینان کے ساتھ مکہ میں گئے اور وہاں جا کر احرام کھولتے ہوئے بعض نے اپنا سر منڈوا یا اور بعض نے بال کتروائے۔ صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے لوگوں نے کہا حضرت اور کتروانے والوں پر بھی۔ آپ نے دوبارہ بھی یہی فرمایا پھر لوگوں نے وہی کہا آخر تیسری یا چوتھی دفعہ میں آپ نے کتروانے والوں کے لئے بھی رحم کی دعا کی۔ پھر فرمایا بے خوف ہو کر یعنی مکہ جاتے وقت بھی امن و امان سے ہو گے اور مکہ کا قیام بھی بے خوفی کا ہو گا چنانچہ عمرہ قضا میں یہی ہوا یہ عمرہ ذی قعدہ سنہ ٧ ہجری میں ہوا تھا۔ حدیبیہ سے آپ ذی قعدہ کے مہینے میں لوٹے ذی الحجہ اور محرم تو مدینہ شریف میں قیام رہا صفر میں خیبر کی طرف گئے اس کا کچھ حصہ تو از روئے جنگ فتح ہوا اور کچھ حصہ ازروئے صلح مسخر ہوا یہ بہت بڑا علاقہ تھا اس میں کھجوروں کے باغات اور کھیتیاں بکثرت تھیں ، یہیں کے یہودیوں کو آپ نے بطور خادم یہاں رکھ کر ان سے یہ معاملہ طے کیا کہ وہ باغوں اور کھیتیوں کی حفاظت اور خدمت کریں اور پیداوار کا نصف حصہ دے دیا کریں ، خیبر کی تقسیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف ان ہی صحابہ میں کی جو حدیبیہ میں موجود تھے ان کے سوا کسی اور کو اس جنگ میں آپ نے حصہ دار نہیں بنایا، سوائے ان لوگوں کے جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے جو حضرات حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے وہ سب اس فتح خیبر میں بھی ساتھ تھے۔ حضرت ابو دجانہ ، سماک بن خرشہ کے سوا جیسے کہ اس کا پورا بیان اپنی جگہ ہے یہاں سے آپ سالم و غنیمت لئے ہوئے واپس تشریف لائے اور ماہ ذوالقعدہ سنہ ٧ ہجری میں مکہ کی طرف بارادہ عمرہ اہل حدیبیہ کو ساتھ لے کر آپ روانہ ہوئے ، ذوالحلیفہ سے احرام باندھا قربانی کے لئے ساٹھ اونٹ ساتھ لئے اور لبیک پکارتے ہوئے ظہران میں پہنچے جہاں سے کعبہ کے بت دکھائی دیتے تھے تو آپ نے تمام نیزے بھالے تیر کمان بطن یا جج میں بھیج دئیے، مطابق شرط کے صرف تلواریں پاس رکھ لیں اور وہ بھی میان میں تھیں ابھی آپ راستے میں ہی تھے جو قریش کا بھیجا ہوا آدمی مکرز بن حفص آیا اور کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ و سلم آپ کی عادت تو توڑنے کی نہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کیا بات ہے ؟ وہ کہنے لگا کہ آپ تیر اور نیزے لے کر آ رہے ہیں آپ نے فرمایا نہیں تو ہم نے وہ سب یا جج بھیج دیے ہیں اس نے کہا یہی ہمیں آپ کی ذات سے امید تھی آپ ہمیشہ سے بھلائی اور نیکی اور وفاداری ہی کرنے والے ہیں سرداران کفار تو بوجہ غیظ و غضب اور رنج و غم کے شہر سے باہر چلے گئے کیونکہ وہ تو آپ کو اور آپ کے اصحاب کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے اور لوگ جو مکہ میں رہ گئے تھے وہ مرد عورت بچے تمام راستوں پر اور کوٹھوں پر اور چھتوں پر کھڑے ہو گئے اور ایک استعجاب کی نظر سے اس مخلص گروہ کو اس پاک لشکر کو اس اللہ کی فوج کو دیکھ رہے تھے آپ نے قربانی کے جانور ذی طوٰی میں بھیج دئیے تھے خود آپ اپنی مشہور و معروف سواری اونٹنی قصوا پر سوار تھے آگے آگے آپ کے اصحاب تھے جو برابر لبیک پکار رہے تھے حضرت عبد اللہ بن رواحہ انصاری آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے

