سورہ کا آغاز نجم (تارے) کی قسم سے ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام " النجم" ہے۔
مکی ہے۔ اس سورہ میں معراج کے واقعہ کا اہم ترین پہلو بیان ہوا ہے اس لیے یہ سورۂ بنی اسرائیل کے بعد ہی کی تنزیل ہوسکتی ہے۔ یعنی ۱۲ نبوی کی۔
بخاری نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ سب سے پہلی سورہ جس میں سجدۂ تلاوت کا حکم دیا گیا وہ سورۂ نجم ہے چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام میں اس سورہ کی آیتِ سجدہ کی تلاوت کرتے ہوئے سجدہ کیا تو مشرکین بھی بے اختیار سجدے میں گر گئے (بخاری کتاب التفسیر)۔ اس روایت کو من و عن تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سورۂ اقراء اس سے بہت پہلے نازل ہو چکی تھی جس میں آیتِ سجدہ ہے اور ہجرتِ حبشہ سے پہلے سورۂ مریم بھی نازل ہوئی تھی جس میں سجدۂ تلاوت ہے۔ غالباً حضرت عبداللہ بن مسعود کا منشاء یہ رہا ہو گا کہ سورۂ نجم وہ پہلی سورہ ہے جس کی آیتِ سجدۂ پر مشرکین نے بھی سجدہ کیا۔ معلوم ہوتا ہے ان کے اس بیان کو نقل کرنے میں راوی سے کچھ سہو ہوا ہے۔
ان مفسرین کی رائے سے بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا جو سورۂ نجم کو ۵ نبوی کی تنزیل بتاتے ہیں۔ ان کے بیان کا تضاد اس سے ظاہر ہے کہ وہ ایک طرف تو اس سورہ کو واقعہ معراج سے متعلق مانتے ہیں جو ان کے نزدیک ہجرتِ مدینہ سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے اور دوسری طرف سورۂ نجم کو جس میں معراج کا ذکر ہے ۵ نبوی کی تنزیل بتاتے ہیں۔
وحی و رسالت کے سلسلہ میں ان حقیقتوں کو پیش کرنا ہے جن سے ایمان و یقین پیدا ہوتا ہے اور کہانت کے الزام کی تردید ہوتی ہے۔
آیت ۱ تا ۱۸ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان شبہات کو دور کیا گیا ہے جو وحی کے تعلق سے منکرین پیش کرتے تھے اور آپ کے عینی مشاہدات کو جو عالم بالا سے تعلق رکھتے ہیں امرِ واقعہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۱۹ تا ۳۰ میں وحی الٰہی کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے اور اس کے نتیجہ میں شرک میں مبتلا ہونے اور جزا و سزا سے انکار کرنے پر گرفت کی گئی ہے اس طور سے کہ ان عقائد کا باطل ہونا بالکل واضح ہو جاتا ہے۔
آیت ۳۱ اور ۳۲ میں نیکو کاروں کو مغفرت اور انعام کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔
آیت ۳۳ تا ۵۵ میں منکرین کو دعوت فکر دی گئی ہے۔
آیت ۵۶ تا ۶۲ سورہ کے خاتمہ کی آیتیں ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نذیر ہونے کی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے قیامت کے دن سے خبردار کیا گیا ہے اور اللہ ہی کو سجدہ کرنے اور اس کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔قسم ۱* ہے تارے ۲* کی جب کہ وہ غروب ہو۔۳*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔۴*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر کی جاتی ہے۔ ۵*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے۔ ۶*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔جو بڑا توانا ہے۔۷* وہ سیدھا کھڑا ہو گیا۔۸*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ افق اعلیٰ پر تھا۔ ۹*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر قریب ا گیا اور معلق ہو گیا۔۱۰*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے بقدر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ ۱۱*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔تب اس نے وحی کی اس کے (اللہ کے) بندہ کی طرف جو کچھ وحی کی۔ ۱۲*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔جو کچھ اس نے دیکھا دل نے اسے جھوٹ نہ کہا۔۱۳*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔تو کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جس کا وہ مشاہدہ کرتا ہے۔ ۱۴*
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس نے ایک مرتبہ اور بھی اس کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ۱۵*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔سدرۃ المنتہی کے پاس۔ ۱۶*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔جس کے پاس جنت المأویٰ ہے۔ ۱۷*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ سِدْرَہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا۔ ۱۸*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔نگاہ نہ کج ہوئی اور نہ حد سے متجاوز ہوئی۔ ۱۹*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ ۲۰*
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا؟
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک اور مَنات کو جو تیسرا ہے ؟ ۲۱*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔کیا تمہارے لیے بیٹے ہیں اور اس کے لیے بیٹیاں ؟
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو بڑی بھونڈی تقسیم ہوئی؟ ۲۲*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو محض نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے کی رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ ۲۳*۔ یہ لوگ محض گمان اور خواہشاتِنفس کی پیروی کر رہے ہیں ۲۴* حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آ چکی ہے۔ ۲۵*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔کیا انسان جس چیز کی بھی تمنا کرے وہ اسے ملے گی؟
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا اور آخرت تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ ۲۶*
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی کام نہیں آ سکتی مگر اس کے بعد کہ اللہ اجازت دے جس کو چاہے اور جس کے حق میں پسند کرے۔ ۲۷*
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو عورتوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ۲۸*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔حالانکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں۔ ۲۹* وہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی مفید نہیں۔۳۰*
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔تو ان لوگوں کی طرف سے توجہ ہٹا دو جنہوں نے ہمارے ذکر ۳۱* کی طرف سے رُخ پھیرا ہے اور جن کا مقصود صرف دنیا کی زندگی ہے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے علم کی پہنچ یہیں تک ہے۔ ۳۲* تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹک گیا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کون راہِ راست پر ہے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔اور جو کچھ آسمان اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے ___ (اور ا س نے اس لیے پیدا کیا ہے) تاکہ جن لوگوں نے بُرے کام کئے ہیں ان کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور جن لوگوں نے اچھے کام کئے ہیں ان کو اچھی جزا دے۔ ۳۳*
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔جو بڑے بڑے گناہوں ۳۴* اور کھلی بے حیائی کے کاموں ۳۵* سے بچتے ہیں الاّ یہ کہ کچھ قصور ان سے سرزد ہو جائے۔ ۳۶* بلا شبہ تمہارے رب کا دامنِ مغفرت بہت وسیع ہے۔ ۳۷* وہ تمہیں خوب جانتا ہے جس اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا۔ ۳۸* اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جنین (بچہ) تھے۔ ۳۹* تو اپنے کو پاکیزہ نہ ٹھہراؤ۔ وہی بہتر جانتا ہے کون متقی ہے۔ ۴۰*
