اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ قریب آ گئی (قیامت کی) وہ ہولناک گھڑی اور پھٹ گیا چاند
۲۔۔۔ مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ اگر یہ کوئی بڑی نشانی بھی دیکھ لیں تو اس سے (غفلت و لاپرواہی کے ساتھ) منہ موڑ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ایک جادو ہے چلتا ہوا
۳۔۔۔ انہوں نے جھٹلایا (حق اور حقیقت کو) اور پیچھے چل پڑے اپنی خواہشات کے اور ہر کام کا بہر حال ایک وقت مقرر ہے
۴۔۔۔ اور بلاشبہ ان لوگوں کے پاس (پچھلی قوموں کی) اتنی سرگزشتیں پہنچ چکی ہیں جن میں بڑا سامان عبرت ہے
۵۔۔۔ یعنی اعلیٰ درجے کی ایک دانش مندی مگر (ایسوں کے لئے مفید اور) کارگر نہیں ہو سکتیں ایسی تنبیہات
۶۔۔۔ پس آپ منہ موڑ لیں ان (نا ہنجاروں) سے (ان کو خود معلوم ہو جائے گا اس دن) جس دن کہ پکارے گا (حشر کا) وہ داعی ایک بڑی ہی ناگوار چیز کی طرف
۷۔۔۔ (اس دن ان کا حال یہ ہو گا کہ) جھکی ہوئی ہوں گی ان کی نگاہیں اپنی قبروں سے اس طرح نکل رہے ہوں گے جیسے ٹڈی دل ہیں جو پھیل پڑے ہیں
۸۔۔۔ دوڑے جا رہے ہوں گے اس بلانے والے کی طرف (اس روز) یہ کافر لوگ کہہ رہے ہوں گے کہ یہ تو بڑا ہی سخت دن ہے
۹۔۔۔ ان سے پہلے قوم نوح نے بھی جھٹلایا (حق اور داعی حق کو) چنانچہ انہوں نے جھٹلایا ہمارے بندہ (نوح) کو اور کہا کہ یہ تو ایک دیوانہ ہے اور اسے بری طرح جھڑکا گیا
۱۰۔۔۔ آخرکار انہوں نے پکارا اپنے رب کو (اور عرض کیا) کہ میں بالکل بے بس ہوں پس تو ہی (اے میرے مالک ان سے) میرا بدلہ لے
۱۱۔۔۔ پھر کیا تھا ہم نے کھول دئیے آسمان کے دروازے ایک بڑی ہی ہولناک موسلا دھار بارش کے ساتھ
۱۲۔۔۔ اور زمین کو ہم نے پھاڑ کر چشمے ہی چشمے کر دیا یہاں تک کہ یہ سارا پانی پہنچ گیا اس حد کو جو (اللہ تعالیٰ کے یہاں) طے کر دی گئی تھی
۱۳۔۔۔ اور ہم نے ان کو سوار کیا تختوں اور میخوں والی (اس کشتی) پر
۱۴۔۔۔ جو چل رہی تھی ہماری نگرانی میں اس شخص کے بدلے (اور اس کے انتقام) کے طور پر جس کی ناقدری کی گئی تھی
۱۵۔۔۔ اور بلاشبہ ہم نے اس کو چھوڑ دیا ایک عظیم الشان نشانی کے طور پر تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
۱۶۔۔۔ سو (دیکھ لو اے لوگو! کہ) کیسا تھا میرا عذاب اور میرا خبردار کرنا
۱۷۔۔۔ اور بلاشبہ ہم نے آسان کر دیا اس قرآن کو نصیحت کے لئے تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
۱۸۔۔۔ قوم عاد نے بھی جھٹلایا پھر (دیکھ لو) کیسا تھا میرا عذاب اور میرا ڈرانا
۱۹۔۔۔ ہم نے ان پر ایک ایسی سخت قسم کی آندھی بھیجی ایک دائمی نحوست کے دن میں
۲۰۔۔۔ جو ان لوگوں کو اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی جیسے وہ تنے ہوں اکھڑے ہوئے کھجور کے درختوں کے
۲۱۔۔۔ سو (دیکھ لو !) کیسا تھا میرا عذاب اور میرا ڈرانا
۲۲۔۔۔ اور بلاشبہ ہم نے آسان کر دیا اس قرآن (عظیم) کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
۲۳۔۔۔ اور قوم ثمود نے بھی جھٹلایا خبردار کرنے والوں کو
۲۴۔۔۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ کیا ہم اپنے ہی میں سے ایک بشر کی پیروی کرنے لگ جائیں ؟ ایسی صورت میں تو ہم یقیناً بڑی گمراہی اور دیوانگی میں پڑے ہوں گے
