آیت ۴ حجرات (حجروں) کے باہر سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو پکارنے پر گرفت کی گئی ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام " الحجرات" ہے۔
یہ سورہ مدینہ میں ۰۹ھ میں نازل ہوئی جب کہ عرب کے مختلف گوشوں سے وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔
ان آداب و اخلاق کی تعلیم جو ایمان کا تقاضا ہیں اور اسلامی معاشرہ (سماج) کو صحت مند رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔
آیت ۱ تا ۵ میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ اہل ایمان اپنی بات پیش کرنے میں اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھیں اور رسول کے ادب کو پوری طرح ملحوظ رکھیں۔
آیت ۶ تا ۱۰ میں اسلامی اخوت کو نقصان پہنچانے والی باتوں سے احتراز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور تحقیق اور عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
آیت ۱۱ اور ۱۲ میں اخلاقی برائیوں سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے جو آپس میں نفرت پیدا کرتی اور فساد کا موجب بنتی ہیں۔
آیت ۱۳ میں قومی اور نسلی برتری پر ضرب لگاتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ تمام قوموں اور قبیلوں کا رشتہ ایک ہی مرد و عورت (آدم و حوا) سے جا ملتا ہے اس لیے قومی اور نسلی فخر کے لیے کوئی بنیاد نہیں۔ انسان اور انسان کے درمیان اصلاً امتیاز کرنے والی چیز تقویٰ ہے۔
آیت ۱۴ تا ۱۸ میں ان مسلمانوں پر گرفت ہے جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کیا ہے لیکن ایمان ابھی ان کے دل میں اترا نہیں ہے ان پر واضح کیا گیا ہے کہ صحیح ایمان وہ ہے جس میں شک کا شائبہ نہیں ہوتا اور سچا مومن وہ ہے جو الہ کی راہ میں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرتا ہے۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو ۱*اور اللہ سے ڈرو۔ ۲* اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔ ۳*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ایمان لانے والو! اپنی آواز بنی کی آواز سے بلند نہ کرو ۴* اور نہ اس سے اس طرح اونچی آواز سے بولو جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے بولتے ہو۔ ۵* کہیں ایسا ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ ۶*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اللہ کے رسول کے آگے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہی ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے خالص کر لیا ہے۔ ۷* ان کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے نبی!) جو لوگ تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ ۸*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم ان کے پاس آ جاتے تو ان کے لیے بہتر تھا۔ اور اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ۹*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لیا کرو۔ ۱۰* کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کے خلاف نادانستہ کوئی کارروائی کر بیٹھو اور پھر اپنے کئے پر پچھتانے لگو۔ ۱۱*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جان رکھو کہ اللہ کا رسول تمہارے درمیان موجود ہے اگر بہت سے معاملات میں وہ تمہاری بات مان لیا کرے تو تم تکلیف میں پڑ جاؤ۔ ۱۲* لیکن اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو محبوب بنایا اور اس کو تمہارے دلوں میں کُھبا دیا اور کفر اورفسق اور نا فرمانی کو تمہارے لیے باعثِ نفرت بنایا۔ یہی لوگ راست رو ہیں۔ ۱۳*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کے فضل اور احسان سے ۱۴* اور اللہ علم والا حکمت والا ہے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ ۱۵* پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے گروہ سے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرے۔ اگر وہ رجوع کرے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کراؤ اور انصاف کرو۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ۱۶*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ۱۷* تو اپنے بھائیوں کے درمیان مصالحت کراؤ۔ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں۔ ہوسکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں۔ ہوسکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ ۱۸* اور نہ آپس میں طعن کرو۔ ۱۹* اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ۲۰* ایمان کے بعد فسق بہت بُرا نام ہے۔ ۲۱* اور جو لوگ توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔ ۲۲*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بہت سے گمانوں سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ ۲۳* اور ٹوہ میں نہ لگو۔ ۲۴* اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ ۲۵* کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ تمہیں تو اس سے گھِن ہی آئے گی۔ ۲۶* اللہ سے ڈرو۔ بلا شبہ اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ۲۷*
