آغاز میں الذاریات(گرد اڑانے والی ہواؤں)کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام " الذاریات" ہے۔
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔
آیت ۱ تا ۶ میں طوفانی اور بارش برسانے والی ہواؤں میں غافل انسانوں کو چونکا دینے، انہیں اللہ کی طرف متوجہ کرنے اور جزائے عمل کا یقین پیدا کرنے کا جو سامان ہے اس کی طرف متوجہ کر کے جزا و سزا کو لازماً واقع ہونے والی حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۷ تا ۱۴ میں جزائے عمل کا انکار کرنے اور اس کا مذاق اڑانے والوں کو اس کے انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔
آیت ۱۵ تا ۱۹ میں اللہ سے ڈرتے رہنے اور نیکی کی زندگی گزارنے کی ترغیب ہے چنانچہ ان کا بہترین صلہ بیان کیا گیا ہے۔
آیت ۲۰ تا ۲۳ میں ان نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں نیز انسان کے اپنے نفس میں موجود ہیں اور جن پر غور کرنے سے جزا و سزا کے برحق ہونے کا یقین پیدا ہوتا ہے۔
آیت ۲۴ تا ۲۶ میں انبیائی تاریخ کے چند اہم واقعات سے عبرت دلائی گئی ہے اور جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اللہ کا قانونِ سزا اس دنیا میں بھی کافر قوموں پر نافذ ہوتا رہتا ہے۔
آیت ۴۷ تا ۶۰ سورہ کے خاتمہ کی آیات ہیں جن میں اللہ کی قدرت و عظمت کو بیان کرتے ہوئے اس کی طرف لپکنے اوراسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
(۱)قسم ۱* ہے ان ہواؤں کی جو گرد اڑاتی ہیں۔۲*
(۲)پھر (پانی سے لدے بادلوں کا)بوجھ اٹھاتی ہیں۔ ۳*
(۳)پھر روانی کے ساتھ چلتی ہیں۔ ۴*
(۴)پھر ایک امر (بارش)کی تقسیم کرتی ہیں۔۵*
(۵)یقیناً جس چیز کی وعید (تنبیہ)تم کو سنائی جا رہی ہے وہ سچ ہے۔۶*
(۶)اور جزا و سزا یقیناً واقع ہو کر رہے گی۔۷*
(۷)قسم ہے تہ بہ تہ بادلوں والے آسمان کی۔۸*
(۹)حق سے وہی پھیرے جاتے ہیں جن کی عقل ماری گئی ہو۔۱۰*
(۱۰)ہلاک ہوں اٹکل سے باتیں کرنے والے۔ ۱۱*
(۱۲)پوچھتے ہیں جزا و سزا کا دن کب آئے گا؟۱۳*
(۱۳)جس دن یہ آ گ پر تپائے جائیں گے۔
(۱۴)چکھو مزا اپنے فتنہ کا۔۱۴* یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔
(۱۵)بلا شبہ اللہ سے ڈرنے والے ۱۵* باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
(۱۶)ان کے رب نے انہیں جو کچھ بخشا ہو گا اسے وہ لے رہے ہوں گے۔۱۶** وہ اس سے پہلے نیکو کار تھے۔۱۷*
(۱۷)وہ راتوں میں کم ہی سوتے تھے۔۱۸*
(۱۸)اور سحر کے اوقات میں استغفار کرتے تھے۔۱۹*
(۱۹)اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔۲۰*
(۲۰)اور زمین میں بڑی نشانیاں ہیں۔یقین کرنے والوں کے لیے۔۲۱*
(۲۱)اور خود تمہارے اندر بھی کیا تم دیکھتے نہیں؟۲۲*
(۲۲)اور آسمان میں تمہارا رزق بھی ہے۔۲۳* اور وہ چیز بھی جس کی وعید (تنبیہ)تم کو سنائی جا رہی ہے۔۲۴*
(۲۳)تو آسمان و زمین کے رب کی قسم یہ بات حق ہے۔۲۵* ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو۔۲۶*
(۲۴)کیا تمہیں ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات پہنچی ہے؟ ۲۷*
(۲۵)جب وہ اس کے پاس آئے تو انہوں نے کہا سلام۔اس نے کہا آپ لوگوں پر بھی سلام ہو__اجنبی لوگ ہیں۔
(۲۶)پھر وہ چپکے سے گھر والوں کے پاس گیا اور ایک فربہ بچھڑا(کا بھُنا ہوا گوشت)لایا۔ ۲۸*
(۲۷)اور اس کو ان کے سامنے پیش کیا۔ اور کہا کھاتے نہیں!