باسم الذی لا دین الا دینہ بسم الذی محمد رسولہ

خلوابنی الکفار عن سبیلہ الیوم نضربکم علی تاویلہ

کما ضربنا کم علی تنزیلہ ضربا یزیل الھام عن مقیلہ

ویذھل الخلیل عن خلیلہ قد انزل الرحمن فی تنزیلہ

فی صحف تتلی علی رسولہ بان خیر القتل فی سبیلہ

یارب انی مومن بقیلہ

یعنی اس اللہ عز و جل کے نام جس کے دین کے سوا اور کوئی دین قابل قبول نہیں۔ اس اللہ کے نام سے جس کے رسول حضرت محمد ہیں (صلی اللہ علیہ و سلم) اے کافروں کے بچو ! حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے راستے سے ہٹ جاؤ آج ہم تمہیں آپ کے لوٹنے پر بھی ویسا ہی ماریں گے جیسا آپ کے آنے پر مارا تھا وہ مار جو دماغ کو اس کے ٹھکانے سے ہٹا دے اور دوست کو دوست سے بھلا دے۔ اللہ تعالیٰ رحم والے نے اپنی وحی میں نازل فرمایا ہے جو ان صحیفوں میں محفوظ ہے جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے تلاوت کئے جاتے ہیں کہ سب سے بہتر موت شہادت کی موت ہے جو اس کی راہ میں ہو۔ اے میرے پروردگار میں اس بات پر ایمان لا چکا ہوں۔ بعض روایتوں میں الفاظ میں کچھ ہیر پھیر بھی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ اس عمرے کے سفر میں جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم (مر الظہران) میں پہنچے تو صحابہ نے سنا کہ اہل مکہ کہتے ہیں یہ لوگ بوجہ لاغری اور کمزوری کے اٹھ بیٹھ نہیں سکتے یہ سن کر صحابہ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہا اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنی سواریوں کے چند جانور ذبح کر لیں ان کا گوشت کھائیں اور شوربا پئیں اور تازہ دم ہو کر مکہ میں جائیں آپ نے فرمایا نہیں ایسا نہ کرو تمہارے پاس جو کھانا ہو اسے جمع کرو چنانچہ جمع کیا دستر خوان بچھایا اور کھانے بیٹھے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کی وجہ سے کھانے میں اتنی برکت ہوئی کہ سب نے کھا پی لیا اور توشے دان بھر لئے۔ آپ مکہ شریف آئے سیدھے بیت اللہ گئے قریشی حطیم کی طرف بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چادر کے پلے دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لئے اور اصحاب سے فرمایا یہ لوگ تم میں سستی اور لاغری محسوس نہ کریں ، اب آپ نے رکن کو بوسہ دے کر دوڑنے کی سی چال سے طواف شروع کیا جب رکن یمانی کے پاس پہنچے جہاں قریش کی نظریں نہیں پڑتی تھیں تو وہاں سے آہستہ آہستہ چل کر حجر اسود تک پہنچے ، قریش کہنے لگے تم لوگ تو ہرنوں کی طرح چوکڑیاں بھر رہے ہو گویا چلنا تمہیں پسند ہی نہیں تین مرتبہ تو آپ اسی طرح ہلکی دوڑ کی سی چال حجر اسود سے رکن یمانی تک چلتے رہے تین پھیرے اس طرح کئے چنانچہ یہی مسنون طریقہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع میں بھی اسی طرح طواف کے تین پھیروں میں رمل کیا یعنی دلکی چال چلے۔ بخاری مسلم میں ہے کہ اصحاب رسول کو مدینے کی آب و ہوا شروع میں کچھ ناموافق پڑی تھی اور بخار کی وجہ سے یہ کچھ لاغر ہو گئے تھے ، جب آپ مکہ پہنچے تو مشرکین مکہ نے کہا یہ لوگ جو آ رہے ہیں انہیں مدینے کے بخار نے کمزور اور سست کر دیا اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس کلام کی خبر اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو کر دی۔ مشرکین حطیم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ حجر اسود سے لے کر رکن یمانی تک طواف کے تین پہلے پھیروں میں دلکی چال چلیں اور رکن یمانی سے حجر اسود تک جہاں جانے کے بعد مشرکین کی نگاہیں نہیں پڑتی تھیں وہاں ہلکی چال چلیں پورے ساتوں پھیروں میں رمل کرنے کو نہ کہنا یہ صرف بطور رحم کے تھا، مشرکوں نے جب دیکھا کہ یہ تو سب کے سب کود کود کر پھرتی اور چستی سے طواف کر رہے ہیں تو آپس میں کہنے لگے کیوں جی انہی کی نسبت اڑا رکھا تھا کہ مدینے کے بخار نے انہیں سست و لاغر کر دیا ہے ؟ یہ لوگ تو فلاں فلاں سے بھی زیادہ چست و چالاک ہیں ، ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ذوالقعدہ کی چوتھی تاریخ کو مکہ شریف پہنچ گئے تھے اور روایت میں ہے کہ مشرکین اس وقت قعیقعان کی طرف تھے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا صفا مروہ کی طرف سعی کرنا بھی مشرکوں کو اپنی قوت دکھانے کے لئے تھا ، حضرت ابن ابی اوفی فرماتے ہیں اس دن ہم آپ پر چھائے ہوئے تھے اس لئے کہ کوئی مشرک یا کوئی ناسمجھ آپ کو کوئی ایذا نہ پہنچا سکے ، بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم عمرے کے لئے نکلے لیکن کفار قریش نے راستہ روک لیا اور آپ کو بیت اللہ شریف تک نہ جانے دیا