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگو! ہم نے تم کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ ۲۸* اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔ ۲۹* بلا شبہ اللہ جاننے والا اور باخبر ہے۔ ۳۰*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ ۳۱* ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ کہو کہ ہم نے اسلام (اطاعت) قبول کر لیا۔ ۳۲* ایمان ابھی تمہارے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوا ہے۔ ۳۳* اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے اعمال ذرا بھی نہیں گھٹائے گا۔ ۳۴* یقیناً اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ۳۵*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ مومن حقیقت میں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہیں پڑے اور اپنے مال اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہی لوگ سچے ہیں۔ ۳۶*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو کیا تم اپنا دین اللہ کو جتلاتے ہو؟ حالانکہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ کہو مجھ پر اپنے اسلام کااحسان نہ رکھو بلکہ یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تم کو ایما ن کی راہ دکھائی اگر تم سچے ہو۔ ۳۷*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ آسمانوں اور زمین کی تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کو اللہ دیکھ رہا ہے۔ ۳۸*
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً یہ کہ اپنے فیصلہ کو ان کے فیصلہ پر اور اپنی بات کو ان کی بات پر مقدم رکھا جائے ، جو معاملہ در پیش ہو اس میں یہ دیکھے بغیر کہ شریعت کیا کہتی ہے اظہارِ رائے اور عملی اقدام کیا جائے ، کتاب و سنت کی باتوں پر دوسروں کی باتوں کو مثلاً بزرگوں یا علماء ے فقہاء کے اقوال کو ترجیح دی جائے یہ تمام صورتیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور اتباعِ رسول کے منافی ہیں۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ ایسی بات ہے جو تقویٰ کے سراسر خلاف ہے لہٰذا تمہیں اللہ اور اس کے روسل سے آگے بڑھنے کی جسارت نہیں کرنی چاہیے۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا خوب سمجھ لو کہ وہ تمہاری باتیں سنتا ہے اور تمہارے دلوں کا حال جانتا ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی کا مقام بہت بلند ہے اس لیے اس کا زیادہ سے زیادہ ادب اور احترام کرنا چاہیے۔ نبی کی مجلس کے لیے یہ ادب سکھایا گیا ہے کہ اپنی آواز کو پست رکھیں۔ آج اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس موجود نہیں ہے لیکن آپ کے ارشادات موجود ہیں ان کو بلند رکھنا اور ان کے مقابلہ میں کوئی آواز بلند نہ کرنا اس آیت کا عین منشاء ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نبی کو اس طرح خطاب نہ کرو جس طرح آپس میں خطاب کرتے ہو۔ ادب کا تقاضا ہے کہ آپ کو "یا محمد ،کہ کر مخاطب نہ کیا جائے بلکہ یا رسول اللہ کہہ کر مخاطب کیا جائے نیز گفتگو میں آپ کے وقار کو پوری طرح ملحوظ رکھا جائے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سخت تنبیہ ہے ان لوگوں کو جو نبی کے مقام کا لحاظ نہیں کرتے اور خلافِ ادب حرکتیں کر گزرتے ہیں۔ نبی کے ساتھ ناشائستہ طرزِ عمل دل کی بہت بڑی بیماری کو ظاہر کرتا ہے اور وہ ہے تقویٰ کی کمی جس کا اگر بر وقت علاج نہیں کیا گیا تو دلوں سے تقویٰ رخصت ہوسکتا ہے اور جب تقویٰ ہی باقی نہ رہا تو ان اعمال کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہ جاتی جو بظاہر نیک ہوں۔ نیکی کا کوئی کام اسی صورت میں نیکی ہے جب کہ اس کی تہ میں تقویٰ__اللہ کی عظمت کے تصور سے اس کا خوف اور اس کی نافرمانی سے بچنے کا جذبہ__موجود ہو آگے کی آیت سے خود اس کی وضاحت ہو رہی ہے۔
ان آیتوں سے نزول کے بعد صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اپنی آواز یں بہت زیادہ پست کر لی تھیں یہاں تک کہ آپ کو پوچھنا پڑتا تھا کہ کہنے والے نے کیا کہا اور جن کی آواز قدرتی طور سے اونچی تھی وہ گھبرا گئے کہ کہیں ان کے اعمال ضائع نہ ہو جائیں۔ بخاری کی روایت ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ثابت بن قیس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیکھا۔ آپ نے ان کا حال دریافت کرنے کے لیے ایک شخص کو بھیجا۔ وہ جب ان کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ ثابت بن قیس اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ پوچھا کیا حال ہے ؟ انہوں نے جواب دیا بہت بُرا حال ہے کیونکہ جو شخص اپنی آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچی کر دیتا ہے اس کے عمل ضائع ہو جاتے ہیں اور وہ دوزخ والوں میں سے ہو جاتا ہے۔ اس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا جاؤ اور ان سے کہو تم جہنمی نہیں بلکہ جنتی ہو (بخاری کتاب التفسیر)
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ رسول کے پاس آواز کو پست رکھنے اور اس کا ادب و احترام کرنے کا تعلق دل کے تقویٰ سے ہے۔ ان ظاہری آداب کا قلب و ذہن پر گہرا اثر پڑتا ہے اور اس سے تقویٰ کی پرورش ہوتی ہے۔ اگر تقویٰ ان ظاہری آداب کے لیے محرک کی حیثیت رکھتا ہے تو یہ آداب تقویٰ کی تقویت کا باعثِ بن جاتے ہیں۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ بدو عرب جن میں شائستگی کی بڑی کمی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے آتے تو آپ کو مسجد نبوی میں موجود نہ پاکر آپ کے گھر کے باہر سے جو حجروں (کمروں ) پر مشتمل تھا آواز دینے لگتے۔ ان کا یہ طریقہ ادب و احترام کے خلاف تھا اور یہ اس بات کی علامت تھی کہ انہوں نے ابھی رسول کے مقام کو نہیں پہچانا ہے۔ رسول کا مقام عام لوگوں سے بہت بلند ہوتا ہے اس لیے اس کے ساتھ وہ طریقہ اختیار نہیں کیا جاسکتا جو عام طور سے لوگوں کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے اور دروازے کے باہر سے آواز دینا یوں بھی شائستہ طریقہ نہیں ہے کجا یہ کہ یہ طریقہ رسول کے معاملہ میں اختیار کیا جائے۔ اس کی نا معقولیت بالکل واضح ہے۔