(۲۸)(اور یہ دیکھ کر کہ وہ کھاتے نہیں)اس نے اندیشہ محسوس کیا۔ ۲۹* انہوں نے کہا ڈرئیے نہیں۔ اور اسے ایک ذی علم فرزند کی خوشخبری دی۔۳۰*
(۲۹)یہ سن کر اس کی بیوی ۳۱* چیختی ہوئی آگے بڑھی۔ اس نے اپنا منہ پیٹ لیا ۳۲* اور کہا بڑھیا بانجھ۔
(۳۰)انہوں نے کہا ایسا ہی فرمایا ہے تیرے رب نے۔۳۳* وہ حکمت والا اور علم والا ہے۔
(۳۱)ابراہیم نے پوچھا اے فرستادو! تمہارے سامنے کیا مبہم ہے۔
(۳۲)انہوں نے کہا ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ ۳۴*
(۳۳)تاکہ ان کے اوپر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائیں۔ ۳۵*
(۳۴)جو آپ کے رب کے پاس حد سے گزر جانے والوں کے لیے نشان زد ہیں۔ ۳۶*
(۳۵)پھر ہم نے مومنوں کو وہاں سے نکال دیا۔ ۳۷*
(۳۶)اور وہاں ہم نے ایک گھر کے سوامسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔ ۳۸*
(۳۷)اور ہم نے وہاں ایک نشانی چھوڑ دی ان لوگوں کے لیے جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہوں۔۳۹*
(۳۸)اور موسیٰ کے ۴۰* واقعہ میں بھی نشانی ہے۔ جب ہم نے اسے فرعون کے پاس صریح قاہرانہ حجت کے ساتھ بھیجا۔
(۳۹)تو اس نے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں منہ موڑا اور کہا یہ جادوگر ہے یا دیوانہ۔
(۴۰)بالآخر ہم نے اس کو اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور ان کو سمندر میں پھینک دیا اس حال میں کہ وہ اپنے کو ملامت کر رہا تھا۔ ۴۱*
(۴۱)اور عاد ۴۲* کے واقعہ میں بھی نشانی ہے جب کہ ہم نے ان پر خشک ہوا بھیج دی۔
(۴۲)وہ جس چیز پر سے بھی گزری اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیا۔ ۴۳*
(۴۳)اور ثمود ۴۴* کے واقعہ میں بھی نشانی ہے جب کہ ان سے کہا گیا کہ ایک وقت تک فائدہ اٹھا لو۔ ۴۵*
(۴۴)مگر انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی۔ تو ان کو کڑک نے آ لیا اور وہ دیکھتے ہی رہ گئے۔ ۴۶*
(۴۵)پھر نہ وہ اٹھ سکے اور نہ اپنا بچاؤ کرسکے۔
(۴۶)اور نوح کی قوم ۴۷* کو بھی ہم نے ان سے پہلے پکڑا۔ وہ بھی نافرمان لوگ تھے۔
(۴۷)اور آسمان کو ہم نے قدرت سے بنایا اور ہم بڑی وسعت رکھنے والے ہیں۔ ۴۸*
(۴۸)اور زمین کو ہم نے بچھایا تو کیا خوب بچھانے والے ہیں۔ ۴۹*
(۴۹)اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو۔۵۰*
(۵۰)تو اللہ کی طرف دو ڑو۔۵۱* میں اس کی طرف سے تمہارے لیے کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔۵۲*
(۵۱)اور اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھہراؤ۔ میں اس کی طرف سے تمہارے لیے کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔۵۳*
(۵۲)اسی طرح ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں کے پاس جو رسول بھی آیا اس کو انہوں نے جادوگر یا دیوانہ ہی کہا۔ ۵۴*
(۵۳)کیا وہ ایک دوسرے کو اس کی وصیت کر گئے ہیں؟ در حقیقت یہ سرکش لوگ ہیں۔ ۵۵*
(۵۴)لہٰذا تم ان سے رخ پھیر لو۔تم پر کوئی الزام نہیں۔ ۵۶*
(۵۵)اور نصیحت کرتے رہو کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ ۵۷*
(۵۶)میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔۵۸*
(۵۷)میں نہ ان سے رزق چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ ۵۹*
(۵۸)یقیناً اللہ ہی رزاق" قوت والا" زور آور ہے۔ ۶۰*
(۵۹)پس ان ظالموں کے لیے ویسا ہی پیمانہ ہے جیسا ان کے ہم مشروبوں کے لیے تھا۔ ۶۱* تو یہ جلدی نہ مچائیں۔
(۶۰)ان کافروں کے لیے اس دن تباہی ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ ۶۲*
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ہواؤں کی قسم شہادت کے طور پر ہے یعنی یہ ہوائیں جزائے عمل کا یقین پیدا کرتی ہیں۔ شہادت کے معنی میں قسم عربی زبان میں بلاغت کا اسلوب ہے۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ گرد اڑانے والی ہوائیں بارش کا پیش خیمہ ہوتی ہیں اور کبھی آندھی کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ یہ غافل انسانوں کو چونکا کر اللہ کی عظمت ، اس کی قدرت اور اس کی شانِ جلالت کا یقین پیدا کرتی ہیں۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوائیں نہایت لطیف ہوتی ہیں لیکن کروڑ ہا لیٹر پانی سے لدے ہوئے بادلوں کا بوجھ اٹھاتی ہیں۔ موسم باراں میں ہوائی جہاز سے سفر کرنے والوں کو نیچے کی جانب ایسا منظر دکھائی دیتا ہے کہ گویا فضا میں بادلوں کا ایک سمندر ہے جو افق تک پھیل گیا ہے۔ ہواؤں کا اپنے دوش پر پانی سے لدے ہوئے بادلوں کو لئے ہوئے پھرنا ایک با عظمت اور با اقتدار ہستی کی کارفرمائی کی واضح علامت ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوائیں جب پانی سے لدے ہوئے بادلوں کا بوجھ اٹھا لیتی ہیں تواس بوجھ کے اثر سے ان کی رفتار کم نہیں ہوتی بلکہ وہ نہایت آسانی اور روانی کے ساتھ چلتی ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کی باگ ڈور ایک قادرِ مطلق اور مدبر ہستی کے ہاتھ میں ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ بارش کو " امر" سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ یہ نہایت اہم چیز ہے اور ہوائیں اللہ کے حکم سے پانی کی تقسیم کا کام انجام دیتی ہیں۔ وہ کسی خطہ میں ہلکی سی بارش برساتی ہیں تو کسی خطہ میں موسلا دھار، کہیں سیلاب لاتی ہیں تو کہیں طوفان اور کہیں بارانِ رحمت بن کر برستی ہیں تو کہیں تباہی اور عذاب بن کر۔ گویا ہوائیں ایک منصوبہ بند طریقہ پر پانی کی تقسیم عمل میں لاتی ہیں۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے پیچھے ایک زبردست قدرت رکھنے والی، نہایت مدبر اور دانا و بینا ہستی کا ہاتھ کارفرما ہے۔
تقسیم امر کی نسبت ہواؤں کی طرف مجازی ہے۔ اور اس مجاز کی مثالیں قرآن میں موجود ہیں مثلاً دیوار کی طرف ارادہ کی نسبت جِدَ راً یرِیدُ اَنْ ینْقَضَّ۔ (دیوار جو گرا چاہتی تھی۔ سورہ کہف : ۷۷)