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔کیا تم نے اس کو دیکھا جس نے منہ موڑا۔ ۴۱*
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔اور تھوڑا سا دیا اور رک گیا۔ ۴۲*
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ اسے دیکھ رہا ہے۔ ۴۳*
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اسے ان باتوں کی خبر نہیں پہنچی جو صحیفوں میں ہے موسیٰ کے۔ ۴۴*
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔اور ابراہیم کے ۴۵* جس نے اپنا قول پورا کر دکھایا۔ ۴۶*
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ (صحیفوں کی) یہ بات کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ۴۷*
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔ ۴۸*
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔ ۴۹*
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔پھر اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ آخر کار پہنچنا تمہارے رب ہی کے پاس ہے۔ ۵۰*
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ وہی ہنساتا اور رلاتا ہے۔ ۵۱*
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہی مارتا اور زندہ کرتا ہے۔ ۵۲*
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہی ہے جس نے مرد اور عورت کا جوڑا پیدا کیا۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بوند سے جب وہ ڈالی جاتی ہے۔ ۵۳*
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ دوسری مرتبہ پیدا کرنا بھی اسی کے ذمہ ہے۔ ۵۴*
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ اسی نے غنی کیا اور مال بخشا۔ ۵۵*
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ وہی شِعریٰ (تارے) کا رب ہے۔ ۵۶*
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہ اسی نے اگلے عاد کو ہلاک کیا۔ ۵۷*
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔اور ثمود کو کسی کو باقی نہ چھوڑا۔ ۵۸*
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان سے پہلے قومِ نوح کو۔ ۵۹* وہ نہایت ظالم اور سرکش تھے۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔اور الٹی ہوئی بستیوں کو بھی گرا دیا۔ ۶۰*
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔تو ان پر چھا دیا جو کچھ کہ چھا دیا۔ ۶۱*
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔تو اپنے رب کی کن کن نشانیوں میں تم شک کرو گے۔ ۶۲*
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔یہ خبردار کرنے والا ہے ان خبردار کرنے والوں میں سے جو پہلے آ چکے ہیں۔ ۶۳*
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔آنے والی گھڑی قریب آ لگی ہے۔ ۶۴*
۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کے سوا اس کو ظاہر کرنے والا کوئی نہیں۔ ۶۵*
۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اس بات پر تم تعجب کرتے ہو۔ ۶۶*
۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔ہنستے ہو اور روتے نہیں۔ ۶۷*
۶۱ا۔۔۔۔۔۔۔۔ور غفلت میں پڑے ہو۔ ۶۸*
۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔تو (سنو) اللہ کو سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو۔ ۶۹*
۱۔۔۔۔۔۔۔۔قسم یہاں شہادت کے معنی میں ہے۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ تکویر نوٹ ۱۴
۲۔۔۔۔۔۔۔۔نجم (تارہ) یہاں جنس کے معنی میں ہے اس لیے مراد تارے ہیں نہ کہ کوئی ایک تارہ۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔تاروں کے غروب کا منظر انسان کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔ تارے جب غروب ہوتے ہیں تو آسمان کی سجی سجائی بزم برخواست ہوتی ہے اس سے ایک طرف تو ان ستاروں کے رب ہونے ، ان کے قسمتوں پر اثر انداز ہونے اور دنیا کے احوال و واقعات میں ان کے دخیل ہونے کی تردید ہوتی ہے کیونکہ جب وہ خود ایک قانون کے پابند اور ایک نظام میں جکڑے ہوئے ہیں تو وہ رب اور متصرف کیسے ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا نہ ستارہ پرستی کیلئے کوئی وجہ جواز ہے اور نہ ان اوہام کی کوئی حقیقت ہے جن کی بنا پر ستاروں کو سعد یا نحس قرار دیا جاتا ہے اور کہانت (جوتش) کا کاروبار چلا کر لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ یہ گورکھ دھندا آج بھی جاری ہے۔ چنانچہ اخبارات کے کالموں میں "ستارے کیا کہتے ہیں " (What Stars foretell) کے عنوان کے تحت مستقبل کا حال بتایا جاتا ہے اور جھوٹی پیشین گوئیاں کی جاتی ہیں۔
دوسری طرف ستاروں کے غروب ہونے کا یہ منظر رب کائنات کی معرفت بخشتا ہے کہ اس کائنات پر ایک ایسی ہستی کا اقتدار ہے جس کی عظمت کے آگے سب ہیچ ہیں اور وہ نہایت حکمت کے ساتھ اس کائنات کا انتظام فرما رہا ہے۔ کسی اور رب، الٰہ اور متصرف کا اس کائنات میں کوئی وجود نہیں۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے اجنبی نہیں ہیں بلکہ تمہارے ساتھ ہی انہوں نے عمر گزاری ہے اس لیے تم اچھی طرح جانتے ہو کہ وہ غلط راہ پر چلنے والے اور بہکی بہکی باتیں کرنے والے آدمی نہیں ہیں۔ ان کو تم محض اس بنا پر غلط راہ پر پڑا ہوا اور بہکا ہوا قرار دیتے ہو کہ وہ تمہیں توحید اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے اور اپنے کو اللہ کے رسول کی حیثیت سے پیش کرتا ہے حالانکہ آثارِ کائنات سے ان باتوں کی صداقت واضح ہوتی ہے جس کی مثال ستاروں کا غروب ہونا ہے۔
واضح رہے کہ ضلالت (گمراہی) ہدایت کے مقابلہ میں اور غوایت (بہکنا) رُشد (سوجھ بوجھ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں زیر بحث قرآن ہے۔ اس لیے اس کے تعلق سے ارشاد ہوا ہے کہ یہ قرآن اس شخص نے اپنی خواہش سے مرتب نہیں کیا ہے بلکہ یہ سرتا سر وحی ہے جو قرآن کی شکل میں اس پر نازل ہوئی ہے۔
اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوتی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب رسالت کا منصب ہے تو آپ کی زبان سے نکلی ہوئی کوئی بات بھی نفسانی خواہشات کی بنا پر نہیں ہوسکتی بلکہ اس علم کی بنا پر ہی ہوسکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا تھا۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔مراد حضرت جبرئیل ہیں جو فرشتوں کے سردار ہیں۔ (دیکھئے سورۂ تکویر نوٹ ۲۱ اور ۲۳)۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی حضرت جبرئیل اپنی خلقت میں مضبوط اور توانا ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقت اور قوت بخشی ہے کہ وہ آناً فاناً آسمان سے زمین پر نازل ہوتے ہیں۔ اور ان کے کام میں جِن اور شیاطین کوئی مداخلت نہیں کرسکتے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت جبرائیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح نمودار ہوئے کہ بالکل سیدھے کھڑے تھے تاکہ آپ ان کو اچھی طرح دیکھ لیں۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔وہ آسمان کی بلند افق پر نمودار ہوئے تھے تاکہ آپ انہیں زیادہ روشن فضا میں دیکھ سکیں۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔پھر حضرت جبرئیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئے اور معلق ہو گئے۔ یعنی ان کو زمین پر پاؤں رکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ وہ فرشتہ تھے اس لیے ہوا میں لٹک کر کھڑ ے ہو گئے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔" دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی کم" عربی کا محاورہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت جبرائیل نمودار تو افق پر ہوئے تھے لیکن پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے قریب آ گئے کہ مشکل سے دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا ہو گا۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت جبرائیل کو اپنی اصل شکل میں واضح طور سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اور اس میں شک و شبہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہی۔