اور جب حجروں کے باہر سے آپ کو آواز دینا نا معقولیت ہے تو قبر کے باہر سے آپ کو پکارنا تاکہ فریاد رستی کے لیے آپ پہنچ جائیں سراسر حماقت ہے۔ البتہ درود و سلام آپ پر ہر جگہ سے بھیجا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے بھی وہی طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے جس کی تعلیم آپ نے دی ہے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا اپنے قصور پر اللہ سے معافی مانگو اور اس سے رحم کی درخواست کرو۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ فاسق سے مراد ایسا شخص ہے جو اللہ کا نافرمان اور گناہ کبیر کا مرتکب ہو۔ ایسے شخص کی کسی خبر پر جو اہمیت کی حامل ہو بلا تحقیق قبول کرنے اور اس پر اعتماد کر کے کسی کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ فاسق کی خبر جھوٹی ہوسکتی ہے اور جھوٹی خبر پر اعتماد کرنے کے اثرات و نتائج برے ہی ہوسکتے ہیں۔
یہ ہدایت نیز آگے کی ہدایات ایسے موقع پر دی گئیں جبکہ مسلم سوسائٹی میں ایسے لوگ داخل ہو رہے تھے جنہوں نے شعوری طور پر اسلام قبول نہیں کیا تھا اور جو اپنے کردار کے لحاظ سے بھی لائق اعتماد نہیں ہوسکتے تھے۔ پھر قبائلی رقابت کی وجہ سے بھی ان لوگوں سے اندیشہ تھا کہ وہ غیر ذمہ دارانہ باتیں کر کے آپس میں چپقلش نہ پیدا کریں۔ گویا یہ ہدایات حفظ ماتقدم کے طور پر تھیں اور اس میں ان حالات کے لیے رہنمائی بھی تھی جو امت کو آئندہ پیش آنے والے تھے چنانچہ حضرت عثمان ؓ کی خلافت کے دور میں ان کے خلاف سبائیوں نے جو جھوٹی خبریں پھیلائیں اور ان پر اعتماد کر کے لوگ جس فتنہ کا شکار ہوئے وہ قرآن کی ان ہدایات کو جن میں مستقبل کی خانہ جنگی کی طرف اشارات تھے نظر انداز کر نے کا نتیجہ تھا۔
ان آیات کا اصل محلِ کلام یہی ہے۔ رہیں وہ روایتیں جو شانِ نزول کے طور پر بیان ہوئی ہیں تو ان کے بارے میں بہت کچھ کہنے کی گنجائش ہے۔ عام طور سے مفسرین اس آیت کے شانِ نزول میں یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو قبیلہ بنی المصطلق کی طرف ان کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا لیکن وہ ڈر گئے اور راستہ ہی میں سے واپس ہو گئے اور آ کر عرض کیا یارسول اللہ (قبیلہ کے سردار) حارث نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا اور میرے قتل کے درپے ہو گئے۔ اس پر آپ برہم ہوئے اور کچھ لوگوں کو حارث کی طرف بھیجا مگر مدینہ سے قریب ہی حارث انہیں مل گئے اور انہوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جس شخص کو آپ نے بھیجا تھا اس کو نہ میں نے دیکھا اور نہ وہ میرے پاس آیا۔ اس پر سورۂ حجرات کی یہ آیت نازل ہوئی اور ابن جریر کی روایت میں ہے کہ بنی المصطلق کے لوگ ولید بن عقبہ کے استقبال کے لیے باہر نکل آئے تھے مگر انہوں نے سمجھ لیا کہ وہ ان کے قتل کے ارادے سے نکلے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص۳۰۹) اولاً تو اس روایت کے متن میں بڑا اضطراب ہے ثانیاً اس روایت کو امام احمد وغیرہ نے محمد بن سابق سے نقل کیا ہے جن کو بعض محدثین نے ضعیف کہا ہے (تہذیب التہذیب ج ۹ ص۱۷۵) ثالثاً ابن جریر طبری نے اس کی جو اسناد بیان کی ہے اس میں ایک راوی موسیٰ بن عبیدہ ہے جس کو ترمذی ، نسائی اور علی بن المدینی وغیرہ نے ضعیف کیا ہے۔ تہذیب ج ۱۰ ص ۳۵۶۔ ۳۵۸) رابعاً اس روایت کے پیش نظر ولید بن عقبہ فاسق قرار پاتے ہیں حالانکہ ان کے فاسق ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاسق شخص کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے اپنا نمائندہ بنا کر بھیج دیں ؟
خامِساً یہ بات بھی تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فاسق کی خبر پر اعتماد کر لیا تھا۔ اسناد اور روایت کی ان خرابیوں کے پیش نظر یہ روایت قابل قبول نہیں ہے۔
اس آیت سے روایتوں کے بارے میں شریعت کا یہ قاعدہ بھی متعین ہوتا ہے کہ فاسق کی روایت کو بلا تحقیق قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے محدثین نے حدیث کی صحت کے لیے راویوں کا ثقہ (معتمد) اور عادل ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ رہی عقیدہ کی گمراہی تو وہ عملی فسق سے بڑھ کر ہے اس لیے جو لوگ دین میں تفرقہ ڈالنے والے اور بدعت کی راہ اختیار کرنے والے ہوں ان کی روایتیں قبول نہیں کی جاسکتیں اور وہ ہرگز حجت نہیں ہیں۔ مشہور تابعی ابن سیرین نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ:
اِنَّ ہٰذالحَدِیْثَ دِیْنٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأخُذُوُنَ دِیْنَکُمْ (الکفایۃ فی علم الروایۃ ۱۶۲) " یہ حدیثیں دین ہیں تو دیکھو کہ تم کن لوگوں سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو۔ "
اور یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ محدثین کے ایک گروہ نے اس معاملہ میں تساہل سے کام لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حدیث کی کتابوں میں بہ کثرت ایسی روایتیں شامل ہو گئیں جن کے راوی شیعیت اور بدعت میں مبتلا تھے اور جنہوں نے واقعات کو غلط رنگ میں پیش کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی باتیں منسوب کیں جن کی نسبت آپ کی طرف کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتی تھی۔ ان روایتوں نے دین کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا اس لیے اس معاملہ میں نرمی نہیں برتی جاسکتی۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ کسی غلط خبر پر اعتماد کر کے مسلمانوں کے کسی گروہ کے خلاف کوئی کارروائی کر بیٹھو اور بعد میں جب اصل صورتِ حال سامنے آئے تو پچھتانے لگو اس لیے پہلے ہی تحقیق کر لیا کرو۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کا رسول جب تمہارے درمیان رہنمائی کے لیے موجود ہے تو تم کیوں اپنی رائے پر اصرار کرنے لگو۔ تمہاری نظر ان مصلحتوں پر نہیں ہوسکتی جن مصلحتوں پر رسول کی دورس نگاہیں ہوتی ہیں اس لیے اگر رسول تمہاری بہت سی باتوں کو قبول کر لے تو خلافِ مصلحت ہونے کی بنا پر تمہیں نقصان پہنچے گا۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہیں سچے مومنوں کی باطنی خصوصیات جو انہیں راست رو بنا دیتی ہیں یعنی ایمان کا ان کی نظروں میں محبوب بن جانا، دلوں میں اس کا رچ بس جانا اور کفر و فسق اور معصیت سے ان کا متنفر ہونا۔ یہ باطنی خصوصیات ان مسلمانوں کی نہیں ہوسکتیں جو کسی مصلحت سے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے ہوں یا اسلام سے جن کا تعلق محض رسمی نوعیت کا ہو۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ ایمانی خصوصیات جن کا ذکر اوپر کی آیت میں ہوا جن لوگوں کی اندر پائی گئیں انہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ یہ متاع عزیز انہیں اسی کے فضل و کرم سے حاصل ہوئی۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ہدایت کا بھی یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں اس وقت کوئی جنگ چھڑ گئی تھی اس لیے صلح کرا دینے کا حکم دیا گیا بلکہ جیسا کہ ہم اوپر نوٹ ۱۰ میں واضح کر چکے ہیں پیش آمدہ حالات میں محتاط رہنے کے لیے بھی نیز مستقبل قریب میں حالات جو رخ اختیار کرنے والے تھے اور مسلمانوں کے درمیان جو فتنے برپا ہونے والے تھے ان کے تعلق سے پیشگی انتباہ بھی تھا اور ان حالات میں رہنمائی کا سامان بھی۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں مسلمانوں کی باہمی چپقلش اور ان کے درمیان برپا ہونے والے قتل و قتال کو روکنے کے لیے نہایت اہم ہدایات ہے جن سے کئی باتوں پر روشنی پڑتی ہے :
ایک یہ کہ شدید غلط فہمی یا کسی سازش وغیرہ کے نتیجہ میں مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان جنگ کی نوبت آ سکتی ہے لیکن اس بنا پر کسی گروہ کو کافر قرار دینا صحیح نہ ہو گا کیونکہ اس آیت میں لڑنے والے دونوں گروہوں کا ذکر مومنوں کے دو گروہ کی حیثیت سے ہوا ہے۔
دوسری یہ کہ لڑائی کی صورت میں دوسرے مسلمانوں کا کام ہے کہ وہ ان کے درمیان صلح کرا دیں اور ایسا کوئی طرزِ عمل اختیار نہ کریں جس سے جنگ کی آگ اور بھڑک اٹھے۔
تیسری یہ کہ جو گروہ صلح پر آمادہ نہیں ہوتا اور ظلم و زیادتی کرتا ہے تو اس کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کر لے اور اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرنے سے مراد صلح کا یہ حکم بھی ہے اور عدل و انصاف کا حکم بھی نیز وہ شرعی حکم بھی جو اس جنگ سے متعلق ہو۔
چوتھی یہ کہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرنے کی صورت میں اس گروہ کے خلاف طاقت کا استعمال ختم کیا جانا چاہیے۔ اور دونوں گروہوں کے درمیان مصالحت کرا دینی چاہیے۔
پانچویں یہ کہ مسلمانوں کے دو گروہوں کی باہمی لڑائی میں دوسرے مسلمانوں کو کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جو عدل و انصاف سے ہٹی ہوئی ہو یا جس سے جانبداری ظاہر ہوتی ہو۔ انہیں انصاف کی بات بے لاگ طور پر کہنا چاہیے خواہ کوئی فرقے ناراض ہو یا خوش کیونکہ اللہ کو انصاف کرنے والے لوگ ہی پسند ہیں۔
یہ احکام مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہیں مگر موجودہ دور کے مسلمانوں کا حال ایسا ہے کہ اللہ ہی رحم کرے۔ ان کے مختلف گروہ ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں اور مسلم ممالک کے درمیان جنگیں برپا ہوتی رہتی ہیں جس میں ہزاروں اور لاکھوں مسلمان مارے جاتے ہیں اس طرح وہ یہود کی تاریخ دہرا رہے ہیں جن کی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ گئی تھی اور جن کے درمیان ہمیشہ جنگیں برپا رہیں۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ دینی رشتہ کے اعتبار سے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ رنگ و نسل اور قوم و وطن کا فرق اس عالمگیر برادری میں کوئی رخنہ پیدا نہیں کرسکتا۔ وہ جہاں کہیں بھی ہوں ایک دوسرے سے منسلک رہیں گے اور ایک کے درد کی چوٹ دوسرا اپنے اندر محسو س کرے گا خواہ ان کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ہو۔ اس رشتہ اخوت کو مضبوط کرنے کی تاکید حدیث میں بھی کی گئی ہے۔
اَلْمُسْلِمُ اَحُوالْمُسْلِمِ لاَ یَظْلِمُہٗ وَلاَ یُسْلِمُہٗ مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہٖ کَانَ اللّٰہُ فِیُ حَاجَتِہٖ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَۃً فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہٗ بِہَاکُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ یَوْمِ القِیَامَۃِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِماً سَتَرَہٗ اللّٰہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (مسلم کتاب البر) " مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے ظالم کے حوالہ کرے جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے اللہ اس کی حاجت پوری کرتا رہتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی تکلیف کو دور کرے گا قیامت کے دن اللہ اس کی تکلیف کو دور کرے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ "
نیز ان باتوں سے منع فرمایا جو اس رشتہ کو کاٹ دینے والی ہیں۔ آپؐ کا ارشاد ہے :