ایک روایت میں بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ مُقَسِّمَاتِ اَمْلاً سے مراد فرشتے ہیں لیکن یہ روایت جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے صراحت کی ہے ضعیف ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۲۳۲)اس لیے لائقِ حجت نہیں۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قیامت کا دن ہے نیز وہ دن بھی جو رسول کو جھٹلانے والی قوم کے لیے دنیا میں عذاب کا دن ہو گا۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ غور کیجئے تو ہواؤں کے اس تصرف میں اللہ کی معرفت حاصل کرنے کا سامان بھی ہے اور جزا و سزا پر یقین کرنے کا سامان بھی۔ یہ ہوائیں جب چلتی ہیں تو دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کرتی ہیں اور اس کی رحمت کا تصور بھی۔ گویا یہ اپنے عجیب و غریب تصرفات سے اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ خدا سے سرکشی کرنے والوں کے لیے عذاب کا کوڑا ہے اور اس کے نیک اور وفادار بندوں کے لیے رحمت ہے۔ اس سے یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ جزا و سزا کا واقع ہونا بالکل یقینی اور حق ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل میں لفظ حُبُک استعمال ہوا ہے جو حباک کی جمع ہے۔ ہوائیں پانی میں جو لہریں پیدا کرتی ہے ان کو حُبُک کہا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے یہ تہ بہ تہ اور مختلف شکلوں میں ظاہر ہونے والے بادلوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ امراء القیس کہتا ہے۔
(ان پر تہ بہ تہ بادل چھائے ہوئے ہیں گویا کہ دھاری دار چادریں ہیں)
ہوائیں آسمان میں بادلوں کو اس طرح بکھیرتی ہیں کہ وہ تہ بہ تہ نظر آنے لگتے ہیں اور ان کی مختلف شکلیں بن جاتی ہیں۔ آسمان کا یہ منظر بڑا چونکا دینے والا ہوتا ہے اور دیکھنے والوں میں خدا کا خوف پیدا کرتا اور انہیں دعوتِ فکر دیتا ہے۔ یہ خوف اس بات کی دلیل ہے کہ انسان خدا کے حضور جوابدہ ہے اور اس سے سرکشی کر کے اس کی سزا سے بچ نہیں سکتا۔ لہٰذا قرآن جزا و سزا کے دن کی جو خبر دے رہا ہے اس کی تائید ہیبت پیدا کرنے والے بادلوں سے بھی ہوتی ہے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جزا و سزا کا واقع ہونا ایک حقیقت ہے لیکن تم اس کا انکار کر کے الجھن میں پڑ گئے ہو چنانچہ مختلف لوگ مختلف باتیں کہتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے جزا وسزا کی کوئی حقیقت نہیں۔ کوئی کہتا ہے جزا و سزا جو کچھ بھی ہے اس دنیا ہی میں ہے۔ کوئی کہتا ہے اگر مرنے کے بعد جزا و سزا کا معاملہ پیش آ ہی گیا تو ہمارے معبود ہماری شفاعت کریں گے اور کوئی پونر جنم کا فلسفہ پیش کرنے لگتا ہے۔ اقوال اور عقائد کا یہ اختلاف جزا و سزا کی اصل حقیقت سے انکار و انحراف ہی کا نتیجہ ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ق نوٹ ۶۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جزا و سزا کو ماننے سے وہی لوگ انکار کرتے ہیں۔ جن کی عقل ماری گئی ہے ورنہ جو شخص بھی اللہ کی بخشی ہوئی عقل سے کام لے گا وہ اس واضح حقیقت کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔ اللہ کا قانونِ ضلالت یہ ہے کہ جس شخص کے سامنے حق پیش کیا جاتا ہے اور وہ عقل سے کام لینے کے بجائے خواہشات کے پیچھے پڑ کر انکار کرتا ہے اس کی توجہ حق کی طرف سے پھیر دی جاتی ہے پھر وہ اس سے روگردانی اختیار کرتا ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان اپنے کئے کی جزا و سزا پائے گا یا نہیں؟ یہ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جو انسان کے رویئے کو متعین کرتا ہے اور اس پر اس کی کامیابی و ناکامی کا دار و مدار ہے اس لیے اس کا جواب علمی بنیاد پر اور دلائل و شواہد کی روشنی میں ملنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی و رسالت کا سلسلہ جاری کر کے اس کا علم بخشا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان ایک ذمہ دار اور خدا کے حضور جوابدہ مخلوق ہے اور جزا و سزا کا معاملہ لازماً پیش آئے گا اور کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسان ایمان لا کر نیکی کی روش اختیار کرے۔ اس علم حق کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے اس کائنات اور خود انسان کے اپنے نفس کے اندر ایسی نشانیاں رکھی ہیں جو دلائل و شواہد کی حیثیت رکھتی اور اس کی صحیح رہنمائی کرتی ہیں۔ اس ٹھوس علم کو چھوڑ کر زندگی کے اس اہم ترین مسئلہ میں اٹل کے تیر چلانا اور قیاس و گمان سے باتیں کرنا اس کے سوا کیا ہے کہ آدمی روشنی کو چھوڑ کر تاریکی(اندھیرے)میں چلنا پسند کرے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنے کو تباہی کے راستے پر ڈالتے ہیں انسانوں کی بہت بڑی تعداد مذہبی تعصبات، اندھی خواہشات اور مادہ پرستی کی بنا پر تاریکیوں میں بھٹک رہی ہے۔ پونر جنم اور تناسخ کا فلسفہ ہو، یا " موت کے بعد کوئی زندگی نہیں" کا دعویٰ ہو یا عمل کے بجائے شفاعت پر تکیہ کئے رہنے کا عقیدہ ہو۔ یہ سب قیاس اور وہم و گمان کی باتیں ہیں جو برے انجام کو پہنچانے والی ہیں۔ علم کی روشنی وہی ہے جو قرآن بخشا ہے اور وہ کامیابی کی ضامن ہے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ شدید غفلت میں مبتلا ہیں اس لیے انہیں اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ آگے کیا کچھ پیش آنے والا ہے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا یہ سوال کہ وہ دن کب آئے گا جب آدمی اپنے کئے کا پھل پائے گا۔ قامت کا مذاق اڑانے کے لیے تھا اس لیے اس کا جواب بھی آگے سخت تنبیہی انداز میں دیا گیا ہے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ فتنہ سے مراد شر ہے جس میں وہ دنیا میں مبتلا تھے۔ یہ شر عذاب بن کر ان کو اپنی گرفت میں لے گا۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ متقین (اللہ سے ڈرنے والوں)سے مراد جیسا کہ سیاق و سباق سے واضح ہے وہ لوگ ہیں جو بدلہ کے دن پر یقین رکھتے تھے اور اس کی نافرمانی سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی بخشی ہوئی ابدی نعمتوں کو وہ ہنسی خوشی قبول کر رہے ہوں گے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں انہوں نے نیک عملی کی زندگی گزاری تھی۔ محسن(نیکو کار)وہ ہے جو اللہ کے احکام کو نہ صرف بجا لائے بلکہ حسن و خوبی کے ساتھ بجا لائے اور بہترین کردار کا ثبوت دے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ رات کا زیادہ حصہ اللہ کی عبادت تھے۔ ان کو اپنے آرام سے زیادہ اللہ کی عبادت عزیز تھی اور قیامت کا کھٹکا انہیں چین کی نیند سونے نہیں دیتا تھا۔ قرآن نے اس شب بیداری کو معیار مطلوب کی حیثیت سے پیش کر دیا ہے تاکہ جو شخص جتنا اونچا اٹھنا چاہے اٹھے لیکن اس کو واجب نہیں کیا چنانچہ سورہ مزمل میں اس کی صراحت کر دی گئی ہے۔