واضح رہے کہ عربی میں اَوْ (یا) بَلْ (بلکہ) کے معنی میں بھی آتا ہے (لسان العرب ج۱۴ ص ۵۴) اس لیے ہم نے آیت میں اَوْ کا ترجمہ بلکہ کر دیا ہے۔
حضرت جبرائیل سب سے پہلے غارِ حرا میں وحی لے کر نازل ہوئے تھے اور اس کے بعد بارہا آپ کے پاس وحی لے کر آتے رہے لیکن جس واقعہ کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ جبرائیل کو اپنی اصل شکل میں قوت پرواز کے ساتھ دیکھنے کا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پر ہیں۔ (مسلم کتاب الایمان)
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جبرائیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنے نزدیک آ کر جو وحی کرنا تھی کی۔ عبدہ سے مراد اللہ کے بندے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جیسا کہ موقعِ کلام سے واضح ہے اور یہاں یہ الفاظ اسی معنی کے لیے موزوں ہیں۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جبرائیل کے اس عینی مشاہدہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل نے تصدیق کی۔ آپ کو پورا یقین ہو گیا کہ یہ فرشتہ جبرائیل ہی ہیں جن کو وہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس میں فریب نظر کا ادنیٰ احتمال بھی نہیں تھا۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ایک عام آدمی نہ فرشتہ کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اور نہ اسے وحی الٰہی کا تجربہ ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو فرشتہ کا بھی مشاہدہ کراتا ہے اور اس پر وحی بھی نازل کرتا ہے اور اللہ کے رسول کی صداقت پر اس کی پوری شخصیت اور نفسِ کلام جس کی وحی کی گئی دلیل ہوتا ہے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو دوسری مرتبہ بھی اپنی اصل شکل میں دیکھا جس سے پہلے مشاہدہ کی مزید توثیق ہو گئی۔ دوسری مرتبہ جبرائیل کو اپنی اصل شکل میں دیکھنے کا واقعہ معراج کے موقع پر پیش آیا۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔"سِدرہ" کے معنی بیری کے درخت کے ہیں اور منتہٰی کے معنی انتہائی کے ہیں۔ یعنی بیری کا وہ درخت جو اس عالم کے آخری سرے پر واقع ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس درخت کو آپ نے معراج کے موقع پر ساتویں آسمان پر دیکھا۔
بیری کا درخت گھنا اور سایہ دار ہوتا ہے اور اس کے پتے خوشبودار ہوتے ہیں۔ اس سے اس درخت کے بارے میں جو اس عالم کی آخری سرحد پر ہے ایک ہلکا سا تصور ذہن میں آتا ہے ورنہ عالم بالا کی چیزیں ہمارے لیے مشابہات میں سے ہیں جن کی اصل حقیقت نہ ہمارے ذہن کی گرفت میں آ سکتی ہے اور نہ اس کو معلوم کرنے کے درپے ہونا ہمارے لیے جائز ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔جنت الماویٰ کے معنی وہ جنت میں جو رہائش گاہ یعنی مومنوں کا ٹھکانا ہو گی چنانچہ سورۂ سجدہ میں ارشاد ہوا ہے :
اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ وَعَمِلُو الصٰالِحٰتِ فَلَہُمْ جَنّٰتُ المَأوٰینُزُلاْ بِمَا کَانُوْ یَعْمَلُوْنَ۔ (السجدہ:۱۹)
" جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے ان کے لیے جنات المأویٰ (رہائشی باغ) ہیں۔ ضیافت کے طور پر ان کے اعمال کے صلہ میں۔"
قرآن کی یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ جنت آسمان پر سِدْرۃ المنتہیٰ کے پاس موجود ہے۔ سدرۃ المنتہٰی کے پاس جنت المأویٰ کے ہونے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہاں اس عالم کی سرحدیں ختم ہوتی ہیں وہیں سے جنت کی سرحدیں شروع ہو جاتی ہیں اور معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسائی اس مقام تک ہوئی تھی۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اسرارِ الٰہی تھے جو جلوہ گر ہو گئے تھے جیسا کہ آگے آیت ۱۸ سے اشارہ ملتا ہے۔ اور یہ بات کہ چھا رہا تھا" جو کچھ اس پر چھا رہا تھا" ان اسرار سے ہستم بالشان ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی پیغمبر کی نگاہیں ٹھیک ٹھیک ان چیزوں پر جمی رہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھائیں اور آپ نے ان چیزوں کو نگاہوں کی صحت کے ساتھ دیکھا۔ آپ کو نہ نظر کا دھوکا ہوا اور نہ نگاہیں منتشر ہوئیں بلکہ یکسوئی کے ساتھ مشاہدہ کیا۔
اس سے واضح ہوا کہ معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا وہ آپ کا عینی مشاہدہ تھا نہ کہ خواب اور یہ معراج صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی بھی تھی۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم بالا میں عجائباتِ قدرت کا مشاہدہ کیا جن میں حضرت جبرائیل کو ان کی اصل شکل میں ان کی بلند ترین پرواز کے مقام سدرۃ المنتہی پر دیکھنا بھی شامل ہے۔ معراج کے اس واقعہ کی تفصیل حدیث نبوی میں بیان ہوئی ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں واقعہ ا سرار (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ لے جانے) کا مقصد یہ بیان ہوا ہے کہ:
لِنُرِیَہٗ مِنْ آیَاَتِنَا "تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں۔" (بنی اسرائیل:۱)
لَقَدْ رَایٰمِنْ آیَاتِ رَبِّہٖ الْکُبْریٰ " بلا شبہ اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔"
ان نشانیوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عینی مشاہدہ اس لیے کرایا گیا تاکہ آخری رسول ہونے کی حیثیت سے قیامت تک کے لیے لوگوں پر اللہ کی حجت پوری طرح قائم ہو جائے کہ رسول نے جو باتیں وحی کی بنا پر پیش کی ہیں ان میں ادنیٰ شک کے لیے بھی گنجائش نہیں ہے۔ وہ یقینی علم کی بنیاد پر ہیں اور رسول نے عالمِ بالا کا عینی مشاہدہ کیا ہے اس لیے اسرار کائنات پر سے وہ پردہ اٹھا رہا ہے جس سے توحید کا پہلو اور اجاگر ہو کر سامنے آ رہا ہے اور آخرت کے شواہد بھی۔ یہ وہ شخصیت ہے جس کی پہنچ ساتویں آسمان (سدرۃ المنتہیٰ) تک ہوئی اس لیے اس کے علم سے تم اپنے علم کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ لہٰذا وہ اپنے اس غیر معمولی علم کی روشنی میں تمہاری جو رہنمائی کر رہا ہے اس کو قبول کرنا اپنی منزل کو پا لینا ہے۔
اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے رب کو دیکھنے کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ اس کی آیتوں (نشانیوں) کو دیکھنے کا ذکر ہے اس لیے جن حضرات کا یہ قول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا وہ صحیح نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کا ذکر ان آیتوں میں ضرور ہوتا کیونکہ اتنی اہم بات سے یہ بیان کس طرح خالی ہوسکتا تھا۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی پُر زور تردید کی ہے۔ چنانچہ بخاری کی روایت ہے کہ:
" حضرت عائشہ نے مسروق سے فرمایا کہ تین باتیں ایسی ہیں کہ جو اس کا قائل ہو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ مسروق کہتے ہیں میں نے پوچھا وہ کیا ہیں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا (ان میں سے ایک یہ ہے کہ) جو شخص خیال کرے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اس نے اللہ پر بہت بڑا جھونٹ باندھا۔" (مسلم کتاب الایمان)
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مشرکین کے بتوں کے نام ہیں جن کو وہ پوجتے تھے قرآن نے نام لے کر شرک کے ان مظاہر پر غور کرنے کی دعوت دی تاکہ ان کا بے حقیقت ہونا واضح ہو جائے اور ان کے پرستار ہوش کے ناخن لیں۔
یہ تینوں قریش اور دیگر قبیلوں کے بڑے بت تھے اور ان کو وہ مؤنث مانتے تھے یعنی یہ ان کی دیویاں تھیں۔ سورۂ نساء میں ارشاد ہوا ہے۔
اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِنَا ثاَ "یہ لوگ اس کو چھوڑ کر دیویوں کو پکارتے ہیں۔" (نساء: ۱۱۷)
اور جیسا کہ آگے آیت ۲۱ اور ۲۶ سے واضح ہے یہ فرشتوں کے بت تھے جن کے بارے میں مشرکین کا عقیدہ تھا کہ وہ خدا کی بیٹیاں ہیں۔ ان ناموں کی اصل کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے تاہم ان کی لغوی ہیئت سے اندازہ ہوتا ہے کہ:
"اللات" لفظ الا لہٰ (خدا۔معبود) سے کچھ حروف حذف کر کے اور " ت" جو مؤنث کی علامت ہے بڑھا کر بنایا گیا ہے۔ اس لفظ کے بارے میں یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ یہ لفظ " اللہ" کا مؤنث ہے کیونکہ یہ اسم خاص اور بے مثال ہے اور اس سے کوئی لفظ بھی مشتق (Derived) نہیں۔ قرآن میں ہے :
ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیَّا " کیا تمہارے علم میں اس کا ہمنام کوئی ہے ؟ " (مریم: ۶۵)
اور مشرکین عرب کے نزدیک بھی اللہ کا نام اس ہستی کے لیے خاص تھا جو کائنات کی خالق اور معبود خلائق ہے وہ اس کے لیے دیوی بمعنی بیوی سے قائل نہیں تھے البتہ وہ فرشتوں کو اس کی بیٹیاں (دیویاں) قرار دیتے تھے۔
" اَلْعُزَّی" اَلْاَعُزَّ کا مؤنث ہے جس کے معنی ہیں بہت عزت اور غلبہ والا۔ ان کے نزدیک نصرت اور غلبہ کی دیوی تھی جس کا انہوں نے بت بنا لیا تھا۔ جنگ اُحُد میں ابوسفیان نے اسی کی جئے پکارتے ہوئے کہا تھا:
لَنَا الْعُزّٰی وَلاَ عُزّٰی لَکُمْ " ہمارے لیے عُزّٰی (دیوی) ہے اور تمہارے لیے کوئی عُزّٰی نہیں۔"
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب اس طرح دینے کے لیے فرمایا تھا:
اللّٰہُ مَوْلاَنَا وَلاَ مَوْلٰی لَکُمْ " ہمارا مولیٰ اللہ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں۔" (تفسیر ابن کثیر ج ۴ص ۲۵۳)
المناۃ۔ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان قدید کے مقام پر بت تھا جس کے پاس سے مشرکین احرام باندھا کرتے تھے۔ (بخاری کتاب التفسیر)
یہ تیسرا بہت بڑا بت تھا اور قرآن نے اس کو الثالثۃ (تیسرا) کہہ کر تثلیث (تین خداؤں) کے فاسد عقیدہ کی طرف اشارہ کیا ہے تثلیث (Trinity) کا عقیدہ نصاریٰ میں تھا چنانچہ انہوں نے باپ، بیٹا اور روح القدس کے نام سے تین خدا بنا لئے تھے اور مشرکینِ عرب نے لات، عُزّٰی اور منات کے بت نصب کر کے تین دیویوں کا عقیدہ گڑھ لیا تھا۔
مشرکینِ ہند بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں ہیں بلکہ اور زیادہ فساد عقیدہ میں مبتلا ہیں چنانچہ ان کے ہاں تین خاص دیوتاؤں۔ برہما، وشنو اور شیو کا تصور پایا جاتا ہے جس نے تین مورتی کی شکل اختیار کر لی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے ساتھیوں کو بھیج کر لات، عزّی اور مناۃ ان تینوں بتوں کو تڑوا دیا تھا یہاں تک کہ ان کا نشان بھی باقی نہیں رہا۔ ان بتوں کے اندر اگر واقعی دیویوں کا وجود تھا تو وہ اپنا بچاؤ کیوں نہیں کرسکتے ؟
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی اول تو کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا ایک خلافِ واقعہ بات ہے دوسرے اس کی نا معقولیت اس سے بھی ظاہر ہے کہ تم جس چیز کو اپنے لیے نا پسند کرتے ہو اسی کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہو۔ تم اپنے لیے لڑکے پسند کرتے ہو اور جب کوئی لڑکی تمہارے یہاں پیدا ہو جاتی ہے تو تم اپنے لیے اسے باعثِ عار سمجھنے لگتے ہو لیکن اللہ کے لیے اس بات کے قائل ہو کہ فرشتے اس کی بیٹیاں ہیں اور لات، عزّی اور منات کے مؤنث نام سے ان کی مورتیاں بنا لی ہیں۔ یہ ایسی بھونڈی بات ہے کہ ہر معقول آدمی اس کو محسوس کرسکتا ہے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی یہ محض نام ہی نام ہیں ان کا کوئی مسمّٰی موجود نہیں ہے۔یہ بت حقیقۃً دیویاں نہیں ہیں۔ ان کے اندر خدائی کی کوئی صفت بھی موجود نہیں ہے پھر ان کو معبود بنانے کا کیا مطلب ؟
مشرکینِ ہند نے بھی بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کی مورتیاں بنا لی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو پوجنے سے وہ خوش ہو جاتے ہیں اور ان کی حاجتیں پوری کرتے ہیں مگر حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ یہ محض فرضی نام ہیں جن کو پکارا جاتا ہے۔ نہ کہیں کسی دیوتا کا وجود ہے اور نہ دیوی کا اور نہ ان مورتیوں میں خدائی کی کوئی صفت ہے۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔جو لوگ بتوں کو معبود بناتے ہیں ان کے پاس اس کے جواز کی کیا دلیل ہے ؟ انہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ ان کے اپنے ہاتھ کے تراشتے ہوئے بتوں میں خدائی کی صفات موجود ہیں ؟ اور انہیں اس بات کا کیسے پتہ چلا کہ دیوی دیوتاؤں کا بھی وجود ہے ؟ انسان کا اور پوی کائنات کا خالق تو اللہ ہے اور اس نے اس کی کوئی سند نازل نہیں کی۔ خدا کی کسی کتاب میں اور انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں ہرگز اس کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا بت پرستی کے لیے کوئی علمی بنیاد نہیں ہے بلکہ یہ محض وہم و گمان کی باتیں ہیں اور خواہشاتِ نفس کی پیروی میں وہ اندھے ہو رہے ہیں۔
عقیدہ دراصل کسی ٹھوس علمی بنیاد ہی پر ہوسکتا ہے لیکن مشرکین نے دیوی دیوتاؤں کا جو فلسفہ گھڑا ہے وہ محض وہم و گمان اور اٹکل پچو باتیں ہیں اور چونکہ اس پر انہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے اس لیے ان کی خواہشات نے انہیں ان کا عقیدت مند بنا دیا ہے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جب ان کے رب کی طرف سے واضح ہدایت قرآن کی شکل میں آ گئی ہے تو اب بت پرستی سے یہ کیوں چمٹے رہنا چاہتے ہیں ؟