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقِتَالُہُ کُفْرٌ (صحیح البخاری کتاب الادب) " مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔ "
لاَتَرْجِعُنَّ بَعْدِیْ کُفَّاراً یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔ (مشکوٰۃ براویۃ البخاری و مسلم) " میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ "
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر کی آیت میں دینی اخوت کے رشتہ کو قائم اور درست رکھنے کی تاکید کی گئی تھی۔ اب ان اخلاقی برائیوں سے بچنے کی ہدایت کی جارہی ہے جو باہمی تعلقات کو خراب کرنے والی اور بغض و عناد پیدا کرنے والی ہیں۔ ان اخلاقی خرابیوں میں ایک بہت بڑی خرابی ایک دوسرے کا مذاق اڑانا ہے۔ مذاق اڑانے والا دوسرے کی تحقیر کرتا ہے اور یہ بات تقویٰ کے منافی ہے۔ حدیث میں آتا ہے :۔
اَلتَّقْویٰ ہٰہُنا وَیُشِیُراِلٰی صَدْرۃِ ثَلاثَ مِرارٍ بِحَسْبِ امْرِی ٍ مِنَ الشَّرِ اَنْ یَحْقِرَ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ، کُلُّ مُسْلِمٍ عَلٰی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہٗ وَمَالُہٗ وَعِرْضَہٗ۔ (مسلم کتاب البر)
" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔ آدمی کے لیے یہ برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ "
مذاق ایک آدمی دوسرے آدمی کا بھی اڑاتا ہے اور ایک گروہ دوسرے گروہ کا بھی اور یہ دونوں صورتیں مذموم ہیں۔ عورتوں میں بھی یہ خصلت بہت زیادہ ہوتی ہے کہ وہ دوسری عورتوں پر ہنستی ہیں اور ان کا مذاق اڑاتی ہیں اس لیے عورتوں کو بھی خاص طور سے تاکید کی گئی کہ وہ اس سے باز رہیں۔ مذاق اڑانے والا جس کا مذاق اڑاتا ہے اس سے اپنے کو بہتر سمجھتا ہے مگر ہوسکتا ہے کہ جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ مذاق اڑانے والے سے بہتر ہو اس لیے یہ ذہنیت ہی غلط ہے کہ آدمی اپنے کو برتر اور دوسروں کو کمتر خیال کرے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ طعنہ زنی دلوں کو زخمی کرتی ہے اس لیے زبان کو طنز و تشنیع سے پاک رکھنا چاہیے۔ کسی کی ذات پر حملہ کرنا اس پر فقرے چست کرنا اور اس کو ملامت کا نشانہ بنانا سخت اذیت دہ بات ہے اور اس سے باہمی تعلقات کشیدہ ہو جاتے ہیں۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسروں کے لیے برے لقب تجویز کرنا اور برے ناموں سے انہیں پکارنا اور یاد کرنا بڑی بد اخلاقی کی بات ہے اور جو شخص کسی مسلمان کا برا نام رکھتا ہے وہ اس کی عزت کو پامال کرتا ہے اس لیے اس کو معمولی گناہ نہیں سمجھنا چاہیے۔
اس ہدایت سے بے پرواہی برتنے ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمانوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ کو اور ان کی ایک جماعت دوسری جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہے یہاں تک کہ جوگ توحیدِ خالص کے قائل ہوتے ہیں اور واسطہ وسیلہ، غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز، شخصیت پرستی اور قبر پرستی وغیرہ کے مخالف ہوتے ہیں ان کو "وہابیت" کا لقب دیا جاتا ہے اور ان کو ۲۴ نمبر کہہ کر پکارا جاتا ہے جو حروف ابجد کے لحاظ سے لفظ "وہابی" کا مجموعہ عدد ہے۔ یہ حرکتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو بدعات میں بُری طرح مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں اس بات کا کوئی احساس نہیں ہوتا کہ وہ دین کی راہ میں کتنی زبردست رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو شخص دوسروں کے لیے برے نام تجویز کرتا ہے وہ ایسا کر کے خود اپنے اوپر بدترین نام چسپاں کر لیتا ہے کیونکہ یہ حرکتیں فسق (گناہ اور نافرمانی) ہیں اور جو شخص یہ حرکت کرتا ہے وہ فسق کا ارتکاب کرتا ہے اور ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کو برے نام سے یاد کرنے والا فسق کا مرتکب ہوتا ہے جو بہت برا وصف ہے۔
ان ہدایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں اخلاقی پاکیزگی کی کیا اہمیت ہے اور وہ سوسائٹی میں کیسا ستھرا پن پیدا کرنا چاہتا ہے مگر مسلمانوں کی سوسائٹی میں جب تقویٰ کی بنیادیں کمزور ہو گئیں تو ہجو گوئی شاعروں کا طرۂ امتیاز قرار پایا اور ادب میں کثافت کی کثرت ہو گئی۔ موجودہ دور میں تو صحافت میں وہ کامیاب ہے جو دوسروں کی خوب پگڑی اچھالے ، نیک لوگوں کی کردار کشی کرے ، ذمہ دار لوگوں کے خلاف بے اعتمادی پھیلائے اور اسکینڈل پیش کرے۔ یہ سب حرکتیں مسلمانوں دوسرے مسلمانوں اور ان کی جماعتوں وغیرہ کے خلاف کرتے ہیں اور اس معاملہ میں اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ مسلم صحافت اور غیر مسلم صحافت میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ بہت کم لوگ ہیں جو اپنے دامن کو آلودہ ہونے سے بچا رہے ہیں۔
یہ صورتِ حال بھی بڑی افسوس ناک ہے کہ مسلمانوں میں گالی دینے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ اور گالیاں بھی ایسی فحش کہ ایک شریف آدمی شرم کے مارے پانی پانی ہو جائے۔ پھر جس کو گالی دی جاتی ہے اس کی ماں اور بہن کو جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا بلا وجہ نشانۂ ملامت بنایا جاتا ہے یہاں تک کہ جو مر گئے ہیں ان کی عزت پر بھی حملہ کیا جاتا ہے۔ ایسی شرمناک حرکتیں کرتے ہوئے مسلمانوں کا یہ احساس مردہ ہو جاتا ہے کہ ان کی ان باتوں کو اللہ سن رہا ہے اور ان کا ایک ایک لفظ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ وہ گالی دے کر صریح فسق اور بے حیائی کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کی سزا بڑی سخت ہے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان واضح ہدایات کے بعد بھی جو لوگ ان گناہوں سے توبہ نہیں کریں گے اور ان حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے وہ ظالم ہیں اور ظالموں کے لیے اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