احنف بن قیس صحابیٔ رسول ہیں وہ اعتراف کرتے تھے کہ : لَسْتُ مِنْ اِہْلِ ہٰذہِ الآ یۃِ " میں اس آیت کا اہل نہیں ہوں" (تفسیر طبری ج ۲۶ ص ۱۲۲)
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ آل عمران نوٹ ۲۳۔ اور ۲۴۔ سحر کا وقت قربِ الٰہی حاصل کرنے کے لیے موزوں ترین وقت ہے۔حدیث قدسی ہے:
اَنَّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ینْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیلَۃٍ اِلٰی السَّمٓاءِ الدُّ نْیا حِینَ یبْقٰی ثُلُثُ اللَّیلِ الآخِرِ یقُوْلُ: مَنْ یدْعُوْنِیْ فَاَسْتَجِیبُ لہٗ من یسْألُنِیْ فَاُعْطِیہٗ مَنْ یسْتَغْفِرُنِیْ فَاَغْفَرَلَہٗ(صحیح البخاری ابواب التہجد)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات جبکہ رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے : کوئی ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کی پکار کا جواب دوں، کوئی ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے دوں ، کوئی ہے جو مجھ سے معافی چاہے تو میں اسے معاف کر دوں"
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ سائل وہ ہے جو اپنی حاجت کو پورا کرنے کے لیے مالی مدد طلب کرے۔ اگر مانگنے والا بظاہر حالات حاجت مند ہو تو اس کا حق سمجھ کر اس کی مدد کرنا چاہیے۔ اگر فی الواقع وہ حاجتمند نہیں ہو ا تو اس کی کوئی ذمہ داری صدقہ دینے والے پر عائد نہیں ہو گی۔ رہے ہو بھیک منگے جو تندرست ہونے کے باوجود فقیری کو پیشہ بنا لیتے ہیں اور مزید یہ کہ غیر اللہ کے نام پر بھیک مانگ کر شرک کا پرچار کرتے رہتے ہیں وہ ہرگز صدقہ و خیرات کے مستحق نہیں ہیں۔ حدیث میں آتا ہے:
مَایزَالُ الرَّجُلُ یسْألُ النَّاسَ حَتّٰی یأْتِیَ یوْمَ الْقِیامَۃِ لَیسَ فِیْ وَجْہِہٖ مُزَعۃٗ لَحْم ٍ (صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ)
" آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب قیامت کے دن وہ حاضر ہو گا تو اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا نہ ہو گا۔"
اور محروم وہ لوگ ہیں جو اپنی کسی معذوری یا حالات کی ناسازگاری یا کسی مصیبت میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے اپنی گزر بسر کا سامان نہ پاتے ہوں اور اپنی خود داری کی وجہ سے کسی سے کچھ مانگتے بھی نہ ہوں۔ ایسے لوگ حقیقتاً مدد کے مستحق ہیں۔ قرآن نے خاص طور سے ان کا ذکر کر کے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے مال کی نعمت سے نوازا ہے ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے مفلوک الحال لوگوں کو شناخت کر کے ان کی مدد کریں جبکہ انہوں نے مانگنے کا عار گوارا نہ کی ہو۔
آیت سے یہ بھی واضح ہے کہ سوسائٹی کے حاجتمند افراد کی مدد اصحاب مال کی طرف سے کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ ان افراد کا ان کے مال میں حق ہے جس کی ادائیگی ان پر واجب ہے۔
یہ سورہ مکی ہے اور زکوٰۃ کے تفصیلی احکام مدنی دور میں دیئے گئے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ حق تفصیلات کے بغیر بھی ایک معروف حق تھا اور اس کا ادا کرنا اہل ایمان کا وصف ہے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین میں اللہ کی قدرت، اس کی ربوبیت اور اس کے علم و حکمت کی نشانیاں بالکل نمایاں ہیں اور اللہ کی ان صفات پر غور کرنے سے اس کے بارے میں جو تصور قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ خیر و شر میں تمیز کرنے والا اور عدل کرنے والا ہے اور اس نے اپنی مخلوق کو ایک غایت کے ساتھ پیدا کیا ہے اس سے اس بات کا یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ انسان اللہ کے حضور جوابدہ ہے اور اپنے عمل کے مطابق اسے جزا یا سزا پانا ہے۔
موجودہ دور میں جیالوجی (Geology)نے زمین کی ساخت، اس کی تہوں، اس کے پرت، اس کے اندر کے لاوے، اس میں پائی جانے والی معدنیات، اس کی کشش اور اس کی گردش وغیرہ کے بارے میں عقل کو حیرت میں ڈالنے والے اکتشافات کئے ہیں۔ یہ سارا اہتمام اس لیے ہے کہ انسان زمین پر آباد ہو۔ تو کیا جس کو زمین پر آباد کرنے کے لیے یہ اہتمام کیا گیا ہے اس کی زندگی بے مقصد ہوسکتی ہے؟ اور کیا وہ ہستی جس نے انسان کو زمین پر بسانے کیلئے یہ سارا اہتمام کیا ہے اور شعور اور عقل و تمیز رکھنے والی مخلوق بنایا ہے اسے وہ یونہی چھوڑ دے گا اور اس کے اچھے اور بُرے عمل میں کوئی تمیز نہ کرے گا؟ ان خطوط پر جو شخص بھی قرآن کی روشنی میں غور کرے گا اسے اللہ کی ربوبیت کا اور پھر اس کی طرف سے ملنے والی جزا و سزا کا یقین لازماً پیدا ہو گا۔
زمین پر زلزلوں کے جھٹکے سونے والوں کو جگا دیتے ہیں اور ان میں خوف و دہشت پیدا کر کے اس بات کی وارننگ(Warning)دیتے ہیں کہ اس کائنات کا رب عذاب کا کوڑا برسا سکتا ہے اس کی طرف سے بے پروانہ ہو جاؤ بلکہ اس سے ڈرتے رہو۔ ایسی کھلی نشانیوں کے دیکھنے کے بعد یہ کہنا کہ خدا کو جزا و سزا سے کوئی سروکار نہیں اور انسان اس سے بے تعلق ہو کر اپنی من مانی کرنے کے لیے آزاد ہے کس قدر غلط ،غیر منصفانہ، نامعقول اور غیر حقیقت پسندانہ بات ہے!