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی انسان اگر تمناؤں اور آرزوؤں کی دنیا میں جینا چاہتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ کسی کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں اس لیے اسی سے توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں اور یہ توقعات اسی کی ہدایت کو قبول کرتے ہوئے اس سے رکھی جانی چاہئیں۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی آسمانوں میں بہ کثرت فرشتے ہیں لیکن ان کی سفارش کسی کے حق میں کچھ بھی مفید نہیں ہوسکتی الّا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی کو سفارش کرنے کی اجازت دے اور جس کے حق میں سفارش کرنا پسند فرمائے۔
مشرکین فرشتوں کو اللہ کے حضور سفارشی سمجھتے تھے یعنی وہ سمجھتے تھے کہ ہم اگر ان کی پرستش کریں گے تو وہ اپنے پرستاروں کے حق میں اللہ سے سفارش کریں گے کہ وہ ہمیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔ لہٰذا اگر آخرت برپا ہو ہی گئی تو یہ فرشتے جن کی ہم پرستش کرتے رہے ہیں ہمیں عذاب سے نجات دلا کر رہیں گے۔ ان کے اسی باطل عقیدہ کی یہاں تردید کی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ کسی فرشتہ کا بھی اللہ کے آگے زور نہیں ہے کہ وہ اپنی بات منوا کر رہے۔ قیامت کے دن سفارش کے لیے وہی فرشتے زبان کھول سکیں گے جن کو اجازت دی جائے گی اور ان ہی کے حق میں وہ سفارش کریں گے جن کے لیے سفارش کرنا اللہ نے پسند فرما لیا ہو۔یہ ایک استثنائی صورت ہو گی جس کا فائدہ مشرکوں اور کافروں کو ہرگز نہیں پہنچ سکتا کیونکہ شرک ایک ناقابل معافی گناہ ہے۔
شفاعت کی مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ۱۱۱
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے لات، عزّیٰ اور منات۔ یہ سب مؤنث نام ہیں جیسا کہ سیاقِ کلام (Context) سے واضح ہے کہ یہ فرشتوں کے بت تھے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ان کی یہ بات کہ فرشتے مؤنث ہیں اور دیویاں ہیں علم پر نہیں بلکہ جہالت پر مبنی ہے۔ انہیں آخر کیسے معلوم ہو گیا کہ فرشتے مؤنث ہیں اور دیویاں ہیں ؟
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔"ظن" عربی میں کئی معنی میں آتا ہے۔ یہاں یہ وہم کے معنی میں ہے۔ مشرکین کے خدا وہم کی پیداوار ہیں جبکہ قرآن ایک خدا کا جو عقیدہ پیش کر رہا ہے وہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے اور انکا امر حق کے مقابل میں وہم و گمان کو ترجیح دینا بے معنی اور بے سود بات ہے۔
واضح ہوا کہ عقیدہ کا معاملہ نہایت اہم اور بنیادی معاملہ ہے جو علم حق پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ قیاس اور وہم و گمان پر۔ اور علم حق کے حصول کا ذریعہ وحی الٰہی (قرآن) ہے۔ مگر مسلمان کے مختلف فرقوں نے عقیدہ کے معاملہ میں بھی ضعیف اور موضوع (گھڑی ہوئی) حدیثوں کا سہارا لیا ہے اور ان کے مطابق قرآن کی آیتوں کی تاویل کرتے ہیں اس طرح شرک نے قبر پرستی اور اولیاء پرستی کی شکل میں مسلمانوں کے اندر راہ پالی ہے۔ اگر وہ عقیدہ کے معاملہ میں قرآن پر انحصار کرتے جس کی ہر بات قطعی ہے اور ان کمزور روایتوں کو جو اس سے مطابقت نہیں رکھتیں رد کر دیتے تو شرک سے ملوث نہ ہوتے کیونکہ قرآن میں عقائد بڑے واضح انداز میں بیان کئے گئے ہیں اور خود قرآن نے ان کو " بیّنات" سے تعبیر کیا ہے۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی وہ نہیں جانتے کہ دنیا کے بعد آخرت بھی ہے۔ انہوں نے دنیا کے خول میں اپنے کو ایسا بند کر لیا ہے کہ وہ ایک دوسرے عالم کا جہاں اعمال کے نتائج رونما ہوں گے تصور بھی نہیں کر پاتے۔ عالمِ آخرت کی جو جھلک قرآن انہیں دکھا رہا ہے اس کو دیکھنے سے ان کی کوتاہ بین نگاہیں قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بڑے بڑے سائنس داں اور جدید علوم کے ماہرین آخرت کے بارے میں بالکل کورے ثابت ہو رہے ہیں۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی اس نے اس کائنات کو جس کا وہ تنہا مالک ہے اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ اس کی صفتِ عدل اور صفتِ رحمت کا ظہور ہو لہٰذا ضروری ہے کہ وہ ایک ایسا دن لائے جب انسان اپنے کئے کا پھل پائے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔کبائر (بڑے بڑے گناہ) کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نساء نوٹ ۷۹
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔فواحش (بے حیائی کی باتوں) کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۲۷۷
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔اصل میں لَمَم لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی گناہ سے قریب ہونے کے ہیں۔ لسان العرب میں ہے :
وَللَّمَمُ:۔ مقاربۃ الذنب: " لمم یعنی گناہ سے قریب ہونا۔" (لسان العرب ج ص ۵۴۹)
مراد لغزشیں اور چھوٹے چھوٹے قصور ہیں جو نادانستہ یا جذبات کے غلبہ سے سرزد ہو جائیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ نیک عمل کرنے والے جن کو اللہ اچھی جزا دے گا وہ لوگ ہیں جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں میں ملوث نہیں ہوتے بلکہ اپنے دامن کو ان گناہوں سے پاک رکھتے ہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ بے احتیاطی کی وجہ سے گناہ کے چکھ چھینٹے ان پر پڑ جائیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ گناہوں کی گندگی میں لت پت ہو جائیں۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے بچنے والوں سے جو چھوٹے چھوٹے قصور سرزد ہوئے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ سخت معاملہ نہیں کرے گا بلکہ ان کو اپنے دامن مغفرت میں لے گا اس کا دامنِ مغفرت بہت وسیع ہے۔ یہ متقیوں کے لیے بہت بڑی بشارت ہے۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ یہ نہیں بتلایا گیا ہے کہ یہ اور یہ گناہ چھوٹے (صغیرہ) ہیں الا یہ کہ کہیں کوئی اشارہ نکلتا ہو۔ اور اس کی صراحت نہ کرنا ہی حکمت کا تقاضا تھا ورنہ لوگ ان کو ہلکا سمجھ کر ان کا ارتکاب کرنے لگتے۔ لہٰذا صغیرہ گناہوں کی بحث میں پڑنا اور ان کی تعین کرنا غیر حکیمانہ بات ہے۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی مٹی سے پیدا کیا؟ تورات میں بھی اس کا ذکر ہے :
" اور خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔" (پیدائش ۲:۷)
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جب تم ماؤں کے پیٹ میں زندگی کی ابتدائی حالت میں تھے۔تمہیں کوئی ہوش نہیں تھا اور ایک خول میں بالکل بند تھے اس وقت تمہاری جو حالت تھی اس کو اللہ ہی جانتا تھا۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تنبیہ ہے کہ کوئی شخص بھی اپنی پاکیٔ داماں کی حکایت نہ بڑھائے بلکہ اپنے کو قصور وار سمجھتے ہوئے یقین رکھے کہ اللہ ہی اس کے حال سے بخوبی واقف ہے۔ وہ اس کے حال سے اس وقت بھی واقف تھا جب کہ مٹی سے بشر کی پیدائش کا آغاز ہوا تھا اور پھر وہ جنین (Embryo) کی شکل میں ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو وہ خود اپنی حالت کو نہیں جانتا پھر وہ کس بنا پر اپنے بے خطا اور معصوم ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ اللہ ہی اس کے حال سے اس کی پیدائش کے وقت بھی بخوبی واقف تھا، بشریت کی کمزوریوں کو بھی وہ خوب جانتا ہے اور ہر ہر شخص کی ظاہری اور باطنی، قلبی اور عملی حالت سے بھی وہ اچھی طرح واقف ہے لہٰذا اسے خوب معلوم ہے کہ کون متقی ہے اور کس درجہ کا تقویٰ اس کے اندر ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی قرآن اور پیغمبر کی ہدایت کو قبول کرنے سے منہ موڑا۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی محتاجوں کو کچھ دیا اور پھر ہاتھ روک لیا۔ یہ ایسے شخص کا کردار ہے جو اپنا مال مسکینوں پر اپنی حیثیت کے مطابق خرچ نہیں کرتا بلکہ کچھ " خیرات" کر کے چھدّا اتارنے کا کام کرتا ہے۔ دل کا یہ بخل ایس ایمان لانے پر آمادہ نہیں کرتا جو قربانیوں کا طالب ہے۔