۲۵۔۔۔ کیا ہم سب میں سے بس اسی پر خدا کا ذکر اتارا جانا تھا؟ نہیں بلکہ یہ تو پرلے درجے کا ایک جھوٹا اور شیخی باز شخص ہے
۲۶۔۔۔ (ادھر صالح سے کہا گیا کہ) کل ان کو خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ کون ہے پرلے درجے کا جھوٹا شیخی باز
۲۷۔۔۔ ہم اس اونٹنی کو ان کے لئے آزمائش بنا کر بھیج رہے ہیں پس آپ انتظار کریں اور صبر ہی سے کام لیتے رہیں
۲۸۔۔۔ اور انہیں بتا دیں کہ پانی ان کے (اور اس اونٹنی کے) درمیان تقسیم کر دیا گیا ہے ہر ایک اپنی باری پر آیا کرے
۲۹۔۔۔ پھر انہوں نے پکارا اپنے ساتھی کو تو اس نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور اس اونٹنی کو ہلاک کر دیا
۳۰۔۔۔ پھر (دیکھ لو) کیسا تھا میرا عذاب اور میرا خبردار کرنا
۳۱۔۔۔ ہم نے ان پر ایک ایسی ہولناک آواز بھیجی کہ اس کے نتیجے میں وہ سب کے سب باڑ والے کی روندی ہوئی باڑ کی طرح چورا بن کر رہ گئے
۳۲۔۔۔ اور بلاشبہ ہم نے آسان کر دیا اس قرآن (عظیم) کو نصیحت کے لئے تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
۳۳۔۔۔ قوم لوط نے بھی جھٹلایا خبردار کرنے والوں کو
۳۴۔۔۔ بے شک ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ایک ایسی ہولناک ہوا بھیجی جس نے ان کو تہس نہس کر کے رکھ دیا بجز آل لوط کے کہ ان کو ہم نے بچا لیا رات کے پچھلے حصے میں
۳۵۔۔۔ محض اپنی مہربانی سے اسی طرح ہم بدلہ دیا کرتے ہیں ہر اس شخص کو جو شکر کرتا ہے
۳۶۔۔۔ اور بلاشبہ لوط نے ان لوگوں کو خبردار کر دیا تھا ہماری پکڑ سے مگر وہ لوگ جھگڑے ہی کرتے رہے ہماری تنبیہات کے بارے میں
۳۷۔۔۔ اور انہوں نے لوط سے ان کے مہمانوں کے بارے میں مطالبہ شروع کر دیا آخرکار ہم نے موند کر رکھ دیا ان کی آنکھوں کو (اور ان سے کہا گیا کہ لو اب) چکھو تم لوگ مزہ میرے عذاب کا اور میرے ڈرانے کا
۳۸۔۔۔ اور ان کو صبح سویرے ہی آ لیا ایک ہولناک دائمی عذاب نے
۳۹۔۔۔ پس اب چکھو تم لوگ مزہ میرے عذاب کا اور میرے خبردار کرنے کا
۴۰۔۔۔ اور بلاشبہ ہم نے آسان کر دیا اس قرآن (حکیم) کو نصیحت کے لئے تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
۴۱۔۔۔ اور بلاشبہ فرعون والوں کے پاس بھی پہنچ گئے خبردار کرنے کے طرح طرح کے سامان
۴۲۔۔۔ مگر انہوں نے جھٹلا دیا (پوری ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ) ہماری سب نشانیوں کو سو آخرکار ہم نے ان کو پکڑا ایک بڑے ہی زبردست قدرت والے کا پکڑنا
۴۳۔۔۔ کیا تمہارے کفار بہتر ہیں ان لوگوں سے (اے دور حاضر کے منکرو اور ان کے ہم مشربو !) یا تمہارے لئے کوئی (معافی اور) براءت لکھی ہے آسمانی کتابوں میں ؟
۴۴۔۔۔ کیا ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ہم لوگ ایک بھاری جتھا ہیں جو غالب ہی رہے گا؟
۴۵۔۔۔ عنقریب ہی شکست کھائے گا ان کا یہ جتھا اور ان کو بھاگنا ہو گا اپنی پیٹھیں پھیر کر
۴۶۔۔۔ (اور اسی پر بس نہیں) بلکہ ان کا اصل وعدہ تو قیامت ہے اور قیامت کی وہ گھڑی انتہائی ہولناک اور بڑی ہی تلخ ہے
۴۷۔۔۔ بلاشبہ مجرم لوگ پڑے ہیں ایک بڑی گمراہی اور ہولناک دیوانگی میں