آیت کے اس آخری فقرہ میں ہر مسلمان کے لیے توبہ کی ترغیب ہے کہ ان ہدایتوں کے علم میں آنے سے پہلے جو برائیاں ان سے سرزد ہوئی ہوں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور اپنی اصلاح کر لیں۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مومن کو دوسرے مومن کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہے۔ سورۂ نور میں ارشاد ہوا ہے :۔
لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًاوَّ قالُوْاہٰذآ اِفْکٌ مُّبِیْنٌ (نور:۱۲)
" جب تم لوگوں نے یہ بات سنی تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے ایک دوسرے کے بارے میں نیک گمان کیوں نہیں کیا۔ "
لیکن مسلمانوں میں سب اچھے کردار ہی کے نہیں ہوتے برے کردار کے بھی ہوتے ہیں اور ان کے شر سے تکلیف اور نقصان بھی پہنچتا ہے اس لیے خوش گمانی کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی خوش فہمیوں میں رہے بلکہ معقول وجوہ کی بنا پر آدمی کسی کے بارے میں برا گمان رکھنے میں حق بجانب ہوسکتا ہے مثلاً ایک شخص کی وعدہ خلافیوں کو دیکھتے ہوئے وہ یہ گمان کرتا ہے کہ جو وعدہ وہ مجھ سے کر رہا ہے اس کو وہ پورا نہیں کرے گا تو اس کا یہ گمان رکھنا بے بنیاد نہیں ہے اور نہ یہ گناہ کی تعریف میں آتا ہے۔ اسی طرح ایک ڈاکٹر کے بارے میں جو لا پرواہ ہو یہ خیال کرنا کہ وہ میرا علاج صحیح نہیں کرے گا اور اس وجہ سے اس کی طرف رجوع نہ کرنا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر شریعت گرفت کرتی ہو۔ شریعت کی گرفت اصلاً ان بد گمانیوں پر ہے جن کے لیے کوئی وجہ جواز نہ ہو اور جو باہمی تعلقات میں کشیدگی پیدا کرتے ہوں۔ ایسی بد گمانیوں کو اس آیت میں صریح گناہ کہا گیا ہے اور حدیث میں اسے بدترین جھوٹ سے تعبیر کیا گیا ہے :۔
اِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْلحَدِیثِ۔ (صحیح البخاری کتاب الادب) " بدگمانی سے بچو کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے۔ "
لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی جہاں تک ہوسکے بدگمانی سے بچے اس لیے آیت میں ہدایت یہ کی گئی ہے کہ بہت سی بد گمانیوں سے بچو۔ اس یہ بات خود بخود واضح ہوتی ہے کہ ہر بدگمانی گناہ نہیں ہے لیکن چونکہ بعض بدگمانیاں صریح گناہ ہیں اس لیے کسی کے بارے میں برا گمان رکھنے کے معاملہ میں آدمی کو محتاط رہنا چاہیے۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کسی کے عیب اور برائیاں نہ ٹٹولو۔ ایک متقی شخص کی نگاہ اپنی کمزوریوں پر ہوتی ہے اور اسے اپنی نجات کی فکر لاحق ہوتی ہے وہ دوسروں کی رایوں سے کیوں دلچسپی لینے لگے۔ حدیث میں بھی اس کی ممانعت آئی ہے :۔
وَلاَ تَجَسَّرُا ولَا تَحَسَّوُا (صحیح البخاری کتاب الادب)
" نہ ٹوہ میں لگے رہو اور نہ بھید تلاش کرو۔ "
انجیل میں بھی عیب جوئی پر بڑے موثر انداز میں نصیحت کی گئی ہے :۔
" عیب جوئی نہ کرو کہ تمہاری عیب جوئی نہ کی جائے۔ کیونکہ جس طرح تم عیب جوئی کرتے ہو اسی طرح تمہاری بھی عیب جوئی کی جائے گی اور جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اسی سے تمہارے واسطے ناپا جائے گا۔ تو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا؟ اور جب تیری ہی آنکھ میں شہتیر ہے تو تو اپنے بھائی سے کیونکر کہہ سکتا ہے کہ لا تیری آنکھ میں سے تنکا نکال دوں ؟ اے ریا کار پہلے اپنی آنکھ میں سے تو شہتیر نکال پھر اپنے بھائی کی آنکھ میں سے تنکے کو اچھی طرح دیکھ کر نکال سکے گا۔ " (متی ۷:۱ تا ۶)
رہا یہ سوال کہ کیا اس ہدایت کے پیش نظر اسلامی حکومت کے لیے خفیہ جرائم کا پتہ لگانا جائز نہیں ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ہدایت ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ہرگز مانع نہیں ہے جو امن عامہ کو برقرار رکھنے ، منکر کو روکنے اور سوسائٹی میں فساد کے انسداد کے تعلق سے اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہیں ان مقاصد کے لیے سراغ لگانے کے مناسب طریقے اختیار کرنا برائی نہیں بلکہ برائیوں اور جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ نہ تخریب کاری کا پتہ چل سکے گا اور نہ سازشوں کا اور نہ ان خفیہ اڈوں کا جو اسلامی حکومت یا مسلمانوں کی سوسائٹی کے لیے زبردست خطرہ کا باعث ہوں۔ یہ تجسس حکومت کے دائرہ کار سے تعلق رکھتا ہے جو یہاں زیر بحث نہیں۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ غیبت کے معنی پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنے کے ہیں اگرچہ وہ برائی فی الواقع اس میں موجود ہو۔ حدیث میں اس کی وضاحت اس طرح ہوئی ہے۔ :
ذِکَرُکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ قَیْلَ اَفَرَأَیْتَ اِنْ کانَ فِی اَخِی مَا اَقُولُ؟ قالَ اِنْ کانَ فِیہِ مَاتَقُولُ فَقَدِ اغْتَبْتَہٗ وَاِنَ لَّمْ یَکُنْ فِیہِ مَاتَمُولُ فَقَدْ بَہَتَّہٗ۔ (مسلم کتاب البر)
"غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرو جو اسے ناگوار ہو۔ کسی نے پوچھا اگر وہ بات میرے بھائی میں موجود ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو کیا یہ بھی غیبت ہو گی؟ فرمایا اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہو جو تم کہتے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ بات اس میں موجود نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔ "
لیکن اگر کسی کی برائی کا ذکر واقعی یا شعری ضرورت کی بنا پر کرنا پڑے تو اس کو نہ قرآن میں غیبت سے تعبیر کیا گیا ہے اور نہ حدیث میں ، اس لیے جن علماء نے غیبت کی جائز صورتیں بیان کی ہیں اس سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ وہ صورتیں بجائے خود جائز ہیں اور بعض تو وجوب کے درجہ کی ہیں لیکن یہ کہنا کہ یہ غیبت اور بد گوئی تو ہے مگر جائز ہے اور اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا حرام تو ہے مگر ایسے موقع پر یہ گوشت حلال ہو جاتا ہے حقیقتِ واقعہ کی بھونڈی تعبیر ہے۔ قرآن کی مستند اور مشہور لغت مفردات راغب میں غیبت کے معنی اس طرح بیان ہوئے ہیں :۔
وَالغِیبۃُ اَنْ یَذْکُرَ الاِنسانُ غیرَہَ بِما فِیہِ مِنْ عَیبٍ مِنْ غَیرِ اَنْ اَحَوَجَ اِلٰی ذِکْرِہِ۔ (مفردات ص ۳۷۳)
" غیبت یہ ہے کہ آدمی دوسرے کا ذکر عیب کے ساتھ کرے جب کہ اس کے ذکر کی ضرورت نہ ہو۔ "
کسی کے ضرر یا شر سے لوگوں کو بچانے ، عدالت میں شہادت پیش کرنے ، ظالم کے خلاف آواز اٹھانے ، مفسدانہ کاروائیوں اور تخریبی کاموں حکومت کو آگاہ کرنے ، مجرم کے خلاف رپورٹ لکھوانے ، منکر سے روکنے اور کسی کی شر انگیزی کے خلاف احتجاج کرنے ، راویوں پر جرح کرنے ، مصنفوں اور صحافیوں پر تنقید کرنے ، بدعات و خرافات اور گمراہیوں کی اشاعت کو روکنے اور انسداد رشوت ستانی کے لیے متعلقہ افراد کی جن برائیوں ، کمزوریوں اور مجرمانہ افعال کا ذکر ضروری ہو، ان کو بیان کرنا نہ صرف جائز بلکہ بسا اوقات واجب ہو جاتا ہے اس لیے اس قسم کی باتوں پر غیبت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ محدثین جنہوں نے اسماء الرجال کی کتابیں مرتب کیں غیبت کا دفتر کھول کر نہیں بیٹھے تھے بلکہ حدیثِ رسول کو ساقط الاعتبار روایتوں سے ممتاز کرنے کے لیے یہ قابلِ قدرت خدمت انہوں نے انجام دی۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نہایت بلیغ تشبیہ ہے جس سے غیبت کا گھناؤنا پن ظاہر ہوتا ہے اور اس سے سخت نفرت پیدا ہوتی ہے۔ جو مسلمان کسی مسلمان کی غیبت کرتا ہے تو وہ اس کا دینی بھائی ہے۔ جس کی غیر موجودگی میں وہ اس کی برائی کرتا ہے گویا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کی عزت پر حملہ کرتا ہے اور یہ بھی واقعہ ہے کہ غیبت کرنے والا دوسروں کے عیوب بیان کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے اس لیے غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جو شخص غیبت کا عادی ہو اس کو اس گھناؤنے کام کی بہت بری سزا بھگتنا ہو گی۔ حدیث میں اس کی تصویر اس طرح پیش کی گئی ہے :۔
قَالَ رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم لَمَّا عُرِجَ بِی مَرَرْتُ بِقَومٍ لَہُمْ اَظْفَارٌ مِنْ نُحاسٍ یَخْمِثُونَ وَجُوہَہَمْ وَصُدَورَہُمْ فَقُلْتُ مَنْ ہٰؤلائِ یاجِبْرِیْلُ؟ قالَ ہٰؤلائِ الَّذِینَ یَاکُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ وَیَقَعُونَ فِی اَعْراضِہِمْ۔ (ریاض الصالحین برویہ ابی داؤد)
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ (معراج کے موقع پر) جب مجھے اوپر لے جایا گیا تو میرا گزر ایسے لوگوں کی طرف ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور اپنے سینوں کو نوچ رہے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھایا کرتے تھے اور ان کی عزت پر حملہ کرتے تھے۔ "
آج مسلمانوں کی سوسائٹی میں غیبت عام ہے۔ گھروں میں عورتوں کا موضوع خاص طور سے دوسروں کی غیبت ہی ہوتا ہے اور مرد اپنی مجلسوں میں بلا وجہ دوسروں کی برائیاں بیان کرتے ہیں اور ان باتوں پر غیر ذمہ دارانہ انداز میں تبصرہ کرتے ہیں۔ مگر قرآن کی ان تنبیہات کے پیش نظر ضروری ہے کہ مسلمان اپنے گھروں اور اپنی مجلسوں کو غیبت سے پاک رکھیں اور کسی بھی مسلمان کی تنقیص اور تذلیل سے سخت پرہیز کریں۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ غیبت سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ آدمی اللہ سے ڈرے۔ جو لوگ غیبت وغیرہ کی بیماریوں میں مبتلا ہوں انہیں توبہ کی ترغیب دی گئی ہے کہ اگر وہ اللہ کی طرف رجوع کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں تمام انسانوں سے خطاب کر کے قوموں اور قبیلوں کے تعلق سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ ان سب کا سر رشتہ ایک ہی باپ اور ایک ہی ماں سے جا ملتا ہے۔ سب آدم اور حوا کی اولاد ہیں اور جب سب کی اصل ایک ہے تو نہ قومی اور قبائلی فخر کے لیے کوئی گنجائش ہے اور نہ امتیازات کے لیے جو رنگ و نسل اور ملک و وطن کی بنا پر قائم کئے جاتے ہیں اور جن سے باہم منافرت پیدا ہوتی ہے۔
زمین پر نوع انسانی کے پھیلاؤ کا یہ قدرتی اور لازمی نتیجہ تھا کہ وہ مختلف خطوں میں آباد ہوں اور جب لوگ مختلف خطوں میں آباد ہوئے تو ان کے رنگ الگ الگ ہو گئے ، ان کی نسلیں الگ الگ ہو گئیں اور زبانیں مختلف ہو گئیں۔ ان اختلافات نے جو ظاہری اور قدرتی تھے انسانوں کو قوموں اور قبیلوں کی شکل دی۔ یہ اختلاف جو قدرتی طور پر رونما ہوا کی مصلحت یہ تھی کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچانیں ، قریبی لوگوں سے زیادہ محبت پیدا ہو اور وہ حقِ قرابت ادا کریں۔ مگر لوگوں نے ان اختلافات کو باہم تفریق اور منافرت کا ذریعہ بنایا اور قوموں اور قبیلوں کے درمیان تعصبات کی دیواریں کھڑی کر دیں۔
موجودہ زمانہ میں لسانی عصبیت ، کالے رنگ والوں کے ساتھ گورے رنگ والوں کا امتیازی سلوک، نسلی برتری کا احساس اور قوم پرستی و وطن پرستی جن کی بنا پر مختلف انسانی گروہوں کے درمیان کشمکش اور جنگیں برپا ہیں اس حقیقت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان ہوئی ہے۔