معلوم ہوا کہ بخل ایک نفسیاتی مرض ہے جو انسان کو تنگ نظری میں مبتلا کر دیتا ہے اور یہ تنگ نظری قبولِ حق سے روکتی ہے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ایسا شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر آخرت برپا ہوئی تو اس کی یہ رسمی مذہبیت اس کی نجات کا باعث ہو گی۔ ایسے لوگوں کو اس بات کی دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ کھلے ذہن سے سوچیں کہ ان کا یہ دعویٰ کس بنیاد پر ہے۔ کیا انہوں نے غیب میں جھانک کر دیکھا ہے کہ قیامت کے دن کامیابی کا انحصار کس بات پر ہو گا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ سارے مذہبی دعوے کھوکھلے ہیں اور حق وہی ہے جو قرآن اور اس کا پیغمبر پیش کر رہا ہے کیونکہ پیغمبر جو کچھ پیش کر رہا ہے وہ اس وحی کی بنا پر ہے جو اللہ تعالیٰ اس پر نازل کر رہا ہے اور یہ وحی ہی ہے جو علمِ غیب کا ذریعہ ہے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔موسیٰ کے صحیفوں سے مراد تورات ہے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت ابراہیم کے صحیفے قدیم ترین صحیفے ہیں جن کا قرآن نے ذکر کیا ہے۔ ان سے پہلے جو انبیاء علیہم السلام گزرے ہیں ان پر وحی تو ضرور نازل ہوتی رہی اور انہوں نے اپنی تعلیمات بھی اپنے پیروؤں میں چھوڑیں لیکن آیا صحیفہ کے طور پر کوئی چیز ان کو دی گئی تھی اس کا ذکر قرآن میں نہیں ملتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے صحیفوں ہی کو اولین حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس سے اہل مذاہب کے ان دعووں کی تردید ہوتی ہے جو اپنی " مقدس کتابوں " کو حضرت ابراہیم سے بھی پہلے کی آسمانی کتابیں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیم کے صحیفے تو اب باقی نہیں رہے اور نہ تورات اپنی اصل شکل میں باقی ہے لیکن قرآن نے ان کی بنیادی تعلیمات کو اپنے اندر محفوظ کر لیا۔ آگے ان تعلیمات کا ذکر نہایت دلنشیں اسلوب میں کیا گیا ہے جس کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ابراہیم اور موسیٰ علیہما السلام کے صحیفے ہی پڑھ رہے ہیں۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جو قول و قرار ابراہیم نے اپنے رب سے کیا تھا وہ اس نے بدرجۂ اتم پورا کیا ان کی بے شمار قربانیاں ان کی وفا شعاری کا ثبوت ہیں۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن ہر شخص کو اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھانا ہو گا اس روز کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ جن مذہبی پیشواؤں اور لیڈروں کے پیچھے چل رہے ہیں وہ اگر انہیں گمراہ کر رہے ہیں تو اس گمراہی کا وبال ان ہی پر پڑے گا اور ان کے پیرو کار سزا سے بچ جائیں گے۔ نہیں بلکہ ان گمراہ پیشواؤں اور لیڈروں کے پیچھے چلنے والے اپنی گمراہی کے ذمہ دار ہوں گے اور اس کی سزا پائیں گے کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں بھی دی تھیں ، عقل بھی دی تھی اور ان پر ہدایت کی راہ بھی واضح کر دی تھی پھر وہ کیوں اندھے بن کر گمراہی کی طرف بلانے والوں کے پیچھے چلتے رہے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔یہ آیت اس بارے میں قاطع (قطعی ثبوت) ہے کہ انسان کو اسی عمل کی جزا ملے گی جو اس نے کیا ہو گا۔ کسی دوسرے کے عمل کی جزا وہ نہیں پاسکتا۔ ثواب اس شخص کو ملے گا جس نے نیک عمل کیا ہو گا اور اس کے اثرات جہاں تک بھی پہنچیں گے ان سب پر وہ اجر کا مستحق ہو گا چنانچہ دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے :
مَنْ یَّشْفَعُ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْہَا " جو اچھی بات کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے ایک حصہ پائے گا۔" (نساء: ۸۵)
مَن دَعَااِلٰی ہُدیً کَانَ لَہٗ مِنَ الْاَجْرِ مِثْلَ اُجُوْرِمَنْ تَبِعَہٗ لاَ یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ اُجُوْرِہِمْ شَی ْئاً۔
" جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو اسے ان لوگوں کی طرح اجر ملے گا جو اس کی اتباع کریں گے۔ ان کے اجر میں کسی کمی کے بغیر" (مسلم کتاب العلم)
اور ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے :
اِذَامَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗ اِلاَّ مِنْ ثَلاَ ثَۃٍ مِّنْ صَدَقَۃٍ جَارِی َۃٍ اَوْعِلْمٍ یُنّتَفَعُ بِہٖ وَوَلَدٍ صَالِحٍ یَّدْعُوْلَہٗ
" جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے بجز تین چیزوں کے ایک صدقۂ جاریہ دوسرے علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔" (مسلم کتاب الوصیۃ)
یہ تینوں چیزیں وہ ہیں جن میں انسان کے اپنے عمل کا دخل ہے صدقۂ جاریہ اس کا اپنا عمل ہے۔ علمی خدمات جن سے لوگ اس کے مرنے کے بعد فائدہ اٹھائیں اسی کی کوششوں کے اثرات ہیں اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے اسی کی تربیت یافتہ ہے۔ بصورت دیگر وہ کیوں اجر کا مستحق ہو گا۔
قرآن کی اس اصولی تعلیم کے باوجود جو بینات میں سے ہے اور جس کے سلسلہ میں ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے مسلمانوں میں ایصالِ ثواب کی رسم جو سراسر اس اصولی تعلیم کے خلاف ہے چل پڑی ہے اور دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ کوئی شخص اپنے نیک عمل کا ثواب کسی مسلمان کو بخش سکتا ہے مگر یہ دعویٰ بلا دلیل ہے کیونکہ نہ قرآن میں ایسی کوئی بات کہی گئی ہے اور نہ حدیث میں۔ جن حدیثوں سے استدلال کیا جاتا ہے ان سے ایصا لِ ثواب ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مرنے والے کے وارثوں کو ایسے کام کی تکمیل کی اجازت دی گئی جس میں اس کی نیت اور عمل کا دخل تھا مثلاً وصیت، نذر وغیرہ یہ ایصالِ ثواب نہیں بلکہ نیابت یا وکالت ہے اس شخص کی طرف سے جو ایک فریضہ کو ادا کرنے سے معذور رہا۔ ورنہ اگر ثواب کی منتقلی کو مطلقاً جائز قرار دیا جائے تو پھر زندوں کے لیے بھی ایصالِ ثواب جائز قرار پائے گا۔
تعجب ہے کہ صاحب تفہیم القرآن نے بھی ایصال ثواب کے سلسلہ میں متضاد باتیں کہی ہیں۔ ایک طرف فاضل مفسر آیت کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ :
" اس ارشاد سے بھی تین اہم اصول نکلتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی پائے گا اپنے عمل کا پھل پائے گا۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کے عمل کا پھل دوسرا نہیں پاسکتا۔ الا یہ کہ اس عمل میں اس کا اپنا کوئی حصہ ہو۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص سعی و عمل کے بغیر کچھ نہیں پا سکتا۔" (تفہیم القرآن ج ۵ ص ۲۱۵۷)
اور دوسری طرف وہ چند حدیثوں کو استدلال میں پیش کر کے ایصالِ ثواب کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ہم طوالت کے خو ف سے بچتے ہوئے یہاں مختصراً ان کی پیش کردہ احادیث کا جائزہ پیش کرتے ہیں :