۴۸۔۔۔ (جس کی پوری حقیقت اس دن کھلے گی) جس دن کہ ان کو گھسیٹا جا رہا ہو گا اس (ہولناک) آگ میں ان کے چہروں کے بل (اور ان سے کہا جا رہا ہو گا کہ لو اب) چکھو تم لوگ مزہ دوزخ کی لپٹ کا
۴۹۔۔۔ بلاشبہ ہم نے پیدا کیا ہر چیز کو (اپنی قدرت و حکمت سے) ایک خاص اندازے کے ساتھ
۵۰۔۔۔ اور ہمارا معاملہ تو بس ایک فرماں کا ہوتا ہے جو پل جھپکنے کی طرح پورا ہو کر رہتا ہے
۵۱۔۔۔ اور بلاشبہ ہم (اس سے پہلے) تم جیسے بہت سوں کو ہلاک کر چکے ہیں تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
۵۲۔۔۔ اور جو بھی کچھ انہوں نے کیا وہ سب درج ہے ہمارے دفتروں میں
۵۳۔۔۔ اور ہر چھوٹی بڑی بات لکھی ہوئی موجود ہے
۵۴۔۔۔ بلاشبہ پرہیزگار لوگ رہ بس رہے ہوں گے عظیم الشان جنتوں اور طرح طرح کی نہروں میں
۵۵۔۔۔ سچی عزت کے مقام میں ایک بڑے ہی اقتدار والے بادشاہ کے پاس
۸۔۔ سو ان آیات کریمات سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ گزشتہ قوموں کی ان سرگزشتوں میں جو قرآن حکیم نے نہایت ہی عمدہ پیرائے اور دلنشیں انداز میں لوگوں کو سنائی ہیں نہایت ہی دلنشیں اور بلیغ حکمت موجود ہے، مگر یہ تنبیہات ایسے معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کے کچھ کام نہ آ سکیں، کیونکہ عبرت پذیری کے لئے سماع قبول کا ہونا ضروری ہے، سو ایسے ضدی، معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ ایسوں کی آنکھوں سے پٹی کھولنا اور ان کو راہ راست پر لے آنا نہ آپ کے بس میں ہے اور نہ ہی یہ آپ کی ذمہ داری ہے ان کو ان کے انجام کے حوالے کر دو، ان کی آنکھوں کی پٹیاں اسی دن کھلیں گی، اور ان کے کانوں کے پردے اسی دن ہٹیں گے، جس دن کہ صور اسرافیل کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائے گی، اس دن یہ اس آواز کو خوب خوب سنیں گے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا یَوْمَ یَسْمَعُوْنَ الصَّیْحَۃَ بِالْحَقِّ ذَالِکَ یَوْمُ الْخُرُوْج (ق۔ ۴۲) یعنی اس روز یہ اس آوازہ حق کو ٹھیک ٹھیک سنیں گے اور وہی دن ہو گا قبروں سے نکلنے کا یہاں پر نکر کے لفظ سے ہول قیامت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، اور اس کی ہولناکی کو ظاہر کرنے کے لئے ابہام کا اسلوب اختیار فرمایا گیا ہے، کہ آج تو یہ لوگ داعیِ حق کی آواز پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہوتے، لیکن اس روز جب داعیِ محشر ان کو نہایت ہی ہولناک اور ناگوار چیز کی طرف پکارے گا تو یہ سب نہایت ہی خشیت اور فرمانبرداری کے ساتھ اس کی طرف بھاگیں گے، اور اس وقت ان کا حال یہ ہو گا کہ ان کی نگاہیں مارے شرم و حسرت کے جھکی ہوئی ہوں گی، یہ اپنی قبروں سے نکل نکل کر یہ اس طرح پھیلے پڑ رہے ہوں گے کہ گویا کہ یہ ٹڈی دل ہیں جو یکایک پھیل پڑے ہیں، اور اس روز کافر و منکر لوگ کہیں گے کہ یہ بڑا ہی کٹھن دن ہے، سو آج تو یہ لوگ پیغمبر کی دعوت و پکار کو سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہو رہے، لیکن اس روز یہ داعی محشر کی پکار پر بغیر کسی اینکڑی پینکڑی اور بدوں کسی حیل و حجت کے اس طرح سر اٹھائے دوڑے جا رہے ہوں گے، کہ پیچھے مڑ کے بھی نہیں دیکھیں گے، اور یہی نہیں کہ صرف دوڑے جا رہے ہوں گے، بلکہ یہ اپنے رب کی حمد و ثنا اور اس کی تسبیح و تقدیس کے گیت گاتے ہوئے جا رہے ہوں گے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے، یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَہٗ بِحَمْدِہٖ وَتَظُنُّوْنَ اِن لَّبَثْتُمْ اِلاَّ قَلِیْلاً (بنی اسرائیل۔