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کی فطرت بھلائی اور برائی میں تمیز کرتی ہے اس کا نفس برائی پر ملامت کرتا ہے اور بھلائی پر اسے سکون بخشتا ہے۔ گویا ایک طرح کی عدالت انسان کے اپنے نفس ہی میں موجود ہے اس طرح اس کا وجدان پکار پکار کر کہتا ہے کہ اپنے رب سے ڈرو۔ کیا یہ اس بات کی واضح علامت نہیں ہے کہ نا فرمانوں پر اللہ کے عذاب کا کوڑا برس سکتا ہے اور کیا یہ اس بات کا ثبوت تمہیں ہے کہ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ ان کے رویہ کے مطابق معاملہ کرے گا؟
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بارش جس سے پینے کے لیے پانی بھی مہیا ہو جاتا ہے اور کھانے کے لیے غلے، پھل اور نباتات بھی حاصل ہو جاتی ہیں۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عذاب جو بجلی ، کڑک، طوفان، وغیرہ کی شکل میں تم پر نازل ہوسکتا ہے۔ آسمان میں بارانِ رحمت بھی ہے اور عذاب کا کوڑا بھی جس سے اللہ کی دونوں صفتیں ظاہر ہوتی ہیں یعنی وہ رحیم بھی ہے اور سخت سزا دینے والا بھی۔ اس سے لازم آتا ہے کہ وہ ایک ایسا دن لائے جب وہ اپنے نیک بندوں پر اپنی رحمت نچھاور کرے اور سرکشوں کو سخت سزا دے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں قسم بات کو پورے وثوق اور تاکید کے ساتھ پیش کرنے کے لیے کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین کی یہ علامتیں جو اوپر پیش کی گئیں رب حقیقی کا یقین پیدا کرتی ہیں اور ساتھ ہی اس بات کا یقین بھی کہ جزا و سزا کا معاملہ بالکل برحق ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان جب بولتا ہے تو اسے پورا پورا یقین ہوتا ہے کہ یہ میرا نفس ہی ہے جو بول رہا ہے اور اسے اس میں کوئی شبہ لاحق نہیں ہوتا ٹھیک اسی طرح جزا و سزا کا معاملہ شبہ سے بالاتر اور بالکل یقینی ہے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ واقعہ سورۂ ہود اور سورہ حجر میں تفصیل سے بیان ہوا ہے وہاں تشریح طلب باتوں کی وضاحت بھی کی جاچکی ہے۔ ملاحظہ ہو سورۂ ہود نوٹ ۹۶ تا ۱۰۴ اور سورہ حجر نوٹ ۴۹ تا ۵۵۔
یہ معزز مہمان فرشتے تھے جو انسان کی شکل میں آئے تھے اور جن کے چہرے بشر ے سے وقار ظاہر ہو رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ابراہیم علیہ السلام کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ وہ انہیں بڑھاپے میں ایک ایسے بیٹے کی خوشخبری دیدیں جو صاحب علم ہو گا اور جسے نبوت عطا کی جائے گی اور جس سے ایک ایسی نسل وجود میں آئے گی جس کو دنیا والوں پر فضیلت حاصل ہو گی اور جس کے کار ہائے نمایاں تاریخ کے اوراق پر ثبت ہوں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام تھا جو اس نے دنیا میں ابراہیم علیہ السلام کو عطا کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو ان کی نیکی بدولت نوازتا ہے۔ اسی طرح آگے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب کے نازل ہونے کا جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کفر و سرکشی کرنے والوں کو اس دنیا میں بھی سخت سزائیں دیتا ہے۔اور جب دنیا میں رحمت اور عذاب دونوں کا ظہور ہوتا رہتا ہے تو پھر عمل کو بے نتیجہ کیسے قرار دیا جاسکتا ہے اور قیامت کے دن کی جزا و سزا سے انکار کیسے کیا جاسکتا ہے؟ مختصر یہ کہ جزا و سزا کا یقین پیدا کرنے کیلئے یہاں دونوں واقعات بیان کئے گئے ہیں۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے ضمناً مہمان نوازی کے آداب بھی واضح ہوئے۔ ضیافت کا سامان اس طرح کیا جائے کہ مہمان کو اس کی خبر نہ ہونے پائے اور خاطر تواضع میں تنگی نہ برتی جائے بلکہ وسعت اخلاق کا ثبوت دیا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا فَربہ بچھڑے کو بھون کر لانا اور مہمانوں کے سامنے وافر غذا پیش کرنا ان کی کریم النفسی اور فیاضی پر دلالت کرتا ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ یہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں اور فرشتوں کا انسانی صورت میں آنا کسی اہم مقصد کے لیے ہی ہوسکتا ہے اس لیے انہیں خوف محسوس ہوا کہ معلوم نہیں معاملہ کیا ہے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حضرت اسحاق کی ولادت کی خوشخبری تھی۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی حیرت ہے۔ یہ حضرت سارہ کا نسوانی انداز تھا۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی باوجود بڑھیا بانجھ ہونے کے لڑکا پیدا ہو گا۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قوم لوط کی طرف۔
تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۱۰۵ تا ۱۲۱ اور سورۂ حجر نوٹ ۵۶ تا ۷۴۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ ہود نوٹ ۱۱۹۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ بات بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے ہے کہ کونسا پتھر کس کو لگے گا اور اس کی ہلاکت کا باعث بنے گا۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عذاب آنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اس بستی سے صحیح سلامت نکال لیا۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس بستی میں مسلمانوں کا صرف ایک گھر تھا اور وہ تھا حضرت لوط کا۔ ان کے خاندان کے افراد کے سوا کسی نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