۱) بخاری، مسلم وغیرہ میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے لے کر ایک اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربان کیا اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے۔ مگراس میں ایصالِ ثواب کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ پوری امت کی طرف سے مینڈھا قربان کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا اور امت کے ولی ہونے کی حیثیت سے آپ نے یہ قربانی پیش کی تھی جو زندوں کی طرف سے بھی تھی اور آئندہ پیدا ہونے والے افراد امت کی طرف سے بھی۔ اگر اس کو ایصالِ ثواب کے لیے دلیل بنایا جائے تو پھر لا تعداد زندہ اور مردہ نیز آئندہ پیدا ہونے والے مسلمانوں کی طرف سے ایک مینڈھے کی قربانی جائز قرار پائے گی جبکہ اس کا قائل کوئی بھی نہیں۔
۲) بخاری ،مسلم وغیرہ میں روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرنے کے لیے کہتیں۔ اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کے لیے اجر ہے ؟ فرمایا ہاں۔
اس حدیث کے الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اس شخص کی ماں کو اگر موقع ملتا تو وہ اپنے مال میں سے صدقہ کرنے کی وصیت کرتیں اور چونکہ اس کا موقع نہیں ملا اس لیے اس کی نیت کو وصیت کے قائم مقام سمجھ کر صدقہ کرنے کی اجازت دی گئی۔اس سے جس بات کا جواز نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی کی اچانک موت واقع ہو گئی ہو اور اندازہ یہ ہو کہ اگر اسے موقع ملتا تو وہ اپنے مال میں سے صدقہ کرنے کی وصیت کرتا تو اس کے ورثاء اس کی طرف سے صدقہ کرسکتے ہیں کیونکہ اس میں مرنے والے کی نیت اور اس کا چھوڑا ہوا مال دونوں شامل ہیں۔ مگر اس سے ایصالِ ثواب کا ثبوت نہیں ملتا۔
۳) مسند احمد میں عبداللہ بن عمرو بن العاص کی روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے زمانۂ جاہلیت میں سو اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی۔ ان کے چچا ہشام بن العاص نے اپنے حصہ کے پچاس اونٹ ذبح کر دئے۔ حضرت عمرو بن العاص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں کیا کروں۔ حضورؐ نے فرمایا اگر تمہارے باپ نے توحید کا قرار کر لیا تھا تو تم ان کی طرف سے روزہ رکھو یا صدقہ کرو وہ ان کے لیے نافع ہو گا۔
یہ حدیث بھی بشرطِ صحت نذر سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا مفاد یہی ہے کہ بیٹا باپ کے مرنے پر اس کی نذر کو پورا کرسکتا ہے اگر وہ توحید پر مرا تھا۔ اس میں اول تو نذر ماننے والے کی نیت کا دخل ہے۔ دوسرے اس نذر کو اس کا وارث پورا کر رہا ہے جب کہ وہ اپنی موت کے سبب اپنی نذر کو پورا کرنے سے عاجز ہے۔ اس کا ایصالِ ثواب سے کیا تعلق؟ پھر یہ حدیث اسناد کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے۔ مسند احمد میں (ج ۲ص ۱۸۲) یہ روایت عمرو بن شعیب سے ہے اور عمرو بن شعیب ثقہ ہونے کے بارے میں محدثین میں اختلاف ہے۔ حافظ ابن حجر نے ان کے بارے میں مختلف اقوال نقل کئے ہیں ابن معین کہتے ہیں وہ بذاتِ خود ثقہ ہیں لیکن جب وہ اپنے باپ اور ان کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں تو وہ لائق حجت نہیں ہوتی اور نہ متصل ہوتی ہے بلکہ ضعیف ہوتی ہے جو مرسل کے قبیل سے ہے۔ (تہذیب التہذیب حج ۸ ص ۵۴) اس لیے اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں۔
۴) مسند احمد ،ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت حس بصری کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔
یہ روایت حسن بصری کی ہے اور حسن بصری سعد بن عبادہ کے انتقال کے بعد پیدا ہوئے ہیں اس لیے درمیان کا ایک راوی چھوٹ گیا ہے لہٰذا یہ حدیث مرسل ہے جو حجت نہیں بن سکتی۔ البتہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا ہے اور سمجھتا ہوں کہ اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی۔ اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ (بخاری کتاب الجنائز)
اس حدیث پر امام بخاری نے مَوْتُ الْفَجَأَۃِ بَغْتَۃً (اچانک موت) کا باب باندھا ہے نہ کہ ایصال ثواب کا۔ اسی طرح انہوں نے کتاب الوصایا میں باب باندھا ہے مَایُسْتَحَبُّ لَنْ ی ُّتَوْفَّی فَجْأَۃً اَنْ یَّتَصَدَّ قُوَاعَنَہٗ وَقَضَاءِ النُّذُوْرِعَنِ الْمًیّتِ (جس کا اچانک انتقال ہو گیا ہو اس کی طرف سے صدقہ کرنا اور میت کی طرف سے نذریں پوری کرنا مستحب ہے) اس باب کے تحت امام بخاری نے دو حدیثیں نقل کی ہیں۔ ایک تو وہی حضرت عائشہ کی حدیث ہے جس کا ذکر اوپر ہوا اور دوسری ابن عباس سے کہ " سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ نذر ہے۔ آپ نے فرمایا تم اس کی طرف سے نذر پوری کرو۔" غور طلب بات یہ ہے کہ امام بخاری نے ان حدیثوں پر ایصالِ ثواب کا باب نہیں باندھا بلکہ میت کی طرف سے نذر وغیرہ پوری کرنے کا باب باندھا۔ مختصر یہ کہ ان حدیثوں کو ایصالِ ثواب کی تائید میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔
۵) دارقطنی میں حضرت علی ؓ سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا جس شخص کا قبرستان پر گزر ہو ا اور وہ گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھ کر اس کا اجر مرنے والوں کو بخش دے تو جتنے مردے ہیں اتنا ہی اجر عطا کر دیا جائے گا۔
یہ حدیث دارقطنی میں راقم سطور کو کہیں نہیں ملی اور علامہ ناصر الدین البانی نے بھی سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ میں حافظ سخاوی کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ " دارقطنی کی سنن میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔"
علامہ البانی کہتے ہیں کہ ویلمی اور ابویعلی نے اسے روایت کیا ہے لیکن یہ حدیث موضوع (من گھڑت) ہے۔ اس کا ایک راوی عبداللہ بن احمد بن عامر ہے جس کے بارے میں " میزان الاعتدال" میں ہے کہ وہ حدیثیں گھڑ لیا کرتا تھا۔ سیوطی نے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے اور حافظ سخاوی نے لکھا ہے کہ اس کے راوی عبداللہ اور اس کے والد دونوں جھوٹے ہیں اور اگر اس حدیث کی کوئی اصل ہوتی تو وہ اس اختلافی مسئلہ میں حجت ہوتی اور اختلاف باقی نہ رہتا۔ (سلسلہ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی ج۳ ص ۴۵۲)
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے مولانا مودودی کی انہوں نے ایصالِ ثواب کو ثابت کرنے کے لیے ایک موضوع حدیث اپنی تفسیر میں نقل کی اور اس کی صحت کے بارے میں تحقیق کرنے کی زحمت نہیں فرمائی۔ ایصالِ ثواب کے بارے میں انہوں نے سورۂ بقرہ آیت ۲۸۶ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا تھا:
" بہر حال یہ ممکن نہیں ہے کہ جس بھلائی یا جس برائی میں آدمی کی نیت اورسعی و عمل کا کوئی حصہ نہ ہو اس کی جزا یا سزا اسے مل جائے مکافاتِ عمل کوئی قابل انتقال چیز نہیں ہے۔" (تفہیم القرآن ج ۱ص ۲۲۴) لیکن سورۂ نجم کی تفسیر میں انہوں نے بڑی فراخی سے ایصال ثواب کو جائز قرار دیا۔
ایصال ثواب کی ایک شکل " قرآن خوانی" ہے جس کا رواج آج کل عام ہے۔ قرآن کا فہم حاصل کرنے اور اس کی تذکیر و ہدایت سے فائدہ اٹھانے سے مسلمانوں کو اتنی دلچسپی نہیں ہے جتنی کہ قرآن خوانی کی مجلسِ منعقد کر کے مردوں کو بخشوانے سے ہے۔ کاش کہ وہ اس رسمی دینداری کو چھوڑ کر اسلام کی مخلصانہ پیروی کرتے !