۵۲) یعنی جس دن وہ تم کو پکارے گا تو تم لوگ اس کی حمد کے ساتھ اس کی آواز پر لبیک کہو گے، اور تم یوں سمجھو گے کہ تم دنیا میں نہیں ٹھہرے مگر بالکل تھوڑا ایسا مگر بے وقعت کے اس کے ماننے کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے، والعیاذُ باللہ العظیم، سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت محدود و مختصر جو آج ہمیں میسر ہے اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی کتنی بڑی، اور کس قدر عظیم الشان نعمت ہے کہ اس میں آخرت کے لئے ہر قسم کی نیکی کمانے، اور ہر طرح کی کمائی کرنے کا موقع میسر ہے، مگر اس کے رخصت ہو جانے اور ہاتھ سے نکلنے کے بعد پھر اس کا کوئی موقع ممکن نہیں ہو گا اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک لمحے کو اپنی رضا و خوشنودی کے حصول کے لئے صرف کرنے کی توفیق بخشے اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین،
۱۹۔۔ یعنی ایسے دن میں جو اس بدبخت قوم کے حق میں منحوس تھا، کہ اس میں ان بدبختوں پر ایسا ہولناک عذاب آیا جس نے ان کا اس طرح صفایا کر دیا، اور یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ مٹا گئے۔ ورنہ کوئی دن بذات خود منحوس نہیں ہوتا کہ دن تو محض ایک طرف ہوتا ہے، اور کسی بھی ظرف کی سعادت اور اس کی نحوست کا اصل دارو مدار اس کے مظروف پر ہوتا ہے اگر مظروف نحس ہوا تو وہ ظرف بھی منحوس قرار پائے گا۔ والعیاذُ باللہ، اور اگر اس کے برعکس مظروف مسعود و مبارک ہوا تو وہ ظرف بھی مسعود و مبارک قرار پائے گا، اسی لئے حضرات اہل علم کا کہنا ہے اَلْاُیَّامُ کُلُّہَا لِلّٰہِ لَا تَنْفَعُ وَلَا تُضَرَّ بِذَاتِہَا۔ یعنی دن سب کے سب اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہوتے ہیں وہ بذات خود نہ کوئی نفع دے سکتے ہیں، اور نہ کسی طرح کا کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں، اور علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ دن سارے یکساں ہیں کسی بدھ وغیرہ کی کوئی تخصیص نہیں، رات دن کی کوئی گھڑی ایسی نہیں جو کسی کے لئے اچھی اور کسی کے لئے بری ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے کمال علم و حکمت کی بناء پر کسی وقت کو ۰کسی کے لئے موافق اور کسی کے لئے ناموافق حالات پیدا کرتا رہتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ، اور یوم سے یہاں پر کوئی خاص اور متعین دن مراد نہیں، بلکہ اس سے مراد مطلق وقت اور زمانہ ہے، اور عربی زبان میں بلکہ دنیا کی ہر زندہ زبان میں اس طرح کا اطلاق معروف ہے، کہ دن بول کر اس سے مطلق زمانہ اور وقت مراد لیا جائے۔ اسی لئے اس قوم کے عذاب کے بارے میں دوسرے مقام پر فِیْ اَیَّامٍ نَحِسَاتٍ کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں، (حٰم السجدۃ۔۱۶) اور سورہ الحاقۃ میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس عذاب کو مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن ان لوگوں پر مسلط رکھا (الحاقۃ۔۷) لہٰذا سورہ القمر کی زیر بحث آیت کریمہ میں فِیْ یَوْمٍ نَّحْسٍ سے کوئی خاص دن مراد نہیں، بلکہ مطلق وقت مراد ہے، سو یہ دن اس قوم کے لئے بڑے ہی منحوس ثابت ہوئے کہ ان میں ان بدبختوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب میں دھر لیا گیا، جو کہ انتہائی ہولناک اور دائمی خسارہ ہے، والعیاذ باللہ، جل وعلا بکل حال من الاحوال
۲۰۔۔ سورہ الحاقۃ میں منقعر کی جگہ خاویہ کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے۔ جس کے معنی کھو کھلے اور بوسیدہ کے آتے ہیں، سو وہ ہولناک ہوا ان لوگوں کو اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی جس طرح کہ وہ اکھڑی ہوئی کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوں۔ اور اس طرح ان لوگوں کے وہ بڑے بڑے جسم جن پر ان کو بڑا فخر و ناز ہوتا تھا۔ اور جن کے بارے میں وہ لوگ بڑے فخریہ انداز میں اور کبر و غرور کے ساتھ کہا کرتے تھے مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً (حم السجدہ۔۱۵) یعنی ہم سے بڑھ کر سخت اور قوت والا اور کون ہو سکتا ہے؟ سو ان کے بڑے بڑے جسم اکھڑے ہوئے کھجوروں کے بڑے بڑے درختوں کی طرح پڑے تھے، اور اپنی زبان حال سے دنیا کو درس عبرت دے رہے تھے۔ کہ دیکھو ہمیں جو دیدہ عبرت نگاہ ہو، لیکن عبرت پذیری کی جنس ہی دنیا میں سب سے زیادہ عنقاء اور نایاب ہے، فَہَلْ مِنْ مَّدَّکِرٍ، یعنی کیا ہے کوئی سبق لینے والا، اور عبرت پکڑنے والا؟ جو منکرین حق کے اس انجام کو دیکھ کر درس عبرت لے، اور حق کے مقابلے میں اکڑنے کے بجائے اس کو صدق دل سے اپنا کر اپنے لئے سعادت دارین سرفرازی کا سامان کرے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، وعلیٰ مایُحِبُّ و یرید،
۳۴۔۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں پر ہم نے پتھر برسانے والی ہوا بھیجی بجز آل لوط کے کہ ان کو ہم نے بچا لیا رات کے پچھلے حصے میں، یہاں پر ایک بات تو یہ واضح رہنی چاہیے کہ اٰل لوط سے یہاں پر مراد حضرت لوط کی صرف صلبی اولاد نہیں بلکہ آپ کی معنوی اولاد بھی اس میں داخل ہے، یعنی آپ کے اتباع اور پیروکار کہ ان سب ہی کو اس نجات سے سرفراز فرمایا گیا، دوسری طرف اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ نجات دھندہ اور حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ تعالیٰ ہی ہے، حضرت لوط اور ان کے ساتھی بھی اسی وحدہٗ لاشریک کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے محتاج تھے، تو پھر اور کون ہو سکتا ہے جو خرق عادت اور مافوق الاسباب طور پر کسی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کر سکے؟ پس بڑے ہی بہکے بھٹکے اور گمراہ ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی عاجز مخلوق میں سے مختلف ہستیوں کو از خود اور اپنے طور پر حاجت روا و مشکل کشا قرار دے کر ان کو پوجتے پکارتے ہیں اور اس طرح وہ شرک کے ہولناک جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم اور بِسَحَرٍ کے لفظ سے واضح فرما دیا گیا کہ ان حضرات کو عذاب کے آنے سے پہلے ہی اس بستی سے نکال لیا گیا تھا جس پر وہ عذاب آیا تھا۔ کیونکہ اس عذاب کے بارے میں آگے آیت نمبر۳٨ میں تصریح فرما دی گئی کہ وہ ان لوگوں پر صبح کے وقت آیا تھا، اس لئے پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے اس سے پہلے ہی وہاں سے نکال دیا تھا۔ سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ کفر و انکار، اور تکذیب حق کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے ایسے لوگوں کو ڈھیل جتنی بھی ملے، وہ بہر حال ایک ڈھیل ہی ہوتی ہے، جس نے اپنے وقت مقرر پر بہر حال ختم ہو جانا ہوتا ہے، اور نجات انہی خوش نصیبوں کو ملتی ہے جو حق کو ماننے والے، اور جو حضرات انبیاء و رسل کے متبع اور انکے پیروکار ہوتے ہیں، وباللہ التوفیق لمایحُبُّ و یرید، وعلیٰ مایُحِبُّ و یرید۔
۴۵۔۔ ان لوگوں کو اپنی جمعیت اور جتھے اور اپنی طاقت و قوت پر جو ناز، اور جو زعم اور گھمنڈ ہے کہ ہم بڑی مضبوط قوت کے مالک اور جمعیت اور جتھے والے ہیں ہمیں اپنی جگہ سے کوئی ہلا نہیں سکتا۔ بلکہ ہم ہمیشہ اور ہر حال میں غالب ہی رہیں گے، تو یہ محض ان کی خام خیالی اور ان کا زعم باطل ہے، اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آگے ٹکنا کسی کے بس کا روگ نہیں ہو سکتا۔ وہ قادر مطلق بڑی ہی قوت اور عظمت والا ہے۔ سو مادہ پرست ابنائے دنیا کو چونکہ اپنے مادی ذرائع و وسائل پر بڑا گھمنڈ ہوتا ہے، اس لئے ان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ان پر عذاب کہاں سے اور کس طرح آئے گا۔ اس لئے وہ اپنے حریفوں کی کسی تہدید اور وعید کو خاطر میں نہیں لاتے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ اپنے رسولوں کے انذار پر بھی کان نہیں دھرتے، یہاں تک کہ ان پر اللہ کا عذاب آ کر رہتا ہے، اور وہ اس میں گھر کر رہتے ہیں، مگر اس وقت ان کے پچھتانے سے ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہوتا۔ سوان کے لئے تنبیہ کے طور پر فرمایا گیا کہ عنقریب ہی ان کی یہ جمعیت شکست کھائے گی جس کا ان کو بڑا گھمنڈ ہے، اور ان کو پیٹھ پھیر کر بھاگنا پڑے گا۔ پس ان کے لئے صحت و سلامتی کی راہ یہی ہے کہ یہ آج اپنی اس باغیانہ روش اور اپنے کبر و غرور سے باز آ جائیں، ورنہ ان کا انجام بڑا ہی بُرا اور نہایت ہی ہولناک ہو گا، والعیاذُ باللہ جل وعلا،
۴۹۔۔ سو اسی بناء پر ہر قوم کے لئے عذاب کا ایک وقت مقرر ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، پس قوموں کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا معاملہ اسی اصول پر مبنی ہے، سو جب کوئی قوم تمردو سرکشی کی راہ اختیار کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو فوراً نہیں پکڑ لیتا بلکہ وہ اس کو ایک خاص حد تک مہلت اور ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ اپنے ارمان پورے کر لے۔ اور اپنی خیر و شر کی تمام قوتوں کو بروئے کار لے آئے اور اس طرح اس پر حجت قائم ہو جائے، تاکہ کل قیامت کے روز وہ اپنے کئے کرائے کے بارے میں کوئی عذر اور حجت نہ پیش کر سکے۔ اس لئے ایسے سرکشوں کو کبھی مست اور بے فکر نہیں ہونا چاہیئے، کہ ان کا انجام بہر حال بہت برا ہے لہٰذا ان کو اصلاح احوال کے لئے فکر مند ہونا چاہیئے، قبل اس سے کہ تلافی و تدارک کی فرصت ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پچھتانا پڑے، والعیاذُ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال، بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک خاص اندازے کے ساتھ پیدا کیا ہے، جو کہ اس کے کمال علم و حکمت پر مبنی ہے، اور جس کا علم اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کو نہ ہے نہ ہو سکتا ہے، پس عذاب الٰہی اور قیامت میں سے ہر ایک کے لئے اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے وقت پر بہر حال آکر رہنا ہے، پس انکی تاخیر سے منکرین و مکذبین کو دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیئے۔
۵۵۔۔ سو اس سے ان متقی اور پرہیزگار خوش نصیبوں کی کامیابی اور فائز المرامی کو واضح فرما دیا گیا کہ ان کو جنت کا یہ عیش جاوداں ایک پائیدار عزت والی پائے گاہ میں عظیم الشان قدرت والے بادشاہ کے قرب میں حاصل ہو گا۔ اور دراصل اللہ تعالیٰ کا یہ قرب ہی ہے جو جنت کو جنت بناتا ہے۔ ورنہ اس کی حیثیت ایک باغ سے زیادہ نہیں مقعد کی صدق کی طرف اضافت سے اس کی عزت، پائیداری، اور اس کی ابدیت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ جس طرح کہ لسان صدق کی ترکیب میں یہ تمام مفہوم پائے جاتے ہیں سو اس دربار عظیم کے درباری ہونے کا جو شرف عظیم ان خوش نصیبوں کو نصیب ہو گا نہ اس کی عزت ظاہری، بناوٹی اور نمائشی ہو گی۔ اور نہ ہی وہ وقتی اور چند روزہ قسم کی ہو گی، کہ چھن جائے تو کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ بلکہ وہ سچی، حقیقی، اور اَبَدی عزت ہو گی جس کے چھن جانے کا کبھی کوئی خدشہ و خطرہ اور امکان نہیں ہو گا۔ اللہ نصیب فرمائے۔ اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ یہاں پر عِنْدَ کے لفظ سے ایک اور اہم حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کو بلند سے بلند جو مرتبہ بھی نصیب ہو سکتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ اس بادشاہ حقیقی سبحانہ و تعالیٰ، کے قرب میں عزت کی جگہ پائے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ خدا میں ضم ہو کر خود خدا بن جائے، جس طرح کہ بعض گمراہ فرقوں نے کہا والعیاذ باللہ، سو اللہ تعالیٰ اس طرح کے ہر تصور سے پاک اور اعلیٰ و بالا ہے سبحانہ و تعالیٰ، پس اس کو ویسے ہی مانا جائے جیسا وہ اپنے بارے میں خود بتائے، یا اس کے بارے میں اس کے وہ رسول بتائیں جن کے پاس اس کی وحی آتی ہے، اس کے بغیر اس خالق کل اور مالک مطلق کی معرفت سے سرفرازی ممکن نہیں، پس اس کی معرفت قرآن وسنت کی تعلیمات مقدسہ ہی کے ذریعے ممکن ہو سکتی ہے، پس وہ مخلوق کے ہر شائبے سے پاک اور اس سے وراء الوراء ہے، سبحانہ و تعالیٰ،