حضرت لوط علیہ السلام کی دعوتی و اصلاحی جدوجہد کا یہ نتیجہ کہ صرف ان کا اپنا گھر ہی مسلمانوں کا گھر بن سکا۔ دعوت و اصلاح کا کام کرنے والوں کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔ باوجود اس کے کہ دعوت و اصلاح کا کام کتنے ہی بہترین طریقہ پر انجام دیا گیا ہو اور اس کام کو انجام دینے والی اعلیٰ کردار کی حامل نبی کی شخصیت ہی کیوں نہ رہی ہو ضروری نہیں کہ لوگ دعوت قبول کر کے اپنی اصلاح کر لیں۔ بہت کم لوگوں کو قبول حق کی توفیق نصیب ہوسکتی ہے۔ لہٰذا نتائج کو اللہ پر چھوڑ کر اپنا فریضہ بحسن و خوبی ادا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۱۲۱۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اب مختصراً فرعون، عاد ، ثمود اور قومِ نوح جیسی سرکش قوموں کے عبرتناک انجام کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ یہ واقعات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال سے بے خبر نہیں ہے سرکش قوموں پر اس کے عذاب کا کوڑا برابر برستا رہا ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس نے جو باغیانہ اور ظالمانہ رویہ اختیار کیا تھا اس کا احساس اسے موت کے وقت ہوا۔ اس بناء پر وہ خود اپنے کو ملامت کرنے لگا۔
فرعون کے غرقاب ہونے کا واقعہ سورۂ یونس اور سورۂ طٰہٰ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد کی ہلاکت کا واقعہ سورۂ احقاف میں زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ احقاف نوٹ ۴۱ اور ۴۲۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمود کی ہلاکت کا واقعہ سورۂ ہود اور دسری متعدد سورتوں میں بیان ہوا ہے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا کا فائدہ تھوڑے دن کے لیے ہے لہٰذا اسے مقصود نہ بناؤ اور آخرت پر اسے ترجیح نہ دو۔ آخرت کو مقصود بنا کر دنیا کا جتنا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے اتنا ہی حاصل کرو۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی نظروں کے سامنے ان کو کڑک نے آ لیا اور وہ شسدر رہ گئے۔
تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۱۲۳۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ نوح علیہ السلام کی قوم کی ہلاکت کا واقعہ سورۂ ہود میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سورہ کی اختتامی آیتیں ہیں جن میں تذکیر کے انداز میں توحید، آخرت اور رسالت کو مربوط شکل میں پیش کر دیا گیا ہے چونکہ اللہ کی صحیح معرفت ہے جزا و سزا کا تقاضا ابھرتا ہے اور اس کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے رسالت ضروری ہے۔
آسمان کو دیکھنے سے اللہ کی وسیع قدرت کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ مشاہدہ کھلی آنکھوں سے کیا جاسکتا ہے لیکن موجودہ دور میں سائنس نے طاقتور دور بینوں کی مدد سے جو اکتشافات کئے ہیں۔ وہ آسمانی دنیا کی وسعت کا حیرت انگیز تصور پیش کرتے ہیں۔ اربوں ستاروں کا وجود، کہکشاؤں کا نظام اور بڑی بڑی متعدد کہکشائیں اتنی بلندی پر ستارے جن کی روشنی کئی نوری سال (Light Years)میں زمین پر پہنچتی ہے اور ان سب معلومات کے بعد اس بات کا ماہرین فلکیات کی زبان سے اعتراف کہ اس کائنات کی انتہاء کا ہمیں علم نہیں اور یہ مسلسل پھیلتی (Expand)جا رہی ہے اس آیت کی صداقت کی واضح دلیل ہے اور اس سے اللہ کی بے پناہ قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔
پھر جو خدا اتنی وسیع قدرت رکھتا ہو وہ ایک ایسا عالم کیوں نہیں برپا کرسکتا جس میں تمام انسانوں کو زندہ کر کے ان کے اعمال کا بدلہ نہیں دیا جائے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بچھا دیا ہے کہ ان پر اربوں انسان سکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اس کی سطح کو اس خوبی سے پھیلا دیا ہے کہ اس پر چلنا پھرنا نہایت آسمان ہو گیا جغرافیہ کے لحاظ سے دیکھیں تو زمین کا قطر تقریباً تیس ہزار میل اور اس کی سطح تقریباً پچاس کروڑ کلو میٹر ہے اس سے اس کی وسعت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے مگر انسان کی تنگ نظری کا حال یہ ہے کہ وہ خدا کی قدرت کو محدود سمجھ کر آخرت کا منکر بنتا ہے۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یسٰین نوٹ ۳۹، ، ۴۰ ، ۴۱ ، ۴۲۔
دنیا میں جب ہر چیز جوڑے جوڑے ہے اور اپنی تکمیل اپنے جوڑے سے مل کر کرتی ہے تو دنیا کا بھی جوڑ ہونا چاہیے اور قرآن بتلاتا ہے کہ اس کا جوڑ آخرت ہے اور آخرت سے مل کر ہی دنیا کی تکمیل ہوتی ہے ورنہ دنیا کا وجود نا مکمل، بے مقصد اور عبث ہو کر رہ جاتا ہے۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اور اس کے بعد کی دو آیتیں اللہ ہی کا کلام ہیں مگر ان کو اس اسلوب میں پیش کیا گیا ہے کہ متکلم(بولے والے)نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تاکہ یہ کلمات زبانِ رسالت سے ادا ہوں اور واضح ہو جائے کہ رسول کا مشن کیا ہے۔