" ایصال ثواب " پر مزید بحث کے لیے دیکھئے سورۂ حٰم السجدہ نوٹ ۷۱
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔انسان کے لیے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ وہ اپنی یا کسی اور کی حرکات و سکنات کو ویڈیو کیسٹ میں محفوظ کر لے اور پھر اسے دیکھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس سے زیادہ اعلیٰ طریقہ پر ہر شخص کی حرکات و سکنات کو فلمانے کا اہتمام کیا ہو گا اور قیامت کے دن ضرور اس کے اعمال کی جانچ ہو گی۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی انسان کی آخری منزل اللہ کے حضور پہنچنا ہے اس لیے انسان کو اسی کی فکر کرنی چاہیے۔ اس سے اس مشرکانہ عقیدہ کی تردید ہوتی ہے کہ انسان مرنے کے بعد اللہ کی ذات میں فنا ہو جاتا ہے۔ اللہ کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کے اندر کوئی چیز جا ملے۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے حیوان کے مقابلہ میں انسان کو یہ امتیاز بخشا ہے کہ وہ ہنستا بھی ہے اور روتا بھی ہے۔ وہ ایک با شعور مخلوق ہے اس لیے جب وہ خوش ہوتا ہے تو ہنسنے لگتا ہے اور جب وہ غمزدہ ہوتا ہے تو اس کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ یہ شعور اللہ ہی کا بخشا ہوا ہے کسی اور کا نہیں۔ مگر دیوی دیوتاؤں کو ماننے والوں کا عقیدہ بہت عجیب ہے۔ درجِ ذیل اقتباس سے ان کے فاسد عقیدہ کا اندازہ ہو گا:
"There is a Deva for every organ for every function, for every Limb and for every disease. In fact as we have said the whole of the body will be found to have been exhaustively partitioned among the Devas." (Out Lines of Vedhta by R.Krishna Swamy Aiyarchetna Publication Bombay P.152 (
یعنی ہر عضو، اس کے ہر عمل ، ہر بازو اور بیماری کے لیے ایک الگ دیو ہے۔ اور ان دیوؤں کے درمیان پورا جسم بٹا ہوا ہے :۔
سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی عَمَّا یُشرِکُوْنَ۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔موت و حیات اسی کے ہاتھ میں ہے۔ انسان ایسا بے بس ہے کہ
اپنی خوشی نہ آئے ، نہ اپنی خوشی چلے
پھر وہ تکبر کس بات پر کرتا ہے !
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی انسان صرف ایک بوند رحم میں ڈالنے کا عمل کرتا ہے اور وہ اللہ ہی ہے جو اس پانی کی حقیر بوند سے انسان جیسی اعلیٰ مخلوق پیدا کرتا ہے۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اللہ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے لہٰذا وہ لازماً اپنے وعدہ کو پورا کر لے گا۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی محتاجی کی حلت سے نکالنے والا بھی وہی ہے اور مال و اسباب بخشنے والا بھی وہی۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔شِعریٰ ایک سفید چمکدار ستارہ کا نام ہے جسے انگریزی میں (Sirius) کہتے ہیں۔ ستارہ پرست قومیں اپنی بد عقیدگی کی بنا پر اس کی پرستش کرتی چلی آ رہی تھیں اور عرب کے بعض مشرک قبیلے بھی اس کی پرستش کرتے تھے اس لیے قرآن نے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا کہ یہ ستارہ رب نہیں ہے کہ اسے معبود بنا لیا جائے بلکہ اس کا رب بھی اللہ ہی ہے اور وہی سب کا حقیقی معبود ہے۔ موسیٰ اور ابراہیم کے صحیفوں میں یہی حقیقت بیان کی گئی تھی۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔مراد قومِ ہود ہے جو عذاب الٰہی سے ہلاک ہوئی۔ (تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ احقاف نوٹ ۴۱۔ ۴۰)۔
۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔ثمود کی ہلاکت کا ذکر تفصیل سے سورۂ ہود اور متعدد سورتوں میں ہوا ہے۔
۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔قومِ نوح کی ہلاکت کا ذکر بھی سورۂ ہود اور دیگر متعدد سورتوں میں گزر چکا ہے۔
۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔مراد قومِ لوط کی بستیاں ہیں جو زلزلہ کے ذریعہ الٹ دی گئی تھیں اور زمین کے اندرونی دھماکہ نے جو لاوے کی صورت میں پھٹ پڑا تھا بستی کو اوپر اٹھا کر نیچے گرا دیا۔ اب یہاں سمندر ہی سمندر ہے جسے بحر میت کہتے ہیں۔
۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی پکے ہوئے پتھروں کی بارش ہوئی۔ دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۱۱۹۔
۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔آلاء کا ترجمہ عام طور سے نعمتیں کیا جاتا ہے مگر اوپر قوموں کی ہلاکت کا ذکر ہوا ہے اس لیے یہ ترجمہ یہاں موزوں نہیں۔ ہم نے عربی شاعری میں اس لفظ کے استعمال اور موقع کلام کا ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ" نشانیاں " کیا ہے۔ اس لفظ کی مزید تشریح سورۂ رحمن میں انشاء اللہ کی جائے گی۔ اس آیت پر حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کے صحیفوں کا بیان ختم ہوا۔
۶۳۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی یہ رسول بھی ان رسولوں ہی کی طرح جو پہلے گزر چکے خبردار کرنے والا ہے اور ان " نذیروں " کے زمرہ ہی سے تعلق رکھتا ہے۔
۶۴۔۔۔۔۔۔۔۔مراد قیامت کی گھڑی ہے جس کے بارے میں کوئی یہ خیال نہ کر ے کہ ابھی بہت دور ہے۔ نہیں بلکہ اس کا وقت قریب آگلا اور روز بروز قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کے موجودہ حالات تو ایسے ہیں کہ ہر طرف سے قیامت کا الارم (Alarm) سنائی دے رہا ہے۔
۶۵۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کا ظہور اسی وقت ہو گا جب کہ اللہ اس کو وقوع میں لانا چاہے۔ اس کے سوا کسی کے بس کی بات نہیں کہ اس کو ظہور میں لائے۔
۶۶۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے واقع ہونے پر تمہیں تعجب ہو رہا ہے۔ تعجب تو اس کا انکار کرنے والوں پر ہونا چاہیے کیونکہ قیامت کا واقع ہونا معقول بھی ہے اور عدل و انصاف کا تقاضا بھی۔
۶۷۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کی خبر سن کر تم ہنسی دل لگی کرتے ہو حالانکہ تمہیں اس پر رونا چاہیے کہ معلوم نہیں اس روز تمہاری کیا حالت ہو گی۔
قرآن دلوں میں رقت پیدا کرتا ہے اور خاص طور سے وہ قیامت کے جن ہولناک حالات سے آگاہ کرتا ہے ان پر اگر انسان کان دھرے تو اس کے اندر ایک اضطراب پیدا ہو اور اپنی نجات کی فکر میں اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جائیں۔
۶۸۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی تمہاری غفلت کی بھی انتہا ہے کہ دلوں کو لرزا دینے والی باتوں کو سن کر بھی تم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
۶۹۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ہوش کے ناخن لو اور اللہ کے حضور دل سے جھکو ،سجدہ ریز ہو جاؤ اور اس کی عبادت کرو صرف اس کی عبادت۔
انجیل میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے : " یسوع نے جواب میں اس سے کہا لکھا ہے تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر" (لوقا۔ ۴:۸)۔
یہ آیت سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت پر سجدہ کرنا چاہیے۔ بخاری کی روایت ہے " نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ نجم کی قرأت پر سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں ،مشرکوں ، جنوں اور انسانوں نے بھی سجدہ کیا" (بخاری کتاب التفسیر)