ہندوستان کی مشرک قوم ذات پات کی قائل ہے اور اونچ نیچ کا تصور ان کے مذہبی تصورات میں شامل ہے اس لیے اونچی ذات کے لوگ نچلی ذات کے لوگوں کو شودر (حقیر) قرار دیتے ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ ان کو اچھوت قرار دے کر ان کے ساتھ بُرا سلوک کیا گیا اور ان کو گھٹیا درجہ میں رکھا گیا۔
اسلام کا معاشرتی نظام ان تمام خرابیوں سے پاک ہے اس میں نہ اونچ نیچ ہے اور نہ ذات پات کا تصور اور نہ چھو ت چھات کے لیے کوئی گنجائش۔ معاشرتی برابری کا مشاہدہ پنچ وقتہ نماز سے کیا جا سکتا ہے جس میں کسی قسم کے تفوق اور برتری کا لحاظ نہیں کیا جاتا اور سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
رہا نکاح میں کفَائَت (خاندانی حیثیت اور پیشہ وغیرہ میں برابری) کا مسئلہ تو اس کی حیثیت محض مصلحت کی ہے تاکہ شوہر اور بیوی کے درمیان نباہ کی صورت پیدا ہو نہ کہ شرعی قاعدہ کی کہ اس کے خلاف کرنا جائز نہ ہو۔ اس کی واضح مثال حضرت زینب کا جو قریشی تھیں۔ حضرت زید سے نکاح ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ معلوم ہوا کہ کُفْو کا لحاظ واجب نہیں ہے۔ عربی اور عجمی سب ایک دوسرے کی عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں۔ قرآن نے اصلاً دین اور پاکیزگی اخلاق اور پاک دامنی کو کُفْو (برابری) کا معیار قرار دیا ہے۔
الطَّیِّبٰاتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰاتِ۔ (نور :۲۶) " پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔ "
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے نزدیک شرف اور فضیلت کا معیار تقویٰ ہے۔ جو شخص تقویٰ یعنی خدا خوفی اور پرہیزگاری میں جتنا آگے ہے اتنا ہی اس کا مقام بلند ہے۔ سچی عزت اور سرفرازی تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ حسب و نسب اور اس قسم کی دوسری چیزوں سے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ جانتا ہے کہ تم میں سے کون کتنا اللہ سے ڈرنے والا ہے اور اس کے حالات سے باخبر ہے اس لیے وہ اس کا صحیح درجہ متعین کرے گا۔ ہو سکتا ہے ایک شخص کی لوگوں کی نظروں میں کوئی قدرو قیمت نہ ہو لیکن وہ تقویٰ کے بلند معیار پر ہو جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ اسے بلند درجہ عطا فرمائے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خاتمۂ سورہ کی آیات ہیں جن میں ان لوگوں پر گرفت کی گئی ہے جو اسلام کے عقیدہ کو قبول کر کے مسلمانوں میں شامل تو ہو گئے تھے لیکن ان کے دلوں میں ابھی ایمان اترا نہیں تھا۔ اسی لیے ان کا رویہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ایسا تھا جو ایمان سے میل نہیں کھاتا بلکہ اس کے منافی تھا۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اسلام کا لفظ اپنے ابتدائی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہونااور اطاعت کا اظہار کرنا۔ ظاہر ہے یہ اسلام اپنی روح ایمان سے خالی ہونے کی بنا پر محض ظاہری اسلام ہوتا ہے نہ کہ حقیقی اور مکمل اسلام اور جہاں تک ایمان کا تعلق ہے اس کی حقیقت دل کی تصدیق ہے۔ اس لیے ایمان کا زبانی دعویٰ بے معنی ہے اگر وہ دل کی تصدیق کے ساتھ نہ ہو۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ کلمہ گو ہونے اور ایمان کا زبانی اقرار کر لینے سے آدمی مسلمانوں میں تو شامل ہو جاتا ہے لیکن جب تک دل میں ایمان نہ اتر جائے اللہ کے نزدیک وہ مومن نہیں ہے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت شعاری اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ دل میں ایمان موجود ہو اور جو لوگ اطاعت شعار بنیں گے ان کے ہر نیک عمل کا اجر اللہ تعالیٰ انہیں دے گا اور اس میں کوئی کمی نہ کرے گا۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ترغیب ہے ان لوگوں کو کہ اپنی اصلاح کر کے اللہ کی مغفرت اور اس کی رحمت کے مستحق بن جائیں۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سچے مومن کی پہچان ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر اس طرح ایمان لتا ہے کہ اس کے دل میں کوئی شک باقی نہیں رہتا بلکہ اسے پورا یقین اور اطمینان ہوتا ہے اور یہ یقین اسے اس بات کے لیے آمادہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں قربانیاں دینے سے دریغ نہ کرے چنانچہ وہ دین کی خاطر مخالف اسلام طاقتوں سے کشمکش مول لیتا ہے اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنا مال بھی لگا دیتا ہے اور اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتا۔
موجودہ دور کے مسلمانوں کی بڑی تعداد دین کا شعور نہیں رکھتی۔ وہ کلمہ گو ہونے کی وجہ سے مسلمان تو ہیں لیکن ان کی گفتار اور کردار سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حقیقی ایمان سے آشنا نہیں ہیں اور اس خیالِ خام میں مبتلا ہیں کہ آخرت کی نجات کے لیے ان کا کلمہ گو ہونا کافی ہے۔ اگر وہ ان آیات کا بغور مطالعہ کرتے تو ان کی آنکھیں کھلتیں۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر تم اپنے دعوائے ایمان میں واقعی سچے ہو تو تمہیں سمجھنا چاہیے کہ تم نے ایمان لا کر اللہ کے رسول پر کوئی احسان نہیں کیا ہے بلکہ اللہ کا یہ احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی راہ دکھائی۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں ان لوگوں کے لیے جو محض ظاہری اسلام کو کافی خیال کرتے ہیں تنبیہ ہے کہ اللہ سے تمہارے باطن کا حال پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ اگر تمہارے دل ایمان سے خالی ہیں تو تمہارے ظاہری اسلام کی اللہ کے ہاں کوئی قدر نہیں ہو گی۔