یہاں مختصر الفاظ میں اللہ کی طرف دوڑنے اور لپکنے کی دعوت دی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف نہ صرف بڑھو بلکہ تیزی کے ساتھ بڑھو کہ اس کو پا لینا اپنے مالکِ حقیقی کو پا لینا اور منزل مقصود کو پہنچ جانا ہے۔ اللہ کی طرف لپکنے میں اس کے ساتھ جذبات کی وابستگی کا اظہار بھی ہو رہا ہے اور اس میں امیدوں کی ایک دنیا بھی بسی ہوئی ہے۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لیے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں قیامت کے دن سے خبردار کروں کہ اس دن کیا کچھ پیش آنے والا ہے تاکہ تم چونک جاؤ اور اپنا رویہ اللہ کے ساتھ درست کر لو۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میں تمہیں شرک کے برے انجام سے کھلے بندوں خبردار کرتا ہوں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہ کے باوجود لوگ بت پرستی اور شرک میں مبتلا رہیں گے وہ قیامت کے دن عذاب کو دیکھ کر یہ نہ کہہ سکیں گے کہ ہمیں اس کے برے انجام سے خبردار نہیں کیا گیا تھا۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس طرح ا س رسول کو جادوگر یا دیوانہ کہا جا رہا ہے اسی طرح اس سے پہلے بھی رسولوں کو یہی کچھ کہا جاتا رہا ہے۔
پیغمبر کی باتیں چونکہ وحی کی بناء پر ہوتی ہیں اس لیے نہایت موثر اور دلوں میں نفوذ کرنے والی ہوتی ہیں جس کی توجہ منکرین اس طرح کرتے ہیں کہ یہ جادو منتر ہے جس سے وہ لوگوں کو مسحور کر رہا ہے۔ مگر وہ نہیں سوچتے کہ جادوگر کے بس میں کہاں کہ وہ دل میں اتر جانے والی حقیقتیں بیان کرے اور لوگوں کی زندگیوں کو سنوارے۔
اسی طرح منکرین پیغمبر کے اس دعوےٰ کی کہ اس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے یہ توجہ کرتے ہیں کہ یہ دیوان پن ہے۔ مگر وہ یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ کیا کوئی دیوار نہ حکیمانہ باتیں بھی کرسکتا ہے اور انسانی زندگی کے لیے ایک نظامِ فکر و عمل بھی دے سکتا ہے؟
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قوموں کی طرف سے رسولوں کو جادوگر یا دیوانہ قرار دینے کا یہ تسلسل ایسا ہے کہ گویا ہر قوم اپنے بعد آنے والی قوم کو یہ وصیت کر گئی کہ جب تمہارے پاس کوئی رسول آئے تو اسے جادوگر یا دیوانہ قرار دو۔ اور حقیقت واقعہ یہ ہے کہ یہ سب سرکش قومیں رہی ہیں اور اس رسول کے مخالف بھی سرکش ہیں۔ اور ان کی یہ سرکشی ہی ہے جو رسول کو رسول تسلیم کرنے پر انہیں آمادہ نہیں کرتی اور خلافِ واقعہ باتیں کہنے پر انہیں اکساتی ہے۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اے پیغمبر! تم نے ان پر حجت قائم کر دی۔ اب اگر یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز آنا نہیں چاہتے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو تم اپنا فرض ادا کر چکے اب تم پر کوئی ملامت نہیں۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔ سرکش لوگوں سے ان پر حجت قائم ہو جانے کے بعد اعراض کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تذکیر کا کام ختم کر دیا جائے۔ نہیں بلکہ تذکیر کا کام جاری رکھنا چاہیے کہ یہ ایمان لانے والوں کے حق میں مفید ہوتا ہے اور وہ نصیحت پذیر ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اب ان سرکشوں کو سمجھانے کی کوشش تو بے سود ہے البتہ عمومیت کے ساتھ یاد دہانی اور نصیحت کا کام جاری رکھنا چاہیے اور اس سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے خواہ حالات کیسے ہی نا مساد ہوں کیونکہ ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو اس کے خوشگوار اثرات قبول کرنے والے ہوں۔ دعوت و تذکیر کا کام کرنے والوں کے لیے یہ ہدایت بڑی اہم ہے۔
۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔ عبادت کی تشریح سورہ کہف نوٹ ۱۲۵ میں کی جاچکی ہے۔ اس موقع پر اس نوٹ کو نیز سورہ ہود نوٹ ۵ کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے۔
قرآن نے عبادت کا لفظ پرستش کے معنی میں اس کثرت سے استعمال کیا ہے کہ اس کا ابھرا ہوا مفہوم پرستش ہی قرار پاتا ہے۔ چنانچہ بت پرستی کے لیے قرآن میں عبادت کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے جو ظاہر ہے پرستش ہی کے معنی میں ہے اور جہاں تک لعنت کا تعلق ہے عربی کی مشہور اور مستند لغت میں اس کے معنی اس طرح بیان کئے گئے ہیں:
واصلُ العُبودیۃِ النحضوعُ وَاِلتَّذَلُّلُ وَعَبَدَ اللّٰہَ یَعْبُدُہٗ عِبَادۃً۔۔۔۔۔۔ثَأَ لَّہَ لَہٗ۔
" عبودیت کی اصل خضوع اور تذلل ہے" " اس نے اللہ کی عبادت کی یعنی اس کو الٰہ (معبود)بنایا"
وَالتَّعْبُدُ التَّنْسُّکُ۔قَالَ (الَفرائُ)وَمَعْنَی الْعِبَادَۃِ فِی اللُّغَۃِ الطَّاعَۃُ مَعَ الْنَّحضُوْعِ(لسان العرب ج ۳ ص ۲۷۳۔۲۷۲)
" تعبد یعنی مراسم عبودیت کی ادائیگی۔ "
" فراء کہتے ہیں لغت میں عبادت کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کرنے کے ہیں۔"