آپ نے وہیں قربانیاں کیں اور وہیں یعنی حدیبیہ میں سر منڈوا لیا اور ان سے صلح کر لی جس میں یہ طے ہوا کہ آپ اگلے سال عمرہ کریں گے سوائے تلواروں کے اور کوئی ہتھیار اپنے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ میں نہیں آئیں گے اور وہاں اتنی ہی مدت ٹھہریں گے جتنی اہل مکہ چاہیں پس اگلے سال آپ اسی طرح آئے تین دن تک ٹھہرے پھر مشرکین نے کہا اب آپ چلے جائیں چنانچہ آپ وہاں سے واپس ہوئے صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذی قعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا لیکن اہل مکہ حائل ہوئے تو آپ نے ان سے یہ فیصلہ کیا کہ آپ صرف تین دن ہی مکہ میں ٹھہریں گے جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صلح کی تو اہل مکہ نے کہا کہ اگر آپ کو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جانتے تو ہرگز نہ روکتے بلکہ آپ محمد بن عبد اللہ لکھئے ، آپ نے فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہوں میں محمد بن عبد اللہ ہوں پھر آپ نے حضرت علی بن ابو طالب سے فرمایا لفظ یا رسول اللہ کو مٹا دو۔ حضرت علی نے فرمایا نہیں نہیں قسم اللہ کی میں اسے ہرگز نہ مٹاؤں گا چنانچہ آپ نے اس صلح نامہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر باوجود اچھی طرح لکھنا نہ جاننے کے لکھا ، کہ یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبد اللہ نے صلح کی (صلی اللہ علیہ و سلم) یہ کہ مکہ میں ہتھیار لے کر داخل نہ ہوں گے صرف تلوار ہو گی اور وہ بھی میان میں اور یہ کہ اہل مکہ میں سے جو آپ کے ساتھ جانا چاہے گا اسے آپ اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے اور یہ کہ آپ کے ساتھیوں میں سے جو مکے میں رہنے کے ارادے سے ٹھہر جانا چاہے گا آپ اسے روکیں گے نہیں پس جب آپ آئے اور وقت مقررہ گزر چکا تو مشرکین حضرت علی کے پاس آئے اور کہا آپ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہئے کہ اب وقت گزر چکا تشریف لے جائیں چنانچہ آپ نے کوچ کر دیا۔ حضرت حمزہ کی صاحبزادی چچا چچا کہہ کر آپ کے پیچھے ہو لیں حضرت علی نے انہیں لے لیا اور انگلی تھام کر حضرت فاطمہ کے پاس لے گئے اور فرمایا اپنے چچا کی لڑکی کو اچھی طرح رکھو حضرت زہرا نے بڑی خوشی سے بچی کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ اب حضرت علی اور حضرت زید اور حضرت جعفر میں جھگڑا ہونے لگا حضرت علی فرماتے تھے انہیں میں لے آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی صاحبزادی ہیں حضرت جعفر فرماتے تھے میری چچا زاد بہن ہے اور ان کی خالہ میرے گھر میں ہیں۔ حضرت زید فرماتے تھے میرے بھائی کی لڑکی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس جھگڑے کا فیصلہ یوں کیا کہ لڑکی کو تو ان کی خالہ کو سونپا اور فرمایا خالہ قائم مقام ماں کے ہے حضرت علی سے فرمایا تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔ حضرت جعفر سے فرمایا کہ تو خلق اور خلق میں مجھ سے پوری مشابہت رکھتا ہے۔ حضرت زید سے فرمایا تو ہمارا بھائی اور ہمارا مولیٰ ہے۔ حضرت علی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ حضرت حمزہ کی لڑکی سے نکاح کیوں نہ کر لیں ؟ آپ نے فرمایا وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہیں پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ جس خیر و مصلحت کو جانتا تھا اور جسے تم نہیں جانتے تھے اس بنا پر تمہیں اس سال مکہ میں نہ جانے دیا اور اگلے سال جانے دیا اور اس جانے سے پہلے ہی جس کا وعدہ خواب کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوا تھا تمہیں فتح قریب عنایت فرمائی۔ یہ فتح وہ صلح ہے جو تمہارے دشمنوں کے درمیان ہوئی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ مومنوں کو خوشخبری سناتا ہے کہ وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ان دشمنوں پر اور تمام دشمنوں پر فتح دے گا اس نے آپ کو علم نافع اور عمل صالح کے ساتھ بھیجا ہے ، شریعت میں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں علم اور عمل پس علم شرعی صحیح علم ہے اور عمل شرعی مقبولیت والا عمل ہے اس کے اخبار سچے ، اس کے احکام سراسر عدل و حق والے۔ چاہتا یہ ہے کہ روئے زمین پر جتنے دین ہیں عربوں میں ، عجمیوں میں ، مسلمین میں ، مشرکین میں ، ان سب پر اس اپنے دین کو غالب اور ظاہر کرے اللہ کافی گواہ ہے اس بات پر کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ہی آپ کا مددگار ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

 

۲۹

تصدیق رسالت بزبان الہٰ

ان آیتوں میں پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صفت و ثنا بیان ہوئی کہ آپ اللہ کے برحق رسول ہیں پھر آپ کے صحابہ کی صفت و ثنا بیان ہو رہی ہے کہ وہ مخالفین پر سختی کرنے والے اور مسلمانوں پر نرمی کرنے والے ہیں جیسے اور آیت میں ہے (اذلتہ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین) مومنوں کے سامنے نرم کفار کے مقابلہ میں گرم، ہر مومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ مومنوں سے خوش خلقی اور متواضع رہے اور کفار پر سختی کرنیوالا اور کفر سے ناخوش رہے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے (یا ایھا الذین امنو ا قاتلو ا الذین یلونکم من الکفار ولیجد و افیکم غلظۃ) ایمان والو اپنے پاس کے کافروں سے جہاد کرو وہ تم میں سختی محسوس کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں آپس کی محبت اور نرم دلی میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر کسی ایک عضو میں درد ہو تو سارا جسم بیقرار ہو جاتا ہے کبھی بخار چڑھ آتا ہے کبھی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں مومن مومن کے لئے مثل دیوار کے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تقویت پہنچاتا ہے اور مضبوط کرتا ہے ، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ملا کر بتائیں پھر ان کا اور وصف بیان فرمایا کہ نیکیاں بکثرت کرتے ہیں خصوصاً نماز جو تمام نیکیوں سے افضل و اعلیٰ ہے پھر ان کی نیکیوں میں چار چاند لگانے والی چیز کا بیان یعنی ان کے خلوص اور اللہ طلبی کا کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں۔ یہ اپنے اعمال کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں جو جنت ہے اور اللہ کے فضل سے انہیں ملے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی بھی انہیں عطا فرمائے گا جو بہت بڑی چیز ہے جیسے فرمایا (ورضوان من اللہ اکبر) اللہ تعالیٰ کی ذرا سی رضا بھی سب سے بڑی چیز ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ چہروں پر سجدوں کے اثر سے علامت ہونے سے مراد اچھے اخلاق ہیں مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں خشوع اور تواضع ہے ، حضرت منصور حضرت مجاہد سے کہتے ہیں میرا تو یہ خیال تھا کہ اس سے مراد نماز کا نشان ہے جو ماتھے پر پڑ جاتا ہے آپ نے فرمایا یہ تو ان کی پیشانیوں پر بھی ہوتا ہے جن کے دل فرعون سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں حضرت سدی فرماتے ہیں نماز ان کے چہرے اچھے کر دیتی ہے بعض سلف سے منقول ہے جو رات کو بکثرت نماز پڑھے گا اس کا چہرہ دن کو خوبصورت ہو گا۔ حضرت جابر کی روایت سے ابن ماجہ کی ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون ہے ، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے بعض بزرگوں کا قول ہے کہ نیکی کی وجہ سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے چہرے پر روشنی آتی ہے روزی میں کشادگی ہوتی ہے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ امیر المومنین حضرت عثمان کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے اندرونی پوشیدہ حالات کی اصلاح کرے اور بھلائیاں پوشیدگی سے کرے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کی سلوٹوں پر اور ا س کی زبان کے کناروں پر ان نیکیوں کو ظاہر کر دیتا ہے الغرض دل کا آئینہ چہرہ ہے جو اس میں ہوتا ہے اس کا اثر چہرہ پر ہوتا ہے پس مومن جب اپنے دل کو درست کر لیتا ہے اپنا باطن سنوار لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی لوگوں کی نگاہوں میں سنوار دیتا ہے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں جو شخص اپنے باطن کی اصلاح کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی آراستہ و پیراستہ کر دیتا ہے ، طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جو شخص جیسی بات کو پوشیدہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کی چادر اڑھا دیتا ہے اگر وہ پوشیدگی بھلی ہے تو بھلائی کی اور اگر بری ہے تو برائی کی۔ لیکن اس کا ایک راوی عراقی متروک ہے۔ مسند احمد میں آپ کا فرمان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی ٹھوس چٹان میں گھس کر جس کا نہ کوئی دروازہ ہو نہ اس میں کوئی سوراخ ہو کوئی عمل کرے گا اللہ اسے بھی لوگوں کے سامنے رکھ دے گا برائی ہو تو یا بھلائی ہو تو۔ مسند کی اور حدیث میں ہے نیک طریقہ ، اچھا خلق، میانہ روی نبوۃ کے پچیسویں حصہ میں سے ایک حصہ ہے۔ الغرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیتیں خالص تھیں اعمال اچھے تھے پس جس کی نگاہ ان کے پاک چہروں پر پڑتی تھی اسے ان کی پاکبازی جچ جاتی تھی اور وہ ان کے چال چلن اور ان کے اخلاق اور ان کے طریقہ کار پر خوش ہوتا تھا حضرت امام مالک کا فرمان ہے کہ جن صحابہ نے شام کا ملک فتح کیا جب وہاں کے نصرانی ان کے چہرے دیکھتے تو بے ساختہ پکار اٹھتے اللہ کی قسم یہ حضرت عیسیٰ کے حواریوں سے بہت ہی بہتر و افضل ہیں۔ فی الواقع ان کا یہ قول سچا ہے اگلی کتابوں میں اس امت کی فضیلت و عظمت موجود ہے اور اس امت کی صف اول ان کے بہتر بزرگ اصحاب رسول ہیں اور خود ان کا ذکر بھی اگلی اللہ کی کتابوں میں اور پہلے کے واقعات میں موجود ہے۔ پس فرمایا یہی مثال ان کی توراۃ میں ہے۔ پھر فرماتا ہے اور ان کی مثال انجیل کی مانند کھیتی کے بیان کی گئی ہے جو اپنا سبزہ نکالتی ہے پھر اسے مضبوط اور قوی کرتی ہے پھر وہ طاقتور اور موٹا ہو جاتا ہے اور اپنی بال پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے اب کھیتی والے کی خوشی کا کیا پوچھنا ہے؟ اسی طرح اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں کہ انہوں نے آپ کی تائید و نصرت کی پس وہ آپ کے ساتھ وہی تعلق رکھتے ہیں جو پٹھے اور سبزے کو کھیتی سے تھا یہ اس لئے کہ کفار جھینپیں۔ حضرت امام مالک نے اس آیت سے رافضیوں کے کفر پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ صحابہ سے چڑتے اور ان سے بغض رکھنے والا کافر ہے۔ علماء کی ایک جماعت بھی اس مسئلہ میں امام صاحب کے ساتھ ہے صحابہ کرام کے فضائل میں اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی کرنے میں بہت سی احادیث آئی ہیں خود اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریفیں بیان کیں اور ان سے اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہے کیا ان کی بزرگی میں یہ کافی نہیں ؟ پھر فرماتا ہے ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے گناہ معاف اور انکا اجر عظیم اور رزق کریم ثواب جزیل اور بدلہ کبیر ثابت یاد رہے کہ (منھم)ٌمیں جو (من) ہے وہ یہاں بیان جنس کے لئے ہے اللہ کا یہ سچا اور اٹل وعدہ ہے جو نہ بدلے نہ خلاف ہو ان کے قدم بقدم چلنے والوں ان کی روش پر کاربند ہونے والوں سے بھی اللہ کا یہ وعدہ ثابت ہے لیکن فضیلت اور سبقت کمال اور بزرگی جو انہیں ہے امت میں سے کسی کو حاصل نہیں اللہ ان سے خوش اللہ ان سے راضی یہ جنتی ہو چکے اور بدلے پا لئے۔ صحیح مسلم شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں میرے صحابہ کو برا نہ کہو ان کی بے ادبی اور گستاخی نہ کرو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے تین پاؤ اناج بلکہ ڈیڑھ پاؤ اناج کے اجر کو بھی نہیں پا سکتا۔ الحمد اللہ سورہ فتح کی تفسیر ختم ہوئی۔