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل لغت نے اگر عبادت کے معنی اطاعت بیان کئے ہیں تو اس کے ساتھ خضوع کی قید بھی لگائی ہے یعنی ایسی اطاعت جس میں دل کا خضوع اور اپنی سرافگندگی و بندگی کا اظہار ہو۔ ظاہر ہے یہ اطاعت اللہ ہی کے لیے خاص ہوسکتی ہے اور یہ پرستش کے لازمی مفہوم میں شامل ہے مگر پرستش عبادت کا اولین مفہوم ہے اور اللہ سے تعلق کا یہ نقطۂ آغاز ہے اور اگر آغاز ہی درست نہ ہو تو کوئی بات بھی درست نہیں ہوسکتی اس لیے دین میں پرستش کو اولین اہمیت دی گئی ہے اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا مرکز و محور یہی رہا ہے کہ اُعْبُدُ اللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ۔ (ہود:۵۰)
" اللہ کی پرستش کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔"
آیت زیر تفسیر میں جنوں اور انسانوں کا مقصدِ تخلیق یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اس سے درجِ ذیل باتوں پر روشنی پڑتی ہے:
ایک یہ کہ جب جنوں اور انسانوں کی تخلیق اللہ کی عبادت کے لیے ہوئی ہے تو نہ جنوں کو معبود بنانا صحیح ہے اور نہ انسانوں کو۔ وہ ہرگز مستحق عبادت نہیں ہیں اس لیے ان کی عبادت باطل ہے۔ دوسری یہ کہ اگر کوئی اللہ کی پرستش نہیں کرتا یا اس کے ساتھ غیر اللہ کو پرستش میں شریک کرتا ہے۔ خواہ وہ بت ہو یا فرشتہ یا فرضی خدا (دیوی دیوتا)یا بزرگ انسان وہ اپنے مقصدِ تخلیق سے انحراف کرتا ہے اس لیے اس کا وجود عبث ہو کر رہ جاتا ہے۔ اور جب لکڑی بے کار ہو جاتی ہے تو جلانے کے کام آتی ہے اسی طرح جو لوگ اپنے مقصد تخلیق کو نظر انداز کر کے اپنے وجود کو بے معنی بنا لیتے ہیں وہ اپنے کو جہنم کا مستحق بناتے ہیں۔
تیسری یہ کہ اللہ کی عبادت کرنا بندوں پر اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے لہٰذا اسے اپنی ڈیوٹی سمجھ کر انجام دینا چاہیے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میرے پاس اللہ کی عبادت کے لیے وقت نہیں ہے یا نماز کے لیے فرصت نہیں ہے تو وہ سخت جہالت کا ثبوت دیتا ہے اسے نہ اپنے فرائض کی ادائیگی کا احساس ہے اور نہ عبادت سے لگاؤ۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں کھانے اور کمانے کے لیے ہی پیدا ہوا ہوں اس لیے وہ انسان نہیں بلکہ معاشی حیوان بن کر رہ جاتا ہے اور جب انسان میں یہ گراوٹ آ جاتی ہے تو فلاح کے دروازے اس پر بند ہو جاتے ہیں۔
چوتھی یہ کہ عبادت الٰہی جب مقصد تخلیق ہے تو اس کے ساتھ گہرا قلبی لگاؤ ضروری ہے۔ نماز ،ذکرِ الٰہی، تسبیح و تحمید، قرآن کی تلاوت اور اس میں تدبر اور دوسرے مراسم عبودیت کا اہتمام اور ان سے شغف تخلیق کے عین مقصد کو پورا کرنا ہے۔
پانچویں یہ کہ اللہ کا پرستار اس کی اطاعت کا منکر ہو نہیں سکتا کیونکہ اللہ کی اطاعت سے انکار سرکشی ہے ایک طرف اللہ کے آگے جھکنا اور دوسری طرف جھکنے سے انکار دو متضاد باتیں ہیں جو پرستش کو بے معنی بناتی ہے۔ اوپر کی آیات میں سرکشوں کا ذکر جس طرح ہوا ہے اس پر ایک نگاہ ڈال لیجئے۔ اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ابلیس نے اللہ کی پرستش سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ اس کا حکم ماننے سے انکار کیا تھا جس کی بناء پر وہ ملعون قرار پایا۔
۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ بے نیاز ہے اس کو کسی چیز کی بھی حاجت نہیں اور نہ اس کا مطالبہ اپنے بندوں سے یہ ہے کہ اس کے لیے سامانِ رزق کا انتظام کریں۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں کہ یہ اس کا حق بھی ہے اور عدل کا تقاضا بھی۔ پھر اس عبادت کا فائدہ بھی خدا کو پہنچنے والا نہیں بلکہ عبادت کرنے والے ہی کو پہنچے گا۔
۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اللہ کی تین صفات کا ذکر ہوا ہے۔ ایک یہ کہ وہ رازق ہے یعنی وہ رزق طلب نہیں کرتا بلکہ رزق دیتا ہے اور رازق بھی ایسا کہ بے شمار انسانوں اور حیوانوں کو زمانۂ دراز سے مسلسل رزق دیئے چلا جا رہا ہے اور اس سے اس کے خزانوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ پھر اس کو چھوڑ کر انسان کسی اور کو رازق اور ان داتا کیسے سمجھنے لگتا ہے!
دوسری صفت یہ کہ وہ قوت والا ہے اس لیے اس کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ وہ بلا شرکت غیر سے صرف اپنی قدرت سے کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔
تیسری صفت یہ کہ وہ زور آور (متین)ہے اس لیے کوئی نہیں جو اس پر اپنا زور چلا سکے۔ جن ہستیوں کو مشرکین نے معبود بنا لیا ہے وہ ہرگز اللہ پر اپنا زور نہیں چلاسکتے۔ اس کے آگے سب بے بس ہیں۔
اللہ کی یہ معرفت اس بات کی متقاضی ہے کہ اسی کو معبود مان کر اس کی مخلصانہ عبادت کی جائے۔
۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ظالم سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مقصدِ تخلیق کو بھلا دیا اور خود ساختہ معبودوں کی پرستش کرنے لگے۔ مزید برآں رسول کے متنبہ کرنے کا بھی کوئی اثر انہوں نے قبول نہیں کیا۔ ایسے ظالموں کا وہی حشر ہونا ہے جو ان سے پہلے گزری ہوئی ظالم قوموں کا ہوا۔
۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قیامت کا دن ہے جب کفر کرنے والے کیفر کردار کو پہنچ جائیں گے۔